’’شمع ہدیٰ ‘‘ پر ایک نظر - ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

مضمون نگار: ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی( کرناٹک )

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

’’شمع ہُدیٰ‘‘پر ایک نظر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حافظ ؔکرناٹکی کی ساٹھ کتابوں میں’’ شمع ہدیٰ‘‘ آٹھویں کتاب ہے لیکن یہ کتاب اپنے موضوع کے اختصاص کی وجہ سے جداگانہ اہمیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب بچوں کے لیے لکھی گئی نعتیہ شاعری کا خوبصورت مجموعہ ہے۔یاد رہے کہ حافظ ؔکرناٹکی کی اب تک پانچ نعتیہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ جن میں بشمول شمع ہدیٰ، شان مدینہ، اللہم صلّی، اللہم بارک، اوریادِ نبی ﷺ شامل ہیں۔ جب کہ ان کی نعتیں کہنے کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔

اردو زبان وادب میں نعتیں لکھنے کی روایت بہت قدیم ہے۔ نعت، قصیدہ اور مناجات وحمد، وہ اصنافِ شاعری ہیں جسے عموماً شعراء کرام اپنی عاقبت سنوارنے اور اپنے خدا اور رسول سے محبت کے اظہار کے لئے تبرکاً اپنایا کرتے ہیں۔ دعا بھی اسی کی ایک شکل ہے جس میں بندہ اپنے معبود کے حضور اپنی آرزوئوں اور تمنائوں کے حصول کی فریاد کرتا ہے۔ یہ تمام اصنافِ سخن مذہب و ملّت اور تہذیبی روایات کی تکمیل کا حصہ ہیں۔ ان اصناف سخن پر طبع آزمائی کرکے بچوں کے لئے نظمیں لکھنے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ بچے اپنے رب اور اپنے نبی ﷺ سے محبت وقربت کا رشتہ استوار کرنے کا سلیقہ سیکھیں نیز خدا کی صفات سے آگاہی حاصل کریں۔ ان کی لامحدود نعمتوں اور ان کی قدرت وعظمت کو محسوس کریں۔ نعتیں بھی اسی مقصد سے لکھی جاتی ہیں تاکہ بچے نبی اکرم ﷺ سے محبت کا اقرار کریں۔ اور ان کے اسوۂ حسنہ کو اپنائیں۔

حافظؔ کرناٹکی کے تمام مجموعہ ہائے کلام میں حمد ونعت کا خاص التزام رکھا گیا ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے الگ سے ایک نعتیہ مجموعۂ کلام پیش کرکے بچوں کے ذہن میں یکسوئی کے ساتھ نبی ﷺ کی محبت کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ حافظ ؔکرناٹکی صاحب ان خوش نصیب انسانوں میں سے ایک ہیں جنہیں بار بار روضۂ اقدس ﷺ کی زیارت کی سعادت حاص ہوتی رہتی ہے۔ یہ مکہ و مدینہ کی زیارت اور روضۂ اقدس ﷺ پر حاضری ہی کی برکت ہے کہ ان کے یہاں نعتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلا آرہا ہے۔ وہ عموماً روضۂ اقدس ﷺ کے سامنے بیٹھ کر نعتیں لکھتے ہیں وہ بھی بچوں والی معصومیت کے ساتھ۔ ان کی نعتوں میں جہاں روحانی تاب پائی جاتی ہے وہیں ان کی نعتوں میں بچوں کا اشتیاق آمیز جوش اور محبت بھی موجیں مارتا نظر آتاہے۔

صنفی اعتبار سے نعت زیادہ مشکل فن نہیں ہے مگر ایمان واعتقاد کی صالحیت کے اعتبار سے فنِ نعت گوئی ایک مشکل ترین صنفِ سخن ہے۔نعت گوئی کا فن تنے ہوئے رسّے پر چلنے کا فن ہے۔ اس فن میں ذرا بھی توازن بگڑتا ہے تو شاعر شرک کے قریب پہنچ جاتا ہے اور ایمان کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح شاعر جب تمام تر احتیاط کو نظر میں رکھ کر پھونک پھونک کرنعتیں لکھتا ہے تو اس کی اثر آفرینی مجروح ہوجاتی ہے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

نعت عموماً عشقِ نبی ﷺ کے جذبات سے سرشار ہوکر لکھی جاتی ہے۔ عشق ایسا جذبہ ہوتا ہے جو بے خودی کی حدوں کو چھولیتا ہے ایسے میں اگر نعت کہنے والے شاعر کی بہترین فکری تربیت نہیں ہوئی ہوتو وہ بے خودی میں اتنا آگے نکل جاتا ہے کہ خدا اورسول ﷺکے درمیان کا فاصلہ مٹ جاتا ہے۔ اس طرح عبدیت اور معبودیت خلط ملط ہو کر فسادِ ایمان واعتقاد کا سبب بن جاتا ہے جس سے فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہوجاتا ہے اور جب بہت احتیاط سے نعتیں لکھی جاتی ہیں تو جذبۂ محبت کی بے ساختگی مجروح ہوجاتی ہے۔ اس میں وہ روانی، شدّت اور اثر آفرینی نہیں پیدا ہوپاتی ہے جو بے ساختگی اور وارفتگی عشق کا خاصہ ہے۔ اس لیے نعت لکھنے میں وہی لوگ کامیاب ہوپاتے ہیں جن کا ایمان واعتقاد پختہ ہوتا ہے۔ جس کی ظاہری و باطنی تربیت اسلامی اصول وعقائد کے مطابق ہوتی ہے۔

حافظؔ کرناٹکی کی نعتوں کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ا ن کا باطن بھی تربیت یافتہ ہے اور ان کا ایمان واعتقاد بھی پختہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ افراط وتفریط کا شکار ہونے سے بچ گئے ہیں۔

چوں کہ انہوں نے نعتوں کا یہ مجموعہ بچوں کے لئے ترتیب دیا ہے اس لیے نعتوں میں بھی بڑے ہلکے اور سبک الفاظ کااستعمال کیا ہے۔ تمام نعتیں اپنی سادگی اور جذبات کی صداقت کی وجہ سے پر اثر ہوگئی ہیں۔ نعتوں کی زبان اتنی آسان ہے کہ یہ نعتیں بڑی آسانی سے بچوں کی زبان پر چڑھ جاتی ہیں اور بچے ہنسی خوشی اسے لحن میں گانے لگتے ہیں۔ ان نعتوں میں مدحِ رسول ﷺ کے علاوہ حضور ﷺ کی زندگی سے تعلق رکھنے والے بعض اہم واقعات کا عکس بھی جابجا بکھرا پڑا ہے۔ جس سے بچوں کو سیرتِ مصطفی ﷺ سے متعلق واقعات کا علم بھی بخوبی ہوجاتا ہے۔ حافظ ؔکرناٹکی کی نعتوں کے بارے میں زیادہ کچھ کہنے سے بہتر یہ ہوگا کہ ان کی نعتوں کے بعض اشعار اور بعض حصوں کے مطالعہ ہی سے حظ اٹھایا جائے اور اپنے دل کو مدحِ رسولِ پاک کی خوشبو سے معطر کرلیا جائے پہلے حمد اور مناجات کے کچھ حصے ملاحظہ فرمائیں۔


تجھ سے گلشن میں ہے مہک اللہ

چاند تاروں کی تو چمک اللہ

تیرا پیغام ہے بہاروں میں

اور جلوہ ترا نظاروں میں

تو ہے شبنم میں اور شرارے میں

(حمد)


ان کے ہیں انداز نرالے

حق کے داعی کملی والے

کہتے ہیں نظر کی جنت ہے اے یار مدینے کی گلیاں

حسرت ہے یہی کہ میں دیکھوں ہر بار مدینے کی گلیاں

آتے ہیں فلک سے روز ملک نذرانہ لیے کچھ نعتوں کا

آتی ہیں نظر اس واسطے اب بیدار مدینے کی گلیاں

ہے گنبدِ خضریٰ پر دیکھو اک عالم نور ونکہت کا

کرتی ہیں شانِ رحمت کا دیدار مدینے کی گلیاں

نبی ﷺ کی زیارت کا ارمان ہے

تمناؤں کا دل میں طوفان ہے

ہیں نبیوں میں اعلیٰ و ارفع وہی

محمد ﷺ کی سب سے الگ شان ہے

نبی ﷺ کی فضیلت کا ہے ترجماں

جو اترا ہے ان پر وہ قرآن ہے

ہے چہرے کی چھب چاندنی کی طرح

کہ پھولوں کی مانند مسکان ہے

ہو دل میں لگن تو ملے گا نہ کیوں

محمد ﷺ کے ذریعے خدا کا پتا

گلابوں کی خوشبو پسینے میں تھی

بہار آفریں تھی نبی ﷺ کی قبا

تھے شاہ و فقیر ان کی آنکھوں میں یکساں

وہ ہوں بوہریرہ یا دولت میں عثماں

نبی ﷺ جی تھے یارو صداقت کے بانی

کتاب ایسی لائے نہیں جس کا ثانی

نبی ﷺ آپ کے عاشقوں پر کریں گی

ہمیشہ حکومت مدینے کی گلیاں

یہاں برکتوں کے کئی سائباں ہیں

زمیں کی ہے زینت مدینے کی گلیاں

محمد ﷺ کے روضے سے زینت ہے ان کو

خدا کی ہیں رحمت مدینے کی گلیاں

آپ ﷺ نے ہر تفریق مٹا دی

بغض و حسد کی آگ بجھادی

آپ ﷺ نے درس و حدت دے کر

فکر و عمل کی راہ دکھا دی

حسن خلق نبی ﷺ کا دیکھو

آپ ﷺ نے دشمن کو بھی دعا دی

دینِ مبیں کا لے کے سہارا

نور کی منزل سب کو دکھا دی

حیات محمد ﷺ بھی اک ارمغاں ہے

یہ انسانوں کی رہبری کا نشاں ہے

رسالت ہے یا کوئی شفاف درپن

صداقت کا مظہر نبی کا بیاں ہے

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

حافظؔ کرناٹکی کی نعتوں کے مطالعہ سے واضح ہے کہ انہوں نے یہاں بھی بچوں کی ذہنیت ، ان کی فہم وفراست اور ان کی معصومیت کا خاص خیال رکھا ہے۔ انہوں نے جو زبان استعمال کی ہے وہ بچوں کے مزاج سے ہم آہنگ ہے۔ ان کے یہاں الفاظ و تراکیب کی پیچیدگی معنیٰ کی راہ میں روڑے نہیں اٹکاتی ہے۔ وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں صاف ستھرے لفظوں میں کہتے ہیں۔ وہ خواہ مخواہ الفاظ میں دبازت پیدا کرکے ذہنی جمنا سٹک کا ماحول نہیں پیدا کرتے ہیں۔ وہ نعت ہو، حمد ہو یا کسی بھی قسم کی مقصدی اور موضوعاتی نظمیں وہ براہ راست موضوع کو الفاظ کے فوکس میں لاتے ہیں اور اپنا مدعا اتنی سادگی اور صفائی سے بیان کردیتے ہیں کہ پڑھنے والے تک ان کی رسائی ہوجاتی ہے۔ یہی وہ خوبی ہے جو حافظ ؔکرناٹکی کو ادب اطفال میں ایک اہم مقام عطا کرتی ہے۔

یہ درست ہے کہ اردو زبان سخت مراحل یا دور سے گزر رہی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس زبان میں کتابیں شائع نہیں ہورہی ہیں۔ خوب کتابیں شائع ہورہی ہیں لیکن کتابوں کی اس بھیڑ میں ادب اطفال سے متعلق کتابوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس پر بھی ستم یہ ہے کہ بیشتر کتابیں تفریح اورتفننِ طبع کی نذر ہوجاتی ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ادبِ اطفال سے متعلق زیادہ تر کتابیں کوئی واضح مقصد نہیں رکھتی ہیں۔

ان دنوں ویسے بھی ادبِ اطفال کا سرمایہ کچھ ہلکا پھلکا محسوس ہورہا تھا۔ کچھ کتابیں شائع بھی ہورہی تھیں تو ان میں سے بیشتر اکٹر بکڑ کی نذر ہوتی جارہی تھیں۔ ادبِ اطفال کی گل پوش وادی اپنی تازگی، شگفتگی اور اپنی عطر بیزی سے کچھ محروم سی ہوتی جارہی تھی لیکن جب سے امجد حسین حافظ ؔکرناٹکی اس وادی گل پوش میں وارد ہوئے ہیں گلوں میں رنگ بھر گیا ہے۔ اس میں تازگی آگئی ہے اور اس کی مخصوص خوشبو سے وادی گل پوش معطر ہوگئی ہے۔

امجد حسین حافظ کرناٹکی کو ادب اطفال میں اس لیے انفرادیت اور ممتاز مقام حاصل ہے کہ ان کی پوری تخلیقی زندگی ایک واضح اور صالح مقصد سے عبارت ہے۔ ان کے دل میں اپنی ملّی شناخت کا جذبہ اس طرح موجزن ہے کہ ان کی ہر تحریر و تقریر اور ان کا ہر عمل ملّی تشخص کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب کی پاکیزہ روایات اور تعلیم و تربیت کے جہان کا مشعل صفت پاسبان بن جاتا ہے۔ ان کے اندر قوم کے بچوں کی آئندہ زندگی کی تعمیر و تعبیر کا ایسا زندہ جذبہ ہے کہ وہ ہرحال میں متحرک و فعال نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں ایک خاص طرح کی فعالیت اور خود اعتمادی پائی جاتی ہے جو انہیں مشکل سے مشکل حالات میں بھی انفعالیت یا احساس کم مائیگی کا شکار نہیں ہونے دیتی ہے۔ نہیں تو ادبِ اطفال سے تعلق رکھنے والے بیشتر شاعر وفن کار زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ہچکچاہٹ اور احساس کمتری کے شکار ضرور ہوجاتے ہیں کیوں کہ عموماً شاعر وفن کار ادب اطفال کو ادب لکھنے بلکہ لکھنا سیکھنے کی مکتبی تختی سمجھتے ہیں حافظؔ کرناٹکی نے ادب اطفال کو مکتبی تختی نہیں تختِ شاہی سمجھاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان سے لگ کر بیٹھنے میں تکلف نہیں وقار محسوس کرتے ہیں۔

دنیا کا ہر انسانی کام کسی نہ کسی عیب کا حامل ضرورہوتا ہے۔ اس کے باوجود ہر کام اپنے مقصد، اپنے منہاج اور اپنے دور رس نتائج کی وجہ سے بڑا، انوکھا اور ادنیٰ و اوسط کے ساتھ ساتھ عظیم بھی ہوتا ہے۔ جس کام میں مقصد کی صالحیت کا جتنا زیادہ احساس ہوتا ہے وہ کام اتنا ہی عظیم شمار کیا جاتا ہے۔ سب سے بڑی چیز کام انجام دینے والے کی نیت اوراس کا اخلاص ہوتا ہے۔ کوئی بھی کام اس لیے عظیم کام شمار نہیں ہوتا ہے کہ فی الواقع وہ کام بڑا ہوتاہے۔ کسی کام کو عظمت اس لیے ملتی ہے کہ کام کرنے والا عظیم ہوتا ہے، مخلص ہوتا ہے، اور اپنا کام پوری ایمانداری لگن اور بے لوثی سے انجام دیتا ہے۔

حافظ ؔکرناٹکی کی کتابوں میں بھی عیوب کا پایا جانا ناممکن نہیں ہے کہ یہ انسانی کام ہے۔ اس کے باوجود ان کے کاموں کو اس لیے سراہا جانا ضروری ہے کہ یہ کام قوم کے بچوں کی تعلیم وتربیت، دین کی تفہیم و توقیر بڑھانے اور آئندہ زندگی کو بہتر بنانے کے عظیم اور پاکیزہ ارادے سے انجام دیا جارہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حافظؔ کرناٹکی کی کتاب میں اتنی جاذبیت اور نورانیت پائی جاتی ہے کہ وہ ادبِ اطفال کی پگڈنڈی کو اجالنے میں پوری طرح کامیاب نظر آتی ہے۔ وہ بھی اتنی خوبصورتی ، معصومیت اور فنکاری کے ساتھ کہ شاعر اور شاعری دونوں کا ارتفاع ہوجاتا ہے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

یہ اتنی بڑی کامیابی ہے کہ ادبِ اطفال میں اپنی ساری زندگی گنوادینے کے بعد بھی شاعروں کو نہیں ملتی ہے۔ حافظ ؔکرناٹکی ادبِ اطفال کے وہ مینارۂ نور بن کر ابھر رہے ہیں جس کی روشنی آنے والی نسلوں کو منزل کا پتہ دے گی۔ حافظ کرناٹکی جس خلوص،محنت اور لگن کے ساتھ ادبِ اطفال کو مالامال کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس سے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ ایک دن یہ شاعرِ لازوال بن کر ادبِ اطفال کے جہان کا نشان بن جائے گا اور اس کے تخلیقی قدموں کی آہٹ سے ادب اطفال پر چھائی خاموشی ٹوٹ کر بکھر جائے گی اورپھر ادبِ اطفال لوگوں کی نگاہوں کا اس طرح مرکز بن جائے گا کہ اس کا دامن تمام تر لعل وگہر سے بھر جائے گا اور یہ سب کچھ ہوگا حافظؔ کرناٹکی جیسے فن کار کے مخلصانہ ایثار سے۔

وہ دن دور نہیں ہے جب حافظ ؔکرناٹکی ادب اطفال کے لیجنڈ Legendکہلائیں گے اور لوگ ان کی محنت اور کارنامے سے روشنی حاصل کرکے ادبِ اطفال کو اگلے پڑائو تک لے جانے کے لئے حافظؔ کرناٹکی کو خراجِ عقیدت پیش کریں گے۔

مزید دیکھیے =[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سانچہ:بکس مضامین

نئے صفحات