کلام رضا میں حسن و جمال مصطفوی کے نرالے تذکرے۔ مولاناغلام مصطفیٰ قادری رضوی ، باسنی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


از مولاناغلام مصطفیٰ قادری رضوی ، باسنی

کلام رضا میں حسن و جمال مصطفوی کے نرالے تذکرے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کلام رضا میں حسن و جمال مصطفوی کے نرالے تذکرے

مولاناغلام مصطفیٰ قادری رضوی ، باسنی

الحمدللّٰہ الذی وکفی وسلام علی حبیبہ الذین اصطفیٰ

معدن خصائص کا ملہ ، ربیع فصل دوراں ، کاشف سر مکنون ، خازن علم مخزون ، امام جماعت انبیاء ، سرور بنی آدم ، روح روان عالم ، تاجداردو عالم ، سید جہاں ، رسول کونین رحمۃ للعالمین ارواحنافداہ صلی اللہ علیہ و ٰالہ وصحبہ وسلم کو خالق کائنات جل مجدہٗ نے جن فضائل و کمالات سے مالا مال فرمایا ہے وہ ذہن انسانی سے بہت بلند ہیں … جن کو بیان کرنے کے لیے چودہ سو برس سے عشاقان باکمال کتابیں لکھتے رہے … دنیا کے کسی نبی ، مصلح فاتح او ر سلطان کے بارے میں اتنی کتابیں نہیںلکھی گئیں جتنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک خوبی اور ادا پر لکھی گئیں بے شمار اعلیٰ پایہ کے لوگوں نے حضور کریم کے ذکر پاک کو بلند کرنے کے لیے جس طرح اپنی زندگیاں ، اپنی علمی قوتیں ، روحانی لطافتیں اپنا مال اور اپنے و سائل وقف کئے ہیں کسی دوسرے کے بارے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا عشاقانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نثرو نظم میں انسانیت کو جو پاکیزہ ادب عطا فرمایا ہے اس کی نظیر بھی نہیں ملتی …

کس کس خوبی کو بیان کیا جائے ، کس پہلو کو تحریر کے احاطے میں لایا جائے ، کس فضیلت پر خامہ فرسائی کی جائے ، وہ خوبی میںاپنی مثال آپ ہیں … قلم کی سیاہی جواب دے سکتی ہے … کاغذ و قرطاس ہاتھ جوڑنے لگ جائیں گے مگر کمالات مصطفوی کو کما حقہ بیان نہیں کیا جاسکتا … بڑے بڑے عشاق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کمالات محمد ی صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرتے کرتے جب تھک گئے تو انہیں بھی یہی عرض کرنا پڑا ؂

لایمکن الثناء کما کان حقہ

بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

مگر آئیے ثنا خوانان خواجۂ اعظم علیہ التحیۃ و الثناء کی فہرست میںاپنا نام درج کروانے کی نیت سے کمالات و خصائص رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ممتاز اور بے مثال و صف و کمال یعنی ’’حسن و جمال ‘‘ کے بارے میں کچھ خامہ فرسائی کی جائے … اور اس و صف بے مثال کے تذکرے بھی عقیدت مند حضرات نے تفصیل کے ساتھ کئے ہیں کہ کتابیں ہی کتابیں حسن مصطفوی کی رعنائیوں سے بھری ہوئی ہیں… اور کیوں نہ ہو کہ خالق حسن و جمال نے اس عظیم المرتبت پیغمبر اعظم محبوب اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حسن کا مل کا مظہر بنایا ۔ باطنی کمالات و درجات کے ساتھ ساتھ حسن ظاہری میں بھی آپ بے مثل و مثال ہی نظر آئے … ہر حسین کا حسن و جمال آپ کے در کی خیرات ہے … حسن و جمال جہاں آراء کو کون صحیح معنی میں بیان کرسکتا ہے جب کہ اس محبوب اعظم کا رب یوں بیان فرماتا ہے…

والضحیٰ واللیلِ اِذَاسَجیٰ o

قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت ملا حظہ فرمائیے اور اس پر مفسرین کرام نے عشق و محبت کے جوپھول کھلائے ہیں ان کو پڑھ کر سردھنئے ۔ ارشاد ربانی ہے ۔

یکاد زیتھا یضئی و لولم تمسہ نارٌ نور علی نور یھدی اللّٰہ لنورہ من یشآء

اس آیت کریمہ کے تحت شیخ نفطویہ یوں رقم طراز ہیں :

’’ ھذا مثل ضربۃ اللّٰہ لنبیہ علیہ الصلاۃ و السلام یقول یکاد منظرہ یدل علیٰ نبوتہ و ان لم یسل قرآناً‘‘ ’’ اللہ تعالیٰ نے یہ اپنے پیارے محبوب علیہ السلام کی مثال دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر قرآن کی تلاوت نہ بھی کرتے پھر بھی آپ کا چہرۂ اقدس آپ کی نبوت پر دال تھا… ‘‘ <ref>حجۃ اللہ علی العالمین ،ص ۶۷۵</ref>

علامہ آلوسی روح المعانی میں فرماتے ہیں ۔

یکادزیت صلوات اللّٰہ و سلامہ علیہ لصفائہ وزکائہ ولو لم یمسہ نور القرٰان ’’ اگر نورقرآن آپ کو مس نہ بھی کرتا تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پاکیزگی اور کمال حسن کی وجہ سے جگمگا اٹھتے ۔ <ref>تفسیر روح المعانی ، پ ۸</ref>

مندرجہ بالا اقوال مقدسہ سے یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ حسن و جمال مصطفوی بھی دلیل نبوت تھا ؂

ترے خلق کو حق نے عظیم کہاتری خلق کو حق نے جمیل کیا

کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہاترے خالق حسن و ادا کی قسم

کس کس آیت کو پیش کیا جائے جس سے جمال رخ زیبا ، گیسوئے معنبر اور چشم منور کا بیان خوشبوئیں بکھیر رہا ہے اور پھر ان آیات کی تفاسیر میںمفسرین کرام نے جو موتی پر وئے ہیں ان کو دیکھ کر محب بے ساختہ پکار اٹھتا ہے ع

تجھ کو دیکھا تومصور کا قلم یاد آیا

محبوب جس قدر عظیم ہو گا اس کی عظمت کے چر چے او رتذکرے اتنے ہی دلکش اور حسین انداز سے کئے جائیں گے اس کی ادائوں اور خوبیوں کو اتنی ہی بلندی کے ساتھ بیان کیا جائے گا اور جو محبوب خدا و خلق خدا ہو اس کے جمال و کمال کو تو بیان کرنے کے لیے ہر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ عہد رسالت سے لے کر آج تک ثنا خوانان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے محبوب پاک کے حسن و جمال کو صرف بیان ہی نہیں کیا بلکہ حسن بے داغ کے تونثا رو قربان جانے کی تمنائیں اور آرزو ئیں کی ہیں ۔ اپنے محبوب کے حسن و جمال سرا پائے اقدس ، رخ زیبا ، اور جبین تاباں کی مدح و ثنا اور تعریف و توصیف سے اپنے عشق و محبت کی بزمیں بطر یق احسن سجائی ہیں ۔

تربیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے گو ہرتا بدار بننے والے جاںنثاروں نے تو جمال حضور کو اتنے حسین پیر ائے میں بیان کیا ہے کہ دل ونگاہ مسرورو شادماں ہو جاتے ہیں ۔ اور ہونٹ فرط محبت میں ان کے کلمات کو بوسہ دینے لگتے ہیں … ذرا یار غار ، اصدق الصادق سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے یہ جملے تو ملاحظہ فرمائیں جو عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں غوطہ زن ہو کر شاید آپ نے کہے تھے … ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ انور دائرۂ قمر کی مانند تھا۔‘‘

حضرت شیخ محقق عبدالحق محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ چاند کے نورانی جسم سے مشا بہت یا ہالۂ قمر سے تشبیہ کا صریح اشارہ آپ کے چہرۂ انور کے اس نور کی طرف ہے جو انوار و اضواء کی شکل میں بمنزلۂ ہالہ احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یہ تشبیہ آپ کے رخ انور کے کمال ضیاء و نور انیت اور اس کی عظمت و ہیبت وجلال کاطریقۂ اظہار ہے اور کوشش کرنی چاہئے کہ اس سے نظر و مشاہدہ میں کیا چیز آتی ہے اور اس تشبیہ میں مشاہدہ کرنے والے کی نظر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جمال و جلال کیسے ظاہر ہوتا ہے کیونکہ یہ آنکھوں کو سیراب کرتا اور دل کو نور عظمت و محبت سے بھرتا ہے ۔

اور اس عاشق رسول کے جمال جہاں آراء کو بیان کرنے والے جملے بھی تو ملاحظہ فرمائیے جن کا نام زبان پر آتے ہی مشام جاں معطر ہوتے جاتے ہیں جس کا پورا وجود عشق و محبت رسول کا آئینہ دار تھا ۔ خود زبان رسالت علیہ التحیۃ و الثناء نے جن کی روح القدس کے ذریعے تائید کی دعا کی یعنی محب رسول عاشق بے مثال حضرت سید نا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ؂

واحسن منک لم ترقط عینی

و اجمل منک لم تلد النساء

خلقت مبراء من کل عیب

کانک قد خلقت کما تشاء

ترجمہ : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری آنکھ نے آپ سا حسین و جمیل اور کوئی نہیں دیکھا کیونکہ آپ سا حسین و جمیل کسی ماں نے جنا ہی نہیں ۔ آپ تو ہر عیب سے پاک پیدا کئے گئے ہیں گویا کہ آپ ایسے پیدا کئے گئے جیسا کہ آپ چاہتے تھے ۔

اور دیکھئے حضرت سید نا ابوہر یرہ رضی اللہ عنہ کتنے الفت بھرے انداز میں فرماتے ہیں ۔

مارأیت شیئا احسن من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین و بہتر میں نے کسی چیز کو نہیں دیکھا ‘‘…

ذرا مذکورہ بالا الفاظ پر غور کیجئے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مارأیت شیئاً فرمایا یہ نہیں فرمایا مَارأیت انساناً اَوْرجُلاً… ( کسی انسان یا مرد کو نہیں دیکھا) کیونکہ پہلے والے جملے میں مبالغہ ہے مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبی حسن ہر چیز پر فائق تھی اور انہوں نے فرمایا کہ چہرۂ انور ایسا روشن و تاباں تھا کہ گویا آفتاب آپ کے رُخ انور میں پیر رہا تھا ؎

تاشب نیست روز ہستی زاد

آفتابے چو تو ندارد یاد

حضرت مولائے کا ئنات علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔

آپ کا چہرۂ اقدس خوش منظر تھا اور آپ کا نسب مبارک اعلیٰ اور آواز حسین تھی ۔

زوجۂ رسول سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں ۔

’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ اقدس کا حسن و جمال سب سے بڑھ کر اوررنگ سب سے روشن تھا ۔‘‘

حضرت ام معبد فرماتی ہیں۔

’’ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ اقدس میں سور ج کی سی تابانی اور درخشندگی تھی ۔‘‘<ref>سبل الہدیٰ ،۲/۵۶، بحوالہ شرح سلام رضا</ref>

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ اس پیکر حسن و جمال کی محبت و عشق میں غوطہ زن ہو کر بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب چودہویں رات کا چاندپر بہار میں کھلا ہوا تھا میں چودہویں رات کے چاند کے حسن و جمال کے نظارے سے لطف اندوز ہورہا تھا اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لارہے ہیں میں نے چاند کے چہرے سے نظر ہٹا کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ پر نور پر ڈالی پھر میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ زیبا سے نظر ہٹا کر چاند کے چہرے پر ڈالی پھر چاند کے چہرہ سے نظر ہٹا کر حضور اقدس کے چہرۂ انور پر ڈالی اس طرح میں نے چند مرتبہ کیا … بار بار کے تجزیہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ اقدس چاند سے بھی زیادہ روشن اور منور ہے کیوں کہ چاند کے چہرہ میں سیاہ دھبہ ہے لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ انور صاف اور درخشاں ہے ؎

میل سے کس درجہ ستھرا ہے وہ پتلا نور کا

ہے گلے میںآج تک کورا ہی کرتا نور کا

محبوب رب صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کا کیا کہنا عاشقوں نے کبھی آفتاب سے تشبیہ دی اور کبھی ماہتاب سے …

صحیح بخاری کی حدیث میںہے کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے روشن صفائی و تابانی میں شمشیر کی مانند تھا ؟ فرمایا نہیں بلکہ چاند کی مانند تھا … کیونکہ شمشیر کی تشبیہ میں گولائی مفقود ہے اس لیے انہوں نے چاند سے تشبیہ دی چاند میں چمک دمک بھی ہے اور گولائی بھی …

اور صحیح مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ انہوں نے جواب دیا… نہیں ! بلکہ آفتاب و ماہتاب کی مانند تھا یعنی مستد یر اور گولائی میں ۔اگر چہ ماہتا ب کے مقابلہ میں آفتاب میں چمک دمک زیادہ ہے لیکن ماہتاب میں جو ملاحت ہے وہ آفتاب میں نہیں ۔ اورملاحت ایسی خوبی ہے جو دیکھنے میںپر لطف اور دل نشیں ہے جس کا ذوق سلیم ہی ادر اک کرسکتا ہے ۔ <ref> (مدارج النبوۃ، ۱/۱۱)</ref>

حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو چاند اور سورج سے تشبیہ بلکہ ان سے بھی زیادہ حسین و جمیل کہنے والے عاشقوں کے واقعات بیان کئے جائیں تو صفحات کے صفحات بھر جائیں … خدا ان عاشقوں کے بحر عشق و محبت کی ایک بوند ہمیں بھی عطا فرمائے ۔ یہ دیکھئے حضرت کعب مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔

کان رسول اللّٰہ اذاسر استلناروجھہ کانہ قطعۃ قمر

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر جب شکن پڑتی تو آپ کا چہرۂ انور پارۂ قمر کی مانند چمکنے لگتا ۔‘‘

طالبان مشتاق ہمیشہ جمال جہاں آراء صلی اللہ علیہ وسلم کے مشاہدہ میں ایام بیض کی راتوں میں مشرف رہتے تھے اور اس مشاہدہ سے وہ کبھی غافل و فارغ نہ ہوتے تھے کیونکہ دیدار نقد ہے اور ابن ابی ہالہ کی حدیث میں ہے کہ ’’ مشاہدہ کرنے والوں کی نظر میں حضور اکرم علیہ الصلاۃ والسلام عظیم بزرگ معظم تھے گویا کہ آپ کا چہرۂ انور چودہویں رات کے چاند کی مانند روشن وتاباں تھا…‘‘

اور جمال جہاں آراء صلی اللہ علیہ وسلم کو آفتاب کے مقابلے میں چاند سے تشبیہ دینے کی ترجیح میں اہل سیر فرماتے ہیں کہ چاند چونکہ اپنے نور سے آنکھوں کو ٹھنڈک اور فرحت بخشتا ہے اوراس کے مشاہدہ سے دل کو انس و لذت حاصل ہوتی ہے اور یہ کہ اس کی طرف نظر کرنا ممکن ہے بخلاف آفتاب کے … کہ وہ آنکھوں کو خیرہ کرتا ۔اور دل کو ذوق نہیں پہنچاتا ہے … <ref>ایضاً، ص ۱۳-۱۴</ref>

حسن بے مثال کا کہاں تک ذکر کیا جائے ’’ بعد از خدا بزرگ توئی جن کی ذات ہو اس کے سراپا اور حسن جمال کو کون بیان کرسکتا ہے … ام المومنین محبوبۂ محبوب رب العٰلمین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں کہ میں سحری کے وقت سی رہی تھی کہ میرے ہاتھ سے سوئی گر گئی چراغ کی روشنی میں اسے بہت تلاش کی نہیں ملی ۔ اتنے میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ کے چہرۂ انور کی روشنی سے پورا کمرہ روشن ہوگیا … اور اس روشنی میں میں نے اپنی سوئی دیکھ لی ۔‘‘ <ref>خصائص کبریٰ ،۱/۱۵۹</ref>


سوزن گم شدہ ملتی ہے تبسم سے ترے

شام کو صبح بناتا ہے اجالا تیرا

حقیقت یہ ہے حسن محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر پورا ظاہر نہیں کیا گیا ورنہ کسی میںطاقت نہیں تھی کہ وہ اس حسن کی تاب لاسکتا ۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں ۔

’’ کہ میرے والد ماجد شاہ عبدالرحیم صاحب نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کی تو عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر زنان مصر نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے اور بعض لوگ ان کو دیکھ کر مرجاتے تھے مگر آپ کو دیکھ کر کسی کی ایسی حالت نہیں ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا جمال لوگوں کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ نے غیرت کی وجہ سے چھپا رکھا ہے اگر آشکارا ہوجائے تو لوگوں کا حال اس سے بھی زیادہ ہو جو یوسف علیہ السلام کو دیکھ کرہوا تھا ۔‘‘<ref> درالثمین فی مبشرات النبی الامین ، ص۷</ref>


’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا حسن و جمال ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا اگر آپ کا پورا حسن و جمال ظاہر کیا جاتا تو ہماری آنکھیں آپ کے دیدار کی طاقت نہ رکھتیں۔ ‘‘(زرقانی شریف)

وہ حسن جس کے آگے وادی خیال میں پیدا ہونے والی حسن جمال کی تمام تر رعنائیاں فیل ہوجائے کون بیان کرسکتا ہے اس نورانی چہرے کے کمالات حسن کس بیان میں آسکتے ہیں … مگر آئیے کچھ جمال محبوب رب صلی اللہ علیہ وسلم کو امام احمد رضا کے اشعار کی روشنی میں بھی دیکھتے چلیں ۔ کیونکہ امام احمد رضا اسی کاروان مدحت و نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رکن ہیں جس کی زندگی کا ماحول ہی عشق والفت رسول تھا۔ انہوں نے تو اوصاف مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ مدحت بیان فرمائی کہ جسے پڑھ کر مشام جاں معطر ہوجائے … سلام رضا کوا س سلسلے میں امتیازی حیثیت حاصل ہے …

حسن مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ بھی امام احمد رضا نے بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے او ربقول مسعود ملت پر وفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب مظہری دام ظلہ: ’’امام احمد رضا بریلوی جب اپنے محبوب دل آراء کی محبت میں ڈوبتے ہیں اور اس کے حسن دل افروز کو شعروں میں ڈھالتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے جیسے دل مچل رہے ہوں … جیسے آنکھیں برس رہی ہوں… جیسے سینے پھک رہے ہوں … جیسے چشمے ابل رہے ہوں… جیسے فوارے چل رہے ہوں … جیسے گھٹائیں چھا رہی ہوں… جیسے پھوارپڑ رہی ہو… جیسے مینھ برس رہا ہو… جیسے جھرنے چل رہے ہوں… جیسے دریا بہہ رہے ہوں … جیسے صبا چل رہی ہو… جیسے پھول کھل رہے ہوں… جیسے خوشبو مہک رہی ہو…جیسے تارے چمک رہے ہوں … جیسے کہکشاں دمک رہی ہو… جیسے آفاق پھیل رہے ہوں…جیسے دنیا سمٹ رہی ہو… جیسے زمین سے اٹھ رہے ہوں… جیسے فضائوں میں بلند ہورہے ہوں…‘‘ اور آگے چل کر فرماتے ہیں:’’ جیسے ان کے نور کی خیرات لوٹ رہے ہوں … جیسے ان کے کرم کی بہار یں دیکھ رہے ہوں … رضا بریلوی کے نعتیہ نغموں کی کیا بات …‘‘

سطور بالا میں بیان کیا جاچکا ہے کہ حسن مصطفوی اور جمال جہاں آراء کی کوئی مثال پیش نہیں کرسکتا تو بھلا جس نے اپنی پوری زندگی حب رسول میں صرف کردی اپنے محبوب کی ہر ہرادا پر جاں فدا کردی ان کے اعضائے جسمانی پراپنے مشہور زمانہ سلام میں محبت وعشق بھرے انداز میں بہت پر لطف روشنی ڈالی ہو جس کی روح کا چین چہرۂ والضحیٰ ہو ۔ جس کے لب پر لمحہ لمحہ ذکر حبیب پاک اور تذکار محبوب پاک ہوجب وہ اپنے محبوب کے حسن و جمال کی کیفیتوں کا ذکر چھیڑے تو پھر عالم کیا ہوگا ۔ عرض کرتے ہیں ؎

حسن تیرا سا نہ دیکھا نہ سنا

کہتے ہیں اگلے زمانے والے

اور جس حسن بے مثال کو متقدمین خراج پیش کرتے ہوں اس پر متاخرین کا یہ شیدائی کیوں نہ قربان ہو۔ ذرا والہانہ انداز تو دیکھئے ؎

حسن بے داغ کے صدقے جائوں

یوں دمکتے ہیں دمکنے والے

مشتاق مصطفی یعنی صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کئی ایک مثالیں گذشتہ صفحات میں پیش کی گئیں جن سے حسن مصطفی کو بے نظیر قرار دیاگیا … اپنے انہی سرکاروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ عاشق صادق امام احمد رضا بھی اپنے محبوب جاناں صلی اللہ علیہ وسلم کی شان حسن کو بیان کرتے ہوئے عرض گذار ہے ۔

لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا

جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کوشہ دوسرا جانا

اپنے آقا اورمحبوب کے حسن و جمال خدو خال زلف ورخ ورخسار کی والہانہ انداز میں کتنے خوبصورت الفاظ اور عشق بھرے انداز میں مدحت بیان کی ہے… ذرا غوطہ زن بحر عشق ہو کر آپ بھی ملاحظہ کریں …

وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں

یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

دولت درد اور متاع عشق کوئی معمولی چیز نہیں کہ جس کی حفاظت سے ہم غافل ہوجائیں اس سے محرومی کا تلخ ذائقہ ہم یورپ سے پوچھیں … جس کے پاس سب کچھ ہے مگر اپنا آپ نہیں بچا دل رہ گیا مگر دھڑکن نام کو نہیں … امام احمد رضا نے اسی عشق اور درد کو محسوس کیا اور دنیاوی بادشاہوں کے بجائے کائنات کے شہنشاہ کا عشق اپنے سوزدروں میں جاگزیں کیا جس کی تپش سے اپنے سینہ کو آشنا کیا جس کے گداز سے اپنے آپ کو شنا سا کیا ۔ یہ عشق رسول کی کیفیت ہی تھی عشق رسول کا ذوق ہی تھا والہا نہ پن ہی تھاگداختگی اور شیفتگی ہی تھی کہ جب مصطفی جان رحمت کا ذکر چھڑ جاتا تو یہ عاشق صادق تڑپ اٹھتا اور والہانہ عقیدت واحترام میں نعتوں پر نعتیں لکھ جاتا جن میں رخ مصطفی کا بھی ذکر ہوتالب مصطفی کا بھی تذکرہ ہوتا ۔ دست وقدم رسول کے تذکرے بھی ہوتے … خور دو نوش حبیب کے جلوے بھی دکھائی دیتے اور ان سب پر بھاری ان کا عشق بھرا انداز ادب و تعظیم ہوتا تبھی تو زندگی کا ماحصل قرار دینے کے بعدقبر میں بھی یہی آرزو لے کر چلے گئے …

لحد میں عشق رخ شہ کا داغ لے کے چلے

اندھیری رات سنی تھی چراغ لے کے چلے

مگر سردست میرا موضوع سخن حسن مصطفوی پر امام احمد رضا کی عقیدت مندانہ کیفیت بیان کرنا ہے ۔

باد رحمت سنک سنک جائے

وادی جاں مہک مہک جائے

جب چھڑے بات حسن حضرت کی (ﷺ)

غنچۂ دل چٹک چٹک جائے

امام احمد رضا نے اپنے محبوب کی توصیف و ثنا کرتے وقت نعتیہ شاعری میں کاروان نعت گوئی کے سالار اول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اپنا رہبرو رہنما مانا ہے … فرماتے ہیں …

توشہ میں غم و اشک کا ساماں بس ہے

افغان دل زار حدی خواں بس ہے

رہبر کی رہ نعت میں گرحاجت ہو

نقش قدم حضرت حساں بس ہے

حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے چہرۂ مصطفی ملاحظہ فرمانے کے بعد بحر عشق والفت میںغوطہ زن ہو کر عرض کیاتھا۔

واحسن منک لم ترقط عینی الخ

انہی کے نقش قدم پرچلنے والے بریلی شریف کی ٹوٹی چٹائی پر بیٹھنے والے عاشق نے جذبات عشق میں یوں کہا…

لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا

جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

ترے خلق کو حق نے عظیم کہا تری خلق کو حق نے جمیل کیا

کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالق حسن و ادا کی قسم

حسن محمدی کے متعلق پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب دام ظلہ فرماتے ہیں :

’’ایسا حسین و جمیل چہرہ کہ بس دیکھاکیجئے دیکھنے والوں نے ایسا حسین نہ دیکھا۔ سننے والوں نے ایسا حسین نہ سنا۔ ایسا حسین ، جس کے حسن و جمال پر دیکھنے والوں نے ایمان نچھاور کر دیئے ۔ دل فدا کردیئے ۔ جانیں قربان کردیں ۔ اللہ اللہ کشش کا عالم … سارے عالم کے دل کھینچنے لگے… پیاری پیاری ادائیں … سبحان اللہ سبحان اللہ ۔ ماشاء اللہ ۔ جانے کو دل نہیں چاہتا … ہیبت و جلال کا یہ عالم کہ شاہوں کے قدم لڑکھڑا گئے ۔

ظاہر میں غریب الغرباء پھر بھی یہ عالم

شاہوں سے سوا سطوت سلطان مدینہ

حسن بے مثال کا یہ عالم تھا کہ زبان کو عالم حیرت میں یہ کہنا پڑا لَمْ اَر قَبْلَہٗ وَ لَا بعدہٗ <ref>ترمذی ، مشکوٰۃ شریف ، ص ۵۱۷</ref>ایسا حسین وجمیل تو نہ ان سے قبل دیکھا گیا اور نہ ان کے بعد ، امام احمدرضا فرماتے ہیں ۔

ترا قد تو نادر دہر ہے کوئی مثل ہو تو مثال دے

نہیںگل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن میں سرو چماں نہیں

علامہ اشرف سیالوی کے بقول لوگوں کے نزدیک شمس و قمر، ستار گان فلک، گلہائے رنگا رنگ ، سبزہ زاروں ، رواں دواں نہروں اور ان کے ارد گردہرے بھرے درختوں کی قطاروں کا حسن بڑا اہم ہے آئیے محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار عشق سے تو پوچھیں کہ یہ سب کس کے حسن تمام کا پر تو ہیں … امام احمد رضا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ زیبا تو کیا آپ کے دست انور کی انگلی مبارک کی رعنائی کی بھی چاند پرفوقیت بیان کی ہے اور واضح کردیا کہ جب چاند محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی کی تجلیات کے سامنے مغلوب ہوگیا تو آپ کے چہرے کے حسن بے حجاب کا مقابلہ کس طرح کر سکتا ہے ۔ فرماتے ہیں ۔

برق انگشت نبی چمکی تھی اس پر ایک بار

آج تک ہے سینۂ مہ میں نشان سوختہ

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے چاند کی عقیدت وارادت کا حال یہ ہے کہ آپ کی جبیں توجبیں رہی وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش کف پا کو بوسہ دینا بھی سعادت سمجھتا ہے … بقول رضا بریلوی ؎

رخ انور کی تجلی جو قمر نے دیکھی

رہ گیا بوسہ دہ نقش کف پا ہو کر

امام احمد رضا کا پورا نعتیہ دیوان عظمت وکمال محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے پر ہے مگر بارگاہ حسن و جمال و عظمت و کمال میں اپنے دل نیاز مند کی طرف سے عقیدت و محبت کے پھول کس انداز میں پیش کر رہے ہیں حسن و جمال مصطفوی کی عظمت و رفعت ان اشعار سے بخوبی عیاں ہے…

عید مشکل کشائی کے چمکے ھلال

ناخنوں کی بشارت پہ لاکھوں سلام

ماہ مدینہ اپنی تجلی عطاکرے

یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دوپہر کی ہے

امام احمد رضا کے برادر گرمی نے ایک جگہ فرمایا تھا …

تیرہ دل کو جلوۂ ماہ عرب درکار ہے

چودہویں کے چاند تیری چاندنی اچھی نہیں

مذکورہ شعر عمدہ ہے مگر امام احمد رضا نے کہا اور خوب کہا…

خورشید تھا کس زور پر کیا بڑھ کے چمکا تھا قمر

بے پردہ جب وہ رخ ہوا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

وصف رخ ان کا کیا کرتے ہیں شرح والشمس وضحی کرتے ہیں

ان کی ہم مدح و ثنا کرتے ہیں جن کو محمود کہا کرتے ہیں

چاند سے منھ پہ تاباں درخشاں درود

نمک آگیں صباحت پہ لاکھوں سلام

یہ جو مہر و مہ پہ ہے اطلاق آتا نور کا

بھیک تیرے نام کی ہے استعارہ نور کا

حضرت سید نا یوسف علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے بے مثال حسن عطا فرمایا تھا جن کے رخ زیبا کو دیکھ کر مصر کی عورتیں عالم حیرت میںمحو ہو کر اپنی انگلیاں کاٹ بیٹھیں ۔ مگر سُنیٔ ، حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کیا فرماتی ہیں …

’’ زلیخا کی سہیلیاں اگر آپ کی حسین جبین کو دیکھتیں تو ہاتھوں کے بجائے دل کاٹ بیٹھتیں ۔‘‘

امام احمد رضا اسی حسن مصطفوی کے بارے میں نغمہ سراہیں ؎

حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں

سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردان عرب

کہنے والے صحیح کہہ گئے …

٭٭٭

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

غلام مصطفیٰ قادری رضوی | احمد رضا خان بریلوی

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]