نعت نگاری میں ریاض کی رمزِ پیشوائیت-شیخ عبدالعزیز دباغ

نعت کائنات سے
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search


Naat kainaat P Riaz Hussain Chaudhry.jpg

شاعر :ریاض حسین چودھری

مضمون نگار: عبد العزیز دباغ

نعت نگاری میں ریاض کی رمزِ پیشوائیت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

زندگی بھر، تادمِ آخر جدید اُردو نعت کی خدمت عالیہ پر مامور قابلِ صد احترام مدحت نگارِ رسولؐ، ریاض حسین چودھری، دیارِ اقبال میں معروف صنعت کار اور ممتاز تاجر الحاج چوہدری عبدالحمید مرحوم (آف چوہدری فضل دین اینڈ سنز) کے ہاں 8 نومبر 1941ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سکاچ مشن ہائی سکول میں حاصل کرنے کے بعد1963ء میں مرے کالج سے گریجویشن کیا۔اس دوران مرے کالج میگزین کے دو سال تک مدیر اور بزمِ اُردو کے صدر رہے۔ پھر پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے ایل ایل بی کیا اوراورینٹل کالج سے ایم اے اردو کیا۔ دو سال تک کالج کے مجلّے المیزان کے اُردو سیکشن کے مدیر رہے۔مرے کالج میں انہیں استاذ مکرم جناب آسی ضیائی رامپوری کی صحبت میسر آئی اور انہی کے تلمذ میں سخنوری کی راہ اپنائی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ریاض حسین چودھری نے چوہدری فضل دین اینڈ سنز میں امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار سنبھالا اور اپنے والدِ گرامی کے دست و بازو بنے۔آپ نے اس کاروبار میں پورے انہماک سے کام کیا ، اسے پھیلایا اوراپنے بھائیوں پر مشتمل ایک فعال ٹیم کی سربراہی کی۔

آٹھ بھائیوں میں یہ سب سے بڑے تھے۔ والدین کی محبت کچھ ایسی ملی کہ نرم خوئی، حلیمی، بردباری، پیار اور شفقت ان کی شخصیت کی پہچان بن گئے۔ چھوٹے بھائیوں کی تعلیم پر ذمہ داری سے توجہ دیتے۔ چونکہ ناراضگی غصہ وغیرہ سے آشنائی نہ تھی چھوٹے بھائی آپ کی طرف زیادہ لپکتے اور اپنے مسائل ان تک پہنچاتے۔ ان کے چھوٹے بھائی اطہر صاحب نے بتایا کہ ریاض ہی تھے جنہوں نے انہیں اردو انگلش کے حروف تہجی لکھنا سکھائے اور تعلیمی سفر طے کرنے میں ان کی مدد کی۔ شفقت اور محبت کی وجہ سے وہ ہمیشہ ان کے قریب رہے۔

ریاض حسین چودھری1965کے بعد 1990تک محنت اور لگن کے 35برس کاروبار کی نذر کرنے کے بعد مصطفویؐ مشن کے جذبے سے سرشار تحریکِ منہاج القرآن مرکزی سیکریٹریٹ لاہور آ گئے اور پندرہ روزہ ’’تحریک‘‘ لاہور کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی اور دس سال اس کے مدیر اعلیٰ رہے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں تحریکِ منہاج القرآن کے شعبۂ ادبیات کے صدارت سنبھالی ۔ سیالکوٹ آتے جاتے دو بار روڈ ایکسڈنٹ میں زخمی ہونے کی وجہ سے سفر کے قابل نہ رہے اور 2002میں ان ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے۔

ریاض حسین چودھری اپنی کاروباری زندگی کے دوران اپنی ادبی خدمات میں ہمہ تن مصروف رہے۔انہوں نے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں ہر ماہ بڑے پیمانے پر محفلِ میلاد کا انعقاد ہوتا جس میں وقت کے بڑے اور نامور مدحت نگاروں کو مدعو کیا جاتا اور ان سے نعتیہ کلام سن کر اپنا ایمان تازہ کیا جاتا۔ حفیظ تائب اور احمد ندیم قاسمی اکثر ان محافل اور حلقۂ ارباب ذوق کے پروگراموں میں شرکت کے لئے سیالکوٹ آتے اورتخلیق کاروں کے لئے حوصلہ افزائی کا سامان کرتے۔ ریاض حسین چودھری دو مرتبہ حلقۂ اربابِ ذوق سیالکوٹ کے سیکریٹری منتخب ہوئے اور پاکستان رائٹرز گلڈ سب ریجن سیالکوٹ کے سیکریٹری بھی رہے۔


وہ ایک فعال ادیب تھے۔خوب غزل لکھتے اور دادو تحسین وصول کرتے۔ مگر مدحتِ رسولؐ خمیر میں تھی توخود کو نعت نگاری کے لئے وقف کر دیا۔


میں تو کیا سوچیں بھی میری دست بستہ ہیں ریاضؔ

جب بھی سوچوں گا نبیؐ کی نعت ہی سوچوں گا میں


آپ کے نعتیہ کلام کے بارے میں اگلے صفحات میں تفصیل سے بات ہوئی ہے۔ یہاں یہ دیکھنا ہے کہ ریاض حسین چودھری فن مدحت نگاری میں پیشوائیت کے مقام پر کیسے اور کیونکر فائز ہوئے۔اور مدحت نگار ی میں انہوں نے مسقبل کے شعرا کے لئے کیا حقیقی ورثہ چھوڑا ہے۔ان کے کام سے جو راز ہویدا ہوتا ہے وہ ان کی اپنی نظر میں کچھ یوں ہے :


روزِ الست آنکھ جو کھولی شعور نے

قدرت نے ایک نور سا ہاتھوں میں رکھ دیا

میں نے بڑے خلوص سے چوما اُسے ریاضؔ

اور پھر قلم حضور کے قدموں میں رکھ دیا


مدحت نگاری کے بحرِ مواّج[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ریاض حسین چودھری کو قدرت نے جہانِ نعت نگاری کاسلطان بنا کر دنیا میں بھیجا جنہوں نے تسکینِ جاں کے لئے تخلیقِ نعت کے عمل میں اَن گنت تجربے کئے ہیں مگر ان کے ہر تجربے کی بعثت اُس وارفتگی سے ہوتی ہے جس میں ریاض کا وجود روزِ ازل سے گندھا ہوا ہے اور جو ریاض کے بس کی بات نہیں۔نعت ان کا ’حال‘ ہے جو ان کے ازل سے ابد تک کے احوال پر محیط ہے۔ اپنے اس ’حال‘ میں بیتابیٔ جاں کے ہاتھوں وہ اس وقت تک لکھتے رہتے ہیں جب تک نعت ان کے نفسِ تخلیق میں اپنا پہلو نہیں بدلتی۔یہی وجہ ہے کہ وہ زود گو ہیں، دونعتیہ، سہ نعتیہ اور چہار نعتیہ لکھنے لگتے ہیں۔’ تمنائے حضوری‘ اور’ طلوعِ فجر‘ جیسی طویل نعت لکھتے ہیں اور اگلے ہی لمحے ان کا جذبۂ نعت پھر سے بحرِ مواج بن کر بے کراں ہونے لگتا ہے۔ اس ’حال‘ میں رہتے رہتے ان کے شعری عوامل سریرِ خامہ بن کر مقامِ قرطاس پر محوِ رقص ہو جاتے ہیں۔ الفاظ جیسے خود اپنی اپنی جگہ لینے لگیں۔ تشبیہات، استعارے، کنائے ، علامتیں اور رعایتیں از خود اپنی شعری ساخت میں ڈھلنے لگیں۔ جیسے سحر پھوٹے، گلشنِ کلام میں صبائے تخیل کا خرام جادو جگانے لگے اور یوں ریاض کی نعت کی شعر ندی اس وقت تک اپنی جولانیوں کے ساتھ بہتی رہے جب تک کہ ان کے نفسِ تخلیق میں ان کی نعت خود قلبِ ہیئت کا فیصلہ نہ کرلے۔ پھر اگلے ہی لمحے ترشّحات ِنعت کا یہ سیلان ریاض کے ساتھ کسی اور تجربۂ تخلیق میں محوِ ستایش ہو جائے۔اس طرح جب نعت خود اپنا بدن ٹٹول کر ریاض کی بیاض بن جائے تو یہ پھر ان پر منحصر ہے کہ وہ اسے کیا نام دیں: زرِ معتبر، رزقِ ثنا، خلدِ سخن، آبروئے ما، زمزمِ عشق یا کچھ اور !


ریاض کی نعت بزبانِ اقبال ریاض سے کہتی رہتی ہے :


سیلم مرا بکوئے تنک مایۂ مپیچ

جولانگہے بوادی و کوہ و کمر بدہ


کہ میں تو ایک سیلاب ہوں، تنگنائے روایت میں سمٹا نہیں رہ سکتا۔مجھے تو اپنے قدرتی بہاؤ کے ساتھ بہنے کے لئے وادیوں اور میدانوں کی پہنائیاں درکار ہیں اورمجھے ایسی ہی جولانگاہ کی ضرورت ہے جو میری طوفان سامانیوں کے لئے اپنی وسعتیں بچھا دے۔

پیرایہ غزل، قطعہ، رباعی، ثلاثی، فردیات، پابند نظم، آزاد نظم یا نظم معّریٰ، ریاض کی نعت کا ولولہ کسی طور حسرتِ اظہار کی کیفیت سے باہر نہیں آنے پاتا۔ نعت کو اپنی روح میں محسوس کرتے ہوئے وہ خود کہتے ہیں؛


نعت کیا ہے، عشق کے ساگر میں غرقابی کا نام

نعت کیا ہے، میرے ہر جذبے کی سیرابی کا نام

نعت کیا ہے ہجر میں سانسوں کی بے تابی کا نام

نعت کیا ہے ، گنبدِ خضریٰ کی شادابی کا نام

نعت ہے بے آب صحراؤں میں پانی کی سبیل

نعت ہے اسمِ محمدؐ ہی کا اک عکسِ جمیل


پروفیسر محمد اکرم رضا نے ریاض کی تخلیقِ نعت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا ہے :


’’شاعرِ خلدِ سخن کو رب کریم نے محبوب علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ثنا گوئی کے لئے جہاںہر دور میں ڈھل کر جدت طرازی کا سلیقہ وافر عطا کیا ہے، وہاں یہ امر خاص طور پر قابلِ تحسین ہے کہ جدت ادا اور رفعتِ زبان و بیاں کا کوئی سا پیرایہ اختیار کرتے ہوئے بھی انہوں نے ان مخصوص نظریاتی اور روحانی تقاضوں کو فراموش نہیں کیا جن سے نعت عبارت ہوتی ہے۔ تشبیہات، استعارات، اور تراکیب میں جدت بیانی اپنی جگہ مگر ریاض حسین چودھری کے ہاں نعت کے حوالے سے وہی سوز و گداز ، ادب و احتیاط، والہانہ پن، خود سپردگی، عجز و نیاز مندی اور نامِ رسول ؐ پر مر مٹنے کے جذبات پوری شان کے ساتھ ملتے ہیں جو اوائل سفرِ نعت ہی سے ان کی نعت کا امتیاز رہے ہیں۔ ان کے والہانہ پن کے انداز بے اختیار پڑھنے والوں کی آنکھوں کو عقیدت کا نم عطا کرتے ہیں۔


در اصل ریاض جو نعت لکھنا چاہتے ہیں وہ ابھی تک لکھ نہیں پا رہے۔ وہ لکھتے چلے جا رہے ہیں مگر ’’ تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے‘‘ کے مصداق ابھی تک انہیں نعت کا ذوقِ نظر نہیں ملا۔ اسی کاوش میں وہ میسر اصنافِ شعر سے آگے نئے شعری تجربات کرتے چلے جا رہے ہیں کہ شائد انہیں ’’ذوقِ نظر‘‘ مل جائے۔اور اب انہوں نے نعتِ معّریٰ کا انتخاب کیا ہے اور یہ کیفیت انہیں وقت کی حدود سے نکال کر آگے لے گئی ہے۔ وہ ہمارے زمانے میں رہتے ہیں مگر نعت آنے والے وقت میں بیٹھ کرلکھ رہے ہیں۔

’’کشکولِ آرزو‘‘ میں ریاض کی نعت کو ’’نعت میں تغزّل اور شعریت کی ایک وہبی صورت ‘‘ قرار دیتے ہوئے پروفیسر عبدالعزیز لکھتے ہیں :


’’حقائقِ حیات کے تنوع، حوادثات زمانہ کی حشر سامانیوں اور انسان کے نفسِ خلاق کی حساسیت کے فروغ نے گریباں چاک کرنے کی بجائے نمودِ فن کے تتبع میں قبائے شعر ہی کو وسعتِ داماں سے ہم کنار کر دیا اور یوں عملِ تخلیق کا دریا حسن شعر کی جملہ رعنائیوں کو اپنے پہلو میں سمیٹتے ہوئے اچھل کر سمندر ہو گیااور اس طرح حسنِ شعریت کے نئے معیار وجود میں آئے۔


اس طرح اپنے تیرھویں مجموعہ کلام ’’دبستانِ نو‘‘ کے لئے ریاض نعتِ معرّیٰ لکھنے لگے جس کا تجربہ نعتیہ ادب میں ابھی تک کوئی نہیں کر سکا۔ پیرایہ اظہار ریاض کے ہاں وہ چار گرہ کپڑا ہے جس کی قسمت میں عاشق کا گریباں ہونا ہے۔ ریاض کے اس مجموعۂ نعت میں پروفیسر عبدالعزیز کے بقول عوامل نعت نگاری کے تنوع اوروفور کی بدولت ان کے عملِ تخلیق کا دریا حسنِ شعریت کی جملہ رعنائیوں کے ساتھ اچھل کر سمندر ہو گیا ہے۔جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ریاض کا شعورِ نعت آج سے ایک صدی بعد کی ہیئتِ نعت کا عرفان حاصل کر چکا ہے۔ اس طرح دبستانِ نو اگلی صدی کی نعت کی ہیئتِ ترکیبی کے خد و خال لئے ہوئے ہے۔ ھیئتِ نعت کی اس صدسالہ پیش بینی کی دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ امت پر انتشاروافتراق کی عتاب ناکیاں جو آج ہیں کل نہ تھیں جبکہ آنے والے وقت میں طوفانِ بلا کی بے کرانیاں حدِ ادراک سے ماورا نظر آتی ہیں ۔ اس سے شعورِ نعت اور اس کے وسائلِ اظہار کی پہنائیاں بھی اسی قدر تصور و تخیل سے دور آگے نکل گئی ہیں۔لمبے اور کٹھن سفر میںاضافی زادِ راہ گرا دیا جاتا ہے ، ورنہ سفر کی رفتار مدھم اور منزل دور ہو جاتی ہے۔ معرّیٰ کا مفہوم بھی اضافی بوجھ گرانے اور کلام کو ردیف و قافیہ اور دیگر شعری پابندیوں سے آزاد رکھنے کا ہے ۔ مگر ریاض نے ہمیںوہ ’’دبستانِ نو‘‘ دیا ہے جس میں معرّیٰ ہی سہی، رعنائی اظہار کا اھتمام ترک نہیں کیا جا سکتا۔اس طرح ان کی ’’دبستانِ نو‘‘ اس صدی کی آخری دہائی کی خوبصورت نعت ہے جو کل کے نعت گو کا فنی سرمایہ ہے ۔ نعتِ ریاض تکنیکی اعتبار سے فن نعت نگاری کا بتدریج ارتقا ہے۔قطعات کے علاوہ ثلاثی اور فردیات میں انہوں نے کمال فن پارے تخلیق کئے ہیں۔


ایک خستہ حال اور دل شکستہ امتی کیونکر بھی اپنے کریم آقاؐ کی بارگاہِ بے کس پناہ میںاپنی وارداتِ غم ، معاملات ِ ہجرو وصل،سنگینیٔ حیات کے دوہے اور غمِ امت کے آثارِ اظہار پیش نہیں کرے گا۔ وارداتِ نعت اور غمِ امت کا یہی وفورِ بیان ریاض کا ’’دبستانِ نو‘‘ بھی ہے جو اپنے دامن میں درد، کسک، خلش، کیفیتِ الم، خدشات و خطرات اور خوف و حزن امان الخائفین ؐ کے حضور التجائے رحم و کرم لئے ہوئے ہے۔یہی نعت اس صدی کی آنے والی دہائیوں پر محیط ہے ۔


ریاض حسین چودھری جہانِ نعت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھے۔ تیرھویں نعتیہ مجموعہ’’ دبستانِ نو‘‘ کے بعد مزید دس مجموعے طباعت و اشاعت کے منتظر ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق انہوں نے اب تک کوئی تیس(۳۰) ہزار سے زیادہ مطبوعہ نعتیہ اشعارکہے ہیں جبکہ ان کی نعت گوئی کا بحرِ بیکراں اشاعت کے لئے بیتاب ہے۔ ریاض کا قلم ایک سپہ سالار کی طرح حرف و معانی، تشبیہات، استعارات، علامات و محاکات کو میدانِ اظہار میں صف در صف اپنی اپنی جگہ پر تعینات کرتا چلا گیا، جہاں وہ قدسیانِ درود مست کے ساتھ نغمۂ ستایش گنگنانے لگتے ۔اُن کے ہاں طرزِ اظہار اور انتخابِ پیرایہ و اصناف ایک لاشعوری عمل ہے جو خود بخود متشکل ہوتا ہے اور اُن کا وجدان ہی اس کی وسعت و رفعت کا تعین کرتا ہے۔ ریاض کی نعت وارداتِ توصیف و حیات، شدتِ غم رسولؐ، غم امت، وفورِ شوق ، اظہار کی طوفان سامانیاں ، ندرت فکر و نظر ، تازگی، شگفتگی، اور جدت و وھبییت سے مزّین وہ غلافِ جذبۂ و خیال ہے جو کعبۂ شوق پر آویزاں ہے کہ جس کا طواف ان کی زندگی کے آخری سانس تک بھی ختم نہ ہوا۔ انہیں نعت نگاری کے عوض ملنے والے اجرِ عظیم کا یقین تھا کہ وہ جنت میں اعلیٰ علییّن کے مقام پر فائز ہوں گے مگر ان کی جنت تو مدینہ ہے۔ ہسپتال میں اپنی زندگی کی آخری سرجری کرانے سے پہلے آپریشن تھیٹر میں لے جائے جانے سے پہلے انہوں زندگی کا آخری شعر کہا اور پھر یہ بھی کہا کہ یہ ان کا آخری شعر ہے ، وہ یوں ہے :


میں اکثر سوچتا رہتا ہوں اے کونین کے مالک

تری جنت مدینے سے کہاں تک مختلف ہو گی


ریاض کی نعت کا حسن تغزل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ادبِ عالیہ کے تمام تخلیق کار اور اساتذہ نے اپنے اپنے انداز میں ریاض کو نعت نگاری کے مسند پیشوائیت پہ فائز دیکھا ہے۔ اور ان کے تخلیقی تجربے کے کمال کو تغزل کا کرشمہ قرار دیا ہے۔ ریاض خود مدحت نگاری کو غزل گوئی سے اعلیٰ و ارفع تخلیقی تجربہ قرار دیتے ہیں چنانچہ محض اسی نکتے پر تجربۂ نعت نگاری کو مرکوز کرتے ہو ئے آپ نے ایک خوبصورت مجموعہ کلام تخلیق کیا جس کا نام ہی ’’غزل کاسہ بکف‘‘ رکھا ۔یہ اس بات کا غماز ہے کہ وہ فن شعر کے حقیقی حسن اور اس کے تخلیقی عمل میں ملحوظ رکھے جانے والے عوامل سے عملاً آگاہ تھے اور پورے اہتمام سے نعت لکھتے تھے۔ ہمارے وہ قارئین جو تخلیقِ فن کی عملی اساس کو سمجھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ یقیناً ریاض کی نعت نگاری کی اس عملی تدبیر کاری کو سمجھنا پسند کریں گے۔


حسرتِ اظہار ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے جس کا سامنا ہر وہ نفسِ مدّرک کرتا ہے جس کا مسئلہ اظہار ہے۔ ادب نثر ہو یا شعر، اپنی ہر صنف میں اظہار کی ایک جہدِ مسلسل ہی تو ہے۔ پھر جس ادیب یا شاعرکے اظہار میں زیادہ وسعت اور تہذیب ہو اس کا مرتبہ اور مقام اسی لحاظ سے متعین ہو جاتا ہے۔ مگر یہ تو ہر ادبی کاوش کے حوالے سے ایک عمومی بات ہے۔


بات نعتِ مصطفیٰ ﷺ کے حوالے سے ہو یا مالک الملک کی حمد و ثناء کے ضمن میں، اظہار کے سب وسائل اور ذرائع ہیچ ہوتے ہیں اور طبعِ مشّاق طفلِ مکتب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ غالب اردو غزل کے شہنشاہ ہیں مگر جب ان کی طبع نعت پر متوجہ ہوتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں :


غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتم

کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است


وہ دیکھ لیتے ہیں کہ نعت میں اظہارِ محبت و عقیدت اور ثنائے خواجہ کے تقاضوں سے عہدہ برآ نہیں ہو سکیں گے اور یہی عجز اور اس کا پاکیزہ پیرایۂ اظہار ان کا تجربۂ نعت بن جاتا ہے۔ یہ تجربہ ان سے پہلے شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے بھی کیا تھا جب انہوں نے لکھا :


لا یمکن الثناء کما کان حقہٗ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر


تجربۂ شعریت سے گزرنے والے ہر حساس ذہن نے یہ عجز محسوس کیا اور قصۂ مختصر کو نعت کی معراج سے ہمکنار کر دیا ۔ دیکھنے میں یہ حسرتِ اظہار کا اعتراف ہی تو ہے ۔ شعری تجربہ ایک متنوع تخلیقی عمل ہے۔ ضروریاتِ اظہار نے اصنافِ شعر تخلیق کیں اور تنوع وجود میں آیا۔ غزل سے نہ بن پڑی تو بات نظم تک پہنچی، وہی نظم کہیں قصیدہ بن گئی کہیں مرثیہ کی شکل میں ڈھل گئی اور کہیں مثنوی کی خلعتِ فاخرہ میں ملبوس ہو گئی۔ غالباً یہ ادب میں نظریۂ ضرورت کی حقانیت کی مختلف صورتیں ہیں۔ مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ نظم میں، مرثیہ ہو، قصیدہ ہو یا مثنوی، تغزل کا گذرممکن نہیں۔ شعری حسن جہاں جہاں نظر آئے گا اس کی تہ میں تغزل کے دھنک رنگ ضرور بکھرے ملیں گے۔ حالیؔ غزل کے بے پناہ شاعر تھے اور مسدس کا کینوس تغزل کے رنگوں سے عاری نہیں۔ مرزا انیس جب مرثیہ نگاری کی معراج کو پہنچتے ہیں تو غزل ان کو کاندھا دیئے کھڑی ملتی ہے۔ مثنوی میں حفیظ جالندھری کے شاہنامہ اسلام کا تذکرہ کئے بغیر بات مکمل نہیں ہو سکتی مگر وہ حفیظ جو غزل میں ملتے ہیں مثنوی شاہنامہ اسلام میں جا بجا ملتے ہیں اور وہیں وہ نعت بھی کہہ رہے ہوتے ہیں حالانکہ مثنوی ایک ایسی صنف ہے جس میں سحر البیان اورزہرِ عشق کی روایت اردو ادب کا تاریخی ورثہ ہے۔ یہ بات رہی نظم کی مختلف صورتوں میں غزل کے تصرف کی۔ جب ہم غزل کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں ہمیں قصیدہ جھلملاتا نظر آتا ہے۔ میر دردؔ، میر تقی میرؔ اور غالبؔ کے ہم عصر ہیں مگر ان کی غزل میں حمد کے مضامین برگد کی گھنی چھائوں کی طرح سایہ فگن ہیں۔ امیر مینائی کے کلام میں ہمیں جہاں جہاں مینائی ملتے ہیں وہاں وہاں شعری تجربہ حمد و تصوف کے گہرے پانیوں میں غوطہ زن ملتا ہے۔ مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ تمام اصنافِ شعر خواجہِ کونین ﷺ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں سرنگوں ہو کر ہدیۂ درود و سلام پیش کر کے نجاتِ اخروی کا جواز حاصل کرتی ہیں۔ شعرائے نعت کے ہمراہ یہ سب اصناف بھی اس حقیقت سے آگاہ نظر آتی ہیں :


ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا


محسن کاکوروی نے کیا خوب کہا ہے :


ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیری خالی

نہ مرا شعر نہ قطعہ نہ قصیدہ نہ غزل

مگر تمام اصناف ِشعر میں غزل کے شعراء مقام معراج پر ہیں کیونکہ انہیں غزل کا براّق میسر ہے جو مقامِ سدرہ تک پرفشاں رہتا ہے۔ فیض، احمد فراز اور احمد ندیم قاسمی کی غزل ہو یا حفیظ تائب کی نعت، شعریت اور تغزل کے حوالے سے ایک ہی تہذیبی، ادبی، لسانی اور فنی وسائل و ذرائع سے مستفیض ہوتے نظر آتے ہیں۔


نعت ایک شعری تجربہ ہے جو اپنے تخلیقی عمل کے اعتبار سے غزل ہی کی ایک صورت ہے اور نعت کے وہ شعراء جو غزل گو تھے کمالِ فن کو پہنچے۔ نعت مثنوی، قصیدہ اور مرثیہ، معریٰ آزاد نظم ہر تخلیقی قالب میں موجود نظر آتی ہے مگر فنِ نعت کا خمیر تغزل سے اٹھتا ہے اور نعت کا حسن، حسنِ تغزل میں ملفوف ہے۔ یہی بات جناب احمد ندیم قاسمی نے ریاض حسین چودھری کی’’ زر معتبر ‘‘کا پسِ ورق لکھتے ہوئے تحریر کی ہے :


’’گزشتہ ربع صدی میں ہمارے ہاں نعت نگاری نے بہت فروغ پایا ہے۔ جن شعراء نے اس صنفِ سخن میں ہمیشہ زندہ رہنے والے اضافے کئے ہیں ان میں ریاض حسین چودھری کا نام بوجوہ روشن ہے۔ اس دور کے سب سے بڑے نعت نگار حفیظ تائب نیز ایک اوراہم نعت نگار حافظ لدھیانوی کی طرح ریاض حسین چودھری نے بھی آغاز غزل سے کیا۔۔۔۔ ‘‘


میں اس میں صرف یہ اضافہ کروں گا کہ ریاض کی نعت نے جدید غزل کو وہ وسعتِ داماں عطا کی ہے جو اس سے پہلے اردو غزل کے حصے میں نہ آ سکی۔ اگر غزل کو ھیئت اور مخصوص مضامین کے شکنجے سے آزاد ایک تخلیقی تجربہ سمجھا جائے جو محبت کی سرشاری اور لفظ اور لہجے کی موسیقی سے وجود میں آتا ہے تو یہ کہنا کچھ غلط نہیں کہ غزل نے آستانۂ ریاض سے جی بھر کر فیض پایا ہے۔ اردو غزل کا دامن بہت وسیع ہے اور نعت کا کینوس تو زمان و مکاں سے بھی ماوراء ہے۔ اس طرح نعت غزل کے مقابلے میں وسیع تر شعری اور تخلیقی تجربہ ہے مگر یہ دو اصنافِ شعر ہم جنس ہیں اور ایک ساتھ محوِ پرواز ہیں۔ ہاں اگر غزل کی پرواز زمان و مکاں تک محدود ہے تو نعت کی جولا نگاہ ان سے ماوراء ہے۔ اس مقام پر غزل عجز و نیاز میں سر نگوں نظر آتی ہے۔


اردو غزل پر یوسف حسین خاں اور ان کے بعد آنے والے نقاد مؤرخین نے دل کھول کر لکھا ہے۔ یہاں اوصافِ غزل کا احاطہ مقصود نہیں مگر اتنا جاننا ضروری ہے جیسا کہ جدید تر اردو غزل میں ارشد محمود شاد لکھتے ہیں :

’’غزل کے طویل تخلیقی سفر کو نگاہ میں رکھیں تو یہ معلوم ہو جائے گا کہ غزل ایسی عجیب صنفِ سخن ہے جو بیک وقت لچک بھی رکھتی ہے اور شدت بھی۔ یہ دونوں حالتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں تاہم غزل کا مزاج انہی دو متضاد حالتوں کے ارتباط سے عبارت ہے۔ غزل نے نئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے اور اپنے دائرے کو وسعت آشنا کرنے کے لئے ہمیشہ اظہار کی نئی صورتوں کے لئے درِ دل وا رکھا ہے۔ غزل کا یہ رویہ اس کی لچک کا غماز ہے۔ اس کے برعکس غزل اپنے معیارات کی سختی سے پابند رہی ہے اور ان معیارات پر کسی قسم کا سمجھوتا کرنا اس کے مزاج میں شامل نہیں ہے۔ غزل کا یہ رویہ شدت اور سختی کو ظاہر کرتا ہے۔ غزل کے ان دونوں رویوں کو نگاہ میں رکھے بغیر اس کے مزاج کو مکمل طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزل کے حوالے سے کئے گئے ایسے تجربات ناکام ہوتے ہیں جن میں غزل کی لچک اور شدت کو پیشِ نظر نہیں رکھا گیا۔ ‘‘


غزل کی یہی لچک ہے جس سے ایک نفسِ خلّاق غزل کہتے کہتے وادیٔ بطحا کی تخلیقی وسعتوں کا زائر بن جاتا ہے۔ غزل نے اپنے دائرے کو وسعت سے کیونکر آشنا کرنا ہوتا ہے؟ اس لئے کہ یہی اس کا مزاج ہے۔ غزل بطور صنفِ شعر وادیٔ نعت کے حوالے سے اپنا دامن نہیں سمیٹتی بلکہ گریباں چاک، وارفتہ، منزلِ جاناں کی طرف لپکتی ہے کہ یہ تو وہ آستانہ ہے جہاں سے ہر بھکاری زمان و مکاں کے خزانے اپنے دامن میں سمیٹ کر اٹھتا ہے۔ پھر نعت کے تخلیقی تجربے کو تغزل سے کیونکر متفرق رکھا جائے! غزل اپنے مزاج کی اسی وارفتگی کی بدولت درِ حبیب پر کاسہ بکف ہے کہ اس میں وسعتِ دوراں، دردِ پنہاں، شبِ ہجراں، بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل، اور جدید تر اردو غزل کا وہ سارا علاماتی لائو لشکر جو آج کے دور میں اس کی فتح کا ضامن ہے، اس کے ارتقاء کا سامان کرتا رہتا ہے، جہانِ نعت میں یہ سب کچھ اسے وافر ملتا ہے۔


ریاض حسین چودھری کا اس صنفِ ادب کے حوالے سے یہی وسیع تر، جدید تر اور حقائق پر مبنی وہ فلسفۂ تخلیقِ فن ہے جس کا احساس اُس شعر سے شروع ہوتا ہے جو ریاض نے اپنی زندگی کی سب سے پہلی نعت تخلیق کرتے ہوئے لکھا اور جو آج تک ان کے احساسِ فن پر محیط ہے۔ آج البتہ اس فلسفے کا تخلیقی اظہار ’’غزل کاسہ بکف ‘‘کی صورت میں مجسم نظر آتا ہے۔ ریاض کا یہ وہ کارنامہ ہے جس سے انہیں تغزلِ نعت میں امامت کا مقام عطا ہوا ہے۔


ریاض کا پہلا شعری مجموعہ’’ زر معتبر‘‘ جولائی 1995 میں شائع ہوا جس میں تخلیقِ نعت میں احساس تغزل طلوع صبح کی مانند روشن ہے :


آنسوؤں سے فروزاں ہے بزمِ غزل

تلخ ہے شعر کا ذائقہ یا نبیؐ

میرے الفاظ کو بھی دھڑکنا سکھا

میری مقبول ہو التجا یا نبیؐ


زرِ معتبر ہی کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔ وہ اپنے فنِ نعت کو غزل ہی سمجھتے ہیں :


کروں میں بھی حنا بندی گلستانِ سخن تیری

غزل کہتی چلے صلِ علیٰ طیبہ کی گلیوں میں


زرِ معتبر میں ریاض چودھری نعت نگاری کا اہتمام کرتے ہوئے ’’اہتمام‘‘ کے عنوان سے لکھی ہوئی نظم میں غزل گو ہیں :

زباں آبِ زر سے وضو کر کے آئے

لغت کورے کاغذ پہ آنکھیں بچھائے

پسِ حرف جذبوں کی مشعل جلائے

تغزل جبینِ سخن کو سجائے

دھنک سات رنگوں کی رم جھم اٹھائے

مرے دامنِ شعر میں جھلملائے

قصیدہ جمالِ نبیؐ کا سنائے

غزل مجھ پہ احسان اپنا جتائے


’’اہتمام‘‘ کے اشعار پڑھنے سے یہ تصور ضرور واضح ہوتا ہے کہ ریاض غزل سے کیا مراد لیتے ہیں۔ احساسِ تغزل کے حوالے سے زرِ معتبر کے درج ذیل اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں :


ثروتِ جمہور ہو جانِ ابد روحِ ازل

ڈھونڈتی ہے تیرے دل آویز جلووں کو غزل

مزید یدکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
مضامین میں تازہ اضافہ
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات