اُردو ادب میں نعتیہ شاعری کا مقام ۔ پروفیسر فتح محمد ملک

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 18:05، 30 دسمبر 2017ء از ADMIN (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

Fateh Malik.jpg

مضمون نگار: پروفیسرفتح محمد ملک

مطبوعہ :نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

ABSTRACT: Rejection of Akbar-e-Azam's Deen-e-Ilahi, with rigorous efforts of Hazrat Mujaddid Alf Sani and freedom struggle for Pakistan became un-written manifesto for creating poetry in praise of Holy Prophet Muhammad (S.A.W). The article placed below narrates some historical facts that provoked rejection of ante prophecy movement in un-divided India and paved the way to spread love of Prophet Muhammad (S.A.W.) that elevated in the shape of devotional i.e. Naatia Poetry in Urdu. Evolutionary process of devotional poetry has also been discussed to show some such literary movements in Pakistan through journals like 'NAAT RANG'.


اُردو ادب میں نعتیہ شاعری کا مقام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دنیا کے کونے کونے میں جہاں بھی مسلمان آباد ہیں وہاں حمد و نعت کی روایت بھی موجود ہے مگر برصغیر کے مسلمانوں میںنعت کی بے پناہ ترویج و اشاعت اور روز افزوں مقبولیت ایک معجزے سے کم نہیں۔ مسلمانوں کی چھوٹی بڑی سب زبانوں کی ادبیات سے میری شناسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ میں نے اس باب میں جرمن اسلام شناس ڈاکٹر اینا ماری شمل کے ایک مضمون God's Beloved and Intercessor for Man: Poetry in Honor of the Prophet یہ مضمون مسلمانوں کی بڑی چھوٹی زبانوں کی صوفیانہ شاعری پر یہ مفصل باب اُن کی کتاب As Through a Veil میں شامل ہے۔(۱) کراچی میں سید صبیح الدین رحمانی جس عاشقانہ انہماک کے ساتھ نعت کی شاعری کی تحسین اور نشر واشاعت میں عبادت کی حد تک محو ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔وہ جس جذب و جنوں کے ساتھ’ نعت سینٹر ‘کے زیرِاہتمام نعت کی شاعری اور تنقید کی ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت اور خوب سیرت کتاب شائع کرتے چلے آ رہے ہیں وہ اُن کے یگانہ و یکتا عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہونے کا ثبوت ہے۔ اس باب میں اُن کی تازہ تریں کاوش ’’کلامِ رضا ،فکری و فنی زاویے‘‘ ہے۔ دینی اعتبار سے تو مولانا احمد رضا خان بریلوی کسی تعارف کے محتاج نہیںمگر اُن کے ادبی مقام اور اُن کی شاعری کے فیضان پر یہ کتاب ایک بھرپور خراجِ تحسین ہے۔ پیشتر ازیں وہ ’’غالب اور ثنائے خواجہ ‘‘کے عنوان سے غالب کی فارسی اور اردو شاعری میں نعتیہ عناصر کی تلاش و جستجو پر وقتاً فوقتاً لکھے گئے مضامین کی ترتیب و اشاعت کا کام مکمل کر چکے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر عزیز احسن کے مطالعاتِ حمد و نعت کی اشاعت بھی انھی کے حصے میں آئی ہے۔اردو نعت کی شعری روایت کی سی کتابیں عاشقانِ رسول کی متاعِ عزیز بن چکی ہیں۔ زیرِ نظر کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مختلف لکھنے والوں کے وقتاً فوقتاً لکھے گئے منتشر مضامین کی کتابی صورت میں یک جائی جہاں ان بیش قیمت مضامین کو ضائع ہونے سے بچا دیتی ہے وہاں نعت نگاری کے فن کو بھی شاعری کے ایک منور باب کی حیثیت بخش دیتی ہے۔


سید صبیح الدین رحمانی نے اپنے مجلہ ’’نعت رنگ‘‘ کے ذریعے نعت نگاری کی نشرواشاعت کو عبادت کا درجہ دے رکھا ہے۔وہ خود بھی ایک منفرد نعت گو ہیں۔ ’’ سرکار کے قدموں میں میں ‘‘اُن کے نعتیہ کلام کا تازہ ترین مجموعہ ہے۔ کتاب میں سارہ کاظمی کا خوب صورت انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے۔ اُن کا نعتیہ کلام غزل، آزاد نظم اور ہائیکو کی اصناف میں جلوہ گر ہے۔ کتاب کے آغاز میں سید صبیح الدین رحمانی نے نعت کو اپنے فکر و فن ہی نہیں بلکہ اپنی زندگی کا جلی عنوان قرار دیا ہے۔حال ہی میں کراچی کی مانند لاہور میں بھی ایک انٹرنیشنل نعت مرکز قائم ہو گیا ہے۔ اس مرکز کے مہتمم جناب ارسلان احمد ارسل نے نامور شاعر اور نقاد ڈاکٹر خورشید رضوی کے مجموعۂ نعت بعنوان ’’نسبتیں‘‘ کی اشاعت سے اس کارِ خیر کا آغاز کیا ہے۔ گزشتہ پانچ برس سے میاں صلاح الدین رمضان شریف میں ایک نعت البم بعنوان ’’ورثہ‘‘ تیارکرتے چلے آ رہے ہیں۔ہر سال اس نعت البم میں کوئی نہ کوئی نامور موسیقارنعت کی شاعری ساز و آواز کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اس نعت البم کا مستقل عنوان ’’ورثہ‘‘ ہے ۔ہرسال ایک نیا ذیلی عنوان بھی سامنے آتا ہے۔مثلاً ’’مدینہ مدینہ‘‘ اور ’’یا نبیؐ‘‘۔اس بار صنم ماروی نے ’’یا مصطفی‘‘کے عنوان سے اس روحانی ’’ورثہ‘‘ کو ثروت مند بنایا ہے۔ ہرچند عشقِ رسولؐ مسلمانوں کی روحانی زندگی کا سب سے بڑا سرچشمۂ فیضان ہے تاہم برصغیر میں آنحضورV کی حمد و ثنا میں جذب و جنوں کے تاریخی محرکات و عوامل توجہ طلب ہیں۔مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس عشقِ مصطفیؐ کے دو تاریخی محرکات بھی ہیں۔ اول : دینِ الٰہی ۔ دوم : تحریکِ پاکستان۔


مغل شہنشاہ اکبر نے جب اس سراسر باطل استدلال کے ساتھ دینِ الٰہی کا اعلان کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فیضان فقط ایک ہزار سال تک تھا۔اب الفِ ثانی شروع ہو چکا ہے اس لیے اب اُن کی پیروی ہم پر لازم نہیں رہی۔جن علمائے کرام نے اس تصور کی مخالفت کی اُن کے سرقلم ہوئے اور جنھوں نے اسے قبول کیا اُنھیں سرکار دربار میں اونچے مناصب پر بٹھا دیا گیا۔مقامِ رسالت کی اس نفی کی نفی میں حضرت شیخ احمد سرہندی، مجدد الف ثانیؒ نے ’’رسالہ دراثباتِ نبوت‘‘ لکھا اور سرکار دربار میں معتبر عہدے داروںکے نام اپنے خطوط میں شدید رنج و غم کا اظہار بھی کیا اور بھرپور غیض و غضب کا بھی۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان مکتوبات میں سے یہاں چند اقتباسات پیش کر دیے جائیں:


۱۔ ’’اس زمانہ میں جب عقائد اسلام اور متعلقہ مسائل کے متعلق بدگوئی اور اُن پر ہر طرف سے اعتراضات شروع ہوئے ، بہت سے بدبخت ہندووں اور ہندو زدہ مسلمانوں نے پیغمبرِ اسلام Vپر زبان طعن و تشنیع دراز کرنی شروع کی۔ علماء سُو اپنی تصنیفات میں شہنشاہ کی عصمت کا اعلان کرتے تھے اور خطبہ میں صرف توحید کے بیان پر اکتفا کر کے بادشاہ کے القاب و خطابات لکھ دیتے تھے۔.... مسلمان اذیت میں مبتلا تھے۔ کافر علی الاعلان اسلام اور مسلمانوں کا استہزا کرتے تھے۔‘‘(۲)


۲۔ ’’واویلا! وامصیبتا! کس قدر دکھ رنج و غم اور حسرت کا مقام ہے کہ محمد رسول اللہ V کہ محبوب العالمین ہیں، پر قربان ہونے والے تو ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کرتے تھے اور آپ صلعم کے منکر صاحبانِ عزت و توقیر تھے۔ مسلمان اپنے زخمی دلوں سے اسلام کی تعزیت میں مصروف تھے اور دشمن تمسخر اور ٹھٹھا مخول سے اُن کے زخموں پر نمک چھڑکتے تھے۔ ہدایت کا آفتاب گمراہی کی چادر میں جا چھپا تھااور نورِ حق باطل کے پردوں میں مستور رہ گیا تھا۔ ‘‘(۳)


۳۔ ’’رام اور کرشن اور اسی قسم کی دوسری شخصیات جن کی ہندو پرستش کرتے ہیں اُس ہستیٔ مطلق کی ادنیٰ مخلوقات میں ہیں۔ اُنھیں ماں باپ نے جنم دیا ہے۔ رام ، جسرتھ کے بیٹے ، لچھمن کے بھائی اور سیتا کے شوہر تھے۔ رام اور رحمٰن کو ایک سمجھنا بہت بڑی جہالت ہے۔ بھلا خالق اور مخلوق کیونکر ایک ہو سکتے ہیں اور بے مانند، مانند کے ساتھ کیسے متحد ہو سکتا ہے؟‘‘(۴)


۴۔ ’’ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مَن یُّطِعِ الرَسُولَ فَقَد اَطَاعَ اللّٰہ۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض رسولوں پر تو ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ ایمان اور کفر کی بین بین چلنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ یہی لوگ کافر ہیں۔ ‘‘(۵)


۵۔ ’’ کمالِ محبت کی علامت یہ ہے کہ انسان رسول اللہ V کے دشمنوں اور شریعت کے مخالفوں سے عداوت رکھے۔ متاعِ دنیا تو فریبِ محض ہے۔ آخرت کے معاملے کا انحصار اسی پر ہے۔ نجات کی امید اُسی شخص کو ہو سکتی ہے جو دنیا کی چند روزہ زندگی رسول اللہ V کی اطاعت و اتباع میں بسر کرے گا۔ ورنہ جو نیک عمل بھی کرے گا بیکار اور بے فائدہ ہوگا۔ ‘‘(۶)


اِن مکتوبات میںاعلیٰ سول اور فوجی عہدیداران کو مغل ہندوستان میں اسلام کی بے چارگی و بے کسی کے دلخراش واقعات کی جانب متوجہ کیا گیا ہے۔اُس زمانے میں جمعہ کے خطبات میں توحید کے ذکر کے بعد بادشاہ کی منقبت ہونے لگی تھی۔ایک نیا کعبہ تعمیر کرنے کی مساعی عمل میں آنے لگی تھی۔ آنحضورV کا اسمِ مبارک زبان پر لانا بھی جرم ٹھہرا تھا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے سلطنت کے سرکردہ افسران کو دینِ الٰہی سے پھوٹنے والے اِن کبیرہ گناہوں کے تباہ کن اثرات و نتائج کی جانب متوجہ کرنا شروع کیا تو اِن افسران نے اصلاحِ احوال کی تدابیر پر غور و فکرشروع کر دیا۔ جہانگیر تخت نشین ہوا تو حضرت مجدد الف ثانیؒ نے لوگوں سے یہ عہد لینا شروع کر دیا کہ وہ خلافِ اسلام احکامِ شاہی کی اطاعت نہیں کریںگے۔ اس جدوجہد کو فوج تک وسعت دی گئی۔اُن کا ایک عقیدت مند بدیع الدین دارالحکومت آگرہ کے فوجی ہیڈکوارٹر میں انتہائی اہم عہدے پر کام کر رہا تھا۔ جب فوجی افسران میں حکومت کی مذہبی حکمتِ عملی کے خلاف نفرت اپنی انتہا کو پہنچی توعملی تدابیر بھی زیرِ بحث آنے لگیں۔ چنانچہ جہانگیر کو اپنی ملکہ کے ساتھ کشمیر جاتے ہوئے فوج نے جہلم کے مقام پر نظربند کر کے مطالبہ کیا کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کو جیل سے رہا کر کے یہاں لایا جائے اور اُن کی رہنمائی میں مذہبی حکمتِ عملی رو بہ عمل لائی جائے۔ اُس وقت حضرت مجدد الف ثانیؒ گوالیار کی جیل میں محبوس تھے ۔ انھیں اس جرم میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑی تھیں کہ انھوں نے جہانگیر کے دربار میں سجدۂ تعظیمی سے انکار کردیا تھا۔ فوج کے دباؤ میں آ کر جہانگیر نے حضرت مجدد الف ثانیؒ کورہائی دے کر جہلم میں ان سے مذاکرات کیے۔ جہانگیر نے حضرت مجدد الف ثانیؒ کی ساتوں کی سات شرائط منظور کرلیں۔ اس پر فوج نے انھیں رہا کر دیا اور یوں وہ کشمیرروانہ ہو گئے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی وہ سات شرائط درج ذیل ہیں:


’’۱۔ سجدۂ تعظیمی موقوف کیا جائے۔ ۲۔ تمام مساجد جو منہدم کی گئی تھیں از سرنو تعمیر کی جائیں۔ ۳۔ ذبحٔ بقر کے امتناعی احکام منسوخ کیے جائیں۔ ۴ ۔ احکام شرع کو جاری کرنے کے لیے مفتی اور محتسب مقرر کیے جائیں۔ ۵۔ جزیہ پھر مقرر کیا جائے۔ ۶۔بدعات کو روکا جائے اور احکامِ شرع کو نافذ کیا جائے۔ ۷۔وہ تمام لوگ جو اس جھگڑے میں قید کیے گئے تھے رہا کیے جائیں۔ ‘‘(۷)


ڈاکٹر فضل الرحمن نے اپنی انتہائی قابلِ قدر تحقیقی کاوش میں اس حقیقت کو بے نقاب کیا ہے کہ جہانگیر نے جہاں حضرت مجدد الف ثانیؒ کی پیش کردہ شرائط تسلیم کر کے رہائی پائی وہاں اُس نے بڑی عیاری کے ساتھ اُنھیں فوج کی تحویل میں دے دیا۔ بظاہر اُس نے حضرت مجدد الف ثانیؒ کو فوج کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سونپی تھی مگر فی الواقعہ اُس نے انھیں اُس وقت تک فوج کی تحویل میں رکھا جب وہ اپنے دمِ واپسیں کو آ پہنچے تھے۔(۸) خیر،اُن پر جو گزری سو گزری مگر انھوں نے نے اپنی بصیرت،حکمت اور شجاعت سے کام لے کر بالآخر جہانگیر کو مجبور کر دیا کہ وہ اس اسلام دشمن مذہبی پالیسی کو ترک کر کے درست راہِ عمل اختیار کرے۔ بلاشبہ یہ ایک بہت بڑا سیاسی کارنامہ ہے مگر وحدت الوجود کے صوفیانہ تصور کی انتہائی گمراہ کن تعبیر وں سے ملتِ اسلامیہ کی نجات اس سے بھی بڑا کارنامہ ہے۔


ہندو مت اور اسلام کو ایک ثابت کرنے کی خاطر علمائے سُو وحدت الوجود کے عقیدے کی سراسر غلط تعبیر سے رام اور رحیم اور رام اور رحمن کو ایک ثابت کرکے ہندو مت اور اسلام میں یکسانیت کے گمراہ کن تصورات عام کرنے میں مصروف تھے۔ ایسے میں حضرت مجددنے وحدت الوجود کو وحدت الشہودکا پیرایۂ بیان بخشا۔فنا فی اللہ کی بجائے بقا باللہ کا تصور پیش کر کے اسلامی تصوف کو ویدانت اور دیگر راہبانہ تحریکوں سے الگ ، منفرد اور ممتاز روحانی مسلک ثابت کیا۔ اُن کی صوفیانہ فکر نے برصغیر میں نقشبندی مجددی مسلکِ تصوف کو مقبولِ عام بنایا۔ اسی مسلک کو خواجہ میردرد نے طریقۂ محمدیہV کے عنوان سے نمایاں تر پہچان دی۔ یہ گویا صوفیانہ فکر و عمل میں اثباتِ نبوت کا بلند بانگ اعلان تھا۔ یہ اعلان تب سے اب تک اسلامی تصوف کی نمایاں ترین پہچان چلا آ رہا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے اسی کردار کو خراجِ تحسین پیش کرتے وقت علامہ اقبال نے لکھا تھا :

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے

جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیٔ احرار

وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہبان

اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار!


جس طرح اللہ نے حضرت مجدد الف ثانیؒ کو بروقت خبردار کر کے برصغیر میں اسلام کو مٹنے سے بچایا تھا اُسی طرح تین سو سال بعد علامہ اقبال کو بروقت خبردار کر کے برطانوی ہند میں اسلام کو مٹنے سے بچادیا تھا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ساری کی ساری مذہبی سیاسی جماعتیں قیامِ پاکستان کی مخالفت میں سرگرمِ عمل تھیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی کی سی نامور شخصیات انڈین نیشنل کانگریس کے مجوزہ متحدہ ہندوستان میں ایک مسلمان اقلیت کی حیثیت میں زندہ رہنے کو جداگانہ مسلمان قومیت پر ترجیح دینے میں مصروف تھیں اور متحدہ ہندوستانی قومیت کے حق میں نِت نیا ’’اسلامی‘‘ استدلال پیش کر رہی تھیں ۔اس انتہائی نازک صورتِ حال میں علامہ اقبال نے : بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست/ اگر بہ اُو نہ رسیدی ، تمام بولہبیست ، کہہ کر مسلمان عوام کو تحریکِ پاکستان کا ہمنوا بنا دیا تھا۔ اس اعتبار سے پاکستان کا قیام عشقِ رسول V کا معجزہ ہے اور خود اقبال کا فکر و عمل عشقِ رسولؐ کی دین ہے۔


میں سوچتا ہوں کہ دینِ الٰہی کی نفی اور تحریکِ پاکستان کا اثبات اردوادب میں نعت گوئی کے حیرت انگیز چلن کے محرکات ہیں۔ دو انتہائی نازک ادوار میں آنحضورV سے والہانہ عشق اور گہری عقیدت نے برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی ہستی کو مٹنے سے بچایا ہے۔ یوں عشقِ رسولؐ ہماری اجتماعی شخصیت کے بقا و دوام کا سرچشمہ ٔ فیضان بھی ہے اور ہماری قومی زندگی کا جلی عنوان بھی!


حواشی


۱۔ As Through a Veil, Mistical Poetry in Islam, Annemarie Schimmel, New York, 1982

۲۔ مکتوباتِ امام ِ ربانی ، حضرت مجدد الف ثانی،جلد اول، صفحہ ۲۲، ۲۳۔

۳۔ ایضاً، صفحہ ۴۷۔

۴۔ ایضاً، جلد اول ، مکتوب۱۶۷ بنام ہردے رام۔

۵۔ ایضاً ، مکتوب ۱۵۲ بنام شیخ فرید، دفترِ اول

۶۔ ایضاً، مکتوب ۱۶۴، دفترِ اول، شیخ فرید کے نام

۷۔ Selected Letters of Shaikh Ahmad Sirhindi, Fazlur Rahman, Karachi, 1968, p.64

۸۔ Ibid.

٭٭٭