کلام رضا میں عقیدۂ توحیدکی ضیا باریاں۔ پروفیسرڈاکٹر فاروق احمد صدیقی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


از پروفیسرفاروق احمد صدیقی

کلام رضا میں عقیدۂ توحیدکی ضیا باریاں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

توحید خدائے پاک کی یکتائی وبے ہمتائی پر ایمان کا مل رکھنے کانام ہے ۔ اس کا ایک اجمالی تعارف اس معروف و مقبول جملے میں ملتا ہے کہ ’’ اللہ ایک ہے ، پاک اور بے عیب ہے ، اُس جیسا اور کوئی نہیں ، وہ سب سے بڑا بادشاہ ہے ۔‘‘ قرآن واحادیث میں توحید باری کے متعلق جتنے بیانات وارشادات ملتے ہیں ، اُن سب کا خلاصہ و نچوڑ مرقومہ بالا جملے میںپوری اکملیت کے ساتھ موجود ہے ۔ توحید کے تحت خدائے بزرگ وبرتر کی ذات و صفات کی بوقلمونی کا بیان ہوتا ہے ۔ خدا کی عظمت و کبریائی چونکہ لامحدود ہے اس لئے شاعری میں خدا کی توحید بیان کرنے کے لئے شاعروں کو لامحدود فضا ملتی ہے ۔ اب یہ اُن کے شاعرانہ ذوق و ظر ف پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک صفاتِ خدا وندی اور تجلّیاتِ ربّانی کے کیفِ مشاہدہ یا تخیل کو اظہار کی حدوں میںسمیٹ سکتے ہیں ۔ وہ ذات جو کسی کے مثل نہیں، اور کوئی شئے اس کے مثل ، جو عرش پر مستوی ہے ، مگر عرش کو اس کی جستجو ہے ، اورجو کائنات کے ذرّے ذرّے میں پنہاں اور مستور ہے ، اور جو ماورائے احساس و ادراک ہے اور پھر بھی حبل الورید سے اقرب ہے ، اس کے بیان کو محسوسات کے دائر ے میں لانابڑے زرتخیّل اور بلند حوصلگی کا تقاضا رکھتا ہے ۔ ہاں اس کے اسمائے صفات کی بدولت کچھ بات بن سکتی ہے ، اور یہی کوشش ہمارے شاعروں کے یہاں ملتی ہے ، اور حضرت رضاؔ چونکہ امام الشعرا ہیں، اس لئے ان کے یہاں یہ کوشش پوری تکمیلیِ شان کے ساتھ بروئے کار آئی ہے ۔ اُن کے ایک عربی قصیدہ کے یہ ابتدائی اشعار ملاحظہ ہوں ، جن میں توحید کی عظمت وجلا لت کا بڑا کیف آگیں بیان ملتا ہے ۔ ؂

اَلْحَمْدُ لِلْمُتَوَ حِّدٖ

بِجَلَالِہِ الْمُتَفَرِّدٖ

وَصَلَوَاتُہٗ دُوْمَاعَلٰی

خَیْرِ الْاَنَامِ مُحَمَّدٖ

(تمام تعریفیں خدائے یکتا کے لئے ہیں جو اپنے جلال میں یگانہ و تنہا ہے اور اُس کی رحمت بے پایاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی رہے جو تمام خلائق میںسب سے افضل واعلیٰ ہیں )

معتبر روایات کے مطابق جامعہ ازہر کے عالموں اور ادیبوں نے جب ان اشعار کو سنا توحیرت و استعجات کا عالم ان کی نگاہوں کے سامنے پھر گیا ، اور یہ تبصرہ کیا کہ ایک غیر عرب کا ایسا مرصّع کلام کہنا بڑے کمال کی بات ہے ۔

جہاںتک حضرت رضاؔ کے اردو کلام میں توحید کی ضیا باریوں کا تعلق ہے تو اس میں شک نہیں کہ حضرت رضاؔ کے نعتیہ مجموعہ ’’ حدائق بخشش ‘‘ کے دونوں حصوں کے آغاز میں روایتی طور پر کوئی حمد نہیں ملتی ہے ، مگر اس کا ہر گزیہ مطلب نہیں کہ کلام رضاؔ توحید کی ضیا باریوں سے محروم ہے ۔ ایک سطحی نظروالا ہی ایساسوچ سکتا ہے ۔ آیت پاک ’’ من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ ‘‘کے مطابق جب رسول کی اطاعت ، خداہی کی اطاعت ہے تو اس کا صاف منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رسول کی مدح و ثنا بالواسطہ طور پر خدائے عزوجل ہی کی حمد وثنا ہے ۔ اور یہ بھی اک مسلّمہ حقیقت ہے کہ مخلوق کی تعریف سے خالق کی تعریف ہی مقصود و متصور ہوتی ہے ۔ اس لئے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ حدائق بخشش کے دونوں حصے ( تیسرا حصہ میرے پیش نظر نہیں ہے ) نعتِ رسول کے ساتھ ساتھ توحید الہٰی کے جلووں سے بھی معمورو مستنیر ہیں ، اور ایسا ہونا ہی تھا کیونکہ خود بقول حضرت رضاؔ ؎

ذِکرِ خدا جو اُن سے جُدا چاہو نجدیو

واللہ ذِکر حق نہیں، کُنجی سقر کی ہے

چنانچہ حدائق بخشش کے دوسرے حصے کے آخر میںایک مستقل حمد ہے جس میں توحید باری کے ساتھ ساتھ نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھی حسین جلوے نظر آتے ہیں ، یا یہ کہیں کہ یہ ایک ایسی نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جس میں توحید کی کہکشاں بھی نور افشاںنظر آتی ہے ۔ یہ بیک وقت حمد بھی ہے اور نعت بھی ۔ اس طرح حمد و نعت کو ہم رنگ وہم آہنگ کرکے پیش کرنے کی سعی مشکور صرف اور صرف حضرت رضاؔ ہی نے کی ہے صرف ایک شعر ملاحظہ ہو ؎

وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا

ہمیں بھیک مانگنے کو ترا آستاں بتایا

تجھے حمد ہے خدایا

کلام رضاؔ میں توحید کی ضیاباریوں سے متعلق تمام اشعار کو زیر بحث لانا طول مبحث کا باعث ہوگا، اس لئے یہاں صرف چند منتخب اور نمایندہ اشعار کے حوالے سے ہی گفتگو ہو گی ۔ ارباب علم و دانش کے نزدیک سمندر کو کوزہ میںسمونا اورکوزہ کو سمندر کی وسعت عطا کرنا ، دونوں اعلیٰ درجہ کا فنکا رانہ عمل ہے ۔ اِس تناظر میں دیکھئے تو حضرت رضاؔنے اپنے ایک مصرع میں سمندر کو کوزہ میں بند کردینے کی فنکاری کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔ یہاں بظاہر خدائے پاک کی صرف ایک ہی صفت کا بیان ہوا ہے ، مگر اس میں جہانِ معنی پوشیدہ ہے ۔ اختصار میںجامعیت ، تہداری اور طرح داری کے حُسن کے ساتھ ساتھ اس کوفنی خوش سلیقگی کے ساتھ برتنے کا پیار ااور انوکھا انداز ملاحظہ ہو ؎

مُژدہ باد اے عاصیو ، شافع شہِ ابرار ہے

تہنیت اے مجرمو ، ذاتِ خدا غفّار ہے

داددیجئے کس ایمانی جوش و جذبے اور فخر و طرب کے ساتھ حضرت رضاؔنے خدائے پاک کی صفت غفّاری کا بیان کیا ہے ۔ خود تو فرطِ مسرّت سے سرشار ہیں ہی، تمام مجرموں کو بھی مبارکباد دے رہے ہیں کہ جب ہمارا رب کریم ، غفّار ہے تو پھر آخرت کی ہولناکیوں سے ڈرنا کیاہے ۔ وہ خدائے بندہ پر ور ضرور ہمارے گناہوں کو بخش دے گا۔ اِسی مضمون کا ایک اور شعر کلام رضاؔ میں ملتا ہے ملاحظہ ہو ؎

کیوں رضاؔ کُڑھتے ہو ، ہنستے اُٹھو

جب وہ غفّار ہے کیا ہونا ہے

یہاں بھی خدائے ارحم الراحمین کی شانِ غفّاری پر مچلنے اور اترانے کا انداز بہت ہی نشاط افزا اور طمانیت بخش ہے ۔ دوسرے مصرع میں ’’ کیا ہونا ہے ‘‘ کا ٹکڑا غضب کا ہے ۔ با ربار پڑھئے اور حَظ اُٹھائیے ، اور رحمتِ خدا وندی کے بیکراں سمندر میں بالکل بے فکری اور بے نیازی کے ساتھ شناوری کیجئے ۔

رب تعالیٰ کی ایک صفت اس کا ستّار ہونا بھی ہے ، جس طرح وہ غفّار الذّ نوب ہے ، ستّارالعیوب بھی ہے ۔ ہم رات دن معاصی کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں اور وہ ان پر پردے ڈالتا رہتا ہے۔ حضرت رضاؔ فرماتے ہیں کہ اے رب کریم جس طرح دنیا میں تونے ہمارے جُرموں کی طرف سے چشم پوشی کی ہے، آخرت میں بھی ہمارے نامۂ اعمال کو پردۂ خفاہی میں رکھنا، ورنہ تیرا یہ عبد ضعیف کہیں کا نہیں رہے گا ۔ کس جذبۂ عبودیت اور انکسار کے ساتھ وہ بارگاہ ایزدی میں استغاثہ کرتے ہیں ، ملاحظہ ہو۔ ؎

اپنی ستّاری کا یارب واسطہ

ہُوں نہ رسوا، برسرِ بازار ہم

یہاں ’’ بازار ‘‘ سے مرادبازار قیامت ہے ، جہاں اولین و آخرین کا مجمع ہوگا وہاں کی خجالت و پشیمانی کتنی عبر تناک ہو گی ، بس اس کا تصور ہی کیا جاسکتا ہے ۔ اُسی سے بچنے کے لئے حضرت رضاؔ ، بارگاہِ ستّار العیوب میں فریاد کناں ہیں ۔

اور اب وہ شعر دیکھئے جس میں خدائے ذوالجلال کی صفت قہاری کا بیان ہوا ہے ۔ یہ امرمحتاج و ضاحت نہیں کہ ہمارا رب جہاں رئوف ہے ، رحیم ہے ، ستّار ہے ، غفّار ہے ، وہاں قہّار و جبّار بھی ہے ۔ اِس کا تصور کرکے ہی ایک حسّاس آدمی لرزہ بر اندام ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ حضرت رضاؔ بھی رب تعالیٰ کی صفت قہاری کا بیان کرتے ہوئے لرزاں و تر ساں نظر آتے ہیں ۔ ایک بندۂ مومن کی شان یہی ہے کہ جہاں وہ ارحم الراحمین کی رحمتوں پر مچلے ، وہیں اس کے قہر و غضب سے بھی ڈرتار ہے ، اور جو شخص جس قدر خدائے پاک کا محبوب ومقرب ہوتا ہے اتنا ہی اُس سے ڈرتا بھی ہے حضرت رضاؔ کے مقبولِ بارگاہ ہونے میں کیا شبہہ ہے ۔ مگر ان کے جذبۂ عبودیت کو تو یہ کہنا ہی تھا کہ ؎

خدائے قہّار ہے غضب پر ، کھلے ہیں بدکاریوں کے دفتر

بچالو آکر شفیع محشر ، تمہارا بندہ عذاب میں ہے

یعنی کل عرصات قیامت میں خدائے قہار کے غیظ و غضب سے بچنے کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہمیں حاصل ہوجائے۔ ( آمین)

حضرت رضاؔ کو خدائے رئوف ورحیم کی رحمتوں پر کس قدر بھروسہ ہے اس کا احساس واندازہ درج ذیل شعر سے بھی ہوگا ؎

توہی بندوں پہ کرتا ہے لُطف و عطا ، ہے تجھی پہ بھروسا تجھی سے دعا

مجھے جلوۂ پاک رسول دکھا، تجھے اپنے ہی عزّ و علا کی قسم

میں نہیں سمجھتا کہ توحید باری کا اس سے عمدہ اور ایمان افروز بیان اور کیا ہوسکتا ہے ۔ حضرت رضاؔ، حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شوقِ فراواں رکھتے ہیں ، لیکن اس کی توفیق اپنے معبودبرحق ہی سے چاہتے ہیں اور یہی توحید کا مل ہے ۔

توحید الٰہی کا مظہر ایک اور اہم اور نمایندہ شعر ملاحظہ ہو، حضرت رضاؔفرماتے ہیں ؎

محمد مظہر کامل ہے ، حق کی شان عزت کا

نظر آتا ہے ، اس کثرت میں کچھ انداز و حدت کا

بہت ہی بلند اور استادانہ شعر ہے ۔ دوسرے مصرع میں کثرت اور وحدت کا لفظ صفت تضاد کا لطف دیتا ہے ، اس میں کوئی دورائیں نہیں کہ حضور خواجۂ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم صفاتِ خداوندی کے مظہر ا تم ہیں ، اور صفات خداوندی کی نہ کوئی حد ہے نہ شمار ۔ وہ ایک ایسی کثرت ہے جس کا ادراک واحاطہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اس نعت کے شعر میں توحید کی بوقلمونی کا ایسا عمدہ اور پاکیزہ بیان ملتا ہے جو حضرت رضاؔ کے خامۂ زرنگارہی سے متوقع ہوسکتا ہے ۔

اور اب آخرمیں حضرت رضاؔ کی ایک مشہور نعت کے درج ذیل تین اشعار نقل کئے جاتے ہیں ، جن میں توحید کی ضیا باریاں ہم دوشِ ثریا نظر آتی ہیں بلکہ اس سے بھی بلند وارفع مقام پر دکھائی دیتی ہیں ، ان اشعار کے منصۂ شہود پر آنے کا ایک خاص ہی منظر ہے وہ یہ کہ بیسویں صدی کے او ائل میں پیدا شدہ ایک بدبخت جماعت نے امکانِ کذب باری تعالیٰ کا عقیدۂ باطلہ گڑھا اور اپنی تحریر و تصنیف کے ذریعہ اس کو پھیلایا اس پر علمائے حق نے اس ضال و مضل گروہ کے اکابرین کی شرعی گرفت کی مگر وہ ’’ ختم اللّٰہ علی قلو بہم وعلی سمعہم و علی ابصار ہم غشاوۃ ‘‘ کے نمونۂ کا مل بن کر بیہودہ تاو یلیں کرتے رہے اور قبول حق سے صاف انکار کردیا ۔ اس پر خدا ورسول کے محب صادق حضرت رضاؔ کی غیرت توحید حرکت میں آگئی اور آپ نے ناموس الٰہی کے دفاع میںیہ ایمان افروز اشعار کہے ؎

مگر خدا پہ جو دھبّہ دروغ کا تھوپا

یہ کس لعیں کی غلامی کا داغ لے کے چلے

وقوع کذب کے معنی درست اورقدّوس

ہئیے کی پھوٹے ، عجب سبز باغ لے کے چلے

جہاں میںکوئی بھی کافر سا کا فر ایسا ہے

کہ اپنے رب پہ سفاہت کا داغ لے کے چلے

ان اشعار کی تشریح کی ضرورت نہیں، یہ خودزبان حال سے اپنا تعارف کرا رہے ہیں ۔ دنیا میں ایک سے ایک گمراہ فرقہ پیدا ہوا مگر کسی نے اپنے رب اور معبود کو عیبی نہیں قرار دیا۔ یہ ہمارے ملک ہندوستان جنت نشان میں ’’دیو کے بندوں ‘‘<ref>اکسی بھی مضمون کا نقطہ نظر "ادارہ نعت کائنات کا نقطہ نظر نہ سمجھا جائے ۔ "نعت کائنات" کا مقصد نعت کا فروغ ہے ۔ مسلکی مباحث نہیں ۔ </ref> کا تفر د اور امتیاز خاص ہے کہ اس نے اللہ ایک ہے پاک اور بے عیب ہے ، کہ عقیدۂ حقہ پر خط بطلان کھینچ دیا۔ اور توحید کی امانت کو اللہ کے سادہ لوح بندوں کے سینوں سے نکال کر ان کو ایمانی اعتبار سے مقلس و قلاج بنادیا ۔ اور لطف یہ کہ خود تو حید کے تنہا اجارہ دار بھی بنے رہے ۔ غالباً ایسوں ہی کے لئے کہا جائے گا کہ ؎

کعبہ کس منہ سے جائوگے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

سطور بالا میں کلام رضاؔ میں توحید کی ضیاباریوں سے متعلق محض چند جھلکیاں دکھلائی گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے اعتراف ہے کہ موضوع کا حق ادا نہیں ہوسکا ہے ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ راقم الحروف پھر اس موضوع پر مزید غور و خوض کرے گا۔ السعی منی والا تمام من اللّٰہ


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

فاروق احمد صدیقی | احمد رضا خان بریلوی

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]