ہر شعبہ حیات میں امکان نعت ہے

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


" ہر شعبہ حیات میں امکان ِ نعت ہے " ایسا با برکت مصرع ثابت ہوا کہ اس پر تین سو کے قریب نعتیں کہیں جا چکی ہیں ۔



اہم روابط

ایونٹ کی نعتیں

اگر کوئی نام نیلے رنگ میں ہےتو اس کا مطلب یہ ان شاعر کا تعارف "نعت کائنات" پر موجود ہے ۔ اور اس نیلے نام پر کلک کر کے دیکھا جا سکتا ہے ۔ اگر نام سرخ رنگ میں ہے تو اس پر کلک کرکے شاعر اپنا تعارفی صفحہ شروع کر سکتا ہے ۔


آصف قادری ، واہ کینٹ ، پاکستان

اللہ کے کرم سے یہ فیضانِ نعت ہے

"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"


ہر لفظ نعت کے لیے سرخم کئے ہوئے

گویا کہ حرف حرف کو ارمانِ نعت ہے


دل میں نبی کی یاد زباں پر درودِ پاک

صد شکر پاس کچھ مرے سامانِ نعت ہے


گریہ کناں حنانہ ہے ہجرِ حبیبِ میں

سوکھے ہوئے تنے کو بھی پہچانِ نعت ہے


میری زبان گنگ ہے لرزاں قلم ہے اور

لاچار فکر، سامنے میدانِ نعت ہے


وہ شخص بخشا جائے گا محشر میں بالیقیں

جس شخص کے بھی ہاتھ میں دامانِ نعت ہے


آصف ثنا کے باب میں خاموش ہی رہو

کب ہے بشر کی فکر جو شایان ِ شان ہے


ابو الحسن خاور ، لاہور ، پاکستان

کیا صرف شعر گوئی ہی شایان ِ نعت ہے

اس سے کہیں وسیع یہ میدان ِ نعت ہے


خاور نظر اٹھا بڑا ساما ن نعت ہے

ہر شعبہ ءِ حیات میں امکان ِ نعت ہے


لو لوئے ِ نعت ہے کہیں مرجان ِ نعت ہے

یہ کائنات سورہ ءِ رحمان ِ نعت ہے


پھیلی ہوئی ہیں طہ و یسیں کی نکہتیں

قرآن اس کنایے میں گل دان ِ نعت ہے


ہر نخل میں ہے گنبد ِ خضری کی سبزگی

جس سمت دیکھتا ہوں گلستان ِ نعت ہے


کیا آسماں پہ مدح سرائی نہیں ہوئی ؟

کیا کوئی حد ِ وسعت ِ دامان ِ نعت ہے؟


بے نور و خشک زار ہے جو چاند کی زمیں

اک نعت خوان پہنچے تو فاران ِ نعت ہے


جتنا ہے جس کا علم وہ اتنا خموش ہے

وہ نعت کیا لکھے جسے عرفان ِ نعت ہے


آنکھوں میں نم ہے دل کو مصلے کی آرزو

یعنی کہ دل میں اوج پہ ارمان ِ نعت ہے


صحرائے زیست میں ہیں گناہوں کی آندھیاں

ہے آسرا کوئی تو خیابان نعت ہے


یہ جو مرے گھرانے میں عشق رسول ہے

خاور یہ اور کچھ نہیں فیضان ِ نعت ہے

پرویز ساحر، ایبٹ آباد، پاکستان

یُـوں ہی تو میرا دِل نہیـں قُربانِ نعت ہے

حـاصِـل مجھے سکُــون بَہ فیضـان ِ نعت ہے


جب پیش ہو گا نامہ ِ اَعمـــــــال حَشــــر میں

کہہ دُوں گا میرے پاس یہ دیـــوان ِ نعت ہے

حســان ہوں ' وہ کعب ہوں ' اِبن ِ زُہَیـر ہوں

ہر ایکــــــــ اپنی ذات میں سُلطــان ِ نعت ہے


بار ِ الٰہ نے کِیــــــــــــا ذکــــــــــــر ِ نبی بَلند

وا اِس لئـے دریـــــــچــــہ ِ اِمـکان ِ نعت ہے


قُـــرآن اور حدیث میں مذکُــــور جــــو نہیں

ایســــی غُــلُوئیت کہــاں شـــایــان ِ نعت ہے


کچھ کم نہیں ہے یہ بھی کسی پُل صراط سے

یــہ جــو ہمــارے ســـامنے میـــدان ِ نعت ہے


یوں ہی برہنہ پا نہیـں چــــــلتا مَیـں رَیگ پر

گُل زار سے بھی بڑھ کے بِیابان ِ نعت ہے


رکھتا ہُوں پُھونکـــ پُھونکـــ کے مَیں اپنا ہر قدم

مجھ دست رَس میں جب سے قلم دان ِ نعت ہے


ہم سیرت ِ نبی کو جو لائیں بہ روئے کار

"ہر شعبہ ءِ حیات میں امکان ِ نعت ہے "


سـاحِـرؔ ! مَیں اپنی ذات کا پھر ذِکر کیوں کرُوں

جب اُن کی ذات ِ پاکـــ ہی خـود جــان ِ نعت ہے

خورشید رضوی ، لاہور، پاکستان

یہ گلستانِ نغمہِ سرایانِ نعت ہے

سرگرم ہر روش پہ دبستانِ نعت ہے


ہے طبع سب کی ایک ہی آہنگ میں رواں

یکساں تمام بزم میں فیضانِ نعت ہے


غںچے چٹک رہے ہیں نکاتِ سخن کے آج

سمجھے گا کچھ وہی جسے عرفانِ نعت ہے


مضموں نکالنا ہیں ستاروں کو جوڑ کر

پھیلا ہوا فلک پہ یہ سامانِ نعت ہے


جو رنگ سوچئے سو ہے اس نقش سے فرو

جو حرف دیکھیےسو پشیمانِ نعت ہے


وہ فکر لائیے کہ ہو ہم دوشِ بامِ عرش

وہ لفظ ڈھونڈیے کہ جو شایانِ نعت ہے


ہر بات میں ہے اُسوہِء کامل نبیؐ کی ذات

"ہر شعبہ حیات میں امکانِ نعت ہے"


ہر موجہِء ہوا میں ہے خوشبو درود کی

ہر ذرّہ رُو بہ راہِ درخشانِ نعت ہے


ہے ہر شجر اُٹھائے ہوئے مدح کا عٙلٙم

ہر برگ پہ لکھا ہوا عُنوانِ نعت ہے


ہے یاد آسماں کو وہ شقُ القمر کی رات

باندھے ہوئے حضورؐ سے پیمانِ نعت ہے


خورشید ! آفتابِ قیامت کے رُو برو

کافی مجھے یہ سایہِ دامانِ نعت ہے۔

حسنین اکبر، دوبئی

اُمی لـقب سے عَلَّمَ بُرہانِ نعت ہے

اقرأ باســم ربـك اعلانِ نعت ہے

وہ پہلا نعت گو وہی سلطانِ نعت ہے

ہر نعت گو رعیّتِ عمرانِ ع نعت ہے

بنیادِ مدحِ سید الابرار ص ہے درود

فرمانِ کردگار میں فرمانِ نعت ہے

شق القمر دو باٹ کی صورت بٹے ہوئے

دستِ الہُٰ العدل میں میزانِ نعت ہے

پیغمبرِ ص حیات ہیں سرکارِ ص دوجہاں

"ہر شعبہءِ حیات میں امکانِ نعت ہے"

جس نعت میں علی ع و محمد ص کی بات ہو

وہ کائناتِ نعت میں سلمانِ ع نعت ہے

اظہارِ کُل صفاتِ الہٰی انہی ص سے ہے

اب اس کے بعد جو بھی ہے میدانِ نعت ہے

حرفِ دعا ہے آیہءِخیرالجزا کے بعد

مجھ کو جزا کی مد میں بھی ارمانِ نعت ہے

دنیا ادب سے لیتی ہے جو نعت گو کا نام

کوئی ہنر نہیں ہے یہ احسانِ نعت ہے

پہلی اذانِ اسمِ محمد ص تھی عرش پر

دراصل کعبہ دوسرا ایوانِ نعت ہے

قرآں کہو صحیفہ کہو کوئی نام دو

دیوانا جانتا ہے یہ دیوانِ نعت ہے

دل سے دعائیں دیجیے مدحِ رسول ص پر

خاموشی اس مقام پہ کفرانِ نعت ہے

یہ داستان عشق ہے کارِ جہاں نہ جان

لکھنے سے پہلے یہ بتا،ایمانِ نعت ہے؟

طیبہ سے ہوکے جاتے ہیں ہم سوئے کربلا

ہر شاہراہِ عشق خیابانِ نعت ہے

اکبر میں اسـکے ہاتھ پہ بیعت ابھی کروں

جس کو بھی اس زمانے میں عرفانِ نعت ہے


حسنین شہزاد، کوٹ عبد الحکیم ، پاکستان

سُلگا ہؤا خیال میں لوبانِ نعت ہے

خوش ہیں قلم دوات کہ امکانِ نعت ہے


باب السّلام ، بابِ امان و سکون ہے

بابِ بقیع ، باب ِ خیابانِ نعت ہے


عُشّاق جانتے ہیں مقام ِ مواجہہ

عُشّاق یعنی وہ جنہیں عرفانِ نعت ہے


چشمِ خیال ، بَن کے دِوانی کبوتری

محوِ طواف ِ روضہ ءِ سلطانِ نعت ہے


تعلیم ہو، سفر ہو، تجارت ہو ، عدل ہو

" ہر شعبہ ءِ حیات میں امکانِ نعت ہے"


حنیف نازش، گوجرانوالہ، پاکستان

سر پر ہمارے سایہ ٕ ذی شانِ نعت ہے

حاصل خُدا کے فضل سے ایقانِ نعت ہے

رکھتی ہے مُجھ کو نعت رہِ مُستقیم پر

مُجھ پر، مِری حیات پر احسانِ نعت ہے

جب لب سے اُن کا نام لیا، نعت ہو گٸی

نادان ہے وہ شخص جو انجانِ نعت ہے

صَلُّوا وَسَلِمُوا کی حلاوت کو پا کے دیکھ

غافل! درودِ مُصطفوی جانِ نعت ہے

بتلا رہی ہے آیتِ میثاق صاف صاف

مہکا ہُوا ازل سے گُلستانِ نعت ہے

ہر داٸرے کا مرکزی نُکتہ نبی کی ذات

”ہر شعبہ ٕ حیات میں امکانِ نعت ہے“

نازش لواۓ حمد ہو، محمود کا مقام

میدانِ حشر گویا کہ میدانِ نعت ہے

دلاور علی آزر، کراچی، پاکستان

پھیلا ہوا بہت سر و سامانِ نعت ہے

وسعت پزیر عالمِ امکانِ نعت ہے

مجھ میں بسی ہوئی ہے مہک مدحِ شاہ کی

مجھ میں کِھلا ہوا گُلِ ریحانِ نعت ہے

اِس لوح پر حضور کی مدحت لکھوں گا میں

یہ میرا دل نہیں ہے یہ جزدانِ نعت ہے

باندھا گیا ہے عشق کی ڈوری سے لفظ کو

مشکل ہے توڑنا اِسے پیمانِ نعت ہے

ہر کارِ خیر اُن سے عبارت ہے دہر میں

ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے

پہچانتے ہیں مجھ کو جو دنیا میں چند لوگ

یہ اور کچھ نہیں ہے یہ فیضانِ نعت ہے

ورنہ کہاں یہ ہیچ ہنر اور کہاں یہ ظرف

میں نعت لکھ رہا ہوں تو احسانِ نعت ہے

لفظوں سے نورِ عشق جھلکتا ہے سر بہ سر

میری غزل کے رنگ میں اعلانِ نعت ہے

اُس کو بیان شعر میں کیسے کرے کوئی

وہ کیفیت جو لفظ کی دورانِ نعت ہے

حکمت کی سب حدیں ہیں اِسی آئنے میں ضم

رحمت سمیٹتا ہوا دامانِ نعت ہے

آزر میں پوچھتا ہوں سبھی ناعتین سے

میرا لکھا ہوا بھی کیا شایانِ نعت ہے

رحمان حفیظ ، اسلام آباد، پاکستان

عشقِ رسول ہو تو یہ میدان ِ نعت ہے

ہر فن میں ، ہرہنر میں ہی امکان ِ نعت ہے


مدح و ثنا کا سلسلہ افلاک سے چلا

صلو علیہ خاصۂ خاصانِ نعت ہے


اِس میں تو خود خُدا نے کی تحسین آپ کی

قران شاعری نہ سہی، جانِ نعت ہے


الفاظ دست بستہ کھڑے ہیں قطار میں

جس سے بھی پوچھ لیجئے، قربانِ نعت ہے


پہنچے گا اُس تلک بھی شفاعت کا سلسلہ

خوش بخت ہے وہ جس میں بھی میلانِ نعت ہے


ان کو لُٹے پٹے تو زیادہ عزیز ہیں

اسبا ب کا نہ ہونا بھی سامانِ نعت ہے


حدِّ ادب سے ہو گئی عنقا صریرِ کلک

گویا مِرے قلم کو بھی عرفانِ نعت ہے


اے کوچہء سخن کے پریشان ! اتنا جان

تسکین دل جو ہے تو بفیضانِ نعت ہے


طیبہ سے ہو کے جائے گا باغِ بہشت تک

دشتِ ہنر میں یہ جو خیابانِ نعت ہے


واللہ ! صرف زائرِ طیبہ کا ہو تو ہو

احساس جو مجھے ابھی دورانِ نعت ہے


رُک سا گیا تھا چشمہء تخلیق لیکن آج

بنجر دل و دماغ میں بارانِ نعت ہے


توفیق مانگتے ہیں سب اہلِ ہنر کہ جب

یہ ہو تو لفظ لفظ ہی شایانِ نعت ہے


مملو ئے ادّعا ،نہ تعلّی سے بہرہ ور

رحمان شاعری میں یہی شانِ نعت ہے

رحمان فارس، لاہور، پاکستان

وہ جانتا ھے جس کو بھی عرفانِ نعت ھے

عشقِ مُحمَّدِ عَرَبی جانِ نعت ھے


بے شک ھے حجرِ اسود اِسی بات کا ثبوت

بے جان پتھّروں میں بھی امکانِ نعت ھے

اُس کی ھر ایک سانس ھے نعتِ نبی کا شعر

جو عاشقِ رسُول ھے دیوانِ نعت ھے


ھم بندگانِ خاک بھلا کیا کہیں گے نعت

نُطقِ خُدائے پاک ھی شایانِ نعت ھے


کرتے ھیں یہ تو آخری ھچکی میں بھی ثنا

عُشّاق کو تو موت بھی سامانِ نعت ھے


دُنیاوی نعمتیں بھی مُجھے دِین سے ملِیں

میری غزل میں کیف بَفیضانِ نعت ھے


ذکرِ نبی کو کتنی بلندی پہ لے گیا قُ رآن اپنی رُوح میں قُرآنِ نعت ھے


لاھور سے عجب ھیں مدینے کی نسبتیں

فارس ! یہ شہر شہرِ غُلامانِ نعت ھے

ریاض مجید، فیصل آباد، پاکستان

جس سے درود رُو مرا وجدانِ نعت ہے

لفظِ مدینہ ایسا گلستانِ نعت ہے


تکتے ہیں ہم کو حیرت و حسرت سے کس طرح

برگ و شجر کے دل میں بھی ارمانِ نعت ہے


ہیں سلسلے زبان و بیاں کے جہاں جہاں

پھیلا ہُوا وہاں وہاں امکانِ نعت ہے


قراں ہر امتی سے ہے پیہم درود خواہ

اک طرح سے یہ دعوت و اعلان نعت ہے


قراں کی آیتوں میں ہے شان اُن کی عطربیز

بین السطّور دیکھ یہ بستانِ نعت ہے


اہلِ ولا و اہل صفا کی نگاہ میں

’احزاب‘ استعارہ پیمانِ نعت ہے


صلّوا علیہ کی اسے توسیع جانئیے

حُبّ کا تلازمہ جو بعنوانِ نعت ہے


قران کا خلاصہ اگر اک ورق میں ہو

تو زیب اُس نوشتے کو عنوانِ نعت ہے


سعی ہنر قبول ہو‘ جو ہو خلوص سے

ہر نعت گو کو اتنا تو عرفانِ نعت ہے


اس عہدِ نعت پہ کرم خاص آپ کا

گھر گھر کھلا ہُوا جو دبستانِ نعت ہے


کیا کیا ثنا سرشت ہیں مائل بہ نعت آج

فی الواقعی یہ عہدِ درخشانِ نعت ہے


مصرعے اتر رہے ہیں ستاروں کی شکل میں

کاغذ سے روح تک میں چراغانِ نعت ہے


فردائے نعت کی ہے ہر اک سمت سے نوید

ہر دل میں جو نمایاں یہ رجحانِ نعت ہے


جنت میں ہو گا نعت کا دورانِ جاوداں

اب تک ہوئی جو مشق وہ اک انِ نعت ہے


باعث ظہور ہست کا ہے ذات آپؐ کی

دھڑکن دلِ وجود کی گردانِ نعت ہے


مصروفیت ملی ہے بہشت آفریں ہمیں

ہم اہلِ حُب یہ کیسا یہ احسان نعت ہے


بخشش کی التجا کے سوا کچھ نہیں ریاض

فردِ عمل میں جو سروسامانِ نعت ہے


ہے محوِ فکر رفعت و شانِ رسول میں

چپ ہے ریاض جس کو بھی عرفانِ نعت ہے

سرور حسین نقشبندی، لاہور، پاکستان

کیا کیا گدائے نعت پہ احسان نعت ہے

اک ایک سانس حجرہء ایوان نعت ہے


کیسی ہری بھری ہے تخیل کی سرزمیں

صد شکر کشت فکر پر باران نعت ہے


اصناف شعر ساری اسی کی ہیں خوشہ چیں

جو بھی سخن کی صنف ہے دربان نعت ہے


تفہیم اس کو اسوہء کامل کی جانئے

"ہر شعبہء حیات میں امکان نعت ہے"


خوشبو بنائے کیوں نہ مرے گرد دائرہ

موج صباء کی ہمدمی دوران نعت ہے


اس کو ملے گا اجر بھلے شعر ہوں نہ ہوں

وہ خوش نصیب ہے جسے ارمان نعت ہے


قرآن سے حدیث سے تم کو ہے مس اگر

کافی برائے نعت یہ سامان نعت ہے


یاں پر اک ایک لفظ رکھو ناپ تول کر

اے شوق! احتیاط یہ میزان نعت ہے


سرور یقیں نہ کیسے ہو اپنی نجات کا

فرد عمل میں جب مرے دیوان نعت ہے

سعود عثمانی، لاہور، پاکستان

گر ایک شعر بھی مرا شایانِ نعت ہے

پھر تو یہ ساری عمر ہی قربان نعت ہے

سچ یہ ہےساری زیست ہی دیوان نعت ہے

ہر گوشہء حیات میں امکان نعت ہے

تیری کُلاہِ فخر بھی پاپوش ہی تو ہے

جوتے اتار ! دیکھ یہ ایوانِ نعت ہے

رسمی مبالغوں کو پرے رکھ کے بات کر

ثابت تو کر کہ ہاں مجھے عرفانِ نعت ہے

قصے کہانیوں کو کہیں دور جا کے پھینک

سیرت کو نظم کر کہ یہی جانِ نعت ہے

آداب ہیں سکوت کے بھی' گفتگو کے بھی

دونوں طرح بتا کہ سخن دان نعت ہے

گنتی کے چند لوگ ہیں' گنتی کے خوش نصیب

حاصل جنہیں طلائی قلم دانِ نعت ہے

مدح نبی تو خود بھی بڑا فخر ہے مگر

مصرعہ قبول ہو تو یہ احسانِ نعت ہے

سب جانثاروں مدح گزاروں کے درمیاں

جگمگ ہے ایک شخص جو حسّانِ نعت ہے

جیسے میں بارگاہ پیمبر میں ہوں سعود

اور میرے ہاتھ میں مرا دیوان ِ نعت ہے

توفیق نعت دی ہے جو تو نے سعود کو

یارب وہ اجر بھی کہ جو شایان ِ نعت ہے


جیسے میں بارگاہ پیمبر میں ہوں سعود

اور میرے ہاتھ میں مرا دیوان ِ نعت ہے

عارف امام، امریکہ

عالم تمام حلقۂ دورانِ نعت ہے

اعلانِ کُن کے “ن” میں اعلانِ نعت ہے


ملتی ہے عاجزی سے یہاں شعر کو اُٹھان

گردن جُھکا کے چل کہ یہ میدانِ نعت ہے


پُر پیچ تو نہیں ہے مگر سہل بھی نہیں

اے راہ رو سنبھل! یہ خیابانِ نعت ہے


سرنامۂ کلام ہیں اوصافِ مصطفیٰ ص

گویا کتابِ حق ہی دبستانِ نعت ہے


مدحِ نبی ص ہے نغمۂ تارِ نفس مدام

میں سانس لے رہا ہوں یہ احسانِ نعت ہے


سایہ ہے اِس سخن کا مِرے سر پہ تو مجھے

میدانِ حشر وادئ فارانِ نعت ہے


اس دائرے سے دور نکل اے خیالِ دہر

حّدِ ادب! یہ بزمِ سخن دانِ نعت ہے


خطبے میں جس نے دفترِ الحمد وا کِیا

تاریخ نے کہا وہ حدی خوانِ نعت ہے


کوثر سے منسلک ہے یہاں کی ہر اک رَوِش

یہ باغِ منقبت یہ گلستانِ نعت ہے

عقیل عباس جعفری ، کراچی، پاکستان

روشن ازل سے شمع شبستانِ نعت ہے

" ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"


میری رگوں میں بھی ابوطالب کا ہے لہو

میری ہر ایک سانس پہ فیضانِ نعت ہے


جبریل ہوں کہ ہم سے فقیرانِ بے نوا

سایہ فگن ہر ایک پہ دامانِ نعت ہے


اے کاش اس فقیر کو بھی ہو کبھی عطا

اک حرف جس کو سب کہیں "شایانِ نعت ہے"


جو کربلا میں خون سے لکھا حسین نے

ہر دل میں جاگزیں وہی دیوانِ نعت ہے


منکر نکیر لوٹ گئے، کتبہ دیکھ کر

لکھا تھا " یہ گدائے خیابانِ نعت ہے"


عرفانِ نعت جس کو بھی حاصل ہوا عقیل

عمرانِ نعت ہے وہی حسانِ نعت ہے

عقیل ہاشمی، حیدر آباد، بھارت

ایماں کی ہے نوید کہ احسان نعت ہے

ہرشعبہ حیات میں امکان نعت ہے


توقیر بندگی ہے کہ تسبیح قرب حق

یانعمت الہی بعنوان نعت ہے


شرح صدر کی بات ہے نسبت کہوں جسے

حب رسول ہاشمی فیضان نعت ہے


لاریب ہےدرود و سلاموں کا سلسلہ

مدح و ثنا کے واسطے سامان نعت ہے


توصیف شاہ کیسی بھلا کس کی ہے مجال

حق کا کلام دیکھے شایان نعت ہے


نورانی ساعتوں کا اسے اعزاز مل گیا

روح القدس کی پشتی کہ عرفان نعت ہے


وجہ نجات ہے بخدا اسوہء رسول

وہ پیروی کرے جسے ارمان نعت ہے


آیات نعت کا وہ کرے ورد صبح و شام

خوش قسمتی سے جسکو بھی ارمان نعت ہے


فرد عمل نہ دیکھ خدایا بروز حشر

میرا وسیلہ بس میرا دیوان نعت ہے


اتنا ھی جانتا ہے عقیل ہاشمی حضور

لکھا قلم نے لوح پہ جو اعلان نعت ہے

وسیم عباس، لاہور، پاکستان

صحنِ بتول بُوئے گلستانِ نعت ہے

چودہ کا نور زینتِ گلدانِ نعت ہے


ٹھوکر نہیں لگی کبھی بھٹکا نہیں ہوں میں

جس دن سے میرے ہاتھ میں دامانِ نعت ہے


ملتا نہ کیسےدہر میں اس صنف کو فروغ

صاحب! پدر علیؑ کا نگہبانِ نعت ہے


"آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں "

شہرِ سخن میں مجھ پہ یہ فیضانِ نعت ہے


دیکھیں جو دل سے بغض کی مٹی کو جھاڑ کر

"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"


بھولے نہ آدمی کبھی من کنت کا پیام

یہ آگہی ہے نعت کی عرفانِ نعت ہے


مجھ پر بھی اتنا لطف و کرم کیجئے حضورﷺ

میں کہہ سکوں کہ میرا بھی دیوانِ نعت ہے


اسرارِ کائنات ہیں مجھ پر کھُلے ہوئے

وہ اس لئے کہ دل مرا شعیانِ نعت ہے