نعت رنگ شمارہ ۲۶ پر ایک نظر ۔ احمد صغیر صدیقی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

22552547 1414849971926102 6847160094441319601 n.jpg

مضمون نگار: احمد صغیر صدیقی

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Contents of Naat Rang No.26 are reviewed in the article placed hereunder. Particular emphasis assigned to critical aspects of essays appeared in the issue under reference. Reviewer has also commented on the opinions given in the letters to the Editor, Naat Rang. Naatia poems of different poets that were included in the issue of Naat Rang under reference have also been viewed for expressing critical opinion. Evaluation of thought and content placed in Naat Rang 26 has been carried out to appreciate well doing of writers and to pin point errors for curtailing recurrence of such matter in future.

نعت رنگ شمارہ۲۶ پرایک نظر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’نعت رنگ‘‘ نعت کی تفہیم وتہذیب میں اب ایک اہم جریدے کی حیثیت حاصل کرچکاہے ۔ اس کے اب تک ۲۶ شمارے نکل چکے ہیں اور اس میں نعت سے متعلق ایسے ایسے مضامین شائع ہوئے ہیں جنھیں موتیوں سے تولنے والا کہا جاسکتا ہے۔اس جریدے کوآگے بڑھانے میں ہندوپاک کے اعلیٰ ترتیب اذہان شامل ہیں۔ساتھ ساتھ اس کے مدیر جناب صبیح رحمانی کی کوششوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا جنھو ں نے بے سروسامانی کے عالم میں اس جریدے کی اشاعت کابیڑہ اٹھایا تھا۔آج نعت رنگ ایک گھنیرے درخت کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ابتدا میں’’ نعت ‘‘ کے موضوعات کوخاصا ’’محدود ‘‘ کیاگیا تھا مگرہم دیکھتے ہیں کہ اس پر مضامین پر مضامین آرہے ہیں اور اتنا عمدہ لکھا جارہا ہے کہ اس کاابتدا میں تصور بھی محال تھا۔

اب ذرا اِسی موجودہ شمارے کو دیکھیے (شمارہ ۲۶ دسمبر ۲۰۱۶) عمدہ لکھنے والوں کی ایک کہکشاں پھیلی نظرآتی ہے۔ڈاکٹر عزیزاحسن ،ڈاکٹر یحییٰ نشاط ،ڈاکٹر ریاض مجید،ڈاکٹر مولانابخش ، جناب کاشف عرفان ،جناب گوہر ملسیانی ،ڈاکٹر افتخار شفیع وغیرہ (واضح ہوکہ یہ سارے نام نہیں ہیں ابھی آدھے سے زیادہ رہ جاتے ہیں) اورذرا موضاعات کابھی نقشہ دیکھ لیں تو بہتر ہوگا۔ نعت بہ حیثیت صنف سخن، نعتیہ مجموعوں میں تقاریظ میں تنقیدی رویوں کاجائزہ، غالب کی مثنوی بیان معراج، نعت املا وتلفظ ،حمدونعت کی شعریات ،اردو نعت اور وقت کی ماورائی جہات،نعت اورتنقیدی شعور وغیرہ۔

ایسے مضامین کی تعداد۳۹ ہے اورتقریباً۵۴ شعراکی نعتیں شامل ہیں۔یہ شمارہ ۶۸۰ صفحات پر مشتمل ہے اوراس میں کچھ بھی ایسانہیں جسے غیراہم کہاجاسکے۔ایک بات جواس شمارے میں اکھری وہ ہے ان لکھنے والوں کی تحریریں جواب اس دنیا میں نہیں۔اصولاً ان تحریروں کوالگ کرکے ایک جگہ چھاپنا چاہیے تھامثلاً مقالات میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری اورنعتوں کے حصّے میں فداخالدی،حفیظ تائب ، مظفر وارثی،عارف عبدالمتین،ماجدالباقری وغیرہ۔

شمارہ جس سے شروع ہوتاہے وہ فراغ روہوی کی لکھی حمدہے۔یہ غیر منقوط ہے۔اس قسم کاکلام آمدنہیں آورہ ہوتاہے۔مضمون نعت بحیثیت صنف سخن مرحوم ڈاکٹر فرمان فتح پوری کالکھاہواہے۔یہ زیادہ طویل نہیں لیکن اس میں جامعیت کے ساتھ نہایت کارآمد باتیں بتائی گئی ہیں۔جنھیں آج کے شعرا کے لیے راہ نما کہاجاسکتاہے۔مثلاً وہ لکھتے ہیں: ’’............شعری تخلیق میں صرف موضوع کو اہمیت حاصل نہیں بلکہ موضوع کوپرکھنے کا سلیقہ بھی خاص اہمیت رکھتاہے۔‘‘

دوسرامضمون’’نعتیہ مجموعوں میں تقاریظ دیباچوں اور مقدمات میں تنقیدی رویوں کاجائزہ‘‘ ڈاکٹر عزیز احسن کے زورقلم کانتیجہ ہے۔انھوں نے نہایت دلچسپ موضوع چناہے اورخوب لکھاہے۔بے شک تقاریظ میں کتاب کی خوبیاں ہی لکھی جاتی ہیں لیکن عموماً یہی دیکھاگیاہے کہ دامن کواوربندِقبا کو دیکھنے کے لیے پاکئی داماں کی حکایت اتنی بڑھادی جاتی ہے کہ کتاب اورصاحب تقاریظ دونوں ہی اپنا بھرم گنوا بیٹھتے ہیں۔

انھوں نے درست لکھاہے ’’ناقدین کی اس روش سے نعت نگاروں میں نعتیہ مضامین کی پرکھ کی صلاحیت ہی پیدا نہیں ہوتی اور وہ بھی خیال کی وادیوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں‘‘۔

تیسرامضمون ڈاکٹر یحییٰ نشیط(بھارت)کالکھا ہواہے’’غالب کی مثنوی بیانِ معراج کا تنقیدی مطالعہ‘‘ سے متعلق ہے۔ڈاکٹر صاحب کا یہ مضمون تحقیقی ہونے کے علاوہ غالب کی مثنوی کے تمام پہلو دیکھنے کی ایک کوشش بھی کہاجاسکتاہے۔ویسے ڈاکٹر صاحب کایہ مضمون اقبال اورغالب کے بیان معراج کا تقابلی جائزہ زیادہ لگتاہے اورغالب کی مثنوی کاتنقیدی مطالعہ کم۔

چوتھا مضمون ڈاکٹر ریاض مجید کالکھا ہواہے اوراس میں نعت اورتلفظ واملاسے بحث کی گئی ہے۔ یہ بڑاہی اہم مضمون ہے اوراس پرغور کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہمارے ہاں کے دستور کے مطابق اشعار میں جہاں کہیں حضوراکرم Vکانام آتاہے وہاں درود پڑھنے کے الفاظ لکھے ہوتے ہیں اس سے اشعار پڑھنے میں دقت ہوتی ہے۔اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے اس مذہبیRigidity پرکھل کر باتیں کی ہیں۔میں اس جگہ کہنا چاہوں گا کہ حضوراکرمVکہنے پر بہت زوردیا جاتاہے میرا سوال ہے کہ پھر ہم پورا دورد کیوں نہیں پڑھتے؟وہ درود جواصلی ہے اورنماز میں پڑھا جاتاہے۔آج کل تو کمپوٹر کی تحریر میں اللہ کو’’اللہ‘‘لکھاجارہا ہے جوبالکل غلط ہے مگر مجبوری ہے سوہمیں بعض جگہوں پراپنی یہRigitiy چھوڑ دینی چاہیے۔

ڈاکٹر مولابخش کامضمون’’حمد ونعت‘‘کی شعریات مختصرہے۔اسے طویل ہوناچاہیے کیوں کہ اس کا عنوان ایک طویل مضمون ہی کا متقاضی کہاجاسکتاہے۔

جناب کاشف عرفان کامضمون’’اردونعت اوروقت کی جہات‘‘اپنے عنوان ہی کی طرح ادق ہے اورعالمانہ طرز تحریر کاحامل ہے۔ایسے مضامین کم کم پڑھنے کوملتے ہیں۔کاشف نے اسے محنت سے لکھاہے اورخوب لکھاہے۔ ڈاکٹر نسیم فریس(بھارت)نے دکنی مثنویوں پراپنا مضمون لکھاہے۔میں اسے ایک تحقیقی کام سمجھتاہوں۔ڈاکٹر صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔

جناب فاروق ارگلی (بھارت)نے’’جین اورکرسچین نعت گو‘‘شعرا کے بارے میں مضمون لکھاہے۔اس کے حوالے سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمارے اپنے ملک کیشاعر نذیر قیصر کے فکر و فن(نعت سے متعلق)کے بارے میں ایک مضمون لکھوایے۔

ڈاکٹر رفاقت شاہد کامضمون بھیتحقیقی ہے۔مجیدامجد مرحوم کی ایک نعت پرڈاکٹر افتخار شفیع کا کام بھی ایسی نوعیت کاہے میں سمجھتاہوں کہ ڈاکٹر صاحب مجید امجد کی لکھی ہوئی نعت کی تعریف کے ضمن میں ذرا جذباتی ہوگئے ہیں۔یہی حال جناب ڈاکٹر صابر سنبھلی (بھارت)کادیکھا جاسکتاہے ان کے مضمون’’حدائق بخشش کے صنائع بدائع پرایک نظر‘‘میں وہ بھی اپنے ممدوح کی شاعری پرنظر ڈالتے ہوئے بے حدجذباتی ہوگئے ہیں اوربعض معمولی باتیں انھیں بہت بڑی اورحیرت انگیز محسوس ہوئی ہیں۔شاعر کے شعر میں’’مے‘‘اور’’میں‘‘کااجتماع دیکھ کروہ اس قدر خوش ہوئے ہیں کہ انھوں نے پورے شعر کودیکھنا ہی پسند نہیں کیا کہ یہ اپنیTotality میں کیساہے۔

آپ بھی ذرا یہ شعر دیکھ لیں:

مے کہاں اور کہاں میں زاہد

یوں بھی تو چھکتے ہیں چھکنے والے

بعدکے دومضامین تحقیقی نوعیت کے ہیں اوراچھے ہیں۔

ظہیر قدسی صاحب نے بھارت سے’’مالیگاؤں کانعتیہ ادب اوراشفاق انجم‘‘لکھاہے۔اپنے مضمون کی ابتدا میں ظہیرصاحب نے بھی کئی اہم باتوں سے آگاہ کیاہے اوربتایاہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں نعتیہ شاعری کے موضوعات بہت محدود تھے۔ مثلاً شفاعت ،دیدار کی خواہش،آپ کے در پرمرنے کی آرزو،عذاب سے نجات کی تمنا۔

اس کے بعدجو آپ کی سیرت کوموضوع بنایاگیاہے اورپھرصنائع بدائع کابھی استعمال کیاگیا۔عبدالکریم عطا کی نعت کا ایک شعر:

ہمیں حضرت کے کلمہ پاک کاوردوظیفہ ہے

اگرچہ قبر کی شدت نہایت ہے توکیاغم ہے

جدید نعت کاایک شعر:

اس کے گھر میں نہیں ایک نانِ جویں

جس کی مٹھی دونوں جہاں بند ہیں

اس کے بعد اس مضمون سے جناب اشفاق انجم کے شعری مرتبے پررائے زنی کی گئی ہے جس میں جدیاتی رنگ بہت غالب ہے۔اور کمزوراشعار کوبھی فیض وفراز کے اشعار سے ملادیاگیا ہے۔ذرا ایسا ہی ایک شعر دیکھیے:

میں یہاں آیا ہوں تہذیب کا پیکر بن کر

گر سنبھلنا ہے تمہیں پہلے سنبھالو مجھ کو

(اس شعر کے بارے میں آپ کی کیارائے ہے؟)

ظہیر قدسی صاحب جوش مداحی میں انجم صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ایسیایسی زمینوں میں شعر کہنے کی توفیق عطاکی جس کے بارے میں نعت کہنے کاکسی کوخیال تک نہ آیاہوگا۔‘‘

اب ذرا اس قسم کا ایک شعردیکھ لیں جوقدسی صاحب نے لکھاہے۔اسے ذرا غورسے پڑھیے گا۔

دنیائے دوں نگاہِ رسالت پناہ میں

روشن سا ایک چراغ ہے دست گناہ میں

جبکہ اشفاق صاحب اپنی شاعری کے جوش میں شعرطرازی کوبھی خاطر نہیں لاتے۔انجم صاحب کاایک مصرع دیکھیے:

ع صدف میں کون پروتا ہے خوش نما موتی

صدف نہ ہوئی کوئی سلاخ ہوگئی جس میں موتی پرودیاگیا ہو۔

قدسی صاحب نے ان کی اس قسم کی شاعری کوجدید قراردیاہے۔آپ کیاکہتے ہیں؟ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔

’مکالمات‘کے عنوان تلے ایک گفتگو چھاپی گئی ہے۔’’نعت اورجہت رسول کے تقاضے‘‘ اس میں مذہبی دانشورجناب احمد جاوید نے اپنے خیالات کااظہار کیاہے ۔مقالہ ’’نعت اورتنقیدی شعور‘‘بھی ایکمذاکرے کی روداد ہے۔ اس میں ڈاکٹر عزیز احسن،پروفیسر سحر انصاری،پروفیسر انواراحمد زئی اورہندوستان کے ڈاکٹرپروفیسر ابوسفیان اصلاحی نے حصّہ لیا۔یہ اچھی روداد ہے اوراس میں بہت سی کام کی باتیں مل سکتی ہیں۔

’’فکروفن‘‘کے عنوان تلے مختلف شعرا کے فکروفن کے جائزے دیئے گئے ہیں۔پہلا جائزہ پروفیسر محمد اسلم اعوان کاہے انھوں نے خواجہ محمد دیوان کی نعت گوئی پرقلم اٹھایاہے۔خواجہ صاحب نے ایک ہندوگھرانے میں جنم لیاتھا۔یہ مضمون ایک قدیم نعت گوکوڈھونڈ نکالنے کی ایک مستحسن کوشش ہے۔ظفرا حمد صدیقی(بھارت)نے اقبال سہیل کے ایک نعتیہ قصیدے پرخانہ فرسائی کی ہے۔یہ مضمون بھی خاصاInformativeہے۔صدیقی صاحب نے ا قبال سہیل صاحب کے قصیدے کا چند دوسرے شعراکے قصیدوں سے موازانہ کیاہے۔مگراس سے قطع نظر اس میں نعت سے متعلق متعدد عمدہ معلومات موجود ہیں۔اس کے بعد مرحوم اخترہوشیارپوری کی ایک نعت پرامین راحت چغتائی نے قلم اٹھایاہے۔امین صاحب کا فرمانا ہے کہ اختر ہوشیارپوری صاحب نے جدید اردوغزل کونیا اسلوب دیاہے اسی طرح انھوں نے جدید نعت میں بھی نئے پن کااحساس دلایا ہے۔امین صاحب کافرمان سرآنکھوں پر مگران کے بیان سے اختلاف کی جسارت کی جاسکتی ہے۔اخترصاحب کے چند اشعار پڑھ لیں۔

قرطاس کا سینہ ہے مری نوک قلم ہے۔یہ معجزۂ نعتِخداوندحرم ہے۔کیسا ہے یہ شعر؟قرطاس کے سینے میں نوک کی طرح اترنے والی چیز بھلالطیف وتازک کیسے کہی جاسکتی ہے۔توکیا نعت اتنی ہی سفاک اور سخت پتھرچیز ہے کوئی؟اب دیکھیے اس موضوع کاواقعی ایک خوب صورت شعر:

قرطاس مصلیٰ ہے تو سجدے میں قلم ہے

یہ منزلتِ مدحِ شہنشاہ اُمم ہے (ابرار عابد)

اخترہوشیارپوری کی’’جدیدیت‘‘کامقابلہ ابرارعابد کے اس شعر سے کریے توآپ کواچھی طرح اندازہ ہوجائے گا کہ حقیقت کیاہے۔احتیاطً اخترصاحب کے چند اور ایسے ہی شعر جن کی توصیف جناب امین نے کی ہے مگر میں متفق نہ ہوسکا۔

درودوں کی صداؤں کے تصدق

میں اپنے قد سے اونچا ہوگیا ہوں

ذرا بتائیے کہ صداؤں سے کوئی اونچا ہوجاتاہے۔ اس شعر میں معقولیت کتنی ہے یہ دیکھنے کی بات ہے۔ایک شعر دیکھیں:

خداکرے کہ زمانہ بھی نیند سے جاگے

سحر کے وقت میں جب ان کانام لے کے اٹھوں

(اصولاً صبح کولوگ اللہ تعالیٰ کانام لے کراٹھتے ہیں۔شاید اس شعر میں کوئی جدت پیداکی گئی ہے)

اگلا مضمون جناب نعیم صدیقی کی نعت گوئی پرہے اسے ذاکر عبداللہ ہاشمی نے لکھاہے۔یہ مضمون طویل نہیں ہے اورمناسب ہے۔اس کے بعد جناب ریاض چودھری نے شاعر’’امجد اسلام امجد کے نعتیہ آہنگ‘‘ پربات کی ہے۔امجد اسلام امجد ہمارے عہد کے ایک سبک رو،رومانی شاعر ہیں ان کی نعتیہ شاعری اچھی ہے۔ان پرلکھامضمون مناسب ہے۔ان کاایک شعر دیکھیں:

گیا تھا جب توکوئی اورآدمی تھا میں

میں اپنے آپ سے واقف ہوا مدینے میں

بھارت کے احمد جاوید نے اپنے ہاں کے ایک شاعر وسیم بریلوی کی نعت گوئی پر قلم اٹھایاہے۔وسیم صاحب بھارت میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ان کی شاعری سے ایک شعر دیکھیے:

کھلی چھتوں کے دیے کب سے بجھ گئے ہوتے

کوئی توہے جوہواؤں کے پرکترتاہے

فروغ روہوی صاحب نے عبدالمنان طرزی کے نعتیہ آہنگ پرمضمون لکھاہے۔مضمون مناسب ہے اسی طرح ڈاکٹرغفورشاہ قاسم نے حفیظ الرحمن احسن کی نعتیہ شاعری پر اظہارخیال کیاہے۔شاہ صاحب نے حفیظ تائب کاایک شعرکوٹ کیاہے:

ہے اس کی حمدسے عاجز مری زباں کیاکیا

ثناسے اس کی ہے قاصریہ خوش بیاں کیاکیا

اس شعرسے ایسالگتاہے جیسے شاعر نے کوئی ایسی بات لکھی ہے جوبڑی خوشی کی ہے۔یہ’ کیاکیا‘ کے الفاظ خصوصاًکسی صورت شدید حالت کوظاہر کرتے ہیں۔اس شعر میں بے محل لگتے ہیں۔’کیاکیا‘کے استعمال کی عمدہ مثال دیکھیے۔

دشتِ غربت میں رُلاتے ہیں مجھے یاد آکر

اے وطن تیرے گل وسنبل و ریحاں کیاکیا

مجموعی حیثیت سے مضمون ٹھیک ٹھاک ہے۔

اس کے بعد بھارت کے اسلم حنیف نے اپنے ہاں کے شاعر فراغ روہوی کی نعت پرقلم اٹھایاہے۔روہوی صاحب اچھے شاعر ہیں۔انورجمال کی نعت گوئی کاجائزہ جاوید اختر بھٹی نے لیاہے۔نظیر رضوی کے بارے میں کراچی کے منظر عارفی نے بات کی ہے۔رضوی صاحب کاتعلق بھارت سے تھا۔منظرعارفی نے سخت محنت سے ان کاشعری سرمایہ صحیح کرکے یہ مضمون لکھاہے۔آگے نیاز سواتی کینعت پر مسدس حالی کاذکرہے جسے ڈاکٹر نذرعابد نے لکھاہے۔یہ محنت سے لکھاہواایک اچھا مضمون ہے۔اس کے بعد’’ شوکت عابد کی ملی شاعری‘‘پران کے دوست ڈاکٹر طاہرمسعود کامضمون ہے۔مضمون طویل نہیں لیکن اچھا لکھاہواہے۔ ؂

کھل جائے اگر دل سے درعشق محمد

اس اُمتِ مُسلم کی بدل سکتی ہے قسمت

آگے ’مطالعات نعت‘ کے عنوان کے تحت نعت رنگ۲۵ پرجناب کاشف عرفان نے ایک تفصیلی جائزہ لیاہے۔کاشف صاحب نے سابقہ شمارے کواوّل سے آخر تک دیکھااسے پر کھاہے اوراپنی رائے لکھی ہے۔شمارہ۲۵ کااداریہ مبین مرزا نے بہ طورمہمان مدیر تحریر کیاتھا۔کاشف عرفان نے اس کے بارے میں کچھ زیادہ ہی لکھ ڈالا ہے۔جہاں ان کی تعریف کی ہے وہیں ان کی تحریر کو’’مصنوعی‘‘بھی کہہ دیاہے۔اس مضمون میں سب سے عمدہ باتیں ملتی ہیں مثلاً احمد ندیم قاسمی کے بارے میں ان کی رائے،ڈاکٹر وزیرآغا کے ارشادات،فن کی تعریف،فن کیدوران اثرانداز ہے اس کی فہرست سازی وغیرہ۔اس کے بعد ڈاکٹر عزیز احسن نے ’’نعت اورجدید تنقیدی رحجانات‘‘کے عنوان سے جناب کاشف عرفان کی ایک کتاب کاجائزہ لیاہے اورلکھاہے کہ یہ کتاب ان کے جدید ادب اورجدید تنقیدی رحجانات کے سنجیدہ مطالعے کی روشن مثال ہے۔اس مضمون میں قارئین کے لیے بہت سی معلومات موجود ہیں۔مثلاًبتایاگیا ہے کہ لسانیات میں زبان کی چار سطحیں ہوتی ہیں۔(۱)صوتیات،(۲)لفظیات،(۳) نحویات،(۴)معنیات وغیرہ۔اسی طرح اس مضمون میں بتایاگیاہے کہ شاعری میںآقاقیت کے آٹھ عناصر ہوتے ہیں۔ماروائیت۔زماں ومکاں کی قیدسے آزادی۔وقت کے کسی نئے منطقے کی تلاش۔انسانی زندگی سے اخذ کردہ موضوعات،شعریت اورفنی گرفت،فکری پختگی،تہذیبی اثرات،تائید غیبی وغیرہ ۔یہی نہیں اوربھی سب کچھ ہے اس میں۔کاشف عرفان کی محنت نے داد طلب ہے۔ڈاکٹر اشرف کمال نے’’اردو نعت میں شعری روایات‘‘نامی ایک کتاب کاجائزہ پیش کیاہے۔یہ کتاب صبیح رحمانی صاحب کی مرتب کی ہوئی ہے اوربہت کام کی ہے۔یقیناًایک پڑھنے والی کتاب ہوگی۔آگے خورشید ربانی کے نعتیہ کلام’’نئی صدی نئی نعت‘‘پرریاض ندیم نیازی صاحب نے روشنی ڈالی ہے، بہت مختصرا اورکام چلاؤ مضمون ہے۔مضمون نگار نے ممدوح شاعر کاکوئی ایک شعر تک کوٹ نہیں کیاجس سے اندازہ ہوتاکہ نئی صدی میں نئی نعت کیسے کہی گئی ہے۔

ڈاکٹر نثار احمد نے اردو نعت میں تجلیات سیرت پرقلم اٹھایاہے۔یہ بھی صبیح رحمانی صاحب کی مرتب کردہ ایک کتاب ہیجس میں آٹھمضامین نگاروں کے مضامین کو جمع کیاگیا ہے ۔اس میں نعت کے ایک عمدہ شاعر رحمن کیانی کے کلام سے انتخاب بھی دیاگیاہے۔کتاب یقیناًعمدہ ہے لیکن تعارف اوربھی بہترطریقے سے کرایا جاسکتاتھا۔آگے معراج جامی ’’کراچی کادبستان نعت ایک مطالعہ‘‘ پیش کیاہے۔ کراچی کا’’دبستان نعت‘‘نامی کتاب منظرعارفی کی مرتب کی ہوئی ہے۔اس میں ۲۵۰ سے زائد نعت نگاروں کے تذکرے ہیں۔مضمون نگار معراج جامی نے تذکروں کی تاریخ لکھ کرنالج میں اضافہ کیاہے۔

’’ایوان مدحت‘‘کے عنوان سے شعرا کی لکھی نعتیں شائع کی گئی ہیں۔اس باراس میں وہ شعرا جواب اس دنیا میں نہیں ہیں ان کوبھی زندہ شعرا کے ساتھ چھاپ دیاگیاہے۔میں سمجھتاہوں یہ طریقہ درست نہیں ہے۔

اندر درج نعتوں کے بارے میں کچھ باتیں لکھ رہاہوں کیوں کہ اگرہر نعت پرتوجہ دی گئی توپوری کتاب درکار ہوگی۔لیکن سب سے پہلے شعر دیکھیں:

پہلے تو نورِ ذات نے دل کا دیا جلا دیا

رستہ درِ حبیب کا چپکے سے پھر دکھا دیا

یہ شعر کیساہے؟آپ خود توجہ دیں اورذرا’’چپکے سے‘‘پردھیان کریں۔پھررستہ درحبیب کادکھادیا لکھنا کافی تھا۔چپکے سے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔افتخارعارف،ع س مسلم اورتوصیف تبسم کی نعتیں اچھی ہیں۔اسی طرح کاشف عرفان،فیضان عارف نے بھی اچھی نعتیں لکھی ہیں۔

’’یادنگاری‘‘کے عنوان تلے خالد شفیق،پروفیسر اکرم رضا،ماجد خلیل اورعارف منصور جیسے مرحومین کاتذکرہ کیاہے۔سب لکھنے والوں نے بہت محنت سے یہ یادیں لکھی ہیں اوردل کوچھوتی ہیں۔

جریدے کاآخری حصّہ’ خطوط‘پرمشتمل ہے جس میں تقریباً ۱۵خطوط ہیں اوریہ سلسلہ صفحہ۶۱۷ سے۶۷۵ تک پھیلاہواہے۔ان تمام خطوط میں اہم ترین خط جناب ریاض حسین چودھری اورجناب ڈاکٹر اشفاق انجم(بھارت)کے ہیں۔

جناب ریاض چودھری علیل ہیں۔خداانہیں شفاء دے میری کسی بات سے انہیں رنج ہواہو تومعذرت۔خطوط کے حصّے میں جناب اشفاق انجم کاخط بہت طویل اوردلچسپ ہے انھوں نے اس میں پچھلے شمارے میں چھپنے والی نعتوں کاجائزہ لیاہے اور تنقید کی ہے۔انھوں نے پچھلے شمارے کے مہمان مدیر مبین مرزا کی کئی باتوں پر گرفت کی ہے۔اوران کے کوٹ کئے اشعار پربھی اعتراض کئے ہیں۔ڈاکٹراشفاق انجم کی تنقید کاایک نمونہ دیکھیں:

نخل صحرا کی طرح خشک ہوں وہ ابرکرم

مجھ پہ برسے تو مجھے برگ وثمر مل جائے

تنقیدکرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:

’’کیا صحرا میں نخل خشک اگتے ہیں؟شعر میں’’صحرا کی طرح‘‘حشو ہے اس کے بغیر بھی مکمل ہیں۔’’نخل خشک ہوں وہ ابرکرم‘‘ نیزاس میں واحد جمع کانقص بھی ہے۔برگ وثمر مل جائیں کہیں گے‘‘۔

انھوں نے مبین مرزا کے کوٹ کئے اوربھی کئی اشعار پرتنقید کی ہے۔انھوں نے کاشف عرفان کے کوٹ کئے ایک شعر پرجوتنقید کی ہے ملاحظہ ہو:

اورنگ سلیماں کے لیے رشک کا باعث

اسے سید کونین تیرے در کی چٹائی

تنقید:’’اورنگ سلیماں‘‘ کوئی جان دارشے نہیں ہے کہ اس میں رشک وحسد کا جذبہ کارفرما ہو۔دیگرچٹائی ’’گھر کے اندر‘‘بچھائی جاتی ہے‘در پر پا تحتہ (پائدان)بچھاتے ہیں‘‘۔

اپنے اس مکتوب میں ڈاکٹر صاحب نے بہت سے اشعار پرتنقید کی ہے اور لکھاہے:’’لوگ اپنے مضامین میں جواشعار پیش کرتے ہیں وہ ان کے حسن وقبحکودیکھ لیا کریں۔ان کاکہنا ہے کہ غلط اشعار خصوصاً نعتیہ اشعارپر سختی سے گرفت کرنی چاہیے۔‘‘

ہم ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کے اس خط کوپڑھنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ خطوط میں جناب تنویرپھول کاخط بھی پڑھنے والاہے۔میں ان کی’’امم‘‘والی بات سے متفق ہوگیاہوں اوراپنی غلطی تسلیم کرتاہوں۔ان کے خط سے کچھ دلچسپ باتوں کاپتہ چلا مثلاًحلیم حاذق صاحب نے حمدونعت میں لفظ’’عشق‘‘لانے والوں کوجاہل کہاہے۔تنویرصاحب نے درست لکھاہے۔’’خطاب بزبانی شعر ہے توآپ کاکہنا لازمی نہیں‘‘

جریدہ اس جگہ ختم ہوتاہے اوراصولاً یہ خط بھی اسی جگہ ختم ہوجانا چاہیے۔تاہم میں جناب صبیح رحمانی کی توجہ ایک طرف مبذول کراناچاہتاہوں۔بچپن میں میلاد شریف کی محفلوں میں جاتاتھا تو ایک دو مخصوص کتابوں کی نعتیں پڑھی جاتی تھیں اس میں ایک میلادِ اکبر نامی کتاب بھی تھی شاید۔ ڈاکٹر عزیز احسن صاحب سے کہیں کہ وہ ان کتابوں کے بارے میں کچھ لکھیں۔مجھے یاد ہے اس میں زمین اورآسمان کے درمیان حضوراکرم V کے لیے ایک مکالماتی نظم بھی تھی.........زمیں بولی.........وغیرہ

آخر میں ایسے چندشعرا کے اشعار لکھناچاہوں گاجن کی لکھی نعتیں اس بارکے شمارے میں شریک ہیں اورجنھوں نے واقعی کوشش کی ہے کہ اچھی نعتیں پیش کریں۔میں نے اس میں مرحوم نعت نگاروں کاتذکرہ نہیں کیاہے۔جو’’مدحت‘‘ کے حصّے میں زندہ شعرا کے ساتھ ہی شائع کئے گئے ہیں۔

اپنے بھاگ جگانے والے کیسے ہوں گے

ان سے ہاتھ ملااے والے کیسے ہوں گے

(ع۔س مسلم)

نظر کوخیرہ کرے چاندنی کی اک تارا

جو روبرو کبھی تصویر آسماں کیجے

(توصیف تبسم)

حضورمکے سے جارہے ہیں کتاب کے ساتھ

کتاب کل کائنات ہے اورروشنی ہے

(افتخارعارف)

خالد علیم صاحب کی مدحت خوب:

تیرے اوصاف کاہوتاہے وہاں سے آغاز

ختم ہوتی ہے جہاں فکرونظرکی سر حد


کوئی ایک سطر نہ باب ہے

ترے نام پوری کتاب ہے

(اقبال کوثر)

ہم نے یوں احوال جاں پیشِ شہِ اکرم کہا

آنسوؤں سے نعت لکھی سسکیوں سے غم کہا

(قمر حیدر)

ایمان کا ادراک صداقت کاشعورآپ

ایوان شب وروز میں توحید کانور آپ

(رشیدساقی)

بجھے دلوں میں یقین سحرسلامت ہے

کہ اسم پاک تراصبح کی علامت ہے

(حسن اخترجلیل)

یہ کوزہ گری نعت کی آسان نہیں تھی

صدشکر کہ اس دست ہنر میں ہوں ابھی تک

(کاشف عرفان)

اک نعت کاہدیہ لیے درپرمرے آقا

لب بستہ کھڑا ہے یہ سخنورمرے آقا

(فیضان عارف)