نعت رنگ - شمارہ نمبر 25 - اپنی بات - صبیح رحمانی

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 09:59، 22 مارچ 2017ء از Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←‏کیف رضوانی(مرحوم))
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

نعت رنگ : شمارہ نمبر 25

اپنی بات، صبیح رحمانی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

الحمدللہ! نعت رنگ اپنی اشاعت کی پچیسویں منزل سرکرنے میں کامیاب وکامران ہوا۔تقریباً بیس سال پہلے نعت کی تخلیقی رو‘کو نئے شعورسے ہم آہنگ کرنے‘نعتیہ ادب کوادب کے مرکزی دھارے سے ملانے اوراس کی فکری اورتنقیدی جہتوں کوواضح کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ادب کے بامعنی سرمائے کا حصہ بنانے کے لیے جو سفر آغاز کیا گیا تھا اس نے کامیابیوں کی کتنی منازل طے کیں؟ اس کا اندازہ کرنا تومستقبل میں ادب کے مورخین کاکام ہے سواسے ان ہی پرچھوڑدینا چاہیے ۔مگر اس مرحلے پر مجھے نعت رنگ کی ابتدا سے لے کر آج تک اس کے تمام قلمی معاونین کے ساتھ ساتھ زیر نظر شمارے میں شامل ان تمام دوستوں کا بطورِ خاص شکریہ اداکرنا ہے جنہوں نے نعت رنگ کواپنے افکار کی رنگارنگی سے خوبصورت اور فکر انگیز بنایا۔ ان تمام دوستوں اوربزرگوں کے تعاون اورقلمی معاونت کے نتیجے میں نعت رنگ کے گذشتہ شماروں میں صنفِ نعت کی تنقید وتحقیق کے حوالے سے جو کام ہواہے و ہ اردو زبان وادب کی تاریخ کے حوالے سے عقیدت نگاری کے باب میں اب تک کی جانے والی متفرق کوششوں کوایک واضح اورمنفرد جہت عطاکرتاہے۔شمارہ 25 تک آتے آتے نعت رنگ کاشعری،ادبی،تخلیقی اورتنقیدی اثاثہ اس اہمیت کا حامل ضرور ہوگیاہے کہ آئندہ صنف نعت پرکسی بھی کام کے لیے اسے لازمی حوالے کی حیثیت حاصل رہے گی۔یہ سب ربِّ کریم کی تائید وتوفیق کے ساتھ ساتھ نعت رنگ کے قلمی معاونین کی مخلصانہ اورپُرخلوص کاوشوں کاہی نتیجہ ہے۔

کاش نعت رنگ کی اشاعت کے تسلسل اوراس کی ہمہ جہت خدمات اورمقبولیت کے وسیع ہوتے ہوئے دائرے کو اس سلورجوبلی شمارے کی صورت میں دیکھنے کے لیے آج ڈاکٹر غلام مصطفی خاں،ڈاکٹر نبی بخش بلوچ ،ڈاکٹر سیدمحمد ابوالخیر کشفی،ڈاکٹر فرمان فتح پوری، مشفق خواجہ،ڈاکٹر عاصی کرنالی،پروفیسر شفقت رضوی ،پروفیسر حفیظ تائب،ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی،مظفروارثی ،رشید وارثی ، پروفیسر محمد اکرم رضا،حنیف اسعدی،اد یب رائے پوری،تابش دہلوی،شبنم رومانی،سرشار صدیقی ، پروفیسرجعفر بلوچ،شفیق الدین شارق،جمال پانی پتی،پیرزادہ محمد اقبال فاروقی،علامہ عبدالحکیم شرف قادری ،مولانا اسید الحق قادری ،ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی،عبدالعزیز خالد ،ڈاکٹر نجم الاسلام اور آفتاب کریمی جیسی شخصیات ہمارے درمیان موجودہوتیں جنہوں نے ہرمرحلے پر نعت رنگ کو اپنی توجہ ، پسندیدگی،رہنمائی اور حوصلہ افزائی سے نوازا۔دم تحریر ان میں سے ہر ایک کا مسکراتا چہرہ میرے سامنے ہے اور میراحوصلہ بڑھارہاہے بالکل اسی طرح جس طرح نعت رنگ کی ہر نئی اشاعت پران کی محبتیں میرے عزم کومستحکم کرنے کا باعث بنتی تھیں۔نعت رنگ کے رنگوں میں اعتماد اوراعتبار کے جتنے بھی رنگ ہیں وہ اس کے قلمی معاونین اور سرپرستوں کی حوصلہ افزائی ہی سے نمایاں ہوئے ہیں۔دعاہے کہ ربِ کریم ان مرحومین کو اس خدمت کااجر اپنی شان کے مطابق عطافرمائے اور جو حیات ہیں انہیں تادیر صحت وسلامتی کے ساتھ ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے سائبان میں رکھے۔

زیر نظر شمارے کی تیاری میں میری کوشش رہی ہے کہ نعت رنگ اپنے تشکیلی دورسے نکل کر ایک رحجان ساز اور تاریخ ساز تکمیلی دور میں داخل ہوتا نظر آئے۔ یقیناًیہ مشکل کام تھا اورایک مشترکہ جدوجہد چاہتا تھا سوتمام قلمی معاونین اس خصوصی شمارے کے حوالے سے بھی ہمارے خصوصی شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس دعوت پرلبیک کہتے ہوئے اپنی عقیدت اورفن کے تال میل اور شعور وادراک کی ہم آہنگی سے نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی پوری تخلیقی اورمعنوی کائنات پرغور وفکر کے نئے زایوں اورنئے امکانات کو پیش کرتے ہوئے اس شمارے کو ادب نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے فروغ میں فکر افروزی کی ایک عصری دستاویز بنادیاہے۔

منہاج القرآن یونیورسٹی میں نعت چئیر کا قیام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

فروری 2015 میں ماہ ربیع النور کے سلسلے میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے اجتماعات میں شرکت کی غرض سے دو ڈھائی ماہ کینیڈامیں قیام رہا مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب بھی کینیڈا ہی میں تشریف رکھتے ہیں۔چنانچہ ڈاکٹر ضیاء الحق رازی جو ڈاکٹر طاہرالقادری کے تحقیقی امور میں معاون ومددگار کے طورپر ڈاکٹر صاحب کے قریب ہیں ،ان سے خواہش کا اظہار کیا کہ ملاقات کی کوئی سبیل نکالی جائے ۔ رازی صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے بات کی اور یہ میری خوش نصیبی ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے باوجود علالت کے مجھے خصوصی طورپر ملاقات کا شرف عطا فرمایا ۔اس طرح ایک معینہ وقت پرمیں اور میرے نہایت عزیز دوست سید نہال احمد ،ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچے ڈاکٹرصاحب کی صحت کے مسائل ان کے چہرے سے عیاں تھے پھر بھی نعت کے تعلق سے انہوں نے ہمیں خاصا وقت دیا۔میں نے انہیں نعت ریسرچ سینٹر کے قیام،مقاصد اورمنصوبوں کے بارے میں تفصیلاًآگاہ کیا اور اس کے تحت شائع ہونے والی چند مطبوعات ان کی خدمت میں پیش کیں ۔ ساتھ ہی منہاج القرآن یونیورسٹی میں نعت چئیر کے قیام کے لیے درخواست بھی پیش کردی۔اورانہیں یہ بھی بتایا کہ میں نے پاکستان کی تمام بڑی جامعات کواس سلسلے میں خطوط لکھے تھے ۔مگراس کے جواب میں مجھے یہ طریقِ کار بتایا گیا کہ نعت چیئر کے لیے یونیورسٹی کو پانچ کروڑ روپے کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑی توجہ سے میری گزارشات کو سنا مطبوعات کو دیکھا اوراپنی خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے نعت ریسرچ سینٹر کی خدمت کوسراہا اورساتھ ہی منہاج القرآن یونیورسٹی میں نعت چئیر کے لیے بھرپور آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ’’ اگر منہاج القرآن یونیورسٹی میں نعت چئیر قائم نہ ہوسکی تو اس ادارے کے وجودکا جوا ز ہی نہ رہے گا‘‘۔ڈاکٹر صاحب نے مجھے منہاج القرآن یونیورسٹی کے حوالے سے اپنی ترجیحات اورتوقعات کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتایا جسے جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ ان کی نظر یونیورسٹی کے نصاب،نصب العین،نظم وانتظام کے ساتھ تعلیمی اورتحقیقی معیارات کے تمام زاویوں پر بھی بہت گہری ہے۔ وہ منہاج القرآن یونیورسٹی کو دنیا کی عظیم الشان جامعات کے مقابل ایک نمایاں حیثیت میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں اوراپنے اس خواب کوتعبیر سے ہمکنار کرنے کے لیے انہوں نے اپنے دونوں صاحبزادگان ڈاکٹر حسن محّی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محّی الدین قادری کو ذہنی،علمی اورفکری طو ر پر جس طرح تیارکیاہے وہ ان کے منصوبہ ساز ذہن اورقائدانہ صلاحیتوں کاعکاس ہے ۔ جولوگ قوموں کی زندگی میں تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں وہ اپنے رہنمایانہ کردار کوعملی زندگی میں اسی طرح شعور اورسلیقے سے ظاہر ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے اپنی گفتگو میں نعت کے تنقیدی زاویوں پربھی بات کی اورمحافلِ نعت میں در آنے والی اکثربے تمیزیوں کی طرف اشارے بھی کیے۔ جس سے ان کے گہرے تنقیدی شعور اورشاعرانہ ذوق کا اظہاربھی ہوا۔

یہ ملاقات میرے لیے کئی حوالوں سے بڑی اہم ثابت ہوئی ایک تو ڈاکٹر علامہ محمد طاہر القادری صاحب جیسی ہمہ جہت علمی ودینی شخصیت سے ہم نشینی اوردوسرے اپنی درخواست کی قبولیت (نعت چیئر کا قیام ) یہ دونوں باتیں میرے لیے روحانی سرشاریوں کا باعث بنیں ۔خدا کرے منہاج القرآن یونیورسٹی میں نعت چئیر کا جلدباقائدہ قیام عمل میں آئے اورامت اس کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہو۔آمین

فروغِ نعت کے نئے آفاق[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

فروغِ نعت کے نئے آفاق پر گفتگو کرتے ہوئے مجھے نعت رنگ کے ابتدائی اداریے یاد آرہے ہیں جن میں اکثرمیں نے صنف نعت سے اربابِ ادب کی عدم توجہی کا گلہ کرتے ہوئے ان خواہشات کا اظہار کیا کہ نعتیہ ادب کو بھی ادب سمجھ کر قبول کیا جائے اور اس کے محاسن اور ادبی پہلوؤں کا جائزہ بھی اتنی ہی سنجیدگی سے لیا جائے جتنی سنجیدگی سے ادب کی دیگر اصناف کو دیکھا جاتا ہے۔ نعت رنگ کو نعت شناسی کی ایک تحریک کا رنگ دیتے ہوئے یہ بات ہمیشہ میرے پیش نظر رہی ہے کہ نعت صرف ایک صنف سخن ہی نہیں ہے بلکہ اس کا موضوعِ عظیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذات اقدس کے حوالے سے اسلام اورامتِ مسلمہ کے تما م گوشوں کو محیط ہے ۔اسی لیے نعت گوئی ہمارے لیے محض تہذیبِ نفس یا تطہیر نطق کا وسیلہ نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی تعمیر‘ اصلاح اوردینِ اسلام کی تبلیغ و توسیع کا ذریعہ بھی ہے۔ درحقیقت نعت رنگ کا سارا سفر اسی شعور کو عام کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔

یہ بات خاصی خوش آ ئند ہے کہ نعت کے ادبی فروغ کے لیے ’’نعت رنگ‘‘ کی بیس سالہ جدوجہد کے نتیجے میں نعت کی ادبی مقبولیت کا اب ایک ایسا ماحول بن گیا ہے کہ معاصر ادبی منظر نامے پر نعت کے تخلیقی وفور کی ایک تازہ لہر نظر آتی ہے جس میں اردو کے نامور شعراکے دوش بدوش نوآموز شعرا بھی نعت گوئی کو اپنے تخلیقی اظہارکا ذریعہ بنارہے ہیں۔ نعت رنگ میں تنقیدی مباحثوں اورمکالموں کے روشن ہونے سے آداب نعت گوئی کے باب میں شعراکا احساس ذمہ داری بڑھتا ہوادکھائی دیتاہے۔ نعت کو تنقیدی کسوٹی پر پرکھنے میں جو اندیشے مانع تھے وہ دورہوئے ہیں اور علمی ، لسانی،عروضی اورتنقیدی زاویوں سے بے لاگ گفتگوکی ایک ایسی فضا قائم ہوئی ہے جس ادبی سطح پر نعت کی مقبولیت میں بتدریج اضافہ ہورہاہے نعت کو دانستہ یا نا دانستہ نظر انداز کرنے والے حلقوں میں بھی اس کو بطورِ صنفِ سخن دیکھنے اور اس کی اہمیت کوتسلیم کرنے کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔اس عمل میں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں طرح کے ادبی ادارے اب خاصے فعال نظر آرہے ہیں۔بقول مجاز ؔ کچھ اس طرح کا منظر نامہ بن رہا ہے :

ذہنِ انسانی نے اب اوہام کے ظلمات میں

زندگی کی سخت طوفانی اندھیری رات میں

کچھ نہیں تو کم سے کم خوابِ سحر دیکھا تو ہے

جس طرف دیکھا نہ تھا اب تک، ادھر دیکھا تو ہے

جشنِ نعت، حیدرآباددکن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

2002 میں ادارۃ الانصار اور سالارِ جنگ میوزیم حیدرآباد دکن کے زیرِ اہتمام دوروزہ عظیم الشان کل ہند سیمینار بعنوان ’’جشنِ نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم‘‘ منعقد ہوا۔ ہندوستان بھر سے اہم ادبی شخصیات نے اس سیمینار میں شرکت کی اور مقالات پیش کیے۔ انہی مقالات پر مشتمل ایک مجموعہ ’’مقالاتِ نعت‘‘ میرے پیشِ نظر ہے جسے اسد سنائی(جو خود بھی دکن ایک معتبر نعت گو ہیں) نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب الانصار پبلی کیشنز، حیدرآباد ، دکن نے قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے تعاون سے دسمبر 2013 میں شائع کی ہے۔ مقالات کے اس مجموعے میں ڈاکٹر شاہ خسرو حسینی، ڈاکٹر قاضی جمال حسین،سلیم شہزاد، ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط، علیم صبا نویدی، ڈاکٹر مصطفےٰ شریف، ڈاکٹر سید طلحہٰ رضوی برق، ڈاکٹر محمد علی اثر، ڈاکٹر رحمت یوسف زئی، ڈاکٹر محمد نسیم الدین فریس، سکندر احمد، ڈاکٹر لطف الرحمٰن، ڈاکٹر عبدالحمید، ڈاکٹرراہی فدائی، ڈاکٹر مظفر شہ میری اور ڈاکٹرسید شاہ محمدحسیب الدین حمیدی کی تحریریں شامل ہیں۔ نعت کے ایک خدمت گزار کی حثیت سے یہ بات میرے لیے نہ صرف بہت اہمیت رکھتی ہے بلکہ خوشی کا باعث بھی ہے کہ اس مجموعے کے تمام مقالہ نگار بھارت ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب پاکستان کی طرح بھارت میں بھی نعت شناسی کی فضا بن رہی ہے۔ بھارت کی جامعات میں نعت پر لکھے جانے والے تحقیقی مقالات سے قطع نظر اب اس طرح کے ادبی اداروں کا وہاں نعتیہ ادب پر سیمینار منعقد کرنا اور ان میں پیش کیے گئے مقالات کا سرکاری اداروں کے تعاون سے شائع ہونا ، نعت شناسی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب جناب وہاب اشرفی کے رسالے ’’مباحثہ‘‘ میں کچھ پرانے ترقی پسندوں اس تعصب کے برملا اظہار کی گونج سنائی دے رہی تھی کہ ادبی رسائل میں حمد و نعت کے شائع ہونے سے اردو جیسی سیکولر زبان کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ مقالاتِ نعت کی اشاعت کے اور ادبی رسائل و جرائد میں نعت کی شمولیت باعثِ اطمینان ہے۔ نعت رنگ(ہندوستانی ایڈیشن) اور جہانِ نعت (مدیر : غلام ربانی فدا ) جیسے نعتیہ جرائد کا بھارت سے اشاعت پذیر ہونا،ادبی پرچوں کانعت کو اپنی اشاعتوں کی اپنی زینت بنانااورنعت نمبروں کی اشاعت کا اہتمام کرنا وہاں کے ادبی منظر نامے پر ایک مثبت تبدیلی کی علامت ہے۔

عالمی اردو کانفرنس اور نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

19؍اکتوبر 2014ء کو آرٹس کونسل آف پاکستان ، کراچی کے زیرِ اہتمام ساتویں عالمی اردو کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں پہلی بار نعت پر بطور صنفِ سخن ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس کا عنوان ’’اردو زبان اور نعتیہ ادب‘‘ تھا۔ یہ اجلاس جن حالات میں منعقد ہوا اور جیسی بے توجہی کا شکار رہا اس کے باوجود، آرٹس کونسل کے اربابِ حل و عقد کو مبارکباد پیش کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا جب نعت کو بطور صنفِ سخن پہلی بار کسی عالمی اردو کانفرنس میں جگہ ملی۔اس اجلاس کی صدارت افتخار عارف نے کی اور اظہارِ خیال کرنے والوں میں پروفیسرسحر انصاری ، ڈاکٹر عزیز احسن، گوہر اعظمی،شوکت عابد، احمد شاہ، محمود احمد خان اور راقم الحروف شامل تھے۔ آرٹس کونسل کے سیکریٹر جنرل، جناب احمد شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ آئندہ آرٹس کونسل کے زیرِ اہتمام ہونے والی عالمی اردو کانفرنس میں نعتیہ شاعری پر ایک اجلاس ہمیشہ منعقد کیا جائے گا۔ ہم نعت ریسرچ سینٹر کی جانب سے آرٹس کونسل‘ پاکستان کے ممنون ہیں کہ انہوں نے نعت شناسی کی تحریک کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

انجمن ترقیء اردو اور نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

17جنوری 2015 کو انجمن ترقی اردو، کراچی نے پہلی مرتبہ ایک مذاکرہ بعنوان ’’صنفِ نعت، ادبی اور ثقافتی ورثہ‘‘منعقد کیا ۔جس میں شیخ الجامعہ اردو یونیورسٹی جناب ڈاکٹر ظفر اقبال، ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی، ڈاکٹر ستیہ پال آنند، پروفیسر سحر انصاری،پروفیسر انوار احمد زئی، ڈاکٹر عزیز احسن،محترمہ شائستہ زیدی، طاہرسلطانی، صاحبزادہ عباس وغیرہم نے مقالات پیش کیے اور ڈاکٹر فاطمہ حسن نے بحسن و خوبی اس اجلاس کی نقابت کے فرائض انجام دیے۔ اس مذاکرے میں مقررین اور مقالا نگاروں کے علاوہ شہر کے کثیر اہلِ علم نے شرکت کی ۔اس کاوش پر انجمن ترقی اردو کے اربابِ بست و کشاد ہماری دلی مبارک باد کے مستحق ہیں۔

حلقہء اربابِ ذوق، کراچی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

22؍جولائی 2013 ء کو آرٹس کونسل کراچی میں، حلقہء اربابِ ذوق کی تنقیدی نشست کا اہتمام ہوا جس میں ڈاکٹر عزیزؔ احسن نے ’’نعتیہ ادب میں تنقید کی اہمیت‘‘ پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ بعد ازاں اسی حلقے کی ایک اور تنقیدی نشست منعقدہ اتوار ۶؍جولائی ۲۰۱۴ ء میں ڈاکٹر عزیزؔ احسن کو ’’آزاد نظم میں نعتیہ اقدار‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی دعوت دی گئی اور انہوں نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ ہم حلقہء اربابِ ذوق ، کراچی کے احباب کی نعت سے دلچسپی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جناب عقیل عباس جعفری اور ان کے رفقا ء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ اس ادبی فورم پر انہوں نے دیگر اصنافِ سخن کی طرح نعت کو بھی اہمیت دی اور تنقیدی نشست میں اس پر گفتگو کا اہتمام کیا۔

سنڈے میگزین ، روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی اور گوشۂ نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ڈاکٹر عزیزاحسن ( ڈائرکٹر نعت ریسرچ سینٹر) کو سنڈے میگزین، روزنامہ جسارت، کراچی کے میگزین اڈیٹر جناب اجمل سراج نے متعدد بار دعوت دے کر ان سے نعتیہ ادب پر کئی مقالات لکھوائے جو میگزین کے ادبی حصے کی زینت بنتے رہے۔ مقالات کا یہ سلسلہ جلد ہی مقبولیت کی بلندیوں کوچھونے لگا ۔تب اجمل سراج ایک دن نعت ریسرچ سینٹر کے دفتر تشریف لائے اور بڑے خلوص سے یہ تجویز میرے سامنے رکھی کہ جسارت سنڈے میگزین اب اپنا ایک خصوصی صفحہ نعتیہ ادب کے لیے مختص کرنا چاہتا ہے،آپ اس کے لیے کوئی نام تجویز کردیں۔ الحمد للہ! اسی وقت یہ طے ہوا کہ ’’نعت کائنات‘‘ کے عنوان سے ایک صفحہ مختص کیا جائے گا جو ادبی صفحات میں ایک جداگانہ تشخص اور تسلسل کے ساتھ شائع ہوتا رہے گا۔ اب اس صفحے پر ڈاکٹر عزیز احسن اور منظر عارفی سمیت دیگر نعت شناسوں کے مضامین اورمختلف شہروں میں منعقد ہونے والے نعتیہ مشاعروں کی رپورٹیں قارئین کی دلچسپی کاباعث بنی ہوئی ہیں۔

جسارت سنڈے میگزین کی اس کاوش کواسلامی ادب سے دلچسپی رکھنے والے ایک بڑے حلقے نے بالخصوص اور ادبی حلقوں نے بالعموم اپنی پسندیدگی سے نوازا اور اسے مدح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ذریعے ایک خوبصورت اسلامی معاشرے کی تشکیل کی کوششوں کا حصہ بھی قرار دیا۔ہم ’’نعت کائنات‘‘ کی کامیاب اشاعتوں پر جناب اجمل سراج اور ان کے ادارے کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا!

سہ ماہی ادبیات، اسلام آباد کا نعت نمبر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اکادمی ادبیات پاکستان،اسلام آباد، ایک سرکاری ادارہ ہے جو پاکستان کی قومی اور علاقائی زبانوں کے ادب اور ادیبوں پر مختلف حوالوں سے کام کرتا رہتا ہے۔ سہ ماہی ادبیات ، اسی ادارے کے تحت شائع ہونے والا ایک ادبی جریدہ ہے۔ مقامِ شکرہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد اس ادارے کی توجہ نعتیہ ادب کی جانب بھی مبذول ہوئی ۔ ادبیات کا شمارہ 101، جنوری تا جون 2014 نعت نمبر کی صورت میں منصہء شہود پر آیا۔ ہم اس ضمن میں اکادمی ادبیات پاکستان اور سہ ماہی ادبیات کی مجلسِ ادارت کو اس اہم پیش رفت پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ادارہ ادبیاتِ پاکستان‘ مستقبل میں نعتیہ ادب کے فروغ میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے نعت نمبروں کے ساتھ اور نعتیہ شاعری کے جامع انتخاب کی اشاعتوں کے اہتمام کی طرف بھی توجہ کرے گا۔

نئے دکھ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ کے ہرشمارے میں تحریر کی ایک منزل ایسی بھی آتی ہے جب میراقلم وفیات کی وادی میں اترتاہے ان ساعتوں میں دل کا عجب عالم ہوتاہے ہزار ضبط کے باوجود بچھڑنے والوں کا غم اشکوں کے سیل رواں کی صورت امنڈ آتاہے کئی راتیں ایسی گزرتی ہیں جن میں مرحومین کی یادوں کا ہجوم جاگتاہے اورجگاتاہے

اشکِ غم و الم سے ہیں آنکھیں بھری ہوئی

پھرتا ہوں کشتیوں میں سمندر لیے ہوئے <ref> ذوقی مظفر نگری </ref>

ایسی حالت میں حواس پرقابو رکھنا اورکچھ لکھنا کہاں ممکن رہتا ہے! مگر میری خواہش صرف یہ ہوتی ہے کہ اسم محمدصلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کے سائبان میں زندگی گزارنے والے ان خوش نصیبوں کا کچھ نہ کچھ تذکرہ مدح نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کی اس عصری دستاویز میں محفوظ ہوجائے ۔یہ ہماری تہذیبی ضرورت ہے ورنہ ان کے غلاموں کو ہمارے تذکرے کی ضرورت نہیں وہ جس ذکر سے رشتہ قائم کرچکے ہیں وہ ذکر ہی ان کی دائمی زندگی کی ضمانت فراہم کرتاہے بقول شاہ انصارالہٰ بادی ع

ان پہ مرتے ہیں تو مرتے نہیں مرنے والے

شفیق احمد فاروقی المدنی (مرحوم )[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ممتاز ومحترم روحانی پیشوا اورخوبصورت نعت گو شاعرقاضی شفیق احمد فاروقی کراچی سے تعلق رکھتے تھے۔ناظم آباد میں خانقاہ گلزار سعیدیہ ان کا اوران کے سلسلے کا باعظمت نشان ہے ہم ایک ہی شہر کے باسی تھے مگر عجیب بات یہ ہے کہ میری ان سے پہلی ملاقات دیارِحبیب صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم میں ہوئی میرے ایک محترم دوست ریاض احمد جو بن لادن کمپنی میں بحیثیت سول انجنئیرعرصہ 35 سال سے ملازمت کررہے ہیں اورمکہ المکرمہ میں مقیم ہیں اورتعمیرات حرمین شریفین میں تکنیکی معاونت فراہم کرنے پر مامور ہیں انہوں نے کئی بار شفیق احمد فاروقی صاحب کا ذکر کیا اورملاقات کے لیے دعوت دی چند برس پیشتر جب میں بغرض ملازمت جدہ منتقل ہوا تویہ مرحلہ بھی ان کی رفاقت ہی میں طے ہوا اورہم دونوں ایک دن شفیق صاحب سے ملنے گئے جو مدینہ طبیہ میں مقیم تھے۔شفیق صاحب کو میں نے اسم بامسمٰی پایا۔شفقت ،دل جوئی اورمہمان نوازی ان کی شخصیت کے ایسے عناصر تھے جو ان سے ملنے والے اشخاص پرچند ہی لمحوں میں واضح ہوکر ایک دائمی نقش قائم کرلیتے تھے اس ملاقات کے بعد ان سے ایک ایساتعلق خاطر پیداہواجوان کی زندگی تک قائم رہا اکثر فون پربات ہوتی وہ اپنے نعتیہ اشعار سناتے اورکئی بار بذریعہ برقی ڈاک اپنا کلام ارسال کرتے جواباً جب میں انہیں فون یاملاقات پران کلاموں کے حوالے سے اپنے تاثرات سے آگاہ کرتا تو وہ دعاؤں سے نوازتے ۔ نعت رنگ ، میاں محمد طبیب، اوران کے محبوب خلیفہ اور نعت ریسرچ سینٹر، کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عزیز احسن اکثرہماری گفتگو کے مشترکہ موضوعات میں ہوتے۔شفیق صاحب کی شخصیت کا سب سے نمایاں رنگ عشق نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کا رنگ تھا جو انہیں کراچی سے اٹھاکر مدینہ طبیہ لے آیا تھا مجھے ایسے کئی بزرگوں کی صحبت نصیب رہی ہے جو دنیا کے مختلف حصوں سے اٹھ کر مدینہ طبیہ میں آگئے کہ انہیں اس عارضی زندگی کے بعد دائمی زندگی کا ہر لمحہ حضور علیہ الصواۃ السلام کے قدمین میں نصیب ہو۔شفیق صاحب کو بھی میں نے انھی کیفیتوں اوراسی جستجو میں دیکھا بقیع میں آباد ہونے کی حسرت ان کی زندگی کا سرنامہ اوران کے کلام کی نمایاں خصوصیت تھی۔

تمنا دل میں رکھتے ہیں کہ موت آئے مدینے میں

یہیں پر دفن بھی ہوں ہم تمنا دل میں رکھتے ہیں

تمنا ہے نہ نکلیں ہم کبھی باہر مدینے سے

رہے جاری کرم پیہم تمنا دل میں رکھتے ہیں

بالآخراس منزل تمنا کو انہوں نے اگست 2014 میں پالیا اوربقیع آباد ہوئے(انااللہ وان الہٰ راجعون) ان کے صاحبزادے ضیاء فاروقی صاحب نے جب مجھے یہ خبر دی تو میرے ذہن میں ان کی خوش بختی کے حوالے سے نعت کایہ شعر تازہ ہوگیا۔

شکر صدشکر کے موت آئی در آقا پر

اب مدینے سے کہیں جانے کا امکان گیا

کیف رضوانی(مرحوم)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کھو جانا اپنی ذات میں اک عام بات ہے

انساں وہی ہے جس کو غم کائنات ہے

اس خوبصورت شعر کے خالق اورممتاز مزاح نگار کیف رضوانی 28 ستمبر 2014 کو کراچی میں وفات پاگئے(انااللہ وان الہٰ راجعون) ان کا اصل نام سید فخر الحسن تھا ان کے کالموں کا مجموعہ ’’کاناپھوسی‘‘ اورشعری مجموعہ’’ سحر گذیدہ‘‘ کے نام سے شائع ہوچکاتھا وہ اشتہار سازی کے ادارے سے منسلک رہے ۔کئی فلموں کے نغمات بھی کیف رضوانی کی شہرت کا ذریعہ بنے اور مزاح نگاری میں بھی ان کانام خاصا نمایاں رہا مگر مجھے یہ کیف رضوانی ایک درویشانہ رنگ میں ملے جس کا نقش اب تک میرے ذہن پر قائم ہے ایک محفل نعت کے اختتام پرایک بزرگ مجھ سے ملے ۔روشن نورانی چہرہ جس پرخوبصورت ریش مبارک اپنی بہار دکھارہی تھی متانت وجاہت اورگہری سنجیدگی ان کی شخصیت کے حسن کو مزید نمایا ں کررہی تھی میر ے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بہت دھیمے اوراپنائیت بھرے لہجے میں بولے میرانام کیف رضوانی ہے اورپھر ایک لفافہ تھماتے ہوئے بولے اس میں میری ایک نعت ہے جو میں نے آپ کے ایک کلام سے متاثرہوکر لکھی ہے آپ کے لیے لایا تھا ۔میں نے شکریہ کا اظہار کیا اور وہ لفافہ لے لیا پھر چند لمحوں میں کیف صاحب حاضرین کے ہجوم میں کہیں گم ہوگئے بعدازاں ان کا مجموعہ کلام دیکھنے کا موقع ملا تو مجھے اندازہ ہواکہ ان کی شاعری کا ہرپہلو اورہرموضوع اس امر کا مظہر تھا کہ وہ اپنے گرد وپیش کی سیاسی ،سماجی اوراس میں سانس لینے والی اجتماعی زندگی کے بناض وترجمان ہیں ان کی عطاکردہ نعت نے بھی مجھے روحانی سرشاریوں سے ہم کنار کیا۔ انہوں نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے شدید اورسچے جذبے کوشعری معیارات کے ساتھ نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے چند شعر آپ بھی ملا حظہ فرمائیے اوران کے لیے دعائے مغفرت میں میرے ہمنوا بن جاےئے۔

تقدیر سنور جائے سرکار کے قدموں میں

یہ جان اگر جائے سرکار کے قدموں میں

اک بار رکھو ں اُن کے قدموں میں یہ سراپنا

پھر عمر گذرجائے سرکار کے قدموں میں

یہ کیفؔ کی حسرت ہے ڈھل جائے وہ خوش بومیں

اور جاکے بکھر جائے سرکار کے قدموں میں

ابھی میں یہ سطور لکھ ہی رہا تھا کہ جناب شوکت عابد صاحب جوکیف رضوانی کے دیرینہ رفیق کار تھے تشریف لائے ۔انہیں معلوم ہوا کہ میں کیف رضوانی پرکوئی تعزیتی نوٹ لکھ رہاہوں توانہوں نے ایک ایسا واقعہ سنایا کہ مجھے کیف رضوانی کے کلام میں کیفیت اوروارفتگی کی اصل وجہ معلوم ہوگئی بقول شوکت عابد ، کیف رضوانی نے انہیں ایک دن بتایا کہ ان کے کوئی دوست عمرہ پرتشریف لے گئے توانہیں روضہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم سے آوازآئی کہ کیف رضوانی سے کہو کہ نعت لکھے اوریہ بات بتانے کے بعد کیف رضوانی زاروقطار رونے لگے انہوں نے کریم آقاصلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کے اس پیغام کے بعد غزل گوئی ترک کرکے نعت گوئی شروع کی ۔اپنے خوبصورت ترنم سے شاعروں کو لوٹنے والے کیف رضوانی حکم سرکار کے کیف میں ایسے گم ہوئے کہ صرف اور صرف نعت ہی کے ہوکر رہ گئے۔یہ بات سن کرمیرے دل میں یہ خیال مزید راسخ ہوگیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کا اپنے اُمیتوں سے تعلق کس درجہ قوی ہے جس پران کی چشم عنایت پڑجائے اسے نعت گوئی کی توفیق مل جاتی ہے مگر نعت گوئی کا حکم کیف رضوانی کو تو بہت واضح اورحکمیہ انداز میں ملا تھا۔مجھے اُن کی قسمت پر رشک آرہاہے ۔ ع

یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کے جائے ہے!

کاش ان کے اہل خانہ کیف رضوانی کے قلمی سرمائے سے ان کی نعتوں کو علیٰحدہ کرکے شائع کرنے کا اہتمام کرسکیں۔

پروفیسرڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج (مرحوم)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پروفیسرڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج 1960 میں کراچی میں پیداہوئے ۔حفظ قرآن ،قانون ،صحافت اور مطالعات اسلامی میں تعلیمی اسناد حاصل کرنے کے بعد انہوں نے قرآن مجید کے آٹھ منتخب تراجم کواپنی تحقیق کا موضوع بناکرپی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔قرآن فہمی ان کے ذوق اورشوق کا محور رہی ۔ سو (100)کے قریب تحقیقی مقالات اورپندرہ چھوٹی بڑی فکر انگیز کتابیں ان کا تحریری اورعلمی اثاثہ ہیں۔التفسیر کے نام سے ایک خالص علمی و تحقیقی جریدہ بھی نکالتے رہے ۔جامعہ کراچی کے شعبۂ مطالعات اسلامی کے صدر شعبۂ ڈین اورسیرت چئیر کے ڈائریکٹر تھے ۔ایک متحرک ، فعال اوروسیع النظر اوروسیع القلب شخصیت جس نے کراچی کے خون آشام ماحول میں ظلم تعصب تفرقہ بازی اور جہل کی تاریکی کو علم کے چراغوں سے کم کرنے کے کوشش میں اپنی زندگی صرف کی بالآخر18 ستمبر 2014 کو اس جہاد میں جام شہادت نوش کرکے اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ۔ (انااللہ وان الہٰ راجعون) موصوف کو شاعری سے بھی شغف رہا۔چند نعتیں بھی ان کے سرمای�ۂ علمی سے فراہم ہوئی ہیں ان کی ایک نعت 2012 میں نعت رنگ شمارہ 23 کی زینت بنی جوان کے نصیب العین جذبہ عمل اورعشق کا اعلامیہ تھی اس میں سے چنداشعار ملاحظہ ہوں:

ان کے نام پاک پر مرجائیے

موت کو فخر شہادت کیجیے

مرزع اسلام کو پھر سنیچ کر

قلبِ کافر پر قیامت کیجیے

حق پرستی کی سزا کیونکر ملے

آگے بڑھیے اور جرأت کیجیے

حق نے باطل کومٹایا جس طرح

پھر اسے زندہ حقیقت کیجیے

فیصلہ کن انقلاب آنے کو ہے

پیش دعوے پرشہادت کیجیے

موت کو فخر شہادت بنالینے والے اس باعمل عالم اورنعت گو کی یاد ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہے گی۔

ڈاکٹر مظفر حسن عالی(مرحوم)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ڈاکٹر مظفر حسن عالی یکم مئی 1959 میں بہار میں پیدا ہوئے ۔میرا ان سے ابتدائی تعارف سہہ ماہی الکوثر سہسرام کی وساطت سے ہوا جو مجھے جناب مولانا ملک الظفر سہسرامی کی طرف سے گاہے گاہے ملتا رہا۔ان شماروں میں مجھے جناب مظفر حسن عالی کی تحریروں نے خصوصی طورپر متاثر کیا ان کی تحریر کااسلوب اوران کا اندازِ فکر دونوں اس بات کو ظاہر کرتے تھے کہ وہ ادب کے نئے فکری زاویوں اورجدید مسائل سے آگاہ بھی ہیں اوران پر گفتگو کا شعور بھی رکھتے ہیں یہ بات بھی اہم تھی کہ وہ ادب اورزندگی دونوں میں روایات کے احترام کو بھی برقرار رکھتے ہوئے ہرقسم کی فکری اورفنی بے راہ روی سے اجتناب برتنے کے قائل تھے ۔اس توازن نے ان کی تحریروں کوقابل کوتوجہ بنادیاتھا ان کاایک مضمون اردو کی نعتیہ شاعری کا تاریخی وتہذیبی مطالعہ جب میری نظر سے گزرارتو مجھے خوشی ہوئی کہ ادب کے دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ فن نعت گوئی پربھی ان کی گہری نظر تھی یہ مضمون ان کی کتاب ’’نغمہ وحدت کا شاعر ساحر شیوی ‘‘میں شامل تھاجو ساحر شیوی صاحب کے مذہبی کلام کے حوالے سے لکھا جانے والا ایک اہم مقالہ ہے۔ 16جون 2014 کو ڈاکٹر مظفر حسن عالی اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے (انااللہ وان الہٰ راجعون)ان کی رحلت کی اچانک اطلاع نے خاصا آزردہ کیا کاش وہ کچھ اوروقت زندہ رہتے اور مزید کچھ ایسے وقیع مضامین صنف نعت پر لکھ سکتے ۔سچ کہا نذیر فتح پوری نے:

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

ورنہ دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے

چوہدری فضل حق(مرحوم)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعتیہ کتب کے مطالعے کا ذوق مجھے بچپن سے رہا نعتیہ کتابیں تلاش کرنا اورانہیں جمع کرنامیری روحانی تسکین کاسبب بنتا رہا اوائل عمری ہی میں جن لوگوں کے نام نعت گوئی کے حوالے سے تواتر سے سامنے آتے رہے ان میں ایک نام فضل حق کا بھی تھا۔ اردو اورفارسی میں ان کی نعتیں اپنے استاد دانہ رنگ وآہنگ اورشاعرانہ حسن کی وجہ سے الگ پہچان رکھتی ہیں ۔نثرو نظم دونوں شعبوں میں ان کا کام قابل قدر ہے وہ 1923 کو ضلع گجرات کے گاؤں مرالہ میں پیداہوئے ۔ڈسٹرکٹ بورڈ کھاریاں سے مڈل کا امتحان پاس کیا اورمیڑک مسلم زمیندار ہائی اسکول گجرات سے کیا جب کہ بی۔اے زمیندار کالج گجرات سے کیا ۔ فوج اورپولیس کے محکموں میں ملازمت کی اور پولیس میں انسپکٹر جنرل کے عہدے تک ترقی پائی ۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے کچھ عرصہ وزارت داخلہ میں سیکرٹری بھی رہے ایک قومی روزنامے میں بھی آپ کے کالم ’’گاہے گاہے باز خواں‘‘ کے نام سے شائع ہوتے رہے ۔ مطبوعہ کتب میں آہنگ حجاز، مہر عرب،غم صحرا،سوئے حرم،خار مثرگان اورسورج شامل ہیں ان کی ایک نعت کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں اورذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حوالے سے ان کے عشق کی حدت کو محسوس کریں:

پھر مہرباں ہواہے غم فرقتِ رسول

طے ہوگا اب کے مرحلہ مدحتِ رسول

جاں کو بہم کروں سرمژگاں کو نم کروں

تب جاکے نقش ہوگا خطِ عظمتِ رسول

بے اذن لب کشا ہو کسے اختیار ہے

نعت رسول ہے اثرِ شفقتِ رسول

ہنگامِ عرضِ غم مجھے درکار ہے فقط

اک موجِ نیم تیری یمِ رحمتِ رسول

خواہش بھی جس میں، ڈر بھی ہو جس میں یقیں بھی ہو

ہے وہ غمِ لطیف فقط نعمتِ رسول

اس کے لیے قبول ہے دل کا زیاں مجھے

جاں سے عزیز ترہے مجھے حسرتِ رسول

2014 میں یہ اہم نعت گوشاعر ہم سے جداہوکر سفرآخرت پرروانہ ہوئے۔(انااللہ وان الہٰ راجعون)

سرشار صدیقی(مرحوم)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سرشار صدیقی کا شمار عصر حاضر کے معروف شاعر،ادیب اورکالم نگاروں میں ہوتاتھا ان کا اصل نام اسرار حسین محمد ارمان تھا ۔وہ 25 دسمبر 1962 کو کان پور میں پیدا ہوئے۔پتھر کی لکیر،زخم گل،ابجد،بے نام ،خزاں کی آخری شام ،ہجرت پہ مامور ہیں ہم ‘تشکیلِ سرشار صدیقی،بازدید اوراعتبار‘ان کے شعری مجموعے ہیں جو زیور طبع سے آراستہ ہوئے ۔نثری کتب میں حرف مکرر،شنیدہ،اجمال ، رفتگاں ،واحد متکلم اور ہراول دستہ، شائع ہوچکی ہیں جب کہ نعتیہ ادب کو انہوں نے دو خوبصورت شعری مجموعے عطاکیے جن میں اساس اورمیثاق شامل ہیں ان دونوں مجموعوں میں شامل نعتیہ غزلوں اورنظموں میں عصری حسیت اور شاعرانہ شعور نے مل کر نعت کے موضوعات اوراسالیب کو مزید وسعت آشنا کیا ہے۔پایانِ عمر میں حرمین شریفین کی متواتر حاضری نے ان کے کلام اورزندگی میں حضوری کی کیفیت کو خاصا گہرا کردیا تھا۔نئی اردو نعت کے کسی بھی ادبی جائزے کوسرشار صدیقی جیسے تازہ کاراورباشعور نعت نگار کے ذکر کے بغیر مکمل کرنا یقیناًدشوار ہوگا۔

2014 کو سرشار صدیقی بھی ایک کامیاب ادبی اورروحانی زندگی گزارکر یقیں کی اس روشنی کو ساتھ لیے ہوئے راہی ملک عدم ہوئے :(انااللہ وان الہٰ راجعون)

میں خاک پائے رسالت میں گردراہِ حرم

مجھے خداکی زمیں پرکہیں بھی دفن کرو

میں روز حشر جہاں سے اٹھایا جاؤں گا

وہ ارض شوق مری جنتِ یقیں ہوگی

وہ سرزمین مدینے کی سرزمیں ہوگی

جاوید احسن خان (مرحوم)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

معروف شاعر وناقد جاوید احسن کاتعلق ڈیرہ غازی خان سے تھا ان کی پیدائش یکم دسمبر 1948 تحصیل تونسہ میں ہوئی وہ زندگی بھر شعروادب کی خدمت کرتے رہے ڈیرہ غازی خاں میں نیشنل سنیٹر کے ریز یڈنٹ ڈائریکٹر بھی رہے ان کی مطبوعہ کتب میں جمالِ صحرا،لوح شفاعت اورچشمِ غزال شامل ہیں جب کہ نثری کتب میں سرائیکی ثقافت اور فی احسن تقویم شامل ہیں ۔جاوید احسن صاحب سے میرا تعلق اس وقت قائم ہوا جب ان کی کتاب فی احسن تقویم (نعتیہ شاعری کا تنقیدی جائزہ ) شائع ہوئی ۔یہ سات ابواب پرمشتمل 144 صفحات کی کتاب ہے جو اختصار ، سادگی ، دردمندی،صدق نیت اور حب رسول کی غیرت کے اجزا سے مملو ہے وہ نعت رنگ کے باقاعدہ قار ی تھے ۔’’نعت نامے‘‘مرتبہ :(ڈاکٹر محمدسہیل شفیق مطبوعہ 2014)کے صفحہ نمبر 621 پران کا ایک خط میرے نام موجودہے جس میں نعت رنگ کے بارے میں ان کا اظہار پسندیدگی اورنعت سے شغف دونوں نمایاں ہیں’’ لوح شفا عت‘‘ ان کا نعتیہ مجموعہ ہے ۔ 2009 میں شائع ہونے والا یہ خوبصورت مجموعہ ان کے عشق اورفنی ریاضت کا آئینہ ہے ۔5 اکتوبر 2014 کویہ خادم نعت اپنا توشہ آخرت ’’لوح شفاعت ‘‘ لیے ہوئے اپنے رب کی طرف کوچ کرگیا۔(انااللہ وان الہٰ راجعون)

رب جہاں ہے شانِ جلالت لیے ہوئے

نکلاہے آفتاب قیامت لیے ہوئے

جاوید !بارگاہِ الہٰی میں پیش ہوں

روز حساب’’ لوحِ شفاعت‘‘ لیے ہوئے

محمد عبدالقیوم خان طارق سلطان پوری (مرحوم)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شعر وادب کی دنیا میں طارق سلطان پوری کے نام سے متعارف‘ محمد عبدالقیوم جنوری 1961 کو حسن ابدال کے شمال میں ایبٹ آباد سے تقریباً سات میل کے فاصلے پروادی ہرو میں سلطان پور نامی ایک گاؤں میں پیدا ہوئے ۔میڑک کا امتحان حسن ابدال سے پاس کیا بعدازاں دورانِ ملازمت کراچی سے منشی فاضل ،فاضل اردو کے امتحانات پاس کیے اور پھرکراچی یونیورسٹی ہی سے گریجویشن کے بعد 1972 میں کراچی یونیورسٹی سے فارسی میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی اور پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ وہ نیشنل بینک کراچی میں برانچ منیجر کی حیثیت سے تقریباً بیس سال تک اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے ان کا سلسلہ ارادت گولڑہ شریف سے جڑا ہوا تھا۔ا ن کی ادبی خدمات کا دائرہ نصف صدی کو محیط ہے ’’ماہ طیبہ‘‘کوٹلی لوہاراں کے پرانے شمارے اس بات کے گواہ ہیں کہ طارق سلطان پوری کب سے نعت کے دامن سے وابستہ تھے ان کی اکثر ایمان افروز نعتیں جو اکثر مولانا احمد رضا خاںؒ کی زمینوں میں ہیں ان شماروں میں نظر آتی ہیں’’ماہ طیبہ‘‘کے مدیر مولانا ابوالنور محمد بشیر اپنے رسالے میں اکثر طرحی مصرعے دیتے جس میں زیادہ تر مصرعے مولانا احمد رضاخاںؒ فاضل بریلوی کے ہوتے تھے اوریوں اس وقت کے نامور شعرا کلام رضا پرنعتوں کے چمن زار سجاتے رہے کاش کہ کوئی صاحب ہمت’’ماہ طیبہ‘‘کی فائلوں سے عقیدت ومودت کے ان گلابوں کو جمع کرکے گلدستہ کی صورت میں مرتب کرسکے ۔

طارق سلطان پوری کے شعری اظہار پر فکراقبال واحمدرضاؒ کی چھاپ بہت واضح دکھائی دیتی ہے انہوں نے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاںؒ کی زمینوں میں درجنو ں نعتیں تخلیق کی ہیں اعلیٰ حضرت سے ان کی عقیدت کا ثبوت ان کی ایک نعت میں اس طرح بھی سامنے آیاہے:

موج زن جذبہ تقلید رضا ہے دل میں

اسی جذبہ سے لکھاہے یہ قصیدہ ترا

طارق سلطان پوری کی قدرت کلام اورزددگوئی دونوں ہی متاثرکن تھیں ایک طرف نعت کے معاصر منظرنامے پران کی نعت گوئی ان کے تعارف کاقوی حوالہ بن چکی تھی اور دوسری طرف مادہ ہائے تاریخ نکالنے میں ان کی مہارت نے انہیں بطورتاریخ گودرجہ استناد پر فائز کردیا تھا انہوں نے اپنے کثیر نعتیہ کلام کے سرمائے کے علاوہ مادہ ہائے تواریخ کا ایک بڑا خزانہ بھی اپنے پیچھے چھوڑ اہے جو عصری شخصیات ،مطبوعات اوراہم واقعات کے حوالے سے یقیناًحوالے کی چیز ہے ہم عصر نعت نگاروں کی کتب اوران کی تاریخ وفات وتقاریب اجرائے کتب وغیرہ کے حوالے سے اگرکوئی سلطان پوری کی کہی ہوئی تاریخوں کا جائزہ لے تو نعت کا پوراعصری منظرنامے سامنے آجائے گا ۔یقیناًنعت سے الفت اورنعت کی خدمت کے جذبے کو نمایاں کرنے کے لیے ان کایہ کارنامہ کافی ہے ۔ڈاکٹر شہزاد احمد نے مجھ سے ان کی تین نعتیہ تضمینوں کا ذکر کیاجوسلام رضا پرلکھی گئی ہیں میرے خیال میں یہ اعزاز بھی اردو کے کسی اورشاعر کو شاید ہی حاصل ہوا ہو کہ اسے سلام رضا پر تین تضمین کہنے کی سعادت نصیب ہوئی ہو مگر میرے پیش نظر ان کی دو مطبوعہ تضمین ہیں ایک’’ بارانِ رحمت‘‘ اوردوسری’’ برہانِ رحمت‘‘ یہ دونوں تضمین علٰیحدہ علٰیحدہ کتابچوں کی صورت میں ایک ہی سال یعنی 2005 میں رضا اکیڈمی لاہور سے شائع ہوئی ہیں ان کے علاوہ مرحوم کی کوئی کتاب میری نظر سے نہیں گزری اتنی طویل مدت تک نعت کے گلستاں کو اپنے خون جگرسے سینچنے والے قادر الکلام شاعر کے نعتیہ کلام کا شائع نہ ہونا عصر حاضر میں فروغ نعت کے دعوے داروں کے اجتماعی رویے پرایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

صابر شاہ بخاری نے ماہ نامہ نعت کے شمارہ 12 دسمبر 1994 ،ضلع اٹک کے نعت گو شعرا میں ان کی درج ذیل غیر مطبوعہ کتب کا ذکرکیاہے کاش یہ سرمایہ جلد زیور طبع سے آراستہ ہوکر محفوظ ہوسکے:

(۱) علایق بخشش (نعتیہ کلام)

(۲) چادر بخشش (نعتیہ کلام )

(۳) مضراب (غزلیات)

(۴) آوازہ حق(سیاسی نظمیں )

(۵) تاریخ راج (کتب ورسائل پرتاریخی قطعات)

(۶) ربابِ تاریخ(ممتاز علما مشائخ کرام کے وصال پر قطعات )

(۷) خیابان عقیدت (مناقب)

(۸) چادر رحمت (قصیدہ بردہ شریف کا منظوم اردو ترجمہ)

18 اپریل 2015 کو یہ اہم نعت نگار اس جہانِ فانی سے اس یقین کے ساتھ کوچ کرگیا۔(انااللہ وان الہٰ راجعون)

جلوۂ روئے محمد کا ہے واصف طارق

اس کی تربت میں اجالے ہی اجالے ہوں گے

نصرت نعیمی (مرحوم)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مولانا رجب علی خان نعیمی المتخلص نصرت نعیمی ایک مستند عالم دین ،شعلہ نواخطیب خوش فکر نعت گو اورخوش آواز نعت خواں تھے ۔مولانا کی پیدائش 15 مئی 1946 کو کراچی میں ہوئی ان کے اجداد کا مسکن اجمیر شریف تھا مولانا ابتدا میں بطور نعت خواں محافلِ نعت میں شرکت کرتے رہے مگر جب علما کی صحبت میسر آئی توعلم دین سیکھنے کا شوق دامن گیر ہوا اورآپ نے جامع مسجد اللہ والی لائنز ایریا میں دارالعلوم قادریہ نعیمیہ میں داخلہ لیا اور 1974 میں سند حاصل کی ۔مولانا کی مقبولیت اورتعارف کا دائرہ نعت خوانی کی وجہ سے شروع ہی میں خاصا وسیع ہوچکا تھا کیونکہ وہ بیک وقت عربی،فارسی ،پنجابی ،گجراتی اوراردو میں نعت پڑھنے کی صلاحیت رکھتے تھے مگرجب بحیثیت عالم دین انہوں نے جوشِ خطابت کے جوہر دکھانے شروع کیے توانہیں اہلسنت والجماعت کے اکابر علما کی محبتیں اورسرپرستی بھی حاصل ہوئی اور یہیں سے مولانا کی تبلیغی اورسیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔انہیں علامہ شاہ احمد نوارنی ،علامہ شاہ فرید الحق سمیت دیگر جدیدعلما کی قربت اوررفاقت نے مزید مستعد اورفعال کیا اوریوں مولانا عقیدہ وعقیدت کے تحفظ کے لیے ان اکابر علما کے ساتھ مصروف عمل رہے نعت سے مولانا کے شغفِ نعت نے انہیں نعت خوانی سے نعت گوئی تک کا سفرکروایا جب ان کا مجموعہ کلام ’’سعادت کے موتی 1994 میں زیور طبع سے آراستہ ہواتو مجھ سمیت کئی احباب خوشگوار حیرت سے دوچار ہوئے زبان وبیان کے ساتھ شائستگی اور تخلیقی شعور نے ان کے کلام میں عشق بنی کریم ؐ کی روشنی کو مزید نمایاں کردیا تھا۔مولانا شاعری میں افسر صابری کے شاگرد تھے 22 فروری 2015 کو یہ اہم عالم دین اور باشعور نعت نگار نہایت خاموشی سے اس دنیا سے رخصت ہوگیا میں ملک سے باہر تھا واپس آیا تویہ خبر جناب منظر عارفی کی وساطت سے مجھ تک پہنچی ۔نہ کسی اخبار میں کوئی خبر دیکھی نہ اہل سنت والجماعت کے حلقوں میں کوئی نمایاں ذکر سامنے آیا۔ افسوس کہ اپنے درمیان زندگی کی علامت بن کررہنے والے لوگوں کو ہم کتنی جلدی فراموش کردیتے ہیں آئیں مولانا کے کچھ نعتیہ اشعار پڑھ کر ان کے لیے دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہیں:

جب لیا نام مصطفی میں نے

پا لیا دل کا مدعا میں نے

زندگی کو قریب سے دیکھا

آپ کو یاد جب کیا میں نے

ہوگئیں ساری مشکلیں آسان

یانبی دل سے جب کہا میں نے

توشۂ یادِ مصطفی کے سوا

کچھ نہ زادِ سفر لیا میں

شافعِ روزِ حشر کے صدقے

بخشوائی ہے ہر خطا میں نے

دامن شاہِ دیں میں اے نصرت

رحمتِ حق کو پا لیا میں نے

چند مرحوم ثناخواں رسول صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم:

پچھلے دنوں ہم سے بچھڑنے والوں میں بعض اہم نعت خواں حضرات بھی شامل ہیں جوایک طویل مدت تک اپنی مترنم آوازوں میں ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کی خوشبو سے ہمارے معاشرے کو معطر کرتے رہے ان کاعشق نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلمکی تبلیغ میں ثناخوانی کے ذریعے مصروف رہنا ان کی محبوبیت اورمقبولیت کاسبب رہاایسے محترم ثناخوانوں میں سید اوصاف علی شاہ 6 اگست 2014 کولاہور میں ،حافظ محمد حسین کسووال 12اپریل 2015 کو کسووال میں،معروف نعت گو اورنعت خواں عبدلستار نیازیؒ کے بڑے صاحبزادے اورمعروف ثناخواں محمد شاہد نیازی یکم/مئی 2015 کولاہور میں جبکہ کراچی سے تعلق رکھنے والے سنئیر ثناخواں مجیب الرحمن صدیقی 12فروری 2015 کوکراچی میں انتقال فرماگئے ۔(انااللہ وان الہٰ راجعون)دم تحریر ان تمام ثناخوانوں کی آوازوں میں ان کے مختلف نعتیہ کلاموں کی بازگشت میری سماعت کوآسودہ کررہی ہے مگر مجیب الرحمن صدیقی کی پڑھی ہوئی منوربدایونی کی اس نعت کی صدا ان میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔

نعتِ محبوب داور سند ہوگئی

فروِعصیاں مری مستند ہوگئی

مجھ سا عاصی بھی آغوش رحمت میں ہے

یہ تو بندہ نوازی کی حد ہوگئی

عمربھر میں نے دنیا میں نعتیں پڑھیں

میری بخشش یہیں مستند ہوگئی

جو تجلی منور مرے دل میں تھی

وہ پسِ مرگ شمعِ لحد ہوگئی

رب کریم اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کے ان تما م ثنا خوانوں کی مغفرت فرمائے ۔ آمین۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ ۔شمارہ نمبر 25 | نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]