"ڈاکٹر واحد نظیر کے شاعری مدحت کے آئینے میں از فیض احمد شعلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: {{بسم اللہ }} مضمون نگار : فیض احمد شعلہ === ڈاکٹر واحد نظر کی شاعری مدحت کے آئینے میں === ڈاکٹر وا...)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{بسم اللہ }}
{{بسم اللہ }}
[[ملف:Faiz Ahmad shola.png|alt="Faiz Ahmad Shola"|link=فیض احمد شعلہ]]


مضمون نگار : [[فیض احمد شعلہ ]]
مضمون نگار : [[فیض احمد شعلہ ]]

نسخہ بمطابق 23:55، 10 جون 2020ء


"Faiz Ahmad Shola"

مضمون نگار : فیض احمد شعلہ

ڈاکٹر واحد نظر کی شاعری مدحت کے آئینے میں

ڈاکٹر واحد نظیر کی شخصیت حلقہء ادب میں محتاج تعارف نہیں۔ وہ جامعہ ملیہ، نیء دہلی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے پیشہء درس و تدریس سے منسلک ہیں۔ موصوف دینی اور دنیوی دونوں علوم کی نعمتوں سے مالا مال ہیں۔ ان کی شعری، تحقیقی اور تدوینی تخلیقات پر مشتمل تقریباً ایک درجن کتابیں منظر عام پر آ کر حلقہء علم و دانش سے پزیرائی حاصل کر چکی ہیں۔ چند ماہ قبل ان کے نعتیہ کلام کا مجموعہ " مدحت " شایع ہوا ہے،جو اس وقت میری گفتگو کا موضوع ہے۔ اس مجموعہ میں حمد، مناجات اور نظموں سے قطع نظر غزل کی ہییت میں ٧٨٣ اشعار پر مشتمل ایک سو نعتیہ کلام عشق رسول سے سرشار دلوں کو مکرر قراءت پر اصرار کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ نعتیہ اشعار کی یہ کثیر تعداد شاعر کے جذبات کی شدت اور پاکیزگی کے ساتھ ساتھ اس کے خیالات کی فراوانی پر بھی دال ہے۔ یہ توفیق اللہ سب کو عطا نہیں کرتا۔ ڈاکٹر صاحب خوش نصیب ہیں کہ ان کے ذہن رسا کو محبوب کبریا کی مدح سرائی کا شرف ملا۔ عام طور پر شعرا غزلوں کا مجموعہ شائع کرنے کے لئے بے تاب ہوتے ہیں لیکن نظیر صاحب کے پاس غزلوں کا ایک خاطرخواہ ذخیرہ موجود رہنے کے باوجود انھوں نے نعتیہ مجموعہ کی اشاعت کو مقدم جانا۔ لہٰذا صفدر امام قادری کا یہ قول صد فی صد درست ہے " اس سے غالباً وہ کھلے بندوں اصرار کرتے ہیں کہ انھیں با ضابطہ طور پر نعت گو سمجھا جائے۔ "

دنیائے ادب کی اسے ستم ظریفی ہے کہیےء کہ شاہان وقت ، امرا اور شرفا کی شان میں تو قصیدے خوب لکھے گےء لیکن داناےءسبل ، مولا ےء کل ، ختم ا لرسل کی شان میں نعتوں کا وہ ذخیرہ اردو ادب میں آج بھی موجود نہیں جس کا یہ صنف متقاضی تھی۔ لکھنؤ کے شاعروں نے جس محنت ، لگن اور دلجمعی کے ساتھ طبع آزمائی کرکے رثایء ادب کو اعتبار کا درجہ دلایا کہ آج کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں اس کی شمولیت ناگزیر ہو چکی ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ نعتیہ ادب ابھی تک درس و تدریس کے نصاب میں جگہ پانے سے قاصر رہا۔ اردو شاعری میں بہت کم شعرا ایسے ہیں جنھوں نے غزل گویء کی طرح اسے بہ طور صنف اپنا کر اس کے محدود موضوعات کو تخلیقیت کے ساتھ وسعت دینے اور نکھارنے میں اپنی پوری شعری صلاحیت جھونک دی ہو۔غزل کی طرح نعت گوئی میں بھی اپنے لےء الگ سے کو یء راہ نکال لینا بہت مشکل ہے ، بلکہ اس کی متعین اور روایتی راہ پر بھی چلنے کے لےء پھونک پھونک کر قدم رکھنا ضروری ہے ورنہ زرا سی بے احتیاطی شاعر کو کفر اور شرک کے زمرے میں ڈال سکتی ہے‌۔ اسی لےء اس دشت کی سیاحی میں قدم رکھتے ہی شاعر کا دل لرز اٹھتا ہے اور وہ تقاضائے نعت گوئی کی تکمیل میں اپنی کم مائیگی یا بے بضاعتی کو محسوس کرتے ہوئے اس سے گریز میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے۔کسی شےء کی حقیقت شناسی کے بغیر اس کی تعریف و توصیف کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت کا عرفان کسی بشر کے لےء ممکن نہیں۔ اہل صفا کے مطابق ذات خداوندی نے جب تعین قبول کیا تو اس تعین کے سب سے اول مرحلے میں جو چیز متشکل ہویء وہی حقیقت محمدی ہے۔ لیکن اس کی شرح و بسط یا تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے مولانا عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ صرف اتنا کہنا کافی سمجھتے ہیں کہ ع بعد از خدا بزرگ توئی قصہمختصر۔ لہٰذا ہم اپنے شعور کو آخری درجے میں استعمال کر کے بھی حقیقت محمدی کا ادراک نہیں کر سکتے۔اس لےء ان کی مدحت کا حق ادا کرنا بھی انسان کے بس کی بات نہیں۔ واحد نظیر اسی احساس جمیلہ کے ساتھ اپنی نعت گوئی کا آغاز کرتے ہیں ع

نعت نبی کے نون کانقطہ بھی چھو سکے

کب یہ بساط قامت فکر و نظر کی ہے


چنانچہ نبی کی شان میں مدحت سے پہلے وہ ذات باری تعالٰی سے یوں التجا کرتے ہیں۔ ع


شعور بخش دے مولیٰ نبی کی مدحت کا

میں بے ہنر ہوں مجھے لائق ثنا کر دے

جو شمع راہ تھے حسان ابن ثابت کے

انھی نقوش کو اپنا بھی رہ نما کر دے


نظیر کے یہاں نعت گویء محض ادبی ذوق کی تسکین نہیں بلکہ انسان کے منصب نیابت کا تقاضا ہے اور اس کے پس پردہ حصول سعادت کا پاکیزہ جذبہ بھی کار فرما ہے۔ قرآن پاک میں خود اللہ تعالیٰ نے مختلف انداز میں اپنے حبیب کی مدح سرائی کی ہے تو ناءب خدا ( انسان ) پر تو رسول خدا کی مدحت از خود لازم ہو جاتی ہے۔ یہی تاویل نظیر کو نعت گویء کی تحریک عطا کرتی ہے۔ ع


بشر سے مدحت محبوب جیسا کام لینا تھا

شرف اللہ نے یوں ہی نہیں بخشا نیابت کا


تو خلیفہ ہے خدا کا اور خدا ناعت بھی ہے

تجھ پہ لازم ہے کہ نعت سید ابرار لکھ


اردو شاعری میں جدت کے متلاشی ناقدین یہ شکایت کرتے نہیں تھکتے کہ نعتیہ شاعری ہنوز رسمیت اور روایت کے خول میں مقید ہے۔ یہ اپنے محدود موضوعات ، بندھے ٹکے افکار اور روایتی تشبیہات و علامات کے گرد طواف کرتی نظر آتی ہے۔ لیکن واحد نظیر کی نعتیہ شاعری ان سکہ بند افکار ، تخیل اور لوازمات شعری کے قفس سے آزاد ہو کر ہمیں جدید فضا میں پرواز کرتی نظر آتی ہے۔ وہ نعتیہ موضوعات کی تحدید کے بھی قائل نہیں ۔ اس بیانیہ کی دلیل میں یہ اشعار پیش کےء جا سکتے ہیں۔ ع


نعت کا موضوع ہے وہ بحر بے پایاں نظیر

جس میں ہے وسعت ہی وسعت اور کنارہ کچھ نہیں

ابتدا ، فہرست ، عنواں ، گوشوارہ کچھ نہیں

ما سوا مدحت کے ہستی کا شمارہ کچھ نہیں

جو ہو لاثانی سراپا سچ ہے اس کی مدح میں

اصل تشبیہ و کنایہ ، استعارہ کچھ نہیں


ہجر طیبہ میں مری آنکھوں کی کھیتی ہے ہری

شاخ مژگاں میں ہیں ابکے خوب در دانے لگے


کناےء بے ردا ہوں، صراحت گنگ ہو جائے

وہ اوج معنویت ہیں محمد مصطفیٰ اپنے


بیشتر ناقدین ادب نے شعروں میں الفاظ کے انتخاب اور ان کے در و بست کو فکر پر اولیت دی ہے۔ نظیر لفظوں کے ہنر سے بخوبی واقف ہی نہیں بلکہ انھیں لفظوں کی نشست و برخاست پر ملکہ حاصل ہے۔ وہ اظہار خیال میں اثر انگیزی کے لےء نت نیء تراکیب وضع کرتے ہیں اور انھیں شعری قالب میں نگینے کی طرح جڑ دیتے ہیں۔ عربی زبان سے واقفیت اور قرآن و حدیث سے گہری وابستگی کی وجہ سے بیشتر شعروں میں قرآنی آیات و احادیث کے ٹکڑوں کے استعمال سے بیان میں شدت اور اظہار میں بالیدگی پیدا کردیتے ہیں۔ یحبب کم اللہ ، و رفعنا لک ذکرک ، انا مثلکم ، لا ترفعو، رب حبلی امتی جیسی قرآنی آیات و احادیث کے جز سے ا ن کے اشعار بھرے پڑے ہیں۔ وہ انھیں محض شعری تزءین کے لئے نہیں بلکہ اپنے موقف کی تائید میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ ذیل کے اشعار میں مذکورہ خصوصیات کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ ع


شعاعِ چہرۂ انور سے نقریء ہے صبح

ہے عکس زلف نبی شام سرمیء کا سچ


مدحت شہ میں جو کلک نکتہ پرور جاگ اٹھا

دست بستہ، صف بہ صف لفظوں کا لشکر جاگ اٹھا


یہ حرف یہ نوا یہ صدا آپ کا کرم

ورنہ ہنر کسی یہاں شیشہ گری کا ہے۔


ہے مہر عشق نبی ثبت نامۂ دل پر

فنا سے کہہ دو کہ میرا ثبات روشن ہے


سبھی رسول کہیں اذ ھبو الی غیری

انا لہا میرے آقا ہیں مشتہر کرتے


صبا لا ترفع اصواتکم پیش نظر رکھنا

سنانا حال دل میرا مگر آہستہ آہستہ


ناپتے ہیں مثلکم سے جو بھی قد مصطفیٰ

بھول کیوں جاتے ہیں وہ پھر لفظ یوحی' بولنا


مومن نہ صرف نبی کی ذات تک اپنی محبت کو محدود رکھتا ہے بلکہ ان کے متعلقات سے بھی اسے اتنی ہی محبت ہوتی ہے جتنی کہ ان کی ذات سے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر مکہ اور مدینہ منورہ جن کے کوچہ و بازار سے نبی کی نسبت رہی ہے ان کا ذکر کےء بغیر نعت گویء تشنہء تکمیل رہ جاتی ہے۔ چنانچہ تقریباً ہر شاعر نے ان شہروں کو کسی نہ کسی اعتبار سے اپنے نعتیہ کلام کا حصہ بنایا ہے۔ "مدحت" میں ہمیں جا بجا شعری حسن اور فکری پختگی کے ساتھ مختلف پیرایہء بیان میں ان شہروں کے تعلق سے بہت سارے اشعار مل جاتے ہیں۔ بلکہ "مدینے میں" کی ردیف کے ساتھ ایک پوری نعت بھی کہہ دی گئی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں۔ ع


میں نے بھی خاک طیبہ سے چہرہ سجا لیا

نکلا تھا ماہتاب ادھر آب و تاب سے

بہر ثنا جو کھو گیا طیبہ کی نو بہار میں

صدہا گلاب کھل اٹھے لفظوں کے ریگزار میں


آپ کے قدموں کی برکت نے مدینہ کردیا

کیسے یثرب کا نصیب اللہ و اکبر جاگ اٹھا


نور افگن ہے مدینے کا تصور کتنا

کہکشاں فکر کے گردوں میں بکھر جاتی ہے


حبیب خدا کے ذکر کے بغیر خدا کے ذکر کا تصور اہل ایمان کے لےء محال ہے۔ بلکہ اہل صفا تو اپنے دعاءیہ کلمات کا آغاز درود سے کرنا افضل سمجھتے ہیں۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ ع خدا کا ذکر کرے ذکر مصطفیٰ نہ کرے/ ہمارے منہ میں ہو ایسی زبان خدا نہ کرے۔ تو پھر کیسے ممکن ہو کہ ذکر رسول کے ساتھ ذکر آل رسول یا اہل بیت نہ ہو۔ فرمان رسول کے مطابق اہل بیت سے محبت در اصل رسول سے محبت ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر شعرا کرام نعتیہ کلام میں اہل بیت کی شان میں منقبت کے ایک یا دو اشعار لازماً شامل کر لیتے ہیں۔ واحد نظیر کا جذبۂ عشق رسول اس احساس سے کیونکر عاری رہ سکتا تھا۔چنانچہ ان کے یہاں بھی مومنانہ شان کے ساتھ آل نبی کی تعریف و توصیف کا خاص اہتمام نظر آتا ہے۔


آےء گلشن میں پھول زہرا کے

منہ تکے منہ چھپا چھپا کے گلاب


ہے بوسہ گاہ پیمبر یہ حلق شبیری

فنا سمجھتی ہے مہر ہمیشگی کا سچ


جبیں پہ اس کے ہے روشن حسین کا سجدہ

چمک رہا ہے جو دین محمدی کا سچ


یزید! جیت کی ہے روح سرنگوں تم سے

نبی کی آل سے ہے سربلند مات کی روح


نبی کا شیر تھا کوفے میں خسروانہ گیا

سر حسین گیا قول مصطفیٰ نہ گیا


واحد نظیر نے تو آل نبی کے ساتھ ساتھ غلامان نبی کی شان میں بھی منقبت کو شامل نعت کرلینے کی سعادت حاصل کر لی ہے۔ ذیل میں حضرت بلال حبشی رضی اللہ و تعالیٰ عنہ کی شان میں کہا گیا اس شعر کا جمالیاتی انداز سلیقہء اظہار کی معراج کو مس کررہا ہے۔ ع


سنا ہے میلہ لگا ہے حسین چہروں کا

چلو تو دیکھیں نبی کا بلال ہے کہ نہیں


مصرع ثانی کا احتمالی انداز نے شعر کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔شاعر کا حسن ظن حسین چہروں کے میلے میں حضرت بلال کی شمولیت کو لازمی تصور کرتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر ان کی شمولیت کے بغیر ایسا میلہ حقیقتاً کویء معنیٰ نہیں رکھتا۔ حضرت بلال پر ایسا تاثراتی شعر اردو شاعری میں اگر عنقا نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔

ہر مسلمان کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ دیار رسول کی زیارت کا شرف حاصل کرلے۔ یہ عشق رسول اور ایمان کا تقاضا بھی ہے۔ کسی کو یہ سعادت نصیب ہو جاتی ہے اور کوئی اس آرزو میں تڑپتے ہوےء اس دار فانی سے کوچ کر جاتا ہے۔ اہل ایماں کے اس جذبۂ سرشاری کو پیش نظر رکھ کر ہی شاید اللہ نے فریضہء حج کی ادائیگی کے بعد روضہء رسول پر حاضری کو مقدس سفر کا حصہ بنا دیا۔ آج لاکھوں مسلمان کو یہ موقع میسر آرہا ہے۔ اس دیار مقدس پر حاضری کی تمنا اور حاضری کے آداب کو تقریباً ہر شاعر نے نعت گوئی میں اپنا موضوع بنایا ہے۔ واحد نظیر مدینہ پہنچنے کی تمنا کو کس للک کے ساتھ بیان کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیے۔ ع


مجھے آنکھوں کی ویرانی سے اب وحشت سی ہوتی ہے۔

شرف حاصل ہو مجھ کو بھی مدینے کی زیارت کا


آرزو اپنی ہے بس لکھنا مدینے کا سفر

راہ میں مرضی ہے تیری پھول لکھ یا خار لکھ


برسوں سے آس ہے لگی شاہا ہو اذن حاضری

حاضر ہو یہ نظیر بھی دربار با وقار میں


اور دربارِ باوقار میں حاضری کے آداب ہیں جہاں پاس ادب میں تیز سانسیں لینا بھی ممنوع ہے۔حضرت آسی نے تو یہاں تک کہدیا۔۔ ع اے پاےءنظر ہوش میں آ کویء نبی ہے/ پلکوں سے بھی چلنا یہاں بے بے ادبی ہے۔ واحد نظیر بھی دربارِ عالیہ کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خود کو یوں متنبہ کرتے ہیں۔ ع


واحد نظیر کعبے کا کعبہ ہے سامنے

سانسوں کو اعتدال میں کرلے سنبھل کے آ


وہاں سانسوں کے زیر و بم میں بھی آداب لازم ہے

فرشتے بھی جہاں پھیلاءیں پر آہستہ آہستہ


تزکیۂ نفس اور جسم و روح کی مکمل تطہیر کے بعد فقط صالحین ہی دیدار مصطفیٰ جیسی نعمت عظمیٰ سے سرفراز ہو پاتے ہیں۔ ہماری مذہبی روایات کے مطابق قبر میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہوتا ہے۔ نکیرین ان سے متعلق سوالات کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ " موت" جو عام آدمی کے لےء ایک ہولناک مرحلہ ہے وہ صالحین کے لےء باعث احتزاز اور مژدہء جانفزا سے کم نہیں، جیسا کہ آسی غازی پوری کے اس شعر سے ظاہر ہے۔ ع۔ آج پھولے نہ سماءیں گے کفن میں آسی/ ہے شب گور بھی اس گل کی ملاقات کی رات۔ اس لےء قلب مومن کا دیدار مصطفیٰ کی آرزو میں مچلنا ایک فطری بات ہے۔ واحد نظیر نے بھی اسے موضوع سخن بناکر اس میں مزید تخلیقیت پیدا کی ہے۔ ع


وعدہء دید جب ہے مرنے پر

پھر تو جینے سے موت ہی اچھی


بےشک ہماری موت ہے معراجِ زندگی

ہوگا نظیر قبر میں دیدار مصطفیٰ


عشق ہے شاداں کہ ہوگا قبر میں ان کا ورود

اور خرد الجھی ہویء ہے درمیان ہست و بود


لیکن نظیر کا وفور عشق اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ انھیں موت تک انتظار کرنے کی مہلت گوارہ نہیں بلکہ وہ زندگی میں ہی جمال مصطفیٰ سے دل و جان کو منور کر لینے کے مشتاق ہیں۔ ع


قبر کے حشر کے وعدے پہ ہوں قانع لیکن

جب وہاں ہونا ہے دیدار یہیں ہوجائے


قدم رنجہ کسی دن ہوں ہمارے دیدہ و دل میں

لحد میں حشر میں دیدار کی تمہید ہو جائے


مژگاں کی ہیں قناتیں،اشکوں کے قمقمے ہیں

آییں گے خواب میں وہ آنکھوں کو ہوں سجا کے


غزل اردو شاعری کی محبوب اور مقبول ترین صنف ہے۔ بہترین الفاظ کی بہترین ترتیب اور اس کا جدلیاتی استعمال، بیان کی ندرت، اظہار کا سلیقہ اور شعورِ سخن شاعر کو اسی کی زلف شب تاب کی مشاطگی سے حاصل ہوتی ہے۔ نظیر غزل کے میدان کے بھی ہنرمند اور کامیاب شہسوار ہیں۔ اس لےء ان کی نعتوں میں غزل کا رنگ کہیں کہیں بہت زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات تو کچھ اشعار ان کے سیاق و سباق سے الگ کر دینے پر خالصتاً غزل ہی کے شعر محسوس ہوتے ہہیں۔ چند نمونے ملاحظہ کریں۔ ع

نفس کی نغمگی احساس شبنمی کا سچ

تصور ان کا ہے اپنی شگفتگی کا سچ


چشم تر ہے کہ نظیر اور فزوں تر دایم

ورنہ چڑھتی ہوئی ندی بھی اتر جاتی ہے


حالات خود حریف شب تار ہو گےء

ظلمت کے جتنے حربے تھے بے کار ہو گےء


کوئی موج شمیم اٹھے تری یادوں کے گلشن سے

خیالوں نے اسی امید پر دامن پسارا ہے


آج وہ دل کے پاس لگتے ہیں ل طفِ اظہارِ مدعا ہے آج


کسی دن خواب میں تشریف لاتے عید ہو جاتی

سنبھالے سے نہ اب اپنا دل مضطر سنبھلتا ہے


واحد نظیر کے یہاں نعت کے موضوعات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اگر سبھوں کا ذکر متعلقہ اشعار کے حوالے سے کیا جائے اور اشعار کے فنی مراتب اور مفہوم کا تجزیہ کر کے ان کے معنیاتی اور جمالیاتی جہتوں کو زیر بحث لایا جائے تو ان کی نعت گوئی کا احاطہ کرنے کے لےء ایک دفتر درکار ہوگا۔ لیکن اتنا ذکر تو لازماً ہوگا کہ انھوں نے اس صنف کو اپنے منفرد اور نےء اسلوب سے برتنے کو کوشش کی ہے۔ جب عقیدہ اور عقیدت باہم شیر و شکر ہو جاتے ہیں تو علم اور ذوق، وجدان کے سہارے نعت گوئی کی نیء راہیں روشن کردیتے ہیں۔ مجھے کامل یقین ہے کہ یہ مجموعہ عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور یاران نکتہ داں دونوں حلقوں سے پزیرائی وصول کرنے کے علاوہ توشہ آخرت بھی ثابت ہوگا اور اسی کے صدقے اللہ ان کی مغفرت فرما دے گا۔ میں شاعر کو ایسی مساعی جمیلہ کے لےء مبارکباد پیش کےء بغیر نہیں رہ سکتا۔

فیض احمد شعلہ 7- گراہم روڈ، دوسری منزل، کمرہٹی، کولکاتہ۔۔-700058


مزید دیکھیے

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
مضامین میں تازہ اضافہ
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات