گزرے جس راہ سے وہ سیدِ والا ہو کر

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 18:39، 21 دسمبر 2016ء از Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search


نعتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم


از امام احمد رضا خان بریلوی


گزرے جس راہ سے وہ سیدِ والا ہو کر

رہ گئی ساری زمیں عنبرِ سارا ہو کر


رخِ انور کی تجلی جو قمر نے دیکھی

رہ گیا بوسہ وہ نقشِ کفِ پا ہو کر


وائے محرومیِ قسمت کہ میں پھر اب کی برس

رہ گیا ہمرہِ زوّارِ مدینہ ہو کر


چمنِ طیبہ ہے وہ باغ کہ مرغ ِ سدرہ

برسوں چہکے ہیں جہاں بلبلِ شیدا ہو کر


صرصرِ دشتِ مدینہ کا مگر آیا خیال

رشکِ گلشن جو بنا غنچہ ءِ دل وا ہو کر


گوشِ شہ کہتے ہیں فریاد رسی کو ہم ہیں

وعدہ ءِ چشم ؟ بخشائیں گے گویا ہو کر


پائے شہ پر گرے یارب تپشِ مہر سے جب

دلِ بے تاب اڑے حشر میں پارا ہو کر


ہے یہ امید رضا کو تری رحمت سے شہا

نہ ہو زندانیِ دوزخ ترا بندہ ہو کر



حدائق بخشش[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حدائق بخشش


پچھلا کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بندہ قادر کا بھی قادر بھی ہے عبد القادر

اگلا کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نارِ دوزخ کو چمن کر دے بہارِ عارض