بن گئیں ہیں جس کی پلکیں پائیدانِ اہلِ بیت ۔ پرویز اشرفی احمد آبادی

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 07:41، 16 اکتوبر 2017ء از ابو المیزاب اویس (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

شاعر: پرویز اشرفی احمد آبادی

تضمین بر : داستانِ شہادت، باغ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوانِ اہلِ بیت ۔ حسن رضا خان

منقبت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تضمین


بن گئیں ہیں جس کی پلکیں پائیدانِ اہلِ بیت

اس زمیں کو دے بلندی آسمانِ اہلِ بیت

ہو مبارک تم کو سارے عاشقانِ اہلِ بیت

’’ باغ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوان ِاہلِ بیت

تم کو مژدہ نار کا اے دشمنانِ اہلِ بیت ‘‘


کیا عجب رکھتا ہے رتبہ خاندانِ اہلِ بیت

جب سے ہے قرآن میں دیکھا بیانِ اہلِ بیت

محوِ حیرت ہیں یہ سارے ترجمانِ اہلِ بیت

’’کس زباں سے ہو بیانِ عز و شانِ اہلِ بیت

مدح گوئے مصطفے ہے مدح خوانِ اہلِ بیت‘‘


گوش بر آواز ہو جاتا ہے جب سارا جہاں

زم زم و کوثر سے جب سو بار دھلتی ہے زباں

تب کہیں اک بار ان کا نام آتا ہے یہاں

’’ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں

آیہء تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت‘‘


اللہ اللہ امتی کو یوں نبی تعلیم دیں

تشنگی کو جیسے جامِ کوثر و تسنیم دیں

کیا ہی تحفہ خاص چُن کر یہ الف کو میم دیں

’’مصطفے عزت بڑھانے کے لیے تعظیم دیں

ہے بلند اقبال تیرا دودمانِ اہلِ بیت‘‘


ان کے جیسی خوبیاں اوروں میں ہم پاتے نہیں

اس لیے ہم گیت اوروں کے کبھی گاتے نہیں

چھوڑ کر دہلیز ان کی ہم کہیں جاتے نہیں

’’ان کے گھر میں بے اجازت جبریل آتے نہیں

قدر والے جانتے ہیں قدر و شانِ اہلِ بیت‘‘


راستہ آلِ پیمبر کا جو اپناتے نہیں

منزلِ مقصود وہ ہرگز کبھی پاتے نہیں

گیت ان کی عظمتوں کے ہم یونہی گاتے نہیں

’’ان کے گھر میں بے اجازت جبریل آتے نہیں

قدر والے جانتے ہیں قدر و شانِ اہلِ بیت‘‘


نفع اس کا نقد ہے اور دام ہے اس کا کھرا

بیچنے والوں کو گھاٹے کا نہیں ہے ڈر ذرا

خیر و برکت کا خزانہ اس کے اندر ہے بھرا

’’مصطفٰے بائع خریدار اس کا اللہ اشترٰی

خوب چاندی کر رہا ہے کاروانِ اہلِ بیت‘‘


کس دوراہے پر ہے پہنچی آج راہِ حسن و عشق

ہوگئی ہے صف بہ صف ساری سپاہِ حسن و عشق

حشر برپا ہو جو نکلے ایک آہِ حسن و عشق

’’رزم کا میدان بنا ہے جلوہ گاہِ حسن و عشق

کربلا میں ہو رہا ہے امتحانِ اہلِ بیت‘‘


خوب کیا مقتل سجائے ہیں ہوائے دوست نے

پیاس پر پہرے بٹھائے ہیں ہوائے دوست نے

درد کے طوفاں اٹھائے ہیں ہوائے دوست نے

’’پھول زخموں کے کھلائے ہیں ہوائے دوست نے

خون سے سینچا گیا ہے گلستانِ اہلِ بیت‘‘


مرحبا کیسی سجی یہ محفلِ ابرِ بہار

دیکھ کر جس کو خزائیں ہوگئی ہیں سوگوار

لے کے خود رضوان آیا جنتی پھولوں کے ہار

’’حوریں کرتی ہے عروسانِ شہادت کا سنگار

خوبرو دولھا بنا ہے ہر جوانِ اہلِ بیت‘‘


غسل کرکے آج خود خورشید آبِ تیغ سے

تشنگی کی لکھ گیا تمہید آبِ تیغ سے

رسمِ بیعت کی ہوئی تجدید آبِ تیغ سے

’’ہو گئی تحقیقِ عیدِ دید آبِ تیغ سے

اپنے روزے کھولتے ہیں صائمانِ اہلِ بیت‘‘


وہ مسیحا، پاس جن کے ہر مرض کا ہے علاج

حکمتِ یونان کو جن کی رہی خود احتیاج

جن کا قائم ہے ہزاروں کیا کروڑوں دل پہ راج

’’جمعہ کا دن ہے کتابیں زیست کی طے کر کے آج

کھیلتے ہیں جان پر شہزادگانِ اہلِ بیت‘‘


کوئی سمجھائے کہ یہ کیسا ہے دردِ لا دوا

آمدِ فصلِ بہاراں کیوں ہوئی در التوا

کس نے کی گلشن میں ہے ایجاد یہ طرزِ نوا

’’اے شبابِ فصلِ گل یہ چل گئی کیسی ہوا

کٹ ریا ہے لہلہاتا بوستانِ اہلِ بیت‘‘


کون ہے بدبخت جس کو روشنی سے بیر ہے؟

کون وہ دلدادہِ شر و عدوئے خیر ہے؟

ہے مسلمانوں وہ اپنا یا کہ کوئی غیر ہے؟

’’کس شقی کی ہے حکومت ہائے کیا اندھیر ہے

دن دھاڑے لٹ رہا ہے کاروانِ اہلِ بیت‘‘


جس کے جلووں سے ہوئی سیراب چشمِ کائنات

تیرے تَٹ پر وہ کھڑا ہے کاروانِ حق صفات

پھر بھی تو محروم ہے بد بخت از آبِ حیات

’’خشک ہو جا خاک ہو کر خاک میں مل جا فرات

خاک تجھ پر دیکھ تو سوکھی زبانِ اہلِ بیت‘‘


اک گلِ شاداب کو گھیرے ہزاروں خار ہیں

رن میں جانے کو حسین ابنِ علی تیار ہیں

صرف خیمے میں بچے اب عابدِ بیمار ہیں

’’خاک پر عباس و عثمانِ علمبردار ہیں

بیکسی اب کون اٹھائے گا نشانِ اہلِ بیت‘‘


کیوں ترے ہوتے وہ مثلِ ماہیِ بے آب ہوں

منتظر جن کے سبھی دریا سبھی تالاب ہوں

جن کا فرشِ رہ نگاہِ اطلس و کمخواب ہوں

’’تیری قدرت جانور تک آب سے سیراب ہوں

پیاس کی شدت میں تڑپے بے زبانِ اہلِ بیت‘‘


چشمِ بابُ العلم کا وہ اعتبارِ معتبر

منزلِ مقصود جس کا چومتی ہے سنگِ در

فکر سے آزاد ہو کر شاہ نے وقتِ سفر

’’قافلہ سالار منزل کو چلے ہیں سونپ کر

وارثِ بے وارثوں کو کاروانِ اہلِ بیت‘‘


لرزہ بر اندام پائے فکر کی پرکار ہے

مرحلہ یہ کس قدر دشوار در دشوار ہے

رخصتی کے واسطے خود روشنی تیار ہے

’’فاطمہ کے لاڈلے کا آخری دیدار ہے

حشر کا ہنگامہ برپا ہے میانِ اہلِ بیت‘‘


درد میں ڈوبا وہ سازِ دل پہ چھیڑا غم کا راگ

پردہِ احساس میں جس راگ سے لگ جائے آگ

جس کو سنتے ہی یکایک چشمِ فرقت جائے جاگ

’’وقتِ رخصت کہہ رہا ہے خاک میں ملتا سہاگ

لو سلامِ آخری اے بیوگانِ اہلِ بیت‘‘


منظرِ مظلومیت آنکھوں کو جب بھی خوں رلائے

تب ستارے سینکڑوں پلکوں پہ میری جھلملائے

بے کسی کی داستاں جا کر کسے یہ دل سنائے

’’ابرِ فوجِ دشمناں میں اے فلک یوں ڈوب جائے

فاطمہ کا چاند مہرِ آسمانِ اہلِ بیت‘‘


ڈھونڈتا ہے دل عبث پازیب کی جھنکار میں

سربلندی سرفرازی ہے صلیب و دار میں

اللہ اللہ کیا روانی ہے لہو کی دھار میں

’’کس مزے کی لذ تیں ہیں آبِ تیغِ یار میں

خاک و خوں میں لوٹتے ہیں تشنگانِ اہلِ بیت‘‘


ہے گروہِ انبیا میں مرتبہ جن کا جدا

جن کی یادوں کی مہک دے دل کی کلیاں گدگدا

جن کے خداموں کی پرچھائیں بنے نجمِ ہدٰی

’’باغ جنت چھوڑ کر آئے ہیں محبوبِ خدا

اے زہے قسمت تمھاری کشتگانِ اہلِ بیت‘‘


چند جملے ان کی مدحت میں ہیں جو بولے ہوئے

ہیں سماعت کی کٹوری میں شہد گھولے ہوئے

بلبلِ سدرہ بھی ہے خود آج پر تولے ہوئے

’’حوریں بے پردہ نکل آئی ہیں سر کھولے ہوئے

آج کیسا حشر ہے برپا میانِ اہلِ بیت‘‘


دیکھ کر حیران ہوں فکر و نظر کی بے بسی

ایسی خود غرضی سبھی کے دل میں کیسے آبسی

کیوں کمر سب نے یہ اپنی بے رخی پر ہے کسی

’’کوئی کیوں پوچھے کسی کو کیا غرض اے بیکسی

آج کیسا ہے مریض نیم جانِ اہلِ بیت’’


پیشِ تسلیم و رضا تو سر سے پہلے دل جھکائے

شکر کا شربت پیے اور صبر کے لقمے چبائے

دفترِ مدحت ترا کیا چند لفظوں میں سمائے

’’گھر لٹانا جان دینا کوئی تجھ سے سیکھ جائے

جانِ عالم ہو فدا اے خاندانِ اہلِ بیت‘‘


فکر کے مینار پر جب عقل نے پھینکی کمند

بس یہی کہہ کر ہوئے خاموش سارے ہوشمند

رفعتِ اعلٰی کہاں انکی کہاں یہ حرفِ چند

’’سر شہیدانِ محبت کے ہیں نیزوں پر بلند

اور اونچی کی خدا نے قدر و شانِ اہلِ بیت‘‘


دل سے مٹ جاتے ہیں پروانے جو اپنی شمع پر

کچھ نہیں رہتی شدائد کی انہیں مطلق خبر

درد کیسا اور کیسا مرہمِ زخمِ جگر

’’دولتِ دیدار پائی پاک جانیں بیچ کر

کربلا میں خوب ہی چمکی دوکانِ اہلِ بیت‘‘


ان اندھیروں کو کھٹکتا تھا چراغِ پر ضیا

اہتمامِ خورد و نوشی اس لیے تو تھا کیا

دی سزا کس جرم کی اور کونسا بدلہ لیا

’’زخم کھانے کو تو آبِ تیغ پینے کو دیا

خوب دعوت کی بلا کر دشمنانِ اہلِ بیت‘‘


خیر و شر کا معرکہ وہ آج کرکے سر گئے

جو تھے ان کے حاسدیں بے موت سارے مر گئے

دامنِ گوہر مرادوں سے وہ اپنے بھر گئے

’’اپنا سودا بیچ کر بازار سونا کر گئے

کونسی بستی بسائی تاجرانِ اہلِ بیت‘‘


عزتیں ہوں، شہرتیں ہوں یا بلند اقبالیاں

راس کب آئیں کمینوں کو کرم فرمائیاں

وہ کرے گا صرف جس کی اصل میں ہوں خامیاں

’’اہلِ بیتِ پاک سے گستاخیاں بے باکیاں

لعنۃ اللہ علیکم دشمنانِ اہلِ بیت‘‘


ہو زباں پر تیرا نعرہ یا علی خیبر شکن

کانپ جائیں سن کے سارے دشمنانِ پنجتن

حق پرستوں کی حمایت میں اٹھا تیغِ سخن

’’بے ادب گستاخ فرقے کو سنا دو اے حسؔن

یوں کہا کرتے ہیں سنی داستانِ اہلِ بیت‘‘


التجا پروؔیز کی ہے از طفیلِ پنجتن

آج پھر اے شہسوارِ کار زارِ علم و فن

اے امیرِ کاروانِ منزلِ شعر و سخن

’’بے ادب گستاخ فرقے کو سنا دو اے حسؔن

یوں کہا کرتے ہیں سنی داستانِ اہلِ بیت‘‘


وہ اوؔیسِ قادری وہ خاکِ پائے پنجتن

جن کی فرمائش کے شاہؔد سارے اربابِ سخن

جس نے بخشا ہے گلِ تضمین کو یہ بانکپن

’’بے ادب گستاخ فرقے کو سنا دو اے حسؔن

یوں کہا کرتے ہیں سنی داستانِ اہلِ بیت ‘‘



مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جان محمد قدسی | حسن رضا خان بریلوی


پیشکش[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ابو المیزاب اویس