آپ «گوئٹے کی نظم نغمۂ محمدی کے تین تراجم ۔ خان حسنین عاقب» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 4: سطر 4:


مطبوعہ : [[نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27]]
مطبوعہ : [[نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27]]
===گو ئٹے کی نظم  ’ نغمہ ٔ  محمدیؐ  ‘  کے تین تراجم===


ABSTRACT: The world renowned German poet GOETHE, JOHANN WORLFGANG was very much influenced by Eastern thoughts and languages plus Religions. He learnt Arabic and read Persian language and impressed by Hafiz of Shiraz so much that he named his collection of poems a    West-östlicher DIWAAN. Presented here are three poetic translations of his famous poem    MAHOMAET'S GESANG originally written in German and translated in English by Leslie Norris.  Persian version was brought out by Allama Iqbal which found place in his collection of Persian poems Payam-e-Mashriq and Urdu translation was done by Shan ul Haq Haqqi. All the three translations have been placed with poem in its original language Germany. This effort has been done to show different dimensions of cultural and literary values of variant linguistic groups of creative world. No comments offered by the writer of the article in order to leave the matter on the readers to form an opinion and generate dialogue if felt necessary.  
ABSTRACT: The world renowned German poet GOETHE, JOHANN WORLFGANG was very much influenced by Eastern thoughts and languages plus Religions. He learnt Arabic and read Persian language and impressed by Hafiz of Shiraz so much that he named his collection of poems a    West-östlicher DIWAAN. Presented here are three poetic translations of his famous poem    MAHOMAET'S GESANG originally written in German and translated in English by Leslie Norris.  Persian version was brought out by Allama Iqbal which found place in his collection of Persian poems Payam-e-Mashriq and Urdu translation was done by Shan ul Haq Haqqi. All the three translations have been placed with poem in its original language Germany. This effort has been done to show different dimensions of cultural and literary values of variant linguistic groups of creative world. No comments offered by the writer of the article in order to leave the matter on the readers to form an opinion and generate dialogue if felt necessary.  


===گو ئٹے کی نظم  ’ نغمہ ٔ  محمدیؐ  ‘  کے تین تراجم===


جان وولف گانگ گوئٹے  GOETHE, JOHANN WOLFGANG عیسوی سنہ 1749 میں جر منی کے شہر فرینکفرٹ میں پیدا ہوا اس نے اہل ِ علم کے خاندان میں آنکھیں کھو لیں وہ یوں کہ اس کا باپ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھا اور اس کی ماں حا کم ِ شہر کی بیٹی تھی۔  گوئٹے جرمن ادب کا سب سے عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔ ابتداء ہی سے، بلکہ اپنی نو جوانی ہی سے گوئٹے کو اسلام اور مشرق سے بے حد دلچسپی تھی۔ اسی لیے اس نے عربی  زبان بھی سیکھی تھی۔ گوئٹے کے خیال میں نئی ثقافتوں کی دریافت کے لیے ادب اور مذہب سے زیادہ کار آمد کو ئی اور ذرائع نہیں ہوسکتے اس لیے اس نے مشرقی ادب میں رومی ؔ اور حافظؔ کی شاعری کا اور ساتھ ہی ساتھ مذاہب کے ذیل میں زرتشت کی تعلیمات اور دینِ اسلام کا مطا لعہ کیا ۔مشرق اور اسلام سے گوئٹے کی دل چسپی اور مطالعہ کا دورانیہ  ۱۸۱۴ء سے  ۱۸۲۷ء عیسوی تک محیط ہے ۔ گوئٹے کی معرکۃ الآرا ء کتاب ’ دیوانِ مغرب ‘  جس کا جرمن نام Divan  West-östlicher  ہے،  اسے  جرمن ۔فارسی عہد کا ایک آغاز ہی کہا جاسکے گا جس کی ابتداء ۱۸۱۴ء میں ہوئی جب اسے دیوانِ حافظؔ کی جرمن زبان میں آسٹر یائی مستشرق جوزف وون ہیمار پرگستال کی ترجمہ کردہ دو جلدیں مو صول ہوئیں۔ جوزف کے تراجم اور تبصروں نے جرمن عوام کی دلچسپی  مشرق کے مطالعہ میں بڑھانے میں بے حد اہم کردار ادا کیا۔ دیوانِ حافظ کے مطالعے نے جہاں ایک جانب گوئٹے کے جوش میں اضافہ کیا وہیں اس نے مشرق کے ساتھ فکری  transaction and dialogues  کی راہیں بھی ہموار کیں۔ گوئٹے نے اپنی اس کتاب کے کئی عنوانات بدلے لیکن ہر عنوان میں اس نے لفظ ’دیوان‘ بر قرار رکھا، یہ اس کی علمیت اور شخصیت پر حافظؔ کے اثرات کا عکاس ہے۔ اس دیوان میں سو نظمیں ہیں جو جرمن زبان میں لکھی گئی ہیں کہ یہی گوئٹے کی مادری اور تخلیقی زبان تھی۔ گوئٹے کے اس دیوان کو مشرق و مغرب کے ادب کا حسین امتزاج کہا جاتاہے۔  اس کتاب میں کئی ابواب شامل ہیں اور ہر باب کے لیے فارسی اور جرمن ، دونوں زبانوں میں متبادلات دیے گئے ہیں۔  زیرِ مطالعہ نظم ’ نغمہ ٔ محمدیؐ ‘ گوئٹے کی شہرہ ٔ آفاق نظم ہے جس نے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ چوں کہ گوئٹے کو جر منی کے قومی شاعر جیسی اہمیت حاصل تھی، اور اسے سارے عالم میں بڑی قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اس لیے اس کی اس نظم نے ایک بڑے طبقے کو اپنے دام ِ اثر میں لے لیا۔ اس نظم کے کئی زبانو ں میں تراجم ہوئے ۔ یہ نظم گو ئٹے نے غالباً ۱۷۷۲ء یا ۱۷۷۳ء میں لکھی تھی جوسب سے پہلے  Göttinger Musenalmanach  میں ۱۷۷۴ء میں شائع ہو ئی تھی۔  اس نظم میں ایک نا بغہ ٔ روزگار شخصیت، حضرت محمد ؐ  کے لیے ایک’ جوئے آب‘  کی علامت اور استعارہ استعمال کیا گیا ہے جسے دھیرے دھیرے ایک عظیم دریا کی شکل  اختیار کر تے دکھایا گیا ہے۔ یہ نظم در اصل  آپ ؐ  کی سیرت پر گوئٹے کے ایک غیر مطبوعہ ڈرامے کا حصہ تھی جسے پلے کر نے کا اس کا ارادہ تھا۔ لیکن  وہ ڈرامہ اسٹیج ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، نظم نے ٖضرور گوئٹے کے اخلاص کو شرف ِ قبولیت بخش دیا۔ اور اسے نہ صرف یہ کہ عالمگیر شہرت عطا کردی بلکہ اگلے وقت میں اسے عموماً مشرق اور خصو صاً علامہ اقبال ؔ سے نزدیک کر دیا۔ وولف گانگ گو ئٹے جرمنی کا وہ عظیم شاعر ہے جس کی تصنیف  ’ پیغامِ مغرب‘ کے مطالعے نے اقبالؔ کو غور و فکر پر مجبور کیا اور پھر جواباً اقبالؔ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’ پیامِ مشرق‘ تخلیق کی۔اقبال ؔ نے گو ئٹے کے بارے میںیہ مشہور جملہ بھی کہا ہے کہ گو ئٹے ’’ نیست پیغمبر ولے دارد کتاب‘‘۔ اقبال نے گوئٹے کی نظم ـ ’ Mohamet's Gesang‘ کا آزاد ترجمہ بعنوان ’ جوئے آب‘ کیا ہے۔  پھر دوسرا ترجمہ اردو میں شان الحق حقی ؔ نے کیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہم آ پ کو جر من زبان کے فورا ً بعد انگریزی میں لیسلی نو رِس کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں تا کہ آپ اس شہرہ ٔ آفاق نظم کا لطف چار زبانوں میں لے سکیں۔ سب سے پہلے اصل جرمن زبان میں یہ نظم ملاحظہ کیجئے۔
جان وولف گانگ گوئٹے  GOETHE, JOHANN WOLFGANG عیسوی سنہ 1749 میں جر منی کے شہر فرینکفرٹ میں پیدا ہوا اس نے اہل ِ علم کے خاندان میں آنکھیں کھو لیں وہ یوں کہ اس کا باپ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھا اور اس کی ماں حا کم ِ شہر کی بیٹی تھی۔  گوئٹے جرمن ادب کا سب سے عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔ ابتداء ہی سے، بلکہ اپنی نو جوانی ہی سے گوئٹے کو اسلام اور مشرق سے بے حد دلچسپی تھی۔ اسی لیے اس نے عربی  زبان بھی سیکھی تھی۔ گوئٹے کے خیال میں نئی ثقافتوں کی دریافت کے لیے ادب اور مذہب سے زیادہ کار آمد کو ئی اور ذرائع نہیں ہوسکتے اس لیے اس نے مشرقی ادب میں رومی ؔ اور حافظؔ کی شاعری کا اور ساتھ ہی ساتھ مذاہب کے ذیل میں زرتشت کی تعلیمات اور دینِ اسلام کا مطا لعہ کیا ۔مشرق اور اسلام سے گوئٹے کی دل چسپی اور مطالعہ کا دورانیہ  ۱۸۱۴ء سے  ۱۸۲۷ء عیسوی تک محیط ہے ۔ گوئٹے کی معرکۃ الآرا ء کتاب ’ دیوانِ مغرب ‘  جس کا جرمن نام Divan  West-östlicher  ہے،  اسے  جرمن ۔فارسی عہد کا ایک آغاز ہی کہا جاسکے گا جس کی ابتداء ۱۸۱۴ء میں ہوئی جب اسے دیوانِ حافظؔ کی جرمن زبان میں آسٹر یائی مستشرق جوزف وون ہیمار پرگستال کی ترجمہ کردہ دو جلدیں مو صول ہوئیں۔ جوزف کے تراجم اور تبصروں نے جرمن عوام کی دلچسپی  مشرق کے مطالعہ میں بڑھانے میں بے حد اہم کردار ادا کیا۔ دیوانِ حافظ کے مطالعے نے جہاں ایک جانب گوئٹے کے جوش میں اضافہ کیا وہیں اس نے مشرق کے ساتھ فکری  transaction and dialogues  کی راہیں بھی ہموار کیں۔ گوئٹے نے اپنی اس کتاب کے کئی عنوانات بدلے لیکن ہر عنوان میں اس نے لفظ ’دیوان‘ بر قرار رکھا، یہ اس کی علمیت اور شخصیت پر حافظؔ کے اثرات کا عکاس ہے۔ اس دیوان میں سو نظمیں ہیں جو جرمن زبان میں لکھی گئی ہیں کہ یہی گوئٹے کی مادری اور تخلیقی زبان تھی۔ گوئٹے کے اس دیوان کو مشرق و مغرب کے ادب کا حسین امتزاج کہا جاتاہے۔  اس کتاب میں کئی ابواب شامل ہیں اور ہر باب کے لیے فارسی اور جرمن ، دونوں زبانوں میں متبادلات دیے گئے ہیں۔  زیرِ مطالعہ نظم ’ نغمہ ٔ محمدیؐ ‘ گوئٹے کی شہرہ ٔ آفاق نظم ہے جس نے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ چوں کہ گوئٹے کو جر منی کے قومی شاعر جیسی اہمیت حاصل تھی، اور اسے سارے عالم میں بڑی قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اس لیے اس کی اس نظم نے ایک بڑے طبقے کو اپنے دام ِ اثر میں لے لیا۔ اس نظم کے کئی زبانو ں میں تراجم ہوئے ۔ یہ نظم گو ئٹے نے غالباً ۱۷۷۲ء یا ۱۷۷۳ء میں لکھی تھی جوسب سے پہلے  Göttinger Musenalmanach  میں ۱۷۷۴ء میں شائع ہو ئی تھی۔  اس نظم میں ایک نا بغہ ٔ روزگار شخصیت، حضرت محمد ؐ  کے لیے ایک’ جوئے آب‘  کی علامت اور استعارہ استعمال کیا گیا ہے جسے دھیرے دھیرے ایک عظیم دریا کی شکل  اختیار کر تے دکھایا گیا ہے۔ یہ نظم در اصل  آپ ؐ  کی سیرت پر گوئٹے کے ایک غیر مطبوعہ ڈرامے کا حصہ تھی جسے پلے کر نے کا اس کا ارادہ تھا۔ لیکن  وہ ڈرامہ اسٹیج ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، نظم نے ٖضرور گوئٹے کے اخلاص کو شرف ِ قبولیت بخش دیا۔ اور اسے نہ صرف یہ کہ عالمگیر شہرت عطا کردی بلکہ اگلے وقت میں اسے عموماً مشرق اور خصو صاً علامہ اقبال ؔ سے نزدیک کر دیا۔ وولف گانگ گو ئٹے جرمنی کا وہ عظیم شاعر ہے جس کی تصنیف  ’ پیغامِ مغرب‘ کے مطالعے نے اقبالؔ کو غور و فکر پر مجبور کیا اور پھر جواباً اقبالؔ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’ پیامِ مشرق‘ تخلیق کی۔اقبال ؔ نے گو ئٹے کے بارے میںیہ مشہور جملہ بھی کہا ہے کہ گو ئٹے ’’ نیست پیغمبر ولے دارد کتاب‘‘۔ اقبال نے گوئٹے کی نظم ـ ’ Mohamet's Gesang‘ کا آزاد ترجمہ بعنوان ’ جوئے آب‘ کیا ہے۔  پھر دوسرا ترجمہ اردو میں شان الحق حقی ؔ نے کیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہم آ پ کو جر من زبان کے فورا ً بعد انگریزی میں لیسلی نو رِس کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں تا کہ آپ اس شہرہ ٔ آفاق نظم کا لطف چار زبانوں میں لے سکیں۔ سب سے پہلے اصل جرمن زبان میں یہ نظم ملاحظہ کیجئے۔
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)