نعت ورثہ تنقیدی نشست 131

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


ادبی فن پاروں پر تنقید، روایت کی ایک مضبوط کڑی ہے تا ہم نعتیہ ادب میں روایت کا یہ ستون قدرے کمزور ہی رہا ۔ نعت کے اسلوب، مضامین اور متنازعہ امور مثلا تو تیرا کا استعمال، عربی الفاظ کا اردو میں تلفظ ، نعت میں سگ، شراب جیسے الفاظ پر مباحث اور بے سند روایات و واقعات پر تو علمائے نعت اپنی آراء دیتے رہتے ہیں لیکن شعری عیوب و محاسن پر گفتگو کا کوئی باقاعدہ سلسلہ کسی نعتیہ ادبی تنظیم، انجمن یا رسالے میں نظر نہیں آتا ۔ رسائل میں نعتیات پر گفتگو کا ایک خزانہ نعتیہ مجلے "نعت رنگ" میں مدیر صبیح رحمانی کو لکھے گئے خطوط میں بھی موجود ہے جس میں علمائے نعت نے نعت رنگ میں پیش کردہ تخلیقات پر اپنی آراء پیش کیں ۔ ان خطوط میں گفتگو کا سلسلہ قارئین کےلیے اس وقت گہری دلچسپی کا سبب بن گئے جب لکھاری نے اگلے شمارے میں اس تنقید کا جواب بھی لکھا ۔ ڈاکٹر ابرار عبد السلام نے اہل نعت پر یہ احسان کیاکہ ان خطوط سے تنقیدی مباحث کو موضوعات کے اعتبار سے کشید کرکے " نعتیہ ادب ۔ مباحث و مسائل" کے نام سے ایک کتاب میں یکجا کر دیا ۔ تاہم ان مباحث میں کوئی تخلیق لکھاری کی طرف سے باقاعدہ تنقید کے لیے پیش نہیں کی گئی تھی ۔ لکھاری کی طرف سے اپنی تخلیق کو تنقید کے لیے پیش کرنے کا سلسلہ "نعت ورثہ" کے فیس بک ادبی گروپ "نعت ورثہ لٹریری ڈسکشنز " سے شروع ہوئی ۔ شایدنعت پر ایسی تنقید سوشل میڈیا پر ہی ممکن تھی کہ نعت عقیدت کا اظہار ہے ۔ عقیدت کے معاملے میں بیشتر اذہان حساس ہوتے ہیں اور کسی بھی مصرعے یا شعر کے صرف اسی معنی کو درست سمجھتے ہیں جو ان تک پہنچے ۔ عقیدہ بھی صرف وہی درست جو اپنا ہے ۔ ذرا سوچیے کہ حلقہ ارباب ذوق کی طرز پر تنقیدی نشست جاری ہو، ہر شخص کو اپنی رائے دینے کی اجازت اور کسی شعر پر گفتگو کرتے ہوئے نور و بشر یا مسئلہ استمداد پر بحث چھڑ جائے تو؟ کسی کے لیے سرکار ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے شاعری میں تو کا صیغہ روا ہے اور کوئی اسے بد تمیزی سمجھتا ہے ۔ رسائل کے مضامین اور فیس بک پر تو معاملہ لفظی اظہار تک ہی رہتا ہے لیکن محفل ہو تو جذبات کا اظہار کہاں سے سے کہاں پہنچ جائیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔

سوشل میڈیا کی کرنیں زمین ادب کے بہت سے گوشوں کو روشن کر رہی ہیں ۔ ادبی گروپ ایک عرصے سے بہت سنجیدہ موضوعات پر مباحث اور تخلیقات پر اعلی تنقیدی نشستوں کا اہتمام کر رہے ہیں ۔ فیس بک پر پہلا تنقیدی فورم "جدید تنقیدی فورم " تھا جس کی بنیاد راولپنڈی کے نوجوان تنقید نگار "الیاس بابر اعوان" نے رکھی تھی ۔ اس گروپ میں تخلیق شاعر کے نام کے بغیر پیش کی جاتی اور احباب اس پر گفتگو کرتے ۔ اسے "بلا نام تنقید " کا نام دیا گیا ۔ "جدید تنقیدی فورم" سے متاثر ہو کر فیس بک کے ادبی گروپ " اردو انجمن " [اردو انجمن کے نام سے سرور عالم راز سرور کی ایک ویب سائٹ بھی ہے لیکن اس کا اس فیس بک گروپ سے کوئی تعلق نہیں ] نے فیس بک پر ماہانہ طرحی تنقیدی مشاعروں کا آغاز کیا ۔ تخلیقات بغیر نام کے پیش کی جاتیں اور احباب ان پر گفتگو کرتے ۔ بہت سے سینئرز نے یہ سلسلہ پسند نہ کیا کہ نام ہونے کی وجہ سے ان وہ مقام نہ مل پاتا جو ان کی "وال" پر ملتا تھا ۔ لیکن اردو انجمن نے دھما چوکڑی مچائے رکھی ۔ قریبا دس سال قبل جب نعت ورثہ نے اپنے فیس بک گروپ پرنعتیہ شاعری پر تنقید کا باقاعدہ سلسلہ شروع کیا تو اسی فارمیٹ کو منتخب کیا ۔ ابھی تو غزل پر ہی بغیر نام کے تنقید پر بہت سوں کو اعتراض تھایہ وہ وقت تھا نعت پر باقاعدہ تنقید کا رواج نہ تھا ۔ اس پر ایسی تنقید کا سن کر احباب کی تیوریاں کیوں نہ چڑھتیں۔ لیکن نعت ورثہ کی ٹیم خندہ پیشانی سے لگی رہی اور نعت پر باقاعدہ تنقید کا سلسلہ پھیلنا شروع ہوگیا ۔ "نعت ورثہ" کے بعد ادبی گروپ "چوپال" اور "منظوم" نے اسی فارمیٹ پر سالانہ نعتیہ تنقیدی مشاعروں کا اہتمام کیا جس میں ایک ردیف یا طرح مصرع دے کر شاعر کے نام کے بغیر اس کی تخلیق پیش کی جاتی اور احباب اور پر گفتگو کرتے ۔ اٹک کی نعتیہ تنظیم "فروغ ِ نعت" کے فیس بک گروپ نے بھی اسی فارمیٹ میں ماہانہ تنقیدی نشستوں کا اہتمام کیا ۔ الحمد للہ کہ آج یہ سلسلہ چنار کے درخت کی طرح اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے ۔ آج کم سے کم فیس بک پر نعتیہ تخلیقات پر باقاعدہ تنقید کو قبول کیا جاچکا ہے ۔

اگرچہ سوشل میڈیا نے اپنی تیز ابلاغیاتی قوت کی وجہ سے آج کے افسانے ، غزل ، نظم اور نعت پر گہرے اثرات مرتب کیے تاہم سوشل میڈیا پر سنجیدہ ادبی سرگرمیوں کو اہل ادب سنجیدگی سے نہیں لیتے تو نعت ورثہ نے افادہ ء عام کے لیے اس تنقیدی خزانے کو مطبوعاتی مہر لگانے کے ارادہ کیا ہے ۔ نعت ورثہ کی تنقیدی نشستوں کو ایک باقاعدہ شکل دیے کر پیش کیا جاتا رہے گا ۔ اس سلسلے کی ایک کوشش پیش خدمت ہے

نعت برائے تنقید

شاعر : آزاد حسین آزاد ۔

[شاعر کا نام کا اعلان تخلیق پر تنقید مکمل ہونے کے بعد کیا گیا]


نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

جب تک جبیں حضور کے نعلین میں رہے

دل درد سے بھرا ہو مگر چین میں رہے


پھر آپکا ظہور ہوا کھلکھلا اٹھے

قرنوں تلک زمین و فلک بین میں رہے


پیوند کارِ نور تھے، مشعل بھجی نہیں

وہ نور بن کے سینہ سبطین میں رہے


لطفِ کرم نہ پوچھیے اس نطقِ خاص کا

مجھ ایسا عام حرف بھی واوین میں رہے


خاکِ درِ رسول کی خوشبو ہے سانس میں

وہ شہرِ سبز دور ہے پر نین میں رہے


اک صبحِ پُریقین ملے، رت جگے کے بعد

کب تک غریبِ عشق اسی رین میں رہے

ربط : [1]

شرکائے گفتگو

مسعود رحمان، صفدر صدیق رضی ، محمد امجد قریشی ، ابو الحسن خاور، تنویر پھول، فیض احمد شعلہ ، مسعود اختر، مبشر حسین فیضی ، علی عباس اصغر، حافظ محبوب احمد، صابر رضوی ، مطلوب الرسول، پارس مزاری ، یعقوب پرواز

اشعار پر آراء

جب تک جبیں حضور کے نعلین میں رہے

دل درد سے بھرا ہو مگر چین میں رہے

مسعود رحمان  : مطلع منظر کشی میں خوب لیکن غور کرنے پر ذہن میں آتا ہے کہ نعلین مبارک "میں" جبیں کیسے رکھی جاسکتی ہے۔۔۔۔۔نعلین مبارک "پر" جبیں رکھی جا سکتی ہے۔۔۔دوسری بات دستیابی نعلین مبارک ہے کہ یہ اب کہاں میسر ہیں؟؟؟

مسعود اختر  : دل کے چین میں رہنے کا محض امکان ظاہر کر رہے ہیں ، قطعیت نہیں ہے ،شاعر چین میں رہے کے بجائے چین میں رہا کا مضمون بیان کرنا چاہتا ہے مگر ۔۔۔۔۔مطلع ہے ، آغاز کلام ہے ، اگر ردیف مضمون کی ترسیل میں معاون نہیں تو یہیں تبدیل کر لینا مناسب ہوتا ، ہو سکتا ہے نعت کے دیگر اشعار پہلے ہوئے ہوں اور مطلع بعد میں کہا گیا ہو ۔

مبشر حسین فیضی : مطلع میں نعلین میں رہے نے جس طرح مضمون کو ہلکا کیا ہے نظر ثانی کا متقاضی ہے ہم وہ خیال یا مضمون کیسے باندھ سکتے ہیں جو حضور کی تعلیمات کے خلاف ہو یا جسے حضور کی تعلیمات کے خلاف سمجھا جانے کا شائبہ بھی ہو ۔

حافظ محبوب احمد : دوسرےمصرع کااول حصہ "دل دردسےبھراہو "حشو لگ رہاہے.بلکہ جب نعلین میں جاپہنچاتوپھردردکیوں اورکیسا

صابر رضوی  : جبیں حضور کے نعلین میں رہنا کا ایک معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس مقام پر سرکار نعلین اپنے قدمین سے جدا کر کے مسجد میں تشریف لاتے تھے وہ جگہ ۔۔۔۔ یعنی مسجد میں نعلین والی جگہ پر جبیں رہے ۔۔۔۔۔ لیکن دوسرے مصرع میں درد والی بات شاید ہو نہیں پائی ۔۔۔کیوں کہ درد کا جواز نہیں

ابو الحسن خاور  : نعلین سے مراد تو پاوں یا چوکھٹ لیے جا سکتے ہیں لیکن حافظ محبوب صاحب کا اعتراض کا قابل توجہ ہے کہ جب نعلین میں جاپہنچاتوپھردردکیوں اورکیسا؟ شاید شاعر یہ کہہ رہا ہے مسائل حل نہ بھی ہوں تو اس چوکھٹ پر سکون ملتا ہے ۔ لیکن اس مضمون کے لیے "بھرا ہو " کی بجائے "چاہے بھرا رہے " کی ضرورت تھی



پھر آپکا ظہور ہوا کھلکھلا اٹھے

قرنوں تلک زمین و فلک بین میں رہے

مسعود رحمان : یہ شعر کہنا تو چاہتا ہے کہ زمین آسمان پہلے بین کر رہے تھے پر حضور کی آمد سے کھلکھلا اٹھے۔۔۔لیکن کہیں کچھ کمی رہ گئی کسی ایک لفظ کی جو مفہوم بالکل کھول دے

مسعود رحمان  : پھر، دوبارا کے معنی بھی دیتا ہے ۔جب آپ کا ظہور ہوا ۔۔۔۔۔

محبوب احمد  : رین میں رہے ...چہ معنی دارد ..بین سےمرادکیاہے.؟اگردرمیان کےمعنی میں ہے تومصرع چہ معنی دارد؟

ابو الحسن خاور  : ماشاء اللہ ۔ اچھا شعر ہے ۔ شعر پر ایک اعتراض "پھر" کے حوالے سے بھی آیا کہ یہ دوبارہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ بہت سے الفاظ ایک سے زیادہ معنوں کے حامل ہوتے ہیں ۔کونسا معنی لیا جائے گا یہ سیاق و سباق سے پتا چلتا ہے ۔ یہاں پھر "دوبارہ" کے معنوں میں استعمال ہوتا معلوم نہیں ہوتا ۔ سیدھا مضمون ہے کہ زمین و فلک آپ کے منتظر رہے اور پھر ان کی مراد بر آئی ۔ داد ۔

پارس مزاری : بین میں رہنا زبان شاید درست نہیں ۔ بین کرنا، بین کرتے رہنا۔ اس کے علاوہ "پھر آپکا ظہور ہوا کھلکھلا اٹھے " میں وقفہ آرہا ہے ۔تو کی کمی ہے



پیوند کارِ نور تھے، مشعل بجھی نہیں

وہ نور بن کے سینہ سبطین میں رہے

مسعود رحمان : پیوند کار نور۔۔۔۔۔مجھے یہ ترکیب ٹھیک نہیں لگی۔۔۔۔جس نور کو پیوند کاری کی احتیاج ہو وہ نور کے سوا سب کچھ ہے اور یہ عام لفظ نور نہیں۔۔۔۔۔دوسرا مصرع بہت ہی اعلی و عمدہ اور شاندار ہے

مسعود اختر : پیوند کار نور پر بھائی مسعود رحمان کی رائے بہت مناسب ہے

محبوب احمد : پہلامصرع دوسرےسےپیوست نہیں نیز مفہوم بھی واضح نہیں ہے

تنویر پھول  : مجھے بھی " پیوند کار نور " کی ترکیب اچھی نہیں لگی ۔ اس کی جگہ " تقسیم کار نور " کی ترکیب کیسی رہے گی ؟

ابو الحسن خاور  : مضمون توسمجھ آتا ہے کہ ذات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو نور لے کر زمین پر اتری تھی وہ واپس نہیں گیا بلکہ سبطین کے سینے میں روشن ہوگیا ۔ اگر "نور" کا معنی ہدایت، دین یا کتاب لیا جائے تو شعر اپنا مفہموم ادا کرتا ہے ۔ اگر نور کو "نور" کے معنوں میں لیا جائے تو "پیوند کار نور" کی ترکیب معمہ بنی ہوئِی ہے کہ اس کا کیا مطلب ہو ۔ پیوند کار اگر پیوند لگانے والا ہو تو پیوند کار ِ نور کا ایک معنی نور کے پیوند لگانے والا بنتا ہے ۔ خود نور کا پیوند ہونا شاید اس ترکیب سے اخذ نہیں ہوتا ۔ اس حوالے سے "مشعل بجھی نہیں" کا ٹکڑا شعر کا حصہ نہیں بن رہا ۔

پارس مزاری : "پیوند کارِ نور تھے، مشعل بجھی نہیں " بلاوجہ مصرع بریک ہو رہا ہے


لطفِ کرم نہ پوچھیے اس نطقِ خاص کا

مجھ ایسا عام حرف بھی واوین میں رہے

مسعود رحمان  : عام لفظ۔۔۔۔کون سا۔۔۔یا کوئی بھی لفظ۔۔۔۔۔نجانے کیوں یہاں بھی میں تفہیم سے محروم ہوں

مسعود اختر  : واوین صرف اہمیت کے لیے ہی نہیں ، واوین میں اقتباسات اور ذو معنی الفاظ بھی لکھے جاتے ہیں، کیا ، پہلا مصرع عمدہ تھا ، دوسرا مصرع اس کا ساتھ نہیں دے سکا ، مضمون ادھورا رہ گیا

محبوب احمد  : س نطق خاص سےمرادتوکسی حدیث کاحوالہ ہوسکتاہےاورحدیث میں شاعرکاخصوصی تذکرہ واوین کےدرمیان ہونےکی نشاندہی کررہاہے.تویہ بات اصولا تو مستعبدسی لگتی ہے

ابو الحسن خاور : اس شعر پر بھی حافظ صاحب کے اعتراض سے متفق ہوں ۔ خود کو عام لفظ کہتے ہوئے "نطق ِ خاص" لایا گیا ہے لیکن ضرورت نطق کے بجائے ان کے بیان یا رحمتوں کے بیان کی تھی ۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نطق کے بات کی جائے تو شاعر "مجھ ایسا عام حرف" کیا ہے ؟ اس نطق سے ادا کیا گیا لفظ؟

یا شاید کچھ ایسا جہاں تک میری رسائی نہ ہوسکی


خاکِ درِ رسول کی خوشبو ہے سانس میں

وہ شہرِ سبز دور ہے پر نین میں رہے

مسعود رحمان  : واااااااااااااااااااااااااہ سبحان اللہ بہت خوب بہت عمدہ

مسعود اختر : واہ واہ ۔ سبحان اللہ ۔ پہلے مصرعے میں واحد سانس نے دوسرے مصرعے میں ایک نین کو سہارا دیا

محبوب احمد : نین میں رہے...واضح المفہوم نہیں ہے

مطلوب الرسول : پہلے مصرع میں " خاک" کا ذکر،جبکہ دوسرےمیں " شہر سبز" میں سرسبزی و ہریالی کا ذکر۔لہذا تلازمہ کمزور پڑ رہا ہے۔اس کے علاوہ سانسوں میں بسی چیز اور آنکھوں میں سجی چیز کا احساس جدا جدا ہوتا ہے۔دونوں کو باہم یکجا کرنے کےلیے الفاظ کا چناؤ مہارت مانگتا ہے۔

ابو الحسن خاور  : جذبہ خالص اورعمدہ ہے تاہم شعر میں ایک عجیب سے منطقی تضاد محسوس ہوتا ہے ۔ خاک کی خوشبو سانس میں ہے تو یہ معنوی نہیں حقیقی اظہار معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کو وہ خاک نصیب ہوئی لیکن دوسرے میں شہر دور دکھایا گیا ہے ۔



اک صبحِ پُریقین ملے، رت جگے کے بعد

کب تک غریبِ عشق اسی رین میں رہے


مسعود رحمان  : بہت ہی خوب شعر ہے ۔۔۔۔۔ڈھیروں داد۔۔۔ماشا اللہ

فیض احمد شعلہ  : مصرع ثانی میں لفظ "رہے" شاعر کی تمنا کا مظہر ہے جبکہ مصرع اولیٰ اس سے عاری ہے۔ اس لےء دونوں مصرعے پوری طرح مربوط نہیں لگتے۔دونوں میں الگ الگ بیانیہ ہے۔ اگر یوں کہا جاتا تو شاید بہتر ہوتا۔۔۔۔ خاک در رسول کی خوشبو ہو سانس میں --وہ شہر سبز دور سہی، نین میں رہے۔۔۔۔ مصرع ثانی یوں بھی ہوسکتا ہے۔"وہ شہر سبز دور ہو پر نین میں رہے۔" ۔۔ بہ ہرحال یہ میرا ذاتی تاثر ہے اس سے شاعر متفق ہونا ضروری نہیں۔

مسعود اختر  : کیا کہنے ۔ سبحان اللہ ۔

محبوب احمد : ماشاء اللہ بہت پیاراشعرہے.بہت بہت داد..اگرچہ صبحِ پریقین کوصبحِ وصال کےمعنی میں لینےکاکوئی قرینہ بھی ہوناچاہئے

مطلوب الرسول  : کب تک غریب عشق اسی رین میں رہے ۔ یہ شعر غزل کی انگوٹھی کا ہے نگینہ تو بالیقین ہے لیکن نعت] کا نہیں۔اس لیے کہ عشقِ بتاں اور عشقِ سرکار میں یہی تو فرق ہے کہ آقاعلیہ السلام کا عشق بذاتِ خود دلیلِ صبحِ روشن ہے۔آپ کے عشق میں رات کا تصور کہاں سے آگیا۔غریبِ عشق کی ترکیب،ہجر کی کیفیت کےلیے چلیں مان لیتے ہیں لیکن رات۔۔۔۔۔۔۔؟

ابو الحسن خاور  : مطلوب الرسول صاحب بات کر چکے ہیں کہ "رت جگا" اور "غریب عشق" جسٹفائیڈ نہیں ہوا ۔ عشق ِ رسالت کے مہجور یا تو سفر کے لیے بے قرار ہوتے ہیں یا خواب کے لیے ۔ راتوں کو جاگ کر صبح پر یقین نہیں ملتی ۔ اگر رت جگے سے مراد رات کی عبادت ہو تو پھر انعام صبح " پر یقین" نہیں کچھ اور ہونا چاہیے ۔


مجموعی تا اثر

مبشر حسین فیضی  : مطلع کے سوا باقی اشعار عمدہ ہیں ۔

امجد قریشی : سبحان اللہ، جزاک اللہ...محترم مسعود رحمان صاحب کا خوبصورت و بہترین تجزیہ... محترم مسعود رحمان کی نعت شناسی کوسلام....محترم صبیح رحمانی صاحب کا شعر ہے، کہ ---------ان کو سوچتے رہنا بھی تو ایک عبادت ہے۔ اور یہ عبادت بھی ہم نے دم بدم کی ہے....شاعر کی سوچ کو سلام عقیدت...بہتری کی گنجائش بہر حال ہے...

علی اصغر عباس  : نعت گوئی اللہ کے فضل و کرم سے عطا کردہ اعزاز ہے اس میں سخن وری پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے ہم ہیئت شعر میں لکھی ہر چیز کو اس لئے نعت تسلیم نہیں کر سکتے کہ اس پر لکھنے والے نے نعت کا عنوان دے دیا ہے...! نعت بطور شعری فن پارے کے پیش کرنا بجائے خود ایک مشکل مرحلہ ہے اس پر تنقید کرنا تو نہایت ہی جانگسل کام ہے اور اس زیر نظر شعری اظہار پر تفصیلی رائے دینے سے معذور ہوں جزاک اللہ خیر کثیرا

فیض احمد شعلہ  : مسعود رحمان صاحب قبلہ نے ہر شعر بصیرت افروز روشنی ڈالی ہے۔میں ان سے متفق ہوں ۔ سوائے "عشق رین میں رہے" والے شعر کے ۔ اتنی عمدہ کاوش کے لےء خصوصی داد تو ضرور بنتی ہے۔میری طرف سے شاعر اور مبصر دونوں کو داد اور مبارکباد۔

مسعود اختر  : محترم شاعر نے مختلف اور منفرد اشعار کہنے کی کوشش کی ، کہیں کامیابی ہوئی اور کہیں ۔۔۔۔۔۔اسلوب میں انفراد نمایاں ہے ۔ نعت کہنے کی سعادت پر مبارک باد

محبوب احمد : مجموعی طورپریہ نعت مشکل قوافی کی وجہ سےمفہوم کوواضح کرنےمیں مشکلات کاشکارنظرآرہی ہے


ابو الحسن خاور : نعت مبارکہ میں خیالات کی ندرت اور مصرعوں کی بندش متاثر کن ہے ۔ ہر شعر میں ایک نئی بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے جو راحت بخش ہے ۔ تنقیدی نشستوں میں قارئین چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی اظہار رائے کرتے ہیں لیکن اگر یہی نعت کسی مشاعرے یا نشست میں سنی جائے تو اس کی تاثیر بالکل مختلف ہو ۔ شاعر کے لیے بہت داد ۔

پارس مزاری  : مجموعی طور پہ نعت میں پختگی کے کمی ہے خیال اچھے ہیں۔

یعقوب پرواز  : نعت کے مضامین بلا شبہ اچھے ہیں لیکن شاعر ابھی فنی بلوغت کی منازل کے درمیان ہے۔ خیال کے مطابق مناسب الفاظ کا چناؤ اور پھر سلیقہء اظہار ایسے عوامل ہیں جن سے کوئی فن پارہ ظہور میں آتا ہے۔ شاعر کے ہاں پنپنے کے وسیع امکانات ہیں اور مشق سخن کے ذریعے یہ امکانات حقیقت کا روپ دھار سکتے ہیں

شاعر کی تنقیدی نشست پر رائے :

تمام احباب نے بھرپور گفتگو کی،، مجھے بہت اچھا لگا،، نعت خالصتا محبت کے جذبے کے تحت وجود میں آتی ہے،، اور نعت لکھتے ہوئے آدمی کی کیفیت بالکل الگ ہوتی اور ایسی کیفیت کا سمجھنا یا ایسی کیفیت کا کھلنا سب پر ممکن نہیں،، برکت کے لیے نقش نعلین گھروں میں موجود ہوتا ہے،، نعلین سے مراد یہاں وہی نعلین ہیں،، شہرِ سبز استعارہ ہے،، برکت والے شہر کا، پیوند کار نور،، سے مراد اپنے نور کو منتقل کرنے والے،، نور کا پیوند لگانے والا، بین میں رہنے سے مراد افسردہ رہنا،، نین میں رہنا آنکھوں میں بسنا،، خوشبو سانس میں ہے اور شہر آنکھوں میں،اپنی طرف سے مصرع واضح لکھے ہیں،، الگ رہنے کی اور روایتی نعت سے مختلف لکھنے کی کوشش کی ہے،، کامیابی کتنی ملی یہ آپ نے بتا دیا،، اس قدر سیر حاصل اور طویل گفتگو کے لیے بہت بہت ایک بار پھر شکریہ