نعت رنگ ۲۵ کا ایک تفصیلی مطالعہ ۔ کاشف عرفان

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 07:59، 3 دسمبر 2017ء از ابو الحسن خاور (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (ابو الحسن خاور نے صفحہ نعت رنگ ۲۵کاایک تفصیلی مطالعہ ۔ کاشف عرفان کو بجانب نعت رنگ ۲۵ کا ایک تفصیلی مطالعہ ۔ کاشف عرفان منتقل کیا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مقالہ نگار : کاشف عرفان۔اسلام آباد

نعت رنگ ۲۵____ایک تفصیلی جائزہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(نعت رنگ کے سلورجوبلی شمارے پرخصوصی اظہار خیال)

ABSTRACT: Naat Rang 25th edition has been reviewed in this article. All prose and poems presented there in have been commented. Some comments are detailed one and some short. Naat Rang gaining momentum of promoting genre of Naat in the fields of Creativity, Research and Criticism. All such reflections are available in the edition under review, besides poetic impression of praising efforts of Editor of Naat Rang by Dr. Riaz Majeed. Silver Jubilee edition of Naat Rang deserves high appreciative sentiments for possessing presentational beauty of content and form.

نعت رنگ کا شمارہ نعت کی تہذیب وتفہیم میں ایک اہم اوراپنی نوعیت کے منفرد جریدے میں شمار کیاجاسکتاہے۔نعت کی ترویج اورتشکیل کے لیے جتنے مختلف زاویوں سے نعت رنگ کے ادباء اور ناقدین نے کام کیاہے وہ اس موقر جریدے کی پہچان بن چکاہے۔’’نعت رنگ‘‘کے [[نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25 | پچیسویں شمارے]] کوبلاشبہ اپنے لوازمے اورمتن کے حوالے سے وہی اہمیت حاصل ہے جو کسی بھی موقر ادبی و دینی جریدے کے سلور جوبلی نمبر کوحاصل ہونا چاہیے۔’’نعت رنگ‘‘ کے لیے عمومی سطح پر نعت رنگ ۲۵ کی اشاعت کے لیے خصوصاً’’نعت رنگ‘‘کے مدیر جناب سید صبیح رحمانی اوراُن کے رفقاء مبارک مباد کے مستحق ہیں۔

نعت رنگ ۲۵ کی فہرست پرنظرڈالی جائے تورنگوں کی ایک ایسی کہکشاں سجی نظرآتی ہے جس میں روایت اورجدیدیت کے تمام حسین رنگ نظرآتے ہیں۔فہرست کودھنک کاخوبصورت نام دیا گیاہے جس سے’’نعت رنگ‘‘میں رنگ کے خوبصورت لفظ کا حُسن سمٹ کرآگیا۔مہمان مدیر سے نعت کے حوالے سے اداریہ لکھوانے کی روایت نعت رنگ کاخاصہ بن گئی ہے۔نعت اورمذہبی ادبیات کے علاوہ دوسرے شعبہ ہائے ادب کے اہم ادباء،شعراء اورناقدین سے نعت کی ادبی روایت کودیکھنے کاعمل عمدہ بھی ہے اورروایتی تفہیم سے ہٹ کر تنقید وتحسین کے نئے دربھی واکرتاہے جو بجائے خودایک دادطلب عمل ہے۔ نعت رنگ ۲۵کے مہمان مدیر معروف افسانہ نگار اورافسانے کے اہم نقاد جناب مبین مرزا ہیں۔مبین مرزا برصغیر پاک وہند کے ایک اہم افسانہ نگار ہیں جن کے ہاں کہانی اپنے فطری تغیرات کے ساتھ پیش ہوتی ہے۔زیر نظر ابتدائیہ’’نعت اوراردو کی شعری تہذیب‘‘اردونعت کے تہذیبی سفر کی داستان ہے جس میں نعت رنگ کے کردار کومتعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں ابتدائیہ پرگفتگو کروں کچھ باتیں ابہام کے حوالے سے ہونا ضروری ہیں کہ نعت رنگ ۲۵ کے اس ابتدائیہ کے حوالے سے جب مختلف ادباء وشعراء سے گفتگو ہوئی توانہوں نے اس طرزِتحریر کوکسی حد تک گنجلک،مبہم اورپیچیدہ پایا۔میں یہ اُس عمومی رائے کا اظہارکررہاہوں جو مجھ تک مختلف صورتوں میں پہنچی۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ ابہام کیاہے؟ابہام عمومی طورپر اُس تحریر میں سمجھا جاتاہے جس کے متعلق قاری یہ سمجھے کہ ادیب کا احساس اُس تک اُس روانی سے نہیں پہنچا جس سے سمجھنے کے لیے قاری کوایک ذہنی تحریک کا احساس ہو۔میراجی سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی نظمیں مبہم ہوتی ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟میراجی نے جواب دیا کہ میری نظمیں ہرقاری کے لیے نہیں ہیں اُن کے لیے ہیں جوانہیں سمجھنے کے لیے ذہنی مشقت پرتیارہوں۔اسے آپ ایک شاعر کاخود پر ظاہر کردہ اعتماد بھی کہہ سکتے ہیں لیکن یہ مبہم ہونے کی وضاحت نہیں ہے۔

مبین مرزا کے زیرِ نظر مضمون میں مجھے ابہام محسوس نہیں ہواکہ اُسے سمجھنے کے لیے غیر معمولی ذہنی مشقت درکار نہیں۔وہ مشقت جو مجھے کافکا، مارکیز،میراجی یاراشد کوپڑھتے ہوئے درکار ہوئی تھی۔مبین مرزا مجھے قدرے آسان لگے اوراگر بارِخاطر نہ ہو تومجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ کسی قدر مصنوعی بھی لگے۔انہوں نے یہ پیچیدگی بڑی محنت سے لمبے لمبے جملوں کے ذریعے سے حاصل کی۔اُن کے چند لمبے جملے اگر یہاں درج کیے جائیں توشاید یہ بات آپ حضرات تک پہنچے۔ خاطرِ نشان رہے کہ یہاں تہذیبی صلابت سے مراد سیاسی مقتدرہ کااستحکام نہیں ہے بلکہ وہ قوت اظہار ہے جو عامۃ الناس کی زندگی اور ثقافتی مظاہر میں روحِ عصر کی صورت جلوہ نما رہی ہے اورجس کے ذریعے ہم برصغیر میں ایک نیا ادبی ڈسکورس قائم ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں عام آدمی سے لے کر اہلِ نظر اوراہلِ فلسفہ ہی نہیں بلکہ قلندروں اورخاص طورپر ملامتی فرقے اورترک کی منزل کے صوفیہ تک کے یہاں ذات الٰہیہ کے سلسلے میں تو بے ا حتیاطی یابے نیازی دیکھی گئی ہے یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیکھی جاسکتی ہیں لیکن کیا مجال جوآپ کو محض نام کاایک مسلمان بھی حرمتِ رسول کے معاملے میں غافل یابے لحاظ مل جائے۔

طویل جملوں کی کنسٹرکشن دراصل ایک آرٹ ہے۔مارکیز کے ناول’’تنہائی کے سوسال‘‘ ’’Hundred Years of Latitude‘‘میں اس فن کی معراج نظرآتی ہے۔مبین مرزا کے ہاں مجموعی جملے کی ساخت میں کسی قدربے ربطی کااحساس ہوتاہے جوروایتی اذہان کے لیے تحریر کوقدرے مشکل بنادیتاہے۔میں نے آغاز میں مرزا صاحب کے لیے’’مصنوعیت‘‘کاسخت لفظ استعمال کیا وہ دراصل اُن کے علمی مرتبے کوکم کرنے کی کوشش نہیں تھی بلکہ طویل جملے کی کنسٹرکشن کے دوران کومااورختمہ کے استعمال کے بغیر تحریر بے ربطی کااحساس پیداکرتی ہے اوریوں تحریر آسان فہم نہیں رہتی۔

مبین مرزا کی یہ تحریر(ابتدائیہ)اپنے متن کے لحاظ سے اس شمارے کی چند بہترین تحریروں میں سے ایک ہے۔برصغیر کی شعری تہذیب وتمدن میں مذہب کی کارفرمائیوں کے اثرات کاجائزہ اس مقالے کی بنیادہے۔مذہب (دین)اسلام اور اردوشاعری کے درمیان رشتہ پرانا لیکن کچھ کٹاپھٹا سا تھا۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ برصغیر کے تقریباً تمام بڑے غزل گواتفاق سے مسلمان ہیں لیکن خود مذہب اسلام کے اثرات ان شعراء کے ہاں غزل کی سطح پرنظرنہیں آتے۔بظاہر تویہ بات درست ہی نظرآتی ہے کہ ولی سے لے کرحسرت تک غزل تمام بڑے شعراء کی شاعری مذہب کے اثرات سے بالاتر زندگی کے ایک ایسے رخ کی تصویر سازی کرتی ہے جہاں انسانی جذبات وتخیلات کسی قاعدے اورضابطے کی پابندی کرتے نظر نہیں آتے ۔ ولیؔ،میرؔ،سوداؔ،مصحفیؔ، آتشؔ،ناسخؔ، مومنؔ، غالبؔ اورداغ سبھی کے ہاں نعت اورحمد برائے برکت ہے۔غالب جیسے قادرالکلام شاعرکے ہاں ایک فارسی نعت کوچھوڑ کر دین کے حوالے سے روایتی سطح پر کلام نہیں ملتا۔دبستانِ دہلی اوردبستانِ لکھنؤ میں جذبات کی فراوانی توموجود رہی لیکن اُسے محبوب کے سطحی تصور سے ہمیشہ آلودہ رکھاگیا۔ایسے سطحی جذبات سے آلودہ تخیلات میں محبوب کاروایتی اورکسی حد تک عامیانہ تصور ہی ابھر سکتا تھا توایسے میں نعت کیسے کہی جاتی۔محبوبِ خداحضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اظہارِ عقیدت صرف فنی پختگی نہیں چاہتی، عقیدے اورعقیدت کے درمیان ایسا تال میل چاہتی ہے جوآقا کی شان کے مطابق ہو۔میری دانست میں درست عقائد اوردرست سمت میں رواں عقیدت کے درمیان گہرارشتہ ہے۔جہاں یہ رشتہ کمزورہوا وہاں آپ کو عمدہ نعت اوربہتر مذہبی شاعری کے نمونے نظر نہیں آتے۔

عقائد اورعقیدت کے درمیان ایک عمدہ تال میل کی مثال اقبال کی شاعری ہے۔اللہ پر غیر متزلزل ایمان اور آقا کی رحمۃًللعالمینی پرمضبوط یقین اس رشتے کی بنیاد ہے لیکن یہ بنیاد ی عناصر نصیب کتنوں کوہوتے ہیں اورجن کے نصیب میں یہ ہوں وہ اس سے کہاں تک استفادہ کرتے ہیں۔ مبین مرزا کے ابتدائیہ میں انہوں نے عشقِ رسول کوایک مسلمان کی زندگی کاسراسر نجی معاملہ قرار دیا ہے بادی النظر میں عشقِ رسول نجی کے ساتھ ساتھ اجتماعی فکر کی اساس بھی بن جاتاہے۔۲۰۱۵ء میں رسالت مآب کی شان میں کچھ ملعونوں نے ہرزہ سرائی کی تویہی عشق رسول جو حقیقت کے اندرون میں تخلیقی وتہذیبی توانائی کامنبع تھا یکایک ہماری اجتماعی معاشرتی زندگی کے خدوخال متعین کرنے لگا ۔ گویاعشق رسول وہ طاقتور ترین جذبہ ہے جو فرد کی تخلیقی توانائی سے لے کر معاشرے کے تہذیبی عناصر کو مرتب کرنے کاایک اظہاریہ ہے ۔اب اگر غزل کو اردو شعری تہذیب کا منبع سمجھا جائے تودوسطحوں پراس کوسمجھنا ضروری ہوگا۔


اول:تصوف

دوم:مابعد الطبیعاتی مسائل


ان دونوں صورتوں میں اردو غزل انسان اورخدا کے درمیان رشتے کوکائناتی سطح پر سمجھنے کی ایک صورت بن جاتی ہے۔خدا،انسان اور کائنات کی تثلیث ہی ہماری مذہبی مدحیہ شاعری(اورکسی حد تک مذہبی نثر)کی بنیاد ہے لیکن اس ٹرائیکا کوسمجھتے ہوئے ہم صوفیانہ طرزِ احساس کوعلا حدہ نہیں کرسکتے۔وہی صوفیانہ طرزِ احساس جس نے ہماری غزل کو توایک نئے رنگ میں رنگا ہی تھا ہماری تہذیبی شناخت کومتعین کرنے کا باعث بھی بنا ۔یوں کہا جاسکتاہے کہ اردومتصوفانہ غزل کی ڈومینشین ،بنیادی طورپر مذہب کے ساتھ منسلک انہی خیالات کی آبیاری کررہی تھی جس نے آگے چل کر(بیسویں صدی)میں اُس وقت اعلیٰ مذہبی مدحیہ شاعری کی بنیاد رکھی اورپھر غزل کاآہنگ نعت میں ڈھلنے لگا۔


ظرفِ بینائی کودیدارِشہِ لوح وقلم!!

وصفِ گویائی کوتوفیق ثناء چاہیے ہے

(نصیر ترابی۔مشمولہ نعت رنگ۲۵،ص۸۳۶)


غزل نے شعری تمدن کوجس صورت میں ترتیب دیا وہ طرزِ احساس نعت تک منتقل ہونے کے باعث بیسویں صدی کے آغاز سے ہی بڑی اورتوانا مدحیہ شاعری سامنے آنے لگی۔اقبال،ظفر علی خان،حفیظ جالندھری اورمحسن کاکوروی تک غزل کایہی خوبصورت آہنگ مدحیہ تخلیقات میں منتقل ہونے لگا۔اگرچہ اس سفر کوکم ازکم تین صدیاں لگیں لیکن میری رائے میں متصوفانہ اورمابعد الطبیعاتی احساس کی غزل اپنے عروج پر پہنچ کر نعت اور مذہبی مدحیات کے لیے جگہ خالی کررہی ہے۔جگہ خالی کرنے اور نعت کومکمل جگہ بنانے میں اگرچہ ابھی لگ بھگ نصف صدی اوربھی چاہیے ہے لیکن اس عمل کاآغاز ہوچکاہے۔

مبین مرزا کے اس نکتے سے میں مکمل طورپر متفق ہوں کہ برصغیر کی شعری روایت میں غیر مذہبی تخلیقات کی بھرمار ہونے کے باوجود تخلیق کی زیریں سطح پر مذہب کارنگ غالب رہا۔ قصیدہ، مثنوی، غزل،شہر آشوب جیسیاصناف کسی نہ کی سطح پرنعت کے لیے راستہ ہموار کرتی رہیں لیکن یہ غیر محسوس اورلاشعوری عمل تھا جس کے اثرات آج ہم۲۰۱۶ء میں نعت رنگکی تحریک اورعشقِ رسول کے حوالے سے کثیر مقدار میں ہونے والی شاعری کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ مبین مرزا اس تہذیبی رویے کو شاعریا ادیب کے ہاں اُس کے بنیادی عقائد کی صورت میں تلاش کرتے ہیں لیکن میرا خیال اس سے ذرا سا مختلف ہے۔ مرزاصاحب غزل کے اُس طاقتور لحن کونظرانداز کرگئے جو غزل کے روایتی محبوب کے پردے میں کسی بڑے طرزِ احساس کوجنم دینے کی کوشش کررہا تھا۔میری رائے میں اٹھارویں اور انیسویں صدی کی غزلیہ تخلیقات میں اللہ کے قائم کردہ نظام کوانسان اورعظمت انسان کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش ہی اردو ادب وشاعری میں نعتیہ اورحمدیہ تخلیقات کی پیشکش کے لیے نقطۂ آغاز تھیں اورمیری دوسری رائے ہے کہ غزل اپنے عروج کوچھو کر اب مذہبی ادبیات کے لیے غیر محسوس طریقے سے جگہ خالی کررہی ہے۔اکیسویں صدی میں ہماری غزل کے بڑے نام تواتر سے حمدونعت پیش کررہے ہیں۔ان کا وفورِ شوق اوروارفتگی انہیں آقاکریم کے دربار میں پیش ہوکر حالِ دل بیان کرنے کا جذبہ اُن کی تخلیقات میں گہرائی وگیرائی تو پیداکرہی رہاہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اردو کی شعری روایت میں نعت اورتنقید نعت کے لیے نئی نئی راہیں پیدا ہورہی ہیں۔اس پرنظم کے بڑے شعراء کے ہاں بھی نعتیہ نظموں کے لیے ایک احساس پیداہورہاہے۔


کسی بھی تخلیق کار کی تخلیقی اہلیت پراُس کامعاشرہ اورماحول اثر انداز ہوتاہے۔برصغیرکا عمومی مزاج جذبات سے منسلک اورطاقت کی مرکزیت کاحامی رہاہے۔یہی مزاج مذہب سے محبت کاشاہد بھی رہاہے۔اسلام اوراسلامی تہذیب کے عناصر برصغیر میں کم عمر سہی لیکن فکری سطح پر طاقتور رہے ہیں۔اب ہندو شعراء کے ہاں نعت مبارک کالکھا جانا دوسطحوں پرظاہر ہوتاہے۔


٭اسلام کاطاقتور تمدنی اورفکری نظام

٭نبی اکرم کی شخصیت کی رحمۃًللعالمینی کے اثرات


وجہ کچھ بھی ہو یہ بات طشت ازبام ہے کہ اسلام کی طاقتور فکر اورتہذیبی اساس نے ایک بڑی فکر کومتاثر کیا۔مختصراً مبین مرزا کاابتدائیہ ایک کامیاب فکری کوشش ہے جس میں گزرے ادوار کاتاریخی سطح پرنہایت عمدہ جائزہ لیا گیاہے۔مدیر نعت رنگ نے نعت اورتنقید وتحسین نعت کے سلسلے میں نعت رنگ کی کوششوں کاجائزہ لیا اور اس بات پراطمینان کااظہار بھی کیا کہ وہ کام درست سمت میں جاری ہے۔انہوں نے فروغ نعت کے جن نئے آفاق کی جانب اپنی تحریر میں اشارہ کیا وہ نعت سے محبت رکھنے والوں کونئے راستوں پرچلنے کا حوصلہ عطاکرتے ہیں۔عالمی اردو کانفرنس میں نعت کے سیشن کی شمولیت ہویا انجمن ترقی اردو میں مذاکرۂ نعت ،حلقہ ارباب ذوق کراچی میں تنقید وتحسینِ نعت کے سلسلے ہوںیاادبی رسائل کے نعت نمبرز کی اشاعت محبانِ نعت کے لیے یہ نوید حوصلہ افزا اوراطمینانِ قلب کاباعث ہے کہ نعت پرکام اب ہرسطح پرجاری ہے ۔آخر میں انہوں نے اُن محبان حمد ونعت کویاد کیاجو دنیا سے جاچکے لیکن اپنے کام اورآقا کریم سے محبت کے باعث یادرکھے جائیں گے۔


مرحوم ثناء خوانِ رسول کو نام بہ نام خراج تحسین پیش کرنا بھی ایک نہایت عمدہ روایت ہے۔ڈاکٹر ریاض مجید نے نعت رنگ کے پچیسویں شمارے کی اشاعت پرادارے کومبارک باد پیش کی اورایک دعائیہ قصیدہ رقم کیا۔نعت رنگ کے لیے جس کے شعر ،شعر سے محبت اوردعا پھوٹتی ہوئی محسوس ہورہی ہے نہایت عمدہ کلام ہے ۔ میں نے کہیں پہلے بھی لکھاہے کہ موضوعاتی شاعری عمومی شاعری سے اس لحاظ سے مختلف ہوتی ہے کہ اُس میں شاعر کے پاس موضوع سے باہرنکل کر اُسے ایک ناظر کے طورپر دیکھنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔شاعری لفظوں کے کم سے کم اوردرست استعمال کامعاملہ ہے۔ڈاکٹر ریاض مجید نے کہیں کہیں قصیدے کی روایت سے باہر بھی ایک دوستانہ فضاکو جنم دیا جونعت رنگ کی ان سے محبت کی تو غماز ہے ہی دوستوں اورنعت رنگ کے ساتھیوں سے بھی اُن کے قرب کی نشاندہی کرتی ہے یوں اس دعائیہ قصیدہ میں خود نعت رنگ تومرکزی کردار اختیار کرتاہی ہے بہت سے دوست بھی کردار بن کر سامنے آتے ہیں۔اُن کی اس محبت کا مرکزی نقطہ نعت اورنعت رنگ بن کرابھرتے ہیں۔


خوشاوہ چند دن جونعت کی فضاؤں میں جیئے

حرم کی سرمدی،ولا فزا ہواؤں میں جیئے

قصیدہ دعائیہ کا یہ شعر سرنامہ بن کرابھرتاہے۔

نہ ڈگمگائے لوکبھی چراغِ نعت رنگ کی

مدیر ہی نہیں اب آپ،امین بھی ہیں سوچیے

اس خوبصورت تخلیق کے لیے ڈاکٹر ریاض مجید یقینا قابل مبارک باد ہیں۔باب تمجید کے عنوان سے قائم باب میں حفیظ تائب کاایک حمدیہ اورداغ دہلوی کاایک نعتیہ شعر موجود ہے۔دونوں اشعار خوبصورت ہیں خصوصاً داغ کانعتیہ شعرلفظی ومعنوی حسن میں اپنی مثال آپ ہے۔


باب تمجید میں تین دعائیہ نظمیں شامل ہیں۔پہلی نظم’’مناجات‘‘کے عنوان سے احمد ندیم قاسمی کی ہے۔احمد ندیم قاسمی ہمارے عہد کے نامور شعراء میں سے ایک تھے زیرنظر نظم کسی حد تک رواروی میں کہی گئی محسوس ہوتی ہے۔کسی بھی حمدیہ نظم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اُس کے لفظوں کے دروبست میں اللہ کے جمال یاجلال کی شدت محسوس ہو۔ قاسمی صاحب کی زیر تبصرہ نظم میں ایسی کوئی کیفیت محسوس نہیں ہوتی۔اگراس نظم کے آخر میں اُن کانام نہ ہوتاتوشاید یہ اوسط درجے سے بھی کم کی ایک نظم شمار ہوتی۔مدیر نعت رنگ سے گزارش ہے کہ فن پارے کے معیار پر نظر رکھی جائے۔بڑے ناموں کی فہرست سازی بعض اوقات پورے پرچے کے ادبی معیار پرسوالیہ نشان لگا دیتی ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ احمد ندیم قاسمی کے ہاں بڑی یاعمدہ شاعری موجود نہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ بڑے سے بڑافن کار بھی ہرفن پارے میں اپنی عظمت قائم نہیں رکھ پاتا۔ہمیں نعت رنگ میں احمد ندیم قاسمی کی اس سے بہترتخلیق کی امید تھی۔پیرزادہ قاسم کی نظم’’شورِازل‘‘ایک خوبصورت تخلیق ہے۔زمانوں کوکردار کی حیثیت سے پیش کرتی ہوئی اس نظم کاحسن اُس کی تیز رفتاری میں چھپا ہواہے۔تہذیبوں کی تصویر بناتی ہوئی اس تخلیق میں حسنِ ازل کی تلاش مرکزی نقطے کے طورپرسامنے آتی ہے سید شوکت کی نظم’’مناجات‘‘اوسط درجے کی نظم ہے جس میں انفرادی آہنگ میں رب کریم کے حضور دعا کی گئی ہے۔


مقالات کے حصے میں پہلااورشاید اس شمارے کے بہترین مقالہ جات میں سے ایک ڈاکٹر معین الدین عقیل کی تحریر’’تحقیق نعت ۔۔۔۔صورت حال اورتقاضے‘‘ہے۔ ڈاکٹر عقیل نے اپنے خاص معروضی انداز میں تحقیق کی موجودہ صورت حال پرتفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔خاص طورپر جامعات میں ہونے والی سندی تحقیق کو پیش آنے والے مسائل اوراس تحقیق سے حاصل ہونے والے فوائد پرسیر حاصل گفتگو کی ہے۔ڈاکٹر معین الدین عقیل عموماً معروضی انداز اختیار کرتے ہوئے عمومی گفتگو کرتے ہیں لیکن زیرِ نظر مضمون میں وہ شاید پہلی بار خود کومعروضی نہیں رکھ پائے اورشخصیات کا ذکر کرگئے ۔فرماتے ہیں: ’’۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ کراچی یونیورسٹی میں ۲۰۰۳ء میں توایک کام ایک زندہ شاعر،کالم نویس،اورایک ادبی ادارے کے ایک عالی مقام منصب دارپر، جن کا ذکر معاصر ادب پرلکھی جانے والی کسی معیاری تاریخ ادب میںشاید کبھی نہ آسکے گا لیکن ان پران کی زندگی ہی میں ان کی خواہش اوران کے سماجی اثرات کے نتیجے میں پی ایچ۔ڈی کامقالہ’’ایک فاضل‘‘نگران نے صرف دوماہ کے عرصے میں لکھوادیا اورایسے ناجائز طریقے بھی اختیار کیے کہ تمام ضوابط کوپس اندازکرکے سند بھی دلوادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ (نعت رنگ ۲۵،ص۸۲)

جہاں تک میں سمجھ سکاہوں ڈاکٹر صاحب کی تمام باتیں درست ہوں گی لیکن اب وہ شاعر اور کالم نگار بھی دنیا سے جاچکے ہیں اورڈاکٹر موصوف بھی اپنے کیے کوبھگت رہے ہیں اب اس معاملے کو ختم کردینا چاہیے سارا سوشل میڈیا سیلفپراجیکشن کاایک بہت بڑا میلہ بن چکاہے۔تقریبات کرنا ہمارے شاعروں اورادیبوں کا خاصہ ہے۔ایسے میں جامعات کاکام بھی زندہ شخصیات کے زیر اثر کسی حد تک آلودہ ہواہے لیکن ایسا نہیں کہ تمام زندہ ادیب اور شاعر دباؤ ڈال کر اپنی شخصیت پرمقالہ لکھواتے ہیں ہم کتنی ہی ایسی شخصیات کوجانتے ہیں جوخودایسی کسی کوشش سے انکار کردیتے ہیں۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل میرے استادوں میں سے ہیں اورمیں بصد عزوادب ان سے درخواست کروں گا کہ ہمیں اُن کے قلم سے ہمیشہ خالص علمی اورتحقیقی کام کی امید ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ریاض مجید اردو نعت میں تخلیق وتنقید وتحقیق کا ایک بڑا نام ہیں۔روایتی تنقید کے حوالے سے اُن کاکام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔زیرِ نظر مضمون’’برسبیل نعت___ الفاظ و تراکیب‘‘ کے بنیادی موضوع (Thesis) سے بصد عزواحترام اختلاف کررہاہوں کہ معاملہ نعت اورادب کا ہے۔ادبی سطح پر جب ہم کسی تخلیق کامطالعہ کرتے ہیں تواُس تخلیق پراثر انداز عوامل کااندازہ نہیں لگاسکتے کہ تخلیق ایک بہت پیچیدہ اورمشکل عمل ہے۔تخلیق سادہ اور اکہرا عمل نہیں۔یہ پرت درپرت ہے۔تخلیق وہ نقطہ ٔ اتصال ہے جواندر کی کائنات اورباہر کی دنیا کے درمیان ایک ایسا رشتہ قائم کرتاہے جوفکری سطح پر تخلیق کار کوایک نئی اوران دیکھی دنیا میں لے جاتاہے۔کہاجاسکتاہے کہ تخلیق کار کونیا اورتبدیل شدہ کرنے کا عمل ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا کی تحریر سے ایک اقتباس اس عمل کو سمجھنا مزید آسان کردے گا۔ ’’فن اپنی طرف لوٹنے کاوظیفہ ہے۔اندر کے ان دیکھے جہان کو صورت پذیر کرنے کی کاوش ہے۔‘‘ کروشے نے کہا تھا: ’’فن وجدان یاتاثرات کے اظہار کے سواکچھ نہیں۔وجدان اس دقت فن بنتاہے جب روح اُس میں غرق رہتی ہے۔اس عالم وجدان میں جھوٹ سچ کامسئلہ ہی پیدانہیں ہوتا بلکہ حسن کااحساس غالب ہوتاہے۔‘‘ اب ڈاکٹر وزیر آغا اورکروشے کے لفظوں سے میں تویہ سمجھ پایاہوں کہ فن شعور اورلاشعور کے درمیان کی کسی کیفیت کانام ہے۔شعوری حیثیت میں موضوع کااحساس اورلاشعوری سطح پر اُس موضوع کے فن بننے کا عمل نہایت پیچیدہ ہے۔فن کی یہی خاص کیفیت جب فن کار پرباربارطاری ہوتی ہے تووہ اسلوب کہلاتی ہے۔اسلوب وہی تخلیقی سیال ہے جو فن کار کے جسم میں لہو کے ساتھ ساتھ دوڑتاہے۔گویا فن مکمل طورپر شعوری عمل نہیں ہے۔اگر فن مکمل طورپر شعور کے ساتھ عمل پذیر نہیں ہوتا توپھر ایسے میں لفظوں اورتراکیب کاسوچا سمجھا استعمال کیسے ممکن ہے؟ڈاکٹر صاحب(ریاض مجید) نے اپنے مضمون میں الفاظ وتراکیب کی بُنت اور اُس کے استعمال کی درجنوں فوری تراکیب بیان کی ہیں۔مضمون پڑھ کر میں خاصاحیران بھی ہوا کہ ڈاکٹر صاحب یقینا فن،وجدان اورشعور ولاشور کے درمیان تیرتے تخلیقی جہان کی رنگا رنگی سے واقف ہیں توپھر شعوری سطح پر خبراور اطلاع کے سطح پر فن کو رکھ کردیکھنے کی اس کوشش کاکیا مقصد؟ادب کی تشکیل مکمل طور پر شعوری عمل نہیں ہے کہ یہ خواب اور بیداری کے درمیان کی صورت حال ہے خیال اپنے لفظ ا ورتراکیب بھی خودلاتا ہے۔ تراکیب کی بُنت،مصرعے کی موزونیت یانثر پارے میں لفظوں کے دروبست میں تمام حصہ شعور کانہیں ہوتا۔اگر یہ مکمل طورپرشعوری عمل ہوتاتو شعر میںجذبہ،تاثر،کیفیت اورتناسب جیسے ماروائی تصورات کاذکر ہی نہ ہوتا۔وزیر آغا نے توفن کوتخلیق کارکواپنے سامنے آئینہ ہوجانے کا عمل بتایا ہے لیکن یہ آئینہ بدست ہونے کاعمل اکیلے فن کار کی کوشش نہیں ہے بلکہ بعض اوقات تخلیق میں موجود چاک(Gaps)کوقاری یاناظر کی قوت متخیلہ پوری کرتی ہے لیکن یہ ایک اورپیچیدہ مسئلہ ہے جس کا بیان شاید یہاں مناسب نہیں ہے۔اعلیٰ تخلیق صرف تخلیق کار کے لاشعور کے کچھ حصوں کو شعور تک لاتی ہے بلکہ قاری کے شعور کوبھی اُس کے لاشعور کے مقابل لاکھڑا کرتی ہے۔(انشاء اللہ اس نقطے پر تفصیلی مضمون پیش کروں گا) ڈاکٹر ریاض مجید اپنے مضمون میں ایک مقام پرلکھتے ہیں:

’’نعت کے اظہار میں نادرہ کاری کوآمیز کرنے کے لیے ہمارے پاس لاحقوں سابقوں کاایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔بس ذرا توجہ کی ضرورت ہے۔ہم دستیاب ذخیرے کونہ صرف نعت رنگ کرسکتے ہیں بلکہ عقیدت نگاری کی تمام صنفوں میں استعمال کرسکتے ہیں مثلاً آور کے ساتھ زورآور،نعت آور،حمد آور،منقبت آور وغیرہ۔‘‘ـ(مضمون برسبیل نعت___ الفاظ و تراکیب مشمولہ نعت رنگ۲۵،ص۹۴)

(ڈاکٹر صاحب سے معذرت کے ساتھ)اگر الفاظ،تراکیب،لاحقے،سابقے اورمرکبات شعری بُنت میں ایسے ہی ٹانکے جاسکتے ہیں توپھر شاعری کے لیے ایک عدد سابقوں لاحقوں کی کتاب اوراردولغات کی ضرورت ہوتی۔فن کی تخلیق،تخلیق کار پراترنے والا وہ خاص لمحہ ہوتاہے جب تخلیق کارلاشعوری سطح پر اپنے سامنے جاکھڑا ہوتاہے اوراُس کی ذات غیر ذات بن جاتی ہے۔یوں کہیے کہ تخلیق کار وہ نہیں رہتا جواُس لمحے سے پہلے تھا بلکہ خود تخلیق کاحصّہ بن جاتاہے۔تخلیق اُس خاص لمحے کی کہانی ہے جب شاعریاادیب کے سامنے صرف احساس حُسن بن کررہ جاتاہے۔ایسے مرحلے پر شاعر سچ اورجھوٹ سے بے نیاز ہوکردائرہ حسن کا کچھ حصّہ بن جاتاہے۔شاید اسی لمحے کی کہانی کو غالب نے اپنے مصرعے میں بیان کیا تھا:


آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں


معاملہ عمومی ادبیات وشاعری کاتھا لیکن مذہبی ومدحیہ ادبیات میں فن کار کے لاشعور پر کچھ تو مختلف اثرات ہوتے ہیں۔مذہبی ومدحیہ ادبی تخلیق کے دوران تخلیق کار کی مذہبی انفرادیت تخلیق کار کو اُس کی لاشعوری کیفیات میں سامنے آئینہ ہی نہیں کرتی بلکہ وہ مالک ِکائنات اللہ رب العزت کے سامنے اپنی نم آنکھوں،مرتعش دل اورکانپتے جذبوں کے سامنے جاکھڑا ہوتا ہے۔وہ شعور ولاشعور کے درمیان ڈولتی اس مختلف ومنفرد کیفیت میں اپنے جینیاتی(Genetical) کوڈڈ حیثیت میں اورمعاشرتی عوامل کے اثرات کے ساتھ یک بیک حاضرہوجاتاہے۔ایسے میں احترام اورمناجاتی احساس اُس شخصیت کے پیچھے ایک بڑے فکری عنصر کے طورپرموجود ہوتاہے۔ڈاکٹر ریاض مجید کی بتائی ہوئی تراکیب دراصل شعر گھڑنے یاانجینئرڈ شاعری(Engineered Poetry)کی تراکیب ہیں جس میں ایک خبریا اطلاع کی سی کیفیت ہوتی ہے۔جذبہ ،تاثر یاکیفیت کاایسی شاعری سے عموماً اعلیٰ سطح پر تعلق پیدانہیںہوپاتا۔ایسے اشعار ہمارے اردگرد بڑی مقدار میں تخلیق ہوتے ہیں اورپھر جلد ہی معدوم ہو جاتے ہیں۔احمد ندیم قاسمی کی نعت کاایک شعرہے:


پورے قدسے جوکھڑا ہوں تویہ تیرا ہے کرم

مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا


شعرسادہ اورپُرکیفیت ہے۔پورے شعر میں کوئی ترکیب یاکسی اورطرح کی لفظی صناعی نہیں بلکہ عام آدمی کویادرہ جانے والے شعر کی خوبصورتی وہ تناسب ہے جوشعور اورلاشعوری کیفیات میں تناسب سے جنم لیتاہے۔اسلوب لفظوں کے انجینئرڈ استعمال سے تشکیل نہیں پاتا۔روایتی شاعری اور طرحی مشاعروں نے ہمارے شاعروں،ناقدین اورقارئین وسامعین کے ذہنوں میں آفاقی شاعری کا کوئی تصور ابھرنے نہیں دیا۔گہرا مطالعہ اورخیال کے ساتھ دیر تک سفر میں رہنے سے عمدہ،اعلیٰ او ر آفاقی شاعری کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے لیکن یہ بہت محنت طلب کام ہے کہ ایک ہی خیال کوآپ زاویہ بدل بدل کرمختلف شکلوں میں تلاش کریں۔اس سے کہیں آسان کام یہ ہے کہ راویتی مضمون کی شعری گھڑائی کے بعد اُ س میں پہلے سے تیارشدہ تراکیب،مرکبات یالاحقوں سابقوں کوچسپاں کر دیا جائے۔مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے اس مضمون کی اشاعت کے بعد ہمارے روایتی نعت گو شعراء کاغذ قلم لے کرتیارہوچکے ہوں بلکہ یہ تمام لاحقے،سابقے،مرکبات وتراکیب تواب تک استعمال بھی ہوچکے ہوں گے ڈاکٹر صاحب کواپنے مریضوں کے لیے کسی نئے نسخے کااہتمام کرنا پڑے گا۔فن پارے کی تخلیق کے دوران اثرانداز عوامل کی مکمل فہرست نہیںبنائی جاسکتی تویہ کیسے ممکن ہے کہ تخلیقی عمل کو ایسے آسانی سے سمجھا جاسکے۔

فن پارے کی تخلیق کے دوران اثرانداز عوامل کی فہرست سازی کی جائے توایک نامکمل اور ادھوری تصویر حاصل ہوگی۔
  • فن کار کی شخصیت پراثرانداز معاشرتی عوامل
  • فن کار کی انانیت میںچھپی گرہیں
  • موضوع
  • فن کار کے نظریات،رحجانات اورمیلانات
  • فن کار کی خواہشات
  • فن کار کے آدرش اورخواب
  • سماج کی معاشی حالت

یہ فہرست ابھی مکمل نہیں ہوئی۔یہ مکمل ہوبھی نہیں سکتی کہ خودفن ایک پیچیدہ عمل ہے جسے ابھی مکمل طورپر سمجھا نہیں جاسکا۔ڈاکٹر ریاض مجید کے مضمون میں ایک جگہ وہ فرماتے ہیں:

’’نعت میں نادرہ کاری کے حصول کے لیے یہ بات ذہن میں رہے کہ صرف تراکیب سازی کی جمع آوری اوراُن کے استعمالِ محض سے بات نہیں بنتی پورے مصرع اورشعر کے ماحول میں اس ترکیب کاہم آہنگ ہوناضروری ہے۔لفظی طورپرنہیں معنوی طورپر۔‘‘(ایضاً،ص۹۷)

بالکل درست۔ترکیب سازی کے لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ ترکیب اپنی بُنت میں شعر کے ماحول سے ہم آہنگ ہوجائے۔مصنوعی یاعلا حدہ محسوس نہ ہو۔یہیں سے اشعار عمدہ سے اعلیٰ اورپھر اعلیٰ سے آفاقی کی جانب سفر کرتے ہیں۔ترکیب سازی اورسابقوں لاحقوں کی مدد سے لفظوں کی تشکیل کاعمل کسی حد تک میکانکی(Mechanical)محسوس ہوتاہے جوفن اورتخلیق کے عمل کو کسی حد تک سادہ توکرتاہے جوعام آدمی کے لیے قابل قبول ہو لیکن اس عمل میں گہرائی پیدانہیں ہوتی یوں شعر ایک خبریا اطلاع کادرجہ اختیارکرلیتاہے۔ بنیادی طورپر میرااختلاف لفظوں اورتراکیب کی اس طرح تیاری سے نہیں بلکہ ان کے میکانکی استعمال سے ہے۔اسلام آباد میں مقیم نعت کے ایک شاعر نے اپنے پاس کمپیو ٹر کی مد د سے قافیوں کی ایک فہرست تیارکی ہے۔مبتدی حضرات یقینا اس فہرست سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں لیکن یہ بھی توضروری ہے کہ ہم اپنے نوآموز شعراء وادباء کوفن اورتخلیق کی حقیقی مشکل سے روشناس کروائیں۔اس سے ہوسکتاہے کہ شعراء کی تعداد کم ہوجائے لیکن معیار کابہترہونا ضروری ہے۔

ڈاکٹر عزیز احسن اس بار بھی ہمیشہ کی طرح نعت اورنعتیہ ادب میں تخلیق،تنقید اورتحقیق کے ضمن میں محتاط رویوں اورلفظوں کاصحیح اورمحتاط استعمال کے حوالے سے ایک عمدہ تحریر لے کرآئے ہیں۔لفظوں کے صحیح استعمال میں تلفظ،معنی،عروض،صنائع بدائع،ہیت اورجمالیات کوانہوں نے موضوع سخن بنایا ہے۔ڈاکٹر عزیز احسن نے اسی مضمون میںشترگربہ(بیان کاعیب)سمجھانے کی غرض سے دواشعار مثال میں پیش کیے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے درخواست ہے کہ عیب بتاتے ہوئے بھی اس معیار کے اشعار پیش نہ فرمایا کریں۔مضمون کے آخر میں نعت کیاہے؟کے عنوان سے انہوں نے ۲۸مختلف موضوعاتی البعاد کی طرف اشارہ کیاہے جو نعت یامتعلقات نعت ہوسکتے ہیں۔یہ فہرست بہت عمدہ ہے اورڈاکٹر عزیز احسن درست طورپرہمارے نعت نگاران اورناقدین کی رہنمائی فرمارہے ہیں۔ڈاکٹر عزیز احسن کے مختلف مضامین کے مطالعے سے مجھ تک جو احساس پہنچا وہ یہ ہے کہ عزیزاحسن عقیدت اورعقیدہ کے درمیان توازن اوردرست سمت میں سفر پرزوردیتے ہیں۔اُن کی رہنمائی ہمارے نئے نعت گو حضرات کے لیے بہت اہم ہے۔ڈاکٹر صاحب کااسلوب خالص تحقیقی ہے۔ تنقید کالہجہ نسبتاً نرم اور کسی حد تک دلچسپ ہونا چاہیے۔اس حوالے سے ]]ڈاکٹر ابوالخیر کشفی]] کی تحریریں نرم،شیریں اوررواں اسلوب کی حامل ہیں جبکہ ڈاکٹر عزیز احسن کے ہاں روانی اورسلاست توہے لیکن کسی قدرسختی کااحساس ہوتاہے۔یہ مقالہ بھی اس شمارے کے ایک دوبہترین مقالات میں سے ایک ہے میں ڈاکٹر عزیز احسن کو اتنی اہم اورعمدہ تحریر پرمبارک باد پیش کرتاہوں۔اس کے بعد میرا(کاشف عرفان)کاایک مقالہ ’’اردو نعت نگاری پرمابعدجدیدیت کے اثرات‘‘موجود ہے۔آپ حضرات کی توجہ کا منتظر ہوں۔

پروفیسر ڈاکٹر افضال احمد انور کاتحقیقی مضمون بلاشبہ تحقیق کے نئے درواکرتاہے آپ نے’’طلع البدرعلینا‘‘کے اشعار کامحل وقوع اورمعنی بیان کیے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ مختلف روایات میں لفظوں کے فرق کوبھی پیش کیاہے۔اس خوبصورت نعتیہ نظم کو کس موقع پرپڑھا گیا۔ ڈاکٹر صاحبنے دومختلف آرائہی پیش نہیں کیں بلکہ دونوں طرف کے دلائل کوسامنے رکھتے ہوئے قارئین کوخود فیصلہ کرنے کی دعوت دی ہے۔بہرحال یہ ایک خوبصورت تحقیقی مضمون ہے جس میں تحقیق کے تمام اصول وضوابط کا خیال رکھا گیاہے۔

ڈاکٹر شبیر احمد قادری اورڈاکٹر اصغر علی بلوچ(فیصل آباد)کی مشترکہ تحقیق’’مذاہب عالم کافلسفہ اخلاق اور اردو نعت نگار‘‘نہایت عمدہ کاوش ہے۔یہ مقالہ بھی تحقیقی ہے اس میں تنقید کاحصّہ نہ ہونے کے برابرہے۔یہی وجہ ہے کہ اس مقالے کالب ولہجہ خالص علمی اورسنجیدہ ہے۔ڈاکٹر محمد طاہرقریشی کامضمون’’ملی شاعری میں نعتیہ عناصر۱۹۶۵ء کی جنگ کے تناظر میں‘‘ایک بے مثال تحقیقی وتنقیدی مضمون ہے جس میں جنگ۱۹۶۵ء کے دوران لکھے جانے والے لہو کوگرمادینے والے نغموں میں مناجاتی عناصر کی تلاش کی گئی ہے۔تنقید کاحصّہ بھی خاصا عمدہ ہے۔آج ستمبر۲۰۱۶ء میں پھر سے جنگ کی باتیں ہورہی ہیںایسے میں اس مضمون کی اہمیت اوربھی بڑھ جاتی ہے۔


غلو اورشرک کے سدباب کے لیے لکھا گیا ڈاکٹر اشفاق انجم کامضمون’’نعت میں منفی عناصر ‘‘ ڈاکٹر عزیز احسن کے مضمون کی توسیع(Extension)معلوم ہوتاہے۔مدیر نعت رنگ ایک ہی طرح کے مقالہ جات کواگر علیٰحدہ علیٰحدہ شماروں میں لگادیتے تومناسب ہوتا۔بہرحال یہ بھی اپنی جگہ ایک عمدہ کاوش ہے۔گوہرملسیانی کامضمون’’نعت اور رسول اکرمؐ کے تقاضے‘‘نعت کودرست طورپرسمجھنے اور قرآن وحدیث کے عین مطابق اپنے اشعار ڈھالنے کا سبق دیتا ہے۔ گوہرملسیانی لکھتے ہیں:

’’(ایسی احادیث) جن کی سندات مشکوک ہیں۔ان کوروایت اوردرایت کے حوالے سے دیکھ لیناچاہیے اورقرآن کی تصریحات کے خلاف پاکرا نہیں یاان کی صفات کو نعت کہتے ہوئے اسلوب وبیان کی زینت نہیں بناناچاہیے۔ایسا نہ ہوکہ نعت رحمت ومحبت کے بجائے زحمت وخسارہ بن جائے۔‘‘(نعت رنگ۲۵،ص۳۰۵)

گوہرملسیانی سینئر نعت گوشاعرا ور نقاد ہیں۔ایسے مضامین کی ضرورت ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ اس لیے بھی ہے کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پرہرشخص جیسا کہہ رہاہے ویساہی پیش کر رہا ہے ۔ اس آزادی نے لوگوں میں احتیاط کاشعور ہی ختم کردیاہے یوں فکر اورفن پرقدغن نہ ہونے کے باعث اب شعراء اُس احتیاط کامظاہرہ نہیں کررہے ہیں جونعت اورحمد کہتے ہوئے ایک حمد ونعت گوشاعر کے سامنے ہونی چاہیے۔ایسے میں گوہر صاحب جیسے استاد ہی ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں اورانہوں نے اس مضمون میں رہنمائی کاحق ادا کیا۔

مولانا احمد رضا خان کے نعتیہ دیوان’’حدائق بخشش‘‘کے متن میں مختلف اغلاط کی وضاحت کرتا ہوا ڈاکٹر صابر سنبھلی کامضمون’’حدائقِ بخشش اورکلیات ِحسن کے متن کاالمیہ‘‘عمدہ کاوش ہے جس میں تحقیق کی سطح بہت بلند اورعمدہ ہے۔فاروق ارگلی نے ہندوستان سے اردو کے سکھ نعت گو شعراء کو موضوع سخن بنایا ہے۔فاروق صاحب کی نثر خوبصورت اوراسلوب نہایت جاندار ہے۔

کھاریاں سٹی سے پروفیسر ڈاکٹر اشفاق جلالی نے علامہ نوربخش توکلی کی قصیدہ بردہ شریف کی شرح’’العمدۃ‘‘کوموضوع سخن بنایاہے جس سے قصیدہ بردہ شریف کے حوالے سے کچھ نئی معلومات حاصل ہوئی۔کراچی سے ڈاکٹر شہزاد احمد’’نعتیہ کلیات کی روایت___ ایک مطالعاتی جائزہ‘‘ لے کر تشریف لائے خالص تحقیقی مضمون کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ معلومات کاایک بڑاخزانہ آپ کے ہاتھ لگ جاتاہے اوراُس پر مستزاد یہ کہ ڈاکٹر شہزاد احمد جیساادبی اسلوب بھی میسرآجائے تو ہم کیوں نہ اپنی قسمت پررشک کریں۔بہت عمدہ معلوماتی مقالہ جس میں ایسے شعراء کی فہرست سازی کی گئی ہے جن کی نعتیہ کلیات شائع ہوچکی ہیں۔

منظر عارفی کامضمون’’اردو نعتیہ اشعار میں چٹائی، غارِ حرا اورجو‘‘ کے تذکروں کابیان کرناہے۔مضمون کا عنوان نعتیہ اشعار کے حوالے سے ہے تاہم پورے مضمون میں ایک شعر غارِحرا کی مناسبت سے شامل ہے۔غالباً منظر عارفی صاحب کواس مضمون کے عنوان کواس کے متن سے ملا نہ سکے اگرچہ یہ مضمون نبی اکرمؐ کی غذااور آپؐ کی سادہ زندگی کے حوالے سے بہت علمی کاوش ہے تاہم اردو شاعری کے حوالے سے نہ ہونے کے برابر ہے۔مکتوب نگاری کے حوالے سے ایک طویل مقالہ ڈاکٹر داؤد عثمانی کا’’نعت نامے اورنقد نعت‘‘ہے۔انہوں نے خطوط میں شامل عمدہ آراء کو پیش کیا اورخطوط کے ذریعے’’نعت رنگ‘‘میں ہونے والے مختلف عوامل کے حوالے سے معلومات فراہم کیں۔خورشید ربانی نے سرائیکی شاعری میں نعت کے پھولوںکو چنا جن کی بھینی بھینی خوشبو ہم اب بھی اپنے گرد محسوس کررہے ہیں۔ساجد نظامی نے ایک قدیم نعتیہ مجموعہ’’گلدستہ معرفت ‘‘کاتعارف پیش کیا۔مقالاتِ نعت کے آخری حصّے میں قمر وارثی نے حمد ونعت کی ترویج میں دبستان وارثیہ کے کردار کاجائزہ لیا۔سچ یہ ہے کہ فروغ حمد ونعت میں خود قمر وارثی اوردبستان وارثیہ کا کردار بہت نمایاں ہے۔اللہ قمر وارثی کوعمرخضر عطافرمائے اوران کے کام میں برکت عطافرمائے۔


حریم عقیدت کے عنوان سے مختلف شعراء کے کلام پرناقدین نعت نے نظر ڈالی ہے تقریباً تمام شعراء کا کلام عمدہ اور دل کوچھونے لینے والا ہے۔جن شعراء کے گوشے ترتیب دیے گئے ہیں ان میں انورشعور،جلیل عالی اورسید ضیاء الدین نعیم شامل ہیں۔سید ضیاء الدین نعیم کے دوخوبصورت نعتیہ اشعار دیکھیں:


شعور وفہم کے پیغام برخدا کے رسول

وفا تمام یقیں سربسر خدا کے رسول

……

الہٰ اور نہیں ہے کوئی مگر اللہ

یہ درس دیتے رہے عمر بھر خدا کے رسول

فکروفن کے عنوان سے قائم باب میں خالص تحقیقی اورعلمی مباحث چھیڑے گئے۔ان شخصیات میں جن کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔علامہ یوسف بن اسماعیل النھانی،اقبال،محسن کاکوروی،مرزا دبیر، انشاء،مولانا ظفرعلی خان،مولان اغلام رسول مہر،ڈاکٹر محمود احمد غازی اورسرشار صدیقی کی مختلف تخلیقات کے حوالے سے اساتذہ فن کی گفتگو نے ذہن ودل کومعطر کیا۔پروفیسر انوراحمد زئی کی تحریرپاکستان میں اردو نعت کاادبی سفر اورڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی کامقالہ’’المدیح النبوی___ ایک مطالعہ‘‘ عمدہ تحریریں ہیں۔حاصل مطالعہ کے عنوان سے قائم باب میں کتب نعت کاتعارف اورتبصرہ ڈاکٹر عزیزاحسن کے قلم سے ہے اورسچ پوچھیے تواس حصّے کاذائقہ ہی علاحدہ ہے۔’’ایوان مدحت‘‘میں مختلف شعراء کرام کی خوبصورت حمدیہ اورنعتیہ تخلیقات نے مزہ دیا۔آخر میں نعت رنگ کی ترویج وترقی اوربہتری کے لیے قارئین کے خطوط نے شمارے کے وقار میں اضافہ کیا۔خطوط میں احمد صغیر صدیقی،ڈاکٹر عبدالکریم اورفراست رضوی کے خطوط ہمیں شمارے سے مکمل آگاہی دیتے ہیں۔آخر میں عطیۂ کتب کی فہرست موجود ہے۔۹۵۰ صفحات کی ضخامت لیے ہوئے [[ پچیسویں نعت رنگ نے ہم تشنگان نعت وتحسین نعت پر تشنگی کوکم کیاہے جس کے لیے نعت رنگکی مکمل ٹیم خصوصاً سید صبیح الدین رحمانی اورڈاکٹر عزیز احسن کومبارک باد پیش کرتاہوں۔آخر میں ایک تجویز کہ نعت رنگ میں مستقل عنوان کے تحت نعت کے حوالے سے کسی نہ کسی اہم شخصیت سے انٹرویو کیاجائے تاہم یہ انٹرویو روایتی سوالات سے ذرا ہٹ کرہوں۔اس کے لیے میں نے کچھ سوالات پرمشتمل خاکہ تیار کیاہے جسے ان شاء اللہ آئندہ پیش کروں گا۔

ٌٔ