واقعۂ معراج النبی ﷺ اقبال و رضا کا تقابل۔ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


از ڈاکٹرمحمد حسین مشاہدؔ رضوی

واقعۂ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم اقبالؔ و رضاؔ کا تقابل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ڈاکٹر اقبالؔ اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؔ محدّث بریلوی …… دونوں شخصیات کانام مدحت گرانِ پیغمبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیثیت سے ہرذی فہم اور باشعور فرد جانتا ہے ۔ دونوں ہی شخصیات کی سب سے اہم خصوصیت عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھی ۔

ڈاکٹر اقبالؔ اور امام احمد رضاؔ محدث بریلویکے اسمائے گرامی عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک مثال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ سیالکوٹ کے معروف شاعر جناب قمر یزدانی اِن دونوں عاشقانِ یکتائے روز گار کاذکر اپنی ایک نظم میں اسطرح کرتے ہیں ؎

وہ خوش خصال تھے مدحتِ گرانِ پیغمبر

تھے اعلیٰ حضرت و اقبالؔ کانِ عشق رسول ﷺ

شعور و فکر رہے ان کے وقف نعت حبیب

تھا ثبت ان کے دلوں پر نشانِ عشقِ رسول ﷺ

اگرچہ ڈاکٹر اقبالؔ اور امام احمد رضاؔ محدث بریلوی اپنے الگ الگ میدانوں میں تاعمرسرگرم کاررہے۔ لیکن عشقِ مصطفیٰ علیہ التحیۃ و التسلیم کا رشتہ تونا قابلِ شکست ہے پیش نظر مضمون میں واقعۂ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دونوں حضرات کا مختصر ترین تقابل پیش خدمت ہے ۔

لیفٹننٹ کرنل عبدالرشید اپنے مضمون ’’ علامہ اقبالؔ کا تصوّر اِنسانِ کامل ‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’اقبالؔ نے اپنے لکچروں میں ایک شعرنقل کیا ہے ؎

موسیٰ زہوش رفت بیک جلوۂ صفات

توعینِ ذات می نگری تبسمی

اس شعر میں صفات اور ذات کے الفاظ غور طلب ہیں یہ کیا مقام تھا کہ اللہ تعالیٰ نے خود سرور کو نین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ، آمیرے محبوب ! میں تجھ کو اپنا آپ دکھاوں …… جہاں رسول کریم کو دیگر انبیا پربہت سی فضیلتیں ہیں وہاں یہ دو اہم ہیں (۱) خاتمیت ۔(۲) معراج ۔‘‘<ref>ماہ نامہ ’’ بصیر ‘‘ کراچی ، عید میلادالنبی اڈیشن ، مئی ۱۹۷۲ء ، ص ۳۹</ref>

اقبالؔ معراج النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اکثر و بیشتر ذکر کرتے ہیں اور اس سے استدلال کرتے ہیں کہ ؎

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے تجھے

کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں

اس شعر سے ایک اہم بات یہ بھی واضح ہوتی ہے کہ اقبالؔ معراجِ جسمانی کے قائل تھے کہ اس رات سرورِ کونین ، مالک و مختار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائے بزرگ و برتر جل شانہ ‘ کی مرضی و مشیت سے افلاک اور کائنات کی جزئیات کا اور قدرت کے تمام سربستہ رازوں کا بلکہ خود ذاتِ حق جلّ و عُلا کا بچَشمِ خود مُشاہدہ کیا۔ جب اقبالؔ کے اِس شعرکا تقابل حسّانُ الہند امام احمد رضاؔ محدث بریلوی کے اِس شعر سے کیا جاتا ہے تو وہ یوں اُبھر کرسامنے آتا ہے کہ ؎

سرِعرش پر ہے تری گذر ، دلِ فرش پر ہے تری نظر

ملکوت و ملک میں کوئی شئے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں

اس کے علاوہ امام احمد رضاؔ بریلوی اسی نعت میں آگے کہتے ہیں ؎

وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سرِعرش تختِ نشیں ہوئے

وہ نبی ہیں جس کے ہیں یہ مکاں ، وہ خداہے جس کامکاں نہیں

ڈاکٹر اقبالؔ نے حقیقتِ معراج پر یوں روشنی ڈالی ہے ؎

مردِ مؤمن درنسازد باصفات

مصطفی راضی نہ شُداِلاّ بذات

چیست معراج ؟ آرزوئے شاہدے

امتحانے روبروئے شاہدے

بقول ڈاکٹر سیدعبداللہ:

ؔ ’’ علامہ معراجِ مصطفی کو عام صعود روحانی یانفسی سے مختلف ، منفرد ، بلند تر اور خاص الخاص تجربہ یا واقعہ سمجھتے ہیں ۔ ‘‘<ref>ماہ نامہ ’’ فکرو نظر‘‘ اسلام آباد سیرت نمبر ۱۹۷۶ء ، ص۶۹۷</ref>

ڈاکٹر سید عبداللہؔ نے اپنے مضمون ’’ اقبالؔ اور معراج النبی ‘‘ کے آخر میں افکار اقبال ؔ کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے :

’’معراج سے مسلمانوں کے ایمان بالرسالت میں گہرائی پیدا ہوئی اور حضور کی اکملیت اور اشرفیت کا یقین محکم ہوا ۔ جہاں بعض دوسرے انبیا کے آسمانی سفر ایک خاص مقام تک پہنچ سکے وہاں آنحضرت کا سفر، نبوّت کے راستے کی آخری منزل قرار پایا ۔ اس سے ایقان میںگہرائی پیدا ہوئی اور خدا کی ہستی کی محسوس شہادت میسرآئی۔‘‘<ref>ایضاً،ص ۷۰۲ </ref>

اقبالؔ نے اپنے لکچروں میں ’صفات و ذات ‘ کی حضرت موسیٰ و مصطفی علیہم السلام پر کرم فرمائیوں کے متعلق جو شعر نقل کیا ہے ۔ وہی تقابل جب ]]امام احمد رضاؔ بریلوی[[ کرتے ہیں تو صورت یہ بنتی ہے ؎

تبارک اللہ شان تیری ،تجھی کو زیبا ہے بے نیازی

کہیں تو وہ جوشِ لن ترانی کہیں تقاضے وصال کے تھے

نہ عرشِ ایمن نہ اِنِّیْ ذَاہِبٌ میں میہمانی ہے

نہ لطف اُدْنُ یَا اَحْمَدَْْ نصیب لَنْ تَرَانِی ہے

سب کی ہے تم تک رسائی

بارگہ تک تم رسا ہو

]]امام احمد رضاؔ بریلوی[[ بارگاہِ خدا وندی میںمحبوب دلنواز کی بار یابی کا ذکر اپنے کلام میں بار بار کرتے ہیں اور واقعۂ معراج کو مدّنظر رکھتے ہوئے ایک طویل قصیدۂ معراجیہ بعنوان ’’نذر گدا بحضور سلطان الانبیا علیہ افضل الصّلوٰۃ والثنا درتہنیت شادیِ اسریٰ‘‘ تحریر فرمایا جس کا مطلع بے حد معروف ہے ؎

وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے

نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کیلئے تھے

امام احمد رضاؔ بریلوی ، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت شان کی رطب اللسانی میں ہمیشہ منہمک رہا کرتے تھے کہتے ہیں ؎

زہے عزت و اعتلائے محمد ﷺ

کہ ہے عرشِ حق زیر پائے محمد ﷺ

پوچھتے کیا ہو عرش پریوں گئے مصطفی کہ یوں

کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں

جس کو شایاں ہے عرش بریں پر جلوس

ہے وہ سلطان والا ہمارا نبی ﷺ

اس ضمن میں انبیائے سابقین علیہم السلام کے ذکر ہیں افضل الرسل ، نبی الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے علوئے مرتبت کا حوالہ بہر حال ناگزیر ہے حضرت رضاؔ بریلوی کہتے ہیں ؎

نہ حجاب چرخِ مسیح پر ، نہ کلیم وطور نہاں مگر

جو گیا ہے عرش سے بھی ادھر وہ عرب کا ناقہ سوار ہے

٭٭٭

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مشاہد رضوی | احمد رضا خان بریلوی | | احمدرضا بریلوی کی شخصیت اور شاعری پر مضامین | حدائق بخشش |

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]