نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26 ۔ ایوان مدحت

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

قصیدہ ۔ فدا خالد دہلوی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ابتر تھی فضا تیرگیء جہل تھی چھائی

ناواقفِ اسرار محبت تھی خدائی

ہرذہن میں وہ بُغض وعداوت کادھواں تھا

جاری تھی ہمہ وقت قبیلوں میں لڑائی

وہ رات کے پردے میں دہلتے ہوئے انجم

دشمن نظر آتا تھا جہاں بھائی کابھائی

دھبے تھے کدروت کے ہرآئینہِ دل پر

دشوار نظر آتی تھی باطن کی صفائی

ہر ذہن پہ وہ نشنۂِ نخوت تھا مُسلّط

ہرشخص کو درکار تھی اپنی ہی بڑائی

دُختر کو دبا آتے تھے زندہ ہی زمیں میں

نادان سمجھتے تھے برائی کو بھلائی

انسان بِکا کرتاتھا انسان کے ہاتھوں

تھی گردنِ مفلس پہ رواں تیغِ طلائی

زیبائشِ محفل تھے کھنکتے ہوئے ساغر

رقصاں تھا سرِراہِ طرب حُسنِ خفائی

محفوظ نہ تھی عفّت وعصمت کسی صورت

تھا جام بکف بزم میں ہردستِ حنائی

انسان کا انسان لہو چوس رہا تھا

کہتے ہیں جسے سُود وہ تھی اُن کی کمائی

یوں دل میں بسے رہتے تھے افعالِ قبیحہ

جیسے کسی تالاب کے پانی پہ ہو کائی

وہ اپنا مددگار سمجھتے تھے بتوں کو

انسانوں کے ذہنوں پہ تھی پتھر کی خدائی

عُزّیٰ تھا خداوند کہیں لات و ہبل تھا

تھے اُن کی نگاہوں میںیہی ان کے روائی

ناواقفِ آدابِ تمدّن تھا ہر اک دل

جائز تھی انہیں لوٹ ، جوا ، سود ، گدائی

لایا جو کوئی قافلہ اسبابِ تجارت

سب ٹوٹ پڑے اس پہ لٹیر وں کی بن آئی

وہ جبر کے نغموں سے فضا گونج رہی تھی

مظلوم کی آواز نہ دیتی تھی سُنائی

اس طرح جکڑ رکھا تھا زنجیرِ ستم نے

مشکل تھی درِعدل پہ انساں کی رسائی

دیتے تھے عجب طرح غلاموں کواذّیت

حق بات کوئی کہہ دے تومرتاتھا بِن آئی

تھا فخر رعونت پہ انہیں‘ نازبدی پر

بگڑی جو کہیں بات تو تلوار اُٹھائی

خود اپنی ہی تعریف میں پڑھتے تھے قصیدے

کرتے تھے بڑے فخر سے خوداپنی بڑائی

گفتار میںتلخی تھی تولہجے میں تکبّر

آخر یہ روشِ اُن کی مشیت کونہ بھائی

اُبھرا افقِ ذہن پہ اک مطلعِ دلکش

رخشندہ و تابندہ و پُر نور و ضیائی

بدلی وہ فضا رحمت حق جوش میں آئی

ظلمت میں کرن پھوٹی پئے راہنمائی

منسوب ہوا نامِ محمد سے وہی نور

تنویرِ ہدایت متشکل نظرآئی

چمکا دیا دنیا کو اسی نورِ مبیں نے

چھائی ہوئی سب تیرگیء جہل مٹائی

چہروں سے برسنے لگے انوار یقیں کے

ایمان سے ہونے لگی قلبوں کی صفائی

بندوںکو خبردار کیا عظمتِ رب سے

گردن ستم وجور سے انساں کی چھڑائی

وہ جس نے یتیموں کو کلیجے سے لگایا

دی جس نے غلاموں کو غلامی سے رہائی

بندوںکو جھکایا درِ معبود پہ جس نے

وہ راہنما جس نے رہِ راست دکھائی

انسانوں کو اخلاق کا خوگر کیاجس نے

وہ حسُن جو عریاں تھا کیا اس کو ردائی

وہ جس نے اجڑتی ہوئی دنیا کو سنوارا

وہ جس نے بگڑتی ہوئی تقدیر بنائی

انسان کو آداب تمدّن کے سکھائے

کس طرح جیا کرتے ہیں یہ بات بتائی

اس شان سے پیغام اخوت دیاجس نے

انصار و مہاجر نظر آنے لگے بھائی

تبدیل کیے ذہن برائی کی طرف سے

نفرت رہی باقی نہ عداوت نہ لڑائی

وہ ذاتِ گرامی جسے اللہ نوازے

وہ جس کے لیے محفلِ کونین سجائی

وہ ہادیٔ کُل ختمِ رسل شافعِ محشر

حاصل جسے تاعرشِ معلی ہے رسائی

وہ صاحب ِ الطاف و عطا بانیء اکرام

شرمندۂ احسانِ کرم جس کی خدائی

وہ جس کا ہر اک قول ہے گنجینۂ حکمت

وہ جس کی ہراک بات میں پوشیدہ بھلائی

وہ دلبرِ حق سرورِ کونین کہ جس کے

جبریل امیں در پہ کریں ناصیہ سائی

وہ جس کو کہیں سید و محمود و مبشّر

وہ پیکرِ عظمت دے جسے زیب بڑائی

یسٓیں بھی ہوطٰحٰہ بھی ہو صادق بھی امیں بھی

حیران ہوں کیا اس کی کروں مدح سرائی

کرتاہوں فداؔختم قصیدے کو دعا پر

اللہ درِ سرورِ دیں تک ہو رسائی

(فدا خالدی دہلوی)

دین و دنیا کی قیادت آپ کو بخشی گئی ۔ حفیظ تائب =[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دین و دنیا کی قیادت آپ کوبخشی گئی

زندگی افروز دعوت آپ کو بخشی گئی


جس سے پائیں گی ہدایت تاابد اقوامِ دہر

ایسی بے پایاں رسالت آپ کو بخشی گئی


اولیت کا شرف بخشا گیا تخلیق میں

عزتِ ختمِ نبوت آپ کو بخشی گئی


وصف سب پیغمبروں کے آپ میں یکجا ہوئے

سب رسولوں کی امامت آپ کو بخشی گئی


مسکراہٹ سے کھل اٹھتے تھے درودیوار بھی

ایسی جاں افروز صورت آپ کو بخشی گئی


زیست کا ہرشعبہ جس سے نورپائے گاسدا

وہ سراپا حُسن،سیرت آپ کو بخشی گئی


زندگی کو کر دیاجس نے لطافت آشنا

سادگی میں وہ نفاست آپ کو بخشی گئی


جو پہنچتی ہی رہے گی سب عوالم تک مدام

ایسی لامحدود رحمت آپ کو بخشی گئی


آپ کا ہر لفظ ہے معجز نما و دل کشا

کچھ عجب روحِ بلاغت آپ کو بخشی گئی


ہوتے مرعوب اک مہینے کی مسافت سے عدو

قدرتی جاہ و جالت آپ کو بخشی گئی


آپ ہی کے فیض سے ساری زمیں ہے سجدہ گاہ

ایسی عالمگیر وسعت آپ کو بخشی گئی


ہر گھڑی ایقانِ حضرت کا بھرم رکھا گیا

ہرقدم پرفتح و نصرت آپ کو بخشی گئی


ہوگیا مالِ غنیمت آپ کی خاطر حلال

فقر میں ہرایک نعمت آپ کو بخشی گئی


شرمساری سے بچا لیتی تھی جو مجرم کو بھی

چشم پوشی کی وہ عادت آپ کو بخشی گئی


منحصر عصیاں شعاروں کی ہے جس پر مغفرت

ایسی توفیقِ شفاعت آپ کو بخشی گئی


اپنی امت کے لیے ہوں گے نہ کیوں وہ فکر مند

جب خدائی کی محبت آپ کو بخشی گئی


بعد محشر بھی نہ آئے گا جسے تائبؔ زوال

ایسی شانِ بے نہایت آپ کوبخشی گئی

(حفیظ تائب)


بختِ سیاہ جب درِ عالی پہ رکھ دیا۔ مظفر وارثی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بختِ سیاہ جب درِ عالی پہ رکھ دیا

سورج اُنہوں نے دستِ سوالی پہ رکھ دیا


آنکھیں بکھیر آیا ہوں روضے کے ہر طرف

لیکن خیال روضے کی جالی پہ رکھ دیا


لبریز کر گیا مجھے کون اپنے پیار سے

یہ کس نے ہونٹ دل کی پیالی پہ رکھ دیا


مانگے تھے میں نے آپ سے رحمت کے چند پھول

سارا چمن دُعاؤں کی ڈالی پہ رکھ دیا


مجھ کو بٹھایا جانبِ ساحل کی ناؤ پر

بارِ گناہ ، ڈوبنے والی پہ رکھ دیا


لکھنے چلا جو نعت تو میرے حضور نے

لفظوں کا ڈھیر ذہن کی تھالی پہ رکھ دیا


آہنگِ نو میں مظفرؔ نہ کیوں کہے

کھلتا شعور خشک خیالی پہ رکھ دیا

(مظفر وارثی)

آپ سے پہلے جہانِ خشک و تر کچھ اور تھا ۔ راز کشمیری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آپ سے پہلے جہانِ خشک و تر کچھ اور تھا

آپ کے آتے ہی عالم سر بسر کچھ اور تھا


نور در آغوش یوں تو روز ہوتی تھی سحر

آپ جب آئے تو اندازِ سحر کچھ اور تھا


بدوؤں کو کر گئی جو آشنا تہذیب سے

وہ نظر کچھ اور اسلوبِ نظر کچھ اور تھا


ایک لمحے میں سمٹ آئے مکان و لامکاں

سائرِ اسراء کا اندازِ سفر کچھ اور تھا


طورِ سینا پر تجلی کا تھا عالم اور کچھ

ارضِ طیبہ میں تجلی کا اثر کچھ اور تھا


جب تک اُن کے آستانِ پاک پرپہنچا نہ تھا

میری نظروں میںجمالِ سنگِ درکچھ اورتھا


باوضو آنکھیں ہوئیں اور دل ہوا محوِ درود

راہِ طیبہ میں ابھی میراسفر کچھ اور تھا


دشمنِ جاں نے بھی پائی جس کے سائے میں اماں

رازؔ ان کا سائبانِ در گزر کچھ اور تھا

(رازکاشمیری)

میں اپنے شام و سحَر تیرے نام کرتا ہوں ۔ عارف عبدا لمتین[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

میں اپنے شام و سحَر تیرے نام کرتا ہوں

کہ وقت کوئی ہو تُجھ سے کلام کرتاہوں!


تِرے حُروف کی رَو رہنمائی کرتی ہے

میں زندگی کاسفر یُوں تمام کرتا ہوں!


تِرے جلو میں حدیں ٹوٹ پُھوٹ جاتی ہیں

اَزَل اَبَد سے اُدھر بھی خرام کرتا ہوں!


تِری نوا میں ہے فردوسِ گوش کی تفسیر

تِری حدیث سے حاصلِ دوام کرتا ہوں!


شرَف ملاہے اِسے تیرے پاؤں چھونے کا

میں آسمان کا بھی احترام کرتا ہوں!


وہ لمحہ جوکہ ترِی یادسے تہی گزرے

میں اپنے آپ پر اس کو حرام کرتا ہوں!


تِری شناخت کا یارا نہیں مجھے پھر بھی

میں تیری رفعتِ جاں کو سلام کرتا ہوں!

(عارف عبد المتین) ا

میں نے درودِ پاک کاگھر میں دیا جلا دیا ۔ امین راحت چغتائی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پہلے تو نورِ ذات نے دل کا دیا جلا دیا

رستہ درِ حبیب کا چپکے سے پھر دکھا دیا

ربِ کریم کاکرم،گلشنِ آرزو میں ہوں

مانگا تھا جس قدر مجھے ، اُس سے کہیں سوا دیا


میں تو سنہری جالیاں چوم رہا تھا خواب میں

دل تھا سرور کیف میں ، کس نے مجھے جگا دیا


اب نہ اندھیری رات کا ہو گا کبھی گزر ادھر

میں نے درودِ پاک کا گھر میں دیا جلا دیا


کتنا کرم حضور کا ، عجزِ بیاں ہے ، کیا کہوں

در پہ مجھے بلا لیا ، مان مرا بڑھا دیا


اُن کی نگاہِ لطف سے قلب و نظر میں روشنی

راحتِ بے نوا کو بھی جینے کا حوصلہ دیا

(امین راحت چغتائی)

اپنے بھاگ جگانے والے کیسے ہوں گے ۔ابوالامتیاز ۔ع۔س ،مسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے بھاگ جگانے والے کیسے ہوں گے

اُن سے ہاتھ ملانے والے کیسے ہوں گے


نقشِ قدم میںچاند ستارے بکھرے ہیں

جادۂ عرش پہ جانے والے کیسے ہوں گے


چشمِ لطف سے ذرّے،سورج چاند ہوئے

راہوں میں بچھ جانے والے کیسے ہوں گے


اشک کے جگنو کالی شب کو نور کریں

دل میں دیے جلانے والے کیسے ہوں گے


بھینی بھینی خوشبو سے گھر مہکا ہے

شب کوخواب میں آنے والے کیسے ہوں گے


اک اک سانس میں سَو سَو بارفداِ ہونا

وہ گھر بار لٹانے والے کیسے ہوں گے


جن کے ناز اٹھانے پر ہو حق کو ناز

اُن کے نازاٹھانے والے کیسے ہوں گے


سِدرہ،رُوح القدس کی بھی حدِ پرواز

اُس سے آگے جانے والے کیسے ہوں گے


دردِ محبت دل میںرکھ کر کیا پھرنا!

درد میں جاں سے جانے والے کیسے ہوں گے


نعت وہی ہے مسلمؔ جو مقبول ہوئی

چادرِ خلعت پانے والے کیسے ہوں گے

(ابوالامتیاز ۔ع۔س ،مسلم)


اُس ایک ذات کی توقیر کیا بیاں کیجے ۔ توصیف تبسم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اُس ایک ذات کی توقیر کیا بیاں کیجے

وہی ہے نکتۂ ایماں اگر گماں کیجے


نظر کو خیرہ کرے چاندنی میں اک تارا

جو روبرو کبھی تصویرِ آسماں کیجے


اُسی کو دیکھیے بزمِ ولا میں صدر نشیں

اُسی کے اسمِ مبارک کو حرزِ جاں کیجے


اُسی سے کہیے کہ ہے سرپہ دُھوپ محشر کی

اُسی کی ذاتِ گرامی کو سائباں کیجے


وہ دل کی سمت جو آئیں تو اپنی آنکھوں کو

زمین کیجے، عقیدت کو آسمان کیجے


جو دل میں ہے شررِ آرزو بھڑک اُٹّھے

اس ایک لفظِ محبت کو داستاں کیجے

(توصیف تبسم)

سبیل ہے اور صراط ہے اور روشنی ہے ۔ افتخار عارف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سبیل ہے اور صراط ہے اور روشنی ہے

اک عبدِ مولیٰ صفات ہے اور روشنی ہے


کتاب و کردار ساتھ ہے اور روشنی ہے

درود جزوِ صلوٰۃ ہے اور روشنی ہے


میانِ معبود و عبد میثاقِ نور کے بعد

نظر میں بس ایک رات ہے اور روشنی ہے


حضور غارِ حرا سے بیت الشرف میں آئے

بس اک یقیں ساتھ ساتھ ہے اور روشنی ہے


حضور مکے سے جا رہے ہیں کتاب کے ساتھ

کتاب کُل کائنات ہے اور روشنی ہے


حضور مکے میں آ رہے ہیں کتاب کے ساتھ

کتاب ہی میں نجات ہے اور روشنی ہے


رفیقِ اعلیٰ کا حکم ہے اور کتاب دائم

ابد تک اب اُن کی ذات ہے اور روشنی ہے


غلامیٔ افتخار عارفؔ پہ مہر خاتم

ثبوت فردِ نجات ہے اور روشنی ہے

(افتخارعارف)

محمد مصطفیٰ نے کس قدر اعجاز فرمایا ۔ خالد بزمی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

محمد مصطفیٰ نے کس قدر اعجاز فرمایا

شُتر بانوں کوشاہوں کی طرح ممُتاز فرمایا


عرب کے ریگزاروں میں جواونٹوں کوچراتے تھے

انھیں دُنیا کی سُلطانی سے سرافراز فرمایا


کوئی اُن کی مروّت کاکرے انکار توکیوںکر

جنھوں نے ہر عداوت کونظرانداز فرمایا


جب اپنے دُشمنوں کو بخش دینا غیر ممکن تھا

حضورپاک نے اس رسم کا آغاز فرمایا


وُہ انساں قتل وغارت میں درندوں سے جوبڑھ کرتھا

اُسی کو آپ نے انسان کا دمساز فرمایا


جو اہلِ فلسفہ کی عقل کی سرحد سے باہر تھا

عرب کے ایک اُمی نے عیاں وہ راز فرمایا


اُنہی کے واسطے یہ محفلِ ھستی مُزین ہے

خدا نے اک بشر کاکس قدر اعزاز فرمایا


کسی انساں کی عظمت اس سے بڑھ کرکیا ہو اے بزمیؔ!

خدا نے آپ کے اخلاق پر خُود ناز فرمایا

(خالد بزمی

یُوں پردۂ رازِ کُن ہوا چاک ۔ سلیم شہزاد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یُوں پردۂ رازِ کُن ہوا چاک

لولاکَ لَماَ خَلَقتُ الافلاک

کانُو امنِ قبل فی ضَلالِِ

اقوام تمام زیرِ افلاک

احسان کیا خدانے ہم پر

روشن کی شمعِ راز لولاک

مبعوث کیا رسولِ موعود

مِن انفُِسنا ، زکی ، صفی ، پاک

دنیا کے لیے وہ عفو و رحمت

دنیا مگراس کے حق میں افّاک '

کھُلتا ہے جوبابِ ذکرِ طائفِ

ہو جاتی ہے آنکھ آنکھ نمناک

لب پر تھی دعائے خیر و بخشش

تھا سنگ بہ دست شہرِسفّاک

قالَ: خیرا لقرونِ قرنی

کیا عصر کا پھر کسی کو ادراک

وا جس کے لیے درِ سماوی

وقت اُس کو بھلا ہو کیسے فتراک

زنجیرِ در اور قاب قوسین

بیچ ان کے ہوئے ہیں محو افلاک

افسانہ و شعر : لغو و مہمل

منطق ہے فضول،کیمیا:خاک

افکار ہیں زیرِ دام ِوسواس

یعنی ہر فلسفہ ہے کا واک

یہ طالب لا ، وہ صید اِلاّ

دل ہے معصوم،ذہن:شکّاک

فرمایا:اَنا مدینتہُ العلم

اس قول نے سب فسوں کیے چاک

اِس قول کی آگہی دے،یارب

یہ قول گرہ کشائے پیچاک

اِس قول سے روشنی دے،یارب

یہ قول علوم شرکا تریاک


(سلیم شہزاد)

مل گیا راستہ محمد کا ۔ ماجد الباقری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مل گیا راستہ محمد کا

جا بجا ہے خدا محمد کا


جسم کے تنگ و تار جنگل میں

جل رہا ہے دیا محمد کا


خود بخود اب پہنچ ہی جاتا ہے

دل سے دل تک پتا محمد کا


دیکھنے کو خدائے برتر کو

مل گیا آئنہ محمد کا


ہے ازل سے رہے گا اب قائم

تا ابد سلسلہ محمد کا


ایک ذرّے سے آسمانوں تک

نقش ہے جا بجا محمد کا


حرف آخر سے کم نہیں لوگو

اس جہاں میں کہا محمد کا


جو منافق نہیں ہیں اے ماجد

ان کو ہے آسرا محمد کا

(ماجد الباقری) ا


نعتیہ گیت ۔ فراغ رہووی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مورے مدنی سجن‘ مورے مدنی سجن

تم سے لاگی لگن‘ مورے مدنی سجن

تمری آمد سے ہی یہ کرشمہ ہوا

قلبِ انساں پہ تھا جو لگا کفر کا

چھٹ گیا وہ گہن‘ مورے مدنی سجن

تمرے ہی سر کو تاجِ شفاعت ملا

تمرے ہی واسطے بابِ سدرہ کھلا

تم ہی شاہِ زمن‘ مورے مدنی سجن

آسمانوں نے چوما ہے تمرا چرن

عطر سے بڑھ کے تمرا لعابِ دہن

تمرا نوری بدن‘ مورے مدنی سجن

تمر ی چوکھٹ سے ہے نوری ساگر رواں

تمرے صدقے لہکتے ہیں دونوں جہاں

یہ زمیں‘ وہ گگن‘ مورے مدنی سجن


کب تلک ٹھنڈی ٹھنڈی میں آہیں بھروں

تمرے روضے کی میں بھی زیارت کروں

کردو ایسا جتن‘ مورے مدنی سجن


تم دیالو بڑے ہر کسی کے لیے

روزِ محشر تمھیں اُمتی کیلیے

ذوالکرم‘ ذوالمنن‘ مورے مدنی سجن


کھل اُٹھیں گے مرادوں کے سارے کنول

اپنی چشم عنایت سے کر دو سپھل

مورا جیون مرن‘ مورے مدنی سجن


چومے تمرے نگر کی رو پہلی زمیں

روشنی میں نہائے فراغِؔ حزیں

پورے کردو سپن‘ مورے مدنی سجن

(فراغ رہووی)

مرے آقا مرے رحیم و کریم ۔ فراگ رہووی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مرے آقا مرے رحیم و کریم

آپ بے مثل،آپ درِ یتیم

حسن میں بے مثال آپ کی ذات

اور کرم میں کمال آپ کی ذات

آپ ہر وصف میں ہیں سب سے عظیم

آپ بے مثل، آپ درِ یتیم

آپ اُمی پہ علم آپ پہ بس

ظلم سہہ کر بھی حلم،آپ پہ بس

آپ بعد از خدا علیم و حلیم

آپ بے مثل، آپ درِ یتیم

وہ تبسم کہ کائنات کی جان

وہ تکلم کہ لفظ چومے زبان

وہ محبت کہ سب دلوں میں مقیم

آپ بے مثل، آپ درِ یتیم

ہر بھلائی کا ہیں حوالہ آپ

اور اندھیرے میں ہیں اُجالا آپ

آپ رحمت ہیں ، سب کو ہے تسلیم

آپ بے مثل، آپ درِ یتیم


نہ جذبِ دل کسی قابل نہ ہی کچھ ایسی قسمت ہے ۔ طلعت سلیم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نہ جذبِ دل کسی قابل نہ ہی کچھ ایسی قسمت ہے

مدینے کی جو سچ پوچھو توبس حسرت ہی حسرت ہے


کہاں میں اور کہاں شہرِ نگاراں کے گلی کوچے

سمجھتی ہوں جوکچھ خورشید سے ذرے کو نسبت ہے


ملا کر خاک میں خود کو غبارِ راہ کی صورت

جو ممکن ہو پہنچ جاؤں مگر کب اس پہ قدرت ہے


سجا لوں چشمِ پرنم میں تصّور کی حسیں محفل

دلِ مضطر کی تسکیں کی یہی بس ایک صورت ہے


وہ پیاری سرزمیں اللہ کے محبوب کامسکن

اسے جاں کے عوض بھی دیکھ لینا عین راحت ہے


ہوائیں جس کی بوجھل آپ کی خوشبو سے رہتی ہیں

وہ شہرِ آرزو واللہ!مرے خوابوں کی جنت ہے


سکونِ قلب کی دولت جہاں دن رات لٹتی ہے

وہ جس کی خاک اپنی جا سراپا نور و برکت ہے


فروزاں دل میں میرے شمع ساں رہتی ہے جو ہر دم

وہ حسرت وہ لگن جس سے حیات اپنی عبارت ہے


وہ جس کو حاصلِ صد آرزو کہتی ہوں میں طلعت!

وہ پیاری آرزو آقا کے روضے کی زیارت ہے

(طلعت سلیم)

===کھڑا ہوں مُنفعلِ آئینۂ احساس کے آگے ۔حفیظ الرحمن احسن]]

کھڑا ہوں مُنفعلِ آئینۂ احساس کے آگے

اُلجھتے جا رہے ہیں دم بدم جذبات کے دھاگے


چراغِ علم ہاتھوں میں ، قدم راہِ جہالت پر

نہ کیوں اہلِ نظرہوں خندہ زن پھر میری حالت پر


جمالِ اسوۂ خیرالبشر زیبِ نظر بھی ہے

مگر یہ دل تقاضائے نظر سے بے خبر بھی ہے


ہوائے نفس کے ہاتھوں میں ہے میری عناں یارب

کہاں جانا تھا مجھ کو،اورپہنچا ہوں کہاں یارب


عجب خوابوں کے پیچھے،دشت شب میں بھاگتا ہوں میں

سحر خیزی کے لطف و کیف سے ناآشنا ہوں میں


پلٹ کر دیکھتا ہوں جب گزرگاہِ حیات اپنی

سیہ دھبہ نظر آتی ہے ساری کائنات اپنی


پسِ زندانِ کرب ویاس ہوں،مجھ کورہائی دے

ظلامِ ظُلم و غفلت میںکہیں،رستہ سُجھائی دے


عطاکر مجھ کو ذوقِ بندگی،شوقِ اطاعت دے

متاعِ اتباعِ اسوۂ ذاتِ رسالت دے


جومیرے حق میں بہتر ہے وہ سب مجھ کوعطا کردے

مرے داتا،مرادامن متاعِ خیر سے بھردے

(حفیظ الرحمن احسن)

نسیم سحر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ثنائے ربِ جلیل ہے اور روشنی ہے

نبی کا ذکرِ جمیل ہے اور روشنی ہے


جہاںجہاں بھی حضور اکرم نے پاؤں رکھا

قدم قدم اک دلیل ہے اور روشنی ہے


چہار سُو ہے کبوتروں کا حصارِا بیض

سفید سی اک فصیل ہے اور روشنی ہے


حیات کی یاممات کی آزمائشیں ہوں

وہی کفیل و وکیل ہے اور روشنی ہے


وہیں پہنچ کر خدا سے ہوں گے قریب تر ہم

جہاں خدا کا خلیل ہے اور روشنی ہے


میں تشنگی اور تیرگی کا ڈسا ہوا ہوں

وہ میٹھے پانی کی جھیل ہے اور روشنی ہے


حیاتِ احمد کا لمحہ لمحہ ، مرے سفر میں

نفس نفس سنگِ میل ہے اور روشنی ہے


میں ایک کشکول بن کے خیرات کا ہوں طالب

اُدھر عطا کی سبیل ہے اور روشنی ہے


اَزّل سے جوموجزن ہے آبِ رواں کی صورت

درود کا رودِ نیل ہے اور روشنی ہے


نسیم لب پرجواُن کی مدحت کے گل کھلے ہیں

سخن کی اک سلسبیل ہے اور روشنی ہے

(نسیم سحر)


ازل سے تاقیامت آپ ہی کاسلسلہ ہوگا ۔ زاہد فخری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ازل سے تاقیامت آپ ہی کاسلسلہ ہوگا

کوئی رُت ہو،صداقت کا یہی اک راستہ ہوگا


مدینے میںنبی کے دور میںبھی محفلیں ہوں گی

درودوں سے ہمیشہ ہی مدینہ گونجتا ہوگا


بڑا ہی دیدنی ہوگا وہ منظر شہر یثرب کا

کہ جب آقا کی آمد کااشارہ مل گیا ہوگا


صدائیں گونجتی ہوں گی دَفوں پرننھے ہاتھوں کی

ازل سے بند آنکھوں میں اجالا کھل اٹھا ہوگا


سنبھالی کس طرح ہوگی خوشی اہل مدینہ نے

نظر کے سامنے جب روئے پاکِ مصطفیٰ ہوگا


نہ جانے کس کے گھر اتر ے سواری جانِ رحمت کی

کہیں آنکھیں بچھی ہوں گی،کہیں پردل بچھا ہوگا


بنائی جب گئی ہوگی نبی کے نام کی مسجد

توطیبہ کی فضاؤں میںعجب اک کیف ساہوگا


پھر اپنے نورہاتھوں سے مرے شاہِ دوعالم نے

کہیں مٹی بھری ہوگی،کہیں پتھر چُنا ہوگا


نبی کے نام لیواؤں نے اس مسجد کے آنگن میں

نبی سے ہی سُنا ہوگا،نبی نے جو کہا ہوگا (زاہد فخری)

تری طلب کے منیر جذبے نظر نظر میں مچل رہے ہیں ۔ محمد فیروز شاہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تری طلب کے منیر جذبے نظر نظر میں مچل رہے ہیں

دلوں میں شوقِ وصال کے سیپ کتنی صدیوں سے پل رہے ہیں


اُفق سے آفاق تک رقم کرکے مغفرت کے کئی صحیفے

ترے کرم ہیںجومیرے عاصی دنوں کی قسمت بدل رہے ہیں


جبینِ شب پرجوکہکشاں لفظ تونے لکھے،کئی رُتوں میں

ہماری بے نُورساعتوں میںچراغ بن کر وہ جل رہے ہیں


پھر اپنی ہم عصر یادکوئی مرے زمانے کوبخش آکر

کہ خود فراموشیوں کے جنگل سروں سے اُونچے نکل رہے ہیں


بصارتوں کو بصیرتوں کی کمک عطاکر،کہ میرے آقا!

ہم ایک اندھے کنوئیں کی جانب بڑی ہی تیزی سے چل رہے ہیں


ہمیں بھی کوئی کرم کالمحہ صبا کی صورت ملے،کہ اب تو

دلوں کے موسم اجاڑخوابوں کے زرد سانچوں میں ڈھل رہے ہیں


ملیں کبھی تیرے شہرِگل سے بشارتیں جاوداں رُتوں کی

کہ ہاتھ صر صر کے،صحنِ گلشن میں پُھول کلیاں مَسل رہے ہیں (محمد فیروز شاہ)


سلام ۔ کلیم حاذق[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سلام اے گیسوؤں والے!

تمہارے پاؤں کی ٹھنڈک سے

تپتے ریگذاروں کے جہنم میں

نشاط و نور کے چشمے ابلتے ہیں

تمہارے پاؤں کی آہٹ سے شب کی تیرگی میں

روشنی کے پھول کھلتے ہیں


سلام اُمیّ لقب والے!

بصیرت پر تمہاری عقلِ دنیا دنگ ہے اب بھی

تمہارے لفظ و معنی نور کی برسات کرتے ہیں

خدا سے بات کرتے ہیں

کہ اک ٹوٹی چٹائی سے

درِ حکمت کے وہ ابواب تم نے کھولے ہیں جس کا

ابد تک ہے کہاں ثانی

سکھائی ساری دنیا کو جہاں بانی


سلام اے شافع محشر

ہماری گردنیں جب بار عصیاں سے جھکی ہوں گی

ہماری آنکھ میں شرمندگی ہوگی

نظرکے سامنے منظر مہیب انداز جب ہوگا

کہ ہر جا عالم ِ نفسی میں جب ہر شخص تھراتا ہوا ہوگا

مگر اک تم

کہ ہونٹوں پر تمہارے

امتی ّ ہی امتی ّ کی اک صدا ئے شافعی ہوگی

تمہارے لب کی جنبش سے ہماری بخششیں ہوںگی


سلامِ اے آل پیغمبر

تمہارے بزرگِ اول کا یہ ارفع کرشمہ تھا

جو انگلی کے اشارے چاند دو ٹکڑے ہوا

مگر یہ انتہا تھی

ہماری عورتوں کے دامنِ عفت

جو صدیوں سے ہوا میں ریزہ ریزہ اُڑ رہے تھے

ان کے جسموں پر سمٹ آئے ،

نئے منظر نکل آئے

غلاموں کو بجز انسان

اپنے رب کے آگے سر جھکانے کی سعادت ہے

درِ شاہ نبی کی یہ تو اک زندہ کرامت ہے


سلام اے گیسوؤں والے

سلام امی لقب والے

سلام اے شافعِ محشر

زبان ِ نطق عاجز ہے تمہاری مدح میں آقا

زباں کو لفظ ، لفظوں کو معانی دو

اطاعت میں تمہاری جو گذر جائے

وہی اب زندگانی دو

سلام اے گیسوؤں والے

سلام اے گیسوؤں والے

(کلیم حاذق)

غروبِ تیرہ شبی اور طلوعِ صبح جمال ۔ احسن زیدی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

غروبِ تیرہ شبی اور طلوعِ صبح جمال

تری نظر کا کرشمہ تری جبیں کا کمال


فروغ قلب و نظر تیری ایک جُنبشِ لَب

بہارِ قریۂ جاں تیری محفلوں کا خیال


فضائے شہرِ مدینہ متاعِ ہفت اقلیم

کبھی تہی نہیں لوٹا یہاں سے دستِ سوال


نظیر لائے کہاں تیری ساعت ِموجود

نہ لاسکے ہیں رسولانِ عہد رفتہ مثال


تمام رفعتیں اُس خاکِ زیرِ پاپہ نثار

تمام عظمتیں وہم و گمان ، خواب و خیال


برس رہا ہے تری رحمتوں کا ابرِ رواں

نکھر رہے ہیں جہاں بھر کے روز وشب مہ وسال (احسن زیدی)


شفیعِ محشر،قسیمِ کوثر درود تم پر سلام تم پر ۔ ابوالمجاہد زاہد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شفیعِ محشر،قسیمِ کوثر درود تم پر سلام تم پر

ہمارے ہادی ہمارے سرور، درود تم پر سلام تم پر


کمالِ انساں،جمال قرآں،کتاب ناطق،رسولِ صادق

نبیِ خاتم ، حبیب داور درود تم پر سلام تم پر


تمام رحمت تمام رافت ہمہ صداقت ہمہ امانت

ظہیر اظہر ، منّور انور درود تم پر سلام تم پر


کرم کی یہ شان یہ نوازش جنھوں نے کی پتھروں کی بارش

دیئے انھیں کویقیں کے گوہر درود تم پرسلام تم پر


پیامِ امن و سلام لائے مکمل اکمل نظام لائے

حیات کا جاگ اٹھا مقدّر درود تم پر سلام تم پر


دلائے سارے حقوقِ نسواں لیا یتیموں کو زیرِ داماں

الم نصیبوں کے یارو یاور درود تم پر سلام تم پر


چراغِ عشق و یقیں جلائے دلوں کی تاریک بستیوں میں

کیا جنوں کو خرد کا رہبر درود تم پر سلام تم پر


سبق مساوات کا پڑھا کرغرورِ نسل و وطن مٹا کر

بدل دئیے زندگی کے تیور درود تم پر سلام تم پر


صَدِیقِ محسن ، رفیقِ دانا ، کریم بھائی ، رحیم نانا

شفیق والد ، خلیق شوہر درود تم پر سلام تم پر


عمرؓ ابوبکرؓ اور عثماںؓ علی ؓ و طلحہؓ بلالؓ و سلماںؓ

تمھارے پر توسے سب منور درود تم پر سلام تم پر


نہ عشرت و عیش کی تمنا نہ عزّو جاہِ جہاں کا سودا

تمھارے غم پریہ سب نچھاور درود تم پر سلام تم پر


محمد احمد ، حمید حامد ، شہید شاہد سعید زاہدؔ

نذیر منذِر ، مطہّر اطہر درود تم پر سلام تم پر

(ابوالمجاہد زاہد)

فارسی نعت کااردو ترجمہ ۔ احسان اکبر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

درود اس نور پر جس سے ورود انوار نے پایا

تحیّر اور محبت سے زمیں ساکت فلک شیدا


نگہ اس فخر نرگس آنکھ والی ماطغیٰ والی

وہ رنگ اس زلفِ مشکیں کا کہ والیّلِ اِذا یغشیٰ


ہراک سینے میں شوق ان سے دلوں میں زندہ ذوق ان سے

زباں کوئی ہو ذکر اُن کا ، کوئی سر ہو وہی سودا


وہی فردوس کی خوشبو معطر اُن سے چاروں سُو

کہاں شب رنگ زلف ایسی یُوں ہندی تل کہاں مہکا


بیمہ موصوف ذات ایسی کہ خود خالق نے مدحت کی

وہ ہیں تو ہیں سبھی موجود انہی سے نور آنکھوں کا


وہ شان و شوکتِ یوسفؑ وہی ایوبؑ کی صحّت

اُنہی کا دم مسیحائی ، عمل ایک اک یدبیضا


صفت ان کیمیں طہٰ اور یسٰین اور مُزّمِّل

وہ عالی شان خود قرآں جنھیں کہتا ہے فضّلنا


اسی نامِ گرامی کے وسیلے کے تصدق میں

ملی آدم کو بخشش اور کنارا نوح نے پایا


وہ راز اس سینے میں جامی پکار اٹھیں الم نَشَرح

وہ معراج ان کاتاج احسانؔ سبحان الّذی اسریٰ

(احسان اکبر)

صحرا میں اِک پُھول کھلا تھا ، دیکھا تھا؟[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

صحرا میں اِک پُھول کھلا تھا ، دیکھا تھا؟

کونہ کونہ گھر مہکا تھا ، دیکھا تھا


دیکھا تھا پیڑوں کو رقص کے عالَم میں

پتّا پتّا جھوم اُٹھا تھا ، دیکھا تھا؟


قریہ قریہ بادل اُمنڈے آئے تھے

آنگن آنگن مینہ برسا تھا ، دیکھا تھا؟


ٹھنڈا کر ڈالا صدیوں کی آتش کو

بادل سے کوندا اُترا تھا ، دیکھا تھا؟


کس نے زخموں پرشبنم سے ہاتھ رکھے

کون ہمارے بیچ آیا تھا ، دیکھا تھا؟


کون تھا جو اپنے لوگوں کی حالت پر

راتوں کو اُٹھ کر روتا تھا ، دیکھا تھا؟


کس نے رستے کی ہر مشکل چُن لی تھی

کون اُس بستر پر سویا تھا ، دیکھا تھا؟


نیند فرشتے جب آنکھوں میں اُترے تھے ا یک زمانہ جاگ چکا تھا ، دیکھا تھا؟

(منیر سیفی) ا

میں اپنی ہی تاریکی میں رستہ بُھول گیا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

میں اپنی ہی تاریکی میں رستہ بُھول گیا

تُونے تواُن کودیکھا تھااے سورج تُو ہی بتا


کیسے تھے وہ ہونٹ ، وہ سچائی کا سرچشمہ

کیسی تھیں وہ آنکھیں جن میں کوئی غیر نہ تھا


کیسی تھیں وہ زُلفیں جن پر آیتیں اُتری تھیں

اپنوں بیگانوں پر جن کا یکساں تھا سایا


ذہن سے ذہن ملائے اُ س نے دل سے جوڑے دل

کب دیوار اُٹھائی اس نے ، کب بانٹے دریا


برف پگھلنا بُھول چُکی تھی،ہم غفلت میں تھے

اور پھر ہوتے ہوتے آگ نے جلنا چھوڑ دیا


آنکھیں ریگستان ہوئیں ، مرجھانے لگے ضمیر

جن گلیو ں سے روٹھ گئی طیبہ کی آب و ہوا

(غلام محمدقاصر)

جہاں توحید سے نا آشنا تھا آپ سے پہلے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جہاں توحید سے نا آشنا تھا آپ سے پہلے

خدا ہر ایک انساں کا جُدا تھا آپ سے پہلے


نہ تھا نام و نشاں انسان میں اُنس و محبت کا

سراپا شر تھا ، انساں اور کیا تھا آپ سے پہلے


حیا مفقود ، غیرت سرنگوں ، خوفِ خدا غائب

بہر سو ایک طوفانِ بلا تھا آپ سے پہلے


سمومِ گمرہی عالم پہ اس درجہ مسلّط تھی

ہدایت کا دیا گُل ہو چکا تھا آپ سے پہلے


نظر آتا تھا ہر جانب جہنم زار کا نقشہ

تصّور خُلد کا اک واہمہ تھا آپ سے پہلے


نکالا آپ نے انسان کو قعر مذلّت سے

زمانہ منتظر تھا آپ ہی کا آپ سے پہلے


رہِ عرفاں دکھائی آپ نے پروازؔ بندوں کو

بشر جس راستے سے ماورا تھا آپ سے پہلے

(محمد یعقوب پرواز)

خُلقِ کامل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جدِّ امجد کی سنّت ہوئی یوں ادا آگ بجھتی گئی پھول کھلتے گئے ہوگیا سرد فارس کا آتشکدہ آگ بجھتی گئی پھول کھلتے گئے

کارفرمائی صحرا میں صرصر کی تھی جیسے بھڑکی ہوئی آگ ہوہرطرف ابرِرحمت کابس ایک چھینٹا پڑاآگ بجھتی گئی پھول کھلتے گئے

اپنے سینے میں نفرت کی آتش لیے دشمنِ جاں کی صورت ملا ہرکوئی آپ کے خُلْقِ کامل کا تھا معجزہ آگ بجھتی گئی پھول کھلتے گئے

دوپہر تھی ستم کی تمازت بھری ظلم کی اُڑتی پھرتی تھیں چنگاریاں ہوگیا آپ کو حوضِ کوثر عطا آگ بجھتی گئی پھول کھلتے گئے

اک الاؤ احد کا بھی میدان تھا جس میں بکھرے تھے زخموں سے جلتے بدن آپ نے اپنی کملی کا سایہ کیا آگ بجھتی گئی پھول کھلتے گئے

فتحِ مکّہ کے دن فاتحوں کے لیے آپ نے اک نئی طرز ایجاد کی مکّہ والوں کی بخشی گئی ہرخطاآگ بجھتی گئی پھول کھلتے گئے

نوعِ انساں کی فطرت میں شر کے شرر کوبجھایا محبت کی برسات سے ایسا منشور انسانیت کو دیا آگ بجھتی گئی پھول کھلتے گئے

جسم وجاں تیرے منصورؔ تھے کیا بھلا آتشِ ہجر کی زد میں تھی روح تک سوئے طیبہ جواذنِ سفر مل گیا آگ بجھتی گئی پھول کھلتے گئے (عارف منصور) ا

مدحتِ محبوبِ صمد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کیے تحریر کروں مدحتِ محبوبِ صَمد نُطق عاجز ہے توقاصر ہیں مرے فہم وخَرد تیرے اوصاف کاہوتا ہے وہاں سے آغاز ختم ہوتی ہے جہاں فکر و نظر کی سرحد تیرا دستُور ہے ہر ایک زمانے کے لیے تیری نسبت سے ہوئے ایک ازل اورابد ہو فضیلت عربی کو عجمی پر کیوں کر ہیں برابر ترے منشور میں اَبیَض ، اسَود دھر میں تُو نے محبت کا علم لہرایا مٹ گیا سینۂ انساں سے ہر اک کینہ وکد آتشیں ریت بھی ایماں پہ نہ غالب آئی تیرے عاشق کے لبوں پرتھا ھُوَ اللہُ اَحَد مُنہ کے بل گرگئے اصنام،صنم خانوں میں عالم شرک پہ اک ضرب تھی تیری آمد درسِ توحید نے ابلیس کو مایوس کیا ہوئے ویران سبھی،لات و ہُبل کے معبد ہوگیا عام زمانے میں چلن نیکی کا اور ناپید ہوئے مکرو دغا ، بُغض و حسد ہوئی آرائشِ گیسوئے عروس ہستی چہرۂ زیست کے رخشندہ ہوئے خال اورخَد ہمنوا طیبہ وبطحا سے ہوئے تیرے سبب مصر و لاہور و بخارا و دمشق و مشہد تُونے ایمان و مساوات کی دولت بانٹی تیرے اخلاق و مروّت نے کیا کفر کا رَد تُونے اُلٹی ہے بساطِ ستم و کذب وریا ارضِ ہستی پہ محبت کی بچھائی مسند تیرے انصاف کی دیتاہے گواہی اب تک خانۂ خالقِ کونین میں سنگِ اسود خاکِ یثرب کو دیا تُونے فروغِ انجم رشکِ صد گُلشن فردوس ہے تیرا مولد جلوۂ گنبد خضرا ہے نگاہوں کا سرُور کیف پرور ہے جہاں کے لیے تیرامرقد تیرے دم سے ہے مُعطر چمنستانِ خیال تجھ سے حاصل ہے مرے دل کو سرُورِ سرمد کیا کہے گی مجھے خورشیدِ قیامت کی تپش جب بنا میری پنہَ گاہ ترا سایہِ قد آخرت میں مجھے ہمسایگی مل جائے تری تیری توصیف بنے میری شفاعت کی سند بارگاہِ صمدی میں یہ دعا ہے میری مشعلِ نعت سے روشن ہو مراکُنجِ لحد تیری مدحت کاشرف مجھ کو ہواہے حاصل ہو نہ کیوںکر مرے ہرشعروسُخن میں آمد (خالد علیم)

کافِ کن کا نقطۂ آغاز بھی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کافِ کن کا نقطۂ آغاز بھی تا ابد باقی تری آواز بھی

رحمۃً للعالمیں تیرا وجود قادرِ مطلق کی وجہِ ناز بھی

روزِ روشن کی طرح تیری حیات تو جہاں کا سب سے گہرا راز بھی

ہر دلِ بیمار کا تو چارہ گر آدمی کی روح کا نباض بھی

تیرے نغموں نے کیا انسان کو قدسیانِ عرش کا دمساز بھی

احسنِ تقویم کی برہان تو آدمیت کے لیے اعزاز بھی

ایک اُمّی رہنما کونین کا اور قرآں سرمدی اعجاز بھی

حق نے جن جن کو کوئی بخشا کمال ان میں شامل ، ان سے تُو مُمتاز بھی

نعت میں شرکت کی لے کرآرزو دست بستہ ہیں کھڑے الفاظ بھی

مستقل اپنا بنا عارفؔ کو تو نعت گو اور زمزمہ پرداز بھی (خواجہ محمد عارف) ا

اُن کی نسبت سے مجھے سار اجہاں جانتا ہے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اُن کی نسبت سے مجھے سار اجہاں جانتا ہے ورنہ میں کیا ہوں مجھے کوئی کہاں جانتا ہے

آپ کے ذکرنے کس طور نوازا ہے مجھے یہ تو سرکار مراقلبِ تپاں جانتا ہے

شوقِ دیدار میں ہوتی ہیں جو سطریں تخلیق سُننے والا انہیں اعجازِ بیاں جانتا ہے

ہو عطا اب تو مجھے لطف و کرم کی دولت آپ کی یاد کو دل راحتِ جاں جانتا ہے

چار دن جس کو زیارت کے میسّر آجائیں سبز گنبد کا ، وہ پُرکیف سماں جانتا ہے

دُور طیبہ سے مہ و سال بِتَانے والا سر بسر عمر کو اک عہدِ زیاں جانتا ہے

میری کیفیتیں پنہاں تو نہیں اُس سے رضاؔ میرا آقا مری ہر آہ و فغاں جانتا ہے (علی رضا) ا

کوئی ایک سطر نہ باب ہے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کوئی ایک سطر نہ باب ہے ترے نام پوری کتاب ہے

ترے در پہ جانا طلب مری تجھے دیکھنا مرا خواب ہے

ہمہ کائنات سوال تھی ترا انتخاب جواب ہے (ق) مرا مدّعا ، مرا منتہا فقط آپ ہی کی جناب ہے

مری تشنگی کے لیے ندی کوئی اور ہے ، تو سراب ہے

تری مدحِ پاک کے بحر میں مری سعیٔ فکر حباب میں (اقبال کوثر)

ا

کیا ماضی،کیاحال،آئندہ،سب منظر کُھل جائیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کیا ماضی،کیاحال،آئندہ،سب منظر کُھل جائیں ایک نظر سے آپ کی،مجھ پرساتوں درکُھل جائیں

آپ وہ مہر کہ جس کے نور سے ہرظلمت مٹ جائے آپ وہ اسم کہ جس کی برکت سے پتھر کُھل جائیں

اب تو میں بھی اڑ کرپہنچوں آپ کے دروازے پر مولا!اب تومجھ پربستہ کے بھی پرکُھل جائیں

پہلے جس کی باتیں سن کردل کھلتے،ملتے تھے اب تواُس واعظ کے وعظ پہ،سینے،سرکُھل جائیں

اب تودن کے نام پہ سائیں!اپنوں کی،اپنوں پر بندوقوں کی باڑھ جو رکتی ہے،خنجر کُھل جائیں

آپ کرم فرمائیں توریت میں ڈھلتے اس رزمیؔ پر پھر سے سبز رُتوں کے مہکے شام و سحر کُھل جائیں (خادم رزمی)


ہم نے یوں احوالِ جاں،پیشِ شہِ اکرم کہا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ہم نے یوں احوالِ جاں،پیشِ شہِ اکرم کہا آنسوؤں سے نعت لکھی،سسکیوں سے غم کہا

تمتائے رُخ پہ اشکوں کی لکیریں نقش تھیں ہم نے شعلے کی زبانی قصۂ شبنم کہا

عقل کہتی ہے کہ تم نے ان سے باتیں کیں بہت عشق کہتا ہے کہ’’جو کچھ بھی کہا،وہ کم کہا‘‘

کس بلیغ انداز میںساری دعائیں مانگ لیں دل نے بس اک بار رو کر ’’رحمتِ عالم‘‘کہا

آنکھ کی تختی پہ وہ تو یاد کی تحریر تھی دیکھنے والوں نے جس کو آنسوؤں کا غم کہا

سارا پتھر پن سفر کا نرمیوں میں ڈھل گیا ان کی باتوں کو دہانِ زخم نے مرہم کہا (سید قمر حیدرقمر)

ا

ایمان کا ادراک ، صداقت کا شعور آپ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ایمان کا ادراک ، صداقت کا شعور آپ ایوانِ شب و روز میں توحید کا نُور آپ

ذات آپ کی دنیا کے لیے باعثِ رحمت کونین میں ہیں آئینۂ شانِ غفور آپ

تسکین کا پیغام ہیں افسردہ دلوں کو کرتے ہیں ہراک شخص کی تکلیف کو دُور آپ

معراج ہے یہ آپ کے احسان و کرم کی کرتے ہیں معاف اپنے عدُو کے بھی قصور آپ

مُحتاج کو دنیا میں اماں آپ نے دی ہے آتے ہیں یتیموں کی مدد کو بھی ضرور آپ

سکھلائے سدا نرمیٔ گُفتار کے انداز دیتے نہیں دنیا کو کبھی درسِ غُرور آپ

ہو جاتا ہے ہر قلب کو عرفانِ حقیقت اس طَور سے دیتے ہیں مئے جامِ طہور آپ

صرف آپ ملے خالقِ ہستی سے سرِ عرش ہیں اہلِ نظر کے لیے جلوہ گہہِ طُور آپ

نعت آپ کی پیغامِ سکُوں ہے دل و جاں کو ساقیؔ کو عطا کرتے ہیں سامانِ سرُور آپ (رشید ساقی) ا

چراغِ آگہی جسمِ نبی ، اسمِ محمد ہے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

چراغِ آگہی جسمِ نبی ، اسمِ محمد ہے نئی آشفتگی ، خود رفتگی ، اسم محمد ہے

یہ عظمت آج کے دن کو ملی ہے عرشِ اعظم سے کہ وجہہِ زندگی ، رمز آشتی ، اسم محمد ہے

نشاطِ رنگ وبُو میںشادماں ہیں ریت کے ذرّے کہ فرطِ روز و شب رخشندگی اسمِ محمد ہے

جمیل انسان کی آمد طلوعِ بدر کا عالَم افق پر پھر ظہورِ آدمی اسمِ محمد ہے

مشیت کایہ اک اعجاز ہے کونینِ امکاں پر جوسچ پوچھو تو خود معراج ہی اسمِ محمد ہے

زمیں پر مردِ کامل ، آسماں پرمُصحفِ عالَم یہ نازِ بندگی ، یہ زندگی ، اسم محمد ہے (رشید نثار)

دربدر ہو نہ کہیں مجھ سے گہنگار کی خاک[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دربدر ہو نہ کہیں مجھ سے گہنگار کی خاک اے خدا کر دے مجھے کُوچہ سرکار کی خاک

خاکروبِ درِ سرکار دو عالم ہوں میں ڈھونڈ لاؤ توکہیں سے مرے معیار کی خاک

جشنِ میلاد نبی میں ہو چراغاں ہر سو اور ہو جاؤں میں سرکار کے تہوار کی خاک

لگ کے یُوں روضہِ سرکار سے بٹھا رہوں میں مُجھ پہ ہو سایۂ دیوار کہ دیوار کی خاک

ماہ و خورشید تری عرش نوردی کے نشاں کہکشاں تیرے گزرتے ہوئیر ہوار کی خاک

حلقۂ سورۂ رحمان ہے میرے اطراف مجھ تک آتی نہیں اڑکر کسی پندار کی خاک

نو بہ نو مدحتِ سرکار دو عالم کے طفیل مہک اٹھی ہے رضیؔ میرے سخن زار کی خاک (صفدر صدیق رضی)

رو برو چاروں طرف آپ کا جلوہ ہوتا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

رو برو چاروں طرف آپ کا جلوہ ہوتا میں بھی اے کاش اُسی دور میں پیدا ہوتا

میں بھی ہوتا کہ انھیں دیکھتا رہتا ہر دم عکسِ جلوہ مری بینائی میں اترا ہوتا

آپ کے پاؤں کی ٹھوکر سے اڑا گرد و غبار وائے حسرت کہ مرے چہرے سے لپٹا ہوتا

پیاس دریاؤں کی لہروں کو بھی شرماتی ہے کاش اک بار انھیں آنکھ نے دیکھا ہوتا

آپ سے مل کے مجھے دونوں جہاں مل جاتے آسماں بھی، یہ حسیں چاند بھی میرا ہوتا (ڈاکٹر محمد اشرف کمال)


فخرِ پاک و نازشِ ہندوستاں ہے نعت رنگ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

فخرِ پاک و نازشِ ہندوستاں ہے نعت رنگ بالیقیں اردوزباں کا ترجماں ہے نعت رنگ

اس سے پہلے آگئی چوبیس پرچوں کی بہار خیر سے اس مرتبہ پچیسواں ہے نعت رنگ

ہو مبارک یہ سعادت اے صبیح الدین صبیحؔ آپ ہی کے عزم و ہمت کانشاں ہے نعت رنگ

جو رسالے نعت کی ترویج میں مصروف ہیں ان رسالوں کا امیرِ کارواں ہے نعت رنگ

حضرتِ حسان بن ثابت سے لے کرآج تک نعت گوئی کی مکمل داستاں ہے نعت رنگ

اس کو سینے سے لگاتے ہیں سبھی اہلِ ادب اہلِ دل کے واسطے اک ارمغاں ہے نعت رنگ

راہ میں حائل ہزاروں مشکلوں کے باوجود منزلِ مقصود کی جانب رواں ہے نعت رنگ

نامکمل ہی کہا جائے گا وہ اس کے بغیر ہے مکمل وہ کتب خانہ جہاں نعت رنگ

حمد ، نعتیں ، تبصرے ، اعلیٰ مضامیں اور خطوط اک سجیلی خوبصورت کہکشاں ہے نعت رنگ

سچ جو پوچھو لائقِ تحسیں عزیز احسن بھی ہیں جن کی ہمت سے ہمارے درمیاں ہے نعت رنگ

خیر سے صفحات ہیں اس مرتبہ نو سو پچاس کون کہہ سکتا ہے حافظؔ ناتواں ہے نعت رنگ (حافظ عبدالغفار حافظؔ)

خوشبو کی احتیاط ہے رنگوں کی احتیاط[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

خوشبو کی احتیاط ہے رنگوں کی احتیاط باغِ نبی میں اور ہے پھولوں کی احتیاط

دیکھی ہے میںنے شہرِ مدینہ میں جس قدر دیکھی نہیں کہیں بھی وہ سانسوں کی احتیاط

صبحِ ازل سے شامِ ابد دیکھتی رہی دربارِ مصطفے میں زمانوں کی احتیاط

نعتِ رسولِ پاک لکھا چاہیے مگر معنی کی احتیاط ہو لفظوں کی احتیاط (خورشیدربانی)



اُسی کے ذکر نے دل کا مکاں آباد رکھا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اُسی کے ذکر نے دل کا مکاں آباد رکھا یہ کیا کم ہے کہ مجھ سا بے نشاں آباد رکھا

یہ ہم افتادگانِ خاک پر اُس کا کرم تھا جہاں برباد ہونا تھا ، وہاں آباد رکھا

بہت بے اعتباری کا سفر تھا،پھر بھی اُس نے سرِدشتِ طلب اک آستاں آباد رکھا

شبِ معراج ساتوں آسماں تھے نور افشاں زمیں پر بھی جلوسِ اختراں آباد رکھا

اُسی کے فیض سے اب تک ستادہ ہیں زمیں پر کہ جس نے سر پہ نیلا آسماں آباد رکھا (حسن عباس رضا)


بُجھے دلوں میں یقینِ سحر سلامت ہے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بُجھے دلوں میں یقینِ سحر سلامت ہے کہ اسمِ پاک ترا صبح کی علامت ہے

کجی سے دُور رہی تیرے گلستاں کی بہار کہ تیرے باغ کا ہر نخل سرو قامت ہے

وہ اب ہوں کوچۂ طائف کہ شام کے بازار ترے لہو کا تقاضا ہی استقامت ہے

تو وہ چراغ جو نورِ ازل سے روشن ہے تو وہ حدوث کہ جس کی بنا قدامت ہے

حساب مجھ سے نہ لے پیش مصطفیٰ ، یارب! کہ میری فروِعمل دفترِ ملامت ہے

وہ اور ہیں جو متاعِ عمل پہ نازاں ہیں ہمارے پاس توآنسو ہیں اور ندامت ہے (حسن اختر جلیل)

اغ حسانؔ کے پھولوں کی مہک شعروں میں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

باغ حسانؔ کے پھولوں کی مہک شعروں میں خود بخود آئے گی اک روز چمک شعروں میں

نعت لکھتے ہی رہو بیٹھ کے کعبے کے قریب جب تلک آئے نہ طیبہ کی جھلک شعروں میں

طائرِ فکر مبارک ہو صدا آتی ہے بلبلِ باغِ مدینہ کی چہک شعروں میں

کیسے تحریر کروں کیسے دکھاؤں سب کو شہرِ طیبہ سے جدائی کی کسک شعروں میں

نیند آتی ہی نہیں شوقِ ثنا میں شب بھر جاگ اٹھتی ہے عبادت کی للک شعروں میں

خش و خاشاک زمینوں میں کہاں سے آئے گلشنِ نور کے غنچوں کی چٹک شعروں میں

میرے آقا کو یقیں تھا کہ ضرور آئے گی حضرت کعبؔ کے ایماں کی لپک شعروں میں

مدحتِ شاہ مدینہ کی بدولت اطہرؔ مجھ کو حاصل ہے بہت نان و نمک شعروں میں (حسن رضا اطہر)

اُس رنگِ محبت کے اثر میں ہوں ابھی تک[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اُس رنگِ محبت کے اثر میں ہوں ابھی تک گھر لوٹ بھی آیا ہوں،سفر میں ہوں ابھی تک

دُوری میں حضوری کے نئے باب کھلے ہیں!! سرکارِ دو عالم کی نظر میں ہوں ابھی تک

یہ کُوزہ گری نعت کی آسان نہیں تھی صد شکر کہ اُس دستِ ہنر میں ہوں ابھی تک

آقا! مرے آقا! مری حالت پہ نظر ہو منزل نہیں ملتی ہے سفر میں ہوں ابھی تک

رستہ ترا آنکھوں کے دریچوں پہ رقم تھا پھر بھی میں اگر اور مگر میں ہوں ابھی تک

وہ ساعتِ نایاب جو گزری تھی حرم میں اُس شام میں زندہ ہوں سحر میں ہوں ابھی تک

کاشفؔ ابھی آلودہ ہے خواہش سے مرا دل پتھر ہوں مگر کانِ گُہر میں ہوں ابھی تک (کاشف عرفان)

اک نعت کا ہدیہ لیے در پر مرے آقا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اک نعت کا ہدیہ لیے در پر مرے آقا لب بستہ کھڑا ہے یہ سخنور مرے آقا

چمکے مری سوئی ہوئی قسمت کا ستارہ مدت سے اندھیرے ہیں مقدر مرے آقا

در پیش ہوئے کب اسے دنیا کے مسائل ہو جائے کرم آپ کا جس پر مرے آقا

ہو اب تو عطا جراتِ اظہار مجھے بھی آیا ہوں بڑی دور سے چل کر مرے آقا

جو کچھ بھی ہے یہ آپ کا فیضانؔ ہے ورنہ میں ریت کا ذرہ تو سمندر ہے آقا (فیضان عارف)


آپ سے اذن عطا ہوتاہے،بات سجھائی جاتی ہے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آپ سے اذن عطا ہوتاہے،بات سجھائی جاتی ہے نعت کہاں لکھی جاتی ہے،یہ لکھوائی جاتی ہے

یہ وہ صنف ہے جس کوفرشتے ہاتھوں ہاتھ سمیٹتے ہیں یہ وہ چیز ہے جو سرکار کو جا کے دکھائی جاتی ہے

یہ وہ کام ہے جو کروایا جاتاہے دل والوں سے یہ خوشبو شاداب علاقوں میں مہکائی جاتی ہے

یہ وہ کرم ہے مالک کا جو کسی کسی پر ہوتا ہے یہ دستار محبت والوں کو پہنائی جاتی ہے

یہ احسان شعیبؔ ہے مجھ پر کالی کملی والے کا یہ سوغات مدینے سے مجھ کو بھجوائی جاتی ہے (ڈاکٹر شعیب احمد)


کوئی منظر ہو ، تو ہی جلوہ نما لگتاہے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کوئی منظر ہو ، تو ہی جلوہ نما لگتاہے آسماں بھی ترا پیوند قبا لگتا ہے

جب سے آنکھوں میں بسا گنبد خضریٰ کاجمال زرد پتے کو بھی دیکھوں تو ہرا لگتا ہے

حجلۂ جاں تری خوشبو سے مہک اٹھتا ہے گوشۂ دل میں نہاں غار حرا لگتا ہے

تو مری ذات کی پہنائی میں ہے محوِ خرام لوحِ جاں پر ترا نقش کف پا لگتا ہے

شدتِ یاس میں پڑھتا ہوں میں جب حرفِ درود کاسۂ سرترے قدموں میں دھرا لگتا ہے

ایک احساسِ لطافت سے ہے تنِ آسودہ دل کے زخموں پہ ترا دستِ شفا لگتا ہے

صرف توہی تو نہیں اس سے معطر سالک سارا عالم اسی خوشبو میں بسا لگتا ہے (سید ابرار سالک)

وہ تُو کہ جس نے ذہن کو فکرِ رسا دیا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

وہ تُو کہ جس نے ذہن کو فکرِ رسا دیا وہ تو کہ جس نے دل کا حرم جگمگا دیا

وہ تو کہ جس نے ہر دہنِ بے زبان کو لہجہ دیا ، بیان دیا ، ذائقہ دیا

وہ تُو کہ جس کے لمسِ کفِ پائے پاک نے ذروں کو آفتاب کا ہمسر بنا دیا

وہ تُو کہ جس کے قلزمِ رحمت کی موج نے ہر ڈوبتا سفینہ کنارے لگا دیا

وہ تُو کہ جس کے نکہت و رنگ و جمال نے صحرائے کائنات کو گلشن بنا دیا

وہ تُو کہ جس کے نعرۂ و حدت کی گونج نے نقشِ دُوئی کو لوحِ جہاں سے مٹا دیا

وہ تُو کہ جس کی شانِ سجود و قیام نے بندے کو بندگی کا سلیقہ سکھا دیا

وہ تُو کہ جس کے جلوۂ نورِ ظہور نے! رُوئے حیات و موت سے پردہ اُٹھا دیا (سرفراز قریشی)

میں کیسے کہہ دوں مدینہ مقام ہوجائے٭[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

میں کیسے کہہ دوں مدینہ مقام ہوجائے٭ حضور! چشم تصور میں کام ہو جائے

جو خاک پا ہی عطا ہو ، نصیب چمکے گا نظر اٹھے تو زمانہ غلام ہوجائے

حضور! لطف و کرم کی ہمیشہ بارش ہو میں چاہتا ہوں کہ یہ التزام ہو جائے

نبی کی نعت کہوں پھر خوشی سے مر جائوں خدا کرے یونہی قصہ تمام ہو جائے

سیاہ کار ہوں، ناد م ہوں ، پھر بھی یہ چاہوں سہیلؔ مدحت خیر الانام ہو جائے

(سہیل احمد صدیقی) ٭ مصرع طرح : حضور ایسا کوئی انتظام ہوجائے (صبیح رحمانی)

فارسی نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

وصل اللہ علیٰ نورٍ کزوشد نورھا پیدا زمیں ازحبِّ اِوُساکِن فلک درعشق اُِوشیدا

دوچشم نرگسَینَش را کہ مازاغ البَصَر خوانند دوزلف عَنبرینش را کہ واللّیل اذا یغشیٰ

ازو درہرتنے ذوقے وزو درہردلے شوقے ازوبر ہرزباں ذکر ے وزودر ہردلے سودا

منور عالم ازرُویش معطّر خلد ازبُو یشَ مغبر حالِ ہندویش دوزلفِ اوشبِ یلدا

محمد احمد ومحمود وے را غالقش بستود ازوشد بودہر موجودا زوشد دیدہ ہابینا

نہ ایوب ازبلاراحت نہ یوسف حشمت وشوکت نہ عیسیٰ آں مسیحا دم نہ موسیٰ آںیدبیضا

بوصفش سورۂ طہٰ ، مزمل ہمدگر یسٰیں بہ موجوداتِ عالیٰ ذات تلک الرسُل فضّلنا

اگر نام محمد را نیا وردے شفیع آدم نہ آدم یافتے توبہ نہ نوح ازغرق نجینا (مولانا عبدالرحمٰن جامیؒ)

دیدار کیا کرتا ہر آن محمد کا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دیدار کیا کرتا ہر آن محمد کا اے کاش کے میں ہوتا دربان محمد کا

دنیا کے اندھیروں سے آقا نے نکالا ہے! میں بھول نہیں سکتا احسان محمد کا!

اُس شمع ہدایت سے ملتی ہے ضیا سب کو جاری ہے مدینے میں فیضان محمد کا

ناز اپنے مقدر پہ دن رات وہ کرتاہے بن جاتا ہے جب کوئی مہمان محمد کا

ادراک سے اونچی ہے عظمت مرے آقا کی پوچھو نہ کبھی مجھ سے ایمان محمد کا

ہربات شفیقؔ اُن کی پُہنچاؤں گا میں سب تک پیارا ہے مجھے جاں سے فرمان محمد کا (محمد شفیق اعوان) ا

ذکرِ احمد سے منور میرا سینہ کر دے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ذکرِ احمد سے منور میرا سینہ کر دے مرے مولا ، میرے یثرب کو مدینہ کر دے

دل صنم خانۂ دنیا میں ہوا ، سنگ خصال اپنا ہم رنگ بنا ، اور نگینہ کر دے

اب کہیں اور گوارہ ہی نہیں ، جائے قرار اپنے رستے میں مقرر ، مرا جینا کر دے

مجھ پہ یوں ٹوٹ کے برسے تری رحمت کاسحاب آبِ اغیار سے خالی ، مرا مینا کر دے

دل دیا ہے تو اسے درد شناسی ہو عطا آنکھ بخشی ہے جو تو نے ، اسے بینا کر دے

جا کے نکلے وہ سرِ حشر کنارِ کوثر چشمِ گریاں میں رواں میرا سفینہ کر دے (آصف مرزا)


بارہا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بارہا منزلِ طیبہ کا مسافر ہونا ہو مقدر ترے دربار میں حاضر ہونا

انبیا تیری زیارت کی دعا کرتے ہیں شرف ایسا ہے ترے نور کا ناظر ہونا

اوّل الخلق ہے تو ، ختم نبوت تجھ پر سب پہ ظاہر ہے تر اوّل و آخر ہونا

دل کی خواہش ہے حرا غار میں نعتیں کہنا تیری خلوت ، ترے ماحول کا زائر ہونا

نعت لکھوں تو مدینے سے پیام آجائے سوزِ دل یوں مرے اشعار میں ظاہر ہونا

نعت کہتاہوں تو حالات بدل جاتے ہیں مشکل اوقات میں کام آتا ہے شاعر ہونا (محمد مسعود اختر)


نعت رنگ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اک عجب نقدِ سخن کا سلسلہ ہے ’’نعت رنگ‘‘ شعر فہمی کا مکمل آئینہ ہے ’’نعت رنگ‘‘

ہے ثنائے مصطفیٰ کی ضو سے جگمگ ہر ورق ا ک جریدہ نور کا، رب کی عطا ہے’’ نعت رنگ‘‘

ایک گل دستہ ہے نیرنگیٔ گل کا سر بہ سر جذبۂ صادق سے یوں گوندھا گیا ہے ’’نعت رنگ‘‘

شمع کی صورت فروزاں ہیں شمارے سب کے سب یوں فروغِ نعت کا محور بنا ہے ’’نعت رنگ‘‘

ہوگئے پچیس گلدستے گل و الماس کے رنگ سے اور نور سے چمکا ہوا ہے ’’نعت رنگ‘‘

ہے صبیح الدیں ، صبیحِؔ نکتہ داں کا آئینہ لفظ و معنیٰ کی صباحت بن گیا ہے ’’نعت رنگ‘‘

ہاں عزیزؔ احسن کے فکر و فن سے آئینہ صفت کاوشِ نقدو نظر کا سلسلہ ہے ’’نعت رنگ‘‘

تا قیامت اب رہیں ضو ریز مدحت کے نگیں لعل و مروارید کی مالا بنا ہے ’’نعت رنگ‘‘

سب ہی اہلِ فکر و فن کے ذوقِ نقدِ نعت سے اے سمیعہ ؔ ناز ، گلدستہ بنا ہے ’’نعت رنگ‘‘ (سمیعہ ناز)












ا










ا










ا










ا










ا










ا










ا










ا










ا