کیا مہکتے ہیں مہکنے والے۔ امام احمد رضا خان بریلوی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
The printable version is no longer supported and may have rendering errors. Please update your browser bookmarks and please use the default browser print function instead.


شاعر : امام احمد رضا خان بریلوی

کتاب : حدائق بخشش

نعتِ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کیا مہکتے ہیں مہکنے والے

بو پہ چلتے ہیں بھٹکنے والے


جگمگا اٹھی مِری گور کی خاک

تیرے قربان چمکنے والے


مہِ بے داغ کے صدقے جاؤں

یوں دمکتے ہیں دمکنے والے


عرش تک پھیلی ہے تابِ عارض

کیا جھلکتے ہیں جھلکنے والے


گُل طیبہ کی ثنا گاتے ہیں

نخل طوبیٰ پہ چہکنے والے


عاصیو! تھام لو دامن اُن کا

وہ نہیں ہاتھ جھٹکنے والے


ابرِ رحمت کے سلامی رہنا

پھلتے ہیں پودے لچکنے والے


ارے یہ جلوہ گہِ جاناں ہے

کچھ ادب بھی ہے پھڑکنے والے


سنّیو! ان سے مدد مانگے جاؤ

پڑے بکتے رہیں بکنے والے


شمعِ یادِ رُخِ جاناں نہ بجھے

خاک ہو جائیں بھڑکنے والے


موت کہتی ہے کہ جلوہ ہے قریب

اِک ذرا سو لیں بلکنے والے


کوئی اُن تیز رووں سے کہہ دو

کس کے ہو کر رہیں تکھنے والے


دل سلگتا ہی بھلا ہے اے ضبط

بجھ بھی جاتے ہیں دہکنے والے


ہم بھی کمھلانے سے غافل تھے کبھی

کیا ہنسا غنچے چٹکنے والے


نخل سے چھٹ کے یہ کیا حال ہوا

آہ او پتّے کھڑکنے والے


جب گرے منھ سوئے مَے خانہ تھا

ہوش میں ہیں یہ بہکنے والے


دیکھ او زخمِ دل آپے کو سنبھال

پھوٹ بہتے ہیں تپکنے والے


مَے کہاں اور کہاں میں زاہد

یوں بھی تو چھکتے ہیں چھکنے والے


کفِ دریائے کرم میں ہیں رضؔا

پانچ فوّارے چھلکنے والے


مزید دیکھیے

آنکھیں رو رو کے سُجانے والے | کیا مہکتے ہیں مہکنے والے | راہ پُرخار ہے، کیا ہونا ہے

امام احمد رضا خان بریلوی | حدائق بخشش