گوئٹے کی نظم نغمۂ محمدی کے تین تراجم ۔ خان حسنین عاقب

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

مقالہ نگار " خان حسنین عاقب

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

گو ئٹے کی نظم ’ نغمہ ٔ محمدیؐ ‘ کے تین تراجم

ABSTRACT: The world renowned German poet GOETHE, JOHANN WORLFGANG was very much influenced by Eastern thoughts and languages plus Religions. He learnt Arabic and read Persian language and impressed by Hafiz of Shiraz so much that he named his collection of poems a West-östlicher DIWAAN. Presented here are three poetic translations of his famous poem MAHOMAET'S GESANG originally written in German and translated in English by Leslie Norris. Persian version was brought out by Allama Iqbal which found place in his collection of Persian poems Payam-e-Mashriq and Urdu translation was done by Shan ul Haq Haqqi. All the three translations have been placed with poem in its original language Germany. This effort has been done to show different dimensions of cultural and literary values of variant linguistic groups of creative world. No comments offered by the writer of the article in order to leave the matter on the readers to form an opinion and generate dialogue if felt necessary.


جان وولف گانگ گوئٹے GOETHE, JOHANN WOLFGANG عیسوی سنہ 1749 میں جر منی کے شہر فرینکفرٹ میں پیدا ہوا اس نے اہل ِ علم کے خاندان میں آنکھیں کھو لیں وہ یوں کہ اس کا باپ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھا اور اس کی ماں حا کم ِ شہر کی بیٹی تھی۔ گوئٹے جرمن ادب کا سب سے عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔ ابتداء ہی سے، بلکہ اپنی نو جوانی ہی سے گوئٹے کو اسلام اور مشرق سے بے حد دلچسپی تھی۔ اسی لیے اس نے عربی زبان بھی سیکھی تھی۔ گوئٹے کے خیال میں نئی ثقافتوں کی دریافت کے لیے ادب اور مذہب سے زیادہ کار آمد کو ئی اور ذرائع نہیں ہوسکتے اس لیے اس نے مشرقی ادب میں رومی ؔ اور حافظؔ کی شاعری کا اور ساتھ ہی ساتھ مذاہب کے ذیل میں زرتشت کی تعلیمات اور دینِ اسلام کا مطا لعہ کیا ۔مشرق اور اسلام سے گوئٹے کی دل چسپی اور مطالعہ کا دورانیہ ۱۸۱۴ء سے ۱۸۲۷ء عیسوی تک محیط ہے ۔ گوئٹے کی معرکۃ الآرا ء کتاب ’ دیوانِ مغرب ‘ جس کا جرمن نام Divan West-östlicher ہے، اسے جرمن ۔فارسی عہد کا ایک آغاز ہی کہا جاسکے گا جس کی ابتداء ۱۸۱۴ء میں ہوئی جب اسے دیوانِ حافظؔ کی جرمن زبان میں آسٹر یائی مستشرق جوزف وون ہیمار پرگستال کی ترجمہ کردہ دو جلدیں مو صول ہوئیں۔ جوزف کے تراجم اور تبصروں نے جرمن عوام کی دلچسپی مشرق کے مطالعہ میں بڑھانے میں بے حد اہم کردار ادا کیا۔ دیوانِ حافظ کے مطالعے نے جہاں ایک جانب گوئٹے کے جوش میں اضافہ کیا وہیں اس نے مشرق کے ساتھ فکری transaction and dialogues کی راہیں بھی ہموار کیں۔ گوئٹے نے اپنی اس کتاب کے کئی عنوانات بدلے لیکن ہر عنوان میں اس نے لفظ ’دیوان‘ بر قرار رکھا، یہ اس کی علمیت اور شخصیت پر حافظؔ کے اثرات کا عکاس ہے۔ اس دیوان میں سو نظمیں ہیں جو جرمن زبان میں لکھی گئی ہیں کہ یہی گوئٹے کی مادری اور تخلیقی زبان تھی۔ گوئٹے کے اس دیوان کو مشرق و مغرب کے ادب کا حسین امتزاج کہا جاتاہے۔ اس کتاب میں کئی ابواب شامل ہیں اور ہر باب کے لیے فارسی اور جرمن ، دونوں زبانوں میں متبادلات دیے گئے ہیں۔ زیرِ مطالعہ نظم ’ نغمہ ٔ محمدیؐ ‘ گوئٹے کی شہرہ ٔ آفاق نظم ہے جس نے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ چوں کہ گوئٹے کو جر منی کے قومی شاعر جیسی اہمیت حاصل تھی، اور اسے سارے عالم میں بڑی قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اس لیے اس کی اس نظم نے ایک بڑے طبقے کو اپنے دام ِ اثر میں لے لیا۔ اس نظم کے کئی زبانو ں میں تراجم ہوئے ۔ یہ نظم گو ئٹے نے غالباً ۱۷۷۲ء یا ۱۷۷۳ء میں لکھی تھی جوسب سے پہلے Göttinger Musenalmanach میں ۱۷۷۴ء میں شائع ہو ئی تھی۔ اس نظم میں ایک نا بغہ ٔ روزگار شخصیت، حضرت محمد ؐ کے لیے ایک’ جوئے آب‘ کی علامت اور استعارہ استعمال کیا گیا ہے جسے دھیرے دھیرے ایک عظیم دریا کی شکل اختیار کر تے دکھایا گیا ہے۔ یہ نظم در اصل آپ ؐ کی سیرت پر گوئٹے کے ایک غیر مطبوعہ ڈرامے کا حصہ تھی جسے پلے کر نے کا اس کا ارادہ تھا۔ لیکن وہ ڈرامہ اسٹیج ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، نظم نے ٖضرور گوئٹے کے اخلاص کو شرف ِ قبولیت بخش دیا۔ اور اسے نہ صرف یہ کہ عالمگیر شہرت عطا کردی بلکہ اگلے وقت میں اسے عموماً مشرق اور خصو صاً علامہ اقبال ؔ سے نزدیک کر دیا۔ وولف گانگ گو ئٹے جرمنی کا وہ عظیم شاعر ہے جس کی تصنیف ’ پیغامِ مغرب‘ کے مطالعے نے اقبالؔ کو غور و فکر پر مجبور کیا اور پھر جواباً اقبالؔ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’ پیامِ مشرق‘ تخلیق کی۔اقبال ؔ نے گو ئٹے کے بارے میںیہ مشہور جملہ بھی کہا ہے کہ گو ئٹے ’’ نیست پیغمبر ولے دارد کتاب‘‘۔ اقبال نے گوئٹے کی نظم ـ ’ Mohamet's Gesang‘ کا آزاد ترجمہ بعنوان ’ جوئے آب‘ کیا ہے۔ پھر دوسرا ترجمہ اردو میں شان الحق حقی ؔ نے کیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہم آ پ کو جر من زبان کے فورا ً بعد انگریزی میں لیسلی نو رِس کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں تا کہ آپ اس شہرہ ٔ آفاق نظم کا لطف چار زبانوں میں لے سکیں۔ سب سے پہلے اصل جرمن زبان میں یہ نظم ملاحظہ کیجئے۔

MAHOMAET'S GESANG

Johanne Wolfgong van Goethe

Seht den Felsenquell,

Freudehell,

Wie ein Sternenblick;

Über Wolken

Nährten seine Jugend

Gute Geister

Zwischen Klippen im Gebüsch.

Jünglingsfrisch

Tanzt er aus der Wolke

Auf die Marmorfelsen nieder,

Jauchzet wieder

Nach dem Himmel.

Durch die Gipfelgänge

Jagt er bunten Kieseln nach,

Und mit frühem Führertritt

Reißt er seine Bruderquellen

Mit sich fort.

Drunten werden in dem Tal

Unter seinem Fußtritt Blumen,

Und die Wiese

Lebt von seinem Hauch.

Doch ihn hält kein Schattental,

Keine Blumen,

Die ihm seine Knie umschlingen,

Ihm mit Liebesaugen schmeicheln:

Nach der Ebne dringt sein Lauf

Schlangenwandelnd.

Bäche schmiegen

Sich gesellig an. Nun tritt er

In die Ebne silberprangend,

Und die Ebne prangt mit ihm,

Und die Flüsse von der Ebne

Und die Bäche von den Bergen

Jauchzen ihm und rufen: Bruder!

Bruder, nimm die Brüder mit,

Mit zu deinem alten Vater,

Zu dem ewgen Ozean,

Der mit ausgespannten Armen

Unser wartet

Die sich, ach! vergebens öffnen,

Seine Sehnenden zu fassen;

Denn uns frißt in öder Wüste

Gierger Sand; die Sonne droben

Saugt an unserm Blut; ein Hügel

Hemmet uns zum Teiche! Bruder,

Nimm die Brüder von der Ebne,

Nimm die Brüder von den Bergen

Mit, zu deinem Vater mit!

Kommt ihr alle! -

Und nun schwillt er

Herrlicher; ein ganz Geschlechte

Trägt den Fürsten hoch empor!

Und im rollenden Triumphe

Gibt er Ländern Namen, Städte

Werden unter seinem Fuß.

Unaufhaltsam rauscht er weiter,

Läßt der Türme Flammengipfel,

Marmorhäuser, eine Schöpfung

Seiner Fülle, hinter sich.

Zedernhäuser trägt der Atlas

Auf den Riesenschultern; sausend

Wehen über seinem Haupte

؎Tausend Flaggen durch die Lüfte,

Zeugen seiner Herrlichkeit.

Und so trägt er seine Brüder,

Seine Schätze, seine Kinder

Dem erwartenden Erzeuger

Freudebrausend an das Herz.


حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم میں سے اکثر قارئین کا جرمن زبان کو سمجھ پانا نا ممکنات میں سے ہے لیکن میں نے صرف اس لیے جرمن زبان کو بھی شامل کر دیا ہے تاکہ اصل بھی موجود رہے اور کسی صورت اس مضمون کے ذریعے محفوظ ہوجائے۔ چوں کہ جرمن زبان کے بہت سے الفاظ کو انگریزی الفاظ سے مناسبت ہے اس لیے جر من زبان میں اس اصل نظم کی پیش کش اتنی غیر متعلق بھی نہیں ہے جتنی ہم میں سے کو ئی صاحب اسے تصور کر تے ہوں۔


اب اس نظم کا انگریزی تر جمہ حاضر ہے جو مشہور عالمی شخصیت لیسلی نورِس نے کیا ہے۔ یہ انگریزی ترجمہ میں نے انگریزی میں اس نظم کے بہت سے اچھے تراجم میں سے منتخب کیا ہے۔ میں ان تینوں زبانوں میں اس نظم کے تر جمہ کو اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ نظم کا موضوع ہمارے لیے جتنا اہم ہے، اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ تین مختلف زبانوں کے معنوی ابعاد کے باوجود وہ روانی، اور خیالات کا وہ تسلسل جو اصل جرمن نظم کا خاصہ ہے، وہ ان تراجم میں پایا جاتا ہے یا نہیں۔

Mahomet’s Song

اب اس نظم کا انگریزی تر جمہ حاضر ہے جو مشہور عالمی شخصیت لیسلی نورِس نے کیا ہے۔ یہ انگریزی ترجمہ میں نے انگریزی میں اس نظم کے بہت سے اچھے تراجم میں سے منتخب کیا ہے۔ میں ان تینوں زبانوں میں اس نظم کے تر جمہ کو اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ نظم کا موضوع ہمارے لیے جتنا اہم ہے، اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ تین مختلف زبانوں کے معنوی ابعاد کے باوجود وہ روانی، اور خیالات کا وہ تسلسل جو اصل جرمن نظم کا خاصہ ہے، وہ ان تراجم میں پایا جاتا ہے یا نہیں۔


Mahomet’s Song


Leslie Norris

See the mountain spring

Sparkle with joy,

Like the light of stars!

Above the clouds

Generous spirits

Nourished his freshets

In thickets among crags.

Brisk with young vigor

From the clouds he dances

Down to marble boulders,

Exultant, he leaps again

Up toward heaven.

Through gaps between peaks

He rolls his bright pebbles,

And with a leader’s strides

Carries his sibling streams

Onwards and downwards.

And then, in the valley,

Flowers blaze in his footsteps,

And the green fields breathe

With the life of his breath

No dark valley can hold him,

Nor can flowers

Bent at his knees

Contain him with adoring glances;

He bursts his way to the flat land

Like a snake uncoiling.

Little streams nestle,

Flocking to his side; and now

He enters, glittering,

Into his meadows

And the land shines with his light,

The lowland rivers

The mountain brooks

Cheer for him, shouting: Brother,

Brother, take us with you,

Take us to your ancient Father,

To the everlasting ocean,

Who waits for us

With open arms;

Open, alas, in vain

To embrace his eager ones:

For in the avid desert

Dry sand eats us,

The sun above us

Will suck our blood, a hill

Dams us to a pond! Brother,

Take your lowland brothers with you,

Take your brothers from the mountains

With you, with you, to your father!

Come, all of you!

Majestically

He rises; a noble family,

They bear aloft this royal lord,

And on he rolls, triumphant,

Naming whole countries, the cities

Which come to life at his feet.

Unstoppable now, he rides in thunder,

Leaving behind him turrets tipped

With flame, marble palaces,

Evidence of his abundance

Like Atlas, he carries great ships

On his giant shoulders. The flutter

Of a thousand whistling sails

Testify to his might and majesty.

So he carries his brothers,

His children, his treasures,

In roaring tides of joy

To their father’s waiting heart


انگریزی زبان میں یہ ترجمہ ایک نئے فکری زاویہ کو دعوت دیتا ہے۔ اس ترجمہ نے اپنی حتی الامکان کوشش کی ہے کہ وہ اصل سے قریب تر ہوجائے اور لیسلی نورِس کافی حد تک اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔


اب ا س مشہور ترجمہ کی طرف آئیے جسے ایک عالمی شاہکار کا درجہ حا صل ہوا۔ یہ تر جمہ علامہ محمد اقبال ؔ نے کیا ہے ، جو آزاد تر جمے کی بہترین مثال ہے ۔ یہ ترجمہ پیام ِ مشرق میں ’ جو ئے آب ‘ کے عنوان سے شامل ہے۔

جوئے آب

از  : علامہ اقبال


اب ا س مشہور ترجمہ کی طرف آئیے جسے ایک عالمی شاہکار کا درجہ حا صل ہوا۔ یہ تر جمہ علامہ محمد اقبال ؔ نے کیا ہے ، جو آزاد تر جمے کی بہترین مثال ہے ۔ یہ ترجمہ پیام ِ مشرق میں ’ جو ئے آب ‘ کے عنوان سے شامل ہے۔


بنگر کہ جوئے آب چہ مستانہ می رود

ما نندِ کہکشاں بہ گریبانِ مرغزار

در خواب ناز بود بہ گہوارۂ سحاب

وا کرد چشمِ شوق بہ آغوشِ کوہسار

از سنگریزہ نغمہ گشاید خرامِ او

سیمائے او چو آئینہ بے رنگ، بے غبار

زی بحرِ بے کرانہ چہ مستانہ می رود

در خود یگانہ از ہمہ بیگانہ می رود

در راہِ او، بہار پری خانہ آفرید

نر گِس دمید و لالہ دمید و سمن دمید

گُل عِشوہ داد و گفت یکی پیش ما با یست

خندید غنچہ و سَرِ دامانِ او کشید

نا آشنائی جلوہ فروشانِ سبز پوش

صحرا برید و سینۂ کوہ و کمر درید

زی بحرِ بے کرانہ چہ مستانہ می رود

در خود یگانہ از ہمہ بیگانہ می رود

صد جو ئے دشت و مرغ و کہستان و باغ و راغ

گفتند اے بسیط زمیں با توسازگار

ما را کہ راہ از تنک آبی نبردہ ایم

از دست بُردِ ریگِ بیا با ں نگاہ دار

وا کر دہ سینہ را بہ ہوا ہائے شرق و غرب

در بر گرفتہ ہمسفرانِ زبون و زار

زی بحرِ بے کرانہ چہ مستانہ می رود

در خود یگانہ از ہمہ بیگانہ می رود

در یائے پُر خروش زِ بند و شِکن گذشت

از تنگنائے وادیٔ کوہ و دَ من گذشت

یکساں چوں سیل، کردہ نشیب و فراز ر

از کاخ ِ شاہ و بارہ و کشت و چمن گذشت

بیتاب و تند و تیز و جگر سوز و بے قرار

در ہر زماں بہ تازہ رسید از کہن گذشت

زی بحرِ بے کرانہ چہ مستانہ می رود

در خود یگانہ از ہمہ بیگانہ می رود


اقبال ؔ کے اس تر جمہ کے بعد اردو میں کافی عر صہ بعد شان الحق حقی ؔ نے رواں آزاد نظم میں اس کا ترجمہ کیا ہے۔ یہ نظم بھی حقی ؔصا حب کی دو زبانوں کے فطری بعد کو دور کر نے کی ایک کامیاب کو شش کے طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔

نغمہ ٔ محمدیؐ

ترجمہ اُردو: شان الحق حقی


اقبال ؔ کے اس تر جمہ کے بعد اردو میں کافی عر صہ بعد شان الحق حقی ؔ نے رواں آزاد نظم میں اس کا ترجمہ کیا ہے۔ یہ نظم بھی حقی ؔصا حب کی دو زبانوں کے فطری بعد کو دور کر نے کی ایک کامیاب کو شش کے طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔


نغمہ ٔ محمدیؐ


وہ پاکیزہ چشم


جو، اوجِ فلک سے چٹانوں پر اُترا

درخشاں ستاروں کی تھی جوت جس کے بدن میں

سحابوں سے اوپر ، بلند آسماں میں پُر افشاں ملائک کی

چشمِ نگہدار کے سائے سائے

چٹانوں کی آغوش میں عہدِ بر نائی تک جوئے جولاں بنا

چٹانوں سے نیچے اترتے اترتے

وہ کتنے ہی صد رنگ انگھڑ، خزف ریزے

دامانِ شفقت میں اپنے سمیٹے

بہت سے سسکتے ہوئے، رینگتے ،سست، کم مایہ سوتوں کو

چونکاتا، للکارتا، ساتھ لیتا ہوا خوش خراماں چلا

بے نمو وادیاں جاگ اٹھیں، لہلہا نے لگیں

جس طرف اس کا رُخ پھِر گیا

اس کے فیضِ قدم سے بہار آگئی

اس کے آگے ابھی اور صحرا بھی تھے

خشک لہریں بھی تھیں، اترے دریا بھی تھے

سب اسی سیلِ جاں بخش کے منتظر

جوق در جوق پاس اس کے آنے لگے

شور آمد کا اس کی اُٹھانے لگے

راہ بر ساتھ ہم کو بھی لیتے چلو

کب سے تھیں پستیاں ہم کو جکڑے ہوئے

راہ روکے ہوئے ، پاؤں پکڑے ہوئے

یاد آتا ہے مَسکن پرانا ہمیں

آسمانوں کی جانب ہے جانا ہمیں

ورنہ یوں ہی نشیبوں میں دھنس جائیں گے

جال میں اُن زمینوں کے پھنس جائیں گے

اپنے خالِق کی آواز کانوں میں ہے

اپنی منزل وہیں آسمانوں میں ہے

گرد آلود ہیں، پاک کر دے ہمیں

آ ! ہم آغوشِ افلاک کر دے ہمیں

وہ رواں ہے، رواں ہے رواں اب بھی ہے

ساتھ ساتھ اس کے اک کارواں ایسا بھی ہے

شہر آتے رہے، شہر جاتے رہے

اس کے دم سے سبھی فیض پاتے رہے

اُ س کے ہر موڑ پر ایک دنیا نئی

ہر قدم پر طلوع ایک فردا نئی

قصر اُبھرا کیے، خواب ہو تے گئے

شاہ اور شاہیاں خواب ہوتی گئیں

عظمتیں کتنی نایاب ہو تی گئیں

ہے وہ رحمت کا دھارا مسلسل رواں

از فلک تا زمیں

از زمیں تا فلک

از ازل تا ابد، جاوداں، بے کراں

دشت و در گُلشن و گُل سے بے واسطہ

فیضیاب اس سے کُل

اور خود، کَل سے بے واسطہ


یہاں تک تو ایک شہرہ ٔ آفاق تخلیق کے تین مختلف زبانوں میں تراجم ہم نے پیش کیے ہیں تا کہ آپ اس نظم کی تین مختلف ثقافتی اور ادبی جہتوں سے متعارف ہوسکیں ۔ ہم اس معاملے میں آپ کو غور و فکر کے لیے آزاد چھوڑتے ہوئے اپنی جانب سے کسی رائے کا اظہار نہیں کر نا چاہتے۔ یہ کام آپ خود کریں اور اگر مناسب محسوس کریں تو ا س مو ضوع پر مکالمہ قائم کریں تاکہ لکیر پر لکیر پیٹنے والی ذہنیت سے بچا جاسکے اور ادب میں نئے رویوں کو فروغ دیتے ہوئے تحقیق کو نئی سمتوں سے متعارف کر وایا جاسکے۔

حوالہ جات

۱۔ پیام ِ مشرق : علامہ اقبال۔ اقبال اکیڈمی۔ پاکستان۔

۲۔ قند ِ پارسی۔ رایزنی فر ہنگی جمہوری اسلامی ایران۔ نئی دہلی۔ شمارہ ۔۹۱۔ ستمبر۔دسمبر ۲۰۰۲۔

۳۔ عالمی نعتیہ انتخاب۔ طیب اعجاز۔ حیدر آباد۔

1. Oxford Companion to German literature.

2. Wikisource.

3.A Leslie Norris Translation of Selected Poems by Johann Wolfgang von Goethe : Leslie Norris and Alan F. Keele

4.Yearbook of the Goethe Society of India, 1999-2000, S. 184-201.

5.<http://www.goethezeitportal.de/db/wiss/goethe/bhatti_iqbal.pdf>

6. Annemarie Schimmel, Gabriel's Wing. A Study into the Religious Ideas of Sir Mohammad Iqbal.

7. Anil Bhatti: Iqbal and Goethe. J.N.U. New Delhi.

٭٭٭