ورق ورق پہ جو بکھری بساط ابجد ہے ۔ ارشد جمال

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 04:50، 5 جون 2018ء از SOHAIL SHEHZAD (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (نیا صفحہ: Link شاعر : ارشد جمال ورق ورق پہ جو بکھری بساط ابجد ہے حقیقتا یہ الف اور میم کی ٖ م...)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

Link

شاعر : ارشد جمال

ورق ورق پہ جو بکھری بساط ابجد ہے

حقیقتا یہ الف اور میم کی ٖ مد ٖ ہے


میں پھر رہا ہوں کبوتر سا اس کے چاروں طرف

مری نگاہ تصور میں سبز گنبد ہے


نہ جس زباں پہ ترا ذکر ہو ٖ زقوم ہے وہ

نہ جس بدن میں ترا عشق ہو وہ مرقد ہے


فلک نے آنکھیں سجا رکھی ہیں دریچوں میں

زمیں نے پھول بچھائے ہیں کس کی آمد ہے


حضور آپکی توصیف آرزو ہے مری

حضور آپ کی تقلید میرا مقصد ہے


یہاں سے آگے پر جبرئیل جلتے ہیں

یہیں تلک ترے روح الامیں کی سرحد ہے


مرے تمام روابط ہیں تیری نسبت سے

جو تجھ کو رد ہے بہر طور وہ مجھے رد ہے


ترے سبب ہی مجھے اعتبار حاصل ہے

بلند و بالا تری نعت سے مرا قد ہے