"نعتیہ کلیات کی روایت ۔ایک مطالعاتی جائزہ ،- ڈاکٹرشہزاد احمد" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: ڈاکٹر شہزادؔ احمد۔ کراچی ===ABSTRACT=== Dr. Shazad Ahmad has presented results of his research in the shape of article of above cited title. He has accoun...)
 
سطر 12: سطر 12:
==== نعت کی صدی ====
==== نعت کی صدی ====


اُردو کا نعتیہ ادب بلاشبہ اس عہدِ موجود کا مستند اور معتبر حوالہ ہے۔ وہ بات تو اب مسلّم ہو چکی ہے کہ درحقیقت یہ صدی نعت ہی کی صدی ہے۔ اس صدی میں نعت کا کینوس روز و شب وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے۔ نعت کی مختلف جہات میں محیرّالعقول کام سامنے آرہے ہیں۔
اُردو کا نعتیہ ادب بلاشبہ اس عہدِ موجود کا مستند اور معتبر حوالہ ہے۔ وہ بات تو اب مسلّم ہو چکی ہے کہ درحقیقت یہ صدی نعت ہی کی صدی ہے۔ اس صدی میں [[نعت]] کا کینوس روز و شب وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے۔ نعت کی مختلف جہات میں محیرّالعقول کام سامنے آرہے ہیں۔


صوتِ نعت، لحنِ نعت، ترقئ نعت، تفہیم نعت، ترویج نعت، تنقید نعت، تحقیق نعت، تعلیم نعت، صحافت نعت اور تہذیب نعت، یعنی نعت کے مذکورہ تمام شعبہ جات کی ہمہ گیر اور آفاقی قدریں روزِ روشن کی طرح نہ صرف ظاہر ہوچکی ہیں بلکہ ورفعنا لک ذکرک کی بلند اقبالی کی جانب تیزی سے گامزن بھی ہیں۔
صوتِ نعت، لحنِ نعت، ترقئ نعت، تفہیم نعت، ترویج نعت، تنقید نعت، تحقیق نعت، تعلیم نعت، صحافت نعت اور تہذیب نعت، یعنی نعت کے مذکورہ تمام شعبہ جات کی ہمہ گیر اور آفاقی قدریں روزِ روشن کی طرح نہ صرف ظاہر ہوچکی ہیں بلکہ "ورفعنا لک ذکرککی بلند اقبالی کی جانب تیزی سے گامزن بھی ہیں۔


شعری اصناف میں صرف صنفِ نعت ہی وہ مہتمم بالشان موضوع ہے جس میں آفاقیت کے وسیع جلوے دکھائی دیتے ہیں۔ اس پاکیزہ اور تقدس مآب موضوع پر صبح و مسا تحریکی، تحقیقی اور علمی انداز سے جو کام ہو رہے ہیں، وہ دنیا پر عیاں ہیں۔ یہ رفعت اور اعزاز کسی دوسری صنف سخن کو حاصل نہیں۔
[[اصناف سخن | شعری اصناف]] میں صرف صنفِ نعت ہی وہ مہتمم بالشان موضوع ہے جس میں آفاقیت کے وسیع جلوے دکھائی دیتے ہیں۔ اس پاکیزہ اور تقدس مآب موضوع پر صبح و مسا تحریکی، تحقیقی اور علمی انداز سے جو کام ہو رہے ہیں، وہ دنیا پر عیاں ہیں۔ یہ رفعت اور اعزاز کسی دوسری صنف سخن کو حاصل نہیں۔


صنف نعت کی آفاقیت اور قدامت اظہر من الشمس ہے۔ یہ دیگر موضوعات کی طرح محدود اور مخصوص فکر کی حامل نہیں۔ اس کی ہمہ گیری اور وسعت کا عالم دیدنی اور فکر و خیال سے ماورا ہے۔
صنف نعت کی آفاقیت اور قدامت اظہر من الشمس ہے۔ یہ دیگر موضوعات کی طرح محدود اور مخصوص فکر کی حامل نہیں۔ اس کی ہمہ گیری اور وسعت کا عالم دیدنی اور فکر و خیال سے ماورا ہے۔

نسخہ بمطابق 15:03، 28 مارچ 2017ء

ڈاکٹر شہزادؔ احمد۔ کراچی


ABSTRACT

Dr. Shazad Ahmad has presented results of his research in the shape of article of above cited title. He has accounted for the facts about some published poetic collections of different poets of genre of Naat. He has also tried to define the word 'Kuliyaat' (i.e. total and comprehensive collection of poetry of a poet) in order to differentiate the same from the words 'Majmoaa' and 'Deewaan' usually in vogue in the world of publication for such collections. Kuliyaat is called presumably the posthumously collected work of poetry, but Dr. Shahzad has also included work of younger and living poets for introduction as their Kuliayaat which is signified work in its nature.

نعتیہُ کلیات کی روایت

ایک مطالعاتی جائزہ

نعت کی صدی

اُردو کا نعتیہ ادب بلاشبہ اس عہدِ موجود کا مستند اور معتبر حوالہ ہے۔ وہ بات تو اب مسلّم ہو چکی ہے کہ درحقیقت یہ صدی نعت ہی کی صدی ہے۔ اس صدی میں نعت کا کینوس روز و شب وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے۔ نعت کی مختلف جہات میں محیرّالعقول کام سامنے آرہے ہیں۔

صوتِ نعت، لحنِ نعت، ترقئ نعت، تفہیم نعت، ترویج نعت، تنقید نعت، تحقیق نعت، تعلیم نعت، صحافت نعت اور تہذیب نعت، یعنی نعت کے مذکورہ تمام شعبہ جات کی ہمہ گیر اور آفاقی قدریں روزِ روشن کی طرح نہ صرف ظاہر ہوچکی ہیں بلکہ "ورفعنا لک ذکرک" کی بلند اقبالی کی جانب تیزی سے گامزن بھی ہیں۔

شعری اصناف میں صرف صنفِ نعت ہی وہ مہتمم بالشان موضوع ہے جس میں آفاقیت کے وسیع جلوے دکھائی دیتے ہیں۔ اس پاکیزہ اور تقدس مآب موضوع پر صبح و مسا تحریکی، تحقیقی اور علمی انداز سے جو کام ہو رہے ہیں، وہ دنیا پر عیاں ہیں۔ یہ رفعت اور اعزاز کسی دوسری صنف سخن کو حاصل نہیں۔

صنف نعت کی آفاقیت اور قدامت اظہر من الشمس ہے۔ یہ دیگر موضوعات کی طرح محدود اور مخصوص فکر کی حامل نہیں۔ اس کی ہمہ گیری اور وسعت کا عالم دیدنی اور فکر و خیال سے ماورا ہے۔

شاعر مکمل نہیں ادھورا ہے

ہمارے عہد کے ایک ثقہ اور قابل ذکر مرثیہ نگار سید وحیدالحسن ہاشمی مرحوم (1930ء۔2010ء) نے اپنی کلیاتِ شعری (مطبوعہ : طاہرین، لاہور، 2006ء) صفحہ 75 پر صنف نعت کی عظمت بیان کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف ببانگ دہل انداز میں کیا ہے۔

’’نعت ایک مقدس صنف سخن ہے ایک شاعر جو غزل، سلام اور مرثیہ کہتا ہے اگر اس کے شعری گنجینے میں نعتیں نہیں، تو وہ شاعر مکمل نہیں ادھورا ہے۔‘‘ کس قدر واضح، صاف اور شفاف انداز میں اس خدا لگتی اور مسلّمہ حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ میں نعتیہ ادب کی جانب سے سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی اس حق گوئی او ربے باکی کو سلامِ عقیدت پیش کرتا ہوں۔ یہ عصر حاضر کی خوش نصیبی اور سعادت مندی ہے کہ ہمارے درمیان ایسے سچے اور صاف گو حضرات موجود رہتے ہیں جن کے سبب سچ اور حق کی نہ صرف آبرو قائم رہتی ہے بلکہ سچ کا بول بھی بالا ہوتا ہے۔

مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں نعت کی وسعت اور ہمہ گیری ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ ایک شاعر وہ خواہ کچھ بھی کہہ رہا ہے، اگر وہ نعت نہیں کہتا تو وہ مکمل شاعر نہیں، بلکہ اُس کی شاعری بھی ادھوری ہی کہلائے گی جب تک کہ اُس کے شعری گنجینے میں نعتیں نہ شامل ہو جائیں۔

کلیات کیا ہے ؟

کلیات کو سمجھنے سے پہلے ان چند چیزوں کا جاننا بہت ضروری ہے۔

-1 مجموعہ (مج۔مو۔عہ) ]ع۔صف[ جمع کیا ہوا، اکٹھا کیا ہوا، مخزن، ذخیرہ، خزانہ

-2 مجموعۂ کلام (ع۔ا۔مذ) کلام کا ذخیرہ وہ کتاب جس میں کسی شاعر کی منظومات جمع کردی گئی ہوں۔

-3 دیوان (دی ۔وان) ]ف۔ا۔مذ[ (۱) دربارِشاہی، عدالت (۲) شاعر کے کلام کا مجموعہ، ردیف وار یعنی حروف تہجی کی ترتیب سے ہوگا۔

-4 کلیات (کل۔لی۔یات) عربی اسم ہے مذکر اور مونث دونوں طرح سے بولا جاسکتا ہے۔ کُلّی کی جمع ہے۔ ایک ہی شخص کی منظومات یا تصنیفات کے مجموعے کو کلیات کہہ سکتے ہیں۔ نظم اور نثر کی اس میں قید نہیں۔ دونوں طریقوں سے یہ کلیات ہی کہلائے گا۔ عموماً کلیات کا لفظ زیادہ تر منظومات کے لیے مستعمل ہے۔

مذکورہ بالا عنوانات کی ہم نے علیحدہ علیحدہ تعریفات رقم کردی ہیں تاکہ اس میں ابہام کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ آیندہ موضوعات پر کام کرنے والے ان کی الگ الگ حیثیتوں کو بھی برقرار رکھ سکیں۔ ان چاروں عنوانات کے تحت ہم نعتیہ ادب کی اہمیت کو واضح کریں گے۔

اولاً مجموعہ سے مراد ہماری مجموعہ نعت ہے۔ جس میں نعت گو شاعر کا جمع کیا ہوا یا اکٹھا کیا ہوا کلام شامل ہوتا ہے۔ ثانیاً مجموعہ کلام سے مراد نعتیہ مجموعہ کلام ہے۔ نعت گو شاعر کے کلام کا وہ ذخیرہ جس میں کسی بھی شاعر کی تمام منظومات جمع ہوں۔ ثالثاً دیوان سے مراد نعتیہ دیوان ہے جس میں کسی نعت گو شاعر نے ردیف وار یعنی حروف تہجی کی ترتیب سے نعتیں کہی ہوں۔ رابعاً کلیات سے ہماری مراد نعتیہ کلیات ہے جس میں کسی بھی نعت گو شاعر کی تمام منظومات یا تصنیفات شامل ہوں۔

متذکرہ چاروں عنوانات کی واضح وضاحت کے بعد اس تکلیف دہ امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ فی زمانہ مجموعہ کلام کو دیوان اور کلیات سے موسوم کیا جارہا ہے۔ اب مجموعہ کلام کو کچھ حضرات دیوان اور کلیات بھی لکھ رہے ہیں جس کی وجہ سے ان متفرق موضوعات کا تشخص متاثر ہو رہا ہے۔ صاحبانِ علم و فضل سے درخواست ہے کہ ان مسائل کی جانب توجہ فرمائیں تاکہ ان موضوعات کا تشخص اور اہمیت برقرار رہے۔

شاعری کی طرح کلیات کی روایت بھی قدیم ہے۔ غزل گو شعراء کی بے شمار کلیات اس کا واضح ثبوت ہیں۔ کلیات میر تقی میرؔ اور کلیات علامہ اقبال اس کی روشن مثال ہے۔ کلیات کی روایت کو ہم بظاہردو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ درحقیقت یہ الگ الگ دو موضوعات ہیں جس کی اہمیت اپنے اپنے شعبے میں مسلّم ہے۔

۱۔ عام شعری منظومات جنھیں کلیات غزل کی شکل دے دی جاتی ہے۔

۲۔ نعتیہ شعری منظومات جنھیں کلیات نعت سے مزین کیا جاتا ہے۔

ہمارا موضوع نعتیہ کلیات ہے جس کے تسلسل میں خاطرخواہ اضافہ ہو رہا ہے۔ راقم الحروف اب تک پانچ نعتیہ کلیات مرتب کر چکا ہے جس میں تین طبع شدہ ہیں اور دو ترتیب و طباعتی مراحل سے دوچار ہیں۔

اکتوبر 1998ء میں ’’مقصودِ کائنات‘‘ کے نام سے حضرت ادیب رائے پوری کے مکمل (1998ء تک) کلام پر مشتمل کلیات شائع کیا تھا۔ دسمبر 2013ء میں کلیات ریاض سہروردی کو مرتب کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ حضرت ریاض سہروردی کا تمام مطبوعہ و غیر مطبوعہ نعتیہ کلام مع مقدمہ و تعلیقات نعتیہ کلیات کی روایت میں ایک اہم اضافہ ہے۔ 2014ء میں شاہ انصار اِلٰہ آبادی مرتب ہونے کے باوجود بعد میں ازسرنو مرتب و نظر ثانی کا شرف حاصل ہوا۔ جس میں راقم الحروف کا مقدمہ مع تعلیقات کے شامل ہے۔ بعدازاں لسان الحسان مولانا ضیاء القادری بدایونی کی کلیات بھی راقم الحروف کی نگرانی میں بہت اہتمام سے مرتب ہو رہی ہے۔ جبکہ 2014ء میں ہی معروف نعت گو و نعت خواں عزیز الدین خاکی کے متفرق مجموعہائے کلام پر مشتمل ’’کلیات عزیز خاکی‘‘ بھی ترتیب دی ہے جو طباعتی مرا حل میں داخل ہے۔ اس کے علاوہ بھی چاروں جانب سے نعتیہ کلیات کی طباعتی خبریں بھی مشام جاں کو معطر کررہی ہیں۔ اب دیگر حضرات اس جانب تحریکی انداز میں پیش رفت کر رہے ہیں۔ نعتیہ کلیات کا اشاعتی سیل رواں شباب پر ہے۔انشاء اللہ وہ وقت قریب ہے کہ جب ہمارے سامنے کلیاتِ اکبر وارثی میرٹھی، کلیات بہزادؔ لکھنؤی، کلیاتِ اخترالحامدیؔ اور کلیاتِ قمرؔ انجم بھی زیورِ طباعت سے آراستہ ہوں گی۔

نعتیہ کلیات کی تحریک

راقم الحروف نے ’’کلیات ریاض سہروردی‘‘ مرتب کی اور اس کا مقدمہ مع تعلیقات لکھا۔ اس موقع پر نعت کے موضوع پر کام کرنے والے طالب علموں کو ہر دو گزارشات سے آگاہ کیا تھا۔

’’اولاً حضرت ریاضؔ سہروردی کا شمار ’’صاحب دیوان شعرا‘‘ کی صف میں ہوتا رہے۔

ثانیاً آپ ’’صاحب کلیات شعرا‘‘ کی فہرست میں بھی شامل ہو گئے ہیں۔

نعتیہ ادب میں ’’صاحب دیوان شعرا‘‘ اور ’’صاحب کلیات شعرا‘‘ پر جب بھی کام کا آغاز ہوگا حضرت ریاض سہروردی ہر دو موضوعات میں نمایاں نظر آئیں گے۔ نعت کے موضوع پر کام کرنے والے طالب علم اس موضوع پر سیرحاصل اور خاطرخواہ کام کر سکتے ہیں۔ دونوں موضوعات اپنے دامن میں نعتیہ ادب کا خزانہ سمیٹے ہوئے ہیں۔‘‘

انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب نعت کے طالب علم ’’صاحب دیوان شعرا‘‘ ا اور ’’صاحب کلیات شعرا‘‘ کے موضوع پر علیحدہ علیحدہ تحقیقی کام کا آغاز کریں گے۔ راقم الحروف کا یہ مقالہ ’’نعتیہ کلیات‘‘ بھی اسی خوبصورت نعتیہ تحریک کا حسن آغاز ہے جب کہ آیندہ یہ عاجز ’’صاحب دیوان نعت گو شعرا‘‘ کے حوالے سے بھی طالب علموں کے لیے بنیادی مہمیز فراہم کرے گا۔

’’نعتیہ کلیات‘‘ کے موضوع پر یہ کوئی قلم توڑ اور تحقیقی مقالہ نہیں بلکہ بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ اس مقالہ کے لیے لائبریریوں کی خاک بھی نہیں چھانی گئی بلکہ نعت ریسرچ سینٹر کراچی (صبیح رحمانی)، حمد و نعت ریسرچ فاؤنڈیشن کراچی (ڈاکٹر شہزادؔ احمد) اور فیض پنجتن لائبریری (محمد عمران سلطانی) میں جو بھی نعتیہ کلیات تھیں صرف اُنھیں ہی ضبط تحریر میں لایا گیا ہے۔ یہ نعتیہ کلیات کا تعارف ہے۔ اس میں شاعر کی حمد و نعت کے صرف نمونے شامل ہیں۔ یہ صاحب کلیات نعت گو شعرا کی حمد و نعت کا انتخاب بھی نہیں، اور نہ ہی یہ نعت گو شعراء کی نعتیہ شاعری پر تنقیدی مضمون ہے۔ بلکہ یہ نعتیہ کلیات کے بارے میں نعت گو شعرا کے مختصر حالات کے ساتھ ایک تحریکی مقالہ ہے جو یقیناًآیندہ اس موضوع پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا۔

اس مقالے کی تیاری میں نعت ریسرچ سینٹر کراچی کے بانی و ڈائریکٹر سیّد صبیح الدین صبیح ؔ رحمانی کی تحریک شامل ہے۔ میرے منہ سے نعتیہ کلیات کا موضوع سنتے ہی اُنھوں نے اپنا گھیرا میرے گرد تنگ کر دیا تھا۔ صبیح رحمانی کام کرنے کے فن اور کام کرانے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔صبیح رحمانی سے وعدہ کرنے والا پھر ان سے بچ نہیں سکتا۔ وہ آخر تک چلے جاتے ہیں۔ کام کرنے والا یا تو ان سے کیا ہوا وعدہ ایفا کردے گا یا پھر صبیح رحمانی اُسے آخری منزل پر پہنچا کر دم لیتے ہیں۔

نعتیہ ریسرچ سینٹر کی مرکزیت

نعتیہ کلیات والا مقالہ میری بے بسی اور صبیح رحمانی کی نعت سے وابستگی کی علامت ہے۔ اس مقالے کے دوران میں صاحب فراش تھا۔ چلنا اور سیڑھیاں چڑھنا میرے لیے کارِ دارد تھا۔ مگر صبیح رحمانی نے نعت کے طفیل نعت ریسرچ سینٹر کی تین منزلہ سیڑھیاں مجھ سے کیسے چڑھ والیں اس تکلیف کا مجھے اندازا نہیں ہوا۔ البتہ اُن کا خلوص، محبت اور نعت سے اُن کی وابستگی میری تکلیف کو کم کرتی رہی۔ اس مقالے کو تحریر کرنے کے دوران صبیح رحمانی نے جس محبت اور اخلاص کا ثبوت فراہم کیا ہے وہ نعتیہ ادب سے وابستگان کے لیے ایک روشن مثال ہے۔

صبیح رحمانی ازخود مجھے ایک ایک کلیات اور متعلقہ کتب فراہم کرتے رہے۔ میں تقریباً دو دن کی ایک نشست میں ان کے گھر رہا ہوں اُنھوں نے کسی بھی لمحے بے چینی یا بے زاری کا اظہار نہیں کیا۔ وہ لوگوں کے کام سے خوش ہونے والے اور اُن کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے والے شخص ہیں۔ اس طویل نشست جس میں دو دن اور ایک رات بھی شامل ہے۔

صبیح رحمانی کے صاحبزادگان اور صبیح رحمانی نے کھانے پینے اور میرے آرام کے حوالے سے جو تواضع کی ہے میں اُسے فراموش نہیں کر سکتا۔ اس دوران جو دیگر حضرات بھی آتے رہے میں ان کی تواضع اور خدمت کا بھی شاہد ہوں۔ ان سب کو خندہ پیشانی اور اعلیٰ میزبانی کے ساتھ نباہنا بھی قابل تعریف اور لائق تقلید ہے۔ صبیح رحمانی سے ملنے والوں میں بھانت بھانت کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اُنھیں وقت دینا، سننا اور برداشت کرنا بہت حوصلے کی بات ہے۔ محققین اور طالب علموں کی قطار در قطار صبیح رحمانی کے حوصلوں کو جوان اور روح کو شاد کرتی ہے۔ وہ کام اور کام والے سے خوش ہوتے ہیں۔

صبیح رحمانی کے اس جذبے اور ایثار کو دیکھتے ہوئے میری دلی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے حبیب پاک صاحب لولاک کی نعت کے طفیل عمر خضر عطا فرمائے۔ ان کی اہلیہ اور بچوں کو نعت کے سائے میں رکھے۔ مسائل میں آسانیاں اور وسائل میں مزید فراوانیاں نصیب کرے۔ نعت کے دیگر دعوے دار جو ایک کتاب کسی کو نہیں دیتے، صرف اپنے لیے دوسروں سے چندہ اکٹھا کرنے اور نعتیہ کتب بٹورنے کے لیے سرگرداں رہتے ہیں، اللہ رب العزت اُنھیں بھی صبیح رحمانی کی تقلید کی توفیق عطا فرمائے۔ مجھے ایسی کوئی دوسری شخصیت صرف کراچی نہیں بلکہ پورے ملک میں نظر نہیں آتی جس کے کام کا ا نداز صبیح رحمانی کی طرح ہو۔ یہ صرف زبانی نہیں بلکہ اپنے وقت اور جان و مال سے شعبہ نعت کی احسن خدمات کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔یہ اپنی فکر کو مزید وسیع کرلیں تو شعبۂ نعت میں اور بھی بہت سارے مثالی و اجتماعی کام ہو سکتے ہیں۔

نعتیہ ادب میں نعتیہ کلیات کی بہار والا یہ اوّلین مقالہ ملاحظہ کیجیے جو کتابی زمانی ترتیب کے حوالے سے مرتب ہوا ہے۔ کلیات کا جو بھی نسخہ ہمارے زیر مطالعہ ہے اُسے ہی حوالہ بناتے ہوئے شامل کیا ہے۔ طباعت اوّل اور دوم وغیرہ کی بھی وضاحت کردی گئی ہے۔ ایسی کلیات جن پر سال اشاعت درج نہیں اُنھیں آخر میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس مقالے کے توسط سے ہم دیگر نعتیہ کلیات جو اس مقالے میں شامل نہیں ہو سکی ہیں اُن کے بھی منتظر اور متمنی ہیں جسے ہم آیندہ مقالے میں بصد شکریہ کے شائع کردیں گے۔ آپ سے درخواست ہے کہ نعتیہ ادب کی اس عظیم اور اوّلین نعتیہ کلیات کی تحریک میں ہمارا ساتھ دیجیے اور دیگر شائع شدہ کلیات سے ہمیں آگاہ کیجیے۔

نعتیہ کلیات کی فہرست ایک نظر میں ملاحظہ کیجیے۔ پھر اس کے بعد نعتیہ کلیات کی تفصیلات بھی آپ کے ذوقِ طبع کے لیے حاضر ہیں۔

1۔ کلیاتِ نعت محسنؔ کاکورو، مرتب :محمد نورالحسن،1982ء

2۔کلیاتِ شائقؔ ۔میر سیّد علی شائق دہلوی، 1994

3۔تمام و ناتمام۔ ڈاکٹر عاصی کرنالی، 1994

4۔کلیاتِ راقب قصوری۔ مرتب : محمد صادق قصوری، مئی 1996ء

5۔مقصودِ کائنات (ادیب رائے پوری)۔ مرتب: شہزاد احمد، اکتوبر 1998ء

6۔کلیاتِ ظہور (حافظ محمد ظہورالحق ظہورؔ )۔ مرتب: رؤف امیر، جولائی 1999ء

7۔کلیات بیچین۔ بیچین رجپوری بدایونی، 2003ء

8۔کلیاتِ اعظم۔ محمد اعظم چشتی اشاعت خاص، 2005ء

9۔کلیاتِ حفیظ تائب۔ حفیظ تائبؔ، اپریل 2005ء

10۔کلیاتِ قادری (مولانا غلام رسول القادری)۔ ڈاکٹر فریدالدین قادری، جون 2005ء

11۔کلیاتِ عنبر شاہ وارثی۔ ترتیب : عشرت ہانی و نور محمد وارثی، مارچ2006ء

12۔حمد رب عُلا نعت خیرالوریٰ (راسخ عرفانی)۔ مرتب: ثاقب عرفانی، جون 2006ء

13۔طاہرین (سیّد وحیدالحسن ہاشمی)۔ ترتیب : ڈاکٹر سیّد شبیہہ الحسن، 2006ء

14۔سرمایہ رؤف امروہوی (انتخاب کلام)۔ مرتب : حامد امروہوی، 2007ء

15۔کلیاتِ منور (منور بدایونی)۔ مرتب : سلطان احمد، 2008ء

16۔کلیات اظہر (اظہر علی خان اظہرؔ )۔ مرتب : محمد سلیم، اپریل 2009ء

17۔کلیات نیازی۔ عبدالستار نیازی، مئی 2009ء

18۔کلیاتِ نعت۔ اعجاز رحمانی، مئی 2010ء

19۔زبورِ حرم (اقبال عظیم)۔ مرتب : شاہین اقبال، 2010ء

20۔خلد نظر (عابد سعید عابدؔ )۔ محمد سعید عابد، جولائی 2011ء

21۔نور سے نور تک (کلیاتِ حمد و نعت)۔ شاعر علی شاعرؔ ، فروری 2012ء

22۔کلیاتِ صائم چشتی (اُردو نعت)۔ تدوین : لطیف ساجد چشتی، 2012ء

23۔کلیاتِ بیدم وارثی۔ بیدمؔ شاہ وارثی، 2012ء

24۔کلیاتِ مظہرؔ (حافظ مظہرالدین مظہر)۔ ترتیب : ارسلان احمد ارسل 2013ء

25۔کلیاتِ ریاض سہروردی (حضرت ریاض الدین سہروردی)۔ مرتب: ڈاکٹر شہزاد احمد، 2013ء

26۔کلیاتِ راہی (مولانا نذر محمد راہی)۔ مرتب : ڈاکٹر محمد اویس معصومی، 2014ء

27۔کلیاتِ شاہ انصار الٰہ آبادی مرتب: خالد رضوی۔ مرتب ثانی:ڈاکٹر شہزادؔ احمد، 2014ء

28۔کلیاتِ ظہوری۔ محمد علی ظہوری، سن ندارد

29۔کلیاتِ ضیاء القادری بدایونی۔ مرتب: ڈاکٹر شہزاد احمد، (غیر مطبوعہ)

30۔کلیات عزیز خاکیؔ (عزیزالدین خاکی القادری)۔ مرتب : ڈاکٹر شہزاد احمد، (غیر مطبوعہ)

31۔کلیاتِ صبیح ؔ رحمانی۔ مرتب : ڈاکٹر شہزاد احمد، (غیر مطبوعہ)

کلیاتِ نعت محسنؔ کاکوروی مرتب: محمد نورالحسن 1982 ء

’’کلیاتِ نعت محسنؔ کاکوروی‘‘ کے مرتب محمد نورالحسن ہیں۔ اس کلیات کا پہلا فوٹو آفسیٹ ایڈیشن 1982ء میں اُترپردیش اُردو اکادمی لکھنؤ (انڈیا) نے شائع کیا ہے۔ 258 صفحات پر مشتمل اس کی مجلد فوٹو کاپی میرے سامنے ہے۔ اس کی قیمت 12/- روپے ہے۔ واضح رہے کہ ’’کلیات نعت مولوی محمد محسن‘‘ کے نام سے ۱۳۳۴ھ میں الناظر پریس واقع چوک لکھنؤ سے شائع ہوئی تھی۔ پرانے سرورق کا عکس اس کلیات میں موجود ہے۔1؂

مولوی محمد نور الحسن وکیل ہردوئی و مین پوری آپ کے صاحبزادے کا مرتب کردہ ہے۔ کتاب کے مرتب نے اپنے والد گرامی محسن کاکوروی کا مختصر مگر انتہائی جامع تعارف ’’مختصر حال‘‘ کے عنوان سے رقم کیا ہے۔ کلیات نعت محسن کاکوروی نعتیہ ادب کے لیے ایک عظیم اور یادگار سرمایہ ہے جسے صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ کم صفحات میں بہت زیادہ کلام شامل ہیں۔

حضرت محسن کاکوروی کے والد ماجد مولوی حسن بخش کے دو صاحبزادگان مولوی محمد محسن و مولوی محمد احسنؔ ، سیّد علوی تھے اور سلسلہ نسب حضرت علی المرتضیٰ دامادِ مصطفی، شیر خدا سے جا ملتا ہے۔ محسن کاکوروی ۱۲۴۲ھ مطابق 1827ء کاکوری میں پیدا ہوئے۔ والد کے انتقال کے بعد سات سال کی عمر سے جدّبزرگوار مولوی حسین بخش شہید کے زیر سایہ تربیت ہوئی۔ 2؂

شاعری کی ابتدا نو سال کی عمر سے ہوئی۔ شب کو اپنے جدّامجد کے پہلو میں سوتے تھے۔ خواب میں زیارت جمال مبارک حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشرف ہوئے۔ اس خواب کی خوشی میں سب سے پہلی نظم لکھی۔ اُستاذِ گرامی مولوی ہادی علی اشک آپ کے خالہ زاد ماموں ثقہ، متقی پرہیزگار عالم باعمل تھے۔ مطبع منشی نول کشور لکھنؤ سے وابستہ تھے۔ محسن کاکوروی نے حضرت اشک کی وفات کے بعد کسی سے اصلاح نہیں لی۔

4 اپریل 1905ء کو اسہال کبدی میں مبتلا ہوگئے تھے۔ دوشنبہ ۱۰؍صفر ۱۳۲۳ھ مطابق 24 اپریل 1905ء میں دس بجے دن کو اس عالم فانی سے ملک جاودانی کے لیے روانہ ہو گئے۔ مزار بمقام مین پوری متصل مزار مولوی حسین بخش مرحوم کے ساتھ ہے۔

محسن کاکوروی اُردو کے اوّلین عظیم شاعر ہیں جن کی شاعری کا موضوع نعت اور صرف نعت ہے۔ اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں۔

ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیری خالی

نہ مرا شعر، نہ قطعہ، نہ قصیدہ نہ غزل

آپ کا کلام مختلف امتحانات کے نصاب میں شامل ہے۔ آپ کو ’’حسانِ وقت‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ محسن کاکوروی نعتیہ ادب کا اوّلین ستون ہیں۔ آپ کے تعارف کے بغیر اُردو نعتیہ ادب کی تاریخ نامکمل رہے گی۔

اس کلیات نعت کا آغاز ’’گلدستہ کلامِ رحمت‘‘ سے ہوا ہے۔ یہ قصید�ۂ نعتیہ 16 سال کی عمر میں لکھا تھا۔ قصیدہ کا پہلا شعر ہے ۔

پھر بہار آئی کہ ہونے لگے صحرا گلشن

غنچہ ہے نامِ خدا نافۂ آہوئے ختن 3؂

اس نعتیہ قصیدہ کے بعد ’’سراپائے رسول اکرم‘‘صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا بند ملاحظہ کیجیے۔

للہ الحمد شب غم نے اُٹھایا بستر

مرحبا طالع بیدار مبارک ہو سحر

مژدہ اے دل کہ ہوا نور خدا پیش نظر

بارک اللہ طبیعت کا ہے رنگ دیگر

گر نہ ہو پاس ادب تو مجھے کچھ دعوا ہے

سجدہ کرتے ہیں ملائک مرا وہ رُتبہ ہے 4؂

ضروری نوٹس

(وفیات نگاری کی ایک عمدہ مثال ڈاکٹر محمد سہیل شفیق کا مرتب کردہ ’’وفیات معارف‘‘ (مطبوعہ: قرطاس پبلشرز، گلشن ا قبال کراچی، 2013ء) ہے اس سے قبل آپ ماہنامہ معارف کا نوّے سالہ اشاریہ، اشاریۂ نعت رنگ کراچی، اشاریۂ جہانِ حمد کراچی اور نعت نامے (بنام صبیح رحمانی) بھی مرتب کر چکے ہیں۔ جب کہ ’’جامعہ نظامیہ بغداد کا علمی و فکری کردار‘‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ-ڈی لکھ کر ’’ڈاکٹریٹ‘‘ کی سند سے سرفراز ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر سہیل شفیق ایک نوجوان محقق اور شعبۂ اسلامی تاریخ جامعہ کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے منصب پر فائز ہیں۔ حاشیہ نگاری، اشاریہ سازی، خطوط نگاری اور جمع و ترتیب کے ماہر ہیں۔ نظم ترتیب، نفاست کا حسن اور طباعت کا سلیقہ آپ کے متفرق کاموں سے عیاں ہے۔ ’وفیاتِ معارف‘ ارباب علم و فضل کے انتقال پر ماہنامہ معارف اعظم گڑھ (انڈیا) میں شائع ہونے والی تحریروں جولائی 1916ء تا دسمبر 2012ء کا مثالی انسائیکلوپیڈیا ہے جس کی اہمیت ہر دور میں مسلّم رہے گی ڈاکٹر سہیل شفیق کے وفیاتِ معارف میں۔

سیّد سلیمان ندوی نے ’معارف‘ اعظم گڑھ (انڈیا) اکتوبر 1936ء کی اشاعت میں محسنؔ کاکوروی کے فرزند نورالحسن نیرکے علم و فضل کا ذکر کیا ہے۔ ص103۔ اس اداریہ میں تاریخ وفات کے علاوہ دیگر معلومات موجود ہیں۔ اکتوبر 1936ء ’معارف‘ کا سالِ اشاعت ہے۔ مولوی نورالحسن نیّر کی تاریخ وفات نہیں۔ اسے وفات کی خبر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

(تذکرہ نگاری کی ایک خوبصورت دستاویز حکیم نثار احمد علوی کی تصنیف ’سخنوران کاکوری‘ (مطبوعہ: میخانۂ ادب، ناظم آباد کراچی ؟ء) ہے۔ اس قابل قدر تذکرے میں شعرائے کاکوری کا احوال تفصیلاً درج ہے۔ صاحب تذکرہ نے علامہ حاجی مولوی نورالحسن نیر علوی کا سال پیدائش ۱۲۸۲ھ/1865ء۔ ص412 اور سالِ وفات 6ستمبر1936ء/۱۳۵۵ھ درج کیا ہے۔ آپ کی آخری آرام گاہ جھنجھری روضہ کاکوری انڈیا ہے۔ص414

محسن کاکوروی کے اس فرزندِارجمند نورالحسن نیر کے دو عظیم اور تاریخی کارنامے ’کلیاتِ نعت محسن کاکوروی‘ اور ’نورِاللّغات‘ ہیں جنھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ نور اللّغات پہلی بار 1924ء میں لکھنؤ سے شائع ہوئی اور دوسری بار 1960ء میں کراچی سے شائع ہوتے ہی فروخت ہو گئی۔ یہ لغت چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ ص 414)

کلیاتِ شائقؔ میر سیّد علی شائق دہلوی 1994ء

’’کلیاتِ شائقؔ ‘‘ میر سیّد علی شائق دہلوی مرحوم و مغفور کے کلام پر مشتمل ہے۔ کلیات شائق کی اشاعت ثانی ۱۴۱۴ھ مطابق 1994ء میں ہوئی۔ اس کے ناشر سیّد پبلی کیشنز 206 لائرز چیمبر ایم اے جناح روڈ کراچی ہیں۔ بڑے سائز کے 686 صفحات پر مشتمل یہ کلیات مجلد شائع ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ کلیات شائق کی اشاعت اوّل ۱۴۰۱ھ مطابق 1981ء میں ہو چکی تھی۔ 5؂

کلیات شائق میں گلگشت بہشت (نعتیہ کلام) گلزارِ مغفرت (مراثی و سلام)، دیوانِ بستان سخن (غزلیات)، مثنویات، مثنوی فضل باری، مثنوی اظہار قدرت، مثنوی عشق درویش، مثنوی شجر عشق، مثنویُ گروچیلا، مثنوی شعلہ عشق، مثنوی چرتر عجیب، مثنوی چرترجوہر خرد، معلّم العقل، باغِ انقلابِ زمانہ شامل ہیں۔6؂

کلیاتِ شائق انتخاب از ذخیرہ میر سیّد علی شائق دہلوی (مرحوم) پر مشتمل ہے۔ جسے اُن کے پوتے سیّد انور علی ایڈووکیٹ (سپریم کورٹ آف پاکستان) نے نہایت سلیقے سے یک جا کر کے کلیات شائق کے نام سے شائع کیا ہے۔ جس میں اُن کے نعتیہ، منقبتیہ اور غزلیہ مجموعے شامل ہیں۔

اس کلیات پر لکھنے والوں میں ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر وفاراشدی، ڈاکٹر عبدالصمد انصاری، پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، پروفیسر شیخ فقیر محمد عظیمی، ثناء الحق صدیقی (علیگ)، احمد اللہ فاروقی، فارق ایڈووکیٹ، عابدؔ نظامی، ماہنامہ الانسان کراچی، راجارشید محمود، سید انور علی ایڈووکیٹ کے نام شامل ہیں۔

میر سیّد علی شائق دہلوی انقلاب 1857ء سے قبل 1840ء دہلی (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ 19 نومبر 1920ء کو نصیرآباد ضلع اجمیر شریف (بعمر 80 سال) میں وفات پائی۔ 7؂ وہیں اہل سنت و جماعت کی عیدگاہ سے ملحقہ قبرستان میں اپنے بڑے بھائی میر محمد نقی مرحوم کے برابر مدفون ہیں۔

شائقؔ دہلوی ایک قادرالکلام، پختہ کہنے والے ممتاز زودگو شاعر تھے۔ زبان و بیان پر بھرپور قدرت رکھتے تھے، روانی و سلاست اُن کے کلام کا خاصہ تھی۔ یہی خصوصیات انھیں اپنے معاصر شعرا سے ممتاز رکھتی ہیں۔

کلیاتِ شائق کا حسنِ آغاز ’’حمد‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔

اُٹھا کے آنکھ کو میں نے جہاں جدھر دیکھا

تو جلوہ تیرا ہی رب العُلا اُدھر دیکھا

گدا کو شاہ کرے شاہ کو گدا شائق ؔ

یہ اُس کے قبضۂ قدرت میں سربسر دیکھا 8؂

کلیات شائق میں حمد کے بعد نعتیں شروع ہیں۔

جلوہ دکھلایئے اے شافع محشر اپنا

حال فرقت میں ہوا جاتا ہے ابتر اپنا

کفش بردارِ نبی میں ہوں اے شائق مشہور

رُتبہ شاہوں سے بھی ہے افضل و برتر اپنا 9؂

ضروری نوٹس

(راجا رشید محمود نے ماہنامہ ’نعت‘ لاہور کا شمارہ 9،ستمبر 1989ء ’اُردو کے صاحب کتاب نعت گو‘ (حصہ سوم) سے موسوم کیا ہے۔ راجا رشید محمود نے شائق دہلوی کے بارے میں مختصر معلومات دی ہیں۔ جب کہ دیگر تذکرہ نگار شائق دہلوی کے سلسلے میں خاموش ہیں۔

اُردو کے صاحب کتاب نعت گو (حصہ سوم) میں راجا رشید محمود ’گلگشت بہشت‘ کے حوالے سے رقم طراز ہیں۔ ’’میر سیّد علی کلیاتِ شائق (مرتبہ سید انور علی انور) سید پبلی کیشنز، کراچی 1982ء (گلگشتِ بہشت پہلی بار 1964ء میں چھپا۔ پھر اسے کلیاتِ شائق میں بھی شامل کردیا گیا، صفحات72)۔ اس دیوان میں 3حمدیں، 72نعتیں، 4مخمس، 7مسدس، ایک ترجیع بند، ایک مناجات اور 2مناقب ہیں۔ آخر میں ایک قطعۂ تاریخ اختتام بھی ہے۔ 1910ء میں میراعظم علی خاں

شائق حیدرآبادی کا مجموعہ نعت و منقبت’’کلیاتِ شائق‘‘ کے نام سے چھپا۔ ص12)

تمام و نا تمام ڈاکٹر عاصیؔ کرنالی 1994ء

’’تمام ونا تمام‘‘ ڈاکٹر عاصی کرنالی کا شعری سرمایہ تا 1994ء پر مشتمل ہے۔ عاصی کرنالی نے اس کتاب کو اپنے گھر 45، شالیمار کالونی، بوسن روڈ ملتان سے شائع کیا ہے۔ بڑے سائز کے 678 صفحات پر مشتمل ہے۔ تمام وناتمام یعنی کلیات شعری کی قیمت 360/- روپے ہے۔ مجلد شائع ہونے والی اس کتاب کو اہتمام سے شائع کیا گیا ہے۔ 10؂

کلیات شعری تمام وناتمام میں آٹھ مجموعے شامل ہیں۔رگِ جاں، جشن خزاں، چمن اور میں محبت ہوں غزل کے مجموعے ہیں۔ جبکہ چار ہی مجموعہ ہائے کلام نعتیہ مدحت، نعتوں کے گلاب، جاوداں اور حرف شیریں شامل ہیں۔ 11؂

اس کے علاوہ ایک کتاب علیحدہ سے ’’آوازِ دل‘‘ کے نام سے 2006ء میں شائع ہو چکی ہے جس میں تمام و ناتمام کے بعد کی نعتیں شامل ہیں۔ تمام و ناتمام کے لکھنے والوں میں سیّد قمر زیدی، عبدالمجید سالک، ماہرؔ القادری، عاصی کرنالی، ڈاکٹر اسد اریب شامل ہیں۔

شیخ وزیر محمد کے فرزند عاصیؔ کرنالی کا پیدائشی نام شریف احمد ہے۔ 2 جنوری 1927ء کو کرنال مشرقی پنجاب، بھارت میں پیدا ہوئے۔ ایم اے اُردو، ایم ا ے فارسی تھے۔ ذریعہ معاش درس و تدریس تھا۔ گورنمنٹ ملت کالج ملتان کے پرنسپل رہے۔

مسرت کی بات یہ ہے کہ �آپ نے ’’اُردو حمد و نعت پر فارسی روایت کا اثر‘‘ کے موضوع پر اعلیٰ تحقیق پیش کرکے (پی ایچ۔ڈی) کی سند حاصل کی۔ مستقل قیام ملتان میں تھا۔

عاصیؔ کرنالی 20جنوری 2011ء کو ملتان میں انتقال کر چکے ہیں۔ 12؂

ڈاکٹر عاصیؔ کرنالی ایک قادرالکلام اور زودگو شاعر تھے۔ ابتدا میں آپ کا شمار غزل گو شعرا میں ہوتا تھا بعدازاں پھر لالہ زارِ نعت میں بھی آپ کی نعتوں کی گونج سنائی دینے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی نعتوں کے مجموعوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ’’اُردو حمد ونعت پر فارسی روایت کا اثر‘‘ مقالہ برائے پی ایچ۔ڈی بھی نعت سے اسی قوی تعلق کی روشن دلیل ہے۔

عاصیؔ کرنالی زبان و بیان پر قدرت رکھتے تھے آپ کی نعتیہ شاعری نعتیہ ادب میں ایک موثر حوالہ ہے۔ آپ کی کہی یہ حمد باری تعالیٰ تو بہت معروف ہے۔

نقش ترا فزوں فزوں، نام ترا رواں رواں

مدح تری سخن سخن، وصف ترا بیاں بیاں

کام مرا خطا خطا، شان تری عطا عطا

میرے خدا کرم کرم، میرے کریم اماں اماں 13؂

اس نعت کے رنگ و آہنگ کو ملاحظہ کیجیے۔

ہے ہر زباں پہ ورد محمد کے نام کا

گلشن مہک رہا ہے درود و سلام کا

سیرت کو پڑھ رہا ہوں خدا کے رسول کی

مفہوم جاننا ہے خدا کے کلام کا

عاصیؔ ! کھلے ہیں قلب میں عشق نبی کے پھول

اس باغ میں عمل ہے بہارِ دوام کا14؂

کلیاتِ راقبؔ قصو ری مرتب محمد صادق قصوری مئی 1996ء

’’کلیات راقبؔ قصوری‘‘ منشی امام الدین المعروف راقبؔ قصوری کے مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ہے۔ اس کے مرتب معروف تذکرہ نگار و ادیب محمد صادق قصوری ہیں۔ عمیر پبلشرز میاں مارکیٹ اُردو بازار لاہور اس کے ناشر ہیں۔ مئی 1996ء میں شائع ہونے والی یہ کلیات 160 صفحات پر مجلد شائع ہوئی ہے۔ 15 ؂ اس کی قیمت 90/- روپے ہے۔ یہ کتاب بغرض تبصرہ (راقم الحروف) کے ماہنامہ حمد و نعت کراچی کے لیے محمد صادق قصوری نے 14 جون 1996ء بروز جمعۃ المبارک کو بھیجی تھی۔

’’کلیاتِ راقبؔ قصوری‘‘ حقیقتاً کلیات نعت کی تعریف پر پوری اُترتی ہے۔ اس میں راقبؔ قصوری کا اُردو و پنجابی نعتیہ کلام اور متفرق کلام شامل ہے۔ اس کتاب پر صادق قصوری کا معلوماتی اور حقیقت کشا مقدمہ ’’سخن اوّلیں‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ جس میں مرتب موصوف نے تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔ عموماً تحقیق نگار اتنی محنت نہیں کرتے۔ صادق قصوری نے کُل کے ساتھ جزیات کا بھی ذکر کیا ہے۔

صادق قصوری نے راقبؔ قصوری کے درج ذیل نعتیہ مجموعہ ہائے کلام کا ذکر کیا ہے۔ 16 ؂ تحفہ راقب حصہ اوّل الموسوم خلعت نوری، رسول اللہ دی مہجوری، روضے مبارک دی چوری، مولا دی منظوری، مدینے پاک دی کستوری، نبی کریم دی دوری، حضرت دی حضوری، جب کہ پروفیسر ڈاکٹر شہباز ملک صدر شعبہ پنجابی اورینٹل کالج لاہور کی تحقیق کے مطابق جمالِ محبوب، نعتیات راقب، نعتاں، راقب دیاں نعتاں بھی طبع ہو چکی ہیں۔ 17؂

راقبؔ قصوری کا خاندانی نام امام الدین تھا۔ اپریل 1883ء میں بابا بلّھے شاہ کی نگری قصور میں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت پردۂ خفا میں ہے۔ البتہ یہ بات مسلّم ہے کہ انھیں بچپن سے ہی شاعری کا شوق دامن گیر تھا۔ چنانچہ اُردو شاعری اور زبان سیکھنے کے لیے دہلی اور آگرہ گئے۔ پہلے تلمیذ داغ ارشد نسیم بھرت پوری اور بعدازاں اُستاد داغ دہلوی سے بھی اصلاح لیتے رہے۔

راقبؔ قصوری سنوسئی ہند حضرت پیر سیّد حافظ جماعت علی شاہ محدث علی پوری کے دست حق پرست پر بیعت تھے۔ راقبؔ قصوری کی وفات 29 ربیع الاوّل شریف ۱۳۵۵ھ مطابق جون 1936ء بروز جمعۃ المبارک فیروزپور (انڈیا) میں ہوئی اور وہیں آخری آرام گاہ بھی ہے۔

آپ کا شمار مستند اور قادرالکلام شعرا میں ہوتا ہے۔ پنجابی نعتیہ شاعری کی طرح اُردو نعت میں بھی راقب کا پلّہ بہت بھاری ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔ راقبؔ کی حمدیہ تب و تاب دیکھیے۔

فقر و فاقہ میں بھی عاشق ہوں خدا کے نور کا

باندھنے کو پیٹ پر پتھر ہو کوہِ طور کا18؂

نعتیہ اشعار

ثنا خواں سب زمانہ ہے ثنا خوانِ محمد کا

بشر تو کیا خدا خواہاں ہے خواہانِ محمد کا19 ؂

اُردو نعتیہ کلام کے آخر میں یہ نعت درج ہے :

یہی ہے آرزو اپنی کوئی ایسا بہانہ ہو

فقط میں ہوں مرا سر ہو نبی کا آستانہ ہو 20؂

مقصودِ کائنات (ادیب رائے پوری مرتب : شہزاد احمد اکتوبر 1998ء

’’مقصودِ کائنات‘‘ سیّد حسین علی ادیب رائے پوری کا بظاہر مجموعہ نعت ہے مگر اندرونی سرورق پر حضرت ادیب رائے پوری کے مکمل نعتیہ کلام پر مشتمل کی سرخی موجود ہے۔ اس کی ترتیب و تدوین کا شرف راقم الحروف (شہزادؔ احمد) کو حاصل ہے۔ الحمدللہ! یہی اب کلیات ہے۔ اکتوبر 1998ء میں مدحت پبلشرز کراچی، اے 837بلاک ایچ، شمالی ناظم آباد کراچی نے اس کی طباعت کا اہتمام کیا تھا۔ 400 صفحات پر محیط اس کتاب کا ہدیہ درج نہیں۔ 21؂

’’مقصودِ کائنات‘‘ میں ’’اُس قدم کے نشاں‘‘ تصویر کمالِ محبت اور بعد میں کہا جانے والا تمام کلامِ نعتیہ شامل ہے۔ ادیب رائے پوری نے زمانی یعنی کتابی اعتبار سے مقصودِ کائنات کی ترتیب کی اجازت نہیں دی لہٰذا تمام کلام کو مختلف عنوانات کے تحت یکجا کر دیا گیا ہے۔ارمغانِ ادیب کے نام سے راقم نے مارچ 2002ء میں ادیب رائے پوری کی مشہور و معروف نعتوں کا انتخاب ارمغانِ ادیبؔ بھی شائع کیا تھا جس میں 2002ء تک کا سب کلام شامل ہے۔ اسے قطب مدینہ پبلشرز کراچی نے شائع کیا تھا۔

اس کلیات پر لکھنے والوں میں ادیب رائے پوری، راقم الحروف (شہزاد احمد)، تابش دہلوی، حنیف اسعدی، ڈاکٹر ریاض مجید، ڈاکٹر کلیم صدیقی، حضرت صبغۃ اللہ المجددی، محمد عبدالرحمن صدیقی، عمران این حسین، زینل اے خان، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی، ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی، ڈاکٹر انعام الحق کوثر، ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی، سحرانصاری، ڈاکٹر خورشید خاور امروہوی، سید نسیم احمد، ایس ایم رفیق، ڈاکٹر ہلال جعفری، مولانا محمد ابراہیم خوشتر صدیقی اور طارق سلطان پوری کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

ادیب رائے پوری کا پیدائشی نام سیّد حسین علی ہے۔ ادیبؔ تخلص اور رائے پوری علاقائی نسبت ہے۔ 1928ء میں رائے پور (سی۔پی) مدھیہ پردیش (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔

ادیبؔ رائے پوری ایم اے (اُردو) تھے۔ عرصہ دراز سے شعر و ا دب کی خدمت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ فداؔ خالدی دہلوی سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔ آپ کو سلسلہ عالیہ سہروردیہ کے ایک معروف بزرگ حضرت قبلہ محمد آفاق سہروردی قادری سے بیعت کا شرف حاصل تھا۔

آپ کا انتقال 16 اکتوبر 2004ء یعنی یکم رمضان المبارک کو ہوا۔ میوہ شاہ قبرستان کراچی میں مدفون ہیں۔22؂ ادیبؔ رائے پوری اس عہد کے عظیم شاعر تھے۔ آپ نے نعت گوئی، نعت فہمی اور نعت خوانی کے شعبے میں لازوال خدمات انجام دیں۔ قابل ذکر کارناموں میں سب سے پہلا ماہنامہ ’’نوائے نعت‘‘ کراچی، پاکستان نعت اکیڈمی کا قیام، سلور جوبلی ایوارڈ اور عالمی نعت کانفرنسز شامل ہیں۔

آپ کی نعتیں زبانِ زد خلائق اور آپ کی نعتوں کی گونج ملک کے طول و عرض میں آج بھی سنائی دیتی ہے۔ آپ کی نعتیں مقبولِ عام اور شہرت دوام کے مقام پر فائز ہیں۔

مقصودِ کائنات کا حسن آغاز حمد و مناجات سے ہوا ہے۔ حمد کا شعر ملاحظہ کیجیے۔

تیرے ذکر سے مری آبرو تیری شان جلَّ جلالہٗ

تو میرے کلام کا رنگ و بو تیری شان جلَّ جلالہٗ 23؂

اس کے بعد پھر ادیب رائے پوری نے نعتیں کہی ہیں۔

ثنائے احمد مرسل میں جو سخن لکھوں

اسی کو ندرت فکر و کمال فن لکھوں24؂

کلیاتِ ظہور (حافظ محمد ظہور الحق ظہورؔ ) مرتب: رؤف امیر جولائی 1999ء

’’کلیاتِ ظہور‘‘ حافظ محمد ظہور الحق ظہورؔ کے متفرق مجموعہ ہائے کلام پر محیط ہے۔ اس کے مرتب رؤف امیر ہیں۔ معاذ پبلی کیشنز مکان 910، گلی 107، جی 4/9، اسلام آباد نے اس کی طباعت کا اہتمام کیا ہے۔ 508 صفحات پر مشتمل یہ کتاب جولائی 1999ء میں 300/- روپے قیمت کے ساتھ طبع ہوئی ہے۔ 25؂

کلیات ظہورؔ چھ شعری مجموعوں پر مشتمل ہے۔ ان میں چار مجموعے اُردو اور دو فارسی میں ہیں۔ اُردو مجموعہ ’’زمزمہ حق‘‘ اور فارسی مجموعے حرف محبت اور نقش خیال الگ بھی شائع ہو چکے ہیں۔ زمزمۂ حق کے حصہ اوّل (لا اِلٰہ اِلا اللّٰہ) میں حمد و مناجات شامل ہیں۔ حصہ دوم (محمد رسول اللّٰہ) ثنائے رسول سے مزین ہے۔ حصہ سوم (اصحابی کالنجوم) یعنی مدح صحابہ و مناقب امامِ عالی مقام سے روشن ہے۔ حصہ چہارم (ان الدین عنداللّٰہ الاسلام) اور حصہ پنجم ارض پاک سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ شخصیات، غزلیات، متفرقات، حرف محبت اور نقش خیال (فارسی) بھی اس کلیات کا حصہ ہے۔ 26؂

کلیاتِ ظہور پر لکھنے والے پروفیسر رؤف امیر، ڈاکٹر ظہیر فتح پوری، عبداللہ مظاہری، دکتر سیّد علی رضا نقوی، محمد حسین تسبیحی، حافظ محمد ظہور الحق ظہورؔ ، دکتر محمد جعفر محجوب، رایزن فرہنگی، دکتر علیقلی محمودی بختیاری، محمد اظہارالحق اور افتخار عارف ہیں۔

پیدائشی نام محمد ظہورالحق اور تخلص ظہورؔ ہے۔ 14 اپریل 1923ء مطابق ۱۵؍شعبان ۱۳۴۱ھ کو ضلع کیمبل پور (پنجاب) کی تحصیل فتح جنگ کے گاؤں جھنڈیال میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولانا غلام محمد مرحوم ایک صاحب علم و فضل ہستی کے مالک تھے۔ آپ کا تعلق شعبہ درس و تدریس سے ہے۔ جدید فارسی لکھنے پڑھنے اور بولنے والوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ خانہ فرہنگ ایران سے فارسی ادب کے کئی امتحانات میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔ اس سلسلے میں دو مرتبہ ایران کی سیاحی بھی کر چکے ہیں۔ 27؂

کلیات ظہور کی اشاعت جولائی 1999 میں ہوئی۔ اُس وقت آپ الحمدللہ! بقید حیات تھے۔ اللہ آپ کو تادیر سلامت باکرامت رکھے۔ آپ کے پسندیدہ موضوعات میں قرآن و حدیث، حمد و نعت، صحابہ و دین اور وطن و اسلاف شامل ہیں۔

حافظ صاحب اُردو کے خوش گوار اور خوش فکر شاعر ہیں۔ آپ فارسی میں بھی شعر کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام میں اُستادانہ مہارت کے ساتھ ساتھ وقار اور متانت کا عنصر بھی شامل ہے۔ آپ کی حمدیہ، نعتیہ و منقبتیہ شاعری بھی لائق تحسین ہے۔ جب کہ ملّی شاعری سے آپ کو خصوصی رغبت ہے۔ محمد ظہور الحق ظہورؔ کی کلیات ظہور کا حسنِ آغاز حمد و مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات سے ہوتا ہے۔

سزاوارِ عبادت لائقِ حمد و ثنا تو ہے

نگہبانِ زمین و آسماں رب العُلا تو ہے 28؂

اس کلیات کی پہلی نعت کا رنگ و آہنگ ملاحظہ کیجیے۔

محمد کا ہمسر جہاں میں نہیں ہے

زمیں میں نہیں آسماں میں نہیں ہے

ادا کس سے ہو ان کی تعریف کا حق

یہ وسعت کسی کے بیاں میں نہیں ہے29؂

کلیاتِ بیچین بیچینؔ رجپوری بدایونی 2003ء

’’کلیاتِ بیچین‘‘ بیچینؔ رجپوری بدایونی کے متعدد مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ہے۔ 2003 ء میں اسے نعتیہ لائبریری، مکتبہ بیچین 1-27 ، وحدت کالونی، وحدت روڈ لاہور نے شائع کیا ہے۔ کلیات بیچین جلد اوّل کی قیمت 150/- روپے ہے (تینوں جلدوں کے صفحات 1292 ہیں) 30؂

’’کلیات بیچین‘‘ چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ جلد اوّل میں بیچین رجپوری کے پانچ مجموعہ ہائے نعتیہ ، جلد دوم میں پانچ مجموعہ ہائے نعتیہ اور جلد سوم میں چار مجموعہ ہائے کلام نعتیہ شامل ہیں۔ جلد اوّل میں تجلائے حرم، اضواء رحمت رحمان، لمعات مُرتاضِ حریٰ، تاجدارِ مرسلاں، شمع حرم۔ جلد دوم میں ضوبارِ حرم، فخر رُسل، شہ اُمم آقا حضور، حبیب ذی المنن، فیضان محسن اعظم، اضاعتِ سرورِ کونین۔ جلد سوم سدا دُالاعمال، موسومہ مناظر قدرت، تابستان (غزلیات)، آپ کی شخصیت پر تبصرے شامل ہیں۔ جلد چہارم تشنہ طبع ہے جب کہ اس کلیات میں نیّر حرم شامل نہیں۔ 31؂ نیر حرم سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے 1988ء میں شائع کیا تھا۔

کلیات بیچین پر لکھنے والوں میں شفیق مرزا، ڈاکٹر تبسم رضوانی، اور حکیم حافظ محمد یوسف کے نام شامل ہیں۔

بیچینؔ رجپوری کا پیدائشی نام سیّد محمد حسین، بیچینؔ تخلص اور رجپوری علاقائی نسبت ہے۔ جولائی 1911ء میں رجپورہ ضلع بدایوں (انڈیا) میں ایک کاشتکار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ جہاں گیرآباد اور نواب مصطفی خاں شیفتہ سے کون واقف نہیں۔ اسی جہانگیرآباد ضلع بلند شہر سے بے چین رجپوری کا تعلق ہے۔ غزل سے ان کی شاعری کا آغاز ہوا۔

بیچین رجپوری، سعدی شیرازی، حافظ شیرازی، مولانا جامی، انوری اور حسان بن ثابت جیسے بزرگوں کو اپنا روحانی اُستاد تسلیم کرتے ہیں۔ عربی، فارسی اور ہندی زبان میں بھی شعر کہتے ہیں۔ بیچین صاحب نظم، غزل، قطعہ، رباعی، گیت میں کامل دسترس رکھتے ہیں، مگر نعت کے میدان میں بہت آگے ہیں۔ 32؂

قیام پاکستان کے بعد بیچین صاحب جہانگیرآباد سے اپنے برخوردار کے ساتھ 1954ء میں لاہور آگئے۔ پہلے دوموریا پل کے پاس فضل گنج اور پھر نولکھا پارک فیض آباد میں رہائش رہی۔ یہ نعتیں صرف ان کے پچاس سال کی محنت کی ایک جھلک ہیں۔ روزنامہ جنگ لاہور 25 مئی 2001ء کے مطابق گزشتہ دن 92 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔

کلیاتِ بیچین کی جلد اوّل میں تجلائے حرم کے نام سے کلامِ نعتیہ میں یہ رباعی موجود ہے۔

کیا مدح تمہاری ہو خدا کے محبوب!

تخلیق خلائق ہے تمہیں سے منسوب!

مختار دو عالم کے ہو تم ظلِ الٰہ!

پس خوبیاں ہم سے ہوں بھلا کیا محسوب! 33؂

ضروری نوٹس

ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی کے مرتب کردہ اوج نعت نمبر جلد اوّل میں ’’نعت گو شعرا سے قلمی مذاکرہ ‘‘ کا آغاز بیچینؔ رجپوری (ص 404) کے نام سے ہوا ہے۔ جب کہ راجا رشید محمود نے ماہنامہ نعت لاہور کا شمارہ 90 جلد 7 ستمبر 1994ء ’’بے چینؔ رجپوری کی نعت‘‘ سے موسوم کیا ہے۔

کلیاتِ اعظم محمد اعظمؔ چشتی اشاعت خاص 2005ء

’’کلیاتِ اعظم‘‘ محمد اعظم چشتی پہلے اکتوبر 2000ء میں پھر اس کی اشاعت خاص 2005ء میں بھی ہوئی۔ اس کی دونوں اشاعتیں خزینۂ علم و ادب الکریم مارکیٹ اُردو بازار لاہور نے شائع کیں۔ 672 صفحات پر محیط اس کلیات اعظم کی قیمت 250/- روپے ہے۔ 34؂

کلیاتِ اعظم کی ترتیب میں غذائے روح، رنگ و بو، نیر اعظم، اُنیندرے اور معراج یعنی پانچ مجموعہ ہائے کلام شامل ہیں۔ ان کے ا نتقال کے بعد چھپنے والا مجموعہ معراج بھی اس میں شامل ہے۔

محمد اعظم پیدائشی نام، اعظم تخلص اور اعظم چشتی پہچان رہی۔ اعظم چشتی 15 مارچ 1921ء کو ضلع فیصل آباد کے ا یک گاؤں بُرج چک نمبر102 میں پیدا ہوئے۔35؂ آپ کے والد گرامی محمد دین چشتی درویش منش صوفی، عالم اور طبیب حاذق تھے۔

1937ء میں لاہور آئے۔ تو نعت خوانی کے لیے حکیم فضل الٰہی کے تلامذہ میں شامل ہو گئے۔ ابوالحسنات مولانا سیّد محمد احمد قادری کے آگے زانوئے تلمذ تہ کیے اور درسِ نظامی اور طبِ اسلامی میں مہارت حاصل کی۔ علم موسیقی سے آگاہی کے لیے اُستاد برکت علی خاں کی شاگردی اختیار کی۔ اس کے ساتھ ہی فن کتابت میں بھی مہارت حاصل کر لی تھی۔ 36؂

کلیاتِ اعظم میں لکھنے والوں کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں۔ محمد اعظم چشتی، غلام مصطفی تبسم، کوثر نیازی، سیّد انور حسین، نفیس رقم، احمد ندیم قاسمی، رؤف شیخ، جمشید اعظم چشتی، حفیظ تائب۔

اُن کے صاحبزادے جمشید اعظم چشتی ’’معراج‘‘ کے عرض نامہ میں رقم طراز ہیں۔

’’1990ء کے بعد انھوں نے نعت گوئی کے ساتھ ساتھ نعت خوانی سے بھی (ظاہراً) کنارہ کشی اور مکمل خلوت نشینی اختیار کرلی تھی۔ وصال 31 جولائی 1993ء میں ہوا۔‘‘ 37؂

کلیاتِ اعظم کا حسن آغاز زمانی اعتبار سے شائع ہونے والے پہلے مجموعہ کلام ’’غذائے روح‘‘ کی اس حمد سے ہوا ہے۔

ثنا گو پتّہ پتّہ ہے خدایا دم بہ دم تیرا

زمین و آسماں تیرے، ہے موجود و عدم تیرا

جو دنیا میں ترا کھا کر ترے شکوے کریں یارب

تعجب ہے کہ اُن پر بھی رہے لطف و کرم تیرا38؂

اعظم چشتی کی اس کلیات کی آخری نعت جو متفرق اشعار سے پہلے ہے۔ اُس کا رنگ و آہنگ ملاحظہ کیجیے جس میں رفعت خیال کی بلندی اور حسن بیان کی رعنائی دونوں شامل ہیں۔

وہ رفعتِ خیال وہ حسن بیاں نہیں

جو کچھ کہا، حضور کے شایانِ شاں نہیں

پاسِ ادب ہے شرط متاعِ ہنر کے ساتھ

یہ کوچۂ حبیب ہے کوئے بتاں نہیں 39؂

(طاہر سلطانی نے اپنی مرتبہ کتاب اُردو حمد کا ارتقاء کے صفحہ 121 پر محمد اعظم چشتی کا نام ایک نئی اختراع ’’خان‘‘ کے ساتھ لکھا ہے۔ طاہر سلطانی کی تحریر کا انداز دیکھیے ’’محمد اعظم خان، اعظم چشتی‘‘ لکھا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب کیا حقیقت ہے، اب اعظم چشتی مرحوم کے صاحبزادے جمشید اعظم ہی اس قضیے کو حل کر سکتے ہیں۔)

کلیاتِ حفیظ تائب (حمد و نعت) حفیظ تائبؔ اپریل 2005ء

’’کلیاتِ حفیظ تائبؔ ‘‘ حفیظ تائبؔ کے متفرق مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ہے۔ اپریل 2005ء میں القمر انٹرپرائزرز رحمان مارکیٹ اُردو بازار لاہور نے اس کی طباعت کا اہتمام کیا ہے۔ 696 صفحات پر محیط اس کتاب کی قیمت 500/- روپے ہے۔ 40 ؂ طاق حرم کے نام سے 2010ء میں ایک مجموعہ نعت شائع ہو چکا ہے جو اس کلیات میں شامل نہیں۔

اس کلیاتِ حمد و نعت میں صلوا علیہ وآلہ، سک متراں دی، وسلموا تسلیما، وہی یٰسیں وہی طٰہ، مناقب (مجموعہ مناقب) کوثریہ، نسیب (مجموعہ غزل)، تعبیر (قومی و ملی منظومات) پر مشتمل مجموعہ ہائے کلام شامل ہیں۔ الحمدللہ! جن میں زیادہ تعداد نعتوں کی ہے۔ اس کلیات میں ان کا غیر مدوّن کلام نعتیہ بھی طبع ہوا ہے۔ ’’حفیظ تائب فاؤنڈیشن‘‘ کے اغراض و مقاصد ایک صفحہ پر شائع کیے گئے ہیں۔ جب کہ ’’تقدیم‘‘ کے عنوان سے خورشید رضوی کا شاعری پر مضمون ہے۔ پوری کلیاتِ حمد و نعت میں حفیظ تائبؔ کے بارے میں کُلّی تو کجا جزوی معلومات کا بھی فقدان ہے۔ اس کلیات کا قاری شعبۂ نعت کے اتنے بڑے خدمت گزار کے فقیدالمثال اور لازوال نعتیہ کارناموں کی معلومات سے محروم رہے گا۔ 41؂

’’حفیظ تائب‘‘ ادبی نام، پیدائشی نام عبدالحفیظ اور تخلص تائبؔ ہے۔ آبائی وطن احمد نگر ضلع گوجرانوالہ ہے۔ حفیظ تائب 14 فروری 1931ء کو پشاور اپنے ننھیال میں پیدا ہوئے۔

آپ کے والد گرامی مولانا الحاج چراغ دین قادری سروری سفر نامۂ صبح ’’تحفۃ الحرمین‘‘ کے مصنف ہیں۔ حفیظ تائب نے 1974ء میں ایم اے پنجابی (پرائیویٹ) کیا۔ منصبی مصروفیات میں محکمہ واپڈا سے وابستگی کے بعد پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور کے شعبہ پنجابی سے وابستہ رہے۔ لیکچرار کُل وقتی اور جزوقتی اُستاد کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ۔ 42؂

آپ کا انتقال 13جون 2004ء بمطابق ۲۴؍ جمادی الثانی ۱۴۲۵ھ بروز اتوار رات 12 بج کر 25 منٹ پر ہوا۔ آپ کی تدفین کریم بلاک قبرستان علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں ہوئی۔ 43 ؂

کلیات حفیظ تائب کو کتابی زمانی اعتبار سے نہیں بلکہ موضو عات حمد و مناجات، نعت رسول مقبول اور غیر مدوّن کلام کے عنوانات کے تحت ترتیب دے دیا گیا ہے۔ بلاشبہ تمام مطبوعہ و غیر مطبوعہ کلام تو یکجا ہو گیا ہے مگر زمانی اعتبار سے کتب کی تفصیل اس میں موجود نہیں۔

حفیظ تائب نعت کے حوالے سے عہد حاضر کا ایک مستند حوالہ ہیں آپ کی نعتیہ شاعری عوام و خواص کی توجہ کا مرکز ہے۔ آپ کی مقبولِ عام نعتیں اکثر سماعت گوش ہوتی ہیں۔

اس کلیاتِ حمد و نعت کا حسن آغاز اللہ رب العزت کی حمد و مناجات سے ہوا ہے۔ حمد کے اشعار ملاحظہ کیجیے۔

کس کا نظام راہ نما ہے اُفق اُفق

کس کا دوام گونج رہا ہے اُفق اُفق

کس کی طلب میں اہل محبت ہیں داغ داغ

جس کی ادا سے حشر بپا ہے اُفق اُفق 44؂

حفیظ تائب کی کلیات کا اختتام اس پنجابی نعت پر ہوا ہے۔

قرض تیرے پیار دا آقا اُتاراں کس طرح

بلدا سینہ تیری اُمت دا میں ٹھاراں کس طرح 45؂

کلیاتِ قادری (مجموعہ حمد نعت و مناقب) بااہتمام ڈاکٹر فریدالدین قادری دوم۔جون 2005ء

’’کلیاتِ قادری‘‘ مولانا محمد غلام رسول القادری کی حمد و نعت اور مناقب پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر صاحبزادہ فریدالدین قادری نے اس کی طباعت کا اہتمام کیا ہے۔ اس کے ناشر قادری پبلی کیشنز قادری مسجد سولجر بازار کراچی نمبر3 ہیں۔ کلیاتِ قادری کی اشاعت اوّل فروری 1985ء اور اشاعت دوم جون 2005ء ہے۔ 376 صفحات پر مشتمل یہ کلیات غیر مجلد 35/- روپے ہدیہ کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ 46؂

ڈاکٹر صاحبزادہ فریدالدین قادری نے اپنے جدّامجد مولانا الحاج حافظ قاری الشاہ محمد غلام رسول قادری علیہ الرحمہ کا منظوم کلام ’’کلیاتِ قادری‘‘ کی صورت میں شائع کردیا ہے۔ جو حمد و نعت اور مناقب پر مشتمل ہے۔ صاحبزادہ صاحب نے صرف ایک صفحہ کا ’’پیش لفظ‘‘ لکھا ہے جو ناکافی ہے۔ آپ لکھتے ہیں :

’’1985ء میں آپ کے تمام منظوم رسائل کو ’’کلیاتِ قادری‘‘ کی صورت میں یکجا کر دیا گیا البتہ کچھ منظومات شائع ہونے سے رہ گئی تھیں جنھیں اب دوسرے ایڈیشن میں اضافہ کی صورت میں شائع کر دیا گیا ہے۔‘‘ 47؂

ڈاکٹر فریدالدین قادری نے صرف ایک صفحہ کا ’’پیش لفظ‘‘ لکھا ہے۔ غلام رسول قادری کے حوالے سے کوئی معلومات کلیات میں موجود نہیں۔ جس کی وجہ سے شدید تشنگی محسوس ہوتی ہے۔

پیدائشی نام محمد غلام رسول، تخلص غلامؔ اور قادری نسبت ہے۔ جب کہ شہرت مولانا غلام رسول قادری کے حوالے سے ہے۔ ۱۳۰۶ھ مطابق جولائی 1886ء میں صدر کراچی (سندھ) میں پیدا ہوئے۔ بروز منگل ۱۸؍جمادی الاوّل۱۳۹۱ھ مطابق 13 جولائی 1971ء میں کراچی میں وصال ہوا۔ قادری مسجد سولجر بازار کراچی میں مدفون ہیں۔ نشترپارک کراچی میں آپ کی نمازِ جنازہ حضرت حافظ یوسف علی جے پوری المعروف عزیز پاکستانی، عزیز الاولیاء نے پڑھائی۔ 48؂

مولانا غلام رسول قادری کا شمار قادرالکلام شعرائے کرام میں ہوتا ہے۔ آپ کا حمد و نعت پر مشتمل کلام مقبول بارگاہ ہے۔ آپ کی کہی گی مناقب بھی مقبول عام ہیں۔ آپ کا مزاج حمد و نعت اور مناقب سے خصوصی مناسبت رکھتا ہے۔ آپ کی نعتیہ شاعری جذب و اثر سے پُر ہے۔ سلاست و روانی آپ کے کلام کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ آپ کی کہی مشہورِ زمانہ حمد تقریباً محافل کی زینت ہوتی ہے۔ اس حمد کے اشعار ملاحظہ کیجیے۔

کون و مکاں میں ہے اللہ، دونوں جہاں میں ہے اللہ

جسم میں جاں میں ہے اللہ لا اِلٰہ اِلا اللہ

کھل جائیں در جنت کے دوزخ کی سب آگ بجھے

دل سے کوئی اک بار کہے لا اِلٰہ اِلا اللہ49؂

آپ کا قصیدۂ مدحیہ بہت مشہور و مقبول ہے۔ آپ کا کلامِ نعتیہ زبان زدِ خلائق ہے۔

دو جہاں میں ہے رواں سکہ رسول اللہ کا

دونوں عالم پڑھتے ہیں کلمہ رسول اللہ کا

آپ سلطان الرسل ہیں اور ختم الانبیا

کیا بیاں انساں سے ہو رُتبہ رسول اللہ کا 50؂

ضروری نوٹس

(کلیاتِ قادری میں مولانا محمد غلام رسول قادری کے بارے میں معلومات موجود نہیں۔ البتہ ڈاکٹر صاحبزادہ فریدالدین قادری نے اپنے پی ایچ -ڈی کے مقالے میں اپنے جدّ بزرگوار کا تفصیلی ذکرخیر کیا ہے۔

ڈاکٹر فریدالدین قادری کی تحقیق ’سندھ کے اکابرین قادریہ کی علمی و دینی خدمات‘ (۱۱۹۸ھ تا ۱۴۱۳ھ) (مطبوعہ : قادری پبلی کیشنز، کراچی، 1998ء) پر مشتمل ہے۔ جس پر فاضل مقالہ نگار کو پی ایچ-ڈی کی سند تفویض ہوئی ہے۔ زیر نظر مقالے میں سلسلہ قادریہ سے نسبت رکھنے والے صوبۂ سندھ کے علما و صوفیا میں سے اکاون (51) دینی و علمی شخصیات کے حالات و کارناموں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اپنے موضوع کے لحاظ سے یہ ایک لائق تحسین کام ہے۔ اس میں تصوف کے حقائق و معارف پر بھی سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔)

کلیاتِ عنبرؔ شاہ وارثی ترتیب عشرت ہانی و نور محمد وارثی مارچ 2006ء

’’کلیاتِ عنبرؔ شاہ وارثی‘‘ حضرت سیّد خواجہ عنبرشاہ وارثی چشتی اجمیری کے کلام پر مشتمل ہے۔ جس کی ترتیب و تدوین عشرت ہانی و نور محمد وارثی صدیقی کے نام سے ہوئی۔ مارچ 2006ء میں اسے حضرت عنبرشاہ وارثی پبلی کیشنز قبرستان جونا دھوبی گھاٹ کراچی نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کی یہ بار سوم اشاعت 276 صفحات پر مشتمل مجلد شائع ہوئی ہے۔ 51؂

کتاب کے اندرونی صفحات پر کلیات ’’العشق ہواللہ‘‘ درج ہے۔ کلیات عنبر شاہ وارثی ثانیاً خواجہ دلبرعلی شاہ وارثی کی کاوش ہے جس کی ترتیب و تدوین میں تکلفاً عشرت ہانی و نور محمد وارثی کے نام دے دیئے گئے ہیں۔

کلیاتِ عنبر شاہ وارثی پر لکھنے والوں میں قمر وارثی، افتخار احمد عدنی، محمد یونس وارثی اور محمد فقیہہ وارثی شامل ہیں۔

یہ کتاب ’’کلیات‘‘ کے زمرے میں شامل نہیں۔ یہ مجموعہ کلام ہے۔ واضح رہے کہ اس کی اشاعت اوّل اگت 1991ء میں ’’العشق ہواللہ‘‘ کے نام سے ہو چکی ہے۔ العشق ہواللہ کو محمد یامینؔ وارثی نے مرتب کیا تھا۔ جسے مولانا محمد اکبر وارثی اکادمی اللہ والی مارکیٹ لانڈھی کراچی نے 168 صفحات پر شائع کیا تھا۔ اس کے اصل محرک اور مرتب یامین وارثی ہی ہیں۔ اس کام کو بعد میں دوسروں کے نام سے شائع کردیا گیا ہے۔

خاندانی نام سیّد عنبر علی، شہرت عنبر شاہ وارثی اور تخلص عنبر ہے۔ 1906ء میں سلطان الہند کی پریم نگری اجمیر شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد علامہ سیّد ظہور حسین چشتی اجمیری معروف صوفی بزرگ اور عالم دین تھے۔ ابتدائی تعلیم والد کی زیر تربیت ہوئی۔ بعدازاں دارالعلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف جیسی اعلیٰ درس گاہ اور علی گڑھ یونیورسٹی سے بھی فیض حاصل کیا۔

عنبر شاہ وارثی 13 سال کی عمر میں داخل سلسلہ وارثیہ ہوئے۔ بتوسط حیرت شاہ وارثی یہ سعادت آپ کو حاصل ہوئی۔ حضرت خواجہ مقصود شاہ وارثی کے ہاتھوں 1947ء دیوہ شریف میں آپ کی احرام پوشی ہوئی۔ فن شعر گوئی میں اختر مودودی سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔

وارث نگری کا عنبرؔ خوش نوا بروز پیر 5مئی 1993ء کو سحابِ اجل کی اوٹ میں چھپ گیا۔ آپ کا مزار میوہ شاہ قبرستان جونا دھوبی گھاٹ کراچی میں مرجع خلائق ہے۔ 52؂

آپ ایک حقیقی صوفی مشرب شاعر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی شاعری میں حقیقت کا فطری رنگ نمایاں ہے۔ آپ کی شاعری میں حمد و نعت اور مناقب خصوصیت کے ساتھ شامل ہیں۔ اہل بیت اطہار کے حوالے سے بھی نظمیں کہی ہیں۔ آپ کی شاعری پر مشتمل مجموعہ کلام کی ہمہ گیریت ہر اہل عقیدت و محبت کی نگاہ میں مقدم ہی نہیں، مسلّم بھی ہے۔صوفی ہونے کے ناتے آپ کے کلام میں عارفانہ رنگ موجود ہے۔

حصرت شیخ سعدی اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے قطعات پر آپ کی تضمینات کو شہرتِ دوام حاصل ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کلام بھی آپ کی شاعری کی مقبولیت اور حسن قبول کی دلیل ہے۔

سر لامکاں سے طلب ہوئی سوئے منتہا وہ چلے نبی 53؂

داتا سخی کریم یداللہ نامور 54؂

حمد ربِ علا نعت خیرالوریٰ (راسخؔ عرفانی) مرتب : ثاقب عرفانی جون 2006ء

’’حمد رب علا نعت خیرالوریٰ‘‘ راسخ عرفانی کے حمدیہ و نعتیہ کلام پر مشتمل ہے۔ اس کے مرتب ثاقب عرفانی ہیں۔ جون 2006ء میں یہ کلیات شائع ہوئی۔ اس کے ناشر بھی ثاقب عرفانی ہیں۔ ملنے کے پتے میں ایس ایس فاروق مکینیکل انڈسٹریز لیاقت روڈ گوجرانوالہ کا نام شامل ہے۔ 624 صفحات پر مشتمل یہ کتاب 600/- روپے کی قیمت کے ساتھ مجلد شائع ہوئی ہے۔

’’حمد رب عُلا نعت خیرالوریٰ‘‘ راسخ عرفانی کا کلیاتِ حمد و نعت ہے جس میں ان کی نعتوں کے چھ مجموعہ ہائے کلام غبار حجاز، ارمغان حرم، ذکر خیر، حدیث جاں، نسیم منٰی اور نکہت حرا شامل ہیں۔ 55؂

’’حمد رب عُلا نعت خیرالوریٰ‘‘ خوبصورت، دیدہ زیب اور بہت اہتمام سے شائع ہوئی ہے۔ ثاقب عرفانی نے اس کلیاتِ حمد و نعت کی غرض و غایت اور ضرورت کو دو صفحات میں واضح کیا ہے۔ بلاشبہ مرتب کی یہ کاوش نعتیہ ادب کے لیے ایک بیش بہا تحفہ ہے۔

اس کلیاتِ حمد و نعت پر لکھنے والوں میں ثاقب عرفانی، علامہ غلام یعقوب انورؔ ایڈووکیٹ، یعقوب طاہر، حکیم صوفی محمد شریف غیرت قادری، ڈاکٹر وحید قریشی، یزدانی جالندھری، طفیل ہوشیارپوری، رئیس امروہوی، عارف عبدالمتین، افکار کراچی، حفیظ تائب، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر سید عبداللہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ راسخ عرفانی کا اسم گرامی عبدالواحد تھا۔ راسخ عرفانی کے نام سے شہرت رکھتے تھے۔ 12 دسمبر 1914ء کو پیدا ہوئے۔ مستقل سکونت ڈائمنڈ بلڈنگ چوک نیائیں گوجرانوالہ میں تھی۔ ملک کے معروف عالم دین حضرت مولانا نور حسین گھرجاکھی آپ کے والد گرامی تھے۔ 56؂ تاریخ وفات 1990ء ہے۔

حفیظ تائب مرحوم راسخ عرفانی کی نعتیہ شاعری کے سلسلے میں رقم طراز ہیں:

’’راسخ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو ایمان کی ضیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو لفظ و بیاں کا نور سمجھتے ہیں۔ وہ تمام الفاظ کو منعوتِ جہاں کی امانت گردانتے ہیں اور نعت خوشنودئ محمد اور خدائے محمد کے لیے لکھتے ہیں۔ وہ نعت کو ہجوم کرب میں سکون کی سبیل جانتے ہیں اور اپنے خون تک سے نعت سرکار لکھ جانے کے آرزومند ہیں۔‘‘ 57؂

اس کلیاتِ حمد و نعت میں شامل غبارِ حجاز راسخ عرفانی کی حمد و نعت کا پہلا مجموعہ ہے جو 1961ء میں شائع ہوا۔ اس خوبصورت مجموعے کا حسنِ آغاز ’’حمد باری تعالیٰ‘‘ سے ہوا ہے۔

سب کا ہے تو سہارا اے مالکِ دو عالم

تو جان سے ہے پیارا اے مالکِ دو عالم 58؂

اس کلیات حمد و نعت کا آخری مجموعہ کلام نعتیہ ’’نکہت حرا‘‘ ہے اس مجموعے کی آخری نعت ملاحظہ کیجیے۔

نعت، توصیف حبیب کبریا

نعت مدحِ رہبر راہِ خدا

نعت، عکس سیرتِ میر اُمم

نعت عنوانِ ثنائے مصطفی

نعت، توقیر کلام اہل فن

نعت ذکر شافع روزِ جزا59؂

طاہرین (سیّد وحیدالحسن ہاشمی) ترتیب و تدوین : ڈاکٹر سیّد شبیہہ الحسن دوم 2006ء

’’طاہرین‘‘ میں نعتیں و مناقب اور سلام شامل ہیں۔ اس کے شاعر سید وحیدالحسن ہاشمی ہیں۔ طاہرین کے ترتیب و تدوین کار ڈاکٹر سید شبیہ الحسن ہیں۔ طاہرین بارِ دوم 2006ء میں الحسن پبلی کیشنز 253۔ایف رحمان پورہ اچھرہ لاہور کا طبع شدہ ہے۔ 624 صفحات پر محیط طاہرین کی قیمت 500/- روپے ہے۔ 60 ؂ طاہرین نعتیں، مناقب اور سلام کا کلیات ہے (ڈاکٹر وحید قریشی) طاہرین کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اوّلاً نعتیں، ثانیاً منقبتیں اور ثالثاً سلام (اہل بیت) پر مشتمل ہے۔

ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن نے طاہرین کا سیرحاصل ’’مقدمہ‘‘ لکھا ہے۔ اس میں وحیدالحسن ہاشمی کی شاعری کے سارے رُخ جلوہ گر ہیں۔ سیّد وحید الحسن ہاشمی کی نعت نگاری، ڈاکٹر خورشید رضوی، سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبت نگاری، ڈاکٹر سجاد باقر رضوی اور سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی سلام نگاری، ڈاکٹر وحید قریشی کی رشحاتِ فکر کی آئینہ دار ہے۔

زیر نظر کتاب پر لکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مقالے کی طوالت کے سبب ان تمام حضرات کے ناموں کے اندراج سے صرف نظر کیا گیا ہے۔ پیدائشی نام سیّد وحید الحسن، قلمی نام وحیدہاشمی اور تخلص وحید ہے۔ 1930ء جون پور، یو۔پی انڈیا میں پیدا ہوئے۔ تعلیمی طور پر ایم اے، بی ٹی، درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ اور ہیڈ ماسٹر تھے۔ اساتذہ سخن میں صفا اِلٰہ آبادی، آرزو لکھنؤی، سہیل بلگرامی اور سیّد آلِِ رضا لکھنؤی کے نام شامل ہیں۔ آپ کی ساری زندگی ادب پروری، صحافتی خدمات، خطابات، اعزازات اور تقریبات پذیرائی سے عبارت ہے۔

آپ کا وصال 20 نومبر 2001ء میں لاہور میں ہو چکا ہے۔

بنیادی طور پر وحیدالحسن ہاشمی سلام، نوحہ اور مرثیے کے شاعر ہیں۔ مگر نعت نگاری بھی آپ کی پہچان ہے۔ آپ کی نعتیں جدید انداز میں تازہ کاری کی علامت ہیں۔ آپ کی نعتوں میں روایتی گھن گھرج نہیں، مگر تازہ اور توانا لب و لہجے میں نعت کی آفاقیت کے سب جوہر موجود ہیں۔

نعت کی مرکزی آفاقیت کو سیّد وحیدالحسن ہاشمی نے خراجِ عقیدت بھی پیش کیا ہے۔ وہ شاعر کی شاعری کو مکمل ہونے کا درس دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’نعت ایک مقدس صنف سخن ہے ایک شاعر جو غزل، سلام او رمرثیہ کہتا ہے اگر اس کے شعری گنجینے میں نعتیں نہیں تو وہ شاعر مکمل نہیں ادھورا ہے۔‘‘ 61؂

حق گوئی اور بیباکی کا ببانگ دہل انداز بھی بہت خوب ہے۔ ہمارے دیگر شعرائے کرام کو بھی اللہ رب العزت ایسی بصارت و بصیرت اور عقل و فہم عطا فرمائے تاکہ وہ بھی نعت کے اس معتبر حوالے کو حرزِ جاں بنائیں۔

طاہرین میں وحیدالحسن ہاشمی کی نعت کا تیور ملاحظہ کیجیے

مدحتِ شاہ مدینہ کا صلا کیا مانگتے

درد میں ملنے لگی لذت، دوا کیا مانگتے

ان کے در پر جا کے بھی کھولے نہ ہم نے اپنے لب

مانگنے کا جب سلیقہ ہی نہ تھا کیا مانگتے62؂

وحیدالحسن ہاشمی کی نعتیہ شاعری عہد حاضر کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ اس شعر میں شاعر کی جدت کاری اور تنوع دیکھیے۔

ہو مثال ایسی کوئی وقت کے دامن میں تو لاؤ

ایک انگلی سے کہیں چاند بھی شق ہوتا ہے 63؂

سرمایۂ رؤف امروہوی (انتخابِ کلام) مرتب: حامدؔ امروہوی (خلف) 2007ء

’’سرمایۂ رؤف امروہوی‘‘ الحاج مرزا حافظ محمد عبدالرؤف، رؤف امروہوی کے انتخابِ کلام پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے مرتب آپ کے صاحبزادے حامدؔ امروہوی ہیں۔ 2007ء میں یہ کتاب ڈائمنڈ پرنٹرز نئی دہلی سے شائع ہوئی۔ 502 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 350/- روپے ہے۔ اس کے ملنے کا پتہ مرزا ساجد حسین ساجد امروہوی محلہ صدّو امروہہ 244221 (انڈیا) ہے۔ 64؂

اس انتخابِ کلام رؤف امروہوی میں بظاہر لخلخۂ محامد، (نعت ومناقب)، گل رنگ تخیل (غزلیات)، کوثر رحمت (نعت و مناقب اور غزلیات)، اپنی زبان سے میں، انوار رؤف (اوّل) کا کلام شامل ہے۔ مگر اس انتخاب میں حصہ حمد و نعت اور مناقب کی تعداد زیادہ ہے۔ 65؂

حامدؔ امروہوی سرمایہ رؤف امروہوی کے مرتب اور شکاگو امریکہ میں مقیم ہیں۔ حامدؔ امروہوی کے بھی تین حمد، نعت و مناقب پر مشتمل مجموعہ ہائے کلام مدحت کے پھول، خیابان ارم اور جوئبارِ بخشش شائع ہو چکے ہیں۔ جب کہ آپ کے بڑے بھائی سیفی امروہوی کا نکہتیں حمد و نعت اور چھوٹے بھائی کے دو مجموعہ ہائے کلامِ حمد و نعت راز بخشش اور آرزوئے بخشش بھی شائع ہو چکے ہیں۔ اس پورے خانوادے کا سرمایہ حمد، نعت و مناقب ضرب المثل ہے۔ 66؂

نام ا لحاج مرزا (ماسٹر) حافظ محمد عبدالرؤف، تخلص رؤف اور امروہوی علاقائی نسبت ہے۔ سال پیدائش 1894ء اور وطن امروہہ (یو۔پی)انڈیا ہے۔ والد کا نام مرزا شفیع اللہ بیگ ہے۔

رؤف امروہوی درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔ 1915ء میں جگرمرادآبادی کے اصرار پر غزل کہی جس پر خود جگر مرادآبادی نے اصلاح دی۔ قطب وقت حضرت شاہ حمایت اللہ سے ارادت کا شرف حاصل ہے۔

1923ء سے جلسہ نعت خوانی ہر جمعہ کو بعد نماز جمعہ ہوتا ہے ایک بھی ناغہ نہیں ہے۔ جلسہ روزِ عاشورۂ محرم اور جلسہ عید میلادالنبی بھی ہر سال باقاعدہ 1923ء سے جاری ہے۔

رؤف امروہوی نے یکے بعد دیگرے 4 شادیاں کیں۔ 5 بیٹے اور تین بیٹیاں تولد ہوئیں۔

انتقال 16 دسمبر 1986ء مطابق ۱۳؍ ربیع الثانی ۱۴۰۷ھ کو ہوا۔ آپ کا مدفن درگاہِ حضرت شاہ شرف الدین سہروردی، شاہ ولایت امروہہ (انڈیا) میں ہے۔ 67؂ عبدالرؤف رؤف امروہوی ایک صاحب نسبت اور قادرالکلام شاعر تھے۔ آپ کی نسبت اور تربیت کا یہ فیضان ہے کہ آپ کے صاحبزادگان بھی شعبہ حمد و نعت کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔

سرمایہ رؤف امروہوی کا حسن آغاز اللہ رب العزت کی حمد پاک سے ہوا ہے۔ حمدیہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

اے کہ ہر شے میں تیرا جلوا ہے

اے کہ ہر چشم تجھ سے بینا ہے

تو ہی معبودِ لاشریک لہٗ

تو ہی مقصود دیر و کعبا ہے 68؂

آپ کی پہلی نعت سرمایہ رؤف میں ولادتِ مصطفی یعنی عیدمیلادالنبی کے پُرمسرت حوالے سے ہے:

صبا اٹھکیلیاں کر آج موقع ہے مسرت کا

یہ دن ہے حضرت ختم الرسالت کی ولادت کا 69؂

ضروری نوٹس

(نقوش نقوی کا مرتب کردہ ’تذکرہ شعرائے امروہہ‘ (مطبوعہ: رائٹرز بک فاؤنڈیشن، امروہہ سوسائٹی کراچی، 2008ء) 1352 صفحات پر شائع ہوا۔ اس تذکرے میں تذکرہ نگار نے اپنے عقیدے سے تعلق رکھنے والے اور اپنے واقف کاروں کا دل کھول کر تذکرہ کیا ہے۔ دیگر حضرات کے تعارف میں وسعتِ قلبی اور معلومات کا فقدان ہے۔ تذکرۂ شعرائے امروہہ کے صفحہ 629 تا 630 پر رؤف امروہوی کا تذکرہ سرسری انداز میں کیا ہے۔ معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تذکرہ میں آپ کی نعت گوئی کا ذکر بھی نہیں ہے۔

احمد حسین صدیقی کا تذکرہ ’کشورِ اولیاء امروہہ‘ (مطبوعہ: محمد حسین اکیڈمی، کراچی، 1999ء ) بڑے سائز کے 448 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے صفحہ 237 تا 238 پر رؤف امروہوی کا تذکرہ بہت محبت اور احترام سے کیا ہے۔ آپ کی نعت گوئی کا تذکرہ اور خصوصیت کے ساتھ آپ کی مدینہ طیبہ میں عجب شان سے طلبی کو بہت ہی خوبصورت انداز میں رقم کیا ہے۔

احمد حسین صدیقی نے رؤف امروہوی کا سال پیدائش ۲۰؍صفر ۱۳۱۸ھ بمطابق 1899ء درج کیا ہے جو کہ سرمایۂ رؤف امروہوی کے حوالے سے درست نہیں۔ درست سال پیدائش 1894ء ہے۔)

کلیاتِ منوّرؔ (منوّرؔ بدایونی) مرتب : سلطان احمد 2008ء

’’کلیاتِ منور‘‘ ثقلین احمد منور بدایونی کے مجموعہ ہائے نعت پر مشتمل ہے۔ جسے سلطان احمد ابن منور بدایونی نے مرتب کیا ہے۔ جہانِ حمد پبلی کیشنز اُردو بازار کراچی نے اس کی طباعت کا اہتمام کیا ہے۔ 408 صفحات پر مشتمل کلیات منور پر قیمت درج نہیں۔ شاید یہ ہدیہ دعائے خیر کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ مگر یہ عبارت بھی اس پر درج نہیں۔ 70؂

کلیاتِ منور بھی موضوعات حمد و نعت و مناجات، سلام و مناقب، غزلیات و قطعات اور رباعیات پر مشتمل ہے۔ اس میں منور بدایونی کا تمام مطبوعہ اور غیر مطبوعہ سب ہی کلام شامل ہے۔

کلیاتِ منور پر لکھنے والوں میں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، مولانا عبدالقدیر قادری، مولانا عبدالحامد بدایونی، اظہر عباس ہاشمی، منور بدایونی، ڈاکٹر محمود حسین، مولانا منتخب الحق قادری، صبا اکبر آبادی، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر اسلم فرخی، اخلاق اختر حمیدی، سعید ہاشمی اور طاہر سلطانی کے نام شامل ہیں۔

پیدائشی نام ثقلین احمد، منور بدایونی کے نام سے شہرت پائی۔ منور تخلص ہے۔ مسلک میں حنفی سنی، نسب میں صدیقی اور مشرب میں رحمانی تھے۔ منور بدایونی کی ولادت 2 دسمبر 1908ء بدایوں انڈیا میں ہوئی۔ آپ کے والد حکیم حسنین احمد مورخ بدایونی معروف شاعر اور فن تاریخ گوئی میں شہرت کے حامل تھے۔ حضرت امیر مینائی کے شاگرد عیش مینائی بدایونی اور بعد میں محمد عبدالجامع جامیؔ بدایونی سے بھی شرف تلمذ حاصل رہا۔آپ کے چھوٹے بھائی فاروق احمد محشرؔ بدایونی بھی غزل و نعت کے بہت عمدہ اور معروف شاعر تھے۔

1951ء میں ہجرت کے بعد کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔ آخری وقت تک شعبہ نعت سے منسلک رہے۔ بروز جمعۃ المبارک بوقت شام سات بجے، ۳؍رجب المرجب ۱۴۰۴ھ بمطابق 6اپریل 1984ء کو کراچی میں وصال ہوا۔ 71؂

منور بدایونی نے عنفوانِ شباب میں غزلیں بھی کہیں، ان کا بہاریہ کلام شائع بھی ہوا مگر پھر بعد میں اپنے آپ کو حمد ونعت، سلام و منقبت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ منور بدایونی وہ خوش نصیب شاعر ہیں کہ آپ کے اشعار زبانِ زد خلائق ہیں خصوصیت کے ساتھ اس شعر نے تو آپ کو ہمیشہ کے لیے امر کردیا ہے۔

جسے چاہا در پہ بلا لیا جسے چاہا اپنا بنا لیا

یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے 72؂

منور بدایونی کا یہ حمدیہ قطعہ بہت معروف ہے۔

جب تری شان کریمی پہ نظر جاتی ہے

زندگی کتنے مراحل سے گزر جاتی ہے

بے طلب مجھ کو دیے جاتا ہے دینے والا

ہاتھ اُٹھتے نہیں نیت مری بھر جاتی ہے 73؂

منور بدایونی کی بہت نعتیں مقبول عام ہیں۔ بہت کم نعتیہ کلام کہا ہے مگر قدرت نے بہت زیادہ لکھنے والوں سے زیادہ شہرت عطا کردی ہے۔

نعت محبوبِ داور سند ہو گئی

فردِ عصیاں مری مسترد ہو گئی

مجھ سا عاصی بھی آغوشِ رحمت میں ہے

یہ بھی بندہ نوازی کی حد ہو گئی 74؂

کلیاتِ اظہر اظہر علی خان اظہرؔ مرتب: محمد سلیم اپریل 2009ء

’’کلیاتِ اظہر‘‘ اظہر علی خان اظہرؔ کے کلام پر مشتمل ہے۔ یہ عام سا مجموعہ کلام ہے جسے کلیاتِ اظہر کے نام سے شائع کر دیا گیا ہے۔ یہ کتاب مکان نمبر2/593-94 شاہ فیصل کالونی نمبر2کراچی سے شائع ہوئی ہے۔ اپریل 2009ء میں یہ کتاب 96 صفحات پر مشتمل مجلد شائع ہوئی ہے۔ اس کی قیمت 200/- روپے ہے۔ 75؂

’’کلیاتِ اظہر‘‘ تمام تر (راقم الحروف) کی مشاورت اور میرے مقدمہ کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ ان کے صاحبزادے محمد سلیم کو میں نے بہت سمجھایا کہ اسے کلیات کا نام نہ دو، مگر وہ نہ مانے اور کلیاتِ اظہر ہی نام رکھا۔

اظہر علی خان کی کتاب پر لکھنے والوں میں محمد سلیم، کنور قمر علی خان، مکرم علی خان، شہزاد احمد، صبیحؔ رحمانی، طاہر سلطانی اور عابدؔ بریلوی شامل ہیں۔ کنور اظہر علی خان 1933ء علی گڑھ (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ پولیس کی ملازمت سے تقریباً 35 سال بعد اعلیٰ عہدے سے سبک دوش ہوئے۔ 71 سال عمر پانے کے بعد 25نومبر 2004ء بوقت 11بجے شب اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

حضرت بابا محمد یوسف شاہ تاجی قدس سرہٗ سے شرف بیعت حاصل تھا، جبکہ آخری وقتوں میں حضرت بابا سید رفیق عزیزی یوسفی تاجی (علیگ) کو اپنا کلام واجبی سے انداز میں دکھایا تھا۔

اظہر علی خان باضابطہ شاعر نہیں تھے۔ نوکری سے سبک دوش ہونے کے بعد 1992ء میں انجمن خادمانِ محمد (شاہ فیصل کالونی نمبر2 کراچی) کی بنیاد رکھی۔ میرے شاگردِ خاص معروف نعت خواں ابرار حسین کے یہ نعت خوانی میں شاگرد تھے۔نعت خوانی کے ساتھ ساتھ اُنھیں نعت گوئی کا بھی شوق ہو گیا تھا۔ ہمہ وقت اِنھیں کیفیات میں رہتے تھے۔ آپ کے کلام میں پختگی نہ ہونے کے باوجود عقیدت کی جلوہ گری موجود ہے۔

اظہر علی خان کے حمدیہ اور نعتیہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

حمد تیری ہے یہاں اور شکر یہ تیرا ادا

ہے تو ہی معبود برحق جان تجھ پہ ہے فدا 76؂

آؤ اللہ کے دل دار کی کچھ بات کریں

ہاں اسی حسن طرح دار کی کچھ بات کریں 77؂

کلیاتِ نیازیؔ عبدالستار نیازیؔ دوم، مئی 2009ء

’’کلیاتِ نیازی‘‘ الحاج عبدالستار نیازی نقشبندی کی نعتوں پر مشتمل ہے۔ نوریہ رضویہ پبلی کیشنز، 11، گنج بخش روڈ لاہور نے اس کی حسن طباعت کا اہتمام کیا ہے۔ 792 صفحات پر مشتمل کلیاتِ نیازی کی قیمت 600/- روپے ہے۔ 78؂

عبدالستار نیازی کی کلیاتِ نیازی 11 مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ہے۔ اس میں جلوے ای جلوے، نوائے نیازی، یا حبیبی مرحبا، بابِ کرم، شمس الضحیٰ، بدرالدجیٰ، لج پال، پردہ پوش، حرف حرف خوشبو، جس شان توں شاناں سب بنیاں، آخری مجموعہ کلام نعتیہ ’’اور بھی کچھ مانگ‘‘بھی شامل ہے۔ اس کلیات میں عبدالستار نیازی کا اُردو اور پنجابی سب کلامِ نعتیہ شامل ہے۔

اس کلیات میں لکھنے والوں کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں۔ محمد زاہد نیازی، ا ختر سدیدی، عبدالستار نیازی، صدف جالندھری، خالد محمود، نصرت فتح علی خاں، مولانا سیّد محمد ریاض الدین سہروردی، سیّد قمرالزماں شاہ، محمد افضل کوٹلوی، سید مسعود احمد شاہ، ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی، اختر بھٹہ، ریاض احمد نقشبندی اسلمی، حفیظ تائب۔

عبدالستار نیازی کا پیدائشی نام عبدالستار اور نیازیؔ تخلص ہے۔ 1938ء میں ریاست کپورتھلہ انڈیا میں مستری بدرالدین مغل کے گھر پیدا ہوئے۔ حضرت علی حسین شاہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ علی پور سیداں سے بیعت تھے۔

نعت خوانی سے آغاز کیا۔ نعت خوانی کا ذوق و شوق سوا ہو کر نعت گوئی کے پیکر میں ڈھل گیا۔ اور یوں آپ کا شمار معروف نعت خواں و نعت گو شعرا میں ہونے لگا۔ 25ا گست 1980ء میں فیصل آباد کے مختصر دورے پر اُس وقت کے صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق تشریف لائے۔ صدر پاکستان نے عبدالستار نیازی کے اندازِ نعت خوانی سے متاثر ہو کر پہلی مرتبہ حج بیت اللہ پر جانے کے احکامات صادرفرمائے۔ پھر یہ سلسلہ ایسا دراز ہوا کہ نیازی صاحب کو سات مرتبہ حرمین شریفین کی زیارت نصیب ہوئی۔

ساری زندگی نعت خوانی اور نعت گوئی کرنے والا یہ خوش نصیب منگل کی صبح 2 بجے 15 جنوری 2002ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ عبدالستار نیازی کی مقبول عام نعتیں آج بھی محافل میں سماعت گوش ہوتی ہیں۔ آپ کی یہ نعتیں تو بہت مقبول ہیں۔ اکثر محافل نعت میں دہرائی جاتی ہیں۔

بن کے خیرالورا آگئے مصطفی ہم گنہ گاروں کی بہتری کے لیے

اک طرف بخششیں اک طرف جنتیں کیسے انعام ہیں اُمتی کے لیے 79؂

کرم کے بادل برس رہے ہیں دلوں کی کھیتی ہری بھری ہے

یہ کون آیا کہ ذکر جس کا نگر نگر ہے گلی گلی ہے 80؂

خسروی اچھی لگی نہ سروری اچھی لگی

ہم فقیروں کو مدینے کی گلی اچھی لگی 81؂

کلیاتِ نعت اعجازؔ رحمانی مئی 2010ء

’’کلیاتِ نعت‘‘ اعجازؔ رحمانی کے پانچ نعتیہ مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ہے۔ مئی 2010ء میں کامیاب بک ڈپو نوید اسکوائر نیو اُردو بازار کراچی نے اس کی طباعت کا اہتمام کیا ہے۔ 1184 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 850/- روپے ہے۔ 82؂

’’کلیاتِ نعت‘‘ میں اعجاز مصطفی، پہلی کرن آخری روشنی، چراغِ مدحت، آسمانِ رحمت، آبشارِ رحمت یعنی 1972ء سے 2010ء تک کلامِ نعتیہ شامل ہے۔ ’’کلیاتِ نعت‘‘ پر لکھنے والوں میں اعجاز رحمانی، ممتاز حسن، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر غلام مصطفی خان، ڈاکٹر ابوالخیرکشفی، ڈاکٹر بشارت علی، ڈاکٹر عبدالغنی، ڈاکٹر سیّد عبدالباری، شبنم سبحانی، خواجہ رضی حیدر، پروفیسر عنایت علی خان، شاہ مصباح الدین شکیل، ڈاکٹر احسان الحق اور افسر ماہ پوری شامل ہیں۔

پیدائشی نام سیّد اعجاز علی، ادبی شناخت اعجاز رحمانی اور تخلص اعجاز ہے۔ 12فروری 1936ء کو اپنے آبائی وطن علی گڑھ (انڈیا) کے محلہ بنی اسراء میں پیدا ہوئے۔ تعلیمی صلاحیت کے اعتبار سے اُردو فاضل ہیں۔ موجودہ مسکن نیوکراچی، کراچی ہے۔ استاد قمر جلالوی کے تلامذہ میں شامل ہیں۔ ’’فلیپ‘‘ عظمتوں کے مینار بقلم خود اعجاز رحمانی/2014ء 83؂

اعجاز رحمانی کا شمار زودگو اور قادرالکلام شعرا کی فہرست میں شامل ہے۔ غزل کے کئی مجموعے شائع ہوئے پھر کلیاتِ غزل بھی شائع ہوئی۔ اس وقت ہمارے پیش نظر ان کی کلیاتِ نعت ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری مذکورہ بالا شخصیات سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہے۔ آپ کی کئی نعتیں مقبولِ عام ہیں۔

کلیاتِ نعت کا آغاز اعجاز رحمانی کے سب سے پہلے نعتیہ مجموعہ کلام اعجازِ مصطفی سے ہوا ہے۔ اس میں پہلی حمد کے منتخب اشعار دیکھیے۔

مالک کل خدائے ہست و بود

کوئی تیرے سوا نہیں معبود

چاہتے ہیں تری رضا ہم لوگ

بھیجتے ہیں ترے نبی پہ درود 84؂

کلیات نعت کی آخری نظم جسے ’’نعت‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ وہ مکہ اور مدینہ سے متعلق ایک تاثراتی نظم ہے نعت میں صرف سرکارِ دوعالم کی تعریف بیان ہوتی ہے اور آپ کے محامد و محاسن کا ذکر ہوتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کی نسبت اور عظمت پر قربان جاؤں ہر دو جگہ آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا قرار ہیں۔ مگر اس کلامِ شعری میں مکہ اور مدینہ کی تعریف بیان ہوئی ہے۔ اس میں نعت کا ایک شعر بھی نہیں۔

امن و اُخوت عدل کا پیکر مکہ اور مدینہ ہے

خالق اور معبود کا محور مکہ اور مدینہ ہے

اور کوئی منظر ہی نہیں ہے میری نگاہوں میں اعجاز

میرا منظر اور پس منظر مکہ اور مدینہ ہے85؂

زبورِ حرم (کلیاتِ نعت) اقبال عظیم دوم، 2010ء

’’زبورِ حرم‘‘ پروفیسر اقبال عظیم کا کلیاتِ نعت ہے۔ زبورِ حرم اقبال عظیم کے صاحبزادے شاہین اقبال کی تحریک کا نتیجہ ہے۔ جسے نعت ریسرچ سینٹر کراچی کے اشتراک سے شائع کیا گیا ہے۔ اس کے ملنے کے پتہ میں توکل اکیڈمی اُردو بازار کراچی کا نام شامل ہے۔ 336 صفحات پر مشتمل اس کلیاتِ نعت کی قیمت 450/- روپے ہے۔ 86؂

کلیاتِ نعت زبورِ حرم میں قاب قوسین، پیکر نور کی نعتیں شامل ہیں۔ 1999ء میں حضرت حسان نعت کونسل پاکستان ٹرسٹ نے اقبال عظیم کی زندگی میں کلیاتِ نعت زبورِ حرم بہت ہی عقیدت و محبت سے شائع کی تھی۔ مگر احباب کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے یہ اغلاط کا مجموعہ بن گئی تھی۔ اب ان کے صاحبزادے شاہین اقبال نے اس کی اشاعت دوم کا اہتمام کیا ہے جس میں آخری وقتوں کا کہا گیا کلامِ نعتیہ بھی شامل ہے۔ اس میں بھی ’’اغلاط نامہ‘‘ لگانے کے باوجود بھی غلطیاں موجود ہیں۔ 87؂

زبورِ حرم پر لکھنے والوں میں شاہین اقبال، اقبال عظیم، اے کے سومار، حفیظ جالندھری، ڈاکٹر سیّد ابوالخیر کشفی اور سرورق کی پشت پر سیّد صبیح الدین صبیح رحمانی کی تحریر شامل ہے۔

اقبال عظیم کی پیدائش 8 جولائی 1913ء کو میرٹھ (یو۔پی) انڈیا میں ہوئی۔ ان کا آبائی وطن انبیٹہہ ضلع سہارن پور ہے۔ لکھنؤ اور اودھ کی گلیاں تربیتی ماحول کا حصہ ٹھہریں۔ درس و تدریس کے شعبے سے تعلق رہا۔ کئی دیگر کتب کے مصنف و مؤلف بھی تھے۔ 88؂

اقبال عظیم جمعرات و جمعہ کی درمیانی شب 22 ستمبر 2000ء کو فجر کی اذان سے چند لمحے پہلے خالق حقیقی سے جا ملے۔ 89؂

سیّد خالد جامعی (شعبۂ تصنیف و تالیف جامعہ کراچی) نے اقبال عظیم کا مکمل نعتیہ کلام ’’درودوں کا گجرا سلاموں کی ڈالی‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ یہ کلام جریدہ 320 غیر مطبوعہ کتابیں نمبر (جلد چہارم 2005ء کراچی) میں طبع شدہ ہے۔ ’’اقبال عظیم حیات و ادبی خدمات‘‘ مقالہ برائے ایم اے (اُردو) ناصر حیات کا تحقیقی مقالہ ہے۔ جسے شاہین اقبال نے اہتمام سے شائع کیا ہے۔

زبورِ حرم کلیات نعت میں زمانی اعتبار سے کتب کی ترتیب نہیں بلکہ اسے موضوعاتی ترتیب سے مدوّن کیا گیا ہے۔ اس کی سب سے پہلی حمد کے اشعار ملاحظہ کیجیے۔

نام بھی تیرا عقیدت سے لیے جاتا ہوں

ہر قدم پر تجھے سجدے بھی کیے جاتا ہوں

زندگی نام ہے اللہ پہ مر مٹنے کا

یہ سبق سارے زمانے کو دیے جاتا ہوں 90؂

اقبال عظیم نے انتقال سے کچھ پہلے یہ نعت فی البدیہہ ہسپتال میں لکھوائی تھی۔ یہ اس کلیات کی سب سے آخری نعت ہے۔

ظہور کرتی ہے جس دم سحر مدینے میں

اذانیں دیتے ہیں دیوار و در مدینے میں

ہوا کے جھونکوں میں خوشبو بسی ہوئی ہے وہاں

درود پڑھتا ہے اک اک شجر مدینے میں 91؂

خلد نظر (کلیاتِ عابد سعید عابدؔ ) محمد عابد سعید جولائی 2011ء

’’خلد نظر‘‘ محمد عابد سعید عابدؔ کی نعتیہ کلیات ہے۔ جسے عابد سعید عابد نے وارڈ نمبر3 بڑکی جدید گوجرخان سے شائع کیا ہے۔ جولائی 2011ء شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ میں طبع شدہ اس کلیات کی قیمت 500/- روپے ہے۔ 770 صفحات پر مشتمل یہ کلیات مجلد شائع ہوئی ہے۔ عابد سعید عابدؔ کا موبائل نمبر0300-5173934 ہے 92؂

خلد نظر یعنی کلیات عابد سعید عابدؔ میں کل آٹھ مجموعہ ہائے نعت شامل ہیں۔جون 2001ء سے جولائی 2011ء تک کہی گئی نعتیہ شاعری اس میں موجود ہے۔ مجموعہ ہائے نعت نجات، زیارت، رسائی، قبولیت، عافیت، ودیعت، آبنائے گداز، انوارِ خاطر سے یہ کلیاتِ خلد نظر مزین ہے۔ 93؂

کلیاتِ عابد سعید عابدؔ پر لکھنے والوں میں بشیر حسین ناظم، قمر رعینی، ڈاکٹر ساجد الرحمن، اختر ہوشیارپوری، افتخار عارف، حکیم سیّد محمود احمد سرو سہارنپوری، عزیز احسن، نیساں اکبر آبادی، ڈاکٹر رشید نثار، ڈاکٹر احمد قریشی، اختر امام رضوی، ڈاکٹر افضال احمد، پروفیسر ڈاکٹر احسان اکبر، پروفیسر سجاد حسین راجا، سلطان رشک، پروفیسر نسیم تقی جعفری، سرور انبالوی، ابوعمار، پروفیسر اعجاز احمد، ثاقب امام رضوی، شیراز طاہر، صفدر حسین شاہ اور ماجد وفاؔ عابدی کے نام شامل ہیں۔94؂

پیدائشی نام محمد عابد سعید اور تخلص عابدؔ ہے۔ یکم اپریل 1948ء کو پیدا ہوئے۔ بی اے، بی ایڈ کرکے دسمبر 1969ء میں ہیڈماسٹر کے منصب سے ریٹائرمنٹ لی۔ 95؂

آپ کے والد چودھری غلام محمد خان مرحوم سابق ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ اسلامیہ ہائی اسکول گوجرخان رہے۔ حضرت قبلہ بابو جی (گولڑہ شریف) سے نسبت بیعت حاصل ہے۔ 1967ء میں پہلی غزل اُردو میں کہی۔ پروفیسر شریف کنجاہی سے تلمذ حاصل تھا۔ 1975ء میں پہلی نعت کہنے کا شرف حاصل ہوا۔

عابد سعید عابدؔ کی مستقل سکونت بڑکی جدید، گوجرخان میں ہے۔

عابد سعید عابدؔ کی نعتیہ شاعری وارداتِ قلبی کی آئینہ دار ہے۔ تسلسل کے ساتھ نعتیہ شاعری کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کا شمار زودگو شعرا میں ہوتا ہے۔ سادہ انداز میں معنوی شعر کہتے ہیں۔ بحریں عموماً مترنم اور چھوٹی ہوتی ہیں۔ سادگی اور روانی کا یہ حسن قاری کو متاثر کرتا ہے۔

نجات ترتیب کے لحاظ سے آپ کا پہلا کلام نعتیہ ہے۔ خلد نظر کلیات کا آغاز بھی نجات سے ہوا ہے۔ ’’دعائے نیم شبی‘‘ کے عنوان سے پہلی نعت کے اشعار ملاحظہ کیجیے۔

نعت کہنے کا قرینہ دے مجھے

معرفت کا تو خزینہ دے مجھے

سرورِ عالم کی مدحت کے لیے

پاک سوچوں کا دفینہ دے مجھے 96؂

’’حرف دعائے دل‘‘ کے عنوان سے اس کتابِ کا آخری قطعہ دیکھیے۔

میری محنت قبول ہو جائے

کچھ تو قیمت وصول ہو جائے

نعت کہتا ہوں اس لیے عابدؔ

مجھ سے راضی رسول ہو جائے 97؂

نور سے نور تک (کلیاتِ حمد و نعت) شاعر علی شاعرؔ فروری 2012ء

’’نور سے نور تک‘‘ (کلیاتِ حمد و نعت) شاعر علی شاعرؔ کے مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ہے جس میں حمد، نعت، منقبت، مناجات، سلام اور متفرقات شامل ہیں۔ فروری 2012ء راحیل پبلی کیشنز، اُردو بازار کراچی سے طبع ہوئی۔ 816 صفحات پر محیط اس کتاب کی قیمت750/- روپے ہے۔98؂

’’نور سے نور تک‘‘ شاعر علی شاعر کی کلیات میں مطبوعہ و غیر مطبوعہ دس مجموعہ ہائے کلام حمد و نعت، مناقب و متفرقات شامل ہیں۔ ارمغان حمد، قادر مطلق، صاحب خیرالبشر، الہام کی بارش، قاسم دوجہاں، شاخ نسبت، دل ہے یا مدینہ، دل کا چین مدینہ، انوارِ حرم، عقیدت۔ 99؂

نور سے نور تک میں لکھنے والے قلم کار میاں راحیل، شاعر علی شاعر، ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی، شاہد بخاری، عشرت رومانی، وقار یوسف عظیمی، طاہر سلطانی، تنویر پھول، پروفیسر آفاق صدیقی، شارق بلیاوی، محمدیوسف ورک، عارف منصور، ڈاکٹر سیّد صابر علی ہاشمی، پروفیسر رئیس فاطمہ، ڈاکٹر عاصیؔ کرنالی، احمد صغیر صدیقی، مفتی عبدالواحد مسافر، جان کاشمیری، شہزادؔ احمد، ڈاکٹر بشیر عابد، پروفیسر یونس حسن، نسیم انجم، گوہر ملسیانی، جاوید رسول جوہر اشرفی۔

پیدائشی نام شاعر علی اور تخلص شاعرؔ ہے۔ مدینۃ الاولیاء ملتان میں 20 جون 1966ء کو پیدا ہوئے۔ پرائمری اور میٹرک کی تعلیم آپ نے ملتان میں ہی حاصل کی۔ انٹر، بی اے، ایم اے (اُردو) بی ایڈ اور ایم ایڈ (سائیکالوجی) کی تمام تعلیم عروس البلاد، روشنیوں کے شہر کراچی میں مکمل کی۔

شاعر علی شاعر ہمارے عہد کے ایک متحرک اور فعال نعت کے خدمت گزار ہیں۔ شعبۂ نعت کے لیے آپ روز و شب گزارتے ہیں۔ مشق شعر و سخن اور ریاضت فکر و فن سے نبردآزما ہیں۔ وہ دن دور نہیں کہ آپ کا شمار پختہ شعر کہنے والوں میں ہونے لگے گا۔

نور سے نور تک کلیاتِ حمد و نعت کا آغاز اس حمد پاک سے ہوا ہے۔ شعر ملاحظہ کیجیے۔

گنہ سے ہم کو بچانے والا، خدا ہمارا، خدا ہمارا

خطائیں ساری مٹانے والا، خدا ہمارا، خدا ہمارا

وہی ہے حاجت روا بھی لوگو، وہی ہے مشکل کشا بھی لوگو!

ہے کام مشکل میں آنے والا، خدا ہمارا، خدا ہمارا100؂

شاعر علی شاعرؔ کی حمدوں کے بعد نعتیں شروع ہوتی ہیں۔اس کلیاتِ حمد و نعت کی سب سے پہلی نعت کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

تم نے بخشا زندگی کو بندگی کا ارتقا

یوں مسلسل ہو رہا ہے آدمی کا ارتقا

جب رسالت کی کرن چمکی خدا کے حکم سے

تب ہوا غارِ حرا میں روشنی کا ارتقا 101؂

کلیاتِ صائمؔ چشتی (اُردو نعت) تدوین صاحبزادہ لطیف ساجد چشتی اکتوبر 2012ء

’’کلیاتِ صائم چشتی‘‘ حضرت صائمؔ چشتی کی اُردو نعت پر مشتمل ہے جس کی ترتیب و تدوین کا شرف آپ کے بڑے صاحبزادے محمد لطیف ساجد چشتی کو حاصل ہے۔ اس کے ناشر چشتی کتب خانہ فیصل آباد ہیں۔ اکتوبر 2012ء میں شائع ہونے والی اس کلیات کے صفحات 704 ہیں۔ بڑے سائز میں طبع ہونے والی اس کلیات پر ہدیہ درج نہیں۔ 102؂

کلیاتِ صائم چشتی میں صائم چشتی کی حسب ذیل کتب کا صرف اُردو کلامِ نعتیہ شامل ہے۔ فردوسِ نعت، ارمغانِ مدینہ، بہاراں مسکراپیاں، حسن کائنات، جان بہار، جان کائنات، کعبے دا کعبہ، نظارے، نور دا چشمہ، نور دے خزینے، نور ای نور، نور دا ظہور، روحِ کائنات، شاہِ خوباں، شان کائنات، یا محمد، نوائے صائم اوّل، دوم، سوم، چہارم ، جلوے، میلادِ صائم، ن و القلم، صل علیٰ محمد۔

صائم چشتی کی کلیات اُردو نعت کے آخری صفحات میں دو اور مزید کلیات کا ذکر ہے۔ کلیاتِ صائم چشتی (حصہ مناقب) و کلیاتِ صائم چشتی (حصہ رُباعیاں تے نظماں)

نورالزماں نوری (فاضل منہاج القرآن یونیورسٹی) نے صائم چشتی کا تفصیلی اور معلوماتی تعارف رقم کیا ہے۔ دیگر اہل قلم کے اقتباسات بھی کلیات میں موجود ہیں۔ سیّد امین علی نقوی، محمد علی ظہوری، ڈاکٹر ریاض مجید، پروفیسر مفتی عبدالرؤف، سیّد محمد طاہر کاظمی۔

صائم چشتی کا پیدائشی نام شیخ محمد ابراہیم، صائمؔ تخلص اور چشتی نسبت ہے۔ دسمبر 1932ء میں قصبہ گنڈی ونڈ، ضلع امرتسر (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق شیخ برادری اور والد کا نام شیخ محمد اسماعیل تھا۔

اسکول کی تعلیم لوئر مڈل سے نہ بڑھ سکی۔ درسِ نظامی کیا، دینی تعلیم کے علاوہ آپ نے طبیہ کالج سے طب یونانی میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ 1948ء میں سلسلہ چشتیہ صابریہ کے حضرت پیر سید محمد علی شاہ کے دست حق پر بیعت ہو کر خلافت و اجازت سے سرفراز ہوئے۔ صائم چشتی صرف ایک شاعر ہی نہ تھے بلکہ اُردو اور پنجابی زبان کے نامور ادیب، جید عالم اور محقق تھے۔ آپ کی چند اہم تصانیف مشکل کشا، البتول، خاتونِ جنت، ابوبکر قرآن کی روشنی میں ’’الصدیق‘‘ اور شہید ابن شہید ہیں۔

صائم چشتی کا ا نتقال 22 جنوری 2000ء، ۱۴؍ شوال المکرم ۱۴۲۰ھ کو رات کے وقت ہوا۔ 103؂

آپ کا مزار فیصل آباد میں ہے۔ آپ کی مشہور نعتوں کا ایک ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

تو شاہِ خوباں تو جانِ جاناں ہے چہرہ اُم الکتاب تیرا

نہ بن سکی ہے نہ بن سکے گا مثال تیری جواب تیرا 104؂

کملی والے نگاہِ کرم ہو اگر پھر دوا چاہیے نہ شفا چاہیے

میں مریض محبت ہوں مجھ کو تو بس اِک نظر یا حبیب خدا چاہیے 105؂

کملی والے میں قرباں تری شان پر سب کی بگڑی بنانا ترا کام ہے

ٹھوکریں کھا کے گرنا میرا کام ہے ہر قدم پہ اُٹھانا تیرا کام ہے 106؂

نوری محفل پہ چادر تنی نور کی نور پھیلا ہوا آج کی رات ہے

چاندنی میں ہیں ڈوبے ہوئے دوجہاں کون جلوہ نما آج کی رات ہے 107؂

ضروری نوٹس

(محمد سلیم چودھری نے اپنی مرتبہ کتاب ’شعرائے امرتسر کی نعتیہ شاعری‘ (مطبوعہ : لاہور، 1996ء) صفحہ 164 پر صائم چشتی کا سال پیدائش 1933ء اور طاہر سلطانی نے بھی اپنی کتاب ’اُردو حمد کا ارتقاء‘ کے صفحہ 127پر 1933ء ہی لکھا ہے، جبکہ کلیات صائم چشتی کے حوالے سے دونوں حضرات کی معلومات درست نہیں۔ اصل سال پیدائش دسمبر 1932ء ہے۔)

کلیاتِ بیدم ؔ وارثی بیدمؔ شاہ وارثی 2012ء

’’کلیاتِ بیدمؔ ؔ وارثی‘‘ بیدم شاہ وارثی کے مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ہے۔ جسے 2012ء، میں عبداللہ اکیڈمی، الکریم مارکیٹ اُردو بازار لاہور نے شائع کیا ہے۔ مجلد شائع ہونے والی کلیاتِ بیدم 396 صفحات پر مشتمل ہے 108؂ کلیاتِ بیدم وارثی کے سرورق پر بیدمؔ وارثی کی روایتی شبیہ موجود ہے۔

مصحفِ بیدم اور ارمغانِ بیدم ’’کلیات بیدم وارثی‘‘کی زینت ہیں۔ کلیاتِ بیدم کوئی نیا کام نہیں ہے۔ پرانی دونوں کتب کو من و عن شائع کر دیا گیا ہے۔ تعارفی یا سوانحی معلومات سے یہ کلیات عاری ہے۔ اس نئے کام پر نئے انداز سے کام نہیں ہو سکا،جس کی اشد ضرورت ہے۔

کلیات اور مصحف بیدم، ارمغان بیدم پر لکھنے والوں میں یوسف مثالی، بیدم وارثی، حسن نظامی دہلوی، مولانا محمد صبغۃ اللہ شہید انصاری رزاقی القادری، علامہ بیخودؔ بدایونی، مولانا سیّد افقر موہانی وارثی، حکیم ابوالعُلا ناطق لکھنؤی، ڈاکٹر متین قزلباش، شفق عمادپوری، حکیم سیّد احمد وارثی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

بیدمؔ وارثی ۱۲۹۳ھ مطابق 1876ء میں اٹاوہ یوپی (نیا شہر) (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ سیّد نثار اکبر آبادی (آگرہ) کے تلامذہ میں شامل ہو گئے۔ حضرت حاجی وارث علی شاہ کے دست حق پر بیعت ہو کر احرام پوش ہو گئے۔ آپ سراج الشعرا اور لسان الطریقت کے لقب سے نوازے جاتے تھے۔

آپ کی تاریخ وصال ۸؍ رمضان المبارک ۱۳۵۵ھ مطابق 24 نومبر 1936ء ہے۔ شاہ اویس کے گورستان دیوا شریف ضلع بارہ بنکی (یوپی، انڈیا) میں مدفون ہیں۔ 109؂

بیدمؔ وارثی کے کلام کو اُردو اور ہندی زبان میں شہرت دوام حاصل ہے۔ کلامِ بیدم سے اُردو زبان کے قالب میں دم آگیا ہے کلامِ بیدم مردہ دلوں کے لیے نسخہ کیمیا اور اکثیر ہے۔ صیقل اور زنگ آلود قلب و اذہان کے لیے کلامِ بیدمؔ نئی زندگی کی نوید اور سکون و طمانیت کا باعث ہے۔بیدمؔ وارثی صرف شاعر ہی نہیں بلکہ عارفِ کامل بھی تھے۔ کلامِ بیدم میں عارفانہ رنگ، کلام کی جان ہے۔

کلامِ بیدمؔ کی مقبولیت کا ایک زمانہ معترف ہے۔ بعض کلامِ نعتیہ تو بہت ہی مقبول خاص و عام ہیں۔ چند مشہور نعتوں کے منتخب اشعار ملاحظہ کیجئے۔

آئی نسیم کوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم

کھنچنے لگا دل سوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم 110؂

عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول

کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسول

عجب تماشا ہو میدانِ حشر میں بیدمؔ

کہ سب ہوں پیش خدا اور میں روبروئے رسول 111؂

محشر میں محمد کا عنوان نرالا ہے

اُمت کی شفاعت کا سامان نرالا ہے

مضمون اچھوتے ہیں مفہوم انوکھے ہیں

دیوانوں میں بیدمؔ کا دیوان نرالا ہے 112؂

میرا دل اور مری جان مدینے والے

تجھ پہ سو جان سے قربان مدینے والے 113؂

ضروری نوٹس

(طاہر سلطانی کا مرتب کردہ تذکرہ ’اُردو حمد کا ارتقاء‘ (مطبوعہ : جہانِ حمد پبلی کیشنز، کراچی، 2004ء) 632صفحات پر مشتمل ہے۔ اس تذکرے کے صفحہ 103 پر طاہر سلطانی نے بیدم وارثی کے حوالے سے تحریر کیا ہے ’’بیدم وارثی ۱۳۰۳ھ میں پیدا ہوئے ۱۳۶۳ھ میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔‘‘

’تذکرہ شعرائے وارثیہ‘کے مرتب ساگر وارثی کے مطابق بیدم وارثی ۱۲۹۳ھ مطابق 1876ء میں پیدا ہوئے۔ اور تاریخ وصال ۸؍رمضان المبارک ۱۳۵۵ھ مطابق 24 نومبر 1936ء ہے۔

متذکرہ سال پیدائش اور تاریخ وصال کی روشنی میں طاہر سلطانی کی دونوں باتیں درست نہیں۔)

کلیاتِ مظہر (حافظ مظہرالدین مظہرؔ ) مرتب : ارسلان احمد ارسلؔ فروری 2013 ء

’’کلیاتِ مظہرؔ ‘‘ حافظ مظہرالدین مظہرؔ کے متفرق مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ہے۔ اس کی تحقیق و ترتیب کی سعادت ارسلان احمد ارسل کے حصہ میں آئی ہے۔

فروری 2013ء میں ارفع پبلشرز، بی۔سمیع سینٹر غزنی اسٹریٹ، 38۔اُردو بازار لاہور نے اسے شائع کیا ہے۔ 1168 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا ہدیہ 800/- روپے ہے۔ 114؂

’’کلیاتِ مظہر‘‘ میں نور و نار (مظہر کی غزلیں)، شمشیر و سناں (مظہر کی نظمیں)، حرب و ضرب (مظہر کی نظمیں، تجلیات (مظہر کی نعتیں)، جلوہ گاہ (مظہر کی نعتیں)، بابِ جبریل (مظہر کی نعتیں)، میزاب (مظہر کی نعتیں) یعنی کل سات مجموعہ ہائے کلام شامل ہیں جس میں سے چار الحمدللہ نعتیہ شاعری پر مشتمل ہیں۔ 115؂

حافظ مظہر کا حقیقی نام محمد مظہرالدین ہے۔ ادبی پہچان مظہرالدین مظہر اور تخلص بھی مظہرؔ ہے۔ حافظ مظہرالدین ۱۳۳۲ھ مطابق 1914ء میں ست کوہا ضلع گرداس پور (انڈیا )میں پیدا ہوئے۔ آپ کا آبائی وطن رم داس تحصیل رچنالہ ضلع امرتسر تھا۔ 116؂

آپ کے والد ماجد حضرت مولانا نواب الدین چشتی عظیم بزرگ اور اسلامی تعلیمات کے زبردست مبلغ تھے۔ حافظ صاحب کے پیرو مرشد حضرت خواجہ سراج الحق چشتی اور اُستاذِ فن علامہ سیماب اکبر آبادی تھے۔

حافظ مظہر الدین کا انتقال 22 مئی 1981ء کو ہوا۔ آپ کا مزار چھتر شریف شاہراہِ مری میں موجود ہے۔ 117؂

کلیاتِ مظہر میں لکھنے والے افتخار عارف، خورشید رضوی، ارسلان احمد ارسل، پروفیسر انوار احمد زئی، ڈاکٹر عزیز احسن، ڈاکٹر محمد اجمل نیازی، نذر صابری، مرتضیٰ احمد میکش، نصیرالدین نصیر گولڑوی، عبدالعزیز خالد، حفیظ جالندھری، نسیم حجازی، حافظ مظہرالدین مظہر، محمد ایوب، احسان دانش، پیر کرم شاہ الازہری اور حفیظ تائب شامل ہیں۔

کلیاتِ مظہرؔ میں زمانی اعتبار سے مظہر کی غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ ’’تجلیات‘‘ سے مظہر کی نعتوں کا سفر شروع ہوتا ہے۔ تجلیات کی پہلی نعت سے قلب و جاں کو معطرکیجیے۔

آؤ کہ ذکر حسن شہ بحر و بر کریں

جلوے بکھیر دیں شب غم کی سحر کریں

مل کر بیاں محاسن خیرالبشر کریں

عشق نبی کی آگ کو کچھ تیز تر کریں 118؂

کلیاتِ مظہر کے آخری صفحات پر حافظ مظہرالدین مظہرؔ کی آخری نعت جو مرض الموت کے دوران 5مئی 1981ء کے قریب کہی گئی، اُس کے اشعار ملاحظہ کیجیے۔

یہ دوری و مہجوری تا چند مدینے سے

اے جلوۂ رعنائی، لگ جا مرے سینے سے

اب میری لحد میں بھی خوشبوئے مدینہ ہے

میں خاکِ شفا اِک دن لایا تھا مدینے سے 119؂

کلیاتِ ریاضؔ سہروردی (حضرت ریاض الدین سہروردی) مرتب : ڈاکٹر شہزاد احمد دسمبر 2013ء

’’کلیاتِ ریاضؔ سہروردی‘‘ حضرت سیّد محمد ریاض الدین سہروردی کے متعدد مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ہے۔ راقم الحروف (شہزاد احمد) نے مع مقدمہ و تعلیقات کے ساتھ اسے مرتب کیا ہے۔ دسمبر 2013ء میں مرکزی انجمن عندلیبانِ ریاضِ رسول جامع بغدادی مسجد مارٹن کوارٹرز تین ہٹی کراچی نے اسے طبع کیا ہے۔ 1154 صفحات پر محیط کلیات کی قیمت 1500/- روپے ہے۔ 120؂

’’کلیاتِ ریاض سہروردی‘‘ میں ریاضِ رسول (حصہ اوّل)، ریاض رسول (حصہ دوم)، دیوانِ ریاض، ریاض رسول (حصہ سوم)، تعریف و ثنائے محمد (انگریزی)، غیر مطبوعہ کلامِ نعتیہ اور نعتیہ گلدستوں کی تمام اشاعتیں شامل ہیں۔ حضرت ریاض سہروردی کے سب سے چھوٹے صاحبزادے اور جانشین قاری سیّد محمد اعجازالدین سہروردی نے آپ کی کلیات کو دیدہ زیب انداز میں شائع کرایا ہے۔نعتیہ کلیات کی تاریخ اور نعتیہ ادب میں یہ ایک مثالی اور گراں قدر ا ضافہ ہے۔

پیدائشی نام سیّد محمد ریاض الدین اور ریاضؔ تخلص ہے۔ ابتدائی پہچان ریاض امرتسری اور بعدازاں ریاض سہروردی زندگی بھر قائم رہی۔ ۱۸؍ رجب المرجب ۱۳۳۷ھ مطابق 4 اپریل 1919ء کو جے پور (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ ۴؍ ذی الحج ۱۴۱۲ھ مطابق 28جنوری 2001ء بروز بدھ بوقت اذانِ مغرب 82 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ آپ کا مزار جامع بغدادی مسجد، تین ہٹی کراچی میں مرجع خلائق ہے۔ 121؂

آپ کے والد ماجد مفتی سید محمد جلال الدین چشتی نظامی کاشمیری ممتاز عالمِ دین، اُردو، فارسی، عربی اور کاشمیری زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ حضرت ریاض سہروردی سیّد ہیں اور آپ کا سلسلہ نسب درجہ بہ درجہ ہوتا ہوا سیّدنا علی المرتضیٰ، شیر خدا (رضی اللہ عنہ) سے جا ملتا ہے۔ آپ مسلکاً سنی (حنفی) اور مشرباً سہروردی، قادری، چشتی اور نقشبندی ہیں۔ 122؂

حضرت ریاض سہروردی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی۔ شاعری میں ابتداً اپنے والد سے اور پھر ماسٹر روشن دین روشن امرتسری سے مشورۂ سخن کرتے رہے۔ آپ کی زندگی کا عملی آغاز نعت خوانی سے ہوا۔ آپ کا شمار ممتاز و معروف علمائے اہلسنّت میں ہوتا ہے۔آپ کی نعت خوانی اور مسلسل کہی جانے والی نعت گوئی نے آپ کو بامِ عروج بخشا۔

نعت خوانی سے نعت گوئی تک آپ کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ آپ کے ذکر کے بغیر پاکستان میں نعتیہ منظرنامہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ انجمن عندلیبانِ ریاض رسول پاکستان کا قیام، سالانہ منعقد ہونے والی کل پاکستان محفل نعت اور نعت خوانوں کی تربیت کے لیے سب سے پہلے نعت کالج کا قیام آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔

حضرت ریاض سہروردی کی نعتیہ شاعری پر لکھنے والوں میں صاحبزادہ سیّد فیض الحسن، حضرت پیر دیول شریف، حضرت علامہ شفیع اوکاڑوی، مولانا محمد حسن حقانی، پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری، شبنم رومانی، اقبال احمد صدیقی، مولانا فاروق احمد قادری، صاحبزادہ سید علی اطہر رسولنمائی، میر خلیل الرحمن، ڈاکٹر شہزاد احمد، سید صبیح الدین صبیح رحمانی، ڈاکٹر عزیز احسن، ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی، پروفیسر عظیم ایم میاں، پروفیسر سیّد محمد بدیع الدین سہروردی، سیّد محمد فصیح الدین سہروردی، سیّد محمد اعجاز الدین سہروردی، اور نبیرہ سیّد محمد نجم الدین سہروردی شامل ہیں۔

کلیاتِ ریاض سہروردی کے ریاض رسول حصہ اوّل سے نعتیہ شاعری کا حسن آغاز ہوا ہے۔ پہلی نعت جھولنا کے عنوان سے ہے :

شاخ طوبیٰ پہ کیا خوشنما جھولنا

نور والے کا ہے نور کا جھولنا

ہے بلاشک بڑا دل رُبا جھولنا

دستِ قدرت سے کھینچا گیا جھولنا

کیوں نہ دکھلائے شانِ خدا جھولنا 123؂

’’کلیاتِ ریاض سہروردی‘‘ کی آخری نعت ملاحظہ کیجئے:

مصطفی آئے ہیں باطل کو مٹانے کے لیے

شمع توحید کی دُنیا میں جلانے کے لیے

ہاتھ بخشے تجھے خالق نے، زباں دی ہے ریاضؔ

نعت لکھنے کے لیے، نعت سنانے کے لیے 124؂

ضروری نوٹس

(۱) شعرائے امرتسر کی نعتیہ شاعری کے مؤلف محمد سلیم چودھری نے لکھا ہے کہ ’’آپ کی پیدائش امرتسر میں ہوئی۔‘‘ سیّد محمد نجم الدین سہروردی کے مرتب کردہ ’’کتابچہ ریاض سہروردی‘‘ (مطبوعہ: تنظیم سہروردیہ قلندریہ، کراچی، سن ندارد) کی روشنی میں شعرائے امرتسر کی نعتیہ شاعری کے مؤلف کی یہ بات درست نہیں۔ آپ کی پیدائش جے پور (انڈیا) میں ہوئی تھی۔

(ب) ’’اُردو حمد کا ارتقاء‘‘ کے مرتب طاہر سلطانی نے لکھا ہے کہ ’’علامہ صاحب 1938ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ 2000ء کو کراچی شہر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔‘‘ ص 124۔ طاہر سلطانی کی تینوں باتیں درست نہیں۔ سال پیدائش 1919ء، جائے پیدائش جے پور (انڈیا) اور سالِ وفات 28فروری 2001ء ہے۔

ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ نے اپنی گراں قدر تالیف ’’وفیات اہل قلم‘‘ (مطبوعہ : اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، 2008ء) میں 15اگست 1947ء تا 14اگست 2007ء تک رخصت ہو جانے والے پاکستانی اہل قلم کے کوائف اور تواریخ وفات تحقیقی انداز میں جمع کیے ہیں۔ ڈاکٹر سلیچ نے صفحہ 184 پر حضرت ریاض سہروردی کا مختصر مگر جامع تعارف ’’تذکرہ انوارِ علمائے اہل سنت سندھ‘‘ کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ یہ تعارف مختصر ہونے کے باوجود جامعیت کے حسن سے آراستہ ہے۔ اختصار کے بعد بھی تمام ضروری معلومات ایک نظر میں موجود ہیں جنھیں ہمیشہ تحسین کی نظر سے دیکھا جائے گا۔

صاحبزادہ سیّد محمد زین العابدین راشدی قاسمی نے اپنی تحقیق و ترتیب کردہ ’’تذکرہ انوارِ علمائے اہل سنت سندھ‘‘ (مطبوعہ : زاویہ پبلشرز، لاہور، 2006ء) صفحہ 276 تا 278 پر حضرت ریاض سہروردی کا ذکر کیا ہے۔ سرزمین سندھ سے تعلق رکھنے والے تین سو سے زائد علماء و مشائخ کی علمی اور ادبی خدمات پر مشتمل یہ عظیم الشان تذکرہ ہے۔ جسے فاضل نوجوان مؤلف نے عرق ریزی اور جاں کاری سے ترتیب دیا ہے۔ اس کام کی جتنی بھی ستائش کی جائے وہ کم ہے۔ ایسے کام بار بار دیکھنے میں نہیں آتے۔)

کلیات شاہ انصارؔ الٰہ آبادی مرتب:سیّد خالد حسن رضویؔ امروہوی جون 2014ء

’’کلیاتِ شاہ انصارؔ اِلٰہ آبادی‘‘ حضرت شاہ انصار حسین رحمانی الٰہ آبادی کی حمدو نعت پر مشتمل ہے۔ جس کو مرتب کرنے کا شرف پیرزادہ سیّد خالد حسن رضوی امروہوی کو حاصل ہے کتاب مکمل مرتب ہونے کے بعد دوبارہ اس کو ازسرنو راقم الحروف (شہزادؔ احمد) کی نگرانی میں ’’مقدمہ‘‘ کے ساتھ ترتیب دیا گیا۔ جون 2014ء میں ادبستان انصار، A-8بلاک A نارتھ ناظم آباد کراچی نے اس کی حسین طباعت کا اہتمام کیا ہے۔ 1040 صفحات پر محیط اس کلیات کا ہدیہ صرف دُعائے صحت برائے نزہت نسیم رضوی زوجہ پیرزادہ سید خالد حسن رضوی امروہوی و اہل خانہ ہے۔ 125؂

’’کلیاتِ شاہ انصارؔ الٰہ آبادی‘‘ میں آپ کی نعتیہ شاعری کا مکمل کلام شامل ہے۔ تحفہ نظامی، ہل اتیٰ، سبحٰن الذی اسریٰ، صلوٰۃ و سلام، اشک متبسم، آفتاب چشت، سراج السالکین، مرقع غوثیہ، مرقع محبوبیت، فردِ فرید، صبغت اللہ، کلامِ لاکلام، الحمدللہ الذی، مدینۃ العلم ، مظہر العلوم (اوّل و دوم) اور فیض العظیم (غیر مطبوعہ) بھی اب مطبوعہ ہے۔ اس طرح سے آپ کے 16 مجموعہ ہائے کلام اس کلیات کی زینت ہیں۔ 126؂

شاہ انصار حسین پیدائشی نام، انصارؔ تخلص اور ادبی شناخت شاہ انصار الٰہ آبادی ہے۔ درگاہِ سیّد صاحب الٰہ آباد (یوپی) انڈیا میں پیدا ہوئے۔ آپ کا سالِ ولادت ۲۹؍ ربیع الثانی ۱۳۳۳ھ مطابق 15مارچ 1915ء بروز جمعۃ المبارک ہے۔

قیام پاکستان کے بعد دسمبر 1947ء میں کراچی آگئے۔ 95 برس کی عمر میں ۸؍ ذی الحجہ ۱۴۲۸ھ مطابق 18 دسمبر 2007ء کو خوابِ اجل سے دوچار ہو کر اس جہانِ فانی سے عالم جاودانی کی سمت روانہ ہوئے۔ ساری زندگی مسلک اہلسنّت و جماعت کی عملی خدمت انجام دی۔ نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحریک سے عوام و خواص بالخصوص نوجوانوں کی تربیت سازی کا فریضہ احسن طور پر انجام دیا۔ آپ کا مقصد حیات نعت رسول کے فروغ سے عبارت ہے۔ 127؂ ’’کلیاتِ شاہ انصار الٰہ آبادی‘‘ کے لکھنے والوں میں پروفیسر منظرایوبی، پروفیسر سحر انصاری، خواجہ رضی حیدر، علامہ عباس کمیلی، مولانا محمد اصغر درس، سید صبیح الدین صبیحؔ رحمانی، جاوید وارثی، عقیل احمد عباسی، ڈاکٹر شہزاد احمد، پیرزادہ خالد حسن رضوی امروہوی، پروفیسر حسن اکبر کمال، ڈاکٹر اختر ہاشمی، ڈاکٹر عزیز احسن، حیات رضوی امروہوی، طاہر سلطانی، علامہ سید شاہ تراب الحق قادری، علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی، ابرار احمد رحمانی، الحاج شمیم الدین، حاجی حنیف طیب، محسن اعظم ملیح آبادی،پروفیسر خیال آفاقی، سید ناظر حسین رضوی، سید آباد میاں چشتی، خورشید حسن رضوی، ڈاکٹر اشرف اشرفی الجیلانی، نفیس القادری، حافظ محمد مستقیم، شاہد حسن القادری، عزیز لطیفی، عمران القادری اور یاسر حسن رضوی امروہوی شامل ہیں۔

’’کلیاتِ شاہ انصار الٰہ آبادی‘‘ کا سب سے پہلا مجموعہ نعت و مناقب تحفہ نظامی ہے۔ اس کی پہلی حمد رب ذوالجلال ملاحظہ کیجیے۔

اے خدائے جلیل روحِ جمال

تیرے ذرّے بھی! آفتاب اجلال

دونوں عالم کی جان بن جائے

جو بھی ہو تیری راہ میں پائمال 128؂

روحِ کونین کا ترجماں چاہیے

مدحِ احمد کو وہ زباں چاہیے

نعت پاکِ محمد کہاں میں کہاں

اس زمیں کو تو ہفت آسماں چاہیے129؂

ضروری نوٹس

(ا)کتابی سلسلہ ’تذکرہ‘کراچی کی خصوصی اشاعت شمارہ 28، مارچ 2010ء کے مرتب سیّد محمد قاسم نے لکھا ہے کہ ’’سید انصار حسین 1917ء میں الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔۔۔ سالکانِ راہِ طریقت کی راہبر شمع انجمن 2008ء میں پاپوش نگر کے قبرستان میں محو استراحت ہے۔‘‘ ص146۔ محمد قاسم کی دونوں باتیں درست نہیں۔ سال پیدائش 1915ء، سال وفات 18دسمبر 2007ء ہے۔

(ب) ماہنامہ ارمغان حمد، کراچی ’’شاہ انصار الٰہ آبادی حمد و نعت نمبر‘‘ خصوصی اشاعت، شمارہ 88-87، اپریل مئی 2011ء کے مدیراعلیٰ طاہر سلطانی نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ ’’شاہ صاحب حقیقی اللہ والے تھے۔ آپ 2004ء کو اپنے عزیز و اقارب اور سینکڑوں مریدوں کو سوگوار چھوڑ کر ملکِ عدم کے راہی ہوئے۔‘‘ ص14۔ طاہر سلطانی کی یہ بات درست نہیں۔ سالِ وفات 18 دسمبر 2007ء ہے۔

کلیاتِ راہی مولانا نذر محمد راہیؔ مرتب ڈاکٹر محمد اویس معصومی 2014ء

’’کلیاتِ راہیؔ ‘‘ مولانا نذر محمد راہیؔ مرحوم کے نعتیہ کلام پر مشتمل ہے۔ اس کے مرتب ڈاکٹر محمد اویس معصومی ہیں۔ سال اشاعت 2014ء ہے۔ تلاش حق فاؤنڈیشن، پی او بکس 8778صدر کراچی نے اس کی طباعت کا خوبصورت اہتمام کیا ہے۔ یہ مجلد کتاب 120صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی قیمت 150/- روپے ہے۔

’’کلیاتِ راہیؔ ‘‘ بھی مولانا نذر محمد راہیؔ مرحوم کا مختصر سا مجموعہ کلام ہے۔ جسے کلیاتِ راہی کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس کتاب کی ترتیب کے دوران راقم ا لحروف نے ڈاکٹر اویس معصومی کو مشورہ دیا تھا کہ اس کا نام کوئی اور تجویز فرما دیں۔ یہ کلیات کے زمرے میں شامل نہیں بلکہ ایک عام سا مجموعہ کلام ہے۔ موصوف مرتب نے فرمایا ’اس پر ضرور سوچیں گے۔‘ مگر کتاب بالآخر کلیات راہی کے نام سے ہی شائع ہوئی۔

کلیات راہیؔ کے لکھنے والو ں میں ڈاکٹر اویس معصومی، منظر علی عارفی اور ڈاکٹر شہزاد احمد شامل ہیں۔ جب کہ قطعات تاریخ (سال وصال) اور مادّہ ہائے تاریخ (سال وصال) معروف و محترم تاریخ گو، نعت گو و فارسی شناس محمد عبدالقیوم طارق سلطان پوری کی رشحات فکر کے آئینہ دار ہیں۔ کتاب کو اُردو اور سرائیکی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مولانا نذر محمد راہی کے بارے میں بنیادی معلومات توجہ دلانے کے بعد بھی موجود نہیں۔

مولانا نذر محمد راہی کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے راقم الحروف نے ’’راہی عقیدت‘‘ کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ جس کا صرف ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

’’راہی صاحب بھی طبع موزوں رکھتے تھے۔ اُنھوں نے سادہ انداز میں اپنے قلب کی دھڑکنوں کو شعری جامہ پہنایا ہے۔ یہ دل سے نکلی ہوئی باتیں ہیں جنھیں دل والے ہی خوب سمجھ سکتے ہیں۔ ممدوح محترم کی شاعری کو فن کی کسوٹی پر نہیں، صرف عقیدت کی نظر سے دیکھا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا، کیونکہ اس عقیدت کے راہی کی شاعری قلبی وارفتگی کی آئینہ دار ہے اور عقیدت کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے۔‘‘ 130؂

بلاشبہ کلیات راہیؔ ، اس کے مرتب ڈاکٹر محمد اویس معصومی کی اپنے اُستاذ گرامی سے عقیدت کا مظہر ہے۔ کتاب کو بہت عمدگی اور نفاست سے طبع کیا ہے۔ اس کتاب کی پہلی حمد ملاحظہ کیجیے۔

میرے مالک تیرا سہارا ہے

تو ہی تو آسرا ہمارا ہے

تیرا دستور ہے کرم کرنا

مشکلوں میں تجھے پکارا ہے

دین اسلام کی مدد فرما

کفر نے پھر سے سر اُبھارا ہے 131؂

فکر راہیؔ کی روانی اور سادگی اس حمد باری تعالیٰ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

مولانا نذر محمد راہیؔ نے اپنی نعتیہ شاعری میں اکثر اپنے قلب مضطر اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے روئے تاباں دیکھنے کی خواہش کا اظہار بڑی عمدگی سے کیا ہے۔ اس نعت کا مطلع بھی اِنھیں کیفیات کا آئینہ دار ہے۔ اس نعت میں مسلمانوں کے مصائب و آلام میں گِھر جانے کا ذکر بھی خوب ہے۔

ازل سے قلب مضطر میں ہے ارماں یا رسول اللہ

دکھا دو اب تو اپنا روئے تاباں یا رسول اللہ

نگاہِ لطف سے برباد قسمت کو بدل دیجے

مصائب میں گھرا ہے پھر مسلماں یا رسول اللہ 132؂

کلیاتِ ظہوری محمد علی ظہورؔ ی سن ندارد

’’کلیاتِ ظہوریؔ ‘‘ محمد علی ظہوریؔ کے نعتیہ کلام پر مشتمل ہے۔ سالِ اشاعت درج نہیں۔ خزینہ علم و ادب، الکریم مارکیٹ اُردو بازار لاہور نے اس کی طباعت کا اہتمام کیا ہے۔ 384 صفحات پر مشتمل کلیاتِ ظہوریؔ کی قیمت 225/- روپے ہے۔

کلیاتِ ظہوریؔ میں محمد علی ظہوریؔ کی چار نعتیہ کتب شامل ہیں ۔ جنھیں زمانی اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔ کلیات نگاری کی ترتیب میں یہی طریقہ معروف اور درست ہے۔ اس طریقے سے شاعری کا درجہ بہ درجہ ارتقا سامنے آجاتا ہے اور بیک نظر نعتیہ کتب بھی سامنے آجاتی ہیں۔ محمد علی ظہوری کی نوائے ظہوری، توصیف، کتھے تیری ثنا، صفتاں سوہنے رسول دیاں۔

’’کلیاتِ ظہوری‘‘ پر لکھنے والوں میں احمد ندیم قاسمی، پیر آفتاب احمد مجددی، اختر سدیدی، علامہ شبیر احمد ہاشمی، اشفاق احمد خاں، سعداللہ شاہ، عزیز حاصل پوری، ڈاکٹر رشید انور، حفیظ تائب شامل ہیں۔

محمد علی پیدائشی نام اور ظہوری تخلص ہے۔ 12 اگست 1932ء کو موضع آرائیاں علاقہ نواب صاحب لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد حاجی نور محمد نقشبندی ایک صوفی منش شخصیت کے مالک تھے۔ سترہ برس کی عمر میں میاں ظہورالدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ انھوں نے اپنے مرشد کے نام کو اپنے نام کا حصہ بنا لیا اور محمد علی سے محمد علی ظہوریؔ ہو گئے۔ ظہوری صاحب ایک عام اسکول ٹیچر تھے۔ انھوں نے نعت خوانوں کی تربیت کے لیے مجلس حسان کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا۔

الحاج محمد علی ظہوری قصوری 11 اگست 1999ء بروز بدھ صبح 10 بجے شریف میڈیکل سٹی ہاسپٹل رائے ونڈ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اسی روز شام چھ بجے نمازِ جنازہ ہوئی اور انھیں ان کے آبائی گاؤں ’’رائیاں‘‘ لاہور میں سپردِ خاک کردیا گیا۔

محمد علی ظہوری نے چار مرتبہ حج اور گیارہ مرتبہ عمرے کی سعادت حاصل کی۔ جبکہ انتقال سے 23 دن قبل روضہ رسول کے اندر درود و سلام پڑھنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ ظہوری صاحب کی نعت اور نعت خوانی کے اثرات پورے ملک پر چھائے رہے۔ نصف صدی تک نعت خوانی کی خدمات انجام دیں۔

آپ کے قابل ذکر شاگردوں میں قاری زبید رسول، عبدالستار نیازی، اختر قریشی، سلیم صابری، منیر ہاشمی، قاری افضال انجم، مختار صدیقی اور محمد سرور حسین نقشبندی شامل ہیں۔

کلیاتِ ظہوری سے ہم منتخب اشعار آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے

اللہ کی رحمت کے آثار نظر �آئے

منظر ہو بیاں کیسے الفاظ نہیں ملتے

جس وقت محمد کا دربار نظر آئے

آپ کو یہ صلوٰۃ و سلام روضہ پاک یعنی روضہ رسول کے اندر جا کر پڑھنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔

یارسول اللہ ترے در کی فضاؤں کو سلام

گنبد خضریٰ کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں کو سلام

آپ کی کہی آخری نعت جسے ان کے شاگرد سرور حسین نقشبندی نے انھیں لحد میں اُتارتے وقت پڑھا۔

یہ آرزو نہیں کہ دعائیں ہزار دو

پڑھ کے نبی کی نعت لحد میں اُتار دو

ضروری نوٹس

(سید محمد قاسم اپنے مرتب کردہ تذکرے ’پاکستان کے نعت گو شعرا (جلد سوم)، (مطبوعہ: جہانِ حمد پبلی کیشنز، کراچی، 2010ء) کے صفحہ 538 پر رقم طراز ہیں۔ ’’ثنائے حبیب، مدحِ رسول، نوائے ظہوری، کتھے تیری ثنا، صفتاں سوہنڑے رسول دیاں وغیرہ مجموعوں میں محمد علی ظہوری کے محبت و عقیدت کو جلوہ گر دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘

قاسم صاحب کی تحریر کردہ کتب کے نام اور تعداد بھی درست نہیں۔ ثنائے حبیب اور مدحِ رسول ظہوری صاحب کے مجموعہ ہائے کلام نہیں۔ کلیاتِ ظہوری کے حوالے سے موصوف کے کل چار مجموعہ ہائے کلامِ نعتیہ شائع ہوئے۔ جن کے نام یہ ہیں۔ نوائے ظہوری، توصیف، کتھے تیری ثنا، صفتاں سوہنے رسول دیاں۔)

کلیاتِ ضیاءؔ القادری بدایونی مرتب : ڈاکٹر شہزاد احمد (غیر مطبوعہ)

کلیاتِ ضیاء القادری غیر مطبوعہ ابھی ترتیب و تکمیل کے مراحل میں داخل ہے۔ ضیاء القادری بدایونی کا پیدائشی نام محمد یعقوب حسین تھا۔ ۲۲؍رجب ۱۳۰۰ھ بمطابق 2جون 1883ء میں بدایوں (انڈیا) کے مشہور و ممتاز ملاّ خاندان میں پیدا ہوئے۔ ضیاء القادری سات سال کی عمر میں والدہ اور والد گرامی ملاّ یاد حسین کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے تھے۔

والدین کے انتقال کے بعد ان کی خالہ اور خالو حضرت علی احمد اسیر بدایونی نقشبندی نے انھیں گود لے لیا۔ یہ اسیر بدایونی کی تربیت خاص کا کرشمہ تھا کہ مولانا ضیاء القادری اوائل عمر سے شعر و ادب کے علاوہ تصوف و طریقت کی طرف بھی مائل ہو گئے۔ عربی تعلیم حضرت مولانا شاہ عبدالرسول محب احمد قادری سے حاصل کی۔ واضح رہے کہ ضیاء القادری بدایونی حضرت اسیر بدایونی کے شاگرد تھے اور اسیر بدایونی مرزا غالب دہلوی کے شاگرد تھے۔

مولانا ضیاء القادری نے بے شمار نعتیں کہی ہیں، سینکڑوں طویل اور مختصر نظمیں سپردِ قلم کیں۔ ’’مولوی و پیشوا‘‘ میں مذہبی نوعیت کے تحقیقی و علمی مقالے اور مضامین لکھتے رہے۔ برصغیر پاک و ہند کا شاید ہی کوئی ایسا رسالہ ہوگا جس میں مولانا ضیاء القادری کی حمد و نعت اور سلام و منقبت شائع نہ ہوتی رہی ہوں۔ ماہنامہ ’’آستانہ‘‘ دہلی میں مولانا کے نام کے علاوہ ’’شاعر آستانہ‘‘ یا ’’شاعر خصوصی آستانہ‘‘ کے نام سے برسوں کلام چھپتا رہا۔

ضیاء القادری 1970ء میں قمری لحاظ سے 90 سال مکمل کر چکے تھے۔ 13 اگست 1970ء کو اذانِ فجر کا وقت ہوا کہ مولانا ضیاء القادری اپنے معبود برحق کی بارگاہ میں پہنچ گئے اور کنٹری کلب روڈ کراچی کے قبرستان میں مدفون ہیں۔

لسان الحسّان مولانا ضیاء القادری بدایونی کی تنہا شخصیت نعتیہ شاعری کے لیے ایک دبستان بن چکی تھی۔ سینکڑوں شعرا آپ سے اصلاح لیتے تھے۔ آپ کے چند قابل ذکر شاگردوں میں شکیل بدایونی، اخترالحامدی رضوی، ماہرالقادری، طالب انصاری، صوفی عبدالشکور کمبل پوش نظامی، ناظم جبل پوری، خادمی اجمیری، نیر الحامدی ضیائی، ماہر شکوہ آبادی، مختار اجمیری ضیائی، کاشف بالاپوری، جالب بدایونی، حفیظ وارثی ضیائی مین پوری، ہاشم بدایونی، پروانہ ضیائی، نسیم بستوی، وحید اجمیری، حشرالقادری، محشر بدایونی، صوفی رہبر چشتی اور رئیس بدایونی وغیرہم نے نعتیہ شاعری میں بلند مقام حاصل کیا۔

متذکرہ شعرا میں صرف چند کے علاوہ تقریباً تمام ہی صاحب کتاب ہیں بلکہ بعض شعرا تو صاحب دیوان نعت گو شعرا کی صف میں شامل ہیں اور یہی نہیں بلکہ دنیائے نعت گوئی میں ملک گیر شہرت کے حامل بھی ہیں۔ یہ بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ضیاء القادری کے شاگردوں نے اور پھر ان کے شاگردوں نے صنف نعت گوئی اور فروغ نعت گوئی میں بیش بہا و گراں قدر نعتیہ خدمات انجام دی ہیں۔

مولانا ضیاء القادری بدایونی وہ خوش نصیب اور زودگو شاعر ہیں کہ سب سے زیادہ آپ نے نعتیہ و منقبتیہ کلام کہا جو کثیر تعداد میں برصغیر پاک و ہند کے رسالوں اور ماہناموں میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ اس کے علاوہ آپ کے کئی نعتیہ شعری مجموعہ ہائے کلام بھی شائع ہو چکے ہیں۔ تاج مضامین ۱۳۴۵ھ، تجلیات نعت ۱۳۶۴ھ، آثارِ بے خودی ۱۳۳۴ھ، مرقّع شہادت ۱۳۵۸ھ (کربلا کے منظوم واقعات)، نغمہ ربّانی 1957ء (میلادیہ مثنوی)، جوارِ غوث الورا ۱۳۷۳ھ (بغداد و دیگر مقامات مقدسہ کا نظم و نثر میں منظوم سفرنامہ)، نغمہ ہائے مبارک ۱۳۶۹ھ (سلاموں کا مجموعہ)، چراغِ صبح جمال ۱۳۷۸ھ (قصائد نورانی)، دیارِ نبی 1950ء (منظوم سفرنامہ حج)، آئینہ انوار 1967ء ستارۂ چشت 1951ء اور آپ کا ایک ضخیم نعتیہ دیوان ’’خزینہ بہشت‘‘ 1959ء میں کراچی سے شائع ہوا۔

کلیاتِ ضیاء القادری بدایونی مرتب کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایسا عظیم نعت گو جس کے تذکرے اور اس کے سینکڑوں شاگردوں کے تذکروں سے اُردو کا نعتیہ ادب مالا مال ہے۔ مقامِ حیرت ہے کہ مولانا کی کلیات کی جانب کہیں سے بھی کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ مولانا ضیاء القادری کی نعتیہ کلیات اور دیگر کتب شایانِ شان طریقے سے نعتیہ ادب کی زینت ہوتیں، مگر نہ جانے ایسا کیوں نہیں ہو سکا۔ اب راقم الحروف نے اس کام کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ اللہ رب العزت سے التجا ہے کہ وہ مخلصین نعت کے تعاون سے اس نعتیہ کلیات کو جلد از جلد منصہ شہود پر لائے۔

مولانا ضیاء القادری بدایونی کی پوری زندگی حمد و نعت سے عبارت ہے جس کا واضح اظہار آپ کے اشعار میں موجود ہے۔ پہلے ایسے اشعار پیش کیے جارہے ہیں جن میں مولانا نے اپنے مشرب کا اظہار کیا ہے۔

حمدِ رب، نعتِ مصطفی کے سوا

ہم سے کچھ اور اے ضیاؔ ء نہ ہوا

اعمال حسن کچھ پاس نہیں یوں عمر بسر ہوتی ہے ضیاءؔ

یا نعت محمد لکھتے ہیں یا حمد الٰہی کرتے ہیں

جس نے چمنِ شاہِ رسولاں نہیں دیکھا

اس نے بخدا گلشنِ رضواں نہیں دیکھا

خیرالبشر و ختم الرسل تم بخدا ہو

کونین میں تم سا کوئی انسان نہیں دیکھا

ہر وقت ہے نعتِ شہِ لولاک زباں پر

تم سا بھی ضیاءؔ کوئی ثنا خواں نہیں دیکھا

’’کلیاتِ عزیز خاکی‘‘ مرتب: ڈاکٹر شہزادؔ احمد (غیر مطبوعہ)

’’کلیاتِ عزیز خاکی‘‘ عزیزالدین خاکی القادری کی ابتدائی نعتیہ شاعری تا 2014ء پر مشتمل ہے۔ جس میں عزیزالدین خاکی کے تمام مطبوعہ نعتیہ شعری مجموعے اور نیا نعتیہ کلام جو 2014ء تک کہا ہے وہ بھی شامل ہے۔

عزیز الدین خاکی ابتدا میں دو نعتیہ انتخاب ’’انوارِ مدینہ‘‘ 1988ء اور ’نورالہدی‘‘ 1991ء بھی شائع کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اولیائے کرام کی مناقب پر مشتمل ایک انتخاب ’’مناقب اولیاء‘‘ بھی 1992ء میں اشاعت پذیر ہو چکا ہے۔ خاکی صاحب تسلسل سے حمد و نعت کہہ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کئی نعتیہ مجموعے اور ایک حمدیہ مجموعہ کلام بھی طبع شدہ ہے۔ ذکر خیرالوریٰ 1990ء، ذکر صلِّ علیٰ 1994ء، نغمات طیّبات 1996ء، الحمدللہ 2002ء (حمدیہ مجموعہ کلام)، بیّنات 2007ء، اور آئینہ صلِّ علیٰ2011ء زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکے ہیں۔

حبیبی یا رسول اللہ 1999ء، یا رسول اللہ کی ردیف میں کہی گئی نعتوں کا ایک یادگار انتخاب ہے۔ کتابی سلسلہ ’’دنیائے نعت‘‘ کراچی بھی خاکی القادری کی نعتیہ خدمات کا معتبر حوالہ ہے۔ عزیزالدین خاکی روز و شب حمد و نعت کی خدمت پر مامور ہیں۔ مخلص ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی شہرت اور مقبولیت میں اضافہ روزافزوں ہے۔

شیخ محمد عزیز الدین نام، تخلص خاکی اور نسبت قادری ہے۔ 20 فروری 1966ء میں پکا قلعہ حیدرآباد (سندھ) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی و ثانوی تعلیم کراچی میں حاصل کی۔ مستقل رہائش کراچی میں ہے۔ شاعری میں محمد یامین وارثی اور حضرت بابا سیّد رفیق عزیزی سے مشورۂ سخن لیتے رہے۔

’’کلیاتِ عزیز خاکی‘‘ راقم الحروف شہزادؔ احمد کا مرتب کردہ ہے۔ اسے بہت خوبصورتی اور اہتمام کے ساتھ چھوٹے سائز میں شائع کیا جارہا ہے۔ جس طرح چھوٹے سائز میں کلیاتِ اقبال اور کلیاتِ غالب شائع ہو چکی ہیں۔ الحمدللہ! یہ تمام کام ترتیب و تکمیل کے مراحل سے گزر کر حسن طباعت کی جانب بڑھ چکا ہے۔

زیورطباعت سے آراستہ ہونے کے بعد یقیناًاُردو نعتیہ ادب میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہوگا۔

عزیز الدین خاکی کے نعتیہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

ذرّے ذرّے میں عجب شان کی زیبائی ہے

خوب پیغام مدینے سے صبا لائی ہے

جسم ہے سارا جہاں، روح مرے آقا ہیں

ان کے صدقے سے دو عالم میں بہار آئی ہے

مجھ پہ موقوف نہیں عشقِ شہِ جنّ و بشر

جو بھی ہے وہ شہِ ابرار کا شیدائی ہے

مرتبہ سارے مراتب سے ہے اونچا تیرا

کون لکھ سکتا ہے قرآں سا قصیدہ تیرا

تیری خاطر ہوئی تخلیقِ دو عالم آقا

بزم کونین میں چھایا ہے اُجالا تیرا

تیرے اوصاف ، ترا خلق، تری شانِ عطا

منفرد ہے مرے سرکار سراپا تیرا

کلیاتِ صبیح رحمانی مرتب : ڈاکٹر شہزادؔ احمد (غیر مطبوعہ)

’’کلیاتِ صبیحؔ رحمانی‘‘ صبیح رحمانی کی ابتدائی نعتیہ شاعری سے لے کر 2014ء تک کی شاعری پر مشتمل ہے۔ صبیح رحمانی نعت گوئی کے دبستان میں وہ خوش نصیب شاعر ہیں کہ جن کی کہی نعتوں کو اُن کے سامنے ہی شہرتِ دوام حاصل ہو چکی ہے۔ ان کے نعت کہنے کا انداز اور نعت پڑھنے کا سلیقہ دونوں سننے والے کو متاثر کرتے ہیں۔ وہ نعت کہنے کی حقیقی روح سے واقف ہیں۔ ان کے قلب کی دھڑکنیں جب شعری جامے میں ڈھل کر سماعت گوش ہوتی ہیں تو قاری کے قلوب و اذہان میں بھی ہلچل سی مچ جاتی ہے۔ وہ صرف نعت سنتا ہی نہیں بلکہ نعت کے دوامی کیف و سرور کو بھی محسوس کرنے لگتا ہے۔ قلم کی اس دھنک رنگ اور اس قلبی پکار میں صبیح رحمانی کا وجود بھی شامل ہے۔ وہ صرف نعتوں کو قرطاس پر نہیں اُتارتے بلکہ وہ لوگوں کے قلوب میں نعتوں کے سرمائے کو منتقل کردیتے ہیں۔ اب یہ نعت صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ اُمت کی فریاد بن جاتی ہے۔ صبیح رحمانی کی اکثر نعتیں اُمت کی فریاد اور قلبی کیفیات کے طور پر نہ صرف معروف ہیں بلکہ زبان زد خلائق ہیں۔

سیّد صبیح الدین نام، صبیح تخلص اور نسبت رحمانی ہے۔ 27 جون 1965ء میں فردوس کالونی کراچی میں پیدا ہوئے۔ بی اے (شعبۂ سیاسیات)جامعہ کراچی سے کیا۔ مستقل رہائش کراچی میں ہے۔ حافظ محمد مستقیم، شاہ انصار الٰہ آبادی اور فدا خالدی دہلوی سے اصلاح لی۔

صبیح رحمانی کا سرمایۂ نعت مختصر ہونے کے باوجود توجہ کا مستحق ہے۔ صبیح رحمانی کے دو نعتیہ شعری مجموعے اوران کی نعتوں کے کئی انتخاب شائع ہو چکے ہیں۔ مگر اس کے باوجود لوگوں کی تشنگی برقرار ہے۔ روزبروز اس کی مانگ میں ا ضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی مانگ مقبولیت کی علامت ہے۔ راقم الحروف نے اپنے پی ایچ-ڈی کے مقالے ’’اُردو نعت پاکستان میں‘‘ اس حقیقت کا اظہار کیا ہے۔ یہ معلوماتی اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

’’صبیح رحمانی کی نعتیہ شاعری اگرچہ تعداد میں کم ہے ، مگر معیار شہرت اور اثرپزیری کے حوالے سے بہت زیادہ ہے۔ صبیح رحمانی کا پہلا مجموعہ کلام 1989ء میں ماہِ طیبہ کے نام سے شائع ہوا۔ جادۂ رحمت 1993ء دوسرا مجموعہ کلام ہے۔ صبیح رحمانی وہ مقبول عام نعت گو ہیں کہ ان کی نعتیہ شاعری سے متعلق کئی انتخاب شائع ہو چکے ہیں۔ خوابوں میں سنہری جالی ہے 1997ء، مرتب عزیز احسن (اب ڈاکٹر عزیز احسن)، سلام کے لیے حاضر غلام ہو جائے 2001ء، مرتب مقصود حسین اویسی، سرکار کے قدموں میں 2002ء، مرتب محمد محبوب، سرکار کے قدموں میں 2006ء، مرتب مدثر سرور چاند، سرکارِ دوعالم کی مدح و ثنا کے طفیل صبیح رحمانی کو نت نئے حوالوں سے نوازا جاتا ہے۔ صبیح رحمانی کی اُردو نعتیہ شاعری کی قبولیت کا یہ اعجاز ہے کہ اس کے انگریزی ترجمے بھی شائع ہوئے ہیں۔ ’’جادۂ رحمت‘‘ کا انگریزی ترجمہ جسٹس (ر) ڈاکٹر منیر احمد مغل اور ’’سرکار کے قدموں میں‘‘ کا انگریزی ترجمہ سارہ کاظمی کی علمی کاوش ہے۔ یہ دونوں انگریزی ترجمے 2009ء میں دیدہ زیب اور مثالی انداز سے شائع ہوئے ہیں۔‘‘ ص248

’’کلیاتِ صبیح رحمانی‘‘ کی اشاعت وقت کی ضرورت اور لوگوں کی تسکین کا باعث بھی ثابت ہوگی۔ نعتیہ کلیات کی دنیا میں ان شاء اللہ یہ کلیات بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ ’’کلیاتِ صبیح رحمانی‘‘ مرتب کرنے کا شرف بھی راقم الحروف شہزاد احمد کو حاصل ہے۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ اپنے حبیب پاک صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت کے طفیل ان تمام خدمت گزارانِ نعت کو صحت و عافیت کے ساتھ سلامت رکھے۔

صبیح رحمانی کی بہت ساری نعتیں قبولیت کی سند حاصل کرچکی ہیں۔ اکثر محافل میں صبیح رحمانی کی نعتوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ بہت سارے نعت خواں حضرات ان کے انداز میں اُن کی نعتیں محافل میں پیش کرتے ہیں۔ صبیح رحمانی کی اس نعت نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم ہیں۔

حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے

سلام کے لیے حاضر غلام ہو جائے

میں صرف دیکھ لوں ایک بار صبح طیبہ کو

بلا سے پھر میری دنیا میں شام ہو جائے

کوئی مثل مصطفی کا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا

کسی اور کا یہ رُتبہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا

اُنھیں خلق کرکے نازاں ہوا خود ہی دست قدرت

کوئی شاہکار ایسا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا



حوالہ جات

-1 نیرّ، نورالحسن (مرتب) کلیات نعت محسن کاکوروی اُترپردیش اُردو اکادمی لکھنؤ (انڈیا) ۱۹۸۲ء

-2 شائقؔ دہلوی، میر سیّد علی کلیاتِ شائق سید پبلی کیشنز ایم اے جناح روڈ کراچی ۱۹۹۴ء

-3 عاصیؔ کرنالی، ڈاکٹر تمام و نا تمام ۴۵۔شالیمار کالونی، بوسن روڈ، ملتان ۱۹۹۴ء

-4 شہزادؔ احمد، ڈاکٹر اُردو نعت پاکستان میں حمد و نعت ریسرچ فاؤنڈیشن، اُردو بازار، کراچی ۲۰۱۴ء

-5 صادق قصوری، محمد (مرتب) کلیاتِ راقب قصوری عمیر پبلشرز، میاں مارکیٹ، اُردوبازار، لاہور ۱۹۹۶ء

-6 شہزادؔ احمد (مرتب) مقصودِ کائنات (ادیب رائے پوری) مدحت پبلشرز، شمالی ناظم آباد، کراچی ۱۹۹۸ء

-7 رؤف امیر (مرتب) کلیاتِ ظہور (حافظ محمد ظہورالحق ظہورؔ ) معاذ پبلی کیشنز، اسلام آباد ۱۹۹۹ء

-8 بیچینؔ رجپوری بدایونی کلیاتِ بیچین وحدت کالونی، وحدت روڈ، لاہور ۲۰۰۳ء

-9 اعظم چشتی، محمد کلیاتِ اعظم خزینۂ علم و ادب، الکریم مارکیٹ اردو بازار، لاہور ۲۰۰۵ء

-10 تائبؔ ، عبدالحفیظ کلیاتِ حفیظ تائبؔ القمر انٹرپرائزز ، رحمن مارکیٹ اُردو بازار ، لاہور ۲۰۰۵ء

-11 نقشبندی، سرور حسین مدحت لاہور (حفیظ تائب نمبر) خصوصی نمبر3، اکتوبر تا مارچ ۲۰۱۱ء

-12 قادری، فریدالدین، ڈاکٹر کلیاتِ قادری (غلام رسول قادری) قادری پبلی کیشنز، سولجربازار، کراچی۲۰۰۵ء

-13 قادری، فریدالدین، ڈاکٹر سندھ کے اکابرین قادریہ کی علمی خدمات قادری پبلی کیشنز، سولجر بازار، کراچی۲۰۰۵ء

-14 ثاقب عرفانی (مرتب) حمد ربّ علا نعت خیرالوریٰ (راسخ عرفانی) ایس ایس فاروق مکینیکل انڈسٹریز، گوجرانوالہ ۲۰۰۶ء

-15 شبیہہ الحسن، سید، ڈاکٹر طاہرین (سید وحیدالحسن ہاشمی) الحسن پبلی کیشنز، اچھرہ، لاہور ۲۰۰۶ء

-16 حامدامروہوی (مرتب) سرمایہ رؤف امروہوی ڈائمنڈ پرنٹرز نئی دہلی (انڈیا) ۲۰۰۷ء

-17 سلطان احمد (مرتب) کلیاتِ منور (منورؔ بدایونی) جہانِ حمد پبلی کیشنز، اُردو بازار، کراچی ۲۰۰۸ء

-18 سلیم، محمد (مرتب) کلیاتِ اظہر مکان نمبر2/593-94، شاہ فیصل کالونی، کراچی ۲۰۰۹ء

-19 نیازیؔ ، عبدالستار کلیاتِ نیازیؔ نوریہ رضویہ پبلی کیشنز، گنج بخش روڈ ، لاہور ۲۰۰۹ء

-20 اعجازؔ رحمانی کلیاتِ نعت کامیاب بک ڈپو نوید اسکوائر، نیو اُردو بازار ، کراچی ۲۰۱۰ء

-21 اعجازؔ رحمانی عظمتوں کے مینار مدینۃ العرب انٹرنیشنل ، نارتھ کراچی، کراچی ۲۰۱۴ء

-22 اقبال عظیم، پروفیسر زورِ حرم (کلیات) توکل اکیڈمی اُردو بازار، کراچی ۲۰۱۰ء

-23 عابدؔ سعید، محمد خلد نظر(کلیاتِ عابد سعید عابد) وارڈ نمبر3بڑکی جدید، گوجرخان ۲۰۱۱ء

-24 شاعرؔ علی شاعر نور سے نور تک راحیل پبلی کیشنز، اُردو بازار کراچی ۲۰۱۲ء

-25 ساجد چشتی، لطیف(مرتب) کلیاتِ صائم چشتی چشتی کتب خانہ فیصل آباد ۲۰۱۲ء

-26 بیدمؔ شاہ وارثی کلیاتِ بیدم وارثی عبداللہ اکیڈمی، الکریم مارکیٹ اُردو بازار لاہور ۲۰۱۲ء

-27 ساگر وارثی تدکرہ شعرائے وارثیہ اسلام آباد کالونی، سمن آباد، لاہور ۱۹۹۳ء

-28 ارسلؔ ، ارسلان احمد (مرتب) کلیاتِ مظہر (حافظ مظہرالدین) ارفع پبلشرز اُردو بازار لاہور ۲۰۱۳ء

-29 شہزاد احمد، ڈاکٹر (مرتب) کلیاتِ ریاض سہروردی مرکزی انجمن عندلیبانِ ریاضِ رسول،تین ہٹی، کراچی ۲۰۱۳ء

-30 رضوی، خالد حسن (مرتب) کلیاتِ شاہ انصار اِلٰہ �آبادی ادبستان انصاری، نارتھ ناظم آبادکراچی ۲۰۱۴ء

-31 معصومی، محمد اویس، ڈاکٹر کلیاتِ راہی (مولانا نذر محمد راہی) تلاش حق فاؤنڈیشن، صدر، کراچی ۲۰۱۴ء

-32 شہزاد احمد، ڈاکٹر (مرتب) کلیاتِ ضیاءؔ القادری بدایونی (غیر مطبوعہ)

-33 شہزاد احمد، ڈاکٹر (مرتب) کلیاتِ عزیزؔ خاکی (غیر مطبوعہ)

-34 شہزاد احمد، ڈاکٹر (مرتب) کلیاتِ صبیح رحمانی (غیر مطبوعہ)


مزید دیکھیے

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت


نعت رنگ ۔شمارہ نمبر 25