"نعتیہ گلدستہ سفینۂ نجات، دہلی ۔ ڈاکٹر اشفاق انجم" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: اشفاق انجمؔ ڈاکٹر اشفاق انجمؔ، مالی گاؤں ، بھارت نعتیہ گلدستہ ’’سفینۂ نجات‘‘ - دہلی ABSTRACT: Dr...)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
[[اشفاق انجمؔ ]]


ڈاکٹر اشفاق انجمؔ، مالی گاؤں ، بھارت


مقالہ نگار : [[ اشفاق انجم | ڈاکٹر اشفاق انجمؔ، مالی گاؤں ، بھارت ]]


نعتیہ گلدستہ ’’سفینۂ نجات‘‘ - دہلی
مطبوعہ : [[نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27 ]]
 
=== نعتیہ گلدستہ ’’سفینۂ نجات‘‘ - دہلی ===





نسخہ بمطابق 19:59، 12 دسمبر 2017ء


مقالہ نگار : ڈاکٹر اشفاق انجمؔ، مالی گاؤں ، بھارت

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

نعتیہ گلدستہ ’’سفینۂ نجات‘‘ - دہلی

ABSTRACT: Dr. Rifaqat Ali Shahid's article was appeared in Naat Rang 26 introducing SAFINA-E-NIJAAT a Naatia Guldasta Dehli. Dr. Ashfaq Anjum has added some valuable information about that periodical. He has clarified some ambiguities about issues of SAFINA-E-NIJAAT and confirmed names of its editors with authenticity. A Naatia poem was related to Maulana Abul Kalam Azad by Dr. Rifaqat with reference to Dr.Abu Salman Shahjahanpuri who had referred to research of Asfar Siddiqi Amrohvi. But Dr. Ashfaq Anjum has corrected the error by mentioning real name of poet i.e. Maulvi Mohiyuddin Azad instead of Syyed Mohiyuddin Abul Kalam Azad.


نعت رنگ شمارہ نمبر۲۶ ؍ میں ڈاکٹر رفاقت علی شاہد (لاہور) کا مضمون ، ’’نعتیہ گلدستہ، سفینۂ نجات ‘ دہلی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ ڈاکٹر موصوف کو سفینۂ نجات کے ایک شمارے کا عکس جامعہ پشاور کے کتب خانے سے حاصل ہوا ہے جس کا سر ورق موجود نہیں ، گلدستے کے تعلق سے رفاقت صاحب نے جہاں تک ممکن ہوسکا معلومات بہم پہنچانے کی سعی کی ہیں لیکن ذرائع و ماخذات کی عد م دستیابی کی بنا پر آپ کو خاطر خواہ معلومات بہم نہ ہوسکیں۔


ڈاکٹر رفاقت علی شاہد صاحب کے پاس سفینۂ نجات کا شمارہ نمبر ۸، جلد نمبر ۷، ماہ اگست ۱۹۰۴ء مطابق جمادی الثانی ۱۳۳۳ھ کا عکس ہے جس کی روشنی میں انہوں نے درج ذیل (اندازے) نتائج اخذ کئے ہیں،


۱) معلوم ہوا کہ گلدستہ ’’سفینۂ نجات‘‘ نے اپنی اشاعت کے چھ سال مکمل کرلئے ہیں، اب ساتویں سال میں اس کی اشاعت جاری ہے۔ یوں معلوم ہوا کہ گلدستہ ’’سفینۂ نجات ‘‘ کا آغاز( ۱۹۰۴ء۔۶)۱۸۹۸ء میں ہوا۔


یہ تو اندازہ ہوگیا کہ گلدستہ ’’سفینۂ نجات‘‘ ۱۸۹۸ء میں دہلی سے شائع ہونا شروع ہوا لیکن یہ طے ہونا مشکل ہے کہ یہ ۱۸۹۸ء میں کس مہینے سے شائع ہونا شروع ہوا۔ ص ۲۱۹


«  اس تعلق سے عرض ہے کہ ،


’’ سفینۂ نجات ‘‘ کا پہلا شمارہ ۱۲؍ ماہ ربیع الاوّ ل ۱۳۱۶ھ مطابق یکم اگست ۱۸۹۸ء کو شائع ہوا تھا۔

(پہلے شمارہ کے سرورق اور پہلے صفحہ کی فوٹو کاپی منسلک ہے۔)


۲) گلدستہ ’’ سفینۂ نجات‘‘ دہلی کے مالک و مدیر کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ملتیں۔ مذکورہ شمارہ کا سرورق موجود نہیں ہے۔ اس کا سرورق موجود ہوتا تو گلدستے کے مدیر و مالک ، مطبع ، مقامِ اشاعت اور شرائط و ضوابط کے بارے میں معلوم ہوجاتا۔ ص ۲۲۳

’’سفینۂ نجات‘‘ کے اجراء اگست ۱۸۹۸ ء سے لیکر اگست ۱۹۰۰ء تک محمد سعید خاں سعیدؔ دہلوی مدیر و مالک اور مہتمم رہے ہیں اور گلدستہ مطبع اسلامی، دہلی میں طبع ہوکر حویلی مہابت خان ، گزر بازار، چتلی قبر ، دہلی سے شائع ہوتا تھا۔ منشی سعید خاں سعید کتب خانہ مطبع اسلامی اور گلدستہ ’’سفینۂ نجات‘‘ کے مالک و مہتمم تھے۔ (فوٹو کاپی ملاحظہ ہو)


۳) گلدستہ ’’سفینۂ نجات ‘‘ کا سرورق موجود ہوتا تو گلدستے کے مدیر ، مالک، مطبع ، مقامِ اشاعت اور شرائط و ضوابط کے بارے میں معلوم ہوجاتا۔ منشی سعید خاں سعید گلدستہ ’’سفینۂ نجات ‘‘ اور مطبع اسلامی کے مالک تھے جہاں گلدستے کی طباعت ہوتی تھی ۔ گلدستے کے شرائط و ضوابط اس کے سرورق پر شائع ہوتے تھے جو حسب ذیل ہیں،


قواعد گلدستہ ’’سفینۂ نجات‘‘


۱۔ چونکہ یہ گلدستہ اسلامی ہے بہ حساب ماہ قمری شائع کیا جاتا مگرمحکمہ صاحب پوسٹ ماسٹر جنرل میں قمری مہینے کے حساب سے محصول نہیں لیا جاتا۔ اس سبب سے ہر انگریزی مہینے کی یکم تاریخ کو شائع کیا جاتا ہے۔ ۲۰؍ تاریخ تک کلام دفتر میں آجانا چاہئے ورنہ عدم اندراج کی شکایت معاف۔۔۔


۲۔ عام قیمت پیشگی ایک روپیہ سالانہ معہ محصول ڈاک ہے۔ الّا عالی ہمت اُمراء و رئوسا بنظر ہمدردی اسلامی و حصولِ ثواب جو کچھ عطا فرمائیں عین کرم ہے۔


۳۔ کلام بعد انتخاب درج ہوگا۔ بصورت گنجائش پوری غزل ۱۷؍ شعر تک درج ہوسکتی ہے۔ غیر طرحی کلام بھی بصورت گنجائش درج ہوتا ہے۔ بصورت عدم گنجائش و حسب فرمائش صاحب کلام ۱؍ اجرت دینے پر درج کیا جاسکتا ہے۔


۴۔ یہ گلدستہ بعض فخر قوم کی خدمت میں بغیر طلب بھی بھیجا جاتا ہے اگرخریداری منظور نہ ہو فوراً بذریعہ پوسٹ کارڈ مطلع فرمائیں ورنہ بصورت خاموشی نام نامی درج رجسٹر کرکے دوسرا گلدستہ بذریعہ ویلیو بھیجا جائیگا۔


۵۔ کل فرمائشات کتب و دیگر اشیاء قیمت نقد آنے پر یا بذریعہ ویلیو تعمیل ہونگی۔


۶۔ ہر قسم کی خط و کتابت و ترسیل زر بنام مشتہر حسب ذیل ہونی چاہئے،

المشتہر: محمد سعید خاں سعید ، حویلی مہابت خان، گز ر بازار ، چتلی قبر ، مالک گلدستہ سفینۂ نجات و مہتمم مطبع اسلامی۔ مطبع اسلامی دہلی میں باہتمام منشی محمد سعید خاں چھپ کر شائع ہوا۔


۴) عبدالحکیم خاں حاذق کو متعدد جگہ گلدستے کا مہتمم لکھا گیا ہے۔ موجودہ شمارے کے پشت ورق پر ایک اندراج یوں ہے، ’’محمد عبدالحکیم خاں حاذق ، مہتمم گلدستہ سفینۂ نجات، دہلی‘‘

ان اندازوں اور شواہد سے معلوم ہوا کہ گلدستہ سفینۂ نجات کے مالک و مدیر و مرتب اور مہتمم ایک ہی شخص محمد عبدالحکیم خاں حاذق تھے۔ حاذق کا جب مطبع اپنا تھا تو فطری طور پر ان کا گلدستہ بھی یہیں سے طبع ہوتا ہوگا۔ مطبع اور گلدستے کے پتے کا ایک ہونا یہ بھی واضح کرتا ہے کہ گلدستہ ’’سفینۂ نجات‘‘ کی اشاعت مطبع حقانی ، دہلی سے ہوتی تھی۔ ص ۲۲۳


سفینۂ نجات کے اجراء اگست ۱۸۹۸ء سے اگست ۱۹۰۰ء تک مالک و مدیر اور مہتمم منشی سعید خاں سعید تھے۔ ستمبر ۱۹۰۰ء سے عبدالحکیم خاں حاذق کا نام گلدستہ کے مہتمم کی حیثیت سے سامنے آتا ہے اور یہ گلدستہ حاذق صاحب کے اہتمام سے مطبع احمدی ، دہلی میں طبع ہوکر شائع ہوتا تھا۔ ڈاکٹر رفاقت علی شاہد کے مطابق ان کے پاس گلدستے کا جو شمارہ ہے وہ مطبع حقانی میں طبع ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ مطبع احمدی کا نام تبدیل ہوکر مطبع حقانی ہوگیا ہو یا پھر یہ کوئی نیا ہی پریس ہو!!


مہتمم اور مطابع کی یہ تبدیلیاں کیوں واقع ہوئیں اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا اور نہ ہی یہ معلوم ہوتا کہ منشی سعید اور عبدالحکیم نے کوئی رشتہ تھا یا پھر سعید خان صاحب نے گلدستہ اور مطبع عبدالحکیم حاذق کو فروخت کردیا تھا۔


قدیم رسائل اور گلدستوں میں موقع بہ موقع تاریخی قطعات کہنے کا رواج تھا لیکن سفینۂ نجات میں کہیں بھی ہلکا سا اشارہ تک نہیں ملتا کہ سعید خاں کا انتقال ہوگیا تھا یا پھر کوئی اور وجہ تھی جو عبدالحکیم حاذق مالک و مدیر کی حیثیت سے سامنے آئے، اس تعلق سے سفینۂ نجات شمارہ نمبر ۷ ، جلد نمبر ۳ ، اکتوبر ۱۹۰۰ء کے صفحہ نمبر ۱۶ پر درج ذیل عبارت ملتی ہے،


ضروری التماس

اکثر حضرات گلدستہ کے سابقہ پتے پر یعنی منشی محمد سعید خاں کے نام معہ اونکے پتہ کے ارسال فرماتے ہیں اور بعض اصحاب مطبع احمدی بہی لکہدیتے ہیں لہٰذا اطلاع کی جاتی ہے کہ مطبع سے گلدستہ کو کچہ تعلق نہیں ہے صرف وہاں چھپوالیا جاتا ہے۔ چاہئے کہ ہر قسم کی خط و کتابت متعلقہ گلدستہ ہٰذا سوائے پتہ ذیل کے دوسرے پتہ پر ارسال نہ فرمایا کریں۔


پتہ: عبدالحکیم خاں حاذق ۔ مہتمم سفینۂ نجات۔ دہلی۔ گزر چتلی قبر


۵) ان اندازوں اور شواہد سے معلوم ہوا کہ گلدستہ سفینۂ نجات کے مالک و مدیر و مرتب اور مہتمم ایک ہی شخص محمد عبدالحکیم خاں حاذق تھے۔ حاذق کا جب مطبع اپنا تھا تو فطری طور پر ان کا گلدستہ بھی یہیں سے طبع ہوتا ہوگا۔ مطبع اور گلدستے کے پتے کا ایک ہونا یہ بھی واضح کرتا ہے کہ گلدستہ ’’سفینۂ نجات‘‘ کی اشاعت مطبع حقانی ، دہلی سے ہوتی تھی۔ ص۲۲۳


مطبع حقانی سے سفینۂ نجات کی طباعت اور پتہ اس امر کا ثبوت نہیں ہیں کہ مطبع عبدالحکیم خاں حاذق کی ملکیت ہوگا کیونکہ اوّلین شمارے اگست ۱۸۹۸ء سے اگست ۱۹۰۰ء تک گلدستے کا مطبع اور پتہ ایک ہی تھا یعنی ’’مطبع اسلامی، حویلی مہابت خاں، گزر بازار، چتلی قبر، دہلی‘‘


اس کے بعد ستمبر ۱۹۰۰ء سے گلدستہ مطبع احمدی میں چھپنے لگا اور پتہ وہی’ چتلی قبر‘ کا تھا اس کے بعد بقول رفاقت علی صاحب گلدستہ مطبع حقانی میں طبع ہوتا تھااور غالباً پتہ بھی وہی ’چتلی قبر‘ والا ہی ہوگا۔ اس صورت میں مطبع کے مالک حاذ ق ہی ہونگے یقین سے نہیں کہاجاسکتا یا پھر یوں ہے کہ مطبع تو ایک ہی ہے اور وقتاً فوقتاً اس کا نام تبدیل ہوتا رہاہو!! یعنی مطبع کا پہلا نام ’مطبع اسلامی‘ دوسرا ’مطبع احمدی‘ اور تیسرا ’مطبع حقانی‘ ہو۔


۶) گلدستے کے موجودہ شمارے میں منشی شیخ بھیکن (حاذق) کا کلام شائع ہوا ہے لیکن ان کا صرف تخلص ہی گلدستے کے مہتمم عبدالحکیم خاں حاذق سے ملتا ہے۔ شخصیت اُن سے بالکل علیحدہ ہے دونوں کے نام میں واضح فرق ہے (محمد عبدالحکیم خاں۔ منشی بھیکن) دونوں کے توطن میں بھی فرق ہے حاذق مہتمم گلدستہ کا تعلق دہلی سے تھا جبکہ منشی شیخ بھیکن کا وطن دھرن گائوں تھا۔ ص ۲۲۴


عبدالحکیم خاں حاذق اور شیخ بھیکن حاذق کے ذکر کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی جبکہ مشتبہ امر ہے کہ عبدالحکیم خاں حاذق دہلی اور شیخ بھیکن حاذق دھرن گائوں (ریاست مہاراشٹر، بھارت کا ایک قصبہ) کے باشندے تھے اور دونوں میں کوئی علاقہ نہیں تھا۔ آج کل دھرن گائوں کے شعراء و ادباء خود کو ’’ مینا نگری‘‘ لکھتے ہیں۔


۷) مجھے اس کے محض دو شماروں کی موجودگی کی اطلاع ہے ایک تو یہی پیش نظر شمار ہ ہے ۔ ایک دوسرے شمارے کا حوالہ ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری نے دیا ہے۔ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک نعت ’’کلیات آزاد‘‘ میں شامل کی ہے جس کا ماخذ انہوں نے ’’سفینۂ نجات‘‘، بمبئی ، اپریل ۱۹۰۰ء کو لکھا ہے۔ یہ نعت انہیں افسر صدیقی امروہوی کے ذریعہ دستیاب ہوئی ، چنانچہ انہوں نے اس کے لئے ان کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ اس اندراج میں گلدستے کا نام تو درست ہے لیکن شہر کا نام درست نہیں ہے۔ اسے بمبئی کی بجائے دہلی ہونا چاہئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ غلطی افسر امروہوی صاحب مرحوم سے ہوئی ہے۔ ص ۲۲۴


ڈاکٹر ابو سلمان نے جس شمارہ کا ذکر کیا ہے یعنی اپریل ۱۹۰۰ء وہ بمبئی سے نہیں دہلی ہی سے شائع ہوا تھا جس میں بقول ڈاکٹر ابو سلمان ، افسر امروہوی نے مولانا ابو الکلام آزاد کی ایک نعت کی نشاندہی کی ہے جسے انہوں نے ’’ کلیات آزاد‘‘ میں شامل بھی کیا ہے وہ نعت کسی صورت مولانا ابو الکلام آزاد کی نہیں ہوسکتی ۔


مولانا ابو الکلام آزادکی پیدائش ۱۱ ؍ اکتوبر ۱۸۸۸ء کی ہے اس حساب سے ان کی عمر اپریل ۱۹۰۰ء میں ۱۲؍ سال سے بھی کم ہوتی ہے اس وقت نہ وہ ’’مولوی‘‘ تھے نہ ’’ آزاد‘‘ !! اور نہ ہی اس زمانے میں بمبئی میں ان کی موجودگی کا کوئی سراغ ملتا ہے جبکہ گلدستے میں مذکورہ نعت درج ذیل عنوان کے ساتھ شائع ہوئی ہے،

’’مولوی غلام محی الدین آزاد۔ حال وارد بمبئی‘‘

اور اس شمارے میں صرف ایک نہیں ان کی تین نعتیں شائع ہوئی ہیں پہلی نعت مصرعۂ مطروحہ ’’ الفت ہے دل میں شاہِ زمن کی بھری ہوئی‘‘ پر ہے جس میں کل ۱۴؍ اشعار ہیں، دوسری بقید قافیہ ’’ ہری بہری‘‘ (ہری بھری) جس کے ۱۳؍ اشعار ہیں اور تیسری نعت بقید قافیہ ’’محبت۔دولت‘‘ وغیرہ ہے جس کے ۹؍ اشعار ہیں۔ نہ جانے کیوں افسر امروہوی مرحوم نے صرف ایک ہی نعت ابو سلمان صاحب کو مہیا کی !؟


صرف نام کی مطابقت کی بنا پر افسر امروہوی اور ابو سلمان صاحبان نے بلا تحقیق مذکورہ نعت مولانا ابوالکلام آزاد سے منسوب کردی جبکہ ان تینوں نعتوں کی زبان و اسلوب اور مضامین کسی طور مولانا ابو الکلام آزاد کی زبان و اسلوب سے لگّا نہیں کھاتے۔


جہاں تک مولوی غلام محی الدین آزاد اور سیّد محی الدین (ابوالکلام ) کے ناموں میں مطابق یا مماثلت کا تعلق ہے تو آج بھی بر صغیر میں غلام محی الدین ، غلام عبدالقادر ، غلام دستگیر اور غلام غوث جیسے نام کے بہت سارے لوگ مل جائیں گے۔


علاوہ ازیں سفینۂ نجات کے کسی اور شمارے میں ’’مولوی غلام محی الدین آزاد‘‘ کی اور کوئی نعت نہیں ملتی۔ راقم الحروف کے پاس سفینۂ نجات کے پہلے شمارے اگست ۱۸۹۸ء کا یکم جنوری ۱۹۰۱ء تک کے تمام شمارے موجود ہیں لیکن سوائے ان تین نعتوں کے ان کی اور کوئی تخلیق سفینۂ نجات میں نہیں ملتیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مولوی غلام محی الدین آزاد کچھ دنوں بمبئی میں رہ کر واپس اپنے وطن (نامعلوم) لوٹ گئے ہوں!!