جمال حرم ۔ حنیف نازش ۔ ثاقب علوی کی کتاب جاءوک پر تبصرہ

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 10:18، 7 اگست 2018ء از ADMIN (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

Hanif Nazish.jpg


مضمون نگار : محمد حنیف نازش قادری

کتاب : جاءُوک

شاعر : ثاقب علوی

جمالِ حرم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

رسولِ محتشم، شفیعِ معظم، فخرِ آدم و بنی آدمﷺ کی تعریف و توصیف میں قلم کو حرکت آشنا کرنا یا زبان کی گویائی سے کام لینا بلکہ سوچوں میں آنحضرتﷺ کے خصائل و شمائل، ارشادات و حالات اور کمالات و معجزات کو بسانا ایسی سعادت ہے جس کا بدل ممکن ہی نہیں۔ نعت کہنے، پڑھنے اور سوچنے والے خوش قسمت افراد کو فطرت خود چنتی ہے اور انھیں اس عبادت کے لیے دلِ گداز اور چشمِ پُرآب عطا ہوتی ہے۔ نعت کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ خود خالقِ کائنات ناعتِ سردارِ شش جہاتﷺ ہے اور اللہ کی یہ سنت تمام انبیائے ما سبق کے ہاں پوری آب و تاب سے جاری رہی تاآنکہ مقصودِ کن فیکون، سُرُورِ قلوبِ محزون کا ظہورِ قدسی ہوا۔ حضورﷺ کا دور نعت کے حوالے سے انتہائی بلندی پر تھا۔ مدینہ منورہ میں دو اڑھائی صد شعرائے نعت جو تمام کے تمام ’’اصحابی کالنجوم‘‘ کا مصداق ہیں۔ حضورﷺ کی ظاہری حیات میں موجود تھے۔ بعض روایات یہ تعداد تین سو کے لگ بھگ بھی بتاتی ہیں۔ پھر نعت کا قافلہ عربی سے فارسی، فارسی سے اردو اور اردو سے اس کی ذیلی اور علاقائی زبانوں سے ہوتا ہوا پوری دنیا میں وارد ہوا اور بقولِ علامہ بشیر حسین ناظم (مرحوم) دنیا کی تین سو تریسٹھ زبانوں میں نعت لکھی جارہی ہے۔


وطنِ عزیز پاکستان کے نعتیہ منظر نامہ پر غور کریں تو اعلیٰحضرت علیہ الرحمۃ، حاجی امداداللہ مہاجر مکی اور علامہ محمد اقبال سے اکیسویں صدی کے اوائل تک ایک طویل فہرست بنتی ہے۔ گزشتہ تین چار دہائیوں میں مظفر وارثی (مرحوم)، اعظم چشتی (مرحوم)، حفیظ تائب (مرحوم)، حافظ مظہرالدین(مرحوم)، عاصی کرنالی (مرحوم)، ریاض حسین چودھری (مرحوم )وغیرہ اپنی اپنی جگہ پر صاحبِ طرز نعت گو شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ آج کے دور میں راجہ رشید محمود کا نام بلاشبہ مقدار و معیارِ نعت کے حوالے سے بہت نمایاں ہے۔ ان کے سڑسٹھ نعتیہ مجموعے طبع ہو چکے ہیں۔ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک کے خدائی فیصلے کے مطابق ہر قریہ، ہر علاقہ اور ہر دور میں نعت گو شعرا سرکارِ دوعالمﷺ کی مدحت کی قندیلیں روشن کرتے آئے ہیں،کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ کرتے رہیں گے۔


منڈی کامونکے ضلع گوجرانوالہ جیسی خالص کاروباری اور مادی معاملات کے پتھروں سے اٹی سنگلاخ سر زمین پر بھی اللہ کریم مہربان ہوا تو یہاں نعت کے مبارک پودے کاشت ہونے لگے جن کی خوشبو سے ایک جہان معطر ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ مہک اطرافِ ضلع میں عشاقِ مصطفیﷺ کے مشام ہائے جاں معطر کرنے لگی۔ خدا کے فضلِ خاص سے ایسا ماحول وجود میں آیا کہ کامونکے کے شعرائے نعت کا تذکرہ محبانِ نعت کی زبانوں کی زینت بننے لگا۔

زیرِ نظر مجموعۂ نعت ’’جَائُ وْ کَ‘‘ کے شاعر محترم المقام علامہ غلامِ رسول ثاقبؔ علوی کا نام بالیقیں اس قصبہ کے سب شعرائے نعت میں ممتاز ہے۔ آپ باقاعدہ سند یافتہ عالمِ دین ہیں۔ علم کے پیاسے ہیں، نعت کے رسیا ہیں، علم و عمل کا سنگم ہیں اور بڑی سلیقہ مندی اور رکھ رکھائو سے نعت کہتے ہیں۔ ’’صبغۃ اللہ‘‘ اور ’’نجمِ ثاقب‘‘ کے بعد یہ ان کا تیسرا اردو نعتیہ مجموعہ ہے۔ ان کی پنجابی نعتوں کا مجموعہ ’’چانن چار چوفیرے‘‘ بھی زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکا ہے اور سیرت ایوارڈ پا چکا ہے۔ ان کے اولین مجموعہ صبغۃ اللہ کو بھی مرکزی سیرت ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔ ’’جَائُ وْ کَ‘‘کے نام سے تیسرا اردو مجموعہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ نام قرآنی آیت سے لیا گیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے گناہگاروں کو بخشش کے پروانے کے لیے اپنے محبوبﷺ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں حاضر ہونے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔


اس کتاب کا یہ نام اس لیے تجویز ہوا کہ ہمارے ثاقبؔ علوی صاحب کو درِ رسولﷺ کی حاضری نصیب ہوئی اور اس مجموعہ کا سارا کلام انھوں نے سرکارِ مدینہﷺ کے قدمین شریفین، ریاض الجنۃ، صفہ مبارک، جالیوں کے روبرو یا سبز گنبد کی زیارت سے فیض یاب ہوتے ہوئے سپردِ قلم کیا۔ میرا اور دیگر کئی شعرائے نعت کا تجربہ ہے کہ عموماًوہاں قلم جام رہتا ہے اور آنسو رواں رہتے ہیں لیکن ثاقبؔ علوی صاحب پر کرم بالائے کرم یہ ہوا کہ حاضری کی لذت اور نعت کی اجازت دونوں نصیب ہو گئیں۔


ــ’’یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا‘‘


چنانچہ اس کتاب کے مطالعہ سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ انھوں نے خیالِ حرم سے جمالِ حرم تک کا فاصلہ اس وارفتگی سے طے کیا ہے کہ خصالِ حرم، بلالِ حرم ، ہلالِ حرم، نوالِ حرم، کمالِ حرم اور اذنِ سوالِ حرم جیسے بے شمار ذائقے زبانِ روح سے نہ صرف چکھے بلکہ حیرت کی بات ہے کہ انھیں اپنے قلمِ خاص سے قرطاسِ التماس پر منتقل کرنے کی مشکل منزل بھی بفیضِ قربِ مصطفیﷺ سر کر لی۔


پوری کتاب چونکہ مدینہ عالیہ کے پر نور ماحول میں تحریر ہوئی اس لیے اُس ’’خنک شہرے کہ آنجا دلبر است‘‘ کی تصویریں جابجا اس مجموعہ کی زینت ہیں۔ چند ایک آپ بھی دیکھ لیجیے۔


ثاقبؔ علوی صاحب نے دربارِ رسالت میں حاضر ہو کر رسالت مآبﷺ کی قصیدہ گوئی کا شرف حاصل کرنے کو اس شعر میں بہت عمدگی سے بیان کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:


فکر کی دسترس میں ہے عرشِ سخن

فرش پر حسنِ باغِ جناں دیکھ کر


قیامِ مدینہ منورہ بذاتِ خود اتنی بڑی سعادت ہے کہ اہلِ دل لوگ مدینہ عالیہ کو چھوڑ کر نفلی حج یا عمرے کا ارادہ نہ کرتے مبادا کہ یہ افضل ترین مقام چھوڑیں اور پیامِ اجل آجائے۔ بقولِ سید علی حسین ادیب رائے پوری مرحوم:


مدینے جا کے نکلنا نہ شہر سے باہر

خدانخواستہ یہ زندگی وفا نہ کرے


اس حوالہ سے حاضری و حضوری کے کیف آور لمحات کا حظ اٹھاتے ہوئے ہمارے شاعر نے کیا خوبصورت بات کی ہے:


فکر ہو میری نہ کیوں اَفلاک پر

مَیں جو ہوں کوئے نبیﷺ کی خاک پر

اُنﷺ کے دارالسلطنت میں ہے قیام

حکمرانی جن کی ہے لولاک پر


دورانِ قیامِ شہرِ نبیﷺ وہ قربِ نبیﷺ کے ساتھ ساتھ مدینہ منورہ کی ہوائوں اور فضائوں کے شکر گزار نظر آتے ہیں کہ جن کی تاثیرنے اُن کے کلام کو مزید پُراثر اور پُرکشش بنا دیا۔ دو شعر دیکھیے:


ذرے بھی ارضِ مدینہ کے ہیں خاص

آسماں پر کہکشائیں خاص ہیں

گلشنِ مدحت میں مہکے خاص پھول

ثاقبؔ! اِس در کی ہوائیں خاص ہیں


شہرِ نور کی تعریف و توصیف کرتے کرتے جب اُن کا قلم خود والیٔ کونینﷺ کا سوالی بنتا ہے تو کیسے کیسے گل کدے آباد ہوتے ہیں۔ وہ سراپا التجا بن کر کبھی ان کی عطائوں کا ذکر چھیڑتے ہیں، کبھی خود عطائو ں کے طالب ہو جاتے ہیں اور کبھی دامنِ فکر کا تمام اثاثہ لٹا دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں:


گھٹائوں میں بٹی خیرات اُنﷺ کی زلفِ شب گوں کی

شفق نے پایا صدقہ آپﷺ کے تلووں کی لالی کا

برائے رنگ و نکہت آپﷺ کے در پر بچھا دامن

چمن کے پتے پتے، غنچے غنچے، ڈالی ڈالی کا

٭٭٭

یا نبیﷺ! ملتجی ہے بصارت، پوری ہو آرزوئے زیارت

اب تو آنکھوں کی قسمت سنواریں، اب تو آنسو ہوئے ہیں سوالی

علم و فن کے ہیں جتنے بھی گوہر، ہوں برائے ثنائے پیمبرﷺ

کاش! نعتِ نبیﷺ کہتے کہتے دامنِ فکر ہو جائے خالی


درِ حبیبِ خداﷺ وہ سخیوں کا سخی دوارہ ہے جہاں التجائوں، دعائوں اور تمنائوں کو لبِ اظہار کا ممنون نہ بھی کریں تو عطائوں میں کمی نہیں آتی۔ کئی اساتذہ کے تتبع میںخود راقم نے بھی اس مضمون کا ایک شعر کَہ رکھا ہے کہ:


درِ رسولﷺ کے آداب میں سے ہے نازشؔ!

کہ اشک نذر کرو، حرفِ التجا نہ کہو


لیکن ثاقبؔ علوی صاحب کا یہ شعر اس سلسلے کو مزید آگے لے گیا اور مجھے تشنہ خیالات کا جواب مل گیا۔ وہ فرماتے ہیں:

مَیں جانتا ہوں کہ ملتا ہے التجا کے بغیر

عجیب لطف مگر در پہ التجائوں میں ہے


مسجدِ نبویﷺ کا چپہ چپہ، کونہ کونہ اور ذرہ ذرہ متبرک و محترم ہے لیکن ریاض الجنۃ، جسے لاتعداد مرتبہ سرکارﷺ کے تلووں کا بوسہ لینے کا شرف ملا، جنت کی وہ کیاری ہے کہ دیکھنے کے لیے ظرفِ بصارت کی بجائے چشمِ بصیرت کھولنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ثاقبؔ علوی صاحب پر حضورﷺ کی خاص عطا ہوئی اور انھیں ریاض الجنۃ کا قصیدہ کہنے کی توفیق نصیب ہوئی۔ یہاں صرف دو شعر درج کرتاہوں:


اب نگاہوں کو نہ بھائے گا چمن کوئی بھی

مَیں نے دیکھا ہے گلستانِ ریاض الجنۃ

مل رہی ہے مجھے تکریم و ضیافت ثاقبؔ!

شکر ہے مَیں بھی ہوں مہمانِ ریاض الجنۃ

٭٭٭


مدینہ عالیہ کے اطراف اکناف میں کہیں انوارِ پیمبرﷺ نظر نواز ہوتے ہیں اور کہیں آثارِ پیمبرﷺ دامنِ دل کو کھینچتے ہیں۔ ثاقبؔ علوی صاحب نے مختلف انداز اپناتے ہوئے اس سرزمینِ پاک کے جو نقوش قلم آشنا کرنے کی سعیٔ مشکور کی ہے اس پر بے ساختہ قاری داد و تحسین کے الفاظ کے ساتھ ان کے لیے دعائے خیر کے جذبات بھی ادا کرتا ہے۔ آپ بھی شہرِ شفاعت و مغفرت کے مختلف مناظر دیکھیے اور اپنے تصور کو سرکارﷺ کے قدموں میں لے جائیے اور چشمِ تصور وا کرکے مقدر سنواریے:


دھوپ کیا، کیا ہیں بادل تو بارش ہے کیا

سارے موسم یہاں کے سہانے لگے

٭٭٭

دوجہاں میں وہ دستیاب کہاں!

جو مسرت ملی مدینے میں

انﷺ کی چوکھٹ پہ اشک افشاں ہوں

کیا سعادت ملی مدینے میں!

از پئے مدحتِ نبیﷺ ثاقبؔ!

خوب عزت ملی مدینے میں

٭٭٭

میری جھولی میں گرے اشک بھی گوہر بن کر

در پہ سرکارﷺ کے حاضر ہوں گداگر بن کر

ذرہ جو آئے یہاں جائے وہ اختر بن کر

قطرئہ آب پلٹتا ہے سمندر بن کر

٭٭٭

منزل مواجہہ تری، تسلیم ہے، مگر

اے شوق رُک، مَیں گنبدِ خضریٰ تو دیکھ لوں

ثاقبؔ! قلم تو روک!مَیں سجدے میں رکھ کے سر

کھِلتا اب اپنی فکر کا غنچہ تو دیکھ لوں


منزل آشناہونے سے پہلے کے مناظر دکھانے کے لیے ’’سے دور‘‘ کی ردیف میں کیسے کیسے عمدہ اشعار نکالے گئے ہیں۔نمونہ دیکھ لیجیے:


گزرا ہے میرا وقت جو شہرِنبیﷺ سے دور

زندہ رہا مگر مَیں رہا زندگی سے دور

پہنچا درِ نبیﷺ پہ تو جانا خوشی ہے کیا!

گویا کہ آج تک تھا مرا دل خوشی سے دور


اسی ضمن میں ’’بن کے آ‘‘ کی ردیف میں ایک ایسی نعت جلوہ فگن ہے جو بطورِ خاص آدابِ حاضری سکھا رہی ہے۔ فقط تین شعر قارئین کی نذر ہیں:

چارہ گری کی چاہ میں لاچار بن کے آ

شہرِ نبیﷺ میں عجز کا شہکار بن کے آ

اکسیر ہوگی پھر ہی تری لذتِ وصال

پہلے فراق و ہجر کا بیمار بن کے آ

ثاقبؔ! اُتار خوبیٔ گفتار کا جنوں

اس پاک در پہ صاحبِ کردار بن کے آ


چلتے چلتے ثاقبؔ علوی صاحب، جو ماشاء اللہ بتیس سال کی عمر میں صدارتی و سیرت ایوارڈحاصل کرنے والی (اردو و پنجابی)کتابوں کے خالق بن گئے تھے، اب زیرِ نظر چمکتا دمکتا، احوالِ مدینہ سے سجا منفرد نعتیہ مجموعہ بنام ’’جَائُ و کَ‘‘لے کر آرہے ہیں، کے شعری محاسن اور صنعت شناسی کا تذکرہ بھی ہو جائے تاکہ اس نوجوان کی وہ ادبی خوبیاں سامنے آسکیں جن کو کئی معمر اور استاد شعرا ترستے رہتے ہیں۔ حقیقت ہے کہ خوب سے خوب تر نعت کی تلاش میں ثاقبؔ علوی صاحب نے بہت محنت کی ہے اور قرآن و احادیث کے عقیدت بھرے مطالعہ اور توفیقِ ایزدی و عطائے مصطفیﷺ کی باعث وہ اس قابل ہوگئے کہ اب نعت ہی گویا ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اگرچہ وہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:


کیفیت دل کی ہے جو انﷺ کے حضور

وہ کہاں نوکِ قلم تک پہنچے

تاہم ایک جھلک دیکھنے سے ہی آپ کو اُن کے زورِ قلم، تابِ سخن اور قادر الکلامی کا اندازہ ہو جائے گا۔ مثالیں دیکھیے:

نُدرتِ قافیہ:


لبادہ آپﷺ کی الفت کا پہنا یارسول اللہﷺ

سکھا دینا مجھے اب جبر سہنا یارسول اللہﷺ

برائے نعت ثاقبؔ کو دیا ہے خامہ و قرطاس

دوعالم میں یہی اس کا ہے گہنا یارسول اللہﷺ


نُدرتِ ردیف کی چند مثالیں:


پائی ہے مسندِ فردوسِ بریں، کیا کہنے

کوئے سرکارﷺ میں ہوں خاک نشیں، کیا کہنے

مدحتِ شاہِ دوعالمﷺ ہے مرے ہونٹوں پر

ہمنوا میرے ہیں جبریلِ امیں، کیا کہنے

٭٭٭

حُسن کیا ہوگا زمانے میں ، کہاں کی رونق

کوئے طیبہ میں سمٹ آئی جہاں کی رونق

میرے بچوں کی زباں پر ہیں جو نعتیں ثاقبؔ!

بڑھتی جاتی ہے اِنھی سے تو مکاں کی رونق


اس کے علاوہ ’’بانٹتے ہیں‘‘ اور ’’گنبدِ خضریٰ میں ہے‘‘ کی ردیفیں بھی عجب بہار دکھا رہی ہیں۔


سہلِ ممتنع:

مقدر اوج پر ہے اور ہم ہیں

پیمبرﷺ کا نگر ہے اور ہم ہیں

رہِ مدحت کی منزل خُلد ثاقبؔ!

اسی رہ کا سفر ہے اور ہم ہیں

مختصر بحر:

رنگ و نور سے بھری سحر

واہ! کیا ہے طیبہ کی سحر

جس سے ثاقبؔ! آگہی ملی

بالیقیں ہے یہ وہی سحر


مدینہ عالیہ کی جدائی، ہائے ہائے، ڈاکٹر ریاض مجید یاد آگئے، وہ فرماتے ہیں:


روتے ہوئے سامانِ سفر باندھ رہے ہیں

محسوس یہ ہوتا ہے قیامت کی گھڑی ہے

٭٭٭


علامہ ثاقبؔ علوی صاحب نے جب اس درد اور کسک کو محسوس کیا تو اُن کی روح کی نَے پکار اُٹھی:

رخصت کے وقت مجھ سے جو پوچھیں کہ اب چلیں؟

ثاقبؔ! کہوں کہ ٹھہرو! خدارا، ابھی نہیں

٭٭٭

یہ خوشبو یاد آئے گی، یہ منظر یاد آئے گا

مدینے کا ہر اک ذرہ برابر یاد آئے گا

مسلسل جالیوں کو دیکھنا اور دیکھتے رہنا

رُلائے گا یہ منظر جب بچھڑ کر یاد آئے گا

وہ پہلی حاضری، پہلا سلام اور التجا پہلی

جو پہلا آنکھ سے ٹپکا وہ گوہر یاد آئے گا


دعا گو ہوں کہ اللہ کریم اپنے محبوبِ کریمﷺ کے صدقے علامہ ثاقبؔ علوی صاحب کو سرکارﷺ کی بارگاہ میں باادب حاضریاں نصیب فرمائے اور وہ اسی طرح کیفِ حضوری و سرشار مجموعہ ہائے نعت ترتیب دیتے رہیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
اس سال کی کچھ اہم کتابیں

اس سیکشن میں اپنے کتابیں متعارف کروانے کے لیے "نعت کائنات" کو دو کاپیاں بھیجیں

نئے صفحات