اردو نعت میں مابعد جدیدیت کے اثرات ، کاشف عرفان

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 19:26، 24 مارچ 2017ء از Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

کاشف عرفان ۔اسلام آباد

( POST MODERNISM)

ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Thinkers having concern with Post Modernism had tried to define the term Post Modernism in such a way that the term covers a vast dimension and immense area of Ideas, trends, and limitless contour of opinions about universe. The concept of Post Modernism covers existing realities which are reflective in literature showing reaction against Modernism. Kashif Irfan is a brilliant young scholar who has tried to apply the theory towards understanding Devotional Poetry. Post Modern thinking trend prefers to find multiple meanings of Text besides its continuity in search of routs of words and thoughts. Kashif has traced effects of post modern thoughts on Naatia Poetry and tried to find out relations of Post Modernism with Modernism and Tradition. Profundity of ideas in the cited article is appreciable.

اردو نعت نگاری پر مابعد جدیدیت کے اثرات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اردو نعت نگاری پر مابعد جدیدیت کے اثرات کے جائزے سے قبل اِس حقیقت سے آگاہ ہونا ضروری ہے کہ خود مابعد جدیدیت کاجدیدیت اور روایت سے کیا رشتہ ہے ؟ پھراس سوال پر غور کیا جانا بھی ضروری ہے کہ مابعد الطبیعات (Post Meta physics)ادب میں سائنس اور طبیعات (Physics ) کے کن اصول وضوابط کوتخلیق کے رشتے سے منسلک کرتی ہے ۔روایت،جدیدیت اور مابعد جدیدیت ایک تاریخی تناظر میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں ۔روایت ایک خاص تناظر میں جدیدیت کاراستہ ہموار کرتی ہے ۔روایت کوادب کی کسی بھی صنف میں مکمل علیحدگی (Isolation)میں جاکر نہیں دیکھا جاسکتا کیونکہ روایت خود صنفِ ادب میں موجود اُس لفظی ومعنوی نظام کے ادغام سے وجود میں آتی ہے جس کا رشتہ تاریخ سے جُڑتا ہے ۔روایت صنفِ ادب سے علیحدہ اپنا کوئی نفسیاتی نظام نہیں رکھتی بلکہ یہ صنف کے اندر حیاتیاتی (Biological)تغیرات سے وجود میں آتی ہے ۔ حیاتیات کا لفظ صنفِ ادب کے اندر ہونے والے اُن عوامل کی وضاحت کرتا ہے جوارتقائی عمل کو باضابطہ (Systematic) بناتے ہیں آئیے دیکھیں کہ روایت کے حوالے سے ٹی ۔ایس ۔ ایلیٹ کیا کہتے ہیں ۔

’’شاعر کے اپنے ماضی کے ساتھ رشتے کی بہتر وضاحت کے لیے میں یہ کہوں گا کہ وہ ماضی کوایک بے جان اورغیر مربوط انبار شمار نہیں کرسکتا نہ ہی وہ فقط اپنی ذاتی پسند سے اُس کی تعبیر کرسکتا ہے ۔۔۔ شاعر کو ماضی کے دریا کے اصل دھارے کاشعور ہونا لازمی ہے ۔‘‘ (1)

گویا روایت ماضی کے دریا کے اصل دھارے کاشعور ہے ۔ماضی کایہ دھارا صرف ادبی تخلیقات یاادبی شخصیات کی مختلف تحریروں کاحصہ ہونا ضروری نہیں بلکہ اِس کی جڑیں سماجیات میں بھی موجود ہوسکتی ہیں ۔ روایت یہ نہیں کہ تاریخ کے دو دھاروں کے درمیان موجود ادبی شخصیات کے فن پاروں کوسامنے رکھ کر تقابل کیاجائے بلکہ روایت ہمیں اس اجتماعی تغیر پذیر ذہن کا پتہ دیتی ہے جوخود آگاہ حال کوماضی کے دریچوں تک لے جاتا ہے ۔

روایت کاعمل ارتقائی ہے یعنی یہ کسی تاریخی منظر نامے میں بنائے گئے کسی ادبی منصوبے یا فکری نظر یے کا پابند نہیں ہوتا ۔روایت کاتعلق ثقافت کے ساتھ گہرا ہے ۔ ادب اورثقافت کی بنیاد ایک ہی ہے اور روایت اِس بنیاد کو متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔

ڈاکٹر وزیرآغا روایت اور جدیدیت کے تناظر میں کچھ یوں رقمطراز ہیں۔

’’اردو ادب میں مابعد جدیدیت کے اثرات کے تحت کچھ چیزیں تخلیق ہوئی ہیں مگران میں سے بیشتر شعوری کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ مجموعی اعتبار سے اردو ادب کو جدیدیت اور ہائی موڈرن ازم نے نسبتاً زیادہ متاثر کیاہے ۔‘‘ (2)

روایت سے جدیدیت کاسفر انسانی اذہان کی پیچیدگی (Complexity) کا مظہر ہے ۔ ماہرین علوم بشریات (Anthropologists)اس بات پر متفق ہیں کہ معاشرتی سطح پر تبدیل ہوتی ہوئی صورت احوال اور سائنس کی روز افزوں ترقی نے انسانی ذہن پر علم کے ردیچے ہی واہ نہیں کیے بلکہ ذہنی ساخت میں کچھ پیچیدہ تبدیلیاں بھی کی ہیں اس تبدل وتغّیر کے زیرِ اثر روایت سے جدیدیت کی جانب سفر کاآغاز ہوا۔جدیدیت کاتعلق زمین سے ہے ۔ ارضی سطح پران عوامل کی تلاش جدیدیت کا موضوع ہوتا ہے جوکسی انسان کی اصل تک لے کر جاتی ہیں ۔ گویا انسان کااپنی جڑوں کی تلاش خود جدیدیت کاموضوع ہے ۔


اگر ہم جدیدیت کو مختصراً بیان کرنا چاہیں توتین چارنکات فوری ذہن میں آتے ہیں۔

  • زمین سے رشتہ اور جڑوں کی تلاش اوراجتماعی شعور سے آگاہی ۔
  • نفسیات کی مدد سے لا شعور میں جھانکنے کاعمل جولاشعور سے اجتماعی لاشعور تک پہنچتا ہے۔
  • اساطیری حوالوں سے ادب کی ماہیت کوسمجھنے کی کوشش
  • جدیدیت لفظ ومعنی کے رشتے تلاش کرتی ہے۔جدیدیت کاتعلق ساختیات سے ہے ۔

اردو شاعری کے حوالے سے جب ہم جدیدیت کے ان نکات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں توہمیں اقبال کے ہاں اجتماعی شعور اور لاشعور کو سمجھنے کی کوشش نظر آتی ہے ۔

بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیاہے

یہ ہے نہایت اندیشہ و کمال جنوں

طلوع ہے صفتِ آفتاب اُس کا غروب

یگانہ اور مثالِ زمانہ گونا گوں !

یادوسری جگہ مُسلم اجتماعی شعور کوکچھ اس طرح چھوتے نظرآتے ہیں کہ انفرادی لاشعور تک پہنچتے نظرآتے ہیں

یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز

نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا

وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود

ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا

جدیدیت سے مابعد جدیدیت کاسفر ایک تیز رفتار ریل گاڑی سے مشاہدے کے مانند ہے جہاں رفتار تیز ہونے کے باعث منظر اپنی اصل آشکار ہونے نہیں دیتا ۔اگر مابعد جدیدیت کو پھر نکات کی صورت میں بیان کیاجائے تو منظر کچھ یوں بنے گا۔

  • مابعد جدیدیت زمانے کی سیاسی ،سماجی ،ثقافتی ،علمی ،نظریاتی اورادبی کروٹوں کے پھیلتے ہوئے آفاق سے ہم رشتہ ہونا ہے ۔
  • مابعد جدیدیت ،جدیدیت کاردعمل ہے ۔جدید یت ادب کی ارضی سطح سے مشاہدہ ہے جبکہ مابعد جدیدیت آفاقی سطح سے معائنہ ہے ۔
  • مابعدجدیدیت تخلیق کے اندر اور باہر کی دنیا کے درمیان ہم آہنگی کی تلاش کانام ہے ۔
  • آفاقیت اور وسعت مابعد جدیدیت کی ایک اہم کڑی ہے ۔
  • لامحدود یت ، مابعد جدیدیت کو جدیدیت سے ممتاز کرتی ہے ۔
  • مابعد جدیدیت کائنات کی حدود میں پھیلاؤ اور کائنات کی لامحدود یت کو سمجھنے کاعمل ہے ۔
  • مابعد جدیدیت تاریخ ، عمرانیات اور لسانی رشتوں کا مطالعہ کرتی ہے ۔

(نعت نگاری میں تاریخی تناظر ات اور عمرانیات کے علوم کے زیرِ اثر عرب معاشرے سے برصغیر کے تہذیبی تعلق کو سمجھنے کی کوشش مابعد جدیدیت کاموضوع رہی ہے ۔)

  • مابعد جدیدیت زندگی کی پیچیدگی (Complexity) کو ادب کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش ہے۔
  • معنی کی کثرت مابعد جدیدیت کااہم موضوع ہے ۔

نعتیہ میدان میں مابعد جدیدیت کے حوالے سے اقبال کی شاعری اُس آفاقی سطح کو چھوتی نظرآتی ہے جس کی جانب مابعد جدیدیت کانظر یہ اشارہ کرتا ہے ۔اردو میں نعتیہ تنقید کوسب سے بڑا مسئلہ یہی درپیش رہا کہ اُس نے اقبال کو معیار (Standard)اور مرکز مان کربات کوآگے بڑھانے کے بجائے ایسے کلام پر گفتگو کی جو خود اُس درجے کو نہیں چُھوتا جہاں شعر آفاقیت حاصل کرلیتا ہے مابعد جدیدیت کاایک اہم نکتہ کائنات کی حدود میں پھیلاؤ اور کائنات کی لامحدودیت کوسمجھنے کے عمل سے متعلق ہے ۔ اردو نعت میں کائنات کی لامحدودیت کواللہ کے حکم سے تسخر کرنے کا عمل واقعہ معراج میں نظر آتا ہے ۔ اردو نعت میں واقعہ معراج کو مختلف سطحوں پر مختلف شعراء نے بیان کیاہے ۔ اِس موضوع کے بیا ن میں عام طور پر شعرا ء ندرتِ بیان اور نزاکت خیال کے ساتھ فکری گہرائی کااحساس نہیں رکھ پاتے یوں بہت سے عمدہ نعت گو بھی افراط وتفریط کاشکار ہوجاتے ہیں ۔

سید عارف کااسی موضوع پرایک خوبصورت شعر دیکھیے۔

میں اُس کی وسعتوں کولفظ پہناؤں توکیا جس کا

زمیں پر اک قدم ہے دوسرا افلاک سے آگے (سیدعارف)

واقعہ معراج کو وسعت کائنات اور لامحدودیت کے حوالے سے سائنسی اور منطقی طور پر سمجھنے کی کوشش ہمیں دوسرے کئی شعراء کے ہاں نظر آتی ہے تاہم اقبال اِس حوالے سے بھی سر خیل ٹھہرتے ہیں ۔

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے

کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں ( اقبالؔ )

مابعد الطبیعات اور طبیعات کے درمیان موجود آفاقی رشتے کی کڑیاں معراجِ مصطفیؐ سے ہی دریافت ہوتی ہیں اور اقبال اِس کے منطقی استدلال کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کرتے نظرآتے ہیں ۔

مابعد الطبیعات کو دریدہ (Dareda) نے آزاد کھیل سے تشبیہ دی تھی لیکن یہ آزاد کھیل بھی اُن معنوں میں آزاد نہیں تھا جن میں اصول وضوابط کارفرما نہیں ہوتے ۔مابعد الطبیعات کامنطق سے بہت گہرا تعلق ہے اور منطق اصول وضوابط کے بغیر وجود نہیں پاسکتی ۔خود سائنس بھی عوامل کی منطقی وجوہات تلاش کرنے کا ہی نام ہے ۔مابعد الطبیعات بنیادی طور پر خدا ،انسان اور کائنات کے درمیان ہم آہنگی کو تلاش کرنے کانام ہے

خدا

کائنات انسان

مابعد جدیدیت کی اہم ترین کڑی مابعد الطبیعات ہے ۔انسان دوستی ،قدروں کی بقاء کی خواہش ،محبت اور موجود کو ماورا ء سے جوڑنے کے نظر یے کو مابعد الطبیعات کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ یہ خدا اور انسان کے رشتے کو کائنات کی وسعت میں سمجھنے کاعمل ہے ۔ خود نعت بھی نبی اکرم ؐ کی شخصیت اور خداسے انؐ کی محبت کو سمجھنے کا عمل ہے ۔ قرآن کریم میں وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکرک کہہ کراللہ تعالیٰ نے نہ صرف اِس بات کا یقین دلادیا کہ آپؐ کی سیرت وصورت اور کردار کی شان قیامت تک بیان کی جاتی رہے گی ۔دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے اوررسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے لیے اپنی محبت کااظہار بھی کیا۔نبی اکرمؐ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو اور آپؐ کے کردار وافعال کی شان کا بیان رہتی دنیا تک بیان کیا جاتا رہے گا۔

مابعدالطبیعات ہمیں وقت کی ماہیت کی مختلف سطحوں سے بھی روشناس کرواتی ہے ۔ کائنات میں وقت کا تصور(جدیدسائنسی تحقیق کے مطابق) خود اضافی (Relative) ہے ۔ اضافی یا Relativeسے مراد ایسی اشیاء جن کی پیمائش کے پیمانے مختلف اوقات یامقامات پر مختلف ہوجائیں ۔ وقت کی جہات مختلف اوقات یامقامات پراللہ کے حکم سے مختلف ہونے کاعمل ہمیں قرآن کریم میں تین مختلف واقعات سے ملتا ہے ۔

  • پہلا واقعہ حضرت عزیرؑ کاہے ۔ یہ واقعہ قران پاک کی سورۃ البقرہ کی آیت ۲۵۹ میں بیان ہوا ہے ۔
  • دوسرا واقعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکا واقعہ معراج ہے ۔واقعہ معراج سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۱ میں بیان ہوا ہے ۔اللہ کے حکم سے وقت کاموجودہ پیمانوں کے مطابق ٹہر جانا اور نبی اکرمؐ کامعراج سے واپس آنے تک کُنڈی کاہلتے رہنا اور آپؐ کے بستر کاگرم رہنا وقت کی اِسی جہت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
  • تیسرا واقعہ اصحابِ کہف کاہے ۔یہ واقعہ سورۃ الکہف کی آیت ۹ سے آیت ۲۵ تک بیان ہواہے۔اِس واقعے میں بھی وقت کاموجودہ پیمائش کے مطابق ٹہرنا ثابت ہے ۔ (3)

تینوں واقعات میں وقت کی تفہیم اُس پیمانے کے مطابق نہیں ہوئی جوہماری دنیا میں رائج ہے گویا موجود اور ماوراء کے درمیان وقت کی گمشدہ کڑیوں کی دریافت اِن تینوں واقعات کی بنیاد بنتی ہے ۔رب کریم نے اپنے محبوب بندوں کے لیے موجود پیمانوں میں تبدیلی کی اور وقت کواُن محترم شخصیات کی خاطر ٹھہرایا جس کا بیّن ثبوت ہمیں قران کریم میں ملتا ہے ۔

اقبال کے مذکورہ بالا شعر میں پہلی بارانسانوں میں سب سے کامل انسان اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے معراج پرتشریف لے جانے سے سائنسی ،منطقی اورارضی سطح پرایک نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اقبال کے فلسفہ عشق اور فلسفہ تحرک کی روشنی میں اگر اس شعر پرغور کیاجائے تویہ شعر معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے تناظر میں عظمتِ انسان اور معراجِ انسانیت کی بات کرتا نظرآتا ہے ۔

وقت کی ماہیت کو سمجھنے کے لیے روحانی اور مابعد الطبیعاتی نظام کے متوازی سائنس نے بھی ایک مختلف نظام وضع کیاہے جوطبیعات میں تجرباتی بنیادوں کو مَس کرتا نظرآتا ہے ۔آئن سٹائن نے طبیعات میں ایک نظریہ پیش کیاجسے آئن سٹائن کانظریہ اضافت (Theorey of Relativity) کہاجاتا ہے جسے طبیعاتی شکل میں کچھ یوں لکھاجاسکتا ہے

E=mc2

E= Energy توانائی

m=mass مادہ

C= Speed of light روشنی کی رفتار

مادہ اور توانائی کے درمیان قائم رشتے کو سائنسی ،منطقی اور تجرباتی سطح پر ثابت کرنے سے وقت کی ماہیت کو سمجھنے کے ایک نئے عمل کاآغاز ہوا۔ یہ نظریہ ہمیں وقت کے ایک نئے پہلو سے آگاہ کرتا ہے ۔ اِس نظریے کے مطابق انسان اگرروشنی کی رفتار کے مربع (C) سے سفر کرنے کے قابل ہوجائے تووہ اپنی مادی حیثیت کوتبدیل کرکے توانائی کی لہروں میں تبدیل ہوجائے گا گویا وہ اپنی مادی شکل وصورت کے بجائے توانائی کی لہروں یا بنڈلز کی صورت اختیار کرلے گا۔ ایسی حالت میں وہ مادے کی نسبت لاکھوں گُنا تیز رفتاری سے سفر کرسکے گا۔ اِس بات کوایسے بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر انسان کسی بھی طرح توانائی کی لہروں میں تبدیل ہوجائے تووہ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کے قابل ہوسکتا ہے ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے واقعہ معراج کو عارف عبدالمتین نے کچھ یوں دیکھا :

مرحلے تیرے سفر کے تھے ازل اور ابد

جادۂ وقت سے آگے ترا جادہ دیکھا

(عارف عبدالمتین )

جادۂ وقت سے آگے جادۂ محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کودیکھنے کایہ عمل وقت کی ماہیت کے اِس تغیر وتبدل کو سمجھنے کی کوشش بھی ہے ۔آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلٹو سائنس کے بعد وقت کے حوالے سے آج کی سائنس نئے نئے انکشافات کررہی ہے ۔زمان ومکان (Time & Space) کے حوالے سے یہ انکشافات کائنات میں وقت کے عمل کو سمجھنے کے نئے در وا کرر ہے ہیں ۔سائنس اور منطق آج ہمیں یہ بتا رہی ہے کہ سورج کی روشنی (یاد رہے کہ سورج بھی ایک ستارہ ہے) ہماری زمین تک آٹھ منٹ بیس سیکنڈ میں پہنچتی ہے ۔ہم یہ بات جانتے ہیں کہ کسی بھی جسم سے نکلنے والی روشنی کے باعث ہماری آنکھیں اُسے دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں ۔روشنی کایہ سفر ہمیں ہر بار آٹھ منٹ بیس سیکنڈ پرانا سورج دکھاتا ہے بالکل اسی طرح لاکھوں نوری سالوں کے فاصلے پر موجود ستاروں کوبھی ہم دیکھ سکتے ہیں۔جن ستاروں کی روشنی ہماری آنکھوں تک یا ہماری زمین تک ایک لاکھ سال میں پہنچتی ہے ۔انہیں ہم ایک لاکھ سال ماضی میں دیکھتے ۔ اِس کو زیادہ آسانی سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک لاکھ نوری سال کے فاصلے پر موجود ستارے کوہم ایک لاکھ سال ماضی میں دیکھتے ہیں ۔یہ بھی ممکن ہے کہ زمین تک اُس کی روشنی کے پہنچنے کے دوران وہ ستارہ مختلف فلکیاتی اور کائناتی تغیرات کے باعث ختم ہوچکا ہولیکن ہماری آنکھیں اُسے اس لمحے میں دیکھتی ہیں جب روشنی اُس ستارے سے سفر کاآغاز کررہی تھی ۔وقت کے اِس ماضی اورحال کے درمیان سفر کی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وقت کی حیثیت رلیٹیو ہے ۔ اب آئن سٹائن کے نظریہ اضافت اور وقت کے متعلق اِ س نظریے نے ہمیں معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکو سائنسی اور منطقی طور پر بہتر طریقے سے سمجھنے کے قابل بنادیا ہے۔سائنس کے اِن نئے نظریات نے مابعد الطبیعات اور طبیعات کے مابین ایک ہم آہنگی پیدا کردی ہے ۔‘‘ (4)

حنیف اسعدی کاایک شعر اِسی موضوع سے متعلق ہے ۔

سوچیں توروحِ عصر کے ادراک کے بغیر

معراج کیسے آئے کسی کے گمان میں

(حنیف اسعدی)

یہ شعر پہلے بھی کئی بار پڑھا تھا۔ عقیدت ومحبت کے جذبات دِل پر اثر انداز ہوئے لیکن سچ پوچھیں توشعر کی گرہیں کُھل نہ پائیں ۔مابعد جدید یت کے نظریے اور طبیعاتی سائنس کی دریافتوں کے باعث ’’روحِ عصر کاادراک‘‘ ہواتو معلوم ہواکہ وقت کی حیثیت اِس کائنات میں مستقل نہیں ۔ زمان ومکان ایک خاص طرح کے جبر میں رہتے ہوئے بھی آزاد ہیں ۔حال موجود میں رہتے ہوئے بھی پیچھے ماضی کی جانب اور آگے مستقبل کی طرف اللہ کے حکم سے ہاتھ بڑھا سکتا ہے ۔

انسان کی عظمت کے حوالے سے اقبال یوں رقمطراز ہیں ۔

عجب نہیں کہ خداتک تری رسائی ہو

تِری نگہہ سے ہے پوشیدہ آدمی کامقام

شکیب جلالی نے شاید ایسے کسی لمحے کی آزادی کو محسوس کرتے ہوئے کہا تھا۔

فصیلِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

حدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

(شکیب جلالی)

لیکن شکیب کاتجربہ ایک عام آدمی کا تجربہ تھا اِس لیے شعر میں ’’تازہ لہو کے چھینٹے ‘‘ کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ حدودِ وقت سے آگے نکلنے کاعمل اللہ کی مدد سے انبیاء کرام یااللہ کے برگزیدہ بندوں کے لیے تو روا ہوسکتا ہے لیکن اِس تجربے سے کسی دوسرے انسان کا گزرنا نا ممکن ہے ۔

واقعہ معراج کو مابعد الطبیعاتی سطح پر سمجھنے کے لیے پھر اقبال کی جانب رجوع کرنا پڑے گا۔

عِشق کی اِک جست نے طے کردیا قصہ تمام

اِس زمین وآسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں

(اقبال)

اقبال کایہ شعر کائنات کی وسعت اور پھیلاؤ کوعظمت انسان کے تناظر میں دیکھتے ہوئے ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اللہ کے برگزیدہ بندوں کے ایک قدم کافاصلہ کبھی کائنات کے پھیلاؤ سے زیادہ ہے ۔ اگر اللہ کی مدد سے سرورِ کائنات حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کاایک غلام محمد اقبال ؔ کے عشق کاایک قدم زمین وآسماں کی وسعتوں کو چھو سکتا ہے تو پھرامام الانبیاء کااللہ کے حکم سے آسمانوں کی سیر اور رب سے ملاقات عین برحق بھی ہے ۔اورامّت کے لیے رب کا انعام بھی ۔اللہ کی اپنے محبوب سے محبت کایہ عالم کہ جہاں وقت کوموجود اور ماوراء کے درمیان معلق کردیاجائے اورزمان ومکاں کوکائناتی نظم وضبط سے آزاد کردیا جائے صرف واقعہ معراج میں ہی نظر آتا ہے ۔ وقت کی رفتار کواللہ تعالیٰ کی جانب سے روکنا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ا ورامت نبی اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے لیے ایک تحفہ تھا جو ہمیں رب کریم کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کا پیغام بھی دیتا ہے اور اِس پر غور وفکر کی دعوت بھی۔

مابعد جدیدیت زمانے کی سیاسی ،سماجی ،ثقافتی ،علمی ،نظریاتی اورادبی کروٹوں کو اپنے عہد کے تناظر میں دیکھنے کاعمل ہے۔اردو نعت نگاری کارشتہ جہاں برصغیر کی مٹی سے ہے وہیں عرب کی سرزمین سے بھی ہے۔ برصغیر کی ثقافت اورزبان کارچاؤ جتنا امام احمد رضا خان بریلوی ؒ کے ہاں نظرآتا ہے شاید ہی کسی شاعر کے ہاں فنی سطح پر یہ رچاؤ موجود ہو۔

آفاقی شاعری کی ایک خاص خوبی اُس کاعلامتی پیرایہ ہوتی ہے ۔شاعری میں وسعت پیدا ہی اُس وقت ہوتی ہے جب شاعر شعوری سطح پرعلامت کوتہذیبی عنصر کے طور پر برتے ۔مابعد جدیدیت جس آفاقیت اور وسعت کی بات کرتی ہے وہ شاعری میں علامت کے موضوع کے ساتھ ہم آہنگ ہونے سے حاصل ہوتی ہے ۔

غالب کاایک شعر ہے ۔

سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو وصنوبر

تواِس قدِ دلکش سے جو بازار میں آوے <Ref> مضمون نگار نے شعر میں "بازار" کا قافیہ رکھا ہے ۔ جب کہ نوجوان محقق عمر فاروق وڑائچ کے مطابق اس شعر میں "بازار" کی جگہ "گلزار" کا لفظ آئے گا۔ تفصیل اس لنک پر ملاحظہ کریں ۔ سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو وصنوبر ۔ پر ایک تحقیق ۔ عمر فاروق وڑائچ </ref>

(غالب)

استادِ محترم جناب ڈاکٹر عبدالعزیز ساحرؔ ( محترم ڈاکٹر عبد العزیز ساحر ہیڈ آف اردو ڈیپاٹمنٹ (AIOU)اسلام آباد) نے دورانِ گفتگو اِس شعر کے علامتی اظہار کوایک نئے زاویے سے دیکھا ۔انہوں نے فرمایا کہ غزل کے اِس شعر میں دنیاوی محبوب کاذکر نہیں کیا بلکہ یہ محبوب ،محبوب خدا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے ۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ حضرت عمرفاروقؓ کی طویل قامت کے باعث سرو کی علامت اُنؓ سے منسوب ہے جبکہ صنوبر مناسب قامت کے باعث حضرت علیؓ کی شخصیت کی علامت ہے اور شعر کی تشریح ایک منظر پر مبنی ہے جب نبی اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اپنے ظاہری جمال کے ساتھ بازار مدینہ میں تشریف لاتے توحضرت عمرفاروقؓ اورحضرت علی المرتضیٰؓ اُن کے ساتھ ساتھ چلا کرتے تھے ۔ اب علامتی اظہار کی معنی کے لحاظ سے تہہ داری ہمیں اِس شعر کی بُنت میں نظر آرہی ہے۔

علامتی اظہار کے ساتھ ساتھ شاعر کوتاریخی تناظرات سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے ۔ شاعری ایسا فن ہے جسے علم سے جلا ملتی ہے ۔نعتیہ شاعری میں تاریخی حقائق کادرست صورت میں آنا ضروری ہے ۔ تلمیحات کادرست اور بر محل استعمال شعر کی قدر متعین کرنے کاباعث بنتا ہے ۔ تلمیحات کے حوالے سے اردو شاعری سے کچھ مثالیں ذہن میں آتی ہیں ۔

آرہی ہے چاہِ یوسف سے صدا

دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

(حالیؔ)

لازم نہیں کہ سب کو ملے ایک سا جواب

آؤ ناہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی

( غالبؔ )

شہاں کہ کہلِ جواہر تھی خاکِ پاجن کی

انہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں

( میرؔ )

باغِ بہشت سے مجھے اذنِ سفر دیاتھا کیوں

کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر

( اقبالؔ )

تلمیح اشعار میں کسی تاریخی واقعے ،مقام یاشخصیت کی جانب اشارہ ہوتا ہے ۔ تلمیح کا درست استعمال پورے منظر ،مقام یاشخصیت کی تصویر آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے ۔حالیؔ کے شعر میں حضرت یوسف علیہ السلام کواُن کے بھائیوں کی جانب سے کنوئیں میں دھکا دینے کے واقعے کاذکر ہے ۔ غالبؔ کے شعر میں حضرت موسیٰ ؑ کے پہاڑ پرخدا کی تجلّی کودیکھنے اور پھر اُس نور کی شدت سے پہاڑ کے جل جانے کاذکر ہے ۔ میرؔ کے شعر میں مغل عہد کے آخری حصے میں فرخ سئیر نامی بادشاہ کو تخت کے امید واروں کی جانب سے اندھا کردینے کاذکر ہے جبکہ اقبال کے شعر میں آدم کاخلا سے نکلنے اور دنیا میں آنے کی قرانی کہانی کا ذکر ہے۔اِسی حوالے سے غالب کاایک شعر یادآتا ہے ۔

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن

بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے

( غالبؔ )

نعت نگاری میں تلمیحات کااستعمال بہت زیادہ ہے ۔تاریخی واقعات کے حوالے سے اقبالؔ کا تنقیدی شعور بہت بلند تھا۔ اقبال کے ہاں مکمل عنوان کے ساتھ نعت کم کم ہی ملتی ہے لیکن

لوح بھی تُو قلم بھی تُو تیرا وجود الکتاب <ref> لوح بھی تُو قلم بھی تُو تیرا وجود الکتاب ۔ مکمل کلام </ref>

گنبدِ آبگینہ رنگ تیرنے محیط میں جناب

جیسے اشعار اُس کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمسے محبت کاثبوت دیتے ہیں وہاں اُس کے تاریخ ،ثقافت اورزبان پر عبور کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں ۔

اِسی نعت میں وہ کہتے ہیں:

شوکتِ سنجر وسلیم تیرے جلال کی نمود

فقرِ جنید بایزید تیرا جمالِ بے نقاب

نعت کے اِس شعر میں خلافتِ عثمانیہ کے بادشاہوں کے جلال کومثال بناتے ہوئے جمال اور محبت کے پیکر صوفیائے کرام حضرت جنید بغدادیؒ اورحضرت بایزید بسطامیؒ کی زندگی اور فلسف ۂحیات کے ساتھ ساتھ اُن بزرگانِ دین کی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے محبت کوبھی موضوع بنایاگیا ہے تلمیح کی یہ ایک خوبصورت مثال ہے ۔ اقبال کی اِس نعت پر بات کی جائے تو اقبال اِس نعت میں پرشکوہ الفاظ اور پر جلال ماحول کے ذریعے ایک ایسا افق بنانے میں کامیاب ہوئے جہاں جلال اور جمال کے ملنے کاخوبصورت منظر پیدا ہوتا ہے اسی نعت میں وہ آگے کہتے ہیں:

شوق اگر نہ ہو میری نماز کاامام

میراقیام بھی حجاب میرے سجود بھی حجاب

محبت اتنی شدت کے ساتھ اقبال کے ہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے لیے خصوصی طور پر جلوہ گرنظر آتی ہے اِس پوری نعت میں جلال اور بزرگی کاعنصر کچھ اِس طرح چھایا ہوا نظر آتا ہے کہ اِسے سنتے یاپڑھتے ہوئے گنبدِ خضریٰ کی سر سبز چھاؤں اور سنہری جالیوں کی روشنی آنکھوں میں پھرنے لگتی ہے ۔بچپن میں یعنی آج سے پچیس تیس سال قبل اِس کلام کو PTVپر محترمہ منیبہ شیخ کی زبانی سنا تھا ۔ پھر کئی نعت خوان خواتین و حضرات نے اِسے پڑھا لیکن کلام کے جلال وجمال کوجس طرح محترمہ نے اپنے ترنم سے زبان دی وہ انہی کاخاصہ ہے ۔ میں اِس کلام کی اتنی خوبصورت اور پر تاثیر ادائیگی پرمحترمہ کے لیے دعاگو ہوں ۔

UTube (یوٹیوب)کی وساطت سے اِس کلام کو میں نے مکرر سنا اوراسی لطف کوپایا جو ہزار ہا دنوں کی گہرائی میں کہیں کھو گیاتھا۔

انہی نعتیہ اشعارمیں آگے چل کراقبال کہتے ہیں:

عالمِ آب وخاک میں تیرے ظہور سے فروغ

زرۂ ریگ کودیا تُونے طلوعِ آفتاب

تاریخی حقائق کاشاعرانہ زبان میں بیان فکری گہرائی کے ساتھ کچھ آسان کام نہیں ۔اقبال کے ہاں لسانی سطح پر اپنے دور کے دوسرے ہم عصر شعراء سے ایک مختلف تجربہ ملتا ہے ۔اُن کی شاعری کی فنی سطح پر بلندی لفظ کاعلامت کی سطح پراستعمال ہونا ہے ۔لفظ اپنی ہیئت بدلتا ہے اورسات رنگوں کے نگینے میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ اِس نعتیہ شعر کاپہلا مصرع لفظوں کی اِسی ہمہ جہتی کی مثال ہے ۔ ’’عالم آب وخاک‘‘ کو نبی اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی آمد سے حاصل ہونے والی سر بلندی اپنے پورے جلال وجمال کے ساتھ منعکس ہوتی نظرآتی ہے اور سچ پوچھیں تودل پراثر کرتی ہے ۔ جمال محمدیصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اور جلالِ الٰہی کی مثال شاید ہی اردو نعت میں کہیں نظر آئے ۔

آخری شعر میں اقبال عقل اور عشق کا موازنہ نعت کے تناظر میں کچھ یوں کرتے ہیں ۔

تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پاگئے

عقل غیاب و جستجو ،عشق حضور و اضطراب

اقبال کے ہاں فکری سطح پرایک خاص طرح کاتوازن دکھائی دیتا ہے جسے وہ مومن کی شان بھی کہتے ہیں ۔ اقبال کے ہاں دو طرح کے فلسفے اُن کی پوری شاعری اور نثر میں دکھائی دیتے ہیں ۔

فلسفۂ عشق[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اِس فلسفے کاتعلق مومن کی فکری زندگی سے ہے ۔ خودی اوربے خودی اِسی فلسفے سے نکلنے والی وہ ندیاں ہیں جنہوں نے عالم اسلام کو سیراب کیا ۔ اسی فلسفۂ عشق کی بنیاد وہ عشقِ رسولصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کوقرار دیتے ہیں۔ ساقیؔ (حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم) سے کچھ یوں مخاطب ہوتے ہیں ۔

تُو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ

تیرے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقیؔ

(اقباؔ ل)

فلسفۂ تحرک[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اقبال کے ہاں دوسرا اہم فلسفہ‘ تحرک کاہے ۔ اِس کاتعلق مومن کی جسمانی زندگی سے ہے۔فکر یانظر یے پرعمل درامد اِسی فلسفۂ تحرک کا مرہونِ منت ہوتا ہے ۔

اِسی فلسفے کے تحت وہ ایک ایسے اسلامی معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں جہاں عدل انصاف اور محبت ہرانسان تک پہنچنی تھی ۔۔۔ پاکستان کو اِسی فلسفے کی عملی تصویر بنناتھا لیکن ۔۔۔

نعت مبارک میں تلمیحات کی چند مثالیں دیکھیں

اورنگ سلیماں کے لیے رشک کا باعث

اے سید کونین ترے در کی چٹائی

(میاں اویس مظہر)

ستم ترکِ وطن کے جوسہے سب بھول جاتے ہیں

ہمیں یادآتی ہے مکے سے جب ہجرت محمد کی

(بیدل جونپوری)

قدموں کے کچھ نشان تھے صحرا کی ریت پر

قربان دو جہان تھے صحرا کی ریت پر

ہجرت کاآٹھ دن کاسفر ،راستہ طویل

وہ صبر کی چٹان تھے صحرا کی ریت پر

(کاشف عرفان)

دستِ کرم سے تھم گئیں منبر کی سسکیاں

دیکھا شجر نے آگئی رفتار پاؤں میں

(اشفاق انجم)

مابعد جدیدیت ایک متن پر دوسرے متن کے تخلیق کے رجحان کواہمیت دیتی ہے ۔نعت نگاری میں ایک متن کے حوالے سے متن میں دوسرے تخلیقی رجحان کو علامت نگاری کے حوالے سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ شاعری میں علامت تخلیقی بنیادوں پرآتی ہے لہٰذا لفظ ہمہ جہت ہوجاتا ہے اوراُس کے کئی معنی لیے جاسکتے ہیں ۔

اِس حوالے سے ڈاکٹر گوہر نوشاہی کی رائے بڑی دلچسپ ہے ۔

’’میرے نزدیک اِ س سے بڑی جہالت اور کوئی نہیں کہ کوئی شخص تخلیقی لفظ کی تلاش لغت کی کتاب میں کرے ۔لُغت کی کتاب میں اِس لفظ کاجو کسی تخلیقی فن پارے میں آتا ہے صرف ڈھانچہ ہوتاہے ۔اُس کی پوری ذات نہیں ہوتی۔‘‘(5)

آفاقی شاعری میں لفظ منشور یا Prism(ایک کلون شیشے کاٹکڑا جس میں سے گزرکر روشنی سات رنگوں میں تقسیم ہوتی ہے )سے نظرآنے والے رنگوں کی طرح نظرآتا ہے منشور میں روشنی کی شعاع ایک طرف سے داخل ہوتی ہے اور ودسری طرف سے سات رنگوں میں تقسیم ہوکر باہردیکھنے والی آنکھ کونظر آتی ہے ۔بڑی علامتی شاعری میں لفظ معنی کی کئی تہیں بناتا ہے اورشعر لفظوں کی اسی ہمہ جہتی کے باعث آفاقیت اور کلاسیکی درجہ حاصل کرلیتا ہے ۔یادرہے کہ علامت تشبیہ اوراستعارہ سے مختلف ہے ۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کے الفاظ میں علامت کی تعریف دیکھتے ہیں ۔

’’علامت مخفی تصورات کے وسیع ترین نظام کی مجمل ترین شکل ہے ۔یہ بھی دراصل تشبیہ کے خاندان سے ہے اور کسی نہ کسی جہت سے مشابہت کارابطہ اس میں کارفرما ہوتا ہے ۔‘‘ (6)

علامت ایک واضح وجود ہے جو لفظوں میں اپنی معنویت پوشیدہ رکھتا ہے ۔علامت لفظوں میں پوشیدہ ہونے کے باوجود اِس کی شناخت صرف لغت سے ممکن نہیں بلکہ لفظ یااصطلاح کو معنوی پس منظر ، ماحول (جہاں یہ لفظ استعمال ہوا) اورتاریخی تناظر میں شناخت کیاجاتا ہے ۔غزل میں علامت کے استعمال کی کچھ مثالیں دیکھیں ۔

خموش ہوں تو مجھے اتنا کم جواز نہ جان

مرے بیان سے باہر بھی ہیں سبب میرے

(جمالِ احسانی)

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اِس کارگہ شیشہ گری کا

(میرؔ )

آواز دے رہے ہیں درِ دل پہ وسوسے

ہرگام ایک کوہِ ندا ہے ہمارے ساتھ

(سجاد باقر رضوی)

ملی ہے اِس لیے خلعت کہ میں نے زیرِ عبا

چلاتھا گھر سے توشمشیر بھی پہن لی تھی

(محمد اظہار الحق)

اردو نعت نگاری میں علامت کاگہرا اور تہذیب میں گُندھا ہوا استعمال خال خال ہی نظرآتا ہے ۔اِس کی بنیادی وجہ شعراء کی تن آسانی اور سامع کی آسان پسندی ہے ۔ نعت خوانی میں ایسے کلام کا چناؤ جس کی شاعرانہ حیثیت مُسّلم نہ ہو عوامی مزاج کے بگاڑ کاسبب بنا پھراردو غزل کابڑا شاعر نعت کی جانب آنے میں ہچکچا ہٹ محسوس کرتا رہا۔ ان سب وجوہات کے باوجود ایسا نہیں کہ اردو نعت میں بڑی علامتی شاعری بالکل ہی نہیں ہوئی ۔اردو نعت نگاری میں علامت کے استعمال کی چند مثالیں دیکھیں ۔

سیرت ہے تری جوہرِ آئینۂ تہذیب

روشن ترے جلوؤں سے جہانِ دل ودید ہ

(حفیظ تائب)

فروغِ جاں بھی وہاں ہے ،فراغِ خاطر بھی

جہاں جہاں بھی تری روشنی کاہالہ ہے

(انورمسعودؔ )

لیل ونہار آپ کے در کے طواف میں

لوح وقلم ہے آپ کی مدحت کاآئینہ

(محمداقبالؔ نجمی)

میں اُسی روز سے منسوب تری ذات سے ہوں

جب کہ جبریلِ امیں بھی ترا دربان نہ تھا

(حافظ مظہر الدینؒ )

اردو نعت نگاری میں مابعد جدیدیت سے متعلق جو موضوعات وقتاً فوقتاً شامل ہوتے رہے وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

  • حسنِ اذلی کا ادراک اور بیان
  • انسان دوستی
  • آفاقیت اور وسعت کائنات کے تناظر میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی سیرت کابیان
  • سیرتِ مصطفیصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے تناظر میں تہذیبی عناصر کی دریافت
  • سیرتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حوالے سے جدید عہد میں مسلمان ذہن پرپڑنے والے (Complexity) پیچیدگی کے اثرات۔

سیرت پاک سے تمام انسانوں کو انسان دوستی کاجو عالم گیر پیغام ملتا ہے اُس پربات کی جانی ضروری ہے ۔ اردو نعت نگاری میں مختلف شعراء کرام اس موضوع پرکام کررہے ہیں تاہم ابھی بہت ساکام کیاجانا باقی ہے ۔(آج 2014 میں اسلام پراٹھنے والے سوالات کے جوابات دینے کے لیے انسان دوستی کے پہلو پر لکھنا ہم تنقید نگاروں اور شعراء پر لازم ہوجاتا ہے) انسان دوستی کے حوالے سے فتح مکہ کادن انسانی تاریخ میں ہمیشہ یادرکھا جانے والا ہے جب حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے اپنے تمام دشمنوں کومعاف کردیا ۔

رحمۃًللعالمین سرکاردوعالمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے ابوسفیان جیسے واضح اور کھلے دشمن کونہ صرف معاف کردیا بلکہ ان کے گھر کو جائے امن بھی قرار دیا ۔ انسانی تاریخ میں شاید ہی ایسا کہیں ہوا ہوکہ اپنی بیٹی اور چچا کے قاتلوں کوبھی اللہ کی رضا کی خاطر انسانی بنیادوں پرعام معافی دی گئی ہو۔ فتحِ مکہ کے حوالے سے مجھے اپنے چار مصرعے یاد آتے ہیں ۔

اک عہد تھا چٹائی سے آدھی کھجور تک

پہنچے حضور کیسے مقاماتِ نور تک

مکہ کی فتح دین کا رخشندہ باب ہے

بخشے گئے تھے قتلِ عمد کے قصور تک

(کاشف عرفان)

اکیسویں صدی کے آغاز میں نائن الیون (11/9)نے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے مسائل کے انبار لگا دیے ۔دنیا تہذیبی ٹکراؤ کے دہانے تک پہنچ چکی ہے ۔آج خصوصاً عراق شام افغانستان ،ایران اور پاکستان کے مسلمان عیسائی دنیا کی نفرت کاشکار ہیں اُس پرزیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ مسلمان متحد نہیں ہیں۔فرقہ بندی اور مسالک کی جنگ نے ہمیں تنہا کردیا ہے ۔چھوٹے چھوٹے گروہوں نے استعماریت کے خلاف اپنی اپنی جنگ شروع کردی ہے ۔ دین کی جس شکل کوجس نے پسند کیااُس پر نہ صرف خود عمل شروع کردیا بلکہ ساتھ ہی بزورِ بازو وہتھیار دوسرے کوبھی اِسی شکل پر عمل کرنے پر مجبور کیا یوں ہم مسلمان نفرتوں کے ایک ایسے جنگل میں گم ہوگئے ہیں جہاں سے ہمیں صرف سیرتِ محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی نکال سکتی ہے اِسی حوالے سے صبیح رحمانی کی ایک نعتیہ نظم دیکھیے ۔

(نعتیہ نظم)

اے نویدِ مسیحا دعائے خلیل

نفرتوں کے گھنے جنگل میں شہا

عہدِ حاضر کاانسان محصور ہے

مشعلِ علم واخلاق سے دور ہے

کتنا مجبور ہے

اے نویدِؐ مسیحا

دعائےؐ خلیل

روک دے نفرتوں کی جو یلغار کو

پختگی ایسی دیں میرے کردار کو

آپؐ کا لطف و رحمت تو مشہور ہے

(صبیح رحمانی)

انسان دوستی کے عناصر کا نعت میں شامل ہونا شعراء سے بہت سے مطالعے اور ریاضت کامتقاضی ہے ۔ سیرتِ پاک کا مطالعہ اورآپصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی زندگی کے اُن گوشوں کواردو نعت کاحصہ بنانا اورلوگوں تک پہنچانا نہایت ضروری ہے جہاں ابھی شعراء کی نظر نہیں پہنچی۔ نعت کے شاعر کاتخیّل بلند ہونے کے باوجود ادھر اُدھر بھٹکتا ہوا نہیں ہونا چاہیے نعت نگار جتنا Focused(متوجہ موضوع) ہوگا اُس کے لیے اچھی نعت کہنا آسان ہوگا ۔ عمومی شاعری اور نعتیہ شاعری میں فرق کے حوالے سے عزیز احسن کہتے ہیں ۔

’’نعت کی زبان فصاحت ،بیان ،متانت، اظہارِ ادراکِ رسالت اور تفہیمِ کارِ نبوت کانمائندہ ہوا ور مقصدِ اظہار‘ ترویجِ منشا ئے رب العزت ،تبلیغِ دینِ متین اوردفاعِ ناموسِ رسالت ٹہرے اور مجموعی تاثر اتبائے محبوب رب العالمین کے جذبوں کو بیدار کرنے والا ہو۔‘‘ (7)

زبان وبیان میں پاکیزگی کاتعلق جہاں عقیدت واحترام سے ہے وہاں فکری گہرائی علمی سر بلندی سے نصیب ہوتی ہے ۔مطالعہ اور مسلسل مطالعہ ہی سے انسانی ذہن کو وہ بالیدگی حاصل ہوتی ہے جو بڑی شاعری کی بنیاد بنتی ہے ۔یہ عمومی اصول نعت نگاری میں بھی کارفرما ہے ۔نعت کے شاعر کے لیے قرآنِ حکیم اور سیرت پاک صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا مطالعہ از حدضروری ہے ۔

اب آخر میں صرف ایک نکتے پربات کرنا چاہوں گا جس کی ضرورت آج کے تناظر میں پہلے سے کہیں زیادہ ہے ۔وہ ہے ترجمہ نگاری کی روایت ۔اردو کے نعتیہ ادب کواگر دنیا کے دوسرے لوگوں تک پہنچانا ہے تو ہمیں اپنی نعتیہ شاعری اور نعتیہ تنقید کواردو سے انگریزی کے قالب میں ڈھالنا ہوگا۔ علوم کے پھیلانے میں ترجمہ ہردور میں اہم رہا ہے ۔عرب میں قدیم مصر‘ روم اورایران (فارس) کی کتب ترجمہ ہوئیں تواہل عرب زبان اور فکر کی بلندی تک پہنچے ۔نعت ریسرچ سنٹر نے اِس روایت کاآغاز کیاہے جس کے لیے میں صبیح رحمانی اور ان کے احباب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اوراُن سے ایسے کسی عمل میں جس سے قرآن اور سیرت کاعلم دنیاکے کونے کونے میں پہنچے ،خود کو شامل کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔



حوالہ جات وکتابیات:[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱)مضمون ’’روایت اور نئی تخلیق ‘‘ ،ٹی ایس ایلیٹ، (مترجم) صدیق کلیم ،نئی تنقید ،نیشنل بک فاونڈیشن اسلام آباد، ۲۰۰۷ء

۲)مضمون ’’جدیدیت اور مابعد جدیدیت ‘‘ ،مشمولہ معنی اور تناظر ،ڈاکٹر وزیرآغا،مکتبہ نرد بان سرگودھا ،دسمبر۱۹۹۸ء

۳)اردو فکشن میں وقت کاتصور ،ڈاکٹر ناہید قمر ،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ۲۰۰۸ء

۴)وقت کی ماہیت کے حوالے سے سائنسی معلومات طبیعات (Physics) کے حوالے سے Website سے لی گئیں ۔

۵)مضمون ’’تخلیقی صلاحیت ‘‘،مضمون نگار: ڈاکٹر گوہر نوشاہی، مطبوعہ ،نئی شاعری ( مُرّتبہ افتخار جالب ) نئی مطبوعات لاہور،۱۹۶۶ء

۶)اردو افسانے میں علامت نگاری ،ڈاکٹر اعجاز راہی ،ریز پبلی کیشنز، مری روڈ راولپنڈی ،دسمبر ۲۰۰۲ء

۷)نعت کی تخلیقی سچائیاں ،ڈاکٹر عزیز احسن،نعت ریسرچ سنٹر کراچی ،مارچ ۲۰۰۳ء

اِس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل رسائل اور کتب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے ۔

۱)کلیات اقبال ،علامہ محمداقبال ،شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، س۔ن ۔

۲)اردو غزل ،نئی تشکیل ،طارق ہاشمی ،نیشنل بک فانڈیشن اسلام آباد ۲۰۰۸ء

۳)نعت رنگ شمارہ ۲۳ ،مرتب صبیح رحمانی ،نعت ریسرچ سنٹر کراچی

۴)نعت رنگ شمارہ ۲۴،مرتّب صبیح رحمانی ،نعت ریسرچ سنٹر کراچی

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت

نعت رنگ ۔شمارہ نمبر 25


حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]