نعت رنگ کے تنقیدی زاویے

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
The printable version is no longer supported and may have rendering errors. Please update your browser bookmarks and please use the default browser print function instead.


Naat kainaat - naatia masail.jpg

مضمون نگار : ڈاکٹر ابرار عبدالسلام

کتاب : نعتیہ ادب ۔ مسائل و مباحث ۔ ڈاکٹر ابرار عبدالسلام

’نعت رنگ‘کے تنقیدی زاویے

(مدیر’نعت رنگ‘ کے اداریوں اور ان کے نام خطوط کی روشنی میں)


(۱)

ایک ایسی صنف سے متعلق تحقیقی و تنقیدی مجلہ جاری کرنا، جس پر لکھنے والوں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہو اور جس صنف سے متعلق تخلیقی و تحقیدی امکانات بھی محدودسمجھے جاتے ہوں، ایک دیوانے کا خواب ہی محسوس ہوتا ہے جس کی تعبیر پانے کی خواہش کو خوش گمانی پر ہی محمول کیا جاسکتا ہے لیکن جب یہ خواب حقیقت کا روپ دھار چکا ہو اور اس کی اشاعت بھی اٹھائیس واںمرحلہ بخوبی طے کر چکی ہو تواسے ایک کرامت ہی سے تعبیرکیا جاسکتا ہے۔ یہ ادبی کرامت ’نعت رنگ‘ کی صورت میں جناب صبیح رحمانی کے ہاتھوں ظہور پذیر ہو چکی ہے۔


ایں سعادت بزور باز و نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ


جناب صبیح رحمانی کو سن ِ شعور ہی سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے انتہا محبت رہی ہے ۔ اسی محبت کانتیجہ تھا کہ انھیں پہلے پہل ثناخوانیِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سننے اور پھرثنا خوانی کرنے کا شوق دامن گیر ہوا ۔متذکرہ دونوں مراحل طے کرتے ہوئے انھیںایک بات شدت سے پریشان کرتی رہی کہ معاصر عہد میں نعت کو پرکھنے کا کوئی تنقیدی معیار موجود کیوں نہیں؟ اور اگرموجود نہیں ہے تو اسے کس طرح بروئے کار لایا جا سکتا ہے؟ اس حوالے سے انھوں نے مختلف علما و ادباسے تبادلہ خیال بھی کیا ۔ (۱) اکثر اہل دانش کی طرف سے حوصلہ افزا جوابات موصول نہ ہوئے۔کچھ نے موضوع کی نزاکت کا احساس دلایا تو کسی نے خوفِ فسادِ خلق کو اس راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ بتایااور کسی نے مسلکی مناقشوں کے خطرے کی طرف نشان دہی کر کے بالواسطہ اپنے ارادوں سے باز رہنے کا مشورہ بھی دیا۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری جیسے ثقہ محقق و نقاد نے تو نعت کی تنقید کو ہی نامناسب اور غیر ضروری قرار دے ڈالا۔(۲)لیکن انھیں کچھ اہل علم ایسے بھی میسر آئے جنھوں نے ان کی حوصلہ افزائی بھی کی اور ان کے خیالات کو سراہا بھی لیکن اس بھاری پتھر کو نہ خود اٹھانے کی ہامی بھری اور نہ ان کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کا عندیہ دیا۔چنانچہ نعت کے فروغ اور اس کا حقیقی منصب سامنے لانے کا بیڑا صبیح رحمانی کو دو چارہم خیال دوستوں کے ساتھ ہی اٹھانا پڑا۔’نعت رنگ ‘ کے اجراکا خیال بعض لوگو ں کے نزدیک ایک مجذوب کی بڑسے زیادہ اہمیت نہ رکھتا تھا اور اس کی کامیاب اشاعت کسی کے حاشیہء خیال میں بھی نہیں آسکتی تھی۔ رشید احمد صدیقی نے کسی جگہ لکھا ہے کہ بعض کام فرزانے نہیں صرف دیوانے کر سکتے ہیں۔جناب صبیح رحمانی کی یہی دیوانگی ـ’نعت رنگ‘ کے اجرا کی صورت میں سامنے آئی او ر آج یہ دیوانگی دو دہائیوں سے زائد صحرائی مسافت طے کرچکی ہے اور اٹھائیس شماروں کا ذخیرہ بغل میں دبائے اپنی فرزانگی کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔

کچھ عرصہ قبل تک نعت صرف ایک ثوابیہ صنف کے طور پر ہی جانی جاتی تھی اور نعت گو شعرا صرف عقیدت کے اظہار یاحصولِ ثواب کی خاطر ہی تخلیقِ نعت کا فریضہ سرانجام دیا کرتے تھے ۔جس طرح کلاسیکی عہد میں متصوفانہ خیالات منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے شاعری میں برتا جاتا تھا بعینہ نعت سے متعلق بھی شعرا کا رویہ کچھ اسی طرح کا رہالیکن بطور ایک ادبی صنف اس کودیکھنے،پرکھنے اور برتنے کا رواج بالکل نہ تھا۔(۳) قدیم ادوار میں بھی کلاسیکی شعرا کا رویہ کچھ اس سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ کلاسیکی شعری روایت کا مطالعہ ایسے اکا دکا شعرا ہی سے ہماری ملاقات کروا سکتا ہے جنھوں نے نعت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنارکھا ہو۔البتہ ایسے شعرا جنھوںنے نعت کو بطور تبرک ،ثواب یا برائے گفتن شعر تخلیق کیاہو ،ان کی تعداد کو احاطہء قلم میں لانے کے لیے ایک عرصہ درکار ہے۔کلاسیکی شاعری کا شاید ہی کوئی دیوان، کلیات ، مثنوی اورانتخاب ایساہوجس میں نعت کو شامل نہ کیا گیا ہو۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تخلیق ِ نعت اور شاعری کی تاریخ ہم عمر ہونے کے باوجود تخلیق ِنعت کا بوٹا کیوں سرسبز نہ ہو سکا؟ اور اس کی نشوونما کی راہ میں کون سے عوامل رکاوٹ کا باعث بنتے رہے؟ ان اسباب پر ڈاکٹر محمد اسحٰق قریشی نے مفصل روشنی ڈالی ہے ۔ ان کا بیان ہے :

<blockquot>

’’نعت کی پذیرائی زیادہ تر دینی حلقوں میں ہوئی ۔ اس لیے عام ادبی حلقے اسے دینی ادب کا حصہ سمجھ کر علما و صوفیاکے لیے خاص قرار دیتے رہے۔چونکہ ادبی تخلیق میں مذہبی عنصر کے وجود کو بالعموم ہماری ادبی تنقید دوسرے درجے کی چیز سمجھتی رہی ہے اس لیے ادبی حلقوں میں اسے پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ دوسری جانب دینی حلقے تھے ۔ ان کے ہاں نعتیہ شاعری صرف وقتی آسودگی اور قلبی بے قراری کے لیے لمحاتی قرار کا باعث رہی۔اس لیے ان کے ہاں بھی نعت کو مناسب مقام نہ مل سکا۔ نعتیہ شاعری کے فنی جائزے کے راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خوش عقیدگی اور خوفِ فسادِ خلق بنی کہ مقدس کلمات کو کس طرح نقدونظر کے تختے پر چن دینے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں نعتیہ ادب کا باقاعدہ اور سنجیدہ فنی محاکمہ دیکھنے میں نہیں آتا۔اس لیے جو رائے بھی قائم کی گئی وہ مفروضوں اور دل جوئیوں پر مبنی رہی۔ نعت کی شعری حیثیت کو خود نعت گو حضرات کے طرز عمل سے بھی نقصان پہنچا ۔شعری صلاحیت رکھنے والے عموماً وہ لوگ تھے جو دینی حلقوں میں قابل احترام شخصیتوں کے مالک تھے۔ وہ لوگ دربار نبوی کی نزاکتوں کوبھی سمجھتے تھے اور شاعری کے رموزو غوامض کو بھی مگر وہ نعت کی آواز اور اپنی عقیدت کا اظہار جان کر اس کی نمائش مستحسن نہ سمجھتے تھے۔ وہ خوف زدہ تھے مبادا یہ جذبہ ریاکاری کی زد میں آجائے ۔اس کے برعکس وہ اصحاب تھے جنھیں شعر اورجذبہ شعرکے تخلیقی اظہار پر قدرت حاصل نہ تھی یا ان کے ہاں جذبہ موجود تو تھا لیکن وہ اپنے اندر اس کے تخلیقی اظہار کی صلاحیت نہ پاتے تھے۔ بدقسمتی سے یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ ارادت کا اظہار شعر کے بغیر نہیں ہو سکتا، اس طرح ہر وہ شخص جو وزن و قوافی کی عامیانہ سی شد بد بھی رکھتا تھا، شعر کہنے لگا۔ عوام نے محبت سے انھیں سنا، اور یوں یہ شعوری کاوش جو زیادہ تر تصنع کے ذیل میں آتی گئی، مقبول ہوتی گئی‘‘۔(۴)


نعت کے فروغ میں ’نعت رنگ‘ کے اجراسے پہلے چند نعتیہ رسائل و جرائد ہی رونقِ محفل بنے ہوئے تھے ۔جن کی کوششوں کا محور تخلیق ِ نعت کے فروغ تک محدودتھا۔ ان میں چند رسائل و جرائد ایسے بھی تھے جنھوں نے محدود سطح پر تنقید ِ نعت کا فریضہ بھی ادا کیا۔ (۵) لیکن یہ اختصاص صرف ’نعت رنگ‘ کو ہی حاصل رہا کہ اس نے نعت کی تخلیق ہی نہیں ،تنقید اور تحقیق کے لیے بھی سنجیدہ کوششوں کا آغاز کیا اوراپنے گرد اہل قلم لکھاریوں کا ایسا حلقہ جمع کر لیا جو نعتیہ ادب کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچ بھی رہا تھا اوراور اس سوچ کوعملی جامہ پہناکراپنی سنجیدگی کا ثبوت بھی فراہم کررہا تھا۔(۶) یہ حلقہ ایک دو روز میں تشکیل نہیں پایا بلکہ اس کی پشت پر برسوں کی محنت اور کاوش کارفرما رہی ۔ نعتیہ ادب کے فروغ کے لیے صبیح رحمانی اپنے دل کے چراغ میں مسلسل آنکھوں کا تیل ٹپکاتے رہے تب جا کر نعتیہ ادب کی تاریک راہ روشن ہو سکی۔ صبیح رحمانی کی انھی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اہل علم و دانش کے لیے ایسا ماحول تشکیل پاگیا جس میں نعت پر سوچنا ،غورو فکر کرنااور لکھناغیر ادبی اور غیرتخلیقی فعل نہ رہا بلکہ وقت کی ضرورت بن گیا۔مدیر’ نعت رنگ‘ نے اس ادبی فریضے کو بروئے کار لانے کے لیے اہل قلم دانشوروں کو نعت پر لکھنے کی دعوت دی ۔یہ فقط زبانی کلامی اظہار نہیں تھا بلکہ اس خیال کو عملی شکل دینے کے لیے ’ نعت رنگ ‘میں قارئین کے خطوط کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع کیا جس سے نعت کے ادبی،فکری اور لسانی پہلوؤں پر آزادانہ مکالمے کاراستہ کھل گیا۔مدیر نے صرف راستہ ہی فراہم نہیں کیا بلکہ فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نعت کے موضوع پر لکھے گئے مقالات کے حق اور مخالفت میں اہل علم قارئین کے تحریر کردہ تمام خطوط شائع بھی کر دیے(۷) اورساتھ ہی اہل علم ودانش کو صلائے عام بھی دے ڈالی کہ وہ آئیں اور شریعت سے اکتساب کردہ قلب ونظر کی روشنی سے جادہء نعت کو روشن کریں اور نعت کا درست اور حقیقی مقام متعین کرنے میں اپنا عملی کردار بھی ادا کریں۔(۶) اس سلسلے میں مدیر’ نعت رنگ ‘ کی گزارش تھی کہ وہ نعت کے فکری اور فنی معائب کی نشان دہی ضرور کریں لیکن استدلال ، متانت اورسنجیدگی کا دامن ہاتھ سے ہرگز نہ چھوڑیں کیونکہ تضحیک کرنا، پگڑی اچھالنا، تحقیر آمیز رویہ اختیار کرنایا جارحانہ انداز اپنانا نقاد کا منصب نہیں۔ نقاد تو تخلیق کو راستہ فراہم کرتا ہے۔ تخلیق کار کو غیر تخلیقی روشوںپر بھٹکنے سے بچاتاہے اور اسے تنقیدی شمع کی وہ روشنی فراہم کرتا ہے جو باشعور تخلیق کار کی معاون ومددگار ہوتی ہے۔غرض یہ کہ نقاد، تنقید لکھتے ہوئے تخلیق کو بھی اور تخلیق کار کو بھی کشادہ دلی اور وسیع النظری سے رہنمائی فراہم کرتاہے۔ (۹)

مدیر ’نعت رنگ‘ کی کوششوں کے نتیجے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر قارئین کے لیے ’نعت رنگ ‘ کے ذریعے ایسا پلیٹ فارم مہیا ہو گیا جہاں وہ اپنے خیالات اور افکار کو آزادانہ پیش کرسکتے تھے۔اس سے ایک طرف تو روشن خیالی اور رواداری کی فضا پیدا ہوئی تو دوسری طرف مختلف مسالک اور مکاتیب فکر کے افراد کے مابین ایک بامقصد اور صحت مند مکالماتی ماحول بھی میسر آگیا۔اب ہر شخص اپنے خیالات اور نقطہء نظر کو ’نعت رنگ‘ کے وسیلے سے خطوط کے ذریعے بلا خوف و خطرقارئین تک پہنچا سکتا تھا۔ خطوط میں آزادیِ اظہار کے ذریعے ذہنی دوریاں اور قلبی نفرتیں ختم ہو نے کا راستہ ہموار ہوگیااور مختلف مکاتیب فکر کے افراد کے دلوں میں موجود عداوتیں اور ذہنوں میں موجود اشکالات رفع کرنے کا موقع ملا اور ساتھ ہی ایک دوسرے کو سمجھنے، سمجھانے،قائل کرنے اور قائل ہونے کی راہ بھی میسر آئی۔اس طرح ایک طرف مکتوب نگاروں کے اس آزادانہ اظہار سے ان کے لیے تذکیہ نفس کا سامان فراہم ہوگیا تو دوسری طرف نعتیہ ادب کے فروغ کے لیے سنجیدگی سے سوچنے کا عمل بھی شروع ہو گیا ۔ (۱۰)

(۲)

ماضی میں ،مکتوب نگاری دیگر اصنافِ نثر کی طرح ایک بھرپور صنف نثر تھی۔ اگر ہم ۱۸۵۷ء کو ایسا خط مان لیں جو دو زمانوں کو ملا رہا ہے یا جدا کر رہا ہے تو ۱۸۵۷ء سے اُس طرف مکتوب نگاری کا غالب بلکہ مجموعی رجحان انشا پردازی ہی رہا لیکن ۱۸۵۷ء سے اِدھر غالب جیسے نابغہ کی کوششوں سے اس صنف کو اپنی قدیم روایت کے برعکس حیرت انگیز طور پراپنی قلب ماہیت کرنے کاموقع ملا اور پھر یہ صنف بقول غالب’’ نادر شاہی روشوں‘‘ (۱۱) کو چھوڑ کر مکالمے کی صورت اختیار کرنے لگی۔ اگرچہ اس دور میں بھی متذکرہ بالاروشیں جدید روشوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتی رہیںلیکن زمانے کی تیز رفتاری اور بدلتی ہوئی اقدار سے ہم آہنگ نہ ہونے کے باعث جلد ہی ان کی سانسیں پھولنا شروع ہو گئیںاور بیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے وہ گوشہ ء گمنامی کا حصہ بن کر رہ گئیں۔

غالبؔ اورمعاصرین ِ غالبؔ کے خطوط اس حقیقت کا انکشاف بھی کرتے ہیں کہ اب مکتوب نگاری صرف مکالمہ نہ رہی تھی بلکہ اس سے ایک قدم اور آگے بڑھا کر علمی حیثیت بھی اختیار کر گئی تھی۔اب یہ معاشرتی تاریخ بھی تھی اور تہذیبی مرقع بھی۔تنقید ی حیثیت کی حامل بھی تھی اور تحقیقی رویے کا اظہار بھی۔چنانچہ خطوط کی اہمیت کے پیش نظر مکاتیب کے مجموعے شائع کرنے کا ایک نامختتم سلسلہ شروع ہو ا۔آج تک سینکڑوں مکاتیب کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ یہ مجموعے شاعروں کے بھی ہیں اور نثر نگاروں کے بھی، مورخوں کے بھی ہیں اور محققوں کے بھی۔مذہبی علما کے بھی ہیں اور صوفیا کے بھی۔پچھلی ڈیڑھ صدی میں معاشرے کے ہر طبقے(صوفیا،علما، شعرا،ادبا،محقق، نقاد، مؤرخ، صحافی،سیاستدان وغیرہ) سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے خطوط کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔

جدید دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے ایک طرف ہماری معاشرت ، تہذیب اور ثقافت کو بدل کر رکھ دیا ہے،تو دوسری طرف ادبی صورت حال بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی ۔ قدیم اصناف میں سے بیشترایسی ہیں جو زمانے سے قدم سے قدم ملاکر نہ چل سکیں اور آخر کار کسی گوشہء گمنامی میں جاچھپیں اوران کی خالی کی ہوئی جگہوں پر نئی نئی اصناف نے قبضہ جما لیاہے لیکن کچھ ادبی اصناف ایسی بھی ہیں جنھوں نے تیزی سے بدلتی ہوئی زندگی اور معاشرے سے ہار نہ مانی بلکہ مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے ہونے کا احساس بھی دلایا۔ اس میں اگرچہ انھیں وقت کی ضرورتوں کے پیش نظر ، احتسابی عمل سے گزرتے ہوئے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہونا پڑا لیکن انھوں نے اپنی بنیادی روح کو برقرار ہی رکھا۔ایسی اصناف میں سے ایک مکتوب نگاری بھی ہے۔آج کل باہمی خط و کتابت کی جگہ موبائل میسجز، ای میل، واٹس ایپ،اور فیس بک وغیرہ نے لے لی ہے ۔یہ درست ہے کہ ترسیل ِ خیالات کے یہ تمام ذرائع موجودہ دور کا طرّہ ء امتیاز بن کر سامنے آئے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں مکتوب نگاری کی سی اعصابی مضبوطی مفقودنظر آتی ہے۔ اسی وجہ سے مکتوب نگاری کا فن آج بھی اپنی شناخت کا ایک مضبوط حوالہ بن کر سامنے آرہا ہے۔ مکتوب نگاری کی یہ روایت آج بھی زندہ ہے اور اپنی اہمیت کے باعث کل بھی زندہ رہے گی۔

اردو اخبارات اور رسائل میں خطوط کی اشاعت کی روایت تقریباً دو صدیوں پر محیط ہے۔اردو کے قدیم اخبارات میں اہل علم و ادب اور دور دراز مقیم خبر نگاروں کے خطوط شائع ہو اکرتے تھے۔’اودھ اخبار ‘ لکھنؤ اور ’دہلی اردو اخبار‘ دہلی میں بے شمار خطوط شائع ہوئے ۔ ان خطوط کی نوعیت سیاسی بھی تھی، معاشرتی بھی اور علمی و ادبی بھی لیکن بالعموم خطوط کی نوعیت سیاسی اور معاشرتی ہوا کرتی تھی۔(۱۲) سرسید احمد خان نے بھی ’تہذیب الاخلاق‘ میں خط و کتابت کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا ہواتھا۔وقتاً فوقتاً انھیں مراسلے موصول ہوتے رہتے تھے۔ وہ ان مراسلوں کو ’تہذیب الاخلاق ‘ میں شائع کرتے پھر ان کے مفصل جواب لکھتے۔ ’تہذیب الاخلاق‘ کے ایک شمارے میں بالعموم ایک ہی مراسلہ شامل کیا جاتا تھا۔ان مراسلوں میں شرعی مسائل اورمذہبی حقائق کے بارے میں استفسار کیا جاتا اور سوالات اٹھائے جاتے تھے ۔ بعض اوقات تو سرسید احمد خان اپنے اور ’تہذیب الاخلاق ‘ کے خلاف موصول ہونے والے خطوط بھی شائع کر دیا کرتے تھے اور بعض اوقات کسی فرد کے نام خود خط لکھ کربھی اپنا مؤقف واضح کر تے تھے۔ مثلاً ایک شمارے میں سرسید نے مولوی سید مہدی علی کے نام اپنا ایک خط بھی شائع کیا ہے جس کا عنوان ’نسبت طیور منخنقہ اہل کتاب ‘ ہے۔اس خط میں انھوں نے مولوی سید مہدی علی کے’ رسالہ طعام اہل کتاب‘ کے حوالے سے ان کے ایک اعتراض کا جواب دیا تھا۔ان کا اعتراض تھا کہ اگرچہ اہل ِکتاب کے ساتھ کھانا کھانا حرام تو نہیں لیکن اگر ان کے کھانے میں ایسی مرغی کا گوشت شامل ہو جسے ذبح کرنے کی بجائے اس کی گردن مروڑ کرمار دیا گیا ہو تو ان کے ساتھ اس قسم کاگوشت کھانا کس طرح جائز ہوا؟ سرسید نے اس خط میں ان کے اس اعتراض کا مفصل جواب دیا ہے۔(۱۳) احمد علی شوق کے اخبار ’آزاد‘ لکھنؤ میں ایک مستقل عنوان ’’صیغہء مراسلات‘‘ کا بھی ہوتا تھا جس میں تعلیم اور زراعت وغیرہ کے مسائل پر اظہار خیال کیا جاتاتھا ۔(۱۴)اسی طرح ’نورالآفاق‘ اخبارجو سرسید کے’ تہذیب الاخلاق‘ کی مخالفت میں جاری ہوا ، اس میں ’بانی مدرسۃ العلوم مسلمانان‘ کے مذہبی عقائد پر خطوط کی صورت میں بحث و تکرار کی جاتی تھی۔ (۱۵)

بیسویں صدی کے آغاز کے اخبارات و رسائل میںملی جلی صورت حال دیکھنے میں آتی ہے۔مثال کے طور پر ’پیسہ اخبار‘،’صحیفہ نامی‘،’اور ’اخبار عام‘ وغیرہ میں ’خط کتابت‘ اور ’ مراسلات‘ کے عنوانات کے تحت جو خطوط شائع ہوئے ان کا انداز متذکرہ بالا اخبارا ت میں شائع ہونے والے مکتوبات کا ساتھا (۱۶) لیکن بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ہی ایسے اخبارات اور رسائل زیورِ طبع سے آراستہ ہونے لگے تھے جن میں شائع ہونے والے خطوط کی نوعیت معاشرتی اور سیاسی سے زیادہ علمی ہوا کرتی تھی۔ مارچ ۱۹۰۵ء میں پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی’گلزار نسیم‘ کے حوالے سے ایک مباحثے نے جنم لیا۔یہ مباحثہ ’معرکہ چکبست و شرر‘ کہلاتا ہے۔ اس مباحثے میں پنڈت برج نرائن چکبست اور عبدالحلیم شرر اور ان کے حامیوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔اس طرح کثیر تعداد میں ’گلزار نسیم ‘ کے حق اور مخالفت میں مواد شائع ہوا۔یہ تمام مواد ’اودھ پنچ ‘ ،‘اردوے معلی ،’ زمانہ، ’دبدبہ ء آصفی ‘ ،’دکن ریویو‘ ، ’رسالہ تہذیب‘ ،’ ریاض الاخبار گورکھپور‘،’تفریح‘،’اتحاد‘،’دل گداز‘ اور ’کشمیری درپن ‘ ،میں شایع ہوا۔یہ ادبی معرکہ خطوط اورمضامین کی صورت میں ہی سامنے آیا۔(۱۷) دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معرکے میں گلزار نسیم کے حق اور مخالفت میں جتنا بھی مواد سامنے آیاوہ یا تو مضامین کی صورت میں تھا یا خطوط کی صورت میں۔ اگر کسی ادیب نے خط میں کوئی اعتراض کیایا سوال اٹھایا تو اس کا جواب مضمون کی صورت میں آیا اور اگر مضمون میں کوئی قابلِ اعتراض مواد موجود ہوتا تو خط میں اس کا جواب دیا جاتا۔ غرض یہ کہ عمل اور ردعمل کا یہ سلسلہ مدت مدید تک چلتا رہا۔


بیسویں صدی میں ’معارف‘ اعظم گڑھ نے تحقیقی حوالے سے اپنی شناخت کے معتبر حوالے پیدا کیے۔ اس مجلے سے وابستہ لکھنے والوں کاایک ایسا طبقہ موجودرہاجنھوں نے اپنے تحقیقی مقالات اور خطوط کے ذریعے تحقیق کو ایک نئی جہت عطا کی۔ اشاعت کی غرض سے آنے والے خطوط ’استفسارو جواب ‘ کے عنوان کے تحت مجلے میں شائع کیے جاتے تھے ۔ ان خطوط کی نوعیت تمام تر علمی ہوا کرتی تھی۔ ان خطوط میں ’معارف ‘ میں شائع شدہ مقالات میں موجود تسامحات کی تصحیح کی جاتی،مکتوب نگار ’معارف‘ میں شایع شدہ مقالات سے متعلق اپنا مؤقف پیش کرتا ۔اس کے علاوہ قارئین علمی اور تحقیقی موضوعات پر سوال بھی اٹھایا کرتے تھے۔ مدیر ’معارف ‘ان کا بالتفصیل جواب دیاکرتے تھے۔۱۹۴۷ء تک یہ سلسلہ بڑی شد و مد کے ساتھ جاری رہا ۔اگرچہ تقسیم ِ ہند کے بعد وقفے وقفے سے خطوط کی اشاعت اور ان کے جوابات کا یہ سلسلہ چلتا تو رہا لیکن اس کا رخ ’وفیات‘ کی جانب مڑ گیا ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خطوط کی اشاعت برائے نام رہ گئی تھی البتہ کبھی کبھی بہت اہم خطوط بھی شائع ہو جاتے تھے لیکن اب مدیر کی توجہ ’وفیات‘کے شعبے پر مرتکز ہو گئی تھی۔ اس عنوان کے تحت معروف اہل علم حضرات کی وفات پر ایک تعزیتی مضمون تحریر کیا جاتا تھا۔(۱۸) ان وفیات کی ا ہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ معارف میں شائع ہونے والے تمام تعزیتی مضامین کو بڑے سائز کی۷۹۳صفحات پر مشتمل کتاب کی صورت میں شائع کر دیا گیاہے۔(۱۹)


نیاز فتح پوری نے ’نگار‘ کوایک علمی ،تحقیقی اور روشن خیالی کو فروغ دینے والا مجلہ بنانے میں بڑا اہم کردار کیا۔ اس رسالے میں ’باب المراسلۃ والمناظرہ‘،’ باب الاستفسار‘ اور ’ استفسارات ‘کے عنوانات کے تحت قارئین کے خطوط شائع ہوا کرتے تھے۔ان خطوط کا زیادہ تر تعلق ،تاریخ، مذہب،تہذیب ،ثقافت، علم،ادب اور تحقیق سے ہوا کرتا تھا۔مکتوب نویس ، رسالہ’ نگار‘ میں شائع شدہ مضامین سے متعلق استفسارات ،استدراک یا تسامحات کی نشان دہی کیا کرتے اور کبھی خود کو درپیش علمی، تحقیقی مسائل سے متعلق سوالات لکھ کر ’نگار‘ کے مدیر کو بھیجا کرتے تھے۔ مدیر’ِ نگار‘نیاز فتح پوری ان کے مفصل علمی جواب اس رسالے میں تحریر کیا کرتے تھے۔(۲۰)

رسالہ ’ندیم‘ گیا (۱۹۴۹ء۔۱۹۳۱ء) میںبھی مشاہیر کے خطوط شائع ہوا کرتے تھے۔ اس رسالے میں اشاعت شدہ خطوط ’مکتوبات مشاہیر‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں ۔ اس کتاب میں علامہ اقبال، ابوالکلام آزاد۔ فراق گورکھپوری، اکبر الہ آبادی، امداد امام اثر، محمد علی جوہر ،شوکت علی جوہر، سیدسلیمان ندوی، پنڈت موتی لعل نہرو ،فضل حق وغیرہ جیسے مشاہیر کے خطوط شامل ہیں۔(۲۱)


’ہماری زبان ‘ نئی دہلی میں بھی خطوط کی اشاعت کا اہتمام کیا جاتا تھا۔اس رسالے میں بالعموم ایک صفحہ خطوط کے لیے ’مراسلات‘ کے عنوان سے شائع ہوتا تھا۔جس میں ملک کے طول و عرض سے اہل علم کے خطوط شائع ہوتے تھے۔اس صفحے میں رسالے میں شائع ہونے والے کسی مضمون سے متعلق مکتوب نگار کی رائے درج ہوتی تھی۔سندی مقالے کی تحقیق کرنے والے طالب علم موضوع سے متعلق پیش آمدہ مسائل لکھ بھیجا کرتے تھے،کسی شعر یا غزل کے خالق کے بارے میں معلومات یا انتساب سے متعلق معلومات درکار ہوتی تھیں۔ بہت سے حقائق اور تسامحات کی نشان دہی کی جاتی تھی۔ ۱۹۶۹ء میں غالب کی صد سالہ برسی پر ’دیوان غالب نسخہ امروہہ‘ شائع ہوا تو اس رسالے میں اس دیوان سے متعلق کثیر تعداد میں اہل علم و ادب کے علمی و تحقیقی خطوط شائع ہوئے۔(۲۲)

۱۹۵۸ء میں ترقی اردو بورڈ کا قیام عمل میں آیا تو اس کے دو سال بعد ۱۹۶۰ء میں ’اردو نامہ‘ کے نام سے ایک تحقیقی مجلہ جاری کیا گیا ۔ جس میں ایک طرف تحقیقی مقالات شائع کیے جاتے تھے تو دوسری طرف لغت اور زبان سے متعلق اہل علم کی آرا ء بھی طلب کی جاتی تھیں۔ثانی الذکر کے حوالے سے مدیرِ مجلہ کے نام بیسیوں خطوط موصول ہوئے ۔ (۲۳) اس مجلے میں اثر لکھنوی، افسر میرٹھی، اکبر علی خان، آمنہ خاتون، تحسین سروری، رشید حسن خان، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹر سہیل بخاری، صفدر آہ، عبدالماجد دریابادی،قاضی عبدالودود، عرش ملسیانی، قدرت نقوی، نصیر الدین ہاشمی، ہارون خان شروانی، وغیرہ جیسی شخصیات کے علمی اور تحقیقی نوعیت کے حامل خطوط شائع ہوئے۔(۲۴)

ان کے علاوہ کثیر تعداد میں ایسے رسائل وجرائد بھی شائع ہوتے رہے ہیں جن میں خطوط کی اشاعت کا اہتمام کیا گیا ۔ہندوستان کے رسائل و جرائد میں’شب خون‘ (الہ آباد)، ماہنامہ’ سہیل (گیا)، ’ہماری آواز‘( بدایوں)،’ آج کل‘( دہلی)،’ ایوان اردو‘( دہلی )، ’ فکر و تحقیق‘

( دہلی)،’ کتاب نما‘( دہلی)، ’شاعر ‘،(بمبئی)، ’اردو بک ریو (دہلی)،’ اردو دنیا‘(دہلی)، ’ مباحثہ‘ (پٹنہ)، ’ شان ہند‘( دہلی)، اہمیت کے حامل ہیں اور پاکستان کے رسائل و جرائد میں ،’ فنون‘ (لاہور)،’اوراق‘(سرگودھا)،’ سیارہ‘( لاہور)،’مجلہ بدایوں‘( کراچی)، ’چہار سو‘ ، (راولپنڈی)، ’طلوع افکار‘(کراچی)،’ روشنائی‘، (کراچی)،’ آئندہ‘( کراچی)،’ مکالمہ‘ (کراچی) ،’ دنیا زاد‘ (کراچی)،’افکار‘(کراچی)،’مخزن‘(لاہور)، ’الاقربا‘(اسلام آباد)،اور’نئی عبارت‘( حیدرآباد) نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔


اردو میں نعتیہ صحافت کا بھی ایک گراں قدر ذخیرہ موجودہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں کثیر تعداد میں نعتیہ ماہنامے اور کتابی سلسلے جاری ہوئے ۔ نعتیہ ماہناموں میں ’ نوائے نعت‘ (کراچی)نعت ‘( لاہور) حمدونعت‘(کراچی) کاروانِ نعت‘ (لاہور) اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی طرح کتابی سلسلوں میں 'گل چیدہ ‘(لاہور)’، ایوانِ نعت‘ (لاہور) سفیر نعت‘(کراچی) دنیائے نعت‘( کراچی) راہِ نجات‘(کراچی) عقیدت‘ (سرگودھا) ’ نعت نیوز‘( کراچی)، ’ خوشبوئے نعت‘(سرگودھا) مدحت ‘( لاہور)، سہ ماہی ’فروغِ نعت ‘ (اٹک) ، ’ارمغان ِ حمد‘ (کراچی) کے علاوہ ہندوستان کے رسائل میں ’جہانِ نعت‘ اور ’دبستان نعت‘ نے بھی نعت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ اخبارات کے ساتھ ساتھ رسائل و جرائد میں بھی نعت کے گوشے اور خاص نمبر شائع ہوئے(۲۵) لیکن ان تمام رسائل و جرائد میں خواہ وہ نعت سے متعلق ہوں یا دیگر ادبی موضوعات و اصناف سے متعلق ، ان میں نعت سے متعلق خطوط شائع تو ہوئے لیکن کسی میں بھی تواتر اور سنجیدگی سے نعت کو موضوعِ بحث نہیں بنایا گیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے بیشتر خطوط کی نوعیت محض رسمی اور رسیدی ہی رہی۔البتہ کسی کسی شمارے میں ایسے خطوط ضرور دیکھنے میں آتے ہیں جن میں نعت پر ادبی ،فکری اور فنی حوالوں سے اظہارِ خیال کیا گیا ہے مگر ان کی حیثیت راکھ میں دبی ہوئی چنگاریوں کی طرح رہی ہے۔یہ چنگاریاںقارئین کے لیے مستقل حرارت یا روشنی کا سامان فراہم نہ کرسکیں۔نعتیہ صحافت میں دبی ہوئی ان چنگاریوں کا مقدر راکھ ہی میں دفن ہو جانا تھا لیکن خوش قسمتی سے انھیں ’نعت رنگ ‘ کی صورت میں ایسا آتش دان میسر آگیاجس نے ان چنگاریوں کوبجھنے نہیں دیا۔مدیر نعت رنگ نے راکھ میں دبی ہوئی ان چنگاریوں کو جستہ جستہ تلاش کر کے ’ نعت رنگ‘ کی فضا میں پروان چڑھا یا اوراب یہ چنگاریاں ایساالاؤ بن چکی ہیں جس نے نعت کے گرد لپٹی ہوئی اندھی عقیدت کے خارو خس کوخاکستر بنا دیا ہے۔ آج صنفِ نعت ’نعت رنگ‘ کی بھٹی میں تپ کر ایسا کندن بن کر سامنے آرہی ہے جو تحقیق و تنقید کے بازار میں اپنی مضبوط ساکھ بھی قائم کر چکی ہے اور اعتبار کے معتبر حوالے بھی ۔یہ مدیر ’نعت رنگ‘ کے اُس خواب کی تعبیر بھی ہے جسے انھوں نے اس مجلے کو جاری کرنے سے پہلے دیکھا تھا۔


’نعت رنگ ‘ میں کئی طرح کے خطوط شائع ہوئے ۔ان میں کچھ محض رسمی اور رسیدی نوعیت کے ہیں ،کچھ شکوہ آمیز اورکچھ تعارفی نوعیت کے حامل اور کچھ مکتوب نگار کی شخصیت کی گرہ کشائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کثیر تعداد ان خطوط کی ہے جو علمی، ادبی، مذہبی، تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کے حامل ہیں۔ یہی خطوط ’نعت رنگ‘ کا حاصل کہے جاسکتے ہیں۔ ان خطوط میں علم و دانش اور تحقیق و تنقید کے بے شمار خزف ریزے بکھرے پڑے ہیں۔ جن میں سے بعض تو علمی ،تنقیدی اور تحقیقی حوالے سے خاصے کی چیز ہیں۔یہ خزف ریزے بعض اوقات توموضوع کے کسی پہلو کے ضمن میں آگئے ہیں اور اکثر ’نعت رنگ‘ میں شائع شدہ مقالات کی تصحیح ،توسیع یاتردید کی غرض سے تحریر کیے گئے ہیں۔ ان خطوط میں تنقید ِ نعت ، تحقیق ِ نعت، تخلیق ِنعت اور متعلقات ِنعت کو بطورِ خاص موضوع بنایا گیا ہے۔ ا فکار ونظریات کا ایک بہاؤ ہے جومکتوب نگاروں کے ذہنی سرچشموں سے پھوٹتا ہوا ’نعت رنگ‘ کو سیراب کر رہا ہے ۔ تحقیقات کا ایک گراں قدر سرمایہ ہے جو قارئین پر لٹایا جارہا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ زبان و بیان اوراظہار کے خوبصورت پیرایے قارئین کے ذوق جمال کی آبیاری بھی کر رہے ہیں اور اس طرح تحقیق و تنقید کا ذخیرہ اپنے تخلیقی آب و رنگ کے ساتھ ’نعت رنگ‘ کے صفحات میں جلوہ گر ہوا ہے۔ان خطوط میں نظری مباحث بھی ہیں اورتحقیق و تنقیدِ نعت کی عملی مثالیں بھی، ذاتی مشاہدات کا بیان بھی ہے اور باطنی واردات کا اظہار بھی،علمی نکات بھی زیرِ بحث آئے ہیں اور تحقیقی تسامحات کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ نعت گو شعرا کے احوال و آثار بھی موجود ہیں اورتخلیقی رویوں پر جچی تلی آرا ء بھی۔ شخصیات کی آب بیتیوں کے نقوش بھی موجود ہیں اور جلے کٹے خیالات بھی ۔ غرض یہ کہ خطوط کے مختلف موضوعات اور پہلوؤں کی یہ کہکشاں اپنے اندر ایک الگ کائنات رکھتی ہے۔ ان خطوط کی مطالعاتی / انتقادی افادیت سے کسی بھی طور انکار ممکن نہیں۔ان خطوط میں ایک طرف زندگی کے مختلف نقوش اور مظاہر اپنے جلوے دکھا رہے ہیںتو دوسری طرف علم، ادب، تاریخ ،تہذیب، تحقیق اور تنقید کے سرمائے بھی لٹائے جارہے ہیں۔

’نعت رنگ‘ میں جن شخصیات کے خطوط شائع کیے گئے ہیں ،ان کا تعلق کسی مخصوص خطے،علاقے یا جغرافیے سے نہیںاور خوش آیند بات یہ ہے کہ اس میں کسی ایک مسلک ، برادری، نسل یا گروہ کو اپنے خطوط چھپوانے کی اجارہ داری حاصل نہیں بلکہ یہ مجلہ ہر زبان ، ہر علاقے اور ہر مکتبہ ء فکرکے دانشوروں کوفراخ دل اور کھلے ہاتھوں خوش آمدید کہہ کراظہار خیال کایکساں موقع فراہم کرتا ہے ۔اس حوالے سے مدیر نعت رنگ کا بیان ملاحظہ فرمائیے:

’’ نعت رنگ ‘ کے اجرا کے وقت سے لے کر آج تک میں نے ’نعت رنگ‘ کو کسی مخصوص نقطہء نظر کے نمائندہ رسالے کے مروجہ اصول و ضوابط کا پابند نہیں رکھا۔ اس کا سبب صرف ایک تھا اور وہ یہ کہ اس انداز اور مزاج کے حامل نعت پر کئی جریدے شائع ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ میںنے ہمیشہ ’نعت رنگ‘ کو ایک ایسی محفل بنانے کی کوشش کی ہے جہاں مختلف الخیال احباب اپنے اپنے مکتب فکرو اندازِ نظر کے ساتھ شریک ہو کر ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فکری، مذہبی ،ادبی اور فنی پہلوؤں پر گفتگو کر سکیں،یہی نہیں بلکہ ادب کا عام مگر باشعور قاری بھی اس گفتگو میں اسی اہمیت کے ساتھ اپنی رائے کااظہار کر سکے جس کا حق ہم صرف لکھنے والوں کو دیتے رہے ہیں۔ایک ایسے فورم پر جہاں اظہارِ رائے کی آزادی ہو وہاں مباحث کا دائرہ صرف فکری، ادبی اور فنی نہیں رہتا بلکہ کہیں کہیں اور کبھی کبھی مسلکی اور فقہی بھی ہو جاتا ہے۔میرے خیال میں ایسا ہونا کوئی بری بات نہیں ہے کہ یہ چیزیں بھی ہمارے لیے معنی رکھتی ہیں اور ہم اپنے نظریات کو اسی روشنی میں واضح کرتے ہیں۔میں پہلے بھی کہہ چکا ہوںکہ اختلافِ رائے بری چیز نہیںمگر شائستگی ضروری ہے۔ ہمارے بیشتر لکھنے والے اس کا خیال رکھتے ہیں مگر کچھ احباب اپنی تحریروں پر اٹھنے والے سوالات سے خاصی حد تک آزردہ نظر آتے ہیں ۔میری ان سے درخواست ہے کہ ’نعت رنگ‘ کے معماروں میں ان عظیم ناموں کو دیکھیں جو ادب و مذہب کے اہم نام ہیں لیکن انھوں نے نعت پر بے لاگ گفتگو کے دروا کرنے کے لیے اپنی تحریروں پر اعتراضات اور سوالات کشادہ دلی سے برداشت کیے اور مسلسل ’نعت رنگ‘ میںلکھتے رہے کہ ہم سب نعت پر ایسی تنقیدی گفتگو کو فروغ دینا چاہتے تھے جس پر کسی قسم کی مصلحت اور فرقہ بندی کا سایہ نہ ہو۔‘‘(۲۶)


’نعت رنگ‘ کسی منجمد ذہن کی پیداوار نہیں ۔ اس کی تشکیل اور آبیاری میں ہر رنگ ،ہر نسل،ہر علاقے، ہر برادری اور ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے روشن خیال دانشوروں نے حصہ لیا ہے گویا اس کی رگوں میں ایک زندہ اور توانا خون دوڑ رہا ہے۔ اگر یہ مجلہ کسی خاص مسلک یا نقطہء نظر کا ترجمان بن کر ابھرتا تو اس کے فکری اور تخلیقی سوتے کبھی کے خشک اور منجمد ہوچکے ہوتے اور یہ مجلہ دیگر نعتیہ رسائل کی طرح وقت سے پہلے پردہء غیب میں چھُپ جاتایامحض رینگتے ہوئے اپنے وجود کا یقین دلاتا۔ چونکہ اس کی رگوں میں نئے اور متنوع خیالات کا خون دوڑ رہا ہے اس لیے یہ مجلہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔(۲۷)


اس کتابی سلسلے میں اشاعت کی غرض سے آنے والے ہر خط کو بغیر کسی قطع برید کے شایع کر دیا جاتا ہے گویا یہ مدیر کی اپنے حق ِ ادارت سے دستبرداری کا بھی واضح اعلان ہے۔ مدیر’ نعت رنگ‘ کے اس طرزِعمل کو بعض احباب نے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور بعض نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے اس عمل کو پسند تو کیا لیکن بعض تحفظات کے ساتھ ۔ مخالفت کا سلسلہ بڑھتے بڑھتے اس نہج تک پہنچ گیا کہ انھیں ہمسایہ ملک کا ایجنٹ کہنے میں بھی کوئی خفت محسوس نہ کی گئی۔ (۲۸)دلچسپ بات یہ ہے کہ مخالفین کے الزامات اور اعتراضات، مدیر کے ارادوں میں رکاوٹ بننے کی بجائے مہمیز کا کام دینے لگے۔ مخالفین کے منفی طرز عمل کے باعث تنقیدِ نعت کا یہ سلسلہ سُست روی کا شکار ہوسکتا تھا لیکن خلاف توقع اس کی رفتار تیز تر ہوتی چلی گئی اور یہ مجلہ آئے دن نئے نئے خیالات کی پرورش کی آماج گاہ بن گیا۔ دنیا بھر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکار نعت کے حوالے سے جو کچھ سوچ رہے تھے،ان کے خیالات،جذبات ،افکار ، نظریات اور نقطہ ہائے نظر ان خطوط کے ذریعے قارئین تک پہنچنے لگے۔


نعت کے حوالے سے سوچنے والے اذہان کے خلوص کی سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔(۲۹)ہر شخص کا اپنا نقطہ ء نظر ہوتا ہے اور اس کے اظہار میں وہ آزاد بھی ہے۔ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو آزادی رائے کے سب سے بڑے علم بردار بن کر سامنے آئے ہیں چنانچہ ’نعت رنگ‘ نے ہر صاحب ِ علم کو نعت کے حوالے سے اپنا نقطہء نظر پیش کرنے کی آزادی دے کر سردو گرم مباحث کا دروازہ کھول دیا۔’نعت رنگ‘ کی کھڑکیوں سے کبھی خنک اور یخ بستہ ہوائیں اور کبھی گرم اور جھلسادینے والی لوویں ابھرتی رہیں ۔انھی ہواؤں کے ملاپ سے تنقید ِ نعت کا ایسا متوازن ماحول تشکیل پایا جس میں نعت پر سوچنا اور لکھنا معیوب اور ناپسندیدہ نہ رہا۔اختلافی اور نزاعی موضوعات پر کھل کر مباحث کا سلسلہ شروع ہوا۔ ابتدا میں ادبی موضوعات پرپیش کیے جانے والے اختلافی خیالات تو قارئین کے لیے قابلِ قبول تھے لیکن نزاعی مباحث تخریبی رخ اختیار کر سکتے تھے لیکن مدیر ’نعت رنگ‘ کی دانشمندی سے ان مباحث کا رخ تعمیری ہی رہا۔چونکہ مدیر ’نعت رنگ‘ کا بنیادی مقصد فقط گیسوئے نعت کی آرائش اورتخلیقِ نعت کا فروغ رہا، اس لیے دنیا بھر سے نعت کے حوالے سے علمی مباحث ،دلائل و براہین اور نکات سے مملوخطوط اتنی کثیر تعداد میں مدیر ’نعت رنگ‘ کو موصول ہوئے جوپچھلی دو صدیوں پر محیط صحافتی اور ادبی تاریخ میں کسی رسالے یا جریدے کوشاید ہی موصول ہوئے ہوں ۔’نعت رنگ ‘ کو موصول ہونے والے خطوط میں جن موضوعات پراظہار خیال کیا گیا ہے اور نعت کے حوالے سے جو نکات اٹھائے گئے ہیں،ان سے معلومات کے صدہا در ہی وا نہیں ہوئے ،تحقیق کے نئے نئے جزیروں کی دریافت اور تنقید کی نئی شاہراؤں کی نشان دہی بھی ہوئی ہے۔


اگرچہ ’نعت رنگ‘ سے پہلے جاری ہونے والے رسائل میں بھی مضامین شائع ہوتے تھے لیکن ان کی نوعیت تنقیدی و تحقیقی سے زیادہ تقریظی،تعارفی اور تاثراتی دائروںمیں گھوم رہی تھی نیز یہ کہ رسائل کا غالب رجحان تخلیق ِ نعت کی اشاعت اور فروغ تک محدود ہوتا تھا۔(۳۰)مدیر ’نعت رنگ ‘ نے اس مجلے کو صرف تخلیق ِ نعت کے فروغ تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس میں تحقیق و تنقید کوزیادہ جگہ دے کر اس امر کابالواسطہ اعلان بھی کردیا کہ اب تخلیق ِ نعت کی سمت کاتعین ا و رہنمائی کا کردارنقاد اور محقق ادا کریں گے ۔ چنانچہ ’نعت رنگ ‘ کے لیے دنیا بھر سے معروف اور غیر معروف محققین اور ناقدین سے نعت کے مختلف پہلوؤں پر مقالات تحریر کر وائے گئے اور اس کے ساتھ ہی ان مقالات کے موضوعات اور تخلیق ِ نعت پر اہل ِ قلم سے خطوط کے ذریعے آراء بھی طلب کی گئیں۔’نعت رنگ‘ کو موصول ہونے والے خطوط کو من و عن شائع کردیاجاتا تھا اورساتھ ہی قارئین سے التماس بھی کی جاتی تھی کہ وہ ان خطوط کو دل جوئیوں کے موسم میں تحریر کرنے کی بجائے تحقیق و تنقید کی گرم اور مرطوب آب و ہوا میں بارآور کریں۔’نعت رنگ ‘ کے ابتدائی شماروں میں شائع ہونے والے تعریفی ،تقریظی،رسمی اور رسیدی نوعیت کے خطوط رفتہ رفتہ خالص علمی ،تحقیقی اور تنقیدی حیثیت اختیار کر گئے۔چنانچہ اب صورت حال یہ ہے کہ ’نعت رنگ‘ میں شائع ہونے والے خطوط میں تحقیقی و تنقیدی مباحث کا سلسلہ قدیم نظریات سے قدم آگے بڑھ کر جدید نظریات کا احاطہ بھی کرنے لگے ہیں۔چنانچہ اردو تنقید جن راہوں سے آج آشنا ہورہی ہے ،وہی راہیں اب نعت سے بھی ہم کلام ہونے لگی ہیں۔یہ کام آسان نہ تھا،اس خواب کو تعبیر دینے کے لیے جو جذبہ،محنت اور لگن درکار تھا اب وہ ’نعت رنگ‘ کو میسر آگیا۔


مدیر ’نعت رنگ‘ کے ذہن میں نعت کے مستقبل کا جو منظرنامہ تشکیل پارہا تھا اس کو بروئے کار لانے کے لیے انھوں نے ’نعت رنگ‘ کے اداریوں کا انتخاب کیا۔ان اداریوں میں انھوں نے نعت کے نئے نئے موضوعات کی نشان دہی کی،نعت کے متنوع امکانات کی طرف اشارے کیے، تنقید نعت کے حوالے سے نئے اور قدیم نظریات کو برتنے کا مشورہ دیااور تنقید کے جملہ دبستانوں سے اکتسابِ شعور کی طرف توجہ دلائی۔ نعت کو محض تقدیس کے دائرے سے باہر نکال کر بطور ایک ادبی صنف کے پرکھنے اور برتنے کا مشورہ دیااور نعت کو رسمی، تاثراتی اور تعارفی تنقید کی صف سے نکال کر سائنٹفک ، جدید اصولوں سے آراستہ اور ٹھوس بنیادوں پر پرکھنے اور برتنے کا مشورہ دیا۔اس حوالے سے مدیر نعت رنگ کے اداریے سے ماخوذذیل کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

’’۔۔۔دنیا کی مختلف زندہ زبانوں میں تخلیق کیے جانے والے شاعری کے شہ پاروں اور ان پر تنقید کا تقابلی مطالعہ ہی اس بات کے جواب کا تعین کرسکتا ہے اور یہ صر ف اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب ہم نعتیہ شاعری اور اس سے متعلق تنقیدی مواد کو بین الاقوامی سطح پر رائج تخلیقی اقدار اور معیاروں کے تناظر میں متعارف کروائیں ۔ عالم گیریت (Globalization) کے موجودہ رجحان کے پھیلاؤ کے پیش ِنظر یہ بات بھی قابل توجہ اور ضروری محسوس ہوتی ہے کہ حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس اور آپ کی نبوت و رسالت کی ہمہ گیریت ،جامعیت اور عالم گیریت کو عالمی سطح پر ان کی حقیقی جہتوں کے عین مطابق متعارف کرواتے ؟فروغ دیا جائے۔یہ ہمارا دینی فریضہ بھی اور ادبی منصب بھی۔ ۔۔نعت رنگ‘ کے انیسویں شمارے کی اشاعت پر میں یہ احساسِ ذمہ داری آپ تک منتقل کرنا چاہتاہوں کہ ہم نے نعت کے ادبی فروغ کا جو سفر شروع کیا ہے وہ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ ابھی ہمیں نعتیہ ادب کو اس کی تمام ترجہتوں کے تناظر میں تنقید کے اعلیٰ ترین معیاروں کے مطابق متعارف کروانا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ دورِ حاضر میں مذہبی انتہا پسندی کے رجحان کے پیشِ نظر نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو حقیقی تنوع کے ساتھ۔۔۔ مسلمانوں کی عقیدت ،محبت اور وابستگی کے حوالے سے عالمی ادب کی شعری اصناف مثلاً Epic اور Ode وغیرہ کی وساطت سے روشناس کرانے کی منزل بھی سرکرنی ہے اور منزل کو سرکرنے کے لیے ہمیں ضرورت ہے ایک ایسے ادارے اور پلیٹ فارم کی جو عالمی سطح پر اپنی شناخت اور دائرہ عمل رکھتا ہو۔ ‘‘(۳۱)


مدیر ’نعت رنگ ‘ کے ان خیالات کا نتیجہ یہ نکلا کہ نعت جو دو دہائیوں قبل تک تقدیسی دائرے اور عقیدت کے سائے میں پروان چڑھ رہی تھی اورمحض سننے سنانے کی چیز بن کر محافل میلاد تک محدودہوکر رہ گئی تھی اب وہ اس مخصوص دائرے سے نکل کر علم و ادب اور تحقیق و تنقید کی انجمن میں آبیٹھی ۔


ادب کی تفہیم کی سینکڑوں سالہ روایت پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالیے، ہر عہد اور ہر دور میں ادب کو پرکھنے کا ایک علیحدہ اور مخصوص معیار ہی رائج رہا۔جیسے ہی زمانے نے کروٹیں بدلیں ،ادب کو پرکھنے کے معیار نے بھی نیا رخ اختیار کر لیا۔ادب کو پرکھنے کا ہر طریقہ ادب کی کسی ایک جہت کی تفہیم یا ایک نکتے کی عقدہ کشائی میں مددگار کے طور پر سامنے آیا۔ ان طریقوں کو دبستان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان دبستانوں میں جمالیاتی دبستانِ تنقید، تاثراتی دبستانِ تنقید، عمرانی دبستانِ تنقید، مارکسی دبستانِ تنقید،ساختیاتی دبستانِ تنقید،وغیرہ وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔یہ تمام دبستان تنقید ادب کی تفہیم کے لیے کوئی ایک ہی مخصوص طریقہ یا انداز استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان تمام دبستانوں کے تفہیمی طریق کار سے ادب کی یک رخی تصویر ہی سامنے آتی ہے۔ادب کثیر الجہت اور کثیر المعنویت کا حامل ہوتا ہے۔ متذ کرہ دبستانوں میں سے کوئی دبستان بھی، ادب کی تمام جہات اور امکانات کا سراغ لگانے یا سامنے لانے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔اس لیے نعتیہ ادب کی تنقید کے لیے کسی ایک دبستان تنقید کا استعمال کلی طور پر سود مند نہیں ہو سکتا۔نعت کے تجزیہ و تفہیم میں کسی ایک ہی دبستان تنقید کا استعمال ایسا ہی ہو گا جیسے مختلف النوع اشیاکو ایک ہی میزان پر تولاجائے۔ایسا طرز عمل کسی بے شعور یا کم شعور سے تو کیا جاسکتا ہے لیکن سنجیدہ نقاد سے اس طرح کے طرز عمل کی توقع ہرکزنہیں کی جاسکتی۔ ہر سنجیدہ نقاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ نعت کی تفہیم ، تعبیر اور تشریح کسی متعینہ فارمولے کے تحت نہ کرے بلکہ نعت کے موضوع، ہئیت ،تکنیک اور اسلوب کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنا الگ تنقیدی پیٹرن وضع کرے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ نعت کی تفہیم وتنقید کسی لگے بندھے اصولوں کے تحت کرنے کی بجائے قدیم و جدید اصول و ضوابط اورافکارو نظریات سے کشید کیے ہوئے معیارات کی روشنی میں کی جائے ۔یہی نقطہ ء نظر مدیر’ نعت رنگ ‘کا بھی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ نعت کی تنقید کو جملہ دبستانوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اس کے لیے انھوں نے ’انتخابی تنقید‘ کی اصطلاح وضع کی ہے جس میں وزیر آغاکی امتزاجی تنقید کی بازگشت سنی جاسکتی ہے۔ انتخابی تنقید کی وضاحت کرتے ہوئے مدیر نعت رنگ لکھتے ہیں:


’’ میرا مؤقف یہ ہے کہ نعت کا مطالعہ انتخابی تنقید کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے ۔ انتخابی تنقید سے میری مراد یہ ہے کہ تنقید کے تمام دبستانوں کے اصولوں کی روشنی میں نعت کا مطالعہ کیا جائے ۔ تاریخی دبستانِ تنقید سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ کن حالات اور کن ادوار میں لوگ نعت کی طرف متوجہ ہوئے یا ہوتے ہیں ۔نفسیاتی دبستان تنقید کے ذریعے ان رموز کی عقدہ کشائی ہو سکتی ہے کہ شاعروں کی روحانی، ذہنی اور نفسیاتی کشاد میں نعت نے کتنا اور کس طرح حصہ لیا۔ نعت سے کس طرح شاعروں کا کیتھارسس ہوا ہے اور کس طرح نعت نے معاشرے کو پاکیزہ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ،کیوں کہ اعلیٰ درجے کی نعت بلند تر اقدارِ حیات کے بغیر نہیں لکھی جاسکتی اور اقدار ہی کی بنیاد پر انسانی معاشرے کی سمت نمائی ہوتی ہے۔ نعت کے مطالعے کے لیے اسلام کا مطالعہ بھی لازمی ہے تاکہ منصب رسالت سے آگاہی حاصل ہو سکے اور نعت محض رسمی عقائد تک محدود نہ رہے کیوں کہ سرکار کی سیرت کا ذکر نظم میں ہو یا نثر میں انسان کی تعمیر کرتاہے۔ ‘‘ (۳۲)


اہلِ علم کاایک خاص طبقہ ایسا بھی ہے جو مقالے کے معیار او راستناد کو تحقیقی مقالے کی تسوید میں بروئے کار لائے گئے حوالو ں اور مآخذ سے پہچانتے ہیں لہٰذا وہ تحقیقی مقالے یا کتاب کو پڑھنے کا آغاز اس کے آخر (الٹی طرف) سے کرتے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ مقالہ یا کتاب کی تسوید میں برتے گئے مآخذ معیاری بھی ہیں یا نہیں۔ اسی طرح ادبی مجلے کے معیار کو پرکھنے کا ایک طریقہ اس میں شائع ہونے والے خطوط کے مواد ،آراء اور مکتوب نگاروں کے مراتب سے لگایا جاتا ہے کیونکہ اس طرح اس ادبی مجلے کے تحقیقی و تنقیدی معیارکا پتا چلتا ہے ۔معاصر عہد کے ادبی رجحانات سے پردہ اٹھتا ہے اور اس مجلے کے قارئین کی ادبی قدوقامت کا بھی اندازہ لگانے میں آسانی رہتی ہے ۔ قارئین کے لیے شاید یہ بات حیران کن ہو کہ ’نعت رنگ‘ کا سب سے دلچسپ اور سب سے زیادہ پڑھا جانے والا حصہ اہل قلم کے مکاتیب کا ہے۔ ’نعت رنگ‘ کے قارئین ان مکاتیب کا شدت سے انتظار کرتے ہیں اور ’نعت رنگ‘ کے حصول کے بعد پہلی فرصت میں ان کا مطالعہ بھی کرتے ہیں۔ یہ مکاتیب ’نعت رنگ‘ کے مشمولات کا معیار متعین کرتے ہیں۔ ‘’نعت رنگ‘ میں راہ پا جانے والی خامیوں کی نشان دہی کرتے ہیں،قارئین کے رجحانات اور رویوں کو سامنے لاتے ہیںاور قارئین کی دلچسپی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔


صبیح رحمانی نے ’نعت رنگ‘ کی عمارت کی بنیاد اٹھائی تو اس کی پہلی اینٹ ہی تنقید ِ نعت کی رکھی۔(۳۳)ان کا یہ اجتہادی اقدام اس زمانے میں سامنے آیا جب تنقید ِ نعت ،عقیدت کے سائے میں پرورش پارہی تھی اور سبحان اللہ ، ماشاء اللہ سے قدم آگے بڑھا نہیں پا رہی تھی۔نعت کو درپیش اس بحرانی دور میں انھوں نے تنقید ِ نعت کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا اور پہلے شمارے ہی میں تنقید ِ نعت کی نظری اور عملی مثالیں (مضامین کی صورت میں ) پیش کر کے نعتیہ صحافت اور تنقید کو حیران کر دیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب نعت کو رسمی اور روایتی حصار سے نکال کر ادبی،فکری اور فنی تنقید کی کسوٹی پر پرکھا گیااور نعتیہ ادب میں توانا رجحانات کے فروغ ، صحت مند روایات کی ترویج، اور موضوع کی تقدیس کے خدو خال اجاگر کرنے میں تنقید ِ نعت کو ناگزیر قرار دیا گیا تھا۔(۳۴)ان کا یہ انقلابی اقدام گویا اس عہد کے مروجہ اسالیب ِ تنقید ِ نعت سے بغاوت کے مترادف تھا۔نتیجتاً کم علم تو ایک طرف اہلِ علم کا بھی ایک بڑا طبقہ ان کی مخالفت پر اتر آیااور اپنے خطوط اور مضامین کے ذریعے ان کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتا رہا اور ناامید ہو کر اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑتا رہا۔ مدیر کو موصول ہونے والے خطوط کے مندرجات اوران کے اسلوب کی نوعیت سرسید کو ’تہذیب الاخلاق‘ کے اجرا کے بعد موصول ہونے والے خطوط سے قدرے مختلف نہ تھی۔جس طرح سرسید کو ’تہذیب الاخلاق‘ کی اشاعت کے بعد مخالفتوں کے طوفان کا سامنا کرنا پڑااور معاصرین کے تیز و تند حملوں کو برداشت کرنا پڑا بعینہ ’نعت رنگ‘ اور مدیر ’نعت رنگ ‘کو رد عمل کا سامنا رہا۔


سرسید اور صبیح رحمانی دونوں نے ایسے معاملات اور موضوعات کا انتخاب کیا تھا جو ہمارے معاشرے میں شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ موضوعات سرسید کے عہد میں بھی حساس نوعیت کے حامل تھے اور پونے دو صدیاں گزرنے کے بعدبھی ان کی حساسیت میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ سرسید اور صبیح رحمانی دونوں کے نزدیک یہ موضوعات اہم بھی تھے اور وقت کی ضرورت بھی۔سرسید احمد خان کا رویہ چونکہ جارحانہ تھا اس لیے ان کے خلاف مخالفت کا زور بڑھتا گیا اور آخر کار انھیں ’تہذیب الاخلاق‘ کی بساط کو لپیٹنا ہی پڑا۔ (۳۵) صبیح رحمانی نے نعت جیسے حساس موضوع کی اصلاح کے عمل کو بہ اندازِ دیگر لیا۔اس لیے انھیں سرسید کی طرح شدید مخالفت کا سامنا کرنا تو نہیں پڑا لیکن مشکلات سے نبرد آزما ہونا ضرور پڑا۔دوسری وجہ یہ تھی کہ سرسید چونکہ حساس نوعیت کے موضوعات میں فریق کا کردار ادا کرتے تھے اس لیے مخالفت کے تمام وار انھوں نے اپنے سینے پر سہے جب کہ صبیح رحمانی نے ممنوعہ موضوعات کا دھارا اہل علم ودانش کی جانب موڑ دیا۔دو طرفہ مباحث اور معرکوں کا ’میدانِ کارزار ’نعت رنگ ‘کے صفحات پر رونما ہو ا ۔یہ معرکے کبھی شعبہء مراسلات میں اورکبھی تحقیقی و تنقیدی مضامین کے حصے میںظہور میں آئے۔ لہٰذا مخالفت کا جو طوفان ان کے خلاف اٹھنا تھا وہ طوفان اٹھاتو ضرور لیکن ان کے خلاف نہیں بلکہ مقالہ نگاروں اور مکتوب نگاروں کے درمیان قلمی اور ادبی معرکوں کی صورت میں ظہور میں آیا۔ جس کاسامنا بالواسطہ طور پرمدیر ’نعت رنگ‘ کو بھی کرنا پڑا۔طوفان کی منہ زور لہریں وقتاً فوقتاً ان سے ٹکراتی تو رہیں لیکن ان کے پائے استحکام کو متزلزل نہ کر سکیں۔ وہ ایک مضبوط اور مستحکم مینار کی طرح ساحلِ سمندر پرتنے کھڑے رہے اور اس میں اٹھنے والی لہروں کے نشیب و فراز کا بغور مشاہدہ کرتے رہے لیکن جب انھیں طوفان کے تھمنے یالہروں کے زور ٹوٹنے کا اندازہ ہونے لگتا تو سوال کا کوئی پتھر پھینک کر پھر اس میں ارتعاش پیداکردیتے۔اس طرح نعت کے حساس موضوع پر گفتگو کا سلسلہ چلتا رہااور آج یہ سلسلہ تحریک کی صورت اختیار کر گیا ہے۔


صبیح رحمانی نعت کے موضوعات پر گفتگو کرنے کے لیے ’نعت رنگ ‘ کے اداریوں کا سہارا لیتے اور اس میں فیصلہ سنانے کی بجائے سوال اٹھاتے اور سوال کا رخ قارئین کی جانب موڑ دیتے۔ اس طرح اس سوال کے حق اور مخالفت میں مضامین اور خطوط موصول ہونے کاسلسلہ شروع ہو جاتا۔وہ قارئین کے ان موصولہ دو طرفہ نقطہ ہاے نظر کے حامل مضامین اور خطوط کو ’نعت رنگ‘ میں شائع کردیتے۔اس طرح بات آگے بڑھتی اور بحث کا دائرہ وسیع تر ہوتاچلا جاتا لیکن اس سارے عمل میں ان کا کردار ایک عمل انگیز (Catalyst) کی طرح رہتا جو خود توعمل میں حصہ نہیں لیتا لیکن اس کی موجودگی عمل اور ردعمل کو تیز کرنے کا باعث ضرور بنتی ہے۔(۳۶) بعینہ ’نعت رنگ ‘ کا پلیٹ فارم تنقید ِ نعت کے دو طرفہ مباحث کو آگے بڑھانے میںممد و معاون رہا۔صبیح رحمانی نے کبھی بھی کسی مؤقف کے پلڑے میں اپنے نقطہء نظر کا وزن ڈال کر اسے جھکانے کی کوشش نہیں کی۔(۳۷) کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو ان کا جانبدارانہ رویہ مکالماتی فضا اور ماحول کو مسموم کرنے کا باعث بنتا۔نتیجتاً بحث یک طرفہ ہو کر رک جاتی اور مکالمہ آگے نہ بڑھ پاتا۔


صبیح رحمانی نے ’نعت رنگ‘کا آغاز کیا اور نعت کو تنقیدی کسوٹی پر پرکھنے کا مشورہ دیا تونعت سے دلچسپی رکھنے والا طبقہ کافی سیخ پا ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ نعت کا موضوع حساس نوعیت کا حامل ہے۔ اس لیے اس پر تحقیق وتنقیدکا بے رحم نشتر چلانا مناسب نہیں ۔ اس ماحول میں نعت کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھنے یا نہ پرکھنے کے حوالے سے تین طرح کے نقطہ ہائے نظر سامنے آئے ۔پہلا گروہ تو نعت کو سرے سے ہی تحقیقی و تنقیدی کسوٹی پر پرکھنے کا مخالف تھا۔ ان کے نزدیک نعت کا تعلق چونکہ عقیدے سے ہے اور عقید ے کو تنقید کی کسوٹی پرپرکھانہیں جاتا۔اس لیے نعت کی تنقید غیر ضروری اور نامناسب ہے۔اس گروہ کا خیال تھا کہ نعت پر تنقید کا باب کھولنے سے صنف ِ نعت کو ہی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں بلکہ اس کے پردے میں صاحبِ نعت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کاپہلو بھی مضمر ہے۔(۳۸)جب کہ دوسرے گروہ کانقطہ ء نظر تھا کہ تنقیدِ نعت ضروری تو ہے لیکن ایک حساس موضوع ہونے کی بنا پرتنقید ِنعت بہت احتیاط کی متقاضی بھی ہے چنانچہ موجودہ حالات کے پیش ِ نظر احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ سازگار ماحول کے تشکیل پانے تک کا انتظار کیا جائے اور اس پر کھلے عام بحث و تمحیث سے گریز کیا جائے۔ (۳۹)جب کہ تیسرا گروہ نعت پر تنقید و تحقیق کا قائل تو تھا لیکن اس کو پرکھنے کے لیے جدید تنقیدی نظریات یا مغربی افکار کی روشنی کو جائز خیال نہیں کرتا تھا۔ان کے خیال میں نعت ایک خاص تہذیب کی پروردہ ہے اس لیے نعت کواسی خاص تہذیبی اور معاشرتی سیاق میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔اس گروہ کا مؤقف تھاکہ اگر نعت کو اس کے تہذیبی سیاق میں سمجھنے کی بجائے کسی اور سیاق یا افکار ِ نقد کی روشنی میں دیکھا جائے گا تو اس کے ساتھ سخت ادبی اور مذہبی بددیانتی ہو گی۔(۴۰)


اول الذکر دونوںگروہ کے حامل افراد کے خیالات(بلکہ کسی حد تک تیسرے گروہ کے خیالات میں بھی) میں ایک چیز مشترک نظر آتی ہے وہ ہے خوف کا عنصر۔یہ وہی عنصر ہے جس کی طرف ڈاکٹر منظور احمد نے فکر اسلامی کی تشکیلِ نو کے حوالے سے اشارہ کیا ہے۔ ڈاکٹر منظو ر احمد کا خیال ہے کہ اسلامی فکر میں جمود کا ایک سبب تو تصوف ہے جس کی نشان دہی اقبال نے اپنی شاعری اور نثر میں جابجا کی ہے اور دوسرا عنصر خاص نفسیاتی ہے اور وہ ہے خوف۔ یہ عنصر ہمارے ذہنوں میں شعوری اور غیر شعوری طور پر جاگزیں ہو گیا ہے۔یعنی اپنے تشخص کو کھو دینے ، اپنی سیادت اور بالا دستی کے ختم ہو جانے اور اپنے بکھر جانے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے کا خوف ۔(۴۱) اسی طرح کا خوف ہمارے اجتماعی لاشعور کا حصہ بن چکا تھا کہ اگر نعت کی تنقید کے دروا کیے گئے تو اسلام اور پیغمبر اسلام کے مرتبے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ پیدا ہوسکتا ہے۔(۴۲)صبیح رحمانی کا خیال تھا کہ نعت کو تنقید سے بالا تر سمجھنے اور اسے مرزا پھویا بنا کر رکھنے سے فائدے کی بجائے الٹا نقصان پہنچے گااور نقصان پہنچ بھی رہا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ تنقید ِ نعت میں حزم و احتیاط ضروری ہے لیکن حد سے بڑھا ہوا محتاط رویہ اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کا عمل غیر ضروری ہے۔ حزم و احتیاط کے تقاضوں کے زیرِ ا ثر نعت کی تنقید کے دروازے بند کر دینا کہاں کی انصاف پسندی ہے۔ ان کے خیال میں نعت کا ادبی فروغ اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب اس صنف کو تنقیدی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اور اس کے فکری اور علمی پہلوؤں پر گفتگو کا ایسا ادبی ماحول فراہم کیا جائے گا جو خوف و ہراس اور اندیشوں کی فضا سے معمور نہ ہو۔(۴۳ )مزید یہ کہ نعت کی تنقید نہ رسمی ہو نہ تعارفی اور نہ ہی تاثراتی بلکہ علمی اور سائنٹفک ہونی چاہیے ۔جس کے پس منظر میں مشرقی علوم بھی کارفرما ہوں اور جدید مغربی زاویہء نظر بھی۔ مشرقی اور مغربی نظریات اور اصولوں کے تال میل سے ہی تنقید کا خمیر اٹھنا چاہیے اور اسی خمیر سے نعت کا تنقیدی مطالعہ کیا جانا چاہیے۔(۴۴)


یہی نہیں بلکہ ان کا خیال تھا کہ نعت کے معروف اور قدآور شعرا کے کلام کا بھی تنقیدی محاکمہ ہونا چاہیے۔ اس طرح ایک طرف ان کا ادبی مقام و مرتبہ سامنے لانے اور متعین کرنے میں مدد ملے گی بلکہ نعت کی تنقیدی تاریخ پر تاثراتی اور معتقداتی تنقید کے گردو غبار کودور کرنے کا موقع بھی ملے گا۔یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور تنقید ِ نعت کی ضرورت بھی۔ اس حوالے سے مئی ۲۰۰۵ء میں ’جامِ نور‘ (نئی دہلی)کودیے گئے ایک انٹرویوکا بیان ملاحظہ فرمائیے:


’’ مولانا احمد رضا خان صاحب پر کام کرنے والوں پر ایک خوف کا سایہ ہے کہ ان کی نعتیہ شاعری کو اگر ہم تنقیدی رویوں سے گزاریں گے تو ہمارے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا جب کہ میرا خیال یہ ہے کہ اس تاثر کو ختم کرنا چاہیے۔ دیکھیے! غالب اردو کا ایک عظیم شاعر ہے اگر اس کے حق میں دو سو کتابیں وجود میں آئی ہیں تو اس کے فن کے خلاف بھی دو سو کتابیں وجود میں آئی ہیں مگر شاعر ہونے کی حیثیت سے اس کے قد پر کوئی حرف نہیں آتا بلکہ تنقیدی کسوٹی سے گزر کر اس کی شاعری دن بدن فن کے نئے پہلوئوں سے ہمیں آشنا کررہی ہے۔ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب کی شاعری اتنی بڑی، اتنی وقیع اور مقبول ہے کہ ان کے سر سے کلام کی مقبولیت اور عظمت کا تاج اب کوئی چھین نہیں سکتا۔ لیکن مولانا کی شاعری پر کھل کر گفتگو نہ کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ اب تک ان کا کوئی ادبی مقام متعین نہ ہوسکا۔ ‘‘(۴۵)


سرسید احمد خان نے قرآن کی تفسیر لکھتے ہوئے اور اسلام کی حقانیت کو جدید دور کے مطابق پیش کرتے ہوئے اپنے جدید عہد کے سائنسی نظریات اور عقلی معیارات کو بنیاد بنایا۔ ان کے اس اقدام سے علما کا ایک طبقہ ان کا سخت مخالف ہو گیا اور انھیں نیچری، ملحد، کافر، کرسٹان،زندیق ،لامذہب ،دہریہ ،غدار اور انگریزوں کا ایجنٹ کہنے لگا۔(۴۶) یہ درست ہے کہ اصلاحِ عقائد و افکار اورتفسیری کوششوں میں سرسید نے سخت ٹھوکریں کھائیں۔ انھوں نے جمہور علما سے اپنی راہ الگ نکال کر اور مسلمہ عقائد و افکار سے بھی اختلاف کر کے ہندوستانی مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو بدظن کر دیا تھا لیکن ان کی نیت نیک تھی اور نیک نیتی کے ساتھ اٹھنے والا قدم خواہ غلط کیوں نہ پڑجائے اسے لائق تعزیر شمار نہیں کیا جاتا بعینہ جب صبیح رحمانی نے ’نعت رنگ‘ کا اجرا کیا اور اس میں تنقید ِ نعت کے مباحث کو جگہ دی تو ان کے خلاف بھی سخت واویلا ہوا۔ان کی نیت پر شک کیا گیا۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے انھیں ہمسایہ ملک کا ایجنٹ بھی قرار دے ڈالا لیکن چونکہ ان کی نیت نیک تھی اس لیے بدظنی کی مسموم ہوائیں زیادہ دور تک ان کا تعاقب نہ کرسکیں اور تھک ہار کر راستے ہی میں دم توڑ گئیں۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مکتوبی تنقید و تحقیق کی ایک صدی سے زائد عرصہ پر پھیلی ہوئی روایت کے باوجوداردو تحقیق وتنقید میں مکتوبی تنقید کودرخورِ اعتنا کیوں نہیں سمجھا گیا؟ اس کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک کیوں روا رکھا گیا؟اوراسے ادب میں خاطر خواہ مقام کیوں نہ مل سکا؟دوسرا سوال یہ کہ مکتوباتی تنقید وتحقیق کے مباحث رسائل و جرائد میں زیادہ دیر تک اور زیادہ دور تک کیوں نہ چل سکے؟اور یہ مباحث مروجہ تحقیق و تنقید کو راستہ کیوں فراہم نہ کر سکے؟تیسرا سوال یہ کہ اردو کے اکثر ادبی رسائل و جرائد خطوط کی اشاعت سے کیوں کتراتے رہے ؟اور جن رسائل و جرائد(چند استثنائی مثالیں چھوڑ کر) میں خطوط کی اشاعت ہوتی رہی ان میں سے اکثر کی نوعیت محض رسمی یا رسیدی ہی کیوں رہی؟چوتھا سوال یہ کہ کسی بھی رسالے کی ترقی کاراز کن باتوں میں مضمر ہوتا ہے؟یہ تمام سوالات توجہ طلب بھی ہیں اور اہلِ ادب کو دعوتِ فکر بھی دیتے ہیںکہ وہ ان سوالات کا جواب تلاش کریں اور خطوط کی ادبی اور تحقیقی و تنقیدی کم مائگی کا سدباب بھی کریں۔ذیل میں ان سوالات کے ممکنہ جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔


پہلے سوال کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ خطوط کو بالعموم ذاتی نوعیت کی چیز سمجھا جاتا رہا ہے اور اس میں موجود مباحث کو بھی اسی تناظر میںدیکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اسی وجہ سے خطوط کووہ ادبی اور تحقیقی و تنقیدی مقام نہیں مل سکا جو دیگراصنافِ ادب کو حاصل رہا ہے۔دوسرا یہ کہ خطوط کو بالعموم غیر ادبی سرگرمیوں سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔اسی لیے مروجہ تحقیق و تنقید میں ان کی جگہ نہیں بن پائی۔تیسری وجہ شایدیہ بھی رہی ہے کہ ہمارے ہاں تنقید اور تحقیق خاص مزاج کی حامل بن کر ایک مخصوص ڈھرے پر چلتے رہے ہیں اور اس میں(دوچار استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر) تبدیلی کا نہ کوئی بڑا موڑ آیا اور نہ حسبِ ضرورت اس نے ترقی کے قدم ہی آگے بڑھائے۔اس کے باوجود کہ خطوط میں تحقیق و تنقید کا ایسا خزانہ موجود ہوتاہے جسے کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ادبی رسائل و جرائد میں متعدد خطوط شائع ہوئے ۔آج بھی شائع ہو رہے ہیں ۔ان میں علم و ادب سے متعلق تحقیقی و تنقیدی نکات اور مباحث بھی پیش کیے جا تے رہے ہیںاورادبی مسائل بھی زیر ِ بحث آتے رہے ہیں ۔اظہار خیال بھی نت نئے رنگوں میں سامنے آتارہا ہے ۔پھر بھی خطوط کو دوسرے درجے کی چیز ہی سمجھا گیا۔چوتھی وجہ یہ کہ چونکہ خطوط اس خاص فارمیٹ میں نہیں لکھے جاتے جن میں ہماری تحقیق و تنقید اظہار پاتی رہی ہے اور نہ ان میں، موجودہ تحقیق وتنقید میں مروج حوالہ جاتی اندازموجود ہوتا ہے اور نہ اکثر خطوط میں کسی موضوع کے تحت بیان کیے گئے خیالات کا وہ مربوط انداز دیکھنے میں آتا ہے جو تحقیق و تنقید کا وصف خاص شمار کیا جاتا ہے۔ پانچواں یہ کہ علماو ادبا اور محققین و ناقدین کے خطوط کو عام خطوط سے بالعموم ممیز بھی نہیں کیا جاتا رہا۔ شاید اسی لیے ان کے خطوط کو بھی محض خطوط سمجھ کر تحقیق و تنقید کے دائرے سے باہر کیا جاتا رہا ہے۔


اب ہم دوسرے سوال کی طرف آتے ہیں۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ جن رسائل و جرائد نے مکتوبی مباحث کو اپنے رسائل کا حصہ بنا یا ان کی نوعیت مخصوص موضوعات تک محدود رہی اور مباحث کا سلسلہ بھی مخصوص افراد اور مخصوص موضوعات کے گردہی گھومتا رہا ۔معاصر عہد کے دو بڑے اور معروف ادبی رسائل خاص نقطہء نظر کی حامل شخصیات کی نگرانی اور رہنمائی میں شائع ہوتے رہے ہیں اورمزید یہ کہ ان رسائل کے موضوعات اور افکار بھی مخصوص دائروں کا طواف کرتے رہے ہیں ۔لہٰذا ان میں شائع ہونے والے خطوط اور مباحث بھی انھی دائروں سے کشید کردہ اثرات کا منطقی نتیجہ ہوتے تھے۔یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن ان رسائل کے مباحث کامحور مخصوص ہونے کی وجہ سے نہ مباحث کادائرہ ہی معاصر تمام مباحث تک بڑھایا گیا اور نہ اس سلسلے کو تمام قارئین تک پھیلایا گیا اور نہ رسالے میں اپنے نظریات کے مخالف نقطہ ء نظر کے حامل خطوط کو آزادانہ جگہ دی گئی۔(۴۷)لہٰذا مباحث کا سلسلہ اپنے امکانات کو برت لینے کے بعد رک گیا اور آگے بڑھ نہ پایا۔


تیسرے سوال کا جواب پہلے جواب کومدنظر رکھتے ہوئے دیا جاسکتا ہے ۔وہ یہ کہ خطوط کو غیر ضروری سمجھا جاتا رہااور رسائل کے صفحات میں خطو ط کی شمولیت ضخامت کا باعث بن کر مالی بوجھ میں اضافے کا باعث تصور کی جاتی رہی۔زیادہ تر مکتوب نگاروں کے خطوط کا تعلق رسیدی،رسمی، تعارفی یا شکوہ آمیز نوعیت کا ہوتا ہے ۔ اس لیے ان خطوط کی رسالے میں اشاعت غیر ضروری سمجھی جاتی ہے ۔ اس کے باوجود رسائل میں تحقیقی و تنقیدی نوعیت کے خطوط بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ان خطوط میں معاصر عہد کے ادبی نظریات، رجحانات اور مباحث پیش کیے جاتے رہے ہیں۔مزید یہ کہ خطوط کی اشاعت سے رسالے کی ضخامت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے مالی مسائل کا بوجھ بھی بڑھ جاتا ہے۔وہ رسالہ جو پہلے ہی مالی مشکلات میں گھرا ہوا ہو وہ خطوط کو شاملِ رسالہ کر کے اپنی مشکلات میں اضافے کا خود ہی باعث بننے کا محرک قرار پائے گا۔ چنانچہ مدیر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خطوط جیسی غیر اہم صنف کو رسالے سے باہر ہی رکھے۔ اس میں مدیر کا فائدہ بھی ہے اور رسالے کا فائدہ بھی۔


چوتھا سوال سب سے اہم ہے اور اس کا جواب مدیر کی شخصیت میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ کسی بھی ادبی مجلے کو ترقیوں کی منازل طے کروانا مدیر کا فرضِ منصبی ہوتاہے ۔مدیر ایک سربراہ کی طرح سب کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔اچھے کو بھی اور برے کو بھی،خام کو بھی اور پختہ کو بھی۔اقبال نے میر ِکارواں کی جو خصوصیات ’’نگاہ بلند، سخن دل نواز، جاں پرسوز‘‘ بتائی ہیں ،مدیر کو بھی انھی خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے۔ اسے اندھے کی طرح اپنوں اپنوں کو ریوڑیاں بانٹ بانٹ کر خوش اور مطمئن نہیں ہونا چاہیے اور اگر وہ اپنے مخصوص ادبی معتقدات یا ذہنی رویوں کے زیرِ اثر کچھ ایسا کرتا ہے اور نتیجے میں وہ مجلہ بے توقیر ہو کرقارئین کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو پھر مدیر کو قارئین سے شکوہ کناںہونے کا بھی حق حاصل نہیں۔مجلے کو کامیاب بنانے اور قارئین کی دلچسپی کی چیز بنانے کے لیے مدیر کو چاہیے کہ وہ مجلے کی ایسی فضا تشکیل دے جس میں مختلف الخیال افراد کھل کر سانس لے سکیں ۔اسے ایک کنویں کا مینڈک بننے کی بجائے وسیع اور فراخ حوصلے کا مالک ہونا چاہیے تاکہ وہ مجلے کے لیے موصول ہونے والے ہر خیال اور نقطہ ء نظر کو کشادہ دل اور کھلے بازوؤں کے ساتھ خوش آمدید کہہ سکے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ایسے مدیر کو نہ ادبی کساد بازاری کا رونا رونا پڑے گا ،اور نہ ہی ادب کی موت کااعلان کرنا پڑے گا ۔


دوسرا یہ کہ مجلے کے ارتقا اور ترقی کا دارمدار مجلے کی پالیسیوں پر ہوتا ہے۔ اگر مجلہ زندگی آمیز ہو، معاشرتی رویوں اور ادب کو ہم آہنگ کر کے قدم آگے بڑھا رہا ہوتو وہ عوام کے دلوں اور ذہنوں سے قریب ہونے کی وجہ سے شہرت کے پروں سے اڑنا شروع کر دیتا ہے اور جومجلہ زندگی کے رشتوں اور ادبی رجحانات کو علیحدہ علیحدہ خانوں میں بانٹ کردیکھنے کا عادی ہو، وہ ادب کی زندگی میں زیادہ دیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا۔کیونکہ زمین سے ٹوٹا ہوا تعلق خواہ وہ ادب کا ہو یا زندگی کا زیادہ دیرپا نہیں ہوا کرتا۔


اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نعت رنگ ’ کی پالیسیاں کیا رہی ہیں؟ اور ’نعت رنگ‘دوسرے مجلا ت و رسائل سے کس طرح مختلف ہے؟’ذیل میں ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔’نعت رنگ ‘ نے اپنی تشکیل کے بعد پہلا قدم ہی تنقید کااٹھایا اور مدیر’ نعت رنگ ‘نے اپنے ہر اداریے میں سوال کرنے اور اظہارِ خیال کی بلاروک ٹوک آزادی دے کر تنقید کے موسموں کو عام کر دیاتھا۔اس مجلے میں دیگر رسائل کے برخلاف خطوط کی اشاعت میں خاص دلچسپی لی جاتی تھی ۔یہاں تک کہ مدیر، ’نعت رنگ ‘ کے اداریوں میں سوالات اٹھانے کے ساتھ ساتھ ذاتی طور پر بھی اہل علم کو ترغیب دلاتے رہے کہ’نعت رنگ‘ ان کے روشن خیال افکار کو خوش دلی سے قبول کرنے کا منتظر ہے۔لہٰذا وہ آئیں اور خطوط کے ذریعے اپنے خیالات ،افکار اور نقطہء نظر کو بے خوفی سے پیش کریں۔ (۴۸) مدیر کے اس طرز عمل کی وجہ سے مجلے کا دائرہ حیرت انگیز طور پر وسیع ہو گیا۔چنانچہ ’نعت رنگ ‘ میں مذہب ،تہذیب ،تاریخ، ادب، تحقیق اور تنقید کے مباحث نظر آنے لگے۔مدیر کی روشن خیالی اور فراخ دلی کے باعث اس مجلے پر کسی مخصوص عقیدے، فرقے یا نظریے کی چھاپ لگی اور نہ یہ مجلہ کسی مخصوص علاقے،رنگ اورنسل کاترجمان بنا۔


’نعت رنگ ‘اور دیگر زوال شدہ یا زوال آمادہ ادبی رسائل میں ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ’نعت رنگ‘ نے ادب اور زندگی کو باہم آمیز کردیا ۔مختلف الخیال افراد کو ’نعت رنگ‘ کے رشتے میں ایک لڑی کی طرح پرو دیا۔ توڑنے کی بجائے جوڑنے کا فریضہ ادا کیا ۔ کیونکہ اگر یہ مجلہ بھی دیگر مجلات کی طرح اجنبیت کی فضا قائم کرتا یا مدیرانہ فرعونیت کے زیرِ اثر اپنے اور قارئین کے درمیان فاصلوں کی خلیج حائل کربیٹھتا یا خود کو کسی اورزمین کی مخلوق ثابت کرنے کی کوشش کرتا یا ادب اور مذہب کو خانوں میں بانٹ کر دیکھنے یا تفریق کرنے کی غیر ادبی اور غیر دانشورانہ کوشش کرتا تو اس محفل میں کوکب نورانی اوکاڑوی ، عبدالحکیم شرف قادری، عبدالنعیم عزیزی،حافظ عبدالغفار،خوشتر نورانی، حافظ محمد عطاالرحمن قادری رضوی، جیسے مذہبی علما ’نعت رنگ‘ کا حصہ بن پاتے اور نہ ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، اسلوب احمد انصاری، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر تحسین فراقی،ڈاکٹر جمیل جالبی، شان الحق حقی، ڈاکٹر خورشید رضوی، ڈاکٹر سہیل احمد صدیقی، ڈاکٹر سلیم اختر،ڈاکٹر نجم الاسلام، وقار احمد رضوی، ڈاکٹر یحییٰ نشیط ،ڈاکٹر ناصر عباس نیر، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، مبین مرزا ،ڈاکٹر یونس اگاسکر ، ڈاکٹر حسرت کاس گنجوی،ڈاکٹر شبیر احمد قادری جیسی معروف ادبی شخصیات نظر آتیں۔ مختلف مکاتب فکر اور نظریات کے حامل افراد کی ’نعت رنگ‘ کے فروغ اور ارتقا میں عملی کاوشوں کا نتیجہ ہی تھا کہ یہ رسالہ مذہب اور ادب سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم اور اہلِ قلم دونوں کے لیے قابل قبول بن گیا اورمخصوص موضوعاتی جریدہ ہونے کے باوجود اردو کی دیگر شعری اصناف میں نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔


ذیل میں’ نعت رنگ‘ سے متعلق مزیدچند سوالات کے جواب تلاش کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ان سوالات کی بنا پر ’نعت رنگ ‘ کا معاصر نعتیہ رسائل و جرائد میں ادبی کردار سامنے لانے میں مدد ملے گی۔

(۱) پہلا سوال یہ کہ کیا ’نعت رنگ‘ کا مطالعہ نعت پڑھنے کے لیے کیا جارہاتھا؟

(۲) دوسرا یہ کہ کیا ’نعت رنگ‘ کے تحقیقی و تنقیدی مضامین ’نعت رنگ‘ کو پڑھوارہے تھے؟

(۳) تیسرا یہ ہے کہ کیا ’نعت رنگ‘ میں شائع ہونے والے خطوط ’نعت رنگ‘ کے مطالعے کا باعث بن رہے تھے؟

(۴) اور چوتھا سوال یہ کہ کیا ’نعت رنگ ‘ کے اداریے ’نعت رنگ‘ کی دلچسپی کا سامان فراہم کررہے تھے؟


ان سب سوالوں کے جواب ’نعت رنگ‘ ہی میں تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ ذیل میں ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔


اگر ’نعت رنگ‘کی مقبولیت کا سبب اس میں شائع ہونے والی نعتوں میں تلاش کیا جائے تو پھراس سے پہلے اس سوال کا جواب تلاش کیا جانا چاہیے کہ ’نعت رنگ‘ کے معاصر اور ماقبل رسائل میں بھی تو نعت شائع ہوتی رہی ہے ۔پھر وہ رسائل مقبولیت کی وہ منزل حاصل کیوں نہ کر پائے جو ’نعت رنگ‘ کے حصے میں آئی۔یہاں یہ سوال پھرپیدا ہوتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ’نعت رنگ‘ میں شائع ہونے والی نعتیںاسالیب اور موضوعات کے لحاظ سے معاصر نعتیہ رسائل میں شائع ہونے والی نعتوں سے مختلف اور نسبتاً معیاری شائع ہو رہی تھیں اور نعت کہنے والے مختلف اور قادرالکلام شاعر تھے ۔ ایسابھی ہر گز نہیں ۔’نعت رنگ‘ میں بھی انھی (ماسوا دو چار نعت گو شعرا کے) تخلیق کاروں کی نعتیں شائع ہو رہی تھیں جو معاصر اور ماضی کے نعتیہ رسائل کے لیے نعتیں بھیج رہے تھے ۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ’نعت رنگ‘ کو پڑھوانے اور مقبولیت سے ہم کنار کرنے میں محض نعتیں اہم کردارادا نہیں کررہی تھیں۔


اب دوسرے سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ’نعت رنگ‘ میں شائع ہونے والے مضامین اور معاصر نعتیہ رسائل میں شائع ہونے والے مضامین میں کیا فرق نظر آتا ہے؟’نعت رنگ‘ کے معاصر اور ماقبل نعتیہ رسائل میں بھی نعت پر مضامین شائع ہوتے رہے ہیں لیکن ان کا غالب رجحان تعریفی، توصیفی اور وضاحتی رہا گویا کہ ان رسائل میں شائع ہونے والے مضامین محض اسی عقیدت کے زیرِ اثرلکھے جاتے رہے جس عقیدت کے زیرِ اثر نعت کہی جارہی تھی لیکن ’نعت رنگ‘ کو یہ اختصاص حاصل رہا کہ اس میں شائع ہونے والے مضامین کا غالب عنصر وضاحتی اور توصیفی کی بجائے تنقیدی اور تحقیقی رہا۔ ’نعت رنگ‘ کے اولین شمارے سے ہی اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ اس مجلے میں ایسے مضامین شائع کیے جائیں گے جن میں نعت کو تنقیدی اور تحقیقی کسوٹی پرپرکھا گیا ہوگا ۔ نعت کی پرکھ کا یہ رجحان اس سے قبل کے اور اس کے معاصر رسائل میں مفقود نظر آتا ہے ۔ ’نعت رنگ‘ نے تخلیق نعت کو پرکھنے کا معیار نہ عقیدت کو بنایا اور نہ ہی تاثرات کو بلکہ اس مجلے کی پالیسی ہی یہ رہی ہے کہ نعت کو جدید اور سائنٹیفک اصولوں کو پیش نظر رکھ کر پرکھا جانا چاہیے چنانچہ انھی اصولوں کو بنیاد بنا کر نعت پر تحقیقی اور تنقیدی مقالات لکھوائے گئے ۔ اس طریق کار کے باعث مضامین میں اختلافی مباحث در آئے جس کی وجہ سے نعت کی ادبی تنقید میں نزاعی صورت حال پیدا ہو گئی اور ساتھ ہی علمی اور مذہبی حلقوں میں خاصا اضطراب بھی دیکھنے میں آیا لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ’نعت رنگ‘ کو موصول ہونے والے مقالات دلچسپی اور دقت نظر ی کے ساتھ پڑھے جانے لگے اور ان مقالات میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب تلاش کرنے کی طرف قدم بڑھایا جانے لگا۔ایک فریق اپنے ادبی اور مذہبی معتقدات کا اظہار کرتا تو دوسرا ان خیالات کے رد میں مفصل تر جواب دیتا۔اگر فریق اول ان خیالات سے متفق ہوتا تو خاموشی اختیار کر لیتا بصورت دیگر فریق ِ ثانی کے جواب میں مزید دلائل اور شواہد سے کام لیتا۔ اس طرح جواب الجواب کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ مثلاً ’نعت رنگ‘ کے شمارہ ۶میں جمال پانی پتی کا ایک مضمون’نعت گوئی کا تصور ِ انسان ‘ شائع ہوا۔ اس مضمون کے جواب میں مولانا کوکب نورانی کاایک مفصل خط ’نعت رنگ ‘ شمارہ نمبر ۸میں شائع ہوا۔جس میںمولانا نے جمال پانی پتی کے استدلال سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا۔کوکب نورانی کے اس خط کے جواب میں جمال پانی پتی نے ــ’’نعت گوئی کا تصورِ انسان اور مولانا کوکب نورانی‘‘ کے عنوان سے ایک پراز معلومات مقالہ قلم بند کیا۔ جس میں کوکب نورانی کے خیالات سے اختلاف کیا۔اس طرح کے بیسیوں مقالات اور خطوط ’نعت رنگ‘ میں شائع ہوئے۔’نعت رنگ‘ میں شائع ہونے والے مقالات کا یہی عنصر قارئین کو اس مجلے کی جانب متوجہ کر رہا تھا اور اسے پڑھوانے پر مجبور کر رہا تھا۔


تیسرا سوال کہ کیا ’نعت رنگ‘ میں شائع ہونے والے خطوط قارئین کو اپنی جانب متوجہ کر رہے تھے۔اس کا جواب بھی اثبات میں دیا جاسکتا ہے۔ ’نعت رنگ‘ میں شائع ہونے والے کچھ خطوط تو محض رسمی ، رسیدی، تقریظی یا تعارفی نوعیت کے ہیں لیکن بیشتر خطوط علمی ، ادبی ،تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں۔ان خطوط میں نعت کے موضوعات ، اسالیب،محسنات،معائب،عروضی مباحث وغیرہ پر کھل کر اظہار رائے کیا جاتا رہا۔جس کی وجہ سے ان خطوط میں علم ، ادب،تاریخ، تہذیب،مذہب،اخلاقیات، تنقیدا ور تحقیق کا بے مثال خزانہ تحریر میں آگیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ’نعت رنگ‘ کے مباحث کو آگے بڑھانے، نعت کو درست سمت میں لے جانے اور نعت کے حقیقی موضوعات کے تعین میں یہ خطوط بھی بنیادی اہمیت کے حامل رہے ہیں تو کچھ غلط بھی نہ ہو گا۔


چوتھے سوال کا جواب بھی تیسرے سوال کے جواب کی توثیق کرتا ہوا نظر آتاہے ۔ ’نعت رنگ‘ کے خطوط میں جو مباحث سامنے آرہے تھے ان کے پس پشت ’نعت رنگ‘ کے اداریے بھی کام کر رہے تھے۔ مدیر ’نعت رنگ‘ اپنے اداریوں میں اکثر اوقات نعت سے متعلق ایسے سوالات اٹھاتے رہے ہیں جن کے جواب تلاش کیے جانے ضروری تھے ۔لہٰذا بیشتر خطوط اور مقالات کا محرک یہی سوالات بھی رہے ہیں اور یہ علمی رد عمل نعت اور تنقید نعت کو ترقیوں کی جانب لے کر جارہا تھا۔


مذکورہ بالا بحث سے اس نتیجے پرپہنچنامشکل نہیں کہ نعت اور ’نعت رنگ‘ کے فروغ اور مقبولیت میں کوئی ایک عنصر یا محرک کارفرما نہیں رہا۔ کئی محرکات اس کی مقبولیت کے پس منظر میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے تھے لیکن ان میں سب سے اہم اور غالب عنصر تنقید کا رہا ۔ نعت کی تفہیم اور تعبیر میں تنقید کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ۔’نعت رنگ‘ کے اسی طرز عمل نے اسے اپنے پیشرو اور معاصر رسائل و جرائد سے منفرد اورممتاز بنا دیا ہے۔


’نعت رنگ‘ کے خطوط کی کئی حیثیتیں اور کئی جہتیں ہیں۔ان میں سے ایک جہت تدریسی بھی ہے۔ اگرچہ یہ خطوط تدریسی مقاصد کے زیرِ اثر یا نقطہء نظر سے تحریر نہیں کیے گئے لیکن غیر ارادی طور پر بعض خطوط تدریسی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ان خطوط کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ قارئین کو معلومات ہی فراہم نہیں کررہے بلکہ کچھ سکھا بھی رہے ہیں۔ سکھانے کا یہ انداز تدریسی ہے جسے بالواسطہ تحریر کے ذریعے برتا جاتا ہے ۔ ’نعت رنگ ‘ میں یہ انداز خطو ط کی صورت میں جلوہ گر ہوا ہے۔ بالخصوص نعت کا فنی مطالعہ کرتے ہوئے قارئین کو بتایا گیا ہے کہ نعت کیا ہوتی ہے ؟ نعت کی خصوصیات کیا ہیں؟ کن کن موضوعات کو نعت میں برتا جا سکتا ہے اور کن موضوعات کو نعت میں برتنے سے گریز کرنا چاہیے۔ کون سا شعر نعت سے تعلق رکھتا ہے اور کون سا نعت کی تعریف کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ کون سا لفظ نعت کی روح کی نمائندگی کر تا ہے اور کون سا لفظ نعت کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ غرض یہ کہ ان خطوط میں شعر کی درست قرات، صحیح خواندگی ،شعری تفہیم کے طریق کار، شعری مسائل، لفظی نقائص اور عروضی مسائل سے آگاہی دی گئی ہے۔ذاتی شعری واردات اور تجربات میں قارئین کو شریک کر کے تخلیقی آداب بھی سکھائے گئے ہیں۔ شعری تفہیم کے لیے فکری اور فنی دونوں سطحوں کا مطالعہ کیا گیا اور فکری مغالطوں اور کج رویوںپرروشنی ڈالی گئی ہے۔ فنی سطح پر شعر کے لسانی اور عروضی نقائص کو سامنے لایا گیاہے۔ تفہیم ِشعر کے یہ دونوں طریق ،اساتذہ شعرا استعمال کیا کرتے رہے ہیں اور یہی طریق شعر کا مقام متعین کرنے میں مددگار بھی ہوتے ہیں۔یہ طریقِ مطالعہ، خطوط کو تدریس سے ہم آہنگ کر کے اسے قارئین کے فائدے کی چیز بنا دیتا ہے۔ اگر کوئی نو آموز قاری ذاتی دل چسپی لے کر ان خطوط کا مطالعہ کرے تو اسے شعر کی فکری اور فنی باریکیوں سے آگاہی بھی حاصل ہو گی اور وہ تحقیق و تنقید کی پر خار راہ میں انھیں اپنا رفیق بھی پائے گااور رہنما بھی۔


مدیر ’نعت رنگ‘ نے اپنے اداریوں میں جا بجا نعت کے ادبی ،فکری اور فنی پہلوؤں پر غیر متعصبانہ ، غیر جانبدارانہ اور بامقصد بحث و مباحثے کی ضرورت پر زور دیا اوراس کے لیے’ نعت رنگ ‘کا پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں ہر مکتبہ ء فکر سے تعلق رکھنے والا دانشور اپنے مقالات اور خطوط کے ذریعے نعت کے ادبی،فکری اور فنی پہلوؤں پر سوالات اٹھا سکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ صرف سوچتے رہنے اور ایک دوسرے سے کڑھتے رہنے کی بجائے میدانِ عمل میں قدم رکھ کر نعت کی فکری آبیاری میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ اگر باہمی گفتگو اور اظہار رائے کا یہ سلسلہ چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب نعت اپنی پوری صنفی قوت اور تخلیقی توانائی کے ساتھ دنیائے ادب میں اپنا منفرد مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی(۴۹) اور اردو کی دیگر مقبول ادبی اصناف کے مقابل فخر کے ساتھ سینہ تان کر کھڑی ہو جائے گی اور یہ وہ وقت ہو گا جب نعت کے ناقدین کو بین الاقوامی ادب کے سامنے نعتیہ ادب کو پیش کرنے میں کسی بھی قسم کا معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔


دوسری طرف انھوں نے تخلیق کاروں کو بھی مشورہ دیا کہ وہ تنقید نعت کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کو خلوصِ دل سے قبول کریں۔ اگرچہ طبیب کا نشترزخم کو کریدتا ہے تو ٹیسیں جنم لیتی ہیں لیکن طبیب کا یہی عمل زخم کو مندمل کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ صدیوں پر محیط عقیدت اور تقدس کے غبار نے نعت کے حقیقی چہرے کو گہنا دیا ہے ۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تنقید کے آب سے روئے نعت کو اس طرح دھودیا جائے کہ روئے نعت ایک مرتبہ پھر نکھر کر سامنے آجائے اور نعت جو صرف مذہب کے خانے میں ہی بند ہو کر رہ گئی تھی مستقبل قریب میں وہ ادب کا حصہ بن کر سامنے آئے ۔مدیر نعت رنگ کا بیان ہے:


’’میں اس نازک موڑ پر اپنے عہد کے نعت نگاروں سے مؤدبانہ التماس کروں گاکہ نعت کی ادبی اور فنی شناخت کے لیے کی جانے والی ان کاوشوں کو کھلے ذہنوں اور کشادہ دلی کے ساتھ قبول کریں۔ اگر آج نعت کے ادبی، فکری اور فنی پہلوؤں پر گفتگو کو رواج دینے میں کامیاب ہو گئے تو کل نعت اور نعت نگاروں کو ادب اور تاریخ ادب میں ان کا جائز مقام مل جائے گا۔ اس صورت حال میں فائدہ یقینا نعت نگاروں ہی کو ہوگا۔ ہمیں تخلیق کاروں ( اور بالخصوص نعت نگاروں) کی حساس طبیعت کا علم ہے ۔ اپنے فن پر تنقیدی گفتگو یقینا ان پر گراں گزرتی ہو گی۔ ہم بھی ان آبگینوں کی نزاکت سے بے خبر نہیں ۔ مگرتنقید کی آنچ وہ آنچ ہے جو شیشے کو توڑتی نہیں بلکہ پختہ تر کرتی ہے۔ وہ شیشہ جو بھٹی کی آگ سے مسکراتا ہوا نکلتا ہے شیشے کی آبرو بن جاتا ہے ۔جہاں تک کسی کی دل آزاری کی بات ہے تو ہماری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ ہمارے ہاں شائع ہونے والے تبصرے کسی ذات پر نہ ہوں بلکہ بات فن تک محدود رہے کہ فن کو پرکھنے والے تکریم فن کار کے بھی قائل ہوتے ہیں۔‘‘ (۵۰)


نعت کو عقیدت کی جکڑبندیوں سے آزادکرنے میں ایک اہم کردار ان مراسلہ جاتی مباحث کا ہے جو’ نعت رنگ‘ میں شائع ہوتے رہے۔ہرخط ایک نئی کیفیت اور نئے انداز میں تحریر کیا گیا ہے۔ تمام خطوط کا مرکزی موضوع تو نعت ہے لیکن ان تمام خطوط میں نعت اور نعت کے متعلقات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے اور فکری اور فنی دونوں حوالوں سے نعت پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ان خطوط میں ارباب ِ علم و عمل اپنے جذبات، خیالات، مشاہدات، واردات، مطالعات اور تحقیقات کے ساتھ شریک گفتگو رہے۔ کسی کا نقطہء نظر انفرادی رہا تو کسی کا اجتماعی، کسی کے ہاںنرگسیت کی کلی چٹختے ہوئے پھول کی صورت اختیار کر گئی تو کسی کے ہاں نفرت کی چنگاریاں بھڑک کر انگارہ بن گئیں۔ کسی کے ہاں تعصبات کی گرمیاں موجود ہیںتو کسی کے ہاں خلوص کی سردیاں، کوئی غلط فہمیوں کا بوجھ اٹھائے اپنا نقطہء نظر پیش کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے تو کوئی علمی فتوحات کا ڈنکا بجا رہا ہے ۔کسی کے لفظوں میں شعلے بھڑک رہے ہیںتو کسی کی تحریر پھولوںکا گل دستہ بنی’ نعت رنگ‘ کو مہکا رہی ہے ۔ ان سب کے باوجود ’نعت رنگ ‘ کے شعبہء مراسلات کا مقصد مکالمہ ہی رہا۔ کبھی مکالمے کا یہ انداز مناظرے یا مجادلے کی صورت اختیار کر لیتا تو مکتوبات نگاروں کے خیالات کی حدت اور چنگاریوں کو مدیر ’نعت رنگ‘ اپنے اداریوں کے چھینٹوں سے ٹھنڈا کردیتے مبادا مکالمے کی یہ فضا زہر آلود ہو جائے یا مذاکرات کا یہ در بند ہو کر مدیر’ نعت رنگ‘ کی ساری کاوشوں پر پانی پھیر کر ہی رکھ دے۔

مکالمہ زندہ معاشروں کی دین ہے اور روشن دماغوں میں جنم لیتا ہے۔مہذب معاشروں نے ہمیشہ مکالمے کو آگے بڑھایا ہے ۔وہ معاشرے جن کے ذہنی سوتے خشک ہو چکے ہوں وہاں مکالمہ مباحثے کی بجائے مناظرے یا مجادلے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ایسے معاشروں میں اختلافی اذہان کو نوکِ زبان سے نہیں نوکِ خنجر یا بندوق کی گولی سے جواب دیا جاتا ہے ۔ سوال کو پیدا ہوتے ہی ذہن میں دفن کر دیا جاتا ہے بلکہ کوشش کی جاتی ہے کہ وہ جنم ہی نہ لے تاکہ اظہار خیال کا گلہ گھوٹنے کی نوبت ہی نہ آسکے۔ایسی صورت حال میں مکالمہ جنم نہیں لیتا خوف اور دہشت جنم لیتی ہے۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے ہی معاشرے میں جنم لیا لیکن آپ کی آمد سے فیصلے تلوار کی بجائے زبان سے ہونے لگے۔ اختلاف کرنے والے کا گلہ نہیں کاٹا جاتا تھا بلکہ اسے گلے لگایا جاتا تھا۔ امت کا اختلاف زحمت نہیں بلکہ رحمت بن گیا تھا۔ مکالمے کا وہ راستہ جو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھولا تھا وقت کی مقتدرقوتوں (سیاسی اور مذہبی)نے اقتدار کے چھن جانے یا افتراق کے جنم لینے کے خوف سے بند کردیا۔اس طرح اسلام اور اسلامی روایات طاق میں سجی ہوئی مقدس مورتی کی صورت بن کر رہ گئی تھیں جسے عقیدت کی نظر سے دیکھا تو جاسکتا تھا لیکن بالائے عقیدت سوچا نہیں جاسکتا تھا۔وقت کا سیلِ رواں بہتا رہا۔ کبھی کبھار مکالمے یا مباحثے کی لہر سطح ِآب پر جنم لیتی اور پھر اسے گہرائیوں میں اتار دیا جاتا۔اختیار اور اختلاف کی آنکھ مچولی چلتی رہی ۔اردو کی ادبی صحافت میں ’تہذیب الاخلاق‘ میں اس روایت نے ایک بار پھر آنکھ کھولی اور پھر مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی اب ’نعت رنگ ‘ کا حصہ بن چکی ہے۔ ’نعت رنگ ‘نے اختلاف رائے کو صرف شائع ہی نہیں کیا بلکہ اسے نمایاں مقام دے کراس کی اہمیت کا احساس بھی دلایا۔ کیونکہ مدیر کا خیال ہے کہ ’’ردعمل اور اختلافِ رائے کااظہار ادب میں منفی نہیں ،بلکہ مثبت رویہ گردانا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے ذریعے فکر کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں اور نئے زاویے پیدا ہوتے ہیں۔(۵۱) ان کے اس عمل کو بعض احباب نے حیرت کی نظر سے دیکھا۔(۵۲) لیکن مدیر’ نعت رنگ‘ نے اس کی بالکل پروا نہیں کی ۔ ان کا نقطہء نظر تھا کہ اختلاف کو شخصی ہونے کی بجائے فکری اور نظری ہونا چاہیے۔ اور ایسے اختلافات جو فکری یا علمی بنیادوں پر کیے جاتے ہوں وہ صحت مند معاشرے کی علامت ہوتے ہیں اور علوم و فنون کی ترویج و اشاعت میں بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ مدیر’ نعت رنگ‘ کا مؤقف ملاحظہ فرمائیے:


’’ یہاں ایک نکتے کی طرف توجہ دلانا ضروری محسوس ہورہا ہے۔ کوئی لکھنے والا ہو یا پڑھنے والا، ہر شخص کا ہر دوسرے شخص سے مکمل اتفاق ضروری نہیں ہے۔ مکمل یا جزوی اختلاف کسی سے بھی ہوسکتا ہے۔ اختلاف کوئی بری چیز بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے، ادب ، فکر اور تنقید کے لیے تو یہ بڑی بابرکت شے ہے۔ اس لیے کہ اس سے خیال کے نئے در وا ہوتے اور فکر و نظر کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔ تاہم یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اختلاف کو فکری و نظری سطح پر رہنا چاہیے۔ اسے ذاتی یا شخصی ہرگز نہیں بننا چاہیے اور نہ ہی اسے مخالفت کی سطح پر آنا چاہیے۔ نیا ہو یا پرانا، چھوٹا ہو یا بڑا، ہر لکھنے والے کی اپنی ایک حیثیت اور اہمیت ہے۔ البتہ پرانے اور بڑے لکھنے والوں کے لیے ہمارے رویے میں زیادہ سنجیدگی، متانت اور لحاظ نظر آنا چاہیے۔ اس لیے کہ ہم اپنے بڑوں کی عزت و وقار کا خیال رکھتے ہوئے نظر آئیں گے تو یہ دراصل بعد والوں کی تربیت کا ذریعہ بھی ہوگا۔ ’نعت رنگ‘ نے اختلافات کو ہمیشہ خوش آمدید کہا ہے۔ اس شمارے میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔ تاہم آئندہ بے احتیاطی یا بے ادبی کو محسوس کرتے ہوئے ادارہ کسی بھی مضمون کی اشاعت سے انکار کا حق محفوظ رکھتا ہے۔‘‘(۵۳)


زندہ اور صحت مند معاشرہ ذہنی انجماد کی بجائے ذہنی کشادگی کو جنم دیتا ہے اور ایسے ہی معاشرے میں مکالمہ جنم لیتا ہے۔ آزاد فکر و خیال کی مکالماتی فضا زندہ معاشرے کا صحت مند حصہ بھی ہواکرتی ہے اور زندہ اور فکرانگیز ادب کی نشانی بھی۔زندہ معاشرے اور ادب کی یہی ترجمانی ’نعت رنگ‘ کے حصے میں آئی ہے۔ مکالماتی فضا کو تشکیل دینے اور سازگار ماحول کی تخلیق میں ’نعت رنگ‘ کو دودہائیوں سے زیادہ کی طویل مسافت طے کرنا پڑی اور سخت مجاہدہ کرنا پڑاتب جا کر ایسا سازگار ماحول تشکیل پایا جس میں اختلاف رائے کی گرما گرم محفلیں منعقد ہو سکیں ۔ یہ کوئی برا شگون نہیں ۔اختلاف زحمت نہیں رحمت ہوا کرتا ہے۔ یہ معاشرے کے لیے بھی او ر ادب کے لیے بھی نیک شگون ہے۔مدیر نعت رنگ کا بیان ہے: ’’زندہ اور فکر انگیز ادب ہمیشہ مکالماتی فضا کو قائم رکھتا ہے۔ ’نعت رنگ‘ ادب کی اس کشادگی کا قائل ہے اور اس پر کاربند بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اِ س کے صفحات پر ابتدا ہی سے اختلاف ِ رائے کی گرما گرم محفلیں آراستہ ہوئیں۔ہم اب بھی ادب و فکر کے مکالماتی بیانیے کو نیک شگون سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اس طرح کے مکالمے ادب و فن کی راہوں پر نئے چراغ روشن کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس لیے اگر کچھ لوگ ’نعت رنگ‘ میں شائع ہونے والی کسی بھی تحریر کے بارے میں اپنی رائے یا اختلاف کا اظہار کرنا چاہیں تو ہم ان کو خوش آمدید کہیںگے۔ شرط صرف یہ ہے کہ بحث علمی و فکری اور ادبی نوعیت کی ہو اور اس کا لب ولہجہ بھی ادبی ہو۔‘‘(۵۴)

‘نعت رنگ‘ کے اولین شماروں میں مکالمے کی نوعیت اور سطح دونوں، ابتدائی نظر آتی ہیں۔ زیادہ تر مکالمے عقائد کے اختلافات اور ذاتی نوعیت کے معلوم ہوتے ہیں۔ (۵۵) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مکالموں کی فضا اور سطح دونوں بلندہونے لگیں۔ اب نعت کے فکری پہلوؤں پر بھی کھل کر بحث ہو رہی ہے اور لسانی اور فنی حوالے سے بھی۔ آغاز آغاز میں تنقیدِ نعت میں حد سے بڑھا ہوا محتاط رویہ اور رائے کی قطعیت کا فقدان نظر آتا تھا لیکن جیسے جیسے مکالمے کی فضا روشن ہوتی گئی اور عقیدتوںاور تقدس کا غبار چھٹتا گیا ویسے ویسے ناقدین ِ نعت کے اظہارمیں اعتماد آتا گیا۔ اب نعت کو ایک ادبی صنف کے طور پر بھی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے اور نعت کے فروغ میں تنقید کی اہمیت کو بھی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ صبیح رحمانی نے درست لکھا ہے:

’’اس تناظر میںیقینا یہ بات خوش آئند ہے کہ حالیہ عرصے میں تنقیدِنعت کی طرف ادب کے کچھ معتبر ،سنجیدہ اور اہم ناقدین متوجہ ہوئے ہیں۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نیا ابھرتا ہوا یہ طرز ِ عمل دراصل ہمارے ہاں تہذیبی، فکری ،ثقافتی، سماجی اور ادبی سطح پر ایک بڑی انقلابی تبدیلی کا بلیغ اور خوش کن اشارہ ہے۔ وقت کا تغیر اسی طرح قوموں کی زندگی میں داخل ہوتا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تبدیلی جلد ہی اپنے وجود کا اثبات ہمارے تہذیبی اور ملی وجود کو نئی معنویت سے ہم کنار کرے گی۔ ہمارے گم گشتہ وقار کی بحالی کا ذریعہ ہو گی اور ہماری آئندہ نسلوں کو اپنے فکری مبدا اور روحانی ورثے سے وابستہ و پیوستہ کر کے اس کو جینے کے اصل معنی سے سرشار کرے گی۔‘‘ (۵۶)


اردو کی ادبی روایت پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہی جو پہلو سب سے دلچسپ نظر آتا ہے وہ شعراو ادبا کی باہمی چشمکیں ہیں۔ یہ چشمکیں ایک طرف شعرا کے باہمی تعلقات اور اختلافات کی عکاس ہیں تو دوسری طرف اس عہد کی ادبی صورت حال کو بھی سامنے لاتی ہیں۔ شعرا کی چشمکوں کے ابتدائی نقوش شعرائے اردو کے تذکروں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ سعادت خان ناصر کا تذکرہ ’خوش معرکہ زیبا ‘ تو شعرا کے ادبی معرکوں سے بھرا پڑا ہے۔(۵۷) شعرا کی معرکہ آرائیوں کو ساز گار ماحول اس عہد کے مشاعروں نے فراہم کیا۔ جہاں شاعر کا ہی نہیں اس کی شاعری کا بھی کڑا محاسبہ کیا جاتا تھا۔ محمد حسین آزاد نے انیسویں صدی میں شمالی ہند کے مشاعروں کے متعلق لکھا ہے کہ اس عہد میں استاد شعرا تیغ و تفنگ سے لیس ہو کر اپنے شاگرووں کے لاؤ لشکر کے ساتھ مشاعروں میں شریک ہوا کرتے تھے ۔مشاعروں میں پڑھی جانے والی غزلوں پر اعتراضوں کے سبب بعض اوقات تو مشاعرہ میدان جنگ کا نقشہ پیش کرتا تھا ۔ایسے ہی ایک معرکے کے متعلق محمد حسین آزاد لکھتے ہیں:

’’ یہ مشاعرہ ایک خطرناک معرکہ تھا۔ حریفوں نے تیغ و تفنگ اور اسلحہ جنگ سنبھالے تھے۔ بھائی بند اور دوستوں کو ساتھ لیا۔ بعض کو اِدھر اُدھر لگا رکھا تھا اور بزرگان دین کی نیازیں مان مان کر مشاعرہ میں گئے تھے۔‘ ‘(۵۸)


یہ مشاعرے شاعر ہی نہیں شاعری کا میزان بھی تھے۔ بڑے بڑے اور مشاق شعرا مشاعروں میں جانے سے پہلے اپنی تخلیقات کو خوب جانچ پرکھ کر دیکھ لیا کرتے تھے اور احتیاطاً مشاق شعرا کو دکھا بھی لیا کرتے تھے۔ ذراسی بے احتیاطی ہوئی اور مخالفین نے شاعر کو اعتراض کے نیزے پر اٹھا لیا۔محمد حسین آزاد نے ایسی ہی ایک خفیف غلطی کے حوالے سے مرزا عظیم بیگ عظیم کاایک دلچسپ واقعہ نقل کیا ہے ۔آزاد لکھتے ہیں:


’’۔۔۔ان میں مرزا عظیم بیگ تھے کہ سودا کے دعوی شاگردی اور پرانی مشق کے گھمنڈ نے ان کا دماغ بہت بلند کر دیا تھا۔وہ فقط شد بود کا علم رکھتے تھے مگر اپنے تئیں ہندوستان کا صائب کہتے تھے اور خصوصاًان معرکوں میں سب سے بڑھ کر قدم مارتے تھے چنانچہ وہ ایک دن میر ماشا اللہ خاں کے پاس آئے اور غزل سنائی کہ بحر رجز میں تھی مگر ناواقفیت سے کچھ شعر رمل میں جا پڑے تھے۔ سید انشا بھی موجود تھے ۔تاڑ گئے۔ حد سے زیادہ تعریف کی اور اصرار سے کہامیرزا صاحب اسے آپ مشاعرہ میں ضرور پڑھیں۔مدعی کمال کہ مغز سخن سے بے خبر تھا ، اس نے مشاعرہ ء عام میں غزل پڑھ دی۔ سید انشا نے وہیں تقطیع کی فرمایش کی ۔اس وقت اس غریب پر جو کچھ گزری سو گزری مگر سید انشا نے اس کے ساتھ سب کو لے ڈالااو ر کوئی دم نہ مارسکا۔‘‘(۵۹)


بیسیوں صدی تک پہنچتے پہنچتے ہندوستانی معاشرہ بھرپورکروٹ لے چکا تھا۔ سیاسی مرکز کے تبدیل ہوتے ہی ادبی صورت حال بھی نئے دور اور نئے تقاضوں سے آشنا ہونا شروع ہوئی۔ تذکرہ نگاری نے تاریخ نگاری کی طرف قدم بڑھا یا ۔نئے نئے ادبی رسائل و جرائدنے ادب کی ترویج و اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی۔ مشاعروں کی وہ محفلیں ،جو انیسویں صدی میں نظر آتی تھیں، اب زوال کا شکار ہو گئیں۔شعرا و ادبا کی باہمی چپقلشوںاور معاصرانہ چشمکوں نے اظہار کے لیے ان رسائل و جرائد کا رخ کر نا شروع کیا۔غالباً بیسویں صدی کا پہلا بڑا معرکہ پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی ’گلزار نسیم ‘ کے حوالے سے سامنے آیا۔ اس معرکے میں کثیر تعداد میں شعرا اور ادبا نے حصہ لیا۔اس معرکے کے بعد شعرا ،ادبا ،علما اور صوفیا کے درمیان کثیر تعداد میں معرکے سامنے آئے۔ اخبارات اور رسائل کی زینت بننے والے معرکوں کی داستان خاصی دلچسپ ہے۔جن کی تفصیلات ادبی معرکوں سے متعلق کتابوں اور اردو کی ادبی تاریخوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔(۶۰)


ادبی مباحث یا معرکہ آرائی کی ایک داستان ’نعت رنگ‘ کے شماروں میں بھی بکھری پڑی ہے۔ یہ داستان اپنی ذات میں دلچسپ بھی ہے اور پڑھنے کے لائق بھی۔ ’نعت رنگ‘ میں کوئی مقالہ شائع ہوتا تو اس کا جواب اگلے شمارے میں مضمون کی صورت میں سامنے آتا اور کبھی خط کی صورت میں ۔کبھی کسی خط میں کوئی نقطہء نظر پیش ہوتا تو اگلے ہی شمارے میں اس کا جواب سامنے آتا۔اس طرح جواب الجواب کا سلسلہ شروع ہو جاتا جو کبھی کبھی کئی کئی شماروں تک پھیل جاتا۔بظاہر یہ مباحث وقت کا ضیاع محسوس ہوتے ہیں لیکن ان کے اندر اتر کر دیکھا جائے توحیرت انگشت بدنداں نظر آتی ہے۔سودا اور میر ضاحک،مصحفی اور انشا کے معرکوں کی طرح نہیںجن کے متعلق محمد حسین آزاد کولکھنا پڑا :


’’طرفین سے ہجویں ہو کر وہ خاکا(کذا) اڑا کہ شائستگی نے بھی آنکھیں بند کر لیں اور کبھی کانوں میں انگلیاں دے لیں۔‘‘(۶۱)


بلکہ یہاںدلائل و براہین کوباہم دست و گریباں دیکھ کر جہالت کی آنکھیں بند اور حیرت کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔’نعت رنگ‘کے مباحث کی اہمیت اور افادیت سے کسی طور بھی انکارنہیں کیا جاسکتا۔ ہر شمارے میں ایسے مضامین اور خطوط موجود ہیں جن میں کسی مؤقف کو پیش کیا گیا ہے اور اگلے ہی شمارے میں علما، شعرا اور ناقدین کی طرف سے اس کی تصحیح ،تردید یا تائید پیش کی گئی ہے۔ خیالات کی تردید ،تائید یا اصلاح کا یہ سلسلہ ’نعت رنگ‘ کے ہر شمارے میں نظر آتا ہے۔اس طرح جواب الجواب کا سلسلہ شروع ہوجاتااور فریقین دو گروہوں میں منقسم ہو جاتے ۔ایک موافقت میں دلائل دیتا تو دوسرا مخالفت میں۔ اس طرح بحث کا سلسلہ آگے بڑھتا ۔ ان مباحث کے سلسلے میں ایسے ایسے گوہر ِنایاب سامنے آئے جو تنقید نعت کے حوالے سے ضخیم مقالات میں بھی دیکھنے میں نہیں آتے۔یہ خطوط طویل بھی ہیں (۶۲)اور علم ودانش سے معمور بھی۔ جن کا دامن علم ودانش کے خزانے سے معمور ہے۔ ان خطوط کے خالق علما و ادبا نے اپنے خیالات، افکار، تحقیق اور تنقید کے ذریعے تخلیق ِ نعت اورتنقید ِ نعت کی ایسی شمع روشن کی جس کے باعث نعت کی راہ گزر روشن بھی ہوگئی اور زرنگار بھی ۔


ان مباحث میں حصہ لینے والوںمیں مولاناکوکب نورانی اوکاڑوی، عبدالحکیم شرف قادری، پروفیسر طلحہ برق، شہزاد مجددی، حافظ عبدالغفار ، ریاض حسین چودھری، احمد صغیر صدیقی، شمیم احمد گوہر، ڈاکٹر شعیب نگرامی، راجا رشید محمود، ریاض حسین زیدی، ڈاکٹر اشفاق انجم وہ ہستیاںہیں جنھوں نے ’نعت رنگ‘ کے شعبہء مراسلات کو اپنے علمی اور فکری مباحث سے زرنگار بنا دیا ہے۔ ان مباحث یا معرکوں میں مکتوب نگاروں یا مقالہ نگاروں کی گرمیاں ،سردیاں، طنزو تعریض ، جواب الجواب، جارحانہ، مدافعانہ، محققانہ اور ناقدانہ رویے سامنے آئے ہیں۔ یہ معرکے ذاتی رنجشوں کو بڑھانے یامسلکی مناقشوں کو جنم دینے کا باعث نہیں بنے بلکہ ان مباحث کے نتیجے میں تنقیدِ نعت اور فروغِ نعت کا وہ عہد سامنے آیاجسے نعت کا سنہری دور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔


’نعت رنگ ‘ میں جس شخصیت نے علمی وادبی اختلاف کو مباحث یا معرکہ آرائی میں منقلب کر دیا وہ کوکب نورانی اوکاڑوی کی ہے ۔ انھوں نے ’نعت رنگ‘ میںچھپنے والے بیشتر مضامین پر اختلافی نوٹ رقم کیے ۔ ان کے طریق ِ کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے دلائل کو آسانی سے رد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اکثر اوقات ان کے مؤقف کو علمی مآخذ تقویت پہنچاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ’نعت رنگ‘کے صفحات پر مولانا کوکب نورانی کی جن اہلِ قلم دانشوروں سے معرکہ آرائی ہوئی ان میں جمال پانی پتی، ابوالخیر کشفی، رشید وارثی، احمد صغیر صدیقی، ریاض حسین زیدی، ڈاکٹر یحییٰ نشیط ،ابوسلمان شاہجہاں پوری، اقبال جاوید، اکرم رضا، اور ریاض حسین کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔


ان میں سب سے اہم معرکہ جمال پانی پتی اور مولانا کے درمیان رونما ہوا۔ جمال پانی پتی کا ایک مقالہ ’نعت رنگ‘شمارہ ۶ میں ’نعت گوئی کا تصور انسان‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مضمون کاموضوع تو ’تصور انسان ‘ تھا لیکن ان کی تمام تر بحث اس نکتہ کے گرد گھومتی رہی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم محض اعلیٰ قدروں کے حامل انسان تھے یا ماورا انسان بھی کچھ تھے۔ یہ سوال حسن عسکری کے اس مضمون سے پیدا ہوا جوانھوں نے محسن کاکوروی کی نعت گوئی پر تحریر کیا تھا۔ حسن عسکری کے نزدیک حالی اور محسن دونوں ہی کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی ایک جہت سے سروکار رہا ۔حالی نے آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشری یاانسانی جہت کو لے لیا۔ ماورائی یا نوری کو چھوڑ دیا۔ محسن نے ماورائی یا نوری جہت کو لے لیا ،بشری یا انسانی جہت کو چھوڑ دیا۔ جمال پانی پتی نے حسن عسکری کی حمایت میں حالی کی مسدس پر اعتراض کیے کہ ’’ حالی جیسا آدمی رسول کریم کو عام انسانوں کی سطح پر لاکر خود آپ کی زبان مبارک سے اپنی بندگی کا اعتراف کروایا ہے۔ اور حاصل کلام کے طور پرلکھا :


’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ سلم ہم آپ جیسے بشر نہیں افضل البشر ہیں۔ عام انسانوں جیسے انسان نہیں ، انسان کامل ہیں۔ اس موضوع پر لکھتے ہوئے انھوںنے رشید وارثی کے ایک مضمون سے بھی استفادہ کیا جس میں رشید وارثی نے حضرت باقی باللہ کے ایک قول کی تشریح میں حضرت مجدد الف ثانی کی عبارت نقل کی ہے کہ ’’ اگرچہ تنزلات ستہ یامرتب موجود کے اعتبار سے احمد بلامیم کا کنایہ درست ہے لیکن یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ذات محمدیV اور حقیقت محمدیV دو مختلف حقائق ہیں۔ ان دو حقائق کو ایک قرار دینا ممکن کو واجب اور واجب کو ممکن قرار دینے کے مترادف ہے۔ اگرچہ مضمون نگار رشید وارثی کے اس خیال سے متفق نہیں لیکن مولانا کوکب نورانی نے لکھا کہ اگر مذکورہ قول حضرت باقی باللہ سے ثابت بھی ہو جائے تب بھی اس کی تاویل اگر کی جائے گی تو لفظ ’احد ‘ کی بنیاد پر ہو گی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم مخلوق ہیں اور مخلوق میں احد ہیں۔ یعنی بے مثل ، بے مثال ،یکتا اوریگانہ۔ انھوں نے اس کی مثال میں دلیل دی کہ چائے ،پانی اور پتی سے مل کر بنتی ہے ۔ پانی کی مقدار زیادہ اور پتی کی مقدار کم ہوتی ہے مگر پانی میں تھوڑی سی پتی ملادیں تو سب سے پہلے نام بدل جاتا ہے پھر رنگ، ذائقہ ،مہک اثر اور حیثیت وغیرہ ۔جس بشر میں اللہ تعالیٰ نے نبوت رکھی اسے اب بشر نہیں رسول اللہ کہیں گے۔‘‘

کوکب نورانی کے اس مؤقف پر جمال پانی پتی نے ایک اور مضمون ’’ نعت گوئی کا تصور انسان اور کوکب نورانی ‘‘ تحریر کیا جو ’نعت رنگ‘ شمارہ نمبر ۹ میں شائع ہوا۔ اس میں مضمون نگار نے کوکب نورانی کے متذکرہ استدلال سے مکمل طورپر اتفاق نہیں کیا ان کا بیان تھا :


’’مولانا نے ذات محمدیV اور حقیقت محمدیـV کے حوالہ سے چائے کی جو مثال دی ہے اس سے تو ان کے خلاف نتیجہ نکلتا ہے۔ ان کی اس مثال سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی بے مثال بشریت تو درکنار خود بشریت ہی کی نفی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔اس لیے کہ پانی میں تھوڑی سی پتی ملانے سے جو چیز بنتی ہے اسے بے مثال پانی نہیں ،چائے کہتے ہیں۔ اسی طرح لفظ ’احد ‘ کے حوالے سے جمال پانی پتی نے مولانا کے بیان کردہ متذکرہ معانی کی بجائے اسے ذات خداوندی کی طرف اشارہ قرار دیا ہے۔‘‘ (۶۳)

مولانا کا دوسرا معرکہ ڈاکٹر ابوالخیر کشفی صاحب سے ہوا۔ مولانا کے خطوط پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کشفی صاحب کے مقالے کا بغور مطالعہ کرتے تھے اور قابلِ اعتراض مقامات پر کھل کر اختلاف کیا کرتے تھے۔ ’نعت رنگ‘ شمارہ نمبر ۴ میں کشفی صاحب کا فکر انگیز مقالہ’’نعت اور گنجینہء معنی کا طلسم‘‘ شائع ہوا۔(۶۴)اس مقالے میں کشفی صاحب نے بہت سے فکر افروز نکات پیش کیے ہیں۔ضمناًانھوں نے نعت پر پڑنے والے غزل کے اثرات کا جائزہ بھی لیا اور لکھا:

’’ اس روایتی غزل کا سایہ ہماری نعت گوئی پر پڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ ہجر اور وصل کو تو چھوڑ یے’ شب ِ اسرا کا دولھا‘ ‘بھی نعت میں ملے گااور وہ رب محمد بھی غم ِ ہجر میں تڑپ رہا ہے۔معاذاللہ۔‘‘(۶۵)

کشفی صاحب کے اس بیان کے حوالے سے کوکب نورانی کا بیان تھا:


’’ جناب ابوالخیر کشفی کی تحریر میں ’’شب اسرا کے دولہا‘‘ کے الفاظ ص ۴۶پر ہیں جو انھوں نے شاید (نعت میں ) معترضہ بتائے ہیں، کیا میں ایسا سمجھا ہوں یا کشفی صاحب نے واقعی معترضہ بتائے ہیں؟ اگر ان کے نزدیک معترضہ ہیں تو کیوں ہیں؟ جاننا چاہوں گا۔‘‘(۶۶)

اسی کے ساتھ کوکب نورانی نے دوسرا اعتراض کشفی صاحب کی اس عبارت پر کیا ’’ اس لیے بہت سے صاحبان ’’ اللہ ‘‘ کے لفظ پر اصرار کرتے ہیں اور خدا کے لفظ کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔ کیونکہ خدا کی جمع خداؤں استعمال ہوتی ہے۔ ‘‘کوکب نورانی کا مؤقف تھا کہ اگر لفظ خدا ،اللہ تعالیٰ کا اصل نام نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص خدا حافظ کہے تو یہ غلط بھی نہیں مگر لفظ اللہ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ جو شخص اللہ کا استعمال کرتا ہے تو اسے ثواب بھی ملتا ہے۔(۶۷) دراصل یہ اعتراض تو نہیں موافقت ہے لیکن درج اعتراض کے انداز میں ہوا ہے۔ ان کا تیسرا اعتراض اعلیٰ حضرت احمد رضا خان صاحب کے دو اشعار پر کشفی کے درج ذیل بیان سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

کعبہ دلہن ہے تربت ِ اطہر نئی دلہن

یہ رشک آفتاب وہ غیرتِ قمر کی ہے

دونوں بنیں سجیلی انیلی بنی مگر

جو پی کے پاس ہے وہ سہاگن کنور کی ہے


ان اشعار پر کشفی صاحب نے لکھا’’ یہ شاعری ایک طرف تو غزل کی روایتی انداز کی عکاس ہے تو دوسری طرف بھگتی شاعری اور ہندی عناصر بھی اس پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ آدمی اپنے دفاع میں بڑی حد تک آگے جاسکتا ہے ۔وہ وصل کے سلسلہ میں نعت اورتصوف دونوں کا سہارا لے کراسے جائز قرار دے گا۔یہ ہمیں بھی معلوم ہے کہ وصل اور وصال تعین کے اُٹھنے اور اپنی خودی کے وہم سے بے گانہ ہو جانے کو کہتے ہیں بلکہ اربابِ تصوف تو یہاں تک کہہ اٹھتے ہیں کہ ’’ واصل حق مخلوق نہیں رہتا اور مخلوق کے اثرات اس پر سے زائل ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ لیکن جسمانی یک جائی کو شب ِ اسریٰ سے ملانے کو کیا کہا جائے گا اور اگر معاملہ صرف خواہش وصل کا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب ان سے حیات طیبہ کے کس لمحہ میں دور ہا۔کاش ہمارے شاعر کو معراج کے معانی اور امکانات کا علم ہوتا۔(۶۸)

کشفی صاحب کے اس بیان پر مولانا کا اعترض تھا کہ :


’’ ص ۴۸ پرکشفی صاحب نے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ کے دو اشعار لکھے ہیں ،ان کے بارے میں بھی نہیں سمجھ سکا کہ کشفی صاحب کا اعتراض کیا ہے؟علاوہ ازیں جسمانی یک جائی اور شب اسرا کے حوالے سے کس نے کہا ہے؟ راجا رشید محمود کا جو شعر ہے اس میں بھی غالباً یہ بات نہیں ہے۔(۶۹)


کشفی صاحب کا دوسرا مضمون جس پر مولانا نے اعتراضات کے پے در پے وار کیے ’’نعت کے موضوعات ‘‘ ہے۔ یہ مضمون ’نعت رنگ‘ شمارہ نمبر ۶ میں شائع ہوا۔ غالباًکشفی صاحب نے یہ مقالہ عجلت میں تحریر کیا تھا کیونکہ وہ ان دنوں حجازِ مقدس جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اس لیے اس میں کچھ مقامات ایسے رہ گئے ہیں جنھیں وہ اپنی استادانہ مہارت سے ناقابلِ اعترض نہ بنا سکے۔ کشفی صاحب کے خیال میں اردو نعت کی روایت میں مدینہ کا تقابل جنت سے کرنے کا شعری رجحان عام ہے۔ وہ اس کے اسباب، اسلامی تعلیمات سے دوری، قرآن ناشناسی،سستی جذباتیب اور جنت کے استخفاف میں تلاش کرتے ہیں اور اس رجحان کے معاملے میں احتیاط کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ان کے اس مؤقف پر مولانا سخت گرفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کشفی صاحب نے ’’سستی جذباتیت‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو پھبتی لگے ہیں انھیں عاشقان رسول کی مدینے سے محبت کو ایسے الفاظ سے مخاطب کرنے کی بجائے مناسب الفاظ سے مخاطب کرنا چاہیے تھا۔


کشفی صاحب نے دوسرا قابل اعتراض لفظ ’کملی ‘ کے حوالے سے کیا تھا۔ ان کا بیان ہے۔:


’’یہ مدثر اور مزمل کے مرتبہء عالی کی ہندی شکل ہے۔ وہ چادر جو وحی کے بارِ گراں کو سہل بنانے کے لیے تھی اس کو بھگتی کا رنگ دے کر یہ عاشقانہ روپ دے دیا گیا ہے۔ ۔۔معاذ اللہ یہ چادرِ رسالت Vکو صوفی کی گلیم یا سادھو کی کملی سمجھتے ہیں۔ ‘‘

کشفی صاحب کے ان الفاظ کو مولانانے سخت ناپسند کیا ۔ ان کااعتراض تھا:

’’کشفی صاحب کو ایسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے جانے کیوں خیال نہیں آیا کہ صوفی اور سادھو میں مناسبت بیان کرنا اور سرکارِ دوعالم کی مبارک کملی کا بیان اس تناظر میں یوں کرنا بھی تو ادب و تعظیم کے منافی ہے۔ انھیں دوسروں کو ادب سکھاتے ہوئے خود بھی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے۔‘‘(۷۰)


کشفی صاحب کا تیسرا قابل اعتراض نکتہ گنبد خضرا سے متعلق تھا۔ ان کا خیال تھا کہ کہ گنبد خضرا کا ذکر شعرا بہت سطحی انداز میں کرتے ہیں۔ اس میں نہ استوانوں کاتذکرہ ، نہ صفہ کی علم آفرینی پر نظر، نہ مواجہ کی کیفیات کا ذکر۔۔۔وہ مواجہ جہاں گردن جھکا کر حاضری کا تصور ہی جیسے ہمارے وجود کو بدل دیتا ہے۔ مولانا نورانی کو ان جملوں میں بھی لہجہ کا درشت ہونا ناگوار گزرا انھوں نے لکھا:

’’ وہ اپنے اس درشت لہجے میں گنبدِ خضرا کا ذکر بھی کرگئے ہیں۔ کشفی صاحب وہی معنی و مفاہیم ہی کیوں معتبر جانتے ہیں جو ان کے علم و مطالعے میں ہیں؟’’اکرام مانسب بہ‘‘کے تحت انھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم سے نسبت رکھنے والی ہر شے کے بیان میں احتیاط کو فراموش نہیں کرنا چاہیے‘‘


کشفی صاحب کا چوتھا قابل اعتراض بیان مذکورہ ذیل شعر میں ’مالک‘ کے لفظ پر اعتراض تھا۔


روز جزا کے مالک و آقا تمھی تو ہو

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب


کشفی صاحب کے اعتراض کو مولانا کوکب نورانی نے خطوط میں رد کردیا۔ (۷۱)

ان کا تیسرا معرکہ ڈاکٹر سید یحٰی نشیط سے ہوا۔ یحی ٰ نشیط ’نعت رنگ ‘ کے مستقل قارئین اور مصنفین میں سے ہیں ۔ ان کی علمی وسعت اور مطالعے کی گہرائی اور گیرائی سے انکار ممکن نہیں لیکن ایک خاص نقطہء نظر کے حامل ہونے کے باوصف ان کی تحریروں میں ایسے بیانات در آئے ہیں جن پر مولانا کو گرفت کرنا پڑی۔ کشفی صاحب اور مولانا کی معرکہ آرائی کاآغاز کشفی صاحب کے مضمون ’’ اردو نعت کے موضوعات ‘‘ مشمولہ ’نعت رنگ‘ شمارہ نمبر ۵ کے جواب میں شروع ہوئی جو اعتراض در اعتراض اور جواب الجواب کی صورت میں ’نعت رنگ ‘ میںدیکھی جاسکتی ہے۔ مولانا نے تقریباً ہر مضمون کے جواب میں مولانا کا اعترض موجود ہے۔ اس کے نقوش ’نعت رنگ‘ شمارہ نمبر ۱۶ تک دیکھے جاسکتے ہیں۔(۷۲)ان کے علاوہ مولانا نے رشید وارثی، ابوسلمان شاہجہاں پوری،اکرم رضا، ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد فتح پوری، ڈاکٹر محمد حسن، عزیز احسن، پروفیسر اقبال جاوید ، ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی، ڈاکٹر سید وحید اشرف کچھوچھوی کے مضامین پر بھی اعتراضات کیے ہیں۔ احمد صغیر صدیقی اور مولانا کی نوک جھونک کے نقوش ’نعت رنگ‘ کے کئی شماروں میں بکھرے پڑے ہیں۔


ان کے علاوہآزاد فتح پوری اور ڈاکٹر یحٰی نشیط ،ریاض حسین چودھری اور ڈاکٹر اشفاق انجم، احمد صغیر صدیقی اورڈاکٹر ابوالخیر کشفی، رشید وارثی اور اٖفضال احمد انور، ڈاکٹر محمد حسن اور صابر سنبھلی، ابوالخیر کشفی اور عبدالنعیم عزیزی، جیلانی کامران اور مبین مرزاو ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے اختلافات خاص اہمیت کے حامل ہیں۔یہ اختلافات کہیں مباحث اور کہیں معرکوں کا روپ دھار لیتے ہیں ۔ ’نعت رنگ‘ کے مباحث اور معرکوں کا موضوع ایک دلچسپ موضوع ہے جو تفصیل سے دیکھے جانے کا متقاضی ہے۔

’نعت رنگ ‘ کے خطوط میں جوادبی مباحث سامنے آئے ہیں وہ مکتوب نگاروں کے ذاتی نہیں بلکہ وہ فکری مغالطوں ،تحقیقی لغزشوں یا لسانی خامیوں کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔ ان مباحث میں لہجوں کی یکسانیت کی تلاش یاکسی ایسی ہی خواہش کی تمنا بھی بے سودہے ۔ مزید براں یہ کہ اگر مباحث کا لہجہ یکساں رہتا تو بحث آگے نہ بڑھ پاتی اور نہ خطوط میں رنگا رنگی ہی پیدا ہوپائی۔ ان مباحث کی رنگا رنگی ہی دراصل خطوط کی دلچسپی اور خوبصورتی کا باعث ہے۔ ان مباحث میں کبھی لہجے کی رو بلند آہنگ ہو کرکثافت کی صورت اختیار کر گئی ہے تو کبھی دھیمی ہوکر لطافت کااحساس دلاگئی ہے،انھیں دونوں رنگوں کے تال میل سے مباحث کے تانے بانے تشکیل پاکر’ نعت رنگ ‘ کی خوبصورتی کا باعث بنے ہیں ۔ یہ خطوط ارباب دانش و فکر کے ان افکار و خیالات کارد عمل ہیں جو تحریری صورت میں ’نعت رنگ ‘ کے صفحات پر جلوہ گر ہوئے ۔ یہ مباحث ہردو صورت میں نعت کے فکری اور تخلیقی مزاج کو سنوارنے اور نکھارنے کا باعث بنے ہیں۔ ان مباحث کی وجہ سے تخلیقِ نعت اور تنقید ِنعت اس نئے عہد سے روشناس ہوئی جو ’نعت رنگ‘ کی دین ہے۔


تخلیق ،تحقیق یا تنقید سے کسی بھی طور استفادہ معیوب نہیں ہوتا لیکن جب کسی کا خیال ،نقطہء نظر، نظریہ، فکر ،تحقیق یا تجزیہ اپنی جھولی میں ڈال کر اپنا بنا لیا جائے تو اسے ادبی خیانت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔شاعری میں یہ اثرات بہت زیادہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ ان نقوش و اثرات کا سراغ صرف اردو شاعری میں ہی لگایا جائے تو تصانیف کی کئی جلدیں مرتب کی جاسکتی ہیں۔ مصنفوں یا تخلیق کاروں کی تحریروں میں خیال کا اشتراک دو طرح سے سامنے آتا ہے۔ایک تواردکی صورت میں اور دوسرا سرقہ کی صورت میں۔اول الذکر مستحسن اور ثانی الذکر غیر مستحسن شمار کیا جاتا ہے۔ ثانی الذکر کے حوالے سے تحقیق و تفتیش کی بساط بچھائی جائے تو کسی نہ کسی طرح اور کسی نہ کسی سطح پر ہر فرد اس کا شکار نظر آتا ہے۔ غالب جیسا جینئس بھی جب پکڑا جاتا ہے تو یہ کہہ کر کہ متقدم شعرا نے اس کا خیال چرا لیا تھا، عذر لنگ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔(۷۳)

یہ تو صرف شاعری کا معاملہ ہوا ۔تحقیق و تنقید میں بھی سرقے کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔اس حوالے سے شعبہء تصنیف و تالیف جامعہ کراچی نے ’چہ دلاور است‘ کے نام سے ’جریدہ‘کا شمارہ مرتب کیا ہے جس میں مشرق و مغرب کی سرقہ بازی کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ سرقہ تو ایک طرف رہا۔ ادبی ڈاکہ زنی کی بھی ایک دلچسپ اورحیرت انگیزتاریخ موجود ہے۔سینکڑوں سالوں سے غیروں کا مال ہتھیا کر اپنا بنایا جاتا رہا ہے۔ کبھی حیلے بہانوں سے ، کبھی دھونس دھاندلی سے ،کبھی جاہ و ثروت کا لالچ دے کر اور کبھی مشترکہ کاوش کا چکمہ دے کر۔قدیم زمانے میں جب پرنٹنگ پریس ایجاد نہیںہوا تھا یا اس تک دسترس آسان نہ تھی اور کتاب کی اشاعت خاصا دشوار معاملہ ہوا کرتا تھا ،ایسے موسموںمیں کتابوں کی چوری اور ڈاکہ زنی معمول بن چکی تھی۔ اہل علم کی تصانیف کو ہتھیا کر اپنے نام سے مشہور یا شائع کروا دینا عام بات بن گئی تھی۔ میر غلام علی آزاد بلگرامی کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔انھوں نے اپنی مشہور کتاب ’ید بیضا‘ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ انھوں نے کئی سالوں کی محنت کے بعد متقدمین شعرا کے حالات پر مشتمل ایک تذکرہ ترتیب دیا اور اس کی کئی نقول احباب میں تقسیم کیں۔اسی دوران انھیں حرمین شریفین کا سفر درپیش ہوا ۔ کچھ عرصہ بعدوہ جب واپس آئے تو انھیں معلوم ہواکہ بنارس کے ایک شخص نے میدان خالی پا کر ان کے تذکرے کو اپنے نام سے موسوم کرلیا ہے اور اس کی کئی نقلیں کروا کر مختلف شہروں میں بھیج دی ہیں۔(۷۴)

ایسے ہی کئی واقعات ڈاکٹرخلیق انجم نے اپنی تصنیف ’متنی تنقید‘ میں پیش کیے ہیں۔ شیخ علی ہجویری معروف بہ داتا گنج بخش سے یہ واقعہ منسو ب ہے کہ ان کے دیوان کی صرف ایک ہی نقل موجود تھی ۔کسی شخص نے مطالعے کے لیے یہ دیوان مستعا ر مانگا اورکچھ دن بعد تخلص بدل کر اس دیوان کو اپنے نام سے مشہور کر دیا۔ اسی طرح منہاج الدین نامی ایک شخص نے بھی ان پر ایسا ہی ستم کیا تھا۔ تصوف سے متعلق ان کی ایک تالیف اپنے نام سے منسوب کر لی تھی ۔(۷۵)


ڈاکہ زنی کی یہ روایت قدیم ادوار ہی کا حصہ نہیں رہی ۔موجود دور میں بھی یہ روایت اپنی پوری آب و تاب سے روشن ہے۔موجودہ دور میں جس طرح بہت سے معائب نے محاسن کا روپ دھار لیا ہے بالکل اسی طرح متذکرہ بالاادبی خیانت نے مہذب شکل اختیار کر لی ہے۔ مختلف شعبہ جات میں دوسروں کی اگائی ہوئی فصلوں کو اپنی حرص و آز کی قینچیوں سے کاٹ کاٹ کر اپنی تحقیق و تنقید کا پیٹ بھراجا رہا ہے۔اب یہ رواج اس حد تک فروغ پا چکا ہے کہ اس میں نہ شرمندگی محسوس ہوتی ہے نہ اسے جرم خیال کیا جاتا ہے۔ ادبی رسائل ، مجلات اورمحفلوں میں بھی اس طرح کے بے شمار واقعات آئے دن پڑھنے اورسننے میں آتے ہیں کہ فلاں مدیر نے فلاں شخص کا مقالہ اپنے یا اپنے کسی دوست کے نام سے شائع کر لیا اور صاحبِ مقالہ خالی ہاتھوں منہ تکتا رہ گیا۔ یہ دست درازی مضامین اور مقالات تک ہی محدود نہیں ادیبوں کی برسوں کی کمائی پر بھی دیدہ دلیری سے ہاتھ صاف کر لیا جاتا ہے۔اسی طرح کی ادبی صورت حال کا سامنا ’نعت رنگ‘ کے ایک معروف مقالہ نگار جناب شفقت رضوی کے ساتھ بھی پیش آیا۔ایک خط کا اقتباس پیش کیا جاتا ہے ۔ جس سے موجود دور کی ادبی صورت حال پر بلیغ روشنی پڑتی ہے۔


’’بعد تسلیمات یہ حقیر و کم ترین قلم بردار اپنے چاہنے والوں اور ناچاہنے والوں کی خدمت میں اس کے ذریعہ بقائمی ہوش و حواس، بلا جبر و اکرہ، حالت ذہنی صحت میں برضا و رغبت تحریر کرتا ہے کہ ساٹھ سال قلم گھسنے کے بعد چند زخم اور چند داغ لیے ادبی دنیا سے رخصت ہوتا ہوں۔ میں لکھنے کے عمل سے تائب ہوچکا۔ یکم جون ۲۰۰۱ء کے بعد لائق اشاعت علمی یا ادبی تحریر سے گریز کروںگا۔ البتہ سابق میں جس اندوختہ پر میرے ’’کرم فرمائوں‘‘ نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اس پر میرا کوئی حق نہیں ہوگا، وہ چاہے چھاپیں نہ چاہیں نہ چھاپیں۔ چاہے میرے نام سے میری تحریریں چھاپیں یا اپنے سے کم ترجیحوں کے ناموں کو ترجیح دیں، مجھے اعتراض نہ ہوگا۔ ماقبل بھی لوگوں نے میری چھ کتابیں اپنے نام سے چھپوا لیں تو میں نے کیا بگاڑ لیا جو اب بگاڑ[لوں گا]۔ ایک کتاب لاہور کے ایک ناشر کے پاس عرصہ چار سال سے ہے۔ ایک مسودہ کراچی سوپر مارکیٹ کے تہہ خانے میں عرصہ ساڑھے چار سال سے بند ہے ۔ایک مسودہ حیدرآباد سندھ کے ایک پبلشر کے پاس ہے۔ ان کے خلاف ایک ۷۵سالہ بوڑھا ریٹائرڈ پروفیسر کیا اقدام کرسکتا ہے یہاں تو ان کا اُلّو بولتا ہے جن کا علم ’’حرفِ چند‘‘ سے ماسوا اور وہ افلاطون، سقراط اور بقراط کے استاد بنے شہرت اور سونے بٹور رہے ہیں۔ جاہلوں کی قدردانی ناشروں کی بے بسی ایڈیٹر کی جہالت کو دیکھتے ہوئے شرفا اپنی عزت اسی طرح بجا سکتے ہیں کہ ’’کتا شاہی‘‘ ریس سے خود کو دُور رکھیں۔‘‘(۷۶)


ادبی اورمعاشرتی زوال نے جس برے طریقے سے ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔اِس کی مذکورہ ذیل اقتباسات میں کس خوبصورتی سے ترجمانی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے دو اقتباس اور ملاحظہ فرمائیے ۔


(۱) ’’ اب تو حد ہوگئی۔ میں نے حسرت موہانی کی نثرنگاری پر ایک مسودہ روانہ کیا تھا۔ کئی سال ہوئے وصولی کے خط کے ساتھ اس وقت کے ڈائریکٹر نے اشاعت کی یقین دہانی کرائی۔ عرصہ گزر گیا حال معلوم نہ ہوا۔ ابوسلمان صاحب انڈیا گئے تھے خدابخش لائبریری کی بھی زیارت کی۔ ڈائریکٹر صاحب نے میری کتاب اور ان کی کتابوں کی اشاعت کا یقین دلایا۔ وہ صاحب چلے گئے نئے صاحب ... کسی استفسار کا جواب نہیں دیتے اب اگر ماں بہن کو گننے پر آمادہ نہ ہوں تو میں کیا کروں۔ یہی حرکت بار بار ہوچکی ہے ایک بار ڈاکٹر وحید قریشی نے ’’صحیفہ‘‘ کے لیے مضمون چھاپنے کی اطلاع[کذا] وہ بدل گئے۔ احمد ندیم قاسمی مجلس پر مسلط ہوئے، مسودہ ہضم کردیا۔ بزمِ اقبال لاہور نے ایک مضمون چھاپنے کے لیے لکھا نئے ڈاکٹر کوئی ... ذوالفقار آئے ابو سلمان سے کہا مسودہ بہت پُرانا ہے اب کیا اہمیت! یعنی تحقیق نئی باتوں کی ہونی چاہیے پُرانی باتوں کی نہیں۔‘‘(۷۷)


(۲) ’’یہ تبصرہ جو نوکِ قلم پر بے اختیا رانہ آگیا یہ میرے اورتمہارے درمیان کا معاملہ ہے ۔اسے عام کرنے کی ضرورت نہیں ۔مظفر وارثی کینہ پرور آدمی نکلے ۔اُن سے وہ اعزازہضم نہیں ہوا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے اُن کو بخشاتھا۔ نعت جیسی صنف کے مصنف کا ایسی پست سطح پر اترنا عجیب سا لگتا ہے۔ اخلاقیات کے موضوع پر بیسیوں اشعار کہنے والا شاعر اسقدر رکیک لہجہ اختیار کرے گا اس کا کبھی گمان بھی نہیں ہوا تھا ۔(۷۸)

مندرجہ بالا دونوں اقتباسات ہماری ادبی صورت حال کی بے رحم عکاسی ہی نہیں کر رہے،بہت سے شرفا کے مقدس چہروں پر پڑے ہوئے پردوں کو بھی نوچ رہے ہیں۔


ویسے تو ہرزبان کا ادب تعصبات سے بالا تر ہوتا ہے اور امن کی کوششو ں میں اہم کردار ادار کرتا ہے لیکن آج کے پرفتن دور میں دہشت گردی نے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اسلام کو دہشت اور خوف کی علامت بناکر پیش کیا جا رہا ہے ۔ آزاد خیالی اور آزادیِ اظہار کی آڑ میں مذہب اسلام اور شعائر اسلام کی تضحیک معمول بن چکی ہے۔ ہر طرف خوف ،دہشت ،ظلم،زیادتی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔فرقہ پرستی ، رنگ، نسل، زبان کی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کا عمل جاری ہے۔اقربا پروری، رشوت ستانی، چور بازاری، منافقت،جہالت ،خود غرضی اور مفاد پرستی نے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ ایسی صورت حال میں نعت ایک ایسی ادبی صنف کے طور پر سامنے آسکتی ہے جو تہذیبی مغائرت ، متعصبانہ رویوں اور مذہبی مناقشوںکو ختم کر کے ملی ہم آہنگی اورمذہبی رواداری کی فضا پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔اس کے لیے نعت کو بھرپور انداز میں بروئے کار لایاجاسکتا ہے۔ سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو تخلیق کا حصہ بنا کر ذریعہء ابلاغ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ نعت کو فضائل وبرکات کے دائرے سے باہر نکال کر معاشرتی اصلاح کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے اور سیرت طیبہ کے ان نقوش کو نعت کا حصہ بناناچاہیے جن سے معاشرے میں برداشت ، حوصلے اور کشادہ دلی کی فضا ہموار ہو تاکہ مسلمانوں میں نفرت کی بڑھتی ہوئی خلیج کو ختم کیا جا سکے۔ اس طرح نعت سے سماجی شعور بیدار کرنے میں مدد ملے گی اور ہمارے معاشرتی رویوں میں تبدیلیوں سے اسلام اور مسلمانوں کا وہ روپ سامنے آئے گا جو بین المسلمین بھی قابل قبول ہو گا اور بین الاقوام بھی۔ مجلہ ’نعت رنگ‘ یہ کردار بخوبی ادا کر رہا ہے اور مستقبل میں بھی اس سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔اس میں نہ کسی خوش گمانی کا دخل ہے نہ نری جذباتیت کا عمل بلکہ ’نعت رنگ ‘ کی پالیسیاں ،رویے اور روایت اس کے غماز ہیں۔اس حوالے سے مدیر’ نعت رنگ‘ ایک اداریے کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے:


’’ایک ایسے ماحول میں جہاں مذہب سے جڑی ہوئی اصناف پر گفتگو کے دروازے صرف خوفِ فسادِ خلق سے بند ہوں وہاں حمدونعت کے ادبی پہلوؤں پر شریعت کے حوالے سے اپنا نقطہء نظر جرات ،بے خوفی اور استدلال سے پیش کرنا اور پھر اس بات پر مختلف نقطہ ہاے نظر کے تناظر میں ہونے والے اعتراضات و اختلافات کو حوصلے اور تحمل سے سننا اور برداشت کرنا صرف اس لیے کہ نعت پر ادبی مباحث کے در کھلے رہیں اور صدیوں سے بند اس ایوان میں تازہ ہوا کے جھونکے آتے رہیں تاکہ ہمیں نعت کی علمی ،ادبی ،تہذیبی، جہات کا علم ہو اور ہم اس کے آداب کا شعور حاصل کر کے نعت کی حقیقی قوت کو جان سکیں اور اسے بروئے کار لا کر ایک مثالی معاشرے کی تعمیر کر سکیں۔یہ کوئی معمولی بات نہیں اور نہ ہمیں اس سے پہلے اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔ ‘‘(۷۹)

دورِ حاضر میں سرکاری ادارے بھی مجلات شایع کررہے ہیں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی بھاری مالی امداد کے سہارے رینگنے والے مجلات کی بھی کمی نہیں لیکن اس کے باوجود اُن میں شایع ہونے والے مقالات کا معیار روز بروز گرتا ہی چلا جارہا ہے۔تحقیق کے نام پر جو کچھ لکھا جارہا ہے اسے ہماری ادبی تاریخ کے المیے سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا لیکن دوسری طرف ’نعت رنگ‘ کو نہ سرکاری سرپرستی حاصل ہے اور نہ ہی ہائرایجوکیشن کی مالی بیساکھیاں۔پھر بھی یہ مجلہ بے نیازی کی شان لیے اپنے معیار کوروز بروز بڑھانے میں مصروف عمل ہے اورقابل تحسین بات یہ ہے کہ اس کا حجم بھی معاصر مجلوں سے ضخیم تر ہوتاجا رہاہے۔اس صورتِ حال میں ’نعت رنگ ‘ کا ادبی کردار دیگر مجلات کے لیے ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔


ادبی مجلے شایع ہوتے رہے ہیں ۔آج بھی شایع ہو رہے ہیں۔ان مجلوں کے اداریے ملاحظہ فرمائیے۔بیشتر اداریوں میں مدیر حضرات ،مقالہ نگاروں کی بے توجہی، بے اعتنائی اورعدم دستیابی کا رونا روتے نظر آتے ہیں توکوئی اشاعت کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے نوحہ کناں ہے۔کوئی خریداروں کے رویوںکا شاکی ہے تو کوئی قارئین کی گم شدگی کا اعلان کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ادبی مجلے تو ایک طرف رہے نعت کے فروغ میں جاری ہونے والے مجلے بھی اسی صورت ِ حال سے دوچار رہے۔ ماہنامہ ’نعت ‘ جنوری ۱۹۸۸ء میں لاہور سے جاری ہوا تو اس کے پہلے شمارے کے ادریے کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

’’ماہنامہ ’نعت ‘ اپنی علمی و مالی بے بضاعتی کے شدید احساس لیکن فروغ نعت کی بھرپور خواہش کے جلو میں شروع کیا جارہا ہے۔ یہ نعت سے محبت رکھنے والوں کا بھی امتحان ہے ۔دیکھیے ہم سب اس متحان میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔‘‘(۸۰)


رسالے کے مدیر کا بیان بین السطور وہ سب کچھ کہہ رہا ہے جس کا درج بالا سطور میں اظہار ہو چکا ہے ۔ ’نعت رنگ‘ کے اداریے اس طرح کی صورت حال سے کوسوں دور ہیں۔ ان میں نہ شکوہ شکایت نظر آتا ہے نہ مایوسیاں،نہ مقالہ نگاروں کی تلاش کی فکر نہ مجلے کی ضخامت کا مسئلہ۔ (۸۱)اگر کچھ ہے تووہ فقط نعت کے فروغ کی فکر مندی۔


نعت رنگ‘ ایک ایسا ادبی مجلہ ہے جو فروغ نعت میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس مجلے میں نعت کے حوالے سے مختلف موضوعات اور جہتوں پر اشاعت کا سلسلہ جاری ہے ۔ نعت گوئی کے آداب، شرائط ، تقاضے، حفظ مراتب، واقعات اور روایات کی صحت و صداقت کے حوالے سے مباحث، تہذیبی اور ثقافتی حوالے سے نعتیہ ادب کا ابلاغ جدید اردو نعت کی نئی جہتوںکی دریافت، نعت کے نئے نئے پیرایہء اظہار، نعت گو شعرا کے احوال و آثار، نعتیہ کتب ، دواوین پر تبصرہ و تنقید،نعتیہ کلیات ،گل دستوں اور انتخاب کا تعارف وغیرہ جیسے ان گنت موضوعات ’نعت رنگ‘ کی ادبی قدروقیمت کو بھی بڑھا رہے ہیں اور گیسوئے نعت بھی سنوار رہے ہیں۔ ’نعت رنگ‘ نعت کے حوالے سے سوچ اور فکر کے نئے نئے آفاق کی تلاش و جستجو میں مصروف عمل ہے۔ نعت کی تفہیم و تنقید میں ادب کے جملہ پہلوؤں کو بروئے کار لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ قدیم و جدید افکار اور دبستانِ تنقید کا سہارا لیا جارہا ہے۔غرض یہ کہ تفہیم ِنعت اور تنقید ِ نعت کے حوالے سے سنجیدگی سے غورو خوض کیا جا رہا ہے۔


مکتوب نگاری کی روایت کی ایک جہت ادبی رسایل میں دیکھی جا سکتی ہے۔ تمام ادبی رسایل تو نہیں لیکن کثیر تعداد میں ایسے رسایل شائع ہوتے رہے ہیں (اور آج بھی شایع ہو رہے ہیں) جن میں اہلِ علم کے خطوط شایع ہوا کرتے تھے۔ان کو شمار میں لایا جائے تو ان رسایل کی تعداد بھی سوکا ہندسہ آسانی سے پورا کر سکتی ہے ۔ایسے رسائل و جرائد میں عوام اور خواص دونوں کے خطوط اشاعت کے مرحلوں سے گزرتے رہے ہیں لیکن معروف قلم کاروں کے خطوط کو ہمیشہ خصوصی توجہ حاصل رہی ہے۔کیونکہ ان کے خطوط علم و ادب، تحقیق و تنقید اور معاصر رجحانات و تحریکات کے حوالے سے دلچسپی کا باعث بھی ہواکرتے تھے اور افادیت کے حامل بھی اور ساتھ ہی ادب کی سمت نمائی کا فریضہ بھی ادا کرتے تھے۔ کم وبیش تمام رسائل میں شائع ہونے والے خطوط کا دائرہ ادب کی کسی ایک جہت یا پہلو کو محیط نہیں ہوتا بلکہ ہر خط ادب کے کسی پہلو کو روشن کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اردو کا شاید ہی کوئی ایسا ادبی رسالہ موجود ہو جس میں ادب کے کسی ایک ہی پہلو پر خطوط شایع ہوئے ہوں یا کسی ایک صنف ادب سے متعلق خطوط لکھے جاتے رہے ہوں اور انھیں شایع بھی کیا جاتارہا ہو۔

نعت رنگ ‘ غالباً وہ واحد ادبی مجلہ ہے جس میں صرف ایک ادبی صنف یعنی نعت کو مرکزبنا کر خطوط لکھے جاتے ہیں۔ ’نعت رنگ ‘ کے اب تک اٹھائیس شمارے شایع ہو چکے ہیں۔ ان شماروں میں پانچ سو سے زائد خطوط شائع کیے جا چکے ہیں۔ ان میں چند سطری خطوط بھی شامل ہیں اور کئی کئی صفحات پر مشتمل مقالات نما خطوط بھی ۔ان میں سب سے طویل خط مولانا کوکب نورانی کا ہے جو کم و بیش سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اردو کا کوئی مجلہ ایسا نہیں جس میں اتنا طویل خط شائع ہوا ہو۔ یہ فراخ حوصلگی ’ نعت رنگ ‘ کے حصے میں ہی آئی ہے۔ ’نعت رنگ ‘ میں شائع ہونے والے تمام خطوط کا موضوع صرف نعت ہے اوراسی موضوع کو پیش ِ نظر رکھ کر مدیر نعت رنگ کو خطوط لکھے جاتے رہے۔ چنانچہ تمام خطوط کا دائرہ نعت کی تحقیق، تنقید، موضوعات، اسالیب ، تاریخ، تقاضے ،روایت اور مسائل کو محیط ہے۔

نعت رنگ ‘ میں شایع ہونے والے خطوط کو ڈاکٹر سہیل شفیق نے نہایت سلیقے اور محنت سے ترتیب دے کر ’نعت نامے ‘ کے نام سے ایک ضخیم کتابی صورت میں شایع بھی کر دیا ہے۔(۸۲)۹۳۶ صفحات کی یہ کتاب مذہب، تہذیب ،تاریخ،علم، ادب، تحقیق اور تنقید کاایک لازوال خزینہ ہے۔ اس کتاب میں ’نعت رنگ ‘ کے پچیس شماروں میں شایع ہونے والے خطوط شامل ہیں۔اس کتاب میں کوکب نورانی کے ’نعت رنگ ‘ میں شائع شدہ خطوط شامل نہیں۔ وہ تمام خطوط علیحدہ ایک کتابی صورت میں ’نعت اور آدابِ نعت‘ کے نام سے شایع ہو چکے ہیں۔(۸۳)’نعت نامے‘ کی اشاعت کے بعد سے ’نعت رنگ ‘ کے تین شمارے ۲۶،۲۷،اور ،۲۸شائع ہو چکے ہیں۔ اس کتاب میں مذکورہ دونوں کتابوں اور ۲۶،۲۷،اور ۲۸ویں شمارے میں شامل خطوط کو پیش نظر رکھ کر نعت کے حوالے سے اہل علم و دانش کے جواہرات اکٹھے کیے گئے ہیں اور اب یہ جواہرات ’نعت رنگ ‘ کے بھرے ہوئے دامن سے سمیٹ کر قارئین کی جھولیوں میں ڈالے جارہے ہیں۔


نعت رنگ  میں شائع ہونے والے خطوط کا دورانیہ ۱۹۹۵ء سے ۲۰۱۸ء تک پھیلا ہوا ہے ،تقریباً ۲۳سالوں پر محیط خطوط اپنے جلو میں علم وادب کا گنج ہائے گراںمایہ رکھتے ہیں ۔ ’نعت رنگ ‘ میں کم و بیش دو سو مکتوب نگاروں کے ساڑھے پانچ سو کے لگ بھگ خطو ط شائع ہوئے ہیں۔ یہ صرف خطوط نہیں ہیں نہ مکتوب نگاروں  کے مدیر سے روابطِ محض کے عکاس بلکہ یہ مکتوب نگاروں کے حالات، خیالات، احساسات،تاثرات، افکار،نظریات، تجربات، واردات، تحقیقات، تنقیدات اور علم وادب کا ایک خزانہ بھی ہیں اور اپنے عہد کی ادبی صورت حال کے عکاس بھی ۔ یہ خطوط ’نعت رنگ ‘ کے ارتقا کو سمجھنے میں بھی مدد دیتے ہیں اور مدیر’ نعت رنگ ‘ کی شب و روز کاوشوں کے شاہد بھی۔ یہ نعت کی ادبی تاریخ بھی پیش کرتے ہیں اور ’نعت رنگ ‘ کی تاریخ بھی ۔

۲۳ سال کے مختصرعرصے میں نعت رنگ میں تخلیق اور تنقید و تحقیق کے بے شمار رنگ سامنے آئے ہیں۔جس طرح اٹھارویں صدی کا نصف آخر شمالی ہند کے شعرو ادب کے مختلف رنگوں سے ایسی کہکشاں کی صورت تشکیل پا چکا تھا جسے میر و سودا کا زریں دور کہا جاتا ہے بالکل اسی طرح ان تین دہائیوں میں صنف نعت کی تخلیق اور تحقیق و تنقید کی پھوٹتی کرنوں سے نعت کی ایسی قوس ِ قزح وجود میں آئی جسے نعت کا زریں دور کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔

 مدیر نعت رنگ کے نام لکھے گئے خطوط کا دامن خاصا وسیع ہے۔ ان میں ادبی نوعیت کے خطوط بھی ہیںاور مذہبی نوعیت کے حامل خطوط بھی ،لسانی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے خطوط بھی ہیں اورتجزیاتی اوصاف کے حامل خطوط بھی، تحقیقات سے بھرپور خطوط بھی موجود ہیں اور رسیدی اور تعارفی نوعیت کے حامل خطوط بھی۔ان خطوط میں شکوے شکایتیں بھی ہیں اور محبتیں اور خلوص بھی، انسانی نفسیات کے پیچ و خم بھی ہیں اور نجی پریشانیوں کا بیانِ غم بھی، تجربات و احساسات کاتخلیقی  اظہار بھی ہے اور ذاتی واردات و مشاہدات کا بے ساختہ بیان بھی۔زبان وبیان کی آرائش بھی ہے اور سادگی اورسلاست کا اظہار بھی ، اظہار کی بے تکلفی بھی ہے اور اندازِ بیان کی شگفتگی بھی، طنز کے گہرے وار بھی ہیں اور شوخیِ گفتار کے نمونے بھی۔ غرض یہ کہ ان خطوط میں زندگی کے گوناں گوں رنگوں کی طرح ہر رنگ موجود ہے اور ہر رنگ اپنی پوری آب و تاب سے ’نعت رنگ ‘ کو منور کر رہا ہے۔

زندگی کے رنگوں کی طرح خطوط بھی متنوع رنگوں کے حامل ہوتے ہیں ۔ ان تمام رنگوں میں سب سے اہم رنگ شخصی ہوتا ہے اور یہی رنگ بعض اوقات خطوط کو خوبصورت بنا کر دلچسپی سے پڑھنے کی چیز بنا دیتا ہے۔غالب کے خطوط کی اہم خوبی اس کا شخصی عنصرہی ہے۔غالب کے خطوط میں ان کی شخصیت اپنے تمام و کمال رنگوں کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہے۔ ان خطوط میں غالبؔ کی زندگی ہنستی مسکراتی ، بولتی چالتی اور چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ اسی عنصر نے ان کے خطوط کو حیات د وام سے ہم کنارکر کے شہرت اور بقائے دوام کے دربار میں مسند نشین کیا ہے۔ غالب ؔہی نہیں غالبؔ کے معاصرین اور متاخرین کے جن خطوط میں زندگی کی حرارت موجود ہے وہی خطوط اہمیت کے حامل قرار پائے ہیں۔ شبلیؔ کے خطوط ہوں یا اکبرؔ کے، اقبالؔ کے خطوط ہوں یاجوشؔ کے ان تمام خطوط میں جب اور جہاں زندگی حرکت کرتی ہوئی نظر آئی ہے وہیں ان ادیبوں کے خطوط خصوصی توجہ سے پڑھنے کی چیز بن گئے ہیں۔

اردو خطوط نگاری کو غالبؔ کی سب سے بڑی دین مراسلے کو مکالمے کی صورت میں منقلب کرنا تھا جس کے باعث خطوط جوایک غیر شخصی چیز تھی ، وہ شخصی بن گئی۔غالب ؔکا یہ انداز بہت کم مکتوب نگاروں نے برتا ہے۔ اسی انداز کے نقوش ’نعت رنگ ’ میں کہیں گہرے اور کہیں ہلکے دیکھے جا سکتے ہیں۔’نعت رنگ ‘ میں شخصی عنصر اور مکالماتی عنصر دونوں موجود ہیں۔ یہ عنصر کہیں مکالمے کی صورت میں اور کہیں قلبی واردات کے بیان میں اور کہیں شخصیت کے اظہار میں سامنے آیاہے۔مکالمہ کہیں’ نعت رنگ ‘ کے مدیر سے کیا گیا ہے تو کہیں مقالہ نگار سے ، کہیں نعت گو شعرا مخاطب ہیں تو کہیں عام قارئین لیکن ’ نعت رنگ ‘ کے خطوط میں غالبؔ کا سا یکساں رنگ مفقودنظر آتا ہے چونکہ یہ مختلف المزاج شخصیات کے ایسے خطوط ہیں جو مختلف مکاتب ِفکر ، مختلف علاقوں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں ، اس لیے ان خطو ط میں یکساں شخصی عنصر کی یکسانیت اور یکساں لہجے کے اظہار کی بجائے متنوع پیرایہء اظہاراور مختلف اسالیب اپنا اپنا الگ ،منفرد اور مخصوص رنگ دکھا رہے ہیں۔ ’نعت رنگ ‘ کے خطوط میں متنوع اسالیب کی رنگا رنگی نظر آتی ہے۔ان خطوط میں کہیں اصول وضوابط کاتازیانہ لیے سخت گیر نقادمحو کلام ہے تو کہیں لطافت ِ زبان کی دلکشی لیے مشفق و مہربان استاد،کہیں صداقت کی خنکی لیے خشک محقق جلوہ گر ہے تو کہیںمنطق کے بوجھ تلے دبا ہوا زاہد خشک ملا،کہیں تخئیل کے پروں کے سہارے محو ِ پرواز تخلیق کار اور کہیں فکشن کا انداز لیے بے رحم حقیقت نگار۔غرض یہ کہ ’نعت رنگ ‘ میں مکتوبات اور مکتوب نگاروں کے متنوع اسالیب کا رنگا رنگ ایک جہان آباد ہے جو اپنی اپنی شان لیے ’نعت رنگ ‘ کے شعبہء مراسلات کو رنگوں سے مزین کر رہا ہے۔


نعت رنگ ‘ کے خطوط کا دائرہ کافی وسیع ہے۔بیشترخطوط تو مقصد کے جبر میں جکڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے غیر شخصی رنگ لیے ہوئے ہیں۔اس لیے ان خطوط میں شخصی عناصر تلاشنا بے سود ہے لیکن کم تر خطوط ایسے بھی ہیں جن کے نہاں خانوں سے زندگی جھانکتی اور کروٹیں لیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ان خطوط سے مکتوب نگاروں کی شخصی واردات اور نفسی کیفیات کی عکاسی ہوتی ہے ۔یہ خطوط ان شخصیات کے تحریر کردہ ہیںجو مدیر’ نعت رنگ ‘ سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ ان خطوط کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے گویا مکتوب نگاروں نے اپنے دل کھول کر ان خطوط کی طشتریوں میں رکھ دیے ہیں ۔ خلوص کا ایک لازوال رشتہ ہے جو مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے درمیان محبت کے رشتے سے جڑا ہوا ہے۔ ان کے دلوں سے نکلنے والی آواز اگرچہ لفظوں کے قفس میں مقید ہے لیکن ہم انھیں گوشِ دل سے سن بھی سکتے ہیں اور محسوس بھی کرسکتے ہیںگویا احساسات اور کیفیات لفظوں کا روپ دھار کر ’نعت رنگ ‘ کے صفحات پر بکھری زندگی کا پتا دے رہی ہیں۔


خطوط میں شخصی رنگ اس وقت در آتا ہے جب مکتوب نگار ،مکتوب الیہ سے دل کی زبان سے گفتگو کرتاہے۔مکتوب نگار کا مکتوب الیہ سے ذہن کا نہیں دل کا رشتہ ہو ، بے تکلفی نے دل میں جگہ بنائی ہوئی ہو،حجاب کا پردہ حائل نہ ہوا ہو۔ایسے مواقع پر مکتوب نگار اپنی شخصیت پر پڑے ہوئے دبیز پردوں کوبلاجھجھک اور بے خوف و خطر اٹھاتا چلا جاتا ہے ۔ایسے عالم میں زندگی کو ا س کے اصلی روپ میں دیکھا جاسکتا ہے۔خط جسے گفتگو کرنا یا باتیں کرنا کہتے ہیں،وہ حنیف اسعدیکے خطوط کی بنیادی خصوصیت ہے۔ ان مکاتیب میں مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے درمیان محبت اور خلوص کی ایسی داستان رقم ہو گئی ہے جو اپنے اندر بے پناہ اپنائیت بھی رکھتی ہے اور گہری اثریت بھی۔


حنیف اسعدیکے خطو ط ایسے ہی خطوط ہیں جن میں دھڑکتے ہوئے دلوں کی صدائیں سنی جاسکتی ہیں،دل پر گزرتی ہوئی واردات کو دیکھا جاسکتا ہے۔یہ خطوط اپنائیت ، محبت، خلوص اور بے تکلفی سے معمور ہیں۔ان خطوط سے محبت اور خلوص کا ایک چشمہ پھوٹتا ہوا نظر آتا ہے جس کا مرکز ان کا اپنا دل ہے ۔جس کے نہاں خانے میں یہ صبیح رحمانی کو اترنے کی دعوت دیتے رہتے ہیں کہ وہ اس کھلی کتاب کوچشم ِ دل سے پڑھ بھی لیں اور ان کی تنہائیوں میں شریک ہو کر ان کے دکھوں کا مداوا بھی کر سکیں۔ان کے خطوط کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کے قلم سے لفظ نہیں نکل رہے ،محبت کی شیرینی ٹپک رہی ہے۔ یہ مراسلے نہیں مکالمے ہیں، یہ خط نہیں گفتگو ہے ۔اس میں نہ سخن کا پردہ حائل ہے نہ خیالات کی ریاکاری۔ہر لفظ اور ہر جملے سے خلوص اور محبت کا میٹھا میٹھا رس رِستا ہوا نظر آتا ہے۔  غالبؔ نے ایک خط میں اپنے عزیز شاگرد اور دوست مرزا ہر گوپال تفتہ کو لکھا تھا:

’’ میں اس تنہائی میں صرف خطوط کے بھروسے پر جیتا ہوں یعنی جس کا خط آیا،میں نے جانا کہ وہ شخص تشریف لایا۔ ۔ ۔ دن ان (خطوط) کے پڑھنے اور جواب لکھنے میں گزر جاتا ہے۔‘‘ (۸۴)

غالبؔ کی اس تحریر پر مجھے حنیف اسعدیکی تحریر کاگمان ہوتا ہے ۔ڈھلتی عمر کا جو سناٹا ہمیں غالب  کے اس خط میں سنائی دیتا ہے ،وہی سناٹا حنیف اسعدیکے خطوط میں دیکھا جا سکتا ہے۔ حنیف اسعدیاسی سناٹے کو جذبات اور الفاظ کی گونج سے دبانے کی کوشش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے خطوط سے درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

اس وقت رات کا ایک بجنے کو ہے ۔نیند تو...........

نیند کیا جانے کہاں جا سوئی

نیند آ جائے تو ہم بھی سولیں

ساری رات کروٹیں بدلتے گزر جاتی ہے صبح کے قریب سوتا ہوں اور پھر دس، ساڑھے دس بجے اٹھتا ہوں ۔پھر اس کمی کو دوپہر میں پورا کرلیتاہوں(۸۵)

۵؍ ستمبر کو پھر دل کا دورہ پڑا ۔ہلکا تھا اس لئے بے غیرت زندگی مزید بے غیرتی کے لیے بچ گئی ۔علاج جاری ہے۔ فائدہ بھی ہے مگر آہستہ آہستہ بہتر ہورہا ہوں ۔کمزور ہو گیا ہوں اور روز بروز کمزوری بڑھ رہی ہے۔ غذا کم ہو گئی ہے مگر معمولات زندگی میں فرق نہیں ۔ چل پھر رہاہوں ۔لکھ پڑ ھ رہا ہوں ۔ مگر کم کم ۔دل کی دھڑکن کبھی کم کبھی زیادہ ۔ یہ کسی شاعر کی مشہور غزل کی ردیف بھی ہے مگر اب تو میرا قافیہ تنگ کیے ہوئے ہے۔بقول کسے:

گلیوں میں آزار بہت ہیں گھر میں جی گھبراتا ہے

ہنگامے سے سناٹے تک میرا حال تماشا ہے


چاروں طرف ہنگامہ برپا ہے مگر میرے اندر ایسا سناٹا ہے جس کا اندازہ تمھیں تو تمھیں مجھے خود بھی نہیں ہے ۔تنہائی کے کرب میں مبتلا ہوں۔ سحرؔ چین گئے ہوئے ہیں۔ تم شاید شہر کے باہرہو۔ ایک تابش بھائی ہیں ان سے کبھی کبھی فون پر بات ہوجاتی ہے ورنہ اس بیگانی دنیا میں کون اپنا ہے۔(۸۶)

’’تمھارا دوسرا کام بھی ہورہا ہے مگر بہت سست روی سے میں دراصل اب ڈھے رہا ہوں۔ زیادہ تر لیٹا رہتا ہوں بیٹھتا صرف ضرورت کے وقت ہوں اور کھڑے رہنے کی تو اب عمر بھی نہیں ہے۔ پھر بھی میں نے ابھی حوصلہ نہیں ہارا۔ تھک جاتا ہوں آرام کرلیتا ہوں پھر تازہ دم ہوکر کام میں لگ جاتا ہوں۔ میرا بس چلے تو میں اپنے جنازے میں شریک ہوکر خود کو کاندھا دوں۔ خیر یہ تو سب سخن طرازیاں ہیں۔ نہ میں ابھی مر رہا ہوں نہ تمھیں ماتم کرنے کی اجازت ہے۔‘‘(۸۷)

’’اللہ کرے تم بخیر ہو میں الحمدللہ باوجود یکہ زار و نزار ہوں مگر زندہ ہوںاورپیٹ بھر زندہ ہوں۔ تین روز سے انجائنا نے ستا رکھا ۔پہلے ہی سے ٹانگیں چلنے سے بیزار تھیں اب دوسرے آزار نے اوربھی مفلوج کررکھا ہے ۔چند قدم چلوں تو چند سیکنڈ کے لئے ٹھہرجانا پڑتا ہے یہ انجائنا کا شاخسانہ بھی ہے اور موصوف کی پہچان بھی ہے مگر میں ایسا ضدّی کہ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہنے کو سزا سمجھتا ہوں اور دن کو میں کئی چکّر پاپوش نگر کیلگاتاہوں۔میں ہار ماننے کو تیار نہیں جب تک پورا کھیل (game)ختم نہیں ہوجاتا ۔اب یہ کون بتائے کہ کھیل ختم ہونے میں کتنی دیر ہے ۔

یہ کس سے پوچھوں کہ اس بے ثبات دنیا میں

گزارنی تو ہے، کتنی گزارنی ہے مجھے


تم منا سب سمجھو تو اللہ میاں سے پوچھ کر بتادو ۔مری تو اُن سے اس موضوع پر گفتگو ہوتی نہیں۔ ڈر لگتا ہے اُن کے جلال سے ویسے اُن کی ایک صفت ۔اللہ جمیل و یحب الجمال بھی ہے۔ میرا اُن کا معاملہ اسی تناظر میں ہوتا ہے۔‘‘(۸۸)

شفقت رضوی نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے :

’’میں ایک خاص کیفیت میں خط لکھتا ہوں۔ یہ بھی خودکلامی کا ایک انداز ہے، اسے خط نہ سمجھو۔ میں اپنے آپ سے اسی طرح کی باتیں کرتا ہوں۔ تم سمجھوگے میں بوڑھا ہوکر سٹیا گیا ہوں۔ بات یہ ہے کہ حساس آدمی کا اس دنیا میں یہی حشر ہوتا ہے۔‘‘(۸۹)

حنیف اسعدینے بھی ایک خاص کیفیت میں خط لکھے ہیں۔ ان کے خطوط کے لب و لہجے کو خود کلامی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مدیر نعت رنگ کو انھوں نے اپنا ہم زاد تصور کر لیا ہے اور اسی ہم زاد سے یہ خطوں کی زبان سے ہم کلام ہو کر اپنی تنہائی کامداوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔(۹۰)

شفقت رضوی کے خطوط تکلف اور ناآشنائی سے شروع ہو کر بے تکلفی اور شناسائی پر منتج ہونے والے تعلقات کی ایک دلچسپ داستان سناتے ہیں۔ ان خطوط میں شکوے شکایتیں ، ڈانٹ ڈپٹ، محبتیں،نفرتیں،مروت اور خلوص سب کچھ موجود ہے۔ یہ خطوط ایک ایسی داستان سناتے ہیں جو دلچسپ بھی ہے حیرت افزا بھی اورشفقت رضوی ایسا داستانوی کردار نظر آتا ہے جو عجیب و غریب خوبیوں کا مالک ہے۔ علم کی ایسی پیاس رکھتا ہے جو بجھائے نہیںبجھتی ۔ علم کے جام پی پی کر ھل من مزیدکی صدائیں بلند کرتا رہتا ہے۔عمر کی بیاسی بہاریں دیکھ کر بھی ان کی علمی تشنگی بجھنے نہیں پائی۔اپنے ملک سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر علم کے چشموں کا متلاشی ہے اور اس آب بقا کو نوش جان بنا کر امر ہونے کا خواہش مند بھی ہے۔ ایک بے قرار روح کا مالک ہے جسے عمر کے تیزی سے گزرنے کا شدید احساس کھائے جارہا ہے اور بہت کچھ کرنے کے باوجود نہ کرنے کا احساس بھی تڑپا رہا ہے۔

رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں

ان خطوط میں زندگی کی تابناکی بھی موجود ہے اورڈھلتی عمر کی مایوسیاں بھی۔ زندگی کی طرف لوٹ جانے کا احساس بھی اور متاع ِ زندگی کے نام نہاد اہلِ قلم کے ہاتھوں لٹنے کاسانحہ بھی۔

’’آپ نے عنایت بالائے عنایت فرمائی، میرا پتا معلوم کرکے گھر تشریف لانے کی زحمت اُٹھائی۔ اپنی نعتوں کے مجموعے اور ’’نعت رنگ ‘‘ کے شمارے عطا فرمائے۔ آپ ٹھہرے دولت و دین سمیٹنے والے، آپ کا نعتیہ کلام آپ کے لیے زادِ راہِ آخرت ہے۔ میری کم علمی اور کم بصری کہ میں آپ کا ہم سفر نہیں۔ بہرحال یہ مقدس شعری سفر آپ کو مبارک! مجھے لذت نظارہ کچھ کم نہیں ہے۔‘‘(۹۱)


’’کب تک خوابِ خرگوش میں رہوگے۔ اکتوبر میں لکھے گئے خط کا جواب آپ پر ادھار ہے۔ قرضہ بڑھتا جاتاہے ادا کرنے کی کوئی صورت ہے؟ ’نعت رنگ ‘ کا قرض پچھلا اور موجودہ بھی ادا طلب ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ غیراہم کاموں میں الجھ کر آپ نے ’نعت رنگ ‘ سے بے رُخی اختیار کیوں کر رکھی ہے۔ میری بات مانو ’نعت رنگ ‘ تمھیں زندہ رکھے گا باقی جو کچھ ہے بے کار ہے۔ اگر میرے آنے کے بعد کوئی شمارہ نہیں چھاپا ہے تو اس سے بڑھ کر آپ کی نالائقی اور کچھ نہیں ہوسکتی۔ بہرحال اگر خرافات سے فرصت ہو تو جملہ کوائف سے مطلع کرو یا پھر مجھ سے بھی بے تعلقی کا اعلان کردو۔ میں نے اتنے صدمے برداشت کیے ہیں کہ اب میرے سامنے کوئی بات صدمہ نہیں ہے۔‘‘(۹۲) ’’ان چکروں میں پڑ کے تم نے’نعت رنگ ‘ کو فراموش کردیا گویا سانس لینا چھوڑ دیا ہے۔ جلدی سے خاص نمبر نکال لو اور اگلے نمبر کی تیاری کرو تو ایک دھماکہ خیز مضمون لکھنا شروع کروں۔ پڑھوگے تو جی خوش ہوجائے گا۔‘‘(۹۳)

’’کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی آپ نے جھانسہ تو دیا کہ دسمبر میں ’’نعت رنگ ‘‘ مجھے پہنچ جائے گا دسمبر کے لئے دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ اگر جھانسہ حقیقت بن جائے تو ہم قربِ قیامت کا یقین کرلیں۔’نعت رنگ ‘ روانہ کرنے میں تاخیر نہ کریں۔ خیال پڑتا ہے میرے دو ہزار روپیہ سکہ رائج الوقت پاکستانی آپ کے اکاؤنٹ میں جمع ہیں انھیں استعمال میں لائیں اور نعت رنگ بھیجنے کا صرفہ اٹھائیں ۔اگر ممکن ہوتو فضلی سنزسے کلیات میر اور کلیات اقبال بھی خریدکر’نعت رنگ ‘ کے ہمراہ روانہ کردیں باقی حساب کتاب ہوتا رہے گا۔ کلیات میر تو چومنے اور آنکھوں سے لگانے کے کام آنے کا سنا ہے اس سے مردہ دل زندہ ہوجاتا ہے۔ کلیات اقبال ...عرصہ سے ہاتھ میں کھجلی ہو رہی ہے ۔جی چاہتا ہے ان کو بھی جوش ملیح آبادی بنادوں کیسی رہے گی ۔‘‘(۹۴)

’’اب عمر ۸۲؍سال ہوگئی ہے۔ ۷؍برس سے ایک گردہ پر گزارا ہے، صبح شام انسولین لیتا ہوں۔ ۲؍شدید ہارٹ اٹیک سے جانبر ہوچکا ہوں۔ پیر کے انگوٹھوں میں گائوٹ کی تکلیف ہے۔ آنکھیں پڑھنے سے جلد تھک جاتی ہیں، معلوم ہوتا ہے اللہ میاں کو بلاوے کا نوٹس دینا یاد ہی نہیں رہا۔ اگر تاریخ طے ہوجائے اور اطلاع پہلے ہی پہل مل جائے کراچی میں آخری سانس لوں اور یا تو والد کی قبر میں جگہ پائوں یا بیوی کی قبر میں ان کے ساتھ آرام کروں۔ یہاں دفن ہوا تو بس اکیلا ہی رہوںگا۔‘‘(۹۵)

ان خطوط میں ان کی شخصیت کا دوسرا رخ ایک سخت گیر نقاد کا سامنے آتا ہے جو اپنی رائے کے اظہار میں بے باک ہے۔جسے نہ دوستوں کے چھوٹنے کا خوف ہے نہ تعلق کے ٹوٹنے کا اندیشہ۔

’’آپ کے کرم فرما ڈاکٹر تقی عابدی نے بڑی محبت اور عقیدت اور احترام کے ساتھ ایک دن میرے ساتھ گزارا۔ معلوم ہوا کہ ان کے پہلے ہی سے ہمارے چھوٹے داماد ڈاکٹر تجمل حسین سے جان پہچان ہے۔۔۔ اب اس کو کیا کہا جائے کہ لوگ ایک جملہ بھی برداشت نہیں کرسکتے ۔بظاہر تو انہوں نے ناراضگی نہ دکھائی ۔میرا خیال ہے وہ مجھ سے خوش نہیں ہیں ۔میں نے ان کے یادگار مرثیہ کا مطالعہ کیا ۔وہ ڈاکٹر تجمل کو دے گئے تھے ۔ان کو میں نے لکھا ’’سنا تھا کہ آدمی کے مرنے کے بعد ڈاکٹر لوگ نعش کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں اب معلوم ہوا کہ کینیڈا کے ڈاکٹر زندہ ادب کے ساتھ بھی وہی سلوک کرنے لگے ہیں ‘‘۔ یہ جامع تبصرہ بھلا ناراض ہونے کا ہے بہرحال مشغلہ تو ’’چھیڑ خوباں سے چلی جائے‘‘ والا ہے۔‘‘ (۹۶)

’’نعت رنگ ‘ میں ایک اور مضمون نظر سے گزرا۔ نام نہیں بتائوں گا۔ جو اعتراضات میں نے محبی مکرم عزیزاحسن پر کیے تھے وہی ان پر وارد ہوتے ہیں۔ میاں امتحان کا پرچہ حل کرنا اور صحیح جوابات لکھنا اور ہے ادیب بننا اور ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے مضمون نگار کو استغراق کی بیماری ہے۔ علم ہضم نہیں ہوا جیسا کا ویسا باہر نکل آتا ہے۔ جو ہماری تاک میں رہتے کہ کہیں تو پکڑا جائوں۔ اگر واقعی انھیں میری تلاش ہے تو ان کا تذبذب ختم کریں اور انھیں بتلا دیں میں امریکا کی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں ہوں اور تاحال زندہ ہی نہیں سلامت بھی ہوں۔ میرا مطلب عزیز محترم جناب احمد صغیر صدیقی سے ہے۔ اگر وہ وصول کرنے آمادہ ہوں تو میرا سلام ضرور پہنچا دیں۔‘‘(۹۷)

’’تمھارا اصرار ہے کہ ان کتب پر میری رائے ضبط تحریر میں آنا چاہیے۔ میری رائے سے لوگ کب خوش ہوئے ہیں جو اب ہوںگے تم چاہتے ہو کہ لوگوں کی ناراضگی میں اضافہ ہوتا رہے تو یہ سر حاضر ہے ۔‘‘(۹۸) ’’ میں نے خبر کو خیر کے سوا کچھ نہ سمجھا، میں بد کو خیر ثابت نہ کرسکا اور پھر ایسا کرنا چاہا ۔ اس حیثیت اور Values کی پاس داری نے مجھے کہیں کا نا رکھا۔‘‘(۹۹)


ان کی شخصیت کا تیسرا رخ اردو سے محبت کرنے والے انسان کا ہے جوہزاروں میل دور بیٹھ کر اپنی زبان سے محبت بھی کرتا ہے اور پھریہ کہ اپنے وطن اور مٹی سے دور جاکر اس کی خوشبو زیادہ عزیز بھی ہو جاتی ہے۔ یہی معاملہ زبان کاہے۔اردو سے محبت کے اظہار کا ایک انداز ملاحظہ فرمائیے:

’’نعت رنگ ‘ شمارہ ۱۷ میرے لیے دولتِ باپایاں ثابت ہوا۔ عرصے سے۔۔۔۔ (یہاں)۔۔ انگریزی سنتے سنتے کان پک گئے تھے۔ امریکی لہجے میں انگریزی بولتے بولتے زبان اور جبڑے تھک گئے تھے۔ انگریزی کتابیں پڑھتے پڑھتے آنکھیں پتھرانے لگی تھیں۔ ’نعت رنگ ‘ نے اردو زبان کے چٹکارے لینے کا مزہ دیا۔ ایک تو سلونی زبان اس پر ذکرِ حبیبِ خداV کی نورفشانی دل کے سرور اور روح کے کیف کے سامنے ہوگئے۔ خیال ہوا اردو کو مٹانے کے لیے غیروں نے اور ان سے زیادہ اپنوں نے جو زحمتیں اٹھائیں وہ سب بے کار ثابت ہوئیں۔ اگر اردو جنوبی ایشیا میں مٹ بھی جائے تو امریکا، کینیڈا، لندن، اٹلی، جاپان، وسطی ایشیا میں زندہ رہے گی اور اس کو مٹانے کا عزم رکھنے والے دوستوں کے سینے پر مونگ دلتی رہے گی۔(۱۰۰)

ان کی شخصیت کا چوتھا رخ ایک محب وطن پاکستانی کا سامنے آتا ہے جو اپنی مٹی سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے اور اس عمر میں جلتا کڑھتا رہتا ہے جس عمر میں گردوپیش سے بے خبر لوگ اپنی آخرت کو سنوارنے کی فکر میں منہمک نظر آتے ہیں۔

’’میری خواہش تھی کہ زندگی کا آخری حصہ کراچی یا انڈیا میں گزاروں۔ میں امریکا میں مرنا اور دفن ہونا نہیں چاہتا۔ امریکا ظاہری زندگی کے لیے بہترین جگہ ہے۔ اندرونی زندگی کے لیے زہرقاتل ہے۔ اچھا ہوتا کہ میں کراچی میں والد کی قبر میں یا بیوی کی قبر میں دفن ہوتا۔ لیکن کراچی کے حالات دیکھ کرہی اس ملک سے نفرت ہوگئی ہے۔ جہاں صرف حرام خوروں کا جینا آسان ہے دنیا میں اتنی بے وقوف قوم کوئی اور نہ ہوگی جو جان بوجھ کر کمینے ترین افراد کو حکمران بناتی ہو۔ بزرگوں نے سچ کہا تھا کہ جیسی قوم ہو ویسے ہی لیڈر ہوتے ہیں۔ دنیا کے تمام اخبارات صدر مملکت کو بغیر اس خطاب کے یاد نہیں کرتے Formerly Known as 10% اور وہ بے غیرت ہے جو قوم کا مال خرچ کرکے دنیا بھر میں تفریح میں مبتلا ہے۔ بھیک مانگتا ہے اس کی حیثیت دیکھو ہر ملک امداد کی بھیک تو کیا قرض دینے کو بھی تیارنہیں۔ دنیا میں اس ملک کی کیا حیثیت ؟ میں سنائوں۔ ایک دن میں اپنے ڈاکٹر سے ملنے ان کے آفس گیا۔ وہاں ویٹنگ روم میں بہت سارے لوگ بیٹھے تھے جیسے ہی میں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ دروازہ کے قریب ایک بوڑھے جوڑے کو بیٹھا دیکھا۔ مجھے دیکھ کر بوڑھے نے اپنا انگوٹھا اوپر کی طرف کرتے ہوئے کہا، ’’انڈین‘‘ میں نے کہا،’’ نو پاکستانی‘‘ اس نے انگوٹھا نیچے کی طرف کر دیا۔ یہ زندگی میں سب سے بڑی گالی تھی جو میں نے سہی صرف پاکستانی ہونے کی وجہ سے۔‘ ‘(۱۰۱)

’’یوں تو مسلمانانِ عالم کا شعوری اور تہذیبی رویہ رو بہ انحطاط ہے۔ اس کی پست ترین سطح پر پاکستانی معاشرہ ہے کتنی بدنصیب قوم ہے جو گزشتہ نصف صدی میں ایک رہ نما قوت پیدا نہیں کرسکی۔ بیس ویں صدی کے نصف اوّل میں جو مسلمان رہ نما گزرے ہیں ا ن کے پست قامت بھی نصف آخر کے قدآور سے بلند تھے۔ مذہبی، سیاسی، سماجی، علمی میدانوں میں ہُو کا عالم ہے۔‘‘(۱۰۲)


احمد صغیر صدیقی ’نعت رنگ ‘ کے سنجیدہ اور باذوق قارئین میں سے تھے۔ ان کے خطوط سے شخصیت کے جو نقوش ابھرکر سامنے آتے ہیں وہ کچھ حالیؔ کی شخصیت سے ملتے جلتے ہیں ۔وہ تحریر میں سنجیدگی اور سادگی کا خاص اہتمام کرتے ہیں لیکن ان کی سادگی سرسید کی سادگی کی طرح روکھی پھیکی نہیں بلکہ حالی ؔکی طرح سادہ مگر پُرکار ہے۔ یہ رائے دینے میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے جانے نہیںدیتے۔حالیؔ کی طرح وضع داری قائم رکھتے ہوئے طنز کرتے بھی ہیںتو سات پردوں میں چھپا کر۔ان کی آراء سنجیدہ ، علمی اور تجزیاتی نوعیت کی حامل ہیں۔ ’نعت رنگ ‘ کے ناقد بھی ہیں اور رہنما بھی۔خلوص ان کی تحریر کا بنیادی وصف ہے۔ ہر خط میں ان کی شخصیت کی سادگی زیریں لہر کی طرح ساتھ ساتھ چلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ’’عزیزاحسن کے تنقیدی مضامین میں نے ادبی جریدوں میں پہلے نہیں دیکھے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک سچے اور بہترین ناقد ہیں اور یہ جو ہمارے پاس ڈھیروں دانش ور ’’پروفیسر‘‘ اور ’’ڈاکٹر‘‘ قسم کے ناقد بھرے ہوئے ہیں ان سے وہ رُتبے میں کہیں افضل نظر آئے۔ کچھ ایسا ہی میں نے رشید وارثی صاحب کے مضمون کو پایا ،کیا ہی عمدہ باتیں لکھی ہیں۔ اور کیا خوبی ہی سے انھوںنے اپنے موضوع کے ساتھ انصاف برتا ۔اس کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ یہاں تو عالم یہ ہے کہ اس قسم کی نشان دہی شعرائے کرام کو اتنی بری لگتی ہے کہ اُن کے دہانوں سے کف نکلنے لگتا ہے۔‘‘(۱۰۳)

’’اپنے جناب سحرانصاری تو معلوم نہیں کس طرح شاید جوشِ تحسینی میں ’’توتڑاق‘‘ والا جملہ لکھ گئے ورنہ وہ تو انتہائی دل جوآدمی ہیں اور علم کا ایک چاہ عمیق۔ دل آزاری سے ان کو دور کی بھی نسبت نہیں۔ آج تک انھوں نے اپنے تبصروں یا دیباچوں میں کسی انتہائی گئے گزرے شاعر کے بارے میں بھی کبھی یہ نہیں لکھا کہ اس کی تصنیف ایک عہد ساز تصنیف نہیں۔‘‘(۱۰۴)

’’ان مباحث سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ نعت لکھنے سے قبل ہمیں عالمِ دین ہونے کی سند بھی حاصل کرنی چاہیے اور یہ بھی کہیں سے پتا کر لینا چاہیے کہ ہم واقعی مسلمان ہیں کہ نہیں (یعنی ہر طرح سے راسخ العقیدہ) ڈاکٹر سیّد وحید اشرف کو اس حوالے سے پھنسا دیکھ کر یہ خیال پیدا ہوا ہے۔‘‘(۱۰۵)

’’۔۔۔ایک جملہ لکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ جملہ تھا۔۔۔ ’’ہم سب کو حکم ہے کہ کسی کام کو کرنے سے قبل بسم اللہ پڑھ لیا کریں۔‘‘ اب مولانا کوکب نورانی نے اس میں کیا عیب ڈھونڈا اور کیا لکھا وہ پیش کر رہا ہوں۔ مولانا لکھتے ہیں، ’’اس میں ’’کسی بھی کام‘‘ کے الفاظ محلِ نظر میں کیا۔ ایسا ہی حکم ہے؟ پھر آگے لکھتے ہیں کہ بسم اللہ کا حکم صرف جائز نیک اور صحیح کام کے لیے ہے۔(یہاں میں بتا دوں کہ جملہ لکھتے وقت میرے ذہن میں صرف اچھے کاموں کا ہی تصور تھا۔ مگر مولانا نے ’’کسی بھی کام‘‘ میں جو رخنہ رہ گیا تھا اسے دیکھ لیا) افسوس وہ رائی کا پربت بناتے ہوئے یہ بالکل بھول جاتے ہیں کہ دوسرے بھی نظر رکھتے ہیں۔ ‘‘(۱۰۶)

’’آپ کا اس بار کا شمارہ صرف ۲۷۲ صفحات کا ہے۔ یہ اچھی بات ہے بس اس سے زیادہ ضخامت مناسب نہیں بلکہ کچھ اور کم کردیں تو اچھی بات ہے۔ میٹریل جس قدر بہتر اور معیاری ہو اتنی اچھی بات ہے۔ پروفیسر شفقیت رضوی سے مضامین لکھوائیں وہ بہت اچھا لکھتے ہیں مجھے ان کے ہاں بلا کی Read-ability ملتی ہے۔‘‘(۱۰۷)

’’نعت گوئی کے ضمن میں، ایک بات کہنا چاہوں گا کہ نعتیں تو بہت سے شاعر لکھ رہے ہیں مگر یہاں بھی معیار کا مسئلہ رہتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ ’نعت رنگ ‘ میں، نعت کا معیار ذرا سخت کیا جائے بھلے کم نعتیں چھاپیں مگر وہ عمدہ ہونی چاہئیں۔ شاعری کی جو صورت حال آج کل سامنے ہے اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ مشق کے سہارے یہ کام زوروں پر ہے۔ بہت سی نعتیں مشق کے سہارے کہی جارہی ہیں یعنی ان کے اندر ادبی حسن کم کم ملتا ہے۔ ’نعت رنگ ‘ میں اس پہلو پر بھی توجہ دیں۔ ٹھیک ہے سارے شاعر تائبؔ،مظفرؔوارثی، سلیم کوثرؔ، نسیم سحرؔ یا تمھاری طرح جیسے ٹیلنٹیڈ(Talented) نہیں ہوسکتے مگر اس سے تو انکار کوئی نہیں کرسکتا کہ ہر ایک کے پاس ٹیلنٹ کا کچھ حصّہ ضرور ہوتا ہے اور یہ کلام میں ظاہر ہوتا ہے۔یہ جب تک نعت میں نظر نہ آئے ’نعت رنگ ‘ میں اسے جگہ نہ دی جائے۔ ضرورت quantity کی نہیں quality کی ہے۔‘‘(۱۰۸)


تنقید و تحقیق نعت کے حوالے سے عزیز احسن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ یہ ’نعت رنگ ‘ کے بنیاد گزاروں میں سے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یوں کہاجائے کہ مدیر ’نعت رنگ ‘ نے مجلے کی پہلی اینٹ انھی کے ہاتھوں سے رکھوائی تو بے جانا نہ ہوگا۔مدیر ’ نعت رنگ ‘ سے دل اور گھر کی راہیں اتنی سمٹی ہوئی ہیں کہ انھیں خط لکھنے کی نوبت ذرا کم ہی پڑی ہے۔ اسی وجہ سے ’نعت رنگ ‘ میں ان کے بہت کم خطوط جگہ پا سکے ہیں۔بہرحال جتنے بھی خطوط موجود ہیں ان سے ان کے اور صبیح رحمانی کے مراسم پر روشنی پڑتی ہے۔ان کے تمام خطوط سے ان کی نعت اور صاحبِ نعت Vسے اٹوٹ محبت مترشح ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے نعت۔ اسی حوالے سے ان کے تعلقات استوار ہوتے ہیں اور اسی تناظر میں یہ شخصیت کو پرکھتے ،جانچتے اور رائے قائم کرتے ہیں۔ یعنی ان کے تعلقات کا مرکزی محور نعت ہے۔ گویا صبیح رحمانی اور عزیز احسن یک جان دو قالب ہیں۔ان کی شخصیت کی گرہ کشائی کرنے والے تین اقتباس ملاحظہ فرمائیے:


’’ نعت رنگ ‘ کتابی سلسلے کے اجرا کا تمہارا خواب ان شا ء اللہ ضرور شرمندۂ تعبیر ہوگا!میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک تم خلوص سے اس کام میں منہمک رہوگے میں اپنا قلمی تعاون بھی جاری رکھوں گا اور بساط بھر دیگر امور میں بھی تمہاری معاونت سے رو گردانی نہیں کروں گا۔اللہ تمہیں عزم و حوصلہ عطا فرمائے اور نعتیہ شاعری کے لیے جو خلوص تمہارے دل میں پیدا ہوگیا ہے اس کی شمع ہمیشہ روشن رکھے۔‘‘(۱۰۹)


’’کل رات تم سے skype پر رابطہ ہوا تو میں نے تمہیں بتایا تھا کہ اب میری یہ کوشش ہوگی کہ قدما کی کچھ نعتیں تلاش کرکے ’نعت رنگ ‘ میں ایک ایک کرکے شائع کرواؤں تاکہ تذکروں، مثنویوں، دواوین اور دیگر علمی تحریروں میں چھپا ہوا نعتیہ ادب کا خزانہ بھی ’نعت رنگ ‘ میں محفوظ ہوجائے اور اس خزانے کو دیکھ کر اہلِ تحقیق کو مزید تحقیق کرنے کا حوصلہ اور ہمت ہو!‘‘(۱۱۰)

’’ص۵۵۵ پر جگہ جگہ نبی کریمV کے نامِ اقدس کے ساتھ ’’ص‘‘ کا لفظ دیکھ کر تکلیف ہوئی۔ مکمل درود شریف لکھ کر حدیث میں بیان کردہ فضیلت حاصل کرنی چاہیے ۔ یہ حدیث پاک امام سخاوی نے ’’القول البدیع‘‘ کے ص۴۶۰ پر نقل کی ہے، ’’جس نے کتاب میں مجھ پر درودپاک لکھا تو جب تک میرا نام مبارک اُس میں رہے گا فرشتے اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے رہیںگے۔‘‘(۱۱۱)

کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جنھیں کارِ خیر کے لیے بارگاہِ رب العزت سے خصوصی طور پر مانگنا پڑتا ہے۔ ’نعت رنگ ‘ اور تنقید نعت کے فروغ کے لیے کی جانے والی دعاؤں میں سے دو چار کا انتخاب کیا جائے تو سرِ فہرست نام ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کا ہی ہو گا۔ کشفی صاحب بنیادی طور پر ایک استاد تھے اور مزاج میں بھی یہی صفت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔تحقیقی رسوخ اور تنقیدی شعور بلا کا تھا لیکن زندگی، انھوں نے کبھی ایک سمت کا تعین کر کے نہیں گزاری۔مزاج کی رو جس طرف بہہ نکلی انھوں نے بھی اسی طرف رخ کر لیا۔ ان کا شمار’نعت رنگ ‘ کے چند معتبر ناقدین میں ہوتا ہے۔ان کا صرف ایک ہی خط ’نعت رنگ ‘ کی زینت بنا ۔ اس خط کی پہلی سطر سے آخری سطر تک ہر عبارت سے محبت اور شفقت جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے۔خط میں کئی مرتبہ عزیزم ،مخدوم، میرے عزیز اور عزیز گرامی کے القابات مخاطب سے قلبی تعلق اور مشفقانہ رویہ کے غماز ہیں۔ پورا خط ایک مکالمہ ہے جو صبیح رحمانی سے کیا گیا ہے۔ اس مکالمے کے ذریعے انھوں نے اپنی یادوں کے نقوش کواز سرِ نو زندہ بھی کردیا ہے اور معاصر شعرا کے تخلیقی رویوں پر خوبصورت انداز میں روشنی بھی ڈالی ہے۔ان کا یہ خط، خط کیا ہے گویا ایک گفتگو ہے جس کے مخاطب بظاہرتو صبیح رحمانی ہیں لیکن اس کے پردے میں انھوں نے اپنے دل کے گوشوں کو اس طرح بے نقاب کیا ہے کہ ہرشخص ان میں جھانک بھی سکتا ہے اور ان کے افکار وخیالات سے واقف بھی ہو سکتا ہے۔ خط سے چند سطریں بطور ثبوت پیش کی جاتی ہیں۔

’’عزیزم! معلوم نہیں کہ حنیف بھائی نے کبھی تمہیں بتایا یا نہیں کہ ہم اس صدی کی پانچویں دہائی کے آغاز سے ایک دوسرے کے ساتھی اور دوست ہیں۔‘‘

’’تم کو نہ جانے کیوں یہ خیال آیا کہ میرے اور بھائی حنیف اسعدیکے درمیان کچھ معاملات ’’من وتو‘‘ ہیں۔‘‘

’’عزیزم! بات بھائی حنیف اسعدیتک محدود نہیں۔ان سے پرانی دوستی ہے، دوستی نہیں بلکہ نیازمندی۔‘‘

’’میں کہہ یہ رہا تھا کہ صرف انھی شعرا کی نعت گوئی پر لکھ سکا ہوں جن کے مجموعوں پر مقدمے لکھے ہیں ۔‘‘

’’حفیظ تائب صاحب سے میرے رشتے کو کچھ کچھ تم جانتے ہو۔ان کی آنکھوں میں شب بیداری کے شاہد بھی تم ہو۔‘‘

’’شاید تمھیں علم ہوا ہو کہ حضرت مولاناعبدالعزیزشرقی ، اس سال شوال میں ہم سے رخصت ہوگئے۔‘‘

ایک ہی خط میں اتنی بار مخاطب ایک استاد ہی کر سکتاہے کیونکہ سالہا سال کی تدریس کے بعد مکالمہ شخصیت اور طبیعت میں رسوخ پاکر جزو لاینفک بن جاتا ہے۔(۱۱۲)


تحقیق و تدوین میں مشفق خواجہ کا نام آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔ان کا ’نعت رنگ ‘میں ایک ہی خط شائع ہوا ۔بعض شخصیات کی زندگی اور فن ایک ہی سکے کے دو رخ ہوتے ہیں۔ خواجہ صاحب محقق تھے اور یہی خوبی ان کے خط کا وصف ٹھہری۔ پہلے ہی خط میں انھوں نے تنقید و تحقیق ِ نعت سے متعلق اتنی معلومات دے ڈالیں جتنی پوری پوری کتاب پڑھنے سے بھی حاصل نہیں ہوپاتیں۔ اس خط سے مشفق خواجہ کا مشفقانہ رویہ بھی سامنے آتا ہے۔(۱۱۳)


ڈاکٹر معین الدین عقیل کا نام کسی تعار ف کا محتاج نہیں۔عظمت ِ رفتہ کی شائستگی ، نفاست، رکھ رکھاؤ،وضع داری اور علمیت ان کی شخصیت سے مخصوص ہے ۔ان کی شخصیت کایہی پرتو ان کی تحریروں میں بھی نظر آتا ہے۔ ایسے میں خطوط کو استثنا کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب علم سے محبت ہی نہیں کرتے علم کے متلاشیوں سے بھی محبت کرتے ہیں اوران کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ ان کے خطوط میں ایک وضع دار انسان،شفیق استاد اور دوراندیش نقاد چلتا پھرتا نظر آتا ہے جو مدیر’ نعت رنگ ‘ کی حوصلہ افزائی اور ’نعت رنگ ‘ کی سمت نمائی کرنے میںکسی بخل کا مظاہر ہ کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔(۱۱۴)


مظفر وارثی نعت کے معروف شاعر ہیں ۔ ان کے خطوط کیا ہیں نرے واسوخت ہیں جن کا نشانہ محبوب نہیں اہلِ دنیا ہیں۔ چونکہ شاعر ہیں اس لیے خطوط میں نرگسیت کا اظہار یا تعلّی کا در آنا فطری امر ہے۔ ان کے خطوط پڑھ کر ایسا گمان گزرتا ہے کہ تمام عمر مخالفین سے لڑتے ہی گزری ہو گیٍ۔(۱۱۵)


نعت رنگ ‘ کی سب سے معروف شخصیت کوکب نورانی اوکاڑوی کی ہے، جو اپنے ہر خط میں ایک عالمانہ شان کے ساتھ موجود رہتے ہیں ۔ان کے خطوط پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ’نعت رنگ ‘ کے دروازے پر کرسی بچھائے بیٹھے رہتے ہیں۔ ’نعت رنگ ‘ کو موصول ہونے والی ہر تحریر کو خود وصول کرتے ہیںاور پھر اپنی اعتراض کی عینک سے تحریر کی ہر سطر،ہر عبارت اور ہر لفظ کا بغور معائنہ کرتے ہیں اور ان میں موجود قابلِ اعتراض مواد کو الگ کر کے اپنے کتاب خانے میں جابیٹھتے ہیں اور ہر اعتراض کا کتابوں کے انبار سے جواب تلاش کرکے علمی دلائل و براہین کے اوزاروں سے آپریشن کردیتے ہیں ۔ یہ الگ بات کہ بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات آپریشن کرتے ہوئے لطیف اوزاروں کی بجائے کثیف آلات سے تحریروںکو ذبح کر ڈالتے ہیں۔

آج کے دور میں جب ہر شخص اپنی انا کے حصار میں مقیداورنرگسیت کے بوجھ تلے دباخوش فہمیوں کے سراب میں مبتلا ہے ،ایسے افراد جو مذہب کے کسی خاص طبقے سے تعلق رکھتے ہوں ،ان سے علمیت کی توقع رکھنا سراب کے پیچھے دوڑنے کے مترادف ہے ۔ اس قحط الرجال کے موسم میں کوکب نورانی جیسی شخصیات غنیمت بھی ہیںاور ٹھنڈی ہو ا کا جھونکا بھی۔ان کے خطوط کا لب و لہجہ ایک طرف لیکن ان کے مطالعے کی وسعت سے کسی بھی طور انکار ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’نعت رنگ ‘ کے خطوط میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے خطوط مولانا کے ہی ہوتے تھے۔ جب ان کا خط شائع نہ ہوتا تو اس کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی تھی۔ ’نعت رنگ ‘ کے ایک شمارے میں ان کا خط شائع نہ ہواتوحافظ محمد عطاء الرحمن قادری کو لکھنا پڑا:

’’حضرت علامہ ڈاکٹر کوکب نورانی نے ’’رضا کی زباں تمھارے لیے‘‘ کے عنوان سے مدلل، مفصل اور مکمل مضمون تحریر فرمایا ہے اور مضمون کیا لکھا ہے تحقیق کا، تدقیق کا، علم اور حکمت کا دریا بہا دیا ہے۔ مولائے کریم انھیں مزید برکتیں عطا فرمائے۔ اس اعتراف کے ساتھ ساتھ اس محبت بھرے اعتراض کا حق ہم محفوظ رکھتے ہیں کہ اس مرتبہ انھوںنے خط تحریر نہیں فرمایا ۔ ہم ان کے مکتوب کی کمی شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔‘‘(۱۱۶)


اردو تحقیق میں قاضی عبدالودود کا نام ان کی تحقیقی نکتہ رسی اور اصابت رائے کے باوصف ایک قابل تقلید مثال بن گیا ہے۔ان کی تحقیق نے دل جوئی اور دل گیری کی بجائے سخت گیری اور بت شکنی کی جو داغ بیل ڈالی اس سے اردو تحقیق کو اعتبار نصیب ہوا ۔ صداقت اور بے باکی ان کی تحریر کا بنیادی وصف ہے۔ غالب ، محمد حسین آزاد،مولوی عبدالحق اور خواجہ احمد فاروقی پرقاضی صاحب کے تحقیقی مقالات ان کے مطالعے کی وسعت ، نکتہ رسی اوراصابت رائے کا پتا دیتے ہیں۔ مولاناکوکب نورانی کے خطوط پڑھتے ہوئے قاضی عبدالودود کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ جس طرح قاضی صاحب کسی مسئلے کے بیان میں شواہد کا ڈھیر لگا دیتے تھے بعینہ مولانا کوکب نورانی نعت رنگ ‘ کے مقالہ نگاروںکی لغزش قلم کاکڑا محاسبہ کرتے ہیں اور دلائل اور براہین کا انبار لگا دیتے ہیں اور معترضین سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی اسناد اور شواہد کی زبان میں گفتگو کریں۔ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’ میری تحریروں پر ناراض ہونے یا شکوہ کرنے والے اگر کوئی علمی ،تحقیقی جواب پیش نہیں کرتے تو ان کی ناراضی اور شکایت بے جا اور ناروا ہے۔‘‘(۱۱۷)

جس طرح قاضی عبدالودود کے سخت گیرمزاج، بے لچک رویے اور سخت گیر احتساب نے لوگوں کو تحقیق اور اسلوب دونوں میں محتاط رویہ اپنانے پر مجبور کر دیا تھا بالکل اسی طرح ’نعت رنگ ‘ میں مولانا کی موجودگی سے مصنفین کی تحریروں میں غیر تحقیقی انداز ،مبالغہ ، ابہام اور جذباتی عنصر کافی حد تک کم ہو گیا تھا۔

قاضی عبدالودود نے دوارکا پرشاد شعلہ کو ایک خط میں لکھا:

’’میں علمی خطوط طویل لکھتا ہوں او ر شوقیہ مختصر‘‘ (۱۱۸)


مولانا بھی طویل طویل خطوط لکھتے ہیں۔’نعت رنگ ‘ میں ان کا سب سے طویل خط سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اتنا ضخیم خط شاید ہی کسی مکتوب نگار نے تحریر کیا ہو۔ جس کو پڑھ کر اس پر خط کا نہیں بلکہ مقالے یا کتاب کا گمان گزرتا ہے۔طول پسندی چونکہ خطیب یا مقرر کا وصف خاص ہوتا ہے ۔اس لیے ان کے خطوط میں بھی اسی وصف نے اپنے اظہار کا راستہ تلاش کر لیا ہے۔ وہ ہر بات کے جواب میں طول پسندی میں لذت محسوس کرتے ہیں اور ہرواقعے کو مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ان کے سامنے سامعین نہیں بلکہ قارئین ہیں۔ ان کے خطوط میں طول ِ کلام کی یہ خوبی اکثر اوقات عیب کا روپ دھار کر پڑھنے والوں کی طبیعتوں کو مکدراور منغض کرنے لگتی ہے۔

مذہبی معلومات اور فقہی معاملات میں ان کا مطالعہ اتنا وسیع اور ذہن اتنارسا (حاضر) ہے کہ ’نعت رنگ ‘ میں ان کا کوئی حریف یا مدمقابل دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔اس حوالے سے وہ تمام مکتوب نگاروں پر فوقیت رکھتے ہیں۔چونکہ ان کی پرورش ایک خاص ماحول کی پرورہ ہے اور ان کے تمام خطوط خاص مقاصد کے جبر میں جکڑے ہوئے ہیں اس لیے ان میں زندگی کی وہ حرارت،اسلوب کی وہ لطافت اور بیان کی وہ شگفتگی جو متذکرہ بالا شخصیات کے خطو ط کا وصفِ خاص ہیں ،تلاشنا بے سود ہے۔ ہر خط علمیت کا ایک انبار لیے نعرہء منصور بلندکر رہا ہے۔اگرچہ ’نعت رنگ ‘ کے علاوہ دیگر خطوط سے میرے چشم و دل سیراب تو نہیں ہوئے لیکن اِن کے ’نعت رنگ ‘ میں شامل خطوط سے یہ نتیجہ ضرور اخذ کیاجاسکتا ہے کہ چونکہ یہ خطوط مدیر نعت رنگ کے نام لکھے گئے ہیں اور ان کے مخاطب نعت سے دلچسپی رکھنے والے اہل علم و دانش ہیں جن کے مقالات اور خطوط تسامحات کے حامل اور وجہ ء نقطہء اعتراض ہیں ،لہٰذا انھیں اپنے فرض منصبی کے ہاتھوں مجبور ہو کر دلائل و براہین کے ساتھ ع کون ہوتا ہے حریف۔۔۔الخ کا اعلان کرنا پڑتا ہے۔مزید یہ کہ ان کے خطوط ایک ایسی صنف سے متعلق ہیں جس میں خفیف سی لغزش خواہ وہ خیال کی ہو یا زبان کی، قابل گرفت ہوتی ہے اس لیے ان کے خطوط میں صداقت کی خنکی اور لہجے کی کرختگی شعوری عمل کانتیجہ ہے۔بوجھل منطق اور دقیق حقائق اگر مؤثر اور دل نشیں اسلوب میں جلوہ گر ہوں تو دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔ یہی معاملہ مولانا کے خطو ط میں سامنے آیا ہے۔اگر ان کے خطوط میں سخن کا پردہ یا فن کا تماشا موجود ہوتا تو ان کے خطوط نعت رنگ ‘ کا شاہکار کہلائے جاسکتے تھے۔


خطوط میں ان کے علاوہ بھی علماء ادبا ، شعرا ،محققین اور ناقدین کی ایسی کہکشائیں موجود ہیں جن کا مطالعہ افادیت سے خالی نہیں۔ ان میں ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی،جمیل جالبی، احمدندیم قاسمی، اسلوب احمد انصاری، انور سدید، تحسین فراقی، جگن ناتھ آزاد، حفیظ تائب، رفیع الدین اشفاق، شمس الرحمٰن فاروقی، شہزاد منظر ، عارف نوشاہی، عبدالباری آسی، کالی داس گپتارضا،محمد علی اثر، مختار الدین آرزو،ملک الظفر سہسرامی، نجم الاسلام، وزیر آغا،یحیٰ نشیط، اور ڈاکٹر یونس اگاسکرجیسی معروف شخصیات کے خطو ط بھی شامل ہیں۔ ان خطوط میں بھی کہیں کہیں شخصیت کا کوئی گوشہ یا مزاج کی کوئی کرن اپنی جھلک دکھا ہی جاتی ہے۔ان شخصیات کے خطوط کو بھی تجزیے کے حصار میں لایا جاسکتا تھا لیکن وقت کی کمی اور صفحات کی گنجائش اس ارادے کی تکمیل میں حائل ہی رہی۔

نعت رنگ ‘ میں کم و بیش دوسو اہل ِ قلم کے خطوط شائع ہوئے ہیں ۔ان تمام خطوط کی زبان اور لب ولہجہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اسلوب کا یہ اختلاف مکتوب نگاروں کے شخصی مزاج کی وجہ سے بھی پیدا ہوا ہے اور موضوع کی نوعیت کے حوالے سے بھی سامنے آیا ہے۔ اسلوب کا تنوع کسی سطح پر مستحسن اور کسی سطح پر غیرمستحسن ہو سکتاہے۔ ایک ہی موضوع سے متعلق تصنیف میں اسلوب کا تنوع مستحسن خیال نہیں کیا جاتا لیکن جب مختلف افراد کے ذہن و خیال کی کارفرمائیاں ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں تو اسلوب کا تنوع پیدا ہو جانا لازمی امر ہے۔چونکہ ’نعت رنگ ‘ میں شامل خطوط مختلف مزاجوں ،طبقوں ،شعبوں اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے تحریر کردہ ہیں اس لیے ان خطوط میں اسلوب کی یکسانیت تلاش کرنا بے سود ہے۔ اس کے باوجود ان خطوط میں اسلوب کا تنوع بذات خود ایک خوبی بن گیا ہے۔


نعت رنگ ‘ میں شامل خطوط میں مقصد کے جبر میں جکڑاہوا خشک اور روکھا پھیکا اسلوب بھی موجود ہے اور شعریت اور نغمگی میں ڈوبا ہوا لب و لہجہ بھی، سادہ ،سلیس اور رواں اسلوب کی مثالیں بھی موجود ہیں اور مفرس و معرب الفاظ کے بوجھ تلے دبے ہوئے مرصع اور مقفیٰ اسلوب کی شعوری کاوشیں بھی ، بے تکلف اور بے ساختہ اسلوب کے اظہار کی صورتیں بھی جلوہ گر ہوئی ہیں اور تکلف اور تصنع کا شکار اسلوب بھی اپنا الگ رنگ دکھا رہا ہے، شگفتہ اسلوب بھی ذوقِ جمال کی آب یاری میں مصروف ہے اور طنز کے تیر و نشتر بھی اپنے اہداف پر کاری ضرب لگا رہے ہیں۔ ان مکاتیب میں مکتوب نگار مکالمے بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اپنے برشِ قلم سے رنگ رنگ کے مرقعے بھی بنانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ غرض یہ کہ علمی، تحقیقی، تجزیاتی، جمالیاتی، جذباتی، فلسفیانہ، صحافتی، بیانیہ اور شاعرانہ اسالیب کے متنوع رنگ نئے نئے انداز اور نئے نئے طریقوں سے ان خطوط میں جلوہ گر ہوئے ہیں ۔کہیں گہرے اور کہیں ہلکے،کہیں تیز کہیں مدھم اور انھی رنگوں کے تال میل سے ’نعت رنگ ’ کی قوسِ قزح تشکیل پائی ہے۔ذیل میں اسالیب کے ان تمام رنگوں سے کچھ رنگ کشید کر کے قارئین کے ذوق ِ جمال اور حسن ِ نظر کی نذر کیے جارہے ہیں ۔ ان رنگوں کو ملاحظہ کیجیے اور لطف اٹھائیے:


پہلا رنگ مکالمے کا ہے۔ اردو نثر میں غالبؔ کے خطوط اپنی انفرادیت کے باعث خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ غالب ؔنے اپنے خطوط میں اپنے عہد کے مروجہ آداب سے الگ ایسا اسلوب وضع کیا جو اُن ہی سے مخصوص ہو کر رہ گیاہے ۔ اسی وجہ سے غالبؔ کا اسلوب اُن کے معاصرین ہی نہیں متقدمین کے بھی جملہ اسالیب میں اپنی الگ اور منفرد پہچان رکھتا ہے۔ غالب نے ایک خط میں لکھاہے :

’’میں نے مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے۔ہزار کوس سے بزبانِ قلم باتیں کیا کرو،ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو۔‘‘(۱۱۹)


نعت رنگ ‘ کے خطوط میں غالب کے انداز کی بھی کثیر جھلکیاں موجود ہیں۔ان کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کسی اور کا خط نہیں پڑھ رہے بلکہ غالب ؔکا خط پڑھ رہے ہیں۔ان میں سے دو بطور مثال پیش کی سجاتی ہیں۔ملاحظہ فرمائیے اور معاصر غالب سے ملاقات کا لطف لیجیے:


(۱) ’’تم نے اپنے طورپر یہ سمجھ لیا ہے کہ میں مر چکا ہوں تو یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں ہے۔ میں واقعی مر چکا ہوں مگر یہ بات خاصی فکرمندی کی ہے کہ تم زمانۂ علالت میں آئے اور نہ بعد مرگ تعزیت کے لیے آئے۔ نہ پُرسا دیا۔ نہ فاتحہ میں شریک ہوئے۔ یہ رسمیں میں نے اکیلے ہی ادا کیں۔ اب اگر کبھی جی چاہے آنے کو تو پتا وہی ہے اس لیے کہ جس گھر میں رہتا تھا وہی اب میرا مقبرہ ہے‘‘(۱۲۰)

(۲) اشتیاق طالب نے مجھ سے پوچھا کہ سنا ہے سحرؔ روزے رکھ رہے ہیں۔ ’’ہاں‘‘ میں نے کہا۔ ’’کیا نماز بھی پڑھتے ہیں ‘‘ انہوں نے پوچھا میں نے کہا ’’ارے یار کیوں روزے بھی چھڑواؤ گے‘‘۔تم کہاں ہو۔ کہیں بھی ہو خوش رہو۔شاید سحر ؔ کی طرح روزوں میں مبتلا ہو چلو یہ ابتلا اب ختم پر ہے دو تہائی سے تو فارغ ہو رہے ہو ایک تہائی اور ہے وہ بھی کٹ جائیں گے ۔میں تو اس نعمت سے محروم ہوں ۔شوگر کے مریض کو روزہ ممنوع ہے ۔معلوم نہیں کس وقت شوگر کم ہوجائے اور لینے کے دینے پڑ جائیں۔ اللہ معاف کرنے والا ہے۔ میں روزے کا صدقہ دیتا ہوں شاید اسی طرح نجات ہوجائے۔ ویسے مجھے نجات کی زیادہ فکر نہیں ہے ۔جنت تو ملنے سے رہی۔ اعمال ایسے ہیں ہی نہیں ۔دوزخ اس لیے قریب نہیں آسکتی کہ اب ایسے بداعمال بھی نہیں رہے۔ اس لئے برزخ پکّی ہے۔ برزخ کے عادی بھی ہیں۔ اس لئے کہ زندگی میں رحمتیں بھی رہیں اور زحمتیں بھی اٹھا نا پڑیں۔ چلو یہ تو میری کہانی ہوئی تمہارا فسانہ کیا ہے۔ تم تو جنتی ہو۔ اگر یہ میری خوش فہمی نہیں ہے تو پھر اسے میری دعا سمجھنا ۔(۱۲۱)


نعت رنگ ‘ کے خطوط اور اداریے اگرچہ خاص مقصد کے تحت زیورِ تحریر سے آراستہ ہوئے ہیں اس لیے ان میں ادبی اظہار کی مثالیں کثیر تعداد میں تلاش کرنا یا ابوالکلام آزاد کی سی تحریرکے نمونے ڈھونڈھنابے سود ہیں لیکن اس کے باوجود ان خطوط میں آزاد،شبلی اور مہدی افادی کے اسلوب کی جلوہ گری بھی نظر آتی ہے اور حالی،نذیر احمد،سرسیدکے اسلوب کی متحرک پرچھائیاں بھی نظر آتی ہیں۔’نعت رنگ ‘ کے اداریوں کی اکثر عبارتیں سرسید کی طرح طویل طویل اور ایک ہی سانس میں لکھی گئی ہیں۔صبیح رحمانی کی تحریریں پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ذہن و دل میں بہت کچھ کہنے کی فکر ہے اور اس فکر میں خیالات کا ایک چشمہ ہے جو ان کے ذہن کے نہاں خانوں سے پھوٹ کر’ نعت رنگ ‘ کے اداریوں میں طویل طویل جملوں کی صورت بہتا چلا جاتا ہے ۔ صبیح رحمانی کے اداریوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ لمبے لمبے فقرے لکھتے ہوئے بھی اظہار وبیان کے پیرایوں کی طرف متوجہ رہتے ہیں لیکن جملوں یا فقروں کو بناتے ہوئے خیال کی ڈور کو ہاتھ سے ہرگز جانے نہیں دیتے۔اس طرح ان کا اسلوب آزاد اور شبلی کے اسلوب سے گلے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کے اداریوں سے ایک پیرا گراف ملاحظہ کیجیے:

’’ایک ایسے ماحول میں جہاں مذہب سے جڑی ہوئی اصناف پر گفتگو کے دروازے صرف خوفِ فسادِ خلق سے بند ہوں وہاں حمدونعت کے ادبی پہلوؤں پر شریعت کے حوالے سے اپنا نقطہء نظر جرات ،بے خوفی اور استدلال سے پیش کرنا اور پھر اس بات پر مختلف نقطہ ہاے نظر کے تناظر میں ہونے والے اعتراضات و اختلافات کو حوصلے اور تحمل سے سننا اور برداشت کرنا صرف اس لیے کہ نعت پر ادبی مباحث کے در کھلے رہیں اور صدیوں سے بند اس ایوان میں تازہ ہوا کے جھونکے آتے رہیں تاکہ ہمیں نعت کی علمی ،ادبی ،تہذیبی، جہات کا علم ہو اور ہم اس کے آداب کا شعور حاصل کر کے نعت کی حقیقی قوت کو جان سکیں اور اسے بروئے کار لا کر ایک مثالی معاشرے کی تعمیر کر سکیں۔یہ کوئی معمولی بات نہیں اور نہ ہمیں اس سے پہلے اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔ ‘‘(۱۲۲)


مندرجہ بالا پیراگراف دیکھیے،مدیر ایک ہی سانس میں بہت سی باتیں کہنے کی جلدی میں اظہارِ بیان کو مختصر ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی بجائے ایک ہی جملے میں ادا کرنے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے ان کا بیان طویل ترہو گیا ہے ۔


صبیح رحمانی کی تحریر کا ایک وصف استدلال بھی ہے۔ وہ اپنی بات دلیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ سوال اٹھاتے ہیں اور اس کا جواب قارئین سے طلب کرتے ہیں ۔سوال کرنے کا یہ انداز دراصل قارئین کو سوچنے پر مجبور کرنے کے لیے ہوتا ہے۔چونکہ ان کے مخاطب قارئین کے دل سے زیادہ ذہن ہیں اس لیے وہ اپنے ہر اداریے میں سوال چھوڑ جاتے ہیں۔ان کے اداریوں کا بنیادی مقصد نعت کے حوالے سے قارئین کی سوچ اور فکرکو بیدار کر کے سوچنے پر آمادہ کرنا ہے اس لیے ان کی تقریباً تمام تحریروں میں کسی نہ کسی انداز میں استفہام کا یہ اندازموجود ہے۔ ان کی ہر تحریر سوچنے پر مجبور کرتی ہے،سوال اٹھاتی ہے، زندگی اور ادب کے ان پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتی ہے جس طرف یا تو نظر نہیں پڑ پاتی یا ہم اس طرف دیکھنا نہیں چاہتے۔وہ سوال اٹھاتے ہیں ،پھر اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن سوال کا ایک پہلو پھر خالی چھوڑ دیتے ہیں تاکہ قارئین ا س کا جوا ب خود تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ بعض اداریوں میں تو وہ پے در پے سوال کرتے چلے جاتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا زرخیز ذہن سوالات پیدا کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتا ہے ۔ان سوالوں کو پڑھ کر یہ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ ان سوالوں کے پس پشت ان کا ایک مضطرب ذہن کام کر رہا ہے جوہر لمحہ سوچ اور فکر کی نئی راہوں کی دریافت میں سرگرداں ہے۔ایک پیراگراف دیکھیے:


’یہ صدی نعت کی صدی ہے۔‘ ’یہ عہد نعت کے فروغ کا عہد ہے۔‘ ’نعت پرجتنا کام اس دور میں ہورہا ہے ،گذشتہ ادوار میں نہیں ہوا۔‘ان جملوں کی گونج آج کل ادبی حلقوں میں سنائی دے رہی ہے اور کسی حد تک ان میں سچائی بھی ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ کیا اس دور کو نعت کا دور کہنے والوں نے اپنے بڑے سے بڑے نعت گو کے ادبی مقام و مرتبے کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے؟کیا دیگر اصناف سخن کی طرح نعت کے فکری اور فنی پہلوؤں پر علمی مباحث کو فروغ دینے کی طرف توجہ کی گئی ہے۔؟ کیا تاریخِ ادب کے مرتبین نعت نگاری اور نعت نگاروں کے فکر وفن اور ادبی حیثیت کو اجاگر کر رہے ہیں؟ کیا آج کسی اہم سرکاری اور غیر سرکاری ادبی کانفرنس میں کسی شاعر کو بحیثیت نعت نگار مدعو کیا جارہا ہے؟ یقینا جواب نفی میںہو گا۔ حیرت اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ آج نعت کو دوسرے درجہ کی صنف سخن سمجھ کر اس پر سرسری گفتگو ہو رہی ہے حالانکہ اس کا نعتیہ ادب اتنا ہی زند ہ اور متحرک(ہے) جتنا کہ دوسری اصناف ادب ۔ آج کا نعت گو مکمل عصری آگہی رکھتا ہے اور کرب ذات سے مسائل کائنات تک غور کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انسانیت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے سیرت اطہر کو اس بے چین اور سکون کی طالب دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے کہ یہی راستہ ہے جو نسل انسانی کی بقا اور فلاح کا راستہ ہے ۔ مسائل کائنات سے نبرد آزما دنیا اسلام اور رسول کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پناہ ڈھونڈھ رہی ہے ایسی صورت حال میں ادبی تناظر میں نعتیہ ادب کا مطالعہ اس صنف سخن کے ساتھ ہی نہیں بلکہ پورے ادب کے ساتھ انصاف کے مترادف ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے نقاد اس گراں مایہ نعتیہ سرمائے کو انتقاد کی کسوٹی پر پرکھ کر اس کے معنوی اور فنی پہلوؤں کو دیکھیں اور ا س میں ہیئت کے تجربوں اور تازہ کاری کے رجحان کو نظر میں رکھ کر اس کی صحیح قدروقیمت کا تعین کریں۔ ‘‘(۱۲۳)


نعت رنگ ‘ کے خطوط میں ایک طرف لمبے لمبے فقرے اور جملہ در جملہ کی مثالیں موجود ہیں تو دوسری طرف ان خطوط میں چھوٹے چھوٹے جملے بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ ان کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا یہ چھوٹی چھوٹی بحر وںمیں کہے گئے اشعار ہیں جوشاعری سے مصافحہ کررہے ہیں۔اس طرح ان جملوں میں سہل ممتنع کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔چند مثالیں دیکھیے:

۱۔ قلم کیسا ہے۔تحریر کیسی ہے۔مضمون کیسا ہے ۔سب کچھ گڑ بڑ ہے ۔سارا عالم گڑ بڑ ہے ۔اچھا چھوڑو سب پر مٹّی پاؤ اور کبھی آجاؤ ،صورت دکھا جاؤ ۔ صورت دیکھ جاؤ جانے بعد میں صورت دیکھنے کے قابل بھی رہے یا نہ رہے۔(۱۲۴)

۲۔ عزیزاز جاںدوست اسیدالحق قادری کی بغداد میں ناگہانی شہادت سے زندگی بے رنگ و نور ہوگئی ہے،کسی علمی کام میں بھی جی نہیں لگتا،ڈھیروں فون آتے ہیں،بیگانی آوازیں گویا سمع خراشی کرتی ہیں،اس لیے کبھی اٹھا لیتا ہوں ،ورنہ یوں ہی رِنگ ہواکرتی ہے-اب نہ وہ زندہ دل ہنسی رہی،نہ وہ دیوار شکن قہقہے، نہ وہ علمی مباحثے رہے اور نہ راز و نیاز کی وہ باتیں-زندگی اتنی بدرنگ ہوجائے گی ،کبھی سوچا نہ تھا- اب تو حال یہ ہے کہ


جب ترا نام لیجیے تب چشم بھر آوے

اس طرح سے جینے کو کہاں سے جگر آوے


تم سے دل کو بہت رسم و راہ تھی اور اب بھی ہے،مگرتم اتنی دور ہو کہ تمہارے سینے سے لگ کر دل کا غبار بھی نہیں نکال سکتا-آج برطانیہ سے کچھ اہل علم ملاقات کے لیے آئے تھے، انھوں نے ایک بار پھر اسیدمیاں کا تفصیلی ذکرچھیڑ کردلِ غم زدہ کو مضطرب کردیا ، کیوں کہ:ع تاب کس کو ہے جو حال میرؔ سنے (۱۲۵)


ادبی تحریر کو عام تحریر سے ممتاز کرنے والا وصف شاعرانہ وسائل کا ہے۔ یہ وسائل نثر میں شعریت پیدا کر کے اسے شعر سے قریب کر دیتے ہیں۔تشیبہ ،استعارہ، محاورہ، تراکیب، صنعتیں،وغیرہ جب کسی تحریر کا جزو ِبدن بن کر سامنے آتی ہیں تو وہ تحریر شاعری سے گلے ملتی ہوئی نظر آتی ہے۔ محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی، مہدی افادی، قاضی عبدالغفار،منشی سجاد حسین، ابوالکلام آزاد وغیرہ کی نثر اس کی روشن مثالیں ہیں۔ ’نعت رنگ ‘ کے خطوط میں بھی اور اداریوں میں بھی انھی شخصیات کے اسالیب کی کرنیں چمکتی ہوئی نظر آتی ہیں۔’نعت رنگ ‘ کے مکتوب نگاراس چشمے سے سیراب ہوئے ہیں۔انھی چشموں کی لہریں مختلف مکاتیب میں کروٹیں لیتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں۔انھی میں سے ایک انداز اشعار اور مصرعوں کو جزو تحریر بنا کر پیش کرنے کا ہے۔یہ عمل مکتوب نگاروں نے اس خوبصورتی سے انجام دیا ہے کہ ان کی نثر پر شاعری کا گمان گزرتا ہے ۔ مکتوب نگاروں نے بعض اشعار اور مصرعوں کو موقع و محل کی مناسبت سے اس خوبصورتی سے جزو تحریر بنایا ہے جیسے ایک صناع کاری گر زیور میں نگینے جوڑ دیتا ہے۔ اسلوب کی اسی فن کارانہ مہارت کو دیکھ کر ذوق جمال ہاتھ اٹھا اٹھا کر داددیتا ہوا نظر آتا ہے۔چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:


۱۔ سنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں فون پر تصویر بھی آنے لگی ہے ۔ اگر ایسا ہے تو گویا پوری ملاقات مگر ’ہاتھ آئیں تو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے‘وہی بات ہوجائے گی مگر یہ بات ’’معاملات ‘‘ کی ہے یا شعر کی زبان میں ’’معاملہ بندی ‘‘ کی مگر اسکی پیروی کے لئے آدمی کا داغؔ ہونا ضروری ہے ۔(۱۲۶)

۲۔ عرصہ سے سوچ رہا تھا کہ تم کو ایک علیحدہ سے دلچسپ خط لکھوں گا مگربھائی کہاں کی رباعی کہاں کی غزل ۔معلوم نہیں تابشؔ صاحب کا کیا حال ہے اور ہم میں سے کون پہل کرے ۔نمبر تو ان کا ہے مگر یہ حساب تو قضا وقدر کے پاس ہے اور کوئی نہیں جانتا ۔خط لکھ رہا ہوں اور تم نظروں کے سامنے ہو۔ایسے اگر دھم سے جو آجاؤ تو کیا ہو!(۱۲۷)

۳۔ حضرت سے دو روز سے ملا قات نہیں ہوئی ہے۔ آئیں تو اُن سے تمہارے یہاں آنے کے بارے میں استفسار کروں ۔چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسدؔ۔ حالات ایسے ہیں کہ کچھ دن میں آنا جانا ناممکن ہو جا ئے گا اس لئے کہ دشوار تو اب بھی ہے۔دیکھیں یہ حسرت کب پوری ہوتی ہے ۔(۱۲۸)

۴۔ میں آج کل ہاتھ سے تنگ ہوں ۔دوائیں بڑھتی جاتی ہیں اور آمدنی محدود ہے بہر نوع اللہ کا کرم ہے کہ ابھی تک کسی کے سامنے دستِ طلب دراز نہیں کرنا پڑا۔(۱۲۹)

۵۔ میں آپ کے پرچے ’’نعت رنگ ‘‘ کے عشاق میں سے ہوں اور اسی لیے غبار میر کی طرح دور بیٹھا ہوں۔ (۱۳۰)


ان خطوط میں کہیں کہیں ایسی عبارتیں بھی موجود ہیں جن میں پورا پورا شعر یا شعر کا ایک مصرع عبارت کا حصہ بن کر سامنے آیا ہے اور اس خوبصورتی سے آیا ہے کہ پڑھنے والوں کو تفہیم کی نئی منزل سے بھی آشنا کرتا ہے اور ان کے دلوں کو چھو کربھی گزر گیا ہے۔( حنیف اسعدیکی شخصیت کے بیان کے حصے میںپیش کیے گئے اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔)یہاں صر ف ایک مثال پر اکتفا کرتا ہوں:

۶۔ میں موٹے قلم سے خط لکھ رہا ہوں کہ اس لیے کہ اب نیم نابینا ہوں اور اپنا لکھا بھی پڑھا نہیں جاتا ۔دونوں آنکھوں میں موتیا اتر آیا ہے۔چشمہ بھی اُتر گیا ہے ۔کل ایک آنکھ کا آپریشن کرانے جارہا ہوں اور انشا ء اللہ کل ہی واپس آجاؤں گا ۔اب ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر گئی ہے کہ چند منٹ میں کام تمام ہوجاتا ہے۔گھر آکر تمہارا انتظار کروںگا ۔یہ ضروری نہیں کہ کل ہی تم وحشت زدہ ہوکر بھاگ لو۔ آرام سے کسی دن آجانا ۔ویسے: ع تم نہ آئے تو کیا سحر نہ ہوئی

تم نے آنے کا وعدہ کیا تھا اس لئے یہ شکایت کر رہا ہوں ورنہ اس افرا تفری کے ماحول میں کس کے پاس وقت ہے ۔ہاں مگر فون کی سہولت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے مگر اُس کے لئے بھی فراغت درکار ہے۔چلو چھٹی ہوئی ۔عذر مل گئے معذرت کی ضرورت نہیں ۔مٹّی پاؤ ۔(۱۳۱)


اشعار کی مثالیں گذشتہ صفحات میں دیکھی جاسکتی ہیں۔یہاں طولِ کلام اور تکرارِمباحث سے بچنے کے لیے اس کی مثالوں سے شعوری گریز کیا گیا ہے۔


نعت رنگ ‘میں چھپنے والے خطوط علمی وادبی حقائق کی گرہ کشائی کے ساتھ ساتھ اظہار وبیان کی لطافتوں سے بھی معمور ہیں۔ان خطوط میں اسلوب کے طلسمی اظہار کے پیرائے قاری کے ذہن و دل پر اس طرح سحر طاری کرتے ہیں کہ قاری خوشی سے اَن دیکھی دنیاؤں میں اتر جاتا ہے اور علویت(Sublimation) کا ایک تاثر لے کر واپس لوٹتا ہے ۔ ذیل کی چند مثالیں دیکھیے: ۱۔ آپ بجا فرماتے ہیں کہ میں درماندہ رہرو کی طرح ڈیرہ غازی خان کے پس ماندہ جزیرے میں بیٹھ کر رہ گیا اور قافلۂ شوق بہت آگے نکل گیا۔ (۱۳۲)

۲۔ ایک کائناتی سچائی اعتبار و اعتماد کی آخری سرحد بھی عبور کرجائے گی۔کشورِ دیدہ ودل میں چراغ جلانے کاعمل بھی پوری آب وتاب سے جاری وساری رہے گا۔غزل اپنے بختِ ہمایوں پرجتنا بھی ناز کرے کم ہے۔غزل درِحضور پرکاسہ بکف خیرات کی طلب گار ہے اوررہے گی۔(۱۳۳) ۳۔ ’پروفیسر محمد اکرم رضا ہمارا سرمایۂ افتخار ہیں، آقائے مکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت کے حوا لے سے قلم اُٹھاتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے کائنات کا سارا حسن ان کے قلم کے ہم رکاب بارگاہِ حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم میں دست بستہ کھڑا ہو، لفظ لفظ میں مودّت کے چراغ جل اُٹھتے ہیں۔ ہر چند یہ تصویرِ ادب بن جاتا ہے ورق ورق پر ہجومِ مہ و انجم اُمڈ پڑتا ہ۔‘(۱۳۴)

۴۔ ان دنوں وطنِ عزیز ایسی سنگینوں سے دو چار ہے، جن کی تلخیوں میں نہ کوئی سائنسی تاویل کمی کرسکتی ہے اور نہ کوئی شاعرانہ تعبیر۔ بس ایک ہی دیوار ہے جس سے دُکھتی ہوئی پیٹھ ٹیک لگا سکتی ہے اور ایک ہی سایۂ دیوار ہے جہاں ہر آبلہ پا سستا سکتا ہے۔ جانے والے مجھ سے کہیں بہتر تھے کہ انھیں اللہ تعالیٰ چند لمحوں میں، اپنے جوارِ رحمت میں لے گئے اور مجھے بہت کچھ سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے مہلت دے دی کہ۔۔۔ عمل اور دعا کا وقت نزول بلا سے پہلے ہوتا ہے، اس کے بعد تو رضا کا مقام ہے۔(۱۳۵)

۵۔ اردو کی شعری تہذیب میں عشق رسول Vکے موتیوں کی تلاش اوراس ضمن میں غزل کابھرپور حوالہ بذات خود ایک تخلیقی عمل ہے۔جستجو اورتجسس کے نئے دروازوں پردستک دینا بھی محقق کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے۔مبین مرزا مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے فکرونظر کی پگڈنڈیوں پرآئنے بکھیر کرثقافت کے ان گنت رنگوں کوایک تہذیبی اکائی میں جمع کرنے کافریضہ سرانجام دیاہے اردو زبان کا خمیر بھی خاک ِمدینہ ونجف سے اٹھایا گیاہے۔اس کا پیش منظر ہی نہیں پس منظر بھی نوراسلام سے جگمگا رہا ہے۔(۱۳۶)

۶۔ زندگی کے اس مرحلے پر جہاں میری تاریخ پیدائش ایک بھولا بسرا خواب بن چکی ہے اور تاریخ وفات ایک جیتی جاگتی حقیقت کی طرح میرے سامنے کھڑی ہے مجھے اپنی ان ادھوری چیزوں کو سمیٹنے کی فکر شدت اختیار کرتی جارہی ہے جنہیں میں نے اپنی خواہشوں کی فہرست میں اولین جگہ دی ہوئی ہے۔ ’’نعت رنگ ‘‘ اور تم سے مبارک تعلق کے حوالے سے میری زندگی میں جس طرح کی بہاریںاپنا رنگ دکھاتی رہتی ہیںاور مجھے سرخوش و سرمست کرتی رہتی ہیں اسی پر میں اپنے آپ کو اس حد تک تمھارا ممنون احسان سمجھتا ہوںکہ میں زندگی بھر تمھارا احسان اتارنے سے قاصر رہوں گا۔ البتہ اپنی بساط کے مطابق اپنی ٹوٹی پھوٹی کوششیںاپنی تسلی کے لیے ضرور کرتا رہوں گا۔(۱۳۷)

۷۔ ’’یہ اکیس ویں صدی کی پہلی دہائی ہے۔ نقد و نظر کے پیمانے بھی تبدیل ہورہے ہیں، شہرِ ادب میں تازہ کاری کی مسلسل بارشوں سے فرسودگی اور بوسیدگی کا زنگ بھی اُتررہا ہے۔ آج کی نعت اعلیٰ حضرتؒ کے زمانے کی نعت سے بہت مختلف ہے۔ نعت کی کائنات بھی ہر آن پھیلتی جارہی ہے۔ اگرچہ نعت گو کا اساسی رویہ وہی رہے گا جس سے ایوانِ نعت روزِ ازل سے گونج رہا ہے۔ لیکن سوچ اور اظہار کے ارتقائی سفر کے مختلف مراحل پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کو نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا، ہر زمانے کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں، اس کا ڈکشن بھی بڑی حد تک بدل جاتا ہے۔ آج کے نقاد کو بھی اَن گنت چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اب ادبی منظرنامہ نئے رنگوں کی رنگ آمیزی سے بڑی حد تک تبدیل ہوچکا ہے۔ نعت وہ واحد صنفِ سخن ہے جس نے تمام اصنافِ سخن میں اپنے وجود کو منوایا ہے حتیٰ کہ نثر میں بھی نعت کے خوب صورت نمونے مل جاتے ہیں‘‘۔(۱۳۸)

۸۔ آپ نے روشنی اور خوشبو کے جس مبارک سفر کا آغاز کیا ہے اس کی تحسین کے لیے میرے لفظ غریب لگ رہے ہیں مجھے...... ــــ ہاں! دلوں سے دلوں تک سفر کرتی محبت زاد کیفیتوں کی مہک قبول کیجیے کہ آپ ان خوش بخت خاک زادوں میں شامل ہوگئے ہیں عرش کے ستارے جن کی زندگی کو تابندگی میں ڈھلتے دیکھ کر جگمگا اٹھتے ہیں ــــ نعت درحبیبV پر پلکوں سے دستک دینے کا عمل ہے۔ اس محبت نواز جستجو میں سچی نسبتوں کی خوشبو رنگ بھرتی ہے۔ سچائی کی توانائی کا رنگ اور محبت کی جہانگیر قوت کی ترنگ.....ـــ یہ پھولوں کی سودا گری ہے ـــ..... خوشبو جس کے سدا سنگ رہتی ہے ـ.....ــ آپ کا مئوقر مجلہ ’’نعت رنگ ‘‘ صادق نسبت کے جاوید رنگ سے مملو ہے اور نسبتیں بڑی لج پال ہوتی ہیں۔ خود سے وابستہ لوگوں اور لمحوں کو مرنے نہیں دیتیں امر کردیتی ہیں..... کامرانی اور شادمانی بخش دیتی ہیں .....ــــ اس وقت شمارہ نمبر۱۲ زیر مطالعہ ہے اور اس کی مہکار سے میرے چارسو بہار کے جاودانی رنگ بکھرنے لگے ہیںــــ رنگ سچی امنگ سے پھوٹ رہے ہوں تو گفتگو کرنے لگتے ہیں اور اس گفتگو سے سرمدی سرورسے بھری خوش بو آنے لگتی ہے۔ آپ کا اداریہ اس معطر کیفیت سے سرشار ہے۔(۱۳۹)

۹۔ ’’نعت رنگ ‘‘ کا کتابی سلسلہ نمبر۲ نظرنواز ہوا۔ سرورق دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ دل میں کیاکیا جذباتِ عقیدت بھڑکے۔ ذہن میں کیا کیا الفاظ محبت گونجے۔ روح نے کس کس طرح سرمستی میں رقص کیا۔کالی کملی والے کے تصور میں بے ساختہ سرورق کو چوم لیا۔۔۔ سرورق... انوار و تجلیات کی بارش۔ اس بارش میں ذاتِ باری کی طرف سے اعلان کرتی ہوئی ٹھنڈی، بھینی خوشگوار و مشکبار ہوا... ہوا کا اعلان ...ذاتِ بے نیاز کے اندازِ تخاطب کے والہانہ پن کا ترجمان ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ چمکتا دمکتا، ارفع و اعلیٰ، فضائوں میں نور چھڑکتا ہوا مینار۔ خوش بوئیں لٹاتی ہوئی فصل بہار۔۔ ۔علامتِ دلنشین... رحمۃ للعالمین... درود و سلام ہو اس رحمتوں کے تاج والے معراج والے نبی طاہر و مطہر پر اس کی آل پر، اس کے اصحاب پر اور اس کی ازواج پر ہے۔ (۱۴۰) ۱۰۔ غیرمشروط اور غیرمتزلزل کومٹ منٹ کا پہلا صلہ یہ عطا ہوتا ہے کہ تخلیقی سطح پر سوچ اور اظہار کے مقفل دروازے خودبخود کھلنے لگتے ہیں۔ تخیل کے پرندوں کو تازہ ہوائوں سے دائمی وابستگی کا ادراک ملتا ہے اور لفظ و معانی کی فضائے بسیط میں اونچی پرواز کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ’’نعت رنگ ‘‘ نے اپنے جس تخلیقی سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس کے نقوشِ پا اتنے تابندہ اور روشن ہیں کہ بہت سے دوسرے اربابِ وفا پر بھی سفر کے مراحل آسان ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ثنائے حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم کی خنک ہوائوں کے قافلے کے رواں دواں رہنے کا چرچا خوش بوئیں ہی نہیں، دھنک کے رنگ بھی کرتے رہے ہیں۔ ’’نعت رنگ ‘‘ کا شمارہ نمبر۲۲ پھولوں کی اپنی خوش بوئوں، دھنک کے انھی رنگوں اور آفتابِ ادب کی اسی روشنی کا عکسِ جمیل نظر آتا ہے۔(۱۴۱)

۱۱۔ جشن عید میلادالنبیV کی آمد آمد ہے، پلکوں پر ابھی سے اَن گنت ستارے جھلملانے لگے ہیں، نعتِ مسلسل کے سرمدی رتجگوں کا شاداب موسم قریۂ جاں میں ابھی سے خیمہ زن ہے، کشتِ دیدہ و دل میں ابھی سے بادِ بہاری چل رہی ہے، شاخِ آرزو پر ابھی سے کلیاں مسکرانے لگی ہیں، صبحِ میلاد کی دل نواز ساعتوں کی پذیرائی کے لیے دل کی دھڑکنیں چشمِ محبت کی دہلیز پر ابھی سے سمٹنے لگی ہیں۔ صبا، خوش بو کے چراغ لے کر ابھی راہوں میں کھڑی ہے، تاریخِ کائنات کے سب سے بڑے دن کے استقبال کے لیے عناصرِ فطرت رنگ و نور کی نئی پوشاک پہنے ابھی سے چشم براہ ہیں۔۔۔ربیع الاوّل کے مقدس چاند کے طلوع ہونے میں ابھی چند روز باقی ہیں، خوشیوں اور مسرتوں کی دھنک سات رنگوں کا پرچم اُٹھائے آسمانِ قلب و نظر پر جلوہ گر ہے۔اے صبحِ میلاد کی نورانی ساعتو! ہم غلاموں کا سلامِ شوق قبول کرو۔(۱۴۲)


مذکورہ بالا پیراگراف میں ادبی اور رومانوی اسلوب کی چند مثالیں بطور شہادت پیش کی گئی ہیں۔ان کے علاوہ بھی اظہار وبیان کے خوبصورت پیرائے ’نعت رنگ ‘ کے خطوط کی زینت بنے ہیں۔ جن کا بیان مزید طوالت کا باعث بن سکتا تھا لہٰذا انھی اقتباسات پر اکتفاکیاجاتا ہے۔


طنز ایک باشعور انسان کے ایسے ردعمل کو کہتے ہیں جس میں طنز نگاراپنے موضوع کے خلاف دلی بے زاری،نفرت اور اکتاہٹ کے جذبات کا شعوری اظہارکرتا ہے۔ طنزایک ایسا احتجاج ہے جو انسانی رویوں کی کج روی کے خلاف کبھی دھیمے انداز میں اور اکثر اوقات بلند آہنگی کے ساتھ رونما ہوتا ہے۔ ایسا طنز جس کے پس پشت اصلاح کا عنصر کارفرما ہو،طنز نگار اسے ظرافت کی چاشنی میں ڈبو کر اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ طنز نگار کی ترشی اور تلخی ظاہر نہیں ہو نے پاتی۔ طنز نگارانسانی زندگی اور معاشرے کی ناہموریوں کو اپنے طنزیہ نشتروں سے جھنجھوڑنے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے لیکن جب طنز نگار کے ذہنی ردعمل میں اصلاح یا ہمدردی کا عنصر کارفرما نہ ہو تو پھر اس کے طنز میں ترشی اور جھلاہٹ درآتی ہے۔ یہ تلخی اور جھلاہٹ زہرِ خند کاکام دیتی ہے۔طنز نگار اپنے طنزیہ جملوں سے اپنے موضوع کو نیم بسمل کر کے تڑپتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ایک مشاق طنز نگاراپنے طنزکو اس خوبصورتی سے اظہار کی صلاحیت عطا کرتا ہے کہ اس کے طنز میں ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘کا گمان گزرنے لگتاہے۔


نعت رنگ ‘ میں شائع ہونے والے خطوط مختلف مکاتب ِ فکر اور نقطہء نظر کے حامل افراد کی طرف سے تحریر کیے گئے ہیں اس لیے ان میں مختلف اور متضاد خیالات کی کارفرمائی فطری امر ہے۔اسی وجہ سے خطوط میںترشی ،تلخی اور طنز کا عنصر اظہار کی راہ پا گیا ہے۔ جب خطوط میں معرکہ آرائی ،جذباتی طرز عمل یا ناقابلِ قبول ناہمواریاںموجود ہونے کی وجہ سے مکتوب نگاروں کے مکاتیب میں کہیں کہیں طنزیہ نشتریت بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ کہیں دھیمے سروں میں اور کہیں بلند آہنگی کے ساتھ ۔ذیل میں طنز کی چارمثالیں ملاحظہ فرمائیے:

۱۔ یہ بیان بتا رہا ہے کہ مضمون نگار اپنے ممدوح سے کس حد تک متاثر ہے۔ ظاہر ہے کہ اس تاثر کے تلے دبے مضمون نگار سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ معروضی انداز میں تنقید کا حق ادا کرسکے گا۔ (۱۴۳)

۲۔ اب ہم دوسرے تقریظی مضمون کی سمت رجوع کریںگے۔ یہ مضمون جناب پروفیسر منظر ایوبی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک نعت طاہرسلطانی کی حمدیہ شاعری پر ان کی جانب سے نچھاور کیے ہوئے پھولوں جیسا ہے۔ اس میں بھی مضمون نگار اپنے ممدوح کے ’’لب و لہجہ کی پاکیزگی اور اسلوب کی طہارت‘‘ میں ڈوبا نظر آتا ہے۔ اس حد تک اسے ممدوح کے کلام میں تلمیحی اشاروں کے غیرمحتاط رویوں کاذرا بھی پتا نہیں چل سکتا ہے۔ اس نے جوشِ عقیدت میں اپنے ممدوح کا یہ شعر بھی کوٹ کردیاہے۔۔۔(۱۴۴) ۳۔ مظفر وارثی کینہ پرور آدمی نکلے ۔اُن سے وہ اعزازہضم نہیں ہوا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے اُن کو بخشاتھا۔ نعت جیسی صنف کے مصنف کا ایسی پست سطح پر اترنا عجیب سا لگتا ہے۔ اخلاقیات کے موضوع پر بیسیوں اشعار کہنے والا شاعر اسقدر رکیک لہجہ اختیار کرے گا اس کا کبھی گمان بھی نہیں ہوا تھا ۔معلوم نہیں یہ کتاب تم نے مجھے بخش دی ہے یا محض پڑھنے کے لئے دی ہے۔ میں اس ’’سنڈاس‘‘ کو کہاں رکھوں۔(۱۴۵)

۴۔ ان کے خلاف ایک ۷۵سالہ بوڑھا ریٹائرڈ پروفیسر کیا اقدام کرسکتا ہے یہاں تو ان کا اُلّو بولتا ہے جن کا علم ’’حرفِ چند‘‘ سے ماسوا اور وہ افلاطون، سقراط اور بقراط کے استاد بننے شہرت اور سونے بٹور رہے ہیں۔ جاہلوں کی قدردانی ناشروں کی بے بسی ایڈیٹر کی جہالت کو دیکھتے ہوئے شرفا اپنی عزت اسی طرح بجا سکتے ہیں کہ ’’کتا شاہی‘‘ ریس سے خود کو دُور رکھیں۔(۱۴۶)

نعت رنگ کے خطوط میں جہاں شخصی عناصرمرقعوں کی صورت جلوہ گر ہوئے ہیںوہاں منظر کشی کے کہیںدھندلے اور کہیں واضح نقوش بھی سامنے آئے ہیں۔ صرف ایک مثال دیکھیے۔شفقیت رضوی نے اِس خوبصورتی سے دو مناظر کو صفحہء قرطاس پر الفاظ کے رنگوں سے منتقل کیا ہے کہ ہم اپنی چشمِ تخئیل سے ان مناظر کو دیکھ بھی لیتے ہیں ، ان میں اتر کر شریک بھی ہوتے ہیں اور لطف اندوز بھی۔

’’ میں نے کبھی کسی شاعر کے شعر پر سن کر داد نہیں دی لیکن جب کبھی اور جہاں کہیں لوک گیت سنے ہیںمیں یا میرا دل رقص کناں رہے۔ زندگی کی بھرپور کیفیت اور سچائی کی آخری حد کودیکھنا ہو تو لوک گیت سنو۔ اس مضمون کے حوالہ سے سلیمان خطیب بہت یاد آئے۔ بہت پیارا شخص اور محبت کرنے والے دل کا مالک تھا۔اس نے بتلایا تھا کہ وہ اور اس کی بیوی چوڑیاں، گہنے، کپڑے بطور سوغات لے کر گائوں گائوں گھومتے، جھونپڑے میں کسانوں کے مہمان بن جاتے۔ ان کو روک کر لوک گیت سنتے، جو ہندی، مراہٹی، تیلگو، کوکنی وغیرہ زبانوں میں ہوتے مفہوم کچھ سمجھتے اور کچھ نہ سمجھتے لیکن اس کے رنگ اور رس میں کھو جاتے۔ بے حال ہوکر ان کے تال و سر پر رقص کرتے۔ دو چار دن فطرت کی گود میں گزار کر لوٹتے تو سوغات ان کی امانت ان کے حوالے کر دیتے۔ سلیمان صاحب کا کئی برس دستور رہا کہ گرمی کے موسم میں میرے غریب خانہ پر سال میں ایک رات ضرور گزارتے۔ چاندنی رات میں گھر کی چھت پر فرش ہوتا قالیں اور گائو تکیہ لگے ہوئے۔ چند حضرات باذوق محفل سجاتے۔ پہلے طعام ہوتا نو بجے کے بعد محفل سجتی۔ حیدرآباد کے شاعر کلام پیش کرنے کے لیے بے تاب رہتے۔ میں منع کرتا اور سوائے سلیمان خطیب کے کسی کو سننا پسند نہیں کرتا۔ میں دعوے سے کہتا ہوں زندگی [کا] جو رس ان کی شاعری میں تھا وہ اور کہیں نہیںملے گا۔ ان کے تقابل میں نظیر[اکبر] آبادی آتے ہیں لیکن خطیب کی مٹھاس ان کے پاس بھی نہیں ہے۔ اردو کے تمام اساتذہ نے جو تشبیہات اور تمثیلے استعمال کیے ہیں ان کے مقابلہ میں خطیب کے تشبیہات اور قہقہے تو سب حقیر دکھائی دیں۔ محبوب کی یاد کے لیے کہتا ہے ’’جیسے کچی دیوار میں کنکر دھنسے‘‘ ہے اردو شاعری میں اس کا جواب؟ ان کی نظم پگڈنڈی بھی غضب کی چیز ہے کیاکیا نادر تشبیہات ہیں۔ میں ان کے بارے میں لکھنے کے لیے سوچتا رہا۔ میری نالائقی کہ میں لکھ نہ سکا۔(۱۴۷)

(۴) <ref> کتاب میں بھی (2) کے بعد (4) ہے ۔ </ref>

آخر میں ’نعت رنگ ‘ کے حوالے سے چند سوالوں پر غوروفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ’نعت رنگ ‘کا حاصل کیا ہے؟اس سے پہلے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی سعی کی جاتی ہے کہ ’نعت رنگ ‘ اپنی ابتدا ہی سے جو اہداف لے کر چلا تھا کیا وہ اہداف پورے ہو چکے ہیں؟ اور اگر پورے ہو چکے ہیں تو اب اس مجلے کا جواز کیا ہے؟اور اگر وہ اہداف پورے نہیں ہو سکے تو ان کے اسباب کیا ہیں؟ ان سوالات کے جواب ذیل میں تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

نعت رنگ ‘ روز اول سے ایک ہی مقصد لے کر چلا تھا اور وہ تھا نعت کا فروغ ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’نعت رنگ ‘ سے قبل جاری ہونے والے اور اس کے معاصر نعتیہ رسائل بھی تو اسی مقصد کے علم بردار رہے ہیں۔ایسی صورت حال میں ’نعت رنگ ‘ کے اجرا کا جواز کیا تھا؟ اس سوال کا جواب ایک اور سوال میں مضمر ہے اور وہ یہ کہ تخلیق ِ نعت تو صدیوں سے ہو رہی تھی اور آج بھی تخلیقِ نعت کا یہ عمل ماضی کی نسبت کہیں زیادہ جاری و ساری ہے لیکن نعت اتنی قدیم اورطویل روایت کی حام ہونے کے باوجود دیگر اصناف سخن سے پیچھے کیوں رہ گئی ؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی تلاش ’نعت رنگ ‘ کے اجرا کا باعث بنی۔ چنانچہ ان وجوہات کو تلاشنا اور اس کا تدارک کرنا ہی ’نعت رنگ ‘ کا بنیادی مقصد قرار پایا۔ مدیر’نعت رنگ ‘ کا نقطہء نظر بھی یہی تھا کہ نعت کا فروغ محض تخلیقِ نعت سے نہیں بلکہ نعت کی ترقی اور فروغ میں حائل رکاوٹوں کے اسباب وعلل تلاش کرنے اور صنف نعت میں پوشیدہ ان امکانات کوبروئے کارلانے میں مضمر ہے جسے نعت کی ایک صدی سے زائد عرصہ پر پھیلی ہوئی تنقید تلاشنے میں ناکام رہی ہے۔ مدیر’نعت رنگ ‘ کے نزدیک یہ ذمہ داری تنقید اور تحقیق کی ہے۔ تحقیق نے وہ اسباب اور شواہد اکٹھے کرنے ہیں جو نعت کی ترقی میں حائل رہے اور تنقید نے ان تمام شواہد ،اسباب او ر مواد کا غیر جانبدارانہ ،سائنسی اور معروضی مطالعہ کرنے اور تجزیے کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد نتائج سامنے لانا ہیں۔ لہٰذا ’نعت رنگ ‘ میں نعت کے حوالے سے تحقیقی و تنقیدی مقالات کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ آغاز آغاز میں نعت کے حوالے سے لکھنے والوں کا ایک محدود طبقہ موجود تھا جو رفتہ رفتہ بڑھتا رہا اور آج صورت حال یہ ہے کہ ’نعت رنگ ‘ کے لیے لکھنے والے محققین اور ناقدین کی بڑی اور نمائندہ آوازیں اس صف میں شامل ہو چکی ہیں۔ ان آوازوں نے نعت کو نئے نئے امکانات سے ہم کنار کیا اور نیا رنگ و آہنگ عطا کیا۔ ’نعت رنگ ‘میں چھپنے والے مقالات کی وجہ سے تنقیدِ نعت اور تحقیقِ نعت محدوداور مخصوص دائروں سے نکل کر وسعت اختیار کر گئی ۔آج نعت کو قدیم وجدید تمام اصولوں اور نظریات کی کسوٹی پر پرکھا جارہا ہے۔ ہر وہ زاویہء نظر جو ادب کی تفہیم ،تعبیر اور تشریح میں موجودہ عہد میں برتا جارہا ہے ،ان تمام زاویوں سے نعت کی قدراور مقام متعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

نعت رنگ ‘ اپنے ابتدائی ادوار میںشخصیات پر تحقیق و تنقید کے گرد گھوم رہا تھا لیکن رفتہ رفتہ مقالات کا رخ شخصیات سے موضوعات کی جانب مڑگیا ۔گویا نعت کے موضوعات کا دائرہ پھیل کر مزید وسعت اختیار کر گیا۔ اگرچہ آج بھی ’نعت رنگ ‘ میں شخصیات کے حوالے سے مقالات و مضامین تحریر کیے جارہے ہیں لیکن ان کی تعدادماضی کی نسبت نہایت کم ہے۔ اب ’نعت رنگ ‘ کی تمام تر توجہ نعت کے موضوعات پر مرتکز ہو چکی ہے۔ آغاز آغاز میں ’نعت رنگ ‘ کو موصول ہونے والے مضامین کی نوعیت سطحی ہوتی تھی لیکن اب بیشتر مضامین ومقالات میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہو چکی ہے۔ ان مقالات میں تحقیق و تنقید کا وژن خاصا وسیع ہو چکا ہے۔ پہلے’نعت رنگ ‘کے مضامین اور مقالات میں تعارفی اورتقریظی عنصربھی جھلکتا نظر آتاتھا لیکن اب تحریروں میں تنقیدی اور تحقیقی عنصرہی مقالات کو محیط نظر آتا ہے۔ پہلے تنقید ِ نعت میں خوف اور حد سے بڑھا ہوا محتاط رویہ دیکھنے میں آتا تھالیکن اب بے خوفی ، بے باکی اور غیرجانبداری کے اثرات غالب حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ پہلے فنی حوالوں سے نعت کو دیکھا جارہا تھا اب معیارادبی اور فلسفیانہ ہو گیا ہے۔ پہلے اختلافی موضوعات پر زیادہ لکھا جارہا تھا اور اب امکانی موضوعات پر غور وفکر کیا جارہا ہے۔ غرض یہ کہ اب نعت کے اختلافی موضوعات ، جہتوں، ممنوعات، محسنات، معائب ،محاسن اور نظری اور عملی حوالوں سے لکھا جارہا ہے۔

معاصر عہد میں نعت کی تحقیق اور تنقید مقالات سے قدم آگے بڑھا کر مربوط اور مبسوط کتابوں کو محیط ہو چکی ہے۔ اب نعت کے موضوعات پر کتابیں لکھی جارہی ہیں ۔نعت نگاروں پر کتابیں مرتب ہو رہی ہیں۔تذکرے لکھے جارہے ہیں۔ تاریخوں کا ڈول ڈالا جارہا ہے۔ نعت کی تحقیق و تنقید کا دائرہ غیر سندی تحقیق سے قدم بڑھا کر سندی تحقیق و تنقید تک پھیل گیا ہے۔ اب مختلف جامعات میں نعت سے متعلق ایم۔اے، ایم۔فل اور پی۔ایچ ۔ڈی کی سطح کے بیسیوں مقالات لکھے جاچکے ہیں اور ہنوز جاری ہیں۔ غرض یہ کہ نعت کو تحقیق و تنقید نے نعت کے موضوع کو پورے طور پراپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔ ذیل میں تنقید و تحقیق ِ نعت کی چند جہتوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔

تذکروں میں مدحت نامہ مرتبہ صبیح رحمانی؛ وفیات نعت گویان پاکستان مرتبہ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ؛ کراچی کا دبستان نعت مرتبہ منظر عارفی؛مناقب امام حسین اور شعرائے کراچی مرتبہ،منظر عارفی؛ تذکرہ نعت گو شاعرات مرتبہ ابو سلمان شاہ جہان پوری؛ نعت کے شعرائے متقدمین مرتبہ شمیم احمد گوہر؛ تذکرہ شعرائے بدایوں دربارِ رسول میں مرتبہ ڈاکٹر شمس بدایونی؛ بارگاہِ رسالت کے نعت گومرتبہ ڈاکٹر شہزاد احمد؛تذکرہ نعت گو یانِ راولپنڈی مرتبہ قمر رعینی؛نعت گویانِ بریلی مرتبہ ڈاکٹر سید لطیف حسین ادیب؛شعرائے امرتسر کی نعتیہ شاعری مرتبہ،محمد سلیم چودھری؛ کاروانِ نعت کے حدی خواں مرتبہ پروفیسر محمد اکرم رضا؛تذکرہ نعت گویانِ اردو مرتبہ پروفیسر سید یونس شاہ گیلانی، اول و دوم؛ غیر مسلموں کی نعت گوئی مرتبہ راجا رشید محمود؛ خواتین کی نعت گوئی مرتبہ راجا رشید محمود؛ پاکستان کے نعت گو شعرا از سید محمد قاسم تذکرہ شعرائے جماعتیہ از صادق محمد قصوری؛محمد کے غیر مسلم مداح اور ثنا خواں از عنصر صابری؛عصر حاضر کے نعت گو ،اول و دوم از گوہر ملسیانی؛تذکرہ نعت گویان اردو از سید یونس شاہ وغیرہ

نعت کی ادبی تاریخوں میں آنحضرت کے دور کی نعتیہ شاعری از بخت آور؛عہد نبوی کی نعتیہ شاعری از ڈاکٹر شاہ محمود تبریزی؛ اردو میں نعت گوئی از ڈاکٹر ریاض مجید؛ اردو میں نعتیہ شاعری از ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق؛ اردو شاعری میں نعت گوئی از ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی؛ اردو کی نعتیہ شاعری ازڈاکٹر طلحہ رضوی برق؛اردو شاعری میں نعت (ابتدا سے محسن تک) از ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد فتح پوری؛ اردو کی نعتیہ شاعری ازڈاکٹر فرمان فتح پوری؛ اردو نعت تاریخ و ارتقا از فضل فتح پوری،افضال حسین نقوی وغیرہ

علاقائی تاریخوں میں پاکستان میں نعت از راجا رشید محمود؛اردو نعت پاکستان میں از ڈاکٹر شہزاد احمد؛پاکستان میں اردو نعت از عزیز احسن؛ چکوال میں نعت گوئی از عابد منہاس ؛ نعت حضور اور سرگودھا کے شعرااز شاکر کنڈان؛کراچی کے نعت گو شعرااز شاکر کنڈان؛ سندھ کے نعت گو شعرااز شاکر کنڈان؛راولپنڈی کے نعت گو شعرااز شاکر کنڈان؛ اسلام آباد کے نعت گو شعرا از شاکر کنڈان؛ چکوال میں نعت گوئی از عابد منہاس؛ پاکستان کے نعت گو شعرا از سید محمد قاسم؛ ہندوستان اور پاکستان کی اردو نعت کا تقابلی مطالعہ از قریشیہ بانو؛وغیرہ۔

نعت کے موضوعات ،رجحانات،اسالیب اور ہیئتوں پر بھی کئی کام سامنے آئے ۔ ان میں

اردو نعت کے موضوعات کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ از شمیم اختر خاتون؛

اردو نعت میں غیر اسلامی عناصر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ از محمد کاکا خیل؛

اردو نعت کا موضوعاتی و تنقیدی مطالعہ، اردو نعت گوئی میں قرآن و حدیث کی تلمیحات،اردو نعت اور جدید اسالیب از ڈاکٹر عزیز احسن؛

اردو نعت کا ہیئتی مطالعہ از ڈاکٹر افضال احمد انور؛

اردو نعت کا صنفی و ہیئتی مطالعہ از ڈاکٹر شکیلہ خاتون؛

نعتیہ شاعری اور ہیئتی تجربے از صبا علیم نویدی؛

نعت اور جدید تنقیدی رجحانات ازکاشف عرفان ؛

اردو نعت کے جدید رجحانات از آنسہ شوکت چغتائی؛


اہمیت کے حامل ہیں ۔ان کے علاوہ اردو نعت کے حوالے سے سندی مقالات بھی تحریر کیے گئے۔ ان میں


اردو نعت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ازرشید وارثی؛

اردو کا نعتیہ ادب از ڈاکٹر شمیم احمد گوہر؛ اردو حمد و نعت پر فارسی شعری روایات کا اثراز ڈاکٹر عاصی کرنالی؛

اردو نعتیہ ادب کے تنقیدی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ ازڈاکٹر عزیز احسن؛

اردو نعت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ از ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط ،وغیرہ۔

شخصیات کی نعت گوئی کے حوالے سے سندی اور غیر سندی تحقیقی و تنقید ی اور مرتبہ کتب کی اشاعت عمل میں آئی۔خاص طور پر اردو شاعری کی بڑی آوازوں کو بطور نعت گو متعارف کروایا گیا۔خاص طور پرغالب، محسن کاکوروی،اقبال اور احمد رضا خان بریلوی کی نعتیہ شاعری پر کتب سامنے آئیں۔ مرزا غالب کی نعتیہ شاعری از رفیع الدین اشفاق؛

غالب اورثنائے خواجہ مرتبہ صبیح رحمانی ؛

محسن کاکوروی کی نعتیہ شاعری از عبدالنعیم عزیزی؛

کلام محسن کاکوروی ۔ادبی و فکری جہات مرتبہصبیح رحمانی؛

اردو نعت گوئی اور فاضل بریلوی از عبدالنعیم عزیزی،

مولانا احمد رضا خان بریلوی کی نعتیہ شاعری از سراج احمد قادری؛

احمد رضا کی نعتیہ شاعری از ڈاکٹر سراج احمد بستوی؛

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان اور ان کی نعت گوئی از ڈاکٹر سید جمیل الدین راٹھوی؛

حضرت رضا بریلوی بحیثیت شاعر نعت از ڈاکٹر محمد امام الدین؛

امام احمد رضا خان ۔حیات اور کارنامے از ڈاکٹر طیب علی رضا انصاری؛

اردو نعتیہ شاعری میں مولانا احمد رضا خان کی انفرادیب و اہمیت از ڈاکٹر تنظیم الفردوس؛

امام احمد رضا خان کی نعتیہ شاعری میں عشق رسول کا عنصر از ڈاکٹر محمد آدم یوسف شیخ؛

کلام رضا۔فکری و فنی زاویے مرتبہ صبیح رحمانی ؛

اقبال کی نعت۔ فکری و اسلوبیاتی مطالعہ مرتبہصبیح رحمانی وغیرہ


نعتیہ شاعری کی کم اہم آوازوں میں ادیب رائے پوری۔تخلیقی،تحقیقی خدمات کا جائزہ از ڈاکٹر شہزاد احمد؛عزیز الدین خاکی۔تخلیقی ،تحقیقی خدمات کا جائزہ از ڈاکٹر شہزاد احمد؛ سید ریاض حسین زیدی کی نعتیہ شاعری از نوید عاجز؛سید ناصر چشتی کی نعتیہ شاعری از طارق عزیز بھنڈارا؛حافظ مظہرالدین مظہر کی نعت گوئی از عتیق محمد عبداللہ وغیرہ پر کتب اہمیت کی حامل ہیں۔

نعت رنگ ‘ میں مختلف شخصیات کے گوشے بنائے گئے تاکہ ان شعرا کو ایک طرف خراج ِ تحسین پیش کیا جاسکے اور دوسری طرف ان کا شاعرانہ مرتبہ بھی متعین کرنے میں مدد مل سکے۔ ان گوشوں کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ اس وقت ترتیب دیے گئے جس وقت ان شعرا کے دواوین سامنے نہیں آئے تھے۔ ان شعرا میں ڈاکٹر سید آفتاب احمد نقوی، آفتاب کریمی، ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر اسلم فرخی، افتخار عارف، حافظ لدھیانوی، حفیظ تائب، خورشید رضوی، سحر انصاری، سلیم کوثر، شبنم رومانی، شوکت عابد، شیبا حیدری، صبا اکبر آبادی، غالب، والی آسی، یعقوب لطیف، انورشعور، جلیل عالی، سید ضیاء الدین نعیم اہمیت کے حامل ہیں۔

نعت نگاروں اور نعت کاروں کے خاکوں کو بھی نعت رنگ کی زینت بنایا تاکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرقع نگاروں کی زندگیوں کے نقوش کو ’نعت رنگ ‘ کی زینت بنا کر انھیں خراج تحسین پیش کیاگیا۔شعرا کے خصوصی گوشے بنوائے ، خاص نمبر شائع کیے۔اسی طرح ’نعت رنگ ‘ میں مشاہیر علم و اد ب سے انٹرویو کا سلسلہ بھی شروع کیا تاکہ معروف قلم کاروں کے خیالات ،افکار اورتاثرات نعتیہ ادب کے حوالے سے سامنے آئیں۔غرض یہ کہ نعت کو ہر طرح ہر جہت اور ہر پہلو سے ثروت مند بنانے کی کوششیں کی گئیں۔

صبیح رحمانی نے نعت کی ادبی شناخت کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے نعتوںکے منظوم تراجم کا سلسلہ شروع کیا ۔ اردو کی بہترین نظموں کا انگریزی ترجمہ کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ نعت کی ادبی شناخت کا دائرہ وسیع تر ہو سکے ۔ اسی طرح نعت کومخصوص ہئیتی جکڑبندیوں سے آزاد کروانے کے لیے اردو نعتوں میں ہیئتی تنوع کے فروغ کی کوششیں کیں تاکہ جدید اصناف میں مدحت گری کے خدو خال کو بہتر طور پر اجاگر کیا جاسکے۔اس سلسلے میں انھوں نے ’نعت رنگ ‘ کے تیسرے اداریے میں نعتیہ سانیٹ ، واکا، ہائیکو، دوہے ،نعتیہ کافیوں اور نعتیہ گیت کو تخلیقی سطح پر برتنے کا مشورہ دیا ۔(۱۴۸)

مذکورہ بالامباحث کے نتیجے میں یہ کہنا بے جا نہیں کہ ’نعت رنگ ‘نے اپنے ہم عصر نعتیہ رسائل ہی میں نہیں ماضی کے نعتیہ رسائل میں بھی اپنی الگ اور منفرد شناخت قائم کر لی ہے۔ ’نعت رنگ ‘میں شائع ہونے والے تحقیقی اور تنقیدی مقالات میں جو گہرائی اور گیرانی نظر آتی ہے وہ اس کے معاصر اور ماقبل نعتیہ رسائل میں دیکھنے میں نہیں آتی ۔’نعت رنگ ‘سے قبل نعت کا فروغ انفرادی معاملہ نظر آتا تھا لیکن اس مجلے کی کاوشوں نے اسے عوامی معاملہ بنا کر اپنے گرداہل علم اور اہل قلم مصنفین کا کثیر حلقہ جمع کر لیا ہے ۔ یہ حلقہ ہندوستان اور پاکستان میں ہی موجود نہیں بلکہ اطراف عالم میں پھیلا ہوا ہے۔اس حلقے کے تنقیدی و تحقیقی فکر و خیال نے اس مجلے کو محدودفضا سے نکال کر فضائے بسیط سے ہم کنار کردیا۔ جدیدادبی منظر نامے سے کشیدکردہ نظریات سے تنقید نعت کو اس طرح فیض یاب کیا ہے کہ اب تنقید نعت کسی معذرت خواہانہ رویے کی حامل نہیں رہی ہے۔ اب نعت دیگر مروجہ اصناف سخن کے مقابل اپنے فنی اور فکری حوالوں سے تخلیقی شاعری کا ایک معتبر حوالہ بن کر سامنے آگئی ہے اور دیگر مروجہ اصناف سخن کے مقابل اعتماد کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ اور جہاں تک نعت کی تحقیق و تنقید کا تعلق ہے ۔نعت پر لکھنے والوں کا ایک بڑا حلقہ پیدا ہو گیا ہے۔ اردو کی ادبی تحقیق و تنقید کی بڑی آوازیں اب تنقید و تحقیق نعت کے فروغ میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ جس کے باعث نعت اور تنقید نعت جو دو دہائیوںقبل تنہائی کا شکار نظر آتی تھی اب اردو ادب کی انجمن میں آبیٹھی ہے۔ ’نعت رنگ ‘ نے مکتوب نگاری کو فروغ دے کر مکتوبی تنقید کو آگے بڑھا یا ہے۔ ’نعت رنگ ‘ میں چھپنے والے خطوط مکتوبی تنقید کا ایک وقیع سرمایہ ہیں۔ یہ مکتوبات مستقبل میں تنقید ِ نعت کو راستہ بھی دکھائیں گے اور تنقیدِ نعت کے نئے امکانات کو تلاشنے میں بھی مددگار ہوں گے۔ ’نعت رنگ ‘کو اعتبار و افتخار عطا کرنے میں جہاں اہل علم و اہل قلم قارئین کا ہاتھ رہا ہے وہاں سب سے اہم کردار مدیر نعت رنگ کا ہے جن کی مجتہدانہ کوششوں نے تنقید نعت میں روشن خیالی ، رواداری، اور غیرجانبداری کو فروغ دے کر ’نعت رنگ ‘ کو ماضی کی تاریک راہوں سے نکالا اور پھر اسے مستقبل کی روشن راہ گزر پر محو سفر کردیا۔جس کے باعث ’نعت رنگ ‘جو ماضی میں ایک جوئے کم آب تھی اب بحر بے کراں بننے جا رہی ہے۔

(۵)

یہ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ یہ تمام ابواب کم و بیش دوسو شخصیات کے خطوط سے کشید کردہ ان علمی نکات پر مشتمل ہیں جو مدیر نعت رنگ کو تحریر کیے گئے ہیں۔یہ تمام خطوط مطبوعہ ہیں اور موضوعی نوعیت کے حامل ہیں، جن کا محور صنف نعت اور متعلقات نعت ہے چنانچہ ان خطوط سے نعت سے متعلق کم و بیش تمام نکات قطرہ قطرہ علیحدہ کر کے مختلف موضوعات کے تحت بنائے گئے ابواب میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔پھر اس باب سے متعلق ضمنی نکات کو عنوانات قائم کر کے اہل علم و دانش کے فکرو ذوق کا سامان فراہم کیا گیا ہے۔ اس طرح’ نعت رنگ ‘ میں شائع ہونے والے تمام خطوط میں موجود تقریباً تمام ہی نکات سامنے آ گئے ہیں۔ اس طریق کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ کسی ایک ہی موضوع کے تحت مختلف اہل دانش نے جو کچھ سوچا ، سمجھا،اخذ کیا یاتحریر کیا،اس سے ایک ہی کتاب میں استفادہ ممکن ہو گیا ہے۔اس کتاب کی ترتیب سے تمام نقطہ ہائے نظر سے استفادہ کے لیے مختلف تصانیف کو حاصل کرنے اور پھر اس کا مطالعہ کرنے کی ککھیڑ سے نجات ملے گی۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ’ نعت رنگ ‘ میں چھپنے والے خطوط کی اہمیت بھی سامنے آئے گی۔ تیسرا فائدہ یہ ہو گا کم سے کم وقت میں نعت کے مختلف پہلوؤں پر اہل قلم کی آراء سے استفادے کا موقع ملے گا۔

نعت رنگ ‘ میں چھپنے والے خطوط چونکہ مختلف افراد کے ذہن و فکر کے زائدہ ہیں اور یہ تمام افراد کسی مخصوص دبستان تنقید یا مکتب ِ فکر سے تعلق نہیں رکھتے اس لیے ان کے خیالات میں یکسانیت تلاش کرنا یا ان میں منضبط انداز ڈھونڈھنا بے سود ہوگا۔اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ بعض مقامات پر ایک ہی عنوان کے تحت دوبالکل مختلف یا جزوی مختلف آراء یا نقطہء نظر سامنے آگئے ہوں۔ اس کا مقصد قارئین کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کرنا ہرگز نہیں بلکہ اس کا مقصد قارئین کے لیے ایک ایسی سہولت فراہم کرنا ہے جس کے ذریعے مختلف الخیال، مختلف المزاج یا مختلف مکاتب ِ فکر کے حامل افراد کے نقط ہائے نظر ایک ہی کتاب میں سامنے آ سکیں تاکہ قارئین ان کا آزادانہ مطالعہ کرنے کے بعد نتائج کا استخراج بھی خود ہی کر سکیں۔تحقیق و تنقید کی دنیا میں اس طرح کی سہولت بہت کم دستیاب ہوتی ہے۔ کیونکہ تمام مختلف الخیال اہل قلم کی آراء کا کسی ایک کتاب میں فراہم ہونا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔امید کی جاسکتی ہے کہ یہ کتاب اس مشکل کا حل پیش کرے گی۔

ایک ہی کتاب میں کسی موضوع سے متعلق مختلف خیالات ،نظریات،افکار کا جمع ہونا امرِ محال تو نہیں لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ مرتب اپنی پسند و ناپسند،یا ذاتی نقطہ ء نظر کے زیرِ اثر کچھ خیالات کوکتاب میں شامل کرنے سے گریز کرے یا حقائق کو توڑ مروڑ کر یا جزوی صداقت کے ساتھ پیش کرے۔ایسی صورت میں مخالف نقطہء نظر سے مکمل طور پر استفادہ ممکن نہیں رہتا۔ راقم الحروف نے اس کتاب کو ترتیب دیتے ہوئے کسی ایک نقطہء نظر کے پلڑے میں اپنی پسند و ناپسند کا وزن ڈال کر اس کو اہمیت دینے یا فوقیت دلانے کی کسی بھی کوشش سے گریز کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔تاکہ تمام آرا بغیر کسی قطع برید کے من و عن سامنے آجائیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کریں،ان سے استفادہ کریں اور ان سے نتیجہ اخذ کریں۔

پہلے باب کا عنوان’نعت: تعریف، تقاضے اور روایت ‘ ہے۔ اس باب میں نعت کے نظری مباحث کویکجا کیا گیا ہے۔ نعت کیا ہے؟بطور صنف سخن اس کی حیثیت کیا ہے؟نعت کی اہمیت کیا ہے؟ نعت کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں؟اور کیا ہونی چاہییں؟نعت گو کے لیے کن کن خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے؟ اور وہ کون سی شرائط ہیں جن کو بروئے کار لاکر ایک معیاری نعت تخلیق کی جاسکتی ہے؟نعت کا دیگر اصناف سے تعلق کیا ہے؟ تخلیقِ نعت اور تنقیدِ نعت کے مضمرات اور مسائل کیا ہیں؟ اس باب میں نعت کی روایت پر بھی خیالات کو یکجا کر دیا گیا ہے۔غرض یہ کہ نعت سے متعلق اہل علم اور اہلِ قلم کے خیالات، افکار، نظریات،تاثرات،نقطہ ہائے نظر اور تحقیقات کو اس باب کا حصہ بنایا گیا ہے۔

دوسرا باب ’نعتیہ ادب: تحقیق و تنقید‘ ہے۔ اس باب میں نعت سے متعلق ناقدین اور محققین کی تحقیقی و تنقیدی تحریروں کو پیش کیا گیا ہے۔ نعت سے متعلق اہل قلم کی تحقیقات میں موجود فروگزاشتیں، تسامحات،غلط انتسابات، غلط فہمیاں ،غلط حقائق،ٹھوکریں اورجزوی سچائیوں کا بیان بھی ہے اور ان کی اصلاحات، تصحیحات،تردیدات اور حقائق کا بیان بھی۔ تجزیے بھی ہیں اور تنقید بھی۔

تیسرا باب ’نعت گوئی: اصلاح ِ سخن کی چند نمایاں صورتیں‘ ہے۔ اس باب میں نعت کی اصلاح کے حوالے سے ناقدین کی شعری اصلاحوں کو یکجا کیا گیا ہے۔ ’نعت رنگ ‘ میں چھپنے والی نعتوں کو اہل قلم نے جس انداز میں دیکھا، سمجھااور برتا ان تمام کا بیان اس باب میں موجودہے۔ یہ باب اس کتاب کاحاصل بھی کہا جاسکتا ہے۔یہ باب تنقیدِ نعت کی عملی صورتیں پیش کرتا ہے۔ اس باب سے ایک طرف نعت کی فکری پرکھ کے انداز سامنے آتے ہیں تو دوسری طرف نعت کے متنوع فنی اور لسانی مسائل پرروشنی بھی پڑتی ہے۔اس باب میں بعض مثالیںتکرار کے ساتھ درج ہوئی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مکتوب نگار نے کسی شعر کی پرکھ کرتے ہوئے ایک ہی عبارت میں دو دو تین تین معائب کی نشان دہی کر دی ہے اس لیے ایسی مثالیںدو تین عنوانات کے تحت درج ہو گئیں ہیں۔مزید یہ کہ ممکن ہے بعض مثالیںایک ہی عنوان کے تحت مکرر درج ہو گئی ہوں۔اس کا سبب وقت کی کمی ہے۔مختلف مقامات پر جارحانہ ، تاثراتی اور یک طرفہ انداز بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ تنقید کا یہ انداز اگرچہ غیر مستحسن گردانا جاتا ہے لیکن چونکہ یہ انداز تنقیدِ نعت کی کسی ایک جہت یا پہلو کو سامنے لاتا ہے اس لیے اس کی اہمیت سے بھی کسی طور انکار ممکن نہیں۔ اگرچہ شاعری کے عروضی اور فنی مطالعے سے متعلق تو متعدد کتب تصنیف اور ترتیب دی گئی ہیں لیکن کم و بیش دو صدیوں پر محیط اردوشعری تنقیدکی روایت میں ایک بھی کتاب ایسی موجود نہیں جس میں نعت کافکری، فنی اور لسانی مطالعہ کیا گیا ہو۔ اس باب کو اس نوعیت کی واحدمثال اور سب سے پہلی کوشش کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔اس باب کی ترتیب سے ایک طرف تنقید ِنعت کی ممکنہ جہتیں اور اسالیب سامنے آتے ہیںتو دوسری طرف تخلیق ِ نعت اور تنقید نعت کو بھی رہنمائی فراہم ہوتی ہے۔

قدیم دور سے ہی استادی شاگردی کی روایت موجودرہی ہے۔ شاعر اپنی تخلیق کو جلا دینے او ر شعری تربیت حاصل کرنے کے لیے استاد شاعر کی راہنمائی حاصل کیاکرتا تھا اور اہل طریقت کی طرح ایک طویل ریاض اور مجاہدے کے بعد معیاری شعر تخلیق کرنے پر قدرت حاصل کرتا تھا۔قدیم زمانے میں شاعری کے لیے استاد کی ضرورت اس قدر اہمیت کی حامل تھی کہ بے استادہ ہونا بذات خود عیب تصور کیا جاتا تھا۔اسی سبب سے غالب جیسے جینئس کو اپنا ایک فرضی استاد گھڑنا پڑا(۱۴۹)، تاکہ وہ سخن کے باز ار میں اپنے مال کی قدروقیمت کو بے توقیر ہونے سے محفوظ رکھ سکے۔ موجودہ دورمیں دوسری روایات کی طرح یہ روایت بھی دم توڑ گئی ہے اور المیہ یہ ہوا ہے کہ شعری اوزان و بحور سے نا واقفیت، مطالعے ، مشاہدے کی سطحیت، آسانیاں تلاش کرنے اور شارٹ کٹ مارنے کے مرض میں مبتلا تخلیق کاروں کے ہاں فنی پختگی عنقا ہوکر گئی ہے۔آج کل شعر کہا تو جارہا ہے لیکن وہ شاعری کی میزان پر پورا تو درکنار ادھورا بھی اترتا نظر نہیں آرہا اور استادی شاگردی کی روایت کے ختم ہونے سے شاعری کی اصلاح کی جو صورت حال قدیم دور میں میسر تھی آج یہ سہولت بھی مفقود ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری اور بالخصوص نعتیہ شاعری ،فکری اور فنی معائب کے ساتھ سفر طے کر رہی ہے۔

تنقید ِنعت میں غیر معمولی حزم و احتیاط اوربے جا تقدس کے حامل رویوںنے نعتیہ شاعری کوبے حدنقصان پہنچایا۔ طرفہ تماشا یہ ہوا ہے کہ نعتیہ رسائل و جرائد نے اپنا کردار ادا کرنا تو ایک طرف رہا، اصلاحِ سخن کے تمام دروازے ہی بند کر دیے ہیں۔ایسی صورت حال میں نعت کا تخلیق کارجائے تو کہاں جائے؟دوماہی ’گلبن‘ احمد آباد کے نعت نمبر کے اداریے کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے: ’’ ایک بات کی اور وضاحت کرتے چلیں کہ بعض شاعروں نے بڑی طویل نعتیں ارسال کی تھیں، ان میں سے چند اشعار حذف اس لیے کرنے پڑے کہ ایک صفحہ سے زیادہ دینے کی گنجائش نہ تھی۔ اسی طرح بعض نعتوں کے کچھ اشعار کمزور یا نامناسب تھے، انھیں بھی نکال دیا گیا ہے۔ متعلقہ حضرات نوٹ فرما لیں۔(۱۵۰)

مذکورہ بالا بیان پڑھنے کے بعد سر پیٹنے کا دل کرتا ہے۔ذرا سوچیے! ایسے موسموں میں تخلیق نعت کس طرح باآور ہو سکتی ہے؟ اگر فاضل مدیر حواشی میں ان اشعار کی اصلاح کر دیتے یا نقص پر روشنی ڈال دیتے تو تخلیق کار کا ہی بھلا نہ ہوتا ،قارئین کا بھی فائدہ ہو جاتا۔ ایسے اشعار کو یک قلم رد کردینے اور رسالہ باہر کرنے سے اصلاح کے تمام دروازے ہی بند ہو گئے۔ کم و بیش یہی صورت حال نعتیہ صحافت کے دیگر رسائل و جرائد کی رہی ہے۔ ’نعت رنگ ‘ وہ واحد مجلہ ہے جس نے تنقید ِ نعت کی فضا ہی ہموار نہیں کی بلکہ ایسا پلیٹ فارم بھی مہیا کیا جس سے تخلیق نعت آسانی اور سہولت کے ساتھ اپنا راستہ طے کر رہی ہے اور فکری ، فنی ،لسانی اور ادبی پرکھ کے ایسے ایسے گنجہائے گراں مایہ سامنے آئے ہیں جن سے نعتیہ صحافت کا دامن یکسر خالی رہاہے۔

یہ درست ہے کہ تنقیدِ نعت کے بے لاگ تبصروں، تجزیوں اورتحقیقات سے ’نعت رنگ ‘ کا ماحول خاصا گرم رہا اور اس کا کسی حد تک نقصان بھی ہوا چنانچہ صبیح رحمانی کو لکھنا پڑا کہ تنقید نعت کے حوالے سے انھوں نے جو کڑے فیصلے کیے اس کی وجہ سے انھوں نے اور شفقیت رضوی نے ’نعت رنگ ‘ کے بہت سے خیر خواہ کھو دیے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ’نعت رنگ ‘ دل جوئیوں کے موسموں میں ہی سانسیں لے رہا ہوتا تو تنقیدِ نعت اس مقام پر نہ پہنچ پاتی جس مقام پر آج پہنچ پائی ہے۔

اس باب میں ’نعت رنگ ‘ کے مکتوب نگاروں کی تنقید ِ نعت کے عملی نمونوںکو شعری تنقید کے مختلف معیارات کے تحت جمع کر دیا گیا ہے۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ قاری یکسوئی کے ساتھ ان نمونوں کا مطالعہ کرسکتا ہے اوردوسرا یہ کہ ادب کے نوآموز قارئین نعت کی عروضی، لسانی اورفنی جہتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد تنقید نعت کی تفہیم کے مواقع بھی میسر آسکیں گے۔

قدیم دور میں شعر کی پرکھ کے معیار ،فکری سے زیادہ فنی رہے ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ فنی ہی رہے ہیں تو کچھ غلط بھی نہ ہو گااور جہاں تک نعت کا تعلق ہے، اس کے معیارات توتشکیل ہی نہ پاسکے ۔نہ فکری نہ فنی،نہ لسانی نہ ادبی۔اگر نعتیہ اشعار کو پرکھا بھی گیا ہے تو دیگر اصناف کے شعری معیارات کی بنیاد پر ہی پرکھا گیا، بطور موضوع تنقید ِ نعت کے معیارات کبھی تشکیل پائے ہی نہیں۔ان اسباب اوروجوہات پر پچھلے صفحات میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہاں شاعری کے فنی معائب میں سے معروف معائب کی نشان دہی کی جا رہی ہے تاکہ قارئین فنی معائب سے روشنا س ہوں سکیں اور اصلاح سخن کے باب سے بھرپور استفادہ کرسکیں۔ قدیم عہد میں شاعری پر اس وقت گرفت کی جاتی تھی جب کوئی مصرع بے وزن یا دولخت ہوجاتا،اس میں زبان و بیان کی کوئی غلطی راہ پا گئی ہو، روزمرہ ٹکسال باہر ہو گیا ہو یا خلاف محاورہ زبان کا استعمال کیا گیا ہو، تلفظ کی غلطی واقع ہو گئی ہو یا لفظ غلط معنوں میں استعمال ہو گیا ہو،غیر معیاری زبان استعمال کی گئی ہو یا کوئی خیال غلط بندھ گیا ہو یا شعر کا مفہوم غتر بود ہوگیا ہو یا شعر میں بیان و بدیع کی کوئی غلطی داخل ہو گئی ہو غرض یہ کہ شعر میں کسی بھی قسم کا عیب داخل ہو نے پر شاعر کا قافیہ تنگ کر دیا جاتا تھا۔ان میں سے کچھ عیوب ایسے ہیں جن کی عملی مثالیں اس باب میں پیش کی گئی ہیں۔ قدما نے جن عیوب کو خاص اہمیت دی، وہ یہ ہیں:بے معنی، بے وزن، غیر مانوس، غیر فصیح ، ابتذال، اتصال، اثقال، ضعف تالیف، مخالف لغت، دولخت، اخلال، فکِ اضافت، تعقیدِ لفطی، تعقید معنوی،تنافر، حشو، شکست ناروا، ایطائے جلی، ایطائے خفی، بندش کی سستی اور شتر گربہ، وغیرہ

چوتھا باب ’کتابیات‘ کا ہے۔ اس باب میں ’نعت رنگ ‘ کے خطوط میں نعتیہ کتب پر تعارفی ،تقر یظی،تنقیدی یا تحقیقی اظہار بیان کے نمونوں کو جمع کر دیا گیا ہے۔کسی ایک ہی کتاب پراگر دو یا دو سے زیادہ ناقدین نے اظہار خیال کیا ہے تو ان تمام خیالات کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ ہر کتاب کے لیے علیحدہ عنوان قائم کیا گیا ہے۔ نعتیہ کتب سے متعلق ایسے بیانات جو ایک آدھ سطری ہیں انھیں اس باب کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

پانچواں باب ’شخصیات‘کا ہے۔ اس باب میں شعراو ادبا کے حوالے سے مکتوب نگاروں کے بیانات کویکجا کر دیا گیا ہے۔ اس میں کسی شاعر یا ادیب کے اپنے بیانات بھی ہیں اور دوسروں کے بیانات بھی۔ اس سے نعت گو شخصیات کے حالاتِ زندگی ،کوائف ، تصورات، افکار ، عقائد اور ادبی نقطہء نظر سامنے آتا ہے۔ اس باب میں اعلیٰ حضرت احمد رضا خان فاضل ِ بریلوی کے حوالے سے’ نعت رنگ ‘ کے خطوط میں شامل تمام خیالات ، تحقیقات اور تنقیدات کو اکٹھا کر دیا گیا ہے تاکہ ان کا ادبی مقام و مرتبہ سامنے لانے اور متعین کرنے میں مدد مل سکے۔

چھٹا باب ’متفرقات ‘ کا ہے ۔ اس باب میں نعت کے حوالے سے ایسے خیالات، بیانات اور مضامین پیش کیے گئے ہیںجو اس کتاب کے ابواب کے دائرہ اختیار میں تو نہیں آتے ،لیکن نعت کے مزاج، جہت ،پہلو،یا کسی اور سمت کو روشن کرتے تھے انھیں اس باب میں جمع کر دیا گیا ہے۔

ساتواں باب ’نعت رنگ :ایک مطالعہ ‘ ہے ۔ اس باب میں’نعت رنگ ‘ سے متعلق مختلف مکتوب نگاروں کے بیانات،اقوال،آراء ، نقطہء ہاے نظر اور خیالات پیش کیے گئے ہیں۔ ان بیانات سے اہل ِعلم کے ’نعت رنگ ‘ سے متعلق خیالات کی عکاسی بھی ہوتی ہے اور’نعت رنگ ‘ کا ادبی مقام و مرتبہ متعین کرنے میںمددبھی ملتی ہے۔آخر میں مدیر نعت رنگ سے متعلق ارباب علم و ادب کی آراء پیش کی گئی ہیں۔

(۶)

ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب ہمیشہ اپنی گراںقدر آرا ء اور قیمتی علمی و ادبی تحائف سے میری حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ان کا بے حد ممنون ہوں کہ انھوں نے اپنی مصروفیات کے باوجود انتہائی قلیل وقت میں اس کتاب کے نامکمل مسودے کا مطالعہ کیا اور اس کا جامع پیش لفظ تحریر کیا۔تنقید نعت اور تحقیق نعت کے حوالے سے ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔راقم الحروف نے اس کتاب کا مقدمہ لکھتے ہوئے ان کی کتابوں سے بھی رہنمائی حاصل کی ہے۔میں ان کا بے حد ممنون ہوں کہ انھوں نے اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر اس کتاب کا مطالعہ کیا اور اپنی گراں قدر رائے تحریر فرمائی۔ڈاکٹر سہیل شفیق کی شخصیت ایک ایسے سیاح کی ہے جو تحقیق کے وسیع و عریض صحرا میں محو سیاحت رہتے ہیں۔ ان کے علمی کام مجھے ہمیشہ تحریک دیتے رہتے ہیں۔اس کتاب کی تیاری میں بھی ان کی مرتبہ کتاب ’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘ سے بھر پور مدد ملی ہے۔ اگر ان کا کام سامنے نہ ہوتا تو مجھے اس کتاب پر کام کرتے ہوئے دشواری کا سامناکرنا پڑتا۔ڈاکٹر زبیر خالد کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ عروض پر ان کی گہری نظر اور اثابت رائے کا میں ہی نہیں معاصرین بھی قائل ہیں۔اس کتاب کے تیسرے باب ’نعت گوئی:اصلاح سخن کی چند نمایاںصورتیں‘کے خاکے کی تشکیل اورذیلی عنوانات کی تقسیم ان کی تجاویز ، مشوروں اور رہنمائی کی ہی مرہون منت ہے۔ میں ان کا بہت ممنون ہوں۔ڈاکٹر اقبال کامران کا بھی بے حد ممنون ہوں کہ انھوں نے اس کتاب کے مقدمے کو بغور پڑھا اور مفید مشوروں سے نوازا۔زبیر بھائی ہمیشہ میرے علمی اور تحقیقی کاموں میں آسانیاں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اس بار بھی انھوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک فون کال پر ’نعت رنگ ‘ کے آٹھ شمارے بھجوا کر میری ’نعت رنگ ‘ کی فائل کو مکمل کردیا ۔ خدائے بزرگ و برتر ان کی اور میرے دیگر دوستوں کی عمر،صحت اور رزق میں برکت عطا فرمائے۔

نعت رنگ ‘کے انتخاب کردہ ہر اقتباس کے بعد ماخذ کی نشان دہی کر دی گئی ہے۔ ’نعت رنگ ‘کے چوبیس شماروں میں شامل خطوط کا انتخاب ڈاکٹر سہیل شفیق کی مرتبہ ’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘ سے کیا گیا ہے اور اس میں شامل ہر اقتباس کے حوالے کا اندراج(احمد صغیر صدیقی،ص۱۴۵)اور ’نعت رنگ ‘کے پچیس ،چھبیس،ستائیس اور اٹھائیسویں شمارے میں شامل خطوط کے حوالے(ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری ص، ۲۵؍۸۷۷) ، (ریاض حسین چودھری ص،۲۶؍۶۲۲)،(ڈاکٹر اشفاق انجم ص ،۲۷؍ ۴۹۸ )،(ڈاکٹرتحسین فراقی، ص۲۸؍۶۴۵)کے طور پر درج کیے گئے ہیں۔ حوالے میں موجود ۲۵،۲۶،۲۷،اور ۲۸ نمبر شمارہ نمبر اور ؍۸۷۷،؍۶۲۲ ،؍۴۹۸،؍۶۴۵نمبر صفحات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ جب کہ کوکب نورانی کے خطوط سے حاصل کردہ اقتباسات کے حوالے(کوکب نورانی ،ص ۳؍۵۵)کے طور پر دیے گئے ہیں۔کتاب کی تیاری آخری مراحل میں تھی کہ اردو کے معروف نقاد شمس الرحمن فاروقی کے دو خط موصول ہوئے ۔خطوط میں موجود علمی نکات کی اہمیت کے پیش نظر انھیں بھی اس کتاب میں غیر مطبوعہ کے عنوان سے شاملِ کتاب کر لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر ابرار عبدالسلام صدر شعبہ اُردو گورنمنٹ کالج سول لائنز، ملتان Cell No. 0333-6102985 E-mail:drabrarabdulsalam@gmail.com

حوالہ جات

۱۔ ’نعت رنگ‘ شمارہ ۲۱ ص ۹ ۲۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کا بیان ہے : کسی نعت یا نعتیہ مضمون کے بارے میں حسن و قبح کے حوالے سے کسی طرح کا حکم لگانا مناسب نہیں ۔ ان نقطوں کا استعمال ، نعت اور نعت کے مباحث میں میرے دائرہ ء خیال و قلم سے خارج ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے جن الفاظ و خیالات کی نسبت ہو جائے وہ میرے نزدیک تنقید مروجہ سے بلند و بالا ہوجاتے ہیں۔ ‘‘ ((۱)نعت نامے بنام صبیح رحمانی ، ص ۷۱۵(۲)ڈاکٹر عزیز احسن اور مطالعات حمدو نعت ص ۱۷) ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی رائے بظاہر بڑی عجیب محسوس ہوتی ہے لیکن اس موضوع کی نزاکت اور معاشرتی صورت حال کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پی۔ٹی ۔وی کے ایک ادبی پروگرام میںجس میں اردو کے معروف ادیب بھی شریک تھے ، صبیح رحمانی نے تنقیدِ نعت کی اصطلاح استعمال کی تو پروڈیوسر کو پروگرام روکناپڑا اورسراسیمگی کے عالم میں کہنا پڑا کہ یہ پروگرام نعت کا ہے اس میں تنقید کا لفظ استعمال نہ کیا جائے ۔ (دیکھیے:ڈاکٹر عزیز احسن اور مطالعات حمدو نعت ص ۱۸) ۳۔ مدیر نعت رنگ کا بیان ہے:’’ جہاں تک نعتیہ ادب کی بات ہے تو اس کی صورت حال اس لحاظ سے اور بھی ابتر ہے اسے کسی بھی عہد میں باقاعدہ تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور نتیجتاً اربابِ نقد و نظر نے اسے ’شعر عقیدت‘ کا نام دے کر عام ادبی فضا سے دور کر دیا ہے اور یہ تکلیف دہ صورتِ حال کسی حد تک اب بھی برقرار ہے۔‘‘ فن اداریہ نویسی اور نعت رنگ ،ص ۴۳۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ از ڈاکٹر عبدالعزیز خان(عزیز احسن) ،نعت ریسرچ سنٹر ، کراچی ، مارچ ۲۰۱۳ء ص۳۲۲،۳۲۶ ۴۔ نعت میں احترام رسالت کے تقاضے، ڈاکٹر محمد اسحٰق قریشی، بحوالہ اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ، ڈاکٹر عبدالعزیز خان(عزیز احسن) نعت ریسرچ سینٹر کراچی، مارچ ۲۰۱۳ء۔ ۵۔ عزیزاحسن لکھتے ہیں:نعتیہ ادب کی تنقیدی جہت کو اجاگر کرنے میں سب سے اہم اورنمایاں کردار کتابی سلسلے ’نعت رنگ‘ کا رہا ہے۔ لیکن بعض دوسرے رسائل میں بھی جزوی طور پر کچھ تنقیدی نکات پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ نعت رنگ میں تنقیدی نوعیت کی تحریریں اس کثرت اور تواتر سے شائع ہوئیں کہ اہلِ علم نے نعتیہ ادب میں ’تنقید ‘ کے وجود کو تسلیم کر لیا۔( اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ، ڈاکٹر عبدالعزیز خان(عزیز احسن) نعت ریسرچ سینٹر کراچی، مارچ ۲۰۱۳ء ص۴۵۳) ۶۔ اس حوالے سے مدیر ’نعت رنگ‘ ایک اداریے میں رقم طراز ہیں:’’میں نے جب یہ سفر شروع کیا تو دوچار ساتھی ہی ساتھ تھے مگر الحمداللہ اب یہ قافلہ خاصا وسیع ہے جس میں لکھنے والے اور پڑھنے والے سبھی شامل ہیں۔ پاکستان کے علاوہ بھارت ، عرب امارات، سعودی عرب، یورپ کے ممالک اور امریکا میں بھی وابستگان اردو’نعت رنگ‘ کا انتظار کرتے ہیں۔‘‘( فن اداریہ نویسی اور نعت رنگ ،ص ۴۰) ۷۔ اس حوالے سے صابر سنبھلی کا بیان ملاحظہ فرمائیے:’’نعت رنگ‘کے بارے میں پہلے کچھ سن چکا تھا۔یہ پہلا شمارہ ہے جس کا دیدار ہوا ۔اس عنایت کے لیے آپ کا دل کی گہرا ئیوں سے ممنون ہوں ۔ اگر چہ مضامین اور مکاتیب میں اختلافات کو بہت جگہ ملی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بہتر تھا،بلکہ جیسا کہ پہلے سن چکا تھا ’’نعت رنگ‘‘ میں شروع سے ہی اہل قلم حضرات[کے] اختلافات نمایاں نظر آتے ہیں۔ جبکہ دیگر ادبی جریدوں میں اختلافات اتنے زیادہ نہیں ہوتے۔(نعت نامے بنام صبیح رحمانی، ص ۴ ۵ ۵) ۸۔ صبیح رحمانی’نعت رنگ‘ کے ایک اداریے میں لکھتے ہیں:’’تحسین ،تعبیر اور تفہیم شعر خالصتاً ذوقی معاملہ ہے، اس لیے شعری پسندیدگی کے زاویے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن شریعت کے معیارات کی پاسداری ہر حال میں ضروری ہے۔ زبان بھی کچھ قواعد کی پابند ہوتی ہے۔۔۔ اس ضمن میں اتفاق یا اختلاف دونوں قسم کی آراء ہمارے لیے قابل احترام ہوں گی۔‘‘ (صفن اداریہ نویسی اور نعت رنگ ،ص ۳۵) ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’ضرورت ا س امر کی ہے کہ ہمارے نقاد ہمارے اس گراں مایہ نعتیہ سرمائے کو انتقاد کی کسوٹی پر پرکھ کر اس کے معنوی اور فنی پہلوؤں کو دیکھیں اور اس میں ہیئت کے تجربوں اور تازہ کاری کے رجحان کو نظر میں رکھ کر اس کی صحیح قدروقیمت کا تعین کریں۔ ادب پر لکھنے والے حضرات اور ہمارے قاری اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوے، اس تحریک میں شامل ہو کر ادب کی اس اہم روایت کو آگے بڑھانے میں مدد کریں ۔‘‘(فن اداریہ نویسی اور نعت رنگ ، ص ۳۸) ۹۔ صبیح رحمانی ’نعت رنگ ‘ کے اداریے میں رقم طراز ہیں:’’شاعر کے اسلوب، لفظی کوتاہیوں یا خیالات پر تنقیدی رائے ضرور دیجئے لیکن سنجیدگی ، متانت اور استدلال کے ساتھ۔ غلطی تو انسان کے خمیر میں شامل ہے بس اس بنیادی سچائی کو سامنے رکھتے ہوئے دوسروں کی کوتاہیوں کی نشان دہی کی جائے تاکہ جس کی غلطی یا کوتاہی ہو وہ آپ کا شکریہ ادا کرے۔ یہ بات ہماری ادبی تاریخ کا حصہ ہے لیکن اگر نقاد کا انداز جارحانہ ہے یا اس کی تحریر میں تضحیک کا رنگ ہے تو دل بھی خراب ہوں گے اور تنقید بھی مجروح ہو گی۔‘‘(فن اداریہ نویسی اور نعت رنگ ، ص ۴۲) ۱۰۔ صابر داؤد کا بیان ہے:’ نعت رنگ‘ میں نعت کے ادبی پہلوؤں پر جس تواتر سے ادبی مباحث شائع ہوئے ہیں اس نے ہمارے قارئین میں اس صنف کے متعلق جاننے اور پڑھنے کی خواہش بیدار کر دی ہے اور یہی نہیں بلکہ اس حوالے سے ہمارے لکھنے پڑھنے والوں میں ایک مکالمے کی فضا پیدا ہوگئی ہے ۔ ’ نعت رنگ‘ نے نعتیہ ادب کو جس طرح اُردو دنیا میں موضوعِ گفتگو بنایا ہے اس کا اعتراف تو بڑے پیمانے پر ہوچکا ہے لیکن جس مکالمے کی طرف ہم نے نشان دہی کی ہے وہ ’نعت رنگ‘ کے گوشۂ خطوط میں سامنے آیا ہے ۔ اُردو کے اہم لکھنے والے ان علمی و ادبی مباحث میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔ (نعت اور آداب نعت،ص۶) ۱۱۔ غالب کے خطوط جلد اول مرتبہ خلیق انجم ص۱۵۳۔میر مہدی مجروح نے غالب کو خط کے مختصر ہونے کی شکایت لکھی تو غالب نے جواب میں لکھا’’ یعنی تم کو وہ محمد شاہی روشیں پسند ہیں۔‘‘ مرزا حاتم علی بیگ مہر نے ایک خط میں انھی روشوں سے کام لیا تو غالب ناراض ہوئے انھیں لکھتے ہیں:’’ اگر تم مناسب جانو ،تو ایک بات میری مانو، رقعات عالمگیری یا انشائے خلیفہ اپنے سامنے رکھ لیا کرو۔ جو عبارت اس میں سے پسند آیا کرے ،وہ خط میں لکھ دیا کرو۔ خط مفت میں تمام ہو جایا کرے گا اور تمھارے خط کے آنے کا نام ہو جایا کرے گا۔‘‘ (ایضاً ص ۱۵۴)غالب نے اس انداز کو بھاٹوں کی زبان کہا ہے۔ مرزا ہر گوپال تفتہ کو لکھتے ہیں۔’’وہ روش ہندوستانی فارسی لکھنے کی مجھ کو نہیں آتی کہ بالکل بھاٹوں کی طرح بکنا شروع کریں۔‘‘(ایضاً ص ۲۳۶)غالب نے خطوط کی بنیاد مطلب نویسی پر رکھی۔ادھر ادھر کی باتیں کرنا یا عبارت آرائی کو وہ سخت ناپسند کرتے تھے۔ قاضی عبدالجمیل جنون کو خط میں لکھتے ہیں۔’’میں نے آئینِ نامہ نگار ی چھوڑ کر مطلب نویسی پر مدار رکھا ہے۔ جب مطلب ضروری التحریر نہ ہو تو کیا لکھوں ۔‘‘(ایضاً ص ۱۵۱) ۱۲۔ دیکھیے: (۱)اودھ اخبار کی ادبی قدروقیمت ،پروفیسر حنیف نقوی، مشمولہ نول کشور اور ان کا عہد،مرتبین، قاضی عبیدالرحمن ہاشمی و ڈاکٹر وہاج الدین علوی، شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی، اول، مئی ۲۰۰۴ء ص ۸۶۔۸۵ (۲)دہلی اردو اخبار ۱۸۴۱ء مرتبہ پروفیسر ارتضیٰ کریم،شعبہء اردو ،دہلی یونیورسٹی، دہلی، ۲۰۱۰ء ،ص ۱۵۸،۱۷۷،۱۸۴،۲۳۶،۲۴۴،۲۴۶،۲۵۵،۳۰۰،۳۴۴) ۱۳۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: تہذیب الاخلاق۲محرم سنہ ۱۲۸۹،جلد سوم نمبر ۳، تہذیب الاخلاق، یکم ربیع الثانی ۱۲۸۹ھ جلد سوم نمبر ۷، تہذیب الاخلاق،۱۵ ربیع الثانی۱۲۸۹ھ ،جلد سوم نمبر ۸، تہذیب الاخلاق ، یکم رجب ۱۲۸۹ھ جلد سوم نمبر ۱۳، تہذیب الاخلاق، ۲۹ شعبان ۱۲۸۹ھ ،جلد سوم نمبر ۱۵، تہذیب الاخلاق، یکم ذی قعدہ ۱۲۸۹ھ ، جلد سوم نمبر ۱۹) ۱۴۔ دیکھیے: ۴جنوری ۱۸۹۵ء و۱۱جنوری ۱۸۹۵ء کے پرچے بحوالہ مکتوبات اردو کا ادبی و تاریخی ارتقا، خواجہ احمد فاروقی،قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان نئی دہلی،۲۰۰۳ء ص ۵۳۰) ۱۵۔ دیکھیے: نورالآفاق،جلد ۱ نمبر ۷ مورخہ ۲۲ نومبر ۱۸۷۳ء و نمبر ۹جلد و جلد ۲ نمبر ۵ بحوالہ مکتوبات اردو کا ادبی و تاریخی ارتقا،خواجہ احمد فاروقی،قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان نئی دہلی،۲۰۳ء ص ۵۳۰) ۱۶۔ دیکھیے:اردو صحافت انیسویں صدی میں،ڈاکٹر طاہر مسعود،فضلی سنزلمیٹڈ،کراچی،اول ۲۰۰۲ء۔ ص ۶۰۳،۶۷۴،۷۱۰ ) ۱۷۔ دیکھیے:مباحثہء گلزار نسیم یعنی معرکہ چکبست و شرر مؤلفہ میرزا محمد شفیع شیرازای ثم لکھنوی ،مطبع منشی نول کشور لکھنؤ،بار دوم ۱۹۴۲ء)

اودھ پنچ مطبوعہ ۲۰جولائی ۹۰۵ء تا ۶نومبر ۱۹۰۵ء بحوالہ مکتوبات اردو کا ادبی و تاریخی ارتقا،خواجہ احمد فاروقی ،قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان نئی دہلی،۲۰۳ء ص ۵۳۴)

۱۸۔ دیکھیے: معارف ،جولائی،۱۹۵۳ء،اگست، ۱۹۵۳ء، ستمبر ۱۹۵۳ء،اکتوبر ۱۹۵۳ء نومبر ۱۹۵۳ء ، دسمبر ۱۹۵۳ء، ستمبر ۱۹۵۴ء وغیرہ۔اسی طرح ’معارف‘ کی کئی اقساط میں سید سلیمان ندوی کے نام مشاہیر علما و ادبا مثلاً حبیب الرحمٰن شروانی، ابوالکلام آزاد ،اور علامہ اقبال کے خطوط بھی شائع ہوئے۔ مزید خطوط کے لیے دیکھیے: معارف نومبر ۱۹۷۹ء، ستمبر ۱۹۷۹ء، جنوری ۱۹۸۰ء ) ۱۹۔ دیکھیے: وفیات معارف مرتبہ ڈاکٹر سہیل شفیق،قرطاس،کراچی،۲۰۱۳ء ۲۰۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:نگار،لکھنؤ، مئی ۱۹۴۳ء ،ص ۳۲۔۳۰؛ستمبر ۱۹۴۶ء ص ۵۳۔۴۹؛مارچ ۱۹۴۷ء ص ۴۷۔۴۵؛اپریل ۱۹۵۰ء ص۶۲۔۶۰؛مئی ۱۹۵۰ء ص،۵۶۔۴۹؛جون ۱۹۵۰ء،ص ۵۶۔۴۸؛نومبر ۱۹۵۰ء،ص۵۳۔۵۲؛مارچ ۱۹۵۱ء ،ص ۴۹۔۴۴؛اپریل ۱۹۵۱ء،ص۳۷۔۳۵؛مئی ۱۹۵۱ء، ۳۷۔۳۶؛جون ۱۹۵۱ء،ص۴۰؛اگست ۱۹۵۱ء،ص۳۷۔۲۸ ؛ستمبر۱۹۵۱ء،ص۴۱۔۳۸ ؛اکتوبر۱۹۵۱ء، ص۳۵۔۳۱ ؛نومبر ۱۹۵۱ ء ،ص۴۳۔۴۱؛دسمبر۱۹۵۱ء،ص۴۳۔۴۱؛مارچ۱۹۵۲ء؛اکتوبر ۱۹۵۲ء،ص۵۰۔ ۴۸؛مارچ۱۹۵۴ء،ص۴۸۔۴۷؛ دسمبر ۱۹۵۶ء،ص۵۳۔۵۰ ؛اگست۱۹۵۹ء،ص۴۷۔۴۳ ؛ نومبر۱۹۵۹ء، ص۴۱۔۳۵ ؛ اپریل ۱۹۶۰ء ،ص۴۰ ۔۳۹؛ نومبر۱۹۶۰ء،ص۴۰۔۳۵؛ اکتوبر۱۹۶۲ء، ص۴۴۔۴۴؛ اگست۱۹۶۳ء،ص۶۵۔۶۲؛ستمبر۱۹۶۳ء،ص۷۲۔۶۶؛نومبر ۱۹۶۳ء،ص۵۷۔۵۳ ؛دسمبر۱۹۶۳ء، ص۷۰۔ ۶۰۔ یہ چند سالوں کے شماروں میں شائع ہونے والے استفسارات کی مثالیںہیں۔ ’نگار ‘کے تمام شماروں میں موجود خطوط کا مطالعہ مفید اہمیت کا حامل ہو گا۔ ۲۱۔ دیکھیے: مکتوبات مشاہیر، خدا بخش اورئینٹل پبلک لائبریری ،پٹنہ، ۱۹۹۹ء) ۲۲۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:۸؍مئی ۱۹۶۹ء؛یکم اگست۱۹۶۷ء،ص۹؛۸؍اگست ۱۹۶۹ء،ص۱۰؛یکم نومبر ۱۹۷۰ء،ص۹؛۱۵؍نومبر،۱۹۷۰ء؛ص۵؛۲۲؍دسمبر ۱۹۷۰ء،ص۵؛یکم ستمبر۱۹۷۰ء،ص،۲۲؍ستمبر ۱۹۷۰ء ،ص ۶؛یکم اکتوبر ۱۹۷۰ء،ص؛۸؍اکتوبر ۱۹۷۰ء،ص۷؛۱۵؍ اکتوبر ۱۹۷۰ء،ص۹۔۷؛۲۲؍اکتوبر ۱۹۷۰ء، ص ۹۔ ۷؛۱۵؍نومبر ۱۹۷۰ء،ص۷۔۵؛۱۵؍مارچ ۱۹۷۱ٍ ء ،ص۹۔۷؛۲۲؍نومبر۱۹۷۱ٍ ء ،ص۶ ؛۲۲؍مارچ۱۹۷۱ٍ ء ،ص۷ ؛ ۸؍ اپریل۱۹۷۱ٍ ء ،ص۷ ؛۱۵؍جولائی۱۹۷۱ٍ ء ،ص۷؛۸؍مئی۱۹۷۱ٍ ء ،ص۷؛یکم فروری۱۹۷۱ٍ ء ،ص۶۔۵؛۸؍فروری ۱۹۷۲ ء،ص۷، ۲۳۔ اس حوالے سے شان الحق حقی صاحب کا بیان ہے: ۔۔۔’تاکہ اپنے کام کی بابت اہل الراے سے استصواب بھی کیا جاسکے۔‘اشاریہ اردو نامہ،مرتبہ مصباح العثمان، اردو ڈکشنر ی بورڈ کراچی، ۱۹۹۷ء ص۸) ۲۴۔ دیکھیے:اشاریہ اردو نامہ،مرتبہ مصباح العثمان، اردو ڈکشنر ی بورڈ کراچی، ۱۹۹۷ء ۲۵۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: پاکستان میں نعتیہ صحافت ۔ایک جائزہ از شہزاد احمد،مشمولہ نعت رنگ، کراچی،شمارہ ۲۴،جولائی ۲۰۱۴ء ص ۲۱۴۔۱۰۳ ۲۶۔ ’نعت رنگ‘ابتدائیہ ،شمارہ نمبر ۱۷نومبر ۲۰۰۴ء ،ص ۱۴۱۔۱۴۰ ۲۔ اس حوالے سے مدیر نعت رنگ کا بیان ہے:’’’نعت رنگ‘ کے اجرا کے وقت ہم نے جن خواہشات کا اظہار کیا تھا وہ کافی حد تک پوری ہو رہی ہیں، تنقیدی جمود خاصی حد تک ٹوٹ چکا ہے اور نعتیہ ادب پر بے لاگ تبصروں اور تنقیدی مباحث کی ایک ایسی فضا بن چکی ہے جس نے اہل علم کو نعت کے ادبی پہلوؤں کی جانب نہ صرف متوجہ کر دیا ہے بلکہ وہ اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کرنے اور لکھنے پر آمادہ ہو چکے ہیں۔’نعت رنگ‘ میں لکھنے والے ناموں میں اہلِ علم کا مسلسل اضافہ اور موضوعات کا تنوع ہمارے اس دعوے کی دلیل کے طورپر سامنے ہیں۔‘‘(فن اداریہ نویسی اور نعت رنگ،ص ۵۶) صبیح رحمانی ایک اور اداریے میں لکھتے ہیں: ’’میں نعت پر کام کرنے والوں کو بھی جغرافیائی حدوں میں بانٹ کر یا علاقائی سطح پر تقسیم کر کے نہیں دیکھتا اور نہ ہی اس قماش کی کسی تقسیم کو درست سمجھتا ہوں ۔میرے لیے نعت کا کوئی خدمت گزار چاہے وہ کسی خطے اور کسی ملک کا رہنے والا ہو۔چاہے اس نے نعت کے موضوع پر ستر صفحات کی کتاب لکھی ہو یا ہزار صفحات کا مقالہ لکھا ہو، چاہے اس کے چوبیس مجموعے شائع ہوئے ہوں یا اس نے چند نعتیں کہی ہوں یکساں احترا م کے لائق سمجھتا ہوں ۔کون یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ کس کا عریضہ یا کس کا کام نبی ِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میںکتنا مقبول ہے؟ میں سب کی خدمات اور کام کو نہ صرف پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہوں بلکہ اس کے اعتراف اور وسیع تر پھیلاؤ میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتا، ’نعت رنگ‘ کے شمارے اس بات کے گواہ ہیں۔ ‘‘ ( ایضاً ص ۱۳۸) ۲۸۔ دیکھیے:فن اداریہ نویسی اور نعت رنگ، ڈاکٹر افضال احمد انور، ص۱۳۵ ۲۹۔ اس حوالے سے مدیر ’نعت رنگ‘ ایک اداریے میں رقم طراز ہیں:’نعت رنگ کے خدمت گزاروں ،لکھنے والوں اور قارئین نے اب تک جو کچھ بھی پیش کیا ہے ،نیک نیتی سے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ’نعت رنگ‘ کے منتظر رہتے ہیں اور اس کی قبولیت کا دائرہ روز بروزوسیع تر ہوتا جارہا ہے۔‘‘ ص ۶۵۔۶۶ ۳۰۔ ’نعت رنگ ‘ کے معاصر نعتیہ رسائل میںبھی تعارفی،تقریظی اور کسی حد تک تنقیدی مضامین شائع ہوتے رہے ہیں لیکن ان تمام رسائل میں نہ تو ’نعت رنگ‘ میں شامل مقالات کی طرح کثیر تعداد میں مقالات شائع ہوتے رہے اور نہ ان کا معیار ’نعت رنگ‘ کے معیار کی سطح کا رہا۔ اگرچہ ’نعت رنگ ‘ کو یہ مقام حاصل کرنے کے لیے کافی تگ و دو کرنا پڑی لیکن ’نعت رنگ ‘ کے معاصر اور ماقبل نعتیہ رسائل کے ایک درجن سے زائد رسائل کی اشاعت کے بعد بھی وہ معیار نظر نہیں آتا جو ’نعت رنگ‘ کے حصے میں آیا۔ اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’نعت رنگ‘ کے لیے لکھنے والے مقالہ نگاروں میں سے کئی وہ مقالہ نگار بھی ہیں جو ’نعت رنگ‘ سے پہلے دوسرے نعتیہ رسائل میں لکھ رہے تھے کیا ’نعت رنگ‘ میں شامل ہو کر ان کے مقالات کے معیار میں فرق آیا ؟ اس کا جواب اثبات میں دیا جاسکتا ہے۔مدیر نعت رنگ نے آغاز ہی سے مقالات کے تنقیدی اور تحقیقی معیار پر زور دیا اور زیادہ تر انھیں مقالات کو ’نعت رنگ‘ کا حصہ بنایا جاتا رہا جو تنقید اور تحقیق کی کسوٹی پر پرکھ کر ہی احاطہء تحریر میں آئے۔ ویسے بھی مقالہ نگار کو مدیر اور رسائل اور جرائد کی کی پالیسیوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: اردو میں نعتیہ صحافت ۔ایک جائزہ از ڈاکٹر شہزاد احمد،رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۱۶ء۔ ۳۱۔ فن اداریہ نویسی اور نعت رنگ،ص۱۵۲۔۱۵۱ ۳۲۔ فن اداریہ اور نعت رنگ ص ۷۷ ۳۳۔ ’نعت رنگ‘ کا پہلا شمارہ اپریل ۱۹۹۵ء میں شائع ہوا۔ اس میں چند صفحات ہی تخلیق ِ نعت کے حصے میں آئے تھے باقی تین سو سے زائد صفحات تحقیق اور تنقید کی نظری و عملی مثالوں(مقالات و مضامین)کے لیے مختص کیے گئے تھے، جو اس بات کا اعلان تھا کہ ’نعت رنگ‘ تخلیق ِنعت سے زیادہ تحقیق و تنقید ِ نعت کو اہمیت دے گا کیونکہ اسی کے ذریعے معیاری تخلیق ِ نعت کے لیے سازگار ماحول تشکیل پائے گا۔ ۳۴۔ فن اداریہ و نعت رنگ ص ۹۶ ۳۵۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: سرسید احمد خان ایک سیاسی مطالعہ،عتیق صدیقی ص ۱۵۶۔۱۴۸ ۳۶۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک سائنسدان ہابر نے ہائیڈروجن اور نائٹروجن کو ملا کر امونیا گیس ایجاد کی۔ امونیا گیس اس وقت تک وجود میں نہیں آ سکتی جب تک اس کے اندر لوہے (آئرن) کو عمل انگیز(Catalyst) کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔امونیا گیس(NH3) بنانے کے لیے نائٹروجن (N2) اور ہائیڈروجن(H2) کا ملاپ کروایا جاتا ہے جس میں آئرن، عمل انگیز (Catalyst)کے طور پر حصہ لیتا ہے۔اس عمل میں آئرن(Fe)عملی طور پر تو ذرا بھی استعمال میں نہیں آتا لیکن امونیا بننے میں اس کی موجودگی ناگزیرہوتی ہے۔بالکل اسی طرح صبیح رحمانی کی شخصیت بھی ’نعت رنگ‘ کے مباحث میں پلاٹینم کا کردار ادا کرتی رہی۔ ٹی ۔ایس۔ایلیٹ نے عمل انگیزی کی مثال سلفیورس ایسڈ کی دی ہے۔ ان کا بیان ہے: آکسیجن اور سلفر ڈائی آکسائیڈ کا ملاپ پلاٹینم کی موجودگی ہی میں کارآمد ہو کر سلفیورس ایسڈ کی تخلیق کا باعث بنتا ہے یعنی پلاٹینم کی موجود گی بظاہر بے حرکت ، غیر جانبدار اور غیر مبدل رہتی ہے لیکن اصل محرک پلاٹینم ہی ہوتا ہے کیونکہ اس کے بغیر دونوں گیسوں کا ملاپ کسی مثبت عمل کو پیدا نہیں کرسکتا (دیکھیے:ارسطو سے ایلیٹ تک، ڈاکٹر جمیل جالبی، نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسلام آباد، طبع ہفتم، ۲۰۱۳ ء،ص۴۹۴) ۳۷۔ ارشد جمال نقشبندی مرتب’ نعت اور آداب نعت‘ لکھتے ہیں۔ ’’ رطب و یابِس اور غیر محتاط رویّوں ‘‘ کے الفاظ ہی دوسروں کو بھڑکا سکتے تھے اور صبیح رحمانی دوسروں کے اعتراض کا ہد ف ہو سکتے تھے ،۔۔۔ بحیثیت مدیر انہوں نے کسی طرح جانب دارانہ رویّہ نہیں اپنایا بلکہ ’نعت رنگ ‘ میں مختلف مکاتب ِ فکر سے وابستہ اہلِ قلم کی نگار شات شائع ہوئیں اور تحریروں کو من و عن شامل کیا گیا ، یوں کسی کو ان کی نیت پر کوئی شک نہیں ہُوا ۔۔۔ ’نعت رنگ‘ کی علمی و ادبی وقعت تسلیم کی جانے لگی ، نعت کے موضوع سے’ نعت رنگ‘ کا ذکر کچھ ایسا وابستہ ہوگیا کہ اب فروغِ نعت یا نعت کے ارتقاء کا کوئی جائزہ ’نعت رنگ‘ کے ذکر کے بغیر نامکمل ہوگا ، یا یوں کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ اس ضمن میں’ نعت رنگ‘ کا ذکر لازمی ہو گیا ۔ نعت رنگ اب ایک کتابی سلسلہ ہی نہیں رہا بلکہ نعت کے حوالے سے ایک ادبی تحریک بن گیا ہے ۔ (ص۱۳) ۳۸۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کا بیان بھی اسی خیال کو تقویت پہنچاتا ہے۔ اس حوالے سے سعید بدر کا بیان ملاحظہ فرمائیے: ’’نعت رنگ کے زیر نظر شمارے میں ایک بات خاص طورپر محسوس ہوئی کہ اس کے ۵۶۰ صفحات میں سے ۵۳۴ سے ۵۴۶ تک صرف ۱۲ صفحات میں ۱۰نعتیں شامل ہیں ،باقی سب کچھ تنقیدہی تنقید ہے گویا مختلف احباب اورقابل قدر اصحاب نے ’’نعت‘‘پر محض تنقید فرمانے کا ہی فریضہ ادا کیاہے خوبیوں کے ساتھ زیادہ تر خامیوں اورکمزوریوں کو اجاگر کیاہے۔تنقید نگار کا مزاج ہمیشہ خامیوں کی تلاش کرنا ہی ہوتاہے وہ اگر ’’حسن و قبح‘‘کی تلاش کے اس دلچسپ شغل میں نعت نگار کی تعریف یا تحسین کے چند جملے لکھتا ہے تو وہ درحقیقت ’’بزور وزن بیت ‘‘ کے عامل ہوتے ہیںیاپھر ان چند جملوں سے اس کامقصد خود خود کو ’’غیر جانبدار‘‘ثابت کرنا ہوتاہے۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ایسے تنقید نگار ابھی موجود ہیں جنھوں نے غالب واقبال اورظفر علی خاں پربھی نشتر زنی سے گریز نہیں کیا ۔ یہ کہنے سے میرایہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ ان ’’بزرگوں‘‘سے غلطیاں نہیں ہوئیں یا ان کے اشعارمیں کہیں سقم موجود نہیں یاپھر وہ’’ معصوم عن الخطاء‘‘تھے یا ہیں ۔ایسا ہرگزنہیں لیکنفارسی اور اردو زبانوں میں ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ ’خطائے بزرگاں گرفتن خطا است‘ یعنی بڑوں اور بزرگوں کی غلطیوں یا کمزوریوں کو الم نشرح کرنا بھی خطا کے زمرے میں آتا ہے لیکن مغربی افکار سے مسحور و مرعوب ہو کر ہم لوگ اپنے اجداد اور اسلاف کے تابناک اور خوبصورت چہروں پر بھی دھبے لگانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ محترم المقام صبیح رحمانی !آپ نے جب نعت پر ’تنقید‘ کا سلسلہ شروع کیا تھا تو راقم نے اس وقت بھی اُن سے اسی ’’خدشے‘‘ کا اظہار کیا تھا لیکن آپ اپنی دُھن کے پکے ہیں ۔ آپ نے اس کام کو آغاز کر کے ہی دم لیا کیا۔’’تنقید نگار‘‘ حضرات کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ نعت نگاروںپر ہر پہلو اور ہرگوشے سے حملے کریں اور بالخصوص اگر کوئی نعت نگار پسند نہ ہو تو اس کی شامت ہی آ جاتی ہے۔ چاہیے تو یہ کہ یہ حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ اس صنف کو فروغ حاصل ہو۔(نعت رنگ شمارہ ۲۵،اگست ۲۰۱۵ء، ص ۹۱۳۔۹۱۲) اقتباس ذرا طویل ہے لیکن صورت حال کو سمجھنے کے لیے مفید ہے اس لیے اس خط کا کثیر حصہ نقل کرنا پڑا ہے۔ اس اقتباس کا لب ولہجہ ملاحظہ فرمائیے۔اگر اس نظریے پر عمل کیا جائے تو ہزاروں سالوں کا ارتقا اور علوم و فنون کی ترقی سب وقت کا ضیاع محسوس ہوتی ہے۔موصوف تنقید کو تنقیص کے معنوں میں لے رہے ہیں۔ انھیں معلوم ہی نہیں کہ تنقید کو اسلام نے کبھی ناپسند نہیں کیا اگر ایسا ہوتا تو نہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشاورت کو پسند کرتے اور نہ مسجد نبوی میں خطبے کے دوران کسی کو یہ سوال کی جرات ہوتی کہ مال غنیمت سے ہر ایک کو ایک ایک چادر حصے میں آئی ہے اور ایک ہی چادر تمھارے حصے میں آئی۔ پھر یہ لباس جو ایک چادر سے نہیں بن سکتا آپ نے کیسے زیب تن کیا ہوا ہے اور خلیفہء وقت نے اس سوال کا برا بھی نہیں مانا تھا اور اسی وقت اس چادر کا حساب بھی دینے میں کسی قسم کی عارمحسو س کی تھی۔ ۳۹۔ اس حوالے سے پروفیسر محمد اقبال کا بیان ملاحظہ فرمائیے: ’’میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس نوع کی بحثوں کو کچھ عرصے کے لیے اٹھا رکھنا چاہیے۔ کیونکہ آج ہر مسلک ایک ’’مستقل دین ‘‘ بن چکا ہے۔ امتِ مسلمہ پارہ پارہ ہوچکی ہے۔ ساری دنیا ہماری حالت پر ہنس رہی ہے مگر ہمیں اپنی حالت پررونا نہیں آتا۔ وطن عزیز کے حالات اس نوع کی بحث و تمحیص کے قطعاً متحمل نہیں ہیں‘‘ لہو پوشاک بندوں کو ملی ہے مساجد خوں میں تر کردی گئی ہیں جواں لاشے اٹھائے جا رہے ہیں کہ عمریں مختصر کردی گئی ہیں (نعت نامے ص ۱۹۲) اسی خط میں آگے چل کر مزید لکھتے ہیں: ’’مدیر’’نعت رنگ‘‘۔۔۔ کا یہ ادارتی فرض ہے کہ وہ موجودہ حالات میں نزاعی امور کا دروازہ نہ کھولیں اور انہیں اشاعت سے قبل حذف کر دیں کہ نہ ’’نعت رنگ ‘‘ کا یہ مسلک ہے نہ مشن۔ یوں بات دور تک نکل جاتی ہے اور اسے سنبھالنا اور سمیٹنا مشکل ہوجاتا ہے، ویسے بھی میں سمجھتا ہوں کہ نعت کو اپنوں اور غیروں کے درمیان وصل کا وسیلہ ہونا چاہئے۔ فصل کا نہیں۔ بالکل اُسی طرح، جس طرح ماضی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی خاطر ’احرار‘ کی سٹیج پرہر مکتب فکر، اختلافات کے باوجود یک زبان اور یک سو ہوگیا تھا ۔‘‘(نعت نامے ص ۱۹۳) ۴۰۔ اس حوالے سے ڈاکٹر یحییٰ نشیط کا مؤقف ملاحظہ فرمائیے: ’’نعت کے تقدس اور تقدیسی ادب کے تقاضوں کا لحاظ اور نعت کے فنی لوازمات کا خیال رکھتے ہوئے نعتیہ شعرو ادب کو میزان نقد پر تولنا، شستہ و شائستہ تنقید کی عمدہ مثال ہے۔ نقد ِ نعت کی بدترین مثال اسے مغربی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش ہے۔ نعت نہ صرف یہ کہ مشرقی ادب کی نمائندگی کرتی ہے بلکہ خالصتاً ادب اسلامی کی ایک صنف کی حیثیت سے اپنا وجود منوا لیتی ہے۔ اس لیے اس پر نقد و جرح کے لیے فکر نقد کا اسلامی ہونا ضروری ہے وگرنہ تنقید نعت کا حق ادا نہ ہو سکے گا۔ ‘‘ ( رشید وارثی اور نعتیہ نعت از ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط ، مشمولہ ’اردو نعت کا تحقیقی و تنقید ی جائزہ مصنفہ رشید وارثی ، نعت ریسرچ سنٹر،کراچی، ۲۰۱۰ء ص ۷) ۴۱۔ اقبال شناسی ،ڈاکٹر منظور احمد، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور،طبع دوم،۲۰۱۳ء ص ۲۵۔ ۴۲۔ دیکھیے: حوالہ نمبر۳۵ ۴۳۔ ڈاکٹر عزیز احسن اور مطالعات حمد ونعت ص ۱۶۔ ۴۴۔ ’ہمیں فنِ شاعری اور صنائع بدائع کے بارے میں مشرقی علوم اور مغربی زاویہء نگاہ کو بھی برتنے کی ضرورت ہے ۔صنائع بدائع کا خلاقانہ استعمال نعت میں کہاں کہاں کیا گیا ہے اس کی نشان دہی کا فرض ابی ہمارے ناقدین پر قرض ہے۔ محض یہ کہہ دینے سے کیا خوب تشبیہ ہے۔ بات نہیں بنتی۔( فن اداریہ نویسی اور نعت رنگ،ص ۱۵۶) ۴۵۔ نعت رنگ کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ ،پروفیسر شفقت رضوی، مہر منیر اکیڈمی ،کراچی ، فروری ۲۰۰۴ء ،ص ۴۷۵۔۴۷۴ ۴۶۔ سرسید’ تہذیب الاخلاق‘ میں لکھتے ہیں:’’ پرانے دل بعضے تو ہم کو برا کہتے کہتے ٹھنڈے ہو گئے اور بعضے مہربان اور نئے دل اب جوش پر ہیں اور ہم برا کہنے پر تیز۔۔۔ہم کو ملحد اور زندیق اور لامذہب نیچرلسٹ اور دہریہ کہتے ہیں۔‘‘ ’تہذیب الاخلاق‘ کے ایک اور شمارے میں لکھتے ہیں:’’ ہم کو ملحد ،زندیق اور لامذہب کہنا کچھ تعجب نہیں ۔۔۔مگر طرفہ یہ ہے کہ ہم کو کرسٹان بھی کہتے ہیں۔ ہماری قوم کے ایک اخبار نویس نے چھاپا کہ ہم عیسائی ہو گئے اور ایک گرجا میں بپتسمہ یعنی اصطباغ لیا۔۔۔اس شخص کو یہ بھی غیرت نہ ہوئی کہ میں ایک مسلمان شخص کی نسبت کس دل اور غیرت سے ایسی جھوٹی خبر چھاپ دوں۔‘‘( مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:سرسید احمد خان ایک سیاسی مطالعہ،عتیق صدیقی، سیونتھ سکائی پبلی کیشنز ،لاہور، جولائی ۲۰۱۴ء ص ۱۱۱،۱۱۵،۱۳۸۔۱۳۵) ۴۷۔ دیکھیے: حاشیہ نمبر ۵ ۴۸۔ قارئین کو مکاتیب کی اہمیت سے آگاہ کرنے کی خاطر ایک مرتبہ مدیر ’نعت رنگ ‘نے مقالہ نگار سے مجلے کے لیے موصول شدہ مقالے کو بھی خط کی شکل دینے کی درخواست کرنا پڑی۔ ) ۴۹۔ ’’ جہاں تک نعتیہ ادب کی بات ہے تو اس کی صورت حال اس لحاظ سے اور بھی ابتر ہے اسے کسی بھی عہد میں باقاعدہ تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور نتیجتاً اربابِ نقد و نظر نے اسے ’شعر عقیدت‘ کا نام دے کر عام ادبی فضا سے دور کر دیا ہے اور یہ تکلیف دہ صورتِ حال کسی حد تک اب بھی برقرار ہے۔ ’نعت رنگ‘ میں شائع ہونے والی تنقیدی گفتگو سے اہل فکر و نظر نے اس اہم صنف سخن اور اس کے فکری و فنی پہلوؤں کی طرف سنجیدگی سے غور کرنا شروع کردیا ہے اور یہی ہماری کامیابی کی پہلی منزل ہے ۔ ’نعت رنگ‘ کے جو ادبی اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ اب وہ دن دور نہیں جب نعت اپنے پورے تقدس اور پوری ادبی شان کے ساتھ دیگر اصنافِ سخن کے ہجوم میں نمایاں نظر آئے گی۔‘‘ فن اداریہ نویسی اورنعت رنگ، ص ۴۳ ۵۰۔ ایضاً، ص ۴۴ ۵۱۔ نعت رنگ ۲۶،ص ۱۱۔ ۵۲۔ اس حوالے سے مدیر ’نعت رنگ ‘کا بیان ہے: ’’نعت کے مسائل اور بہت سے پہلو خطوط کا موضوع بن سکتے ہیں اور ہماری تمنا ہے کہ آپ کے خطوط ’نعت رنگ ‘کی توصیف تک محدود نہ رہیں بلکہ بزم فکر و نظر بن جائیں۔ کئی احباب نے اپنے خطوط میں ان مضامین کی اشاعت پر تعجب کا اظہار کیا ہے جن کے مندرجات سے انھیں اتفاق نہیں۔ ہم اس بات کی طرف بھی اشارہ کر چکے ہیں کہ مقالہ نگاروں سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں علاوہ ازیں اگر علم و ادب اور فنون کی دنیا میں یہ اختلافات نہ ہوتے تو فکر ونظر کے بہت سے گوشے اپنے امکانات کے ساتھ ہمارے سامنے نہ آ پاتے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ فکری اختلاف شخصی مخالفت نہ بننے پائے اور اختلاف کرتے ہوئے لہجے کی متانت اور اسلوب کی شرافت برقرار رہے۔‘‘ (فن اداریہ نویسی اور نعت رنگ،ص ۸۴) ۵۳۔ دیکھیے: نعت رنگ،شمارہ نمبر۲۷،ص۱۱۔ ۵۴۔ دیکھیے:نعت رنگ ۲۶،ص ۱۴۔۱۳۔ ۵۵۔ ’نعت رنگ‘ میں شائع ہونے والے ایک مکتوب نگار کا بیان ملاحظہ فرمائیے: ’’ایک دوست کے احساس دلانے پر ’’نعت رنگ‘‘ کے حالیہ شمارے(۱۶) میں شائع ہونے والے مکاتیب کا بغور جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ نعت کی آڑ میں بریلوی دیوبندی عصبیت پر تول رہی ہے اور نہیں معلوم کیوں ادارہ ان نظریاتی اور مسلکی تلخیوں کو اعتدال کا حسن نہیں دے رہا یا نہیں دے سکا یا نہیں دینا چاہتا ۔ میں فرقہ پرستی کی اس آگ کو نہ غذا دینا چاہتا ہوں نہ ہوا کہ بحالاتِ موجود اُمت مسلمہ ان مناقشات کی متحمل نہیں ہے۔ فکر و نظر اور دست و بازو کے تصادم کی کون سی کسر باقی رہ گئی ہے جسے ’’نعت رنگ‘‘ پورا کرنا چاہتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج ساری دنیا ہماری زبوں حالی پرہنس رہی ہے مگر ہمیں اپنی حالت پر رونا نہیں آتا۔‘‘(نعت نامے ص۲۰۳۔۲۰۲) ۵۶۔ نعت رنگ ۲۶،ص۱۳۔مدیر نعت رنگ ایک اور اداریے میں تحریر کرتے ہیں: اُردو تنقید کے معتبر ناموں کا اس کارواں میں شامل ہونا یقینا ’’نعت رنگ‘‘ کے سفر کو اعتبار عطا کررہا ہے۔ نعتیہ ادب میں تازہ مکالمے اور نئے بیانیے کی روشنی طلوع ہورہی ہے۔یہاں ایک نکتے کی طرف توجہ دلانا ضروری محسوس ہورہا ہے۔ کوئی لکھنے والا ہو یا پڑھنے والا، ہر شخص کا ہر دوسرے شخص سے مکمل اتفاق ضروری نہیں ہے۔ مکمل یا جزوی اختلاف کسی سے بھی ہوسکتا ہے۔ اختلاف کوئی بری چیز بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے، ادب، فکر اور تنقید کے لیے تو یہ بڑی بابرکت شے ہے۔ اس لیے کہ اس سے خیال کے نئے در وا ہوتے اور فکر و نظر کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔ تاہم یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اختلاف کو فکری و نظری سطح پر رہنا چاہیے۔ اسے ذاتی یا شخصی ہرگز نہیں بننا چاہیے اور نہ ہی اسے مخالفت کی سطح پر آنا چاہیے ۔ نیا ہو یا پرانا، چھوٹا ہو یا بڑا، ہر لکھنے والے کی اپنی ایک حیثیت اور اہمیت ہے۔ البتہ پرانے اور بڑے لکھنے والوں کے لیے ہمارے رویے میں زیادہ سنجیدگی، متانت اور لحاظ نظر آنا چاہیے۔ اس لیے کہ ہم اپنے بڑوں کی عزت و وقار کا خیال رکھتے ہوئے نظر آئیں گے تو یہ دراصل بعد والوں کی تربیت کا ذریعہ بھی ہوگا۔ ’’نعت رنگ‘‘ نے اختلافات کو ہمیشہ خوش آمدید کہا ہے۔ اس شمارے میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ تاہم آئندہ بے احتیاطی یا بے ادبی کو محسوس کرتے ہوئے ادارہ کسی بھی مضمون کی اشاعت سے انکار کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ ۵۷۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: خوش معرکہ زیبا،سعادت خان ناصر، مرتبہ مشفق خواجہ، مجلس ترقی ادب لاہور،اول اپریل ۱۹۷۰ء و دوم مارچ ۱۹۷۲ء۔ ۵۸۔ آب ِ حیات ،محمد حسین آزاد، مرتبہ ابرار عبدالسلام، شعبہء اردو بہاء الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان ،مارچ۲۰۰۶ء،حاشیہ ص ۱۷۵ ۵۹۔ ایضاً،ص۱۷۶ ۶۰۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:(i)نقوش ادبی معرکے نمبر حصہ اول و دوم، شمارہ ۱۲۷۔۱۲۶،ادارہ فروغ اردو لاہور،۱۹۸۱ء(ii)الزبیر ادبی معرکے ،سہ ماہی الزبیر، مدیر مسعود حسن شہاب، اردو اکیڈمی ،بہاولپور، ۱۹۷۴ء(iii) اردو کے ابتدائی ادبی معرکے ، ڈاکٹر محمد یعقوب عامر، ترقی اردو بیورو ،نئی دہلی، مارچ ۱۹۹۲ء(iv) اردو کے ادبی معرکے حصہ دوم، ڈاکٹر محمد یعقوب عامر، بستان ادب لاہور، ۱۹۹۱ء) ۶۱۔ آب حیات،محمد حسین آزاد، مرتبہ ابرار عبدالسلام، ص ۲۱۲ ۶۲۔ کوکب نورانی نے طویل طویل خطوط تحریر کیے۔ ان میں سب سے طویل خط سو صفحات پر مشتمل ہے۔ ان کے تمام خطوط شائع ہو چکے ہیں ۔دیکھیے: نعت اور آداب نعت، کوکب نورانی،مرتبہ ارشد جمال، ناشر مصنف، دسمبر ۲۰۰۴ء ۶۳۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:نعت رنگ کا تجزیاتی وتنقیدی مطالعہ، ص ۱۵۸۔۱۵۴ ۶۴۔ دیکھیے: نعت رنگ ،شمارہ نمبر ۴ ص ۵۴۔۱۷ ۶۵۔ نعت رنگ، شمارہ نمبر۴ ،ص۴۶ ۶۶۔ نعت اور آداب نعت، ص ۴۹ ۶۷۔ ایضاً ۶۸۔ نعت رنگ، شمارہ نمبر۴ ،ص۴۸ ۶۹۔ نعت اور آداب نعت ص۵۰۔۴۹ ۷۰۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:نعت رنگ کا تجزیاتی وتنقیدی مطالعہ، ص۵۱۔۴۹ ۷۱۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:(۱)نعت رنگ کا تجزیاتی وتنقیدی مطالعہ، ص۵۳۔۵۲۔(۲)نعت اور آداب نعت ص ۷۵۔۵۹ ۷۲۔ دیکھیے: نعت اور آداب نعت ۷۳۔ اس حوالے سے درج ذیل اشعار ملاحظہ کیجیے کہ غالب نے اپنی شاعری میں تواردیا سرقے کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ اگر ان کی شاعری میں کسی متقدم شاعر کا خیال پیش ہو گیا ہے تو ان (غالب)کے لیے باعث ننگ نہیں بلکہ متقدم شاعر کی خوش نصیبی ہے اور میرے اشعار پر تواردکا گمان نہ کرو بلکہ یہ یقین جانو کہ چور(متقدم شاعر) اس کا (غالب کا) کا مال خزانہء ازل سے چرا کر لے گیا ۔ یعنی اگر متقدمین کے بعض مضامین غالب کی شاعری میں پائے جائیں تو یہ سمجھنا چاہیے کہ درحقیقت یہ مضامین از ل میں غالب ہی کے حصے میں آئے تھے جسے متقدمین وہیں سے چرا کر لے گئے۔اب اگر غالب نے مضامین کو اپنے نام سے پیش کیا تو کیا گنا ہ کیاکیوں کہ وہ تو اصل میں غالب کا ہی مال تھے۔ درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے: ہزار معنی سرخوش، خاص نطق من است کز اہل ذوق دل و گوی از عسل بردہ است زرفتگان بہ یکی گر تواردم رو داد مدان کہ خوبی آرایش غزل بردہ است مراست ننگ ولی فخر اوست کان بہ سخن

بہ سعی فکر رسا جا بدان محل بردہ است

مبر گمان توارد یقین شناس کہ دزد متاع من زنھان خانہء ازل بردہ است (تفصیل کے لیے دیکھیے: چہ دلاور است مرتبین سلمان چشتی، ریحان چشتی،خالد جامعی، شعبہء تصنیف و تالیف و ترجمہ ،جامعہ کراچی، ۲۰۰۷ء ،ص چھ تا نو) ۷۴۔ دیکھیے: سارق بنارسی۔۔۔ میر غلام علی آزاد بلگرامی،از مولانا احسن مارہروی، مشمولہ ’جریدہ‘ چہ دلاور است‘ ،۲۰۰۷ء ،ص ۴۶۰۔۴۵۶۔ ۷۵۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: متنی تنقید، خلیق انجم، انجمن ترقی اردو ،کراچی، ۲۰۰۶ء ،ص ۱۹۶۔۱۸۶۔ ۷۶۔ نعت نامے بنام صبیح رحمانی ص ۴۷۹۔۴۷۸ ۷۷۔ ایضاً،ص ۴۸۱ ۷۸۔ ایضاً ، ص ،۳۰۱ ۷۹۔ فن اداریہ اور نعت رنگ ،ص ۵۷ ۸۰۔ ماہنامہ نعت،لاہور،مدیر راجا رشید محمود، جنوری ۱۹۸۸ء ص ۳ ۸۱۔ مدیر نعت رنگ لکھتے ہیں:’’الحمدللہ کہ اب ’نعت رنگ‘ کے لکھنے والوں کا حلقہ اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ ہمیں اچھے مواد کی تلاش میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔یہی وجہ ہے کہ ہم دستیاب مواد کو فوراً قارئین ِ ’نعت رنگ‘ تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ (ابتدائیہ شمارہ ۱۴،دسمبر ۲۰۰۲ء ۔۔۔ ص ۱۲۵) ۸۲۔ دیکھیے:نعت نامے بنام صبیح رحمانی مرتبہ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق، نعت ریسرچ سنٹر،کراچی، جولائی ،۲۰۱۴ء۔ ۸۳۔ دیکھیے:نعت اور آداب نعت،کوکب نورانی اوکاڑوی، مرتبہ صاحب زادہ ارشد جمال نقش بندی،ناشر مصنف،دسمبر ۲۰۰۴ء۔ ۸۴۔ غالب کے خطوط مرتبہ خلیق انجم، جلد اول ،انجمن ترقی اردو کراچی، ۲۰۰۸ء،بار سوم،ص ۲۵۶۔ ۸۵۔ نعت نامے بنام صبیح رحمانی ص ۲۹۲ ۸۶۔ ایضاً، ص ۳۰۹۔۳۰۸ ۸۷۔ ایضاً، ص،۳۰۶ ۸۸۔ ایضاً، ص،،۳۰۳ ۸۹۔ ایضاً، ص ۵۰۷ ۹۰۔ ایضاً، ص۳۱۳۔۲۹۰ ۹۱۔ ایضاً، ص۴۷۶ ۹۲۔ ایضاً، ص۴۸۵۔۴۸۴ ۹۳۔ ایضاً، ص۴۸۵ ۹۴۔ ایضاً، ص، ۴۸۹۔۴۸۸ ۹۵۔ ایضاً۴۸۲ ۹۶۔ ایضاً، ص،۴۸۹ ۹۷۔ ایضاً، ص۵۰۶ ۹۸۔ ایضاً، ص۴۹۳ ۹۹۔ ایضاً، ص،۵۰۷ ۱۰۰۔ ایضاً، ص،۴۹۰ ۱۰۱۔ ایضاً، ص۵۰۷۔۵۰۶ ۱۰۲۔ ایضاً، ص۴۹۳ ۱۰۳۔ ایضاً، ص۴۶ ۱۰۴۔ ایضاً، ص۴۸۔۴۷ ۱۰۵۔ ایضاً، ص۶۶۔۶۵ ۱۰۶۔ ایضاً، ص۷۰ ۱۰۷۔ ایضاً، ص ۵۰ ۱۰۸۔ ایضاً، ص۶۴ ۱۰۹۔ ایضاً، ص۴۸۴ ۱۱۰۔ ایضاً، ص۶۸۶ ۱۱۱۔ ایضاً، ص ،۶۹۵ ۱۱۲۔ ایضاً، ص ،۳۹،۳۷،۳۵ ۱۱۳۔ ایضاً، ص ،۸۰۳۔۸۰۲ ۱۱۴۔ ایضاً، ص ،۸۲۷۔۸۲۳ ۱۱۵۔ ایضاً، ص ،۸۲۲۔۸۱۵ ۱۱۶۔ ایضاً، ص،۶۹۶ ۱۱۷۔ نعت اور آداب نعت ص ۲۹۴ ۱۱۸۔ مکاتیب قاضی عبدالودود مرتبہ محضر رضا ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی، ۲۰۱۶ء ص ۱۹۔ ۱۱۹۔ غالب کے خطوط مرتبہ خلیق انجم، جلد اول ص ۱۵۸۔۱۵۷ ۱۲۰۔ نعت نامے، ص ،۲۹۰ ۱۲۱۔ نعت نامے، ص ،۳۱۳۔۳۱۲ ۱۲۲۔ فن اداریہ نویسی اور نعت رنگ، ص ۵۷ ۱۲۳۔ نعت رنگ ،ابتدائیہ ۔شمارہ نمبر ۲ دسمبر ۱۹۹۵۔۔ص ۹۷ ۱۲۴۔ نعت نامے بنام صبیح رحمانی، ص۳۰۷ ۱۲۵۔ ایضاً، ص ۳۳۱ ۱۲۶۔ ایضاً، ص۳۰۵ ۱۲۷۔ ایضاً، ص ۳۰۷ ۱۲۸۔ ایضاً، ص ۳۰۳ ۱۲۹۔ ایضاً ۱۳۰۔ ایضاً، ص۶۲۴ ۱۳۱۔ ایضاً، ص ۳۰۹ ۱۳۲۔ ایضاً، ص ۲۶۲ ۱۳۳۔ ایضاً، ص۲۶/۶۲۳ ۱۳۴۔ ایضاً، ص ۳۸۲ ۱۳۵۔ ایضاً، ص ۲۰۵۔۲۰۴ ۱۳۶۔ ایضاً ۱۳۷۔ نعت نامے، ص۵۲۶ ۱۳۸۔ ایضاً، ص۳۸۳ ۱۳۹۔ ایضاً، ص ۷۲۲ ۱۴۰۔ ایضاً، ص۸۷۸ ۱۴۱۔ ایضاً، ص۳۸۵ ۱۴۲۔ فن اداریہ نویسی اور نعت رنگ، ص ۵۰۔۴۹ ۱۴۳۔ نعت نامے بنام صبیح رحمانی، ص۸۵ ۱۴۴۔ ایضاً، ص ۸۷ ۱۴۵۔ ایضاً، ص ۳۰۱ ۱۴۶۔ ایضاً، ص ۴۷۹۔۴۷۸ ۱۴۷۔ ایضاً، ص۵۰۵ ۱۴۸۔ دیکھیے: فن اداریہ نویسی اورنعت رنگ، ص ۱۰۴۔ ۱۴۹۔ دیکھیے:(i)غالب کا ایک فرضی استاد،عبدالصمد، قاضی عبدالودود، علی گڑھ میگزین،غالب نمبر ۱۹۴۹ء (ii) غالب بحیثیت محقق، قاضی عبدالودود، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری ،پٹنہ، ۱۹۹۵ء (iii)عبدالصمد۔استاد غالب، مالک رام مشمولہ فسانہء غالب ، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،نئی دہلی، اول جنوری ۱۹۷۷ء۔ ۱۵۰۔ اداریہ از سید ظفر ہاشمی مدیردوماہی گلبن، احمد آباد، جنوری تا اپریل ۱۹۹۹ء ،ص ۷۔