نقد نعت میں تنقیدی دبستانوں کی بو قلمونی ۔ عزیز احسن

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat kainaat aziz ahsan 10.jpg

مضمون نگار: ڈاکٹر عزیز احسن

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

نقد نعت میں تنقیدی دبستانوں کی بو قلمونی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: Comparative study of different school of thoughts of criticism was carried out and results reflected in this article. Efforts of different critics to understand poetic as well as bare reality to grasp the ideas enveloped in couplets of different poets are highlighted herein. Critical views of scholars expressed to evaluate text are also cited in the article. Standards of expression suitable for devotional poetry to pay tribute to the Holy Prophet Muhammad (S.A.W) have also been set in the light of religious norms.


آج ہم ، نعتیہ ادب کے کچھ ناقدین کی آراء پیش کررہے ہیں تاکہ اختلافِ فکر ونظر کی مثالوں کے ساتھ ساتھ ناقدین کے مزاجوں کی گرمی اور نرمی بھی منعکس ہوجائے۔ یہاں پیش کردہ نکات ،بلا شبہ نعت گو شعراء کے لیے رہنما اصولوں کے طور پر روشن رہیں گے اور اگر نعت خواں حضرات بھی محافل میں نعتیں پیش کرتے ہوئے ان نکات کو سامنے رکھیں تو وہ بھی نعتیہ ادب کے معیارات کے فروغ میں حصہ لے سکتے ہیں۔ناقدین کی ان آراء میں طبائع کا فرق اور نظریات کی بو قلمونی بھی نظرآئے گی اور کہیں کہیں تندی اور تیزی بھی۔ مسلکی اختلافات کی جھلک بھی دیکھنے میں آئے گی اور اعتدال کی نظیریں بھی ملیںگی۔ لیکن خیال رہے کہ علمی اختلاف کبھی عداوت میں تبدیل نہیں ہوتا یا نہیں ہونا چاہیے۔ہر فکری زاویہ اس توجہ کا متقاضی ہے کہ اسے قبول یا رد کرنے کے لیے آپ کے پاس بھی کوئی نہ کوئی نظریہ ہو جسے آپ دلائل کی روشنی میں پیش کرسکیں۔علمی معاملات میںجذباتیت ،ہمیشہ گمراہ کن ہوتی ہے۔اب ملاحظہ ہوں وہ فکری و تنقیدی نکات جو مختلف کتب سے اخذ کیے گئے ہیں:

مقدمہ ء سحر و ساحری ۔ جمیل نظر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(۱) جمیل نظر کی ایک کتاب ہے ’’مقدمہء سحر وساحری‘‘ ۔اس کتاب میں مصنف نے عملی تنقید کا مظاہرہ کیا ہے۔عملی تنقید میں شاعری یا فن پاروں کے حسن و قبح پر دلائل کے ساتھ رائے دی جاتی ہے۔ جمیل نظر کی یہ کتاب ایک جارحانہ تنقیدی کاوش ہے جس میں بیشتر اشعار کی لفظی،معنوی اور شعری بنت کی خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔اس کتاب میں عام شاعری کے تجزیئے کے ساتھ ساتھ حنیف اسعدی کے مجموعہء نعت ’’خیرالانام‘‘، اورتابش دہلوی کی نعتیہ تصنیف ’’تقدیس‘‘ کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔


حنیف اسعدی کے مجموعہء کلام ’’خیرالانام ‘‘ پر شبنم رومانی، سلیم احمد اور ڈاکٹر فرمان فتحپوری کی آراء بڑی حوصلہ افزا اور تحسین آمیز تھیں۔لیکن جمیل نظر کو اس مجموعے کی شاعری میں اظہار و بیان کی کچھ بے احتیاطیاں بھی نظر آئیں چناں چہ انہوں نے کھل کر لکھا۔وہ لکھتے ہیں:


’’شبنم رومانی،سلیم احمد اور ڈاکٹر فرمان فتحپوری صاحبان نے اپنے اپنے تبصرہ میں حنیف اسعدی صاحب کو جس قدر معتبر نعت گو ظاہر کیا ہے حنیف اسعدی کاکلام اس معیار پر کہاں تک پورا اترتا ہے اس کے ثبوت کے لیے مولانا کا کلام آپ کے سامنے ہے کہ زبان و بیان کی خامیوں کے علاوہ مولانا کے کلام میں ایسے ایسے شرعی نقائص ہیں کہ جس کی توقع ایک مبتدی شاعر سے بھی نہیں کی جاسکتی……اس سے ناقدین کے موجودہ تنقیدی رویوں کے بارے میں صحیح اندازہ ہوجاتا ہے کہ فی زمانہ تنقیدکے نام پر کس طرح مدح سرائی کی جارہی ہے‘‘۔(۱)


اس کے بعد مصنف نے مذکورہ کتاب سے کچھ اشعار نقل کرکے انہیں تنقیدی کسوٹی پر پرکھا بھی ہے اور اپنی جانب سے اصلاحیں بھی تجویز کی ہیں۔نعتیہ شاعری کے ضمن میں یہ تنقیدی رویہ جارحانہ ہونے کے باوجود لائق اعتنا ہے۔اس تنقیدی عمل میں لہجے کی سختی تو بہر حال غیر مناسب ہے لیکن اصلاحی تجویزوں میں سے بعض بڑی مناسب لگتی ہیں۔چند اشعار پر جمیل نظر کی تنقید ملاحظہ ہو…حنیف اسعدی کا شعر تھا:

سب کو بقدرِ ظرف ملا ہے شعورِ ذات

امی لقب پہ ختم ہوئی آگہی تمام


جمیل نظر نے اس کا پہلا مصرعہ اس طرح بدلنے کا مشورہ دیا: ’’سب کو انھیں کے در سے ملا ہے شعورِ ذات‘‘ اور پھر درجِ ذیل الفاظ میں اپنی اصلاح کا جواز پیش کیا:


’’جب سب کو بقدرِ ظرف شعورِ ذات ملا ہے تو حضورؐ کی ذاتِ اقدس بھی اس میں شامل ہے کیوںکہ حضورؐ کی ذات خدا کے بعد سہی لیکن آپ کے آگے بھی ایک خط کھنچا ہوا ہے کہ آپ خدا نہیں اور نہ ہی ہوسکتے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں تقسیم کیے جانے والا شعورِ ذات ،خدا نے اپنے محبوب کے حوالے کردیا اور اب ہر ایک کو بقدرِ ظرف وہیں سے شعورِ ذات مل رہا ہے‘‘۔(۲)

حنیف اسعدی نے کہا تھا:

بے قیدِ وقت بھیجے گا اُن پر خدا درود

یہ سلسلہ ہو ا ہے نہ ہوگا کبھی تمام


اس شعر کی اصلاح کرکے پہلا مصرعہ یوں کیا  :

ع ’’جاری ازل سے اُن پہ خدا کا درود ہے‘‘ …اور پھر لکھا:


’’مستقبل کے صیغہ ’بھیجے گا‘ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حضور ؐ پر درود بھیجنے کا سلسہ شعر کی شان نزول کے ساتھ ہی شروع ہوا ہے ۔ممکن ہے (نعوذ باللہ) یہ سلسلہ مولانا کی سفارش پر خدا نے شروع کیا ہو۔بہر حال شعر کے مطابق اس سے پہلے خدا کی جانب سے درود بھیجنے کا سلسلہ نہیں تھا‘‘۔(۳)


حنیف اسعدی کا شعر تھا:

اپنی غفلت کا یہ عالم اور یہ شفقت آپ کی

جرم ہم سے ہورہے ہیں اور شرمندہ ہیں آپ ؐ


جمیل نظر نے اس شعر کے مصرعہء ثانی میں صرف ایک لفظ ’’شرمندہ ‘‘کو ’’رنجیدہ‘‘ سے بدل دیا اور لکھا:


’’جہاں تک اس ناچیز کے مطالعہ کا تعلق ہے کتاب و سنت سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نعوذ باللہ کسی بھی مرحلے پر حضورؐکو امت کی وجہ سے شرمندگی ہوئی ہو البتہ آپؐ امت کے غم میں رنجیدہ ضرور رہا کرتے تھے ۔اگر ایسا کوئی ثبوت ہے تو سامنے لایا جائے ورنہ یہ حضورؐ کی ذاتِ اقدس پر صریح بہتا ن ہے‘‘۔(۴) حنیف اسعدی کا شعر تھا :

مدحت تو اد ا ہوئی ہے کس سے

بس یہ کہ زباں کہے محمدؐ


اس شعر کا مصرعہء اولیٰ اس طرح تبدیل کیا ع ’’مدحت تو ہوئی ہے کس سے ان کی‘‘ اور یوں تبصرہ کیا:


’’مدحت کرنا یا مدحت کا حق ادا کرنا ہی لغوی و اصطلاحی معنی میں ہے۔مدحت ادا کرنا کہیں ثابت نہیں ہے۔اس لیے بالکل غلط ہے۔یا یوں کہیے کہ مدحت تو کرے گا کون ان کی‘‘ ۔ (۵)

حنیف اسعدی کہتے ہیں:

حنیف خاک مدینہ ملی جو چہرے پر

تو اپنے جسم سے اس پیرہن کی بو آئی


اس شعر کے مصرعہء ثانی کو جمیل نظر نے یوں بدلا :

ع ’’تو اپنی ذات کو پہچاننے کی خو آئی‘‘…اور لکھا:


’’نعت گوئی میں ایسے الفاظ سے ہمیشہ احتراز کرنا چاہیے جن کی حیثیت ذو معنوی ہو۔خاص طور پر وہ الفاظ جن میں منفی و مثبت دونوں پہلو نکلتے ہیں۔ پھول کی خوشبو کو بھی بوئے گل کہا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی بو کو بدبو کے معنی میں بھی لیا جاتا ہے چوںکہ بو خوشبو اور بدبو کی درمیانی کیفیت شامہ کا نام ہے جیسے کھانا اگر خراب ہوجاتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس میں بو آگئی ہے۔اس لیے نبی کریم ؐ کے پیرہنِ مبارک سے بو ثابت کرنا سوئے ادب ہے۔اب یہ کہ مولانا کے جسم سے اس پیرہن کی بو آئی یا نہیں آئی اس سلسلے میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ مولانا کے جسم سے بو ضرورآتی ہے لیکن اس پیرہن کی نہیں ہوسکتی‘‘۔(۶)


راقم الحروف کے خیال میں درجِ بالا شعر کی تنقید اور دوسرے مصرعے کی تبدیلی اپنی جگہ ، لیکن شاعر(حنیف اسعدی) اور نقاد(جمیل نظر)، دونوں اس مرحلے پر یہ کیسے بھول گئے کہ چہرہ جسم کا ایک حصہ ہونے کے باوجود پورا جسم نہیں ہوتا ،اور چہرے پر پیرہن پہنا نہیں جاتا اس لیے منطقی طور پر یہ بات غلط ہے کہ خاکِ مدینہ کو چہرے پر ملنے سے پورے جسم سے حضور ِ اکرم V کے پیرہن ِ پاک کی خوشبو آنے لگے۔ہاں اگر پورے جسم پر خاک مدینہ کا ذکر ہوتا تو یہ باور کیا جاسکتا تھا کہ حضورِ اکرم V کے پیرہن ِ پاک کی خوشبو پورے جسم میں رچ بس گئی۔


مزید برآں یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ مدینے کی مٹی چاہے کتنی ہی مقدس کیوں نہ ہو حضورِ اکرم کا پیرہن ’’وہ مٹی ‘‘ نہیں ہوسکتی۔حضور V کے پیرہن کو مدینے کی مٹی سے تعبیر کرنا تو انتہائی بے ادبی ہے۔رہا سوال نعت کے شعر میں واقعاتی صداقت کا تو اس باب میں بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ شعر سراسر مبالغہ آمیز ہے۔لہٰذا شعراء کو ایسے واقعاتی بیانات کی شعری بنت سے احتراز کرنا چاہیے جو صرف تخیل کی تخلیق ہوں۔ حنیف اسعدی کا شعر تھا:

غلام آنے کو کہتا ہے جا کہو کوئی

حضورِ شاہ ؐ مری بیکلی کا ذکر کرو

اس شعر کے پہلے مصرع کو جمیل نظر نے اس طرح بدلا

ع غلام آنے کو بے تا ب و مضطرب ہے بہت

اور پھر لکھا:


’’اکثر روسا ء اور جاگیرداروں کے یہاں بعض ملازمین خاندانی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اور ان کو خاندان ہی کا فرد شمار کیا جاتا ہے۔اسی لیے منہ پھٹ ہوتے ہیں کچھ اسی قسم کا لہجہ اس شعر میں حنیف اسعدی صاحب کا ہے کہ یہیں سے حضورؐ کے لیے حکم بھیج دیا کہ ’جا کہو کوئی‘ یہ مقام مولانا ہی کو حاصل ہے ورنہ ہم جیسے گنہگار تو اس انداز پر سوچ بھی نہیں سکتے‘‘۔(۷) حنیف اسعدی کہتے ہیں :

اذنِ طواف لے کے شہ دیں ؐ پناہ سے

کعبہ کو جارہاہوں مدینے کی راہ سے

اس شعر کا پہلا مصرع جمیل نظر نے اس طرح کردیا

ع مانگیں نہ کیوں نصیب شہِ دیںؐ پنا ہ سے

اور اس طرح تبصرہ کیا:


’’آپ کعبہ کو براہِ راست جائیں یا مدینہ شریف ہو کر ،لیکن فرائض و واجبات کی ادئیگی کے سلسلے میں مزید کسی اجازت کی ضرورت نہیں کیوںکہ وہ تو پہلے ہی فرض ہیں اور ان کی ادئیگی ہم پر قرض ہے‘‘۔(۸)


اس اصلاح اور تبصرے میں جمیل نظر نے خود اپنے اوپر ظلم کیا۔’’نصیب‘‘ بنانے والی ذات اللہ رب العزت کی ہے اس لیے تقدیر بنانے کے لیے حضور V سے دعا کی درخواست تو کی جاسکتی ہے آپV سے تقدیر مانگی نہیںجاسکتی …دوسرا پہلو جسے جمیل نظر نے نظر انداز کردیا وہ یہ کہ حنیف اسعدی نے ’’طواف ِکعبہ‘‘ کی غرض سے جانے کی اجازت مانگی ہے ’’حج‘‘ کی اجازت نہیں مانگی۔طواف کعبہ، حج کا ایک رکن تو ہے حج نہیں ہے۔طواف نفلی بھی ہوتا ہے اور اگر کوئی مدینہ منورہ سے احرام باندھ کر جاتا ہے تو عمرہ کرتا ہے جس میں طواف بھی کیا جاتا ہے۔یاد رہے کہ ’’عمرہ‘‘ بھی نفلی عبادت ہے، فرض نہیں ہے۔تصوف کے سلاسل میں یہ بات مشہور ہے کہ ’’پیر‘‘ کی اجازت کے بغیر نفلی عبادت بھی نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ بقول مولانا روم ؎

یک زمانے صحبتِ با اولیاء

بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا


اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اولیا ء کو یہ مقام حضورV کے صدقے میں اور ان کے در سے وابستگی کی وجہ سے ہی ملتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر شاعر نفلی عبادت (طوافِ کعبہ)کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اجازت طلب کررہا ہے تو یہ اس کے ادب کا تقاضا ہے۔ حنیف اسعدی نے کہا:

انسان کی عظمت کا سفر ہے شبِ اسریٰ

معراج اضافہ ہے مہماتِ بشر میں

اس شعر کا دوسرا مصرع جمیل نظر نے اس طرح تبدیل کردیا

ع اب کوئی اضافہ نہیں ادراکِ بشر میں…


پھر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:


’’واقعہء معراج شریف کو مہم جوئی سے تعبیر کرنا مولانا ہی کاحصہ ہے ہمارے نزدیک تو ایسا تصور بھی بارگاہِ ایزدی میں گستاخی کے مترادف ہے ورنہ مہمات کی جگہ کمالات بھی کہہ سکتے تھے‘‘۔(۹) حنیف اسعدی کا شعر تھا:

بس یہی دو ہیں میرے سخن کے اصول

حمد ذکر خدا نعت ذکر رسولؐ


یہاں بھی جمیل نظر نے دوسرے مصرع کی اصلاح تجویز کی اور مصرع یوں کردیا :

ع حمد رب العلا نعت پاک ِ رسول

……پھر لکھا:


’’حمد کے معنی خدا کی تعریف بیان کرنا اور نعت کے معنی حضورؐ کے فضائل بیان کرنا ہیں اس لیے حمدذکر خدا اور نعت ذکر رسولؐ کہنا بالکل غلط ہے‘‘۔(۱۰) حنیف اسعدی کا شعر تھا:

کس قدر عام ہوئی وسعت دامانِ کرم

کتنی صدیوں کے اندھیروں نے اجالا پایا


جمیل نظر نے اس شعر میں استعمال ہونے والے دو الفاظ ’’کس‘‘ اور ’’کتنی‘‘ کو بالترتیب ’’اس‘‘ اور ’’ساری‘‘ سے بدل کر دونوں مصرعوں کی اصلاح کر دی:

اِس قدر عام ہوئی وسعت دامانِ کرم

ساری صدیوں کے اندھیروں نے اجالا پایا

اور لکھا:


’’کتنی صدیاں کہنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید کچھ صدیاں چھوٹ گئی ہیں ساتھ ہی مصرعہ اولیٰ میں کس قدر کے بجائے اِس قدر کہنا چاہیے‘‘۔(۱۰) حنیف اسعدی نے کہا:

رُواں رُواں عرقِ انفعال میں تر ہے

یہ جسم لے کے کہاں آگئے مدینے میں


جمیل نظر نے مصرعۂ اولیٰ یوں کردیا  :

ع بغیر نفس کی پاکیزگی کے عجلت میں…… اور لکھا:


’’مدینہ شریف پہنچ کر اگر رواں رواں عرق انفعال میں تر ہے تو یہ گناہوں کی تلافی کے لیے فال نیک ہے کہ انسان اپنے گناہوں اور اپنی خامیوں ،کوتاہیوں پر شرمندہ ہے اور یہی ادا خدا کو بھی پسند ہے اور اس کے محبوبؐ کو بھی ، لیکن وائے نادانی کہ مولانا اس نیک کام کو بھی الٹا سمجھ رہے ہیں‘‘۔(۱۱)


حنیف اسعدی کے کلام کو تنقیدی اصلاحات سے نوازنے کے بعد جمیل نظرنے تابش دہلوی کے نعتیہ مجموعہء کلام’’تقدیس‘‘ کی طرف توجہ کی اس مرحلے پر انھیں ڈاکٹر سید محمد ابولخیر کشفی کی رائے سے اختلاف کرنا پڑا۔ڈاکٹر صاحب نے لکھا تھا:


’’تابش دہلوی صاحب کی نعتوں کے مطالعے نے مجھے یہی احساس دیا ہے اور میں سوچتا رہا کہ تابش صاحب کے کلام میں ان کی جو رمز شناسی ہے، الفاظ کے بطون میں پہنچ کر معانی کے گہر تلاش کرنے کا جو رجحان ہے، برہنہ گفتاری کی جگہ رمز و ایما سے ان کی جو وابستگی ہے، الفاظ اور مفاہیم و جذبات کے درمیان وحدت پیدا کرنے کی جو اہلیت ہے، لفظوں کو ہشت پہلو نگینوں کی صورت جڑ نے اور انھیں شمع کی طرح روشن کرنے کی جو قدرت ہے ان سب کا مقسوم و مقدر یہی تھا کہ یہ سب خوبیاں اور قدرتیں نعتِ سرورِ کونینؐ کے سلسلے میں ان کے کام آئیں۔تابش صاحب زبان کی صحت کے بارے میں نہایت سخت گیر اور روایت پرست ہیں۔وہ ان دو تین آدمیوں میں سے ہیں جنھیں میں دلی کا لہجہ قرار دیتا ہوں‘‘۔(۱۲)


ڈاکٹر سید محمد ابولخیر کشفی کی رائے نقل کرنے کے بعد، جمیل نظرنے، تابش دہلوی کے چند اشعار تنقید کے لیے منتخب کیے ۔کچھ اشعار اور ان پر کی جانے والی تنقید کے چند نکات ملاحظہ ہوں۔تابش دہلوی کا شعر تھا:

میری خاکستر کو یارب کنجِ طیبہ چاہیے

اس تمنا کو اک آغوش ِ تمنا چاہیے


جمیل نظر نے مصرعہء ثانی علیٰ حالہٖ برقرار رکھا لیکن پہلا مصرع یوں بدل دیا

ع جسم خاکی کو خدایا ارضِ طیبہ ہو نصیب…


اصلاحِ شعر سے فارغ ہوکر لکھا:

’’خاکستر کے معنی ، کسی چیز کی جلی ہوئی راکھ کے ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ خاکستر کو غزل میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہاں نعت کے شعر میں اور وہ بھی کنج کے ساتھ کسی طرح جائز نہیں کیوںکہ خاکستر کو کنج میں رکھنے سے سمادھی کا مفہوم پیدا ہوتا ہے جو کہ ایک مشرکانہ رسم ہے جس سے مسلمانوں کے عقیدۂ تدفین کی نفی ہوتی ہے۔اگر یہ تابش صاحب کا ذاتی عقیدہ ہے تو اور بات ہے ورنہ ہر مسلمان کی یہی آرزو ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد اس کی میت کو مدینہ منورہ میں دفن کیا جائے‘‘۔(۱۳)

تابش دہلوی کا ایک شعر تھا :

دیدار کی دل کو آرزو ہے

دل کو بھی ذرا نگاہ کیجے


اس شعر کو جمیل نظر نے بدل کر اس طرح کردیا :

دیدار کی کب سے آرزو ہے

دل پر بھی ذرا نگاہ کیجے

اس کے بعد لکھا:


’’یہاں ’دل‘ کی تکرار بے محل ہے اور صوتی اعتبار سے نامانوس بھی ہے۔ساتھ ہی یہ کہنا کہ ’دل کو بھی ذرا نگاہ کیجے‘ خلافِ فصاحت اور زبان سے عدم واقفیت کی دلیل ہے‘‘۔(۱۴)


تابش دہلوی نے کہا تھا:

یہ شہر مدینۃ النبی ہے

ہر ذرے کو سجدہ گاہ کیجے


جمیل نظر کی اصلاح کے بعد اس شعر کی یہ صورت ہوگئی:

دنیائے مدینۃ النبی میں

ہر ذرے سے کھل کے چاہ کیجے


اصلاح دینے کے بعد جمیل نظر نے اپنے دلائل اس طرح رقم کیے:


’’عربی میں مدینہ کے معنی ہی شہر کے ہیں۔اسی لیے ہر شہر کے ساتھ مدینہ لگایا اور لکھا جاتا ہے جیسے مدینۃ المکۃ المکرمہ ،مدینۃ الریاض اور مدینۃ الدہران وغیروغیرہ اس لیے یہ کہنا کہ یہ شہر مدینۃ النبی ہے ، عربی زبان سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔البتہ اگر اردو ہی میں ’ یہ شہر شہر نبی ہے‘ کہا جائے تو جائز ہی نہیں بلکہ نفس مفہوم پر زور پڑتا ہے نیز یہ کہ سجدہ گاہ بناتے ہیں کرتے نہیں‘‘۔(۱۵)

تابش دہلوی کے ایک شعر کی بنت یوں تھی:

ان کا نیاز مند ہوں یہ ناز کم نہیں

پایا ہے میرے عجز نے رتبہ غرور کا


جمیل نظر کی اصلاح کے بعد شعر کی بنت یہ ہوگئی:

ان کا نیاز مند رہوں یونہی تا حیات

آئے نہ میرے ذہن میں سودا غرور کا


اصلاح ِ شعر سے فارغ ہوکروہ لکھتے ہیں:


’’ابلیس نے بھی غرور ، عجزو عبادات کے زعم میں یہی دعویٰ کیا تھا کہ میں معلم الملکوت ہوکر آدمِ خاکی کو سجدۂ تعظیمی نہیں کروں گا…رجزِ شرعی کے علاوہ جو کہ صرف دین کی برتری اور احیائے دین کے لیے ہوتا ہے غرور یا اس کی کوئی صفت خدا کے سوا ہر مسلمان پر حرام ہے‘‘۔(۱۶)


جمیل نظر نے جن اشعار پر اصلاح دی اور اشعار میں تبدیلی کے لیے جو دلائل دیئے ان کا اجمالی ذکر درجِ بالا سطور میں آگیا ہے۔ راقم الحروف نے جہاں ضروری خیال کیا ، اپنی رائے بھی دیدی ہے۔


جمیل نظر کے لہجے میں تنقیدی حلم کے بجائے غیر منطقی سوچ سے پیدا ہونے والی تلخی ہے۔کہیں کہیں انہوں نے پتے کی بات ضرور کی ہے لیکن ان کے لہجے نے ان کی تنقیدی رائے کا وزن کم کردیا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں شعرا ء سے کوئی پر خاش ہے اور وہ صرف انتقام لینے کے لیے خامہ فرسائی میں مصروف ہیں۔بہر حال ان کے تنقیدی عمل میں عملی تنقید Practical Criticism کے عناصر پائے جاتے ہیں اور ان کی تنقیدی کاوش کو تشریعی تنقید (Judicial Criticism) کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔البتہ ان کی دی ہوئی اصلاحات کی بندش بیشتر حسن سے عاری اور شعریت سے دور ہے۔

بت خانہ شکستم۔ امیر حسنین جلیسی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(۲) بت خانہ شکستم من(تنقیدی مضامین کا مجموعہ) امیر حسنین جلیسی کی کتاب ہے۔ اس کتاب میں دو مضامین نعتیہ شاعری کے حوالے سے عملی تنقید کے حامل ہیں۔’’پروفیسر اقبال عظیم اور راغب مراد آبادی‘‘ اور ’’راغب مراد آبادی اپنے معیارِ نقد کے آئینہ میں‘‘۔در اصل یہ دونوں مضامین ’’در جوابِ آں غزل‘‘ کے نمائندہ مضامین ہیں۔مصنف ِ کتاب کے بقول راغب مرادآباد ی نے۱۸؍اکتوبر ۱۹۸۱ء؁ کو روزنامہ نوائے وقت، کراچی کی اشاعت میں،اقبال عظیم کی نعتیہ کتاب ’’قاب قوسین‘‘ پر معاندانہ تنقیصی مضمون لکھا تھا ۔یہ مضمون ہفتہ وار، چھ اقساط میںراز مراد آبادی کے تعاون سے شائع کیا گیا تھا۔ پروفیسر اقبال عظیم نے بردباری کا ثبوت دیا اور خاموشی اختیار کرلی لیکن امیر حسنین جلیسی نے ترکی بہ ترکی جواب دیئے جوبعد میں اس کتاب کی زینت بنے(۱۷)۔


اس قلمی جنگ میں تنقید سے زیادہ تنقیص کا عمل کارفرما نظر آتا ہے ۔لیکن نعتیہ شاعری کے ضمن میں یہ تنقید کچھ ایسی تھی جس سے شعرفہمی کے دریچے ضرور کھلے اور نعتیہ شاعری کو تقدس آمیز شاعری سمجھ کر تنقید سے بالا سمجھنے کے رویئے کو جھٹکا لگا۔اس لیے میرے خیال میں یہ مضامین تنقیصی ہونے کے باوجود تنقیدی شعور کا عکس لیے ہوئے ہیں۔


اس تفصیل کے بعد، مذکورہ کتاب سے کچھ اشعار پر تنقید اور جوابی تنقید کے کچھ نمونے پیش کیے جاتے ہیں:


’’مختصراً راغب مراد آبادی کے اعتراضات اور ان کے جوابات ملاحظہ ہوں:

اقبال عظیم کا شعر ہے:

بر بنائے مصلحت اُمّی لقب

لیکن آگاہِ رموز کیف و کم


(اعتراض) شاعر کے قول کے مطابق اگر رسول اللہ ؐ نے خود کو کسی مصلحت کی بنا پر امی لقب کہلوایا تو نعوذ باللہ آپ بندۂ مصلحت تھے اور یہ حضورؐ کی شان میں سوئے ادب اور صریح گستاخی ہے۔


(جواب)…خداوند قدوس نے دنیا والوں کے سامنے حضور کو امی رکھ کر خود علم لدنی سے سرفراز فرمایا اور آگاہِ رموزِ کیف و کم کیا۔یہ مصلحت ِ خداوندی تھی۔مصلحتِ رسولؐ نہیں۔یہاں حضور ؐ کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔نعوذ باللہ آپؐ کو بندۂ مصلحت نہیں کہا گیا۔(۱۸)

ایک اور نعت کے اشعارجس کی ردیف ’’ہٹادو‘‘ ہے :

میرے آقا اندھیرا بہت ہے

اب نقاب اپنے رخ سے ہٹادو

تم تو نورٌ علیٰ نور ٹھہرے

میری آنکھوں سے پردے ہٹادو

میرے تلوئوں میں چھالے بہت ہیں

مرے رستے سے کانٹے ہٹادو

(اعتراض)نورٌ علیٰ نور ٹھہرے، غلط ہے،نورٌ علیٰ نور ہو ، کہنا چاہیے تھا۔اقبال عظیم پیغمبرِ اسلام کو حکم دیتے ہیں کہ میرے رستے سے کانٹے ہٹادو، جو صریح گستاخی ہے اور اقبال عظیم کو توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ہٹا دو کی جگہ آپ ہٹا دیجیے کہنا چاہیے تھا۔یہ اندازِ تخاطب سوئے ادب اور شانِ رسالت میں گستاخی ہے۔


(جواب)نورٌ علیٰ نور ہونا ایک حقیقت کا اعتراف ضرور ہے جو میں اور آپ انفرادی طور پر بھی کر سکتے ہیں اور اس قول سے بعض کو انکار کی جرا ٔت بھی ہو سکتی ہے۔مگر جب نورٌ علیٰ نور ہونا تمام عالم نے تسلیم کرلیا تو نورٌ علیٰ نور ٹھہرے اور آپ کے نورٌ علیٰ نور ہونے میں شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ٹھہرے میں جو زور ہے اور اجتماعی تیقن کی جو کیفیت پائی جاتی ہے اسے اہل نظر ہی محسوس کرسکتے ہیں …شاعر نے ابتدا ہی یوں کی ہے کہ ’’میرے آقاؐ اندھیرا بہت ہے‘‘ آقا کو نہ حکم دیا جاتا ہے نہ دیا جارہا ہے۔درخواست کی جارہی ہے اور یہ مسلسل درخواست ہے۔ہر شعر میں میرے آقاؐ کہنے کی ضرورت نہیں تھی جو محذوف ہے۔چوںکہ خود میں راستے کے کانٹے ہٹانے کی قدرت نہیں پاتا لہٰذا عرض کرتا ہے کہ ’’میرے تلؤوں…‘‘ نہ یہ چھالے حقیقتاً چھالے ہیں اور نہ یہ کانٹے جسدی طور پر کانٹے ہیں…آقا سے عرض کی جارہی ہے کہ میری مشکلات آسان کردیں۔پھر ہٹادو ردیف ہے۔اس میں ہٹا دیجیے کیسے کہا جائے۔قافیہ اور ردیف کی مجبوریاں ہر شاعر کے پیش نظر ہونی چاہئیں۔(۱۹)


اس جگہ امیر حسنین جلیسی نے بات بنانے کی کوشش تو کی لیکن اقبال عظیم کا لہجہ بہر حال حضورV کے مقام کے لحاظ سے بہت نا مناسب ہے۔ردیف کی مجبوریاں اپنی جگہ ،شاعر کی قادرالکلامی کا امتحان تو ایسی ہی ردیفوں میں ہوتا ہے۔رستے سے کانٹے ہٹانے کی درخواست بہر حال درخواست کے قرینے سے نہیں ہوسکی…

اقبال عظیم نے کہا:

عمر اقبال یوں ہی بسر ہو ہر نفس یادِ خیرالبشرؐ ہو

صبح تا شام ذکرِ مسلسل اور راتوں کو پیہم شبینے


(اعتراض)…راتوں کو پیہم شبینے پڑھ کر حیرت اورافسوس ہے۔کیا شبینے ہنگامِ سحر ،دوپہر اور سہ پہر میں بھی ہوتے ہیں۔شبینہ میں تو خود رات کا مفہوم پایا جاتا ہے۔


(جواب)…شبینہ ایک اصطلاح ہے۔محفلِ شبینہ دو گھنٹے کی بھی ہوسکتی ہے تمام رات کی بھی۔سرِ شام بھی ہوسکتی ہے۔درمیانِ شب بھی۔چوں کہ تمام راتیں پیہم شبینوں میں گزرتی ہیں۔صرف شبینے کہنے سے مفہوم ادا نہیں ہو سکتا…شعر میں راتوں کا ذکر حشو و زوائد میں نہیں آتا۔ضروری بھی ہے فصیح بھی۔

اقبال عظیم کا شعر ہے:

کیا خبر کیا سزا مجھ کو ملتی میرے آقاؐ نے عزت بچالی

فردِ عصیاں مری مجھ سے لے کر کالی کملی میں اپنی چھپالی


(اعتراض)…غور فرمائیے جو فعل حضورؐ سے منسوب کیا جارہا ہے کیا وہ مستحسن ہے۔کیا حضورؐ نعوذُ باللہ سرِ حشر اللہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کسی عاصی و خاطی کی عزت بچالیں گے؟


(جواب)…اقبال عظیم کہتے ہیں کہ میں عاصی و خاطی ہزار ہا گناہوں کا مرتکب جس کی فردِ عصیاں بہت طویل تھی اور اللہ اعلم بالصواب اس کی کیا سزا ملتی کہ میرے آقاؐ و مولا نے اسلام اور ایمان کی تعلیم دے کر اور راہِ شکر پر چلنے کی ہدایت فرما کر میری عزت بچالی اور توبہ کے دروازے کھلواکر اپنی کملی کے سایہ میں لے کر یعنی اپنی امت میں قبول کرکے میرے گناہوں کو معاف کرادیا۔یہ حضورؐ کی خطا پوشی اور عفو کے جذبہ کا اظہار ہے۔’مجھ‘ سے مراد اپنی ذات نہیں۔ مرکزِ خیال ایک مسلم ایک مومن ہے۔اب شعر کی آفاقیت کو پیشِ نظر رکھیے‘‘۔(۲۰)


راقم الحروف کو راغب مرادآبادی کا ’’اللہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنا‘‘ تو قطعی پسند نہیں آیا۔اس جملے سے انہوں نے نادانستہ طور پر اللہ کی شان میں گستاخی کردی…لیکن شعر پر ان کا اعتراض بہرحال بڑا وزنی ہے۔فردِ عصیاں کا ہاتھ میں آجانا صرف روزِ محشر ہی ممکن ہے۔اقبال عظیم نے صاف کہا ہے کہ ’’فردِ عصیاں مری مجھ سے لے کر‘‘ حضورِ اکرم V نے اپنی کالی کملی میں چھپالی۔فردِ عصیاں دنیا میں کسی کے ہاتھ نہیں لگتی۔اس لیے امیر حسنین جلیسی نے جو صفائی پیش کی ہے اور شعر کے معانی کی جو تاویل کی ہے وہ اپنی جگہ بہت خوبصورت ہونے کے باوجود شعر کے الفاظ سے ظاہر ہونے والے مفہوم کی عکاسی نہیں کرتی۔آیئے اس سلسلے میں قرآنِ کریم سے رجوع کرتے ہیں۔


اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہ طٰٓئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ ط وَ نُخْرِجُ لَہٗ یَوْ مَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا O اِقْرَا کِتٰبَکََ ط کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا O ’’اور ہر انسان کا معاملہ یہ ہے کہ لٹکادی ہے ہم نے اس کی تقدیر اس کی گردن میں۔اور نکالیں گے ہم اس کو دکھانے کے لیے روزِ قیامت ایک نوشتہ ، پائے گا وہ جسے کھلی کتاب کی مانند۔پڑھ اپنا اعمالنامہ ۔کافی ہے تو خود ہی آج اپنا حساب لگانے کے لیے ‘‘(آیات ۱۳۔۱۴، سورۃ بنی اسرآئیل۱۷،پ۱۵)


ان آیاتِ قرآنی کی موجودگی میں کوئی بھی ایسا بیان جو قیاس پر مبنی ہو اور ڈرامائی انداز سے ایک واقعے کی صورت میں پیش کیا جائے ، کسی بھی صورت مستحسن نہیں ہوسکتا۔شاعر کا خیال، الفاظ کی بندش اور شعر کی مجموعی فضا کے حوالے سے منصہء شہود پر آتا ہے۔اقبال عظیم کی پاکیزہ خیالی اپنی جگہ لیکن الفاظ نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ یہاں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ ایک واقعے کی صورت میں مرئی(Visual) بنایا گیا ہے۔عوامی سطح پر تواقبال عظیم کا یہ شعر بہت مقبولیت پاچکا ہے لیکن اہلِ علم کے نزدیک اس میں جو سقم پایا جاتا ہے وہ امیر حسنین جلیسی کی تشریح و تصریح سے دور نہیں ہوسکتا۔میرے خیال میں نعت کے اشعار میں اسقام کی نشاندہی پر تاویلات پیش کرنے سے بہتر ہے کہ شعر میں پایا جانے والا ابہام دور کردیا جائے۔ایسے معاملات میں ’’انا ‘‘ کو قربان کردینا ہی بہتر ہے۔بہر حال چوں کہ شاعر نے خود جواب نہیں دیا اس لیے تاویل کا عذرِ لنگ شاعر کے سر نہیں جاتا۔تاہم اس کی خاموشی اس عذرِ لنگ میں شرکت کی غمازی کرتی ہے۔


ایک اور پہلو ،جس کی طرف نہ تو راغب مراد آبادی کی نظر جاسکی اور نہ ہی امیر حسنین جلیسی اس کو سمجھ سکے …وہ یہ کہ قیامت میں سزا سے بچنے میں گناہ گاروں کی عزت بچنے کا نہیں ، ان کی چمڑی (کھال) بچنے کا سوال ہوگا۔ سزا سے جان بچتی ہے عزت بچے یا نہ بچے۔ بھلا گناہ گار کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے؟…گناہگار کی رسوائی کا ذکر تو سزاکے مقابلے میں بہت ہلکا ہے۔بلکہ اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ گناہ گار اپنے آپ کو بڑا عزت دار سمجھ رہا ہے…یہ احساس ،تکبر کے ذیل میں آسکتا ہے۔اللہ مرحوم کی بیانی لغزش معاف فرمائے (آمین)!…ایک اور زاویے سے دیکھیں تو عزت بچالی کہنے سے کسی کی اپنی عزت بچتی ہے اور عزت بچادی کہنے سے کسی اور کی عزت بچانے کا تاثر قائم ہوتا ہے۔یہاں غیر ارادی طور پر شاعر نے کہہ دیا ہے کہ ’’میرے آقاؐ نے عزت بچالی‘‘ یعنی [نعوذُ باللہ] آقاV نے اپنی عزت بچالی۔حال آں کہ شاعر کہنا یہ چاہتا ہے کہ آقاV نے میری عزت بچادی۔


یہاں تک درج ہونے والے ، تنقیدی نکات ، امیر حسنین جلیسی اور راغب مراد آبادی کے نتیجہء فکر کے عکاس تھے۔ ان تمام نکات کا تعلق اقبال عظیم کے شعری عمل سے تھا ۔


امیر حسنین جلیسی کو راغب مراد آبادی کی نعتیہ شاعری میں بھی زبان و بیان کی کچھ بے احتیاطیاں نظر آئیںانہوں نے ان کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ تبصرہ بھی کیا۔مثلاً

’’رخِ مصطفیٰ ؐ کے صدقے یونہی باربار ہوتا

مجھے اپنے ہر عمل پر اگر اختیار ہوتا


پہلے مصرعہ میں ’یونہی‘ بمعنی کسی جواز کے بغیر بے معنی ہے اور صدقہ ہونے کے ایک عمل کا ذکر گیا ہے لہٰذا دوسرے مصرعہ میں ہر عمل غلط اور مہمل ہے۔اگر شعر یوں کہا جاتا تو بات بنتی:

رخِ مصطفیٰؐ کے صدقے میں ہزار بار ہوتا

مجھے اپنے اس عمل پر اگر اختیار ہوتا ……………………

آپؐ کی شان جمالی کو وہ سمجھا ہی نہیں

آپؐ کو جس نے بھی رشکِ مہِ کامل باندھا


امیر حسنین جلیسی:شانِ جمالی کو سمجھنے والے رشکِ مہِ کامل ہی باندھیں گے۔آپؐ کو مہِ کامل نہیں کہہ سکتے۔مہِ کامل کہنے والا شانِ جمالی کو نہیں سمجھ سکتا۔یہ زود گوئی کا نتیجہ ہے‘‘۔(۲۱)


اس شعر کی معنوی جہتوں کو امیر حسنین جلیسی نے بھی پوری طرح نہیں سمجھا۔’’آپ کو‘‘کے ساتھ ’’باندھا‘‘ میں جو معنوی سقم اور ذم پیدا ہورہا ہے وہ دیکھنا چاہیے تھا۔آپؐ کے روئے انور کو تو رشکِ مہِ کامل کہا جاسکتا ہے لیکن ردیف ’’باندھا‘‘ کے ساتھ ،ضمیر ’’آپ ‘‘ کا استعمال بالکل غلط ہے۔


راقم الحروف شاعر کے کسی شعر پر اصلاح دینے کا قائل نہیں ،صرف اسقام کی طرف اشارہ کردینا کافی سمجھتا ہے۔ تاہم یہاں چوں کہ خیال کی درست بنت کو ظاہر کرنا ہے اس لیے عرض ہے کہ یہ شعر اس طرح ہونا چاہیے تھا ؎

حسنِ سرکارِ دو عالمؐ کو وہ سمجھا ہی نہیں

جس نے اس حسن کو رشکِ مہ ِ کامل باندھا


راغب مرادآبادی نے کہا تھا ؎

بدل دیں رحمت للعالمیں نے سیرتیں جن کی

وہ دشمن سے بھی اپنے بات کرتے ہیں ٹھکانے کی


اس شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے امیر حسنین جلیسی نے لکھا:


’’ٹھکانے کی بات کرنا یعنی ہوش کی بات کرنا۔دشمن سے تو کوئی بھی بے ہوشی کی یا احمقانہ بات نہیں کرتا،خواہ اس کی سیرت کیسی ہی ہو۔تبدیلیء سیرت سے صرف ٹھکانے کی بات کرنے کا سلیقہ آنا، معلول کاغیر اہم ہونا علت کی اہمیت کی توجیہ کرنے سے قاصرہے،پھر ٹھکانے کی بات، نہایت غیر فصیح ترکیب ہے۔عامیانہ رنگ جھلکتا ہے۔

بدی کو بھی جو دشمن کی نظر انداز کرتے ہیں

خدا شاہد نہیں جاتی ہے ان کی رائگاں نیکی


امیر حسنین جلیسی: آنے کی۔لانے کی ، کے ساتھ گاں نے کی، قافیہ کی بد ترین غلطی ہے جس کا ارتکاب اصولِ قافیہ سے تھوڑی سی واقفیت رکھنے والا مبتدی بھی نہیں کرتا۔اسے سہو نہیں کم نظری کہنا پڑے گا‘‘۔(۲۲)

اسی طرح راغب کا ایک شعر تھا:

جسمِ رسولِ پاک تھا اپنی مثال آپ

اک شمع تھی کہ جس کا نہ سایا نہ دود تھا


اس شعر پر امیر حسنین جلیسی نے یوں تبصرہ کیا:


’’اپنی مثال آپ کہنے کے باوجود شمع سے تشبیہ دیدی جو شانِ رسولؐ میں سوئے ادب ہے۔جو چیز اپنی مثال آپ ہو اسے کسی چیز سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔اگر سورج اپنی مثال آپ ہے تو آپ اسے کسی کم تر شے مثلاً چراغ سے کیسے تشبیہ دیں گے۔سایہ کی حد تک تو سوچا جاسکتا ہے کہ جسم اطہر کا سایہ نہ تھا مگر یہاں دود کا جسم پاک سے کیا تعلق ہے‘‘۔(۲۳)

راغب کہتے ہیں:

ابھی تک دور ہوں بابِ حرم سے

ابھی مشکوک ہے میری وفا کیا؟


امیر حسنین جلیسی کی تنقیدی رائے ملاحظہ ہو:


’’باب حرم سے مراد ارض مقدس یا حرمین شریفین کا کوئی دروازہ ہے تو دوسری بات ہے ورنہ بابِ حرم ایک مخصوص دروازہ کا نام ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے مدینہ شریف میں نہیں۔وفا کے مشکوک ہونے کا خیال حضورِ اکرم پر الزام ہے ۔اپنی وفا کے معتبر ہونے کا دعویٰ اور حضورؐ ختمی مرتبت میں۔یہ غرہ گستاخی ہے‘‘۔(۲۴)


ناقد(جلیسی) نے دھیان نہیں دیا کہ جہاں صرف حرم یا بابِ حرم کہا جاتا ہے تو ’’حرمِ کعبہ‘‘ کی طرف ہی اشارہ ہوتا ہے۔مسجدِ نبوی کو بھی حرم کہا جاتا ہے لیکن وضاحت کے لیے ’’حرمِ نبوی‘‘ کہنا پڑتاہے۔چناںچہ راغب مراد آبادی کے شعر میں اللہ تعالیٰ سے خطاب کی صورت بنتی ہے اور اس طرح یہ شعر نعتیہ نہیں بلکہ حمدیہ شعر ہوجاتا ہے۔’’علیمٌ بذاتِ الصدور‘‘ کی بارگاہ میں اپنی وفا کا دعویٰ کتنا قبیح اور لائق گرفت ہے اس کا اظہار ضروری نہیں۔

بہر حال راغب مرادآبادی کے اشعار پر اور اقبال عظیم پر کی جانے والی نکتہ چینی کے دفاع میں،امیر حسنین جلیسی نے جو کچھ رقم کیا ، وہ ایک تنقیدی جہت ہے اور اسے ہم مقنن تنقید ہی کا نام دے سکتے ہیں۔یہ الگ بات کہ شاعر کی طرف داری میں ناقد نے کہیں کہیں بے جا تاویل پیش کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ تاہم اس تنقید کے ذریعے زبان و بیان کے اسرار بھی کھلتے ہیں اور شعر فہمی کے دریچے بھی وا ہوتے ہیں۔نعتیہ شاعری کو ایسی تنقید ی کاوشوں سے بھی سنوارا جاسکتا ہے۔

رد ِ عمل ۔ امین راحت چغتائی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(۳) امین راحت چغتائی کے تنقیدی و تحقیقی مضامین کے مجموعے ’’ردِّ عمل‘‘ میں’’مشکلاتِ تنقید‘‘ کے عنوان سے لکھا ہوا مضمون نعت کے آداب سے متعلق ہے۔


’’مشکلاتِ تنقید‘‘ میں امین راحت چغتائی نے قرآن و حدیث کی روشنی میں نعتیہ شاعری کے اصول مرتب کرنے کی سعی کی ہے۔نعت گو شعراء کی رہنمائی کے لیے انہوں نے چند ایسی آیاتِ قرآنی کا حوالہ دیا ہے جن کی روشنی میں نعت رسول V کے خدو خال کو دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ آیات ہیں: آلِ عمران:آیات ۳۱،۳۲،۱۶۴،النساء:۶۵،۱۱۵، مائدہ:۳، بنی اسرائیل:۷۹، ا…امیں راحت چغتائی نے لکھا:


’’ان آیات کے مفہوم کا مجموعی خلاصہ یہ ہے کہ رب العزت نے حضور ختمی مرتبت ؐ کو اس قدر بلندی عطا فرمائی کہ لوگوں کو حکم دیا کہ اگر تم میری محبت کے خواہاں ہو تو رسولؐ کی اطاعت کرو اس کے عوض اللہ تمہیں اپنی محبت سے سرفراز فرمائے گا بلکہ تمہارے گناہ بھی بخش دے گا۔مزید ارشاد ہوا کہ بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مومنوں پر کہ اس نے ان ہی میں سے ایک رسولؐ بھیجا جو ان پر اس کی آیات تلاوت کرتا ہے۔ان کے نفس کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔پھر فرمایا کہ اہلِ ایمان وہ ہیں جو رسولؐ اکرم کے فیصلے سے سرتابی نہ کریں اور جو رسولؐ سے اختلاف کرے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا انہی آیات میں بشارت دی گئی کہ آج تمہارا دین ، تمہارے لیے مکمل کردیا گیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کردیں اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا گیا۔یہی نہیں ، خالق کائنات نے سرور کائنات کو مقام ِمحمود عطا کرنے کا وعدہ فرمایا۔آنحضور کو بشیر و نذیر اور سراج منیر کہہ کر خطاب فرمایا۔پھر رب العزت نے لوگوں پر یہ بھی واضح کردیا کہ یہ وہ پیغمبر ہے جو اپنی خواہش نفس سے کچھ نہیں کہتا۔مزید فرمایا کہ آپؐ اخلاق کے بلند درجے پر فائز ہیں ہم نے آپ کا ذکر بلند کیا اور آپ کو کوثر عطا کیا۔بنظر غائر دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے ارشادات کے ذریعے نعت رسولؐ کے قرآنی خطوط متعین فرمادیئے ۔ان کے بحر معانی کی غواصی نعت گو کا کام ہے۔اسے ہر بار نئے گوہر دستیاب ہوں گے مگر شرط وہی ہے کہ قرآن حکیم کا مطالعہ نعت کے خدو خال جاننے کے لیے بھی کیا جائے‘‘۔(۲۵)


اس کے بعد امین راحت چغتائی نے احادیث کے مطالعے پر زور دیا ہے اور کچھ واقعات حضور V کے حسن ِ اخلاق کے حوالے سے رقم کیے ہیں مثلاً غزوۂ خندق میں دشمن کا ایک آدمی خندق پار کرنے کی کوشش میں خندق میں گرا اور مسلمانوں نے اسے مارڈالا۔دشمن نے اس کی لاش حاصل کرنے کے لیے سو اونٹ معاوضہ دینے کی پیش کش کی لیکن حضور V نے انہیں اس کی لاش مفت عطا کردی۔غزوۂ حنین کے موقعے پر شیما بنتِ حارث ، حلیمہ سعدیہ کی صاحبزادی اور حضورِ اکرمV کی رضائی بہن نے اپنا تعارف کروایا تو آپV نے ان کے پورے قبیلے کے تقریباً چھ ہزار اسیروں کو آزاد فرمادیا اور ان کا سامان بھی لوٹا دیا تو وہ مسلمان ہوگئے۔ یہ واقعات بیان کرکے امین راحت چغتائی نے لکھا:


’’ہماری نعت کے مضامین قرآن حکیم کی مذکورہ بالا آیات اور سیرت کے بیان کردہ مستند واقعات کی روح سے اخذ ہونے چاہئیں۔شعر بلاشبہ جذبات سے تشکیل پاتا ہے لیکن نعت واحد صنف سخن ہے جو جوش کے باوصف ہوش سے کہنے کا فن ہے‘‘۔(۲۶)


عملی تنقید کا مظاہرہ کرتے ہوئے امین راحت چغتائی نے شعراء کے کچھ تسامحات کا ذکر بھی کیا ہے، مثلاً انہو ں نے ایک شعرنقل کیا ہے :

صحرا نشیں نبیؐ سے یہ کیا معجزہ ہوا

ذروں کو آفتاب کا ہمسر بنادیا


اس شعر پر امین راحت چغتائی نے اس طرح روشنی ڈالی ہے:


’’پہلے مصرع سے کچھ یوں تاثر ابھرتا ہے کہ صحرا نشینی ، نعوذ باللہ ، کوئی بہت پست سی چیز ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ ایسی معمولی جگہ سے پیدا ہونے والے پیغمبر ؐ سے اتنا بڑا معجزہ سرزد ہوگیا۔نعت گو کا اپنا جذبہ کتنا ہی پاکیزہ و محترم کیوں نہ ہو، شعر بہر حال الفاظ سے ہی تشکیل پاتا ہے اور الفاظ ہی اظہار کا ذریعہ ہیں۔ایسے یا اس سے مماثلت رکھنے والے مفاہیم کے حامل متعدد اشعار قارئین کی نظر سے گزرے ہوں گے۔اگر یہ احساس کرلیا جائے کہ نعت بھی نازک آبگینے سے کم نہیں تو ٹھیس لگنے کے امکانات کم ہوسکتے ہیں‘‘۔(۲۷)


نعت گو شعراء کے ایک مرغوب موضوع کا ذکر کرکے چغتائی صاحب لکھتے ہیں:


’’نعت میں ایک اور میلان بھی بڑے تواتر سے نظر آتا ہے۔وہ یہ کہ مجھے قبر میں نکیرین کیا کہیں گے۔نعت سنا کر اپنا معاملہ طے کرلوں گا۔یا میں حشر میں نعت رسولؐ پڑھتا جاؤں گا اور یوں میری بخشش کا سامان ہوجائے گا۔یا پھر حشر میں میرے اعمال پیش ہوںگے تو ’’یا محمد مصطفیٰ صلِ علیٰ کہہ دوںگا میں‘‘ ۔یہی نہیں مجھے ایسے اشعار بھی پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے ؎

درِ نبیؐ پہ غریب و غنی ہیں سر بسجود

اس آس پر کہ ہو بس اک نگاہ رحمت عام

نبیؐ کے روضے پہ نعت گر تم سناسکو تو

اسے ہی سجدہ اسے ہی اپنا قیام کہنا


یہ سجود و قیام کے تقاضوں سے نا آشنا ئی کے مترادف ہے۔بلکہ قدرے کھل کر بات کروں تو عرض ہے کہ اس میں توحید و رسالت کے مقامات خلط ملط ہوگئے ہیں۔ایسے ہی میلان کا ایک اور شعر دیکھیے ؎

کر چکا جب خدا کے گھر کا طواف

پھر تھا میں اور نبیؐ کے در کا طواف


اب نعت گو سے یہ بات پوشید ہ نہیں کہ طواف کہاں کیا جاتا ہے اور کیوں کیا جاتا ہے۔علاوہ ازیں آج کی نعت میں ایسے کوتاہ فکر اشعار بھی پڑھنے کو ملتے ہیں کہ ؎

میرے آقاؐ سے برائے زندگی

بے تکلف کی ضروری جستجو

دولتِ خیر سے فتراک عمل خالی ہے

میرے آقاؐ اسے ہوجائے یہ نخچیر عطا


اسی سلسلے کے دو اور اشعار ملاحظہ فرمائیے:

کہتا ہے نبیؐ جی بھیجو نا

ہے مٹھو کی میٹھی بولی

روزِ محشر دامن احمد سے پونچھا جائے گا

اس سے بڑھ کر اور کیا ہو کامرانی اشک کی


یہ اشعار کوئی مقام آشنا شاعر نہیں کہہ سکتا۔(۲۸)


امین راحت چغتائی نے غیر معمولی شہرت حاصل کرنے والے الفاظ ’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ کو حدیثِ قدسی کے طور پر قبول کرنے سے انکار کردیا ہے اور ملا علی قاری کی ’’الموضوعات الکبیر ‘‘ کے صفحہ ۵۹ کا حوالہ دے کر یہ بتایا ہے کہ یہ جعلی احادیث میں شامل ہے۔بعد ازاں انہوں نے لکھا ہے:


’’خود عربی علوم کے بعض ماہرین بھی اس جملے کو غیر فصیح قرار دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ’’لولاک‘‘ کا لفظ اور کہیں استعمال نہیں ہوا۔ اور یہ بات تو ہم سب کے علم میں ہے کہ رسول اکرمؐ کے الفاظ میں تحریف یا ان سے کسی غلط بات کو منسوب کرنے کی سخت وعید ہے۔لہٰذا نعت گو شعراء کو غیر معمولی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔مختصر یہ کہ ایسے تمام میلانات قرآنی مزاج کے خلاف ہیں اور محض یہ کہہ دینے سے سرخروئی ممکن نہیں کہ:

گناہ گار سہی، اس کے نام لیوا ہیں

خدا نے آپ بخشا ان کو اورنگِ خطا پوشی

خدا نے بخش دیا ہم کو بھی برائے رسولؐ

ڈروں میں کیوں قیامت سے ، شفاعت ہے اگر ان ؐکی

بخشش کا مرحلہ اعمالِ صالح کا محتا ج ہے۔قرآن کا دوٹوک فیصلہ ہے کہ ہر فرد کا مواخذہ اس کے اعمال [سعی]کے مطابق ہوگا اور یہ بات ذہن میں ہمہ وقت رہنی چاہیے کہ قبر و حشر کے معاملات اتنے آسان نہیں۔یہ اتباع سنت سے مشروط ہیں۔اور قیامت کے معاملات و مراحل سے تو خود رسول اکرم ؐ خوف کھاتے تھے اور ہر روز ستر مرتبہ استغفار پڑھتے تھے‘‘۔(۲۹)


امین راحت چغتائی کہتے ہیں کہ غزل کے انداز میں لکھی ہوئی نعت میں غزل کا تاثر زیادہ ملے تو اس کا لہجہ نعت کے لیے مناسب نہیں ہوتا ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے نمونے کے طور پر دو اشعار بھی نقل کیے ہیں اور ان پر تبصرہ بھی کیا ہے:

’’حصارِ عشق سے باہر کبھی میں جا نہ سکا

ترے سوا کوئی دل میں مرے سما نہ سکا

مجھ سے خرابِ عشق پہ چشمِ کرم کا شکریہ

آتی نہیں کبھی کمی، آپ کے التفات میں


یہ اشعار ، ظاہر ہے ، بطور نعت کہے گئے ہیں لیکن نعت جن جذبات عالیہ اور رفعت ِ فکر و بیان کی متقاضی ہے وہ یہاں مفقود ہے‘‘۔(۳۰)


اپنے مذکورہ مضمون کو امین راحت چغتائی نے تخلیقِ نعت کے ضمن میں ایک صائب مشورہ دیتے ہوئے مکمل کیا ہے، وہ کہتے ہیں:


’’نعت کے جدید شعرا اگر غزلیہ نعت یا نعتیہ غزل سے دامن کش ہو کر نظم کی ہیئت میں نعت کہیں تو ممکن ہے ہم غزل کی روایت، فکر، زبان، تراکیب، تشبیہات و استعارات سے دامن بچاکر نئی نعت کہہ سکیں۔نظم کا دامن بہت وسیع ہے۔ ا س کاا سلوب بیان مختلف ہے۔ علامتیں الگ ہیں اور خیالات کے بھر پور اظہار کی گنجائش موجود ہے۔ہمارے بعض شعراء نظمِ آزاد کے پیرائے میں اچھی نعت کہہ بھی رہے ہیں۔اس میں سیرت کے اہم واقعات اور متعلقہ آیاتِ قرآنی کی روح کو بڑے دلآویز انداز میں سمیٹا جاسکتا ہے اور نعت کو خانقاہی مزاج سے باہر نکالا جاسکتا ہے‘‘۔(۳۱)

جستجو ۔ تحسین فراقی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(۴) تحسین فراقی کی کتاب ’’ جستجو(تنقیدی مضامین کا مجموعہ)‘‘میں ’’علامہ اقبالؒ اور ثنائے خواجہV‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شامل ہے۔اس میں نعت کے نفسِ مضمون اور اس کی شعر ی جمالیات کے حوالے سے عمومی رائے بھی ملتی ہے۔ہم یہاں تحسین فراقی کے تنقیدی رجحانات کے مظہر کے طور پر ان کی تحریر سے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں:


’’میرا ایمان ہے کہ جب تک حضور اکرم ؐکی ذاتِ بابرکات سے والہانہ شیفتگی اور شدید جذباتی وابستگی نہ پائی جاتی ہو،کامیاب نعت کہنا ناممکن ہے اور ظاہر ہے کہ کامیاب نعت وہی ہے جس سے حضور ؐ کی متحرک حیاتِ طیبہ اپنی تمام آب و تاب اور اپنے تمام محاسن ِ جمیلہ کے ساتھ جلوہ گر ہوکر دامنِ دل کھینچنے لگے۔اب اگر پوچھا جائے کہ حضور اکرم ؐ کی سیرت ِ صادقہ کا منبع و ماخذ کیا ہے تو بلا تامل قرآنِ حکیم کا نام لیا جاسکتا ہے۔جو ان کے اسوہؐ حسنہ پر دلیل ِ ثابتہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ان کی چال ڈھال ، ان کا سفرو حضر، ان کا خوردو نوش،ان کی استراحت و بیداری، ان کی قیل و قال اور اان کی گفتار و کردار سبھی قرآنِ حکیم کے مبینہ اسلوبِ حیات کے عین مطابق تھے‘‘۔(۳۲)


تحسین فراقی نعت میں صرف ادبی و لسانی خوبیاں دیکھنے کے بجائے زندگی آمیز عشق کی تپش و تاثیر دیکھنا چاہتے ہیں۔صرف لسانی خوبیوں سے مملو شاعری کے نمونوں میں انہوں نے عربی زبان کے جدید شاعر احمد شوقی کے قصیدۂ میمیہ اور اردو میں مومن کے قصیدے کا حوالہ دے کر کہا ہے:


’’ادبی اور لسانی عظمت ہی اگر نعت کے طرۂ امتیاز ہیں تو پھر عربی زبان کے جدید شاعر احمد شوقی کا نام لیا جاسکتا ہے جس کا میمیہ اس پہلو کا کامیاب عکاس ہے۔مگر یہ نعتیہ قصیدہ سوزِ محبت اور سپردگی سے یکسر خالی ہے اور اس میں آورد ہی آورد ہے۔اردو میں مومن کے نعتیہ قصیدے ’’چمن میں نغمہء بلبل ہے یوں طرب مانوس‘‘ میں بھی مقصد، تاثیر نہیں ،نمائش ہے‘‘۔ (۳۳)


نعت گو شعراء نے حضور اکرمV کی ذات والا صفات کو معشوق فرض کرکے ، عاشقانہ نعتیں لکھی ہیں۔ ایسی نعتوں میں خارجی متعلقاتِ حسن کا بیان تحسین فراقی کے نزدیک لائق گرفت ہے۔وہ لکھتے ہیں:


’’نعتوں میں خارجی متعلقاتِ حسن مثلاً روئے و موئے، طرہ، چشم نرگس، زلف عنبریں ،ابرو،گیسو،زلف معقد،سرورواں[قدِ محبوب]کا ذکر تواتر سے آتا ہے۔ان کے اشعار میں شاعرانہ صنعت گری تو ہے لیکن دل باختگی اور ربودگی معدوم۔اس قسم کے التزامات میں اگر اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے تو یہ لطف دے جاتے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ فارسی (اور اردو)نعت کا اکثر حصہ اسی سراپا نگاری کی نذر ہوگیا‘‘۔(۳۴)


تحسین فراقی کا منہاجِ تنقید مقنن اور اصلاحی یعنی Judicial and Reformatory ہے۔

ولائے رسول ۔ قمر عینی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(۵) ’’ولائے رسولV‘‘ ایک کہنہ مشق شاعر، قمر رعینی کا مجموعہء نعت ہے۔ انہوں نے نعت گوئی کے ضمن میں اپنے اوپر کچھ پابندیاں عائد کی ہیں۔ کسی شاعر کی طرف سے اس طرح کی احتیاط پسندی اس بات کی غماز ہے کہ وہ حرفِ نعت رقم کرنے سے قبل ’با محمدV ہوشیار‘ کے اصول کو پیش نظر رکھتا ہے۔ایسی صورت میں کم از کم نعت کے متن (Text) میں تو ایک استنادی شان پیدا ہوہی جاتی ہے۔


قمر رعینی نے شعرِ عقیدت کے ضمن میں درجِ ذیل نکات پیش کیے ہیں :


٭… آپV کے لیے میں نے کبھی لفظ ’’تو‘‘ کا استعمال نہیں کیا بلکہ حضور کے لیے اس لفظ کے تصور سے ہی لرز جاتا ہوں۔اردو زبان میں جمع تعظیمی کا استعمال حفظِ مراتب کے پیش ِ نظر فردِ واحد کے لیے بھی کیا جاتا ہے اور میں نے یہی کیا ہے۔


٭… لفظ اللہ کو فعلن کے وزن پر الاّ نہیں لکھا بلکہ اس میں اللہ کی ہائے ہوز کو واضح طور پر مفعول کے وزن پرباندھا ہے یعنی اللہ۔ ع اللہ کو الاّ نہیں اللہ کہا۔اللہ تعالیٰ کو مخفف نہیں کیا حال آں کہ اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔


٭… یزداں یا اہرمن کے الفاظ کبھی استعمال نہیں کیے کیوںکہ فارسی میں لفظ یزداں نیکی کے خدا یا خیر کی قوت کے لیے اور اہرمن بدی کے مالک کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔میرے نزدیک یزدان و اہرمن کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک خدا (الٰہِ واحد) کے نہیں بلکہ دو خداکے قائل ہیں۔جبکہ میرے نزدیک ایمان کی تکمیل ہی اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک اللہ کو وحدہٗ لا شریک تسلیم نہ کرلیا جائے۔


٭… میرے نزدیک حضورِ اکرم ؐ مردانہ حسن و جمال کا مکمل نمونہ اور خُلق و مروت اور عفو و کرم کے ساتھ ساتھ شجاعت و بہادری کا کوہِ استقامت تھے…اس لیے میں نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ آپ کے حسن و جمال کی تعریف کرتے ہوئے ایسے الفاظ یا تشبیہات سے گریز کیا جائے جو آپؐ کی شان اقدس کے منافی اور نسوانی حسن کے ترجمان ہوں۔


٭… حتی المقدور انہی روایات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو مستند کہلاتی ہیں ۔


٭… پوری شاعری میں مدینہ منورہ کے لیے لفظ یثرب استعمال نہیں کیا کیوں کہ یہ علاقہ حضور ؐ کی تشریف آوری سے قبل یثرب کہلاتا تھا …اس لیے مدینے کے بجائے دورِ جہالت کا نام استعمال کرنا نبی کریم سے عقیدت کے خلاف ہے۔یوں بھی اس کے استعمال کرنے کی واضح ممانعت کی گئی ہے‘‘۔(۳۵)


قمر رعینی کی تنقیدی بصیرت کا مظاہر ہ اس طرح بھی ہوا ہے کہ انہوں نے ’’کبریا‘‘ کے لفظ کو اللہ رب العزت کے اسماء الحسنیٰ میں شمار کرکے نبی V کے لیے ’’حبیبِ کبریا‘‘ استعمال نہیں کیا۔


حکیم سید محمود احمد سروؔ سہارنپوری نے لکھا:


’’کبریا جو اللہ کی صفت ہے ، جیسا کہ قرآن میں کہا ’’ولہٗ الکبریا‘‘ اور بڑائی اللہ کے لیے ہے۔یہ لفظ اللہ کا اسمِ صفت نہیں ہے بلکہ صرف صفت ہے……… حبیبِ کبریا کا صفاتی اظہار معنوی اعتبار سے درست نہیں۔لیکن عربی سے ناواقفیت کی بنا پر یہ جملہ اتنا رواج پاگیا ہے کہ بعض صاحبانِ علم بھی بے دھیانی میں اسے نعت میں استعمال کرتے ہیں۔قمر رعینی نے اپنے اس مجموعے میں اسے کہیں استعمال نہیں کیا‘‘۔(۳۶)


……قمر رعینی کے تنقیدی منہاج کو بھی ہم مقنن یا Judicial Criticism کے نام سے موسوم بھی کرسکتے ہیں۔


زبور حرم ۔ اقبال عظیم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(۶) زبورِ حرم میں اقبا ل عظیم نے ’’سخنِ گسترانہ‘‘ کے زیر عنوان نعت کے تقدس اوراس کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس میں در آنے والی عام بے احتیاطیوں کا تذکرہ کرکے ، شعراء کو ان بے اعتدالیوں سے باز رہنے کی تلقین کی ہے۔نعتیہ شاعری کے مافیہ (Content) کے معاملے میں اقبال عظیم کی حساسیت ان کے اس تنقیدی رجحان کی غماز ہے جسے مقنن تنقید کا نام دیا گیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:


’’ایک نعت قریب قریب روزانہ کسی نہ کسی ریڈیو اسٹیشن سے نشر کی جاتی ہے جس کا ایک شعر ہے:

انہیں تو عرش پہ محبوب کو بلانا تھا

ہوس تھی دید کی معراج کا بہانہ تھا


اسی نعت کا ایک مصرع یہ بھی ہے: ع صدمہء ہجر خدا سے بھی گوارا نہ ہوا


’’غور کرنے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک سے نعوذ باللہ ہوسناکی اور بہانہ سازی جیسی بدترین انسانی خصلتوں کو منسوب کرنا اور ا س کی شان ِ بے نیازی کو صدمہء ہجر میں مبتلا ہونے کا الزام دینا کفر نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘(۳۷)


اقبال عظیم نے کسی شاعر کی بے بصیرتی کا احوال اس طرح لکھا ہے کہ اس شاعر نے ’’بعد از خدا بزرگ توئی‘‘ کا ترجمہ ’’بزرگ‘‘ کی جگہ ’’بزرگ تر‘‘ کرکے اپنے مصرعے کا وزن پورا کیا اور مشاعرے میں پڑھ دیا۔اس کے بعد انقبال عظیم نے کچھ اشعار نقل کیے ہیں جن میں خیال کی بے راہ روی اور مضمون کی بے اعتدالی اظہر من الشمس ہے۔وہ لکھتے ہیں:


’’ایک اور نعت کا مطلع پیش کرتا ہوں:

صنم دیکھا ترا جلوہ کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے

کبھی بندہ کبھی مولا کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے

اور ایک دوسری نعت کا شعر یوں ہے:

آگے آگے جھومتا جاتا ہے وہ محشر خرام

پیچھے پیچھے چومتا جاتا ہوں میں نقشِ قدم


ان اشعار کے متعلق میںخود کیا عرض کروں بس ذہن میں رکھنے کی بات یہ ہے کہ نعت گو شعرا نے ان اشعار میں لفظ صنم اور ترکیب ’’محشر خرام‘‘ سرورِ کائنات کے لیے استعمال کی ہے جبکہ مطلع کا دوسرا مصرع بھی محلِ نظر ہے:

ہر ابتدا سے اول ہر انتہا سے آخر

ہر ابتدا محمدؐ ہر انتہا محمدؐ


اگر یہ توصیفِ رسول ہے تو کوئی شاعر سے پوچھے کہ پھر اللہ تعالیٰ کے لیے کیا باقی بچا؟اسی قسم کی بے احتیاطی کی ایک مثال یہ بھی ہے:

مدینے کی زمیں بھی کیا زمیں ہے


بہ الفاظِ دگر عرشِ بریں ہے‘‘ (۳۸)


اقبال عظیم نے لکھا:


’’شعرا…حضورِ اکرمV کی حیات طیبہ، اسوۂ حسنہ اور شریعتِ مطہرہ کی بنیا دپر صنف نعت گوئی کو وسعت دینے کی سعی کریں تاکہ سامعین کے ذہنوں میں دینی شعور پختہ ہو اور صحیح رجحانات فروغ پاسکیں لیکن یہ کام بہت آسان بھی نہیں ہے اس لیے کہ جب تک ہم اپنے ممدوح محترم کی حیاتِ پاک کے ہر پہلو سے پوری طرح با خبر نہ ہوں گے اور قرآن و احادیث مبارکہ کے ساتھ ساتھ اسلام پر بھی ہماری نظر گہری نہ ہوگی، نعت کے وسیع تر تقاضوں کا پورا ہونا ممکن نہیں‘‘۔(۳۹)


اقبال عظیم نے شعراء کی رہنمائی کے لیے کچھ الفاظ کے درست تلفظ بتائے ہیں تاکہ ان الفاظ کے اعراب لگانے میں بے احتیاطیاں نہ ہوں کیوںکہ عربی الفاظ میں اعراب ہی لفظوں کے معانی متعین کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔جن الفاظ کی فہرست انہوں نے دی ہے وہ درجِ ذیل ہیں: اِیْزَد۔مُحَمَّدْV۔مُصْطَفٰیV۔خَضْرَا۔مُرْسَلْ۔کِرَام۔نَبَوِیْ۔وُضُوْ۔مُبَارَک۔شفاعَتْ۔شَجَاعَت۔ ْ

رَفَاقَتْ۔مَحَبَّتْ۔مَسَرَّت۔خَلْوَت۔بِعْثَتْ۔نُبُوَّتْ۔مُیَسَّرْ۔مُنْحَصِرْ۔نَظَرِکَرَمْ(نہ کہ نَذْرِکرم)۔اِبْتِدا۔اِنْتِھَا۔رِضَا۔شِفَا۔مَرَضْْ۔رِضْوَان۔مَدْح۔مِدْحَتْ۔رَوْشَنْ۔رَوْضَہ۔مَشْعَلْ۔ نَجَات۔(۴۰)


درجِ بالا فہرستِ الفاظ اور مُقْتَبَس افکار کی روشنی میں اقبال عظیم کی تنقیدی آراء کو اصلاحی تنقید یا (Reformatory Criticism) کے ذیل میںبھی رکھا جاسکتا ہے۔ان کی تنقید مقنن تنقید اور اصلاحی تنقید کا مرکب ہے۔


فکری اصابت رکھنے کے باوجود تخلیقی لمحوں میںان سے سرزدہونے والی اغلاط کا احوال دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اقبال عظیم بھی اپنے بنائے ہوئے اصولوں پر پوری طرح کاربند نہیں ہوسکے۔ (ملاحظہ ہو:بت خانہ شکستم من(تنقیدی مضامین کا مجموعہ) امیر حسنین جلیسی )۔

روشن چراغ ۔ منظر عارفی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(۷) منظر عارفی نے اپنے نعتیہ مجموعے ’’اللہ کی سنت ‘‘میں ’’روشن چراغ‘‘ کے زیرِ عنوان ، شعرِ عقیدت کی تخلیق کے کچھ اصول بیان کیے ہیں۔نعتیہ شاعری میں مفاہیم کی پاکیزگی ، الفاظ کی نظافت اور خیال کی مستند بندش کے لیے منظر عارفی کے تنقیدی افکار سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔وہ لکھتے ہیں:


’’حمدو نعت کہنے کے لیے میں نے چند اصول اپنے لیے مقرر کیے ہیں:


۱۔ حمد و نعت میں کوئی ایسا شعر نہیں ہونا چاہیے جو ایسا ذو معنیٰ ہو کہ جو جہاں چاہے اس کو چسپاں کرلے،بلکہ حمد و نعت کا شعر کہیں بھی ہو حمد و نعت کا ہی رہے۔


۲۔ حمد و نعت میں منقبت کا داخل کرنا انتہائی غیر ضروری ہے کوئی تاریخی بات ہو تو اور بات ہے۔


۳۔ حمد و نعت میں دعا زیادہ سے زیادہ مقطع تک محدود ہو۔


۴۔ حمد و نعت میں ایسا کوئی شعر نہ ہو جس میں کسی بھی لحاظ سے اپنی خود ستائی ہو۔


۵۔ مندر ،کلیسا، وغیرہ ، غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو اپنی مسجد اور اپنے کعبے کے مقابل نہ لاؤں۔

نیز اپنے دل یا سر کو کسی بھی موضوع کے تحت کعبہ شریف یا عرش پاک سے افضل قرار نہ دوں۔


۶۔ حمد و نعت کے موضوعات میں واعظِ دینی کی مذمت یا تحقیر ہر گز نہ ہو(سب سے پہلا واعظ اللہ تعالیٰ اور پھر اس کے حکم سے اس کے رسول ہیں پھر امتِ محمدیہ کے علماء و مشائخ )۔


۷۔ معرفت کے نام پہ ٹھیٹ بازاری عاشقانہ موضوعات کی حمد ونعت کا موضوع ہر گز نہ بناؤں۔


۸۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تقابل کرتے ہوئے کسی بھی اللہ کے نبی علیہ السلام کی توہین یا تنقیص سے اپنی زبان اور قلم کو روکوں۔


۹۔ ایسی کسی بات کو قرآن و حدیث نہ کہوں جس کے بارے میں قطعی دلیل نہ ہو کہ یہ واقعی قرآنِ پاک کی آیت ہے یا واقعی حدیث شریف ہے۔


۱۰۔ اپنے لیے معیار بناؤں حمد و نعت شریف کا کہنا۔خواہ ایک کلام تین شعر یا چار شعر پر ہی مشتمل ہو۔مشاعروں میں واہ وا کے لیے لا یعنی قسم کے قطعی غیر متعلق شعر حمد اور نعت شریف کے نام پر داخل کرکے اشعار کی تعداد ہر گز نہ بڑھاؤں۔


۱۱۔ کوئی بھی نعت یا حمد کہہ کر ایک مفتی یا شیخ الحدیث مقام کے عالم کو ضرور سنالوں تاکہ وہ اس میں ایسی غلطی دیکھ لیں جو خلافِ شریعت ہو اور لا علمی کی وجہ سے مجھ پر ظاہر نہ ہوسکی ہو۔


۱۲۔ لفظ’’جان‘‘(مطلق)’’یار‘‘’’پیا‘‘’’دلدار‘‘’’دلربا‘‘ یا عام طور پر بے محابا دنیا کے معشوقوں کے بارے میں کہے جانے والے الفاظ کا استعمال اللہ کے رسول V کی شانِ ارفع کے خلاف سمجھوں۔


۱۳۔ آقاV کے لیے ’’تم، تیرے،تو،اِس، اُس‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ استعمال نہ کروں۔رہا یہ سوال کہ بزرگوں نے کیا، تو جواب یہ ہے کہ اس معاملے میں اپنا کام بزرگ ہی جانیںصرف اس معاملے میں ہی بزرگوں کی تقلید مجھ پر شرعاً کتنی واجب ہے۔


۱۴۔ صرف حمد و نعت کے اشعار کہنے پر فریفتہ ہو کر اپنی بے عملی ، فرائض و واجبات ے دوری اور خلافِ شرع کاموں میں مشغولیت اور اس پر قائم رہنے کو بے حیثیت نہ سمجھوں۔


۱۵۔ جنت کی تحقیر نہ کروں، دوزخ کا مذاق نہ اُڑاؤں ، اللہ کے سامنے حاضری کو معمولی نہ سمجھوں وغیرہ وغیرہ۔(۴۱)


منظر عارفی کے مرتب کردہ اصولوں میں نکتہ نمبر ۱۴ معاشرتی اصلاح کے لیے ہے بقیہ نکات اصلاحِ فکر و خیال کے حوالے سے تخلیقِ نعت کے ہنگام، تنقیدی بصیرت بروئے کار لانے کے لیے ہیں۔ فکر و خیال کی تطہیر کے لیے منظر عارفی کے بیشتر اصول قابلِ قدر ہیں۔یہ تنقیدبھی مقنن تنقید اور معاشرتی و اصلاحی تنقید کے دبستانوں کے ذیل میں رکھی جاسکتی ہے۔

فروغ ی نوا ۔ رئیس احمد نعمانی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(۸) فروغِ نوا(مجموعہء نعت)، رئیس احمد نعمانی:


’’رئیس احمد نعمانی کا یہ نعتیہ مجموعہ علی گڑھ(بھارت) سے شائع واہے۔اس مجموعہء نعت کو مصنف نے پہلا نمونہء نعت بتایا ہے جس میں بقول ان کے ’’ذاتِ نبوی کے احترام واقعی کو ملحوظ رکھنے کی کوشش پر پوری توجہ صرف کی گئی ہے‘‘۔(۴۲)


رئیس احمد نعمانی نے کتاب کے دیباچے بعنوان ’’حرفِ ناگزیر‘‘ میں شاہ احمد رضا خاں بریلوی ؒ اور علامہ اقبال ؒ کے بعض اشعار پر تنقیدی رائے دی ہے۔لیکن ان کی تحریر کسی نقاد کی تحریر کے بجائے کسی مبارزت طلب پہلوان کی تقریر لگتی ہے۔بات کتنی ہی صائب کیوں نہ ہوآدمی کا لہجہ اسے غیر صائب بنادیتا ہے۔خاص طور پر علامہ اقبال مرحوم کے حوالے سے جو سطور زینتِ کتاب بنی ہیں ان میں فروغ ِ نوا کے خالق کے غصے کو خوب خوب فروغ ملا ہے۔چند تصریحات کے زیرِ عنوان وہ لکھتے ہیں:


’’اس کتاب میں شامل نعتوں میں:


۱۔ عشق، عاشق، معشوق جیسے مردود و معیوب الفاظ کو قطعاً استعمال نہیں کیا گیاہے۔


۲۔ سید الانبیاV کی شان مبارک میں ، دوسرے نعت گو شاعروں کی طرح ’’تو‘‘ اور ’’تیرا‘‘ جیسے الفاظ کسی شعر میں نہیں لائے گئے ہیں۔


۳۔ حضور انور افضل البشر V کا اسم گرامی بھی احتراماً عبارت میں نہیں لایا گیا ہے بلکہ ضمائر و صفات کے توسط سے بات کہی گئی ہے۔


۴۔ عبد ومعبود اور خالق و مخلوق کے فرق کو التزاماً ملحوظ رکھا گیا ہے اور دیگر شعرائے نعت سرا کی طرح خدا اور رسول ؐ کے امتیاز کو نظر انداز کرکے جاہلانہ اظہارِ عقیدت اور ہندوانہ بھجن خوانی سے زبانِ قلم کو آلودہ نہیں ہونے دیا گیا ہے‘‘۔(۴۳)


درجِ بالا سطور سے رئیس احمد نعمانی کی احتیاط پسندی تو سامنے آئی لیکن ساتھ ہی ان کا فخریہ لہجہ بھی کھٹکا۔بہر حال یہ تنقیدی رجحان مدرسانہ اور متشددانہ ہے۔وہ مزید لکھتے ہیں:


’’۱۔ مسلمانوں کی اکثریت کی طرح(جو بالعموم علم سے اور بالخصوص دین سے بے بہرہ ہے)، ہمارے نعت گو شعراء کے ذہن میں بھی ’’توحیدو شرک‘‘ کا وہ نظریہ واضح نہیں ہے، جو ہوش و حواس کی درستی کے ساتھ قرآن پاک کے ایماندارانہ مطالعے سے متعین ہوتا ہے۔


۲۔ وہ ’’عبد و معبود‘‘ اور ’’خالق و مخلوق‘‘ کے اس امتیاز کی صلاحیت سے محروم ہیں، جو انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرتوں اور مخصوصاً سیدنا و حبیبنا آرام فرمائے مدینہ V کے پورے سفر حیات میں قدم قدم پر نمایاں ہے۔


۳۔ ۹۹ فیصد نعت نگاروں نے عقل کوبالائے طاق رکھ کر اللہ اور رسول کی محبت کو دو عدد عام انسانوں کی محبت پر قیاس کرلیا ہے۔


۴۔ قرآنِ پاک کی آیات پاک میں بیان شدہ حقائق کی جگہ ، عجمی صوفیا کے واہی تخیلات ان کے دماغوں میں مرتکز ہوگئے ہیں اور انھوں نے صوفیوں کے اس ’’نظریہء عشق‘‘ کو اپنے شعور پر حاوی کرلیا ہے جو یہودیت، مجوسیت، نصرانیت ، بدھ مت اور ویدک دھرم کے فلسفوں کے ساتھ فکری و ذہنی مشارکت رکھتا ہے۔(۴۴)


بعد ازاں جنابِ نعمانی نے احمد رضا بریلوی کی نعت ’’واہ کیا جودو کرم ہے شہِ بطحا تیرا‘‘ کو ضمیر ’’تیرا‘‘ کے استعمال پر اپنے استاد کے نام سے اصلاح دیتے ہوئے لکھا ہے کہ احمد رضا صاحب اس طرح بھی کہہ سکتے تھے:

’’واہ کیا جودو کرم ہے شاہِ بطحا آپ کا‘‘


پھر علامہ اقبال کے کچھ اشعار پر سخت تنقید کی ہے ۔چند اشعار یہ ہیں:

نگاہ عاشق کی تاڑ لیتی ہے پردۂ میم کو اٹھا کر

وہ بزمِ یثرب میں آکے بیٹھیں ہزار منھ کو چھپا چھپا کر

ای کہ ذات تو نہاں در پردہ ٔ عین عرب

روی خود را در نقابِ میم پنہاں کردہ ای

حمد بے حد مر رسولِ پاک را

آن کہ ایمان دادمشت خاک را


نعمانی کی باتوں میں تلخی کے عنصر نے ان کی بات کو ہلکا کردیا ہے ورنہ بعض اشعار پر گفتگو کی گنجائش موجود ہے۔بہر حال مسلکی جنگ و جدال میں پڑے بغیرکہا جاسکتا ہے کہ ان کا درجِ ذیل بیان لائقِ توجہ ہے:


’’ہم کو آپ کو اور تمام انسانوں اور جنات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن اور حاملِ قرآن V پر ایمان لانے کا اور آپ کی اطاعت کا مکلف قراردیا ہے۔کسی شاعر یا مولوی، کسی پیر یا جوگی، کسی گیانی یا فلسفی،کسی گیلانی نجفی، کسی لکھنوی یا تھانوی، کسی دہلوی یا بریلوی یا ان کے کلام و اقوال پر ایمان لانے اور ان کی اطاعت کا ہرگز ہرگز مکلف نہیں بنایاہے‘‘۔(۴۵)


نعت کی تنقید میں دیو بندی اور بریلوی ، مسلکی چپقلش نے ہمیشہ روڑے اٹکائے ہیں۔کچھ معاملات روحانی سطح پر حقائقِ ثابتہ بن کر صوفیوں اور ان کے پیرو کاروں کے درمیان عقائد کا روپ دھارلیتے ہیں اور کچھ’’ عقیدے ‘‘ روحانی اقدار سے عار ی شریعت پر زور دینے والے حلقوں میں پروان چڑھتے ہیں۔شاعری احساس کی زبان ہے۔شاعر کا ہر مُخَاطَبْ اس کے دل کے نزدیک ہوتا ہے۔نعت میں حضور اکرم V کی ذات کو تصوراتی طور پر ہر شاعر حاضر و ناظر جانتا ہے اور اس طرح اس کا لہجہ استغاثے میں بدل جاتا ہے۔اس تصوراتی روحانی واردات کو تنقید کا نشانہ صرف اس صورت میں بنایا جاسکتا ہے جب شاعر نے صریح گمراہی کا ثبوت دیا ہو۔ورنہ ادب فہمی کے تمام دعوے بے قیمت ہوجائیں گے۔بہر حال رئیس احمد نعمانی کے نقطہء نظر کو ایک تنقیدی جہت کا درجہ حاصل ہے جسے ہم مقنن تنقید ی دبستان سے منسلک کرسکتے ہیں۔

اردو زبان میں نعت گوئی کا فن اور تجلیات‘‘ ڈاکٹر سید وحید اشرف کچھوچھوی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(۹) ’’اردو زبان میں نعت گوئی کا فن اور تجلیات‘‘ ڈاکٹر سید وحید اشرف کچھوچھوی (سابق صدر شعبہء عربی،فارسی،اردو،دانشگاہِ مدراس،بھارت) کی کتاب ہے جس میں تین مضامین ہیں۔


ایک مضمون میں انہوں نے یہ بتایا ہے کہ شاعری میں کچھ لغزیں سہواً ہوجایا کرتی ہیں۔جان بوجھ کر کوئی مسلمان حضورِ اکرم کی شانِ اقدس میں بے ادبی کا مرتکب نہیں ہوتا۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ کم علموں سے لغزشیں ہوتی ہی ہیں اس لیے ان کی مثالیں دینا بے سود ہے۔صرف ایسے لوگوں کی مثالیں دینا ہے جن کا شمار پڑھے لکھے لوگوں میں ہوتا ہے۔وہ لکھتے ہیں:


’’ایک صاحب نعت میں لکھتے ہیں: ع عروجِ حسن عطا ہے تمہاری شاہانہ،…یہاں سید عالم V کی عطا کو دنیوی بادشاہ کی عطا کے مثل بتایا ہے۔مسلمان کا عقیدہ ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو عطا کر سکتے ہیں وہ دنیا کے بادشاہوں سے ممکن نہیں ہے اور جو دنیا کے بادشاہ عطا کرسکتے ہیں اس کو سید عالم V کی عطا کے مثل بتانا جہل کے مترادف ہے۔مثل اور مثال میں فرق ہے۔مثل قرار دینے میں مشبہ بہ کا رتبہ مشبہ سے افضل ہوگا ۔یہاں دنیاوی بادشاہ کی عطا نعوذ باللہ زیادہ افضل قرار پائے گی۔یہ بیان علم معانی و بیان سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔اس بیان میں مثل غلط تو ہے ہی مثال بھی درست نہیں ہے۔ ایک صاحب کا شعر ہے:

عمر بھر ہم پھرے کو بہ کو

تجھ سا پا یا نہیں خوبرو


اردو میں یہ شعر امیر خسرو کے اس فارسی شعر کی بازگشت ہے جو انھوں نے اپنے مرشد کے متعلق کہا ہے ؎

آفاقہا گردیدہ ام عشقِ بتاں ورزیدہ ام

بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری


بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو نثر میں بیان نہیں کی جاسکتیں ، لیکن شاعری میں جائز ہیں۔ حضرت امیرخسرو تو صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارا مرشد وقت کا سب سے بڑا مرشد ہے…خلافِ واقعہ بیان ہے لیکن ’’تو چیزے دیگری‘‘ کے لیے یہ بیان ضروری تھا۔یہاں مقصد واقعہ نگاری نہیں بلکہ دعویٰ کے ثبوت کے لیے اس شاعرانہ دلیل کو بیان کرنا ضروری تھا۔اس بیان کا تعلق صرف تخیل اور شاعری سے ہے جو شاعری میں جائز ہے۔ایسی خلافِ واقعہ بات اگر نعت میں کہی جائے تو جائز نہ ہوگا‘‘۔(۴۶)


نعتیہ شاعری میں درجِ بالا مضمون اس لیے ناجائز ہے کہ حضورِ اکرم V کا ہم سر تلاش کرنے کا خیال بھی ایمان کے خلاف ہے۔کیوں کہ مسلمان پہلے سے ہی ع بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر … پر ایمان رکھتا ہے۔(۴۷)


ڈاکٹر وحید اشرف نے شاعری میں ضمائر کا ذکربھی چھیڑا ہے اور جو نکات بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے:


٭ہماری کلاسیکی شاعری میں ’’تو ‘‘ کا استعمال ہوتا رہا ہے اور آج بھی جاری ہے… ٭جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے آپ کا صیغہ استعمال کرتے ہیں ان کے خیال میں صرف وہی مؤدب ہیں… ٭قرآن میں جہاں کہیں خدانے اپنے کو بندہ سے مخاطب کرایا ہے وہاں صرف واحد کے صیغہ ہی میں خطاب کرایا ہے… ٭واحد حاضر کے صیغہ میں ک، انت اور واحد غائب کے صیغہ میں ہٗ اور ھُو۔اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بندے اللہ تعالیٰ کو واحد ہی کے صیغہ میں خطاب کریں… ٭اردو میں واحد حاضر کے لیے ’’تو‘‘ تحقیر اور تعظیم دونوں کے لیے بولا جاتا ہے لیکن محلِ استعمال سے قرینہ واضح ہوجاتا ہے کہ مرا د کیا ہے… ٭جس لفظ میں دونوں معانی کا احتمال ہو اس کا استعمال حمدو نعت میں کفر کے مترادف ہوگا… ٭اگر کسی کے لیے لفظ ’’تو‘‘ تحقیر کے معانی میں استعمال کیا جاتا ہے تو اس میں یہ بات مضمر ہوتی ہے کہ وہ تنہاقصور وار ہے… ٭فارسی نعتیہ شاعری میں سید عالم V کے لیے ’’تو‘‘ اور ’’توئی‘‘ کا ستعمال بکثرت ہوا ہے… ٭مخلوق میں حضور V کی ذات کی فردیت کے اظہار کے لیے ’’تو‘‘ کا استعمال زیادہ مناسب ہے… ٭اصول یہ ہے کہ جو چیز نثر میں جائز نہیں وہ شعر میں جائز ہوسکتی ہے… ٭نثر میں رسولِ اکرم V اور دیگر بزرگوں کے لیے صرف ’’آپ‘‘ ہی استعمال کرنا درست ہوگا۔(۴۸)

ڈاکٹرکچھوچھوی ایک اور جگہ لکھتے ہیں:


’’ہر صنف سخن میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ حقائق کا دامن ہاتھوں سے نہ چھوٹنے پائے اور اگر حقائق یا دلائل شاعرانہ ہوں تو ان کی تاویل نعت کے مناسب ہو ورنہ شاعرانہ حقائق سے بھی گریز کرنا چاہیے‘‘۔(۴۹)


کتاب میں شامل دوسرا مضمون ’’اردو نعتیہ شاعری میں شعراء سے لغزشوں کے بعض وجوہ‘‘ میں عملی تنقید کے مظاہر ہیں۔اس کی مثال درجِ ذیل ہے:

’’مثالِ مصطفیٰ کوئی پیمبر ہو نہیں سکتا

ستارہ لاکھ چمکے مہرِ انور ہو نہیں سکتا


…اس کا مفہوم یہ ہوا کہ ستارہ یعنی ہر نبی اس کوشش میں ہے کہ وہ مہرِ انور یعنی سید الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی طرح صاحبِ فضیلت ہوجائے جبکہ یہ بات خلافِ واقعہ ہے۔یہ تو ملتا ہے کہ بعض نبی نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ کاش وہ آپ V کی امت میں ہوتے لیکن رشک کا مضمون نبی کی شان کے خلاف ہے‘‘۔(۵۰)


سید وحید اشرف بتاتے ہیں کہ لا علمی کی بنیاد پر زبان و بیان کی غلطیاں تو ہوتی ہی ہیں اب تو جدیدیت کے شوق میں بہت سی فاحش غلطیاں ہورہی ہیں۔شعراء کو معلوم ہی نہیں کہ شعر سے مدح کا پہلو نکلتا ہے کہ ذم کا۔اس ذیل میں انہوں نے علیم صبا نویدی کی شعری لغزشوں کی نشاندہی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اک نہ اک طوفان سے روز انہ اک مڈبھیڑ ہے

تھامنے کو روز اپنا دامن آئے مصطفیٰ


پہلے مصرعہ میں لفظ مڈبھیڑ بہت ثقیل ہے۔اگرچہ یہ پابند شاعری ہے مگر مصرعہ میں کوئی رچاؤ اور پختگی نہیں ہے۔دوسرے مصرعہ میں محاورہ کے غلط استعمال سے ایسا گستاخ آمیز مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ الامان والحفیظ ۔دامن اس کا تھا ما جاتاہے جس سے آدمی مدد یا نجات کا طالب ہوتا ہے۔’’دامن تھامنے‘‘ کے بجائے یہاں ’’بازو تھامنے‘‘ کا موقع تھا۔بازو کمزور کا تھاما جاتا ہے۔ محاورہ کے فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کے سبب کتنی بڑی غلطی سرزد ہوئی ہے۔ اور لکھتے ہیں:

کس کی خاطر عالمِ امکاں کا ہے یہ اہتمام

ہم سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ہے برائے مصطفیٰ


اس میں چند در چند غلطیاں ہیں۔ہم صرف ایک بڑی معنوی غلطی کی نشاندہی کرتے ہیں۔


’’…مطلب یہ ہوا کہ ہماری سمجھ سے واقعہ تو یہ ہے لیکن بعض دوسروں کی سمجھ اس کے خلاف ہوسکتی ہے…یہ تو کائنات کا خالق ہی بتا سکتا ہے کہ کائنات کس کے لیے ہے…شاعر اسے اپنے ذمے لے رہا ہے’’ہم سمجھتے ہیں‘‘ کی جگہ اگر ’’قولِ ربی ہے‘‘ ہوتا تو شعر اچھا ہو یا نہ ہو، بات درست ہوتی۔

بعد رحمت بھی صبا کو آپ سے امید ہے

کون ہوگا حشر میں اپنا سوائے مصطفیٰ


یہاں ’بھی‘‘ کا استعمال ایسا غلط ہے جس نے معنی میں عیب پیدا کردیا ہے۔ اگر بات یوں ہوتی کہ اپنے گناہوں کے بعد بھی آپ سے رحمت کی امید ہے تو بات درست ہوتی۔ یہاں ’’رحمت‘‘ کو عیب کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ اور شعر ہے:

میری اپنی پتلیاں ان پتلیوں میں ڈوب جائیں

زیر لب جن پتلیوں میں مسکرائے مصطفیٰ


’’پتلیوں میں پتلیاں ڈالنا‘‘ کون سا محاورہ ہے؟ اس میں مدح کا کونسا پہلو ہے؟جس ہستی کی خاکِ پا کو مؤمن اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کا آرزو مند ہوتا ہے، شاعر بجائے ان کی خاکِ پا کو اپنی آنکھوں میں لگانے کے اپنی آنکھوں کو ان کی آنکھوں میں ڈبونا چاہتا ہے۔ایسا کیوں ہے؟ کہنے والا ہی سمجھے۔یہ بھی شعر دیکھیے:

تیرگی کی بھیڑسے باہر نکلنا ہے مجھے

میرے آگے ضو فشاں ہے نقشِ پائے مصطفیٰ


’’اللہ ان کا دوست ہے جو ایمان لائے انھیں وہ (کفر کی) تاریکی سے نکال کر (ایمان کی) روشنی میں لاتا ہے۔قرآن میں یہاں تیرگی سے مراد کفر کی تیرگی ہے…لیکن یہاں شاعر لکھتا ہے کہ اسے ابھی تیرگی سے نکلنا ہے۔گویا ابھی اسے ایمان کی روشنی نہیں ملی…

پہلا مصرعہ یوں ہوتا تو یہ اعتراض جاتا رہتا

ع تیرگی کی بھیڑ سے شکرِ خدا میں بچ گیا،

یوں یہاں لفظ ’’بھیڑ‘‘ بھی حشو ہے……… اور دیکھیے

دوسرے سایہ کو کیا دیتی جگہ اپنی جگہ

یہ زمیں سایہ بنی تھی زیرِ پائے مصطفیٰ


دونوں مصرعوں میں کیا ربط ہے؟ اور شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟ یہ وہی سمجھے۔ یہ شعر بھی ہے:

مسجد و منبر میں اسکو قید کیوں کرتے ہیں لوگ

گونجتی ہے دونوں عالم میں صدائے مصطفیٰ


…شاعر کے دل میں یہ بات رہی ہوگی کہ چاہیے کہ مسجد میںپیغام محدود نہ کریں بلکہ اسے سارے عالم میں پھیلائیں۔اگر مقصد یہ ہے تو پہلا مصرعہ یوں ہونا چاہیے تھا۔مسجد و منبر میں کیوں محدود کرتے ہیں اسے …لیکن پھر بھی شعر صفائی بیان سے محروم ہے۔شعر میں جہاں صراحت کی ضرورت ہو وہاں ابہام یا گنجلک بیان عیب ہے۔اس میں لفظ منبر ’’حشو‘‘ ہے۔(۵۱)


عارف عبدالمتین کی نعت کے کچھ اشعار نقل کرکے ڈاکٹر وحید اشرف کچھوچھوی نے کئی اسقام کی نشاندہی کی ہے :

’’تری حدیث ترے رو برو سناؤں تجھے

یہ آرزو ہے کبھی آئنہ دکھاؤں تجھے


…آئنہ دکھانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دیکھنے والا اپنے چہرے کے عیب کو دیکھ لے۔’’تری حدیث…‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ یہ بھی گستاخ آمیز کلمہ ہے۔

مرا وقار بھی تو ہو مری پناہ بھی تو

میں خود زمین بنوں آسماں بناؤں تجھے


…یہ زمین و آسمان بلکہ ساری کائنات جس کے طفیل ہے اورآسمان بھی جس کے علو مرتبہ کے آگے پست ہے شاعر اس کو آسمان بنانا چاہتا ہے۔ع بدیں عقل و دانش بباید گریست‘‘۔


راقم الحروف کے خیال میں اس شعرپر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر وحید اشرف نے دھیان نہیں دیا۔یہاں شاعر نے بالکل نسوانی جذبات کی عکاسی کی ہے [تحت و فوق]۔ حضور V کی ذاتِ اقدس سے اپنے تعلق کی خواہش کا یہ اظہاربھی قابل اعتراض ہے ۔بہر حال ڈاکٹر صاحب نے ایک اور شعر نقل کیا ہے:

’’برس رہی ہے ترے رخ کی چاندنی تجھ پر

قریب آ کہ میں سینے سے بھی لگاؤں تجھے


…شاعر نے جرا ء ت نازیبا سے کام لیا ہے۔خود رسول اکرمV جس کو سینے سے لگالیں تو اس کی قسمت چمک جائے۔جیسا کہ آپV نے ایک غلام حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سینے سے لگا کر ان کے علو مرتبہ کو ظاہر کردیا تھا۔شاعر کو سوچنا چاہیے تھا وہ آقائے دو عالم V سے خطاب کررہا ہے۔

تو مجھ سے روٹھ مگر روٹھنے سے پہلے بتا

تو روٹھ جائے تو میں کس طرح مناؤں تجھے


یوں کہنا ’’تومجھ سے روٹھ‘‘ نعتیہ کلام میں سخت نازیبا ہے۔

یہ میرا شوق کہ میں تجھ کو بر ملا دیکھوں

یہ میرا رشک کہ میں خود سے بھی چھپاؤں تجھے

[درج بالا]اشعار خالص تغزل کے اشعار ہیں جو رسولِ اکرم V کی شان کے منافی ہیں۔شاعر اگر سورۂ حجرات کی تفسیر پڑھ لیتا تو اسے کچھ اندازہ ہوتا کہ یہاں ادب کو کس طرح مد نظر رکھنا چاہیے‘‘۔(۵۲)


ڈاکٹر سید وحید اشرف کچھوچھوی نے نعتیہ شاعری کی نزا کتوں کے حوالے سے شعری زبان میں بھی کچھ نکات بیان کیے ہیں،جونعت نگاروں میں تنقیدی شعور کے اضافے کا باعث ہوں گے:

نعت لکھنے کا ہنر شرطِ دگر مانگے

عشق اور روشنیِ قلب و نظر مانگے ہے

قلب سے خامہ طلبگارِ اثر لفظ میں ہے

لفظ خامہ سے مگر زورِ اثر مانگے ہے

عشق استادِ ادب ہے نہیں محتاجِ ہنر

ہاں مگر سوزِ دل اور خونِ جگر مانگے ہے

طالب عفو اگر ہے تو نہ کر عرضِ ہنر

عفو تو تجھ سے ندامت کی نظر مانگے ہے

جذبۂ عشق کبھی چاہتا ہے خون جگر

اور کبھی عاشقِ جانباز کا سر مانگے ہے

نعت کے واسطے آواز قلم وقتِ رقم

مجھ سے قلب و جگرِ سوختہ تر مانگے ہے‘‘(۵۳)


ڈاکٹر سید وحید اشرف کا تنقیدی اسلوب، مقنن تنقید ی دبستان کی نمائندگی بھی کرتا ہے ا ور مقنن ،اصلاحی اور جمالیاتی تنقیدی دبستانوں کے امتزاج کا آئینہ دار بھی ہے۔

=== نعت اور تنقید نعت ۔ سید محمد ابوالخیر کشفی

(۱۰)’’نعت اور تنقیدِ نعت‘‘ ڈاکٹرسیدمحمد ابولخیر کشفی کی کتاب ہے ،جس میں تاثراتی اور تشریحی تنقید کے نمونے ملتے ہیں۔احمد رضا خاں بریلویؒ کے معروف سلام’’مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ کے حوالے سے انہوں نے اس طرح سوچا:


’’سلام کا آغاز’رحمت‘ اور ’ہدایت‘ کے نغموں سے ہوتا ہے۔دوسرے اور تیسرے اشعار میں ’رسالت‘ ‘ اور ’شفاعت‘ کے ذکر سے حضرت محمد مصطفی V کی رسالت کے چار بنیادی عناصر کا ذکر مکمل ہوجاتا ہے۔آپV کے بھیجنے والے نے آپ کو رحمۃللعالمین بنا کر بھیجا ہے اور انسانوں کی ابدی ہدایت کا ابدی نقطہ آپ ہی کی ذات ہے۔تمام انبیائے کرام کی تعلیمات کا مہیمن اور محافظ قرآن حکیم ہے اور آپ کے اسوۂ حسنہ میں تمام انبیائے کرام کی صفات نقطہء کمال پرنظر آتی ہے۔اس کائنات کی تاریخ میں کوئی لمحہ ایسا نہیں آیا جو بزمِ ہدایت سے خالی رہا ہو اور آخرمیں اس بزم کو ابد الآباد تک روشن رہنے والی شمع مل گئی۔ اس شمع پہ لاکھوں سلام اور لاکھوں درود۔حضور V کی ذات ہدایت کی برہان عظیم بھی ۔قل فللہ الحجۃ البالغہ(سورۃ الانعام۔آیت ۱۴۹)(آپ کہہ دیجیے کہ بس مکمل حجت تو اللہ کی ہی ہے)‘‘۔(۵۴)


سلام کے اولین اشعار کی معنیاتی چکا چوند دکھانے کے بعد ایک نکتے پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کردیا ہے:


’’اس سطح کی بلند شاعری میں چوتھا شعر بے جوڑ لگتا ہے جس کا اس حدیقۂ اول کے ان تمام اشعار سے کوئی علاقہ نہیں جو حضورV کی سیرت و ذات کو ہمارے وجدان کا حصہ بنادیتے ہیں۔

شبِ اسریٰ کے دولھا پہ دائم درود

نوشۂ بزمِ جنت پہ لاکھوں سلام


دولھا، برات، نوشہ، شادی، نوشہ کے تلازمے نہ جانے حضرت احمد رضا خاں صاحب اور ان کے دبستان کے بہت سے شاعروں اور مقرروں کو کیوں اس درجہ پسند تھے۔


نوشۂ بزمِ جنت، کو مرکزِ بزمِ جنت، شانِ بزم جنت، رونقِ بزمِ جنت، کعبۂ بزمِ جنت، کچھ بھی کہا جاسکتا تھا۔پورا سلام اپنے شاعر کی قادرالکلامی کا گواہ ہے بلکہ یہ تلازمہ شاعر کی نفسیات کا ایک حصہ ہے۔اس تلازمہ کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایسے عالمانہ سلام میں جو حدیث و قرآن کی آیات کی ترجمانی کرتا ہے عام سننے والوں کی دل چسپی کے کچھ اشعار شعری ضروریات کا تقاضا تھے‘‘۔(۵۵)


یہاں ڈاکٹرکشفی نے لفظ ’’دولھا‘‘ کے استعمال پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کردیا اور شاعر کی نفسیات کے اس پہلو کی طرف بھی اشارہ کردیا جس کے تحت اسے عوامی زبان میں بات کرنے کی رغبت ہوئی۔

سرود ِ نعت ۔ ع ۔ س ۔مسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(۱۱)’’سرودِ نعت ‘‘ …ع۔س۔ مسلم:


آفتاب احمد نقوی شہید ،نے سرودِ نعت کے مصنف ع۔س۔ مسلمسے یہ سوال کیا کہ ’’نعت کے حوالے سے آپ کی سوچ یا نظریہ کیا ہے؟‘‘ ع۔س۔مسلم نے اس سوال کا جواب بڑی تفصیل سے دیا تھا۔ ہم اختصاراً کچھ نکات یہاں لکھتے ہیں:


٭نعت کو رسولِ کریم V کے آئینۂ ذات اور صفات ہی میں آپؐ سے محبت اور عقیدت کا عکاس ہونا چاہیے…٭رسولِ کریم V افضل البشر ہیں۔مخلوق میں آپ بلند درجات کے حامل ہیں۔ان درجات کی رفعت کا تصور محال ہے۔ایسی صورت میں آپV کے مدارج کی درجہ بندی ممکن نہیں۔


٭بنا بریں آپؐ کی سیرت و کردار کا مطالعہ فکرِ عمیق سے ہونا چاہیے…٭محبت کا اظہار آپؐ کی اطاعت اور وفاداری سے مشروط ہے…خود نعت گو کی شخصیت میں آپؐ کے اسوۂ حسنہ کا پر تو نظرآئے۔


٭جب تک نعت گو کو مناسب سطح تک مقامِ مصطفیٰ V کا صحیح ادراک نہیں ہوگا، نعت گوئی خوبصورت الفاظ میں محصور ہو کر زورِ قلم کا اظہار رہ جائے گی۔(۵۶)


اسی طرح جب ع۔س۔مسلم سے یہ سوال کیا گیا کہ ’’آپ کے خیال میں نعت گوکو بطورِ خاص کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟‘‘ تو انہوں نے اس سوال کا جواب بھی تحریری شکل میں دیا تھا۔ہم اس سوال کے ضمن میں بھی ، ع۔س۔مسلم ، کے چند نکات یہاں پیش کرتے ہیں:


٭حضورV افضل البشر ہیں لیکن آپؐ بھی اپنے رب کے مکمل تابع، اطاعت گزار، وفا شعار، مطیع و فرماں بردار اور اس کے فضل و کرم کے محتاج و طلبگارہیں ۔آپؐ کی طرف ایسی صفات کو منسوب کرنا جو اللہ تعالیٰ کی ذات سے خا ص ہیں، اور آپ کی ذات محبوبی اور اللہ تعالیٰ یعنی اپنے خالق سے تعلقِ خاطر کو دنیاوی تصورِ عاشق ومعشوق(نعوذ باللہ) سے بیان کرنا، نہ صرف آپؐ کے لیے سوء ادب ہے بلکہ انتہائی درجے کا شرک و بدعت ہے…

٭آپ ؐ محبوبِ رب ہیں۔ہر صانع کو اپنی صنعت پیاری ہوتی ہے۔بالخصوص وہ جو کاملیت کے درجے کی ہو…

٭مسلسل امتحان اور آزمائش سے گزرنے کے باوجود آپؐ نے تبلیغِ حق میں کوتاہی نہیں کی بلکہ اپنے اسوۂ حسنہ کی مثال پیش کی اور اپنے رب کی محبوبیت کا شرف حاصل کیا۔

٭ کامل بندگی و اطاعت کا یہ وہ مقام ہے ، جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپؐ کی محبت میری محبت کے مترادف ہے اور آپؐ کی اطاعت میری اطاعت کے مترادف…

٭نعت گو کو ، خودی کو، ’’انا‘‘ سمجھنے کے بجائے ، خالق و بندے کی رضا کی اس خوش آمیزی کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے…

٭سیرت کے یہ ٹھوس حقائق نعت گو کے پیش نظر رہیں۔اسے فرہاد و مجنوں کی طرح صرف ’’عشق و محبت‘‘ کا رونا نہیں رونا چاہیے…

٭اطاعت کے بغیر محبت کا اظہار آپؐ سے روگردانی کے مترادف ہے۔

٭حضرت حسان بن ثابت ؓ کی حضور نبیئِ کریم V کی محفل میں پذیرائی اور بصیری ؒ کے قصیدے کی مقبولیت ، درست جہت اور اللہ اور اس کے رسول کے دربار میں شرف قبولیت کی دلیل ہے۔یہ نکتہ بھی اسی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے…

٭آپؐ کی محبت اور محبت کے عام تصور میں بہت فرق ہے۔نعت میں اس فرق کی صحیح عکا سی ہونی چاہیے…

٭دعا ،فریاد، طلب اور مانگ ، اللہ کی ذات سے ہونی چاہیے نہ کہ رسولِ اکرمV کی ذات سے…

٭اطاعتِ رسول اکرم V کے بغیر شفاعت کی امید رکھنا اور نعت میں رسماً شفاعت کے مضامین باندھنے کا عمل بھی اصلاح طلب ہے۔ اس ضمن میں ع۔س۔مسلم لکھتے ہیں:


’’مشہور اعرابی جس نے حضورؐ سے عرض کیا تھا کہ میں نے ازراہِ عبادات و صدقہ وخیرات تو کوئی خاص اثاثہ جمع نہیں کیا، صرف آپ سے محبت رکھتا ہوں، اور جس کے جواب میں حضورؐ نے ارشاد فرمایا تھاکہ قیامت میں تو جس کے ساتھ محبت رکھتا ہے اسی کے ساتھ ہوگا۔تو اس حدیث کا مطلب بھی یہی ہے کہ مقدور بھر کوششِ عمل ہو پھراعترافِ گناہ ہو، اور حضور کے ساتھ قلبی تعلقِ خاطر اور محبت بھی ہو، تو کون بد بخت ہے جوروزِ قیامت زمرۂ ابرار اور سایۂ رحمت و عاطفت سے بیگانہ رہنے کا خیال بھی کرسکتاہے۔سیدھی سی بات ہے کہ جو شخص اللہ کے حکم کے تحت قرآن و حدیث اور سنت ِ رسول V پر تو عامل نہیںوہ اسی اللہ کے بندے اور اسی کے فرستادہ رسولؐ سے سفارش کی توقع کیسے کرسکتا ہے‘‘۔(۵۷)

ایک جگہ لکھتے ہیں:


’’مقصد صرف بات کہنے سے نہیں پورا ہوتا بلکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ بات کس طرح کہی گئی ہے اور شعر میں تو فنی تقاضے قدم قدم پر دامن گیر ہوتے ہیں۔اگر تلفظ ،بحر، یا معانی کے وہ تقاضے پورے نہ ہوں ، تو قول یا شعر کا تاثر زائل ہوجاتا ہے۔اس لیے شاعر کو اس امر میں خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے……’’بامحمدؐ ہوشیار‘‘ کی تنبیہ کا تقاضا ہے کہ آداب نعت پہلے آئیں اور جسارتِ اظہار بعد میں ہو اور اس اظہار میں بھی جسارت سے زیادہ محبت، عقیدت اور اطاعت کے پہلو غالب ہوں‘‘۔(۵۸)

شاعری میں جذبے کی بنیاد کے ضمن میں لکھتے ہیں:


’’دیکھنے کی بات یہ ہے کہ شاعر کے القاء خیال کا مصدر و منبع کیا ہے؟ اس کی آبیاری اگر سر چشمہء ایمان و یقین سے ہوتی ہے، تو شاعری سے بڑی کوئی نعمت نہیں اور اگر یہ منبع محض خیال و خواب اور وہم کی کارگاہ ہے، تو پھر یہ وعید ِ باری تعالیٰ کے مطابق باعثِ ملامت و ندامت ہے۔دونوں طرح سے اس کی اہمیت اتنی واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد جگہ شعر ا ء کا تذکرہ مناسب سمجھا‘‘۔(۵۹)


نعت گو شاعر کے تنقیدی شعور میں ایمانیاتی چمک اور نعت کے موضوع کی رفعت کااحساس کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ ع۔س۔مسلم نے اپنے تخلیقی منہاج میں ’’خود تنقیدی‘‘ کا عنصر ہمیشہ پیش نظر رکھا ہے۔ ان کی تحریر میں خود تنقیدی یا خود احتسابی کی ایک مثال بالکل منفرد ہے ۔ہوا یوں کہ ع۔س۔مسلم نے ایک نعت میں حسنِ مطلع کے طور پر ایک شعر کہا:

اے بخت کیا یاد مجھے میرے نبی ؐ نے

بے اذن سعادت نہیں پائی یہ کسی نے


یہ شعر کہنے کے بعد ان کے احساس کی شدت نے ان پر جو کیفیات طاری کیں ان کا احوال شنیدنی ہے ،وہ لکھتے ہیں:


’’شعروارد ہونے کے بعد کئی روزو شب عجیب کرب و اضطراب ،اندیشہ و کشمکش،پریشانی و تردد اور بے کلی و بے قراری میں گزرے،کسی پل چین نہ تھا، کیا مقدر نے واقعی یاوری کی ہے اور آپؐ نے، میرے محبوب نبیؐ نے مجھے یاد فرمایا ہے؟زہے قسمت، روئے زمین پر مجھ جیسا خوش قسمت آج کون اور ہوگا؟ لیکن دوسرے ہی لمحے یہ خوف دامن گیر ہوجاتا، یہ کہیں شاعرانہ تعلی اور اس نسبت سے نہایت ہی بد بختانہ جسارت تو نہیں، کہ میں آپ V کی طرف ایک ایسی بات منسوب کردوںجس کا بقید ِ ہوش و خرد مجھے کوئی حواسی علم نہیں ہے۔اگر ایسا ہے تو جتنا استغفار کروں اور طالب عفو ہوں، کم ہے۔اور تیسرا خدشہ یہ کہ رواروی میں صرف شعر ہی ہوگیا، لیکن اذنِ حاضری کہاں ہے، اس کے تو دور دور تک امکانات نظر نہیں آتے، یہ تو دوہری بد بختی ہوگئی، یہ میں نے کیا کردیا۔کیا گھر سے نکل جاؤں، منہ چھپالوں، گریباں چاک کرلوں، دیواروں سے سر پھوڑلوں، لیکن مشیت سے کہاں فرار ہوگا…اگر نبی ؐ نے یاد فرمایا ہے تو پھر میں یہاں کیا کررہاہوں؟…اگر یہ شاعرانہ تعلی ہے ، تو میں نے آپؐ کی ذاتِ صدق مآب پر نعوذُ باللہ بہتان باندھا۔اب اس کاکفارہ کیا دوں، تاکہ راہِ راست پر آؤں؟کیا اب حاضری نہیں ہوگی؟ وائے بد بختی میں تجھ سے اور اپنے ساتھ کیا سلوک کروں…چند روز اسی تذبذب اور کشمکشِ ذہن میں گزرے کہ ایک مختصر نجی نشست میں دوستوں کی فرمائش پر کہ تازہ نعت پیش کروں، میں نے یہی نعت پڑھ دی، مذکورہ شعر پر دل کا سارا خوف و تذبذب ، اندیشہ و کشمکش کرب و اضطراب اور پریشانی و تردد موجوں کی طرح آنکھوں سے بہہ نکلا۔ایک سخن فہم دوست نے شعر سنتے ہی کہا، بھائی ! رخت ِ سفر باندھ لو، تمہارا بلاوہ آگیا ہے…ایک ہفتہ کے اندر اندر ایسے اسباب پیدا ہوگئے…واقعتاً اُڑ کر درِ حضور پر پروانہ وار حاضر ہوگیا‘‘۔(۶۰)


تنقیدی نظریات اور تنقیدی اسالیب تو بہت سے سامنے آئے لیکن ’’خود احتسابی اور خود تنقیدی‘‘ کی ایسی مثال مجھے کسی اور کتاب میں نہیں ملی۔دراصل نعتیہ شاعری کے لیے جذبے کی پاکیزگی اور بیان کی سچائی دونوں بہت ضروری ہیں لیکن بیشتر نعت گو حضرات اس بات کا خیال نہیں رکھتے۔یہی وجہ ہے کہ میں نے ع۔س۔مسلم کی قلبی کیفیات اور ذہنی کشمکش کا احوال اتنی تفصیل سے یہاں نقل کیا۔

اردو میں نعت گوئی ۔ چند گوشے ۔۔۔ شفقت رضوی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(۱۲) اپنی کتاب ’’اردو میں نعت گوئی، چند گوشے‘‘میں پروفیسر شفقت رضوی رقم طراز ہیں:


’’نعت گوئی بہت مشکل فن اس اعتبار سے ہے کہ اس میں مضمون اور اسلوب حدِ اعتدال میں ہونا ضروری ہے۔شاعری میں، مبالغہ جائز ہی نہیں بلکہ سکہء رائج الوقت ہے۔نعت میں اس کی گنجائش نہیں۔جب بھی مبالغہ سے کام لیا جائے گا، پیغمبری ، الوہیت کی جگہ لے لے گی اور خارج از امکان بھی ہے اور خارج از ایمان بھی۔اسی طرح لفظ ، محاوروں اور روز مرہ کے استعمال میں بھی حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔بے احتیاطی سے شاعرگستاخی کا مرتکب ہوجاتا ہے اس کی سیکڑوں مثالیں رسمی نعتوں میں ملتی ہیں۔نعت کے حدود میں صرف وہی اشعار شامل کیے جاسکتے ہیں جن کی نسبت رسول اللہ V سے ہو‘‘۔(۶۱)


اس اقتباس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پروفیسر شفقت رضوی ، نعت میں زبان و بیان کی نفاست اور جذبے کی صداقت دیکھنا چاہتے ہیں۔

نعت کہیے ، مگر احتیاط کے ساتھ ۔ پروفیسر اقبال جاوید[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(۱۳)’’نعت کہیے ، مگر احتیاط کے ساتھ‘‘، اس عنوان کے تحت پروفیسراقبال جاوید نے نعتیہ شاعری کی نزاکتوں کا ذکرتے ہوئے شعراء کو کچھ پر خلوص مشورے دیئے ہیں۔مثلاً


’’سچی نعت گوئی کے لیے مقامِ نبوت اور شان رسالت سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔توحید کے تقاضوں سے مکمل آگاہی بھی چاہیے اور یہ بھی لازم ہے کہ مدحت نگار، نعت کو غزل کی آشفتہ مزاجی اورقصیدے کی مبالغہ آرائی سے بچا لے جائے،کیوں کہ غزل اور قصیدے کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ، یہاں ہر مبالغہ ،خیال آفرینی اور ہر مستانہ لغزش حسن ہے۔جبکہ نعت کی ایک دینی حیثیت ہے، اس لیے یہاں قلم قلم پہرے ہیںاور دیکھنے والی نظروں کو دیکھنا بھی چاہیے اور ٹوکنا بھی کہ کہاں کہاں عقیدت نے عقیدے کے آبگینے کو مجروح کیا ہے، کیوں کہ عقیدہ بہر نوع بالا تر ہے۔حضور V ہم مسلمانوں سے صرف خراج عقیدت نہیں، بلکہ خراج اطاعت بھی لینے کے لیے تشریف لائے تھے۔یاد رہے کہ سچا اتباع ہی محبت کی واحد دلیل ہے‘‘(۶۲)


اس تحریر کے ذریعے، نعت کے تخلیقی تقاضوں کے ساتھ ساتھ حضور V کی محبت کے اظہار کا سلیقہ اور اخلاص کا قرینہ بھی سکھانے کی سعی کی گئی ہے…


پروفیسراقبال جاوید کا اندازِ بیان رومانوی ہے۔ان کا طریقِ نقد ’’تاثراتی‘‘ ہے اور اصلاحی و تشریعی دبستانِ تنقید کی جھلکیاں بھی ان کے طرزِ تحریر سے نمایاں ہیں۔کتاب میں شامل دوسرے لوگوںکے نثرپارے اور اشعار بھی نعت کی اہمیت کو جمالیاتی سطح پر اجاگر کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اس لیے جمالیاتی تنقیدی دبستان اس پوری کتاب پر حاوی نظر آتا ہے۔


شمائم النعت ۔ ڈاکٹر سراج احمد قادری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(۱۴) ٭شمائم النعت(تحقیقی و تنقیدی مقالات کا مجموعہ)، ڈاکٹر سراج احمد قادری:


’’نعت گوئی تنقید،تفہیم و تجزیہ‘‘ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سراج احمد قادری نے مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے کچھ فتاویٰ کا حوالہ دیا ہے۔وہ فتاویٰ ، نعتیہ شاعری پر شرعی گرفت کی بہترین مثالیں پیش کرتے ہیں۔مثلاً رام پور سے معشوق علی صاحب نے کچھ اشعار درج کیے اور اعلیٰ حضرت سے ان کے مافیہ (Content ) کے ضمن میں سوال کیا ۔اشعار درجِ ذیل ہیں:

اٹھا کر میم کا پردہ سب الا اللہ کہتے ہیں

احد میں میم کو ضم کرکے صلی اللہ کہتے ہیں

ظہور ہو کر کے دنیا میں یہ فرمایا کہ بندہ ہوں

تو سب ناسوت میں حضرت رسول اللہ کہتے ہیں

ہوئے ممکن سے جب واجب نبی ملکوت میں پہنچے

وہاں سب دیکھ احمد کو ظہور اللہ کہتے ہیں

جو پہنچا مرتبہ جبروت میں مسجود عالی کا

تو اس جسم مطہر کو وہ نور اللہ کہتے ہیں

الست مرتبہ لاہوت سمجھو ذات احمد کا

سب اس رتبہ میں آنحضرت کو عین اللہ کہتے ہیں

خدا فرمائے گا محشر میں بخشا لو تم اب احمد

گنہ گارانِ امت کو شفیع اللہ کہتے ہیں

نزول از تا عروج حضرت کا لکھا ہے حقیقت سے

خدا پہچان لو سب سے حسن اللہ کہتے ہیں


اعلیٰ حضرت کا جواب ملاحظہ ہو:


’’ان اشعار کا پڑھنا حرام، سخت حرام ہے۔ان میں بعض کلمہء کفر یہ ہیں اگرچہ تاویل کے سبب قائل کو کافر نہ کہیں اور بعض موہم کفر ہیں اور یہ بھی حرام ہے۔ردالمختار میں ہے۔مجرد ایھام المعنی المحال کاف فی المنع ۔ہاں بعض جیسے شعر چہارم و ششم ایہام کفر سے خالی ہیں۔پھر ششم میں مصرع دوم ’’گنہ گارانِ امت الخ‘‘ کو حضرت عزت کی طرف نسبت کرنا صحیح نہیں۔اور چہارم میں مسجود کا لفظ مناسب نہیں‘‘۔(۶۳)


اعلیٰ حضرت کا جواب ایسے شعراء کے لیے تنبیہ (Warning) کا حکم رکھتا ہے جو شریعت سے متصادم خیالات کو شعری جامہ پہناتے ہیں۔ڈاکٹر سراج احمد قادری نے صحیح کہا ہے :


’’حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی ؒ نے مذکورہ بالا اشعارپر جرح و تعدیل فرمائی اور ایک ایک شعر اور لفظ کا حکم بیان فرمایا۔صاف ستھری تنقید اسی کو کہتے ہیں‘‘(۶۴)


جودھ پور سے قاضی محمد عبدالرحمٰن نے ایک شعر لکھ کر سوال کیا۔شعر یہ تھا ؎

نعتِ خیرالبشر نہ ہوجائے

دل حقیقت نگر نہ ہوجائے

یہ شعر درج کرکے سائل نے استفسار کیا:


’’کیا حضور یہ مطلع نعت میں ٹھیک ہے؟اس کا قائل یہ کہتا ہے کہ آپ کے دیوان میں بھی اس قسم کا شعر ہے، مگر وہ دیوان میں دکھاتا نہیں اور خاکسار کے پاس دیوان ہے نہیں۔لہٰذا متکلف ہوں کہ اس میں جو کچھ امرِ حق ہو جواب سے سرفراز فرمائیں؟……الجواب: یہ مطلع باطل و ناجائز ہے کہ اس میں نعتِ اقدس سے ممانعت ہے اور نعت اقدس اعظم V فرائض ایمان سے ہے۔اس سے ممانعت کس حد تک پہونچتی ہے اگر تاویل کی جگہ نہ ہوتی تو حکم بہت سخت تھا۔فقیر کے دیوان میں اـصلاً کوئی شعر اس مضمون کا نہیں و لہ الحمد و ھو تعالیٰ اعلم‘‘(۶۵)


نعتیہ شاعری میں خیال کی بنت میں حال کے پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے ڈاکٹر سراج احمد قادری نے امام احمد رضا خاں کا ایک واقعہ لکھا:


’’ایک حافظ صاحب جو حضور پرنور امام اہل سنت قدس سرہٗ کے مخلصین میں سے تھے کچھ کلام بغرضِ اصلاح سنانے کے لیے حاضر ہوئے۔اجازت عطا ہوئی۔سنانا شروع کیا۔درمیان میں اس مضمون کے اشعار تھے کہ یا رسول اللہ V میں حضور کی محبت میں دن رات تڑپتا ہوں کھانا پینا، سونا سب موقوف ہوگیا ہے۔کسی وقت مدینہ طیبہ کی یاد دل سے علیٰحدہ نہیں ہوتی۔اعلیٰ حضرت قبلہ ؓ نے فرمایا حافظ صاحب! اگر جو کچھ آپ نے لکھا ہے یہ سب واقعہ ہے تو اس میں شک نہیں کہ آپ کا بہت بڑا مرتبہ ہے کہ حضورِ اقدس V کی محبت میں آپ فنا ہوچکے ہیں، اور اگر محض شاعرانہ مبالغہ ہے تو خیال فرمائیے جھوٹ اور کون سی سرکار میں؟جنہیں دلوں کے ارادوں ، خطروں، قلوب کی خواہشوں اور نیتوں پر اطلاع ہے۔جن سے اللہ تعالیٰ نے ماکان وما یکون کا کوئی ذرہ نہ چھپا یا اور اس کے بعد اس قسم کے اشعار کٹوادیئے‘‘(۶۶)


یہ ہے وہ پہلو جو نعتیہ ادب کے نقاد کے پیشِ نظر ہونا ضروری ہے۔نعت گو کو تو اس کا دھیان رکھنا لازمی ہے ہی۔


یہاں تک تو مختلف اہلِ فکر و نظر کے خیالات رقم ہوئے۔ اب کچھ یہ ناچیز( عزیز احسن )بھی عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہے۔آج کل نعتیہ ادب کی تخلیق اور نعت خوانی کی محافل کی کثرت نے کچھ مسائل پیدا کردیئے ہیں۔ ضروری ہے کہ ان کی طرف بھی توجہ مبذول کروادی جائے۔


نعت گو شعراء میں عام مرض یہ پیدا ہوگیا ہے کہ وہ حضورِ اکرم V کی محبت کا اظہار اس انداز سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کے تمام اختیارات نعوذُ باللہ مسدود ہوگئے ہوں۔بڑی واضح حقیقت ہے کہ قیامت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال کا حساب لے کر ان کے لیے جنت یا جہنم کا فیصلہ فرمائے گا اور کسی کو اس کی جناب میں کسی کی سفارش کی جراء ت نہیں ہوگی۔ہاں اگر اللہ تعالیٰ خود نبیء کریم علیہ التسلیم کو یا کسی اور نبی یا ولی کو کسی کے حق میں سفارش کی اجازت دے دے گا توشفاعت بھی مؤثر ہوجائے گی۔


اب ملاحظہ ہو کہ بعض شعراء’’یومِ حساب‘‘ اور آخرت کا ذکر کس طرح کرتے ہیں:

صائم چشتی کہتے ہیں:

ہے تو بھی صائمؔ عجیب انساں کہ روزِ محشر سے ہے ہراساں

ارے تو جن کی ہے نعت پڑھتا وہی تو لیں گے حساب تیرا


شاعر نے حضوررحمۃ للعالمین کی ذات سے اپنے زعم میں یہ خیال منسوب کردیا ہے کہ اسے کوئی فکر نہیں ہونی چاہیے رسول اللہ V کی نعت پڑھنے کے صلے میں خود حضورِ اکرم ،اللہ تبارک تعالیٰ سے حساب کتاب کا اختیار لے لیں گے اور شاعر کو ……بلکہ نعت خواں تو اس میں اور بھی اضافہ کرتے ہیں ……ارے تو سنتا ہے نعت جن کی…تو گویا نعت پڑھنے اور سننے والوں کو تو حساب کتاب سے ڈرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ کیوں کہ حضورV تو ہیں ہی رحمۃ للعالمین۔جنھوں نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے جانی دشمنوں کو معاف فرمادیا تھا۔بھلا وہ اپنے امتیوں کو کیوں نہ معاف فرمائیں گے! اس شعر کی توبنت بھی بہت کمزور ہے اور شعری معیارات کے حساب سے پست ہے ۔لیکن اس وقت صرف اس کے متن (Text) پر تھوڑی سی گفتگو کرنی ہے۔


اللہ تعالیٰ نے حساب کتاب کے کلی اختیار کے استعمال کی طرف سورہء فاتحہ میں ہی ’’مالک یوم الدین ‘‘ فرما کر اشارہ کردیا ہے۔ تفسیرِ ابنِ عباس ؓ میں ہے:


’’{مالک یوم الدین}قاضیِ یوم الدین و ھو یوم الحساب و القضاء فیہ بین الخلائق ‘ای یوم یدان فیہ الناس باعمالھم لا قاضی غیرہ‘‘


’’مالکِ یوم الدین ‘‘ جزاء کے دن کا مالک ہے، ساری مخلوق کا فیصلہ کرنے والا، اس دن ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ اس کے سوا اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہ ہوگا‘‘۔(۶۷)


پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہم ’’مالک یوم الدین‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:


’’کان کھول کر سن لو وہ دن آنے والا ہے جب سطوت و جبروت کے سب موہوم پیکر مٹ جائیں گے۔ اکڑی ہوئی سب گردنیں جھک جائیں گی۔ ظاہر و باطن میں اسی کی فرما نروائی ہوگی جو حقیقی فرماں روا ہے…کتنی افسوسناک حقیقت ہے کہ وہ امت جس کے دین کے بنیادی عقائد میں روزِجزاء پر ایمان لانا ہے۔ میدانِ عمل میں اس کی غالب اکثریت میں اس ایمان کا کوئی اثر محسوس نہیں کیا جاتا۔ وہ روز حساب اور مکافاتِ عمل کے قانون سے یوں غافل ہیں گویا کسی نے انھیں یہ بات بتائی ہی نہیں‘‘۔(۶۸)


اب ذرا سوچییے:قرآنِ کریم کی پہلی سورۃ ’’ا لفاتحۃ‘‘کی تیسری آیت تک اگر شاعر نہ سمجھتا ہو ، یا جان بوجھ کر اس کو نظر انداز کررہا ہو،تو کیا اسے نعت کہنے کا کوئی حق ہے؟؟؟


علامہ اقبال کو حضورِ اکرم V کی ذات سے کس قدر محبت تھی ؟…اس کا اظہار ان کے منظوم اور منثور کلام میں جگہ جگہ ہوا ہے۔ ان کی محبت کے شواہد مختلف ادباء نے بھی اپنی تحریروں میں محفوظ کیے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ اقبال نے اللہ تعالیٰ سے گزارش کی تھی :

بہ پایاں چوں رسد ایں عالمِ پیر

شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر

مکن رسوا حضورِ خواجہؐ مارا

حسابِ من زِ چشمِ او نہاں گیر


(یا اللہ! جب یہ بوڑھا جہان خاتمے کو پہنچے اور ہر پوشیدہ [چھپی ہوئی]تقدیر ظاہر ہوجائے[یعنی قیامت آجائے اور ہر بندے کے پوشیدہ اعمال اس کے سامنے آجائیں]…[تو]مجھے حضرت محمد مصطفیٰ V کی جناب میں رسوا نہ کرنا…میرا حساب ان کی نگاہ سے بچا کر لینا[کہیں وہ یہ نہ کہہ دیں کہ یہ مجھ میں سے نہیں ہے، اس وقت میرا کیا حشر ہوگا؟])(۶۹)


علامہ اقبال کے مقابلے میں صائم چشتی نے کس دیدہ دلیری سے حساب کتاب کا منظر نامہ بدل ڈالا ہے۔ ایسی ہی باتوں سے عوام کے عقائد میں خلل آنے لگتا ہے۔ اس طر ح کے اشعار کی مسلسل سماعت سے وہ گناہوں پر شیر ہوجاتے ہیں۔ محافلِ نعت میں بعض علماء بھی موجود ہوتے ہیں لیکن وہ بھی یا تو نعت خواں کو داد دیتے رہتے ہیں یا خاموشی سے سنتے رہتے ہیں۔ میں نے ایک نعت خواں کو اس شعر کی معنویت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تو وہ کہنے لگے کہ ہم تو جو کلام بھی پڑھتے ہیں وہ اساتذہ کا لکھا ہوا ہوتا ہے اور صائم چشتی بھی اساتذہ میں شامل ہیں۔ گویا ہر شاعر کا کلام محض اس کی استادی کی وجہ سے ’’مستند ہے‘‘!

پیر نصیر الدین خالص صوفیانہ سرمستی میں ایک شعر میں ایسی منظر کشی کرگئے ہیں کہ ہر گناہ گار امتی کو یہ منظر کشی بہت اچھی لگتی ہے۔ نعتیہ محافل میں ان کا یہ شعر جھوم جھوم کر پیش بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن ذرا غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ شعر مبنی بر حقیقت (Fact) نہیں ہے ۔ اس میں صرف شاعرانہ سچائی (Poetic reality) اور صوفیانہ احوال کی حقیقت منعکس ہے۔نعت میں اس طرح کی احوالی شاعری سے عوام کا عقیدہ کہاں محفوظ رہ سکتا ہے؟……شعر ملاحظہ ہو:

کیوں نہ پلڑامرے اعمال کا بھاری ہو نصیرؔ

اب تو میزان پہ سرکارؐ بھی آئے ہوئے ہیں


اس شعر میں قیامت میں ہونے والا منظر پیش کیا جارہا ہے۔حال آں کہ قیامت کی آمد کا علم نہ تو جبریل ِ امین کو تھا اور نہ ہی سرکار علیہ السلام نے اس کے قیام کی کوئی مدت بتائی۔ شاعر نے اپنی دنیاوی زندگی میں ہی یہ شعر کہاتھا اور ہر شاعر اسی دنیا میں شعر کہہ سکتا ہے۔ اس دنیا میں قیامت کا واقعاتی احوال بیان کرنا کہاں تک درست ہے؟


اسی قبیل کا ایک شعر افتخار عارف نے بھی کہا ہے۔ بلکہ اس میں تو براہِ راست حضورِ اکرم V کی ذات سے ایسی بات منسوب کردی ہے جس کا صرف تخیلاتی ھیولیٰ ہی شاعر کے ذہن میں آسکتا تھا۔

یہ سر اٹھائے جو میں جارہا ہوں جانبِ خلد

مرے لیے مرے آقاؐ نے بات کی ہوئی ہے(۷۰)


عام طور سے کسی دنیاوی عہدہ دار سے کسی کو کوئی کام نکلوانا ہوتا ہے تو وہ کسی بڑے آدمی سے سفارش کروادیتا ہے ۔اس طرح کام کے اگلے مرحلے اس آدمی کے لیے آسان ہوجاتے ہیں۔ افتخار عارف صاحب نے بھی اللہ اور رسول اللہ Vکے معاملات کو دنیاوی افسرشاہی کے تناظر میں دیکھا اور بیان کردیا ہے۔ حال آں کہ یہ صرف شاعرانہ بیان ہے۔ اس میں Poetic reality تو ہے لیکن واقعاتی سچائی کا اس شعر سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ آرزو کرنا ہر آدمی کا حق ہے لیکن آرزو کو واقعہ بنا کر نبیِ کریم علیہ السلام سے منسوب کردینا بہت بڑی جسارت ہے۔


دنیائے فانی سے گزرجانے کے بعد کا احوال بیان کرنے والے شعراء کے بارے میں عندلیب شادانی نے لکھا تھا:


’’معاد کا عقیدہ تو اکثر مذاہب میں پایا جاتا ہے لیکن قیامت کب آئے گی اس کی تعیین کسی نے نہیں کی…ہمارے شعراء خصوصاً چوٹی کے غزل گوجس درجہ حساس واقع ہوئے ہیں ، وہ ظاہرہے۔بھلا ان سے اس غیر معین حالت کی برداشت کہاں ممکن تھی اور وہ کب تک انتظار کرسکتے تھے۔اس لیے انھوں نے اپنی خیالی دنیا بنائی اور اس دنیا میں پہنچنے کے لیے فرضی طور پر یا تو جلاد محبوب کی چھری سے ہلاک ہوئے یا پھر اس کے جورو ستم کے باعث ایڑیاں رگڑ رگڑ کے جان دیدی۔پھر قیامت قائم کی۔حشر و نشر کے سامان ہوئے ۔خدائی دربار سجایا اور داورِ محشر کے سامنے فریادلے کر پہنچے۔چوں کہ یہ حضرات شاعر ہونے کی حیثیت سے گویا ایک ہی ’’امت‘‘ کے افراد ہیں۔اسی لیے حشر میں سب کو تقریبا ًایک ہی قسم کے واقعات پیش آتے ہیں‘‘۔(۷۱)


نعت کی دنیا میں شعراء کا محبوب(V) سے کوئی تنازع ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بس توقعات ہوتی ہیں، امیدِ شفاعت ہوتی ہے۔ اس لیے شعراء اپنے حینِ حیات ہی قیامت قائم کرکے اپنی خواہشات کی روشنی میں ایک ماحول تخلیق(Create) کرلیتے ہیں۔


چلتے چلتے ایک نکتہ اور پیش کردوں۔میرے کرم فرما احمد صغیر صدیقی صاحب نے احسان اکبر کی نعتیہ شاعری پر لکھا ہوا ، میرامضمون دیکھ کر کچھ اعتراضات فرمائے تھے۔ تمام اعتراضات کے جواب دینے کا وقت نہیں ۔ یہاں صرف ایک شعر کے حوالے سے وضاحت مطلوب ہے۔میں نے عرض کیا تھا ملاحظہ فرمائیے حضرت احسان اکبر نے دین کو کس انداز سے دنیا کے درد کا مرہم قرار دیا ہے۔

کام کمال کر امت والا، نام دلوں کی راحت والا

دیں دنیا کے درد کا مرہم صلی اللہ علیہ وسلم


اس پر جناب احمد صغیر صدیقی نے لکھا:


’’دیں دنیا‘‘ کیسا لگ رہا ہے۔ یہ آسانی سے ’’دنیا و دیں ‘‘ لکھا جاسکتا تھا۔ اس سے سلاست پیدا ہوجاتی ہے اور ’’دیں دنیا‘‘ کا مفہوم دین دنیا سے الگ ہے یہ بھی دیکھیں‘‘ (۷۲)

یہاں جناب احمد صغیر صدیقی سے شعر کا مطلب سمجھنے میںکچھ کوتاہی ہوئی ہے ۔ ان کے تجویزکردہ الفاظ ’’دنیا و دیں‘‘ کے استعمال سے مفہوم بھی بدل جاتا ہے یعنی اس طرح پڑھنے سے ’’دین‘‘ بھی محتاج ِ مرہم ٹھہرتا ہے۔ علاوہ ازیں دنیا کا الف بھی گرجاتا ہے۔ جب کہ شعر کا اصل مفہوم یہ ہے کہ ’’دین ہی دنیا کے تمام دکھوں کا علاج ہے‘‘۔علامہ اقبال نے کہا تھا:

از کلیدِ دیں، درِ دنیا کشاد ہم چو از بطنِ امِ گیتی نزاد


(آپV نے دین کی کنجی سے دنیا کا دروازہ کھولا۔زمانے کے بطن سے آپV جیسا کوئی بھی پیدا نہیں ہوا) (۷۳)


تنقیدی نکات بے پایاں ہیں۔ عیبِ طولِ کلام سے بچنے کے لیے صرف یہ درخواست کرکے ، رخصت چاہوں گا کہ نعتیہ ادب میں تنقیدی نقوش دیکھنے کی خواہش ہو تو نعت رنگ میں شائع ہونے والے میرے مضامین کے علاوہ ،رشید وارثی، ڈاکٹر اشفاق انجم اور ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی ، مولانا کوکب نورانی وغیرہم کے مضامین دیکھے جاسکتے ہیں۔

مآخذ و منابع[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔سحر وساحری(قارئینِ ادب کی عدالت میں)، ص ۴۶ ۲۔ایضاً،ص ۴۸ ۳۔ایضاً،ص۴۸

۴۔ایضاً،ص۵۰ ۵۔ایضاً،ص۵۰ ۶۔ایضاً،ص۵۱ ۷۔ایضاً،ص۵۱

۸۔ایضاً،ص۵۴ ۹۔ایضاً،ص۵۴ ۱۰۔ایضاً،ص۵۵ ۱۱۔ایضاً،ص۵۸

۱۲۔ ایضاً ، ص ۶۰ ۱۳۔ایضاً،ص۶۱ ۱۴۔ایضاً،ص۶۲ ۱۵۔ایضاً،ص۶۲

۱۶۔ایضاً،ص۶۲ ۱۷۔ بت خانہ شکستم من، ص۱۵۵ ۱۸۔ایضاً ۱۹۔ایضاً

۲۰۔ایضاً ۲۱۔ایضاً ۲۲۔ایضاً ۲۳۔ایضاً

۲۴۔ایضاً ۲۵۔ردِ عمل، ص ۲۶۵ ۲۶۔ایضاً،ص۲۶۶ ۲۷۔ایضاً،ص۲۶۷

۲۸۔ایضاً،ص۲۷۱ ۲۹۔ایضاً،ص۲۷۲ ۳۰۔ایضاً،ص۲۷۳ ۳۱۔ایضاً،ص۲۷۳

۳۲۔جستجو، ص۱۰۷ ۳۳۔ایضاً،ص۱۱۱ ۳۴۔ایضاً،ص۱۱۲ ۳۵۔ ولائے رسولؐ، ص۲۵

۳۶۔ایضاً،ص۱۳ ۳۷۔ زبور حرم، ص ۱۶ ۳۸۔ایضاً،ص۱۷ ۳۹۔ایضاً،ص۱۵

۴۰۔ایضاً،ص۱۸ ۴۱۔ اللہ کی سنت، ص ۱۲ ۴۲۔ فروغِ نوا (مجموعہء نعت)، ص ۱۱ ۴۳۔ایضاً،ص۱۱ ۴۴۔ایضاً،ص۱۵ ۴۵۔ایضاً،ص۲۲

۴۶۔ اردو زبان میں نعت گوئی کا فن اور تجلیات، ص۱۲ ۴۷۔ایضاً،ص۱۲ ۴۸۔ایضاً،ص۲۷

۴۹۔ایضاً،ص۲۰ ۵۰۔ایضاً،ص۳۳ ۵۱۔ایضاً،ص۴۱ ۵۲۔ایضاً،ص۴۲

۵۳۔ایضاً،ص۸۰ ۵۴۔نعت اور تنقیدِ نعت،،ص۲۱۹ ۵۵۔ایضاً،ص۲۱۹

۵۶۔سرودِ نعت،ص ۱۱۶ ۵۷۔ایضاً،ص۱۲۰ ۵۸۔ایضاً،ص۹۷ ۵۹۔ایضاً،ص۱۰۰

۶۰۔ایضاً،ص۱۲۹ ۶۱۔اردو میں نعت گوئی، چند گوشے،ص۱۱۹ ۶۲۔ نعت میں کیسے کہوں،ص۱۶۸

۶۳۔شمائم النعت، ص ۱۹۴ ۶۴۔ایضاً،ص۱۹۵ ۶۵۔ایضاً،ص۱۹۵ ۶۶۔ ایضاًص۱۹۶

۶۷۔تفسیرِ ابنِ عباسؓ، ترجمہ :مولانا شاہ محمد عبدالمقتدر قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ

۶۸۔ ضیاء القراٰن، جلد اول، ص۲۳ ۶۹۔ ارمغانِ حجاز، ص15 ، رباعی 11

۷۰۔مطبوعہ: ن۔ر۔۲۵، ص۸۲۸ ۷۱۔ دورِ حاضر اور غزل گوئی، ص۷۹

۷۲۔ن۔ر۔۲۲، ص۵۵۱ ۷۳۔ اسرارو رموز،ص۳۳

کتابیات:

٭ تفسیرِ ابنِ عباسؓ، ترجمہ :مولانا شاہ محمد عبدالمقتدر قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ

٭ پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ ، ضیاء القراٰن، جلد اول، ص۲۳

٭ اقبال،علامہ ،ارمغانِ حجاز، ترجمہ: ڈاکٹر الف۔د۔نسیم، شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور، ص15 ، رباعی 11

٭ ا قبال،علامہ ،اسرارو رموز،شیخ محمد بشیراینڈ سنز،لاہور، ص۳۳

٭ اقبال جاوید،پروفیسر، نعت میں کیسے کہوں،نعت ریسرچ سینٹر، بیأ۵۰، سیکٹر ۱۱۔اے، نارتھ کراچی، کراچی، جنوری ۲۰۰۹ء

٭ اقبال عظیم، زبور حرم، نعت ریسرچ سینٹر، نارتھ کراچی، کراچی، اشاعتِ دوم: ۲۰۱۰ء

٭ امیر حسنین جلیسی، بت خانہ شکستم من،ادبی معیار پبلی کیشنز، صدر کراچی، اشاعتِ اول:جنوری ۱۹۸۳ء

٭ امین راحت چغتائی، محرابِ توحید، بک سینٹر، راوپپنڈی، طبع دوم:۲۰۰۹ء

٭ تحسین فراقی،ڈاکٹر، جستجو، یونیورسل بکس، اردو بازار، لاہور،بار دوم:۱۹۸۷ء

٭ جمیل نظر، ایقان، جمیل نظر فاؤنڈیشن، ایف بی ایریا، کراچی، ۱۹۹۴ء

٭ رئیس احمد نعمانی، فروغِ نوا، مجلسِ مطالعاتِ فارسی، علی گڑھ، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ۲۰۲۰۰۲، اشاعتِ اول: ۱۴۳۰ھ؍۲۰۰۹ء

٭ سراج احمد قادری، ڈاکٹر،شنائم النعت، ادب کدہ۔محلہ بنجر یا پچھمی، خلیل آباد، صلع سنت کبیر نگر، بھارت، اشاعت اول:ـجنوری ۲۰۰۹ء

٭ شفقت رضوی،اردو میں نعت گوئی، چند گوشے، جہانِ حمد پبلی کیشنز، لیاقت آباد، کراچی، ۲۰۰۲ء

٭ صبیح رحمانی ، نعت رنگ…شمارہ۲۲

٭ ……نعت رنگ …شمارہ ۲۵

٭ عندلیب شادانی، ڈاکٹر، دورِ حاضر اور غزل گوئی، (شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور) ۱۹۵۱ء

٭ قمر رعینی، ولائے رسول، کتاب ساز پبلی کیشنز، راولپنڈی، باراول:۲۰۰۲ء

٭ کشفی،ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر،۔نعت اور تنقیدِ نعت،نعت ریسرچ سینٹر، کراچی، ۲۰۰۹ء

٭ مسلم ، ابوالامتیاز ع۔س۔مسلم، سرودِ نعت، الحمد پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۰ء

٭ منظر عارفی، اللہ کی سنت، سخن پبلی کیشنز(ادبی تنظیم)، شارہ فیصل کالونی، کراچی، اشاعتِ اول: جنوری،۲۰۰۹ء

٭ وحید اشرف ،ڈاکٹرسید،کچھوچھوی، اردو زبان میں نعت گوئی کا فن اور تجلیات، اربابِ حلقہ ذکر سلسلہ اشرفیہ ،بڑودہ (بھارت)،باراول:۲۰۰۱ء

٭٭٭