"نعت خواں انعم آغا کا مندر میں سکول" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 1: سطر 1:
[[ملف:Anum Agha.jpg|link=انعم آغا]]
[[ملف:Anum Agha.jpg|link=نعت خواں انعم آغا کا مندر میں سکول]]
{{#seo:
{{#seo:
|title=نعت خواں انعم آغا کا مندر میں سکول
|title=نعت خواں انعم آغا کا مندر میں سکول

حالیہ نسخہ بمطابق 10:21، 28 دسمبر 2018ء

Anum Agha.jpg

بشکریہ : بی بی سی نیوز

انعم آغا کا مندر میں سکول[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کراچی کی ایک کچی آبادی میں واقع باگڑی کمیونٹی کے مندر میں یہ غیر رسمی سکول قائم کیا گیا ہے، جس میں سو سے زائد ایسے بچے زیر تعلیم ہیں جو بھیک مانگتے تھے یا سڑکوں پر مختلف اشیا فروخت کرتے تھے۔

ٹیچر انعم آغا کہتی ہیں کہ یہ بچے ہم سے زیادہ پریکٹیکل ہوتے ہیں کیونکہ یہ سڑکوں پر نکلتے ہیں ان کا پلنا بڑھنا سڑک پر ہی ہوتا ہے، بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو ان کو آتی ہیں جیسے حساب کتاب انہیں زبانی آتا ہے تاہم لکھ پڑھ نہیں سکتے ہیں۔

باگڑی کمیونٹی کو واگھری بھی کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کمیونٹی انڈین راجستھان اور گجرات ریاست کے مخلتف علاقوں میں موجود تھے۔ سنہ 1817 میں برطانوی حکومت نے انہیں جرائم پیشہ قبائل کی فہرست میں شامل کر لیا تھا، جو تجارت کی آڑ میں جرائم کرتے تھے، جس کے بعد وہ خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے رہے۔

انعم آغا کا کہنا ہے کہ ہر خاندان میں سات سے دس بچے ہیں اور ہر بچہ روزانہ 500 سے 800 روپے کما کر لاتا ہے، اس لیے ان کے والدین کبھی نہیں چاہیں گے کہ آمدنی کے وقت بچے کو سکول بھیجیں، یہ سب سے زیادہ مشکل مرحلہ ہوتا ہے اور انہیں بچوں سے زیادہ ان کے والدین کی سوچ پر کام کرنا پڑتا ہے۔

اس غیر رسمی سکول میں بچوں کو ابتدائی نصاب پڑھایا جاتا ہے جس کے بعد انہیں مقامی سرکاری سکول بھیج دیا جاتا ہے۔

انعم آغا کہتی ہیں کہ جب سکول میں داخل کرانے جاتے ہیں تو وہاں کے ٹیچرز ان بچوں کو قبول نہیں کرتے کیونکہ ان کی صورتحال ایسی نہیں ہوتی، ایک بچہ جس کے پیر میں چپل اور صاف ستھرا بھی نہیں ہے، اس کے لیے یہ بھی ممکن نہیں ہوتا کہ وہ فوری طور پر دیگر بچوں کی طرح کاپی لے کر آئے۔

’سڑک پر رہنے کی وجہ سے ان کی زبان کافی خراب ہو چکی ہوتی ہے، یہ تو کر کے بات کرتے ہیں، ٹیچر کو یہ بھی ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ باقی بچوں پر بھی اس کا خراب اثر ہو اور وہ بھی بگڑ جائیں۔ پھر ہم ٹیچر کو سمجھاتے ہیں کہ آپ جب اس بچے کو علم نہیں دیں گے اور یہ بچہ سکول نہیں آئے گا تو یہ اچھے اور برے کی تمیز نہیں کر پائیں گے۔‘

اس سکول میں 110 سے زائد بچے رجسٹرڈ تھے جن میں 90 سے زائد بچوں کا سکول میں داخلہ کرایا گیا ہے۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ اس بستی میں دوپہر کو جو بچے صاف ستھرے لباس میں سکول سے واپس آئے ان میں اکثریت لڑکیوں کی تھیں۔

انعم آغا کے مطابق ایسے 60 سے زائد بچے ہیں جو روزانہ سکول جا رہے ہیں اور وہ بچے جنہیں لکھنا نہیں آتا تھا اور نہ ہی پڑھنا انھوں نے پڑھنا لکھنا سیکھ لیا اور سکول میں پوزیشن بھی لے کر آئے ہیں۔

ہر ہفتے کے پانچ روز صبح آٹھ بجے سے دوپہر دو بجے تک اس مندر میں کلاسیں ہوتی ہیں جبکہ شام کو معمول کے مطابق باگڑی کمیونٹی اپنی پوجا کرتی ہے۔

پوری بستی لکڑیوں پر کپڑے کی چادریں اور پلاسٹک کی شیٹس ڈال کر بنائی گئی ہے صرف مندر کا نصف حصہ پکا بنا ہوا ہے۔

انعم آغا نے کراچی یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ماسٹر کیا ہے۔ وہ نعت خواں بھی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مذہب اسلام تعلیم کے معاملہ میں کسی کی بھی ممانعت نہیں کرتا ہے کیونکہ’تعلیم انسان کے لیے ہے مسلمان کے لیے نہیں۔‘

انیشیئٹر ہیومن ڈولپمنٹ آرگنائزیشن اس نان فارمل سکول کی دیکھ بال کرتی ہے۔ انعم آغا سمیت پوری ٹیم اس کمیونٹی کے ساتھ ہولی اور دیوالی سمیت دیگر تہوار بھی مناتی ہے۔

انعم آغا کے مطابق بعض اوقات تو میری فیملی نے بھی اسے قبول نہیں کیا اور دوستوں نے بھی کہا کہ ’یہ چیز صحیح نہیں ہے کہ تم ان ہندو بچوں کو پڑھا رہی ہو، تمہیں اس کے بجائے مسلمان بچوں پر کام کرنا چاہیے۔‘

’میں نے انہیں سمجھایا کہ جب تک ہم خود کو تبدیل نہیں کریں گے معاشرہ تبدیل نہیں ہو گا۔ ہم ان مشکلات کا روزانہ کی بنیاد پر سامنا کرتے رہتے ہیں۔‘

باگڑی کمیونٹی جیکب آباد، کشمور، لاڑکانہ، شکارپور، حیدرآباد اور ٹھٹہ سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں جہاں وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور تربوز اگانے میں انہیں ماہر سمجھا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی گھرانے اب کراچی منتقل ہو چکے ہیں جہاں خواتین، مرد اور بچے مچھلی اور سبزی فروخت کرنے کے علاوہ چوراہوں پر پھول بیچنے اور گاڑیوں پر وائپر لگانے کا کام کرتے ہیں۔

باگڑی کمیونٹی کی یہ کچی بستی جمشید ٹاؤن کی رحمان کالونی میں واقع ہے، کمیونیٹی کے مکھیا روپ چند کہتے ہیں کہ کراچی آنے سے پہلے ننگے پیر رہتے تھے تن پر صرف دھوتی ہوتی تھی، کچے کے علاقے میں تربوز کی کاشت کرتے اور مونگ پھلی بیچتے لیکن اس کے باوجود زمیندار کا قرضہ چڑھ گیا۔

’وہاں سے کراچی آ گئے اور یہاں آنے جانے لگے بعد میں یہاں کہ ہی ہو کر رہے گئے، جنگل کے لوگ ہیں تعلیم کی اہمیت سمجھنے میں وقت لگا اب جب سمجھیں ہیں تو بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔‘

یہ بستی دو بار آتشزدگی کا نشانہ بن چکی ہے، جب ایک مخیر شخص کی معاونت سے اس مندر کو پکا بنانے کی کوشش کی گئی تو بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے اور انہیں مزید کام کرنے سے روک دیا۔ اس احتجاج کی قیادت قریب میں واقع مدرسے کے مہتم کر رہے تھے۔

باگڑی کمیونٹی کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کا بدلہ لیں گے مندر بننے نہیں دیں گے۔ تاہم انہیں خوشی ہے کہ انعم آغا جیسے ان کے خیر خواہ بھی ہیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659