’تحدیث نعمت ۔ ریاض حسین چودھری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

ناصر زیدی کا تعارف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آج کے کالم میں ایک کتاب کے تذکرے کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوں۔ زیر تبصرہ کتاب ہے ’’تحدیثِ نعمت‘‘ اس کے مصنف ہیں ممتاز، معروف نعت گو ریاض حسین چودھری، ان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے، جو شہر اقبال و فیض ہے۔ اس شہر کی مٹی سے بڑے بڑے نابغۂ روز گار شاعر، ادیب، دانشور، ماہرینِ تعلیم اُبھرے اور بالآخر حسبِ دستور پیوندِ زمین ہوئے۔ سیالکوٹ میں چونڈہ کے مقام پر ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی1965ء میں لڑی گئی۔ سیالکوٹ کھیلوں کے سامان کے لئے اور ’’میڈیکل ایکوپمنٹ‘‘ کے لئے دُنیا بھر میں مشہور ہے، پورے پاکستان میں اِس شہر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس شہر کا ہوائی اڈہ سیالکوٹ کے کاروباری لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنا کر حکومتِ پاکستان کی عملی مدد کی۔

اِسی شہر علم و ادب و ثقافت میں بہت سے ممتاز شعراء کے ساتھ ایک ریاض حسین چودھری بھی ہیں جو نعت گوئی کے حوالے سے ممتاز ہیں کہ اُن کے گیارہ نعتیہ مجموعوں میں سے تین مجموعے وزارتِ مذہبی امور حکومتِ پاکستان سے نعت گوئی کا سیرت ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں، انہیں دو بار مجھے بھی یہ ایوارڈ دینے والوں میں شمولیت کا موقع ملا۔ ویسے تو مجموعی طور پر مَیں سیرت ایوارڈ(شاعری) کے لئے مسلسل سات آٹھ بار جج رہا۔۔۔ ریاض حسین چودھری کا معاملہ یہ ہے کہ ابھی ان کا کوئی مجموعہ پوری طرح پڑھا بھی نہیں جاتا کہ نیا آ جاتا ہے اور اسی طرح ابھی انعام یافتہ مجموعے کی تقاریبِ پذیرائی جاری ہوتی ہیں کہ نیا ایوارڈ حاصل کر لیتے ہیں، ان کے گیارہ مجموعہ ہائے نعت کے نام بالترتیب یوں ہیں۔ زَرِ معتبر۔ رزقِ ثناء۔ تمنائے حضوری۔ متاعِ قلم، کشکولِ آرزو، سلام علیک۔ خُلدِ سخن۔ غزل کاسہ بکف۔ طلوعِ فجر۔ آبروئے ما۔ زَم زمِ عشق اور اب یہ زیر نظر مجموعہ ’’تحدیثِ نعمت‘‘! ہمیں پہلے سے موجود گیارہ نعتیہ مجموعوں کے ناموں سے تو کوئی کلام نہیں، البتہ مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات۔ نیامجموعہِ نعت ’’تحدیثِ نعمت‘‘ ہے۔ دراصل اِسی نام سے ایک مشہورِ زمانہ نثری کتاب پہلے سے ادب کی سرزمین میں موجود ہے،بلکہ مسلسل قدم جمائے ہوئے ہے اور یہ ہمارے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خاں کی ’’آپ بیتی‘‘ یا ’’سرگزشت‘‘۔۔۔ ’’تحدیثِ نعمت‘‘ نام کی اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی اُردو میں نظرِ ثانی شیخ اسماعیل پانی پتی نے کی تھی اور انہوں نے ہی سر ظفر اللہ خاں کے دستخطوں کے ساتھ یہ کتاب مجھے بطور ایڈیٹر ’’ادبِ لطیف‘‘ برائے تبصرہ پہنچائی تھی۔زیر تبصرہ ’’تحدیثِ نعمت‘‘ میں شاعر نے اپنے قلب و ذہن سے جو مدحتِ نبی کے پھول کِھلائے ہیں اُن کے لئے دُعا گو بھی ہیں کہ:

مِدحت کے پھول شاخِ قلم پر کھِلے رہیں

پلکوں پہ آنسوؤں کے ستارے سجے رہیں


خدائے سخن میر تقی میر نے کبھی کہا تھا:


لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اِس کار گہہِ شیشہ گری کا


اس نازک خیال کو ریاض حسین چودھری نے نعتیہ شعر کی شکل میں ایک خواہش کے طور پر اس طرح منتقل کیا ہے:


آہستہ سانس لینے کا مجھ کو ہُنر ملے!

حرفِ ادب ہو میری صداؤں کا پیرہن


مدینہ منورہ جانے اور درِ رسول پر حاضری دینے کی سعادت کے بعد ہی اس انداز کی نعت گوئی کی سعادت حاصل کی جا سکتی ہے:


مدینے کے گلی کوچوں کی رفعت دیکھ آیا ہوں

مَیں اپنی جاگتی آنکھوں سے جنت دیکھ آیا ہوں

مدینے کی ہواؤں میں، مدینے کی فضاؤں میں

محبت ہی محبت ہی محبت دیکھ آیا ہوں


کچھ اور اشعار:


پیکر رُشد و ہدایت، پیکرِ حُسن و جمال

آپ کا حامی و ناصر ہے خدائے ذوالجلال


نعت کا ایک عجیب و غریب مطلع ہے:


دُعا فرمایئے آقا مری بگڑی بھی بن جائے!

مرے آنگن میں طیبہ کی ہوائے مُشکبُوآئے


عجیب شعر ہے عجیب انداز ہے مصرع کی نثر کی جائے تو یوں ہو گی کہ:


آقا آپ دُعا فرمایئے کہ مری بگڑی قسمت بھی بن جائے

اور میرے گھر آنگن میں طیبہ کی مُشک بُو ہوا آ جائے


یہ کس کے لئے کہا جا رہا ہے، یعنی حضورؐ حتمی مرتبت دُعا فرمائیں۔ کس سے اللہ تعالیٰ سے اور کس کے لئے؟۔۔۔ حضورؐ جو مجسم رحمت ہیں، رحمت اللعالمین ہیں، وہ خود بندے کے حق میں دُعا ہی دُعا ہیں شفا ہی شفا رحمت ہی رحمت ہیں، مَیں اگر یہ شعر کہتا تو یُوں کہتا:

کرم ہو اے مرے آقا! مری بگڑی بھی بن جائے

مرے آنگن میں طیبہ کی ہوائے مُشکبو آئے


بہرحال اپنا اپنا ہدیۂ اظہارِ عقیدت ہے:ہر گُلے را رنگ و بوئے دیگر است۔۔۔ مقصد تو بہر صُورت ’’تحدیثِ نعمت‘‘ ہی ہے!

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ریاض حسین چودھری

زرِ معتبر | رزق ِ ثنا | تمنائے حضوری | متاع ِ قلم | کشکول ِ آرزو | سلام علیک | خلد ِ سخن | غزل کاسہ بکف | طلوع ِ فجر | آبروئے ما | زم زم ِ عشق | تحدیث ِ نعمت

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نوائے وقت، 17 ستمبر ، 2013