نعت کی لفظیات - ڈاکٹر حافظ کرناٹکی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Hafiz Karnatiki.jpg


مضمون نگار: ڈاکٹر حافظ کرناٹکی ( شیموگہ)

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

نعت کی لفظیات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت اردو شاعری کی ایسی مقبول صنف شاعری ہے جس پر طبع آزمائی کرنا ہر شاعر باعث سعادت سمجھتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس صنف شاعری میں جدّت و ندرت پیدا کرنا ممکن نہیں ہوپاتا ہے۔ کیوں کہ نعت کہنے کی روایت بہت قدیم ہے اور اس کے حدود بھی متعین ہیں ایسی صورت حال میں اپنی تخیل کی پرواز سے کام لینا کسی بھی شاعر کے لیے آسان کام نہیں ہے۔ کیوں کہ تخیل کی پروازشاعر کو ان حدود سے ماورا کرسکتی ہے، جو ایمان و ایقان کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ نعتیہ شاعری میں نت نئے تجربوں کا جو کھم نہیں اٹھاتے ہیں اور نہ خود کو آزمائش میں ڈالنے کا خطرہ مول لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ نعت کی لفظیات کی کائنات بھی بہت وسیع نہیں ہے۔ اتنی بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ جب انسان کے تجربات، مشاہدات، احساسات اور ان سب کو لفظوں کے پیکرمیں ڈھالنے کے امکانات لامحدود ہوتے ہیں تو ان کے پاس لفظوں کا بھی ایک بڑا ذخیرہ ہوتا ہے اور وہ اپنی فہم و فراست اور عقل و فہم سے کام لے کر جس قدر جی چاہے زور بیان کے کرشمے دکھاتا ہے۔ اور لفظی پیکر بھی ڈھالتا ہے اور موقع ملے تو تخیل کی اونچی سے اونچی پرواز کے بھی نمونے دکھاتا ہے۔ مگر صنف نعت میں اس طرح کے مواقع بالکل ہی نہیں ملتے ہیں۔ کیوں کہ یہاںشریعت، طریقت، ایمان، عقیدے، مسلک، عابداور معبود کی حدیں متعین ہوتی ہیں۔ اس لیے اس صنف میں وہی لوگ کچھ نیا، بہتراور عمدہ کرپاتے ہیں جنہیں دین اسلام، ایمان، عقیدے، نبوّت، رسالت، الوہیت وغیرہ کا علم ہوتا ہے۔ اور جو اسلامی تاریخ، سیرت نبوی وغیرہ سے کماحقہ و اقف ہوتے ہیں اور کسی حد تک تصوّف وغیرہ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ظاہر ہے کہ مذہب میں عقل محض اور عقیدے میں اندھی جذباتیت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اس لیے نعت گو شعرا کو سنبھل سنبھل کر قدم آگے بڑھانا پڑتا ہے۔ اس لیے ان سے بے ساختگی میں کوئی ایسا شعر، سرزد ہوبھی جائے جو شعریت کے اعتبار سے بہت ہی عمدہ، اعلیٰ اور خوب صورت ہو،۔ مگر شریعت کے اعتبار سے درست نہ ہو تو اسے حذف کرنا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ عام طور پر نعتیہ شاعری بہت حد تک یک رنگ اور خوش آہنگ، عقیدت خیز، رفعت انگیز، مگر جذب و کیف کے رنگ میں کم و بیش شرابور نظر آتی ہے۔

ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ دوسری اصناف شاعری کی طرح نعتیہ شاعری کو محض ایک تخلیقی صنف یا فن کے طور پر نہیں دیکھا جاتا ہے۔ نعتیہ شاعری کو ہمیشہ پہلے ایمان و عقیدے اور مسلک کی درستگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بعد ازاںاس کی شعری خوبیوں پر توجہ کی جاتی ہے، اسی لیے یہاں لفظوں کا انتخاب اور اس کے برتاؤ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، اس کے باو جود ہم نعتیہ شاعری کی لفظیات کو غربت کا شکار قرار نہیں دے سکتے ہیں، کیوں کہ بہت سے ایسے الفاظ اور تراکیب ہیں جو محض نعتیہ شاعری کی بدولت اردو شاعری اور اردو زبان کے روز مرہ میں داخل ہوئے ہیں۔ اور بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔

مثلاً؛ مولانا، سیدنا، حضرت، حضور، سردار، سید البشر، شفیع الامم، خلق عظیم، وجہ تخلیق کائنات، نوری پیکر، پیکر نور، ساقی کوثر، رحمت عالم، سایہ عرش، محبوب کبریا، محبوب خدا، محبوب زمین و زماں، محبوب کون و مکاں، شافع محشر،رحمت کاسمندر، سرور کا ئنات، سرور انبیا، نبیوں کے سردار، خیرالبشر،خیرالبریہ، خیر الوری، اور اس کے علاوہ وہ الفاظ وتراکیب جو نعت رنگ شاعری یا نعتیہ شاعری کے فیض سے اردو میں رائج ہیں۔ اور جن کا تعلّق براہ راست نبی اکرم ﷺ کی ذات والا صفات سے ہے یا پھر ان مقامات مقدسہ سے جن سے نبی اکرم ﷺ کا براہ راست تعلّق ہے، یا پھر ان واقعات اور اخلاق حسنہ سے متعلق الفاظ جو نبی اکرم ﷺ کی وجہ سے مسلمانوں کی تاریخ اور مذہبی امور میں خصوصی اہمیت رکھتے ہیں اور اس کے ایمان و عقیدے کو اجالتے اور ان کے جذبات و احساسات کو روشن کرتے ہیں۔ مثلاً:

شاہ بحروبر، شاہ کون و مکاں، شہ انبیا، شہ انس و جن، شہ دین و ایماں، شاہ بطحا، شاہ مدینہ، طیبۂ نگر، وصف احمد مجتبیٰ، اوصاف مصطفی، عشق رسول، حب نبی، حمیت اسلام، غیرت ایمان، حرمت رسول یار غار، نور حرا، وجہ تو قیرانساں، حرا، غار حرا،غار ثور،صفاو مروہ، سات سمٰوٰت، ہفت افلاک، عرش بریں، بہشت بریں، قاب و قوسین، معراج، شق القمر، جسم اطہر، پائے مبارک، زلف معنبر، آمنہ کے دلارے، عبداللہ کے لاڈلے، پیکر نور، شاہ ہدیٰ، امّی، امین، صادق وغیرہ اور پھروہ جملے اور خوب صورت تراکیب جو دین ایمان اور سیرت النبی کی خوشبو اور محبت و عقیدت سے معطر ہیں اور جو عام طور پر دین فطرت ،اسلام کی اساس سے تعلّق رکھتے ہیں۔


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ حضوراکرم ﷺ کی نعتیں لکھتے وقت کبھی پس منظرتو کبھی عقبی زمین کے طور پر تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے حالات زندگی، اخلاق کریمانہ، صفات منصفانہ کا استعمال ہوتا ہے تو کبھی ان کے عملی کارناموں،صبرو رضا، عبادت و ریاضت ، زہد و تقوی کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک کے تمام حالات و کوائف نعتیہ شاعری کا خمیربنتے ہیں۔ اور بسااوقات دوسرے انبیاء کرام کے صفات عالیہ کے تناظر میں حضور پر نور ﷺ کی صفات عالیہ کو نعت کا موضوع بنایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نعتیہ شاعری کی زرخیزی میں اور اس کے لفظی ذخیرے میں وہی شعرازیادہ اضافہ کرپاتے ہیں جو دین حق کی فطرت،اس کی تاریخ، اس کی روح اور سب سے بڑھ کر تخلیق کائنات کی منشا اور تعمیرکائنات کے رمز سے واقف ہوتے ہیں۔ اس طرح کا علم رکھنے والے شعرا اپنے عقیدت مندانہ تخیل کے زور پر نہ صرف یہ کہ حضوراکرم ﷺ کی سنتوں اور سیرتوں میں ان نکتوں تک رسائی حاصل کرلیتے ہیںجنہیں عام لوگ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں بلکہ ان حسیات کو بھی انگیخت کرنے کے قابل بن جاتے ہیں جو سنت رسول ﷺ کا مقصدہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ نعت عقیدت کی بنیاد پر کہنے کے ساتھ ساتھ حضوراکرم ﷺ کی حیات طیبہ اور دین اسلام کی فطرت سے واقفیت کے احساس کے ساتھ کہی جا ئے تاکہ اس کی تازگی و توانائی برقرار رہے اور ایک ہی طرح کی لفظیات کے تکرارکی وجہ سے نعت جیسی دلکش و دلچسپ اور روح پر در صنف بے رس نہ ہونے پائے۔ نعتیہ شاعری نے جس طرح کے الفاظ و تراکیب کو رواج عام کی شکل دی ہے اس میں اس طرح کے لفظوں اور ترکیبوں کی کثرت ہے مثلاً:

نور شبیہ رسول /جب سے نظر میں نور شبیہ رسول ہے۔ نبی کی راہ میں خار کا پھول بننا / گلشن، ستارے، کہکشاں مہہ وماہ وگل کانبی کے قدموں کی دھول بننا/ امت کی لغزش پہ رسالت کا ملول ہونا۔امی ہونے کے باوجود منبع علم ہونا / عدو کو گلے لگانا ؍ شریعت کو رائج کرنا/طریقت کا درس دینا / نیکیوں کا نبی کی قدم بوسی کو آنا / نیکیاں آتی ہیںآقا کی قدم بوسی کو/ حسن جزا سے پہلے اذن نبی کی طلب / چاہیے اذن نبی حسن جزا سے پہلے / پیوند قبا کا خلعت شاہ جہانی اور جنت کے لباس سے بڑھ کر ہونا / خلعت شاہجہانی ہو کہ جنت کا لباس / محترم کب تھے یہ پیوند قباسے پہلے/نبی کے قدموں پہ ارمغان جاں کا نذرانہ ؍ کوئی طلب نہ کوئی مدعا و ہاں ہوگا ؍ قدم پہ آپ کے بس ارمغان جاں ہوگا/ آمد رسول پر عرش کا جشن منانا/فلک کا نعت پڑھنا / بیان سیرت شاہ ہد ی جہاں ہوگا / پڑھے گا نعت فلک جشن عرشیاں ہوگا ؍ خدائے عز و جل کا رازداں ہونا / ہوا کاپابوسی ضیا کے لئے چلنا / ہواکی زدپہ بھی چراغ حرم کا روشن رہنا/سیاہ کملی کا سفینۂ عقبیٰ کا باد باں ہونا / سیاہ کملی کا احساس د ل میں رہنے دے / یہی سفینۂ عقبیٰ کا باد باں ہوگا/نبی کے فیض سے خاکداں کا روشن ہونا / دل کا درودوں کا مسکن ہونا/گل طیبہ کی خوشبو سے روح کا معطر ہونا/ نقش پائے محمد ﷺکے چومنے کی آرزو میں گھلتے رہنا/ بہ روز قیامت شفاعت محمد ﷺکے یقین کی شمع جلا کے رکھنا/ دشت ظلمت میں نبی ﷺ کی صورت میں نور کا ظہور ہونا / آمد شاہ دیں کی خبر سن کرمکہ اور مدینے کی گلیوں کا مسکرانا/ مکہ اور مدینہ کی مٹی کو کیمیااور ہوا کو اکسیرسے تعبیرکرنا/ آقا کے پسینے سے فضاؤں کا مہکنا / روضے کی جالی سے نور کا چھننا/ طیبہ کے کنکر کا گوہر نظر آنا /مدینے کی گلیوں کے پتھروں کا گل ترمعلوم ہونا / نام محمد کے زباں پر آتے ہی فردوس کی خوشبو کا بکھر جانا/ نور کے پیکر کا فلک کی راہ سے نقوش پاکے صدقے میں طیبہ کی گلیوں کا کہکشاں نظر آنا/ گنبد خضرا کے خنک چھاؤں میں آرام پانا / نبی کی آواز کا صوت ہادی کی طرح دلوں میں اتر جانا/ قرآن کا نسخہ کیمیابن کر نبی کے ہاتھوں امت تک پہنچنا۔

یہ ایسے الفاظ و تراکیب جملے، محاورے اور عقیدت مندانہ نعت رنگ لفظی اور شعری ٹکڑے ہیں۔ جن سے نعت کی لفظیات کی کائنات نور و نکہت سے روشن و معطر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تو محض مثال کے لیے چند نمونے ہیں، ہم چاہیں تو اس طرح کے لفظوں، تراکیبوں کی ایک قابل قدر لغت تیار کرسکتے ہیں اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اردو شعرو ادب کو یہ سب نعت ہی کی دین ہے۔ اگر اردو زبان و ادب میں نعتیں کہنے کی روایت مستحکم نہ ہوتی اور لوگ نعتیں کہنے کے معاملے میں بخالت سے کام لیتے یا اپنی مذہب بیزاری کا ثبوت پیش کرتے ہوئے محض واعظ اور شیخ کا مذاق اڑاتے رہ جاتے تو اردو زبان و ادب کو خوب صورت ،روشن مقدس، اور دلی جذبات و احساسات کی آگ سے دہکتے، اور جذبے کی صداقت سے مہکتے ان الفاظ و تراکیب کا خزانہ کبھی نہیں مل پاتا۔ اس لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ نعتیں کہنے والے لوگوں کا بھی ادبی قدر و قیمت کے تناظر میں مقام متعین کیا جائے اور اس کے شاعرانہ اور فنکارانہ کمالات کا اعتراف کیا جائے۔ نیز انہوں نے تخلیقی سطح پر جو کچھ اردو زبان و ادب کو دیا ہے اس کا ایمانداری سے جائزہ لیا جائے۔ تا کہ نعت بہ حیثیت ایک منفرد صنف شاعری کے اپنی مستحکم شناخت بناسکے۔


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

ہم جانتے ہیں کہ اردو کے کم وبیش تمام شعرا نے نعتیں کہی ہیں۔ اور جہاں تک ممکن ہو سکاہے اس صنف شاعری کو مقبولیت عطا کرنے اور اپنی سعادت مندی کا ثبوت فراہم کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی ہے۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اردو شاعری کا فارسی شاعری سے براہ راست رشتہ ہے، یہی وجہ ہے کہ حافظ، رومی، اور سعدی کی روایت نے نہ صرف یہ کہ اردو کی عام شاعری کو اجالنے میں اہم رول ادا کیا بلکہ نعتیہ شاعری کے لحن کو توانائی بخشنے میں بھی خصوصی کردار نبھایاہے۔ اردو کے ہندو مسلم سکھ عیسائی سبھی شعرانے خوب خوب نعتیں کہی ہیں۔ یہاں پر اس کا موقع نہیں ہے کہ حضرت امیر خسرو سے لے کر میر و غالب اور حالی و اقبال سے لے کر جوش و محروم تک اور اس کے بعد کے شعرا کے یہاں سے نعتیہ اشعار کی مثالیں پیش کی جائیں۔ اس کے باوجود یہ ضروری ہوجا تا ہے کہ نئے عہد کے چند شعرا کے یہاں سے کچھ نعتیہ اشعار بطور مثال پیش کیے جائیں تا کہ یہ اندازہ ہو سکے کہ اس وقت بھی نعتیہ شاعری کے تسلسل میں کسی طرح کی رکاوٹ واقع نہیں ہوئی ہے۔

یہاں اس بات کی بھی وضاحت کرتا چلوں کہ عام طور پر انہیں شعرا کے یہاں سے مثالیں پیش کی جارہی ہیں جن کے یہاں حد سے زیادہ غلو نہیں ہے۔یعنی عابد و معبود کے درمیان والا فاصلہ اور خالق و مخلوق والا رشتہ ملحوظ ہے۔ نہیں تو اردو میں ایسے شعرا کی کوئی کمی نہیں ہے جو نبی اور رسول اور خداسب کو ایک ہی طرح کی صفات سے متصف کردیتے ہیں۔ اور ایمان و ایقان کو آزمائش میں ڈال دیتے ہیں۔ بہر حال آئیے چند نعتیہ اشعار دیکھیں اور اندازہ لگا ئیں کہ یہ شعرا حضرات کس توازن کے ساتھ نعت رنگ شعرکہہ رہے ہیں۔ اور تجدیدایمان و ایقان کی دعوت دے رہے ہیں، نیز یہ بھی دیکھتے چلیں کہ یہ حضرات کس طرح کی لفظیات کا استعمال کرتے ہیں۔ اور نعتیہ شاعری کے لفظی ذخیرے میں کس حد تک اضافہ کرنے کی سعی مستحسن میں لگے ہوئے ہیں۔

اس راستے میں عرش کا زینہ بھی آئے گا

یعنی نبی کا شہر مدینہ بھی آئے گا

انگشتری ارض کی زینت بنا ہوا

پر نور سبز رنگ، نگینہ بھی آئے گا

انجم عرفانی

لمبی پلکیں اور سرخی مائل رخسار

گیتوں جیسی آہٹ نغمہ سی رفتار

تن کے اوپر سادے سے سادہ جامہ

سر کے اوپر روشنیوں کا عمامہ

واحد سحری

ہے ان کے ذکر سے لرزاں وجود تیرہ شبی

نبی کے نام سے دیوار و در چمکنے لگے

ایس بوظفر

وہی یعنی خورشید دین مبیں

امام جہاں سید المرسلیں

وہ محبوب داور جمیل الشیم

وہی یعنی سردار خیرالامم

متین طارق باغپتی

ادا وہ آپ کے در پر ہی ہوگا

ہمارے سر جو سجدہ مانگتے ہیں

کھنڈر مخمور اپنی بستیوں کے

نمود شہر فردا مانگتے ہیں

مخمور سعیدی

گناہ گار کا سر ہے گناہ گار کاسر

اسے حضور کی رحل قدم پر رہنے دو

جب ان کی نعت پڑھوں گا نفس نفس قسمت

تو پھر کہوں گا مجھے اپنے دم پر رہنے دو

مولانا قسمت

زباں پہ ذکر نبی منور نظرمیں رحمت مدام روشن

شہ زماں کی تجلیوں سے زمیں پہ چرخ دوام روشن

خدا نے نور محمدی کے طفیل سارا جہاں بنایا

وہ انبیا کی صفوں میں اوّل انہیں پر ہے اختتام روشن

خورشید اکبر

مصطفی محبوب سبحانی ہے تو

کبریا کی طرح لا ثانی ہے تو

عارف حق تا بہ حد معرفت

واقف اسرار یزدانی ہے تو

حیات لکھنوی

ہے عرش بریں تیرے لیے صاحب لولاک

قرآن تری عظمت کا ہی اظہار کرے ہے

عرفان نظر تم سے ملا احمد بے میم

کثرت اسی وحدت کی ہی تکرار کرے ہے

جاویدو ششٹ

اس کے ذرات ہیں نازش کہکشاں

مصطفی کا جہاں نقش پا مل گیا

اس کی ٹھوکرمیں ہے سطوت قیصری

جس کو احسن در مصطفی مل گیا

احسن

وہ زرّۂ ناچیز کو خورشید بنا دیں

یہ فیض تو آقا کا مرے عام بہت ہے

جو ساقی کوثر سے ملے مجھ کو ذراسی

وہ میرے لیے دردِ تہہ جام بہت ہے

متین امروہوی

برکات دیکھے تو رسالت مآب کی

عالم میں روشنی ہے مسلسل جناب کی

خاک حجاز سر چشم عظیم ہو

تعبیر خوشگوار ملے ایسے خواب کی

عمران عظیم


"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

ظاہر ہے کہ ان شعرا کے نعتیہ اشعارکے دیکھنے سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ نعتیں کہنے میں لوگوں نے کسی طرح کی بیجا پابندیوں کا خیال نہیں رکھا ہے۔ اور جہاں تک ممکن ہوسکاہے عشق رسول کے اظہار میں ہر طرح کی آزادی سے کام لیا ہے، غالباً نعتیںکہنے والے شعرا بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عشق اور جنگ میں سب جائز ہے۔ اب اس عہد کے ایک اہم اور پھیلے ہوئے نعت گو شاعر جناب ابرارؔ کرت پوری کے کچھ اشعار دیکھے ان کے اشعار کے دیکھنے سے یہ بھی اندازہ ہوجائے گا کہ در اصل نعت کہنے میں بھی توازن رکھنا بہت ضروری ہے۔ ابرار صاحب کی نعتوں میں کہیں بھی عدم توازن کا احساس پیدا نہیں ہوتا ہے، یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔ ؎

دین فطرت کی انساں نے پائی ضیا گمرہوں کو ملی منزل ارتقا

سرور دیں سا بخشا گیا رہ نما ربنا ربنا آفریں آفریں

ہم کو رحمت سے ملے گی منزل

دور تک نقش قدم آپ کے ہیں

بندے کی التماس مؤدب قبول کر

شہر نبی میں حاضری یا رب قبول کر

جتنی دعائیں خدمت عالی میں پیش ہیں

میں چاہتا ہوں رب علیٰ سب قبول کر

رب کے حبیب کو ملا مرتبۂ جلال نور

آپ کی ذات پاک ہے ہستی بے مثال نور

تاکراں درس جو آقا کے چمکتے جائیں

پھول صحراؤں میں ایماں کے مہکتے جائیں

پاک قرآن ہے معیار رسولِ عربی

مثل آئینہ ہے کردار رسولِ عربی

شرح کتاب صدق ہے سیرت رسولِ کی

لکھی ہے آب زر سے فضیلت کی

سر کار دو عالم کی یہ شفقت کا اثر ہے

ہر لمحہ مری قبّہ خضریٰ پہ نظر ہے

آتی ہے ہر ایک حرف سے رحمن کی خوشبو

سرکار کی باتوں میں ہے قرآن کی خوشبو

ابرارؔ کرت پوری صاحب کی نعتوں میں کسی طرح کی افرا ط و تفریط نہیں پائی جاتی ہے۔ وہ چوں کہ دین فطرت اسلام کا بہترین علم رکھتے ہیں اس لیے شریعت و طریقت سے بھی وہ خوب واقف ہیں، سو ان کی نعتیں کسی بھی موحدکے لیے آزمائش نہیں بنتی ہیں۔ میں نے بھی نعتیہ شاعری میں طالب علمانہ کوششیں کی ہیں اور جہاں تک ممکن ہوسکا ہے نعتیہ شاعری کے حدود کا خیال رکھا ہے۔ چند اشعار پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔

کہاں مجھ میں یارا نبی جی پہ لکھوں

شہ بحروبر کی بزرگی پہ لکھوں

وہ ہستی ہے اعلیٰ میں عاجز بیاں ہوں

وہ کامل حقیقت میں ناقص زباں ہوں

رسالت کے آداب ملحوظ رکھوں

تواضع سے ہر ایک ملفوظ لکھوں

حیات نبی ﷺ نوک خامہ پہ آئے

قلم ذکر احمد ﷺ سے اب جگمگائے

نبی ﷺ کی فضیلت کا ہے ترجماں

جو اترا ہے ان پروہ قرآن ہے

ہو دل میں لگن تو ملے گا نہ کیوں

محمد ﷺ کے ذریعے خدا کا پتہ


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

شاعری چاہے کسی بھی قسم کی ہو اس کا اعجاز یہ ہوتا ہے کہ وہ اشارے کنائے میں ساری باتیں نہایت موثر انداز میں بیان کردیتی ہے۔ ایک بار کسی نے شیفتہ ؔکے سامنے میر انیس کا مصرعہ’’آج شبیر پر کیا عالم تنہائی ہے‘‘پڑھا تو وہ تڑپ اٹھے اور کہا کہ انیس نے بیکار اتنے سارے مرثیے لکھے۔ ان کا سارا مرثیہ تو اسی ایک مصرعہ میں ضم ہوکر رہ گیا ہے۔ یہی بات شاہ عبد العزیزرحمۃ اللہ علیہ صاحب کے اس مصرعے ’’بعد ازخدا بزرگ توئی قصّہ مختصر‘‘کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ یہ مصرعہ نعتیہ شاعری کی کلید ہے۔ تاقیامت جتنی بھی نعتیں کہی جائیں گی اس کا خلاصہ’’ بعد از خدا بزرگ توئی قصّہ مختصر ‘‘ہی ہوگا۔ اور جو لوگ ان حدود سے نکل جائیں گے ظاہر ہے کہ وہ نعتیہ شاعری کی حقیقی روح اور اس کے حدود سے ہی نہیں ایمان کامل کے حدود سے بھی تجاوز کرجائیں گے اس لیے اگر اس ایک مصرعہ کو نعتیہ شاعری کی کلید مان لی جائے تو یہ شاعری ہر طرح کی افراط و تفریط سے محفوظ و مامون رہے گی۔ اور عابد و معبود کے حقیقی تناظر میں ایمان و ایقان کی تجدید کا فریضہ بھی ادا کرپائے گی۔ لیکن یہ تو صرف ایک خواہش ہے، حقیقت تو اس کے بر عکس ہے کیوں کہ ہمارے بیشتر شعرائے کرام تو نبی اکرم ﷺ کو بشر ہی ماننے کو تیار نہیں ہیں جبکہ قرآن نے بہ صراحت نبی ﷺ کے بشر ہونے کی تائید و تاکید کی ہے۔

’’تو کہا اس کی قوم کے سرداروں نے جنہوں نے اس کی دعوت ماننے سے انکار کیا تھا ہماری نظر میں تو تم (اے نوح) اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہماری طرح بشر ہو‘‘(سورہ ہود۲۷)

لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے ان کو صرف اس بات نے روکا کہ کیا اللہ نے بشر کو پیغمبربناکر بھیجا ہے۔(سورہ بنی اسرائیل آیت ۹۱)

غرض یہ کہ کافر نبی کو صرف اس لیے نبی ماننے کو تیار نہ تھے کہ وہ بشر تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

وما ارسلنا من قبلک اِلّا رجالاً نوحی الیھم من اھل القریٰ ۔

(سورہ یوسف آیت ۱۰۹)

(اے محمد) تم سے پہلے ہم نے جو بھی پیغمبر بھیجے وہ سب بھی انسان ہی تھے اور انہیں بستیوں کے رہنے والے تھے۔

معلوم یہ ہوا کہ تمام انبیاء کرام بشر تھے اور بشری خوبیوں سے معمور تھے۔ ایک غلط تصوّر نعت خواں حضرات نے یہ پیدا کیا ہے کہ نبی معجزہ دکھا نے کا اختیار رکھتے تھے۔ یا یہ کہ ان میں بذات خودیہ طاقت تھی کہ وہ کوئی بھی معجزہ دکھاتے تھے۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے یہ اختیار صرف اللہ کو ہے چنانچہ فرمان الٰہی ہے۔

وما کان لرسول ان یّاتی بِایۃِِ الّا باذن اللّٰہ (سورہ رعد آیت ۳۸)

اور کسی رسول کو بھی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی لاکر دکھا دیتا۔

معلوم یہ ہوا کہ نبی کو فوق الفطری اختیارات حاصل نہیں تھے۔ وہ خد انہیں ہوتے تھے اور نہ ان میں خدا ئی صفات پائے جاتے تھے اس لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ کوئی بھی شاعر اپنی نعتوں میں نبی اکرم ﷺ کو بشری صفات سے ماورا قرار دے اور خدائی صفات کا حامل بنا کر پیش کرے۔تصوّر رسالت اور نعت کی لفظیات کے تعین کے سلسلے میں خود حضور اکرم ﷺ کی احادیث سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

چند احادیث دیکھئے۔

(۱) عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ مبالغہ آرائی کے ساتھ بڑھا چڑھا کرمیری ثنا خوانی نہ کرو، جیسا کہ عیسائیوں نے ابن مریم کی بڑھا چڑھا کر تعریفیں کیں۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، پس اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو(متفق علیہ)

(۲) حضرت ان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے آپ کو خیرالبریہ کہہ کر خطاب کیا یعنی مخلوقات میں سب سے بہتر تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ ابرھیم علیہ السلام ہیں(مسلم)

(۳) عبداللہ الشخیر کے بیٹے مطرف سے روایت ہے کہ میں بنی عاد کے وفد میں شامل ہوکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ہم لوگوں نے عرض کیا آپ ہمارے (سیدیعنی سردار ہیں)آپ نے فرمایا سید تو اللہ تعالیٰ ہے تب ہم لوگوں نے عرض کیا آپ ہمارے سب سے زیادہ فضیلت و عظمت رکھنے والے ہیں۔ فرمایا کہہ لو اپنی بات یا اپنی کچھ بات مگر شیطان تم کوہرگز جری نہ بنا دے(احمد ابو داؤد)ذرا غور کیجئے کہ جو نبی خود کو سید،خیرالبریہ،اور مخلوقات میں سب سے بہتر کہلوانا بھی پسند نہیںفرماتے ہیں اسے ان سے محبت کا دعوا کرنے والے خدا بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔

(۴) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی میں گالم گلوج ہونے لگی اسی دوران مسلمان نے کہا قسم اس ذات کی جس نے محمد کو تمام جہانوں پر برگزیدہ کیا۔ یہودی نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ کو تمام جہانوں پر برگزیدہ کیا، اس پر مسلمان نے طیش میں آکراس یہودی پر ہاتھ اٹھا دیا۔ یہودی حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور سارا ماجرا بیان کیا تو حضور نے مسلمان کو بلایا اور اس سے تمام بات معلوم کی تب حضور ﷺ نے فرمایا مجھے موسیٰ علیہ السلام پر ترجیح مت دو کیوں کہ قیامت کے دن تمام لوگ بے ہوش ہوجائیں گے تو ان کے ساتھ میں بھی بے ہوش ہوجاؤں گا۔ سب سے پہلے مجھے افاقہ ہوگا۔ میں اچانک دیکھوں گا کہ موسیٰ عرش کا کنارہ پکڑے ہوئے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم وہ بے ہوش ہونیوالوں میں ہوں گے اور انہیں مجھ سے پہلے ہوش آئے گا یا وہ ان لوگوں میں ہوں گے جن کو اللہ نے بے ہوشی سے مستثنیٰ کردیا ہے (متفق علیہ)

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کسی بندہ کے لیے مناسب نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں یونس سے بہتر ہوں(متفق علیہ)

ان احادیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضور کودوسرے انبیاء کرام کے احترم کا کتنا خیال تھا۔ مگرہمارے بیشترنعت گو شعرا جب تک نبی اکرم ﷺ کو نبیوں کے سردار، امام الانبیا، وغیرہ نہیں کہہ لیں انہیں سکون ہی نہیں ملتا ہے۔ بسااوقات تو وہ دوسرے انبیاء کرام کو کم کرکے دکھانے سے بھی باز نہیں آتے ہیں۔


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

کہنے کا مطلب یہ کہ نعتیں کہتے وقت جوش عشق کے ساتھ ساتھ ہوش و خرداور ایمان و ایقان کے حقیقی تصور کا بھی خیال رکھنا چاہیے تا کہ نعتیہ شاعری پر کسی طرح کا اعتراز نہ کیا جا سکے۔ اور اسے دوسری اصناف شاعری کی بہ نسبت زیادہ مطہراور پاکیزہ سمجھا جائے۔ نعت کی لفظیات سے متعلق ان تمام باتوں سے کسی نہ کسی حد تک یہ واضح ہوجا تا ہے کہ نعت کی لفظیات سے معطر اردو شاعری کا خزانہ نعت گو شعرا کے تخلیقی وفوراور عشق نبی کے حقیقی شعورکی وجہ سے دن بہ دن ثروت مندہوتا جارہا ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ لوگ اب نعتیہ شاعری اور نعت رنگ الفاظ کو ہر طرح کے ذہنی تحفظات سے آزاد ہو کر دیکھیں۔ اور اس کا مطالعہ ادبی شرائط کی روشنی میں کریں۔ اس طرح نعتیہ شاعری اور نعت گو شعرا دونوں کا حق بہ آسانی ادا کیا جا سکے گا۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
اس سال کی کچھ اہم کتابیں

اس سیکشن میں اپنے کتابیں متعارف کروانے کے لیے "نعت کائنات" کو دو کاپیاں بھیجیں

نئے صفحات