"نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
سطر 30: سطر 30:


[[ نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27 ۔ ابتدائیہ | ابتدائیہ ۔ صبیح رحمانی ]]
[[ نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27 ۔ ابتدائیہ | ابتدائیہ ۔ صبیح رحمانی ]]
ابتدائیہ
اس عہد میں بعض اہلِ نظر کے یہاں یہ احساس نمایاں طور سے موضوعِ گفتگو بنا ہوا ہے کہ اس وقت تہذیب و روایت کا وہ نظام اور قدریں مکمل طور سے معرضِ خطر میں ہیں جن کا ذرا سا بھی تعلق ہمارے مذہبی افکار و تصورات سے ہے۔ یہ خیال غلط نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم دیکھ سکتے ہیں، عصرِ حاضر میں اسلام کا معاملہ بہ یک وقت کئی طرح کی متحارب قوتوں سے ہے۔ ایک طرف وہ مذہب دشمن قوتیں ہیں جو اُسے ہر ممکن مٹانے کے درپے ہیں۔ یہ قوتیں عالمی سطح پر کام کررہی ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ مذہب کو انسانی زندگی سے کسی نہ کسی طرح یکسر نکال دیا جائے۔ اس کے بعد یہ دنیا اُن کے لیے آسان ہدف ہوجائے گی اور دنیا بھر کے انسانوں کو اخلاق و عدل سے عاری نظامِ حیات کے ذریعے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے باسہولت استعمال کیا جاسکے گا۔ ان کے پس منظر میں وہ لوگ اور ادارے کارفرما ہیں جو زرپرست ذہنیت رکھتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار دنیا کے نمائندے ہیں اور اس کے جال کو بچھانے میں مشغول ہیں۔
دوسری طرف وہ نظریات و افکار ہیں جو زرپرست ذہنیت کو تو بے شک رد کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی کسی گہری بنیادی غلط فہمی کی بنا پر مذہب کو بھی انسانی ترقی اور سماجی مساوات و استحکام کے لیے ایک رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ حالاںکہ حالات و واقعات نے اس مفروضے کو اس عہد تک آتے آتے کلیتاً غلط ثابت کردیا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی غلط فہمی کسی طرح رفع نہیں ہوتی، اور وہ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ جس مساوات، عدل، استحکام اور خوش حالی کی بات کرتے ہیں، اس کا حصول مذہبی نظام سے ہم آہنگی میں بدرجہا بہتر اور قدرے جلد ممکن ہے۔ اس لیے کہ مذہب تو ان سب امور کو انسانی سماج کے لیے ایک بنیادی تقاضے کے طور پر اختیار کرتا ہے۔ اگر وہ مذہب کے حلیف بن کر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف صف آرا ہوں تو نتائج دیکھتے ہی دیکھتے کچھ سے کچھ ہوجائیں گے۔ تیسری طرف حقیقی روحِ اسلام سے ناواقف مسلمانوں کا وہ گروہ ہے جو اسلام کی اصل تصویر کو ذاتی تاویل و تفسیر کے ذریعے دانستہ نادانستہ مسخ کررہا ہے اور اس کے تعمیری اور انقلابی پیغام کو غیر مؤثر بنانے میں دشمنوں کا آلۂ کار بن کر رہ گیا ہے۔
اسلامی افکار و احکام سے صریح دشمنی اور دیدہ دانستہ ہر ممکن ضرر رسانی کی اس فضا میں مذہبی افکار کی حقانیت اور سربلندی کے لیے کام کرنا اور دینی رشتوں سے اپنے آپ کو منسلک رکھنا، توحید و رسالت کا اثبات و اعلان کرنا، محبتِ رسولVکے نغمے چھیڑنا معمولی بات نہیں، لیکن دل کشا حقیقت یہ ہے کہ آپ کو مذہبی شعور اور اس کے نظامِ اقدار سے گہری اور پُرخلوص وابستگی کے مظاہر بھی یہاں سے امریکا تک جہاں جہاں اسلامی معاشرہ قائم ہوا ہے وہاں وہاں واضح طور پر نظر آئیں گے۔ اس لیے کہ مسلمان کی انفرادی زندگی میں ختمی مرتبت نبیِ آخر الزماں حضرت محمد مصطفی Vکی محبت ایمان کا لازمی جزو ہے تو اجتماعی دائرے میں آپ V کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا اسلام کا لازمی تقاضا ہے۔ یہ محبت اور تقاضا دونوں مل کر ایک ایسی مضبوط اساس اور مستحکم رابطے کی نوعیت اختیار کرلیتے ہیں جس پر اسلامی عقائد و عبادات ہی نہیں، بلکہ باہمی انسانی اخوت و اخلاص کی عمارت بھی استوار ہوتی ہے۔ بقول اقبالؔ:
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرعِ دیں بت کدۂ تصورات
٭
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب ، میرا سجود بھی حجاب
اس تناظر میں ہم ایسے مسلمانوں کی زندگی اور اُن کی شعری تخلیقات پر نظر ڈالتے ہیں جو ساری عمر عشقِ نبیِ کریمVکو بصد خلوص نہ صرف نبھاتے رہے، بلکہ اپنے افکار و خیالات میں اعلانیہ اپنے ایمان کی اس اساس اور مستحکم سماجی رابطے اور عشق و شوق کے اس تسلسل کا والہانہ اقرار و اظہار بھی غیرمشروط طور پر کرتے رہے۔ یہ وہ خوش بخت لوگ ہیں جو ایک طرف تو اس اقرار و اظہار سے اپنے اور اُمتِ مسلمہ کے دینی جذبات و احساسات کی تکمیل و تسکین کا سامان کرتے رہے اور دوسری طرف انھوں نے اسلام دشمن قوتوں، تحریکوں اور نظریات کی پھیلائی ہوئی فکری تیرگی کے انسانیت دشمن ماحول میں عشقِ نبی کریمV کے وسیلے سے عزم و ہمت اور وفاداری و جاں نثاری کے چراغوں کو فروزاں کرکے حقِ غلامی بھی ادا کیا۔ اسلامی تہذیب سے آراستہ معاشروں، ملکوں اور زبانوں میں نعت گوئی انھی جذبات و احساسات کا بلیغ ترین مظہر ہے۔
تاریخِ ادب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہورِ اسلام کے بعد ہر دور کے شعرا نے ہادیِ برحق نبیِ مکرمVکے اوصاف و مناقب اور جمالِ صورت و کمالِ سیرت کے بیان میں ُحسنِ کلام اور ُحسن ِعقیدت کی جولانیاں دکھائی ہیں۔ آپVکے حسن و جمال کی بوقلمونی، آپ Vکی سیرتِ مبارکہ کے نقوشِ لازوال، میلاد و معراج کے تذکرے، آپ کا پیغام، تقویٰ، طہارت، عالم گیری و جہاں بانی، آپ کی محبت میں سوز و گداز، ہجر و وصال، آپ کے قرب کی خواہش، طلبِ شفاعت، آپ کے شہر میں قیام اور موت کی تمنا، آپ کے معجزات و غزوات، آپ کی تعلیمات میں انسان دوستی اور خیر کی روشنی سے معمور معاشروں کی صورت گری ایسے افکار و تصورات نعت گوئی کے عام اور مستقل موضوعات رہے ہیں۔ نعت گوئی کا دامن بھی اسلام کی توسیع کے ساتھ برابر پھیلتا رہا۔ عرب اور اس کے بعد عجمی ممالک میں جب اسلام کا نور پھیلا تو اس میں مقامی رنگوں کی آمیزش نے بھی اس صنف کے موضوعات اور اسالیب کو وسعت دی۔ خصوصاً فارسی نعت گوئی جو طلوعِ اسلام سے کم و بیش تین صدی بعد وجود میں آئی، اس میں جن موضوعات نے جگہ پائی ان میں آشوبِ ذات اور آشوبِ دہر بھی شامل ہوئے۔ اسلامی ممالک میں سیاسی کش مکش، سلطنتوں کی شکست و ریخت اور اقتدار کی جنگ و قتال نے جہاں آبادیوں کو تہ و بالا کیا وہیں لوگوں کے معاشی اور معاشرتی نظام کو بھی زیر و زبر کرکے رکھ دیا۔ اس قسم کے آشوب و ابتلا میں شعرا نے اپنے مصائب و آلام کے نوحے اور حزن و ملال کے مرثیے لکھے۔ استغاثے اور استمداد کے مضامین سامنے آئے جن سے اُردو نعت کے موضوعات کا دامن مزید وسیع ہوا۔
عربی و فارسی کے بعد اُردو زبان میں بھی نعتیہ شاعری کو قبولِ عام حاصل ہوا۔ اُردو میں نعتیہ شاعری کی ایک طویل روایت ہے، اور یہ روایت صرف اظہار کے پیرایوں اور پیمانوں کی نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق ان آداب اور محتاط رویوں سے بھی ہے جو مضامینِ مدحت کو تخیّلی پیکر دینے اور برتنے میں نزاکتیں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اُس بارگاہ میں نہ تو بے باکیوں کی گنجائش ہے اور نہ ہی غیر معتدل مبالغے کی پذیرائی۔ اس لیے نعتیہ شاعری روایتی شاعری سے کہیں زیادہ مشکل ہے، لیکن ان مشکلات اور پابندیوں کے باوجود نعتیہ شاعری کو رسمی طرزِ سخن کے خانے میں رکھ کر نہیں دیکھا جاسکتا، کیوںکہ نعتیہ شاعری گہری ارادت اور عقیدت سے تحریک تو ضرور پاتی ہے، لیکن اسے محض عقیدت و محبت کا اظہار سمجھنا اس کی فکری و فنی قدر و قیمت کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ یہ غزل، نظم یا کسی بھی دوسری صنفِ ادب کی طرح ایک ایسی صنفِ اظہار ہے جس میں نازک خیالات اور گہرے افکار کو سہارنے کی پوری سکت ہے۔ نعت کا تخلیقی تناظر اس امر کی صداقت کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔
ہمارے عہد تک آتے آتے اُردو میں نعتیہ شاعری عظمت، رفعت، علمی وقار، لسانی بلندی و لطافت کی مقبولیت کی کئی منازل طے کرچکی ہے اور آج یہ اپنے موضوع کے لحاظ سے اُردو شاعری میں ایک امتیازی شان سے جلوہ گر ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں اُردو نعت گوئی میں فکری اور تخلیقی اعتبار سے جو توانا رجحانات سامنے آئیں ہیں، وہ خوش کن ہی نہیں فکر افروز بھی ہیں۔ عصرِ حاضر کے نعت گو شعرا کا نظامِ فکر و وجدان، قرآنی تعلیمات اور اسلامی اقدار و شعائر کے تحت تشکیل پاکر سامنے آتا ہے۔ آج کا نعت نگار اجتماعی، انفرادی اور کائناتی دُکھوں کے مداوے کے لیے سیرتِ اطہر سے روشنی کشید کر رہا ہے۔ یوں ہماری نعت اسلام اور روحِ اسلام، کائنات اور مقصدِ کائنات، رسولVاور حیاتِ رسول V کی تفہیم کا ایک وسیلہ بن کر محض عقیدت کا معاملہ نہیں رہی، بلکہ فکری و فنی سطح پر بھی ادب و تہذیب کا معتبر حوالہ بن گئی ہے۔
ہمارا عہد صرف نعت کے تخلیقی امکانات ہی کا عہد ثابت نہیں ہوا، بلکہ اس میں نعت کے تنقیدی رجحان اور مطالعاتی منہاج نے بھی نمایاں طور سے فروغ پایا ہے۔ خصوصاً نعت کی فنی و فکری پرکھ کے لیے برسوں سے مروّجہ روایتی تنقیدی اصولوں کی جگہ نئے تنقیدی نظریات کے تناظر میں مطالعۂ نعت کی ضرورت و اہمیت کا احساس اجاگر ہوا۔ اس ضمن میں معروف نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا یہ اقتباس میری بات کی وضاحت کے لیے کافی ہوگا:
اُردو نعت کی تنقید اس کے تخلیقی ارتقا کا ساتھ دینے سے قاصر رہی ہے۔ اُردو نعت میں ہیئت، اسلوب اور تکنیک کی سطحوں پر جو ارتقائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، انھیں سمجھنے، ان کی فنی حیثیتوں کا مطالعہ کرنے اور نئے تنقیدی نظریات کی روشنی میں ان کی تعبیر کرنے کی کوشش خال خال ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ اُردو نعت کے تنقیدی مطالعات کی کمی نہیں، مگر یہ مطالعات چند بندھے ٹکے، پامال تنقیدی اصولوں کی روشنی میں کیے گئے ہیں۔ چناںچہ یہ مطالعات اُردو نعت کی شعریات کی گہرائی اور وسعت سے متعلق ہمارے علم میں کوئی اضافہ نہیں کرتے۔ دوسری طرف نعت کا تنقیدی مطالعہ دیگر شعری اصناف کے مطالعے سے خاصا مختلف اور کہیں زیادہ ذمے داری کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ذمے داری صرف ان تلمیحات کے مستند علم اور ان کے سلسلے میں تقدس و احترام سے عبارت نہیں، جن کا تعلق سیرتِ رسولVسے ہے، بلکہ اس کا تعلق اس امر کے انکشاف سے بھی ہے کہ کس طرح مذہبی و مدحیہ و تحسینی تجربہ، ایک شعری تجربے میں منقلب ہوتا ہے اور کس طرح یہ شعری تجربہ وقت کے ساتھ نئے نئے اسالیب میں ظاہر ہوتا ہے۔
(مضمون سے اقتباس مشمولہ نعت اور جدید تنقیدی رُجحانات، مطبوعہ ۲۰۱۶ء، نعت ریسرچ سینٹر، کراچی)
نعتیہ ادب کی تنقید کے بارے میں اس احساس تک پہنچنے کے لیے ’’نعت رنگ‘‘ نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آج نعت پر تنقید کا سفر راست سمت میں جاری ہے اور اس کارواں کا ہر قدم اس منزل سے قریب تر ہوتا جارہا ہے جس کی تمنا ’’نعت رنگ‘‘ کے آغاز میں ہمارے ذہنوں میں بیدار ہوچکی تھی۔ اب ہمارے بیشتر لکھنے والے اسی احساس کے ساتھ اس کارواں میں شامل ہورہے ہیں۔ اُردو تنقید کے معتبر ناموں کا اس کارواں میں شامل ہونا یقینا ’’نعت رنگ‘‘ کے سفر کو اعتبار عطا کررہا ہے۔ نعتیہ ادب میں تازہ مکالمے اور نئے بیانیے کی روشنی طلوع ہورہی ہے۔ ’’نعت رنگ‘‘ کا ہر تازہ شمارہ اس بدلتے تناظر کو نمایاں کرنے والا ایک ایسا اُجلا آئینہ بنتا جارہا ہے جو مستقبل میں بھی اپنے موضوع پر کام کرنے والوں کے لیے رہنمایانہ کردار ادا کرنے کے ساتھ حوالہ جاتی ضرورتوں کو بھی پورا کرے گا۔ (ان شاء اللہ)
’’نعت رنگ‘‘ کا شمارہ ۲۷ پیشِ خدمت ہے۔ تائید و توفیقِ الٰہی کے بغیر کسی کامیابی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ’’نعت رنگ‘‘ بھی فضلِ خداوندی کے سوا کچھ نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ اُردو کے اہم لکھنے والے بڑی تیزی سے اس صراطِ خیر کے مسافر بنتے چلے جارہے ہیں۔ پیشِ نظر شمارے کے مشمولات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ہم کو جس راستے کا مسافر بنایا گیا تھا اس پر استقامت اور کامیابی بھی ہمارے ساتھ کردی گئی تھی۔ ر٭ّبِ کریم نے شکر ادا کرنے والوں کو مزید نوازنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ سو، میرے ساتھ ’’نعت رنگ‘‘ کے تمام لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کو بھی اس سلسلے میں اپنی دعائوں کو شکرگزاری کے جذبات کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے۔
یہاں ایک نکتے کی طرف توجہ دلانا ضروری محسوس ہورہا ہے۔ کوئی لکھنے والا ہو یا پڑھنے والا، ہر شخص کا ہر دوسرے شخص سے مکمل اتفاق ضروری نہیں ہے۔ مکمل یا جزوی اختلاف کسی سے بھی ہوسکتا ہے۔ اختلاف کوئی بری چیز بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے، ادب، فکر اور تنقید کے لیے تو یہ بڑی بابرکت شے ہے۔ اس لیے کہ اس سے خیال کے نئے در وا ہوتے اور فکر و نظر کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔ تاہم یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اختلاف کو فکری و نظری سطح پر رہنا چاہیے۔ اسے ذاتی یا شخصی ہرگز نہیں بننا چاہیے اور نہ ہی اسے مخالفت کی سطح پر آنا چاہیے۔ نیا ہو یا پرانا، چھوٹا ہو یا بڑا، ہر لکھنے والے کی اپنی ایک حیثیت اور اہمیت ہے۔ البتہ پرانے اور بڑے لکھنے والوں کے لیے ہمارے رویے میں زیادہ سنجیدگی، متانت اور لحاظ نظر آنا چاہیے۔ اس لیے کہ ہم اپنے بڑوں کی عزت و وقار کا خیال رکھتے ہوئے نظر آئیں گے تو یہ دراصل بعد والوں کی تربیت کا ذریعہ بھی ہوگا۔ ’’نعت رنگ‘‘ نے اختلافات کو ہمیشہ خوش آمدید کہا ہے۔ اس شمارے میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ تاہم آئندہ بے احتیاطی یا بے ادبی کو محسوس کرتے ہوئے ادارہ کسی بھی مضمون کی اشاعت سے انکار کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
اس شمارے میں معروف شاعر، نعت نگار اور نقاد و محقق محترم ڈاکٹر ریاض مجید کا ایک مضمون بھی شامل ہے، جس میں نعت کے تحقیقی و تنقیدی مطالعات کے لیے بعض موضوعات کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ہمیں بے حد خوشی ہوئی کہ اُن جیسی شخصیت نے نہ صرف اس کام کی ضرورت محسوس کی، بلکہ اس پر قلم بھی اٹھایا۔ گزشتہ برس ہم نے بھی پاکستان اور ہندوستان کی نمایاں جامعات کو ایک مراسلہ بھیجا تھا، جس میں کچھ موضوعات کا تعین کیا گیا تھا۔ اعادے کی غرض سے اُن موضوعات کو یہاں درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
۱۔ نعت پر شرعی تنقیدی افکار کا تنقیدی محاکمہ
۲۔ جدید اردو نعت کا اسلوبیاتی مطالعہ
۳۔ قدیم و جدید نعتیہ شاعری کے اہم رجحانات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
۴۔ اردو کے معروف غزل گو شعرا کی نعت گوئی کا تنقیدی مطالعہ
۵۔ بیس ویں صدی کے مقبول نعت نگار/ احوال و آثار
۶۔ اردو نعتیہ شاعری میں رزمیہ عناصر کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ
۷۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعرا کی نعتیہ شاعری کا تنقیدی مطالعہ
۸۔ نعت گو شاعرات کی زبان و بیاں کے خصوصی امتیازات
۹۔ اردو مرثیے میں نعتیہ عناصر کا تنقیدی و تحقیقی مطالعہ
۱۰۔ اردو کے اہم تذکروں میں نعتیہ اشعار کے حوالوں کا تحقیقی مطالعہ
۱۱۔ نعتیہ شاعری میں موضوعِ روایات کا محققانہ جائزہ
۱۲۔ اردو نعت کی شعری جمالیات کا تجزیاتی مطالعہ
۱۳۔ اردو کی قدیم مثنویوں میں نعتیہ عناصر کا تحقیقی جائزہ
۱۴۔ اردو کے قدیم قصائد میں نعتیہ عناصر کا تحقیقی مطالعہ
۱۵۔ اردو نعت پر لکھے گئے تحقیقی مقالات کا تنقیدی جائزہ
۱۶۔ نعتیہ ادب میں تحقیقی مقالوں کے موضوعات اور طریقِ تحقیق کا تنقیدی جائزہ
۱۷۔ اردو میں نعتیہ صحافت کا تحقیقی جائزہ
۱۸۔ نعتیہ تذکرہ نگاری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
۱۹۔ اسلامی ادب کی تحریک اور فروغِ نعت کے امکانات— ایک تحقیقی مطالعہ
۲۰۔ اردو میں نعتیہ گیت نگاری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ
۲۱۔ اردو کی روایتی اور جدیدنعتیہ شاعری کے موضوعات کا تقابلی مطالعہ
۲۲۔ نعت نمبروں کی روایت کا تحقیقی جائزہ
۲۳۔ نعت گو شعرا کے فکر و فن پر لکھی جانے والی کتب کا تنقیدی جائزہ
۲۴۔ اردو نعت اور عقیدۂ ختم نبوت— ایک تحقیقی جائزہ
۲۵۔ اردو میں نعتیہ گل دستوں کی روایت کا تحقیقی مطالعہ
۲۶۔ جدید اردو غزل میں نعتیہ عناصر کا تحقیقی مطالعہ
۲۷۔ قصیدہ بردہ کے منظوم اردو تراجم کا تقابلی جائزہ
۲۸۔ اردو نعتیہ شاعری میں قرآن و احادیث کی تلمیحات کا تحقیقی مطالعہ
۲۹۔ فتاواے رضویہ میں نعتیہ نکات کا تحقیقی جائزہ
۳۰۔ نعت میں سراپا نگاری کی روایت کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ
۳۱۔ پاکستان/ بھارت کی علاقائی زبانوں میں نعت گوئی کا تحقیقی جائزہ
۳۲۔ پاکستان میں نعت خوانی کا فن— فروغ و ارتقا سے مسائل و مباحث تک
۳۳۔ اردو کے اہم نعتیہ انتخابوں کا تنقیدی مطالعہ
۳۴۔ اردو میں نعتیہ دیباچہ نگاری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ
۳۵۔ اردو میں غیر منقوط نعتیہ شاعری کی روایت کا تحقیقی جائزہ
۳۶۔ جدید اردو نعت میں علامت نگاری کے رجحانات کا تنقیدی جائزہ
۳۷۔ اردو نعت میں تلمیحات کا استعمال— ایک تحقیقی مطالعہ
۳۸۔ اردو کے نمائندہ نعت شناس— احوال و آثار
۳۹۔ اردو کے اہم نعتیہ قصائد کا تجزیاتی مطالعہ
۴۰۔ اردو نعتیہ شاعری میں فلسفیانہ رجحانات کا تحقیقی مطالعہ
۴۱۔ اردو کی متصوفانہ شاعری میں نعتیہ عناصر کا تحقیقی جائزہ
۴۲۔ نعتیہ ادب میں منظوم تراجم کی روایت کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ
۴۳۔ جامعات میں نعت شناسی کی روایت کا تحقیقی جائزہ
۴۴۔ فروغِ نعت میں تعلیمی اداروں کا حصہ— ایک تحقیقی مطالعہ
۴۵۔ فروغِ نعت میں رسالہ ’’شام و سحر‘‘ کا حصہ— ایک تحقیقی مطالعہ
۴۶۔ ’’نعت نامے‘‘ [مجموعۂ خطوط] کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ
۴۷۔ بیس ویں صدی کے رسول V نمبر اور نعتیہ ادب— ایک تحقیقی مطالعہ
۴۸۔ نعت رنگ کے تنقیدی مباحث— ایک تحقیقی مطالعہ
۴۹۔ نعتیہ تنقید کے فروغ میں ڈاکٹر عزیز احسن کا حصہ— ایک تحقیقی مطالعہ
۵۰۔ حفیظ تائب کی دیباچہ نگاری کا تنقیدی مطالعہ
۵۱۔ ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیر کشفی اور نعت کے تنقیدی زاویے— ایک تحقیقی مطالعہ
۵۲۔ فروغِ نعت میں راجا رشید محمود اور ان کے رسالے ’’ماہنامہ نعت‘‘ کا حصہ
۵۳۔ فروغِ نعت میں پروفیسر محمد اکرم رضا کی خدمات کا تحقیقی جائزہ
۵۴۔ فروغِ نعت میں پروفیسر محمد اقبال جاوید کی خدمات کا تحقیقی جائزہ
۵۵۔ اردو نعت میں شرعی تنقید اور رشید وارثی— ایک تنقیدی مطالعہ
۵۶۔ نعت کا تنقیدی منظرنامہ اور ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی— ایک مطالعہ
۵۷۔ فروغِ نعت میں گوہر ملسیانی کی کاوشوں کا تحقیقی مطالعہ
۵۸۔ نعتیہ تذکرہ نگاری اور نور احمد میرٹھی— ایک تحقیقی مطالعہ
وفیات:
’’نعت رنگ‘‘ کے ہر شمارے میں بعض رفیقانِ سفر کی جدائی کا ذکر کرتے ہوئے دل کی عجب حالت ہوتی ہے۔ موت ایک حقیقت ہے، مگر جانے والے اور خاص طور پر آپ کے فکری یا نظریاتی رفقا جو نعت کے فروغ میں آپ کے ساتھ شانہ بہ شانہ مصروفِ عمل رہے ہوں، ان کی جدائی معمولی صدمہ نہیں رہتی:
کتنے رفیق ہم سے اچانک بچھڑ گئے                                 
اب ان کی زندگی بھی بسر کر رہے ہیں ہم(نیازبدایونی)                                                     
’’نعت رنگ‘‘ نے نعت کے ادبی فروغ کی جو تحریک شروع کی تھی، اس میں شامل ہر وہ شخص جو آج بہ ظاہر ہمارے ساتھ نہیں، اب بھی شریکِ کار ہے۔ اس لیے کہ ’’نعت رنگ‘‘ میں نعت پر مجموعی ادبی گفتگو کی مضبوط و مستحکم ہوتی فضا میں ان کی آوازوں اور تحریروں کا جذب و شوق ہمیشہ شامل رہے گا۔ شمارہ چھبیس اور ستائیس کی اشاعت کے درمیانی عرصے میں بھی ہمیں ایسے ہی صدموں سے دوچار ہونا پڑا۔ دیکھیے کن کن دوستوں کا زخمِ جدائی روح پر دائمی نقش چھوڑ گیا، کیسے کیسے زخم دل کا گھائو بنے، بیان مشکل ہے۔
منیبہ شیخ
نعت خوانی کے اُفق پر چالیس سال سے معیار، اعتبار، عشق و ادب اور تہذیب و شائستگی کی علامت بن کر چمکنے والا نمایاں ستارہ بھی موت کی تاریکی میں گم ہوگیا، مگر اپنے پیچھے نعت خوانی کے اعلیٰ ذوق اور پڑھت کی ایک ایسی مؤدب اور شائستہ مثال چھوڑ گیا جسے نعت کی مجلسی روایت میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ منیبہ شیخ بنیادی طور پر درس و تدریس سے وابستہ رہیں، اس لیے انھوں نے نعت خوانی کے شعبے میں بھی اپنے نظریۂ نعت خوانی اور اندازِ ادائی کی تربیت کا بہت خیال رکھا، جس کی عمدہ مثال ان کی منہ بولی بیٹی تحریم کے اندازِ ثنا خوانی میں نظر آتی ہے۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن سے اپنے پڑھے ہوئے کلام سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغۂ  ُحسنِ کارکردگی سے بھی نوازا۔
گوہر ملسیانی (۱۵؍جولائی ۱۹۳۴ء- ۲۵؍فروری ۲۰۱۷ء)
اُردو کے اہم شاعر، ادیب اور تذکرہ نگار پروفیسر طفیل احمد گوہر ملسیانی بھی اس سال ہم سے رُخصت ہوئے۔ گوہر ملسیانی نے نہ صرف کئی علمی کتابیں تصنیف کیں، بلکہ اسلامی اصنافِ شعری کی تخلیق میں خصوصی دل چسپی لی اور حمد و نعت لکھنے والے اہلِ سخن کو بھی سنجیدگی سے سراہا۔ ’’عصرِ حاضر کے نعت گو‘‘ گوہر ملسیانی کے قلم سے نکلنے والا وہ ادبی شاہکار ہے جس نے ان کی تذکرہ نگاری اور تنقیدی جوہر ہی کو اجاگر نہیں کیا، بلکہ پاکستان کے ادبی منظرنامے پر نعت کے ادبی اسالیب کی چاندنی بھی بکھیر دی۔ ادب کی عمومی جہتوں کے حوالے سے بھی تنقید، تحقیق، شاعری اور نثرنگاری کے شعبوں میں گوہر ملسیانی نے ایسے کئی علمی کام چھوڑے ہیں جن کی روشنی سے علم و ادب کے افق پر اُجالا رہے گا۔
خصوصاً نعتیہ ادب کے لیے گوہر ملسیانی کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ’’نعت رنگ‘‘ کے ساتھ ان کا تعلق نہایت گہرا تھا۔ ہر شمارے کے لیے وہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہے۔ آخری دنوں میں میرے کہنے پر انھوں نے نعت پر اپنے لکھے ہوئے مضامین یک جا کرکے اشاعت کے لیے ’’کتاب سرائے‘‘ کو بھیجے تھے۔ اُمید ہے جلد وہ مجموعۂ مضامین شائع ہوکر مطالعاتِ نعت کے سرمائے کو مزید وقیع کرے گا۔ گوہر صاحب کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں:
اتباعِ صاحبِ قرآن کرنا ہے مجھے
جنت الفردوس کا سامان کرنا ہے مجھے
آپ کا پیغام لے کر مصحفِ قرآن سے
پھر مکمل نعت کا دیوان کرنا ہے مجھے
پیش کرنا ہے مجھے گوہرؔ محبت کا ثبوت
جان و تن ، مال و متاع ، قربان کرنا ہے مجھے
بیکل اُتساہی (یکم جون ۱۹۲۸ء - ۳؍دسمبر ۲۰۱۶ء)
شعر و ادب کی دُنیا میں بیکل اتساہی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اپنے مخصوص شاعرانہ اسلوب اور دل آویز ترنم سے بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والے اس اہم شاعر کے تعارف کا ایک معتبر اور وقیع حوالہ نعت گوئی بھی ہے جس میں ان کی پہچان اور اختصاص ان کے پوربی، اودھی اور بھوجپوری زبانوں میں لکھے گئے وہ گیت ہیں جو ماحول کو منور اور سماعتوں کو روشن کرتے رہے ہیں۔ ان کے کئی مختصر مجموعے ۱۹۹۲ء سے پہلے ہی شائع ہوچکے تھے جن میں ’’نغمۂ بیکل‘‘، ’’تحفۂ بطحا‘‘، ’’خوشۂ عقبیٰ‘‘، ’’سرورِ زندگی‘‘، ’’پیامِ رحمت‘‘، ’’جامِ گل‘‘، ’’موجِ نسیم‘‘، ’’سرورِ جاوداں‘‘، ’’نورِ یزداں‘‘، ’’نور کی برکھا‘‘، ’’عرش کا جلوہ‘‘، ’’نشاطِ زندگی‘‘، ’’بزمِ رحمت‘‘، ’’آفتابِ نور‘‘، ’’حسن مجلّیٰ‘‘، ’’موجِ نسیم‘‘، ’’کلامِ بیکل‘‘ اور ’’ترانۂ بیکل‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں ان کا نعتیہ مجموعہ ’’والضحیٰ‘‘ شائع ہوا، اور پھر ۱۹۹۷ء میں ’’والفجر‘‘ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ بیکل اتساہی پاکستان نعت اکیڈمی کے زیرِ اہتمام ’’عالمی نعت کانفرنس‘‘ میں ادیب رائے پوری کی درخواست پر پہلی بار کراچی ۱۹۸۲ء میں تشریف لائے۔ پھر اس کے بعد متعدد عالمی مشاعروں میں اُنھیں کراچی مدعو کیا گیا۔ ان کی مقبولیت اور خدمات کو دیکھتے ہوئے حکومتِ ہند نے انھیں ’’پدم شری ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا۔ یقین کی روشنی سے منور بیکل اتساہی کا یہ قطعہ ملاحظہ کیجیے اور ان کی مغفرت کے لیے دُعا میں شامل ہوجایئے:
چہرۂ گردشِ ماحول نکھر جائے گا
ایٹمی دَور کا انسان سدھر جائے گا
اے نئے دَور تجھے امن کی حاجت ہے اگر
تھام لے دامنِ سرکارV، سنور جائے گا
ڈاکٹر محمد اسلم فرخی (۲۳؍اکتوبر ۱۹۲۳ء- ۱۵؍ جون ۲۰۱۶ء)
معروف استاد، ادیب، شاعر، خاکہ نگار، محقق، انشا پرداز اور براڈ کاسٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم فرخی علمی و ادبی حلقوں میں بے حد مقبول تھے اور احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ خاکہ نگاری میں ان کے کام نے معیار اور اعتبار کے حوالے سے زندہ رہنے والے نقش قائم کیے۔ تصوف ان کا خاص اور پسندیدہ موضوع رہا۔ ’’نظامِ رنگ‘‘ ان کے رنگِ عقیدت کو بجا طور پر ظاہر کرنے والی کتاب ثابت ہوئی۔ شعر بہت عمدہ کہتے تھے۔ میں نے ’’نعت رنگ‘‘ کے شمارہ نمبر ۲، دسمبر ۱۹۹۵ء میں ان کی چند نعتوں پر مشتمل ایک گوشہ شائع کیا تھا جسے خاصی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ بعدازاں بھی ڈاکٹر صاحب ’’نعت رنگ‘‘ کے لیے کبھی کبھی کوئی تحفہ عطا فرماتے رہے۔ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور انھیں علمی و ادبی طور پر متحرک رکھنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ حوصلہ افزا رویہ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے گرد ان کے شاگردوں کا ایک بڑا حلقہ آخری عمر تک قائم رہا۔ ان کی نعت کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں:
مری رفتار کے دیکھو قرینے
مدینے جا رہا ہوں میں مدینے
براہِ شوق ہوں محتاط اتنا
بندھے ہوں جیسے پیروں میں نگینے
مرا اعزاز حد سے بڑھ گیا ہے
بلایا ہے مجھے میرے نبی نے
محبت کی ہوا میں اُڑ رہا ہوں
رواں جیسے سمندر میں سفینے
مدینے پہنچے پھر واپس نہ آئے
کیا ہے قصد اسلم فرخی نے
حسن اکبر کمال (۱۴؍ فروری ۱۹۴۶ء - ۲۱؍جولائی ۲۰۱۷ء)
حسن اکبر کمال ایک باکمال شاعر و نقاد تھے۔ غزل، گیت نگاری، حمد و نعت اور سلام و منقبت میں انھوں نے اپنے فن کے کمالات دکھائے اور خوب شہرت کمائی۔ عزت و شہرت اور نام وری کے باوجود اُن کی طبیعت میں انکسار تھا۔ میں نے اکثر انھیں اپنے ایک دوست پروفیسر مختار کے ہاں محفلِ نعت میں جو ہر سال منعقد ہوتی تھی، بڑی نیازمندی اور عاجزی سے شریکِ بزم دیکھا۔ محفل کے اختتام پر ان کا محبت سے قریب آنا، پڑھے گئے کلام پر اپنی پسندیدگی کا والہانہ اظہار کرنا اور نم ناک آنکھوں سے دعائیں دینا اس حقیقت کو سامنے لاتا تھا کہ وہ اندر سے روشن اور دینی اقدار کو اہمیت دینے والی شخصیت ہیں۔ پھر کچھ عرصے بعد وہ میرے اور قاری وحید ظفر قاسمی صاحب کے پڑھے ہوئے کلام یا ان بحروں میں کچھ نعتیں لکھ کر محفل میں آنے لگے اور ان کی خواہش رہتی کہ ہم ان نگارشات کو محفل میں پڑھیں۔ ہم دونوں نے ان کی چند نگارشات پڑھیں بھی جس پر محفل میں ان کی سرشاری اور اشک باری آج بھی یادداشت کا حصہ ہے۔ چند سال پیشتر ان کا مجموعۂ نعت ’’التجا‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ مجموعہ سعادت کا مرقع ہے جس میں حضور نبی کریم V کو عقیدت اور والہانہ انداز میں یاد کیا گیا ہے۔ ہر صفحے پر حضوری کی کیفیات کا سلیقے اور شائستگی سے اظہار ملتا ہے:
وہ سبز گنبد ، سنہری جالی ، حرم کا جلوہ جو یاد آیا
تڑپ اُٹھا دل ، وہاں سے آکر دیارِ طیبہ جو یاد آیا
حریمِ سرکار میں تھا حاضر ، میں بے نوا نعت گو مسافر
عجیب دل نے سکون پایا ، وہ ایک لمحہ جو یاد آیا
ریاض حسین چودھری مرحوم  (۸؍نومبر ۱۹۴۱ء- ۶؍ اگست ۲۰۱۷ء)
ریاض حسین چودھری کا شمار پاکستان کے ان چنیدہ نعت گو شعرا میں ہوتا تھا جو اپنے اسلوب سے الگ پہچانے جاتے تھے۔ تازہ کاری اور عشق و محبت کا والہانہ پن ان کے اسلوب کے نمایاں اوصاف تھے۔ جدید نعت کے جتنے موضوعاتی زاویے ہوسکتے تھے، ریاض حسین چودھری کے ہاں سب کے سب نہایت سلیقے اور توازن کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اپنے تخلیقی سرمائے سے نعتیہ ادب کو ثروت مند کرنے والے اس شاعر نے بارہ مجموعے پیش کیے، جب کہ تیرھویں اور چودھویں مجموعے کے مسودے تیار ہیں اور ان پر اہلِ علم سے تأثرات حاصل کیے جارہے تھے۔ ان کا اسلوب جس طرح شاعری میں منفرد اور جدید تھا اسی طرح ان کی نثر بھی نہایت خوب صورت تھی۔ نعتیہ ادب پر لکھے ہوئے ان کے مضامین اکثر ’’نعت رنگ‘‘ کی زینت بنتے رہے ہیں۔ وہ عمر کے آخری حصے میں بھی تخلیقی طور پر نہایت فعال اور متحرک رہے۔ کئی بیماریوں سے نبرد آزما ہونے اور ضعف کے باوجود نعت گوئی کا شغف انھیں تازہ دم رکھتا تھا۔ اکثر فون پر اپنے آنے والے مجموعوں کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے ان کی آواز میں عزم و ہمت کی روشنی صاف محسوس ہوتی تھی۔ کتابوں کے ناموں پر مشورہ، کن احباب سے رائے لی جائے، ’’نعت رنگ‘‘ میں شائع ہونے والے تنقیدی مضامین پر اپنے خیالات کا اظہار، غرضے کہ وہ نقاہت اور بیماری کے باوجود کافی دیر تک فون پر گفتگو میں مصروف رہتے اور نعت کے ادبی فروغ کی صورت گری کے خوابوں کو تعبیر میں ڈھلتے دیکھ کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔ انھوں نے اپنی نعت کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مکالمے کی صورت دے دی تھی۔ دیکھیے لاغر وجود میں ایک توانا روح کس طرح آقا سے التجائے کرم میں مصروف ہے:
حضور کتنے عوارض بدن سے لپٹے ہیں
قدم اُٹھانے کی ہمت نہیں رہی آقا
حضور سانس بھی لینا محال ہے اب تو
کھڑی ہے سر پہ مرے شامِ زندگی آقا
ان کے چار مجموعوں کو صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ خدا کرے ان کا باقی ماندہ تخلیقی و تحریری سرمایہ بھی شائع ہوکر محفوظ ہوجائے۔
ثاقب انجان مرحوم  (۲۴؍جولائی ۱۹۲۷ء- ۲۴؍اکتوبر ۲۰۱۶ء)
ثاقب انجان کا تعلق کراچی سے تھا۔ جب جب ان سے ملاقات ہوئی ان کی سادگی اور اخلاص نے متأثر کیا۔ غزل کا مجموعہ ’’ریگِ ساحل‘‘، منظوم واقعۂ کربلا ’’حدیثِ غم‘‘ اور نعتیہ مجموعہ ’’ابرِ کرم‘‘ ان کا علمی و تخلیقی سرمایہ ہے۔ مرحوم کو نعت گوئی سے خصوصی شغف تھا، اکثر نعتیہ مشاعروں میں ذوق و شوق سے شرکت کرتے دکھائی دیتے۔ ان کی شخصیت کی طرح ان کی شاعری بھی سادگی کا مظہر تھی:
کس کو دُنیا کی خبر ہے ان دنوں
جانبِ طیبہ سفر ہے ان دنوں
ایک جلوہ ، ایک منزل ، اک خیال
فکر کتنی مختصر ہے ان دنوں
خواب و بیداری میں بھی پیشِ نظر
روضۂ خیرالبشر ہے ان دنوں
رہروِ راہِ مدینہ سے نہ پوچھ
زیست کتنی معتبر ہے ان دنوں
کن خیالوں میں ہیں گم انجانؔ آپ
کون منظورِ نظر ہے ان دنوں
احمد صغیر صدیقی (۱۹۳۸ء- ۲۰۱۷ء)
تھے یہاں سارے عمل ردِّعمل کے محتاج
زندگی بھی ہمیں درکار تھی مرنے کے لیے
احمد صغیر صدیقی بھی چلے گئے، ان کا یہ خوبصورت شعر ان کے شعری مجموعے ’’لمحوں کی گنتی‘‘ میں کبھی نظر سے گذرا تھا، آج اس اندوہناک خبر نے ذہن میں یہ شعر تازہ کردیا۔ احمد صغیر صدیقی بحیثیت شاعر، ادیب، نقاد، کہانی کار اور مترجم کے عصری ادبی منظرنامے پر اپنی شناخت اور اعتبار کے رنگوں کو گہرا کر چکے تھے۔ ان کی مطبوعہ کتب میں ان کے تراجم کردہ کہانیوں کے چار مجموعے، نفسیات اور پُراسرار علوم پر ان کی متعدد مطبوعہ کتب کے علاوہ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’گوشے اور جالے‘‘ اور چار شعری مجموعے ’’سمندری آنکھیں‘‘، ’’کاسنی گلپوش دریچے‘‘، ’’اطراف‘‘ اور ’’لمحوں کی گنتی‘‘ شامل ہیں۔ ہندوپاک کے تمام قابل ذکر رسائل  و جرائد میں ان کا کلام اور تحریریں تواتر سے شائع ہوتی رہیں۔ نعت رنگ سے انھیں بے حد محبت تھی اور وہ مذہبی شاعری کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات اور ان کے جواب میں شائع ہونے والے مضامین کو بہت توجہ اور شوق سے پڑھتے تھے۔ نعت رنگ میں ان کے مستقل خطوط شائع ہوتے رہے ہیں اور ہر خط میں وہ بعض نکات ایسے اٹھاتے تھے جس پر لوگوں کا ردعمل نعتیہ تنقید میں نئے مباحث کو جنم دیتا تھا۔ میرے نام خطوط کے مطبوعہ مجموعہ ’’نعت نامے‘‘ میں ان کے ۴۵ خط محفوظ ہیں اور وہ بھی ایسے کہ ہر خط ایک مضمون معلوم ہوتا ہے۔ انھوں نے نعت رنگ کے لیے بعض مضامین بھی لکھے جو ان کی تنقیدی بصیرت اور جرأتِ اظہار کا آئینہ خانہ ہیں۔ ان کی نعتیں بھی نعت رنگ میں محفوظ ہوتیں رہیں، وہ ہر شمارے کے لیے کوئی نہ کوئی تازہ نعت بھی ارسال فرماتے۔ مجھ سے آخری ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ انھوں نے نعت رنگ کے شمارہ ۲۶ کے مشمولات پر ایک مضمون لکھا ہے وہ جلد فراہم کریں گے، ساتھ ہی یہ ذکر بھی ہوا کہ وہ اپنے عارضہ قلب کے علاج کے لیے امریکہ جانے والے ہیں، پھر ایک دن مجھے ڈاک سے ان کا مذکورہ مضمون موصول ہوا۔ رسید کے لیے فون کیا تو فون بند تھا، معلوم ہوا کہ وہ امریکہ چلے گئے۔ سنا ہے کہ امریکہ جاتے ہوئے ان کی جہاز میں طبیعت بگڑ گئی اور انھیں امریکہ جاتے ہی اسپتال میں داخل کروانا پڑا جہاں وہ دو ماہ زیر علاج رہنے کے بعد گھر منتقل کیے گئے، مگر ان کی صحت سنبھل نہ سکی اور بالآخر ۱۱؍ستمبر ۲۰۱۷ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔
نعت رنگ کے قارئین اور نعت کے تنقیدی زاویوں پر کام کرنے والے احمد صغیر صدیقی کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ نعت کے ادبی فروغ میں پوری دلچسپی اور ذمہ داری سے جن ادیبوں نے اس عہد میں اپنا حصہ ڈالا اُن میں احمد صغیر صدیقی اور ان کے لکھے ہوئے تنقیدی خطوط کو کبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے دو نعتیہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
آرزو ہے یہی دل میں تری چاہت نہ ہو کم
دور کتنا ہی رہوں لطف رفاقت نہ ہو کم
میرے آقا مجھے دل جوئی کے لفظوں سے نواز
ساری دُنیا میں لٹائوں مری دولت نہ ہو کم
فقیرِ مصطفی امیر  (۲۰؍نومبر ۱۹۴۲ء - ۲۲؍ستمبر ۲۰۱۷ء)
محمد امیر نواز اعوان کا قلمی نام فقیرِ مصطفی امیر تھا۔ میانوالی میں پیدا ہوئے۔ بی اے تک تعلیم حاصل کرکے محکمہ پولیس میں ملازمت اختیار کی اور وہیں سے بحیثیت سینیئر سپرنٹنڈنٹ آفس پولیس پنجاب کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ دُنیاوی طور پر اس منصب تک پہنچنے کے بعد عموماً انسان میں خودنمائی اور فخر کے کئی پہلو اُجاگر ہو جاتے ہیں، مگر میری جتنی بھی بار موصوف سے فون پر بات ہوئی، میں نے انھیں سراپا نیاز پایا۔ شاعری ان کا مشغلہ تھی۔ متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے مگر جب دامنِ ذکر رسالت سے وابستہ ہوئے تو پھر یہیں کے ہو رہے۔ میری معلومات کے مطابق ان کے چھ نعتیہ مجموعے شائع ہوئے۔ ہو سکتا ہے یہ تعداد زیادہ ہو، ان کی نعت گوئی نبی کریم Vسے ان کی گہری عقیدت اور والہانہ پن کا اظہار ہے۔ انھیں فن سے زیادہ جذبہ صادق کی نمود سے اپنے نعتیہ کلام کو آراستہ کرنے کا ذوق و شوق رہا۔
نعت گوئی سے اپنے پُرخلوص رشتے کے اظہار کے لیے انھوں نے صرف نعت کہی نہیں بلکہ نعت گوئی کے فروغ کے لیے بھی ’’انجمن فقیرانِ مصطفی‘‘ جیسے ادارے قائم کیے جو مسلسل نعتیہ مشاعروں کے انعقاد اور اشاعتی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل رہے۔ ان کی ادارت میں سہ ماہی ’’متاعِ امیر‘‘ اور ’’نعت گو‘‘ کے نام سے دو شمارے جاری ہوئے، مگر یہ اپنا اشاعتی سفر زیادہ دیر برقرار نہ رکھ سکے، مگر ان کے چند شمارے بھی فقیرِ مصطفی امیر کے حوصلے، عزم اور لگن کی زندہ گواہی کے طور پر محفوظ ہوگئے ہیں۔ خداوندکریم سے اس خادمِ نعت کی مغفرت کے لیے دُعاگو ہوں۔
نعت گو ہوں، کہیں بھی دفن کرو
شہرِ طیبہ کی حد سے اُٹھوں گا
میں تو محشر میں بھی امیر نواز
نعت پڑھتا لحد سے اُٹھوں گا
دُعا ہے کہ ربِّ کریم ان تمام مرحومین کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین !
صبیح رحمانی


=== تحقیق===
=== تحقیق===

نسخہ بمطابق 07:19، 9 دسمبر 2017ء

22552547 1414849971926102 6847160094441319601 n.jpg

صبیح رحمانی
نعت ریسرچ سنٹر انٹرنیشنل
مطبوعات
نعت رنگ

دھنک

اداریہ

ابتدائیہ ۔ صبیح رحمانی


ابتدائیہ


اس عہد میں بعض اہلِ نظر کے یہاں یہ احساس نمایاں طور سے موضوعِ گفتگو بنا ہوا ہے کہ اس وقت تہذیب و روایت کا وہ نظام اور قدریں مکمل طور سے معرضِ خطر میں ہیں جن کا ذرا سا بھی تعلق ہمارے مذہبی افکار و تصورات سے ہے۔ یہ خیال غلط نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم دیکھ سکتے ہیں، عصرِ حاضر میں اسلام کا معاملہ بہ یک وقت کئی طرح کی متحارب قوتوں سے ہے۔ ایک طرف وہ مذہب دشمن قوتیں ہیں جو اُسے ہر ممکن مٹانے کے درپے ہیں۔ یہ قوتیں عالمی سطح پر کام کررہی ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ مذہب کو انسانی زندگی سے کسی نہ کسی طرح یکسر نکال دیا جائے۔ اس کے بعد یہ دنیا اُن کے لیے آسان ہدف ہوجائے گی اور دنیا بھر کے انسانوں کو اخلاق و عدل سے عاری نظامِ حیات کے ذریعے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے باسہولت استعمال کیا جاسکے گا۔ ان کے پس منظر میں وہ لوگ اور ادارے کارفرما ہیں جو زرپرست ذہنیت رکھتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار دنیا کے نمائندے ہیں اور اس کے جال کو بچھانے میں مشغول ہیں۔


دوسری طرف وہ نظریات و افکار ہیں جو زرپرست ذہنیت کو تو بے شک رد کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی کسی گہری بنیادی غلط فہمی کی بنا پر مذہب کو بھی انسانی ترقی اور سماجی مساوات و استحکام کے لیے ایک رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ حالاںکہ حالات و واقعات نے اس مفروضے کو اس عہد تک آتے آتے کلیتاً غلط ثابت کردیا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی غلط فہمی کسی طرح رفع نہیں ہوتی، اور وہ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ جس مساوات، عدل، استحکام اور خوش حالی کی بات کرتے ہیں، اس کا حصول مذہبی نظام سے ہم آہنگی میں بدرجہا بہتر اور قدرے جلد ممکن ہے۔ اس لیے کہ مذہب تو ان سب امور کو انسانی سماج کے لیے ایک بنیادی تقاضے کے طور پر اختیار کرتا ہے۔ اگر وہ مذہب کے حلیف بن کر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف صف آرا ہوں تو نتائج دیکھتے ہی دیکھتے کچھ سے کچھ ہوجائیں گے۔ تیسری طرف حقیقی روحِ اسلام سے ناواقف مسلمانوں کا وہ گروہ ہے جو اسلام کی اصل تصویر کو ذاتی تاویل و تفسیر کے ذریعے دانستہ نادانستہ مسخ کررہا ہے اور اس کے تعمیری اور انقلابی پیغام کو غیر مؤثر بنانے میں دشمنوں کا آلۂ کار بن کر رہ گیا ہے۔


اسلامی افکار و احکام سے صریح دشمنی اور دیدہ دانستہ ہر ممکن ضرر رسانی کی اس فضا میں مذہبی افکار کی حقانیت اور سربلندی کے لیے کام کرنا اور دینی رشتوں سے اپنے آپ کو منسلک رکھنا، توحید و رسالت کا اثبات و اعلان کرنا، محبتِ رسولVکے نغمے چھیڑنا معمولی بات نہیں، لیکن دل کشا حقیقت یہ ہے کہ آپ کو مذہبی شعور اور اس کے نظامِ اقدار سے گہری اور پُرخلوص وابستگی کے مظاہر بھی یہاں سے امریکا تک جہاں جہاں اسلامی معاشرہ قائم ہوا ہے وہاں وہاں واضح طور پر نظر آئیں گے۔ اس لیے کہ مسلمان کی انفرادی زندگی میں ختمی مرتبت نبیِ آخر الزماں حضرت محمد مصطفی Vکی محبت ایمان کا لازمی جزو ہے تو اجتماعی دائرے میں آپ V کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا اسلام کا لازمی تقاضا ہے۔ یہ محبت اور تقاضا دونوں مل کر ایک ایسی مضبوط اساس اور مستحکم رابطے کی نوعیت اختیار کرلیتے ہیں جس پر اسلامی عقائد و عبادات ہی نہیں، بلکہ باہمی انسانی اخوت و اخلاص کی عمارت بھی استوار ہوتی ہے۔ بقول اقبالؔ:

عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہے عشق

عشق نہ ہو تو شرعِ دیں بت کدۂ تصورات

٭

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام

میرا قیام بھی حجاب ، میرا سجود بھی حجاب


اس تناظر میں ہم ایسے مسلمانوں کی زندگی اور اُن کی شعری تخلیقات پر نظر ڈالتے ہیں جو ساری عمر عشقِ نبیِ کریمVکو بصد خلوص نہ صرف نبھاتے رہے، بلکہ اپنے افکار و خیالات میں اعلانیہ اپنے ایمان کی اس اساس اور مستحکم سماجی رابطے اور عشق و شوق کے اس تسلسل کا والہانہ اقرار و اظہار بھی غیرمشروط طور پر کرتے رہے۔ یہ وہ خوش بخت لوگ ہیں جو ایک طرف تو اس اقرار و اظہار سے اپنے اور اُمتِ مسلمہ کے دینی جذبات و احساسات کی تکمیل و تسکین کا سامان کرتے رہے اور دوسری طرف انھوں نے اسلام دشمن قوتوں، تحریکوں اور نظریات کی پھیلائی ہوئی فکری تیرگی کے انسانیت دشمن ماحول میں عشقِ نبی کریمV کے وسیلے سے عزم و ہمت اور وفاداری و جاں نثاری کے چراغوں کو فروزاں کرکے حقِ غلامی بھی ادا کیا۔ اسلامی تہذیب سے آراستہ معاشروں، ملکوں اور زبانوں میں نعت گوئی انھی جذبات و احساسات کا بلیغ ترین مظہر ہے۔


تاریخِ ادب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہورِ اسلام کے بعد ہر دور کے شعرا نے ہادیِ برحق نبیِ مکرمVکے اوصاف و مناقب اور جمالِ صورت و کمالِ سیرت کے بیان میں ُحسنِ کلام اور ُحسن ِعقیدت کی جولانیاں دکھائی ہیں۔ آپVکے حسن و جمال کی بوقلمونی، آپ Vکی سیرتِ مبارکہ کے نقوشِ لازوال، میلاد و معراج کے تذکرے، آپ کا پیغام، تقویٰ، طہارت، عالم گیری و جہاں بانی، آپ کی محبت میں سوز و گداز، ہجر و وصال، آپ کے قرب کی خواہش، طلبِ شفاعت، آپ کے شہر میں قیام اور موت کی تمنا، آپ کے معجزات و غزوات، آپ کی تعلیمات میں انسان دوستی اور خیر کی روشنی سے معمور معاشروں کی صورت گری ایسے افکار و تصورات نعت گوئی کے عام اور مستقل موضوعات رہے ہیں۔ نعت گوئی کا دامن بھی اسلام کی توسیع کے ساتھ برابر پھیلتا رہا۔ عرب اور اس کے بعد عجمی ممالک میں جب اسلام کا نور پھیلا تو اس میں مقامی رنگوں کی آمیزش نے بھی اس صنف کے موضوعات اور اسالیب کو وسعت دی۔ خصوصاً فارسی نعت گوئی جو طلوعِ اسلام سے کم و بیش تین صدی بعد وجود میں آئی، اس میں جن موضوعات نے جگہ پائی ان میں آشوبِ ذات اور آشوبِ دہر بھی شامل ہوئے۔ اسلامی ممالک میں سیاسی کش مکش، سلطنتوں کی شکست و ریخت اور اقتدار کی جنگ و قتال نے جہاں آبادیوں کو تہ و بالا کیا وہیں لوگوں کے معاشی اور معاشرتی نظام کو بھی زیر و زبر کرکے رکھ دیا۔ اس قسم کے آشوب و ابتلا میں شعرا نے اپنے مصائب و آلام کے نوحے اور حزن و ملال کے مرثیے لکھے۔ استغاثے اور استمداد کے مضامین سامنے آئے جن سے اُردو نعت کے موضوعات کا دامن مزید وسیع ہوا۔


عربی و فارسی کے بعد اُردو زبان میں بھی نعتیہ شاعری کو قبولِ عام حاصل ہوا۔ اُردو میں نعتیہ شاعری کی ایک طویل روایت ہے، اور یہ روایت صرف اظہار کے پیرایوں اور پیمانوں کی نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق ان آداب اور محتاط رویوں سے بھی ہے جو مضامینِ مدحت کو تخیّلی پیکر دینے اور برتنے میں نزاکتیں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اُس بارگاہ میں نہ تو بے باکیوں کی گنجائش ہے اور نہ ہی غیر معتدل مبالغے کی پذیرائی۔ اس لیے نعتیہ شاعری روایتی شاعری سے کہیں زیادہ مشکل ہے، لیکن ان مشکلات اور پابندیوں کے باوجود نعتیہ شاعری کو رسمی طرزِ سخن کے خانے میں رکھ کر نہیں دیکھا جاسکتا، کیوںکہ نعتیہ شاعری گہری ارادت اور عقیدت سے تحریک تو ضرور پاتی ہے، لیکن اسے محض عقیدت و محبت کا اظہار سمجھنا اس کی فکری و فنی قدر و قیمت کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ یہ غزل، نظم یا کسی بھی دوسری صنفِ ادب کی طرح ایک ایسی صنفِ اظہار ہے جس میں نازک خیالات اور گہرے افکار کو سہارنے کی پوری سکت ہے۔ نعت کا تخلیقی تناظر اس امر کی صداقت کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔


ہمارے عہد تک آتے آتے اُردو میں نعتیہ شاعری عظمت، رفعت، علمی وقار، لسانی بلندی و لطافت کی مقبولیت کی کئی منازل طے کرچکی ہے اور آج یہ اپنے موضوع کے لحاظ سے اُردو شاعری میں ایک امتیازی شان سے جلوہ گر ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں اُردو نعت گوئی میں فکری اور تخلیقی اعتبار سے جو توانا رجحانات سامنے آئیں ہیں، وہ خوش کن ہی نہیں فکر افروز بھی ہیں۔ عصرِ حاضر کے نعت گو شعرا کا نظامِ فکر و وجدان، قرآنی تعلیمات اور اسلامی اقدار و شعائر کے تحت تشکیل پاکر سامنے آتا ہے۔ آج کا نعت نگار اجتماعی، انفرادی اور کائناتی دُکھوں کے مداوے کے لیے سیرتِ اطہر سے روشنی کشید کر رہا ہے۔ یوں ہماری نعت اسلام اور روحِ اسلام، کائنات اور مقصدِ کائنات، رسولVاور حیاتِ رسول V کی تفہیم کا ایک وسیلہ بن کر محض عقیدت کا معاملہ نہیں رہی، بلکہ فکری و فنی سطح پر بھی ادب و تہذیب کا معتبر حوالہ بن گئی ہے۔


ہمارا عہد صرف نعت کے تخلیقی امکانات ہی کا عہد ثابت نہیں ہوا، بلکہ اس میں نعت کے تنقیدی رجحان اور مطالعاتی منہاج نے بھی نمایاں طور سے فروغ پایا ہے۔ خصوصاً نعت کی فنی و فکری پرکھ کے لیے برسوں سے مروّجہ روایتی تنقیدی اصولوں کی جگہ نئے تنقیدی نظریات کے تناظر میں مطالعۂ نعت کی ضرورت و اہمیت کا احساس اجاگر ہوا۔ اس ضمن میں معروف نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا یہ اقتباس میری بات کی وضاحت کے لیے کافی ہوگا: اُردو نعت کی تنقید اس کے تخلیقی ارتقا کا ساتھ دینے سے قاصر رہی ہے۔ اُردو نعت میں ہیئت، اسلوب اور تکنیک کی سطحوں پر جو ارتقائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، انھیں سمجھنے، ان کی فنی حیثیتوں کا مطالعہ کرنے اور نئے تنقیدی نظریات کی روشنی میں ان کی تعبیر کرنے کی کوشش خال خال ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ اُردو نعت کے تنقیدی مطالعات کی کمی نہیں، مگر یہ مطالعات چند بندھے ٹکے، پامال تنقیدی اصولوں کی روشنی میں کیے گئے ہیں۔ چناںچہ یہ مطالعات اُردو نعت کی شعریات کی گہرائی اور وسعت سے متعلق ہمارے علم میں کوئی اضافہ نہیں کرتے۔ دوسری طرف نعت کا تنقیدی مطالعہ دیگر شعری اصناف کے مطالعے سے خاصا مختلف اور کہیں زیادہ ذمے داری کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ذمے داری صرف ان تلمیحات کے مستند علم اور ان کے سلسلے میں تقدس و احترام سے عبارت نہیں، جن کا تعلق سیرتِ رسولVسے ہے، بلکہ اس کا تعلق اس امر کے انکشاف سے بھی ہے کہ کس طرح مذہبی و مدحیہ و تحسینی تجربہ، ایک شعری تجربے میں منقلب ہوتا ہے اور کس طرح یہ شعری تجربہ وقت کے ساتھ نئے نئے اسالیب میں ظاہر ہوتا ہے۔

(مضمون سے اقتباس مشمولہ نعت اور جدید تنقیدی رُجحانات، مطبوعہ ۲۰۱۶ء، نعت ریسرچ سینٹر، کراچی)


نعتیہ ادب کی تنقید کے بارے میں اس احساس تک پہنچنے کے لیے ’’نعت رنگ‘‘ نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آج نعت پر تنقید کا سفر راست سمت میں جاری ہے اور اس کارواں کا ہر قدم اس منزل سے قریب تر ہوتا جارہا ہے جس کی تمنا ’’نعت رنگ‘‘ کے آغاز میں ہمارے ذہنوں میں بیدار ہوچکی تھی۔ اب ہمارے بیشتر لکھنے والے اسی احساس کے ساتھ اس کارواں میں شامل ہورہے ہیں۔ اُردو تنقید کے معتبر ناموں کا اس کارواں میں شامل ہونا یقینا ’’نعت رنگ‘‘ کے سفر کو اعتبار عطا کررہا ہے۔ نعتیہ ادب میں تازہ مکالمے اور نئے بیانیے کی روشنی طلوع ہورہی ہے۔ ’’نعت رنگ‘‘ کا ہر تازہ شمارہ اس بدلتے تناظر کو نمایاں کرنے والا ایک ایسا اُجلا آئینہ بنتا جارہا ہے جو مستقبل میں بھی اپنے موضوع پر کام کرنے والوں کے لیے رہنمایانہ کردار ادا کرنے کے ساتھ حوالہ جاتی ضرورتوں کو بھی پورا کرے گا۔ (ان شاء اللہ)

’’نعت رنگ‘‘ کا شمارہ ۲۷ پیشِ خدمت ہے۔ تائید و توفیقِ الٰہی کے بغیر کسی کامیابی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ’’نعت رنگ‘‘ بھی فضلِ خداوندی کے سوا کچھ نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ اُردو کے اہم لکھنے والے بڑی تیزی سے اس صراطِ خیر کے مسافر بنتے چلے جارہے ہیں۔ پیشِ نظر شمارے کے مشمولات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ہم کو جس راستے کا مسافر بنایا گیا تھا اس پر استقامت اور کامیابی بھی ہمارے ساتھ کردی گئی تھی۔ ر٭ّبِ کریم نے شکر ادا کرنے والوں کو مزید نوازنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ سو، میرے ساتھ ’’نعت رنگ‘‘ کے تمام لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کو بھی اس سلسلے میں اپنی دعائوں کو شکرگزاری کے جذبات کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے۔


یہاں ایک نکتے کی طرف توجہ دلانا ضروری محسوس ہورہا ہے۔ کوئی لکھنے والا ہو یا پڑھنے والا، ہر شخص کا ہر دوسرے شخص سے مکمل اتفاق ضروری نہیں ہے۔ مکمل یا جزوی اختلاف کسی سے بھی ہوسکتا ہے۔ اختلاف کوئی بری چیز بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے، ادب، فکر اور تنقید کے لیے تو یہ بڑی بابرکت شے ہے۔ اس لیے کہ اس سے خیال کے نئے در وا ہوتے اور فکر و نظر کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔ تاہم یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اختلاف کو فکری و نظری سطح پر رہنا چاہیے۔ اسے ذاتی یا شخصی ہرگز نہیں بننا چاہیے اور نہ ہی اسے مخالفت کی سطح پر آنا چاہیے۔ نیا ہو یا پرانا، چھوٹا ہو یا بڑا، ہر لکھنے والے کی اپنی ایک حیثیت اور اہمیت ہے۔ البتہ پرانے اور بڑے لکھنے والوں کے لیے ہمارے رویے میں زیادہ سنجیدگی، متانت اور لحاظ نظر آنا چاہیے۔ اس لیے کہ ہم اپنے بڑوں کی عزت و وقار کا خیال رکھتے ہوئے نظر آئیں گے تو یہ دراصل بعد والوں کی تربیت کا ذریعہ بھی ہوگا۔ ’’نعت رنگ‘‘ نے اختلافات کو ہمیشہ خوش آمدید کہا ہے۔ اس شمارے میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ تاہم آئندہ بے احتیاطی یا بے ادبی کو محسوس کرتے ہوئے ادارہ کسی بھی مضمون کی اشاعت سے انکار کا حق محفوظ رکھتا ہے۔


اس شمارے میں معروف شاعر، نعت نگار اور نقاد و محقق محترم ڈاکٹر ریاض مجید کا ایک مضمون بھی شامل ہے، جس میں نعت کے تحقیقی و تنقیدی مطالعات کے لیے بعض موضوعات کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ہمیں بے حد خوشی ہوئی کہ اُن جیسی شخصیت نے نہ صرف اس کام کی ضرورت محسوس کی، بلکہ اس پر قلم بھی اٹھایا۔ گزشتہ برس ہم نے بھی پاکستان اور ہندوستان کی نمایاں جامعات کو ایک مراسلہ بھیجا تھا، جس میں کچھ موضوعات کا تعین کیا گیا تھا۔ اعادے کی غرض سے اُن موضوعات کو یہاں درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

۱۔ نعت پر شرعی تنقیدی افکار کا تنقیدی محاکمہ

۲۔ جدید اردو نعت کا اسلوبیاتی مطالعہ

۳۔ قدیم و جدید نعتیہ شاعری کے اہم رجحانات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ

۴۔ اردو کے معروف غزل گو شعرا کی نعت گوئی کا تنقیدی مطالعہ

۵۔ بیس ویں صدی کے مقبول نعت نگار/ احوال و آثار

۶۔ اردو نعتیہ شاعری میں رزمیہ عناصر کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ

۷۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعرا کی نعتیہ شاعری کا تنقیدی مطالعہ

۸۔ نعت گو شاعرات کی زبان و بیاں کے خصوصی امتیازات

۹۔ اردو مرثیے میں نعتیہ عناصر کا تنقیدی و تحقیقی مطالعہ

۱۰۔ اردو کے اہم تذکروں میں نعتیہ اشعار کے حوالوں کا تحقیقی مطالعہ

۱۱۔ نعتیہ شاعری میں موضوعِ روایات کا محققانہ جائزہ

۱۲۔ اردو نعت کی شعری جمالیات کا تجزیاتی مطالعہ

۱۳۔ اردو کی قدیم مثنویوں میں نعتیہ عناصر کا تحقیقی جائزہ

۱۴۔ اردو کے قدیم قصائد میں نعتیہ عناصر کا تحقیقی مطالعہ

۱۵۔ اردو نعت پر لکھے گئے تحقیقی مقالات کا تنقیدی جائزہ

۱۶۔ نعتیہ ادب میں تحقیقی مقالوں کے موضوعات اور طریقِ تحقیق کا تنقیدی جائزہ

۱۷۔ اردو میں نعتیہ صحافت کا تحقیقی جائزہ

۱۸۔ نعتیہ تذکرہ نگاری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ

۱۹۔ اسلامی ادب کی تحریک اور فروغِ نعت کے امکانات— ایک تحقیقی مطالعہ

۲۰۔ اردو میں نعتیہ گیت نگاری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ

۲۱۔ اردو کی روایتی اور جدیدنعتیہ شاعری کے موضوعات کا تقابلی مطالعہ

۲۲۔ نعت نمبروں کی روایت کا تحقیقی جائزہ

۲۳۔ نعت گو شعرا کے فکر و فن پر لکھی جانے والی کتب کا تنقیدی جائزہ

۲۴۔ اردو نعت اور عقیدۂ ختم نبوت— ایک تحقیقی جائزہ

۲۵۔ اردو میں نعتیہ گل دستوں کی روایت کا تحقیقی مطالعہ

۲۶۔ جدید اردو غزل میں نعتیہ عناصر کا تحقیقی مطالعہ

۲۷۔ قصیدہ بردہ کے منظوم اردو تراجم کا تقابلی جائزہ

۲۸۔ اردو نعتیہ شاعری میں قرآن و احادیث کی تلمیحات کا تحقیقی مطالعہ

۲۹۔ فتاواے رضویہ میں نعتیہ نکات کا تحقیقی جائزہ

۳۰۔ نعت میں سراپا نگاری کی روایت کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ

۳۱۔ پاکستان/ بھارت کی علاقائی زبانوں میں نعت گوئی کا تحقیقی جائزہ

۳۲۔ پاکستان میں نعت خوانی کا فن— فروغ و ارتقا سے مسائل و مباحث تک

۳۳۔ اردو کے اہم نعتیہ انتخابوں کا تنقیدی مطالعہ

۳۴۔ اردو میں نعتیہ دیباچہ نگاری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ

۳۵۔ اردو میں غیر منقوط نعتیہ شاعری کی روایت کا تحقیقی جائزہ

۳۶۔ جدید اردو نعت میں علامت نگاری کے رجحانات کا تنقیدی جائزہ

۳۷۔ اردو نعت میں تلمیحات کا استعمال— ایک تحقیقی مطالعہ

۳۸۔ اردو کے نمائندہ نعت شناس— احوال و آثار

۳۹۔ اردو کے اہم نعتیہ قصائد کا تجزیاتی مطالعہ

۴۰۔ اردو نعتیہ شاعری میں فلسفیانہ رجحانات کا تحقیقی مطالعہ

۴۱۔ اردو کی متصوفانہ شاعری میں نعتیہ عناصر کا تحقیقی جائزہ

۴۲۔ نعتیہ ادب میں منظوم تراجم کی روایت کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ

۴۳۔ جامعات میں نعت شناسی کی روایت کا تحقیقی جائزہ

۴۴۔ فروغِ نعت میں تعلیمی اداروں کا حصہ— ایک تحقیقی مطالعہ

۴۵۔ فروغِ نعت میں رسالہ ’’شام و سحر‘‘ کا حصہ— ایک تحقیقی مطالعہ

۴۶۔ ’’نعت نامے‘‘ [مجموعۂ خطوط] کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ

۴۷۔ بیس ویں صدی کے رسول V نمبر اور نعتیہ ادب— ایک تحقیقی مطالعہ

۴۸۔ نعت رنگ کے تنقیدی مباحث— ایک تحقیقی مطالعہ

۴۹۔ نعتیہ تنقید کے فروغ میں ڈاکٹر عزیز احسن کا حصہ— ایک تحقیقی مطالعہ

۵۰۔ حفیظ تائب کی دیباچہ نگاری کا تنقیدی مطالعہ

۵۱۔ ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیر کشفی اور نعت کے تنقیدی زاویے— ایک تحقیقی مطالعہ

۵۲۔ فروغِ نعت میں راجا رشید محمود اور ان کے رسالے ’’ماہنامہ نعت‘‘ کا حصہ

۵۳۔ فروغِ نعت میں پروفیسر محمد اکرم رضا کی خدمات کا تحقیقی جائزہ

۵۴۔ فروغِ نعت میں پروفیسر محمد اقبال جاوید کی خدمات کا تحقیقی جائزہ

۵۵۔ اردو نعت میں شرعی تنقید اور رشید وارثی— ایک تنقیدی مطالعہ

۵۶۔ نعت کا تنقیدی منظرنامہ اور ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی— ایک مطالعہ

۵۷۔ فروغِ نعت میں گوہر ملسیانی کی کاوشوں کا تحقیقی مطالعہ

۵۸۔ نعتیہ تذکرہ نگاری اور نور احمد میرٹھی— ایک تحقیقی مطالعہ


وفیات:


’’نعت رنگ‘‘ کے ہر شمارے میں بعض رفیقانِ سفر کی جدائی کا ذکر کرتے ہوئے دل کی عجب حالت ہوتی ہے۔ موت ایک حقیقت ہے، مگر جانے والے اور خاص طور پر آپ کے فکری یا نظریاتی رفقا جو نعت کے فروغ میں آپ کے ساتھ شانہ بہ شانہ مصروفِ عمل رہے ہوں، ان کی جدائی معمولی صدمہ نہیں رہتی:

کتنے رفیق ہم سے اچانک بچھڑ گئے

اب ان کی زندگی بھی بسر کر رہے ہیں ہم(نیازبدایونی)


’’نعت رنگ‘‘ نے نعت کے ادبی فروغ کی جو تحریک شروع کی تھی، اس میں شامل ہر وہ شخص جو آج بہ ظاہر ہمارے ساتھ نہیں، اب بھی شریکِ کار ہے۔ اس لیے کہ ’’نعت رنگ‘‘ میں نعت پر مجموعی ادبی گفتگو کی مضبوط و مستحکم ہوتی فضا میں ان کی آوازوں اور تحریروں کا جذب و شوق ہمیشہ شامل رہے گا۔ شمارہ چھبیس اور ستائیس کی اشاعت کے درمیانی عرصے میں بھی ہمیں ایسے ہی صدموں سے دوچار ہونا پڑا۔ دیکھیے کن کن دوستوں کا زخمِ جدائی روح پر دائمی نقش چھوڑ گیا، کیسے کیسے زخم دل کا گھائو بنے، بیان مشکل ہے۔


منیبہ شیخ


نعت خوانی کے اُفق پر چالیس سال سے معیار، اعتبار، عشق و ادب اور تہذیب و شائستگی کی علامت بن کر چمکنے والا نمایاں ستارہ بھی موت کی تاریکی میں گم ہوگیا، مگر اپنے پیچھے نعت خوانی کے اعلیٰ ذوق اور پڑھت کی ایک ایسی مؤدب اور شائستہ مثال چھوڑ گیا جسے نعت کی مجلسی روایت میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ منیبہ شیخ بنیادی طور پر درس و تدریس سے وابستہ رہیں، اس لیے انھوں نے نعت خوانی کے شعبے میں بھی اپنے نظریۂ نعت خوانی اور اندازِ ادائی کی تربیت کا بہت خیال رکھا، جس کی عمدہ مثال ان کی منہ بولی بیٹی تحریم کے اندازِ ثنا خوانی میں نظر آتی ہے۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن سے اپنے پڑھے ہوئے کلام سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغۂ ُحسنِ کارکردگی سے بھی نوازا۔


گوہر ملسیانی (۱۵؍جولائی ۱۹۳۴ء- ۲۵؍فروری ۲۰۱۷ء)


اُردو کے اہم شاعر، ادیب اور تذکرہ نگار پروفیسر طفیل احمد گوہر ملسیانی بھی اس سال ہم سے رُخصت ہوئے۔ گوہر ملسیانی نے نہ صرف کئی علمی کتابیں تصنیف کیں، بلکہ اسلامی اصنافِ شعری کی تخلیق میں خصوصی دل چسپی لی اور حمد و نعت لکھنے والے اہلِ سخن کو بھی سنجیدگی سے سراہا۔ ’’عصرِ حاضر کے نعت گو‘‘ گوہر ملسیانی کے قلم سے نکلنے والا وہ ادبی شاہکار ہے جس نے ان کی تذکرہ نگاری اور تنقیدی جوہر ہی کو اجاگر نہیں کیا، بلکہ پاکستان کے ادبی منظرنامے پر نعت کے ادبی اسالیب کی چاندنی بھی بکھیر دی۔ ادب کی عمومی جہتوں کے حوالے سے بھی تنقید، تحقیق، شاعری اور نثرنگاری کے شعبوں میں گوہر ملسیانی نے ایسے کئی علمی کام چھوڑے ہیں جن کی روشنی سے علم و ادب کے افق پر اُجالا رہے گا۔


خصوصاً نعتیہ ادب کے لیے گوہر ملسیانی کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ’’نعت رنگ‘‘ کے ساتھ ان کا تعلق نہایت گہرا تھا۔ ہر شمارے کے لیے وہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہے۔ آخری دنوں میں میرے کہنے پر انھوں نے نعت پر اپنے لکھے ہوئے مضامین یک جا کرکے اشاعت کے لیے ’’کتاب سرائے‘‘ کو بھیجے تھے۔ اُمید ہے جلد وہ مجموعۂ مضامین شائع ہوکر مطالعاتِ نعت کے سرمائے کو مزید وقیع کرے گا۔ گوہر صاحب کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں:

اتباعِ صاحبِ قرآن کرنا ہے مجھے

جنت الفردوس کا سامان کرنا ہے مجھے

آپ کا پیغام لے کر مصحفِ قرآن سے

پھر مکمل نعت کا دیوان کرنا ہے مجھے

پیش کرنا ہے مجھے گوہرؔ محبت کا ثبوت

جان و تن ، مال و متاع ، قربان کرنا ہے مجھے


بیکل اُتساہی (یکم جون ۱۹۲۸ء - ۳؍دسمبر ۲۰۱۶ء)


شعر و ادب کی دُنیا میں بیکل اتساہی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اپنے مخصوص شاعرانہ اسلوب اور دل آویز ترنم سے بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والے اس اہم شاعر کے تعارف کا ایک معتبر اور وقیع حوالہ نعت گوئی بھی ہے جس میں ان کی پہچان اور اختصاص ان کے پوربی، اودھی اور بھوجپوری زبانوں میں لکھے گئے وہ گیت ہیں جو ماحول کو منور اور سماعتوں کو روشن کرتے رہے ہیں۔ ان کے کئی مختصر مجموعے ۱۹۹۲ء سے پہلے ہی شائع ہوچکے تھے جن میں ’’نغمۂ بیکل‘‘، ’’تحفۂ بطحا‘‘، ’’خوشۂ عقبیٰ‘‘، ’’سرورِ زندگی‘‘، ’’پیامِ رحمت‘‘، ’’جامِ گل‘‘، ’’موجِ نسیم‘‘، ’’سرورِ جاوداں‘‘، ’’نورِ یزداں‘‘، ’’نور کی برکھا‘‘، ’’عرش کا جلوہ‘‘، ’’نشاطِ زندگی‘‘، ’’بزمِ رحمت‘‘، ’’آفتابِ نور‘‘، ’’حسن مجلّیٰ‘‘، ’’موجِ نسیم‘‘، ’’کلامِ بیکل‘‘ اور ’’ترانۂ بیکل‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں ان کا نعتیہ مجموعہ ’’والضحیٰ‘‘ شائع ہوا، اور پھر ۱۹۹۷ء میں ’’والفجر‘‘ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ بیکل اتساہی پاکستان نعت اکیڈمی کے زیرِ اہتمام ’’عالمی نعت کانفرنس‘‘ میں ادیب رائے پوری کی درخواست پر پہلی بار کراچی ۱۹۸۲ء میں تشریف لائے۔ پھر اس کے بعد متعدد عالمی مشاعروں میں اُنھیں کراچی مدعو کیا گیا۔ ان کی مقبولیت اور خدمات کو دیکھتے ہوئے حکومتِ ہند نے انھیں ’’پدم شری ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا۔ یقین کی روشنی سے منور بیکل اتساہی کا یہ قطعہ ملاحظہ کیجیے اور ان کی مغفرت کے لیے دُعا میں شامل ہوجایئے:

چہرۂ گردشِ ماحول نکھر جائے گا

ایٹمی دَور کا انسان سدھر جائے گا

اے نئے دَور تجھے امن کی حاجت ہے اگر

تھام لے دامنِ سرکارV، سنور جائے گا


ڈاکٹر محمد اسلم فرخی (۲۳؍اکتوبر ۱۹۲۳ء- ۱۵؍ جون ۲۰۱۶ء)


معروف استاد، ادیب، شاعر، خاکہ نگار، محقق، انشا پرداز اور براڈ کاسٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم فرخی علمی و ادبی حلقوں میں بے حد مقبول تھے اور احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ خاکہ نگاری میں ان کے کام نے معیار اور اعتبار کے حوالے سے زندہ رہنے والے نقش قائم کیے۔ تصوف ان کا خاص اور پسندیدہ موضوع رہا۔ ’’نظامِ رنگ‘‘ ان کے رنگِ عقیدت کو بجا طور پر ظاہر کرنے والی کتاب ثابت ہوئی۔ شعر بہت عمدہ کہتے تھے۔ میں نے ’’نعت رنگ‘‘ کے شمارہ نمبر ۲، دسمبر ۱۹۹۵ء میں ان کی چند نعتوں پر مشتمل ایک گوشہ شائع کیا تھا جسے خاصی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ بعدازاں بھی ڈاکٹر صاحب ’’نعت رنگ‘‘ کے لیے کبھی کبھی کوئی تحفہ عطا فرماتے رہے۔ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور انھیں علمی و ادبی طور پر متحرک رکھنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ حوصلہ افزا رویہ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے گرد ان کے شاگردوں کا ایک بڑا حلقہ آخری عمر تک قائم رہا۔ ان کی نعت کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں:

مری رفتار کے دیکھو قرینے

مدینے جا رہا ہوں میں مدینے

براہِ شوق ہوں محتاط اتنا

بندھے ہوں جیسے پیروں میں نگینے

مرا اعزاز حد سے بڑھ گیا ہے

بلایا ہے مجھے میرے نبی نے

محبت کی ہوا میں اُڑ رہا ہوں

رواں جیسے سمندر میں سفینے

مدینے پہنچے پھر واپس نہ آئے

کیا ہے قصد اسلم فرخی نے


حسن اکبر کمال (۱۴؍ فروری ۱۹۴۶ء - ۲۱؍جولائی ۲۰۱۷ء)


حسن اکبر کمال ایک باکمال شاعر و نقاد تھے۔ غزل، گیت نگاری، حمد و نعت اور سلام و منقبت میں انھوں نے اپنے فن کے کمالات دکھائے اور خوب شہرت کمائی۔ عزت و شہرت اور نام وری کے باوجود اُن کی طبیعت میں انکسار تھا۔ میں نے اکثر انھیں اپنے ایک دوست پروفیسر مختار کے ہاں محفلِ نعت میں جو ہر سال منعقد ہوتی تھی، بڑی نیازمندی اور عاجزی سے شریکِ بزم دیکھا۔ محفل کے اختتام پر ان کا محبت سے قریب آنا، پڑھے گئے کلام پر اپنی پسندیدگی کا والہانہ اظہار کرنا اور نم ناک آنکھوں سے دعائیں دینا اس حقیقت کو سامنے لاتا تھا کہ وہ اندر سے روشن اور دینی اقدار کو اہمیت دینے والی شخصیت ہیں۔ پھر کچھ عرصے بعد وہ میرے اور قاری وحید ظفر قاسمی صاحب کے پڑھے ہوئے کلام یا ان بحروں میں کچھ نعتیں لکھ کر محفل میں آنے لگے اور ان کی خواہش رہتی کہ ہم ان نگارشات کو محفل میں پڑھیں۔ ہم دونوں نے ان کی چند نگارشات پڑھیں بھی جس پر محفل میں ان کی سرشاری اور اشک باری آج بھی یادداشت کا حصہ ہے۔ چند سال پیشتر ان کا مجموعۂ نعت ’’التجا‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ مجموعہ سعادت کا مرقع ہے جس میں حضور نبی کریم V کو عقیدت اور والہانہ انداز میں یاد کیا گیا ہے۔ ہر صفحے پر حضوری کی کیفیات کا سلیقے اور شائستگی سے اظہار ملتا ہے:

وہ سبز گنبد ، سنہری جالی ، حرم کا جلوہ جو یاد آیا

تڑپ اُٹھا دل ، وہاں سے آکر دیارِ طیبہ جو یاد آیا

حریمِ سرکار میں تھا حاضر ، میں بے نوا نعت گو مسافر

عجیب دل نے سکون پایا ، وہ ایک لمحہ جو یاد آیا


ریاض حسین چودھری مرحوم (۸؍نومبر ۱۹۴۱ء- ۶؍ اگست ۲۰۱۷ء)


ریاض حسین چودھری کا شمار پاکستان کے ان چنیدہ نعت گو شعرا میں ہوتا تھا جو اپنے اسلوب سے الگ پہچانے جاتے تھے۔ تازہ کاری اور عشق و محبت کا والہانہ پن ان کے اسلوب کے نمایاں اوصاف تھے۔ جدید نعت کے جتنے موضوعاتی زاویے ہوسکتے تھے، ریاض حسین چودھری کے ہاں سب کے سب نہایت سلیقے اور توازن کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اپنے تخلیقی سرمائے سے نعتیہ ادب کو ثروت مند کرنے والے اس شاعر نے بارہ مجموعے پیش کیے، جب کہ تیرھویں اور چودھویں مجموعے کے مسودے تیار ہیں اور ان پر اہلِ علم سے تأثرات حاصل کیے جارہے تھے۔ ان کا اسلوب جس طرح شاعری میں منفرد اور جدید تھا اسی طرح ان کی نثر بھی نہایت خوب صورت تھی۔ نعتیہ ادب پر لکھے ہوئے ان کے مضامین اکثر ’’نعت رنگ‘‘ کی زینت بنتے رہے ہیں۔ وہ عمر کے آخری حصے میں بھی تخلیقی طور پر نہایت فعال اور متحرک رہے۔ کئی بیماریوں سے نبرد آزما ہونے اور ضعف کے باوجود نعت گوئی کا شغف انھیں تازہ دم رکھتا تھا۔ اکثر فون پر اپنے آنے والے مجموعوں کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے ان کی آواز میں عزم و ہمت کی روشنی صاف محسوس ہوتی تھی۔ کتابوں کے ناموں پر مشورہ، کن احباب سے رائے لی جائے، ’’نعت رنگ‘‘ میں شائع ہونے والے تنقیدی مضامین پر اپنے خیالات کا اظہار، غرضے کہ وہ نقاہت اور بیماری کے باوجود کافی دیر تک فون پر گفتگو میں مصروف رہتے اور نعت کے ادبی فروغ کی صورت گری کے خوابوں کو تعبیر میں ڈھلتے دیکھ کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔ انھوں نے اپنی نعت کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مکالمے کی صورت دے دی تھی۔ دیکھیے لاغر وجود میں ایک توانا روح کس طرح آقا سے التجائے کرم میں مصروف ہے:

حضور کتنے عوارض بدن سے لپٹے ہیں

قدم اُٹھانے کی ہمت نہیں رہی آقا

حضور سانس بھی لینا محال ہے اب تو

کھڑی ہے سر پہ مرے شامِ زندگی آقا


ان کے چار مجموعوں کو صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ خدا کرے ان کا باقی ماندہ تخلیقی و تحریری سرمایہ بھی شائع ہوکر محفوظ ہوجائے۔


ثاقب انجان مرحوم (۲۴؍جولائی ۱۹۲۷ء- ۲۴؍اکتوبر ۲۰۱۶ء)


ثاقب انجان کا تعلق کراچی سے تھا۔ جب جب ان سے ملاقات ہوئی ان کی سادگی اور اخلاص نے متأثر کیا۔ غزل کا مجموعہ ’’ریگِ ساحل‘‘، منظوم واقعۂ کربلا ’’حدیثِ غم‘‘ اور نعتیہ مجموعہ ’’ابرِ کرم‘‘ ان کا علمی و تخلیقی سرمایہ ہے۔ مرحوم کو نعت گوئی سے خصوصی شغف تھا، اکثر نعتیہ مشاعروں میں ذوق و شوق سے شرکت کرتے دکھائی دیتے۔ ان کی شخصیت کی طرح ان کی شاعری بھی سادگی کا مظہر تھی:

کس کو دُنیا کی خبر ہے ان دنوں

جانبِ طیبہ سفر ہے ان دنوں

ایک جلوہ ، ایک منزل ، اک خیال

فکر کتنی مختصر ہے ان دنوں

خواب و بیداری میں بھی پیشِ نظر

روضۂ خیرالبشر ہے ان دنوں

رہروِ راہِ مدینہ سے نہ پوچھ

زیست کتنی معتبر ہے ان دنوں

کن خیالوں میں ہیں گم انجانؔ آپ

کون منظورِ نظر ہے ان دنوں


احمد صغیر صدیقی (۱۹۳۸ء- ۲۰۱۷ء)

تھے یہاں سارے عمل ردِّعمل کے محتاج

زندگی بھی ہمیں درکار تھی مرنے کے لیے


احمد صغیر صدیقی بھی چلے گئے، ان کا یہ خوبصورت شعر ان کے شعری مجموعے ’’لمحوں کی گنتی‘‘ میں کبھی نظر سے گذرا تھا، آج اس اندوہناک خبر نے ذہن میں یہ شعر تازہ کردیا۔ احمد صغیر صدیقی بحیثیت شاعر، ادیب، نقاد، کہانی کار اور مترجم کے عصری ادبی منظرنامے پر اپنی شناخت اور اعتبار کے رنگوں کو گہرا کر چکے تھے۔ ان کی مطبوعہ کتب میں ان کے تراجم کردہ کہانیوں کے چار مجموعے، نفسیات اور پُراسرار علوم پر ان کی متعدد مطبوعہ کتب کے علاوہ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’گوشے اور جالے‘‘ اور چار شعری مجموعے ’’سمندری آنکھیں‘‘، ’’کاسنی گلپوش دریچے‘‘، ’’اطراف‘‘ اور ’’لمحوں کی گنتی‘‘ شامل ہیں۔ ہندوپاک کے تمام قابل ذکر رسائل و جرائد میں ان کا کلام اور تحریریں تواتر سے شائع ہوتی رہیں۔ نعت رنگ سے انھیں بے حد محبت تھی اور وہ مذہبی شاعری کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات اور ان کے جواب میں شائع ہونے والے مضامین کو بہت توجہ اور شوق سے پڑھتے تھے۔ نعت رنگ میں ان کے مستقل خطوط شائع ہوتے رہے ہیں اور ہر خط میں وہ بعض نکات ایسے اٹھاتے تھے جس پر لوگوں کا ردعمل نعتیہ تنقید میں نئے مباحث کو جنم دیتا تھا۔ میرے نام خطوط کے مطبوعہ مجموعہ ’’نعت نامے‘‘ میں ان کے ۴۵ خط محفوظ ہیں اور وہ بھی ایسے کہ ہر خط ایک مضمون معلوم ہوتا ہے۔ انھوں نے نعت رنگ کے لیے بعض مضامین بھی لکھے جو ان کی تنقیدی بصیرت اور جرأتِ اظہار کا آئینہ خانہ ہیں۔ ان کی نعتیں بھی نعت رنگ میں محفوظ ہوتیں رہیں، وہ ہر شمارے کے لیے کوئی نہ کوئی تازہ نعت بھی ارسال فرماتے۔ مجھ سے آخری ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ انھوں نے نعت رنگ کے شمارہ ۲۶ کے مشمولات پر ایک مضمون لکھا ہے وہ جلد فراہم کریں گے، ساتھ ہی یہ ذکر بھی ہوا کہ وہ اپنے عارضہ قلب کے علاج کے لیے امریکہ جانے والے ہیں، پھر ایک دن مجھے ڈاک سے ان کا مذکورہ مضمون موصول ہوا۔ رسید کے لیے فون کیا تو فون بند تھا، معلوم ہوا کہ وہ امریکہ چلے گئے۔ سنا ہے کہ امریکہ جاتے ہوئے ان کی جہاز میں طبیعت بگڑ گئی اور انھیں امریکہ جاتے ہی اسپتال میں داخل کروانا پڑا جہاں وہ دو ماہ زیر علاج رہنے کے بعد گھر منتقل کیے گئے، مگر ان کی صحت سنبھل نہ سکی اور بالآخر ۱۱؍ستمبر ۲۰۱۷ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔


نعت رنگ کے قارئین اور نعت کے تنقیدی زاویوں پر کام کرنے والے احمد صغیر صدیقی کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ نعت کے ادبی فروغ میں پوری دلچسپی اور ذمہ داری سے جن ادیبوں نے اس عہد میں اپنا حصہ ڈالا اُن میں احمد صغیر صدیقی اور ان کے لکھے ہوئے تنقیدی خطوط کو کبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے دو نعتیہ شعر ملاحظہ فرمائیں:

آرزو ہے یہی دل میں تری چاہت نہ ہو کم

دور کتنا ہی رہوں لطف رفاقت نہ ہو کم

میرے آقا مجھے دل جوئی کے لفظوں سے نواز

ساری دُنیا میں لٹائوں مری دولت نہ ہو کم


فقیرِ مصطفی امیر (۲۰؍نومبر ۱۹۴۲ء - ۲۲؍ستمبر ۲۰۱۷ء)


محمد امیر نواز اعوان کا قلمی نام فقیرِ مصطفی امیر تھا۔ میانوالی میں پیدا ہوئے۔ بی اے تک تعلیم حاصل کرکے محکمہ پولیس میں ملازمت اختیار کی اور وہیں سے بحیثیت سینیئر سپرنٹنڈنٹ آفس پولیس پنجاب کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ دُنیاوی طور پر اس منصب تک پہنچنے کے بعد عموماً انسان میں خودنمائی اور فخر کے کئی پہلو اُجاگر ہو جاتے ہیں، مگر میری جتنی بھی بار موصوف سے فون پر بات ہوئی، میں نے انھیں سراپا نیاز پایا۔ شاعری ان کا مشغلہ تھی۔ متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے مگر جب دامنِ ذکر رسالت سے وابستہ ہوئے تو پھر یہیں کے ہو رہے۔ میری معلومات کے مطابق ان کے چھ نعتیہ مجموعے شائع ہوئے۔ ہو سکتا ہے یہ تعداد زیادہ ہو، ان کی نعت گوئی نبی کریم Vسے ان کی گہری عقیدت اور والہانہ پن کا اظہار ہے۔ انھیں فن سے زیادہ جذبہ صادق کی نمود سے اپنے نعتیہ کلام کو آراستہ کرنے کا ذوق و شوق رہا۔


نعت گوئی سے اپنے پُرخلوص رشتے کے اظہار کے لیے انھوں نے صرف نعت کہی نہیں بلکہ نعت گوئی کے فروغ کے لیے بھی ’’انجمن فقیرانِ مصطفی‘‘ جیسے ادارے قائم کیے جو مسلسل نعتیہ مشاعروں کے انعقاد اور اشاعتی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل رہے۔ ان کی ادارت میں سہ ماہی ’’متاعِ امیر‘‘ اور ’’نعت گو‘‘ کے نام سے دو شمارے جاری ہوئے، مگر یہ اپنا اشاعتی سفر زیادہ دیر برقرار نہ رکھ سکے، مگر ان کے چند شمارے بھی فقیرِ مصطفی امیر کے حوصلے، عزم اور لگن کی زندہ گواہی کے طور پر محفوظ ہوگئے ہیں۔ خداوندکریم سے اس خادمِ نعت کی مغفرت کے لیے دُعاگو ہوں۔

نعت گو ہوں، کہیں بھی دفن کرو

شہرِ طیبہ کی حد سے اُٹھوں گا

میں تو محشر میں بھی امیر نواز

نعت پڑھتا لحد سے اُٹھوں گا


دُعا ہے کہ ربِّ کریم ان تمام مرحومین کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین !


صبیح رحمانی

تحقیق

تنقید

===پروفیسر فتح محمد ملک (اسلام آباد) اقبالؔ اور گوئٹےؔ کا نغمۂ محمدی===


ABSTRACT: GOETHE was very much influenced by Islamic teachings. He dreamt to write Drama presenting high qualities of Islamic teachings in order to visualizing the most charismatic character of Prophet of Islam Muhammad (Peace be upon Him), but his dream could not come true. Only his poem for the praise of Prophet Muhammad (S.A.W) remained safe on the surface of literary scene. That poem caught attention of Allama Iqbal for the sake of translating the same into Persian. The article placed hereunder depicts some light on Goethe's interest in Eastern cultural beauty and purity of Islamic thoughts. The enmity can be reduced if Goethe's approach adopted by Western World today. Islam also invites attention towards teachings of Islam conforming to the teachings of followers of Scripture in Qur'aanic words 'Say (O Muhammad [peace be upon Him]"O people of the Scripture [Jews and Christians]! Come to a word that is just between us and you, that we worship none but Allah [Alone]".


گوئٹے کے اڑھائی صد سالہ یوم پیدائش کی تقریبات کا خیال کرتا ہوں تو مجھے کارل فان اوسیٹسکی کا ایک قول بے ساختہ یاد آ جاتا ہے۔ دائمیر ری پبلک میں گوئٹے کی کھوکھلی اور منافقانہ حمد و ثنا پر تبصرہ کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ:


’’جرمنی میں گوئٹے کا یوم سرکاری طور پر یوں منایا جاتا ہے جیسے وہ ایک شاعر اور پیغمبر نہ ہو بلکہ فقط افیون ہو‘‘۔(۱)


یہ کچھ دائمیر ری پبلک پر ہی موقوف نہیں بلکہ گوئٹے کے دورِ حیات سے لے کر آج تک نہ صرف جرمنی بلکہ ساری کی ساری مغربی دنیا میں گوئٹے کی اسلام شناسی اور مسلمان دوستی کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جا رہا۔اگر گوئٹے کے وسیع النظر اور انسان دوست روحانی مسلک پر عمل کیا جاتا تو نہ کل جرمن قوم یہودیوں کی نسل کشی کے انسانیت سوز جرائم میں ملوث ہوتی اور نہ آج عصر رواں کا نامور ترین تخلیقی فن کار گستر گر اس برلن میں جرمنی کے ایک سو سے اوپر تخلیقی فن کاروں کا جلوس لے کر سلمان رشدی کی حمایت میں نعرہ زنی میں مصروف پایا جاتا۔ واقعہ یہ ہے کہ مغربی دنیا آج بھی گوئٹے کی اسلام اور مسلمانوں سے محبت کا راز سمجھنے پر آمادہ نہیں ہے۔اس کے برعکس دانتے اور والٹیر کے دیوانگی کی حدود کو چھوتے ہوئے مذہبی تعصب کو مزید ہوا دینے میں مصروف ہے۔اسلام سے نفرت اور مسلمانوں سے حقارت کی اس فضا میں گوئٹے کے اڑھائی سو سالہ جشنِ ولادت نے مغربی دنیا کو ایک نادر موقع مہیا کیا ہے کہ وہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام سے متعلق اپنی نفسیاتی بیماریوں کے لیے ایک نسخۂ شفا ڈھونڈے۔ خود گوئٹے بھی اپنے عہد کی بیماریوں کے لیے نسخۂ شفاکی تلاش میں ہی اسلامی مشرق کو روحانی ہجرت پر مجبور ہوا تھا۔ ڈاکٹر آرتھرریمی اپنی کتاب ’’جرمنی شاعری پر ایران اور ہندوستان کے اثرات‘ ‘ میں بتاتے ہیں کہ:


’’ہندوستان کی دیو مالا،ہندوستان کے مذہب اور اس کی دور از کار فلسفیانہ موشگافیوں سے گوئٹے کو کراہت محسوس ہوتی تھی۔ خصوصیت کے ساتھ دیومالائی جنات کو وہ حقارت بھری نگاہوں سے دیکھتا تھا……شاید یہی وجہ ہے کہ گوئٹے کا مشرق سندھ، ایران، دنیائے عرب اور ترکی تک محدود تھا۔‘‘(۲)


ہندو مت اور ہندو مالتھالوجی سے گوئٹے کی بیزاری کا راز اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ اس نے اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ ملت ابراہیمی یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں بنیادی روحانی یگانگت پر غور و فکر میں صرف کیا تھا۔ آغازِ شباب ہی میں گوئٹے نے یہودیت، عیسائیت اور اسلام پر تین سلسلہ وار ڈرامے تخلیق کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اسلام کے موضوع پر اپنے مجوزہ ڈراما میں گوئٹے نے آنحضورV کی سیرت و کردار کو مرئی حیثیت دینے کا ارادہ کیا تھا۔ اپنی خود نوشت بعنوان ’’شاعری اور صداقت‘‘ میں گوئٹے نے دو صفحات پر پھیلے ہوئے ایک بیانیہ میں اس تمثیل کی تمنا کی صورت گری کی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’میرے دل میں یہ خیال تقویت پکڑتا گیا کہ محمدV کی حیات طیبہ پر لکھوں جنہیں میں نے ہمیشہ صادق پایا اور جن کے نکتہ چینوں کو میں نے ہمیشہ گمراہ سمجھا۔جب یہ خیال میرے دل میں آیا تو میں اس کام کے لیے بخوبی تیارتھا کیونکہ میں اس سے پیشتر آنحضورV کی حیات و کردار کا بنظرِ غائر مطالعہ کرچکا تھا۔ یہ تحریر ایک مناجات سے شروع ہوتی ہے۔‘‘ (۳)


اس کے بعد گوئٹے عرب جاہلیت کے خلاف آنحضورV کے جہاد کے آغاز سے لے کر واقعہ معراج تک اسلام کی سرگزشت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:


’’ذہن اس احساس سے سر شار ہے کہ اسے اوپر ہی اوپر، اور بھی اوپر پرواز کرتے چلے جانا ہے۔ اسے ھواوّل، ھوالاخر، ھوالظاہر ، ھوالباطن تک پہنچنا ہے۔ اسے اس ہستی مطلق کے حریم تک پہنچنا ہے، تمام مخلوقات کی زندگی جس کے طلسم کن سے عبارت ہے۔ میں نے یہ مناجات ایک عجب گرمیٔ احساس کے ساتھ لکھی تھی۔ ہرچند یہ گم ہو چکی ہے مگر آسانی کے ساتھ اس کی بازیافت ممکن ہے۔ یہ اظہار و بیان کے تنوعات کے ساتھ گائی جا سکے گی۔ گاتے وقت وہ تصور پیش نظررکھنا ضروری ہوگا جو اس حمدیہ گیت کے تخلیقی عمل میں کارفرما تھا۔ یہ ایک قافلہ سالار کا تصور تھاجو اپنے خاندان، اپنے قبیلہ کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔آوازوں کا زیروبم اور کورس کی مختلف شکلوں کا خاص اہتمام کیا جائے گا۔ دکھایا جائے گا کہ بعثت کے فوراً بعد محمدV نے اپنے فکر و احساس سے اپنے خاندان کو آگاہ کیا۔ آپ کی زوجہ محترمہؓ اور حضرت علیؓ سب سے پہلے خود اپنے قبیلہ کو مشرف بہ اسلام کرنے میں کوشاں ہیں۔ اس باب میں اتفاق اور عناد، حمایت اور مخالفت اپنے اپنے ظرف کے ساتھ متصادم ہیں۔ جدوجہد زور پکڑتی ہے ۔ فکری معرکہ تشدد اور خون خرابے کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے اور بالآخر ہجرت کا وقت آ پہنچتا ہے۔ تیسرے باب میں فتح و نصرت کا سماں، اللہ کے دشمنوں پر غلبہ، کعبہ کو بتوں سے پاک کر کے اللہ کے دین کی سربلندی کے مناظر پیش کیے جائیں گے۔‘‘(۴)


قرآن کریم اور آنحضورV کے اسوۂ حسنہ کے گہرے مطالعہ اور بیشتر فنی سازو سامان جمع کر لینے کے باوجود گوئٹے اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دینے کی روداد یوں بیان کرتے ہیں:


’’ایک صاحب کردار اور دانش مند ہستی پر ایک ابدی پیغام کے اثرات اور اس کے جذبہ و عمل، اس کے سودوزیاں کا رزمیہ پیش کرنا مقصود تھا…متعدد نغمات پہلے ہی تیار کر دیئے گئے تھے تاکہ موقع و محل کی مناسبت سے استعمال کیے جا سکیں مگر افسوس کہ اس متاع گم گشتہ میںسے فقط ایک چیز باقی رہ گئی ہے جو میرے مجموعۂ کلام میں ’’نغمۂ محمدV‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔(۵)


دنیا بھر کے نعتیہ کلام میں اپنا ثانی نہ رکھنے والا یہ ’’نغمۂ محمدV‘‘ بعد میں گوئٹے نے اپنے West Ostilcher Diwan میں شامل کر دیا تھا اور بعدازاں اسے علامہ اقبال نے ’’جوئے آب‘‘ کے عنوان سے فارسی کا خوبصورت پیرہن بخش دیا تھا۔ گوئٹے نے اپنے دیوان کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم اور دیوان کے سرورق پر الدیوان الشرقی للمولف الغربی کی جس خوبصورت انداز میں خطاطی کی ہے اس سے عاشقانہ محنت کا راز بھی کھلتا ہے۔ ادھیڑ عمر میں جب وہ جواں سال شاعرہ ماریہ کی محبت میں مبتلا ہوئے تووہ بے خیالی میں کبھی ریت میں اور کبھی کاغذ پر اس کا نام عربی حروف میں لکھتے رہتے تھے۔ یہی عرصۂ محبت ان کے دیوان مشرقی کی تخلیق کا زمانہ ہے۔


اسلامی مشرق میں تخلیقی دلچسپی گوئٹے کے عنفوان شباب کا قصہ ہے۔ اکیس برس کی عمر میں جب وہ قانون کی اعلیٰ تعلیم کے لیے سڑاسبرگ گئے تو وہاں اپنے وقت میں جرمن ادبیات کی ممتاز ترین شخصیت ہرڈر کے زیرِاثر اسلامی مشرق نے ان کے دل و دماغ کو اپنی جانب کھینچنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ یہی کشش ہندوستان کے مغرب میں پھیلی ہوئی دُنیائے اسلام کے ساتھ ان کی اٹوٹ تخلیقی رفاقت کی صورت اختیار کر گئی۔ ہرڈر اٹھارہویں صدی کی جرمنی کا سب سے بڑا ماہر دینیات بھی تھا۔ اس کے زیرِ اثر گوئٹے صحائف آسمانی کے شاعرانہ حسن کی جانب متوجہ ہوا اور پھر رفتہ رفتہ ابراہیم و موسیٰ سے ہوتا ہوا قرآن حکیم تک آ پہنچا تھا۔ یہاں پہنچتے ہی وہ پکار اُٹَّھا:


’’اگر اسلام کا مطلب رضائے الٰہی کی اطاعت ہے تو ہم سب اسلام میں ہی جیتے ہیں اور اسلام ہی میں مرتے ہیں۔‘‘


اپنے ’’دیوانِ مشرقی‘‘ کی تفسیر و تعبیر کرتے ہوئے گوئٹے نے قرآن حکیم کی حقانیت کے اثبات میں لکھا کہ:


’’توحید، عبدیت اوررسالت……یہ تمام قرآنی تصورات، ہمارے پنے دینی عقائد سے گہری مماثلت رکھتے ہیں اور ہماری مقدس کتابیں ہی بڑی حد تک مسلمانوں کی مقد س کتابوں کا ماخذ ہیں۔ اساسی معاملات میں ہمارے اور ان کے عقائد اور ہمارا اور ان کا طرزِ فکر یکساں ہے۔‘‘


ملت ابراہیمی کی ساخت پرداخت اور نشووارتقاء سے اس گہری شناسائی کی بدولت گوئٹے مسلمانوں کے ادبیات و فنون سے محبت میں مبتلا ہو گیا۔ گوئٹے نے پینسٹھ برس کی عمر میں ہائیڈل برگ کی نوخیز شاعرہ ماریہ نافان ولمر کے ساتھ ٹوٹ کر محبت کی۔ اپنے دیوان میں ’’زلیخانامہ‘‘ کے زیرِعنوان اس داستان محبت کے احوال و مقامات کی پردہ کشائی کرتے وقت اس نے خود کو حاتم کہا اور ماریانا کی نظمیں بھی شامل کیں۔ یہ دیوان مسلمانوں کی عشقیہ شاعری سے تخلیقی اکتساب کی درخشندہ مثال ہے۔


گوئٹے نے آنحضورV کو ایک رواں دواں اور ابدیت بہ کنار جوئے آب سے تشبیہ دی ہے۔ ’’نغمۂ محمدV کا آخری بند یہ ہے:

دریائے پر خروش ز بند و شکن گزشت

از تنگنائے وادی و کوہ و دمن گزشت

یکساں چو سیل کردہ نشیب و فراز را

او کاخ شاہ و پارہ و کشت و چمن گزشت

بیتاب و تندوتیز و جگرسوز و بیقرار

در ہر زمان تازہ رسید او کہن گزشت

زی بحر بیکرانہ چہ مستانہ می رود

در خود یگانہ از ہمہ بیگانہ می رود (ترجمہ علامہ اقبال)


پیغمبرِ اسلامﷺ سے یہ گہری عقیدت اور جبلی محبت اور اسلام کی انقلابی روح سے یہ جذباتی لگائو مغربی ادب میں اور کہیں نہیں ملتا۔ اقبال نے گوئٹے (۱۷۴۹ء تا ۱۸۳ء) کے ہم عصر غالب کو مخاطب کر کے کہا تھا:

ع گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے


گوئٹے واقعتا اپنے ہم عصر مسلمان شاعروں کا ہم نوا تھا۔ حیرت یہ ہے کہ اس کی اسلام شناسی دنیائے مغرب کے لیے ہنوز پردوں میں چھپی ہوئی ہے۔

آج سیمیوئل ہستگٹن (The Clash of Civilizations)کے سے سامراجی نظریہ ساز جب اسلامی تہذیب اور عیسوی تہذیب کے مابین تصادم اور ستیز کا رزمیہ گیت چھیڑتے ہیں اور مغربی دنیا کو دنیائے اسلام کے خلاف صف آر ہونے کی تلقین کرتے ہیں تو گوئٹے کا نغمۂ عشق رہ رہ کر میرے کانوں میں رس گھولنے لگتا ہے اور میں سوچنے لگتا ہوں کہ وہ وقت کب آئے گا جب مغربی دنیا ’’مغنی نامہ‘‘، ’’زلیخا نامہ‘‘ اور ’’بندگی نامہ‘‘ کی سی عہد آفریں نظموں کے خالق گوئٹے کو افیون کی مانند استعمال کرنا ترک کر دیں گے اور آبِ حیات سمجھ کر انسانیت کی کھیتی کوسرسبز و شاداب کرنا شروع کر دیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ جب وہ وقت آئے گا تو اسلامی اور مغربی دنیائیں باہم متصادم ہونے کی بجائے شیروشکر ہو جائیں گی اور اللہ کا یہ پیغام ہر سو گونجنے لگے گا:


’’اے اہلِ کتاب! آئو ہم تم اس کلمہ توحید پر متحد ہو جائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔‘‘

حواشی

"Official Germany celebrates Goethe not as poet and prophet but above all as opium" (Karl von Ossietzky as quoted by Peter Gray 1968 weimer Culture)

(2) The influence of India and Persia on the poetry of Germany (Newyork) 1966 pp.2021

"For India's mythology, its religion its abstrusest of philosophies he felt nothing but aversion. Especially hateful to him were the mythological monstrosities........After all. Goethe's Orient did not extend beyond Indus It was confirmed mainly to Persia and Arabia, with and occasional excursion into Turkey."

(3) "There developed with in me the plan of representing in the life of Mahomet whom I have never been able to regard as a imposter those courses which were so clearly seen by me in actual life, which lead much more to ruin than to salvation. A short time before I had studied with great interest the life of the oriental prophet, so when the thought came to me I was fairly well prepared. The piece begins with a hymn which Muhammad sings alone under the clear sky of night"....

4) The mind feels it must yet rise above itself; it rises to God the only One, the Eternal, the Absolute to whom all these splendid but limited creatures owe their existence I composed this hymn with great warmth of feeling it is lost, but might easily be restored for the purpose of a cantata, and would recommended itslef to the musician by the variety of its expression. But it would be necessary to imagine, as at that timewas the intention, the leader of a caravan with his family and a whole tribe, and so for the alteration of the voices and the strength of the choruses provision would be made. After Mahomet has thus convereted himself and communicated these feelings and thoughts to his family. His wife and Ali join him unreservedly. In the second act he himself endeavours, but Ali more vigorously, to extend this faith in the tribe. Here agreement and opposition show themselves according to the difference of character. The feud begins the strife becomes violent and Mahomet must fly in the third act he overcomes his enemies, makes his religion the public one, purifies the Kaba from idols.

(5) "All that genius can effect upon a man of character and intellect was to be represented, and how it wins and loses in the process. Several songs which were to be inserted, were composed beforehand., all that remains of them is that which stands among my poems my poems under the title Mahomet's Song. Pp.557-559" ٭٭٭


پروفیسر فتح محمد ملک (اسلام آباد) اُردو ادب میں نعتیہ شاعری کا مقام

ABSTRACT: Rejection of Akbar-e-Azam's Deen-e-Ilahi, with rigorous efforts of Hazrat Mujaddid Alf Sani and freedom struggle for Pakistan became un-written manifesto for creating poetry in praise of Holy Prophet Muhammad (S.A.W). The article placed below narrates some historical facts that provoked rejection of ante prophecy movement in un-divided India and paved the way to spread love of Prophet Muhammad (S.A.W.) that elevated in the shape of devotional i.e. Naatia Poetry in Urdu. Evolutionary process of devotional poetry has also been discussed to show some such literary movements in Pakistan through journals like 'NAAT RANG'.


دنیا کے کونے کونے میں جہاں بھی مسلمان آباد ہیں وہاں حمد و نعت کی روایت بھی موجود ہے مگر برصغیر کے مسلمانوں میں نعت کی بے پناہ ترویج و اشاعت اور روز افزوں مقبولیت ایک معجزے سے کم نہیں۔ مسلمانوں کی چھوٹی بڑی سب زبانوں کی ادبیات سے میری شناسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ میں نے اس باب میں جرمن اسلام شناس ڈاکٹر اینا ماری شمل کے ایک مضمون God's Beloved and Intercessor for Man: Poetry in Honor of the Prophet یہ مضمون مسلمانوں کی بڑی چھوٹی زبانوں کی صوفیانہ شاعری پر یہ مفصل باب اُن کی کتاب As Through a Veil میں شامل ہے۔(۱) کراچی میں سید صبیح الدین رحمانی جس عاشقانہ انہماک کے ساتھ نعت کی شاعری کی تحسین اور نشر واشاعت میں عبادت کی حد تک محو ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔وہ جس جذب و جنوں کے ساتھ’ نعت سینٹر ‘کے زیرِاہتمام نعت کی شاعری اور تنقید کی ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت اور خوب سیرت کتاب شائع کرتے چلے آ رہے ہیں وہ اُن کے یگانہ و یکتا عاشقِ رسولV ہونے کا ثبوت ہے۔ اس باب میں اُن کی تازہ تریں کاوش ’’کلامِ رضا ،فکری و فنی زاویے‘‘ ہے۔ دینی اعتبار سے تو مولانا احمد رضا خان بریلوی کسی تعارف کے محتاج نہیںمگر اُن کے ادبی مقام اور اُن کی شاعری کے فیضان پر یہ کتاب ایک بھرپور خراجِ تحسین ہے۔ پیشتر ازیں وہ ’’غالب اور ثنائے خواجہ ‘‘کے عنوان سے غالب کی فارسی اور اردو شاعری میں نعتیہ عناصر کی تلاش و جستجو پر وقتاً فوقتاً لکھے گئے مضامین کی ترتیب و اشاعت کا کام مکمل کر چکے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر عزیز احسن کے مطالعاتِ حمد و نعت کی اشاعت بھی انھی کے حصے میں آئی ہے۔اردو نعت کی شعری روایت کی سی کتابیں عاشقانِ رسولV کی متاعِ عزیز بن چکی ہیں۔ زیرِ نظر کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مختلف لکھنے والوں کے وقتاً فوقتاً لکھے گئے منتشر مضامین کی کتابی صورت میں یک جائی جہاں ان بیش قیمت مضامین کو ضائع ہونے سے بچا دیتی ہے وہاں نعت نگاری کے فن کو بھی شاعری کے ایک منور باب کی حیثیت بخش دیتی ہے۔


سید صبیح الدین رحمانی نے اپنے مجلہ ’’نعت رنگ‘‘ کے ذریعے نعت نگاری کی نشرواشاعت کو عبادت کا درجہ دے رکھا ہے۔وہ خود بھی ایک منفرد نعت گو ہیں۔ ’’سرکار کے قدموں میں ‘‘اُن کے نعتیہ کلام کا تازہ ترین مجموعہ ہے۔ کتاب میں سارہ کاظمی کا خوب صورت انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے۔ اُن کا نعتیہ کلام غزل، آزاد نظم اور ہائیکو کی اصناف میں جلوہ گر ہے۔ کتاب کے آغاز میں سید صبیح الدین رحمانی نے نعت گوئی کو اپنے فکر و فن ہی نہیں بلکہ اپنی زندگی کا جلی عنوان قرار دیا ہے۔حال ہی میں کراچی کی مانند لاہور میں بھی ایک انٹرنیشنل نعت مرکز قائم ہو گیا ہے۔ اس مرکز کے مہتمم جناب ارسلان احمد ارسل نے نامور شاعر اور نقاد ڈاکٹر خورشید رضوی کے مجموعۂ نعت بعنوان ’’نسبتیں‘‘ کی اشاعت سے اس کارِ خیر کا آغاز کیا ہے۔ گزشتہ پانچ برس سے میاں صلاح الدین رمضان شریف میں ایک نعت البم بعنوان ’’ورثہ‘‘ تیارکرتے چلے آ رہے ہیں۔ہر سال اس نعت البم میں کوئی نہ کوئی نامور موسیقارنعت کی شاعری ساز و آواز کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اس نعت البم کا مستقل عنوان ’’ورثہ‘‘ ہے ۔ہرسال ایک نیا ذیلی عنوان بھی سامنے آتا ہے۔مثلاً ’’مدینہ مدینہ‘‘ اور ’’یا نبیؐ‘‘۔اس بار صنم ماروی نے ’’یا مصطفی‘‘کے عنوان سے اس روحانی ’’ورثہ‘‘ کو ثروت مند بنایا ہے۔ ہرچند عشقِ رسولؐ مسلمانوں کی روحانی زندگی کا سب سے بڑا سرچشمۂ فیضان ہے تاہم برصغیر میں آنحضورV کی حمد و ثنا میں جذب و جنوں کے تاریخی محرکات و عوامل توجہ طلب ہیں۔مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس عشقِ مصطفیؐ کے دو تاریخی محرکات بھی ہیں۔ اول : دینِ الٰہی ۔ دوم : تحریکِ پاکستان۔


مغل شہنشاہ اکبر نے جب اس سراسر باطل استدلال کے ساتھ دینِ الٰہی کا اعلان کیا کہ آنحضورV کا فیضان فقط ایک ہزار سال تک تھا۔اب الفِ ثانی شروع ہو چکا ہے اس لیے اب اُن کی پیروی ہم پر لازم نہیں رہی۔جن علمائے کرام نے اس تصور کی مخالفت کی اُن کے سرقلم ہوئے اور جنھوں نے اسے قبول کیا اُنھیں سرکار دربار میں اونچے مناصب پر بٹھا دیا گیا۔مقامِ رسالت کی اس نفی کی نفی میں حضرت شیخ احمد سرہندی، مجدد الف ثانیؒ نے ’’رسالہ دراثباتِ نبوت‘‘ لکھا اور سرکار دربار میں معتبر عہدے داروںکے نام اپنے خطوط میں شدید رنج و غم کا اظہار بھی کیا اور بھرپور غیض و غضب کا بھی۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان مکتوبات میں سے یہاں چند اقتباسات پیش کر دیے جائیں:


۱۔ ’’اس زمانہ میں جب عقائد اسلام اور متعلقہ مسائل کے متعلق بدگوئی اور اُن پر ہر طرف سے اعتراضات شروع ہوئے ، بہت سے بدبخت ہندووں اور ہندو زدہ مسلمانوں نے پیغمبرِ اسلام Vپر زبان طعن و تشنیع دراز کرنی شروع کی۔ علماء سُو اپنی تصنیفات میں شہنشاہ کی عصمت کا اعلان کرتے تھے اور خطبہ میں صرف توحید کے بیان پر اکتفا کر کے بادشاہ کے القاب و خطابات لکھ دیتے تھے۔.... مسلمان اذیت میں مبتلا تھے۔ کافر علی الاعلان اسلام اور مسلمانوں کا استہزا کرتے تھے۔‘‘(۲)


۲۔ ’’واویلا! وامصیبتا! کس قدر دکھ رنج و غم اور حسرت کا مقام ہے کہ محمد رسول اللہ V کہ محبوب العالمین ہیں، پر قربان ہونے والے تو ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کرتے تھے اور آپ صلعم کے منکر صاحبانِ عزت و توقیر تھے۔ مسلمان اپنے زخمی دلوں سے اسلام کی تعزیت میں مصروف تھے اور دشمن تمسخر اور ٹھٹھا مخول سے اُن کے زخموں پر نمک چھڑکتے تھے۔ ہدایت کا آفتاب گمراہی کی چادر میں جا چھپا تھااور نورِ حق باطل کے پردوں میں مستور رہ گیا تھا۔ ‘‘(۳)


۳۔ ’’رام اور کرشن اور اسی قسم کی دوسری شخصیات جن کی ہندو پرستش کرتے ہیں اُس ہستیٔ مطلق کی ادنیٰ مخلوقات میں ہیں۔ اُنھیں ماں باپ نے جنم دیا ہے۔ رام ، جسرتھ کے بیٹے ، لچھمن کے بھائی اور سیتا کے شوہر تھے۔ رام اور رحمٰن کو ایک سمجھنا بہت بڑی جہالت ہے۔ بھلا خالق اور مخلوق کیونکر ایک ہو سکتے ہیں اور بے مانند، مانند کے ساتھ کیسے متحد ہو سکتا ہے؟‘‘(۴)


۴۔ ’’ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مَن یُّطِعِ الرَسُولَ فَقَد اَطَاعَ اللّٰہ۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض رسولوں پر تو ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ ایمان اور کفر کی بین بین چلنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ یہی لوگ کافر ہیں۔ ‘‘(۵)


۵۔ ’’ کمالِ محبت کی علامت یہ ہے کہ انسان رسول اللہ V کے دشمنوں اور شریعت کے مخالفوں سے عداوت رکھے۔ متاعِ دنیا تو فریبِ محض ہے۔ آخرت کے معاملے کا انحصار اسی پر ہے۔ نجات کی امید اُسی شخص کو ہو سکتی ہے جو دنیا کی چند روزہ زندگی رسول اللہ V کی اطاعت و اتباع میں بسر کرے گا۔ ورنہ جو نیک عمل بھی کرے گا بیکار اور بے فائدہ ہوگا۔ ‘‘(۶)


اِن مکتوبات میںاعلیٰ سول اور فوجی عہدیداران کو مغل ہندوستان میں اسلام کی بے چارگی و بے کسی کے دلخراش واقعات کی جانب متوجہ کیا گیا ہے۔اُس زمانے میںجمعہ کے خطبات میں توحید کے ذکر کے بعد بادشاہ کی منقبت ہونے لگی تھی۔ایک نیا کعبہ تعمیر کرنے کی مساعی عمل میں آنے لگی تھی۔ آنحضورV کا اسمِ مبارک زبان پر لانا بھی جرم ٹھہرا تھا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے سلطنت کے سرکردہ افسران کو دینِ الٰہی سے پھوٹنے والے اِن کبیرہ گناہوں کے تباہ کن اثرات و نتائج کی جانب متوجہ کرنا شروع کیا تو اِن افسران نے اصلاحِ احوال کی تدابیر پر غور و فکرشروع کر دیا۔ جہانگیر تخت نشین ہوا تو حضرت مجدد الف ثانیؒ نے لوگوں سے یہ عہد لینا شروع کر دیا کہ وہ خلافِ اسلام احکامِ شاہی کی اطاعت نہیں کریںگے۔ اس جدوجہد کو فوج تک وسعت دی گئی۔اُن کا ایک عقیدت مند بدیع الدین دارالحکومت آگرہ کے فوجی ہیڈکوارٹر میں انتہائی اہم عہدے پر کام کر رہا تھا۔ جب فوجی افسران میں حکومت کی مذہبی حکمتِ عملی کے خلاف نفرت اپنی انتہا کو پہنچی توعملی تدابیر بھی زیرِ بحث آنے لگیں۔ چنانچہ جہانگیر کو اپنی ملکہ کے ساتھ کشمیر جاتے ہوئے فوج نے جہلم کے مقام پر نظربند کر کے مطالبہ کیا کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کو جیل سے رہا کر کے یہاں لایا جائے اور اُن کی رہنمائی میں مذہبی حکمتِ عملی رو بہ عمل لائی جائے۔ اُس وقت حضرت مجدد الف ثانیؒگوالیار کی جیل میں محبوس تھے ۔ انھیں اس جرم میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑی تھیںکہ انھوں نے جہانگیر کے دربار میں سجدۂ تعظیمی سے انکار کردیا تھا۔ فوج کے دباؤ میں آ کر جہانگیر نے حضرت مجدد الف ثانیؒ کورہائی دے کر جہلم میں ان سے مذاکرات کیے۔ جہانگیر نے حضرت مجدد الف ثانیؒ کی ساتوں کی سات شرائط منظور کرلیں۔ اس پر فوج نے انھیں رہا کر دیا اور یوں وہ کشمیرروانہ ہو گئے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒکی وہ سات شرائط درج ذیل ہیں:


’’۱۔ سجدۂ تعظیمی موقوف کیا جائے۔ ۲۔ تمام مساجد جو منہدم کی گئی تھیں از سرنو تعمیر کی جائیں۔ ۳۔ ذبحٔ بقر کے امتناعی احکام منسوخ کیے جائیں۔ ۴ ۔ احکام شرع کو جاری کرنے کے لیے مفتی اور محتسب مقرر کیے جائیں۔ ۵۔ جزیہ پھر مقرر کیا جائے۔ ۶۔بدعات کو روکا جائے اور احکامِ شرع کو نافذ کیا جائے۔ ۷۔وہ تمام لوگ جو اس جھگڑے میں قید کیے گئے تھے رہا کیے جائیں۔ ‘‘(۷)


ڈاکٹر فضل الرحمن نے اپنی انتہائی قابلِ قدر تحقیقی کاوش میں اس حقیقت کو بے نقاب کیا ہے کہ جہانگیر نے جہاں حضرت مجدد الف ثانیؒ کی پیش کردہ شرائط تسلیم کر کے رہائی پائی وہاں اُس نے بڑی عیاری کے ساتھ اُنھیں فوج کی تحویل میں دے دیا۔ بظاہر اُس نے حضرت مجدد الف ثانیؒ کو فوج کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سونپی تھی مگر فی الواقعہ اُس نے انھیں اُس وقت تک فوج کی تحویل میں رکھا جب وہ اپنے دمِ واپسیں کو آ پہنچے تھے۔(۸) خیر،اُن پر جو گزری سو گزری مگر انھوں نے نے اپنی بصیرت،حکمت اور شجاعت سے کام لے کر بالآخر جہانگیر کو مجبور کر دیا کہ وہ اس اسلام دشمن مذہبی پالیسی کو ترک کر کے درست راہِ عمل اختیار کرے۔ بلاشبہ یہ ایک بہت بڑا سیاسی کارنامہ ہے مگر وحدت الوجود کے صوفیانہ تصور کی انتہائی گمراہ کن تعبیر وں سے ملتِ اسلامیہ کی نجات اس سے بھی بڑا کارنامہ ہے۔


ہندو مت اور اسلام کو ایک ثابت کرنے کی خاطر علمائے سُو وحدت الوجود کے عقیدے کی سراسر غلط تعبیر سے رام اور رحیم اور رام اور رحمن کو ایک ثابت کرکے ہندو مت اور اسلام میں یکسانیت کے گمراہ کن تصورات عام کرنے میں مصروف تھے۔ ایسے میں حضرت مجددنے وحدت الوجود کو وحدت الشہودکا پیرایۂ بیان بخشا۔فنا فی اللہ کی بجائے بقا باللہ کا تصور پیش کر کے اسلامی تصوف کو ویدانت اور دیگر راہبانہ تحریکوں سے الگ ، منفرد اور ممتاز روحانی مسلک ثابت کیا۔ اُن کی صوفیانہ فکر نے برصغیر میں نقشبندی مجددی مسلکِ تصوف کو مقبولِ عام بنایا۔ اسی مسلک کو خواجہ میردرد نے طریقۂ محمدیہV کے عنوان سے نمایاں تر پہچان دی۔ یہ گویا صوفیانہ فکر و عمل میں اثباتِ نبوت کا بلند بانگ اعلان تھا۔ یہ اعلان تب سے اب تک اسلامی تصوف کی نمایاں ترین پہچان چلا آ رہا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے اسی کردار کو خراجِ تحسین پیش کرتے وقت علامہ اقبال نے لکھا تھا :

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے

جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیٔ احرار

وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہبان

اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار!


جس طرح اللہ نے حضرت مجدد الف ثانیؒ کو بروقت خبردار کر کے برصغیر میں اسلام کو مٹنے سے بچایا تھا اُسی طرح تین سو سال بعد علامہ اقبال کو بروقت خبردار کر کے برطانوی ہند میں اسلام کو مٹنے سے بچادیا تھا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ساری کی ساری مذہبی سیاسی جماعتیں قیامِ پاکستان کی مخالفت میں سرگرمِ عمل تھیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی کی سی نامور شخصیات انڈین نیشنل کانگریس کے مجوزہ متحدہ ہندوستان میں ایک مسلمان اقلیت کی حیثیت میں زندہ رہنے کو جداگانہ مسلمان قومیت پر ترجیح دینے میں مصروف تھیں اور متحدہ ہندوستانی قومیت کے حق میں نِت نیا ’’اسلامی‘‘ استدلال پیش کر رہی تھیں ۔اس انتہائی نازک صورتِ حال میں علامہ اقبال نے : بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست/ اگر بہ اُو نہ رسیدی ، تمام بولہبیست ، کہہ کر مسلمان عوام کو تحریکِ پاکستان کا ہمنوا بنا دیا تھا۔ اس اعتبار سے پاکستان کا قیام عشقِ رسول V کا معجزہ ہے اور خود اقبال کا فکر و عمل عشقِ رسولؐ کی دین ہے۔


میں سوچتا ہوں کہ دینِ الٰہی کی نفی اور تحریکِ پاکستان کا اثبات اردوادب میں نعت گوئی کے حیرت انگیز چلن کے محرکات ہیں۔ دو انتہائی نازک ادوار میں آنحضورV سے والہانہ عشق اور گہری عقیدت نے برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی ہستی کو مٹنے سے بچایا ہے۔ یوںعشقِ رسولؐ ہماری اجتماعی شخصیت کے بقا و دوام کا سرچشمہ ٔ فیضان بھی ہے اور ہماری قومی زندگی کا جلی عنوان بھی!


حواشی


۱۔ As Through a Veil, Mistical Poetry in Islam, Annemarie Schimmel, New York, 1982

۲۔ مکتوباتِ امام ِ ربانی ، حضرت مجدد الف ثانی،جلد اول، صفحہ ۲۲، ۲۳۔

۳۔ ایضاً، صفحہ ۴۷۔

۴۔ ایضاً، جلد اول ، مکتوب۱۶۷ بنام ہردے رام۔

۵۔ ایضاً ، مکتوب ۱۵۲ بنام شیخ فرید، دفترِ اول

۶۔ ایضاً، مکتوب ۱۶۴، دفترِ اول، شیخ فرید کے نام

۷۔ Selected Letters of Shaikh Ahmad Sirhindi, Fazlur Rahman, Karachi, 1968, p.64

۸۔ Ibid.

٭٭٭


ڈاکٹر ناصر عباس نیر ّ نعت: کچھ روایتی اور کچھ غیر روایتی معروضات

ABSTRACT: The article placed below is based on analytical study of emotionality and religiosity takes place in the Genre of Naat .Depth of emotions and belief has been assessed in the light of creative instincts to find out poetic aesthetics in such poetry. Poetic forms have also been separately discussed being based on Forms and Content in order to signifying differences of both kinds of poetry. Sentiments of faith and belief aroused out of hatred of colonialism have also taken into account for the sake of highlighting under current spirit of poetic expressions.


نعت کا بنیادی موضوع ،نبی پاک V کی عظیم المرتبت ذات ِوالا صفات ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نعت کی صنفی شناخت بلحاظ موضوع ہے، بلحاظ ہیئت نہیں۔ یہیں نعت ادبی نقادوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی ہے۔یہ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ جو اصناف اپنی ہیئت کی بنا پر پہچانی جاتی ہیں،وہ تخلیق کار کو موضوع لے کر ،اسلوب وتیکنیک کے انتخاب کی آزادی دیتی ہیں۔واضح رہے کہ اس آزادی کے بغیر کوئی شخص مبلغ تو ہوسکتا ہے ، تخلیق کار نہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ آزادی ان اصناف میں بھی ہے جو متعین موضوعاتی شناخت رکھتی ہیں؟ اس سوال کا دائرہ اگرچہ نعت کے علاوہ، حمد، منقبت ،شہر آشوب وغیرہ تک پھیلا ہواہے، مگر ہم اسے فی الوقت نعت تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔نعت کے اکثر نقاد اس سوال سے بچنا چاہتے ہیں، اور اس تصور میں پناہ لیتے ہیں کہ نعت ادب سے ماورا ایک مختلف قسم کا،اور ممتاز اظہارہے۔اسی بنا وہ نعت کے لیے تنقید کو روا نہیں سمجھتے۔اگر آپ نعت کا مطالعہ محض ایک مذہبی متن کے طور پر کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس کے ضمن میں کوئی بھی فنی ،جمالیاتی ،تنقیدی بحث بلاجواز محسوس ہوگی ،لیکن اگر آپ اسے ادبی ،فنی تخلیق قرار دیتے ہیں ،اور اس پر گفتگو کے لیے روایتی تنقید یا نئی تھیوری کی اصطلاحات استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں دیکھتے تو پھر مذکورہ سوال پرتامل ضروری ہے۔ہماری رائے میںدونوں طرح کی اصناف (ہیئت یا موضوع کی بنیاد پر تشکیل پانے والی )میں آزادی ممکن ہے۔مثلاًمخصوص ہیئت کی حامل اصناف جیسے غزل ،مثنوی ، آزاد نظم اور نثری نظم میں موضوعاتی تنوع کی آزادی ہے۔جب کہ موضوعاتی اصناف میں ہیئت کے انتخاب کی آزادی ہے۔اس آزادی کا خالص جمالیاتی مفہوم یا مضمرات اس وقت زیادہ واضح ہوتے ہیں ،جب ہم ہیئت و موضوع کے پیچیدہ تعلق پر دھیان کرتے ہیں۔ تفصیل میں گئے بغیر ہم کَہ سکتے ہیں کہ موضوع اور ہیئت کا رشتہ ،ہم آہنگی کی تلاش کی آرزو سے عبارت ہے،اور ہم آہنگی کی آرزو وہیں ہوتی ہے ،جہاں ثنویت اور فاصلہ موجودہے۔ چناں چہ ایک ہی موضوع جب مختلف ہیئتوں میں ظاہر ہوتا ہے تو اس میں ہم آہنگی کی کوشش بھی نئے نئے طریقوں سے ہوتی ہے۔نئی ہیئتوں اور موضوع و ہیئت میں ایک نئی سطح پر ہم آہنگی کی سعی کی بنا پرموضوعاتی یکسانیت کاجبر قائم نہیں ہوپاتا۔ علاوہ ازیں جہاں تک نعت کا تعلق ہے ،اس کا موضوع، دیگرموضوعاتی اصناف کے موضوع سے مختلف ہے۔نبی پاکV کی ذات وصفات ،سیرت و عمل خود اپنے اندر غیر معمولی تنوع رکھتے ہیں۔ گویاصنفِ نعت کی یک موضوعی خصوصیت،ذات و صفات ِ نبی V کے تنوع سے ،ڈی کنسرکٹ ہوجاتی ہے،اور اسی کے دوران میں نعت گو بہ طور تخلیق کاروہ آزادی حاصل کرلیتاہے جس کا ذکر ابتدا میں کیا گیا ہے۔


تسلیم کہ ادبی تنقید اس بنیادی مفروضے کے بغیر ایک قدم نہیں اٹھا سکتی کہ ادب ،ایک انسانی اور ثقافتی سرگرمی ہے،لہٰذا اس کے مطالعے کے لیے وہ سب طریقے جائز ہیں،جو انسان کی ذہنی اور ثقافتی دنیا کی تفہیم و تعبیر کے لیے اختیار کیے جاتے ہیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ نعت کا محرک عام طور پر د وقسم کے جذبات ہیں: عقیدت اور عشق۔ان دونوں کا محور ایک عظیم المرتبت ذاتِ گرامی V ہے ،لیکن یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ دونوں جذبات انسانی دل میں موجزن ہوتے ہیں،اور اسی زبان میں ظاہر ہوتے ہیں جسے عام روزمرہ دنیا سے لے کر شعری اظہار کے لیے اختیار کیا جاتاہے۔نعتیہ شاعری کی زبان غزل ونظم کی زبان سے مختلف ہوسکتی ہے، مگر یہ انھی شاعرانہ وسائل کو بروے کارلاتی ہے ،جو دیگر شعری اصناف سے مخصوص ہیں۔دوسرے لفظوں میں بالواسطہ طور پر دو باتوں کو تسلیم کیا جاتاہے۔اوّل یہ کہ غیر معمولی عقیدت و عشق کے جذبات ،عام انسانی زبان اور رائج شاعرانہ وسائل کی نفی نہیں کرتے۔دوم یہ کہ نعت لکھنا بھی ایک انسانی تخلیقی عمل ہے ۔چوںکہ یہ دونوں باتیں نعت میں موجود ہیں ،اس لیے نعت کے معانی بھی ہیئتی تصور کیے جاسکتے ہیں۔ہیئتی معنی سے مراد وہ معنی ہے جو کسی پہلے سے موجود موضوع کاعکس نہیں ہوتا ،بلکہ متن کی تخلیق کے دوران میں وجود پذیر ہوتا ہے۔کہنے کا مقصود یہ ہے کہ نعت کا موضوع متعین ہونے کے باوجود ’نئے معانی ‘ کی تخلیق کی راہ میں حائل نہیں ہوتا۔ اگر یہ نئے معانی نہ ہوں ،اور صرف چند ایک موضوعات کی،یکساں اسلوب میں تکرار ہو تواس کے ضمن میں ہم مذہبی عقیدت کے تحت خاموش احترام کا مظاہرہ کرسکتے ہیں،لیکن اس کے ادبی حسن کی داد کے جذبات محسوس نہیں کرسکتے۔ نعت میں ادبی حسن ،معنی آفرینی ایک ساتھ ہوتی ہے۔ نعت کی معنی آفرینی کا خاص پہلو یہ ہے کہ ہر چند یہ ایک ہیئتی عمل کی پیداوار ہے ،مگر یہ محض ایک لسانی کھیل نہیں ،بلکہ اس کا دائرہ مذہب، ثقافت، سماج اور انسانی نفسیات جیسے منطقوں میںاہم تبدیلیوںتک پھیلا ہے۔ ان سب کا احاطہ ایک مضمون میں ممکن نہیں،صرف چند ایک کی طرف اشارات ہی کیے جاسکتے ہیں۔


نعت گوئی کے کئی محرکات ہوسکتے ہیں ،تاہم ان میںعقیدت و عشق خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ ان دونوں میں فرق کیا جانا چاہیے۔ عقیدت ،کسی بات کو درست سمجھ کر اس پر دل کو مرتکز کرنا ہے۔کسی بات کو درست سمجھنے کے کئی طریقے اور ذرائع ہوسکتے ہیں:ذرائع میںخود آدمی کی اپنی صلاحیت ِ امتیاز اور دوسرے لوگ اور متون شامل ہیں ۔واضح رہے کہ کسی آدمی کی صلاحیت ِ امتیاز کبھی خود مختار نہیں ہوتی،اسے کسی ’اور‘ پر انحصار کرنا پڑتا ہے،یعنی دوسروں کی آرا، تحقیقات،کتب وغیرہ پر۔اسی طرح جو صاحبِ علم اور راوی مستند سمجھے جاتے ہیں،وہ بھی علم کا ذریعہ ہوتے ہیں۔نیز زبانی یا تحریری روایت ،اورالہامی متون خود علم اور ذریعۂ علم ہیں ۔سوال یہ ہے کہ عقیدت کا تعلق ،بات اور اس کی سچائی تک پہنچنے کے ذریعے سے ہے ،یا نہیں؟کیا ہر وہ بات جسے ہم کسی بھی ذریعے سے درست سمجھیں، اس کے سلسلے میں ایک طرح کا ،یا کئی طرح کے جذبات محسوس کرتے ہیں؟ ان سوالات کے سلسلے میں کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں،کیوں کہ ہر آدمی کے یہاں ایک ہی شے ،یا ایک ہی تصور مختلف جذبات یا احساسات کو تحریک دیتاہے۔مگر ہم اتنا ضرور کَہ سکتے ہیں کہ ان باتوں کی سچائی ہمارے دل میں تحسین کے جذبات پیدا کرتی ہے،جن کا تعلق باہر سے ہے ؛ان باتوں کی سچائی ہمیں آسودگی دیتی ہے، جن کا تعلق ہماری نفسی الجھنوں کے دور ہونے سے جنم لیتی ہے ،اور ان باتوں کی سچائی ہمارے دل میں احترام و عقیدت کے جذبات ابھارتی ہے،جن کا تعلق ہماری روح سے ہے۔احترا م و عقیدت کا تعلق ،ایک طرف خود کسی مخصوص بات سے ہے تو دوسری طرف اس کے ذریعے سے ہے۔ یوں عقیدت ،جن احساسات کی حامل ہوتی ہے ،وہ ذریعہ اور بات دونوں کو محیط ہوتے ہیں۔قیاساً کہا جاسکتا ہے کہ عقیدت اور عقیدے میںایک طرح کا ’انٹرپلے‘ ہوتا ہے؛دونوں ایک دوسرے کے ہم قریں ہوتے رہتے ہیں،اور دونوں میں لامتناہی طور پر مکالمہ جاری رہتاہے ۔بایں ہمہ کچھ استثنائی صورتیں بھی ہوسکتی ہیں ،جہاں عقیدت کا عقیدے سے تعلق نہیں ہوتا۔غیر مسلموں کی نعتوں میں عقیدت بدرجہ اتم ہوتی ہے ،مگر وہ مسلمانوں کے عقیدے میں شریک نہیں ہوتے۔


ان معروضات کی روشنی میں ہم کَہ سکتے ہیں کہ جب عقیدت ،نعت کی بنیاد بنتی ہے تو یہ ایک سادہ سا، سامنے کا ،عام سا معاملہ نہیں ہوتا۔ نعت کا تخلیقی عمل،محض چند بندھے ٹکے موضوعات تک محدود نہیں ہوتا۔یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ عقیدت کے تحت لکھی گئی نعتوں میں رسمیت کے پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے ،مگر یہ ان شعرا کے یہاں ہوتا ہے ،جن کی نعتیہ شاعری کا محرک محض ثواب یا دنیوی اجرو شہرت ہوتے ہیں،لیکن جن شعرا کے یہاں حقیقی عقیدت موجود ہوتی ہیں،یعنی جنھوں نے اپنے دل کی گہرائیوں میں نبی پاک V کی حقیقت کو محسوس کیا ہوتا ہے ،اور غیر شعوری انداز میں احترام و سپاس کے جذبات محسوس کیے ہوتے ہیں،ان کی شاعری رسمی نہیں ہوتی۔ تاہم شرط یہ ہے کہ وہ شعر کہنے کی اعلیٰ درجے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ محض جذبہ ،شعر کے لیے کافی نہیں ہوتا؛وہ تو محرک ہوتا ہے ، اور محرک کیا کرسکتا ہے ،اگر معروض ِ تحریک کمزور یا سرے سے موجود ہی نہ ہو۔اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ عقیدت بہت سوں کے یہاں موجود ہوسکتی ہے ،مگر وہ خود اپنے آپ میں نعتیہ شاعری کا واحد محرک نہیں ہوسکتی۔یہ بھی درست ہے کہ عقیدت کا گہرا جذبہ ،کسی بھی دوسرے حقیقی،گہرے جذبے کی طرح اپنا اظہار چاہتا ہے ، مگر عقیدت ،نعت میں اسی وقت منقلب ہوتی ہے،جب شعر گوئی کی عمومی صلاحیت موجود ہو۔


عقیدت کے تحت لکھی گئی نعتوں میں نبی پاک V کی ذات وصفات کی سچائی کی تقدیس ،ان کی کہی گئی باتوں،اور کیے گئے اعمال کی تکریم ،مدحت ہوتی ہے ۔ عقیدت کے تحت لکھی نعتوں میں اورثواب ومغفرت کی آرزوسے عبارت نعتوں میں فرق کیا جانا چاہیے۔ عقیدت تو ایک طرح سے ،سچائی اور اس کی عظمت کو خراج تحسین ہے؛عقیدت،بے غرض ہوتی ہے،یعنی خراج ِ عقیدت خود اپنا آپ انعام ہے ۔جب کہ ثواب و مغفرت کی نیت سے لکھی گئی نعتیں ،بہ ہر حال غرض رکھتی ہیں۔اس میں شک نہیں کہ نبی صلعم کی ذاتِ گرامی مغفرت کا موجب ہے ،اور ان کی طرف رجوع بالکل جائز ہے ۔


مندرجہ بالا گزارشات سے واضح ہوگیا ہوگا کہ عقیدت کا موضوع بھی کئی پہلو رکھتا ہے؛ اس کی وحدت میں کثرت کا انداز ہوتا ہے۔سچائی ،اور اس کی عظمت کو پورے اخلاص کے ساتھ خراج پیش کرنے کا رویہ ابتدا تا آخر موجود رہتا ہے۔ مظفر وارثی کی معروف نعتیہ نظم،عقیدت کے بیشتر اجزا کی حامل ہے۔

مرا پیمبر عظیم تر ہے

کمال خلاق ذات اس کی

جمال ہستی حیات اس کی

بشر نہیں،عظمت بشر ہے

مرا پیمبر عظیم تر ہے

بس ایک مشکیزہ اک چٹائی

ذرا سے جَو ،ایک چارپائی

بد ن پہ کپڑے بھی واجبی سے

نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی

یہی ہے کل کائنات جس کی

گنی نہ جائیں صفات جس کی

وہی تو سلطانِ بحر وبر ہے

مرا پیمبر عظیم تر ہے


مظفر وارثی کی نعت میں،جو عمدہ شاعری کا نمونہ بھی ہے، عقیدت و عقیدے میں باہمی مکالمہ محسوس ہوتا ہے۔اب پنڈت دتاتریہ کیفی کی نعت کے چند اشعار دیکھیے ،جن میں عقیدت موجودہے۔

ہو شوق نہ کیوں نعت ِرسولِ دوسرا کا

مضموں ہوعیاں دل میں جو لولاک لما کا

پہنچائے ہیں کس اوجِ سعادت پہ جہاں کو

پھر رتبہ ہو کم عرش سے کیوں غار ِ حرا کا


میر تقی میراور کلاسیکی عہد کے دیگر شعرا کے یہاں ،نعت کا موضوع عقیدت کے ساتھ ساتھ ثواب و مغفرت کا بھی ہوتا تھا۔مثلاً یہ شعر دیکھیے:

جلوہ نہیں ہے نظم میں حسنِ قبول کا

دیواں میں شعر گر نہیں نعتِ رسول کا


واضح رہے کہ اس وضع کے نعتیہ اشعار محض نعت گو کے دلی اخلاص کو ظاہر نہیں کرتے ،بلکہ ثقافتی سطح پرایک نئی نشانیات کو ۔۔۔یعنی کچھ نئی ثقافتی علامتوں اور رسمیات کوجو مخصوص معانی کی حامل ہوتی ہیں۔۔۔۔ متعارف کرواتے ہیں۔اس نشانیات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس سے مختلف سماجی وذہنی سرگرمیوں کی دنیویت میں مذہبی والوہی تقدیس شامل ہوتی ہے۔اور اس کے طفیل اس فاصلے کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے جو دنیویت اور مذہبیت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے،اور جس کے بڑھنے سے نہ صرف سماجی گروہوں میں نظریاتی تفریق گہری ہوتی ہے ،بلکہ گروہوں میں انتہاپسندانہ میلانات بھی پید اہوتے ہیں ۔یہ کہنا کچھ غلط نہیں کہ عقیدت کے تحت لکھی گئی نعتیں سماجی ہم آہنگی اور ثقافتی رواداری میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔مثلاًخواجہ عزیر الحسن مجذوب کا ایک شعر ہے۔

اب بعد ِنعت ہرزہ سرائی کا منھ نہیں

مجذوب شعر کہنے سے معذور ہوگیا


ہرزہ سرائی سے مراد محض دیگر اصناف شعر نہیں، جن کی اہمیت شاعر کی نظر میں کم ہوجاتی ہے،بلکہ نعت کہنے والی زبان، مختلف نقطہ ء نظر ، مختلف مذہب ومسلک کے حامل لوگوں کے خلاف نازیبا الفاظ ادا کرنے سے ابا کرتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تمام طرح کے سماجی فساد ہرزہ سرائی سے شروع ہوتے ہیں۔اس بات پر بارِدگر زور دینے کی ضرورت ہے کہ عقیدت چوں کہ اس زبان کے ذریعے ثقافت کا حصہ بنتی ہے،جسے سب مذاہب کے لوگ ابلاغ کا ذریعہ بناتے ہیں، اس لیے عقیدت سے تشکیل پذیر ہونے والی نشانیات ہندئوں ، سکھوں اورد وسرے مذاہب کے شعرا کو بھی نعت لکھنے کی تحریک دیتی ہے۔ان کی نعتیں ،پیمبر اعظم V کی ذات کی بے غرضانہ مدحت کے ساتھ ساتھ ، یہ امر بھی باور کراتی ہیں کہ سچائی،اپنے لیے عقیدت مند خود پیدا کرلیتی ہیں،اور یہ عقیدت مند سماجی ہم آہنگی کی قابل قدر علامت ہوتے ہیں۔


عشق کا جذبہ ،عقیدت کا مقابل نہیں ،مگر عقیدت سے کہیں زیادہ گہرا ہے ۔عقیدت میں رسمیت ہوسکتی ہے ،مگر عشق میں نہیں؛عقیدت میں ایک طرح کی اجتماعیت ہے ،مگر عشق انفرادی ،داخلی ،موضوعی ہے۔اگر عقیدت کے تحت لکھی گئی نعت ایک ثقافتی کردار اداکرتی ہے ،تو عشق ِ نبی V میں لکھی گئی نعتیں، روحانی رفعت اور نفسیاتی قلبِ ماہیت ممکن بنانے کا غیر معمولی امکان رکھتی ہیں۔تاہم ایک فرد کی روحانی رفعت کبھی اس شخص کی ذات تک محدود نہیں رہتی؛چراغ کی مانند اس کی لو،ارد گرد کے افراد کی روحوں میں چھائی تاریکی کو مٹاتی ہے ،کبھی روحانی رفعت پانے والے کے عمل کے ذریعے، کبھی اس کے قول و گفتگو کے وسیلے سے ،اور کبھی سماج میں اس کی خاموش شرکت سے۔ واضح رہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جہاں عقیدت ہو،وہاں عشق بھی موجود ہو،مگر جہاں عشق ہوگا،وہاں عقیدت لازماً ہوگی۔دوسرے لفظوں میںکہا جاسکتا ہے کہ عشق،عقیدت کی انتہا بن سکتی ہے۔دوسرے لفظوں میں عشق بے بصر نہیں ہوتا؛ اس میں بھی سچائی پر یقین موجود ہوتا ہے۔عشق ِ نبی V ان عظیم صداقتوں پر اعتقاد کا حامل ہوتا ہے ،جن کا علم مستندمذہبی متون(تحریری وزبانی) کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔


عشق نبی V کئی ایسی خصوصیات رکھتا ہے ،جو محض اسی سے مخصوص ہیں۔چوں کہ اس کی بنیاد میں عقیدت شامل ہوتی ہے، یعنی ’باخدا دیوانہ باش و بامحمد V ہوشیار‘ کی کیفیت ہوتی ہے، اس لیے اس کی وارفتگی اس بے تکلفی ، غیر رسمیت سے پاک ہوتی ہے ،جسے عام بشری عشق میں اختیار کیا جاتاہے۔ دوسرے لفظوں میں عشق نبیV کی وارفتگی و دیوانگی در اصل ایک ایسی مقدس تجرید ،ایک مابعد الطبیعیاتی مگر عظیم الشان تصوریت کو مرکز بناتی ہے، جسے پورے طور پر انسانی ذہن گرفت میں لینے سے قاصر ہوتا ہے۔ یوں عاشق کے لیے ایک پیراڈاکسیائی صورتِ حال ہوتی ہے۔اس صورت ِ حال کا ایک رخ یہ ہے کہ اس تجرید کو اس الوہیت سے جدا رکھنا ہوتا ہے جو صرف خدا سے مخصوص ہے۔بہت سوں کے لیے یہ محال رہا ہے،اور اس کی وجہ لاعلمی کے ساتھ ساتھ ایک طرح کی بشری بے بضاعتی بھی ہے ،جو عشق کے وفور میں اس نازک ترین فرق کو بھول جاتی ہے جو الوہیت ورسالت میں ہے۔یوں بھی عشق میں خود کو ہوشیار رکھنا آسان نہیں،لیکن عشق نبیV میں ہوشیاری اور احتیاط لازمی شرائط ٹھہرتی ہیں،اور عشقِ نبی V کے سفر کو کڑا اور آزمائشوں بھرا بناتی ہیں۔اس کڑے سفر میں دعا سب سے اہم وسیلہ ہوتی ہے۔ احمد جاوید کا یہ شعر اسی طرف دھیان منتقل کراتاہے:

کا ش اس بات سے محفوظ رہیںیہ لب وگوش

جو مرے سید وسردار نے فرمائی نہیں


گویا بندے بشر کی استطاعت میں نہیں کہ وہ عشق میں ہوشیاری واحتیاط کا دامن تھامے رکھے، اس لیے وہ دعا کا سہارا لینے پر مجبور ہوتا ہے۔لیکن دعاایک بار پھر اسے اس مقدس تجرید کی طرف لے جاتی ہے۔ عشق نبی V کی پیراڈاکسیائی صورت حال کا ایک اور رخ یہ ہے کہ ایک طرف وہ عشق کا سچا، گہرا جذبہ محسوس کرتا ہے ،مگر اپنے محبوب کا تصور ایک مقدس تجرید کے طور پر کرتا ہے؛پیرا ڈاکس یہ ہے کہ جذبہ سامنے، حقیقی طور پر حسی وجود پر مرتکز ہونے کے بجائے ،تصوریت سے وابستہ ہوتا ہے۔اسی پیراڈاکس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ عاشقِ رسول Vکو ایک طرف اپنی خاکی نہاد کا منکسرانہ احساس ہوتا ہے، اور دوسری طرف وہ ایک عظیم الشان مابعد الطبیعی تصوریت پر اپنی تمام حسی وذہنی صلاحیتوں کو مرکوز کرتا ہے،مگر یہی پیراڈاکسیائی صورتِ حال اس کے عشق کو ایک عجب ذائقہ ،ایک انوکھی بلندی، اور اس کے دل میں نئی آرزوئیں پیدا کرتی ہے۔ عاشق اپنی خاکی نہادکا منکسرانہ احساس تو رکھتا ہے ،مگر اسے حقیر،بے معنی، بے مصرف و بے مقصد نہیں سمجھتا؛جو خاکی وجود ،ایک عظیم الشان تجرید کا تصور کرسکتا ہے ،وہ کیوں کر حقیر ہوسکتاہے؟یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں نعت سمیت دوسری مذہبی شاعری ،جدید شاعری سے ایک الگ راستہ اختیار کرتی ہے ۔جدید شاعری میں اپنے حقیر ہونے ، وجود کے لغو ہونے ،نفس میں موجو دتاریکیوں کو انسانی تقدیر سمجھ کر قبول کرنے کا رویہ موجود ہوتا ہے ۔(جدید شاعری ،اس حقیقت کو قبول کرکے در اصل اس کی ملکیت کا احساس پیدا کرتی ہے)۔ جدید شاعری میں منفی قلب ِ ماہیت (آدمی کا کیڑا ،مکھی ،بھیڑیابن جانا)کا موضوع بھی تقریباً اسی راہ سے آیا ہے ،مگر نعتیہ شاعری میں انکسار ہوسکتا ہے ، حقیر ہونے کا احسا س ہرگز نہیں ۔نعت میں نفس کی تاریکی کا ادراک ظاہر ہوسکتا ہے ،مگر اسے انسانی تقدیر نہیں تصور کیا جاتا،اسے ایک عارضی صورتِ حال تصور کرکے ،اس سے نکلنے کا راستہ دکھایا جاتاہے۔ اگر نفس کی تاریکی کوانسانی تقدیر تصور کیا جائے تو یہ سیدھا سادہ مذہبی اعتقاد پر سخت تشکیک کا اظہار ہے۔نعت ، مذہبی حسیت کی حامل صنف ہونے کے ناطے،انسانی وجود کی تاریکیوں کو دور کرنے کا لازمی امکان بنتی ہے۔ حقیقی مذہبی حسیت ،لازماً رجائیت پسند ہوتی ہے ؛ وہ انسان کی حتمی صورتِ حال کا پرشکوہ رجائی تصور رکھتی ہے۔ بہ ہر کیف، خالد احمد کی نعت کا یہ شعر دیکھیے جس میں انکسار تو موجود ہے ، حقیرہونے کا احساس نہیں۔

زرگل ہوئی مری گرد بھی کہ ریاض ِعشق رسول ہوں

بڑی پاک خاک ہے یہ گلی، میں اسی کی دھول کا پھول ہوں


یوں عاشق کی بشریت ،اپنے اندر ایک غیر معمولی پن کا حقیقی روحانی تجربہ کرتی ہے۔غیر معمولی پن کا احساس ،محض تصوری اور نظری طور پر بھی ممکن ہے،مگر جب یہ عشق کی صورت اختیار کرتا ہے تو یہ تجربہ بن جاتا ہے،یعنی احساس، جذبے ،فکر ، تخیل ،عمل یعنی انسانی وجود کے سب پہلوئوں اور سب سطحوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔اس سے ایک طرف عاشق کی قلب ِ ماہیت ہوتی ہے،اس کے وجود کی تاریکی دور ہوتی ہے ،یا دور ہونے کا گہرا یقین پید اہوتا ہے اور دوسری طرف اس کے دل میں نئی آرزوئیں جنم لیتی ہیں۔ نئی آرزوئیں بھی دراصل مذکورہ بالا پیراڈاکسیائی صورتِ حال سے پیدا ہوتی ہیں۔ عشق لازماً حسی ہدف چاہتاہے،لیکن یہاں ایک مقدس تجرید ہوتی ہے ، جسے تاریخ وسیرت ایک حسی سطح ضرور دیتے ہیں، مگر نبیV کی ذات اس درجہ وسیع اور تخیل کی حدوں سے ورا ہوتی ہے کہ اس کا قطعی متعین تصور ممکن نہیں ہوتا۔عشق ،حسی ہدف کی آرزو ترک نہیں کرسکتا، اور عشقِ نبی V میں یہ ممکن نہیں ہوتا تو اس کانتیجہ ان نئے ،عظیم الشان مقاصد کی آرزوئوں کی صورت میں نکلتاہے۔جو حقیقی، حسی ،مادی دنیا کو اپنا ہدف بناسکیں۔چوں کہ یہ عظیم آرزوئیں،عشق کا حاصل ہوتی ہیں،اس لیے وہ مادی دنیا کو جب ہدف بناتی ہیں تو اسے مسخ کرنے کے بجائے ، اس کی وسعتوں کو کھوجتی ہیں ،اوراس عمل کو خود اپنی ذات کی توسیع کی علامت تصور کرتی ہیں۔یوں ایک نئی ،بلند تر سطح کا رشتہ دنیا سے قائم ہوتا ہے۔علامہ اقبال کا یہ مشہور شعر اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے

کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں   


عالم بشریت کی زد میں آسمان ۔۔۔یعنی وہ بلند ترین مقام ،جسے انسانی آنکھ دیکھ سکتی ہے ،اور جس کے سبب،انسانی تخیل عظمت وبلندی کا تصور کرسکتا ہے۔۔۔کے ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ انسانی بساط کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ نبیVکی معراج ،بشری دنیا کو یہ تحریک دیتی ہے کہ وہ خاک سے افلاک تک پہنچے۔یہی کچھ مقدس تجرید کے عشق میں ہوتا ہے۔

عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول

کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسول (بیدم وارثی)

میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعت صحرا دے دے

کہ تیرے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا (پیر نصیر الدین پیر)


مقد س تجرید کے عشق کی کیا کیفیت ہوتی ہے ،اسے جس طرح اقبال نے پیش کیا ہے ، اس کی کوئی دوسری مثال اردو شاعری میں نہیں ملتی۔اقبال کے یہاں عشق اس علامت کی طرح ہے ،جس میں اپنے معنی متعین کرنے کے خلاف باقاعدہ مزاحمت ہوتی ہے۔ وہ علامت ہونے کی بنا پر کئی معانی کی حامل ہوتی ہے، مگر اس رمز کو بھی جانتی ہے کہ معنی کے تعین کی کوشش،در اصل اسے محدود کرنے کے عمل کاآغاز ثابت ہوتی ہے۔اقبال کے یہاں عشق کی علامت ، لامتناہی جستجو اوران تھک سفرکی محرک بنتی محسوس ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اقبال اس لامتناہی سفر کو ایک خیالی دنیا اور فنتاسی میں سفر میں نہیں بدلنے دینا چاہتے۔وہ عشق کی اس حسی، جذبی کیفیت کوقائم رکھنا چاہتے ہیں،جو انسانی دل میں حقیقی طور پر پیدا ہوتی ہے، اور جس کے ذریعے انسان خود اپنے بشری مرکز سے متصل رہتا ہے،اور اسی کو لامتناہی جستجو کا رخت سفر بنانا چاہتے ہیں،خود اپنی ذات میں ، تاریخ میں ، دنیا میں اور کائنات میں۔بہ قول اقبال :’عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک‘۔ اقبال نے عشق کا تصور واضح طور پر عشق رسول V سے لیا،اور اس پیراڈاکسیائی صورتِ حال کا حل بنا کر پیش کیا ،جس کا سامنا نبی V کی ذات کی مقدس تجرید کے عشق میں گرفتار ہونے سے ہوتا ہے۔یہ نظری حل نہیں۔ہوسکتا ہے نظری طور پر اسے واضح کرناہی محال ہو،لیکن اقبال بشری عالم کی اس انتہائی بنیادی خصوصیت سے واقف تھے کہ تمام عظیم کارنامے ، تمام بڑی تبدیلیاں ،تمام غیر معمولی فن پارے ان عظیم آرزوئوں سے جنم لیتے ہیں جو عشق کانتیجہ ہیں۔ عشق اور آرزو میںتعلق تو صدیوں سے معلوم بات ہے ،مگر اقبال نے دریافت کیا کہ عشق اور آزرو کی عظمت کا ایک ہی سرچشمہ ہے۔ اقبال کی شاہکار نظم’ مسجد ِقرطبہ ‘کے یہ اشعار ان معروضات کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے،جن میں عشق کی علامت ایک مخروطی صورت اختیار کرتی محسوس ہوتی، اور جو تکمیلِ فن کا مظہر ہوتی ہے۔

مرد ِخد اکا عمل عشق سے صاحب فروغ

عشق ہے اصلِ حیات موت ہے اس پر حرام

تند وسبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو

عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام

عشق کی تقویم میں عصرِرواں کے سوا

اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام

عشق دمِ جبرئیل ،عشق دلِ مصطفیٰ

عشق خدا کارسول ،عشق خدا کا کلام

عشق کے مضراب سے نغمہ ء تار حیات

عشق سے نورِحیات، عشق سے نارِحیات


آخر ی بات !اردو نعت کے موضوعات ،دیگر شعری اصناف کی طرح کبھی محدود نہیں رہے؛وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی آتی رہی ہے ۔نعت اسی طرح اپنے زمانے کی حسیت کو اپنی شعریات کا حصہ بناتی رہی ہے ،جس طرح دیگر شعری اصناف۔ کلاسیکی اردو شاعری کے عہد کی نعت کا اہم موضوع ،مدحت کے ساتھ ساتھ ،ثواب و مغفرت تھا، لیکن انیسویں صدی کے اواخرمیں نعت کے موضوعات میں تنوع پید اہونا شروع ہوا۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نو آبادیاتی عہد میں جب مسلم قوم پرستی کا آغاز ہوا،اور جداگانہ مذہبی شناختوں پر اصرار بڑھا تو نعتیہ شاعری کے موضوعات بھی تبدیل ہونا شروع ہوئے۔شناختوں کو مسخ کرنے کی نو آبادیاتی سیاست ،اور یورپ کے کبیری بیانیے کے ردّ عمل میں، برصغیرکے مسلمانوں کے یہاں اپنی مذہبی شناخت پر اصرار بڑھا،اور وہ تاریخِ اسلام اور سیرت رسول V کی طرف رجوع کرنے لگے۔پہلی مرتبہ اردو شاعری میں مذہبی ،قومی شناخت ایک اہم موضوع کے طور پر شامل ہوئی۔ نعتیہ شاعری مذہبی قومی شناخت کی تشکیل کا ذریعہ بنی،لیکن اس موضوع پر گفتگو کسی اور موقع پر! ٭٭٭


ڈاکٹر عزیز احسن: نقدِ نعت اور تنقیدی دبستانوں کی بو قَلَمُونی!

ABSTRACT: Comparative study of different school of thoughts of criticism was carried out and results reflected in this article. Efforts of different critics to understand poetic as well as bare reality to grasp the ideas enveloped in couplets of different poets are highlighted herein. Critical views of scholars expressed to evaluate text are also cited in the article. Standards of expression suitable for devotional poetry to pay tribute to the Holy Prophet Muhammad (S.A.W) have also been set in the light of religious norms.


آج ہم ، نعتیہ ادب کے کچھ ناقدین کی آراء پیش کررہے ہیں تاکہ اختلافِ فکر ونظر کی مثالوں کے ساتھ ساتھ ناقدین کے مزاجوں کی گرمی اور نرمی بھی منعکس ہوجائے۔ یہاں پیش کردہ نکات ،بلا شبہ نعت گو شعراء کے لیے رہنما اصولوں کے طور پر روشن رہیں گے اور اگر نعت خواں حضرات بھی محافل میں نعتیں پیش کرتے ہوئے ان نکات کو سامنے رکھیںتو وہ بھی نعتیہ ادب کے معیارات کے فروغ میں حصہ لے سکتے ہیں۔ناقدین کی ان آراء میں طبائع کا فرق اور نظریات کی بو قلمونی بھی نظرآئے گی اور کہیں کہیں تندی اور تیزی بھی۔ مسلکی اختلافات کی جھلک بھی دیکھنے میں آئے گی اور اعتدال کی نظیریں بھی ملیںگی۔ لیکن خیال رہے کہ علمی اختلاف کبھی عداوت میں تبدیل نہیں ہوتا یا نہیں ہونا چاہیے۔ہر فکری زاویہ اس توجہ کا متقاضی ہے کہ اسے قبول یا رد کرنے کے لیے آپ کے پاس بھی کوئی نہ کوئی نظریہ ہو جسے آپ دلائل کی روشنی میں پیش کرسکیں۔علمی معاملات میںجذباتیت ،ہمیشہ گمراہ کن ہوتی ہے۔اب ملاحظہ ہوں وہ فکری و تنقیدی نکات جو مختلف کتب سے اخذ کیے گئے ہیں:


(۱) جمیل نظر کی ایک کتاب ہے ’’مقدمہء سحر وساحری‘‘ ۔اس کتاب میں مصنف نے عملی تنقید کا مظاہرہ کیا ہے۔عملی تنقید میں شاعری یا فن پاروں کے حسن و قبح پر دلائل کے ساتھ رائے دی جاتی ہے۔ جمیل نظر کی یہ کتاب ایک جارحانہ تنقیدی کاوش ہے جس میں بیشتر اشعار کی لفظی،معنوی اور شعری بنت کی خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔اس کتاب میں عام شاعری کے تجزیئے کے ساتھ ساتھ حنیف اسعدی کے مجموعہء نعت ’’خیرالانام‘‘، اور تابش دہلوی کی نعتیہ تصنیف ’’تقدیس‘‘ کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔


حنیف اسعدی کے مجموعہء کلام ’’خیرالانام ‘‘ پر شبنم رومانی، سلیم احمد اور ڈاکٹر فرمان فتحپوری کی آراء بڑی حوصلہ افزا اور تحسین آمیز تھیں۔لیکن جمیل نظر کو اس مجموعے کی شاعری میں اظہار و بیان کی کچھ بے احتیاطیاں بھی نظر آئیں چناں چہ انہوں نے کھل کر لکھا۔وہ لکھتے ہیں:


’’شبنم رومانی،سلیم احمد اور ڈاکٹر فرمان فتحپوری صاحبان نے اپنے اپنے تبصرہ میں حنیف اسعدی صاحب کو جس قدر معتبر نعت گو ظاہر کیا ہے حنیف اسعدی کاکلام اس معیار پر کہاں تک پورا اترتا ہے اس کے ثبوت کے لیے مولانا کا کلام آپ کے سامنے ہے کہ زبان و بیان کی خامیوں کے علاوہ مولانا کے کلام میں ایسے ایسے شرعی نقائص ہیں کہ جس کی توقع ایک مبتدی شاعر سے بھی نہیں کی جاسکتی……اس سے ناقدین کے موجودہ تنقیدی رویوں کے بارے میں صحیح اندازہ ہوجاتا ہے کہ فی زمانہ تنقیدکے نام پر کس طرح مدح سرائی کی جارہی ہے‘‘۔(۱)


اس کے بعد مصنف نے مذکورہ کتاب سے کچھ اشعار نقل کرکے انہیں تنقیدی کسوٹی پر پرکھا بھی ہے اور اپنی جانب سے اصلاحیں بھی تجویز کی ہیں۔نعتیہ شاعری کے ضمن میں یہ تنقیدی رویہ جارحانہ ہونے کے باوجود لائق اعتنا ہے۔اس تنقیدی عمل میں لہجے کی سختی تو بہر حال غیر مناسب ہے لیکن اصلاحی تجویزوں میں سے بعض بڑی مناسب لگتی ہیں۔چند اشعار پر جمیل نظر کی تنقید ملاحظہ ہو…حنیف اسعدی کا شعر تھا:

سب کو بقدرِ ظرف ملا ہے شعورِ ذات

امی لقب پہ ختم ہوئی آگہی تمام


جمیل نظر نے اس کا پہلا مصرعہ اس طرح بدلنے کا مشورہ دیا: ’’سب کو انھیں کے در سے ملا ہے شعورِ ذات‘‘ اور پھر درجِ ذیل الفاظ میں اپنی اصلاح کا جواز پیش کیا:


’’جب سب کو بقدرِ ظرف شعورِ ذات ملا ہے تو حضورؐ کی ذاتِ اقدس بھی اس میں شامل ہے کیوںکہ حضورؐ کی ذات خدا کے بعد سہی لیکن آپ کے آگے بھی ایک خط کھنچا ہوا ہے کہ آپ خدا نہیں اور نہ ہی ہوسکتے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں تقسیم کیے جانے والا شعورِ ذات ،خدا نے اپنے محبوب کے حوالے کردیا اور اب ہر ایک کو بقدرِ ظرف وہیں سے شعورِ ذات مل رہا ہے‘‘۔(۲)

حنیف اسعدی نے کہا تھا:

بے قیدِ وقت بھیجے گا اُن پر خدا درود

یہ سلسلہ ہو ا ہے نہ ہوگا کبھی تمام


اس شعر کی اصلاح کرکے پہلا مصرعہ یوں کیا  :

ع ’’جاری ازل سے اُن پہ خدا کا درود ہے‘‘ …اور پھر لکھا:


’’مستقبل کے صیغہ ’بھیجے گا‘ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حضور ؐ پر درود بھیجنے کا سلسہ شعر کی شان نزول کے ساتھ ہی شروع ہوا ہے ۔ممکن ہے (نعوذ باللہ) یہ سلسلہ مولانا کی سفارش پر خدا نے شروع کیا ہو۔بہر حال شعر کے مطابق اس سے پہلے خدا کی جانب سے درود بھیجنے کا سلسلہ نہیں تھا‘‘۔(۳)


حنیف اسعدی کا شعر تھا:

اپنی غفلت کا یہ عالم اور یہ شفقت آپ کی

جرم ہم سے ہورہے ہیں اور شرمندہ ہیں آپ ؐ


جمیل نظر نے اس شعر کے مصرعہء ثانی میں صرف ایک لفظ ’’شرمندہ ‘‘کو ’’رنجیدہ‘‘ سے بدل دیا اور لکھا:


’’جہاں تک اس ناچیز کے مطالعہ کا تعلق ہے کتاب و سنت سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نعوذ باللہ کسی بھی مرحلے پر حضورؐکو امت کی وجہ سے شرمندگی ہوئی ہو البتہ آپؐ امت کے غم میں رنجیدہ ضرور رہا کرتے تھے ۔اگر ایسا کوئی ثبوت ہے تو سامنے لایا جائے ورنہ یہ حضورؐ کی ذاتِ اقدس پر صریح بہتا ن ہے‘‘۔(۴) حنیف اسعدی کا شعر تھا :

مدحت تو اد ا ہوئی ہے کس سے

بس یہ کہ زباں کہے محمدؐ


اس شعر کا مصرعہء اولیٰ اس طرح تبدیل کیا ع ’’مدحت تو ہوئی ہے کس سے ان کی‘‘ اور یوں تبصرہ کیا:


’’مدحت کرنا یا مدحت کا حق ادا کرنا ہی لغوی و اصطلاحی معنی میں ہے۔مدحت ادا کرنا کہیں ثابت نہیں ہے۔اس لیے بالکل غلط ہے۔یا یوں کہیے کہ مدحت تو کرے گا کون ان کی‘‘ ۔ (۵)

حنیف اسعدی کہتے ہیں:

حنیف خاک مدینہ ملی جو چہرے پر

تو اپنے جسم سے اس پیرہن کی بو آئی


اس شعر کے مصرعہء ثانی کو جمیل نظر نے یوں بدلا :

ع ’’تو اپنی ذات کو پہچاننے کی خو آئی‘‘…اور لکھا:


’’نعت گوئی میں ایسے الفاظ سے ہمیشہ احتراز کرنا چاہیے جن کی حیثیت ذو معنوی ہو۔خاص طور پر وہ الفاظ جن میں منفی و مثبت دونوں پہلو نکلتے ہیں۔ پھول کی خوشبو کو بھی بوئے گل کہا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی بو کو بدبو کے معنی میں بھی لیا جاتا ہے چوںکہ بو خوشبو اور بدبو کی درمیانی کیفیت شامہ کا نام ہے جیسے کھانا اگر خراب ہوجاتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس میں بو آگئی ہے۔اس لیے نبی کریم ؐ کے پیرہنِ مبارک سے بو ثابت کرنا سوئے ادب ہے۔اب یہ کہ مولانا کے جسم سے اس پیرہن کی بو آئی یا نہیں آئی اس سلسلے میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ مولانا کے جسم سے بو ضرورآتی ہے لیکن اس پیرہن کی نہیں ہوسکتی‘‘۔(۶)


راقم الحروف کے خیال میں درجِ بالا شعر کی تنقید اور دوسرے مصرعے کی تبدیلی اپنی جگہ ، لیکن شاعر(حنیف اسعدی) اور نقاد(جمیل نظر)، دونوں اس مرحلے پر یہ کیسے بھول گئے کہ چہرہ جسم کا ایک حصہ ہونے کے باوجود پورا جسم نہیں ہوتا ،اور چہرے پر پیرہن پہنا نہیں جاتا اس لیے منطقی طور پر یہ بات غلط ہے کہ خاکِ مدینہ کو چہرے پر ملنے سے پورے جسم سے حضور ِ اکرم V کے پیرہن ِ پاک کی خوشبو آنے لگے۔ہاں اگر پورے جسم پر خاک مدینہ کا ذکر ہوتا تو یہ باور کیا جاسکتا تھا کہ حضورِ اکرم V کے پیرہن ِ پاک کی خوشبو پورے جسم میں رچ بس گئی۔


مزید برآں یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ مدینے کی مٹی چاہے کتنی ہی مقدس کیوں نہ ہو حضورِ اکرم کا پیرہن ’’وہ مٹی ‘‘ نہیں ہوسکتی۔حضور V کے پیرہن کو مدینے کی مٹی سے تعبیر کرنا تو انتہائی بے ادبی ہے۔رہا سوال نعت کے شعر میں واقعاتی صداقت کا تو اس باب میں بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ شعر سراسر مبالغہ آمیز ہے۔لہٰذا شعراء کو ایسے واقعاتی بیانات کی شعری بنت سے احتراز کرنا چاہیے جو صرف تخیل کی تخلیق ہوں۔ حنیف اسعدی کا شعر تھا:

غلام آنے کو کہتا ہے جا کہو کوئی

حضورِ شاہ ؐ مری بیکلی کا ذکر کرو

اس شعر کے پہلے مصرع کو جمیل نظر نے اس طرح بدلا

ع غلام آنے کو بے تا ب و مضطرب ہے بہت

اور پھر لکھا:


’’اکثر روسا ء اور جاگیرداروں کے یہاں بعض ملازمین خاندانی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اور ان کو خاندان ہی کا فرد شمار کیا جاتا ہے۔اسی لیے منہ پھٹ ہوتے ہیں کچھ اسی قسم کا لہجہ اس شعر میں حنیف اسعدی صاحب کا ہے کہ یہیں سے حضورؐ کے لیے حکم بھیج دیا کہ ’جا کہو کوئی‘ یہ مقام مولانا ہی کو حاصل ہے ورنہ ہم جیسے گنہگار تو اس انداز پر سوچ بھی نہیں سکتے‘‘۔(۷) حنیف اسعدی کہتے ہیں :

اذنِ طواف لے کے شہ دیں ؐ پناہ سے

کعبہ کو جارہاہوں مدینے کی راہ سے

اس شعر کا پہلا مصرع جمیل نظر نے اس طرح کردیا

ع مانگیں نہ کیوں نصیب شہِ دیںؐ پنا ہ سے

اور اس طرح تبصرہ کیا:


’’آپ کعبہ کو براہِ راست جائیں یا مدینہ شریف ہو کر ،لیکن فرائض و واجبات کی ادئیگی کے سلسلے میں مزید کسی اجازت کی ضرورت نہیں کیوںکہ وہ تو پہلے ہی فرض ہیں اور ان کی ادئیگی ہم پر قرض ہے‘‘۔(۸)


اس اصلاح اور تبصرے میں جمیل نظر نے خود اپنے اوپر ظلم کیا۔’’نصیب‘‘ بنانے والی ذات اللہ رب العزت کی ہے اس لیے تقدیر بنانے کے لیے حضور V سے دعا کی درخواست تو کی جاسکتی ہے آپV سے تقدیر مانگی نہیںجاسکتی …دوسرا پہلو جسے جمیل نظر نے نظر انداز کردیا وہ یہ کہ حنیف اسعدی نے ’’طواف ِکعبہ‘‘ کی غرض سے جانے کی اجازت مانگی ہے ’’حج‘‘ کی اجازت نہیں مانگی۔طواف کعبہ، حج کا ایک رکن تو ہے حج نہیں ہے۔طواف نفلی بھی ہوتا ہے اور اگر کوئی مدینہ منورہ سے احرام باندھ کر جاتا ہے تو عمرہ کرتا ہے جس میں طواف بھی کیا جاتا ہے۔یاد رہے کہ ’’عمرہ‘‘ بھی نفلی عبادت ہے، فرض نہیں ہے۔تصوف کے سلاسل میں یہ بات مشہور ہے کہ ’’پیر‘‘ کی اجازت کے بغیر نفلی عبادت بھی نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ بقول مولانا روم ؎

یک زمانے صحبتِ با اولیاء

بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا


اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اولیا ء کو یہ مقام حضورV کے صدقے میں اور ان کے در سے وابستگی کی وجہ سے ہی ملتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر شاعر نفلی عبادت (طوافِ کعبہ)کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اجازت طلب کررہا ہے تو یہ اس کے ادب کا تقاضا ہے۔ حنیف اسعدی نے کہا:

انسان کی عظمت کا سفر ہے شبِ اسریٰ

معراج اضافہ ہے مہماتِ بشر میں

اس شعر کا دوسرا مصرع جمیل نظر نے اس طرح تبدیل کردیا

ع اب کوئی اضافہ نہیں ادراکِ بشر میں…


پھر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:


’’واقعہء معراج شریف کو مہم جوئی سے تعبیر کرنا مولانا ہی کاحصہ ہے ہمارے نزدیک تو ایسا تصور بھی بارگاہِ ایزدی میں گستاخی کے مترادف ہے ورنہ مہمات کی جگہ کمالات بھی کہہ سکتے تھے‘‘۔(۹) حنیف اسعدی کا شعر تھا:

بس یہی دو ہیں میرے سخن کے اصول

حمد ذکر خدا نعت ذکر رسولؐ


یہاں بھی جمیل نظر نے دوسرے مصرع کی اصلاح تجویز کی اور مصرع یوں کردیا :

ع حمد رب العلا نعت پاک ِ رسول

……پھر لکھا:


’’حمد کے معنی خدا کی تعریف بیان کرنا اور نعت کے معنی حضورؐ کے فضائل بیان کرنا ہیں اس لیے حمدذکر خدا اور نعت ذکر رسولؐ کہنا بالکل غلط ہے‘‘۔(۱۰) حنیف اسعدی کا شعر تھا:

کس قدر عام ہوئی وسعت دامانِ کرم

کتنی صدیوں کے اندھیروں نے اجالا پایا


جمیل نظر نے اس شعر میں استعمال ہونے والے دو الفاظ ’’کس‘‘ اور ’’کتنی‘‘ کو بالترتیب ’’اس‘‘ اور ’’ساری‘‘ سے بدل کر دونوں مصرعوں کی اصلاح کر دی:

اِس قدر عام ہوئی وسعت دامانِ کرم

ساری صدیوں کے اندھیروں نے اجالا پایا

اور لکھا:


’’کتنی صدیاں کہنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید کچھ صدیاں چھوٹ گئی ہیں ساتھ ہی مصرعہ اولیٰ میں کس قدر کے بجائے اِس قدر کہنا چاہیے‘‘۔(۱۰) حنیف اسعدی نے کہا:

رُواں رُواں عرقِ انفعال میں تر ہے

یہ جسم لے کے کہاں آگئے مدینے میں


جمیل نظر نے مصرعۂ اولیٰ یوں کردیا  :

ع بغیر نفس کی پاکیزگی کے عجلت میں…… اور لکھا:


’’مدینہ شریف پہنچ کر اگر رواں رواں عرق انفعال میں تر ہے تو یہ گناہوں کی تلافی کے لیے فال نیک ہے کہ انسان اپنے گناہوں اور اپنی خامیوں ،کوتاہیوں پر شرمندہ ہے اور یہی ادا خدا کو بھی پسند ہے اور اس کے محبوبؐ کو بھی ، لیکن وائے نادانی کہ مولانا اس نیک کام کو بھی الٹا سمجھ رہے ہیں‘‘۔(۱۱)


حنیف اسعدی کے کلام کو تنقیدی اصلاحات سے نوازنے کے بعد جمیل نظرنے تابش دہلوی کے نعتیہ مجموعہء کلام’’تقدیس‘‘ کی طرف توجہ کی اس مرحلے پر انھیں ڈاکٹر سید محمد ابولخیر کشفی کی رائے سے اختلاف کرنا پڑا۔ڈاکٹر صاحب نے لکھا تھا:


’’تابش دہلوی صاحب کی نعتوں کے مطالعے نے مجھے یہی احساس دیا ہے اور میں سوچتا رہا کہ تابش صاحب کے کلام میں ان کی جو رمز شناسی ہے، الفاظ کے بطون میں پہنچ کر معانی کے گہر تلاش کرنے کا جو رجحان ہے، برہنہ گفتاری کی جگہ رمز و ایما سے ان کی جو وابستگی ہے، الفاظ اور مفاہیم و جذبات کے درمیان وحدت پیدا کرنے کی جو اہلیت ہے، لفظوں کو ہشت پہلو نگینوں کی صورت جڑ نے اور انھیں شمع کی طرح روشن کرنے کی جو قدرت ہے ان سب کا مقسوم و مقدر یہی تھا کہ یہ سب خوبیاں اور قدرتیں نعتِ سرورِ کونینؐ کے سلسلے میں ان کے کام آئیں۔تابش صاحب زبان کی صحت کے بارے میں نہایت سخت گیر اور روایت پرست ہیں۔وہ ان دو تین آدمیوں میں سے ہیں جنھیں میں دلی کا لہجہ قرار دیتا ہوں‘‘۔(۱۲)


ڈاکٹر سید محمد ابولخیر کشفی کی رائے نقل کرنے کے بعد، جمیل نظر نے، تابش دہلوی کے چند اشعار تنقید کے لیے منتخب کیے ۔کچھ اشعار اور ان پر کی جانے والی تنقید کے چند نکات ملاحظہ ہوں۔تابش دہلوی کا شعر تھا:

میری خاکستر کو یارب کنجِ طیبہ چاہیے

اس تمنا کو اک آغوش ِ تمنا چاہیے


جمیل نظر نے مصرعہء ثانی علیٰ حالہٖ برقرار رکھا لیکن پہلا مصرع یوں بدل دیا

ع جسم خاکی کو خدایا ارضِ طیبہ ہو نصیب…


اصلاحِ شعر سے فارغ ہوکر لکھا:


’’خاکستر کے معنی ، کسی چیز کی جلی ہوئی راکھ کے ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ خاکستر کو غزل میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہاں نعت کے شعر میں اور وہ بھی کنج کے ساتھ کسی طرح جائز نہیں کیوںکہ خاکستر کو کنج میں رکھنے سے سمادھی کا مفہوم پیدا ہوتا ہے جو کہ ایک مشرکانہ رسم ہے جس سے مسلمانوں کے عقیدۂ تدفین کی نفی ہوتی ہے۔اگر یہ تابش صاحب کا ذاتی عقیدہ ہے تو اور بات ہے ورنہ ہر مسلمان کی یہی آرزو ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد اس کی میت کو مدینہ منورہ میں دفن کیا جائے‘‘۔(۱۳)

تابش دہلوی کا ایک شعر تھا :

دیدار کی دل کو آرزو ہے

دل کو بھی ذرا نگاہ کیجے


اس شعر کو جمیل نظر نے بدل کر اس طرح کردیا :

دیدار کی کب سے آرزو ہے

دل پر بھی ذرا نگاہ کیجے

اس کے بعد لکھا:


’’یہاں ’دل‘ کی تکرار بے محل ہے اور صوتی اعتبار سے نامانوس بھی ہے۔ساتھ ہی یہ کہنا کہ ’دل کو بھی ذرا نگاہ کیجے‘ خلافِ فصاحت اور زبان سے عدم واقفیت کی دلیل ہے‘‘۔(۱۴)


تابش دہلوی نے کہا تھا:

یہ شہر مدینۃ النبی ہے

ہر ذرے کو سجدہ گاہ کیجے


جمیل نظر کی اصلاح کے بعد اس شعر کی یہ صورت ہوگئی:

دنیائے مدینۃ النبی میں

ہر ذرے سے کھل کے چاہ کیجے


اصلاح دینے کے بعد جمیل نظر نے اپنے دلائل اس طرح رقم کیے:


’’عربی میں مدینہ کے معنی ہی شہر کے ہیں۔اسی لیے ہر شہر کے ساتھ مدینہ لگایا اور لکھا جاتا ہے جیسے مدینۃ المکۃ المکرمہ ،مدینۃ الریاض اور مدینۃ الدہران وغیروغیرہ اس لیے یہ کہنا کہ یہ شہر مدینۃ النبی ہے ، عربی زبان سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔البتہ اگر اردو ہی میں ’ یہ شہر شہر نبی ہے‘ کہا جائے تو جائز ہی نہیں بلکہ نفس مفہوم پر زور پڑتا ہے نیز یہ کہ سجدہ گاہ بناتے ہیں کرتے نہیں‘‘۔(۱۵)

تابش دہلوی کے ایک شعر کی بنت یوں تھی:

ان کا نیاز مند ہوں یہ ناز کم نہیں

پایا ہے میرے عجز نے رتبہ غرور کا


جمیل نظر کی اصلاح کے بعد شعر کی بنت یہ ہوگئی:

ان کا نیاز مند رہوں یونہی تا حیات

آئے نہ میرے ذہن میں سودا غرور کا


اصلاح ِ شعر سے فارغ ہوکروہ لکھتے ہیں:


’’ابلیس نے بھی غرور ، عجزو عبادات کے زعم میں یہی دعویٰ کیا تھا کہ میں معلم الملکوت ہوکر آدمِ خاکی کو سجدۂ تعظیمی نہیں کروں گا…رجزِ شرعی کے علاوہ جو کہ صرف دین کی برتری اور احیائے دین کے لیے ہوتا ہے غرور یا اس کی کوئی صفت خدا کے سوا ہر مسلمان پر حرام ہے‘‘۔(۱۶)


جمیل نظر نے جن اشعار پر اصلاح دی اور اشعار میں تبدیلی کے لیے جو دلائل دیئے ان کا اجمالی ذکر درجِ بالا سطور میں آگیا ہے۔ راقم الحروف نے جہاں ضروری خیال کیا ، اپنی رائے بھی دیدی ہے۔


جمیل نظر کے لہجے میں تنقیدی حلم کے بجائے غیر منطقی سوچ سے پیدا ہونے والی تلخی ہے۔کہیں کہیں انہوں نے پتے کی بات ضرور کی ہے لیکن ان کے لہجے نے ان کی تنقیدی رائے کا وزن کم کردیا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں شعرا ء سے کوئی پر خاش ہے اور وہ صرف انتقام لینے کے لیے خامہ فرسائی میں مصروف ہیں۔بہر حال ان کے تنقیدی عمل میں عملی تنقید Practical Criticism کے عناصر پائے جاتے ہیں اور ان کی تنقیدی کاوش کو تشریعی تنقید (Judicial Criticism) کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔البتہ ان کی دی ہوئی اصلاحات کی بندش بیشتر حسن سے عاری اور شعریت سے دور ہے۔


(۲) بت خانہ شکستم من(تنقیدی مضامین کا مجموعہ) امیر حسنین جلیسی کی کتاب ہے۔ اس کتاب میں دو مضامین نعتیہ شاعری کے حوالے سے عملی تنقید کے حامل ہیں۔’’پروفیسر اقبال عظیم اور راغب مرادآبادی‘‘ اور ’’راغب مرادآبادی اپنے معیارِ نقد کے آئینہ میں‘‘۔در اصل یہ دونوں مضامین ’’در جوابِ آں غزل‘‘ کے نمائندہ مضامین ہیں۔مصنف ِ کتاب کے بقول راغب مرادآباد ی نے۱۸؍اکتوبر ۱۹۸۱ء؁ کو روزنامہ نوائے وقت، کراچی کی اشاعت میں، اقبال عظیم کی نعتیہ کتاب ’’قاب قوسین‘‘ پر معاندانہ تنقیصی مضمون لکھا تھا ۔یہ مضمون ہفتہ وار، چھ اقساط میں راز مرادآبادی کے تعاون سے شائع کیا گیا تھا۔پروفیسر اقبال عظیم نے بردباری کا ثبوت دیا اور خاموشی اختیار کرلی لیکن امیر حسنین جلیسی نے ترکی بہ ترکی جواب دیئے جوبعد میں اس کتاب کی زینت بنے(۱۷)۔


اس قلمی جنگ میں تنقید سے زیادہ تنقیص کا عمل کارفرما نظر آتا ہے ۔لیکن نعتیہ شاعری کے ضمن میں یہ تنقید کچھ ایسی تھی جس سے شعرفہمی کے دریچے ضرور کھلے اور نعتیہ شاعری کو تقدس آمیز شاعری سمجھ کر تنقید سے بالا سمجھنے کے رویئے کو جھٹکا لگا۔اس لیے میرے خیال میں یہ مضامین تنقیصی ہونے کے باوجود تنقیدی شعور کا عکس لیے ہوئے ہیں۔


اس تفصیل کے بعد، مذکورہ کتاب سے کچھ اشعار پر تنقید اور جوابی تنقید کے کچھ نمونے پیش کیے جاتے ہیں:


’’مختصراً راغب مراد آبادی کے اعتراضات اور ان کے جوابات ملاحظہ ہوں:

اقبال عظیم کا شعر ہے:

بر بنائے مصلحت اُمّی لقب

لیکن آگاہِ رموز کیف و کم


(اعتراض) شاعر کے قول کے مطابق اگر رسول اللہ ؐ نے خود کو کسی مصلحت کی بنا پر امی لقب کہلوایا تو نعوذ باللہ آپ بندۂ مصلحت تھے اور یہ حضورؐ کی شان میں سوئے ادب اور صریح گستاخی ہے۔


(جواب)…خداوند قدوس نے دنیا والوں کے سامنے حضور کو امی رکھ کر خود علم لدنی سے سرفراز فرمایا اور آگاہِ رموزِ کیف و کم کیا۔یہ مصلحت ِ خداوندی تھی۔مصلحتِ رسولؐ نہیں۔یہاں حضور ؐ کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔نعوذ باللہ آپؐ کو بندۂ مصلحت نہیں کہا گیا۔(۱۸)

ایک اور نعت کے اشعارجس کی ردیف ’’ہٹادو‘‘ ہے :

میرے آقا اندھیرا بہت ہے

اب نقاب اپنے رخ سے ہٹادو

تم تو نورٌ علیٰ نور ٹھہرے

میری آنکھوں سے پردے ہٹادو

میرے تلوئوں میں چھالے بہت ہیں

مرے رستے سے کانٹے ہٹادو

(اعتراض)نورٌ علیٰ نور ٹھہرے، غلط ہے،نورٌ علیٰ نور ہو ، کہنا چاہیے تھا۔اقبال عظیم پیغمبرِ اسلام کو حکم دیتے ہیں کہ میرے رستے سے کانٹے ہٹادو، جو صریح گستاخی ہے اور اقبال عظیم کو توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ہٹا دو کی جگہ آپ ہٹا دیجیے کہنا چاہیے تھا۔یہ اندازِ تخاطب سوئے ادب اور شانِ رسالت میں گستاخی ہے۔


(جواب)نورٌ علیٰ نور ہونا ایک حقیقت کا اعتراف ضرور ہے جو میں اور آپ انفرادی طور پر بھی کر سکتے ہیں اور اس قول سے بعض کو انکار کی جرا ٔت بھی ہو سکتی ہے۔مگر جب نورٌ علیٰ نور ہونا تمام عالم نے تسلیم کرلیا تو نورٌ علیٰ نور ٹھہرے اور آپ کے نورٌ علیٰ نور ہونے میں شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ٹھہرے میں جو زور ہے اور اجتماعی تیقن کی جو کیفیت پائی جاتی ہے اسے اہل نظر ہی محسوس کرسکتے ہیں …شاعر نے ابتدا ہی یوں کی ہے کہ ’’میرے آقاؐ اندھیرا بہت ہے‘‘ آقا کو نہ حکم دیا جاتا ہے نہ دیا جارہا ہے۔درخواست کی جارہی ہے اور یہ مسلسل درخواست ہے۔ہر شعر میں میرے آقاؐ کہنے کی ضرورت نہیں تھی جو محذوف ہے۔چوںکہ خود میں راستے کے کانٹے ہٹانے کی قدرت نہیں پاتا لہٰذا عرض کرتا ہے کہ ’’میرے تلؤوں…‘‘ نہ یہ چھالے حقیقتاً چھالے ہیں اور نہ یہ کانٹے جسدی طور پر کانٹے ہیں…آقا سے عرض کی جارہی ہے کہ میری مشکلات آسان کردیں۔پھر ہٹادو ردیف ہے۔اس میں ہٹا دیجیے کیسے کہا جائے۔قافیہ اور ردیف کی مجبوریاں ہر شاعر کے پیش نظر ہونی چاہئیں۔(۱۹)


اس جگہ امیر حسنین جلیسی نے بات بنانے کی کوشش تو کی لیکن اقبال عظیم کا لہجہ بہر حال حضورV کے مقام کے لحاظ سے بہت نا مناسب ہے۔ردیف کی مجبوریاں اپنی جگہ ،شاعر کی قادرالکلامی کا امتحان تو ایسی ہی ردیفوں میں ہوتا ہے۔رستے سے کانٹے ہٹانے کی درخواست بہر حال درخواست کے قرینے سے نہیں ہوسکی…

اقبال عظیم نے کہا:

عمر اقبال یوں ہی بسر ہو ہر نفس یادِ خیرالبشرؐ ہو

صبح تا شام ذکرِ مسلسل اور راتوں کو پیہم شبینے


(اعتراض)…راتوں کو پیہم شبینے پڑھ کر حیرت اورافسوس ہے۔کیا شبینے ہنگامِ سحر ،دوپہر اور سہ پہر میں بھی ہوتے ہیں۔شبینہ میں تو خود رات کا مفہوم پایا جاتا ہے۔


(جواب)…شبینہ ایک اصطلاح ہے۔محفلِ شبینہ دو گھنٹے کی بھی ہوسکتی ہے تمام رات کی بھی۔سرِ شام بھی ہوسکتی ہے۔درمیانِ شب بھی۔چوں کہ تمام راتیں پیہم شبینوں میں گزرتی ہیں۔صرف شبینے کہنے سے مفہوم ادا نہیں ہو سکتا…شعر میں راتوں کا ذکر حشو و زوائد میں نہیں آتا۔ضروری بھی ہے فصیح بھی۔

اقبال عظیم کا شعر ہے:

کیا خبر کیا سزا مجھ کو ملتی میرے آقاؐ نے عزت بچالی

فردِ عصیاں مری مجھ سے لے کر کالی کملی میں اپنی چھپالی


(اعتراض)…غور فرمائیے جو فعل حضورؐ سے منسوب کیا جارہا ہے کیا وہ مستحسن ہے۔کیا حضورؐ نعوذُ باللہ سرِ حشر اللہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کسی عاصی و خاطی کی عزت بچالیں گے؟


(جواب)…اقبال عظیم کہتے ہیں کہ میں عاصی و خاطی ہزار ہا گناہوں کا مرتکب جس کی فردِ عصیاں بہت طویل تھی اور اللہ اعلم بالصواب اس کی کیا سزا ملتی کہ میرے آقاؐ و مولا نے اسلام اور ایمان کی تعلیم دے کر اور راہِ شکر پر چلنے کی ہدایت فرما کر میری عزت بچالی اور توبہ کے دروازے کھلواکر اپنی کملی کے سایہ میں لے کر یعنی اپنی امت میں قبول کرکے میرے گناہوں کو معاف کرادیا۔یہ حضورؐ کی خطا پوشی اور عفو کے جذبہ کا اظہار ہے۔’مجھ‘ سے مراد اپنی ذات نہیں۔ مرکزِ خیال ایک مسلم ایک مومن ہے۔اب شعر کی آفاقیت کو پیشِ نظر رکھیے‘‘۔(۲۰)


راقم الحروف [عزیزاحسن]کو راغب مرادآبادی کا ’’اللہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنا‘‘ تو قطعی پسند نہیں آیا۔اس جملے سے انہوں نے نادانستہ طور پر اللہ کی شان میں گستاخی کردی…لیکن شعر پر ان کا اعتراض بہرحال بڑا وزنی ہے۔فردِ عصیاں کا ہاتھ میں آجانا صرف روزِ محشر ہی ممکن ہے۔اقبال عظیم نے صاف کہا ہے کہ ’’فردِ عصیاں مری مجھ سے لے کر‘‘ حضورِ اکرم V نے اپنی کالی کملی میں چھپالی۔فردِ عصیاں دنیا میں کسی کے ہاتھ نہیں لگتی۔اس لیے امیر حسنین جلیسی نے جو صفائی پیش کی ہے اور شعر کے معانی کی جو تاویل کی ہے وہ اپنی جگہ بہت خوبصورت ہونے کے باوجود شعر کے الفاظ سے ظاہر ہونے والے مفہوم کی عکاسی نہیں کرتی۔آیئے اس سلسلے میں قرآنِ کریم سے رجوع کرتے ہیں۔


اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہ طٰٓئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ ط وَ نُخْرِجُ لَہٗ یَوْ مَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا O اِقْرَا کِتٰبَکََ ط کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا O ’’اور ہر انسان کا معاملہ یہ ہے کہ لٹکادی ہے ہم نے اس کی تقدیر اس کی گردن میں۔اور نکالیں گے ہم اس کو دکھانے کے لیے روزِ قیامت ایک نوشتہ ، پائے گا وہ جسے کھلی کتاب کی مانند۔پڑھ اپنا اعمالنامہ ۔کافی ہے تو خود ہی آج اپنا حساب لگانے کے لیے ‘‘(آیات ۱۳۔۱۴، سورۃ بنی اسرآئیل۱۷،پ۱۵)


ان آیاتِ قرآنی کی موجودگی میں کوئی بھی ایسا بیان جو قیاس پر مبنی ہو اور ڈرامائی انداز سے ایک واقعے کی صورت میں پیش کیا جائے ، کسی بھی صورت مستحسن نہیں ہوسکتا۔شاعر کا خیال، الفاظ کی بندش اور شعر کی مجموعی فضا کے حوالے سے منصہء شہود پر آتا ہے۔اقبال عظیم کی پاکیزہ خیالی اپنی جگہ لیکن الفاظ نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ یہاں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ ایک واقعے کی صورت میں مرئی(Visual) بنایا گیا ہے۔عوامی سطح پر تو اقبال عظیم کا یہ شعر بہت مقبولیت پاچکا ہے لیکن اہلِ علم کے نزدیک اس میں جو سقم پایا جاتا ہے وہ امیر حسنین جلیسی کی تشریح و تصریح سے دور نہیں ہوسکتا۔میرے خیال میں نعت کے اشعار میں اسقام کی نشاندہی پر تاویلات پیش کرنے سے بہتر ہے کہ شعر میں پایا جانے والا ابہام دور کردیا جائے۔ایسے معاملات میں ’’انا ‘‘ کو قربان کردینا ہی بہتر ہے۔بہر حال چوں کہ شاعر نے خود جواب نہیں دیا اس لیے تاویل کا عذرِ لنگ شاعر کے سر نہیں جاتا۔تاہم اس کی خاموشی اس عذرِ لنگ میں شرکت کی غمازی کرتی ہے۔


ایک اور پہلو ،جس کی طرف نہ تو راغب مرادآبادی کی نظر جاسکی اور نہ ہی امیر حسنین جلیسی اس کو سمجھ سکے …وہ یہ کہ قیامت میں سزا سے بچنے میں گناہ گاروں کی عزت بچنے کا نہیں ، ان کی چمڑی (کھال) بچنے کا سوال ہوگا۔ سزا سے جان بچتی ہے عزت بچے یا نہ بچے۔ بھلا گناہ گار کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے؟…گناہگار کی رسوائی کا ذکر تو سزاکے مقابلے میں بہت ہلکا ہے۔بلکہ اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ گناہ گار اپنے آپ کو بڑا عزت دار سمجھ رہا ہے…یہ احساس ،تکبر کے ذیل میں آسکتا ہے۔اللہ مرحوم کی بیانی لغزش معاف فرمائے (آمین)!…ایک اور زاویے سے دیکھیں تو عزت بچالی کہنے سے کسی کی اپنی عزت بچتی ہے اور عزت بچادی کہنے سے کسی اور کی عزت بچانے کا تاثر قائم ہوتا ہے۔یہاں غیر ارادی طور پر شاعر نے کہہ دیا ہے کہ ’’میرے آقاؐ نے عزت بچالی‘‘ یعنی [نعوذُ باللہ] آقاV نے اپنی عزت بچالی۔حال آں کہ شاعر کہنا یہ چاہتا ہے کہ آقاV نے میری عزت بچادی۔


یہاں تک درج ہونے والے ، تنقیدی نکات ، امیر حسنین جلیسی اور راغب مراد آبادی کے نتیجہء فکر کے عکاس تھے۔ ان تمام نکات کا تعلق اقبال عظیم کے شعری عمل سے تھا ۔


امیر حسنین جلیسی کو راغب مرادآبادی کی نعتیہ شاعری میں بھی زبان و بیان کی کچھ بے احتیاطیاں نظر آئیںانہوں نے ان کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ تبصرہ بھی کیا۔مثلاً

’’رخِ مصطفیٰ ؐ کے صدقے یونہی باربار ہوتا

مجھے اپنے ہر عمل پر اگر اختیار ہوتا


پہلے مصرعہ میں ’یونہی‘ بمعنی کسی جواز کے بغیر بے معنی ہے اور صدقہ ہونے کے ایک عمل کا ذکر گیا ہے لہٰذا دوسرے مصرعہ میں ہر عمل غلط اور مہمل ہے۔اگر شعر یوں کہا جاتا تو بات بنتی:

رخِ مصطفیٰؐ کے صدقے میں ہزار بار ہوتا

مجھے اپنے اس عمل پر اگر اختیار ہوتا ……………………

آپؐ کی شان جمالی کو وہ سمجھا ہی نہیں

آپؐ کو جس نے بھی رشکِ مہِ کامل باندھا


امیر حسنین جلیسی:شانِ جمالی کو سمجھنے والے رشکِ مہِ کامل ہی باندھیں گے۔آپؐ کو مہِ کامل نہیں کہہ سکتے۔مہِ کامل کہنے والا شانِ جمالی کو نہیں سمجھ سکتا۔یہ زود گوئی کا نتیجہ ہے‘‘۔(۲۱)


اس شعر کی معنوی جہتوں کو امیر حسنین جلیسی نے بھی پوری طرح نہیں سمجھا۔’’آپ کو‘‘کے ساتھ ’’باندھا‘‘ میں جو معنوی سقم اور ذم پیدا ہورہا ہے وہ دیکھنا چاہیے تھا۔آپؐ کے روئے انور کو تو رشکِ مہِ کامل کہا جاسکتا ہے لیکن ردیف ’’باندھا‘‘ کے ساتھ ،ضمیر ’’آپ ‘‘ کا استعمال بالکل غلط ہے۔


راقم الحروف شاعر کے کسی شعر پر اصلاح دینے کا قائل نہیں ،صرف اسقام کی طرف اشارہ کردینا کافی سمجھتا ہے۔ تاہم یہاں چوں کہ خیال کی درست بنت کو ظاہر کرنا ہے اس لیے عرض ہے کہ یہ شعر اس طرح ہونا چاہیے تھا ؎

حسنِ سرکارِ دو عالمؐ کو وہ سمجھا ہی نہیں

جس نے اس حسن کو رشکِ مہ ِ کامل باندھا


راغب مرادآبادی نے کہا تھا ؎

بدل دیں رحمت للعالمیں نے سیرتیں جن کی

وہ دشمن سے بھی اپنے بات کرتے ہیں ٹھکانے کی


اس شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے امیر حسنین جلیسی نے لکھا:


’’ٹھکانے کی بات کرنا یعنی ہوش کی بات کرنا۔دشمن سے تو کوئی بھی بے ہوشی کی یا احمقانہ بات نہیں کرتا،خواہ اس کی سیرت کیسی ہی ہو۔تبدیلیء سیرت سے صرف ٹھکانے کی بات کرنے کا سلیقہ آنا، معلول کاغیر اہم ہونا علت کی اہمیت کی توجیہ کرنے سے قاصرہے،پھر ٹھکانے کی بات، نہایت غیر فصیح ترکیب ہے۔عامیانہ رنگ جھلکتا ہے۔

بدی کو بھی جو دشمن کی نظر انداز کرتے ہیں

خدا شاہد نہیں جاتی ہے ان کی رائگاں نیکی


امیر حسنین جلیسی: آنے کی۔لانے کی ، کے ساتھ گاں نے کی، قافیہ کی بد ترین غلطی ہے جس کا ارتکاب اصولِ قافیہ سے تھوڑی سی واقفیت رکھنے والا مبتدی بھی نہیں کرتا۔اسے سہو نہیں کم نظری کہنا پڑے گا‘‘۔(۲۲)

اسی طرح راغب کا ایک شعر تھا:

جسمِ رسولِ پاک تھا اپنی مثال آپ

اک شمع تھی کہ جس کا نہ سایا نہ دود تھا


اس شعر پر امیر حسنین جلیسی نے یوں تبصرہ کیا:


’’اپنی مثال آپ کہنے کے باوجود شمع سے تشبیہ دیدی جو شانِ رسولؐ میں سوئے ادب ہے۔جو چیز اپنی مثال آپ ہو اسے کسی چیز سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔اگر سورج اپنی مثال آپ ہے تو آپ اسے کسی کم تر شے مثلاً چراغ سے کیسے تشبیہ دیں گے۔سایہ کی حد تک تو سوچا جاسکتا ہے کہ جسم اطہر کا سایہ نہ تھا مگر یہاں دود کا جسم پاک سے کیا تعلق ہے‘‘۔(۲۳)

راغب کہتے ہیں:

ابھی تک دور ہوں بابِ حرم سے

ابھی مشکوک ہے میری وفا کیا؟


امیر حسنین جلیسی کی تنقیدی رائے ملاحظہ ہو:


’’باب حرم سے مراد ارض مقدس یا حرمین شریفین کا کوئی دروازہ ہے تو دوسری بات ہے ورنہ بابِ حرم ایک مخصوص دروازہ کا نام ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے مدینہ شریف میں نہیں۔وفا کے مشکوک ہونے کا خیال حضورِ اکرم پر الزام ہے ۔اپنی وفا کے معتبر ہونے کا دعویٰ اور حضورؐ ختمی مرتبت میں۔یہ غرہ گستاخی ہے‘‘۔(۲۴)


ناقد(جلیسی) نے دھیان نہیں دیا کہ جہاں صرف حرم یا بابِ حرم کہا جاتا ہے تو ’’حرمِ کعبہ‘‘ کی طرف ہی اشارہ ہوتا ہے۔مسجدِ نبوی کو بھی حرم کہا جاتا ہے لیکن وضاحت کے لیے ’’حرمِ نبوی‘‘ کہنا پڑتاہے۔چناںچہ راغب  مراد آبادی کے شعر میں اللہ تعالیٰ سے خطاب کی صورت بنتی ہے  اور  اس طرح یہ شعر نعتیہ نہیں بلکہ حمدیہ شعر ہوجاتا ہے۔’’علیمٌ بذاتِ الصدور‘‘ کی بارگاہ میں اپنی وفا کا دعویٰ کتنا قبیح اور لائق گرفت ہے اس کا اظہار ضروری نہیں۔


بہر حال راغب مرادآبادی کے اشعار پر اور اقبال عظیم پر کی جانے والی نکتہ چینی کے دفاع میں،امیر حسنین جلیسی نے جو کچھ رقم کیا ، وہ ایک تنقیدی جہت ہے اور اسے ہم مقنن تنقید ہی کا نام دے سکتے ہیں۔یہ الگ بات کہ شاعر کی طرف داری میں ناقد نے کہیں کہیں بے جا تاویل پیش کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ تاہم اس تنقید کے ذریعے زبان و بیان کے اسرار بھی کھلتے ہیں اور شعر فہمی کے دریچے بھی وا ہوتے ہیں۔نعتیہ شاعری کو ایسی تنقید ی کاوشوں سے بھی سنوارا جاسکتا ہے۔


(۳) امین راحت چغتائی کے تنقیدی و تحقیقی مضامین کے مجموعے ’’ردِّ عمل‘‘ میں’’مشکلاتِ تنقید‘‘ کے عنوان سے لکھا ہوا مضمون نعت کے آداب سے متعلق ہے۔


’’مشکلاتِ تنقید‘‘ میں امین راحت چغتائی نے قرآن و حدیث کی روشنی میں نعتیہ شاعری کے اصول مرتب کرنے کی سعی کی ہے۔نعت گو شعراء کی رہنمائی کے لیے انہوں نے چند ایسی آیاتِ قرآنی کا حوالہ دیا ہے جن کی روشنی میں نعت رسول V کے خدو خال کو دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ آیات ہیں: آلِ عمران:آیات ۳۱،۳۲،۱۶۴،النساء:۶۵،۱۱۵، مائدہ:۳، بنی اسرائیل:۷۹، ا…امیں راحت چغتائی نے لکھا:


’’ان آیات کے مفہوم کا مجموعی خلاصہ یہ ہے کہ رب العزت نے حضور ختمی مرتبت ؐ کو اس قدر بلندی عطا فرمائی کہ لوگوں کو حکم دیا کہ اگر تم میری محبت کے خواہاں ہو تو رسولؐ کی اطاعت کرو اس کے عوض اللہ تمہیں اپنی محبت سے سرفراز فرمائے گا بلکہ تمہارے گناہ بھی بخش دے گا۔مزید ارشاد ہوا کہ بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مومنوں پر کہ اس نے ان ہی میں سے ایک رسولؐ بھیجا جو ان پر اس کی آیات تلاوت کرتا ہے۔ان کے نفس کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔پھر فرمایا کہ اہلِ ایمان وہ ہیں جو رسولؐ اکرم کے فیصلے سے سرتابی نہ کریں اور جو رسولؐ سے اختلاف کرے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا انہی آیات میں بشارت دی گئی کہ آج تمہارا دین ، تمہارے لیے مکمل کردیا گیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کردیں اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا گیا۔یہی نہیں ، خالق کائنات نے سرور کائنات کو مقام ِمحمود عطا کرنے کا وعدہ فرمایا۔آنحضور کو بشیر و نذیر اور سراج منیر کہہ کر خطاب فرمایا۔پھر رب العزت نے لوگوں پر یہ بھی واضح کردیا کہ یہ وہ پیغمبر ہے جو اپنی خواہش نفس سے کچھ نہیں کہتا۔مزید فرمایا کہ آپؐ اخلاق کے بلند درجے پر فائز ہیں ہم نے آپ کا ذکر بلند کیا اور آپ کو کوثر عطا کیا۔بنظر غائر دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے ارشادات کے ذریعے نعت رسولؐ کے قرآنی خطوط متعین فرمادیئے ۔ان کے بحر معانی کی غواصی نعت گو کا کام ہے۔اسے ہر بار نئے گوہر دستیاب ہوں گے مگر شرط وہی ہے کہ قرآن حکیم کا مطالعہ نعت کے خدو خال جاننے کے لیے بھی کیا جائے‘‘۔(۲۵)


اس کے بعد امین راحت چغتائی نے احادیث کے مطالعے پر زور دیا ہے اور کچھ واقعات حضور V کے حسن ِ اخلاق کے حوالے سے رقم کیے ہیں مثلاً غزوۂ خندق میں دشمن کا ایک آدمی خندق پار کرنے کی کوشش میں خندق میں گرا اور مسلمانوں نے اسے مارڈالا۔دشمن نے اس کی لاش حاصل کرنے کے لیے سو اونٹ معاوضہ دینے کی پیش کش کی لیکن حضور V نے انہیں اس کی لاش مفت عطا کردی۔غزوۂ حنین کے موقعے پر شیما بنتِ حارث ، حلیمہ سعدیہ کی صاحبزادی اور حضورِ اکرمV کی رضائی بہن نے اپنا تعارف کروایا تو آپV نے ان کے پورے قبیلے کے تقریباً چھ ہزار اسیروں کو آزاد فرمادیا اور ان کا سامان بھی لوٹا دیا تو وہ مسلمان ہوگئے۔ یہ واقعات بیان کرکے امین راحت چغتائی نے لکھا:


’’ہماری نعت کے مضامین قرآن حکیم کی مذکورہ بالا آیات اور سیرت کے بیان کردہ مستند واقعات کی روح سے اخذ ہونے چاہئیں۔شعر بلاشبہ جذبات سے تشکیل پاتا ہے لیکن نعت واحد صنف سخن ہے جو جوش کے باوصف ہوش سے کہنے کا فن ہے‘‘۔(۲۶)


عملی تنقید کا مظاہرہ کرتے ہوئے امین راحت چغتائی نے شعراء کے کچھ تسامحات کا ذکر بھی کیا ہے، مثلاً انہو ں نے ایک شعرنقل کیا ہے :

صحرا نشیں نبیؐ سے یہ کیا معجزہ ہوا

ذروں کو آفتاب کا ہمسر بنادیا


اس شعر پر امین راحت چغتائی نے اس طرح روشنی ڈالی ہے:


’’پہلے مصرع سے کچھ یوں تاثر ابھرتا ہے کہ صحرا نشینی ، نعوذ باللہ ، کوئی بہت پست سی چیز ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ ایسی معمولی جگہ سے پیدا ہونے والے پیغمبر ؐ سے اتنا بڑا معجزہ سرزد ہوگیا۔نعت گو کا اپنا جذبہ کتنا ہی پاکیزہ و محترم کیوں نہ ہو، شعر بہر حال الفاظ سے ہی تشکیل پاتا ہے اور الفاظ ہی اظہار کا ذریعہ ہیں۔ایسے یا اس سے مماثلت رکھنے والے مفاہیم کے حامل متعدد اشعار قارئین کی نظر سے گزرے ہوں گے۔اگر یہ احساس کرلیا جائے کہ نعت بھی نازک آبگینے سے کم نہیں تو ٹھیس لگنے کے امکانات کم ہوسکتے ہیں‘‘۔(۲۷)


نعت گو شعراء کے ایک مرغوب موضوع کا ذکر کرکے چغتائی صاحب لکھتے ہیں:


’’نعت میں ایک اور میلان بھی بڑے تواتر سے نظر آتا ہے۔وہ یہ کہ مجھے قبر میں نکیرین کیا کہیں گے۔نعت سنا کر اپنا معاملہ طے کرلوں گا۔یا میں حشر میں نعت رسولؐ پڑھتا جاؤں گا اور یوں میری بخشش کا سامان ہوجائے گا۔یا پھر حشر میں میرے اعمال پیش ہوںگے تو ’’یا محمد مصطفیٰ صلِ علیٰ کہہ دوںگا میں‘‘ ۔یہی نہیں مجھے ایسے اشعار بھی پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے ؎

درِ نبیؐ پہ غریب و غنی ہیں سر بسجود

اس آس پر کہ ہو بس اک نگاہ رحمت عام

نبیؐ کے روضے پہ نعت گر تم سناسکو تو

اسے ہی سجدہ اسے ہی اپنا قیام کہنا


یہ سجود و قیام کے تقاضوں سے نا آشنا ئی کے مترادف ہے۔بلکہ قدرے کھل کر بات کروں تو عرض ہے کہ اس میں توحید و رسالت کے مقامات خلط ملط ہوگئے ہیں۔ایسے ہی میلان کا ایک اور شعر دیکھیے ؎

کر چکا جب خدا کے گھر کا طواف

پھر تھا میں اور نبیؐ کے در کا طواف


اب نعت گو سے یہ بات پوشید ہ نہیں کہ طواف کہاں کیا جاتا ہے اور کیوں کیا جاتا ہے۔علاوہ ازیں آج کی نعت میں ایسے کوتاہ فکر اشعار بھی پڑھنے کو ملتے ہیں کہ ؎

میرے آقاؐ سے برائے زندگی

بے تکلف کی ضروری جستجو

دولتِ خیر سے فتراک عمل خالی ہے

میرے آقاؐ اسے ہوجائے یہ نخچیر عطا


اسی سلسلے کے دو اور اشعار ملاحظہ فرمائیے:

کہتا ہے نبیؐ جی بھیجو نا

ہے مٹھو کی میٹھی بولی

روزِ محشر دامن احمد سے پونچھا جائے گا

اس سے بڑھ کر اور کیا ہو کامرانی اشک کی


یہ اشعار کوئی مقام آشنا شاعر نہیں کہہ سکتا۔(۲۸)


امین راحت چغتائی نے غیر معمولی شہرت حاصل کرنے والے الفاظ ’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ کو حدیثِ قدسی کے طور پر قبول کرنے سے انکار کردیا ہے اور ملا علی قاری کی ’’الموضوعات الکبیر ‘‘ کے صفحہ ۵۹ کا حوالہ دے کر یہ بتایا ہے کہ یہ جعلی احادیث میں شامل ہے۔بعد ازاں انہوں نے لکھا ہے:


’’خود عربی علوم کے بعض ماہرین بھی اس جملے کو غیر فصیح قرار دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ’’لولاک‘‘ کا لفظ اور کہیں استعمال نہیں ہوا۔ اور یہ بات تو ہم سب کے علم میں ہے کہ رسول اکرمؐ کے الفاظ میں تحریف یا ان سے کسی غلط بات کو منسوب کرنے کی سخت وعید ہے۔لہٰذا نعت گو شعراء کو غیر معمولی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔مختصر یہ کہ ایسے تمام میلانات قرآنی مزاج کے خلاف ہیں اور محض یہ کہہ دینے سے سرخروئی ممکن نہیں کہ:

گناہ گار سہی، اس کے نام لیوا ہیں

خدا نے آپ بخشا ان کو اورنگِ خطا پوشی

خدا نے بخش دیا ہم کو بھی برائے رسولؐ

ڈروں میں کیوں قیامت سے ، شفاعت ہے اگر ان ؐکی

بخشش کا مرحلہ اعمالِ صالح کا محتا ج ہے۔قرآن کا دوٹوک فیصلہ ہے کہ ہر فرد کا مواخذہ اس کے اعمال [سعی]کے مطابق ہوگا اور یہ بات ذہن میں ہمہ وقت رہنی چاہیے کہ قبر و حشر کے معاملات اتنے آسان نہیں۔یہ اتباع سنت سے مشروط ہیں۔اور قیامت کے معاملات و مراحل سے تو خود رسول اکرم ؐ خوف کھاتے تھے اور ہر روز ستر مرتبہ استغفار پڑھتے تھے‘‘۔(۲۹)


امین راحت چغتائی کہتے ہیں کہ غزل کے انداز میں لکھی ہوئی نعت میں غزل کا تاثر زیادہ ملے تو اس کا لہجہ نعت کے لیے مناسب نہیں ہوتا ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے نمونے کے طور پر دو اشعار بھی نقل کیے ہیں اور ان پر تبصرہ بھی کیا ہے:

’’حصارِ عشق سے باہر کبھی میں جا نہ سکا

ترے سوا کوئی دل میں مرے سما نہ سکا

مجھ سے خرابِ عشق پہ چشمِ کرم کا شکریہ

آتی نہیں کبھی کمی، آپ کے التفات میں


یہ اشعار ، ظاہر ہے ، بطور نعت کہے گئے ہیں لیکن نعت جن جذبات عالیہ اور رفعت ِ فکر و بیان کی متقاضی ہے وہ یہاں مفقود ہے‘‘۔(۳۰)


اپنے مذکورہ مضمون کو امین راحت چغتائی نے تخلیقِ نعت کے ضمن میں ایک صائب مشورہ دیتے ہوئے مکمل کیا ہے، وہ کہتے ہیں:


’’نعت کے جدید شعرا اگر غزلیہ نعت یا نعتیہ غزل سے دامن کش ہو کر نظم کی ہیئت میں نعت کہیں تو ممکن ہے ہم غزل کی روایت، فکر، زبان، تراکیب، تشبیہات و استعارات سے دامن بچاکر نئی نعت کہہ سکیں۔نظم کا دامن بہت وسیع ہے۔ ا س کاا سلوب بیان مختلف ہے۔ علامتیں الگ ہیں اور خیالات کے بھر پور اظہار کی گنجائش موجود ہے۔ہمارے بعض شعراء نظمِ آزاد کے پیرائے میں اچھی نعت کہہ بھی رہے ہیں۔اس میں سیرت کے اہم واقعات اور متعلقہ آیاتِ قرآنی کی روح کو بڑے دلآویز انداز میں سمیٹا جاسکتا ہے اور نعت کو خانقاہی مزاج سے باہر نکالا جاسکتا ہے‘‘۔(۳۱)


(۴) تحسین فراقی کی کتاب ’’ جستجو(تنقیدی مضامین کا مجموعہ)‘‘میں ’’علامہ اقبالؒ اور ثنائے خواجہV‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شامل ہے۔اس میں نعت کے نفسِ مضمون اور اس کی شعر ی جمالیات کے حوالے سے عمومی رائے بھی ملتی ہے۔ہم یہاں تحسین فراقی کے تنقیدی رجحانات کے مظہر کے طور پر ان کی تحریر سے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں:


’’میرا ایمان ہے کہ جب تک حضور اکرم ؐکی ذاتِ بابرکات سے والہانہ شیفتگی اور شدید جذباتی وابستگی نہ پائی جاتی ہو،کامیاب نعت کہنا ناممکن ہے اور ظاہر ہے کہ کامیاب نعت وہی ہے جس سے حضور ؐ کی متحرک حیاتِ طیبہ اپنی تمام آب و تاب اور اپنے تمام محاسن ِ جمیلہ کے ساتھ جلوہ گر ہوکر دامنِ دل کھینچنے لگے۔اب اگر پوچھا جائے کہ حضور اکرم ؐ کی سیرت ِ صادقہ کا منبع و ماخذ کیا ہے تو بلا تامل قرآنِ حکیم کا نام لیا جاسکتا ہے۔جو ان کے اسوہؐ حسنہ پر دلیل ِ ثابتہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ان کی چال ڈھال ، ان کا سفرو حضر، ان کا خوردو نوش،ان کی استراحت و بیداری، ان کی قیل و قال اور اان کی گفتار و کردار سبھی قرآنِ حکیم کے مبینہ اسلوبِ حیات کے عین مطابق تھے‘‘۔(۳۲)


تحسین فراقی نعت میں صرف ادبی و لسانی خوبیاں دیکھنے کے بجائے زندگی آمیز عشق کی تپش و تاثیر دیکھنا چاہتے ہیں۔صرف لسانی خوبیوں سے مملو شاعری کے نمونوں میں انہوں نے عربی زبان کے جدید شاعر احمد شوقی کے قصیدۂ میمیہ اور اردو میں مومن کے قصیدے کا حوالہ دے کر کہا ہے:


’’ادبی اور لسانی عظمت ہی اگر نعت کے طرۂ امتیاز ہیں تو پھر عربی زبان کے جدید شاعر احمد شوقی کا نام لیا جاسکتا ہے جس کا میمیہ اس پہلو کا کامیاب عکاس ہے۔مگر یہ نعتیہ قصیدہ سوزِ محبت اور سپردگی سے یکسر خالی ہے اور اس میں آورد ہی آورد ہے۔اردو میں مومن کے نعتیہ قصیدے ’’چمن میں نغمہء بلبل ہے یوں طرب مانوس‘‘ میں بھی مقصد، تاثیر نہیں ،نمائش ہے‘‘۔ (۳۳)


نعت گو شعراء نے حضور اکرمV کی ذات والا صفات کو معشوق فرض کرکے ، عاشقانہ نعتیں لکھی ہیں۔ ایسی نعتوں میں خارجی متعلقاتِ حسن کا بیان تحسین فراقی کے نزدیک لائق گرفت ہے۔وہ لکھتے ہیں:


’’نعتوں میں خارجی متعلقاتِ حسن مثلاً روئے و موئے، طرہ، چشم نرگس، زلف عنبریں ،ابرو،گیسو،زلف معقد،سرورواں[قدِ محبوب]کا ذکر تواتر سے آتا ہے۔ان کے اشعار میں شاعرانہ صنعت گری تو ہے لیکن دل باختگی اور ربودگی معدوم۔اس قسم کے التزامات میں اگر اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے تو یہ لطف دے جاتے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ فارسی (اور اردو)نعت کا اکثر حصہ اسی سراپا نگاری کی نذر ہوگیا‘‘۔(۳۴)


تحسین فراقی کا منہاجِ تنقید مقنن اور اصلاحی یعنی Judicial and Reformatory ہے۔


(۵) ’’ولائے رسولV‘‘ ایک کہنہ مشق شاعر، قمر رعینی کا مجموعہء نعت ہے۔ انہوں نے نعت گوئی کے ضمن میں اپنے اوپر کچھ پابندیاں عائد کی ہیں۔ کسی شاعر کی طرف سے اس طرح کی احتیاط پسندی اس بات کی غماز ہے کہ وہ حرفِ نعت رقم کرنے سے قبل ’با محمدV ہوشیار‘ کے اصول کو پیش نظر رکھتا ہے۔ایسی صورت میں کم از کم نعت کے متن (Text) میں تو ایک استنادی شان پیدا ہوہی جاتی ہے۔


قمر رعینی نے شعرِ عقیدت کے ضمن میں درجِ ذیل نکات پیش کیے ہیں :


٭… آپV کے لیے میں نے کبھی لفظ ’’تو‘‘ کا استعمال نہیں کیا بلکہ حضور کے لیے اس لفظ کے تصور سے ہی لرز جاتا ہوں۔اردو زبان میں جمع تعظیمی کا استعمال حفظِ مراتب کے پیش ِ نظر فردِ واحد کے لیے بھی کیا جاتا ہے اور میں نے یہی کیا ہے۔


٭… لفظ اللہ کو فعلن کے وزن پر الاّ نہیں لکھا بلکہ اس میں اللہ کی ہائے ہوز کو واضح طور پر مفعول کے وزن پرباندھا ہے یعنی اللہ۔ ع اللہ کو الاّ نہیں اللہ کہا۔اللہ تعالیٰ کو مخفف نہیں کیا حال آں کہ اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔


٭… یزداں یا اہرمن کے الفاظ کبھی استعمال نہیں کیے کیوںکہ فارسی میں لفظ یزداں نیکی کے خدا یا خیر کی قوت کے لیے اور اہرمن بدی کے مالک کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔میرے نزدیک یزدان و اہرمن کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک خدا (الٰہِ واحد) کے نہیں بلکہ دو خداکے قائل ہیں۔جبکہ میرے نزدیک ایمان کی تکمیل ہی اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک اللہ کو وحدہٗ لا شریک تسلیم نہ کرلیا جائے۔


٭… میرے نزدیک حضورِ اکرم ؐ مردانہ حسن و جمال کا مکمل نمونہ اور خُلق و مروت اور عفو و کرم کے ساتھ ساتھ شجاعت و بہادری کا کوہِ استقامت تھے…اس لیے میں نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ آپ کے حسن و جمال کی تعریف کرتے ہوئے ایسے الفاظ یا تشبیہات سے گریز کیا جائے جو آپؐ کی شان اقدس کے منافی اور نسوانی حسن کے ترجمان ہوں۔


٭… حتی المقدور انہی روایات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو مستند کہلاتی ہیں ۔


٭… پوری شاعری میں مدینہ منورہ کے لیے لفظ یثرب استعمال نہیں کیا کیوں کہ یہ علاقہ حضور ؐ کی تشریف آوری سے قبل یثرب کہلاتا تھا …اس لیے مدینے کے بجائے دورِ جہالت کا نام استعمال کرنا نبی کریم سے عقیدت کے خلاف ہے۔یوں بھی اس کے استعمال کرنے کی واضح ممانعت کی گئی ہے‘‘۔(۳۵)


قمر رعینی کی تنقیدی بصیرت کا مظاہر ہ اس طرح بھی ہوا ہے کہ انہوں نے ’’کبریا‘‘ کے لفظ کو اللہ رب العزت کے اسماء الحسنیٰ میں شمار کرکے نبی V کے لیے ’’حبیبِ کبریا‘‘ استعمال نہیں کیا۔


حکیم سید محمود احمد سروؔ سہارنپوری نے لکھا:


’’کبریا جو اللہ کی صفت ہے ، جیسا کہ قرآن میں کہا ’’ولہٗ الکبریا‘‘ اور بڑائی اللہ کے لیے ہے۔یہ لفظ اللہ کا اسمِ صفت نہیں ہے بلکہ صرف صفت ہے……… حبیبِ کبریا کا صفاتی اظہار معنوی اعتبار سے درست نہیں۔لیکن عربی سے ناواقفیت کی بنا پر یہ جملہ اتنا رواج پاگیا ہے کہ بعض صاحبانِ علم بھی بے دھیانی میں اسے نعت میں استعمال کرتے ہیں۔قمر رعینی نے اپنے اس مجموعے میں اسے کہیں استعمال نہیں کیا‘‘۔(۳۶)


……قمر رعینی کے تنقیدی منہاج کو بھی ہم مقنن یا Judicial Criticism کے نام سے موسوم بھی کرسکتے ہیں۔


(۶) زبورِ حرم میں اقبا ل عظیم نے ’’سخنِ گسترانہ‘‘ کے زیر عنوان نعت کے تقدس اوراس کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس میں در آنے والی عام بے احتیاطیوں کا تذکرہ کرکے ، شعراء کو ان بے اعتدالیوں سے باز رہنے کی تلقین کی ہے۔نعتیہ شاعری کے مافیہ (Content) کے معاملے میں اقبال عظیم کی حساسیت ان کے اس تنقیدی رجحان کی غماز ہے جسے مقنن تنقید کا نام دیا گیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:


’’ایک نعت قریب قریب روزانہ کسی نہ کسی ریڈیو اسٹیشن سے نشر کی جاتی ہے جس کا ایک شعر ہے:

انہیں تو عرش پہ محبوب کو بلانا تھا

ہوس تھی دید کی معراج کا بہانہ تھا


اسی نعت کا ایک مصرع یہ بھی ہے: ع صدمہء ہجر خدا سے بھی گوارا نہ ہوا


’’غور کرنے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک سے نعوذ باللہ ہوسناکی اور بہانہ سازی جیسی بدترین انسانی خصلتوں کو منسوب کرنا اور ا س کی شان ِ بے نیازی کو صدمہء ہجر میں مبتلا ہونے کا الزام دینا کفر نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘(۳۷)


اقبال عظیم نے کسی شاعر کی بے بصیرتی کا احوال اس طرح لکھا ہے کہ اس شاعر نے ’’بعد از خدا بزرگ توئی‘‘ کا ترجمہ ’’بزرگ‘‘ کی جگہ ’’بزرگ تر‘‘ کرکے اپنے مصرعے کا وزن پورا کیا اور مشاعرے میں پڑھ دیا۔اس کے بعد انقبال عظیم نے کچھ اشعار نقل کیے ہیں جن میں خیال کی بے راہ روی اور مضمون کی بے اعتدالی اظہر من الشمس ہے۔وہ لکھتے ہیں:


’’ایک اور نعت کا مطلع پیش کرتا ہوں:

صنم دیکھا ترا جلوہ کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے

کبھی بندہ کبھی مولا کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے


اور ایک دوسری نعت کا شعر یوں ہے:

آگے آگے جھومتا جاتا ہے وہ محشر خرام

پیچھے پیچھے چومتا جاتا ہوں میں نقشِ قدم


ان اشعار کے متعلق میںخود کیا عرض کروں بس ذہن میں رکھنے کی بات یہ ہے کہ نعت گو شعرا نے ان اشعار میں لفظ صنم اور ترکیب ’’محشر خرام‘‘ سرورِ کائنات کے لیے استعمال کی ہے جبکہ مطلع کا دوسرا مصرع بھی محلِ نظر ہے:

ہر ابتدا سے اول ہر انتہا سے آخر

ہر ابتدا محمدؐ ہر انتہا محمدؐ


اگر یہ توصیفِ رسول ہے تو کوئی شاعر سے پوچھے کہ پھر اللہ تعالیٰ کے لیے کیا باقی بچا؟اسی قسم کی بے احتیاطی کی ایک مثال یہ بھی ہے:

مدینے کی زمیں بھی کیا زمیں ہے


بہ الفاظِ دگر عرشِ بریں ہے‘‘ (۳۸)


اقبال عظیم نے لکھا:


’’شعرا…حضورِ اکرمV کی حیات طیبہ، اسوۂ حسنہ اور شریعتِ مطہرہ کی بنیا دپر صنف نعت گوئی کو وسعت دینے کی سعی کریں تاکہ سامعین کے ذہنوں میں دینی شعور پختہ ہو اور صحیح رجحانات فروغ پاسکیں لیکن یہ کام بہت آسان بھی نہیں ہے اس لیے کہ جب تک ہم اپنے ممدوح محترم کی حیاتِ پاک کے ہر پہلو سے پوری طرح با خبر نہ ہوں گے اور قرآن و احادیث مبارکہ کے ساتھ ساتھ اسلام پر بھی ہماری نظر گہری نہ ہوگی، نعت کے وسیع تر تقاضوں کا پورا ہونا ممکن نہیں‘‘۔(۳۹)


اقبال عظیم نے شعراء کی رہنمائی کے لیے کچھ الفاظ کے درست تلفظ بتائے ہیں تاکہ ان الفاظ کے اعراب لگانے میں بے احتیاطیاں نہ ہوں کیوںکہ عربی الفاظ میں اعراب ہی لفظوں کے معانی متعین کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔جن الفاظ کی فہرست انہوں نے دی ہے وہ درجِ ذیل ہیں: اِیْزَد۔مُحَمَّدْV۔مُصْطَفٰیV۔خَضْرَا۔مُرْسَلْ۔کِرَام۔نَبَوِیْ۔وُضُوْ۔مُبَارَک۔شفاعَتْ۔شَجَاعَت۔ ْ

رَفَاقَتْ۔مَحَبَّتْ۔مَسَرَّت۔خَلْوَت۔بِعْثَتْ۔نُبُوَّتْ۔مُیَسَّرْ۔مُنْحَصِرْ۔نَظَرِکَرَمْ(نہ کہ نَذْرِکرم)۔اِبْتِدا۔اِنْتِھَا۔رِضَا۔شِفَا۔مَرَضْْ۔رِضْوَان۔مَدْح۔مِدْحَتْ۔رَوْشَنْ۔رَوْضَہ۔مَشْعَلْ۔ نَجَات۔(۴۰)


درجِ بالا فہرستِ الفاظ اور مُقْتَبَس افکار کی روشنی میں اقبال عظیم کی تنقیدی آراء کو اصلاحی تنقید یا (Reformatory Criticism) کے ذیل میںبھی رکھا جاسکتا ہے۔ان کی تنقید مقنن تنقید اور اصلاحی تنقید کا مرکب ہے۔


فکری اصابت رکھنے کے باوجود تخلیقی لمحوں میںان سے سرزدہونے والی اغلاط کا احوال دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اقبال عظیم بھی اپنے بنائے ہوئے اصولوں پر پوری طرح کاربند نہیں ہوسکے۔ (ملاحظہ ہو:بت خانہ شکستم من(تنقیدی مضامین کا مجموعہ) امیر حسنین جلیسی )۔

(۷) منظر عارفی نے اپنے نعتیہ مجموعے ’’اللہ کی سنت ‘‘میں ’’روشن چراغ‘‘ کے زیرِ عنوان ، شعرِ عقیدت کی تخلیق کے کچھ اصول بیان کیے ہیں۔نعتیہ شاعری میں مفاہیم کی پاکیزگی ، الفاظ کی نظافت اور خیال کی مستند بندش کے لیے منظر عارفی کے تنقیدی افکار سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔وہ لکھتے ہیں:


’’حمدو نعت کہنے کے لیے میں نے چند اصول اپنے لیے مقرر کیے ہیں:


۱۔ حمد و نعت میں کوئی ایسا شعر نہیں ہونا چاہیے جو ایسا ذو معنیٰ ہو کہ جو جہاں چاہے اس کو چسپاں کرلے،بلکہ حمد و نعت کا شعر کہیں بھی ہو حمد و نعت کا ہی رہے۔


۲۔ حمد و نعت میں منقبت کا داخل کرنا انتہائی غیر ضروری ہے کوئی تاریخی بات ہو تو اور بات ہے۔


۳۔ حمد و نعت میں دعا زیادہ سے زیادہ مقطع تک محدود ہو۔


۴۔ حمد و نعت میں ایسا کوئی شعر نہ ہو جس میں کسی بھی لحاظ سے اپنی خود ستائی ہو۔


۵۔ مندر ،کلیسا، وغیرہ ، غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو اپنی مسجد اور اپنے کعبے کے مقابل نہ لاؤں۔

نیز اپنے دل یا سر کو کسی بھی موضوع کے تحت کعبہ شریف یا عرش پاک سے افضل قرار نہ دوں۔


۶۔ حمد و نعت کے موضوعات میں واعظِ دینی کی مذمت یا تحقیر ہر گز نہ ہو(سب سے پہلا واعظ اللہ تعالیٰ اور پھر اس کے حکم سے اس کے رسول ہیں پھر امتِ محمدیہ کے علماء و مشائخ )۔


۷۔ معرفت کے نام پہ ٹھیٹ بازاری عاشقانہ موضوعات کی حمد ونعت کا موضوع ہر گز نہ بناؤں۔


۸۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تقابل کرتے ہوئے کسی بھی اللہ کے نبی علیہ السلام کی توہین یا تنقیص سے اپنی زبان اور قلم کو روکوں۔


۹۔ ایسی کسی بات کو قرآن و حدیث نہ کہوں جس کے بارے میں قطعی دلیل نہ ہو کہ یہ واقعی قرآنِ پاک کی آیت ہے یا واقعی حدیث شریف ہے۔


۱۰۔ اپنے لیے معیار بناؤں حمد و نعت شریف کا کہنا۔خواہ ایک کلام تین شعر یا چار شعر پر ہی مشتمل ہو۔مشاعروں میں واہ وا کے لیے لا یعنی قسم کے قطعی غیر متعلق شعر حمد اور نعت شریف کے نام پر داخل کرکے اشعار کی تعداد ہر گز نہ بڑھاؤں۔


۱۱۔ کوئی بھی نعت یا حمد کہہ کر ایک مفتی یا شیخ الحدیث مقام کے عالم کو ضرور سنالوں تاکہ وہ اس میں ایسی غلطی دیکھ لیں جو خلافِ شریعت ہو اور لا علمی کی وجہ سے مجھ پر ظاہر نہ ہوسکی ہو۔


۱۲۔ لفظ’’جان‘‘(مطلق)’’یار‘‘’’پیا‘‘’’دلدار‘‘’’دلربا‘‘ یا عام طور پر بے محابا دنیا کے معشوقوں کے بارے میں کہے جانے والے الفاظ کا استعمال اللہ کے رسول V کی شانِ ارفع کے خلاف سمجھوں۔


۱۳۔ آقاV کے لیے ’’تم، تیرے،تو،اِس، اُس‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ استعمال نہ کروں۔رہا یہ سوال کہ بزرگوں نے کیا، تو جواب یہ ہے کہ اس معاملے میں اپنا کام بزرگ ہی جانیںصرف اس معاملے میں ہی بزرگوں کی تقلید مجھ پر شرعاً کتنی واجب ہے۔


۱۴۔ صرف حمد و نعت کے اشعار کہنے پر فریفتہ ہو کر اپنی بے عملی ، فرائض و واجبات ے دوری اور خلافِ شرع کاموں میں مشغولیت اور اس پر قائم رہنے کو بے حیثیت نہ سمجھوں۔


۱۵۔ جنت کی تحقیر نہ کروں، دوزخ کا مذاق نہ اُڑاؤں ، اللہ کے سامنے حاضری کو معمولی نہ سمجھوں وغیرہ وغیرہ۔(۴۱)


منظر عارفی کے مرتب کردہ اصولوں میں نکتہ نمبر ۱۴ معاشرتی اصلاح کے لیے ہے بقیہ نکات اصلاحِ فکر و خیال کے حوالے سے تخلیقِ نعت کے ہنگام، تنقیدی بصیرت بروئے کار لانے کے لیے ہیں۔ فکر و خیال کی تطہیر کے لیے منظر عارفی کے بیشتر اصول قابلِ قدر ہیں۔یہ تنقیدبھی مقنن تنقید اور معاشرتی و اصلاحی تنقید کے دبستانوں کے ذیل میں رکھی جاسکتی ہے۔

(۸) فروغِ نوا(مجموعہء نعت)، رئیس احمد نعمانی:


’’رئیس احمد نعمانی کا یہ نعتیہ مجموعہ علی گڑھ(بھارت) سے شائع واہے۔اس مجموعہء نعت کو مصنف نے پہلا نمونہء نعت بتایا ہے جس میں بقول ان کے ’’ذاتِ نبوی کے احترام واقعی کو ملحوظ رکھنے کی کوشش پر پوری توجہ صرف کی گئی ہے‘‘۔(۴۲)


رئیس احمد نعمانی نے کتاب کے دیباچے بعنوان ’’حرفِ ناگزیر‘‘ میں شاہ احمد رضا خاں بریلوی ؒ اور علامہ اقبال ؒ کے بعض اشعار پر تنقیدی رائے دی ہے۔لیکن ان کی تحریر کسی نقاد کی تحریر کے بجائے کسی مبارزت طلب پہلوان کی تقریر لگتی ہے۔بات کتنی ہی صائب کیوں نہ ہوآدمی کا لہجہ اسے غیر صائب بنادیتا ہے۔خاص طور پر علامہ اقبال مرحوم کے حوالے سے جو سطور زینتِ کتاب بنی ہیں ان میں فروغ ِ نوا کے خالق کے غصے کو خوب خوب فروغ ملا ہے۔چند تصریحات کے زیرِ عنوان وہ لکھتے ہیں:


’’اس کتاب میں شامل نعتوں میں:


۱۔ عشق، عاشق، معشوق جیسے مردود و معیوب الفاظ کو قطعاً استعمال نہیں کیا گیاہے۔


۲۔ سید الانبیاV کی شان مبارک میں ، دوسرے نعت گو شاعروں کی طرح ’’تو‘‘ اور ’’تیرا‘‘ جیسے الفاظ کسی شعر میں نہیں لائے گئے ہیں۔


۳۔ حضور انور افضل البشر V کا اسم گرامی بھی احتراماً عبارت میں نہیں لایا گیا ہے بلکہ ضمائر و صفات کے توسط سے بات کہی گئی ہے۔


۴۔ عبد ومعبود اور خالق و مخلوق کے فرق کو التزاماً ملحوظ رکھا گیا ہے اور دیگر شعرائے نعت سرا کی طرح خدا اور رسول ؐ کے امتیاز کو نظر انداز کرکے جاہلانہ اظہارِ عقیدت اور ہندوانہ بھجن خوانی سے زبانِ قلم کو آلودہ نہیں ہونے دیا گیا ہے‘‘۔(۴۳)


درجِ بالا سطور سے رئیس احمد نعمانی کی احتیاط پسندی تو سامنے آئی لیکن ساتھ ہی ان کا فخریہ لہجہ بھی کھٹکا۔بہر حال یہ تنقیدی رجحان مدرسانہ اور متشددانہ ہے۔وہ مزید لکھتے ہیں:


’’۱۔ مسلمانوں کی اکثریت کی طرح(جو بالعموم علم سے اور بالخصوص دین سے بے بہرہ ہے)، ہمارے نعت گو شعراء کے ذہن میں بھی ’’توحیدو شرک‘‘ کا وہ نظریہ واضح نہیں ہے، جو ہوش و حواس کی درستی کے ساتھ قرآن پاک کے ایماندارانہ مطالعے سے متعین ہوتا ہے۔


۲۔ وہ ’’عبد و معبود‘‘ اور ’’خالق و مخلوق‘‘ کے اس امتیاز کی صلاحیت سے محروم ہیں، جو انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرتوں اور مخصوصاً سیدنا و حبیبنا آرام فرمائے مدینہ V کے پورے سفر حیات میں قدم قدم پر نمایاں ہے۔


۳۔ ۹۹ فیصد نعت نگاروں نے عقل کوبالائے طاق رکھ کر اللہ اور رسول کی محبت کو دو عدد عام انسانوں کی محبت پر قیاس کرلیا ہے۔


۴۔ قرآنِ پاک کی آیات پاک میں بیان شدہ حقائق کی جگہ ، عجمی صوفیا کے واہی تخیلات ان کے دماغوں میں مرتکز ہوگئے ہیں اور انھوں نے صوفیوں کے اس ’’نظریہء عشق‘‘ کو اپنے شعور پر حاوی کرلیا ہے جو یہودیت، مجوسیت، نصرانیت ، بدھ مت اور ویدک دھرم کے فلسفوں کے ساتھ فکری و ذہنی مشارکت رکھتا ہے۔(۴۴)


بعد ازاں جنابِ نعمانی نے احمد رضا بریلوی کی نعت ’’واہ کیا جودو کرم ہے شہِ بطحا تیرا‘‘ کو ضمیر ’’تیرا‘‘ کے استعمال پر اپنے استاد کے نام سے اصلاح دیتے ہوئے لکھا ہے کہ احمد رضا صاحب اس طرح بھی کہہ سکتے تھے:

’’واہ کیا جودو کرم ہے شاہِ بطحا آپ کا‘‘


پھر علامہ اقبال کے کچھ اشعار پر سخت تنقید کی ہے ۔چند اشعار یہ ہیں:

نگاہ عاشق کی تاڑ لیتی ہے پردۂ میم کو اٹھا کر

وہ بزمِ یثرب میں آکے بیٹھیں ہزار منھ کو چھپا چھپا کر

ای کہ ذات تو نہاں در پردہ ٔ عین عرب

روی خود را در نقابِ میم پنہاں کردہ ای

حمد بے حد مر رسولِ پاک را

آن کہ ایمان دادمشت خاک را


نعمانی کی باتوں میں تلخی کے عنصر نے ان کی بات کو ہلکا کردیا ہے ورنہ بعض اشعار پر گفتگو کی گنجائش موجود ہے۔بہر حال مسلکی جنگ و جدال میں پڑے بغیرکہا جاسکتا ہے کہ ان کا درجِ ذیل بیان لائقِ توجہ ہے:


’’ہم کو آپ کو اور تمام انسانوں اور جنات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن اور حاملِ قرآن V پر ایمان لانے کا اور آپ کی اطاعت کا مکلف قراردیا ہے۔کسی شاعر یا مولوی، کسی پیر یا جوگی، کسی گیانی یا فلسفی،کسی گیلانی نجفی، کسی لکھنوی یا تھانوی، کسی دہلوی یا بریلوی یا ان کے کلام و اقوال پر ایمان لانے اور ان کی اطاعت کا ہرگز ہرگز مکلف نہیں بنایاہے‘‘۔(۴۵)


نعت کی تنقید میں دیو بندی اور بریلوی ، مسلکی چپقلش نے ہمیشہ روڑے اٹکائے ہیں۔کچھ معاملات روحانی سطح پر حقائقِ ثابتہ بن کر صوفیوں اور ان کے پیرو کاروں کے درمیان عقائد کا روپ دھارلیتے ہیں اور کچھ’’ عقیدے ‘‘ روحانی اقدار سے عار ی شریعت پر زور دینے والے حلقوں میں پروان چڑھتے ہیں۔شاعری احساس کی زبان ہے۔شاعر کا ہر مُخَاطَبْ اس کے دل کے نزدیک ہوتا ہے۔نعت میں حضور اکرم V کی ذات کو تصوراتی طور پر ہر شاعر حاضر و ناظر جانتا ہے اور اس طرح اس کا لہجہ استغاثے میں بدل جاتا ہے۔اس تصوراتی روحانی واردات کو تنقید کا نشانہ صرف اس صورت میں بنایا جاسکتا ہے جب شاعر نے صریح گمراہی کا ثبوت دیا ہو۔ورنہ ادب فہمی کے تمام دعوے بے قیمت ہوجائیں گے۔بہر حال رئیس احمد نعمانی کے نقطہء نظر کو ایک تنقیدی جہت کا درجہ حاصل ہے جسے ہم مقنن تنقید ی دبستان سے منسلک کرسکتے ہیں۔


(۹) ’’اردو زبان میں نعت گوئی کا فن اور تجلیات‘‘ ڈاکٹر سید وحید اشرف کچھوچھوی (سابق صدر شعبہء عربی،فارسی،اردو،دانشگاہِ مدراس،بھارت) کی کتاب ہے جس میں تین مضامین ہیں۔


ایک مضمون میں انہوں نے یہ بتایا ہے کہ شاعری میں کچھ لغزیں سہواً ہوجایا کرتی ہیں۔جان بوجھ کر کوئی مسلمان حضورِ اکرم کی شانِ اقدس میں بے ادبی کا مرتکب نہیں ہوتا۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ کم علموں سے لغزشیں ہوتی ہی ہیں اس لیے ان کی مثالیں دینا بے سود ہے۔صرف ایسے لوگوں کی مثالیں دینا ہے جن کا شمار پڑھے لکھے لوگوں میں ہوتا ہے۔وہ لکھتے ہیں:


’’ایک صاحب نعت میں لکھتے ہیں: ع عروجِ حسن عطا ہے تمہاری شاہانہ،…یہاں سید عالم V کی عطا کو دنیوی بادشاہ کی عطا کے مثل بتایا ہے۔مسلمان کا عقیدہ ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو عطا کر سکتے ہیں وہ دنیا کے بادشاہوں سے ممکن نہیں ہے اور جو دنیا کے بادشاہ عطا کرسکتے ہیں اس کو سید عالم V کی عطا کے مثل بتانا جہل کے مترادف ہے۔مثل اور مثال میں فرق ہے۔مثل قرار دینے میں مشبہ بہ کا رتبہ مشبہ سے افضل ہوگا ۔یہاں دنیاوی بادشاہ کی عطا نعوذ باللہ زیادہ افضل قرار پائے گی۔یہ بیان علم معانی و بیان سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔اس بیان میں مثل غلط تو ہے ہی مثال بھی درست نہیں ہے۔ ایک صاحب کا شعر ہے:

عمر بھر ہم پھرے کو بہ کو

تجھ سا پا یا نہیں خوبرو


اردو میں یہ شعر امیر خسرو کے اس فارسی شعر کی بازگشت ہے جو انھوں نے اپنے مرشد کے متعلق کہا ہے ؎

آفاقہا گردیدہ ام عشقِ بتاں ورزیدہ ام

بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری


بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو نثر میں بیان نہیں کی جاسکتیں ، لیکن شاعری میں جائز ہیں۔ حضرت امیرخسرو تو صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارا مرشد وقت کا سب سے بڑا مرشد ہے…خلافِ واقعہ بیان ہے لیکن ’’تو چیزے دیگری‘‘ کے لیے یہ بیان ضروری تھا۔یہاں مقصد واقعہ نگاری نہیں بلکہ دعویٰ کے ثبوت کے لیے اس شاعرانہ دلیل کو بیان کرنا ضروری تھا۔اس بیان کا تعلق صرف تخیل اور شاعری سے ہے جو شاعری میں جائز ہے۔ایسی خلافِ واقعہ بات اگر نعت میں کہی جائے تو جائز نہ ہوگا‘‘۔(۴۶)


نعتیہ شاعری میں درجِ بالا مضمون اس لیے ناجائز ہے کہ حضورِ اکرم V کا ہم سر تلاش کرنے کا خیال بھی ایمان کے خلاف ہے۔کیوں کہ مسلمان پہلے سے ہی ع بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر … پر ایمان رکھتا ہے۔(۴۷)


ڈاکٹر وحید اشرف نے شاعری میں ضمائر کا ذکربھی چھیڑا ہے اور جو نکات بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے:


٭ہماری کلاسیکی شاعری میں ’’تو ‘‘ کا استعمال ہوتا رہا ہے اور آج بھی جاری ہے… ٭جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے آپ کا صیغہ استعمال کرتے ہیں ان کے خیال میں صرف وہی مؤدب ہیں… ٭قرآن میں جہاں کہیں خدانے اپنے کو بندہ سے مخاطب کرایا ہے وہاں صرف واحد کے صیغہ ہی میں خطاب کرایا ہے… ٭واحد حاضر کے صیغہ میں ک، انت اور واحد غائب کے صیغہ میں ہٗ اور ھُو۔اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بندے اللہ تعالیٰ کو واحد ہی کے صیغہ میں خطاب کریں… ٭اردو میں واحد حاضر کے لیے ’’تو‘‘ تحقیر اور تعظیم دونوں کے لیے بولا جاتا ہے لیکن محلِ استعمال سے قرینہ واضح ہوجاتا ہے کہ مرا د کیا ہے… ٭جس لفظ میں دونوں معانی کا احتمال ہو اس کا استعمال حمدو نعت میں کفر کے مترادف ہوگا… ٭اگر کسی کے لیے لفظ ’’تو‘‘ تحقیر کے معانی میں استعمال کیا جاتا ہے تو اس میں یہ بات مضمر ہوتی ہے کہ وہ تنہاقصور وار ہے… ٭فارسی نعتیہ شاعری میں سید عالم V کے لیے ’’تو‘‘ اور ’’توئی‘‘ کا ستعمال بکثرت ہوا ہے… ٭مخلوق میں حضور V کی ذات کی فردیت کے اظہار کے لیے ’’تو‘‘ کا استعمال زیادہ مناسب ہے… ٭اصول یہ ہے کہ جو چیز نثر میں جائز نہیں وہ شعر میں جائز ہوسکتی ہے… ٭نثر میں رسولِ اکرم V اور دیگر بزرگوں کے لیے صرف ’’آپ‘‘ ہی استعمال کرنا درست ہوگا۔(۴۸)

ڈاکٹرکچھوچھوی ایک اور جگہ لکھتے ہیں:


’’ہر صنف سخن میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ حقائق کا دامن ہاتھوں سے نہ چھوٹنے پائے اور اگر حقائق یا دلائل شاعرانہ ہوں تو ان کی تاویل نعت کے مناسب ہو ورنہ شاعرانہ حقائق سے بھی گریز کرنا چاہیے‘‘۔(۴۹)


کتاب میں شامل دوسرا مضمون ’’اردو نعتیہ شاعری میں شعراء سے لغزشوں کے بعض وجوہ‘‘ میں عملی تنقید کے مظاہر ہیں۔اس کی مثال درجِ ذیل ہے:

’’مثالِ مصطفیٰ کوئی پیمبر ہو نہیں سکتا

ستارہ لاکھ چمکے مہرِ انور ہو نہیں سکتا


…اس کا مفہوم یہ ہوا کہ ستارہ یعنی ہر نبی اس کوشش میں ہے کہ وہ مہرِ انور یعنی سید الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی طرح صاحبِ فضیلت ہوجائے جبکہ یہ بات خلافِ واقعہ ہے۔یہ تو ملتا ہے کہ بعض نبی نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ کاش وہ آپ V کی امت میں ہوتے لیکن رشک کا مضمون نبی کی شان کے خلاف ہے‘‘۔(۵۰)


سید وحید اشرف بتاتے ہیں کہ لا علمی کی بنیاد پر زبان و بیان کی غلطیاں تو ہوتی ہی ہیں اب تو جدیدیت کے شوق میں بہت سی فاحش غلطیاں ہورہی ہیں۔شعراء کو معلوم ہی نہیں کہ شعر سے مدح کا پہلو نکلتا ہے کہ ذم کا۔اس ذیل میں انہوں نے علیم صبا نویدی کی شعری لغزشوں کی نشاندہی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اک نہ اک طوفان سے روز انہ اک مڈبھیڑ ہے

تھامنے کو روز اپنا دامن آئے مصطفیٰ


پہلے مصرعہ میں لفظ مڈبھیڑ بہت ثقیل ہے۔اگرچہ یہ پابند شاعری ہے مگر مصرعہ میں کوئی رچاؤ اور پختگی نہیں ہے۔دوسرے مصرعہ میں محاورہ کے غلط استعمال سے ایسا گستاخ آمیز مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ الامان والحفیظ ۔دامن اس کا تھا ما جاتاہے جس سے آدمی مدد یا نجات کا طالب ہوتا ہے۔’’دامن تھامنے‘‘ کے بجائے یہاں ’’بازو تھامنے‘‘ کا موقع تھا۔بازو کمزور کا تھاما جاتا ہے۔ محاورہ کے فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کے سبب کتنی بڑی غلطی سرزد ہوئی ہے۔ اور لکھتے ہیں:

کس کی خاطر عالمِ امکاں کا ہے یہ اہتمام

ہم سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ہے برائے مصطفیٰ


اس میں چند در چند غلطیاں ہیں۔ہم صرف ایک بڑی معنوی غلطی کی نشاندہی کرتے ہیں۔


’’…مطلب یہ ہوا کہ ہماری سمجھ سے واقعہ تو یہ ہے لیکن بعض دوسروں کی سمجھ اس کے خلاف ہوسکتی ہے…یہ تو کائنات کا خالق ہی بتا سکتا ہے کہ کائنات کس کے لیے ہے…شاعر اسے اپنے ذمے لے رہا ہے’’ہم سمجھتے ہیں‘‘ کی جگہ اگر ’’قولِ ربی ہے‘‘ ہوتا تو شعر اچھا ہو یا نہ ہو، بات درست ہوتی۔

بعد رحمت بھی صبا کو آپ سے امید ہے

کون ہوگا حشر میں اپنا سوائے مصطفیٰ


یہاں ’بھی‘‘ کا استعمال ایسا غلط ہے جس نے معنی میں عیب پیدا کردیا ہے۔ اگر بات یوں ہوتی کہ اپنے گناہوں کے بعد بھی آپ سے رحمت کی امید ہے تو بات درست ہوتی۔ یہاں ’’رحمت‘‘ کو عیب کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ اور شعر ہے:

میری اپنی پتلیاں ان پتلیوں میں ڈوب جائیں

زیر لب جن پتلیوں میں مسکرائے مصطفیٰ


’’پتلیوں میں پتلیاں ڈالنا‘‘ کون سا محاورہ ہے؟ اس میں مدح کا کونسا پہلو ہے؟جس ہستی کی خاکِ پا کو مؤمن اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کا آرزو مند ہوتا ہے، شاعر بجائے ان کی خاکِ پا کو اپنی آنکھوں میں لگانے کے اپنی آنکھوں کو ان کی آنکھوں میں ڈبونا چاہتا ہے۔ایسا کیوں ہے؟ کہنے والا ہی سمجھے۔یہ بھی شعر دیکھیے:

تیرگی کی بھیڑسے باہر نکلنا ہے مجھے

میرے آگے ضو فشاں ہے نقشِ پائے مصطفیٰ


’’اللہ ان کا دوست ہے جو ایمان لائے انھیں وہ (کفر کی) تاریکی سے نکال کر (ایمان کی) روشنی میں لاتا ہے۔قرآن میں یہاں تیرگی سے مراد کفر کی تیرگی ہے…لیکن یہاں شاعر لکھتا ہے کہ اسے ابھی تیرگی سے نکلنا ہے۔گویا ابھی اسے ایمان کی روشنی نہیں ملی…

پہلا مصرعہ یوں ہوتا تو یہ اعتراض جاتا رہتا

ع تیرگی کی بھیڑ سے شکرِ خدا میں بچ گیا،

یوں یہاں لفظ ’’بھیڑ‘‘ بھی حشو ہے……… اور دیکھیے

دوسرے سایہ کو کیا دیتی جگہ اپنی جگہ

یہ زمیں سایہ بنی تھی زیرِ پائے مصطفیٰ


دونوں مصرعوں میں کیا ربط ہے؟ اور شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟ یہ وہی سمجھے۔ یہ شعر بھی ہے:

مسجد و منبر میں اسکو قید کیوں کرتے ہیں لوگ

گونجتی ہے دونوں عالم میں صدائے مصطفیٰ


…شاعر کے دل میں یہ بات رہی ہوگی کہ چاہیے کہ مسجد میںپیغام محدود نہ کریں بلکہ اسے سارے عالم میں پھیلائیں۔اگر مقصد یہ ہے تو پہلا مصرعہ یوں ہونا چاہیے تھا۔مسجد و منبر میں کیوں محدود کرتے ہیں اسے …لیکن پھر بھی شعر صفائی بیان سے محروم ہے۔شعر میں جہاں صراحت کی ضرورت ہو وہاں ابہام یا گنجلک بیان عیب ہے۔اس میں لفظ منبر ’’حشو‘‘ ہے۔(۵۱)


عارف عبدالمتین کی نعت کے کچھ اشعار نقل کرکے ڈاکٹر وحید اشرف کچھوچھوی نے کئی اسقام کی نشاندہی کی ہے :

’’تری حدیث ترے رو برو سناؤں تجھے

یہ آرزو ہے کبھی آئنہ دکھاؤں تجھے


…آئنہ دکھانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دیکھنے والا اپنے چہرے کے عیب کو دیکھ لے۔’’تری حدیث…‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ یہ بھی گستاخ آمیز کلمہ ہے۔

مرا وقار بھی تو ہو مری پناہ بھی تو

میں خود زمین بنوں آسماں بناؤں تجھے


…یہ زمین و آسمان بلکہ ساری کائنات جس کے طفیل ہے اورآسمان بھی جس کے علو مرتبہ کے آگے پست ہے شاعر اس کو آسمان بنانا چاہتا ہے۔ع بدیں عقل و دانش بباید گریست‘‘۔


راقم الحروف کے خیال میں اس شعرپر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر وحید اشرف نے دھیان نہیں دیا۔یہاں شاعر نے بالکل نسوانی جذبات کی عکاسی کی ہے [تحت و فوق]۔ حضور V کی ذاتِ اقدس سے اپنے تعلق کی خواہش کا یہ اظہاربھی قابل اعتراض ہے ۔بہر حال ڈاکٹر صاحب نے ایک اور شعر نقل کیا ہے:

’’برس رہی ہے ترے رخ کی چاندنی تجھ پر

قریب آ کہ میں سینے سے بھی لگاؤں تجھے


…شاعر نے جرا ء ت نازیبا سے کام لیا ہے۔خود رسول اکرمV جس کو سینے سے لگالیں تو اس کی قسمت چمک جائے۔جیسا کہ آپV نے ایک غلام حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سینے سے لگا کر ان کے علو مرتبہ کو ظاہر کردیا تھا۔شاعر کو سوچنا چاہیے تھا وہ آقائے دو عالم V سے خطاب کررہا ہے۔

تو مجھ سے روٹھ مگر روٹھنے سے پہلے بتا

تو روٹھ جائے تو میں کس طرح مناؤں تجھے


یوں کہنا ’’تومجھ سے روٹھ‘‘ نعتیہ کلام میں سخت نازیبا ہے۔

یہ میرا شوق کہ میں تجھ کو بر ملا دیکھوں

یہ میرا رشک کہ میں خود سے بھی چھپاؤں تجھے

[درج بالا]اشعار خالص تغزل کے اشعار ہیں جو رسولِ اکرم V کی شان کے منافی ہیں۔شاعر اگر سورۂ حجرات کی تفسیر پڑھ لیتا تو اسے کچھ اندازہ ہوتا کہ یہاں ادب کو کس طرح مد نظر رکھنا چاہیے‘‘۔(۵۲)


ڈاکٹر سید وحید اشرف کچھوچھوی نے نعتیہ شاعری کی نزا کتوں کے حوالے سے شعری زبان میں بھی کچھ نکات بیان کیے ہیں،جونعت نگاروں میں تنقیدی شعور کے اضافے کا باعث ہوں گے:

نعت لکھنے کا ہنر شرطِ دگر مانگے

عشق اور روشنیِ قلب و نظر مانگے ہے

قلب سے خامہ طلبگارِ اثر لفظ میں ہے

لفظ خامہ سے مگر زورِ اثر مانگے ہے

عشق استادِ ادب ہے نہیں محتاجِ ہنر

ہاں مگر سوزِ دل اور خونِ جگر مانگے ہے

طالب عفو اگر ہے تو نہ کر عرضِ ہنر

عفو تو تجھ سے ندامت کی نظر مانگے ہے

جذبۂ عشق کبھی چاہتا ہے خون جگر

اور کبھی عاشقِ جانباز کا سر مانگے ہے

نعت کے واسطے آواز قلم وقتِ رقم

مجھ سے قلب و جگرِ سوختہ تر مانگے ہے‘‘(۵۳)


ڈاکٹر سید وحید اشرف کا تنقیدی اسلوب، مقنن تنقید ی دبستان کی نمائندگی بھی کرتا ہے ا ور مقنن ،اصلاحی اور جمالیاتی تنقیدی دبستانوں کے امتزاج کا آئینہ دار بھی ہے۔


(۱۰)’’نعت اور تنقیدِ نعت‘‘ ڈاکٹرسیدمحمد ابولخیر کشفی کی کتاب ہے ،جس میں تاثراتی اور تشریحی تنقید کے نمونے ملتے ہیں۔احمد رضا خاں بریلویؒ کے معروف سلام’’مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ کے حوالے سے انہوں نے اس طرح سوچا:


’’سلام کا آغاز’رحمت‘ اور ’ہدایت‘ کے نغموں سے ہوتا ہے۔دوسرے اور تیسرے اشعار میں ’رسالت‘ ‘ اور ’شفاعت‘ کے ذکر سے حضرت محمد مصطفی V کی رسالت کے چار بنیادی عناصر کا ذکر مکمل ہوجاتا ہے۔آپV کے بھیجنے والے نے آپ کو رحمۃللعالمین بنا کر بھیجا ہے اور انسانوں کی ابدی ہدایت کا ابدی نقطہ آپ ہی کی ذات ہے۔تمام انبیائے کرام کی تعلیمات کا مہیمن اور محافظ قرآن حکیم ہے اور آپ کے اسوۂ حسنہ میں تمام انبیائے کرام کی صفات نقطہء کمال پرنظر آتی ہے۔اس کائنات کی تاریخ میں کوئی لمحہ ایسا نہیں آیا جو بزمِ ہدایت سے خالی رہا ہو اور آخرمیں اس بزم کو ابد الآباد تک روشن رہنے والی شمع مل گئی۔ اس شمع پہ لاکھوں سلام اور لاکھوں درود۔حضور V کی ذات ہدایت کی برہان عظیم بھی ۔قل فللہ الحجۃ البالغہ(سورۃ الانعام۔آیت ۱۴۹)(آپ کہہ دیجیے کہ بس مکمل حجت تو اللہ کی ہی ہے)‘‘۔(۵۴)


سلام کے اولین اشعار کی معنیاتی چکا چوند دکھانے کے بعد ایک نکتے پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کردیا ہے:


’’اس سطح کی بلند شاعری میں چوتھا شعر بے جوڑ لگتا ہے جس کا اس حدیقۂ اول کے ان تمام اشعار سے کوئی علاقہ نہیں جو حضورV کی سیرت و ذات کو ہمارے وجدان کا حصہ بنادیتے ہیں۔

شبِ اسریٰ کے دولھا پہ دائم درود

نوشۂ بزمِ جنت پہ لاکھوں سلام


دولھا، برات، نوشہ، شادی، نوشہ کے تلازمے نہ جانے حضرت احمد رضا خاں صاحب اور ان کے دبستان کے بہت سے شاعروں اور مقرروں کو کیوں اس درجہ پسند تھے۔


نوشۂ بزمِ جنت، کو مرکزِ بزمِ جنت، شانِ بزم جنت، رونقِ بزمِ جنت، کعبۂ بزمِ جنت، کچھ بھی کہا جاسکتا تھا۔پورا سلام اپنے شاعر کی قادرالکلامی کا گواہ ہے بلکہ یہ تلازمہ شاعر کی نفسیات کا ایک حصہ ہے۔اس تلازمہ کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایسے عالمانہ سلام میں جو حدیث و قرآن کی آیات کی ترجمانی کرتا ہے عام سننے والوں کی دل چسپی کے کچھ اشعار شعری ضروریات کا تقاضا تھے‘‘۔(۵۵)


یہاں ڈاکٹرکشفی نے لفظ ’’دولھا‘‘ کے استعمال پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کردیا اور شاعر کی نفسیات کے اس پہلو کی طرف بھی اشارہ کردیا جس کے تحت اسے عوامی زبان میں بات کرنے کی رغبت ہوئی۔


(۱۱)’’سرودِ نعت ‘‘ …ع۔س۔ مسلم:


آفتاب احمد نقوی شہید ،نے سرودِ نعت کے مصنف ع۔س۔ مسلمسے یہ سوال کیا کہ ’’نعت کے حوالے سے آپ کی سوچ یا نظریہ کیا ہے؟‘‘ ع۔س۔مسلم نے اس سوال کا جواب بڑی تفصیل سے دیا تھا۔ ہم اختصاراً کچھ نکات یہاں لکھتے ہیں:


٭نعت کو رسولِ کریم V کے آئینۂ ذات اور صفات ہی میں آپؐ سے محبت اور عقیدت کا عکاس ہونا چاہیے…٭رسولِ کریم V افضل البشر ہیں۔مخلوق میں آپ بلند درجات کے حامل ہیں۔ان درجات کی رفعت کا تصور محال ہے۔ایسی صورت میں آپV کے مدارج کی درجہ بندی ممکن نہیں۔


٭بنا بریں آپؐ کی سیرت و کردار کا مطالعہ فکرِ عمیق سے ہونا چاہیے…٭محبت کا اظہار آپؐ کی اطاعت اور وفاداری سے مشروط ہے…خود نعت گو کی شخصیت میں آپؐ کے اسوۂ حسنہ کا پر تو نظرآئے۔


٭جب تک نعت گو کو مناسب سطح تک مقامِ مصطفیٰ V کا صحیح ادراک نہیں ہوگا، نعت گوئی خوبصورت الفاظ میں محصور ہو کر زورِ قلم کا اظہار رہ جائے گی۔(۵۶)


اسی طرح جب ع۔س۔مسلم سے یہ سوال کیا گیا کہ ’’آپ کے خیال میں نعت گوکو بطورِ خاص کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟‘‘ تو انہوں نے اس سوال کا جواب بھی تحریری شکل میں دیا تھا۔ہم اس سوال کے ضمن میں بھی ، ع۔س۔مسلم ، کے چند نکات یہاں پیش کرتے ہیں:


٭حضورV افضل البشر ہیں لیکن آپؐ بھی اپنے رب کے مکمل تابع، اطاعت گزار، وفا شعار، مطیع و فرماں بردار اور اس کے فضل و کرم کے محتاج و طلبگارہیں ۔آپؐ کی طرف ایسی صفات کو منسوب کرنا جو اللہ تعالیٰ کی ذات سے خا ص ہیں، اور آپ کی ذات محبوبی اور اللہ تعالیٰ یعنی اپنے خالق سے تعلقِ خاطر کو دنیاوی تصورِ عاشق ومعشوق(نعوذ باللہ) سے بیان کرنا، نہ صرف آپؐ کے لیے سوء ادب ہے بلکہ انتہائی درجے کا شرک و بدعت ہے…

٭آپ ؐ محبوبِ رب ہیں۔ہر صانع کو اپنی صنعت پیاری ہوتی ہے۔بالخصوص وہ جو کاملیت کے درجے کی ہو…

٭مسلسل امتحان اور آزمائش سے گزرنے کے باوجود آپؐ نے تبلیغِ حق میں کوتاہی نہیں کی بلکہ اپنے اسوۂ حسنہ کی مثال پیش کی اور اپنے رب کی محبوبیت کا شرف حاصل کیا۔

٭ کامل بندگی و اطاعت کا یہ وہ مقام ہے ، جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپؐ کی محبت میری محبت کے مترادف ہے اور آپؐ کی اطاعت میری اطاعت کے مترادف…

٭نعت گو کو ، خودی کو، ’’انا‘‘ سمجھنے کے بجائے ، خالق و بندے کی رضا کی اس خوش آمیزی کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے…

٭سیرت کے یہ ٹھوس حقائق نعت گو کے پیش نظر رہیں۔اسے فرہاد و مجنوں کی طرح صرف ’’عشق و محبت‘‘ کا رونا نہیں رونا چاہیے…

٭اطاعت کے بغیر محبت کا اظہار آپؐ سے روگردانی کے مترادف ہے۔

٭حضرت حسان بن ثابت ؓ کی حضور نبیئِ کریم V کی محفل میں پذیرائی اور بصیری ؒ کے قصیدے کی مقبولیت ، درست جہت اور اللہ اور اس کے رسول کے دربار میں شرف قبولیت کی دلیل ہے۔یہ نکتہ بھی اسی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے…

٭آپؐ کی محبت اور محبت کے عام تصور میں بہت فرق ہے۔نعت میں اس فرق کی صحیح عکا سی ہونی چاہیے…

٭دعا ،فریاد، طلب اور مانگ ، اللہ کی ذات سے ہونی چاہیے نہ کہ رسولِ اکرمV کی ذات سے…

٭اطاعتِ رسول اکرم V کے بغیر شفاعت کی امید رکھنا اور نعت میں رسماً شفاعت کے مضامین باندھنے کا عمل بھی اصلاح طلب ہے۔ اس ضمن میں ع۔س۔مسلم لکھتے ہیں:


’’مشہور اعرابی جس نے حضورؐ سے عرض کیا تھا کہ میں نے ازراہِ عبادات و صدقہ وخیرات تو کوئی خاص اثاثہ جمع نہیں کیا، صرف آپ سے محبت رکھتا ہوں، اور جس کے جواب میں حضورؐ نے ارشاد فرمایا تھاکہ قیامت میں تو جس کے ساتھ محبت رکھتا ہے اسی کے ساتھ ہوگا۔تو اس حدیث کا مطلب بھی یہی ہے کہ مقدور بھر کوششِ عمل ہو پھراعترافِ گناہ ہو، اور حضور کے ساتھ قلبی تعلقِ خاطر اور محبت بھی ہو، تو کون بد بخت ہے جوروزِ قیامت زمرۂ ابرار اور سایۂ رحمت و عاطفت سے بیگانہ رہنے کا خیال بھی کرسکتاہے۔سیدھی سی بات ہے کہ جو شخص اللہ کے حکم کے تحت قرآن و حدیث اور سنت ِ رسول V پر تو عامل نہیںوہ اسی اللہ کے بندے اور اسی کے فرستادہ رسولؐ سے سفارش کی توقع کیسے کرسکتا ہے‘‘۔(۵۷)

ایک جگہ لکھتے ہیں:


’’مقصد صرف بات کہنے سے نہیں پورا ہوتا بلکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ بات کس طرح کہی گئی ہے اور شعر میں تو فنی تقاضے قدم قدم پر دامن گیر ہوتے ہیں۔اگر تلفظ ،بحر، یا معانی کے وہ تقاضے پورے نہ ہوں ، تو قول یا شعر کا تاثر زائل ہوجاتا ہے۔اس لیے شاعر کو اس امر میں خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے……’’بامحمدؐ ہوشیار‘‘ کی تنبیہ کا تقاضا ہے کہ آداب نعت پہلے آئیں اور جسارتِ اظہار بعد میں ہو اور اس اظہار میں بھی جسارت سے زیادہ محبت، عقیدت اور اطاعت کے پہلو غالب ہوں‘‘۔(۵۸)

شاعری میں جذبے کی بنیاد کے ضمن میں لکھتے ہیں:


’’دیکھنے کی بات یہ ہے کہ شاعر کے القاء خیال کا مصدر و منبع کیا ہے؟ اس کی آبیاری اگر سر چشمہء ایمان و یقین سے ہوتی ہے، تو شاعری سے بڑی کوئی نعمت نہیں اور اگر یہ منبع محض خیال و خواب اور وہم کی کارگاہ ہے، تو پھر یہ وعید ِ باری تعالیٰ کے مطابق باعثِ ملامت و ندامت ہے۔دونوں طرح سے اس کی اہمیت اتنی واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد جگہ شعر ا ء کا تذکرہ مناسب سمجھا‘‘۔(۵۹)


نعت گو شاعر کے تنقیدی شعور میں ایمانیاتی چمک اور نعت کے موضوع کی رفعت کااحساس کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ ع۔س۔مسلم نے اپنے تخلیقی منہاج میں ’’خود تنقیدی‘‘ کا عنصر ہمیشہ پیش نظر رکھا ہے۔ ان کی تحریر میں خود تنقیدی یا خود احتسابی کی ایک مثال بالکل منفرد ہے ۔ہوا یوں کہ ع۔س۔مسلم نے ایک نعت میں حسنِ مطلع کے طور پر ایک شعر کہا:

اے بخت کیا یاد مجھے میرے نبی ؐ نے

بے اذن سعادت نہیں پائی یہ کسی نے


یہ شعر کہنے کے بعد ان کے احساس کی شدت نے ان پر جو کیفیات طاری کیں ان کا احوال شنیدنی ہے ،وہ لکھتے ہیں:


’’شعروارد ہونے کے بعد کئی روزو شب عجیب کرب و اضطراب ،اندیشہ و کشمکش،پریشانی و تردد اور بے کلی و بے قراری میں گزرے،کسی پل چین نہ تھا، کیا مقدر نے واقعی یاوری کی ہے اور آپؐ نے، میرے محبوب نبیؐ نے مجھے یاد فرمایا ہے؟زہے قسمت، روئے زمین پر مجھ جیسا خوش قسمت آج کون اور ہوگا؟ لیکن دوسرے ہی لمحے یہ خوف دامن گیر ہوجاتا، یہ کہیں شاعرانہ تعلی اور اس نسبت سے نہایت ہی بد بختانہ جسارت تو نہیں، کہ میں آپ V کی طرف ایک ایسی بات منسوب کردوںجس کا بقید ِ ہوش و خرد مجھے کوئی حواسی علم نہیں ہے۔اگر ایسا ہے تو جتنا استغفار کروں اور طالب عفو ہوں، کم ہے۔اور تیسرا خدشہ یہ کہ رواروی میں صرف شعر ہی ہوگیا، لیکن اذنِ حاضری کہاں ہے، اس کے تو دور دور تک امکانات نظر نہیں آتے، یہ تو دوہری بد بختی ہوگئی، یہ میں نے کیا کردیا۔کیا گھر سے نکل جاؤں، منہ چھپالوں، گریباں چاک کرلوں، دیواروں سے سر پھوڑلوں، لیکن مشیت سے کہاں فرار ہوگا…اگر نبی ؐ نے یاد فرمایا ہے تو پھر میں یہاں کیا کررہاہوں؟…اگر یہ شاعرانہ تعلی ہے ، تو میں نے آپؐ کی ذاتِ صدق مآب پر نعوذُ باللہ بہتان باندھا۔اب اس کاکفارہ کیا دوں، تاکہ راہِ راست پر آؤں؟کیا اب حاضری نہیں ہوگی؟ وائے بد بختی میں تجھ سے اور اپنے ساتھ کیا سلوک کروں…چند روز اسی تذبذب اور کشمکشِ ذہن میں گزرے کہ ایک مختصر نجی نشست میں دوستوں کی فرمائش پر کہ تازہ نعت پیش کروں، میں نے یہی نعت پڑھ دی، مذکورہ شعر پر دل کا سارا خوف و تذبذب ، اندیشہ و کشمکش کرب و اضطراب اور پریشانی و تردد موجوں کی طرح آنکھوں سے بہہ نکلا۔ایک سخن فہم دوست نے شعر سنتے ہی کہا، بھائی ! رخت ِ سفر باندھ لو، تمہارا بلاوہ آگیا ہے…ایک ہفتہ کے اندر اندر ایسے اسباب پیدا ہوگئے…واقعتاً اُڑ کر درِ حضور پر پروانہ وار حاضر ہوگیا‘‘۔(۶۰)


تنقیدی نظریات اور تنقیدی اسالیب تو بہت سے سامنے آئے لیکن ’’خود احتسابی اور خود تنقیدی‘‘ کی ایسی مثال مجھے کسی اور کتاب میں نہیں ملی۔دراصل نعتیہ شاعری کے لیے جذبے کی پاکیزگی اور بیان کی سچائی دونوں بہت ضروری ہیں لیکن بیشتر نعت گو حضرات اس بات کا خیال نہیں رکھتے۔یہی وجہ ہے کہ میں نے ع۔س۔مسلم کی قلبی کیفیات اور ذہنی کشمکش کا احوال اتنی تفصیل سے یہاں نقل کیا۔


(۱۲) اپنی کتاب ’’اردو میں نعت گوئی، چند گوشے‘‘میں پروفیسر شفقت رضوی رقم طراز ہیں:


’’نعت گوئی بہت مشکل فن اس اعتبار سے ہے کہ اس میں مضمون اور اسلوب حدِ اعتدال میں ہونا ضروری ہے۔شاعری میں، مبالغہ جائز ہی نہیں بلکہ سکہء رائج الوقت ہے۔نعت میں اس کی گنجائش نہیں۔جب بھی مبالغہ سے کام لیا جائے گا، پیغمبری ، الوہیت کی جگہ لے لے گی اور خارج از امکان بھی ہے اور خارج از ایمان بھی۔اسی طرح لفظ ، محاوروں اور روز مرہ کے استعمال میں بھی حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔بے احتیاطی سے شاعرگستاخی کا مرتکب ہوجاتا ہے اس کی سیکڑوں مثالیں رسمی نعتوں میں ملتی ہیں۔نعت کے حدود میں صرف وہی اشعار شامل کیے جاسکتے ہیں جن کی نسبت رسول اللہ V سے ہو‘‘۔(۶۱)


اس اقتباس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پروفیسر شفقت رضوی ، نعت میں زبان و بیان کی نفاست اور جذبے کی صداقت دیکھنا چاہتے ہیں۔


(۱۳)’’نعت کہیے ، مگر احتیاط کے ساتھ‘‘، اس عنوان کے تحت پروفیسراقبال جاوید نے نعتیہ شاعری کی نزاکتوں کا ذکرتے ہوئے شعراء کو کچھ پر خلوص مشورے دیئے ہیں۔مثلاً


’’سچی نعت گوئی کے لیے مقامِ نبوت اور شان رسالت سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔توحید کے تقاضوں سے مکمل آگاہی بھی چاہیے اور یہ بھی لازم ہے کہ مدحت نگار، نعت کو غزل کی آشفتہ مزاجی اورقصیدے کی مبالغہ آرائی سے بچا لے جائے،کیوں کہ غزل اور قصیدے کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ، یہاں ہر مبالغہ ،خیال آفرینی اور ہر مستانہ لغزش حسن ہے۔جبکہ نعت کی ایک دینی حیثیت ہے، اس لیے یہاں قلم قلم پہرے ہیںاور دیکھنے والی نظروں کو دیکھنا بھی چاہیے اور ٹوکنا بھی کہ کہاں کہاں عقیدت نے عقیدے کے آبگینے کو مجروح کیا ہے، کیوں کہ عقیدہ بہر نوع بالا تر ہے۔حضور V ہم مسلمانوں سے صرف خراج عقیدت نہیں، بلکہ خراج اطاعت بھی لینے کے لیے تشریف لائے تھے۔یاد رہے کہ سچا اتباع ہی محبت کی واحد دلیل ہے‘‘(۶۲)


اس تحریر کے ذریعے، نعت کے تخلیقی تقاضوں کے ساتھ ساتھ حضور V کی محبت کے اظہار کا سلیقہ اور اخلاص کا قرینہ بھی سکھانے کی سعی کی گئی ہے…


پروفیسراقبال جاوید کا اندازِ بیان رومانوی ہے۔ان کا طریقِ نقد ’’تاثراتی‘‘ ہے اور اصلاحی و تشریعی دبستانِ تنقید کی جھلکیاں بھی ان کے طرزِ تحریر سے نمایاں ہیں۔کتاب میں شامل دوسرے لوگوںکے نثرپارے اور اشعار بھی نعت کی اہمیت کو جمالیاتی سطح پر اجاگر کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اس لیے جمالیاتی تنقیدی دبستان اس پوری کتاب پر حاوی نظر آتا ہے۔


(۱۴) ٭شمائم النعت(تحقیقی و تنقیدی مقالات کا مجموعہ)، ڈاکٹر سراج احمد قادری:


’’نعت گوئی تنقید،تفہیم و تجزیہ‘‘ کے عنوان سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سراج احمد قادری نے مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے کچھ فتاویٰ کا حوالہ دیا ہے۔وہ فتاویٰ ، نعتیہ شاعری پر شرعی گرفت کی بہترین مثالیں پیش کرتے ہیں۔مثلاً رام پور سے معشوق علی صاحب نے کچھ اشعار درج کیے اور اعلیٰ حضرت سے ان کے مافیہ (Content ) کے ضمن میں سوال کیا ۔اشعار درجِ ذیل ہیں:

اٹھا کر میم کا پردہ سب الا اللہ کہتے ہیں

احد میں میم کو ضم کرکے صلی اللہ کہتے ہیں

ظہور ہو کر کے دنیا میں یہ فرمایا کہ بندہ ہوں

تو سب ناسوت میں حضرت رسول اللہ کہتے ہیں

ہوئے ممکن سے جب واجب نبی ملکوت میں پہنچے

وہاں سب دیکھ احمد کو ظہور اللہ کہتے ہیں

جو پہنچا مرتبہ جبروت میں مسجود عالی کا

تو اس جسم مطہر کو وہ نور اللہ کہتے ہیں

الست مرتبہ لاہوت سمجھو ذات احمد کا

سب اس رتبہ میں آنحضرت کو عین اللہ کہتے ہیں

خدا فرمائے گا محشر میں بخشا لو تم اب احمد

گنہ گارانِ امت کو شفیع اللہ کہتے ہیں

نزول از تا عروج حضرت کا لکھا ہے حقیقت سے

خدا پہچان لو سب سے حسن اللہ کہتے ہیں


اعلیٰ حضرت کا جواب ملاحظہ ہو:


’’ان اشعار کا پڑھنا حرام، سخت حرام ہے۔ان میں بعض کلمہء کفر یہ ہیں اگرچہ تاویل کے سبب قائل کو کافر نہ کہیں اور بعض موہم کفر ہیں اور یہ بھی حرام ہے۔ردالمختار میں ہے۔مجرد ایھام المعنی المحال کاف فی المنع ۔ہاں بعض جیسے شعر چہارم و ششم ایہام کفر سے خالی ہیں۔پھر ششم میں مصرع دوم ’’گنہ گارانِ امت الخ‘‘ کو حضرت عزت کی طرف نسبت کرنا صحیح نہیں۔اور چہارم میں مسجود کا لفظ مناسب نہیں‘‘۔(۶۳)


اعلیٰ حضرت کا جواب ایسے شعراء کے لیے تنبیہ (Warning) کا حکم رکھتا ہے جو شریعت سے متصادم خیالات کو شعری جامہ پہناتے ہیں۔ڈاکٹر سراج احمد قادری نے صحیح کہا ہے :


’’حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی ؒ نے مذکورہ بالا اشعارپر جرح و تعدیل فرمائی اور ایک ایک شعر اور لفظ کا حکم بیان فرمایا۔صاف ستھری تنقید اسی کو کہتے ہیں‘‘(۶۴)


جودھ پور سے قاضی محمد عبدالرحمٰن نے ایک شعر لکھ کر سوال کیا۔شعر یہ تھا ؎

نعتِ خیرالبشر نہ ہوجائے

دل حقیقت نگر نہ ہوجائے

یہ شعر درج کرکے سائل نے استفسار کیا:


’’کیا حضور یہ مطلع نعت میں ٹھیک ہے؟اس کا قائل یہ کہتا ہے کہ آپ کے دیوان میں بھی اس قسم کا شعر ہے، مگر وہ دیوان میں دکھاتا نہیں اور خاکسار کے پاس دیوان ہے نہیں۔لہٰذا متکلف ہوں کہ اس میں جو کچھ امرِ حق ہو جواب سے سرفراز فرمائیں؟……الجواب: یہ مطلع باطل و ناجائز ہے کہ اس میں نعتِ اقدس سے ممانعت ہے اور نعت اقدس اعظم V فرائض ایمان سے ہے۔اس سے ممانعت کس حد تک پہونچتی ہے اگر تاویل کی جگہ نہ ہوتی تو حکم بہت سخت تھا۔فقیر کے دیوان میں اـصلاً کوئی شعر اس مضمون کا نہیں و لہ الحمد و ھو تعالیٰ اعلم‘‘(۶۵)


نعتیہ شاعری میں خیال کی بنت میں حال کے پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے ڈاکٹر سراج احمد قادری نے امام احمد رضا خاں کا ایک واقعہ لکھا:


’’ایک حافظ صاحب جو حضور پرنور امام اہل سنت قدس سرہٗ کے مخلصین میں سے تھے کچھ کلام بغرضِ اصلاح سنانے کے لیے حاضر ہوئے۔اجازت عطا ہوئی۔سنانا شروع کیا۔درمیان میں اس مضمون کے اشعار تھے کہ یا رسول اللہ V میں حضور کی محبت میں دن رات تڑپتا ہوں کھانا پینا، سونا سب موقوف ہوگیا ہے۔کسی وقت مدینہ طیبہ کی یاد دل سے علیٰحدہ نہیں ہوتی۔اعلیٰ حضرت قبلہ ؓ نے فرمایا حافظ صاحب! اگر جو کچھ آپ نے لکھا ہے یہ سب واقعہ ہے تو اس میں شک نہیں کہ آپ کا بہت بڑا مرتبہ ہے کہ حضورِ اقدس V کی محبت میں آپ فنا ہوچکے ہیں، اور اگر محض شاعرانہ مبالغہ ہے تو خیال فرمائیے جھوٹ اور کون سی سرکار میں؟جنہیں دلوں کے ارادوں ، خطروں، قلوب کی خواہشوں اور نیتوں پر اطلاع ہے۔جن سے اللہ تعالیٰ نے ماکان وما یکون کا کوئی ذرہ نہ چھپا یا اور اس کے بعد اس قسم کے اشعار کٹوادیئے‘‘(۶۶)


یہ ہے وہ پہلو جو نعتیہ ادب کے نقاد کے پیشِ نظر ہونا ضروری ہے۔نعت گو کو تو اس کا دھیان رکھنا لازمی ہے ہی۔


یہاں تک تو مختلف اہلِ فکر و نظر کے خیالات رقم ہوئے۔ اب کچھ یہ ناچیز( عزیز احسن )بھی عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہے۔آج کل نعتیہ ادب کی تخلیق اور نعت خوانی کی محافل کی کثرت نے کچھ مسائل پیدا کردیئے ہیں۔ ضروری ہے کہ ان کی طرف بھی توجہ مبذول کروادی جائے۔


نعت گو شعراء میں عام مرض یہ پیدا ہوگیا ہے کہ وہ حضورِ اکرم V کی محبت کا اظہار اس انداز سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کے تمام اختیارات نعوذُ باللہ مسدود ہوگئے ہوں۔بڑی واضح حقیقت ہے کہ قیامت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال کا حساب لے کر ان کے لیے جنت یا جہنم کا فیصلہ فرمائے گا اور کسی کو اس کی جناب میں کسی کی سفارش کی جراء ت نہیں ہوگی۔ہاں اگر اللہ تعالیٰ خود نبیء کریم علیہ التسلیم کو یا کسی اور نبی یا ولی کو کسی کے حق میں سفارش کی اجازت دے دے گا توشفاعت بھی مؤثر ہوجائے گی۔


اب ملاحظہ ہو کہ بعض شعراء’’یومِ حساب‘‘ اور آخرت کا ذکر کس طرح کرتے ہیں:

صائم چشتی کہتے ہیں:

ہے تو بھی صائمؔ عجیب انساں کہ روزِ محشر سے ہے ہراساں

ارے تو جن کی ہے نعت پڑھتا وہی تو لیں گے حساب تیرا


شاعر نے حضوررحمۃ للعالمین کی ذات سے اپنے زعم میں یہ خیال منسوب کردیا ہے کہ اسے کوئی فکر نہیں ہونی چاہیے رسول اللہ V کی نعت پڑھنے کے صلے میں خود حضورِ اکرم ،اللہ تبارک تعالیٰ سے حساب کتاب کا اختیار لے لیں گے اور شاعر کو ……بلکہ نعت خواں تو اس میں اور بھی اضافہ کرتے ہیں ……ارے تو سنتا ہے نعت جن کی…تو گویا نعت پڑھنے اور سننے والوں کو تو حساب کتاب سے ڈرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ کیوں کہ حضورV تو ہیں ہی رحمۃ للعالمین۔جنھوں نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے جانی دشمنوں کو معاف فرمادیا تھا۔بھلا وہ اپنے امتیوں کو کیوں نہ معاف فرمائیں گے! اس شعر کی توبنت بھی بہت کمزور ہے اور شعری معیارات کے حساب سے پست ہے ۔لیکن اس وقت صرف اس کے متن (Text) پر تھوڑی سی گفتگو کرنی ہے۔


اللہ تعالیٰ نے حساب کتاب کے کلی اختیار کے استعمال کی طرف سورہء فاتحہ میں ہی ’’مالک یوم الدین ‘‘ فرما کر اشارہ کردیا ہے۔ تفسیرِ ابنِ عباس ؓ میں ہے:


’’{مالک یوم الدین}قاضیِ یوم الدین و ھو یوم الحساب و القضاء فیہ بین الخلائق ‘ای یوم یدان فیہ الناس باعمالھم لا قاضی غیرہ‘‘


’’مالکِ یوم الدین ‘‘ جزاء کے دن کا مالک ہے، ساری مخلوق کا فیصلہ کرنے والا، اس دن ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ اس کے سوا اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہ ہوگا‘‘۔(۶۷)


پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہم ’’مالک یوم الدین‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:


’’کان کھول کر سن لو وہ دن آنے والا ہے جب سطوت و جبروت کے سب موہوم پیکر مٹ جائیں گے۔ اکڑی ہوئی سب گردنیں جھک جائیں گی۔ ظاہر و باطن میں اسی کی فرما نروائی ہوگی جو حقیقی فرماں روا ہے…کتنی افسوسناک حقیقت ہے کہ وہ امت جس کے دین کے بنیادی عقائد میں روزِجزاء پر ایمان لانا ہے۔ میدانِ عمل میں اس کی غالب اکثریت میں اس ایمان کا کوئی اثر محسوس نہیں کیا جاتا۔ وہ روز حساب اور مکافاتِ عمل کے قانون سے یوں غافل ہیں گویا کسی نے انھیں یہ بات بتائی ہی نہیں‘‘۔(۶۸)


اب ذرا سوچییے:قرآنِ کریم کی پہلی سورۃ ’’ا لفاتحۃ‘‘کی تیسری آیت تک اگر شاعر نہ سمجھتا ہو ، یا جان بوجھ کر اس کو نظر انداز کررہا ہو،تو کیا اسے نعت کہنے کا کوئی حق ہے؟؟؟


علامہ اقبال کو حضورِ اکرم V کی ذات سے کس قدر محبت تھی ؟…اس کا اظہار ان کے منظوم اور منثور کلام میں جگہ جگہ ہوا ہے۔ ان کی محبت کے شواہد مختلف ادباء نے بھی اپنی تحریروں میں محفوظ کیے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ اقبال نے اللہ تعالیٰ سے گزارش کی تھی :

بہ پایاں چوں رسد ایں عالمِ پیر

شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر

مکن رسوا حضورِ خواجہؐ مارا

حسابِ من زِ چشمِ او نہاں گیر


(یا اللہ! جب یہ بوڑھا جہان خاتمے کو پہنچے اور ہر پوشیدہ [چھپی ہوئی]تقدیر ظاہر ہوجائے[یعنی قیامت آجائے اور ہر بندے کے پوشیدہ اعمال اس کے سامنے آجائیں]…[تو]مجھے حضرت محمد مصطفیٰ V کی جناب میں رسوا نہ کرنا…میرا حساب ان کی نگاہ سے بچا کر لینا[کہیں وہ یہ نہ کہہ دیں کہ یہ مجھ میں سے نہیں ہے، اس وقت میرا کیا حشر ہوگا؟])(۶۹)


علامہ اقبال کے مقابلے میں صائم چشتی نے کس دیدہ دلیری سے حساب کتاب کا منظر نامہ بدل ڈالا ہے۔ ایسی ہی باتوں سے عوام کے عقائد میں خلل آنے لگتا ہے۔ اس طر ح کے اشعار کی مسلسل سماعت سے وہ گناہوں پر شیر ہوجاتے ہیں۔ محافلِ نعت میں بعض علماء بھی موجود ہوتے ہیں لیکن وہ بھی یا تو نعت خواں کو داد دیتے رہتے ہیں یا خاموشی سے سنتے رہتے ہیں۔ میں نے ایک نعت خواں کو اس شعر کی معنویت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تو وہ کہنے لگے کہ ہم تو جو کلام بھی پڑھتے ہیں وہ اساتذہ کا لکھا ہوا ہوتا ہے اور صائم چشتی بھی اساتذہ میں شامل ہیں۔ گویا ہر شاعر کا کلام محض اس کی استادی کی وجہ سے ’’مستند ہے‘‘!

پیر نصیر الدین خالص صوفیانہ سرمستی میں ایک شعر میں ایسی منظر کشی کرگئے ہیں کہ ہر گناہ گار امتی کو یہ منظر کشی بہت اچھی لگتی ہے۔ نعتیہ محافل میں ان کا یہ شعر جھوم جھوم کر پیش بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن ذرا غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ شعر مبنی بر حقیقت (Fact) نہیں ہے ۔ اس میں صرف شاعرانہ سچائی (Poetic reality) اور صوفیانہ احوال کی حقیقت منعکس ہے۔نعت میں اس طرح کی احوالی شاعری سے عوام کا عقیدہ کہاں محفوظ رہ سکتا ہے؟……شعر ملاحظہ ہو:

کیوں نہ پلڑامرے اعمال کا بھاری ہو نصیرؔ

اب تو میزان پہ سرکارؐ بھی آئے ہوئے ہیں


اس شعر میں قیامت میں ہونے والا منظر پیش کیا جارہا ہے۔حال آں کہ قیامت کی آمد کا علم نہ تو جبریل ِ امین کو تھا اور نہ ہی سرکار علیہ السلام نے اس کے قیام کی کوئی مدت بتائی۔ شاعر نے اپنی دنیاوی زندگی میں ہی یہ شعر کہاتھا اور ہر شاعر اسی دنیا میں شعر کہہ سکتا ہے۔ اس دنیا میں قیامت کا واقعاتی احوال بیان کرنا کہاں تک درست ہے؟


اسی قبیل کا ایک شعر افتخار عارف نے بھی کہا ہے۔ بلکہ اس میں تو براہِ راست حضورِ اکرم V کی ذات سے ایسی بات منسوب کردی ہے جس کا صرف تخیلاتی ھیولیٰ ہی شاعر کے ذہن میں آسکتا تھا۔

یہ سر اٹھائے جو میں جارہا ہوں جانبِ خلد

مرے لیے مرے آقاؐ نے بات کی ہوئی ہے(۷۰)


عام طور سے کسی دنیاوی عہدہ دار سے کسی کو کوئی کام نکلوانا ہوتا ہے تو وہ کسی بڑے آدمی سے سفارش کروادیتا ہے ۔اس طرح کام کے اگلے مرحلے اس آدمی کے لیے آسان ہوجاتے ہیں۔ افتخار عارف صاحب نے بھی اللہ اور رسول اللہ Vکے معاملات کو دنیاوی افسرشاہی کے تناظر میں دیکھا اور بیان کردیا ہے۔ حال آں کہ یہ صرف شاعرانہ بیان ہے۔ اس میں Poetic reality تو ہے لیکن واقعاتی سچائی کا اس شعر سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ آرزو کرنا ہر آدمی کا حق ہے لیکن آرزو کو واقعہ بنا کر نبیِ کریم علیہ السلام سے منسوب کردینا بہت بڑی جسارت ہے۔


دنیائے فانی سے گزرجانے کے بعد کا احوال بیان کرنے والے شعراء کے بارے میں عندلیب شادانی نے لکھا تھا:


’’معاد کا عقیدہ تو اکثر مذاہب میں پایا جاتا ہے لیکن قیامت کب آئے گی اس کی تعیین کسی نے نہیں کی…ہمارے شعراء خصوصاً چوٹی کے غزل گوجس درجہ حساس واقع ہوئے ہیں ، وہ ظاہرہے۔بھلا ان سے اس غیر معین حالت کی برداشت کہاں ممکن تھی اور وہ کب تک انتظار کرسکتے تھے۔اس لیے انھوں نے اپنی خیالی دنیا بنائی اور اس دنیا میں پہنچنے کے لیے فرضی طور پر یا تو جلاد محبوب کی چھری سے ہلاک ہوئے یا پھر اس کے جورو ستم کے باعث ایڑیاں رگڑ رگڑ کے جان دیدی۔پھر قیامت قائم کی۔حشر و نشر کے سامان ہوئے ۔خدائی دربار سجایا اور داورِ محشر کے سامنے فریادلے کر پہنچے۔چوں کہ یہ حضرات شاعر ہونے کی حیثیت سے گویا ایک ہی ’’امت‘‘ کے افراد ہیں۔اسی لیے حشر میں سب کو تقریبا ًایک ہی قسم کے واقعات پیش آتے ہیں‘‘۔(۷۱)


نعت کی دنیا میں شعراء کا محبوب(V) سے کوئی تنازع ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بس توقعات ہوتی ہیں، امیدِ شفاعت ہوتی ہے۔ اس لیے شعراء اپنے حینِ حیات ہی قیامت قائم کرکے اپنی خواہشات کی روشنی میں ایک ماحول تخلیق(Create) کرلیتے ہیں۔


چلتے چلتے ایک نکتہ اور پیش کردوں۔میرے کرم فرما احمد صغیر صدیقی صاحب نے احسان اکبر کی نعتیہ شاعری پر لکھا ہوا ، میرامضمون دیکھ کر کچھ اعتراضات فرمائے تھے۔ تمام اعتراضات کے جواب دینے کا وقت نہیں ۔ یہاں صرف ایک شعر کے حوالے سے وضاحت مطلوب ہے۔میں نے عرض کیا تھا ملاحظہ فرمائیے حضرت احسان اکبر نے دین کو کس انداز سے دنیا کے درد کا مرہم قرار دیا ہے۔

کام کمال کر امت والا، نام دلوں کی راحت والا

دیں دنیا کے درد کا مرہم صلی اللہ علیہ وسلم


اس پر جناب احمد صغیر صدیقی نے لکھا:


’’دیں دنیا‘‘ کیسا لگ رہا ہے۔ یہ آسانی سے ’’دنیا و دیں ‘‘ لکھا جاسکتا تھا۔ اس سے سلاست پیدا ہوجاتی ہے اور ’’دیں دنیا‘‘ کا مفہوم دین دنیا سے الگ ہے یہ بھی دیکھیں‘‘ (۷۲)

یہاں جناب احمد صغیر صدیقی سے شعر کا مطلب سمجھنے میںکچھ کوتاہی ہوئی ہے ۔ ان کے تجویزکردہ الفاظ ’’دنیا و دیں‘‘ کے استعمال سے مفہوم بھی بدل جاتا ہے یعنی اس طرح پڑھنے سے ’’دین‘‘ بھی محتاج ِ مرہم ٹھہرتا ہے۔ علاوہ ازیں دنیا کا الف بھی گرجاتا ہے۔ جب کہ شعر کا اصل مفہوم یہ ہے کہ ’’دین ہی دنیا کے تمام دکھوں کا علاج ہے‘‘۔علامہ اقبال نے کہا تھا:

از کلیدِ دیں، درِ دنیا کشاد ہم چو از بطنِ امِ گیتی نزاد


(آپV نے دین کی کنجی سے دنیا کا دروازہ کھولا۔زمانے کے بطن سے آپV جیسا کوئی بھی پیدا نہیں ہوا) (۷۳)


تنقیدی نکات بے پایاں ہیں۔ عیبِ طولِ کلام سے بچنے کے لیے صرف یہ درخواست کرکے ، رخصت چاہوں گا کہ نعتیہ ادب میں تنقیدی نقوش دیکھنے کی خواہش ہو تو نعت رنگ میں شائع ہونے والے میرے مضامین کے علاوہ ،رشید وارثی، ڈاکٹر اشفاق انجم اور ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی ، مولانا کوکب نورانی وغیرہم کے مضامین دیکھے جاسکتے ہیں۔

مآخذ و منابع:

۱۔سحر وساحری(قارئینِ ادب کی عدالت میں)، ص ۴۶ ۲۔ایضاً،ص ۴۸ ۳۔ایضاً،ص۴۸

۴۔ایضاً،ص۵۰ ۵۔ایضاً،ص۵۰ ۶۔ایضاً،ص۵۱ ۷۔ایضاً،ص۵۱

۸۔ایضاً،ص۵۴ ۹۔ایضاً،ص۵۴ ۱۰۔ایضاً،ص۵۵ ۱۱۔ایضاً،ص۵۸

۱۲۔ ایضاً ، ص ۶۰ ۱۳۔ایضاً،ص۶۱ ۱۴۔ایضاً،ص۶۲ ۱۵۔ایضاً،ص۶۲

۱۶۔ایضاً،ص۶۲ ۱۷۔ بت خانہ شکستم من، ص۱۵۵ ۱۸۔ایضاً ۱۹۔ایضاً

۲۰۔ایضاً ۲۱۔ایضاً ۲۲۔ایضاً ۲۳۔ایضاً

۲۴۔ایضاً ۲۵۔ردِ عمل، ص ۲۶۵ ۲۶۔ایضاً،ص۲۶۶ ۲۷۔ایضاً،ص۲۶۷

۲۸۔ایضاً،ص۲۷۱ ۲۹۔ایضاً،ص۲۷۲ ۳۰۔ایضاً،ص۲۷۳ ۳۱۔ایضاً،ص۲۷۳

۳۲۔جستجو، ص۱۰۷ ۳۳۔ایضاً،ص۱۱۱ ۳۴۔ایضاً،ص۱۱۲ ۳۵۔ ولائے رسولؐ، ص۲۵

۳۶۔ایضاً،ص۱۳ ۳۷۔ زبور حرم، ص ۱۶ ۳۸۔ایضاً،ص۱۷ ۳۹۔ایضاً،ص۱۵

۴۰۔ایضاً،ص۱۸ ۴۱۔ اللہ کی سنت، ص ۱۲ ۴۲۔ فروغِ نوا (مجموعہء نعت)، ص ۱۱ ۴۳۔ایضاً،ص۱۱ ۴۴۔ایضاً،ص۱۵ ۴۵۔ایضاً،ص۲۲

۴۶۔ اردو زبان میں نعت گوئی کا فن اور تجلیات، ص۱۲ ۴۷۔ایضاً،ص۱۲ ۴۸۔ایضاً،ص۲۷

۴۹۔ایضاً،ص۲۰ ۵۰۔ایضاً،ص۳۳ ۵۱۔ایضاً،ص۴۱ ۵۲۔ایضاً،ص۴۲

۵۳۔ایضاً،ص۸۰ ۵۴۔نعت اور تنقیدِ نعت،،ص۲۱۹ ۵۵۔ایضاً،ص۲۱۹

۵۶۔سرودِ نعت،ص ۱۱۶ ۵۷۔ایضاً،ص۱۲۰ ۵۸۔ایضاً،ص۹۷ ۵۹۔ایضاً،ص۱۰۰

۶۰۔ایضاً،ص۱۲۹ ۶۱۔اردو میں نعت گوئی، چند گوشے،ص۱۱۹ ۶۲۔ نعت میں کیسے کہوں،ص۱۶۸

۶۳۔شمائم النعت، ص ۱۹۴ ۶۴۔ایضاً،ص۱۹۵ ۶۵۔ایضاً،ص۱۹۵ ۶۶۔ ایضاًص۱۹۶

۶۷۔تفسیرِ ابنِ عباسؓ، ترجمہ :مولانا شاہ محمد عبدالمقتدر قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ

۶۸۔ ضیاء القراٰن، جلد اول، ص۲۳ ۶۹۔ ارمغانِ حجاز، ص15 ، رباعی 11

۷۰۔مطبوعہ: ن۔ر۔۲۵، ص۸۲۸ ۷۱۔ دورِ حاضر اور غزل گوئی، ص۷۹

۷۲۔ن۔ر۔۲۲، ص۵۵۱ ۷۳۔ اسرارو رموز،ص۳۳

کتابیات:

٭ تفسیرِ ابنِ عباسؓ، ترجمہ :مولانا شاہ محمد عبدالمقتدر قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ

٭ پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ ، ضیاء القراٰن، جلد اول، ص۲۳

٭ اقبال،علامہ ،ارمغانِ حجاز، ترجمہ: ڈاکٹر الف۔د۔نسیم، شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور، ص15 ، رباعی 11

٭ ا قبال،علامہ ،اسرارو رموز،شیخ محمد بشیراینڈ سنز،لاہور، ص۳۳

٭ اقبال جاوید،پروفیسر، نعت میں کیسے کہوں،نعت ریسرچ سینٹر، بیأ۵۰، سیکٹر ۱۱۔اے، نارتھ کراچی، کراچی، جنوری ۲۰۰۹ء

٭ اقبال عظیم، زبور حرم، نعت ریسرچ سینٹر، نارتھ کراچی، کراچی، اشاعتِ دوم: ۲۰۱۰ء

٭ امیر حسنین جلیسی، بت خانہ شکستم من،ادبی معیار پبلی کیشنز، صدر کراچی، اشاعتِ اول:جنوری ۱۹۸۳ء

٭ امین راحت چغتائی، محرابِ توحید، بک سینٹر، راوپپنڈی، طبع دوم:۲۰۰۹ء

٭ تحسین فراقی،ڈاکٹر، جستجو، یونیورسل بکس، اردو بازار، لاہور،بار دوم:۱۹۸۷ء

٭ جمیل نظر، ایقان، جمیل نظر فاؤنڈیشن، ایف بی ایریا، کراچی، ۱۹۹۴ء

٭ رئیس احمد نعمانی، فروغِ نوا، مجلسِ مطالعاتِ فارسی، علی گڑھ، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ۲۰۲۰۰۲، اشاعتِ اول: ۱۴۳۰ھ؍۲۰۰۹ء

٭ سراج احمد قادری، ڈاکٹر،شنائم النعت، ادب کدہ۔محلہ بنجر یا پچھمی، خلیل آباد، صلع سنت کبیر نگر، بھارت، اشاعت اول:ـجنوری ۲۰۰۹ء

٭ شفقت رضوی،اردو میں نعت گوئی، چند گوشے، جہانِ حمد پبلی کیشنز، لیاقت آباد، کراچی، ۲۰۰۲ء

٭ صبیح رحمانی ، نعت رنگ…شمارہ۲۲

٭ ……نعت رنگ …شمارہ ۲۵

٭ عندلیب شادانی، ڈاکٹر، دورِ حاضر اور غزل گوئی، (شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور) ۱۹۵۱ء

٭ قمر رعینی، ولائے رسول، کتاب ساز پبلی کیشنز، راولپنڈی، باراول:۲۰۰۲ء

٭ کشفی،ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر،۔نعت اور تنقیدِ نعت،نعت ریسرچ سینٹر، کراچی، ۲۰۰۹ء

٭ مسلم ، ابوالامتیاز ع۔س۔مسلم، سرودِ نعت، الحمد پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۰ء

٭ منظر عارفی، اللہ کی سنت، سخن پبلی کیشنز(ادبی تنظیم)، شارہ فیصل کالونی، کراچی، اشاعتِ اول: جنوری،۲۰۰۹ء

٭ وحید اشرف ،ڈاکٹرسید،کچھوچھوی، اردو زبان میں نعت گوئی کا فن اور تجلیات، اربابِ حلقہ ذکر سلسلہ اشرفیہ ،بڑودہ (بھارت)،باراول:۲۰۰۱ء

٭٭٭


ڈاکٹر خالد ندیم (سرگودھا): اُردو نعت میں صنعتِ تلمیح

ABSTRACT: Some technical words are used in poetics for different stylistic expressions, the word 'Talmee' is one of those words that is used to decorate poetry by using different languages in a couplet or in one line of a stanza. This article discusses use of Talmee by different poets in Urdu. This type of use of languages is tantamount to express craftsmanship of a poet in a skillful manner. Such experiments are seen in the poetry of experts of languages who equally possess masterly command over poetic expression. Ahmad Raza Brailvi (R.A) was one of those poets who possessed high quality of such expressions in his Naatia poetry.


تلمیع، علم بدیع کی ایک صنعت ہے۔ تلمیع کو ملمع بھی کہتے ہیں۔ شان الحق حقی لفط ’ملمع‘ کے معنی ’چمکایا ہوا‘ لکھتے ہیں اور یہ کہ ’جس پر سونے یا چاندی کا پانی پھیرا گیا ہو‘؛ جب کہ صنعت ملمع کو ’نظم میں دو مختلف زبانوں کے ملے جلے مصرعوں یا ٹکڑوں کی پیوند کاری‘ قرار دیتے ہیں۱؎، اسی طرح قاضی عبدالقدوس عرشی ڈبائیوی کے نزدیک ’رنگ برنگ کے نقطے لگانا‘ اور ’کلام میں ایک سے زیادہ زبانوں کو جمع کرنا‘ تلمیع کہلاتا ہے۲؎۔ یہی وجہ ہے کہ تلمیع کو ’ذولسانین‘ یا ’ذو لغتین‘ بھی کہا جاتا ہے۔


صنعت تلمیع کی ابتدائی مثالیں فارسی میں ملتی ہیں۔ جب عربی تراکیب فارسی شاعری کا حصہ بننے لگیں تو اس عمل کو تلمیع سے تعبیر کیا گیا۔مولوی نجم الغنی رامپوری کے مطابق، ’یہ صنعت اس طرح پر ہے کہ کلام میں زبان ہاے مختلف کو جمع کر دیں‘،۳؎ چناںچہ ’تلمیع‘ شعر و سخن کی وہ صورت قرار پاتی ہے، جس میں ایک مصرعے کے دو حصے دو مختلف زبانوں پر مشتمل ہوں یا ایک شعر کے دو مصارع یا ایک بند کے مختلف مصارع یا اشعار میں مختلف زبانیں جمع کر دی جائیں؛ یعنی کسی مصرعے کا نصف اوّل ایک زبان میں اور نصف آخر دوسری میں یا ایک شعر کے دو مصارع مختلف زبانوں میں یا پھر کسی کا ایک بند کے مختلف مصارع مختلف زبانوں میں ہوں۔


پروفیسر انور جمال کے خیال میں ’تلمیع وہ صنعت ہے، جس کو شعرا نے قادر الکلامی کے اظہار کے لیے شعوری طور پر اپنایا‘۔ یقینا یہ کام وہی شاعر کر سکے گا، جسے کم سے کم دو زبانوں پر مکمل دسترس ہو اور جو دو یا زائد زبانوں کو ایک بحر میں جمع کر سکے؛ چناںچہ پروفیسر صاحب کے خیال میں، ایسا شاعر اپنی طبعِ رواں کو جس طرح چاہے، کامرانی کے ساتھ لے جا سکتا ہے۴؎؛گویا تلمیع علمِ بدیع کی ایک ایسی صنعت ہے، جس کے تحت شعری ضرورتوں اور فنی پختگی کے اظہار کے لیے ایک مصرع، شعر یا بند میں ایک سے زائد زبانوں کو جمع کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں واضح رہنا چاہیے کہ یہ مشق تفننِ طبع سے تعلق نہیں رکھتی، جیسا کہ بالعموم سرکاری یا قومی زبانوں میں علاقائی زبانوں کے الفاظ یا مرکبات یا جملے محض مزاح پیدا کرنے یا ان کی تحقیر کے لیے شامل کیے جاتے ہیں؛ جب کہ تلمیع کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ مختلف زبانوں پر شاعر کی گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ وہ تخلیقی لمحات میں مختلف زبانوں کو تخلیقی شان سے استعمال کر سکتا ہے۔ اپنے کلام میں دیگر زبانوں کے اجزا شاعر کے طبع زاد ہوں تو تلمیع کہلائیں گے، ورنہ دیگر شعرا کے مصارع یا اشعار کو اپنے کلام کا حصہ بنانا تضمین کہلاتا ہے۔ کسی کلام میں آیاتِ قرآنی یا احادیث کے اجزا کی شمولیت بھی تلمیع نہیں، بلکہ ایسے الفاظ یا مرکبات کو اقتباس کا نام دیا جاتا ہے۔ صنعت تلمیع کو برتنا سہل نہیں، کیوں کہ مختلف زبانوں پر عبور ہونے کے باوجود اُن سب کو ایک معیار سے اپنے کلام میں استعمال کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔


فارسی شاعری میں قرۃ العین طاہرہ نے صنعت تلمیع کے حوالے سے بڑی شہرت حاصل کی۔ فارسی قصائد اور مراثی میں بالخصوص تلمیع کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں۔ مولانا جامی کی ایک نعت کا مطلع اور مقطع دیکھیے، جن کا مصرعِ اولیٰ فارسی اور مصرعِ ثانی عربی میں ہے:

اے کہ دَرَت کعبۂ اربابِ نجات

قبلتی وجہک فی کل صلات

جامی از درد تو جاں داد و نگفت

فہو ممن کتم العشق عمات۵؎


اس کی ایک بہترین مثال درج ذیل معروف نعتیہ قطعے سے دی جاسکتی ہے، جس کا آخری مصرع فارسی میں ہے:

یا صاحب الجمال و یا سید البشر

من وجہک المنیر لقد نور القمر

لا یمکن الثناء کما کان حقہٗ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۶؎


اُردو شعر و ادب میں اس کا آغاز حضرت امیر خسرو سے ہو گیا تھا اور مختلف ادوار میں بعض نمایاں شعرا نے اس پر توجہ دی ہے۔ جن شعرا نے اس صنعت کو برتا ہے، ان میں سے بعض کے ہاں سے مثالیں پیش کر کے اس صنعت کی روایت اور اس کے امکانات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔


دو یا زائد زبانوں کو یکجا کرنے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں، چناںچہ ان مختلف انداز ہاے تلمیع پر ذیل میں مثالوں کے ذریعے سے گفتگو کی جاتی ہے۔ اگر ایک شعر میں دو زبانیںجمع کی جائیں تو اسے ’ملمع مکشوف‘ کہتے ہیں، جیسا کہ مولوی سلامت اللہ کشفی کے ہاں مصرعے کا نصف اوّل اردو میں ہے اور نصف آخر فارسی میں ، مثلاً:

کیا نورِ خدا از رُخِ خوبِ تو عیان ست

کہتے ہیں اسی رَو سے عیان راچہ بیان ست

کیا یوسفِ مصری ہے نظیرِ شہِ بطحا؟

وہ چشم کہاں اور کہاں جانِ جہان ست

یہ صورتِ حق ہے کہ مصور بہ بشر شد

اس کا ہی ظہور ، ایں ہمہ در کون و مکان ست۷؎


تلمیع کی ایک قسم’ملمع مکشوف‘ ہے، جس کے تحت ایک شعر کاایک مصرع ایک زبان میں ہوتا ہے تو دوسرا دوسری زبان میں، مثلاً علامہ شبلی نعمانی کی نظم ’تعمیر مسجد نبوی‘ کا آخری شعر دیکھیے:

صلّوا علی النبی و اصحابہ الکرام

اس نظمِ مختصر کا یہ مسک الختام ہے۸؎


پروانہ شاہ پوری (۱۹۴۲ء) نے اپنی ایک نعت میں اردو اور پنجابی زبانوں کو اس طور برتا ہے کہ مصرعِ اولیٰ اردو اور مصرعِ ثانی پنجابی زبان میں ہے: جب بھی عشاق مدینے کا سفر کرتے ہیں

میرے جذبے وی کریندے نیں اَڑی جاوَن دی

میرے جذبے وی کریندے نیں اَڑی جاوَن دی

اُن کے قدموں کی شبیہوں پہ رکھوں اپنی جبیں

میری اکھیاں چوں لگی ہووے جھڑی ساوَن دی

خاکِ بطحا میں مِری خاک بھی پنہاں کر دے

مینوں مشکل ہے جدائی دی بھری چاون دی

اُن کے دربار میں اِک بار اگر جا پہنچوں

مُڑ کے آوے نہ کدی مُڑ کے گھڑی آوَن دی ۹؎


صنعت تلمیع میں مولانا احمد رضا خاں بریلوی کا نام بھی شامل ہے، کیوںکہ انھوں نے اپنی ایک نعت میں عربی، فارسی، ہندی اور اردو کو جمع کیا اور مستزاد یہ کہ نعت کی تخلیقی شان میں بھی اضافہ کر دیا۔ ترتیب یہ ہے کہ مصرعِ اولیٰ میں عربی اور فارسی اور مصرعِ ثانی میں ہندی اور اردو یا ارد و اور ہندی۔ ملاحظہ کیجیے:

لَمْ یَاتِ نَظِیْرُکَ فِیْ نَظْرٍ ، مثلِ تُو نہ شُد پیدا جانا

جگ راج کو تاج تورے سر سوہے ، تجھ کو شہِ دوسرا جانا

اَلْبَحْر عَلَا وَ الْمَوْجُ طَغٰی ، من بیکس و طوفاں ہوش رُبا

منجدھار میں ہوں ، بگڑی ہے ہَوا ، موری نیّا پار لگا جانا

یَا شَمْسُ نَظَرْتِ اِلیٰ لَیلی ، چو بطیبہ رسی عرضے بکنی

توری جوت کی جھل جھل جگ میں رچی ، مِری شب نے نہ دِن ہونا جانا

لَکَ بَدرٌ فِی الْوَجْہِ الْاَجْمَلْ ، خط ہالہ مہ زلف ابر اجل

تورے چندن چندر پروکنڈل ، رحمت کی بھرن برسا جانا

اَنَا فِیْ عَطَشٍ وَّ سَخَاکَ اَتَمْ ، اے گیسوے پاک ، اے ابرِ کرم

برسن ہارے رم جھم رم جھم ، دو بوند اِدھر بھی گرا جانا

یَا قَافِلَتیْ زَیْدِی اَجَلَکْ ، رحمے بر حسرت تشنہ لبک

مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا

وَاھا لِسُوِیْعَاتٍ ذَھَبَتْ ، آں عہد حضور بارگہت

جب یاد آوت موہے کر نہ پرت ، دردا وہ مدینہ کا جانا

اَلْقَلْبُ شَجٌ وَّالَھُمَّ شَجُوْں ، دل زار چناں جاں زیر چنوں

پت اپنی بپت میں کا سے کہوں؟ مورا کون ہے تیرے سوا جانا

اَلرُّوْحُ فِدَاکَ فَزِدْ حَرْقًا ، یک شعلہ دگر بر زن عشقا

مورا تن من دھن سب پھونک دیا ، یہ جان بھی پیارے جلا جانا ۱۰؎


مفتی غلام رسول قاسمی (پ: ۱۹۵۸ء) کا نعتیہ مجموعہ کلام’خیر الکلام فی مدح سید الانام علیہ الصلوٰۃ و السلام‘ اردو، عربی، فارسی، پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو اور انگریزی پر مشتمل ہے۔ ان کی ایک نعت۱۱؎، جس کا ہر شعر الگ الگ زبان میں کہا گیا ہے اور شاعر کا کمال یہ ہے کہ تمام اشعار ایک ہی بحر میں ہیں، حتیٰ کہ انگریزی شعر بھی اسی بحر میں کہا گیا ہے:

ست مکاں دے لامکان و ہر مکاں

ہر کلہ راشہ مکینِ لامکاں

سامنے آئے حقیقت منتظر

چھوڑیے اندیشہ سود و زیاں

قَدْ تَنَوَّرَ حُسْنُہٗ فِی الْعَالَمِیْن

مَھْدُہٗ عَرْشٌ سَطِیْحٌ فِی الْجَنَاں

چھیڑیاں نیناں دے پیالے چھلکدے

گیڑیاں کھول تے جھلاراں روندیاں

مال و جانِ ما فداے رُوے تُو

دشمنِ ما پردہ ہاے درمیاں

مَیں گولیندی ہاں مٹھل منٹھار کوں

در بدر ٹکراں تے ٹھیڈے کھاندی آں

قاسمی جي شان تنہجي شان ساں

انھیں کے چمکائی چڈ یو آلواں

Last Messanger appeared in paran

Never ending Pease be on that drawn


درج بالا مثالوں کے علاوہ بھی متعدد شعرانے تلمیع سے کام لیا ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ علمِ بدیع کی یہ صنعت زیادہ معروف نہ ہو سکی۔ پروفیسر انور جمال کے مطابق، ’وجہ اس کی یہ ہے کہ تخلیقی دباؤ، تجربے کے mature ہوئے بغیر محض قصد و آہنگ سے stress کے تحت لکھی جانے والی شاعری وقیع نہیں ہو سکتی‘۔ ۱۲؎


اردو میں صنعت تلمیح کی اوّلین مثال حضرت امیر خسروـؒ کے ہاں ملتی ہے اور وہ ایسی مثال ہے، جو کلاسیک کا درجہ اختیار کر چکی ہے:

ز حالِ مسکیں مکن تغافل دو راے نیناں بنائے بتیاں

کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں! نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں۱۳؎


لیکن اسے امیر کا رنگِ سخن نہیں کہہ سکتے۔ اگرچہ اردو کے بعض صف اوّل کے شعرا کے ہاں بھی تلمیع کی مثالیں مل جاتی ہیں، لیکن تلمیع کی موجودگی کا سبب زیادہ تر پختگی فن کے اظہار سے ہے ۔ اس حوالے سے سب سے خوب صورت مثال مولانا احمد رضا خاں بریلوی کی مذکورہ بالا نعت میں ملتی ہے، جس میں چار زبانوں کو جمع کیا ہے، لیکن وہ بھی اس عمل کو محض احباب کی فرمائش قرار دیتے ہیں اور اسے اپنا کمال نہیں سمجھتے :

بس خامۂ خام نواے رضا! نہ یہ طرز مِری ، نہ یہ رنگ مِرا

ارشادِ احِبّا ناطق تھا ، ناچار اس راہ پڑا جانا ۱۴؎


یہ درست کہ یہ صنعت پنپ نہ سکی، لیکن اگر اس کی اہمیت کے پیش نظر عربی و فارسی زبانوں کے ساتھ ساتھ برصغیر کی دیگرادبی زبانوں کے جملے اور مرکبات بھی اردو شعر و سخن کا حصہ بننے لگیں تو اردو زبان ارتقا کے ایک نئے دَور میں داخل ہو سکتی ہے۔

حوالے:

۱۔ شان الحق حقی: فرہنگِ تلفظ، اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان، ۲۰۰۸ء سوم، ص ۳۱۶

۲۔ عبدالقدوس عرشی ڈبائیوی، قاضی: اصنافِ ادب اور علمِ بیان و علمِ بدیع، لاہور: مکتبہ عالیہ، ۱۹۹۱ء، ص ۷۲

۳۔ نجم الغنی رامپوری، مولوی: بحر الفصاحت، جلد ششم ہفتم، لاہور: مجلس ترقی ادب، ۲۰۱۱ء، ص۱۴۰

۴۔ انور جمال، پروفیسر: ادبی اصطلاحات، اسلام آباد: نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۲۰۱۵ء، ص۸۳

۵۔ جامی، عبدالرحمن: کلیاتِ جامی، لکھنؤ: مطبع نول کشور، س ن، ص ۱۶۷

۶۔ ان اشعار کے ساتھ شیخ سعدی، عبدالرحمن جامی یا شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی کا نام لیاجاتا رہا ہے اور ا ب تو حافظ شیرازی اور عبدالحق محدث دہلوی کا نام بھی لیا جانے لگا ہے، البتہ ڈاکٹر نجم الاسلام کے مطابق [ابھی تک] ’یہ امر تحقیق طلب ہے‘۔ (تحقیق، شمارہ ۱۰-۱۱، ۱۹۹۶ء-۱۹۹۷ء، ص ۹۰۲)

۷۔ بحوالہ مولوی نجم الغنی رامپوری: بحر الفصاحت، محولہ بالا ۳، ص ۱۴۳

۸۔ شبلی نعمانی: کلیاتِ شبلی اردو، اعظم گڑھ: دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی، ۲۰۰۷ء، ص ۴۸

۹۔ پروانہ شاہ پوری: نعت (قلمی) مخزونہ عابد خورشید (سرگودھا)

۱۰۔ احمد رضا خاں بریلوی، مولانا:حدائق بخشش، کراچی: مکتبہ المدینہ، ۲۰۱۲ء، ص۴۳

۱۱۔ بحوالہ شاکر کنڈان: نعت گویانِ سرگودھا، سرگودھا: ادارہ فروغِ ادب پاکستان، ۲۰۰۶ء، ص ۴۸۱-۴۸۲

۱۲۔ انور جمال، پروفیسر:ادبی اصطلاحات، محولہ بالا ۴، ص۸۳

۱۳۔ بحوالہ ڈاکٹر جمیل جالبی: تاریخِ ادب اردو جلد اوّل، لاہور: مجلس ترقی ادب لاہور، ۱۹۹۵ء، ص ۲۸

۱۴۔ احمد رضا خاں بریلوی، مولانا: حدائق بخشش، محولہ بالا ۱۰، ص۴۴

٭٭٭


پروفیسر انوار احمد زئی: انتقادی اسالیب اور صنفِ نعت=

ABSTRACT: The article sheds light on literary movements focusing creative and critical activities in the world. Structuralism, Modernism, Progressive movement , Deconstruction and Ontological theories have also come into discussion. Hali, Shilbi, Muhasmmad Hussain Azad to Mirajee and Muhammad Hsaan Askari 's critical patterns also came into reference besides creative and critical writings in the realm of Naatia domain.


ماضی قریب کی بات ہے کہ نعت کو تبرکاً کتاب کے ابتدائی صفحات میں شائع کیا جاتا تھا تاکہ مصنف کے عقیدے اور دین کے ساتھ ساتھ ختمی مرتبت ؐ سے اس کی عقیدت کا اشارہ بھی مل سکے۔ مگر پھربات آگے بڑھی اور خوشبوئے حسانؓ سے ایوانِ ادب مہک اٹھا۔ نعت کو اس مقام پر لانے کا دعویٰ کسی کو زیب نہیں دیتا اس لیے کہ خالق کائنات جس کا ذکر بلندکرنے کا اعلان کرے اس کے نام کا چرچا بہرطور بہرصورت ہونا ہی ہے اور نعت اس کار حسین و جمیل کا استعارہ ہے تاہم جو افراد اور ادارے اس صنف کو بطور ادبی تخصص اپنائے ہوئے ہیں انہیں تسلیم نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔ نعت کہنا عقیدت ہے مگر اسے صنف کی صورت دینا ارادت ہے۔ ان دوکیفیات کے اتصال اورارتباط کے لیے اصول و پیمانے بنانا یا انہیں برتنا اشارت ہے جس کی تفہیم، ترتیب، تنظیم اور تشکیل کی خاطر صنف نعت کے لیے باقاعدگی سے کام کرنا جزوِ عبادت ہے اس لیے اس صنف کو انتقادی اسالیب کے ذریعے سمجھنا اور پرکھنا بھی سعادت ہے۔


اس سفر میں پہلا پڑائو جہاں آتا ہے اسے صنف کی تعریف کہا جاسکتا ہے۔ ادب کے طالب علم کی حیثیت سے یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ نعت کی صنف موضوعاتی ہے اسے ہیئتی اعتبار سے محدود کرنا مناسب نہیں۔ بات کو واضح کرنے کی غرض سے کہا جاسکتا ہے کہ جہاں تک ہیئتی اعتبار سے اصنافِ ادب کا تعلق ہے تو اس کے لیے غزل اور نظم ہمارے سامنے ہیں۔ پھر نظم کو بطور مفرد صنف کے ساتھ مرکب صنف کہنا بھی نامناسب نہیں۔ اس لیے اس کی چھتری میں جو اصناف جگہ پاتی ہیں ان میں بیت، ثلاثی، رباعی، مخمس، مسدس، قطعات، مراثی، رجز، مناقب، سلام، دوہے، ہائیکو، کجری، گیت، قصائد، ہجو اور سراپے سب ہی شامل ہیں۔ مگر نعت چوںکہ موضوعاتی صنف ہے اس لیے حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت و تعریف میں جو فکر سامنے آئے وہ نعت تو ہوگی مگر شاعر نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے متذکرہ بالا اسالیب میں سے کس کا انتخاب کیا ہے یوں نعت کی موضوعاتی تشکیل صنف کا مقام پاتے ہوئے بھی نظم کی کسی صنف کا چہرہ اپنائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ قدما نے نعت کہنے کے لیے غزل کی صنف کو اپنایا۔

مرحبا سیدی مکی مدنی العربی

دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی

غزل ہی کا روپ تو ہے۔

نسیما جانب بطحا گزر کن

ز احوالم محمدؐ را خبر کن

غزل کی روایت میں نعت کی حکایت ہی تو ہے۔

جامی کے بعد خسرو اور دیگر نے یہی انداز اختیار کیا۔

نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم

بہر سو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم

ولی کہتے ہیں:

جس مکاں میں ہے تمہاری فکرِ روشن جلوہ گر

عقلِ اوّل آکے واں اقرارِ نادانی کرے

غالب کا انداز:

منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی

قسمت کھلی ترے خدو رخ سے ظہور کی

اقبال کی شعری میراث سے:

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

حفیظ جالندھری کا رنگ:

وہ جس کو فاتح ابواب اسرار قدم کہیے

بنائے عرش و کرسی باعثِ لوح و قلم کہیے


غزل کے اس آہنگ میں نعت کی صنف مرتب ہوتی رہی ہے کہ پھر ادب و شاعری میں نقد و نظر کے حوالے سے ایک انقلاب رونما ہوا۔ بدیسی حکمرانوں نے آ کر جہاں ہمارے شعری ورثے، فکری گنجینے، ادبی خزانے اور تہذیبی اثاثے کو تاراج کیا اور زبان کے ذریعے ہند کی مختلف اکائیوں کو ایک دوسرے سے لڑوانے کی داغ بیل ڈالی اور فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرائسٹ کی سرپرستی میں بظاہر تدوین لسانیات کے نام پر ایسا منظم کام سرانجام دیا جو بڑے بڑوں کی آنکھوں میں دھول جھونک گیا اور نتیجہ کے طور پر ایک جانب فارسی و عربی زبانوں کے ماہر اور عالم افراد کو انگریزی سے ناآشنا ہونے کے سبب درخور اعتنا نہ سمجھا گیا بلکہ اس وقت کی نئی نسل کو بدیسی حکمرانوں کی زبان کو سکۂ رائج الوقت قرار دے کر اپنی روایات سے دور کردیا، اس تبدیلی کے دو اثرات سامنے آئے۔ ایک عقیدے اور عقیدت کے راستے جدا جدا ہوگئے دوسری جانب تنقید کے نام پر ادبی و فکری تخلیقات کو بحور اور عروض کی پہلے سے موجود قیود سے بالاتر رہ کر تنقید کے نئے ضابطوں کا تابع کردیا گیا۔ یہیں وہ مقام آتا ہے جہاں ہمارے تین اکابرین بھی اس تبدیلی کے نہ خود شکار ہوئے بلکہ آئندہ کی وسیع تر تبدیلی کے محرک بھی بنے اور اس تمام کام کو انتقاد اور تنقید کے جدید اصولوں سے موسوم کیا گیا۔


گورنمنٹ آف پنجاب بک ڈپو کے تحت مغربی تنقید اور ادب پر مشتمل جو تصنیفات تراجم کے مراحل سے گزریں ان کی زبان درست کرنے کے لیے جن افراد کی خدمات مستعار لی گئیں وہی افراد ان تحریروں کے اسیر ہوگئے اور یوں مغربی ادب کی آدھی ادھوری سی تفہیم کے زیراثر الطاف حسین حالی، علامہ شبلی نعمانی اور محمد حسین آزاد نے مقدمہ شعر و شاعری، شعر العجم اور آبِ حیات کی سوغاتیں نذرِ طالبانِ علم اور جویانِ ادب کرڈالیں۔ ہر چند کہ یہاں سے ایک طرف تنقید کا سفر شروع ہوا جو مشرقی شعری مشروب کو مغربی جام و مینا میں پیش کیا جانے لگا۔ جبکہ دوسری جانب اردو غزل کو نظم کی سوکن سے واسطہ پڑا۔ ان حضرات کا دعویٰ تو یہ تھا کہ مغرب کی نظمیہ شاعری سے قبل اردو میں اس صنف کا وجود ہی نہ تھا حالاںکہ وہ اگر آج بھی نظیر اکبر آبادی کے خزانے کو مان لیں تو تقدیم کی منزل پر مغرب کی نظم کو متمکن نہ پائیں۔ یہی صورتحال تنقید کی افضلیت کی ہے کہ یہ اراکین ثلاثہ اسے کاملتاً مغرب کے اجارے میں ڈالتے ہیں، حالاں کہ بازارِ عکاظ کے تنقیدی ماحول سے لے کر ہمارے یہاں کے مشاعروں میں نقد و نظر کی روایات کو اور پھر شاعر کی مقبولیت سے لے کر قبولیت تک کی منازل کو تنقید کے سنگھاسن سے ہٹ کر دیکھنا سراسر مفروضیت ہی تو ہے۔ تاہم تخریب میں تعمیر کا پہلو بھی شانِ کریمی سے عبارت ہے۔ اس کشاکش سے فائدہ یہ ہوا کہ نعت کی موضوعاتی شاعری نے نظم کے مختلف اسالیب میں بھی جگہ بنالی جس کا بہترین نمونہ حالی کی مسدس مدوجزر اسلام ہے جس نے بنیاد فراہم کی تو اقبال کی پوری فکری شاعری نے جنم لیا اور جس کے خزانے اتنے وسیع اور کشادہ ہوئے کہ پورا اردو بلکہ فارسی ادب بھی ثروت مند ہوگیا۔ اسی سفر کے اگلے پڑائو پر ہم نہ صرف اردو نظم کی عظیم روایت کو تشکیل پذیر دیکھتے ہیں بلکہ حفیظ جالندھری کے ذریعے شاہنامۂ اسلام کے روپ میں اسلامی تاریخ کو منظوم دیکھ پاتے ہیں۔ پھر تو یہ ہوا کہ صبحدم دروازئہ خاور کھلا اور طبلۂ عطار نئی مہک کا علمبردار بن گیا۔ اردو ادب میں نعت رنگ کے متنوع پہلو نظم سے موسوم ہر صنف میں جلوہ گر ہونے لگے۔ یہاں تک کہ روایتی اصنافِ ادب کے ساتھ جاپانی صنف ہائیکو میں بھی نعتیں لکھی جانے لگیں۔


نعت کے اگلے انتقادی پہلو کا جائزہ لینے سے قبل ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم باور کریں کہ حالی، شبلی اور آزاد کے دور کی شاعری کی وسعت پذیر آدرشوں میں جہاں شعر کے لیے کسی وزن کی ضرورت محسوس کی گئی نہ دیگر ضابطوں کو ملحوظ رکھا گیا۔ وہیں مغرب کے ادب کی بالالتزام تفہیم کی غرض سے اور نام بھی سامنے آئے جن میں میرا جی اور حسن عسکری نمایاں ہیں۔ چوںکہ مغربی ادب کے حوالے سے ان افراد کا مطالعہ وسیع بھی تھا اور وقیع بھی، اس لیے ان حضرات نے بہت سے اشکال کو رفع کیاجو ان سے قبل آنے والی تنقیداور تشریحات کا حصہ بن گئے تھے۔ اسی باعث دیگر تنقید نگاروں نے اپنے اپنے طور پر مغربی تنقید کا مطالعہ کیا اور ڈاکٹر جمیل جالبی کو ارسطو سے ایلیٹ تک کی تحقیق پر مشتمل کتاب کو سامنے لانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔یہ کام بلاشبہ پھیلا ہوا بھی ہے اور فکری اعتبار سے گہرائی و گیرائی آمادہ بھی۔مگر اہل علم جانتے ہیں کہ اس کام سے بہت پہلے میرا جی کی کتاب ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ جمیل جالبی کے بسیط کام کی بنیادرکھ چکی تھی۔ ان کاموں کا اثر یہ ہوا کہ ہمارا ناقد مغرب کے ان ہی پیمانوں میں الجھ گیا اور وہ مشرق کی ہر تخلیق کو مغرب کے تنقیدی اسکیل سے ناپنے لگا۔ استثنیٰ اپنی جگہ تاہم ہمارے دور کے تمام بڑے ناقدین نے یہ انداز اپنالیا کہ وہ اپنی تحریر کا آغاز ارسطو، ایلیٹ، ٹالسٹائی، ایذرا پائونڈ، کارلائل اور روسو سے کرنے لگے۔ ان کا یہ کام مجرمانہ نہ بنتا اگر وہ اپنے اوقاتِ کار میں ان ہی کے دور میں کہی جانے والی نعت کوبھی اپنے احاطۂ نقد و نظر میں سماتے رہتے۔ مگر ان کی یہ غفلت انہیں مغرب زدگی کے الزام سے تو نہ بچاسکی مگر ساتھ ہی عدل و انصاف کے ان تقاضوں سے بھی دور کرگئی جن کے ذریعے وہ خود کو عصری تہذیب اور سماجی تنظیم کو سمجھنے کے داعی گردانتے تھے۔ اسی دوران جدیدیت اور وجودیت کی تحریکیں سامنے آگئیں۔ کانٹ، برگساں اور ہیگل کے فلسفے رونما ہونے لگے جو خدا کو ماننے میںمتعامل تھے اور کائنات کی تخلیق کے قائل ہونے کے باوجود ان کے خالق کے قائل ہونے میں تردد کا اظہار کرتے تھے۔ اسی دوران ہمارے یہاں ترقی پسند تحریک کا اجراء ہوا اور یوں ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی کے نام پر رازق سے بھروسہ اٹھانے اور رزق کو مساویانہ بانٹنے کا گمراہ کن نعرہ لگانے والوں کو ترقی پسند اور باقیوں کو رجعت پسند کہا جانے لگا۔ ظاہر ہے ایسے میں ہمارا نقاد جو خود کو دوسروں سے ممتاز، بڑا اور ہدایت دینے والا سمجھتا تھا وہ اپنے پوڈیم سے نیچے کیسے آتا اور نعت کی صنف پر اظہار خیال کر کے اپنے خودساختہ ادبی الحمرا سے باہر کیوں نکلتا۔


یہاں آکر ایک بات کا احساس شدید تر ہوتا ہے کہ مغرب نے نہایت عمدگی سے، چالاکی سے اور ذہانت سے ہمارے ادبی ماحول میں مختلف تحریکات کے ڈول ڈال کر ہمارے نقادوں کو ان کا اسیر بنایا تاکہ وہ ہر اس تخلیق اور نگارش کی نفی کریں یا کم از کم درخوراعتناء نہ سمجھیں جو عقیدت کے سفر سے آراستہ ہو۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ جس طرح مغرب نے مشنری اسکولوں اور مشنری صحت کے اداروں کے ذریعے یہاں کے سادہ لوح افراد کو پہلے تو اپنے مذہب سے قریب کرنے کی کوششیں کیں اور پھر یہ اصول برتا کہ اگر مقامی افراد ان کی طرف نہ آسکیں تو کم از کم اپنے عقائد سے بھی دور ہوجائیں یا ان کے لیے شک و شبے کا اظہار ہی شعارِ حیات بنالیں۔ اس طرزِ ادا نے ہمارے ادب کو راہِ راست سے دور کیااور نقاد کو صراطِ مستقیم سے ناآشنا۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ان تحریکات کے جلو میں جہاں دین سے بے بہرہ اور عقیدے سے دور ملحدین نے جنم لیا وہاں فرعون کے گھر میں موسیٰ بھی موجود رہے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ سید حسن عسکری جیسے نقاد نے ترقی پسند تحریک کوللکارا تو دوسری طرف نعت رنگ جیسے تحقیقی، عالمی، نظریاتی اور فکری پرچے کو تسلسل سے شائع کر کے سید صبیح رحمانی اور ان کی ٹیم نے یہی نعرہ لگایا کہ

اگرچہ بت ہیں جماعت کے آستینوں میں

مجھے ہے حکمِ اذاں لا الٰہ الا اللہ


اسی طرح دیگر افراد و ادارے مثلاً طاہر سلطانی کی نگرانی میں مجلہ حمد اور ماہانہ حمدیہ مشاعرے یا قمر وارثی کی ماہانہ ردیفی مجلسیں اس تحریک میں مہمیز کی دلیل ہیں۔ اس ماحول کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ ان تحریکات میں سب سے زیادہ متحرک اور متاثرکن تحریک کیا ہے جس کا نام وجودیت ہے اور جو دراصل جدیدیت کی ماں اور منصوبے کے تحت علامتی طرز ادا کی نانی کہلائی جاسکتی ہے۔ اس موضوع پر معارفِ اسلامیہ میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دراصل وجودیت کی تحریک ہی نے عالمی ادب کو حقیقی ڈگر سے ہٹا کرتشکیک کی منزل تک پہنچایا۔ اس تحریک نے مذہب، انسان، خدا، کائنات اور مظاہر قدرت کے بارے میں ایسی فضا تیار کی کہ ادباء اور شعراء اسے جدیدیت سے ہم رشتہ سمجھتے ہوئے اپنے قارئین کو مذہب سے دور لے جانے لگے اور اس صورتحال میں سب سے زیادہ صنفِ نعت کومتاثر کرنے کی کوشش کی گئی جس کا تفصیلی مطالعہ ناگزیر ہے۔


مغربی وجودیت کی کئی تعریفیں کی گئی ہیں اور جیسا کہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے اس کی کوئی قطعی تعریف نہیں کی جاسکتی تاہم اس کی مختلف شاخوں میں کائنات اور انسان کی حقیقت کا انکشاف یا جستجو ایک امر مشترکہ ہے۔ اس طرح وجودیت ہر اس تصور کے خلاف ہے جوانسان کو کسی ’’وجودِ مطلق‘‘ کا مظہر یا عکس یا ظِل ثابت کرتا ہو یا کسی لامحدود و لامتناہی جوہر کا خارجی ظہور سمجھتا ہو۔ اسی وجہ سے مغربی وجودیت عینیت یا تصوریت (Idealism) کی سب شکلوں کی مخالف ہے۔ اس اعتبار سے مغربی وجودیت کا یہ نقطہ نظر صوفیانہ افکار کے ایک بہت بڑے حصے کا مخالف ہے جو عینیت کا معتقد ہے یا انسان اور کائنات کو ظلِ یا پرتو سمجھتا ہے یوں یہ تصور ابن عربی کے عینی خیالات کی بھی ضد ہے۔


وجودیت، معروضیت (Objectivism) اور سائنسیت (Sciencism) کے بھی خلاف ہے کیوںکہ وجودیت کا معنی دار خارجی وجود پر زور ہے جبکہ معروضیت کا اعتقاد قطعی اصولوں اور ضابطوں پر ہے۔ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو وجودیت کی ایک شاخ کائنات کی لاعینیت اور اس کے بے ہنگم ہونے کو مانتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس محدود دائرے میں اگر اسلامی ردعمل کا تعین کرنا پڑے تو وجودیت کے برعکس اس کا رخ سائنس اور خارجی مظاہرِ کائنات سے برحق ہونے کے نظریے کی طرف ہوگا۔ اسلام (قرآن) کے نزدیک خلق (مخلوق، کائنات) عبث نہیں ہیں اور جملہ اشیائے کائنات حکمتِ ربی کا ظہور ہیں۔ اس بنیاد پر وجودیت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں۔


جبر و اختیار کے مسئلے میں اسلامی ردعمل انسان کومختار و مجبور قرار دیتا ہے۔ صوفی فکر کا ایک حصہ انسان کو مجبور مانتا ہے لیکن راسخوںکی نظر میں جزا و سزا کے عقیدے کی وجہ سے انسان کا ایک دائرے میں فاعل مختار ہونا ثابت ہوتا ہے اسی لیے وہ جزا و سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے جبکہ وجودیت مجبوریت کو نہیں مانتی۔ اس کے نزدیک انسان کو بہت سے امکانات میں سے اختیار و انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ خصوصاً اس لیے کہ اس کی ہستی دوسرے افراد اور دوسری اشیاء سے رابطہ رکھنے پر مجبور ہے اور یہ امکانات ان معاشرتی روابط کی وجہ سے مختلف اور کثیر ہوتے ہیں۔


اسلام کی یا کسی بھی مذہب کی مغربی فلسفوں خصوصاً وجودیت سے تطبیق کی کوشش اور اس سے مماثلتوں کی جستجو اصولاً درست نہیں کیوںکہ اس سے مغالطہ پیدا ہوتا ہے۔ مذاہب معرفتِ ذاتِ الٰہی، اس کے پیغامات لانے والے پیغمبروں کی منزلت، عرفانِ ذات اور تہذیب الاخلاقیاتِ انسانی پر زور دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان پروردگار عالم کی شاہکار مخلوق ہے۔ اس کے برعکس وجودیت کی ایک اساس لاشیئیت (Nothingness) ہے۔ اس کے علاوہ مذہب انسانی وجود کو ایک مربوط اور باہمی متعاون کلّی مانتے ہیں اور ذات کی تکمیل اور شخصیت کی مکملیت کے علاوہ کائنات سے اس کے تعلق میں اعتقاد رکھتے ہیں۔ دوسری طرف وجودیت کا ایک اہم تصور اجنبیت (Alienation) ہے۔ جس کے ایک سے زیادہ مفہوم بتائے گئے ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک منفی ہے اور دین اسلام کی اثباتی روح کے خلاف اور بعض تو سائنس کی مرکزی روح سے بھی متصادم ہیں۔ اس اجنبیت کا ایک مفہوم مجبوری ہے۔

میرتقی میر کا یہ شعر اس کا مظہر ہے۔

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہیں ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا


اس سے براہ راست متاثر نہ ہونے مگر اس فکر کے حصار میں آجانے والے بعض شعراء نے مسلمان ہوتے ہوئے بھی اسلام سے دوری بلکہ ترک اسلام کرنے کا اظہار کیا ہے یا اسلامی شعائر اور غیراسلامی طریق میں امتیاز نہ تسلیم کرتے ہوئے اپنا فلسفہ خود بنایا ہے۔ میر ہی کا شعر ہے۔

میر کے دین و مذہب کو کیا پوچھتے ہو اُن نے تو

قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا

یا مومن کا یہ شعر کہ:

اللہ رے گمرہی بت و بت خانہ چھوڑ کر

مومن چلا ہے کعبے کے ایک پارسا کے ساتھ

اسی طرح غالب نے کہا تھا کہ:

دیر و حرم آئینۂ تکرار تمنا

داماندگی شوق تراشے ہیں پناہیں


جبکہ فیض تو اپنے ہم خیال دیگر شعراء کے ایک بہت بڑے گروہ کے ساتھ یہ تک کہہ گئے کہ؛

اک فرصتِ گناہ ملی وہ بھی چار دن

دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

حالاں کہ اقبال کے یہاں مطالعہ اسلام اپنی وسعتوں میں بے کراں ہے اور خود ان کا اسلام کا حرکی فلسفہ بار بار جنتِ گم گشتہ کو بازیاب کرنے کی کوششوں میں ہے تاہم انہوں نے بھی کہہ دیا کہ؛

باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں

کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر


جدید دور میں اقبال نے اپنے تصور خودی کے ذریعے انسان کی اس قسم کی مجبوری اور بے بسی کی بڑی شدت سے تردید بھی کی ہے اور اپنے خطبات میں جبر و اختیار کی تشریح کر کے انسان کی غیرمعمولی قوتوں اور دور رس صلاحیتوں کا اس طرح اثبات کیا ہے کہ اس سے وجودیت کی پوری نہیں تو آدھی عمارت ضرور منہدم ہوجاتی ہے۔


وجودیت کی ذیلی اصطلاح اجنبیت (Alienation) کا ایک مفہوم لاعینیت اور لامقصدیت ہے۔ یعنی یہ کہ زندگی (کائنات) عبث اور بے مقصد ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ قدیم مسلم شعراء کے کلام میں کہیں کہیں زندگی کے بارے میں شکایت اور تشکیک کا اظہار ہوا ہے جیسا کہ ہلکا سا اشارہ سطور بالا میں کیا گیا ہے تاہم خالق کی حکمتِ تخلیق کا انکار شاذ ہی کہیں ملے گا۔ اس کا سبب یہ بھی ہے کہ قرآن پاک کا مطالعہ ان اشکال سے آزاد کرتا ہے۔ سورئہ مومنون کی آیت 115 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے فائدہ پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آئو گے‘‘ اسی طرح سورۃ انبیاء کی آیت 16 میں فرمایا گیا ’’اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو (مخلوقات) دونوں کے درمیان ہے اس کو لہو و لعب کے لیے (بے مقصد) پیدا نہیں کیا‘‘ سورۃ الحجر کی آیت 85 میں اسی خیال کو واضح کیا گیا ہے کہ ’’ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو (مخلوقات) ان میں ہے اس کو تدبیر کے (یا اعلیٰ سچائیوں کے لیے) پیدا کیا ہے۔ اسی طرح سورئہ آلِ عمران کی آیت 191 میں ارشادِ ربی ہے کہ ’’اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے (اور کہتے) ہیں کہ اے پروردگار تو نے اس (مخلوق) کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا‘‘۔


ان اسلامی تعلیمات اور قرآنی پیغامات کے مقابل ادبی تحریکات میں اجنبیت (Alienation) کا ایک مفہوم کائنات یا زندگی کا بے قوانین ہونا ہے۔ یہ تصور دراصل زندگی میں نتائج کی بے یقینی سے پیدا ہوا ہے۔ اور مغرب کی سائنسیت (قطعی قواعد اور قطعی نتائج) پر غیرمعتدل اصرار کا ردعمل ہے۔ چوںکہ سائنس ماورائی قوتوں کو تسلیم نہیں کرتی اور یہ نہیں مانتی کہ ظاہری اسباب و علم سے ماوریٰ کوئی غیرمعمولی ماورائی نظام بھی موجود ہے اس لیے قطعی قوانین و اسباب اس کے قطعی نتائج ہی پر یقین رکھتی ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ بعض نتائج ایسے بھی برآمد ہوجاتے ہیں جو قطعی قوانین کی مسلمہ توقعات کے خلاف ہوتے ہیں اس لیے مغرب میں بیسویں صدی کے ربع ثانی میں فلسفۂ قوانین کے بارے میں شک پیدا ہوگیا جس کا ظہور یہی لاقوانینیت (Normlessness) ہے۔


اس لحاظ سے وجودیت اسلام یا شاید ہر الہامی مذہب کی ضد ہے اور اجنبیت اس کی سب سے خوفناک صورت۔ اجنبیت کا ایک مفہوم خودبیزاری ہے جس کا مطلب ہے کہ فرد خود اپنی ذات کو اپنے سے جدا اور غیر سمجھنے لگے یا معاشرے سے بے گانہ ہوجائے۔ اس کیفیت کا شکار انسان مادیت پرستی کی دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے اور اپنی فکر ہی کو معاشرے کے لیے بہتر اور اس کے مسائل کا حل سمجھتا ہے۔


وجودیت کی اسی تحریک نے ہمارے ادب کو بے حد متاثر کیا ہے اور ایسا طبقہ وجود میں آگیا جو روایت سے بغاوت کو جدیدیت اور ترقی پسندی کا نام دینے لگا۔ اس کے نزدیک ہر قدیم طرزِ ادا، روایت پسندی، وضع داری اور اقدار کی پاسداری کو رجعت پسندی سے موسوم کیا جانے لگا، اس فکر کے تحت جو ادب پروان چڑھا اسے لامذہبی، لادینی، الحادی اور مذہب بیزاری کے رجحان سے تعبیر کیا جانا مناسب ہے۔ اس فکر نے ذہین اورخلاق ادیبوں اور شاعروں کو دین سے دور بلکہ بیزار کردیا اور ان کی توجہ حمد و نعت سے ہٹ کر کمیونزم کی جانب موڑ دی۔


یہاں یہ ذکر شاید بے جا نہ ہو کہ اس تحریک سے متاثر ہو کر جب انجمن ترقی پسند مصنفین بنائی گئی تو اس میں اپنے وقت کے جید شعراء اور ادباء شامل ہوگئے جس کے باعث نعت، حمد، سلام، مراثی، مناقب اور قصائد ایمانی لکھنے والوں نے اپنی راہ بدل لی۔ جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک کے سالارِ اعظم سید سجاد ظہیر کی بیٹی نے اپنی کتاب ’’میرے حصے کی روشنائی‘‘ میں خود تحریر کیا ہے کہ ایک صبح ناشتے کی میز پر ہمارے یہاں آئی مہمان ہماری پھوپی نے جو عمر میں ہمارے والد سے بڑی تھیں پوچھ لیا کہ سجاد! تم کیا کررہے ہو، دین اور مذہب سے ماوریٰ تحریک چلارہے ہو جبکہ ایک وقت میں تم محلہ کی مسجد میں اذان دیا کرتے تھے اور یوں بھی تم نے پندرہ پارے حفظ کرلیے تھے، تو یہ سن کر سجاد ظہیر نے اپنی بہن سے کہا ’’چھوڑیئے آپا، وہ سب زمانۂ جاہلیت کی باتیں تھیں‘‘ اس ایک جملہ سے منظرنامے کی تبدیلی سے پوری طرح آگاہی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح فیض نے جو مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی اور تعلیم کا آغاز عربی سے کیا تھا، ساتھ ہی بارہ پارے حفظ کرلیے تھے، پھر ان کا رخ بھی کسی اور طرف ہوگیا۔


ترقی پسند تحریک کے تناظر میں عہد جدید کے نابغہ روزگار علمی، ادبی اور روحانی شخصیت حضرت ڈاکٹر غلام مصطفی خاںؒ کی تحریر ہماری رہنمائی اور موضوعِ زیربحث کو سمجھنے کے لیے موجود ہے جس کا احاطہ برادر عزیز ڈاکٹر مسرور احمد زئی نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے ’’ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، حالات، علمی و ادبی خدمات‘‘ کے زیرعنوان صفحہ 338پر اس طرح کیا ہے۔


’’ 1931ء میں حقیقت نگاری کے نام پر اردو میں عریانی اور بے حیائی کا آغاز ہوا اور اس کا نام ترقی پسند ادب رکھا گیا، اس تحریک کی ابتداء سجاد ظہیر، احمد علی اور ڈاکٹر رشیدہ جہاں نے کی اور انگارے کے نام سے افسانوں کا ایک مجموعہ شائع کیا جس میں دین اور اخلاق پر حملے کیے گئے اور اشتراکی نظریات کی تبلیغ کی گئی۔ پھر 1936ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد پڑی اور اس کے اراکین نے اس مقصد کے پیش نظر اور نام نہاد حقیقت نگاری کا لباس اوڑھ کر دین، اخلاق، تہذیب اور ان کی اقدار کو لغو قرار دیا بلکہ محض جہالت اور اوہام پرستی کہا، روح اور خدا کا انکار کیا اور اس نظریے کی اس طرح تاویل کی کہ مادی ارتقاء ہی میں احساس، شعور، عقل اور ضمیر کی تخلیق ہوتی ہے اور دین محض فریبِ تخیل ہے اور استحصالی طبقوں کا آلہ کار ہے،ہر دور کا معاشی نظام ہی اس دور کے سماجی نظام کو متعین کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ فرائڈ کے نظریات بھی شامل ہوگئے اور اب نفسیاتی ماحول اور سماجی تربیت کا مرکز روٹی کے بجائے جنسیت قرار پایا۔ فرائڈ کے نزدیک انسانیت دوستی دراصل اس تشنہ کام جنسی جذبے کے لیے اب اعلیٰ راستہ نکالنے کی کوشش ہے جو تسکین نہیں پاتا اور پاک عشق و محبت محض فطری جنسی جذبے کو اخلاقی اور سماجی تصورات کے تحت کچل دینے والی بددیانتی اور خود فریبی کا عکس ہے لہٰذا گناہ ثواب اور بدی پاکیزگی اور عفونیت، عظمت اور پستی کا کوئی ایسا معیار قائم نہیں کیا جاسکتا جو ہر حالت کے لیے صحیح قرار دیا جاسکے۔‘‘


اس طرح اردو کے تنقیدی اسالیب کی ساخت پرداخت اتفاقی نہیں بلکہ اہتمامی ہے اسے ایک تصور، فکر اور منصوبے کے تحت مرتب کیا گیااور ہمارے خود پرست و خود نما نقاد اسے وسیع القلبی اور وسعتِ دماغی کی دلیل سمجھ کر اس طرح اپناتے اور برتتے رہے کہ تحریر و تقریر سے لے کر فکر و فہم تک کا قبلہ بدل گیا۔ ان تنقیدی اصولوں کو جن بڑوں نے بڑا متاثر کیا ان میں مارکس کا نام سرفہرست ہے اور ٹالسٹائی کو رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی رول ماڈل ٹالسٹائی ہے جس نے حجلۂ عروسی میں اپنی بیوی کو پہلی شب جو ڈائری پڑھوائی تھی اس میں اس کے بے شمار معاشقوں اور ان سے وابستہ ناشائستہ وارداتوں کا تفصیلی غیرادبی ذکر تحریر تھا۔


مارکس نے جب 1844ء میں یہ کہا تھا کہ ’’مذہب عوام کی افیون ہے‘‘ تو اس نے بظاہر اپنے دور اور اس کے بعد کے آنے والے ادباء کو بتایا کہ خلاقی کے لیے مذہب کی قید سے آزاد ہونا ضروری ہے۔ اس نے جرمن سوشلسٹ ورکرز کی تعریف میں کہا تھا۔

"They have and simply finished with God, they live and think in the world of reality."

مارکس کے ساتھ اینگلز کا قول اس منظم تحریک کو مزید واضح کرسکے گا، وہ کہتا ہے۔

"Religion however is nothing but the fantastic reflection in men's minds of those external forces which control their daily life. A reflection in which the terrestrial forces assume the form of supernatural forces."


اب آیئے اس جانب کہ ان تحریکات کے زیراثر آنے اور وقت کے گزر جانے کے بعد صورتحال کیا ہے تو اس وقت مغربی دنیا کا شاید کوئی بڑا مفکر ایسا نہیں ہے جس نے مغربی تہذیب کے زوال کی پیش گوئی نہ کی ہو اور جس نے مغرب کے ذہنی تجربے کو جہنم کا تجربہ نہ بتایا ہو۔ ادب میں یہ چیز کوئی ایک صدی پہلے ظاہر ہونا شروع ہوئی تھی پھر علوم میں بھی آگئی۔اصولِ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے تمام لوگ اس امر پر متفق ہیں۔ اسپنگلر، ٹائن بی وغیرہ تو خیر سامنے کی چیزیں ہیں خود مارکس اور اینگلز اپنے نظریات سے مایوس ہو کر موجودہ تہذیب ِ مغرب کے زوال کا نعرہ بلند کرتے اور اسے غیر انسانی قرار دیتے ہیں۔ مارکسی نقطہ نظر اور اصول انتقاد کے موضوع پرا ہم ترین چیز کارڈویل کی تصنیف Studies in a Dying Culture ہے جس میں اس نے موجودہ مغربی تہذیب کی موت اور اس کے علوم و فنون کی کیفیت بیان کی ہے۔ اس سے آگے بڑھئے تو وجودیت پسند ادب اور فلسفہ بھی ہمیں اب بتارہا ہے کہ مغربی تہذیب کس طرح جہنم بن گئی ہے۔ ادب میں یہ معاملہ ایک طرف بودلیئر، دوسری طرف بلیک کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ روس میں اس کے نمائندے گوگول، دوستووسکی او ر چیخوف وغیرہ ہیں۔ پھر لارنس، ایذرا پائونڈ سے آگے بڑھیں تو کیفیت یہ ہے کہ آج کوئی ادیب ایسا باقی نہیں رہا جو مغربی تہذیب کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ پھر بھی اگر ہم اس تہذیب کو سمجھناچاہیں اور اس کے دکھ کی شدت کا اندازاہ لگاناچاہیں تو گنز برگ کی ایک آدھ نظم پڑھ دیکھیے۔ مغربی روح کی پیاس کا عالم یہ ہے کہ وہاں سینکڑوں نئے دین ایجاد ہوگئے ہیں اور ہندو مسالک کے ساتھ ساتھ مشرق بعید کے طریقے بھی مقبول ہورہے ہیں۔ سائنسی علوم میں تیقن کی کیفیت کیا ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے اوپن ہائمر کے لیکچرز ہی دیکھ لیجیے یا پھر Rozak کی کتاب Children of Technology پڑھ لیں تو ادراک ہوگا کہ یہ ایک ایسی گرتی ہوئی دیوار ہے جسے کسی دھکے کی ضرورت بھی نہیں، یہ تو اندر سے انہدام حقیقی کی دلیل ہے مگر اس المیے کو کیا کہیے کہ جہاں سے انتقاد کی تحریکات چلی تھیں وہاں تبدیلی آگئی اس تبدیلی کے باوجود ہمارے یہاں کے نقاد ابھی تک لکیر کے فقیر بنے ہوئے اپنے تنقیدی مضامین کا آغاز ان ناموں سے کرتے ہیں جن کی تعلیم کب سے اپنی تاثیر کھوچکی مگر اس کا حوالہ آج تک چلا آتا ہے۔ ان میں سب سے اہم حوالہ ارسطو کا ہے جسے آج بھی مغربی ادب و شاعری اور تنقید کا امام سمجھا جاتا ہے اور ایک اعتبار سے اس کا یہ حق بھی ہے ورنہ اس کے استاد افلاطون نے تو اپنی ریاست کو شاعر اور شاعری سے پاک جانا تھا تاہم جہاں تک ارسطو کے تصورات کی صحت کا تعلق ہے اس کا کوئی ثانی نہیں لیکن وہ کوئی ایسا جامع نظریہ پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا جس سے مادی کائنات کو کسی وحدیتی (Monistic) تصور کے حوالے سے سمجھا جاسکے۔ ارسطو کے نظام فلسفہ میں یہ پتہ نہیں چلتا کہ کائنات کا مبدا ایک ہے۔ اس کے برخلاف اس کا فلسفہ ثنویت پر محمول ہے جس میں مادے کو قدیم اور خدا کی ضد تصور کیا گیا ہے۔ ارسطو نے ایک تنقیدی نظریۂ علم پیش کرنے کی متعدد کوششیں کی ہیں لیکن ان کوششوں میں شدید حقیقت پسندانہ رجحانات داخل ہوگئے اور انہیں بھی بڑے بودے طریقے سے پیش کیا گیا۔ اس کے نزدیک خدا محض عقل ہے۔


عالمی سطح سے ہٹ کر اس معاملے کا ایک مقامی رنگ بھی ہے۔ جس کا مطالعہ اسالیب نقد و نظر کے حوالے سے ضروری ہوجاتا ہے۔ مسلمان ممالک میں مغربی تہذیب و علوم کا دخل جس طرح ہوا تھا وہ بے چارے اس کی مبدیات سے بھی واقف نہیں تھے اس موضوع کا احاطہ سراج منیر نے بھی کیا ہے، وہ کہتے ہیں ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کا کوئی لازمی تعلق مسلمانوں سے نہیں۔ مشرق میں انگریزی علوم جس طرح پھیلے اور ان کے ذریعے انگریزوں نے جس طرح خود اپنے الفاظ میں ایسا طبقہ تخلیق کیا جو رنگ و نسل کے اعتبار سے مشرقی لیکن قلب و ذہن کے لحاظ سے مغربی تھا۔ وہ محتاجِ تفصیل نہیں ۔ میکالے کی تقریر تو اسکول کے بچوں تک کے علم میں محفوظ ہوتی ہے۔ مسلمان ممالک میں سب سے پہلے دو ممالک اس سے متاثر ہوئے۔ ترکی اور مصر، اور یہ واقعہ انگریزی استعماریت کے بالکل ابتدائی عہد کا ہے۔ ہندوستان میں تو انگریزی علوم کے بارے میں اختلاف کا آغاز 1857ء سے پہلے ہی ہوچکا تھا اور شاہ غلام علی اورشاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے جواز کا فتویٰ مشروط طور پر دے دیا تھا۔ انگریزی علوم کے حصول کے مسئلے پر اس طرح کا اختلاف تو رہا ہی نہیں اصل اختلاف تو ان کے علوم کے سلسلے میں ایمان باالغیب پر تھا۔‘‘


اس طرح بات سمجھ میں آتی ہے کہ مغرب کے جدید تنقیدی اسلوب نے شاعری پر جو اثر کیا وہ الگ ہے مگر نعت کہنے والوں کو جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا وہی دراصل اس سارے عمل کا شاخسانہ اور جدید تحریک کی جانب سے تازیانہ ہے۔ اسی نے ہمارے عقیدت کے سفر کو نشانہ بنایا اور وہ بھی اس قدر کہ محمد سہیل عمر کے الفاظ میں ’’ترقی پسند تحریک کے اہم لوگوں میں پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں احمد ندیم قاسمی کا رویہ واضح ہے اور وہ بھی ترقی پسند نقادوں سے نعت لکھنے پر گالیاں کھاچکے ہیں اور یہ سب اعتراضات مطبوعہ صورت میں موجود ہیں۔‘‘ اس تناظر میں اقبال نے جدید علوم سے بہرہ مند ہو کر بھی جس عقیدے اور عقیدت کا مظاہرہ کیا وہ مغرب کے تخریبی طوفان میں تعمیر کا استعارہ ہے کہ

خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوئہ دانشِ فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف


اسالیب نقد و نظر کے اس تجزیے کے بعد ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے قضیئے کے دوسرے حصے کی طرف آئیں جو خالصتاً نعت کی صنف سے متعلق ہے۔ ہم نے یہ تو دیکھ لیا کہ مغرب کی فکری یلغار اور سازشی دیوار کے باوجود نعت گوئی کا سفر نہ صرف جاری ہے بلکہ فنی، صوری، فکری اور خلاقی کے حوالے سے ارتقا پذیر ہے اور نعت میں ان موضوعات سے اجتناب برتا جانے لگا ہے جن کو زیربحث لاکرتطہیر کا سامان ہوا اور ساتھ ہی نعت نگاری کے دائرے کی وسعت نے بھی شعراء سے لے کر ان کے قارئین، سامعین اور ناظرین تک کو خدا آگاہی اور ختمی مرتبت شناسی کے ساتھ خود احتسابی اور خود فہمی کی منزلوں سے بھی گزارا ہے ۔ اسی لیے گنجائش پیدا ہورہی ہے کہ ہم نعت کو بطور صنف بھی اور اس کے انفرادی متن کو بھی زیربحث لائیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تنقید کا مطلب نکتہ چینی، عیب جوئی اور برائی نکالنے سے مشروط ہے، حالاںکہ اہل علم جانتے ہیں اور ظاہر ہے کہ شعرا اہل علم ہونے کے دعویدار ہیں کہ تنقید کا مادہ نقد ہے جس کا مطلب پرکھ کرنا اور جائزہ لینا ہے۔ یہی پرکھ ہے جس کا منصب کسوٹی ہے اور جو کھوٹے کھرے کا حساب بتاتی ہے۔ شاعری میں یہی پرکھ تنقید کے ذریعے ہوتی ہے جس میں محاسن بیان ہوتے ہیں اور معائب ہیں تو ان سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جاتا۔ اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ نعت گوئی میں عیب جوئی یا معائب تلاش کرنا مناسب ہے یا نہیں۔ تو جواب یہ ہے کہ جب ہم نعت کو ایک صنف تسلیم کررہے ہیں تو اس کی تطہیر، تہذیب اور تدوین کے لیے اگر اصول وضع کیے جائیں اور پھر دیکھا جائے کہ ان سے روگردانی کرنے والا شاعر کیا نعت گوئی کا حق رکھتا ہے اور پھر جو خلاق، ممتاز، منفرد اور مقتدر نعت گو ایسی نعتیں تخلیق کررہے ہیں جو اپنا مقام اور مرتبہ خود مرتب کرتی ہیں تو ان کے استحسان کا نام بھی تنقید کی ذیل ہی میں آتا ہے۔


اس مرحلے پر ایک احساس شدت سے اپنا اظہار چاہتا ہے اور وہ یہ کہ کون سا صاحبِ ایمان ایسا ہوگا جو اپنے تئیں نعت کہنا نہ چاہے گا۔ حالاںکہ جب ہم درود پڑھتے ہیں تو نعت پڑھتے ہیں مگر خود نعت کہنے کی تمنا کس کے دل میں نہیں ہوتی۔ مگر جو لوگ موزوں طبع نہیں ہوتے وہ اپنی اس خواہش کو حسرت میں بدلتا دیکھتے ہیں۔ تو یہ اہل ایمان کی ہر دور میں ایک قبیل ہوگئی۔ دوسری قبیل وہ ہے جو طبع موزوں سے بھی متصف ہے مگر اسے نعت کہنے کا وہ سلیقہ نہیں آتا جس کا یہ نازک موضوع تقاضا کرتا ہے اس لیے تنقید ِ نعت کے منصب پر ایسی نعمتوں کو حوالہ بنانا اور اس پر رائے دینا کوئی معیوب بات نہیں ۔ تیسری قبیل وہ ہے کہ جو نعت تو کہہ رہی ہے اور اس میں بحور اور اوزان کا بھی اہتمام ہے مگر جذبے کی وہ شدت نہیں جو نعت چاہتی ہے اس لیے اس قبیلے کے نذرانے، اخلاص اور محنت اپنی جگہ مگر نعت کی نزاکت کے تعلق سے ایسی نعتوں پر گفتگو کرنا امر حقیقی ہے۔ البتہ آخری قبیل جو اس محفل کی پہلی صف میں متمکن ہے ایسے شعراء پر مشتمل ہے جو سرشاری، وارفتگی، شیفتگی اور شائستگی میں سے ہر ایک حوالے سے اعلیٰ مقام پر فائز ہے۔ دراصل یہی قبیل نعت کو صنف بتانے اور بنانے کی سزاوار ہے۔ لیکن شاید ایسے ہی کسی مقام کے لیے کہا گیا تھا:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا


یہاں نعت رنگ کے محرک اور نعت ٹرسٹ کے بانی صاحب اسلوب نعت گو جناب صبیح رحمانی نے ’’اردو نعت کی شعری روایت‘‘ مرتب کر کے تو کمال کیا ہی تھا اس میں اپنی رائے شامل کر کے موضوع کو حسین تر بنادیا ہے۔ ان کا یہ خیال بڑا معنی خیز اور متذکرہ بالا سطور سے ہم آہنگ ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ہمارے یہاں ایک طویل مدت تک نعت نبیؐ کو محض عقیدت و محبت کا پیرایہ سمجھا گیا۔ یہی سبب ہے کہ اردو زبان و ادب کے فروغ کی دو ڈھائی صدیوں میں نعت کو عقیدت کے زمرے میں رکھے جانے کی وجہ سے اس کی علمی، فکری اور جمالیاتی حیثیت سے اغماز کی فضا پیدا ہوگئی اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ حالی اپنے مقدمہ شعر و شاعری میں ادب و سخن کے معیارات، قواعد، اصولوں پر ساری بات کرتے ہیں مگر نعت کے بارے میں کچھ نہیں کہتے… قیام پاکستان سے پہلے کا نعتیہ منظرنامہ نعت کی تخلیقی نہج پر تو بقعۂ نور نظر آتا ہے لیکن تنقیدی اور تحقیقی کام کی نوعیت پر گھٹاٹوپ اندھیرے کا گمان ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ نعت کی اس روایتی تخلیقی نہج کو اس عہد کے بڑے نقادوں نے بہ وجوہ کچھ زیادہ قابل اعتنا نہیں سمجھا اور اس پر وہی پرانا عقیدت کا عنوان چسپاں کر کے اسے ادب کے مرکزی دھارے سے الگ رکھا۔ یہ حقیقت رشید احمد صدیقی جیسی بلند پایہ شخصیت کی رائے سے مترشح ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ رشید احمد صدیقی بائیں بازو کے نظریات کے حامی نہیں تھے بلکہ ان کا جھکائو دائیں بازو کے افکار کی طرف تھا اس کے باوجود روایتی نعتیہ فضا کے بارے میں ان کی رائے یہ تھی۔


’’نعتیہ کلام کی محرومی یہ رہی کہ ہمارے بیشتر شعراء نے اسے ایک مقدس رسم سمجھ کر اختیار کیا اور سننے والوں نے ثواب کی خاطر آہ یا واہ کرلی۔ اس طرح کے کلام، اس طرح کے شعراء اور اسی طرح کے مقاصد نے مل جل کر نعت کو شریفوں یا شاعروں کا شیوہ نہیں میراثیوں کا پیشہ بنادیا۔‘‘ یہی رشید احمد صدیقی ایک اور جگہ کہتے ہیں۔ ’’نعت ہمارے شعر و ادب کی قابل قدر روایت بن گئی ہے۔ ایسی روایت جو شاعری میں عبادت کے عنصر و عامل کے ساز و برگ کا سامان بہم پہنچاتی ہے۔ نعت کو شاید اور کسی مذہب و ملت میں وہ اہمیت حاصل نہ ہو جو ہمارے شعر و ادب میں ہے۔ اس مقصد کو مہمیز دینے، متحرک کرنے اور متحرک رکھنے کی ابتدا حالی نے کی جسے اقبال نے اس درجے تک پہنچادیا ہے جس سے آگے پہنچانا اب کسی دوسرے اقبال ہی کا کارنامہ ہوگا اور مستقبل بعید میں کسی دوسرے اقبال کا ظہور پانا آسان نہیں معلوم ہوتا۔‘‘


رشید احمد صدیقی کی ان دوا ٓراء کی روشنی میں اگر ایک اور وقیع ادیب کی رائے کو دیکھا جائے تو سکّے کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق فرماتے ہیں کہ ’’ابتدائے اسلام سے اب تک نعتیہ ادب کا ایک عظیم ذخیرہ اور قیمتی خزانہ جمع ہوگیا ہے جو ادبی اور علمی لحاظ سے خود دنیا کا بہترین ادب شمار ہوتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ادب کی تحقیق، تنقید اور تشریح کی طرف دنیائے اسلام میں تاحال کماحقہ توجہ نہ ہوسکی۔ شکر ہے کہ ہمارے دور میں احساس بیدار ہوا ہے اور اب ایسے ارباب علم و ادب اور ادارے فروغ پارہے ہیں جنہوں نے اس کام کو آگے بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔‘‘


اس منظرنامے کے تناظر میں موجودہ عہد میں کہی جانے والی نعتوں کو بطور ممتاز صنف تسلیم کرنے کی غرض سے جس انتقادی میزانیے کی ضرورت ہے اس کی طرف بھی توجہ کرنا ازبس ضروری ہے اور اس غرض سے زبان و بیان کی تطہیر سے لے کر ادائی اور طرز ادا کی تحسین تک کا گوشوارہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے اور اس کام کے لیے سب سے پہلے شاعری کی بنیادی تعریفوں کی تفہیم کی ضرورت ناگزیر ہے اور ان تعریفوں میں ارسطو اور ایلیٹ کے حوالے سے زیادہ مقامی اور مکانی امکانات کی دریافت کی ضرورت ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر ابوالخیر کشفی فرماتے ہیں۔


’’بڑی حقیقتیں عظیم اور پھیلے ہوئے سلسلۂ کوہ کی طرح ہوتی ہیں، اس سلسلۂ کوہ کو کوئی مکمل طور پر نہیں دیکھ سکتا۔ جو جہاں سے دیکھتا ہے اسی کو بیان کردیتا ہے ان میں سے ہر بیان سچا ہوتا ہے مگر کوئی بیان مکمل نہیں ہوتا۔ اس لیے شاعری کی چند تعریفوں کو دہرالینے میں کیا قباحت ہے۔ ان میں تکنیکی تعریفیں بھی ہیں اور ایسی تعریفیں بھی جو اچھے شعر کی طرح ہمیں فکر خیال اور جذبے کی ان وادیوں میں پہنچادیتی ہیں جہاں انسانی روح کا حسن اپنے تمام پہلوئوں کے ساتھ جگ مگ کرتا نظر آتا ہے۔ جہاں انسانی فکر کے سارے امکانات اپنی تمام تر تہہ داری کے ساتھ اپنے آپ کو ہمارے سامنے منکشف کرتے ہیں اور جہاں سکوت گویائی میں گویائی سکوت میں بدل جاتی ہے۔ ایسا سکوت جو ایک نئے اندازِ تکلم کا نام ہے۔‘‘

اس کیفیت کے اشارے یہ ہیں۔

___ ’’شاعری مسرت کو سچ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا فن ہے۔‘‘

___ ’’شاعری طاقتور جذبات کے برجستہ بہائو کا نام ہے۔‘‘

___ ’’شاعری انسانی تجربوں کے اس اظہار کا نام ہے جس میں تصورات اور انسانی اقدار ان کی قدر و قیمت کے عناصر موجود ہوں۔‘‘

___ ’’شاعری محض صداقت کا اظہار نہیں بلکہ صداقت کو ہمارے لیے زیادہ حقیقی بنانے کی کاوش ہے۔‘‘

___ ’’شعر ہماری روح کا نغمہ ہے۔‘‘


’’شاعری زندگی کی اندھیری رات میں شاعر کی روح کا نغمہ بھی ہے اور گریہ بھی۔‘‘


نعت کو عقیدت کا سفر کہیے جو منزل یابی کی تمنائی نہیں منظر شناسی کی کاوش ہے۔ اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ نعت کو شاعری کی تعریف کے ساتھ منظر شناسی کی سرشاری سے بھی ناپا جائے۔ یہی وہ کام ہے جو نعت کو بطور صنف تسلیم کرنے اور کرانے کے لیے اسالیب اور انتقاد کا متقاضی ہے اور یہ اسالیب وہ نہیں جو ایک طرف تو ازکار رفتہ ہوچکے اور دوسری طرف رہبر بننے کے بجائے رہزن بنتے رہے ہیں۔


ادبی نقاد اور تجزیہ نگار دریدا جو ردِّ تشکیلیت کا بانی ہے نے اپنے ایک مقالے میں لکھا تھا کہ ’’ساخت کے تصور کا انحصار مفہوم کے مرکز پر ہوتا ہے، یہ مرکز ساخت کا تعین کرتا ہے مگر بذات خود ساخت پسندانہ تجزیے سے مشروط نہیں ہوتا کیوںکہ مرکز کی ساخت معلوم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک اور مرکز دریافت کیا جائے۔ بہرحال لوگ اس لیے مرکز کے طلب گار ہوتے ہیں کہ یہ مابعد الطبیعی موجودگی کے ہونے کی ضمانت دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم اپنی ذہنی جسمانی زندگی کو ایک ’’میں‘‘ پر مرکوز سمجھتے ہیں۔‘‘


اب دیکھیے جہاں نقد و نظر کا پیمانہ ہر لمحہ نئے مرکز کی تلاش ہو اور تمام فکر کا مرکوز ’’میں‘‘ ہو تو اس پیمانے پر ہم اپنے امروز و فردا کو کیسے ناپ سکتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو مرکز بھی واضح ہے اور مرکوز بھی اور ہمارے یہاں ’’میں‘‘ کا امتیاز یہ ہے کہ وہ رضائے الٰہی میں خود کو کھو کر اپنے آپ کو بازیاب کرے۔ اس لیے جب ہم نعت کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں ابدی مرکز کی تصویر آشکار ہوتی ہے اور اسی میں ’’میں‘‘ نہیں ’’میں‘‘ کو سمجھانے والی وہ قوت موجود ہوتی ہے جسے وجہ وجود کائنات کہا گیا۔ اسی لیے وہ کہتا ہے کہ

نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم

بہر سو رقصِ بسمل بود شب جائے کہ من بودم

خدا خود میر مجلس بود، اندر لا مکاں خسرو

محمدؐ شمع محفل بود، شب جائے کہ من بودم


اس حوالے سے تنقید، زبان اور متن تخلیق کے بارے میں ایک اور تحریر جسے پڑھ کر ہوش اڑجاتے ہیں اور دعوتِ تردید پر اکساتے ہیں وہ بھی دریدا کی ہے جسے فکری دنیا میں سندسمجھا جاتا ہے جبکہ ہم اس کی تحریر اور تھیوری پڑھ کر اسے زباں دریدہ کہنے پر مجبور ہیں… جی ہاں ان کا فرمان ملاحظہ فرمایئے!


’’اسم اعظم تھیوری کے مطابق ہستی کو عدم سے وجود میں لاتا ہے۔ دریدا نے اس مقدس لفظ کی الٰہیاتی مرکزیت اور اس کے معجزات کے نظریے کو مسترد کردیا ہے۔ اس کی بجائے اس نے متن کو تکوین معنی کی کثرتیت، وجود کے عدم استحکام اور صورت حال کی اضافیت پر زور دیا ہے۔ یہاں ہمارا مقصود اس کے تفکر کو بروئے کار لاکر اس معنیاتی سامراجیت کو بے نقاب کرنا ہے جس کے زیراثر مفکروں اور نقادوں نے زبان کے معنیاتی کھیل اور سماجی کوڈز کو بے اثر بنانے یا ان کے عمل دخل کو محدود کر کے ان کو مرکز فراہم کرنے یا ان میں معنی کی مصوریت کو ثابت کرنے اورا ن کے ماخذ کی نشاندہی کی صدہاسال سے کوششیں کی ہیں تاکہ متن کو توازن اور ترتیب دی جاسکے اور اس کی ساخت کو منظم کیا جاسکے۔ ان کوششوں پر پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ ابدیت کی ہر خواہش ایک فضول افلاطونی کھیل ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس قسم کی کوششیں بقول دریدا اس لیے کامیاب نہیں ہوسکتیں کہ ان کے تعین کے لیے کوئی اسٹرکچر موجود نہیں جو متن کو توازن اور ترتیب دے سکے۔ اگر کوئی نظر آتا بھی ہے توا س کے اندر موجود بے شمار داخلی تضادات، درزیں اور دراڑیں موجود ہیں چناں چہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں ہوگا کہ کوئی متن یا تحریر کلی طور پر متحد اور یکسو نہیں ہوتی۔ نکتہ رس نقاد کی طرف سے کی گئی قرأت ہمیں ان فضول خوابوں سے بیدار کرسکتی ہے جو ہم ساخت کی مکمل ہم آہنگی اور اس میں حتمی طور پر معنی کی موجودگی کے بارے میں دیکھتے ہیں۔ اس حوالے سے پسِ ساختیات میں قاری اور تصنیف کے رشتے کو مصنف اور تصنیف کے رشتے پر فوقیت دی جاتی ہے۔‘‘


اب دیکھیے اس رجحان کی نفی کے لیے جہاں ہمیں صنف نعت کے پورے تعارف کا اہتمام کرنا چاہیے وہیں یہ باور کرانے کی ضرورت بھی محسوس کرنی چاہیے کہ دراصل متذکرہ سطروں میں موجود تمام اشکال کا مسکت خواب نعت ہے جس کی ایک واضح اور غیرمبدل مرکزیت ہے او ر جو پسِ ساختیات کی خودساختہ تعریف کا منطقی استرداد بھی کرتی ہے۔

اس دعوے کی دلیل میں صرف چند مثالیں دیکھیے۔

کھلے ہیں جس میں محبت کے پھول ہر جانب

وہی ہے گلشنِ بے خار گفتگو ئے رسولؐ(راجا رشید محمود) ________

جہاں پیوندِ ظلمت بن گئے روزن مکانوں کے

وہیں کھولے گئے سارے دریچے آسمانوں کے (غلام محمدناصر) ________

خزاں کا بطلان کر کے آخر بہار ہی سرخ روئی ہوئی ہے

تری صدا کے محیط میں آ کے زندگی خوب رو ہوئی ہے (محمد فیروز شاہ) ________

ترے پنگھٹ سے بادل اپنی گاگر بھرنے آتے ہیں

زمانے بھر کے پیاسے پیاس عمروں کی بجھاتے ہیں (مظفر وارثی) ________

کی دعا ختم تو پھر صلِ علیٰ پڑھتے ہوئے

ہاتھ یوں جسم پہ پھیرے کہ زرہ پہنی ہے (محمد ثناء اللہ ظہیر) ________

ہوش و خرد سے کام لیا ہے

انؐ کا دامن تھام لیا ہے (صبیحرحمانی) ________

ہیں مصدق اور صادق، صاحبِ معراج ہیں

آپؐ ظاہر، آپؐ باطن، آپؐ خاتم اور خبیر (مسرور احمد زئی) ________

اس وقت اک دھیان ہے اور ان کا دھیان ہے

یہ وقت دل کو آئینہ کرنے کا وقت ہے (جمال احسانی) ________

میرے ہاتھوں سے اور میرے ہونٹوں سے خوشبوئیں جاتی نہیں

میں نے اسمِ محمدؐ کو لکھا بہت اور چوما بہت (سلیمکوثر) ________

ورقِ جاں ہے تیرے نورِ صفا سے روشن

صفحۂ دل پہ ہر اک تیری ادا لکھی ہے (اسلم فرخی)


اس ساری بحث کا ثمر یہ ہے کہ ہم نعت اور نقد نعت کے سفر میں شامل ہوں اور اس ضمن میں ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی کی رائے سے اتفاق کریں کہ ’’موجودہ صدی نعت کی صدی ہے ،اردو، عربی، فارسی، عربی بلکہ بعض علاقائی زبانوں کا مطالعہ ہم عصر ادبی پیشرفت کا جائزہ اس خیال کا موئید ہے۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کا ادبی منظرنامہ واضح کررہا ہے کہ امت مسلمہ کی ادبی کاوشوں کا بیشتر سرمایہ نعت ہی کا حوالہ رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ نعت ایک متعبر صنفِ سخن کی حیثیت سے تنقید نگاروں اور جائزہ کاروں کی توجہ حاصل کررہی ہے۔ اگرچہ ناقدانہ آرا کی ہمہ ہمی میں بعض مغالطے بھی جنم لے رہے ہیں مگر یہ بڑے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ نعت کے حوالے کے بغیر کوئی ادبی تحریک مکمل نہیں ہوسکتی۔ ضرورت اس کی ہے کہ تنقیدی آراء کو بھی معرضِ نقد میں پیش کیا جائے تاکہ نعت اور نقدِ نعت میں متوازن فکر نشوونما پاسکے۔‘‘


اس متوازن فکر ہی کا تقاضہ ہے کہ انتقاد کے نئے اسالیب وضع کئے جائیں اور جدید طرزادا کو ان ہی کے تناظر میں اس طرح دیکھا جائے کہ ایک طرف ان اسالیب کی ہنرمندی اشعار کی زینت بنے اور دوسری طرف نعت کی تخلیق میں ابھر کر آنے والی خلاقی کی روشنی میں نئے اسالیب کی اسی طرح تدوینِ نو جیسے فقہ کے میدان سے اجتہاد اور قیاس کی تقلید… مناسب ہوگا کہ ہم یہاں اسی نسبت کے ساتھ ممتاز اسکالر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر سے بھی استفادہ کرتے چلیں۔ وہ فرماتے ہیں۔


’’نعت کے دائرے کو محدود سمجھنا درست نہیں، کیوںکہ جتنا دائرہ حضورؐ کی نبوت و رسالت کا ہے، اتنا ہی دائرہ ان اوصافِ حمیدہ کا ہے جو نعت پر کام کرنے والوں کی کوششوں سے انسانیت تک پہنچ رہا ہے۔ تمام اسلامی زبانوں میں نعت اور سیرت پر سب سے زیادہ ذخیرہ اردو زبان میں ہے۔‘‘ …

بقول ناصر عزیز!

کتنا خوش قسمت وہ قلم ہے جس کی آنکھ سے ٹپکے ہیں

حمدِ خدائے پاک کے گوہر، نعتِ رسولِ پاکؐ کے موتی

٭٭٭


قاسم یعقوب: اُردو میں نعت گوئی کا تہذیبی مطالعہ

ABSTRACT: Genre of Naat has been discussed in cultural perspective in the article presented hereunder. Poetic reality has been emphasized over thought content of Naat. Urdu Naat has been evaluated in the cultural mirror of Sub-Continent and suggestions made, impliedly, to avoid criticism on the Text of Naat.

احمدِ پاک کی خاطر تھی خدا کو منظور

ورنہ قرآن اُترتا بزبانِ دہلی (محسن کاکوروی)


اُردو میں نعت گوئی پر بات کرتے ہوئے ہمیں اس اہم نکتے کا خیال رکھنا چاہیے کہ اُردو زبان ہندوستان کے مشترکہ تہذیبی ورثے کی زبان ہے۔ یہ تہذیبی ورثہ کسی ایک قوم یا کسی ایک علاقے کی ثقافت اور رسم ورواج پر مشتمل نہ تھا بلکہ اس میں کئی نسلوں، قوموں اور خطوں کے افراد نے شمولیت اختیار کی۔ یہ مشترکہ سرمایہ صدیوں کی ریاضت کے بعد سامنے آیا۔اس میں حکمران اور عوام بیک وقت شامل تھے۔ اُردو زبان اس خطے کی مشترکہ زبان ہے جو کہیں باہر سے درآمد نہیں کی گئی بلکہ یہیں پر، یہاں کے مقامی افراد کے مشترکہ اعمال کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی جس میں مقامی زبانوں نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔ جب ہم اُردو نعت کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس نکتے کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ نعت اُردو کلچر کی نمائندہ نعت ہے۔


نعت ذاتِ سرکارV کی مدح ہے جو علامتِ محبت ہے، احترامِ آدمیت ہے، وقارِ انسان ہے۔محبت کی کوئی زبان نہیں ہوتی، کوئی رسم نہیں ہوتی، کوئی تہذیب اور پیمانہ نہیں ہوتا۔ جب محبت پیدا ہوتی ہے تو خود ادب واحترام کے پیمانے تراش لیتی ہے۔ جذبے کسی سانچے کے محتاج نہیں ہوتے۔ اُردو زبان میں نعت گوئی لا محالہ اُردو بولنے والوں کی ثقافتی ترجمان ہوگی۔ وہ ثقافت ا و ررسم و رواج جو اس خطے میں عمل پیرا ہے، جو یہاں کے لوگوں کے تہذیبی رویوں کی عکاسی کر تا ہے۔ سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ نعت گوئی میں کس طرح کے موضوعات سموئے جا سکتے ہیں:

٭ نعت گو ،سرکارV سے محبت، عقیدت اور لگائوکا اظہار کرے۔

٭ نعت گوسرکار سے گناہوں کی بخشش کا طلب گار ہو۔

٭ نعت گو سرکارِ دو عالم سے مسائل سے نکلنے کے لیے کرم کا طلب گار ہو۔

٭ نعت گو، فلسفۂ رسالت کی تشریح و تعینِ مقام کے لیے کوشش کر رہا ہو۔

٭ نعت گو رسولِ اکرم V کو دیگر مقدس ہستیوں کے تقابل میں زماں ومکاں کے تناظرمیں افضلیت دے رہا ہو۔

٭ نعت گو تاریخِ اسلام میں سیرتِ طیبہ بیان کر رہا ہو۔


ان تمام موضوعات میں ہمارے اُردو نعت گو ئوںنے اظہار کیا ہے۔حسن عسکری نے لکھا ہے کہ ’’روحانی حقائق کو مجازی عشق کی اصطلاح میں بیان کیا۔ مذہبی شاعری کی یہ صنف سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔‘‘(۱) ہمارا نعت گو مجازی عشق کو عشقِ حقیقی میں کیوں دیکھتا ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنے پس منظر کا اسیر ہے۔وہ عشق کو مکانی یا احساساتی صورت دینے میں زیادہ سہولت محسوس کرتا ہے۔ برصغیرکی فکر کا پس منظر’ ہندوستانیت‘ سے مبرا نہیں ہو سکتا۔’ ہندوستانیت‘ صرف مسلمانیت‘ تک محدود سماج کا نام نہیں تھا۔ہم نے اُردو نعت کی تشریح و تعبیر میں عربی ثقافت کو مدِ نظر رکھا ہے جس کی وجہ سے ہمیں زبردست غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔ کچھ اسی قسم کی حد بندیاں نعت گوئوں کے ہاں بھی در آئیں ۔ انھوں نے بھی نعت پیش کرتے ہوئے عربی ثقافت کے قریب جانے کی کوشش میں نعت کہی۔

صنفِ نعت میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ:

۱۔ نعت گوئی خالصتاً محبت اور عقیدت کا اظہار ہے ۔

۲۔ یہ ایک شعری اظہار ہے جو شعری لوازمات میں اپنا مدعا بیان کرتا ہے۔


نعت لکھتے ہوئے اور نعت پڑھتے یا سنتے ہوئے ہمیں نعت کی شعری منزلت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے اگر نعت کو ایک خالص غیر شعری رویوں میں پیش کرنا مقصود ہے تو پھر نعت کو نثر میں پیش کرنا چاہیے۔جس میں شعری نظام(علم البیان اور تلازماتی نظام) کا عمل دخل لازم نہیں۔ نعت گوئی میں جب شعری جذبے آئیں گے تو اس میں ہرغیر ممکن تصور یا فکر ممکن ہو سکتی ہے۔ دوسرا؛ اگر یہ جذبہ محبت کو پیش کر رہا ہے تو پھر محبت کسی بھی طرح پیش کی جا سکتی ہے اس میں پیش و پس سے کام لینا بذات خود محبت کی توہین ہے۔مبین مرزا نے لکھا ہے:

’’عشقِ رسول ایک مسلمان کی زندگی کا سراسر نجی مگر بے حد اہم معاملہ ہے۔‘‘ (۲)


مگر نعت گوئی نجی معاملہ نہیں رہتا۔ نعت فنِ شعر کی ایک اہم صنف ہے جو سرکارِ رحمت Vکے ساتھ شعری جذبوں میں بات کرنے کا نام ہے۔


اُردو نعت کو ان غلط فہمیوں کے ساتھ ہی دیکھا ہے۔ کہا گیا کہ نعت میں پیش کی جانے والی ثقافتی عمل کاری عربی تہذیب کے قریب ہو، ہندوستانیت کو نکال باہر کرنے کی کوششیں جاری رہیں اور پھر نعت گوئی میں حد بندیوں نے بہت سے باریک اور ضروری اظہاریے محدود کر دیے، کبھی بدعت کا نام دیا جانے لگا، کبھی رسالت ، رب اور بندے کی حدود متعین کی جانے لگیں۔ مگر یہ نہ دیکھا گیا کہ یہ شعرگوئی ہے جو شعری نظام اپنے ساتھ لاتی ہے جس میں مبالغہ، تقابل، حسنِ اظہار اور استعارے کا عمل موجود ہوتا ہے۔جو شخص جس زبان میں نعت پیش کرتا ہے وہ اپنی ثقافت و تہذیب ساتھ لاتا ہے۔یہ عین فطری بھی ہے اور ضروری بھی۔حفیظ تائب کہتے ہیں:

تخلیق کے چہرے کا ضیا ہے تری ہستی

تہذیب کے ماتھے کا ہے جھومر تری سیرت


کون سی تہذیب؟ ہندو تہذیب؟ مسلم تہذیب؟یا ہندومسلم تہذیب؟ یا عربی تہذیب؟ ماتھے پرجھومر تو ہندوستانی سجاتے ہیں۔ شاید حفیظ ہمیں ہندوستانی تہذیب کے ماتھے کا جھومر دکھا رہے ہیں۔ ذاتِ سرکار کی مدح ہندوستانی تہذیب کے ماتھے کا جھومر بھی ہے اور پوری دنیا کی مختلف تہذیبوں کے ماتھے کا جھومر بھی۔ بیگم صالحہ عابد اپنے ایک مضمون ’’کلامِ انیس میں ہندوستانی تہذیب‘‘میں لکھتی ہیں:


’’حضرتِ مریم، حضرت عیسیٰ ؑ کی تصوریریں دنیا کے ہر ملک، ہر قوم، ہر رنگ اور نسل کے لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں بنائی ہیں اور ہر جگہ کی مصوری میں مقامی رنگ موجود ہے۔ حبشی نسل کے لوگوں نے ان کا چہرہ اور نقش نگار حبشی دکھائے ہیں۔ یوروپئین مصوروں نے انھیں مغربی حسن کا شاہکار دکھایا ہے۔ ڈی سوزا نے حضرتِ عیسیٰ ؑ کی مشہور تصویر ہندوستانی انداز کی بنائی ہے۔ خود مہاتما بدھ کے بت، ہندوستان، چین، جاپان وغیرہ میں اپنے اپنے مقامی رنگ میں ڈھالے گئے ہیں۔‘‘(۳)


اصل میں حقیقت یہ ہے کہ شاعری اور شاعر دونوں اپنے تناظر کے اسیر ہوتے ہیں۔ شاعرلکھتے ہوئے کبھی بھی اپنے زمان ومکاں سے الگ نہیں رہ سکتا۔ اُسے اپنی تہذیب کا اظہار زبان میں کرنا ہوتا ہے جو بہر حال مکانی و زمانی سٹریکچر سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔شاعر نے زبان کے پہلے سے موجود سٹریکچر میں خود کو اتارنا ہوتا ہے اس لیے وہ زبان اور شعر کے جسمانی اور روحانی دونوں قسموں کی حالتوں سے گزر کے شعری ہیولا تشکیل دیتا ہے لہٰذا مجید امجد کا یہ کہناکہ:


’’جنابِ رسالت مآب کی تعریف میں ذرا سی لغزش، نعت گو کو حدودِ کفر میں داخل کر سکتی ہے۔ ذرا سی کوتاہی مدح کو قدح میں بدل سکتی ہے۔ ذرا سا غلو ضلالت کے زُمرے میںآ سکتا۔ ذرا سا عجزِ بیاں اہانت کا باعث بن سکتا ہے۔ فنِ شعر کے لحاظ سے اس کام کے لیے کمالِ سخن وری اور نفسِ مضمون کے لحاظ سے اس کے لیے کمالِ آگہی درکار ہے۔‘‘(۳)

میرے خیال میں درست نہیں۔


یہ کیسی محبت ہے؟ یہ کیسا اظہاریہ ہے؟ یہ کیسا محب اور محبی ہے کہ جو طے شدہ پیمانوں اور مروجہ خانوں میں اظہارِ محبت کرتا اور اُسے قبول کرتا ہے۔یہ تو عینِ فطرت نہیں۔ جذبے کے خلوصِ بے پناہ کو رائیگانی کے دریا کے سپرد کرنے کا احساس ہی ہو سکتاہے۔یہ کیسی محبت ہے جو محبت ہوتے ہوئے بھی یک دم کفر کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے؟


میرے خیال میں یہ نعت کی شعری محبت کو دنیاوی پیمانوں سے ماپنے کا نتیجہ ہے۔ شاعری بے پایاں اظہارِ محبت ہے۔ شاعری کے اپنے پیمانے اور اصول ہوتے ہیں جو ہر حدود کو اپنے لیے کارآمد بنانا جانتے ہیں۔جنھیں علم ہے کہ کون سا مضمون ، جملہ یا لفظ شعر کی تہذیب میں آ سکتا ہے یا نہیں۔ نعت بھی ایک شعری جذبہ ہے جسے سب سے پہلے شاعری ہونا چاہیے۔ سپاٹ اور غیر رمزی اظہاریہ نعت کے مضمون کو تو بیان کر سکتا ہے مگر سرکارِ رحمت کے حضورشعری نذرانۂ عقیدت پیش کرنے میں پیچھے بھی رہ سکتا ہے۔یہی وجہ ہے آزاد نظم میںنعت گوئی نے الگ سے شعری امیجری اور تلازماتی کائنات بنائی ہے۔جس میں نعت گوئی محض فنِ اظہار سے آگے نکل کر آرٹ کے درجے پر پہنچ رہی ہے۔ جس میں ہر طرح کے موضوعات نئے نئے اسالیب میں بیان کئے جا رہے ہیں۔

میں تجھے عالمِ اشیا میں بھی پا لیتا ہوں

لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالمِ بالا تیرا

حوالہ جات

۱۔ حسن عسکری: مضمون ’’محسن کاکوروی‘‘،کلیاتِ حسن عسکری، سنگِ میل پبلشرز لاہور، ۲۰۰۰، ص ۴۰۶

۲۔ مبین مرزا: اُردو نعت کی شعری روایت، مرتب: صبیح رحمانی،اکادمی بازیافت کراچی۲۰۱۶، ص ۴۴۸

۳۔ بیگم صالحہ عابد حسین،ـکلامِ انیس میں ہندوستانیت، مشمولہ ’’اُردو اور ہندوستانی تہذیب‘‘، اُردو اکادمی دہلی،۲۰۱۴، ص ۱۶۶

۴۔ مجید امجد: کلیاتِ نثر مجید امجد، کتاب سرائے لاہور، ۲۰۱۷

٭٭٭

ڈاکٹر سراج احمد قادری: نعت میں نظریاتی افکار و خیالات

ABSTRACT: Three books have been analyzed in this article in order to evaluate their content in the light of standard fixed to express love with the Holy Prophet Muhammad (Sallallah-o-Alaihe-Wasallam) in poetry. The authors of books Dr. Habib-ur-Rehman Rahimi, Professor Abdullah Shaheen and Dr. Abdullah Abbas Nadvi have delineated examples of expression in the devotional poetry. Professor Abdullah Shaheen has gone beyond his limits in criticizing poets of highly repute. Hence his irrational approach has been highlighted and counteracted by citing examples of poetic versions presented by Dr. Abdullah Abbas Nadvi from literary history of Arabic poetry, besides opinion of sages of Islamic history. The art of recitation of naat has also been made like usual performance art by some Naat Khwaans, causing tarnishing of image of devotional poetry and therefore came under criticism in this article for the sake of bringing sanity.


نعتیہ ادب کے حوالے سے اس وقت تین اہم کتابیں میرے پیش نظر ہیں۔ اولاً ’’ نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ‘‘ ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی ،جو ان کا تحقیقی مقالہ ہے۔ جس پر ر اجستھان یونیورسٹی، جے پور ، راجستھان نے ان کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری ایوارڈکی ہے۔ دوسری ’’ نعت گوئی اور اس کے آداب ‘‘ جو پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب(ایوارڈ یافتہ) کی ادبی و تحقیقی کتاب ہے۔ اور تیسری کتاب ’’ عربی میں نعتیہ کلام ‘‘ جو مشہور اسلامک اسکالر ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی(مرحوم)سابق استاذ دارالعلوم ندوۃ العلمأ، لکھنؤ و سابق استاذ جامعہ ملک عبدالعزیز ، مکۃالمکرمہ کی ہے۔ تینوں کتابوں کا موضوع صرف اور صرف نعتیہ شاعری ہے۔جب ہم ان کے لکھنے والوں پر ایک گہری نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں تینوں حضرات دانشوروں کی صف میں بھی صف بستہ نظر آتے ہیں اس لیے کہ تینوں حضرات کے پاس ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے ۔ مگر جب ان کی فکری تب و تاب پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان تینوں حضرات کے ما بین بعض مقامات پر افکار و خیا لات میں تفاوت نظر آتا ہے۔اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوے بحث یا گفتگو کا آغاز ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی صاحب کے تحقیقی مقالہ ’’ نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ ‘‘ سے کرتے ہیں ۔


ڈاکٹرحبیب الرحمن رحیمی صاحب نے اپنا مذکورہ مقالہ ڈاکٹر ریاض الدین ۔شعبۂ اردو راجستھان یونیورسٹی،جے پور کی نگرانی میں قلم بند کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مذکورہ مقالے پر مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی ، مہتمم دارالعوم ندوۃ العلما، لکھنؤ ،مدیر البعث الاسلامی،لکھنؤ ،و پروفیسر عبدالحق ،سابق صدر شعبہ ٔ اردو ، دہلی یونیورسٹی ، دہلی وغیرھم جیسی عظیم شخصیات نے دل نواز نظریاتی مقد مے تحریرکیے ہیں ، پروفیسر عبدالحق صاحب نے تو ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی صاحب کے مذکورہ مقالے کو ڈاکٹر ریاض مجید ، فیصل آباد کے تحقیقی مقالہ’’ اردو میں نعت گویٔ‘‘ کے بعد دوسری سب سے بڑی کاوش قرار دیا ہے، چناںچہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔


’’یہ میرا ذاتی تاثر ہے اور کسی استصواب کے بغیر عرض کر رہا ہوں کہ ڈاکٹر ریاض مجید (فیصل آباد) کے بعد یہ دوسری سب سے دلاویز پیش کش ہے۔ جس کے لیے میں فخر بے جاکا جواز بھی رکھتا ہوں۔‘‘ ۱؎


نیز آگے چل کر اپنے اسی مقدمے میں تحریر فرماتے ہیں۔


’’بغیر کسی ادعایت کے عرض کرنا چاہوںگا کہ یہ مقالہ ایک طرح کا د أیرۃالمعارف یا انسایکلو پیڈیا ہے، جس میں نعت شہ کونین Vسے متعلق ممکنہ معلومات کا ذخیرہ جمع کر دیا گیا ہے ۔ ان کے متعلقات بھی زیر بحث لائے گیٔ ہیں۔ عربی فارسی ، اور اردو کے نعتیہ تحقیق کاروں کو ترتیب کے ساتھ تذکرے میں شامل کیا گیا ہے ۔ بہ صورت دیگر یہ ایک ارتقائی تاریخ کے لیے بھی حوالے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ نعت کے اس خو شہ و خر من کے مجموعے کو برق و باراں کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ راقم ان کی کاوش کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہے کہ انہوں نے ادب و انتقاد کو ارجمندی بخشی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہماری کوتاہ بینی نے نعت کو صنف شاعری قرار دینے میں بخل برتا ۔ اگر مثنوی و مرثیہ اصناف شعر تسلیم کیے جا سکتے ہیں ۔ اور نصاب میں شامل ہو سکتے ہیں ۔ تو نعت سے گریزپائی کیوں ہے؟ تنگ دلی اور ترقی پسندی ہی سنگ راہ بنی ۔ نام نہاد نظریہ اور ایک خاص عقیدے نے اس صنف ادب کو جزو نصاب نہ بننے دیا ‘‘۲ ؎


ڈاکٹر صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’ نام نہاد نظریہ اور ایک خاص عقیدے نے اس صنف کو جزو نصاب نہ بننے دیا ‘‘ڈاکٹر صاحب کو اس نام نہاد نظر یے اور اس خاص عقیدے کے لوگوں کی وضاحت و پہچان اپنی اس تحریر میں کر دینی چاہیے تھی جس سے کہ ان لوگوں کامحاسبہ اور محاکمہ کیا جا سکتا ۔ اور میری دانست میں اس حقیقت کا انکشاف توان کو بہت پہلے ہی اہل علم و ادب کے سامنے کرنا چاہیے تھا جس وقت کہ وہ دہلی یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو تھے۔


ڈ اکٹر حبیب الرحمن رحیمی صاحب کے مقالے کا موضوع ’’ نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ ‘‘ ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کو تو چاہیے تھا کہ وہ اپنے موقف پر قائم رہ کر نعت گوئی کے موضوعات پر قرآن و احادیث، سیرت ِرسول اکرم V اور صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نیز دربارِ رسالت مآب V کے ان جلیل القدر شعراے ٔ کرام کے اقوا ل و اشعار سے ان موضوعات کی تحقیق وتفحص کرکے نشان دہی کرتے جس سے کہ عصر حاضر یا بعد کے نعت گو شعرا ٔیا نعت خواں حضرات کو راہ راست کی ضیا ٔ ملتی۔ مگر ایسا نہ کرکے انہوں نے اپنے اس تحقیقی مقالے کو بالکل نظریاتی مقالہ بنا دیا اور گھما پھرا کر وہی باتیں تحریر کی ہیں جو ان کے اپنے من کی بات یا ان کا اپنا خود کا عقیدہ و نظریہ ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ جب ان کو نظریاتی مقالہ لکھنا ہی تھا تو وہ کسی اور موضوع کا انتخاب کرتے۔ اتنے حساس اور نازک موضوع کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے تھا ۔ اور اگر توفیق رب سے انہوں نے اس موضوع کا انتخاب کر ہی لیا تھا تو قلم کی دھار کو بہت سنھال کر استعمال کرتے اس لیے کہ نعت نبی اکرم وV سے عشاق جہاں کے دل وابستہ ہیں ۔ عشاق رسول V کے احساس کا اندازہ میر تقی میر ؔ کے درج ذیل شعر سے کیا جا سکتا ہے ۔ اگر چہ میرؔ صاحب نے اس شعر کو کسی اور مقام کی مناسبت سے تحریر کیاہے ۔

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا


ڈاکٹر رحیمی صاحب نے مقالے کے چند ہی صفحات کے بعد اپنے دل کی باتیں تحریر کرنا شروع کردیں چناںچہ خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی مشہور زمانہ نظم

اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

کے زمرے میں اظہار خیال کرتے ہوے تحریرفرماتے ہیں۔


’’یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے، اس سے نعت کو مزید عروج اور مقبولیت بھی حاصل ہو ئی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس نعت میں تو مولا ناحالی نے امت کی بددینی اور در پیش مسائل کا ذکر آںحضرت V کے حضور کیا ہے۔ مگر بعد میں شعرا ٔاس سے پھسل کر استغاثہ، استمداد اور استعانت تک پہونچ گیٔ،جو قطعی مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔ کیوںکہ اگر کسی سے فریاد کی جا سکتی ہے ۔ کسی سے مدد مانگی جا سکتی ہے تو وہ ذات صرف اللہ وحدہ لاشریک کی ہے۔‘‘ ۳؎


آگے چل کر ڈاکٹر صاحب کا اسلوب نگارش کچھ الگ طرح کا ہی رو پ اختیار کرتاہے اور اپنے مذکورہ تحقیقی مقالے کے باب اول کے اختتامیہ پر تبلیغ و ترہیب کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ۔


’’یاد رہنا چاہیٔے کہ براہ راست فریاد کرنا، مدد چاہنا، اور پناہ مانگنا ،( استمداد، استعانت،استغاثہ، استعاذہ) وغیرہ بھی شریعت کے دائرے سے باہر ہیں ۔آپ V کے توسل اور طفیل سے دعأ مانگنے سے ہی بعض علمأ منع کرتے ہیں تو پھر آنحضرت V روز قیامت اپنی امت کی شفارش بھی اللہ رب العزت کے حکم سے ہی فرمائیںگے ۔ بیشک اللہ ہی قادر مطلق ہے اس امر کا ہر وقت لحا ظ رکھنا ضروری ہے ورنہ شاعر اور شاعری دونوں خسرالدنیا والآخرۃ کا مصداق بن سکتے ہیں۔ ‘‘۴ ؎


مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر ڈاکٹر حبیب الر حمن رحیمی صاحب کھل کر اپنے دل کی بات تحریر نہیں کر سکے اس لیے کہ انہوں نے سوچا ہوگا اگر میں خواجہ الطاف حالیؔ جیسی مقتدر ہستی پر کھل کر قلم اتھاتا ہوں جن کا خود تحقیق و تنقید میں ایک ا علیٰ مقام ہے۔ تو میری بڑی جگ ہنسائی ہوگی ۔ اسی لیے انہوں نے حزم واحتیاط کی زبان استعمال کرنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی ۔ مگر افسوس صد افسوس کہ انہیں کے ایک ہم نو ا پر وفیسر عبداللہ شاہین صا حب جو ڈاکٹریٹ بھی ہیں، اور ایوارڈ یافتہ بھی، ان کی دریدہ دہنی اور بے باکی اوج ثریا کو بھی مات دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ انہوں نے خواجہ الطاف حسین حالی کیا ْ؟عظیم عاشق رسول V حضرت امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے عقیدے اور نظرییٔ کا نشانہ بناتے ہو ے ’’ ملت اسلامیہ کی اجتمائی تباہی و بربادی‘‘ کا ذمہ دار ان کو ٹھرایا ہے۔ چناںچہ وہ اپنی تحقیقی کتاب ’’ نعت گوئی اور اس کے آداب ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں ۔


’’امام بو صیری کا قصیدہ بردہ جو انفرادی مصائب کا نمونہ ہے اور ملت اسلامیہ کی اجتمائی تباہی و بربادی کا المیہ جسے حالی جیسے موحدشاعرنے بھی (ٹھوکر کھاتے ہوے ٔ) روایتی شاعری کی رو میں بہ کر بصورت ’’ استغاثہ‘‘ بدرگاہ رسالت پیش کیا ہے۔

اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں

بیڑا یہ تباہی کے قریب آن پڑا ہے ‘‘۵؎


اس مقام پر ٹھہر کر میں اپنی علمی کم مائیگی کو پیش نظر رکھتے ہوے ڈاکٹر رحیمی صا حب سے ان کے ایک جملے کی وضاحت چاہوں گا انہوں نے بریکٹ میں تحریر فرمایا ہے کہ (استمداد ۔۔۔۔ استعاذہ) یہ استعاذہ کیا ہے ؟ اسکو لوگ کب مانگتے ہیں ؟ اور کس سے مانگتے ہیں ؟ کیا کوئی بندۂ مومن اللہ کے پیارے حبیب V سے بھی استعاذہ مانگتا ہے؟میرے اپنے علم میں استعاذہ علم القراۃ کی اصطلاح ہے اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجییم پڑھنے کو استعاذہ کہتے ہیں اور بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم پڑھنے کو بسملہ کہتے ہیں ۔ اور اگر اسکے علاوہ کوئی اور صورت ہو تو میرے علم میں اضافہ فرمائیں ۔ میں آپکا مرہون منت ہوںگا ۔


افسوس صد افسوس اس بات کا ہے کہ ان حضرات کی نگاہیں حقائق کی طرف کیوں نہیں جاتیں ۔ اور اگر جاتی بھی ہیں تو حقائق سے کیوں اغماض بر تتے ہیں؟ میں ڈاکٹر رحیمی صاحب اور پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب دونوں حضرات کو ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی صاحب کی کتاب ’’ عربی میں نعتیہ کلام‘‘سے ہی آئینہ دکھانا چاہتا ہوں کہ میرے اپنے خیال میں یہ دونوں حضرات بھی انہیں کے ہم عقیدہ و ہم نظریہ بھی ہیں ۔ مگر انہوں نے بہت سے مقامات پر حقائق کو اپنی مذکورہ کتاب میں جگہ دی ہے۔ چناںچہ انہوں نے اپنی اسی کتاب میں ایک مشہور جلیل القدر صحابی رسول حضرت عبداللہ بن زیعریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک نعت پاک نقل فرمایا ہے۔ جس میں حضرت زیعریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرور کائنات حضور رحمت عالم، سید عالم روحی فدا جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی V سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن زیعریٰ رضی اللہ تعا لیٰ کے احوال و آثار کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ حالت کفر میں اسلام کے خلاف کفار مکہ کو بھڑکایا کرتے تھے ۔ اور حضرت سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ کا مقابلہ اشعار سے قریش کی طرف سے کیا کرتے تھے ۔مگر آقا و مولیٰ حضور رحمت عالم ، سید عالم روحی فدا V کے د امن کرم سے وابستہ ہو نے کے بعدکتنے عاجزانہ انداز میں اپنی گزشتہ زندگی پرا ظہار ندامت کرتے ہوے ٔ آقا علیھم ا لسلام سے اپنی گناہوں کی معافی طلب کی ہے ۔ ان کی نعت پاک کے درج ذیل شعر سے اس قدر محبت رسول V ٹپک رہی ہے جس کو پڑھنے کے بعد ہر عاشق رسول کی روح وجد کرنے لگتی ہے اور ایمان میں فرحت و تازگی آجاتی ہے۔ ملاحظہ ہووہ روح افزا شعر ؎

فاغفر فدیًً لک والدی کلاھما ذنبی ،فانک راحم مرحوم


ترجمہ۔ لہٰذا معاف فرما دیجیے میرا گناہ میرے ماں باپ دونوں آپ پر قربان ہوں، کیوں کہ آپ رحم فرمانے والے ہیں۔ ۶ ؎

یہی وہ مقام ہے جہاں عشق رسالت مآبﷺ کی خوشبواپنے شید ائیوں کو ایسا اپنی گرفت میں لے لیتی ہے کہ جسے دنیا کا کوئی عقیدہ اور نظریہ متا ثر نہیں کر سکتا۔


میں ڈاکٹر رحیمی صاحب اور پروفیسر شاہین صاحب سے ادب کے ساتھ پوچھناچاہوںگا کہ کیا حکم صادر فرمائیںگے اس جلیل القدر صحابی رسول کے بارے میں جنہوں نے آقا علیھم السلام سے براہ راست اپنے گناہوں کی معافی طلب کی ؟ جبکہ قران پاک تو ارشاد فرماتا ہے۔واللّٰہ غفور الرحیم ۔ حضرت سیدنا امام محمدبن سعید بوصیری رحمۃاللہ علیہ نے عشق رسول اور نعت مصطفی V کا جو عظیم سرمایہ ہمیںعطا کیا ہے۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں ۔ پوری دنیا کے عشاق رسول مل کر اگر انکے اس عظیم کارنامے کا بدل دینا چاہیں تو مجھے ممکن نہیں لگتا ہے کہ دنیا کی کو ئی شئے ان کے اس کارنامے کا کویٔ بدل بن سکتی ہے ۔ میں تو یہی کہوںگا کہ نہ ان کے عشق رسول V کا کوئی بدل ہے او ر نہ ہی ان کے نعتیہ سرمایہ کا۔


ڈاکٹر عبداللہ شاہین صاحب نے اپنی مذکورہ کتاب ’’ نعت گوئی اور اسکے آداب ‘‘ میں جا بجا عاشق رسول حضرت امام محمد بو صیری رحمۃ اللہ علیہ پر زبردست چوٹ کی ہے ۔ جیسا کہ اُوپر آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ایک دل دوز اقتباس اور ملاحظہ فرمائیں۔


’’لیکن اس واضح ارشاد کے باوجود ساتویں صدی ھجری میں جب تصوف اور بدعت نے زور پکڑلیا تھا ، اہل تصوف نے اسلام کے منہج اور مدح کے طریقے سے یکسر خلاف نبی V کی شان اقدس میں ایسے قصیدے لکھنے شروع کر دیے جن میں نبی V کو اُلوہیت کے درجے پر فائز کرنے کی کو شش کی گیٔ اور آپ کو صفاتِ الٰہیہ سے متصف کر دیا گیا ۔


اس رسم بد کی ابتدا ٔمحمد بن سعید بو صیری کے ہاتھوں ہوئی جو ۶۹۵؁ھ میں اسکندریہ میں ہلاک ہو گیا تھا ۔ اس نے نبی V کے متعلق قصیدے لکھے جن میں سے دو بہت مشہور ہوے ٔ۔ ایک قصیدہ ہمزیہ اور دوسرا قصیدہ میمیہ ۔ ان میں سے موخرالذکر کو بہت شہرت حاصل ہوئی ۔بوصیری نے اس قصیدے کا نام ’’ الکو اکب الدریہ فی مدح خیرالبریہ ‘‘رکھا ۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے اسی جیسے فاسد العقیدہ پیروکاروں نے جھوٹ اور افترا کی بنیاد پر اس کا نام ’’ قصیدہ بردہ‘‘ رکھ دیا ۔ جس میں بے بنیاد اور جھوٹے خوابوں کی تشہیر کرکے ثابت کرنے کی کو شش کی گیٔ کہ اس قصیدے کے سننے سے نبی V بہت خوش ہوے ٔاور انعام کے طور پر خواب ہی میں اپنی چادر عنایت فرمائی اور پھر وہ چادر بیدار ہونے کے بعد مولف قصیدہ کے ہاتھ میں تھی ۔ اسی وجہ سے اس کا نام قصیدہ بردہ پڑ گیا ۔ یہ باتیں بالکل باطل اور بے سند ہیں ۔ بہر حال بوصیری کے بعد نبی V کی مدح و نعت میں غلو و افراط کا عنصر شامل ہو تا گیا یہاں تک کہ بر صغیر کی نعتیہ شاعری میں غلو و افراط بھی آخری حدوں سے تجاوز کر گیا۔ ‘‘۷ ؎


لیکن جب ہم ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی کے مذکورہ تحقیقی مقالہ ’’نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ ‘‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ان کے اس مقالے میں علامہ بو صیری رحمۃاللہ علیہ کا ذکر بڑی سادگی اور حسن سلیقہ سے ملتا ہے ۔جس میں انہوں نے نہ تو ان کی شخصیت پر کوئی چوٹ کی ہے اور نہ ہی ان کی شاعری کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا یا ہے بلکہ قدرے پزیرائی ہی کی ہے چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔


’’عہد رسالت کے بعد ایک قصیدہ بہت ہی مشہور ہوا ، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس کی شہرت ما قبل کے تمام مدحیہ اور نعتیہ قصائد پر غالب آگیٔ ، اسکے شاعر ساتویں صدی ھجری کے ایک نامور مورخ مداح نبی محمد بن سعید البوصیری ( ۶۰۸ھ تا ۶۹۷) ہیں ۔ شاعر نے اس قصیدے کا نام ’’الکواکب الدریہ فی مدح خیرالبریہ ‘‘ رکھا تھا ۔ لیکن بعد میں قصیدہ بردہ کے نام سے موسوم و معروف ہوا ۔ روایت ہے کہ بوصیری کے نصف جسم پر فالج کا حملہ ہوا ، اسی حال میں انہوں نے یہ قصیدہ کہا اور خواب میں آپ کی V زیارت سے مشرف ہوے ٔ، آنحضرت V نے ان پر اپنی چادر ڈال دی اور سر پر دست مبارک پھیرا ۔ بوصیری صبح کو بیدار ہوے ٔ تو فالج سے صحت یاب ہو چکے تھے ۔ سارا قصیدہ عشق رسول میں ڈوب کر کہا گیا ہے ۔ اس لیے اسے عالم اسلام میں اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ بطور وظیفہ پڑھا جانے لگا ، اپنی شہرت و مقبولیت میں یہ قصید ہ کعب بن زہیر کے قصیدہ سے بھی آگے بڑھ گیا ۔ اب تک لاکھوں کی تعداد میںشائع ہو چکا ہے ، متعدد زبانوں میں اسکا ترجمہ ہو چکا ہے ،سیکڑوں شعرا ٔنے اس کی بحر میں اپنے قصیدے لکھے ، اس کی تضامین کہیں ( ۴۲) اس قصیدے کے مضامین کی تر تیب یہ ہے۔

۱۔ تشبیب کے بعد نفسانی فریب کاریوں سے آگاہی

۲۔ گریز ، مدح رسول V

۳۔ ولادت نبوی اور معجزات کا ذکر

۴۔ قران مجید ، واقعہ معراج اور جہاد کا ذکر

۵۔ توسل اور مناجات ۸ ؎


اور ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی صاحب اپنی کتاب عربی’’ میں نعتیہ کلام ‘‘ میں علامہ بو صیری رحمۃاللہ علیہ کا ذکر اور ان کی ستودائی کرتے ہوے ٔ تحریرفرماتے ہیں۔


’’علامہ بو صیری جن کا پورا نام محمد بن سعید ہے ، ساتویں صدی ہجری کے ایک مصری شاعر اور طریقہ شاذلیہ کے صاحب نسبت و اجازت صوفی بزر گ تھے۔ مصر کے علاقہ بنی سویف میں ابو صیر انکا دادیہال اور دلاص نانیہال تھا ، ابو صیری اس گاؤں کی طرف نسبت ہے ، جو مخفف ہو کر ابو صیری سے بو صیری ہو گیا۔


ان کی ولادت دلاص میں ۶۰۸؁ھ اور وفات اسکندریہ میں ہوئی ، نعت نبوی ان کی شاعری کا موضوع تھا ۔ ’’ قصیدہ بردہ ‘‘ کے علاوہ بھی ان کی متعدد نعتیں ہیں ، خاص طور سے انکا قصیدہ ’’ہمزیہ‘‘ بہت مقبول عام قصیدہ ہے۔ اس کے علاو ہ’’ قصیدہ بانت سعاد‘‘ کی زمین میں ایک طویل قصیدہ علامہ نبہانی نے نقل کیا ہے ، جس کا مطلع ہے ۔

الی متی انت بالذات مشغول و انت عن کل ما قد مت مسؤل


یعنی تم کب تک لذت اندوزی میں مشغول رہوگے ، حالاںکہ جو کچھ اس دنیا میں کروگے اس کے تنہا ذمہ دار تم ہی ہوگے۔ ان کے اشعار کا مجموعہ مطبوعہ اور قلمی دونوں موجود ہے ، پورا دیوان نعتیہ کلام پر مشتمل ہے ۔ ہر قصیدہ روایتی تشبیب سے شروع ہو تا ہے ، اور ہر حرف تہجی میں انکا قصیدہ نعتیہ موجود ہے۔


صاحب ’’ فوا ت الوفیات‘‘ نے ان کا ایک اور قصیدہ نقل کیا ہے ۔ جس میں علامہ بوصیری نے ’’ شکوہ‘‘ بہ بارگاہ رب العالمین پیش کیا ہے، مصر کی اجتماعی حالت پر اس قصیدے سے روشنی پڑتی ہے ۔ ، علمأ کی بے حسی ، حکام کی خدا سے بے خوفی اور جرات، اہل کارواں کی رشوت خوری ، محرمات کا عام ہونا ، فرائض کی ادائیگی سے جان چرانا ، اس قصیدے کے مضامین ہیں، جو بہت لطیف انداز میں طنز کے پیرایہ میں نظم کیٔ گیٔ ہیں ۔ اور آخر میں اللہ سے فریاد کی ہے کہ وہی اصلاح فرمائے اس کا مطلع ہے۔

نقدت طوائف المستخد مینا

فلم أرفیھم حراًأمینا


لیکن ان کی شہرت ومقبولیت کا سبب ’’ قصیدۂ بردہ‘‘ ہے، جس کے متعلق یہ روایت ہے کہ ان کے جسم کے نصف حصے پر فالج گر گیا تھا اس حال میں انہوں نے یہ قصیدہ لکھا تھا ، خواب میں حضور انور V کی زیارت سے مشرف ہوے ٔ، اور آپ V نے ان پر اپنی چادرڈال دی او ر د ست مبارک ان کے رخسار اور سرپر پھیرا ، جب بیدار ہوے ٔ تو اپنے فالج شدہ حصۂ جسم میں نشاط محسوس کیا اور فالج کا اثر ختم ہو گیا ، صبح کو کہیں جارہے تھے کہ کوئی فقیر ملا اس نے کہا کہ بو صیری ! وہ قصیدہ لاو ٔ جو تم نے رسول اللہ V کی نعت میں کہا ہے ، بوصیری نے اس قصیدے کا حال کسی کو نہیں بتایا تھا ، مگر رسول اللہ V کے اس معجزے پر یقین تھا ،اس لیے انہوں نے اس فقیر سے یہ بات سن کر تعجب کا اظہار نہیں کیا کہ تم کو کیسے معلوم ہوا ، مگر خود اس فقیر نے کہا کہ میں نے رات دیکھا کہ تم آںحضرت کی مجلس شریف میں اپنا قصیدہ سنا رہے ہو ، اور حضور V پر وجد کی کیفیت طاری ہے، چناںچہ اس قصیدے کی شہرت اس فقیر کے ذریعے ہوئی ۔ اس قصیدے کا عنوان علامہ بوصیری نے ’’ الکو کب الدریہ فی مدح خیرالبریہ ‘‘ رکھا تھا ، لیکن اپنی مقبولیت کی وجہ سے ’’ قصیدہ بردہ‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا ، بعض لوگوں نے کعب بن زہیرؓ کے ’’ قصیدہ بردہ ‘‘ اور اس قصیدہ کے درمیان تمیز کرنے کے لیے بوصیری کے قصیدہ کو ’’ بردہ منامیہ ‘‘ بھی کہا ہے، کیوں کہ بوصیری رحمۃاللہ علیہ کو عالم رویا میں بردہ مرحمت فرمایا گیا تھا ، ،عوام میں مشہور ہے کہ شیخ بوصیری رحمۃاللہ علیہ جب خواب سے بیدار ہوے ٔ تو انہوں نے بردہ مبارک کو موجود پایا جو خواب میں ان کو مرحمت فرمایا گیا تھا ، لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے ، اور نہ کسی معتبر تاریخ میں کہی گیٔ ہے، لیکن جو بات صحیح ہے وہ یہ کہ یہ قصیدہ جس درجہ مقبول ہوا اس درجہ قصیدہ ’’ بانت سعاد ‘‘ کو بھی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی ، لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو چکا ہے، اور ہمیشہ کوئی نہ کوئی نیٔ شرح لکھتا رہتا ہے ، سیکڑوں (بلا مبالغہ)قصیدے اس زمین پر کہے جا چکے ،پچاسوں تضمینیں اور مشطر ،مخمس ، مسدس،مسبع،اور معشر کہے گئے۔ ‘‘ ۹ ؎


ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی صاحب نے اس قصیدے کے عرب شارحین کی ایک فہرسست بھی تحریر کی ہے جسکی تفصیل اس طرح ہے۔

۱۔ ابن الصایغ ،م ۷۷۶؁ھ

۲۔ علی بن محمد قلصائی ،م ۸۹۱؁ھ

۳۔ شہاب الدین ابن العماد،م ۸۰۸؁ھ

۴۔ علأالدین بسطامی ، م ۸۷۵؁ھ

۵۔ یوسف بن ابی اللطف القدسی ،م ۱۰۰۰؁ھ

۶ ۔ یوسف البسطامی ۔ نویں صدی ھجری کے بزرگ ہیں ، سن وفات مذکور نہیں ہے۔

۷۔ ملا علی قاری م،۸۰۱۴؁ھ

۸۔ شیخ زادہ محی الدین ۔ تاریخ وفات لا معلوم ، لیکن ان نکی شرح کے قدیم نسخہ پر تاریخ تصنیف ۹۴۹ھ؁مذکور ہے۔

۹۔ جلال الدین المحلی ۸۶۴؁ھ ( تفسیر جلالین کے ایک حصے کے مصنف )

۱۰۔ محمد بن المرزوقی ،م ۸۸۱؁ھ ( شارح حماسہ)

۱۱۔ عبدالحق بن عبدالفتاح ( بارہویں صدی ھجری)

۱۲۔ محمد المصری ( گیارہویں صدی ھجری)

۱۳۔ زکریا الانصاری ،م ۹۳۶؁ھ

۱۴۔ عمرالخربوتی(تیرہویں صدی ھجری)

۱۵۔ علامہ قسطلانی ( شارح بخاری )م ۹۲۳؁ھ

۱۶۔ محمد بن مصطفی المرونی( تیرہوں صدی ھجری)

۱۷۔ محمد عثمان المرغنی (تیرہویں صدی ھجری)

۱۸۔ شیخ الحسن العددی الخمرادی ۱۳۰۳؁ھ

۱۹۔ الباجوری ۱۲۷۶؁ھ ‘‘ ۱۰؎


نیز ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی صاحب نے اسی کے بعد ’’ قصیدۂ بردہ ‘‘ کا فنی تجزیہ بھی پیش کیا ہے۔ جو کافی بلیغ اور تحقیقی ہے ۔ میں اس مقام پر قارئین کرام کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوںکہ آپ نے ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی اور ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی صاحبان کا تجزیہ اور تاثر ملاحظہ کیا۔ مگر ان دونوںحضرات نے نہ تو علامہ بوصیری رحمۃاللہ علیہ کے قصیدہ کو جھوٹ قرار دیا اور نہ ہی ان کی شخصیت پر کسی طرح کی کو ئی طعن و تشنیع کی ، جیسا کہ پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب نے اپنی مذکورہ کتاب ’’ نعت گوئی اور اسکے آداب ‘‘ میں علامہ بوصیری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے قصیدہ بردہ کو ’’ انفرادی مصائب کا نمونہ اور ملت اسلامیہ کی اجتماعی تباہی و بربادی کا المیہ قرار دیا ہے۔‘‘


اگر کسی شاعر یا نعت گو کے پیش نظر یہ تینوں کتابیں ہوں اور وہ ان کا مطالعہ کرنے کے بعد نعت پاک کی رقم طرازی کرنا چاہے تو کیا یہ ممکن کہ وہ شریعت کی روشنی میں شعر گوئی یا سخن طرازی کر سکتاہے؟ میری سمجھ سے تونا ممکن ہے اس لیے کہ ان تینوں کتابوں کے ما بین جو نظریاتی اختلافات ہیں وہ اسی میں الجھ کر رہ جا ئے گا۔ جب کہ اگر دیکھا جاے تو تینوں کتابوں کے لکھنے والے زمانے کے محققین کی صسف میںصف بستہ ہیں۔ اور تینوں حضرات کا یہی دعویٰ ہے کہ ان کی کتابیں نعتیہ ادب کی سچی ترجمان ہیںان کو شریعت اسلامیہ کی روشنی میں قلم بند کیا گیاہے۔


پروفیسر عبد اللہ شاہین صاحب نے علامہ بوصیری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے متعلق جو باتیں تحریر کی ہیں کیا وہ تحقیقی معیار کی لگتی ہیں؟ مجھ جیسے ہیچ مداں اورکم علم کو تو اس میں تحقیق کا شائبہ تک نظر نہیں آ تا ، ان کی تحریر کردہ باتیں محض ان کے عقائد و نظریات کی ترجمان ہیں ۔ میری سمجھ سے دنیا کا ہر دانشور اور منصف مزاج انسان ان کی مذکورہ تحریر پڑھنے کے بعد یہی راے قا ئم کرے گا،کہ پروفیسر صاحب کے اپنے خود کے عقائد و نظریات ہیں۔ ان کی مذکورہ تحریر عاشقانِ مصطفیﷺ کے لیے سوہان روح ہے۔


ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی صاحب نے اپنی مذکورہ کتاب ’’ عربی میں نعتیہ کلام ‘‘ میں علامہ بوصیری علیہ الرحمہ کے’’ قصید ہ بردہ ‘‘ شریف کے جن ۱۹ ؍عرب شارحین کا ذکر کیا ہے جو اپنے زمانے کے منفردالمثال محقق، محدث، مفسر قرآن وغیرہ علوم متداولہ پر کامل دسترس رکھنے والے تھے ۔ جن کی عظیم خدمات کا صلہ ہے کہ آج دین ہم تک پہنچا ۔انہوں نے اپنی زندگی کو فروغ اسلام کے لیے وقف کر رکھا تھا ۔ علامہ بوصیری علیہ الرحمہ پر طعن و تشنیع کی زبان وا کرنے سے پہلے ان حضرات کے مبلغ علم پر بھی پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب کو ایک نظر ڈال لینا چاہے تھا ۔ کیا ان حضرات نے بغیر کسی تحقیق و تفحص کے علامہ بوصیری رحمۃاللہ علیہ کے قصیدہ بردہ شریف کو قبول کر لیا ہوگا ؟ جو علم دین کے پارکھ تھے۔ اور تفقہ فی الدین کے ا علیٰ مرتبے پر فایز تھے ۔


آگے چل کر پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب اپنی مذکورہ کتاب ’’ نعت گوئی اور اس کے آداب میں ’’تشبیہ و استعارہ ‘‘ کے تحت تحریر فرماتے ہیں ۔ ’’ نعت کے اظہار میں ایسی تشبیہ یا استعارے سے گریز کرنا چاہیے جس سے نعت کی پاکیزگی اور شائستگی متاثر ہوتی ہو ، مثلاً !

دیکھے ہو گا ’’سری کرشن‘‘ کا کیوں کر درشن

سینۂ تنگ میں دل گوپیوں کا ہے بیکل (محسن کاکوروی)


شعر مذکور میں نبی ﷺ کے لیے ’’ سری کرشن‘‘ (جو ہندوؤں کا دیوتا اور ان کے عقیدے کے مطابق بھگوان کا اوتار) کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔ (نعوذ باللہ من ذالک) یہ انتہائی سؤ ادب ہے۔ ۱۱ ؎


مجھے پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب کی ہر دلیل اور ہر بات پر بے ساختہ ہنسی آتی ہے شاید کہ وہ اپنے قاری کو نا خواندہ یا بُزِِ اخفش سمجھتے ہیں ، اور اپنے زعم فاسد میں بڑی دلیری اور بے باکی سے جس طرح وہ اپنے نظریات و خیالات کو بیان کرکے اپنی گرفت میں اپنے قاری کو لینا چاہتے ہیں ایسے مقام پر ان کا مبلغ علم اور دانش و بینش سب کچھ ان کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ اس خود وا رفتگی میں ان کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اگر میرے کسی قاری نے اصل ماخذ کی جانب رجوع کیا یا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ کیا تو کیا ہوگا؟


اس وقت ’’ کلیات نعت محسن ‘‘ مرتبہ نورالحسن (جو حضرت محسن ؔ کاکوروی کے بڑے صاحبزادے ہیں) مطبوعہ اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ ۹۸۲؁۱ میر ے پیش نظر ہے ۔ محسن ؔ کاکوروی کے جس شعر کا ذکر انہوں نے اوپر کیا ہے اس قصیدے کی شروعات اس طرح ہوتی ہے اور محولہ بالا شعر تشیب کا ہے ملاحظہ ہو ؎

سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

برق کے کاندھے پہ لایٔ ہے صبا گنگا جل

گھر میں اشنان کریں سروقدان گوکل

جا کے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طول امل

خبر اڑتی ہوئی آئی ہے مہابن میں ابھی

کہ چلے آتے ہیں تیرتھ کو ہوا پر بادل

کالے کوسوں نظر آتی ہیں گھٹائیں کالی

ھند کیا ساری خدائیٔ میں بتوں کا ہے عمل

جانب قبلہ ہوئی ہے یورش ابر سیاہ

کہیں پھر کعبہ میں قبضہ نہ کریں لات و ہبل

دہر کا ترسابچہ ہے برق لیے جل میں آگ

ابر چوٹی کا برہمن ہے لیے آگ میں جل

ابر پنجاب تلاطم میں ہے اعلیٰ ناظم

برق بنگالہ ٔ ظلمت میں گورنر جنرل

نہ کھلا آٹھ پہر میں کبھی دو چار گھڑی

پندرہ روز ہوے پانی کو منگل منگل

دیکھیٔ ہوگا سری کرشن کا کیوںکر درشن

سینۂ تنگ میں دل گوپیوں کا ہے بیکل۱۲


پروفیسر صاحب کیا یہ بتانے کی زحمت فرمائیںگے کہ حضرت محسن ؔکاکوروی نے اپنے مذکورہ قصیدہ میں لفط ’’ سری کرشن ‘‘ کا جو استعمال فرمایا ہے کیایہ استعارتاً آقا و مولیٰ جناب احمد مجتبیٰ V کے لیے استعمال کیا گیاہے یا حقیقتاً سری کرشن کے لیے ؟۔ کیوں کہ میری اپنی معلومات میں مذکورہ شعر حضرت محن ؔ کاکوروی کے مذکورہ قصیدہ ’’ قصیدہ مدیح خیرالمرسلین V ‘‘ کے تشبیب کا شعر ہے جو اپنے اصل معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ۔اس لیے کہ قصائد کی تشابیب میں اس طرح کے الفاظ کی بندش کوئی نئی ٔ چیز ٔ نہیں ۔ اس سے شاعر کا مقصد اصل موضوع کو تیز تر کرنا ، اور اس میں جان پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جب ہم نعت گوئی کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں عہد نبوی؍V کے مشہور شاعر اور صحابی رسول حضر ت سیدنا کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قصیدہ’’ بانت سعاد ‘‘ کی تشبیب میں بھی اس طرح کے الفاظ ملتے ہیں جو زمانۂ جاہلیت میں ان کی معشوقہ کی یادوں سے وابستہ تھے ۔نیز انہیں کی اتباع میں کہے گیٔ حضرت امام بوصیری رحمۃاللہ علیہ کے’’ قصیدہ بردہ شریف‘‘ میں بھی تشبیب کایہی حال ہے۔جب یہ تشیبیب کا شعر ہے تو استعارتاً سرور انبیأ V پر چسپا کرنا،اور انتہائی سو ٔ ادب بتانا کہاں کی علمی دیانتداری ہے؟ ان کی مذکورہ تحریر خود ان کے مبلغ علم اور ان کے افکار و خیالات کی غماض ہے۔


میرے اپنے قول یا نظر ییٔ کی تائید ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی صاحب کی درج ذیل تحریر سے بھی ہوتی ہے وہ تحر یر فرماتے ہیں۔


ایک اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ اس کی تشبیب میں ( جو اس قصیدے کی روح ہے) غیر مشروع موضوعات کو جگہ دی گیٔ ہے ، لیکن یہ اعتراض زیادہ قوی نہیں ہے، کیوں کہ تشبیب کی روایت اردو میں عربی سے آئی ہے اور عربی روایت کے مطابق تشبیب میں موضوع کی کوئی قید نہیں ہے ہر طرح کے مضامین کو نظم کیا جا سکتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ عربی کے بہترین نعتیہ قصائد میں مختلف موضوعات پر مشتمل تشبیب ملتی ہے ، قصدہ بردہ (بانت سعاد ) کو آپ V نے پسند ہی نہیں فرمایا بلکہ اس میں اصلاح بھی کی ، جب کہ اس کی تشبیب میں محبوبہ سعاد کا ذکر کیا گیا ہے ،اللہ کے رسول کے مقابل سعاد کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے ، ایسا ہی اس قصیدے کی تشبیب میں کیا گیا ہے کہ کفر و اسلام دو متضاد چیزوں کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ در اصل یہاں کفر کی نفی کرکے اسلام و ایمان کی ترغیب دی گیٔ ہے۔ امیر ؔ مینایٔ نے اس اعتراض کا جواب بہت مناسب طریقے سے دیا ہے۔


بادی النظر میں شبہ ہوتا ہے کہ قصیدۂ نعت میں متھرا، گوکل، و کنہیا کا ذکر بے محل ہے۔لہٰذا دفع دخل کیا جاتاہے کہ نعت میں تشبیب کے معنی ہیں ذکر ایام شباب کرنا اور اصلاح شعر میں مضامین عشقیہ کا بیان کرنا ۔اساتذہ نے تخصیص مضامین عاشقانہ کی قید بھی نہیں رکھی ، کوئی شکایت زمانہ کرتا ہے کوئی متفرق مضامین کی غزل لکھتا ہے ، کوئی غزل میں کسی طرح کا خاص تلازم ملحوظ رکھتا ہے۔


الغرض متبعان کلام اساتذہ حقیقت شناسان تشبیب و قصیدہ پر پوشیدہ نہیں کہ مضامین تشبیب کے محصور نہیں ہیں اور نہ کچھ مناسبت کی قید ہے کہ حمد و نعت و منقبت میں قصیدہ ہو تو تشبیب میں بھی اسی کی رعایت رہے ،مرزا اسدللہ غالبؔ دہلوی نے منقبت میں قصیدہ لکھا جس کا مطلع ہے  :

صبح کہ در ہوا ے ٔ پرستاری دثن

جنبد کلید بتکدہ،در دست برہمن


اور اس قصیدے کی تشبیب میں بھی ایسے ہی مضامین لکھے ہیں ، عمدہ تر سند اس کے جواز کی یہ ہے کہ حضرت سرور کائنات خواجۂ ہر دو عالم V کے حضور میں قصیدہ بانت سعاد جس کی تشبیب مشروع نہیں ہے پڑھا گیا اور حضرت رسول اللہ V نے زبان مبارک سے اس کی تحسین فرمائی۔ ‘‘ ۱۳ ؎


ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی صاحب نے اپنی کتاب ’’ عربی میں نعتیہ کلام میں ‘‘ تشبیب کے مفہوم کے حوالے سے بڑے پتے کی بات نہایت ہی ظریفانہ انداز میں تحریر کی ہے ملاحظہ ہو۔


بعض لوگوں کے خیال میں ’’ تشبیب‘‘ کے لفظی معنیٰ ہیں ’’ آنچ تیز کرنا ‘‘( نہ کہ ایام شباب کا یاد کرنا،مادہ کے لحاظ سے دونوں مفہوم کی گنجا ئش ہے ) قدیم شعرا ٔکا اس سے مطلب یہ ہو تا تھا کہ اصل مضمون کو بیان کرنے کے لیے محبوب کو یاد دلانے والے اس سے نسبت رکھنے والے مقامات کا ذکر کریں ۔تاکہ ’’آتشِ شوق‘‘ تیز ہو، اور جس وقت اصل مضمون پر آئیں۔ اس وقت بیان کرنے والے کا جوش اور سننے والے کا اشتیاق نقطۂ کمال پر پہونچ چکا ہو ، تشبیب کا یہ مضمون عام طور سے قصیدہ کے ایک تہائی یا نصف پر ہاوی ہوتا ہے ، امام بو صیری ر حمۃ اللہ علیہ نے ان دو شعروں سے وہ مقصد کو حاصل کر لیا ،جس کے لیے تشبیب کے مضمون کو طول دیا جاتا تھا ، عاشق کی والہانہ کیفیت کا اظہار مطلع کے پہلے ہی لفظ سے ہونے لگتا ہے ، جبکہ وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے کہ یہ آنسو جن میںخون جگر کی آمیزش ہے کیوں بہنے لگے آخر تیرے زخم کو کس نے چھیڑا ، کیا دیکھ لیا ؟ کیا سن لیا؟ کیا دیار محبوب کے سمت کسی پہاڑی پر بجلی چمکی ،یا اس رخ کی کوئی ہوا چلی یا اس قرب و جوار کے باشندے یاد آگیٔ ۔


سوز دروں کے اظہار کا یہ شاعرانہ اسلوب بہت ہی دل نشیں اور لطیف ہے کہ محبوب یا دیار محبوب کا نام بھی زبان پر نہ آے، صرف انداز بیان سے عشق و وارفتگی کی روح جھلکنے لگے ، شاعر یہاں عشق کی ایک خاص کیفیت بیان کر رہا ہے جبکہ عاشق کو ہر شیٔ میں محبوب کا جلوہ نظر آنے لگتا ہے ، ہر بات میں اسکی بات یاد آنے لگتی ہے، اس کے زخم کو کریدنے کے لیے ایک اشارہ چاہیے، اس کے رونے کے لیے ایک بہانہ درکار ہے ۔ اردو میں کلیم ؔ کا یہ شعر بھی اسی کیفیت کا تر جمان ہے ؎

لگتی ہے اب تو قلقل مینا سے دل پہ ٹھیس

وہ دن گیٔ کلیمؔ کہ یہ شیشیہ سنگ تھا


ایک دوسرے شاعر نے اس مضمون کو اس طرح باندھا ہے ؎

محبت میں اک ایسا وقت بھی آتا ہے انساں پر

ستاروں کی چمک سے چوٹ لگتی ہے رگ جاں پر ۱۴ ؎


حضرت محسنؔ کاکوروی کو اپنی حیات ہی میں اپنے مذکورہ قصیدے کی تشبیب پر لوگوں کی ذ ہنی فکر کا اندازہ ہو گیا تھا کہ لوگ طرح طرح سے اس کی تشبیب پر اعتراضات کریںگے۔اسی لیے انہوں نے خوداپنی زندگی ہی میں اس طرح کے بے بنیاد اعتراضات کے جواب دے د ے ٔتھے۔ مزید امیر الشعرا حضرت امیرؔ مینائی رحمۃاللہ علیہ نے ان کی حمایت میں دیباچہ لکھ کرتائید و توثیق کی مہر ثبت کر دی تھی اور جملہ اعتراضات کا دفاع کر دیا تھا ۔ کیا حضرت امیرؔ مینائی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر محسن ؔ کاکوروی کے مذکورہ شعر پر نہیں گیٔ ہوگی؟ آخر ان کو اتنی بڑی غلطی کیوں نظر نہیں آئی؟ میں یقین کامل کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر حقیقتاً غلطی ہوتی تو ان کو ضرور نظر آتی ۔ آج بھی امیرالشعرأ کی وہ تقریظ یا دیباچہ محسنؔ کاکوروی کے مذکورہ دیوان میں موجود ہے۔ شائد کہ یہ حقیقت پروفیسر عبداللہ شاہین صاحب کی نظر سے نہیں گزری، اور نہ ہی انہوں نے اس کے حوالے سے کوئی کوشش ہی کی، ورنہ اگر وہ محسن ؔ کاکوروی کی کلیات ’’ کلیات نعت محسن‘‘ کا ایک نظر مطالعہ کر لیتے تو اس طرح کا اعتراض ہی نہ کرتے ، جب کہ انہوں نے اپنی مذکورہ کتاب کے فرنٹ پر ہی یہ عبارت لکھ رکھی ہے۔ ’’ حمد و نعت کے لطیف موضوع پر منفرد ادبی و تحقیقی کتاب‘‘ ا ور گزرتی بھی کیسے اس لیے کہ انہیں تو حمد و نعت کی آڑ میں اپنے افکار و خیالات کی تبلیغ کرنی تھی ۔

چناں چہ حضرت محسن ؔکاکوروی فرماتے ہیں ؎

گو قصیدے سے جدا ابر بہار تشبیب

فکر کے تازہ و تر کرنے کو ہے مستعل

مختلف ہوتے ہیں مضمون کہیں عشق کہیں حسن

کہیں نغمہ ہے ، کہیں پھول ہے اور ہے کہیں پھل

جیسا لکھا ہے امیرالشعرأ نے دم طبع

اس کی پیشانی پہ دیباچہ ما قل و دل

تا ہم اک لطف ہے خاص اس میں جو سمجھے دانا

کہ سخن اور سخن گو کو ہے نازش کا محل

پڑھ کے تشبیب مسلماں معہ تمہید و گریز

رجعت کفر بایماں کا کرے مٔسلہ حل

کفر کا خاتمہ بالخیر ہوا ایماں پر

شب کا خورشید کے اشراق سے قصہ فیصل

چشم انصاف سے دیکھو تو قصیدے کی شبیہ

نیم رخ تھی اسی رنگت سے ہوئی مستقبل

ظلمت اور اس کے مکارہ میں ہوا طول سخن

مگر ایمان کی کہیے تو اسی کا تھامحل

غلبہ و سطوت ظلمت کے بیاں میں مضمر

شوکت اس نور کی ہے جس نے کیا مستاصل

کفر و ظلمت کو کہا کس نے کہ ہے دین خدا

میٔ و نغمہ کو لکھا کس نے کہ ہے حسن عمل

مدعا یہ ہے کہ رندوں کی سیہ بختی سے

ظلمت کفر کاجب دہر میں چھایا بادل

ہوا مبعوث فقط اس کے مٹانے کے لیے

سیف مسلول خدا نور نبی مرسل

مہر توحید کی ضو اوج شرف کا مہ نو

شمع ایجاد کی لو بزم رسالت کا کنول ۱۵؎


ڈاکٹر عبداللہ شاہین صاحب نے اپنی کتاب’’ نعت گوئی اور اس کے آداب‘‘ میںجگہ جگہ ایسی باتیں تحریر کی ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد دل و دماغ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے اور دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈاکٹر صاحب نے ہوش و حواس کے عالم میں ہی یہ باتیں تحریر کی ہیں یا کسی اور کیفیت میں ڈوب کر، ایک اقتباس اسی قبیل کا اور ملاحظہ فرمائیں۔


’’مذکورہ شعرأ کا نقطۂ انتہا نبی V سے دعأ کرنے کی استدعا پر ہی منتج ہوتا ہے ۔ ان شعرا ٔکا یہ انداز بھی حرام ، بدعتی اور شرکیہ ہے جس سے احتراز واجب ہے، البتہ ہندوستانی مسلمان یہاں کے ہندو مذہب سے خاصے متاثر ہوے ٔ اور ان کے عقائد و افکار میں ہندوانہ رنگ و آہنگ نے جگہ پائی ۔ دیوی دیوتاوں کی سرزمین پر مسلمانوں نے بھی ہندؤں کی دیکھا دیکھی اپنے اکابر اور پیروں کو ما فو ق ا لفطرت ہستیاں ثابت کرنے میں بے سرو پا حکایات و روایات کا سہارا لیا اور انہی کی طرح اپنے اولیأ اور بزرگوں کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا بنا کر پیش کیا ۔ اس طرح بزرگوں سے بر تر ہستی رسول اللہ V کی ذات گرامی تو اور بھی زیادہ حاجت روائی کا منبع تصور کی گیٔ لہٰذہ نعت گوؤں نے رسول اللہ V کی نعت و منقبت اس طرح کہنی شروع کر دی جیسے ہندو کرشن جی کے بھجن کہتے تھے ۱۶ ؎ مجھے تو یہ معلوم نہیں کہ ہمارے پروفیسر صاحب کی زاد بوم کیا ہے ؟ وہ عربی ا لنسل ہیں یا عجمی النسل ،اگر وہ عجمی النسل ہوںگے تو یقیناان کے آبا و اجدادکا تعلق نہ موجودہ ہندوستان صحیح ماضی کے متحدہ ھندوستان سے تو ضرور ہی ہوگا ۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے جن عیوب کو بڑے فخر سے بیان کیا ہے یقیناً انہیں عیوب میں ان کے آبا و اجداد بھی ملوث رہے ہوںگے۔ الحمد للہ ا گر چہ ہم دیوی دیوتاوں کے ملک میں رہتے ہیں مگر اس کے باوجود اپنے اسلام کی حفاظت و صیانت کرنا جانتے ہیں ، ہماریے ایمان آقا و مو لیٰ جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی V کی محبت ان سے اعانت و استعانت کی ہی وجہ سے محفوظ ہے۔ آج اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ہمارے اہل وطن ہمیں عزت و توقیر کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں ۔ ہم اپنے رب کے شکر گزار ہیں کہ اس نے اپنے فضل و احسان سے ہمیں اس بات کا بخوبی علم و شعور عطا کیا ہے کہ کن اقوال و افعال کے صدور سے آدمی دایرۂ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور کن افعال و اقوال کے صدور سے آدمی دایرۂ اسلام سے خارج ہو جایا کرتا ہے۔ کب وہ مشرک و بدعتی ہوا کر تا ہے معاذ اللہ رب العالمین ہماری نعتوں اور منقبتوں کا تعلق کبھی بھی کرشن جی کے بھجنوں سے نہیں رہا ہے ۔


میں نے ۱۹۹۳ ؁ میںحج سے واپسی پر روضۂ اطہر V کی زیارت کے موقع پر مسجد نبوی شریف میں اہل عرب کو قرآن مقدس کا تکیہ لگاکر آرام کرتے ہوے ٔبھی دیکھا ہے۔ مجھے ایک دن کا واقعہ یاد آرہا ہے کہ میں اپنے استاذ محترم حضرت علامہ محمد نعمان خان علیہ الرحمہ کے ساتھ مسجد نبوی شریف میں بعد نماز ظہر قرآن مقدس کی تلاوت میں مصروف تھا کہ اسی ا ثنا میں ایک عربی تشریف لاے ٔاور انہوں نے تین قرآن پاک اٹھاکر فرش پر رکھکر ابھی وہ ان کا تکیہ لگانے ہی جا رہے تھے کہ اتنے میں میرے استاذ محترم کی نگاہ ان پر پڑ گی ٔ ان کے ایمانی جذبے نے جوش مارا اور وہ قرآن کی بے حرمتی کو برداشت نہیں کر سکے انہوں نے اتنی زوردارآواز میں ان کو ڈانٹا کہ انہوںنے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا ،اور وہاں سے چلتا ہوے ٔ۔ میں پروفسر صاحب سے نہایت ہی ادب کے ساتھ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم ہندوستانیوں کا اسلام یہی ہے کہ دین اسلام پر اگر کہیں بھی ضرب آرہی ہوتی ہے تو ہماری مذہبی غیرت ہمیں للکارنے لگتی ہے اور پھر ہم اس پر سب کچھ قربان کرنے کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے دلوں میں قرآن کی محبت آج بھی اسی طرح جاں گزیں ہے کہ اگر اس کاایک بھی ٹکڑ ا روے زمین پر کہیں بھی گرا ہوا دکھائی دیتا ہے تو ہماری حمیت یہ گوارہ نہیں کرتی کہ بغیر اس کی حفاظت کیے ہوئے ہم آگے بڑھ جائیں ۔


پروفیسر صاحب جب ہم قبر انور شریف پر مواجہ اقدس V میں حاضر ہوتے ہیں اور مطوع حضرات کو آقا علیہم السلام کے رخ زیبا کی طرف پشت کیٔ ہوے ٔ دیکھتے ہیں تو ہمارے دلوں پر کیا گزرتی ہے، ہم اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے، اور ہم اپنی وا رفتگی کو کیسے قابو میں لاتے ہیں اسے بھی ہم بتا نہیں سکتے ۔ کیا آقا علیہم السلام کا یہی حق ہے ؟ کیا ان کا مقام ادب یہی ہے کہ ان کے رخ زیبا کی طرف پشت کرکے کھڑا ہواجاے ٔ؟ کیا اسی عشق رسول کا جام آپ ہم کو پلانا چاہتے ہیں؟


دیکھیٔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ پوری امت مسلمہ کو روضۂ اقدس VV پر حاضری کے آداب کی تعلیم کس طرح فرماتے ہیں، ان کے اقوال عشق رسول V میں کس قدر ڈوبے ہوے ٔ ہیں تعلیم و ترہیب کا انداز ملاحظہ فرمائیں وہ عاشقان مصطفی Vکو تنبیہ کرتے ہوے ٔ فرماتے ہیں۔


’’خبردار جالی شریف کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچو کہ یہ خلاف ادب ہے بلکہ چار ہاتھ فاصلے سے قریب نہ جاؤ ، یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ تم کو اپنے حضور بلایا ، اپنے مواجہ اقدس میں جگہ بخشی۔ ان کی نگاہ کریم اگر چہ ہر جگہ تمھاری طرف تھی اب خصوصیت اور اس درجہ قرب کے ساتھ ہے۔ والحمد للہ۔‘‘


الحمد للہ ! اب دل کی طرح تمھارا منھ بھی اس پاک جالی کی طرف ہو گیا ۔ اللہ عز و جل کے محبوب عظیم الشان V کی آرام گاہ ہے۔ نہایت ادب و وقار کے ساتھ ،آوازحزیںو صورت درد آگیں و دل شرم ناک و جگر چاک چاک معتدل آواز سے نہ سخت و بلند ( کہ ان کے حضور آواز بلند کرنے سے عمل اکارت ہو جاتے ہیں ) نہ نہایت نرم و پست ( کہ سنت کے خلاف ہے ) اگر چہ وہ تمھارے دلوں کے خطروں تک سے آگاہ ہیں جیسا کہ ابھی تصریحات ایمہ سے گزر ا۔ ‘‘۱۷ ؎ ؎


ایک امتی جس وقت اپنے آقا و مولیٰ V کے حضور حاضر ہوتا ہے اس وقت وہ اپنی پوری زندگی کے گناہوں کے بوجھ سے زیربار ہوتاہے ۔ گناہوں کے بوجھ سے اس کی کمر ٹوٹ رہی ہوتی ہے۔ میدان محشر کے ہولناک منظر کے تصور سے وہ لرزہ براندام ہوتاہے ۔ ایسے ہی وقت کے لیے رب کے حضور آقا علیہم السلام کو اپنا شفیع بننے کے لیے منت و سماجت کرتا ہے ۔ کیا یہی انصاف کا تقاضہ ہے کہ استدعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہی شرک کی بولی بول کر اسے وہاں سے بغیر اپنی عرض داشت پیش کیے در بدر کر دیا جائے۔


پروفیسر صاحب آ پ ہی نے اپنی اسی مذکورہ کتاب میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ کی کتاب ’’جذب القلوب‘‘ کے حوالے سے تحریر فرمایا ہے کہ’’ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مدینہ طیبہ میں اپنے گھوڑے پر سوار نہ ہوتے تھے ۔ فرماتے تھے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس زمین کو گھوڑے کے سموں سے پا مال کروں جسے رسول اللہ V کے مبارک قدموں نے چھوا ہے ۔


حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ مدینہ منورہ کی حدود شروع ہوتے ہی جوتا اتار لیتے تھے اور اپنے وقت کے امام ، عظیم محدث اور فقیہ ننگے پاؤں مدینے کی سر زمیں پر چلتے تھے کہ مبادا جس جگہ نبی اکرم V نے قدم رکھے ہوں ، وہاں وہ اپنی جوتیاں رکھ دیں۔‘‘۱۷ ؎


اسی کتاب میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علی الرحمہ تحریر فرماتے ہیں۔


’’جب سرور عالم V کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تھے اور جب مدینہ کے قریب پہنچتے تھے تو اپنی سواری کو حرکت دے کر اور تیز کر دیتے تھے، اور یہ اس لیے تھا کہ آپ وفور شوق سے بے چین ہو جاتے تھے کہ کسی طرح جلد از جلد مدینہ میں داخل ہو جائیں ۔آپ کا قلب مبارک یہاں پہنچ کر سکون پاتا کاشانہ مبارک میں چادر بھی نہ اتارتے اور فرماتے تھے کہ یہ ہوائیں طیبہ ہیں ۔

اے نفس خورم باد صبا

از بر یار آمدہ مرحبا

مرحبا پیاری نسیم مشک بو

پہلوے محبوب سے آتی ہے تو


جو گرد وغبار آپ کے چہرۂ انور پر پڑ جاتا اس کو صاف نہ فرماتے ،اگر صحابہ میں سے کوی شخص اپنے چہرہ اور سر کو گرد و ٖبار کی وجہ سے چھپاتا تو آپ منع فرماتے اور فرماتے کہ خاک مدینہ میں شفاہے جیسا کہ اس کے نام شافیہ سے ظاہر ہے ۔ جناب علی مرتضیٰ سلام اللہ علیہ نے رسول اللہ V سے روایت کیا ہے کہ شیاطین شہر مدینہ میں اپنی عبادت سے مایوس ہو گیٔ ہیں ۔ آپ دریافت کریںگے کہ شیاطین کی عبادت کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگوں کو برائی کی طرف بر انگیختہ کر تے ہیں ۔‘‘ ۱۸ ؎


آج بھی عشاقان جہاں مدینہ طیبہ پر اپنی جاں وارفتہ کیے ہوے ٔ ہیں ۔ خاک طیبہ کا ایک ایک ذرہ آج بھی ہماری جاں سے عزیز ترین ہے ۔ ہمارا یہی وہ اثاثہ ہے جو ہمیں دنیا میں سرخرو بنائے ہوے ٔ ہے اور آج ہم اسی نسبت عظیم کی وجہ سے زندہ و تابندہ ہیں۔جس دن یہ نقوش ہمارے دلوں سے دھندھلے پڑنے لگیں گے شائد کہ وہ دن ہماری ہزیمت کا سب سے بڑا دن ہو ۔ ہم کبھی بھی ان نقوش کواپنے قلوب سے مٹنے نہیںدیں گے ۔


پروفیسر صاحب کیا یہ بتانے کی زحمت فرمائیںگے کہ ہمارے اسلاف حضرت امام ما لک اور حضرت امام احمد حنبل علیہم الرحمہ جب مواجہ اقدس میں حاضری دیتے تھے تو کیا ان کے زمانے میں بھی اسی طرح مطوع رخ انو ر V کی طرف پشت کرکے کھڑے رہتے تھے؟ اور زائرین طیبہ کو بغیر اپنی عرض داشت پیش کیے ہی دو ر کر دیاکرتے تھے؟ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا یہ وہ لوگ تھے ’’ہر آں کہ دلش زندہ شد بعشق ہرگز نہ بمیرد ‘‘ جو اپنی جانوں کو قربان کر دینا تو گوارہ کر لیتے مگر یہ کیفیت برداشت نہ کر سکتے تھے۔ یہ بدعت آپ کو آج تک نظر نہیں آئی ، آپ نے اپنی مذکورہ کتاب میں کہیں بھی اس فعل قبیح کا ذکر نہیں کیا جو عاشقان مصطفی ٰV کے لیے سوہان روح ہے۔


مجھے اس بات کا شدید احساس ہے کہ آج نعت گو سے زیادہ نعت خواں حضرات اس صنف ادب کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ اس لیے کہ نعت گو حضرات جو بھی نعت پاک یا نعت کے اشعار کہتے ہیں اس پر ان کی کڑی نظر ہوتی ہے اور وہ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کہیں مجھ سے کوئی لغزش نہ ہو جائے ،اور میں شرعی گرفت میں آجاؤں ۔ وہ اس خوف سے ہمیشہ لرزاں و ترساںرہتے ہیں اور بار بار اپنے اشعار پر نظر ثانی بھی کرتے رہتے ہیں۔نیز جس کو وہ اس میدان کا شہ سوار اور استاد سمجھتے ہیں اس سے اصلاح ِسخن بھی لیتے رہتے ہیں ۔الحاصل سخن گو یا شاعر قطعی نہیں چاہتا کہ اس کے کلام میں کہیں کسی طرح کی کوئی کجی یا کمی رہ جاے ٔ جس سے کہ وہ شرعی زد میںآے ٔ ۔ مگر نعت خواں حضرات کا حال دگر گوں ہے ۔ وہ مجالس نعت یا سیرۃ المصطفٰی V کی مجلسوں اور محفلوں میں عجب طرز وآہنگ میں نعت خوانی کرتے ہیں، کبھی تو وہ فلمی گانوں کی دھنوں پہ نغمہ سرا ہوتے ہیں، کبھی وہ اپنی سحر آمیز آواز سے لوگوں کو گرفت میں لینا چاہتے ہیں ، کبھی کبھی وہ فضائل نعت بیان کرکے مجلس کوسرگرم کرنا چاہتے ہیں ۔ کبھی اعضائے جسم سے اس طرح کی ایکٹنگ کرتے ہیں کہ جس سے نعت کی مجلس کا ادب جاتا رہتا ہے ، اور اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ یہ نعت مصطفیٰ V کی مجلس ہے یا کوئی اور مجلس۔ اس پر طرفہ یہ کہ اناونسر حضرات جب کسی نعت خواں کو آقا و مولیٰ V کی بارگاہ میںنعت پاک پڑھنے کے لیے دعوت دیتے ہیں تو اس وقت وہ اپنی پوری صلاحیت اس کے اوصاف بیا ن کرنے میں صرف کر تے ہیں ، کہیں اس کے کلام کی خوبیوں کو بیان کرتے ہیں، تو کہیں اس کی ساحری کو ، اور کہیں اسکے منفرد لب و لہجہ کو۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر اس وقت ان کے پاس حضرت اسرافیل علیہ السلام کاصور ہوتا او ر وہ اس کے پھو کنے پر قادر ہوتے تو وہ شائد کہ صور پھونکنے میں بھی کوئی فرو گزاشت نہیں کرتے۔جس سے ان کا مقصد صرف اورصرف عوام الناس کی واہ واہی اور خوش نودی حاصل کرنا ہو تا ہے۔جب کہ مجلس نعت یا محفل نعت میں ثنا خوانی یا نعت خوانی کرتے نعت خواں حضرات کا یہ تصور ہونا چاہیے کہ یہ سید کونین V کی محفل ہے۔آقا علیہم السلام حاضر مجلس ہیں جہاں وہ ہمارے کلام کو سماعت فرما رہے ہیں وہیں ہمارے حرکات و سکنات پر بھی ان کی نظر ہے ۔


ہمارے جسم کے اعضأ سے کسی ایسے فعل کا صدور نہ ہو جاے ٔ جو ان کی نا پسندیدگی یا ناراضگی کا سبب بنے۔ میرے اپنے خیال میں اگر شعرأیا نعت خواں اس تصور کے ساتھ نعت خو انی کریں تو سامعین حضرات کو بھی مجلس نعت خوانی کا پورا پورا لطف آے ٔ گا ۔ اور نعت گوئی یا نعت خوانی کے اصل مقصد کا حصول بھی ۔ ورنہ اس سے ہٹ کر نعت خوانی دونوں جہاں میں ہماری ہزیمت و رسوائی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی ۔


آخر میں میں اپنے دانشور حضرات سے بڑی معذرت کے ساتھ التماس کرنا چاہوں گا کہ نعت مقدس کے موضوع پر بڑی سنجیدگی سے غور و خوض کرنے کے بعد ہی اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کریں اس لیے کہ ادب کی یہ واحد صنف سخن ہے جس کا تعلق ہمارے اقوال و اعمال سے ہے۔ یہی وہ صنف سخن ہے جس میں ناموس رسالت کی پاسداری ہر ہر قدم پرہم سے متقاضی ہوتی ہے ۔ ہم سبھی لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کو صنف ادب کا درجہ دلانے میں ہر ممکن کوشش کریں ،بہتر تو یہ ہوگا کہ ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھا ہوکر ایک لایحۂ عمل تیار کرکے اپنی آواز کو ادب و احترام کے دائرے میں بلند کریں ۔ اگر ہم نے اس طرح کے اقدامات کیے تو یقیناً ہمیں کامیابی ملے گی ۔ ورنہ اگر ہم انفرادی طور پر صرف اپنا نقظۂ نظر مسلط کرتے رہے پھر تو یہ سلسلہ دراز چلتا رہے گا۔

حوالے

۱۔ نعت نعت گوئی کا موضوعاتی مطالعہ ۔ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی ۔ اریب پبلیکیشنز، دریا گنج،نیٔ دہلی ۹ ۱؎

۲۔ ایضاً ، ص ۲۰

۳۔ ایضاً، ص ۷۴

۴۔ ایضاً، ص ۷۸

۵۔ نعت گوئی اور اس کے آداب، پروفیسر عبداللہ شاہین،دارالسلام، لاہور، ص ۲۰۳

۶۔ عربی میں نعتیہ کلام ، ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی، مکتبۂ اسلام، گوٰین روڈ، لکھنؤ،ص ۸۲

۷۔ نعت گوئی اور اس کے آداب ، پروفیسر عبداللہ شاہین ، دارالسلام ، لاہور۲۷

۸۔ نعت گوئی کا موضو عاتی مطالعہ،۔ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی، اریب پبلی کیشنز، دریا گنج،نئی دہلی، ص ص ۱۰۹-۱۱۰

۹۔ عربی میں نعتیہ کلام ، ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی ،مکتبۂ اسلام، گوٰین روڈ، لکھنؤ، ص ص ۱۰۳-۱۰۵

۱۰۔ ایضاً ، ص ص ۱۰۳-۱۰۵

۱۱۔ نعت گوئی اور اس کے آداب، پروفیسر عبداللہ شاہین، دارالسلام ، لاہور، ص۱۷۷

۱۲۔ کلیات نعت محسن، محمد نورالحسن، اتر پردیش اردو اکا دمی، لکھنؤ ، ص ص ۹۵-۹۷

۱۳۔ نعت گوئی کا موضو عاتی مطالعہ، ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی، اریب پبلی کیشنز، دریا گنج،نئی دہلی ، ص ص ۲۴۱-۲۴۲

۱۴۔ عربی میں نعتیہ کلام، ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی، مکتبۂ اسلام، گوٰین روڈ، لکھنؤ،ص ص ۱۱۴-۱۱۵

۱۵۔ کلیات نعت محسن، محمد نورالحسن، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، ص ۹۴

۱۶۔ نعت گوئی اور اس کے آداب،۔ پروفیسر عبداللہ شاہین، دارالسلام ، لاہور، ص ۱۰۷

۱۷۔ شمائیم النعت، ڈاکٹر سراج احمد قادری، رضوی کتاب گھر، دہلی،ص ۴۵

۱۸۔ جذب القلوب الیٰ دیارالمحبوب ( اردو ترجمہ)، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی، رضوی کتاب گھر، بھیونڈی، ص ۲۱-۲۲

٭٭٭


زاہد ہمایوں: نعت کی نو دریافت دُنیا

ABSTRACT: Devotional poetry i.e. NAAT has now been recognized as literary genre on the basis of written treasure that has invited attention of modern poets and critics simultaneously. It contains Zeitgeist in its narrative in various forms of poetic genres in vogue in Urdu. Modern sensibility has also been reflected in most of the couplets of naatia poetry. This article cites some examples of classical and modern poets' poetic works to paint contemporary literary scenario.


نعت کا موضوع تو رسولVکی ذات ہے لیکن اس کی جہتیں ہر عہد میں نو دریافت دنیائوں کی طرح افقِ نعت پر روشن رہی ہیں ۔"ولی دکنی "سے لے کر عصرِ حاضر تک شعر اور غزل کے لہجے میں جو تبدیلیاں آئیں ، اسالیب میں جو نکھار پیدا ہوا اور موضوعات میں جو وسعت آئی ، اس سے نعتیہ لب و لہجہ بھی بدلا ۔ نعت کی دنیا بظاہر سادہ نظر آتی ہے مگر اس کی حدود حیران کن حد تک وسیع ہیں ۔جب نبوتِ محمدیہ V کا اعلان ہوا تو مشرکینِ مکہ نے حضور V کی ذاتِ با برکات کے خلاف طرح طرح سے منصوبہ بندیاں کیں ۔جنگ میں کفار کے ہم نوا شاعر بھی برابر شریک تھے۔ حضور V کے صحابہؓ نے معاندانہ شاعری کے جواب میں نعتِ رسول Vکا آغاز کیا ۔لسانی جہاد میں شامل شعرا نے اوصافِ پیغمبر V کے بیان کو اپنا شعری اسلوب بنایا:

نہ کوئی اس کا مشابہ ہے نہ ہم سر نہ نظیر

نہ کوئی اس کا مماثل نہ مقابل نہ بدل

اوجِ رفعت کا قمر نخلِ دو عالم کا ثمر

بحرِ وحدت کا گہر چشمۂ کثرت کا کنول (محسنؔ کاکوروی )


وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا(حالیؔ)


مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

شمع ِ بزمِ ہدایت پہ لا کھوں سلام

جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا

اس جبینِ سعادت پہ لاکھوں سلام( احمد رضا خان )


لسانی جہا د کے ساتھ ساتھ ادبی دنیا میں نعت ہر دور میں ہر بڑے شاعر کے لیے ایک الگ تشخص اور تفاخر کا باعث بنی رہی :


’’نعتیہ شاعری میں شعرا نے ہر صنفِ سخن کو مدحتِ آقاؐ کے لیے برتا ۔سی حرفی کو مختار صدیقی نے اردو میںمتعارف کروایا اور اس صنف میں نعت حفیظ تائب نے لکھی۔ ثلاثی کے موجد حمایت علی شاعر ٹھہرے اور سہ مصرعی نعتیہ نظمیں حنیف اسعدی نے لکھیں۔ یک مصرعی نظم سید ابوالخیر کشفی کی جدت پسند طبیعت کی اختراع قرار پائی اور انہوں نے اس کی ابتداء نعتیہ مضامین ہی سے کی۔ جمیل عظیم آبادی نے نعتیہ دوہے لکھے۔نثری نظم میں نعتیہ شاعری کرنے والوں میں احمد ہمیش اور ابواخیر کشفی کے نام نمایاں ہیں۔،نعتیہ ہائیکو لکھنے والوں میں اکرم کلیم، محمد اقبال نجمی، مظفر وارثی، سرشار صدیقی، صبیح رحمانی،وضاحت نسیم، سہیل غازی پوری، طاہر سلطانی، احمد صغیر صدیقی، سید معراج جامی، آفتاب مضطر، شفیق الدین شارق، سید ابوالخیر کشفی،سلیم کوثر،محسن بھوپالی، شبنم رومانی، اقبال حیدر، رضی الدین رضی،مقبول نقش، انجم اعظمی ، اختر شمار، معراج حسن عامر اور رونق حیات وغیرہم کے اسما شامل ہیں۔ـ‘‘ (۱)


۱۸۵۷ء سے پہلے نعتیہ سرمائے میں میلاد نامے ،معراج نامے اور وفات نامے ملتے ہیں ۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد کی نعتوں میں حضور V کی پیغمبرانہ شان کے ساتھ ساتھ انسانِ کامل کے طور پر بشری خصوصیات اور معاشرت و تمدن میں آپ V کے انقلاب آفریں اقدامات و اصلاحات وغیرہ کا فروغ ملتا ہے ۔

	اگر غزل اردو شاعری کی آبرو ہے تو نعت اردو شاعری کا تفاخر ہے ۔نعت میںروحِ عصر Zeitgeist))  اسی طرح جاری و ساری ہے جس طرح کسی زندہ ادب میں ہونی چاہیے۔


در پیش مسائل سے خاتمے کے لیے جب نعت میں فریاد اور استغاثہ و استمداد کے پہلو شامل ہوئے تو نعت کی دنیا ناقابلِ بیان وسعت سے ہم کنار ہوئی :

اے خاصۂ خاصان ِ رسل ؐ  ! وقتِ دعا ہے

امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے

پر دیس میں وہ آج غریب الغربا ہے (حالیؔ)


حالیؔ نے جس نعت کو قومی و ملّی امور سے جوڑنے کی طرح ڈالی اس نے اردو نعت نگاری کو موضوعات کے اعتبار سے دنیا کی تمام زبانوں سے بلند تر سطح تک پہنچا دیا ہے ۔ بقولِ گوہر ملسیانی :


"نعتیہ کلام کے مجموعے صوری اور معنوی رعنائیاں لیے ہوئے ہیں ۔شاعری کی سلطنت کو وسیع کر رہے ہیں ۔پھر نعت صرف روایت کے تابع نہیں رہی ، بلکہ ایک فن کے طور پر سامنے آئی ہے کیوںکہ نعت اب ثواب کے حصول کے لیے نہیں بلکہ اس میں عصرِ حاضر کے تقاضے کے مطابق نئے نئے مضامین شامل ہوئے ہیں۔" (۲)


نعت کی نو دریافت دنیا میں موضوعات اور اسالیب کا تنوّع قابل دیدنی ہے ۔انقلابِ روس،انقلابِ فرانس ،جمہوریت کی تحریک،امریکا کی آزادی کی تحریک، ڈیکارٹ کا اعلان(I am thinking therefore I am) جو جدیدیت Modernism)) کے بطن سے پھوٹا ۔آزادی ، خود مختاری اور روشن خیالی کی یہ دنیا بھی انسان کو دلی سکون اور اطمینان نہ عطا کر سکی :

حضور ؐ دہر میں آسودگی نہیں ملتی

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی (اقبال ؔ)


جد یدیت کی آڑ میں انسان نے روشن خیالی کا سفر طے کیا مگر وہ اپنی منزل پھر بھی نہ پا سکا :

منزلیں گم ہو گئیں

راستے کھو گئے

راہِ سیرت سے ہم ایسے بھٹکے شہا

خود کو پہچاننا

کارِ دشوار ہے زندگی

ریت کی جیسے دیوار ہے

آپ ؐ کا در ہمیں

پھر سے درکار ہے۔ (۳)


گویا کہ ہمارے اس گم شدہ سفر میں راہِ سیرت کو پانے کی تڑپ اور بڑھ گئی ۔نائن الیون اورسقوطِ ڈھاکہ جیسے واقعات نے ایک نئی بے بسی ،افسردگی ، بے چارگی اور بے چینی کو جنم دیا ۔ہماری ساری روشن خیالی اندھیروں اور کھوکھلے دعوئوں کی نذر ہو گئی ۔اس صورت ِحال نے ایک نئی کروٹ لی ۔چارلس ڈارون ،کارل مارکس اور فرائیڈ کے مہا بیانیوں کو چیلنج کیا گیا ۔رولاں بارتھ ،ژاک دریدا ،مثل فوکو ،لیو تار اور جولیا کرستیوا نے پسِ ساختیات تکثیریت اور بین المتنیت جیسی اصطلاحات وضع کیں ۔اب نعتیہ ادب کی نو دریافت دنیا کا انسان، مذہب،روحانیت اور روایات کا احیاء کرنے لگا :

انسانیت کا اوج ہے معراجِ مصطفی

یہ روشنی کی سمت سفر روشنی کا ہے (صبیح رحمانی)

محسوس ہو رہا ہے کہ دل کا معاملہ

دربا رِ مصطفیؐ سے خدا تک پہنچ گیا ( جمیل یوسف )


نعت نے عہد بہ عہد فکری توانائیوں کا ہمیشہ خیر مقدم کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ :


" اردو کا دامن نعتیہ شاعری کے اتنے بڑے ذخیرے سے بھرا ہوا ہے کہ وہ دنیا کی کسی بھی بڑی زبان کے سامنے اس دعوے کے ساتھ سینہ تان کے کھڑی ہو سکتی ہے ۔ اردو شاعری کا منفرد اعزاز ہے کہ ہر شاعر نے نعت ضرور کہی ہے ۔" (۴)


یہ نعت کا اعجاز ہے کہ ایک ہی موضوع پر مختلف مضامین کو اسلوب کی نیرنگی کے ساتھ ادا کیا گیا ۔ اس سے ایک طرف جہاں تخلیق کار کا مخصوص شخصی ادراک برقرار رہا وہاں دوسری طرف اُن کا یہ منفرد اسلوب پڑھنے اور سننے والوں کو متاثر کیے بغیر نہ رہ سکا :

بنے ہیں مدحتِ سلطان ِ دو جہاں ؐ کے لیے

سخن زبان کے لیے او ر زباں دہاں کے لیے (حالی)

نہ ہوا معجزہ ٔ حق کا ظہو ر آ پ کے بعد

چپ ہے جبریل تو خاموش ہے طور آپ کے بعد (فراؔز)

رسولِ مجتبیٰ V کہیے محمد مصطفی V کہیے

خدا کے بعد بس وہ ہیں پھر اس کے بعد کیا کہیے (ماہر القادری)


پھر نعت کا ایک اپنا جہاں ہے ایک ایسا جہاں جو خدائے کریم کی خصوصی عنایات کاثمر ہے ۔اس جہاں کا بشر بحرِ بیکراں کی طرح ہے :

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی ؐ سے مجھے

کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں( اقبال ؔ )


نعت کی دنیا غزل کی دنیا سے وسیع ہے کیوں کہ نعت اور غزل کے محبوب میں زمین آسمان کا فرق ہے :


"نعت کا محبوب قرآن و احادیث اور دیگر صحائف ِ آسمانی کے آئینے میں نظر آتا ہے ۔ اس محبوب کو مجاز در مجاز کی صورت میں دیکھنا خداوندِ کریم کے غضب کو دعوت دینا ہے کیوں کہ یہاں قدم قدم پر توہین کا اندیشہ رہتا ہے ۔نعت کے محبوب کی مثال کہاں ،وہ تو خود اپنی مثال آپ ہیں جسے خدانے اپنا محبوب بنایا اور اسے محبوبیتِ کبریٰ کے منصب پر فائز کیا اور اسی کی محبوبیت کو میزان قرار دیا ۔ یعنی جو محبوب کو محبوب ہوا وہی رب کا محبوب ،جس کی ہر ایک ادا کو قرآن کی صورت میںمحفوظ کر دیا۔ غزل کا محبوب ہما شما کا محبوب، مادیت کے خمیر سے ابھرا ہوا پیکر ،نفسانیات،خواہشات اور تکلفات کے جھولے میں جھولنے والا ،خاک کو افلاک سے کیا نسبت ، ہمیں ہر اس خیال سے بچنا ہے جو خدا کے محبوب کے شایانِ شان نہ ہو۔" (۵)


یہی وجہ ہے کہ نعت کی دنیا میں موجود نئے نئے استعارے ،اچھوتی تشبیہات و تلمیحات جدید شعری آہنگ کو جنم دیتی ہیں :

رُخِ مصطفی ؐ ہے وہ آئینہ کہ اب دوسرا آئینہ

نہ ہماری بزمِ خیال میں نہ دکا نِ آئینہ ساز میں (عارف عبد المتین )

کوئی مثل مصطفی ؐ کا کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا

کسی اور کا یہ رتبہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا (صبیح رحمانی)

میں نے ہر دور کی تا ریخ میں جھانکا فخری

کوئی انسان محمد ؐ سا مثالی نہ ہوا (زاہدؔفخری)


یہ حضورV کی شخصیت کا معجزہ ہے کہ شعرا نے نعتیہ ادب میں تازہ اسلوب اور فکری اجتہاد کی قابلِ قدر مثالیں پیش کیں ۔مثلاً علیم صبا نویدی نے اردونعتیہ ادب کو پہلا سانیٹ کا مجموعہ دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نعتیہ دنیا میں روایت سے گریز کے قائل ہیں اور نعت کو محض حصولِ ثوا ب کے لیے نہیں بلکہ ادبی صنف کی حیثیت سے لکھتے ہیں :

ظلمتوں کی دھرتی پر رحمتوں کا ڈیرا ہے

عطر بیز جلوے ہیں کہکشانی راہوں میں

نور کی شفق پھوٹی آسمانی بانہوں میں

منظروں کے ہونٹوں نے مسکراہٹیں پائیں

بے زبان لمحوں نے گنگناہٹیں پائیں


اسی طرح عاصی کرنالیؔ لفظوں کے معنیاتی پرت کھولتے ہیں:

جب دشنہ دشنہ دشنہ مژگانِ تیز تھا

جب شعلہ شعلہ شعلہ برقِ ستیز تھا

جب خیمہ خیمہ خیمہ مرگ و فساد تھا

جب قریہ قریہ قریہ کفر و عناد تھا

جب فتنہ فتنہ فتنہ شداد وقت تھا

جب نالہ نالہ نالہء بیدادِ وقت تھا

اب پردہ پرد ہ پردہ سازِ جمال ہے

اب بادہ بادہ بادہ عرفانِ حال ہے


نعتیہ دنیائے ادب میں موضوع کی تقدیس کے خدو خال اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ توانا رجحانات کا فروغ اور صحت مند روایات کی ترویج اور نو دریافت دنیاکی جدت و ندرت کے نشانات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں ۔


ڈاکٹر حافظ محمد صفوان چوہان کے والدِ گرامی پروفیسر عابد صدیق اپنے مجموعہ" پانی میں ماہتاب " میں نعتیں معرّا اور پابند نظمیں پیش کرتے ہیں :


’’انہوں نے حمد ہی میں نعت کے جو قرینے ڈھونڈے ہیں وہ بلاشبہ نعتیہ دنیائے ادب میں اپنے افکار کی ندرت کے آئینے میں یکہ و تنہا ،قابل ِ تحسین و مستحقِ داد ہیں ۔ ان کا لہجہ، اسلوبِ حمد میں نعت کی بے مثل گریز بن کر سامنے آتا ہے :

راستہ تیرا ہمیشہ کے لیے

شرک و توحید کے مابین لکیر

تیرے اصحاب ؓستاروں کی طرح

ہیں ہدایت کے مدار اور مدیر۔ ‘‘ (۶)

مسلمان چھٹی صدی عیسوی میں اپنے انقلاب آفریں عقائد کے ساتھ عرب کی سر زمین سے نکلے اور بہت جلد دنیا کے گوشے گوشے میں آباد ہو گئے ۔توحید و رسالت پر عقیدہ نے انہیں تمدنی لحاظ سے دوسروں سے ممتاز رکھا اور آج بھی جب دنیا سیکولررجحانات کی طرف سرگرداں ہے وہاں نعتیہ ادب کی دنیا اسلامی روایت اور ایمانی ورثے کو پختہ بنائے ہوئے ہے ۔فرد کے ذاتی احساس سے لے کر اجتماعی یا تہذیبی رویے تک مذہبی جذبے کا اظہار نو بہ نو پرتوں میں جلوہ گر ملتا ہے:


"اس حقیقت کے پیشِ نظر اگر یہ کہا جائے کہ شعر و سخن میں مذہبی رجحان کا جس طور سے اظہار ہوتا ہے فنونِ لطیفہ یا ادب کے کسی دوسرے شعبے میں ایسی کوئی اور مثال باید و شاید تو یہ کو ئی دعویٰ نہیں ۔" (۷)


اردو نعت روایت سے جدیدیت اور ما بعد جدیدیت تک معروضات،موضوعات،معنیات اور اسالیب کی ایک وسیع دنیا پیش کرتی ہے۔ایک ایسی دنیا جو کبھی وادیٔ طائف میں دھکیل دیتی ہے :

؎ جو لگتا ہے کوئی کنکر بدن پر دین کی خاطر

تو دل کو وادیٔ طائف کے پتھر یاد آتے ہیں ( ازہر درانی )


اور کبھی ایسی دنیا میں پہنچا دیتی ہے جہاں سے روشنی کا ایک نیا سفر شروع ہوتا ہے :

دیارِ جاں میں

سنہرے موسم اتر رہے ہیں

میں زرد لمحوں

سیاہ سایوں سے اپنا پیچھا

چھڑا چکا ہوں

پناہ میں ان کی

آ چکا ہوں

میں روشنی میں

نہا رہا ہوں ( صبیح رحمانی )

حواشی

۱۔ عزیز احسن ، ڈاکٹر : " پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر "نعت ریسرچ سنٹر ،کراچی ، ۲۰۱۴ء ،ص نمبر ۲۱۲

۲۔ گوہر ملسیانی، " عصرِ حاضر کے نعت گو " بیت الحکمت ، لاہور ،۲۰۱۳ء ، ص نمبر ۹۳

۳۔ صبیح رحمانی ،" سرکار V کے قدموں میں ـ"نعت ریسرچ سنٹر ،کراچی ، ۲۰۱۲ ء ص نمبر ۱۱۹

۴۔ راشد حمید ، ڈاکٹر  : " نعت گوئی کی روایت کا ارتقاء " مشمولہ "تخلیقی ادب " شمارہ سات ،نیشنل یونیورسٹی ،اسلام آباد ، جون ۲۰۱۰ء ، ص نمبر ۵۵۸

۵۔ حلیم حاذق: " اصولِ نعت گوئی "نعت ریسرچ سنٹر ، کراچی ، ۲۰۱۶ء ص نمبر ۵۸

۶۔ حزیں کاشمیری : عابد صدیق کی شاعری کے ملّی ، مذہبی اور ثقافتی رنگ " مشمولہ سہ ماہی "پیغام آشنا"شمارہ ۴۹ اپریل تا جون ، ثقافتی قونصلیٹ اسلامی جمہوریہ ایران ،۲۰۱۲ء ص نمبر ۱۸۹

۷۔ مبین مرزا: "نعت اور اردو کی شعری دنیا "مشمولہ "اردو نعت کی شعری روایت " مرتبہ : صبیح رحمانی ، اکادمی بازیافت پاکستان ،جون ۲۰۱۶ء ص نمبر ۴۳۰

٭٭٭

فکروفن

  • داغؔ کے کلام میں حمد و نعت ۔ ڈاکٹر دائود رہبر
  • کلامِ محسنؔ کاکوروی ایک تنقیدی مطالعہ ۔ سلیم شہزاد
  • مسدس حالیؔ کا اسلوبیاتی مطالعہ ۔ ڈاکٹر محمد اشرف کمال
  • اقبال سہیل اور موجِ کوثر ۔ پروفیسر مولا بخش
  • حسرت موہانی کا شعرِ عقیدت ۔ خورشید ربانی
  • کلامِ رضا پر ایک نظر ۔ ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان
  • حافظ مظہرالدین جدید اُردو نعت کا پیش رو ۔ امین راحت چغتائی
  • اُردو نعت کا چہار چمن ۔ ڈاکٹر تحسین فراقی
  • میری نعت ۔ امین راحت چغتائی
  • افضل خاکسار کی نعتیہ شاعری ۔ ڈاکٹر رابعہ سرفراز
  • کیفِ مسلسل (مہرجہاں افروز-ایک تاثر) ۔ پروفیسر محمد اقبال جاوید
  • عزیز احسن کا نعتیہ سفر، تہذیبی ورثے کی بازیافت ۔ کاشف عرفان
  • مشاہد حسین رضوی کی نعتیہ شاعری ۔ سلطان سبحانی ۳۵۸
  • منظر عارفی لمحہ موجود کا ممتاز نعت گو ۔ محسن اعظم ملیح آبادی

مکالمات

  • مذاکرہ: شرکاء:ڈاکٹر سید تقی عابدی، پروفیسر انوار احمد زئی، ڈاکٹر عزیز احسن، صبیح رحمانی، ڈاکٹر تنظیم الفردوس، آغا طالب، اطہر حسنین ۔ روئیداد: محمد جنیدعزیز خان
  • انٹرویو : سحر انصاری ۔ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر

مطالعاتِ / جائزے

  • دبستانِ کراچی کا نعتیہ منظرنامہ ۔ صبیح رحمانی
  • نعت رنگ شمارہ ۲۶ پر ایک نظر ۔ احمد صغیر صدیقی
  • نعت رنگ شمارہ ۲۶ کا تجزیاتی مطالعہ ۔ کاشف عرفان
  • خورشید ناظر کی نعتیہ خدمات ۔ ڈاکٹر نعیم نبی
  • شاہ محمد ولی الرحمن ولی نعمانی القادری ۔ منظر عارفی

ایوانِ مدحت

اثرؔ زبیری لکھنوی مولانا- تبسّمؔ، صوفی غلام مصطفی- اسعدؔ شاہجہاں پوری- اخترؔ الحامدی الرضوی- انورؔ مسعود - امجدؔ اسلام امجد- ریاض حسین چودھری- بدرؔ ساگری- انجم رومانی- ایاز ؔصدیقی- الطاف ؔاحسانی- صابرظفر- باقیؔ احمد پوری- آثمؔ نظامی- اسد ؔثنائی- بشیرؔ احمد بشیر- اخترؔ سہیل- احمد صغیر صدیقی- ضیاء الدین نعیم- کوثر نقوی- قاسم یعقوب - کاشف عرفان- منظر عارفی- نذرعابد - ازہرؔ درانی- اقبال حیدر


نظم بعنوان ’’نعت رنگ‘‘ (سمیعہ ناز، برطانیہ)

نعت نامے

ریاض حسین چودھری ، ڈاکٹرعزیز ابن الحسن ، ڈاکٹر خورشید رضوی، امین راحت چغتائی، ڈاکٹر اشفاق انجم ،پروفیسر غلام رسول عدیم، ڈاکٹرنذر عابد، تنویر پھولؔ، ڈاکٹر ذکیہ بلگرامی

عطیات کتب برائے نعت ریسرچ سینٹر

نعت ریسرچ سینٹر کی مطبوعات

نعت ریسرچ سنٹر، کراچی کی مطبوعات

مزید دیکھیے

نعت رنگ