نعتیہ مجموعوں میں تقاریظ، دیباچوں اورمقدمات میں تنقیدی رویوں کاجائزہ ۔ ڈاکٹر عزیز احسن

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat kainaat aziz ahsan 10.jpg

مضمون نگار : ڈاکٹر عزیز احسن۔کراچی

نعتیہ مجموعوں میں تقاریظ،دیباچوں اورمقدمات میں تنقیدی رویوں کاجائزہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: The article beneath contains assessment of Critical value of Forewords written by different critics on books of Naats. Appreciation of poetical beauty plus authenticity of content has been evaluated in order to judge the objectivity. The evaluation shows sympathetically written forewords and objective assessments of books by different critics. This study will help creating objectivity in the field of Criticism of genre of Naat.

مختلف ادوار میں محققین نے نعتیہ کتب کی فہرستیں تیار کی ہیں جن میں ہزاروں کتب کی طباعت کا ذکر ملتا ہے۔پاکستان میں نعتیہ شاعری پر مشتمل کتابوں کے کوائف حفیظ تائب، راجا رشید محمود، غوث میاں ، چودھری محمد یوسف ورک قادری اور محمد طاہر قریشی نے یکجا کیے ہیں ۔مؤخرالذکر دو حضرات نے دوکتب خانوں کے نعتیہ شعری خزانوں کا ذکر کیا ہے ۔ایک نعت لائبریری شاہدرہ، لاہور، اور دوسرا نعت ریسرچ سنیٹر کراچی۔ان فہرستوں میں چودھری محمد یوسف ورک قادری نے شائع شدہ نعتیہ شعری کتب کی فہرست بنائی ہے جن کی تعداد فہرست کی طباعت کے وقت تک ۱۶۰۶ تھی۔میرے پیش نظر اس فہرست کا نقشِ ثانی ہے جس کی اشاعت اکتوبر ۲۰۰۶ء، میں عمل میں آئی تھی۔اس فہرست میں کتب خانے میں موجود اور کتب خانے کو مطلوب کتب کو شامل کرلیا گیا ہے۔ ۱؎

محمد طاہر قریشی کی ’’فہرستِ کتب خانہ ، نعت ریسرچ سینٹر‘‘ صرف ایک کتب خانے میں موجود کتب کی نشاندہی کرتی ہے۔اس فہرست میں ۱۳۴۸ کتب کا اندراج ملتا ہے۔یہ فہرست پہلی مرتبہ ۲۰۰۹ء میں شائع کی گئی تھی۔ ۲؎

بقیہ حضرات کی فراہم کردہ تفصیل ان دونوں کاموں سے پہلے منظرِ عام پر آگئی تھی اس لیے اس میں نعتیہ شعری سرمائے کی کمیت ان فہرستوں کی اشاعت کے سن تک ہی محدود رہی اس لیے مؤخرالذکر دونوں فہرستوں ہی کو معیار بنا کر تعدادِ کتب کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ظاہر ہے ان فہرستوں میں نعتیہ سرمائے کا معتد بہ حصہ چھوٹ گیا ہوگا۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بعد میں بھی بہت سی کتب منظر عام پر آئی ہیں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ نعتیہ شعری سرمائے کا بہت سا حصہ ہندوستانی کتب خانوں میں محفوظ ہوگاجس تک ہمارے تحقیق نگاروں کی رسائی ممکن نہ تھی۔علاوہ ازیں پاکستان میں بھی ہر شہر،ہر قریئے اور ہر صوبے میں نعتیہ کتب چھپ رہی ہیں لیکن سب کتب تک رسائی حاصل ہونا کسی ایسے فرد کے بس کی بات نہیں ہے جو اپنے ذوقِ کتب شماری سے سرشار ہوکر انفرادی طور پر کام کررہا ہو۔

فی الحال ہمارا موضوع نعتیہ کتب کی فہرست سازی نہیں ہے۔لیکن مطبوعہ کتب کی تعداد جاننے سے یہ اندازہ لگانا آسان ہوگیا کہ اس مقالے کے بابِ چہارم پر قلم اٹھاتے ہوئے ہمیں کتنے دیباچوں ، تقاریظ اور مقدموں کی ورق گردانی کرنی ہوگی ۔تقریبا ًہر کتاب میں کم از کم ایک دیباچہ ، تقریظ یا مقدمہ تو ہے ہی۔بہت سی کتب ایسی بھی ہیں جن میں ایک سے زیادہ اہلِ علم کی تحسینی آراء (appreciative opinions) موجود ہیں۔ ایسی صورت میں مقدموں،دیباچوں یا تقاریظ کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ ظاہر ہے وہ ساری کتب نہ تو پڑھی جا سکتی ہیں اور نہ ہی سب کتب کے دیباچوں، تقاریظ اور مقدموں کا تجزیاتی مطالعہ کرنا ہمارے بس میں ہوگا۔اس لیے شروع ہی میں عرض کردینا ضروری ہے کہ اس باب میں ہمارا طریقِ کار انتخابی(Selective) ہوگا۔

تجزیاتی مطالعہ شروع کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مقدمہ،دیباچہ اور تقریظ کی حدود کا تعین کرلیا جائے تاکہ ان اصطلاحات کے استعمال میں ہمیں کہیں الجھن پیش نہ آئے۔

مقدمہ: مقدمہ کا لفظ ہمارے ہاں کتاب کے جملہ محاسن کی نشاندہی کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔اس لفظ سے یہ بھی متبادر ہوتا ہے کہ یہ لفظ اس تحریر کے لیے مستعمل ہے جو کتاب کے اصل متن کے آغاز سے پہلے کتاب کے بارے میں اختصاراً کچھ معلومات فراہم کرنے کے لیے لکھی جاتی ہے۔کبھی کبھی یہ مقدمہ خود مصنف لکھتا ہے لیکن زیادہ تر مقدمہ لکھنے کے لیے کسی دوسری معروف شخصیت کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ہمارے دینی،ادبی اور تاریخی ادب میں مقدمہ کا لفظ بہت استعمال ہوا ہے۔مقدمہء ابنِ خلدون تو خود ہی ایک مکمل تصنیف ہے جو تاریخِ ابنِ خلدون سے زیادہ مشہور ہوا اور پڑھا گیا۔ابنِ خلدون کے نام سے علامہ اقبال یاد آگئے ۔روزگارِ فقیر میں لکھا ہے کہ فقیر سید نجم الدین نے علامہ سے عرض کی کہ میں نے انہیں اپنے بیٹے( فقیر وحید الدین) کو تاریخِ ابنِ خلدون پڑھنے کا مشورہ دیا ہے، تو اقبال نے فرمایا:

’’پوری کتاب نہیں، صر ف مقدمہ‘‘۔ ۳؎

دوسری مثال اردو ادب میں ’’مقدمہ ء شعروشاعری‘‘ کی ہے، جو خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے لکھا اور اردو تنقید کا پہلا شاہکار ثابت ہوا۔

اردو کی ادبی تاریخ میں مولوی عبدالحق(بابائے اردو)نے اتنے مقدمے لکھے کہ ان کی یکجا طباعت ہوئی تو ایک ضخیم کتاب بن گئی جس کا نام ہی ’’مقدماتِ عبدالحق‘‘ رکھا گیا۔ڈاکٹر عبادت بریلوی نے مقدمے کے لیے کچھ لوازم و عناصر کا تذکرہ بھی کیا ہے لیکن مقدمہ ان کے نزدیک ادب کی کوئی مستقل صنف نہیں ہے۔وہ لکھتے ہیں: ’’مقدمہ نگاری کی حیثیت کسی مستقل صنفِ ادب کی نہیں ہے۔کسی زبان کے ادب میں بھی اس کو ادب کی ایک باقاعدہ شاخ نہیں سمجھا گیا ہے کیوں کہ مقدمے تو کسی مصنف یا کسی کتاب کے بارے میں محض تعارف کے طور پر لکھے جاتے ہیں۔‘‘ ۴؎

مولانا محمد حبیب الرحمٰن خاں شروانی نے اشا رۃً ذکر کیا ہے کہ مقدمہ ’’مقدمۃ الجیش‘‘ سے ماخوذ ہے۔ ۵؎… مقدمۃ الجیش لغوی اعتبار سے وہ لشکر ہوتا ہے جو آگے بھیجا جاتا ہے جسے پیشرو لشکر، ہراول فوج بھی کہتے ہیں۔ سپہ سالار کو بھی اسی لیے مقدمۃ الجیش کہتے ہیں کہ اس کی حیثیت فوج میں سردار اور رہنما کی ہوتی ہے ۔

اردو لغت بورڈ کی مرتب کردہ لغت میں مقدمہ کے معانی اس طرح لکھے ہیں:مقدمہ [ضم م، فت ق، شد د بفت، فت م](i) ۔وہ مضمون جو کتاب وغیرہ میں متن سے پہلے فہمِ مطالب میں آسانی کی غرض سے بطور پیش لفظ بیان کیا جائے، دیباچۂ کتاب، عنوان۔(ii)وہ امر جو اصل مقصد سے پہلے تمہیداً ہو، پیس خیمہ۔(iii )وہ بات یا مسئلہ جس کے جانے بغیر زیر نظر مبحث سمجھ میں نہ آسکے، وہ امر جس پر زیر بحث موضوع کا سمجھنا سمجھانا منحصر ہو،مبادی…بقیہ معانی قانونی اصطلا حات کے تحت دیئے گئے ہیں جس میں نالش اور مقدمہ بازی وغیرہ کا حوالہ آتا ہے۔ مقدمہ کے ’’د‘‘ کو کسرہ کے ساتھ پڑھیں تو معانی یہ ہوں گے:۱ـ۔آگے جانے والا [شخص یا گروہ وغیرہ ]خصوصاً لشکر کا وہ حصہ جو آگے بھیج دیا جائے، ہراول دستہ۔ ۶؎ مقدمہ کی نوعیت کے حوالے سے شروانی صاحب لکھتے ہیں:

’’آپ جب کاروبارکے کسی ممتاز مرکزپرگزریں گے تو دیکھیں گے کہ دوکانوں کے سامنے کا ایک حصہ سلیقے اور دل فریب طریقے سے آراستہ سب سے اول دیدہ نواز ہوگا۔یہ اپنی دل فریبی سے نگاہ کو اپنی جانب متوجہ کرے گا اور متوجہ ہونے پر جب نگاہ تفصیل کی جویا ہوگی تو وہ بتائے گا کہ آپ کو جو جنس دوکان میں ملے گی وہ کیا ہے ، بعینہٖ یہ حال کتاب کے مقدمہ کا ہے کہ وہ آپ کو دل کش طریقے سے بتاتا ہے کہ کتاب میں کیا ہے۔‘‘۷؎

مقدمہ نگار کے لیے شروانی صاحب نے راست نگاری کی شرط لگائی ہے جو [الف]سلیقہ اور[ب] تفصیل ، کی صورت میں پیش کی جائے۔وہ لکھتے ہیں:

’’لکھنے میں اس کا سلیقہ ہو کہ دل کش پیرایے میں کیا لکھا جائے اور کیا نہ لکھا جائے،کتاب کا کونسا حصہ نمایاں کیا جائے اور کونسا مخفی رہے،تفصیل ایسی ہو کہ کتاب پڑھنے کے بعد مایوسی نہ ہو بلکہ یہ اعتراف ہو کہ مقدمہ نگار راست نگار تھا۔اگر مقدمہ نگار مطالب ِ کتاب میںترقی پیدا کرسکے اور پڑھنے والوں کے لیے مناسب موقع مزید معلومات بہم پہنچا ئے، اس طرح کہ یہ نہ معلوم ہو کہ وہ کتاب پڑھوارہاہے تو اس کو کمال مقدمہ نگاری ماننا چاہیے۔‘‘۸؎

تقریظ: [فت ت، سک ق، ی مع]کے لغوی معنی ہیں (i)مصنف کے علاوہ کسی اور کا کسی کتاب یا مضمون وغیرہ پر اپنی رائے ظاہر کرنا[عام طور پر تعریفی اور تائیدی رائے] جو کتاب کے آغاز یا اختتام میں شامل ہو۔(ii) تعریف ،زندگی کی تعریف، ساتھی یا دوست کی تعریف [خواہ راست ہو خواہ دروغ]۔(iii ) داد دینا، سراہنا۔ ۹؎

دیباچہ: [ی مع ،فت چ] (i)وہ تحریر جو کسی کتاب کے شروع میں ہو اور جس میں نفسِ مضمون وغیرہ سے متعلق یا دوسری ضروری باتیں بطور تعارفِ کتاب کے لکھی گئی ہوں۔مترادف:مقدمہء کتاب، پیش لفظ، تعارف،تمہید۔(ii)دیوان کے شروع میں مصنف کا خود تحریر کردہ اشعار کا وہ مجموعہ جو حمد، نعت ، مدح یا سبب ِ تالیف وغیرہ پر مشتمل ہو۔(iii) زمانۂ قدیم میں کتابوں کے سرِورق کی زیبائش،سرِورق پر اس کی خوبصورتی کے لیے بنائے گئے بیل بوٹے۔(iv )کسی چیز کا پہلا اور لازمی جزو، کسی چیز کے لیے پہلی شرط۔(v) کسی چیز کا ابتدائی حصہ ، ابتدائی دور، پہلا زینہ، تمہید۔(vi ) پیش خیمہ ، کسی چیز کے ظہور کی علامت۔(vii ) مجازاً، سب سے پہلا شخص ، سب سے پہلی چیز۔ ۱۰؎

مقدمہ،تقریظ اور دیباچہ ، کے الفاظ عموماً ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال ہونے والے الفاظ ہیں۔ غالباً اسی لیے احمد ندیم قاسمی نے لکھا تھا:

’’دیباچہ، مقدمہ، تمہید،پیش کلام، پیش لفظ، تعارف وغیرہ کے درمیان کسی قسم کا کوئی فرق ، کم سے کم اردو کتابوں کی حد تک روا نہیں رکھا گیا۔یہ لکھنے والے پر موقوف ہے کہ کتاب یا مصنف کے بارے میں جو کچھ کہنا چاہتا ہے اس کا کیا عنوان رکھتا ہے۔‘‘ ۱۱؎


سرِ دست ہمار ا یہ موضوع نہیں ، اس لیے صرف اتنا عرض کرکے ہم سلسلہء کلام کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک ’مقدمہ‘ کسی تصنیف کے ذرا تفصیلی تعارف کو کہتے ہیں۔’دیباچہ‘ مقدمے سے مختصر ہوتا ہے اور’ تقریط ‘محض اشتہار کے طور پر تحسینی کلمات پر مبنی عبارت پر مشتمل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر معین الرحمٰن کی ایک تحریر کا اقتباس دینے سے ہمارا موقف زیادہ واضح ہوسکتا ہے ’’مقدماتِ عبدالحق پر ایک نظر‘ ‘کے زیر عنوان ،وہ لکھتے ہیں:

’’مقدماتِ عبدالحق، تقریظ نگار ی کے نمونے نہیں۔ان سے کسی ادیب یا شاعر کی غیر ضروری تشہیر مقصود نہیں۔‘‘ ۱۲؎


اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر سید معین الرحمٰن’ مقدمہ ‘ کو ’تقریظ‘ سے نہ صرف ممیز کرتے ہیں بلکہ اسے مؤخرالذکر سے اعلیٰ چیز جانتے ہیں۔ با ایں ہمہ، اردو کی کتابوں میں ان الفاظ (مقدمہ، دیباچہ،تقریظ)کے استعمال میں اور ایسی تحریروں میں جو کسی کتاب کے تعارف کے طور پر لکھی گئی ہوں، کوئی معنوی اور اصولی حد بندی نظر نہیں آتی ہے ۔اسی لیے احمد ندیم قاسمی نے عنوان رکھنے کا حق ’لکھنے والیـ، کو سونپ کر، دیباچہ،مقدمہ،تمہید، پیش کلام، پیش لفظ اور تعارف وغیرہ کے الفاظ کو مترادفات کے طور پر قبول کرلینے کا جو عندیہ ظاہر کیا ہے اس کو تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا۔۱۳؎


اب وہ مرحلہ آگیا ہے کہ ہم ’’کتبِ نعت میں دیباچوں اور تقاریظ کا تنقیدی معیار‘‘ جاننے کا آغاز کرسکیں۔


ہمارے عہد کے معتبر نعت گو حفیظ تائبؔ کی نعت گوئی پر ’’تقدیم‘‘ کے زیر عنوان ڈاکٹر خورشید رضوی نے جو تنقیدی رائے دی ہے اس کا تجزیاتی مطالعہ اس باب کی ابتدا کے لیے مناسب رہے گا۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر خورشید رضوی کی تحریر مختصر ہے اس لیے میں اسے دیباچے کے ذیل میں رکھ کر دیکھتا ہوں۔ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں:


’’صلوا علیہ و آلہٖ‘‘ کی نعتوں میں وہ سارا سلیقہ صرف ہوتا نظر آتا ہے جو جناب حفیظ تائب نے دورِ غزل گوئی میں حاصل کیا تھا۔کتاب کا اولین قصیدہ ’آیہء نور‘ خاصے کی چیز ہے ، جو مولانا حالی ؒ کے قصیدۂ نعتیہ کی زمین میں ہے، جس کا مطلع ہے:


میں بھی ہوں حسنِ طبع پر مغرور

مجھ سے اٹھیں گے ان کے ناز ضرور


مولانا نے تشبیب کی جگہ تعلی کا طویل ابتدائیہ باندھا ہے(جسے انہوں نے از روئے انکسار، ماضی کے ’ہذیانات‘میں شمار کیا ہے) اور پھر گریز کرکے ’نعت سرورِ جمہور‘ کی طرف آئے ہیں۔جنابِ حفیظ تائب نے گریز سے گریز کرتے ہوئے ابتداء ہی اصل مدعا سے کی ہے:


جب کیا میں نے قصدِ نعت حضور

ہوئے یکجا شعور و تحت شعور


پھر’نور‘ و ’حضور‘ و ’سرور‘ کے قوافی سے گزرتے ہوئے ان کا توسنِ طبع غزل کی روش پر چل پڑتا ہے مگر موضوع سے ہٹے بغیر:


اس کی خدمت میں کچھ برنگ ِ غزل

بہ امیدِ قبول و قرب و حضور

اور اس موجِ خرام سے ’دور‘ کی ردیف اور ’یار‘ اور ’قرار‘ کے قوافی کی راہ نکالتا ہے:


آبِ جو کی طرح ہو سرگرداں

نکل آیا ہوں کوہسار سے دور

اک گلِ حیرت وملال ہوں میں

مسکرایا ہوں شاخسار سے دور‘‘۱۴؎


ڈاکٹر خورشید رضوی کے اس اندازِ تحسین (appreciation) میں ان کا تنقیدی شعور بھر پور طور سے جھلک رہاہے۔یہاں انہوں نے غزل کے فنی سلیقے کی بات کی ہے جس کی کامل آگاہی نے ان کے ممدوح کو نعتیہ شعری دنیا میں وقار بخشا ہے۔پھر قصیدے کے لوازم کا مکمل ادراک رکھتے ہوئے انہوں نے حفیظ تائبؔ کے قصیدے کا موازنہ خواجہ الطاف حسین حالیؔ کے قصیدے سے کیا ہے اور اس میں بتایا ہے کہ فنی اعتبار سے تائبؔ نے قصیدے کا گریز والا حصہ ابتداء ہی میں حذف کردیا اور براہِ راست اصل مدعا ان کے قلم کی زبان پر آگیا ہے۔ قصیدے کے فنی لوازم میں ’’تشبب‘‘، ’’گریز‘‘ ، ’’مدح‘‘ اور ’’دعا‘‘ ۱۵؎ کا خاص اہتمام کیا جاتا رہا ہے لیکن نعتیہ قصیدے میں تائب نے نہ تو تشبیب میں بہاریہ انداز اختیار کیا اور نہ ہی انہیں گریز کے مرحلے طے کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔چنانچہ بغیر طول طویل تشبیب کے انہوں نے نعت کہنے کے ارادے کا ذکرکیا اور اللہ تعالیٰ کے لطف اور حضرت محمد مصطفیٰ کے کرم کا تذکرہ چھیڑا:


روحِ ممدوح دستگیر ہوئی

شاملِ جاں تھا لطفِ رب غفور ۱۶؎


تائب کی اس روش کا ذکر ’تقدیم‘ میں اختصار سے کرکے ڈاکٹر خورشید رضوی نے اپنے تنقیدی منہاج اور شعورِ نقد کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ حالیؔ کے قصیدے سے تائبؔ کے قصیدے کا موازنہ کرنے کا خیال بھی خورشید رضوی کی تنقیدی روش کا حصہ بنا جس سے تائبؔ کے قصیدے میں تعلی کے مرض سے بچنے کا قابلِ تحسین پہلو بھی سامنے آگیا۔دراصل حالی ؔ کا قصیدہ تفاخر کے جذبے سے مملو تھا جسے انہوں نے نعتیہ اشعار پر ختم کرکے فخر کے لیے جواز پیدا کرنے کی سعی کی۔حالیؔ نے لکھا ہے:


’’جب تفاخر حدسے زیادہ بڑھ گیا تودفعۃً اپنی غلطی پر تنبہ ہوا لہٰذا قصیدے کا خاتمہ نعتیہ اشعار پر کیا گیا تاکہ فخر کے لیے ایک وجہ پیدا ہوجائے۔‘‘۱۷؎


حالیؔ کا قصیدہ پچھتر اشعار پر مشتمل تھا جبکہ حفیظ تائبؔ نے کل اننچاس اشعار کہے۔لیکن حفیظ کے تمام اشعار مدح مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں ہیں جبکہ حالیؔ کے قصیدے میں تفاخر کی تمہید کے اکتالیس اشعار شامل تھے جن کی اپنی کلیاتِ نظم میں موجودگی ، خود حالیؔ کو کھٹک رہی تھی اسی لیے انہوں نے نعتیہ قصیدے کے نیچے فوٹ نوٹ دینا ضروری جاناتھا۔ خورشید رضوی نے ایک واقعہ بھی بیان کیا ہے جس سے حفیظ تائبؔکے شعورِ نقد پر روشنی پڑتی ہے۔حافظ افضل فقیر نے تائب ؔکے ایک شعر میں لفظ ’’حاصل‘‘ سے بے اطمینانی ظاہر کی تھی ۔کچھ عرصے بعد تائبؔ نے ’’حاصل‘‘ کو ’’غایت‘‘ سے بدل کر انہیں سنایا او رانہوں نے اتفاق فرمایاکہ واقعی لفظ ’’غایت‘‘ ہی وہ غایت تھی جس تک طائر خیال رسائی چاہتا تھا اور پھر کہا:


’’مولانا ! تمہاری جستجو کی بھی داد دینی پڑتی ہے۔‘‘ ۱۸؎


ان دونوں اشعار کی خواندگی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صرف ایک لفظ کی تبدیلی سے شعر میں کتنی شعریت پیدا ہوگئی اور معنوی حسن کتنا بڑھ گیا:


وہ کہ ہے سوز و ساز نبضِ حیات

وہ کہ ہے حاصلِ سنین و شہور

وہ کہ ہے سوزوسازِ نبضِ حیات

وہ کہ ہے غایتِ سنین و شہور ۱۹؎


ا س شعر میں ’’حاصل‘‘ کا لفظ تائبؔ کے ممدوح حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات ِ والا صفات کو سنین و شہور کی پیداوار ظاہر کررہا تھا [حاصل کے لغوی معانی کھیتی کی پیداوار ہیں] جبکہ ’’غایت‘‘ [لغوی معانی ،غرض، مقصد، مطلب] کے لفظ نے سنین و شہور[سال و ماہ] کے وجود کو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وجودِ با جود کا صدقہ بناکر پیش کیا جو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وجہِ وجودِ کائنات ہونے کی دلیل ہے جس کا ذکر احادیثِ قدسی میں آیا ہے۔ڈاکٹر خورشید رضوی نے لکھا ہے :


’’تائب صاحب کے نعتیہ کلام کے چند در چند خصائص میں ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے نعت کو باربار کے دہرائے ہوئے مضامین سے نکال کر اس کے عمق ،وسعت اور تنوع میں اضافہ کیا۔‘‘ ۲۰؎


حفیظ تائبؔ کی بعض تراکیب کو سراہتے ہوئے ڈاکٹر خورشید نے لکھا:


’’نادرہ کاری ان کی بعض تراکیب میں بھی نظر آتی ہے، مثلاًاے ہادی دارین ، مقدر گرِ آفاق …میں ’مقدر گرِ آفاق‘ کی گہرائی اور بلاغت کو دیکھیے۔اسی طرح یہ دل نشین شعر ملاحظہ ہو، جس میں ’روانِ خیر‘ کی ترکیب بطورِ خاص لائقِ توجہ ہے:


وہ تاب جاں ، سحابِ کرم،انتخابِ حق

وہ شانِ فقر، آنِ تمدن، روانِ خیر ۲۱؎


حفیظ تائبؔ کے کلام میں فنی نکات کی نشاندہی کرتے ہوئے ’’تقدیم‘‘ نگار نے درجِ ذیل شعر پر جو رائے دی ہے اس سے ان کی آگاہیء فن اور تحسین ِ شعر کا تنقیدی سلیقہ مترشح ہے:


باتیں آقا کی سناتا ہے اُحُد

اس کے دامانِ صفا میں گم ہوں


ڈاکٹر خورشید رضوی نے لکھا:


’’اُحُد کے ساتھ لفظ صفا کی مناسبت قابلِ دید اور لائقِ داد ہے کہ ایک طرف کوہِ صفا کا ایہام پیدا ہوتا ہے اوردوسری طرف صفا بمعنی مودت و اخلاص کے حوالے سے فرمانِ نبوی ’احد ،جبل ’یحبنا و نحبہ‘ [احد ایسا پہاڑ ہے کہ وہ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں]کی تلمیح جھلکتی ہے۔‘‘۲۲؎


معنوی خوبیوں کے یہ نکتے بیان کرنے سے ڈاکٹر خورشید رضوی کا مقصد ، حفیظ تائبؔ کے کلام کی تنقیدی سطح پر پسندیدگی کا جواز پیش کرنا ہے۔اس طرح ان کی لکھی ہوئی تقریظ یا دیباچہ ،جسے انہوں نے ’’تقدیم‘‘ کا عنوان دیا ہے،ایک ایسی تحریر مانی جائے گی جس میں بلاجواز تحسین نہیں ہے بلکہ دیباچہ نگار کا دعویٰ تنقیدی شعورکا عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ بھرپور دلائل سے با وزن بھی بنایا گیا ہے۔بلاشبہ حفیظ تائبؔ کے کلام میں ایسی معنوی اور فنی خوبیاں ہیں جن سے ان کا شعرِ عقیدت شعریت سے ہم کنار اور شریعت کے بھرپور احترام سے مملو لگتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر خورشید رضوی کی لکھی ہوئی ’’تقدیم‘‘ کتاب کا متوازن تعارف ہی معلوم نہیں ہوتی بلکہ کتاب اور تقریظ نگار کا وقار بھی بڑھاتی ہے۔


’’آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم‘‘،حنیف اسعدی کانعتیہ مجموعہ ہے۔اس کتاب میںکچھ تضمینیںبھی ہیں۔سحرؔ انصاری کی ایک تعارفی تحریر بعنوان ’’آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تضمینیں‘‘ اس کتاب کی زینت بنی ہے۔ سحر انصاری کی تقریظ کے تنقیدی نکات اور ان نکات کی معروضیت جاننے کے لیے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے:


’’جہاں تک فن تضمین کا تعلق ہے اس پر حنیفؔ اسعدی کو غیر معمولی دسترس حاصل ہے۔در اصل تضمین کئی شرائط کا تقاضا کرتی ہے۔ایک تو اصل کلام جس نوعیت کا ہے اس کی مناسبت سے مصرعے لگائے جائیں۔دوسرے اصل کلام کی تشریح بھی ہوتی چلی جائے اور جو رموز اس میں پنہاں ہیں ان کی تفہیم کا زاویہ بھی نکل آئے۔ہیئت کے اعتبار سے یہ ساری تضمینیں مخمس میں لکھی گئی ہیں۔اس ہیئت میں تیسرے مصرعے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے جو ماسبق دو مصرعوں اور آنیوالے دو مصرعوں کے مابین ایک محکم ربط پیدا کرتا ہے۔اس سے تضمین نگار کی فنی گرفت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے حنیف ؔ اسعدی کی تضمینیں ایک تخلیقی شان رکھتی ہیں۔ان میں شگفتگی بھی ہے، حسن بیان بھی اور فنی خوبیوں کا لطف بھی… شبنمؔ رومانی کے اس شعر پر تضمین دیکھیے:


خیر ہیں خیر کی آخری حد بھی ہیں

باعثِ کن بھی ہیں کن کا مقصد بھی ہیں

خود بھی حامد ہیں ممدوحِ سر مد بھی ہیں

آپ احمد بھی ہیں اور محمد بھی ہیں

حمد ہے لازمی جزو نام آپ کا ۲۳؎


سحر انصاری کی تقریظ میں جو فنی نکات بیان کیے گئے ہیں ان کی تصدیق حنیفؔ اسعدی کی تضمین کے محولہ بالا نمونے سے بھی ہورہی ہے اور حنیف ؔ اسعدی کا دیگر کلام بھی اس رائے کی اصابت پر دال ہے۔ کچھ مزید شعری نمونے دیکھنے سے اس نکتے کی وضاحت ہوجائے گی۔مثلاً قدسیؔ کے ایک شعر کی تضمین ملاحظہ ہو:


یہی کہتے ہیں زمانے کے بدلتے حالات

نہ طلب ہی کو بقا ہے نہ تمنا کو ثبات

ہے فقط امتِ عاصی کے لیے ایک ہی ذات

ـ’’ما ہمہ تشنہ لبانیم و توئی آ بِ حیات

لطف فرما کہ زحد می گزرد تشنہ لبی ۲۴؎


بیدم وارثی کے شعر پر تضمینی عمل دیکھیے:


خوشا کہ مجھ کو بھی نعتِ نبی کا اذن ملا

نصیب وجد میں ہے،رقص میں ہے فکرِ رسا

گلے لگاؤں تجھے اے شعورِ مدح و ثنا

’بلائیں لوں تری اے جذبِ شوق صل علیٰ

کہ آج دامنِ دل کھنچ رہا ہے سوئے رسول ۲۵؎


تضمین کا یہ نمونہ بھی قابل ستائش ہے۔اس لیے ہم سحر انصاری کی تقریظ کو معتدل تقریظ کے طور پر قبول کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ، حفیظ تائبؔ نے جو فلیپ لکھا ہے وہ بھی فن شناسی اور مقامِ نعت سے آگاہی کا ثبوت فراہم کررہا ہے۔وہ لکھتے ہیں:


’’حنیف اسعدی ایک باکمال شاعر ہیں اور نطق و بیان کی جمالیات سے پوری طرح بہرہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ مضامین نعت کا ادراکِ خاص رکھتے ہیں ۔ ادب و آگہی کے امتزاج نے انہیں وہ لہجۂ جمیل عطا کیا ہے جو ان کا امتیاز ہے وہ روحِ عصر اور ذوقِ جدید کے تقاضوں کو بھی پورا کرتے ہیں‘‘۔۲۶؎


ہمارے خیال میں ان تقریظی تحریروں کو’ متوازن تقاریظ ‘قرادیں تو یہ سخن فہمی ہوگی غالبؔ کی طرف داری قطعی شمار نہیں ہوگی۔ تابشؔ دہلوی کی کتاب ’’تقدیس‘‘ کی نعتیہ شاعری پر ’’تلاشِ جلوۂ حرفِ سپاس‘‘ کے زیرِ عنوان دیباچہ لکھتے ہوئے ڈاکٹر سید محمد ابولخیر کشفی نے لکھا:


’’تابش کے کلام میں زبان و بیان کی جو رمز شناسی ہے، الفاظ کے بطون میں پہنچ کر معانی کے گہر تلاش کرنے کا جو رجحان ہے، برہنہ گفتاری کی جگہ رمز و ایما سے ان کی جو وابستگی ہے ،الفاظ اور مفاہیم و جذبات کے درمیان وحدت پیدا کرنے کی جو اہلیت ہے ، لفظوں کو ہشت پہلو نگینوں کی صورت جڑنے اور انہیں شمع کی طرح روشن کرنے کی جو قدرت ہے، ان سب کا مقسوم و مقدر یہ تھا کہ یہ سب خوبیاں اور قدرتیں ،نعتِ سرورِ کونین کے سلسلے میں ان کے کام آئیں۔تابشؔ کے سفینہء فن کو آخرساحلِ محمدی مل گیا …ہر زندہ چیز کی طرح ہمارے سخن کو بھی اپنی منزل کی تلاش رہتی ہے‘‘۔۲۷؎


ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی، کی درجِ بالا رائے کو ہم ’’تأ ثراتی تنقید‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ تا ثراتی تنقید میں لطافتِ احساس کی وجہ سے کچھ تخلیقی شان پیدا ہوجاتی ہے اور بعض اوقات یہ تنقید تحسینِ محض بن کر رہ جاتی ہے۔لیکن ڈاکٹرکشفی نے ’’تقدیس‘‘ کی قرا ٔت کے بعد جو تأثر قائم کیا ہے وہ نری تحسین پر مبنی نہیں ہے کیوں کہ ان کا دعویٰ ، تابشؔ دہلوی کے کلام میں پائی جانے والی خوبیوں کی قوی دلیل بھی رکھتا ہے۔ خود ڈاکٹرکشفی نے ’’تقدیس‘‘ میں شامل کلام سے شاعری کے جو نمونے پیش کیے ہیں وہ اچھے شعری نمونے ہیں، مثلاً:


محورِ ہستی فقط ذاتِ رسول

دین و دنیا مصطفیٰ تا مصطفیٰ

نظمِ ہستی میں توازن کے لیے

ساری دنیا اور تنہا مصطفیٰ ۲۸؎


مؤخرالذکرا شعار پر گفتگو کا سلسلہ دراز کرتے ہوئے کشفی نے ان اشعار کے متن کو ہمارے نعتیہ شعری سرمائے کی روشنی میں بھی دیکھنے کی کوشش کی ہے اور قرآنِ کریم کی آیات کے تناظر میں بھی انھیں پرکھنے کی سعی کی ہے، وہ لکھتے ہیں:


’’ساری دنیا اور تنہا مصطفیٰ، مقامِ نبوی سے آگہی کا اظہار اس قوت سے غالب واقبال کے بعد مجھے تابشؔ کے ہاں اس طرح نظر آیا ہے:


تیرِ قضاہر آئینہ از ترکشِ حق است

لیکن کشودِ آں زِ کمانِ محمد است

(غالبؔ)


بمصطفیٰ ُ برساں خویش را کی دیں ہمہ اوست

اگر باو نرسیدی تمام بو لہبی است

(اقبال)


آئیے اب ذرا ’’دین و دنیا مصطفیٰ تا مصطفیٰ ، اور ساری دنیا اور تنہا مصطفیٰ، کا مطالعہ قرآنِ حکیم کی روشنی میں کریں…سورۂ فتح میں سلسلۂ کلام یہ ہے کہ وہ اللہ ہی تو ہے جس نے ہدایت اوردین حق کے ساتھ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھیجا تاکہ یہ دین تمام ادیان پر غالب آجائے…اور اس کے فوراً بعد ارشاد ہوتا ہے: وَکَفٰی بِا للّٰہِ شَھِیداً ۔یعنی ’’اللہ کی گواہی کافی ہے‘‘ اور اللہ کی شہادت کے بعد ہی فرمایا گیاکہ:’’ محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ، اللہ کے رسول ہیں۔‘‘سورۂ سبا میں ارشاد فرمایا جاتا ہے: وَمَآاَرْسَلْنٰاکَ اِلَّا کَا فَّۃً لِلِّنَاسِ بَشِیْراً وَّ نَذِیْرَا۔’’اور اے محمد ہم نے تم کو عالمِ انسانیت کے لیے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے۔‘‘یہی بشارت اور یہی تنذیر نظمِ ہستی میں توازن کی اساس پرہے۔اور وہی ذات محورِ ہستی ہو سکتی ہے، جس کے لیے فرمایا گیا کہ اللہ رسول پر شاہد ہے اور رسول مومنو ںپر شاہد ہیں… اور یہ شہادت ابدی ہے۔‘‘۲۹؎


درجِ بالا اقتباس میں ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی کی تنقیدی دانش کا بھر پور اظہار ہوا ہے اور بڑے توازن کے ساتھ ۔تحسین (Appreciation) کے اس عمل میں ڈاکٹرکشفی نے شعر کی معنوی ساختوں کو پرت پرت دیکھنے اور معنویت کی لمعات کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔بلا شبہ خیال کی معنوی رفعت نے تابش ؔ کے شعر وں کو غالبؔ و اقبالؔ کے معنوی قوس میں بھی جگہ دی ہے اور قرآنی فکر کے نورانی ہالے میں بھی داخلے کا موقع فراہم کیا ہے۔علاوہ ازیں شعری بُنت کے سلیقے اور تقلیلِ الفاظ میں وسیع مضمون کو سمیٹنے کی کامیاب کوشش کے باعث بھی اردو نعتیہ شعری عمل میں تابشؔ کے اشعار نمایاں ہوگئے ہیں۔


ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے فداؔ خالدی دہلوی کے مجموعہء نعت ’’م۔ص‘‘ پر اظہار رائے کرتے ہوئے لکھا تھا:


’’حمد و نعت کا میدان عقیدت کے اظہار کا ذریعہ تو ہے ہی، اس میں فن کی نزاکت اور نفاست کا احساس بھی قائم رہے تو پھر یہ کلام صرف عام پسند نہیں رہتا ، خاص پسند بلکہ خواص پسند ہوجاتا ہے۔اس مجموعے میں بھی بہت سے اشعار ایسے ہیں جو اپنی فنی مہارت کے اعتبار سے بھی قابل ذکر ہیں۔‘‘۳۰؎


ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی یہ مختصر رائے بھی کلام کی فنی خوبیوں کی نشاندہی کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ، م۔ص، میں شامل تمام کا تمام کلام شاعری کے کلاسیکل مزاج کا آئینہ دار ،عشقِ نبوی کے شدید جذبے کا عکاس اور بیان کی سادگی و پرکاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔چند اشعار کی خواندگی سے میرے احساس کو زبان مل سکے گی:


لگی دل کی انہیں آخر مدینے تک اُڑا لائی

بھڑک اٹھے تھے جن کے دل وہ پروانے کہاں جاتے

تمہارے نام لیوا ہیں ، تمہیں سے حال کہتے ہیں

ہم اپنی داستانِ درد دہرانے کہاں جاتے

تمہاری رہنمائی کا سہارا گر نہیں ملتا

تو یہ بھٹکے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے۳۱؎



اے کاش پہنچ جاؤں درِ سرورِ دیں تک

ایسا نہ ہو رہ جائے یہ افسانہ یہیں تک

آنکھوں میں لیے پھرتا ہوں طیبہ کے مناظر

یہ نور کی دنیا ہے مرے ذوقِ یقیں تک۳۲؎



رخ ہے طرفِ روضۂ سرکارِ مدینہ

جاتا ہے کوئی جانبِ دربارِ مدینہ۳۳؎


جب سے فدا ہوئے ہیں سرکارِ دوجہاں پر

آزاد ہوگئے ہیں دنیا کی برہمی سے۳۴؎


ہے کیسا سلیقے کا میخانہ محمد کا

بہکا نہ کبھی پی کر مستانہ محمد کا ۳۵؎


فداؔخالدی کی کتاب ’’م۔ص‘‘ میں نعتیہ غزلیں، نعتیہ رباعیات، نعتیہ پابند نظمیں، نعتیہ قصیدہ، نعتیہ مسدس جیسی اصنافِ سخن کی موجودگی اس بات کی بین دلیل ہے کہ شاعر کا مزاج اردو کی کلاسیکی شعری اصناف سے بھر پور مناسبت رکھتا ہے۔اسی ضمن میں ڈاکٹر ارشاد الحق قدوسی کی رائے بھی دیکھیے:


’’ان (فدا خالدی دہلوی) کے مجموعے کے مطالعے سے نہ صرف ان کے زبان و بیان کی شائستگی ، قدرت اور غیر معمولی حسن کا اندازہ کیا جاسکتا ہے بلکہ ان کے خیال کی لطافت اور بلاغت کا بانکپن اور جمال دلوں میں اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے شیفتگی کا جذبہ پیدا کرکے محبت اور سر شا ر ی کی وہ کیفیت بیدار کرتا ہے کہ انسان دولتِ ایمان سے بہرہ ور ہوجاتا ہے اس کا دل عشقِ رسول کی بے تابی کا محور بن جاتا ہے۔ جناب فدا خالدی دہلوی، حضرت بیخود دہلوی کے شاگرد ہیں اس لیے زبان و بیان پر انہیں مہارتِ تامہ اور قدرت کاملہ حاصل ہے۔جہاںوہ دیگر اصناف ، نظم، غزل، رباعی و غیرہ میں اپنی عظمتِ فن کالوہا منوا چکے ہیں ان کا زیرِ نظر مجموعۂ نعت ’’م ۔ ص ‘‘ ان کی شاعرانہ عظمت اور نبی اکرم سے ان کی بے پناہ عقیدت اور محبت کا آئینہ دار اور قابلِ قدر شاہکار ہے۔‘‘۳۶؎


ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اور ڈاکٹر ارشاد الحق قدوسی کی آراء کی روشنی میں فدا خالدی کے چند اشعار کی خواندگی سے ہی ہمیں شاعر کے کمالِ فن اور جمالِ بیان کا اندازہ ہوسکتاہے:


درازی شام غم کی مختصر ہو

پہنچ جاؤں مدینے تو سحر ہو

بھٹک سکتا نہیں راہِ وفا میں

تمہاری یا د جس کی راہبر ہو

نہ آئیں آپ ، وہ مجھ کو بلائیں

کوئی تدبیر جینے کی مگر ہو ۳۷؎


آشکارا عظمتِ خیرالبشر ہوتی گئی

رخ جدھر ان کا ہوا دنیا ادھر ہوتی گئی

رفتہ رفتہ ہر حجابِ درمیاں اٹھتا گیا

شامِ غم ڈھلتی گئی، پیدا سحر ہوتی گئی ۳۸؎


نام لے کر ان کا گزرا ہر کٹھن منزل سے میں

سامنے دیوار جو آئی وہ در ہوتی گئی

ہر نفس راہِ مدینہ میں سکوں ملتا گیا

ہر قدم ان کی محبت راہبر ہوتی گئی

تذکرہ آپ کا گفتگو آپ کی

زندگی بن گئی آرزو آپ کی

جتنی سیرت نظر سے گزرتی گئی

اور بڑھتی گئی جستجو آپ کی ۳۹؎

فداؔ خالدی کے شعرِ عقیدت کی فنی خوبی ، بیان کی صفائی ، خیال کی پاکیزگی اور اظہار کی نفاست دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ نقادانِ ادب کی جو آراء ہم نے درج کی ہیں وہ بالکل معروضی آ راء ہیں ۔ ان آرا ء کو پڑھ کر یہ گمان نہیں ہوسکتا کہ ناقدین نے مروتاً کچھ لکھ دیا ہو۔


وقار صدیقی اجمیری کے مجموعہء نعت ’’حرف حرف خوشبو‘‘ پر’’نعت کے نئے افق‘‘ کے زیرِ عنوان ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی نے لکھا:


’’نعت گو شاعر ہر لفظ کو اسی طرح پرکھتا ہے جیسے جوہری ہیرے کو اور پھر ہشت پہلو الفاظ کے ہیروں سے نعت کا ہار خلوص کے دھاگے سے پروتا ہے ۔نعت کے الفاظ میں خلوص، گہری معنویت، تہہ داری، عظمت، عشق، فکر، روانی اورایک دوسرے سے ہم آہنگی کا اجتماع ضروری ہے۔وقار صدیقی اجمیری کے الفاظ میں یہ آٹھوں پہلو مجھے جگمگاتے نظر آئے ہیں۔وہ ہر لفظ کو امانت اور ودیعتِ عشقِ دوست سمجھتے ہیں۔‘‘ ۴۰؎


ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی کی درجِ بالا رائے دیکھنے کے بعد جب ہم شاعر کا کلام ملاحظہ کرتے ہیں تو اس کلام کی جملہ خوبیاں ہم پر آشکارا ہوتی ہیں اور نقادِ سخن سے اتفاق کرنے میں ہمیں ذرا تامل نہیں ہوتا۔چند اشعاربطور حوالہ پیش کیے جاتے ہیں:


نہ فلسفے سے نہ دانشوری سے ملتا ہے

شعورِ زیست ، شعارِ نبی سے ملتا ہے

ہم اس کی مدح میں خود کو بھی فاش کرتے ہیں

وہ آئینے کی طرح ہر کسی سے ملتا ہے

وقارؔ نعتِ محمد کا معتبر اسلوب ۴۱؎

غرورِ فن سے نہیں، عاجزی سے ملتا ہے


اک ایسا آئینہ ہے اسوۂ رسول وقارؔ

میں جس کو دیکھ کے اکثر سنور نے لگتا ہوں ۴۲؎


محتاط ہیں ہم تذکرۂ عشقِ نبی میں

بے مشورۂ دیدۂ نم کچھ نہیں لکھتے

ہے پاس جنہیں آبروئے لو ح و قلم کا

وہ حمد سے یا نعت سے کم کچھ نہیں لکھتے ۴۳؎


اک مشتِ خاک اور حبیب خدا بنے

اجرِ اطاعتِ شہِ ابرار دیکھنا


اکسیر ہے یہ دیدہ و دل کے لیے وقارؔ

اوروں کو نیک خود کو گنہگار دیکھنا۴۴؎


بے تاب نظر روئے محمد پہ ٹھہر جائے

ممکن نہیں اللہ تعالیٰ کا تصور

بن سکتا ہے یہ نعت کا شاعر بھی مصور

یک جا ہو اگر حسن کے اجزا کا تصور ۴۵؎


ان کا اقرار ہی روحِ اقرار ہے

ورنہ ثابت خدا کا بھی انکا ر ہے

خُلق کے ضابطے سب امر ہوگئے

اور کیا آدمیت کو درکار ہے

ان کی نسبت اگرہے، تو رحمت بنو

بس یہی ان کی نسبت کا معیار ہے ۴۶؎


میں سمجھتا تھا کہ ہونا ہے نہ ہونا میرا

اپنے ہونے کی مدینے سے خبر لے آیا

جو اندھیروں کا تسلط نہیں رہنے دیتی

حسنِ آفاق میں اک ایسی سحر لے آیا

اس نے تہذیب کو فطرت سے ہم آہنگ کیا

اک نیا فلسفہء فکر و نظر لے آیا ۴۷؎


ہو ان کے حوالے سے جو عرفان کی تکمیل

اک اور ہی دنیا پسِ دنیا نظر آئے

ہر حسن کو ہر وصف کو پایا ہے مجسم

سرکارِ دو عالم ہمیں کیا کیا نظر آئے

ایسی بھی سحر کاش مرے خواب مجھے دیں

اک اک سے کہوں میں شہِ والا نظر آئے ۴۸؎


ایمان ہے کیا آپ کی نسبت کا حسیں نام

یہ دین ہے کیا آپ کے جینے کی ادا ہے

آتے ہیں وقار ؔ اب تو تغزل کو پسینے

نعتِ شہِ ابرار کا وہ رنگ جما ہے ۴۹؎


وقارؔ صدیقی اجمیری کے شعری نگار خانے میں وہ تمام رنگ نـظر آتے ہیں جو عصرِ حاضر کی نعتیہ شاعری کو دھنک رنگ بنارہے ہیں۔ڈاکٹرکشفی کی تنقیدی رائے کی روشنی میں جب ہم درجِ بالا اشعار کی معنوی سطح کوبنظرِ غائر دیکھتے ہیں تو ہمیں موضوعات کی بو قلمونی اور بیان کی خوبصورتی کا اندازہ ہوتا ہے اور ڈاکٹرکشفی کی تنقیدی رائے کو ایک متوازن رائے کے طور پر قبول کرنے میں کوئی جھجک باقی نہیں رہتی۔


’’محرابِ توحید‘‘ ، امین راحت چغتائی کا نعتیہ مجموعہ ہے جس پر ’’پیش گفتار‘‘ کے عنوان سے احمد ندیم قاسمی نے تقریظ لکھی ہے اور ’’تاثرات‘‘ کے ذیل میں ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی کی رائے ہے۔اس نعتیہ مجموعے کا مسودہ پڑھ کر ، احمد ندیم قاسمی نے لکھا:


’’اس مجموعے کا مسودہ پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ اردو نعت مسلسل ترقی پذیر ہے اور مولانا ظفر علی خاں اور حفیظ تائب کی نعتوں کی روشنی میں صنفِ نعت شاہراہِ ارتقا پر پورے اعتماد کے ساتھ گامزن ہے۔ثبوت کے طور پر امین راحت چغتائی کی نعت پیش کی جاسکتی ہے۔اس نعت میں خود سپردگی اور والہیت اپنی انتہاؤں کو چھورہی ہیں۔میں نے جب ان کا ایک شعر پڑھا تو کئی روز تک میں اس کی بلاغت اور اس کی بے کنار رسائیوں کے حسن کا اسیر رہا۔وہ غیر فانی شعر یہ ہے:


میری بخشش کے دو وسیلے ہیں

ایک تو آپ، دوسرا بھی آپ


’ایک تو ‘کے الفاظ پڑھنے کے بعد جب دوسرا وسیلہ سامنے آتا ہے تو قاری پر ایک ناقابل بیان اور بے پایاں طلسمی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ان بارہ سیدھے سادے الفاظ میں عقیدت کا ایک ایسا سمندر موجزن ہے جس کا دوسرا کنارہ ناپید ہے۔‘‘۵۰؎


احمد ندیم قاسمی کا تاثر انتہائی درجہ جذبات سے مغلوب لگتا ہے لیکن شعر کی بلاغت اور معنویت کے پیشِ نظر ہم ان کے تاثر کو بے جا تعریف کے ذیل میں نہیں بلکہ مثبت اور جائز تحسین کے زمرے میں رکھیں گے۔امین راحت چغتائی نے اپنے خیال کو اس ڈرامائی کیفیت میں شعری جامہ پہنایا ہے کہ ان کے بیان پر قاری سو جان سے نثار ہوجائے۔شاعر کہنا تویہ چاہتا تھا کہ حضور میری بخشش کا صرف اور صرف آپ ہی کی ذات ایک سہارا ہے۔ لیکن اس نے اپنے بیان میں ندرت پیدا کرنے کے لیے ایسا ظاہر کیا کہ پہلے پہل تو ’’آپ‘‘ کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر سوچا کہ دو سہاروں میں دوسرا کونسا ہے؟ تو اس کی فکر دوسرا سہارا ڈھونڈنے میں ناکام ہوگئی کیوں کہ محشر میں تو صرف حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شفاعت ہی سے امت بخشی جائے گی، چنانچہ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ ’’دوسرا بھی آپ‘‘۔ زیرِ تبصرہ شعر میں بیان کی بے ساختگی نے جو لطفِ بیان پیدا کیا ہے اس کا جواب نہیں!


احمد ندیم قاسمی نے امین راحت چغتائی کے شعرِ عقیدت کی تحسین کے ہنگام ، اپنے تاریخی شعور کو بیدار رکھا ہے اور اسی لیے وہ بڑے اعتماد سے کہتے ہیں:


’’اسی طرح جب امین راحت چغتائی یہ کہتے ہیں تو اردو شاعری کی گزشتہ تین صدیوں کی روایات کو جگمگا دیتے ہیں:

تو مری زندگی کا حاصل ہے

دیکھ کرتجھ کو اب کدھر دیکھوں۵۱؎

احمد ندیم قاسمی نے نعت نگاری کے ضمن میں اپنی سوچ کو بھی منعکس کیا ہے اور یقینا بڑے پتے کی بات کی ہے۔وہ کہتے ہیں:

’’نعت نگاری کے حوالے سے میرا ایک نقطہء نظر ہے جس سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔مگر میرے اس نقطۂ نظر میں میرا یہ یقین موجود ہے کہ جن شعراء نے تیس چالیس برس تک معیاری اردو غزل اور نظم کہی ہو ، اور جنہوں نے ولی، میر، سودا، مصحفی، آتش، مومن، غالب، حالی، اقبال، فراق اور یگانہ کے حسنِ اظہار کو اپنے خون میں کھپالیا ہو، وہ جب نعت کہنے پر آتے ہیں تو نعت نگاری کا حق ادا کردیتے ہیں اور اس معیار کے شعر کہنے پر حاوی ہوجاتے ہیں:


وہ سن رہے ہیں جنبش لب کے بغیر بھی

میں کہہ رہا ہوں جو بھی مری چشمِ تر میں ہے۵۲؎


احمد ندیم قاسمی نے شعرکی حساس کائنات کو مسخر کرنے کا جو تاریخی تجربہ نقل کیا ہے اس سے اختلاف کی گنجائش نکلنا مشکل ہے کیوں کہ شاعری کی دنیا میں قدم رکھنے کے ابتدائی دس بیس سال تو محض مشقِ سخن کی نذر ہوجاتے ہیں اور جب شاعر لفظوں کی حساسیت، بیان کی نزاکت اور شاعری کے کچھ لوازم سے آگاہ ہوکر شعر کہنے کی کوشش کرتا ہے تب اسے یہ ملکہ حاصل ہونے کا امکان پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسی بات کہہ سکے کہ سامع یا قاری اسے ’’اپنے دل کی آواز‘‘ سمجھنے پر مجبور ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ چشمِ تر ‘‘ کے حوالے سے کہے جانے والے ہزاروں نعتیہ اشعار میں ، امین راحت چغتائی کا درجِ بالا شعر، ایک منفرد لہجے کا شعر لگتا ہے اور اس کی تعریف بجا طور پر ہر باذوق قاری کی تعریف لگتی ہے۔ کلیم احمد عاجزؔ ایک معروف شاعر ہیں ۔ساتھ ہی شعری نزاکتوں سے آگاہی اور اس کے اظہار نے انہیں تنقید کاسلیقہ بھی عطا کردیا ہے اس لیے ان کی تنقیدی رائے بھی ان کے شعر کی طرح ان کے احساسات کا فطری اظہار معلوم ہوتی ہے۔ماجد خلیل کے شعری مجموعے ’’روشنی ہی روشنی‘‘ پر ’’ایک معتبر شاعر‘‘ کے زیرِ عنوان دیباچہ، تقریظ یا مقدمہ [جو نام بھی دیا جاسکے] لکھتے ہوئے کلیم عاجز نے بڑے پتے کی بات کی ہے، وہ کہتے ہیں:

’’بقول انگریزی نقاد، ’کولرج‘ کہ ’شاعری یہ نہیں کہ کیا کہا گیا ہے، شاعری یہ ہے کہ کیسے کہا گیا ہے‘۔میں نے اس قول کو بہت فراخ دلی سے جانچا پرکھا اور تجربے نے یہی کہا کہ بات سچ ہے۔اگر صرف اونچی بات ہی شاعری کہلاتی تو اونچی باتیں تو تھوڑی ہی ہیں۔زندگی کی حقیقتیںاور سچائیاں تو شمار میں آسکتی ہیں لیکن اچھی شاعری کا شمار مشکل ہے۔تو اچھی شاعری جو کہ کی گئی ہے وہ دراصل یہی ہے کہ کسی کہنے والے نے کسی انوکھے ڈھنگ سے کہہ دی تو کہی ہوئی بات بھی نئی ہوگئی۔ ماجد صاحب کے کہنے کا ڈھنگ یہی ہے۔ ڈھنگ اگر نقل ہوتو بات اور فرسودہ ہوجاتی ہے۔ڈھنگ اگر تازہ ہو تو پرانی بات بھی نئی ہوجاتی ہے۔شاعری کی اس حقیقت کو فراموش کردیجیے تو معیاری باتیں چند ہی رہ جائیں گی۔لیکن ہماری اردو شاعری اور فارسی شا عر ی میں معیاری باتیں بہت ہیں اور ان کا معیار ی ہونا باتوں کی نوعیت پر نہیں بلکہ لکھنے کی انفرادی نوعیت پر ہے۔یہ باتیں تسلیم شدہ ہیں اس لیے ان کی وضاحت اور دلائل کی ضرورت نہیں۔ماجد صاحب کے یہاں بھی کہنے کا انفرادی ڈھنگ و آہنگ ہے۔جس نے ان کی شاعری کو پسندیدہ ، دلکش اور دل پسند بنادیا ہے۔‘‘۵۳؎

کلیم عاجزؔ نے ماجد خلیل کا کوئی شعر نقل نہیں کیا، لیکن ان کے بیان کی روشنی میں ماجد خلیل کے کلام کو دیکھئے تو کلیم عاجز کی نکتہ رسی کی داد دینی پڑتی ہے۔واقعی ماجد خلیل نے بہت سے پرانے مضامین کو بیان کی تازگی سے نیا بنادیا ہے۔ مثلاً:


ایک وہ شب تھی کہ ہونا پڑا دہلیز بدر

ایک یہ دن ہے کہ دنیا تری دہلیز پہ ہے

لفظ’ہے‘ کا ہے سزوار یقیناً جب تک

کرۂ ارض کا ماتھا تری دہلیز پہ ہے

جب بھی تڑپا ہے حضوری کی طلب میں ماجدؔ

دیکھنے والوں نے دیکھا تری دہلیز پہ ہے۵۴؎



سبز گنبد سنہری جالی کو

اور ترسیں کے چشم و لب کب تک

عقل، دل ، روح جسم و فکر و نظر

دیکھو ہوتے ہیں ان کے سب کب تک ۵۵؎

درجِ بالا اشعار میں بیان کی ندرت نے نعتیہ شاعری کے مروجہ مضامین کو نیا بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلیم عاجزؔ کی تنقیدی رائے سے نہ صرف اتفاق کرنے کو جی چاہتا ہے بلکہ ان کی نکتہ رسی کی داد بھی دینی پڑتی ہے۔

حافظ محمدمظہرالدین کو بجا طور پر ’’حسان العصر‘‘ کے خطاب سے نوازا جاتا رہا ہے۔ ان کا کلام اردو نعتیہ شاعری کی آبرو ہے۔میرے سامنے ان کے تین مجموعے ہیں’’تجلیات‘‘ [۱۹۶۹ء،طبع چہارم ۲۰۰۹ء]’’جلوہ گاہ‘‘ [۱۹۷۴ء،طبع دوم ۲۰۰۹ء] اور ’’باب جبریل‘‘ [۱۹۷۸ء،طبع دوم ۲۰۰۹ء]۔’’جلوہ گاہ‘‘ کے دیباچے بعنوان ’’سجدۂ قلم‘‘ میں احسان دانش لکھتے ہیں:


’’حافظ مظہرالدین صاحب کے یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کے ہر پہلو اور اپنے عجز کے بیشتر پہلوؤں پر خیالات و احساسات کی تصویریں ملتی ہیں ، جن میں ادب بھی ہے اور احترام بھی،عشق بھی ہے اور سوز عشق بھی۔ میں نے پاکستان میں بہت کم لوگ حافظ مظہرالدین صاحب جیسے رقیق القلب اور عاشق رسول دیکھے ہیں اور دیکھاجائے تو نعت کا حق عاشقِ رسول ہی کو پہنچتا ہے اور وہی کلام دلوں میں گداز اور پلکوں پر بادلہ لگاتاہے۔میں نے کئی بسیار گو اور زود نویس شعراء کو دیکھا ہے کہ فنی طور پر تو ان کے کلام میں کوئی نقص نہیں ہوتا لیکن تاثر کا دور دور تک پتہ نہیں لگتا۔ قاری کا جسم بھی پیاسا رہتا ہے اور روح بھی کیوں کہ شعر تو ایک فطری ابلاغ کا ذریعہ ہے اگر وہ موزونیء طبع اور مہارتِ عروض کے علاوہ زودگوئی کے بل پر کہا گیا ہے تو تاثرات کے اعتبار سے دیوالیہ اور جذب کے لحاظ سے ٹھس ہوتا ہے اور کھرا سکہ نہیں کہلا سکتا۔‘‘۵۶؎


حافظ مظہرالدین کے نعتیہ مجموعے ’’تجلیات‘‘ کا دیباچہ [اسی عنوان سے ]محمد ایوب صاحب نے لکھا تھا۔وہ رقم طراز ہیں:

’’دنیائے شعر و شاعری میں نعت کو بعض نادان مدِ فاضل تصور کرتے ہیں اور اس لیے ان کے نزدیک نعت کے لیے فنی قواعد و محاسن کا لحاظ ضروری نہیں سمجھا جاتا۔یہ طرزِ عمل نہ صرف فن کی توہین و تخریب کے مترادف ہے بلکہ خود نعت کی عظمت و پاکیزگی کے پیش نظر ایک طرح کی بے ادبی و گستاخی ہے۔ محبوب کے حضور ہر پیش کش حسین و متوازن انداز میں پیش کی جانی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ فن کا منصب تحسین و تزئین ہی ہے۔ حافظ صاحب کی نعتیں الحمد للہ فنی اعتبار سے بھی بے داغ، حسین اور مزین ہوتی ہیں۔‘‘۵۷؎

حافظ مظہرالدین کی تیسری کتاب ’’بابِ جبریل‘‘ کا ’’پیش لفظ‘‘ پیر محمد کرم شاہ رحمۃ اللہ علیہ الازھری نے لکھا تھاوہ فرماتے ہیں:

’’نعت کی اپنی مخصوص زبان ہے اور اس کی فصاحت و بلاغت کا اپنا معیار ہے اور وہ ہے ’’جذبۂ عشق‘‘۔ ایک سادہ سا جملہ اگر سوز عشق سے لبریز ہے تو وہ اپنی اثرآفرینی میں طویل قصائد سے بازی لے جاتا ہے۔ جذبہء عشق و محبت سے بے بہرہ دفاتر بھی دل میں گداز پیدا نہیں کرسکتے اور نعت گوئی کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔مبداء فیاض نے ان[حافظ مظہرالدین]کو نغز گوئی، جدت طرازی،بیساختگی وبرجستگی،شیریںبیانی،سلاست وروانی کی جوانمول صلاحیتیں بخشی ہیں، ان کا رخ ہر طرف سے موڑ کر اپنے محبوبِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نعت کی طرف پھیر دیا ہے…بابِ جبریل کی پہلی نعت پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔جب یہ شعر پڑھا تو دل کے کسی گوشہ سے ’جا ایں جاست‘ کی صدا بلند ہوئی اور کئی بار اس شعر کو پڑھتا رہا۔آپ بھی سنیے:

جو ان کے ذکر میں بیتے وہ لمحہ ، عین کرم

جو ان کی یاد میں گزرے وہ زندگی انعام


کتنی بڑی سچائی ہے اور ہم اس سے کتنے بے خبر ہیں۔قبلہ حافظ صاحب کا شعور اس صداقت کی روشنی سے تابناک ہے اور اس کے ساتھ اندازِ بیان کتنا باوقار ہے۔ اس سے آگے اپنے دلبر کے شہر کی صبح و شام کا منظر کس خوبی و خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں:


نظر فروز ہے شہرِ نبی کی صبحِ جمیل

ہزار جلوہ در آغوش ہے حجاز کی شام


حافظ صاحب کی نگاہیں شہرِ حبیب کی صبح و شام کے جلوؤں سے سرمگیں ہونے کے بعد روئے حبیب کی دلبرانہ اداؤں میں کھو جاتی ہیں۔دلِ مضطر کے جذبات زبانِ قلم سے ٹپک پڑتے ہیں۔عرض کرتے ہیں:


اے کہ زلفوں سے تری عشق کی شامیں روشن

اے کہ چہرہ ہے ترا صبحِ درخشانِ جمال

جز ترے کون ہے مخدومِ جہانِ خوباں

جز ترے کون ہے کونین میں سلطانِ جمال


بے خودی کے عالم میں حافظ صاحب ایک اور حقیقت سے نقاب الٹتے ہیں۔حافظ صاحب کے ندرتِ بیان کی بلائیں لینے کو دل چاہتا ہے:


ہو نہ جلوہ گر چمن میں جو نبی کا نورِ تاباں

کبھی ان گلوں سے ملنے کے لیے صبا نہ آئے

دوسرے مصرعے کی جتنی داد دی جائے حق ادا نہیں ہوسکتا۔۵۸؎


حافظ مظہرالدین کے کلام پر تین مختلف دیباچہ نگاروں کی آراء دیکھنے کے بعد جب حافظ صاحب کا کلام دیکھتے ہیں تو اس میں فنی خوبیان، بیان کی لطافتیں اور انداز و اسلوب کی ندرتیں دل موہ لیتی ہیں۔چونکہ دیباچہ نگاروں کے اقتباسات میں اشعار نقل کرنے سے گریز کیا گیا تھا، اس لیے چند اشعار ہم دیکھ لیتے ہیں تاکہ تنقیدی آراء کی معروضیت یا موضوعیت سے آگاہی حاصل ہوسکے:


ذرے ذرے میں ہے دل اے سارباں آہستہ چل

یہ ہے راہِ سرورِ ؐ کون و مکاں آہستہ چل

اے حدی خواں ! اے امیرِ کارواں آہستہ چل

ہے شریکِ کارواں اک خستہ جاں ، آہستہ چل

میں وفورِ شوق میں ہوں نغمہ خواں آہستہ چل

دیدنی ہے میری مستی کا جہاں ، آہستہ چل

رُک! کہ میں بھی جھاڑ لوں دامن سے گردِ معصیت

کیوں کہ طیبہ ہے جہانِ نوریاں، آہستہ چل

ملنے والا ہے مرے اشکوں کو بھی رنگِ قبول

ختم ہولینے دے میری داستاں آہستہ چل ۵۹؎


اس نعتیہ غزل کے ۱۹[انیس]اشعار ہیں، میں نے پانچ اشعار اوپر نقل کیے ہیں۔ان اشعار کی خواندگی کے بعد نقادانِ فن نے جو آراء ، حافظ مظہرالدین کے کلام کے بارے میں دی ہیں انہیں ہم معروضیت کے آئینے میں دیکھ سکتے ہیں۔حافظ مظہرالدین کے کلام میں بات کہنے کا جو سلیقہ ہے اس کو دیکھتے ہوئے مجھے علامہ شبلی نعمانی یاد آگئے جو شعر اور شاعر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:


’’شاعری کی بڑی ضروری شرط اسلوب بیان کی جدت اور دلآویزی ہے۔ شاعر ایک معمولی بات کولیتا ہے۔اور ایسے دلکشا اور ندرت آمیز اسلوب سے ادا کرتا ہے کہ سب وجد کرنے لگتے ہیں، اسلوبِ بیان کی دلآویزی کے مختلف اسباب ہوتے ہیں۔کبھی صرف زبان کی بے تکلفی ،روانی اور شستگی یہ کام دیتی ہے، کبھی عام طریقہ ٔ ادا کے بدل دینے سے یہ بات پیدا ہوتی ہے۔کبھی شاعرانہ استدلال سے، کبھی شوخی و ظرافت سے کبھی استعارہ و تشبیہ کی ندرت سے اور سچ یہ ہے کہ اس کی تمام ادائیں متعین اور مشخص نہیں ہوسکتیں، سننے والے کو اتنا محسوس ہوتا ہے کہ کسی چیز نے دل میں چٹکی لے لی، کس نے لی، کیوں لی، یہ کچھ نہیں معلوم:


خوبی ہمیں کرشمہ و نازِ خرام نیست

بسیا ر شیوہ ہاست بتاں را کہ نام نیست ۶۰؎

حافظ مظہرالدین کے کلام کی اسلوبیاتی سطح خاصی بلند ہے،فنی چابکدستی ان کے مزاج کا حصہ لگتی ہے اور بیان کی لطافت بڑی جاذبِ توجہ ہے یہی وجہ ہے کہ مجھے شبلی نعمانی کی رائے سے استشہاد کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔ شبلی کی بات سے حافظ مظہرالدین کی کتابوں پردیباچے لکھنے والے حضرات کی رائے وزنی لگنے لگتی ہے۔


’’حاضری و حضوری ‘‘ پر ’اظہارِ خیال‘ کے زیر عنوان لکھتے ہوئے عاصی کرنالی نے صاحبِ کتاب سجاد سخنؔ کی نعت گوئی کے دو خصوصی گوشوں پر روشنی ڈالی ہے اور مثالوں سے اپنے دعوے کی دلیل بھی فراہم کی ہے۔عاصی کرنالی کے انتخابِ اشعار سے ان کے بیان میں دلیل کا زور بھی پیدا ہوگیا ہے اور ان کے ممدوح کے نعتیہ شعری منہاج کا رخ بھی متعین ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے:


’’میں سجاد سخنؔ کی بے شمار بلکہ ان گنت خوبیوں میں سے صرف دو کا ذکر کرتا ہوں اور ان کے گلستانِ سخن سے صرف دو پھول چنتا ہوں۔آگے آپ حسب ذوق اور حسبِ توفیق گل چینی کرتے جائیے اور گل دستے بناتے جائیے ۔ایک وصف ہے ہادیٔ کا ئنات،معلم انسانیت حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فضائل کاذکر۔سجاد سخن کے یہاں اس فضائل نویسی میں نہایت تنوع ہے…چند مثالوں سے سجاد سخن کی طرزِ اظہار کا اندزہ کیجیے:


مشتمل ہے ذکر ِ آقا پر کتابِ زندگی

وقت نے کتنا بدل ڈالا نصابِ زندگی

عرش زیر پا تھا اور خلوت گہہِ معبود تھی

اک بشر ہوتے ہوئے آقاکی رفعت دیکھیے

روشنی ہی روشنی ہوگی متاعِ جسم و جاں

اسوۂ آقاکے آئینے میں سیرت دیکھیے

عظمت کا شاہِ دیں کی تعین نہ کرسکے

ادراک، علم، فکر، تجسس، گماں، خیال


سجاد سخن کی نعت کا دوسرا وصف ’’حاضری و حضوری‘‘ کا بیان ہے۔حاضری سے قبل کیفیاتِ بے تابی اور احوالِ مہجوری کا نئے نئے اسلوب میں ذکر،پھر حاضری سے شرف یاب ہوکر مدینہ منورہ میں چشم و دل سے گزرنے والے مناظر، مظاہر، مشاہدات اور محسوسات کا نہایت ندرت و لطافت کے ساتھ بیان،پھر حاضری و حضوری کے بعد مراجعت اور اپنے گھر واپسی اور اس عالم میں انہی احوال و مناظر کا تصوراتی ذکر جس میں دیدارِ مکرر کی خواہش بھی شامل ہے۔میرے نزدیک یہ ساری نعتیں ’’حضوری نامہ‘ ‘ ہے۔ ذرا اس رخ سے نعتوں کا مطالعہ کیجیے۔پڑھتے پڑھتے آپ خود سرتاپا ’’حضوری‘‘ بن جائیں گے:


ایک ہی دھن ، ایک ہی رٹ ہے، چلو طیبہ چلیں

چین سے رہنے نہیں دیتا مجھے سرکار دل

دل چاہتا ہے ہو درِ خیرالبشر نصیب

لیکن اِدھر ہے میری تمنا اُدھر نصیب

مسافر کی طرح رہتا ہوں گھر میں

سمجھتا ہے مدینے کو وطن دل

اس کے سوا خدا سے کروں کیا دعا سخنؔ

ہو تیرے در کا طوف، مدینے میں گھر نصیب

چل بلایا ہے شہنشاہِ مدینہ نے تجھے

ہو عطا گوشِ عقیدت کو یہ ہر بار نوید

سجاد سخنؔ کے ایک پُر نور شعر پر گفتگو تمام کرتا ہوں:


ہے محیطِ فکر، نورِ گنبدِ خضرا سخنؔ

روشنی سے لکھ رہا ہوں انتسابِ زندگی۶۱؎


پروفیسر ڈاکٹر عاصی کرنالی نے اپنی تاثراتی تنقیدی بصیرت کے پیشِ نظر مختصراً سجاد سخن ؔ کے فکری زاویوں کے دو رخ بتا کر ان کے حسن ِ اظہار اور فکر ِ سخن ؔ کے لیے انتخاب کیے گئے موضوعات اور بیان میں پیدا ہونے والی ندرت کا ذکر کیا۔سچ یہ ہے کہ سجاد سخنؔ کی شعری کائنات میں موضوعات کا تنوع بھی ہے اور ان کی نعتیہ شعری فضا میں بہت سے رنگ بکھیرنے کی کامیاب کوششیں بھی جھلکتی ہیں۔ کیوں کہ سجاد سخنؔ کو تو ان کے افکار سے آقا حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے درِ اقدس تک ایک عالمِ نور ہی نظر آتا ہے جس کی کیفیات کو وہ اپنے شعروں میں اجاگر کرتے رہتے ہیں:


مرے افکار سے آقا کے در تک

ہے عالم نور کا حد ِ نظر تک ۶۲؎

پروفیسر ڈاکٹر عاصی کرنالی کی تنقیدی رائے کو ان کے دعوے اور سجاد سخنؔ کے کلام کی دلیل کی روشنی میں اعتدال پسندی کی مثالوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔


بشیر حسین ناظم نے غالب ؔ کی زمینوں میں نعتیہ شعری گلاب کھلانے کا بیڑا اٹھایااور جمالِ جہاں فروز کے نام سے ان کی نعتیہ کاوشیں سامنے آئیں تو راجہ محمدظفرالحق نے اس کتاب کی تقریظ لکھتے ہوئے اپنی رائے کا یوں اظہار کیا:


’’بشیر حسین ناظم نے نعت کہتے وقت اپنے سامنے ادب و احترام ، حفظِ مراتب ، انتخابِ مضامین، عمدہ اسلوب و طرزِ اظہار،بہترین اندازِ خطاب، تو قیر و تکریم کے التزام اور حقیقت نگاری کو مطمحِ نظر بنایا ہے۔علاوہ ازیں سیرتِ طیبہ کا عمیق مطالعہ ، ذاتِ رسالت مآب علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دل بستگی، والہانہ شیفتگی،علوم دین اور مسائلِ دین سے کلی تعارف، ایمانی و روحانی بصیرت،تزکیۂ نفس،طہارتِ قلب و نظر، پاکیزگیء روح، عقیدہ کی پختگی ، جذبات کی صحت و صداقت اور دل و نگاہ کی مسلمانی بشیر حسین ناظم کے خواص رہے ہیں۔‘‘۶۳؎


تقریظ نگار راجہ محمد ظفرالحق نے مقتضیاتِ نعت نویسی اور بارگاہِ سید الکونین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دربار میں پیش کرنے کے لیے کی جانے والی شاعری کے آداب کو ملحوظ رکھ کر بشیر حسین ناظم کے کلام کو پرکھنے اور اس پر اپنی رائے دینے کی سعی کی ہے۔انہوں نے ناظمؔ کے شعری نمونے پیش کرنے سے اجتناب کیا ہے کیوں کہ قاری کے سامنے ان کی تقریظ کے فوراً بعد ہی بشیر حسین ناظم کے کلام کا دبستان کھل جاتا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم خود ناظم کے شعرِ عقیدت کے کچھ نمونے دیکھتے چلیں:


اے خوشا یا مرحبا، صل علیٰ یا حبذا

’حمد‘ مطلع ہے نبی کے نام کی تفسیر کا ۶۴؎



وہ آئے تو ریاضِ محبت مہک اٹھے

ورنہ مآلِ خلق مثالِ ثمود تھا ۶۵؎


ظلمت کدوں میں نور کے جھالے برس پڑے

جن و بشر کے لب پہ سلام و درود تھا ۶۶؎


بعدِ حق محمد کو دہر میں بڑا پایا

گلشنِ عقیدت میں پھول کیا کھلا پایا

ماہتابِ دنیا میں آفتابِ عقبیٰ میں

دیدۂ دو عالم میں نورِ مصطفیٰ پایا

چاکری پیمبر کی حریت کا غازہ ہے

روکشِ جم و دارا ان کا ہر گدا پایا ۶۷؎


قاب قوسین کی فضاؤں میں

عشق منت کشِ ہوا نہ ہوا

ان کی نعتِ جمیل کہنے کا

حق کسی سے کبھی ادا نہ ہوا ۶۸؎


راجہ محمد ظفرالحق کی تقریظ میں جن آدابِ نعت گوئی کا حوالہ آیا ہے ، ناظمؔ کے کلام میں وہ آداب خاصی حد تک ملحوظ رکھے گئے ہیں اس لیے راجہ محمدظفرالحق کی لکھی ہوئی تقریظ بھی متوازن تقریظ کے طور پر قبول کی جاسکتی ہے۔


مقدمات کی تنقیدی اہمیت :


ہر فن کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ شاعری کے بھی کچھ اصول ہیں اور شاعری میں برتی جانے والی اصناف کے لیے بھی کچھ حدود و قیود اور ان کی ہیئت کے کچھ معیارات مقرر ہیں۔مثلاً غزل کے لیے ہر شعر کے دو مصرعے جن میں کسی ایک خیال کی ایک تصویر یا یا اس کا ایک خاکہ سا بن گیا ہو۔نظم، جس کے بہت سارے مصرعوں کے ارتباط سے کوئی مفہوم نکل سکے اور شاعر کا کوئی ایک خیال واضح ہوسکے۔مخمس کے لیے پانچ، مسدس کے چھ مصرعوں کی قید ۔ رباعی کے لیے چار مصرعوں اور مخصوص وزن کا تقاضا۔ اسی طرح نظمِ معریٰ ، نظمِ آزاد اور نثری نظم کے لیے کچھ فنی تقاضے ہوتے ہیں جن کو پورا کیے بغیر ہیئتی سطح پر بھی شعری اصناف قبول نہیں کی جاتیں۔ اسی طرح موضوعاتی اصنافِ سخن میں حمد و نعت کے مخصوص تقاضے ہیں جن کو پورا کرنا حمد نگار ا ور نعت نگار کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

شاعر کے شعری عمل poetic work ) ( میں تخلیقی پیچیدگیوں کی گرہ کشائی اور شعر کے مفہوم تک رسائی کے لیے بھی تنقیدی بصیرت ، ذوقِ سخن اور سخن فہمی کا ملکہ ہونا ضروری ہے۔نعتیہ شاعری کی اپنی نزاکتیں ہیں جن کا احوال ہم پچھلے ابواب میں کسی حد تک پیش کرآ ئے ہیں، اس لیے نعتیہ شاعری کی کتابوں میں ’مقدمہ‘ نویسی کی اپنی اہمیت ہے۔ عام تنقید نگار کے لیے صرف ادبی معیارات کا جاننا اور پیش نظر صنفِ سخن کے تخلیقی تقاضوں سے آگاہی لازمی ہے۔ لیکن نعت کی تحسین کے لیے ادبی معیارات کے ساتھ ساتھ دینی شعور، مقامِ رسالت مآبصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آگاہی اور قرآن و احادیث میں مذکور بارگاہِ نبوی میں لب کشائی کے آداب کا ادراک ضروری ہے۔اس لیے نعتیہ شعری کتب میں ’مقدمہ‘ ایک خاص اہمیت کا حامل ہوتاہے یا ہونا چاہیے۔اس ضمن میں مقدمہ نگار کی ذمہ داری ہے کہ اپنی ساری توجہ’’کلیم‘‘ کی ذات کے بجائے ’’کلام‘‘ پر مرکوز کردے۔ تب ہی یہ ممکن ہوسکے گا کہ وہ کوئی معروضی رائے دے کر قارئینِ کتاب کی راست رہنمائی کرسکے ۔


ہمارے معاشرے میں راست گوئی کی قدروں کے زوال کے باعث ، جہاں اور شعبوں میں رواداری نے راہ پائی ہے وہیں نعتیہ کتب کی تقریظ،دیباچہ یا مقدمہ لکھنے والوں کے ہاں بھی شاعر کی شخصیت سے مرعوبیت اور مروت کے آثار جھلکنے لگتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ مقدمہ نگار وں نے کلام کے معنوی حسن اور بیان کی جمال ا فروزی کو دیکھے بغیر صرف موضوع کی رفعتوں کا خیال کرکے بات کی ہے اور کوئی مقدمہ،تقریظ یا دیباچہ لکھ دیا ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر فرمان فتحپوری کی رائے بھی ہمارے گمان کو تقویت دیتی ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’کسی نعت یا نعتیہ مضمون کے بارے میں حسن و قبح کے حوالے سے کسی طرح کا حکم لگانا مناسب نہیں۔ ان لفظوں کا استعمال اورمروجہ استعمال نعت اور نعت کے مباحث میرے دائرۂ خیال و قلم سے خارج ہے، کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات گرامی سے جن الفاظ کو نسبت ہوجائے وہ میرے نزدیک تنقیدِ مروجہ سے بلند ہوجاتے ہیں۔‘‘۶۹؎ چنانچہ جذباتِ عقیدت کی فراوانی کے باعث بہت سارے مقدمہ،دیباچہ یا تقریظ نگار حضرات کسی بھی نعتیہ مجموعے کے ملاحظے کے بعد صاحب کتاب کے لیے کمالِ فن کا تصدیق نامہ تو جاری کرسکتے ہیں اور جاری کر بھی دیتے ہیں لیکن بیشتر کتابوں کے قامت پر ان مقدمات،دیباچوں اور تقریظ کا جامہ پورا نہیں آتا۔ بعض مقدموں ،تقریظات اور دیباچے پڑھنے کے بعد جب کتابیں پڑھی جاتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کتابوں پر تنقیدی رائے دینے والوں نے شاید صاحبِ کتاب کے لیے ’’ہجوِ ملیح‘ لکھ کر اپنی جان چھڑالی ہے۔


اسمٰعیل انیس کے نعتیہ مجموعے ’’چراغِ عالمیں‘‘ پر چوبیس اہلِ قلم نے نثر و نظم میںتحسینی رائے دی۔ جبکہ اسی مجمو عے میں بعض اشعار قابلِ گرفت تھے جن کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا۔مثال کے طور پر درجِ ذیل اشعار :


قرآنِ معظم کی قسم کچھ نہیں لکھتے

جز اسمِ نبی لو ح و قلم کچھ نہیں لکھتے۷۰؎



مشورہ تخلیقِ عالم کے لیے درکار تھا

کیوں نہ ہوتے عرش پہ مہماں چراغِ عالمیں۷۱؎

ان دونوں اشعار پر معروضی انداز سے غور کریں تو دونوں اشعار کا نفسِ مضمون نعتیہ شاعری کے موضوعاتی منظر نامے پر کچھ بد نما داغ کی طرح ابھرتا ہے۔پہلے شعر میں قرآن کریم کی قسم کھا کر حصر کے ساتھ یہ کہنا کہ لوح و قلم’’نبی کے نام کے علاوہ‘‘ کچھ نہیں لکھتے، حقیقت کے بالکل بر عکس ہے۔پھر لکھنے کا کام قلم کے ساتھ ساتھ لوح (تختی) کو بھی سونپ کر ، شاعر نے اپنے علم ، مشاہدے اور شعر گوئی کے منہاج کا خود ہی پول کھول دیا ہے۔

اب ذرا قرآنِ کریم کی سورۂ ’’القلم‘‘ کی پہلی آیت دیکھئے :


نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ (۱)

’’قسم ہے قلم کی اور جو کچھ وہ لکھتے ہیں۔‘‘


اس قرآنی آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ قلم کی تحریر کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔پیر محمد کرم شاہ الازہری نے لکھا ہے:


’’قلم ،تفصیل کا مرتبہ ہے۔واؤ قسم ہے۔القلم سے بعض حضرات نے وہ قلم مراد لیا ہے جس نے امرِ الٰہی سے تقادیر عالم کو لوحِ محفو میں تحریر کیا… قلم، ایک ایسا آلہ ہے جو زمان و مکان کی مسافتوں کو تسلیم نہیں کرتا۔وہ گزشتہ صدیوں کے علوم و فنون سے حال و مستقبل کو روشن کرتا ہے اور دور دراز علاقوں میں پیدا ہونے والے اولوالعزم حکماء و فضلا کے افکار و نظریات کو دنیا کے گوشہ گوشہ تک پہنچاتا ہے۔‘‘۷۲؎


اس تفصیل سے یہ بات تو صاف ہوگئی کہ اسمٰعیل انیس نے بڑے بھول پن سے ایک ایسی بات کی قسم کھالی جو مبنی بر حقیقت نہیں تھی۔ مزید برآں ، مرحوم نے ’’لوح‘‘ [تختی] کو بھی لکھنے کے آلے کے طور پر پیش کیا جو شعر کی ردیف ’’لکھتے‘‘ کے استعمال کے باعث ازخود لکھنے کے وظیفے میں شامل ہوگئی۔ اس طرح یہ شعر عملی حقیقت کے خلاف ہوتے ہوئے قرآن کی تعلیمات کے بھی خلاف ہوگیا۔


دوسرا شعر جس میں شاعر نے بڑی سادگی سے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ’’اللہ رب العزت کو [نعوذ باللہ] تخلیق عالم کے لیے مشورہ درکا تھا اس لیے چراغ ِ عالمیں جنابِ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عرش پر مہمان ہوئے‘‘… اپنے مافیہ کی غیر فطری اور حقیقت گریز حیثیت کا احساس دلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے بندے اور رسول سید الکونین حضرت محمد مصطفیٰصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنی نشانیاں دکھانے کے لیے بلایا تھا۔اللہ تعالیٰ تخلیقِ عالم کے لیے مشورے کا قطعی محتاج نہیں ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:


سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِاِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰ یٰتِناَ۔


’’(ہر عیب سے) پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے بندے کو رات کے قلیل حصہ میں، مسجد حرام سے مسجدِ اقصٰی تک،بابرکت بنادیا ہم نے جس کے گردونواح کو تاکہ دکھائیں اپنے بندے کو اپنی قدرت کی نشانیاں۔ ‘‘۷۳؎


ان تصریحات کے بعد جب ہم ان آراء کا مطالعہ کرتے ہیں جو ’’چراغِ عالمیں‘‘ کے مطالعے کے بعد نکتہ شناس تنقید نگاروں نے رقم کی ہیں توافسوس ہوتاہے کہ تحسینی صداقت نامے دینے والوں میں سے کسی کی نظر بھی ان اشعار پر نہیں پڑی جن کی وجہ سے اچھا خاصا مجموعہء نعت داغدار ہوگیا؟ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ تقریظ لکھنے والوں نے سرسری نظر ڈال کر قلم اٹھایا اور ’’کلیم‘‘ سے محبت کا اظہار فرمادیا، کلام کی قدر صرف پڑھنے والوں پر چھوڑدی۔نعتیہ مجموعوں کے لیے یہ روش زہرِ قاتل کا حکم رکھتی ہے۔


اب ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ لکھنے والوں نے کن کن زاویوں سے مذکورہ نعتیہ کلام کی تحسین فرمائی ہے:


’’اسمٰعیل انیس نے نعت و حمد دونوں میدانوں میں نہایت خوبی، خوش اسلوبی اور دل افروزی و دلنوازی کے ساتھ جذبات و احساسات کااظہار کیا ہے۔ ’’چراغِ عالمیں‘‘ ان کی قدرتِ کلام کا خوبصورت نمونہ ہے۔‘‘ ۷۴؎ (رئیس امروہوی)


……… ’’میں نے کچھ نعتیں مجموعۂ ’’چراغِ عالمیں‘‘ میں سے پڑھی ہیںجن کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بابائے شعروسخن اسمٰعیل انیس کو رسولِ کریم سے بے پناہ عقیدت و محبت ہے۔ان کی کہی ہوئی نعتیں مقصدیت اور اصلاحِ حیات کا پہلو لیے ہوئے ہیں جن سے یقیناً اصولِ حیات کی راہ متعین ہوتی ہے۔‘‘۷۵؎ (الحاج محمد محسن)

…… ’’بعض بعض نعتیں تواتنی وجد آفریں ہیں کہ ہر ایک شعر پر دل وجد کرنے لگتا ہے اور جسم و جاں میں نور کی ایک لہر دوڑجاتی ہے۔بابا نے بڑے ہی قلیل وقت میں اتنی عمدہ اور اتنی زیادہ نعتیں لکھ لی ہیں کہ رشک آنے لگتا ہے۔‘‘۷۶؎ (مشتاق چغتائی)

…… ’’مطالعہء ’چراغِ عالمیں‘ سے اسمٰعیل انیس کی استادانہ عظمت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔‘‘۷۷؎ (احمد عادل)

…… ’’یہ نعتیں نئے استعارے ،نئی تشبیہوں،نئے کنایوں، نئی تلمیحوں اور نئی نئی اصطلاحوں کی حامل ہیں۔ان نعتوں میں عجیب دلکشی اور دلپذیری ہے۔‘‘۷۸؎ (ڈاکٹر شاہدؔالوری)

…… ’’جہاں تک ان کی شاعرانہ صفات کا تعلق ہے وہ لفظ اور معنی دونوں پر اپنی فنکارانہ گرفت رکھتے ہیں۔ وہ تجربے کی سچائی کے بھی اتنے ہی قائل ہیں جتنا کہ انہیں لفظ کی صحت کا پاس ہے…وہ نعت گوئی میں افراط و تفریط کے سلسلے میں بہت محتاط ہیں۔‘‘۷۹؎ (فراست رضوی)


’’چراغِ عالمیں‘‘ میں منثور مداحی کے ساتھ ساتھ منظوم خراجِ عقیدت بھی پیش کیا گیا ہے۔ان تمام آراء کے پڑھنے کے بعد قاری پرجو مرعوبیت طاری ہوتی ہے وہ ان دونوں اشعار کی خواندگی کے بعد جن پر ان سطور میں کچھ گفتگو کی گئی ہے، نہ صرف یہ کہ قائم نہیں رہتی بلکہ تقریظ نگاروں کے خوشامدی انداز کے باعث ان کی شخصیت کے حوالے سے منفی خیالات کو جنم دیتی ہے۔ یقینا صاحبِ کتاب کی نعتیں اچھی ہیں لیکن تبصرہ نگار وں اور تقریظ نویسوں کا کیا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ ایسے تمام اشعار کی نشاندہی کرکے نعتیہ مجموعے کو غیر معیاری اشعار کی اشاعت سے بچا لیتے؟


اس مثال سے ظاہر ہوا کہ بعض مقدمہ، تقریظ یا دیباچہ نگار، نعتیہ شعری مواد کوپرکھے بغیر صرف موضوع کی رفعتوں کا خیال کرکے قلم اٹھالیتے ہیں اور کتابوں میں اچھے اشعار کے ساتھ ساتھ کمزور اور حقیقت سے بعید خیال کی بنت پر دھیان نہیں دیتے اور قابلِ اعتراض لوازمہ [matter ] جوں کا توں چھوڑ دیتے ہیں۔

ناقدین کی اس روش سے نئے نعت نگاروں میں، نعتیہ مضامین کی پرکھ کی صلاحیت ہی پیدا نہیں ہوتی اور وہ بھی خیال کی وادیوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔

اغلاط کی مثالیں صرف ان کتابوں میں ہی نہیں ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ہم نے یہاں صرف چند نمونے پیش کردیئے ہیں۔’’مقدمہ نگاری کی اہمیت‘‘ پربھی ہم نے اسی لیے کچھ معروضات پیش کردیئے ہیں تاکہ موضوع کی رفعت کے پیش نظر مستقبل کے مقدمہ، تبصرہ، دیباچہ یا تقریظ نگار حضرات ان پر غور کرسکیں اور کسی کتاب پر لکھتے ہوئے معروضیت اختیار کرنے کی کوشش کریں ، صرف کلام پر توجہ مرکوز رکھیں اور کلیم کی حیثیت اور مقام و مرتبے کو نظر انداز کردیں …اس لیے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان بیان کرنے میں جو غلطی شاعر سے ہوگی ، اس کو سراہنے والے اس غلطی میں شریک ہی نہیں بلکہ اس کی ترویج کے بھی ذمہ دار ہوں گے!

مقدمات میں پیش کی جانے والی تنقیدی آراء کی معروضی پرکھ:

مقدمہ لکھنے والوں نے بہت سی کتب پر مقدمے لکھے ہیں۔بعض مقدمہ نگاروں نے حقیقت نگاری کو اپنا شعار بنایا اور بعض نے صرف صاحبِ کتاب کی ثنا کی۔کتب نعت میں مقدمات کی تنقیدی اہمیت کے ذیل میں ہم نے صرف ایک مثال پیش کرکے بتایا تھاکہ مقدمہ نگاری کی اہمیت اس وقت کم ہوجاتی ہے جب اصل کتاب میں کوئی شعر شعری یا شرعی معیارات سے فرو تر پایا جاتا ہے اور دیباچہ، تقریظ یا مقدمہ نگار اس کی نشاندہی نہیں کرتا۔ ایسی صورت میں نعتیہ شاعری کے باذوق قاری کے ذہن کو بڑا دھچکا لگتا ہے۔

صحیفۂ نور کے نام سے لطیف اثرؔ کا مجموعہء نعت شائع ہوا ۔اس مجموعے میں ڈاکٹر ابوللیث صدیقی،ڈاکٹر الیاس عشقی،پروفیسر نذیر بھٹی اور محمد زبیر فاروقی شوکت الہٰ آبادی وغیر ہم کی دیباچہ نما تحریریں بھی شامل ہیں ۔ ان تحریروں سے چند اقتباسات درجِ ذیل کیے جاتے ہیں:

’’اپنے مجموعۂ اشعار ’صحیفۂ نور‘ میں اثرؔ صاحب نے اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کی صفات کو الگ الگ ایک ایک مختصر بند میں نظم کیا ہے۔اس کا مجموعی تاثر ذاتِ رسولِ مقدس سیرت کے بعض اہم پہلوؤں کی طرف پڑھنے والوں کو خاص طور پر متوجہ کرتا ہے۔ اس میں شاعرانہ صنعت گری کو محض صنعتِ شعر کے لیے نہیں بلکہ عقیدت کے جذبات کے اظہار پر ہے۔اس لیے جذبات کی ترجمانی حقیقت اور صداقت کے ساتھ جذباتی تاثر کا بھی اعلیٰ درجے کا نمونہ ہے اور اسے اسی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر’صحیفہء نور‘ ابواللیث صدیقی ۸۰؎

درجِ بالا عبارت بے ربط ہے۔ظاہر ہے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے ایسی عبارت نہیں لکھی ہوگی۔اس لیے اس بے ربطی کا ذمہ دار کتاب کا مرتب ہی ہوسکتا ہے۔الیاس عشقی صاحب نے ’’تحفۂ نعت، کرشمہء لطیف‘‘ کے زیر عنوان لکھا ہے:

’’ان [لطیف اثرؔ]کے دل میں عقیدت و ایمان کا جو سمندر موجزن ہے اس کی پُرجوش لہریںفنی دشواریوں اورموضوع کی نزاکتوں کو اپنے بہاؤ سے اس طرح ہموارکردیتی ہیں کہ کوئی دشواری ، دشواری نہیں رہتی۔ان کے کلام کی سادگی اور روانی میں فرق نہیں آنے پاتا۔ان کے جذبات و احساسات کی صداقت کو اظہار کے لیے مناسب الفاظ مل جاتے ہیں۔ان کی زبان کہیں نہیں رکتی اور ان کا قلم کہیں نہیں جھجکتا۔وہ فنی اور بیان کی نزاکتوں سے اس طرح گزرتے ہیں کہ ان کی قدرتِ کلام پرحیرت ہوتی ہے۔ وہ نثر کو وزن عطا کرتے ہیں اور اوزان کو نثر کی طرح سہل بناکر پیش کرتے ہیں۔یہ بڑی جسارت اور ہمت کاکام ہے جس کی مثال نایاب نہیں توکمیاب ضرور ہے ‘‘ ۔ ۸۱؎

’’لطیف اثرؔ کا لاجواب اندازِ نعت‘‘، یہ پروفیسر نذیر احمد بھٹی کی تقریظ کا عنوان ہے۔ اپنی اس تحریر میں وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں:

’’وہ (لطیف اثرؔ) رسولِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکے تمام مبارک ناموں سے اپنے اشعار مزین کر رہے ہیں اور اس فن کے وہ امام ہیں۔‘‘ ۸۲؎

محمد زبیر فاروقی شوکت الہٰ آبادی نے جو تقریظ لکھی ہے اس کا عنوان ہے ’’لطیف اثرؔ اور ان کی نعت گوئی‘‘ وہ لکھتے ہیں:

’’صحیفہء نور کے مسودہ کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ لطیف اثرؔکی غزل گوئی اور زبان دانی میدانِ نعت میں بھی ان کی ممد و معاون ہے۔دیکھیے اتنی سخت اور مشکل ردیفوں میں کیسے صاف صاف شعر کہے ہیں:


آپ آئے تو زندگی آئی

آپ کی ذات فخرِ موجودات

ہوگیا دور آپ جب آئے

دورِ ظلمات ، فخرِ موجودات

آپ کے حسنِ کرم سے سرشار

ہر گل و خار محب الفقراء

لطیف اثرؔ کی نعتیں رسولِ مقبول سے والہانہ محبت کی آئینہ دار ہیں۔‘‘۸۳؎


درجِ بالا اقتباسات سے ان تحریروں کی ایک جھلک دکھانا مقصود تھا جو تقریظ، دیباچہ یا مقدمہ کے طور پر لطیف اثرؔ کے مجموعہء نعت پر لکھی گئی ہیں۔ان تحریروں سے شاعر کے فن کی تحسین کا پہلو نمایاںہوتا ہے۔لیکن جب ان تنقیدی آراء کی روشنی میں قاری ذوق و شوق کے ساتھ لطیف اثرؔ کا کلام دیکھتا ہے تو اسے انتہائی درجہ مایوسی ہوتی ہے ۔بعض تقریظ نگاروں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں شاعر کی فن سے بے نیازی کا ذکر تو کیا ہے لیکن نہ تو کھل کر لکھا ہے اور نہ ہی شاعر کو کوئی ایسی نصیحت کی ہے کہ اسے آگاہی نصیب ہوتی اور وہ اپنی اصلاح کی کوشش کرتا۔


اس مرحلہ پر ہم دل کڑا کرکے اس کتاب سے چند اشعار نقل کرتے ہیں تاکہ مقدمات کی معروضی جانچ پڑتا ل کا تھوڑا سا حق ادا ہوسکے۔ سو ملاحظہ ہوں چند اشعار:

میرے آقا سے کہا اللہ نے یہ بالیقیں وما ارسلنٰک الا رحمت اللعالمین

اس امر میں ہیں وہی وہ اور کوئی ان سا نہیں وما ارسلنٰک الا رحمۃ ً ا للعالمین

ہوتے تھے دست و گریباں روز ہر پیر و جواں مونس و غمخوار کوئی کب کسی کا تھا یہاں

وقت تھا انسانیت کا خود بھی دشمن بد ترین وما ارسلنٰک الا رحمت اللعالمین

کون اب جرأت کریگا ضربِ کاری کیلئے اب یہاں کون آئیگا اختر شماری کیلئے

ہوگئی یہ جان کر مظلوم کی روشن جبیں وما ارسلنٰک الا رحمت اللعالمین ۸۴؎

…… ان پہ قربان ہو میرا ایمان و دیں اللّٰہم صلِّ علیٰ محمدٍ

جن سے وابستہ ہے جلوۂ آفریں اللّہم صلِّ علیٰ محمدٍ

شافع روز حشر راحت العاشقیں اللّٰہم صلِّ علیٰ محمدٍ

حسنِ عین الیقیں حاجت شائقیں اللّٰہم صلِّ علیٰ محمدٍ

آپ فخرِیقیں،آپ روشن مبیں،اللّٰہم صلِّ علیٰ محمدٍ

عارف العارفیں سالک السالکیں اللہم صلِّ علیٰ محمدٍ ۸۵؎

…… روشن ہے شایانِ محمد صلے اللہ علیہ و آلہٖ وسلم

اللہ اللہ شانِ محمد صلے اللہ علیہ و آلہٖ وسلم

کہتے رہیے کہتے رہیے جبتک سنیئے نام ان کا

ہوتی ہے پہچانِ محمد صلے اللہ علیہ و آلہٖ وسلم

آیا ہوں مدینے جب سے میںسودا ہے یہی سر میں میرے

حاصل ہو عرفانِ محمد صلے اللہ علیہ و آلہٖ وسلم

ذکر کرے خود جن کا خدا بیٹھ کے اپنے فرشتوں میں

خوب ہے یہ بھی شانِ محمد صلے اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ۸۶؎

……

کہیئے دل سے صلِّ علیٰ محمد رسول اللہ

جب آئے کانوں میں صدا محمد رسول اللہ

عرش گواہی دیتا ہے اسکی صداقت کی ہم سے

لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ

آئے جب محبوب خدا کفر کا ٹوٹ گیا جادو

ہر جانب سے شور اٹھا محمد رسول اللہ

اسکے کرم کا رخ بدلا جب یہ کلمہ وردہوا

دل نے جب تسلیم کیا محمد رسول اللہ ۸۷؎

…… جو ہیں خیرالامم وہ ہیں محبوبِ رب

جن کی امت میں ہم وہ ہیں محبوبِ رب نام سے جن کے تابندہ عہد آفریں

جن کے لوح و قلم وہ ہیں محبوبِ رب ۸۸؎

…… آپ تسکینِ غم شافع یوم النشر

آپ فخرِ امم شافع یومُ النشر۸۹؎

…… اپنے پیکر کو اس میں پرودیجئے

یہ ہے بابِ نظر شافع یوم الحشر۹۰؎

…… ہوں ہمقدم کسی کے اگر افضل البشر

وہ معتبرہو راہ گزر افضل البشر ۹۱؎


مثالیں بہت ہیں، پوری کتاب میں ایسی ہی شاعری ہے۔ کہیں کہیں باوزن اشعار بھی مل جاتے ہیں۔ لیکن مضمون کا سرا پانا وہاں بھی مشکل ہے۔ردیفوں کا حال تو یہ ہے کہ صرف ٹانک دی گئی ہیں۔بحر،وزن اور مضمون کی با معنی بنت سے عاری یہ شاعری ہے جس پر ہمارے نقادوں نے شاعر کی تحسین کے لیے وہ کلماتِ خیر فرمائے ہیں جن کے اقتباسات پچھلے صفحات میں نقل کردیئے گئے ہیں۔


الیاس عشقی نے البتہ طنزِ ملیح میں کچھ جملے لکھ دیئے ہیں ، لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ یا تو کچھ لکھنے سے گریز فرماتے یا اس شاعری کو کھل کر وزن و بحر سے عاری لکھتے۔الیاس عشقی کی ڈھکی چھپی بات بے چارہ شاعر کہاں سمجھ سکتا تھا؟بہر حال الیاس عشقی کے وہ جملے بھی ملاحظہ ہوں جن میں طنزِ ملیح کا رنگ جھلکتا ہے :


’’عربی جملوں کی ردیفوں کی فہرست دینے کے بعد لکھتے ہیں] ان کلمات کا بقیدِ ردیف منظوم کرنا نہ فقط سنگ لاخ زمینوں کی ایجاد کا سبب ہے۔بلکہ وزن و بحر کے مسائل پیدا کرتا ہے لیکن لطیف اثرؔ فنی دشواریوں کو کب خاطر میں لاتے ہیں…یہ منزل اگرچہ فنی طور پر بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہے لیکن اپنے ایمان و عقیدت کے سہارے شاعراس مقام سے بھی بے نیاز انہ اور بے خوف گزر جاتا ہے۔‘‘۹۲؎


لطیف اثرؔ کی شاعری کے نمونے دیکھنے کے بعد جب ہم مقدمہ ، دیباچہ یا تقریظ نگاروں کی تحریر وں کو پڑھتے ہیں تو شعرو شاعری کے عمل اور اس کی بے جاتحسین کے انداز سے کراہیت محسوس ہونے لگتی ہے۔ایسی شاعری اور شاعر کا دل رکھنے کے لیے لکھی گئی تحریریں ، تنقید کے وقار کے منافی ہیں۔ایسی شاعری ہی نعتیہ شاعری کو ادبی سطح پر ابھرنے نہیں دیتی۔ معیار سے عاری شاعری کا کتابوں میں شائع ہونا اور اس کا سراہا جانا ادب کے لیے بالعموم اور نعتیہ ادب کے لیے بالخصوص سمِ قاتل ہے۔


حال ہی میں نعت کے معروف نقاد رشید وارثی کی کتاب ’’اردو نعت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘ منظرِ عام پر آئی ہے۔مجھے حیرت ہوئی کہ رشید وارثی نے ’’علم عروض‘‘ کومطعون کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ شعری اوازن اور لغت کے معیارات کو بالائے طاق رکھ کر بھی شاعری کی جاسکتی ہے۔ان کا تو اس بات پر بھی اصرار ہے کہ ناقدینِ فن اس قسم کی شاعری کو پرکھتے ہوئے اوزان و بحور کو یکسر نظر انداز کردیں۔ رشید وارثی کی مذکورہ تحریر سے متعلقہ اقتباس درجِ ذیل ہے:


’’ہمارے نعتیہ ادب کے بعض تنقید نگاروں میں یہ لائق توجہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ فن عروض میں کسی حد تک شد بد حاصل کرلینے کے بعد اسی کو نعتیہ تنقید نگاری کی اسا س سمجھ کر اس پر انحصار کر بیٹھتے ہیں۔علم عروض کی کوئی شرعی اہمیت تو خیرہے ہی نہیں۔اس پر بعد میں گفتگو کی جائے گی۔خود علمائے ادب، عروض کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ملاحظہ فرمایئے۔صاحبِ ’’کشاف تنقیدی اصطلاحات‘‘ جناب ابوالاعجاز حفیظ صدیقی لکھتے ہیں:


’علماء نے وزن شعر کے صحت و سقم کو جانچنے کے لیے چند قواعد وضع کیے ہیں جن کے مجموعے کو عروض کہا جاتا ہے۔علم عروض کا موجد خلیل احمد بصری (متوفی ۱۷۵ ہجری) ہے۔ہندی عروض کو پنگل کہا جاتا ہے۔عروضیوں نے جو موشگافیاں روا رکھی ہیں اور عروضی اصطلاحات کا جوانبار لگایا ہے اس کا مذاق اڑانا ایک فیشن بن چکا ہے اور جدید تنقید میں عروض کو کوئی باوقار مقام بھی حاصل نہیں رہا۔لیکن شاعر اور نقاد عروض سے آزاد اور بے نیاز بھی نہیں ہوسکتے۔چنانچہ پروفیسر آلِ احمد سرور لکھتے ہیں: ’فاعلاتن فاعلات کی گردان اگرچہ تنقید نہیں ہے، مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ کوئی بھی اچھا نقاد عروض اور اس کے قواعد سے بے نیاز ہوسکتا ہے‘‘۔اب رہی فن عروض کی شرعی اہمیت کی بات، تو اسلامی ادبِ عالیہ میں شامل دیگر فنون کی طرح اسے بھی مباح کہا جاسکتا ہے۔ہمارے تقریباً چار عشروں پر محیط اسلامی ادب کے مطالعے کے دوران کوئی بھی ایسی روایت ہماری نظر سے نہیں گزری کہ افصح العرب صلی اللہ علیہ و آلِہٖ وسلم نے کسی نعتیہ کلام میں پائے جانے والے بعض معنوی اسقام کی طرح عروضی اسقام کی بھی نشاندہی فرمائی ہو یا اس بارے میں کوئی ہدایت فرمائی ہو۔لہٰذا یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ فن عروض کی کوئی شرعی اہمیت نہیں۔‘‘۹۳؎


رشید وارثی کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علمِ عروض کو اشعار کی پرکھ کے اصول کے طور پر ماننے کو قطعی تیار نہیں ۔اسی لیے ان کے الفاظ سے عروض کے حوالے سے خاصی جھنجلاہٹ جھلک رہی ہے۔ظاہر ہے ان کا یہ دعویٰ بڑا بودا ہے ، اسی لیے وہ غیر محسوس طور پر آلِ احمد سرور کی یہ رائے بھی نقل کرگئے ہیں جو ان کے موقف کے بطلان کے لیے کافی ہے:


’’فاعلاتن فاعلات کی گردان اگرچہ تنقید نہیں ہے، مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ کوئی بھی اچھا نقاد عروض اور اس کے قواعد سے بے نیاز ہوسکتا ہے۔‘‘۹۴؎


علاوہ ازیں رشید وارثی نے یہ لکھ کر کہ:


’’علم عروض کی کوئی شرعی اہمیت تو خیر ہے ہی نہیں‘‘


ایک بہت بڑی حقیقت سے عدم آگاہی کا ثبوت دیا ہے۔ قرآنِ پاک  میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمَا عَلِّمْنٰہُ ا لشِعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ ط

’’اور نہیں سکھائی ہم نے اس نبی کو شاعری اور نہیں تھی اس کے شایانِ شان یہ چیز۔‘‘۹۵؎


جب اللہ رب العزت نے اپنے نبی جنابِ محمد الرسول اللہ کو تمام علوم ِ ظاہری و باطنی سے آراستہ فرمانے کے باوجود اس بات کا اعلان فرمادیا کہ ہم نے اس نبی کو شعر گوئی اس لیے نہیں سکھائی کہ یہ فن اس کے شایانِ شان نہیں ہے تو پھر شعر یا شعر سے متعلق کوئی علم ’’شرعی‘‘ کیسے ہوسکتا ہے ۔ ظاہر ہے یہ علم امت کو نہ تو قرآن سے حاصل ہوا ہے نہ کسی حدیث سے۔لیکن حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت کعب بن زُہیرؓ کے شعر میں جو اصلاح فرمائی تھی وہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو اصلاح دی تھی اس سے شعر کا معنوی حسن تو بڑھ گیا لیکن کسی قسم کا عروضی سقم پیدا نہیں ہوا۔آپ نے ’’سیوف الہند‘‘ کی جگہ ’’سیوف اللہ‘‘ تجویز فرما کر یہ ظاہر کردیا کہ لفظ ’’اللہ‘‘ معنوی طور پرتو بلند ترین ہے ہی ، عروضی اعتبا رسے بھی ’’الہند‘‘ کا نعم البدل ہے۔۹۶؎

مزید برآں آپ نے غزوۂ حنین کے موقع پر جو سجع فرمایا وہ بھی عروضی اوزان کے عین مطابق ہے۔


انا النبی و لا کذب… انا ابن عبدالمطلب

’’میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں‘‘۹۷؎


ان شواہد کے ہوتے ہوئے کسی نقاد کا ، عروضی اوزان سے اپنی ناواقفیت کو چھپانے کے لیے علم عروض کو یہ کہہ کر مطعون کرنا کہ یہ کوئی شرعی علم نہیں ہے، بڑی عجیب بات ہے!!!

عروض کے معاملے میں رشید وارثی کے اس رویئے سے علم عروض اور شعر کے وزن و بحر سے ناواقف لوگ تو خوش ہوسکتے ہیں لیکن اہلِ فن کو ان کی بات کیسے ہضم ہوسکتی ہے؟ کیوں کہ خود رشید وارثی نے یہ لکھ کر اپنی دلیل کمزور کرلی ہے:


’’شعر کے متعلق زمانہء قدیم سے علمائے انتقاد کا یہ نظریہ رہا ہے کہ اسے محض پروازِ تخیل کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔لیت شعری کذا کے محاورے میں شعر گوئی اصل میں ایک فنِ لطیف کا نام ہے اور عرف میں موزوں اور مقفی کلام کو شعر سے تعبیر کرتے ہیں۔‘‘۹۸؎


ذرا درجِ بالاعبارت پر غور فرمایئے، کیا فنِ لطیف اور موزوں اور مقفیٰ کلام کو شعر ماننے اور کہنے کے بعد بھی علمِ عروض سے بے نیاز رہا جاسکتا ہے؟


آمدم بر سرِ مطلب ،کسی بھی کتاب پر تبصرہ یا تقریظ لکھنے والے کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ کتاب کے مافیہ اور شعری حسن کا صحیح اندازہ لگائے اور پھر دیانتدارانہ رائے دے تاکہ اس کی تحریر کو وزن و وقار حاصل ہو۔لیکن معلوم ہوتا ہے کہ بیشتر مقدمہ ،تقریظ یا دیباچہ نگار کتاب یا تو پـڑھتے ہی نہیں ہیں یا صرف اچھے اشعار پڑھ کر رائے دیدیتے ہیں۔حالانکہ انہیں ’’خذ ما صفا ودع ماکدر‘‘ [اختیار کرو جو کچھ کہ پاک ہو اور چھوڑدو جو ناپاک ہو]کے مقولے پر خودعمل کرنے سے پہلے صاحبِ کتاب سے اس نصیحت پر عمل کروالینا چاہیے۔ لطیف اثر کی مثال توشعری اوزان و بحور اور مضامین کی کجروی کی انتہا ئی درجے کی مثال ہے۔لیکن بعض ثقہ شعراء کے یہاں بھی نعتیہ مضامین کی بنت میں کمزوریاں رہ جاتی ہیں جن کی طرف دیباچہ ،تقریظ یا مقدمہ نگار غور نہیں کرتے اور بڑی اچھی اور دلکش عبارت میں اپنی رائے دے کر صاحبِ کتاب کی مدح کرنے لگتے ہیں۔ایک دو مثالیں ایسی بھی ملاحظہ فرمایئے:


’’اعظم چشتی کا نام نعت خوانی اور نعت گوئی کے لیے بڑا معروف نام ہے۔ان کے علم وفضل میں بھی کوئی کمی نہیں ، لیکن شعر کہتے ہوئے ان سے ایک ایسا شعر موزوں ہوگیا جس کی موجودگی ان کے شعری مجموعے ’’نیرِ اعظم‘‘(جس میں نعتیہ حصہ بھی ہے) کی پیشانی پر ایک بدنما داغ ہے۔ لیکن ان پر لکھنے والے اہلِ قلم ’’صوفی غلام مصطفیٰ تبسمؔ‘‘ اور ’’مولیٰنا کوثر نیازی‘‘ نے اس شعر پر توجہ ہی نہیں دی۔ حالانکہ اگر یہ حضرات اس شعر کی نشاندہی کردیتے تو اعظم چشتی اپنے مجموعے سے وہ شعر نکال دیتے یا خیال کی اصلاح کرلیتے۔شعر ہے:


انسانیت کو بخشی وہ توقیر آپ نے

ہر آدمی سمجھنے لگا ہے خدا ہوں میں۹۹؎


اس شعر کی معنوی پرتوں کو کھولنا ضروری نہیں صرف اتنا کہدینا ہی کافی ہے کہ یہ شعر تعلیماتِ نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے منافی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود بھی عجز کو پسند فرمایا ہے اور ان کی تعلیم بھی عجز و انکسار اختیار کرنے کی ہے۔یہی نبی کا اسوۂ حسنہ ہے ۔خدا بننے کی خواہش رکھنے والے اور خود کو خدا سمجھنے والے تو فرعون و نمرود تھے جن کی روش سے بچ کر چلنا ہر مومن کا فرض ہے۔

اب ذرا دیکھئے کہ دیباچہ نگاروں نے اعظم چشتی کے لیے کیا کیا لکھا ؟ صوفی غلام مصطفیٰ تبسمؔ رقمطراز ہیں:


’’رسولِ پاک کی یاد انسان کے دل میں پاکیزہ جذبات اور افکار پیدا کرتی ہے اور پاکیزہ افکار سے پاکیزہ اشعار ابھرتے ہیں اور یہاںایک نازک اور کٹھن مرحلہ ہے۔یہاں پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔اس مقام پر پہنچ کر جذبات میںکھو جانا اور پھر احترام کے دامن کو تھامے رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔احترام کے ساتھ جذبات کی روک تھام ہی سے اچھی نعت وجود میں آتی ہے۔اعظم کو قدرت نے یہی جو ہر عطا کیا ہے۔‘‘۱۰۰؎

مولانا کوثر نیازی نے لکھا:


’’یوں تو جتنی بھی اصنافِ سخن ہیں سب اپنی جگہ مشکل اور اہم ہیں مگر جو نزاکت نعت گوئی میں ہے وہ کسی اور صنفِ شعر میں نہیں پائی جاتی۔یہاں ایک طرف محبت کے تقاضے ہیں تو دوسری طرف شریعت کی حدود۔جذبہ ایک طرف کھینچتا ہے تو علم دوسری جانب، عام محبوبوں کا معاملہ ہو تو قلم آزاد ہے جس طرح چاہے وارداتِ قلب کا نقشہ کھینچ دے مگر یہاں جس محبوب کی بات ہونی ہے ، وہ محبوبِ خدا ہے۔ایک ایک لفظ میزان میں تل کے نکلناچاہیے کہ کہیں سوئِ ادب نہ ہوجائے لینے کے دینے نہ پڑجائیں، جو بات ہو افراط و تفریط سے بچ کر ہو، ایک طرف یہ پابندیاں ہیں اور دوسری طرف شعریت کا مزاج اتنا حساس ہے کہ وہ ان حدود و قیودسے فوراً آورد میں تبدیل ہوجاتا ہے۔اب محض علم کے بل بوتے پر نعت کہوتو جذبے کی روح سے خالی ہوگی اور محض جذبے کی بنا پر شعر کہو تو اس پر نعت کا اطلاق نہ ہوگا۔گویا نعت کیا ہے کارگہہِ شیشہ گری ہے ذراسی ٹھیس لگی اورآبگینہ ٹوٹ گیا۔آب و آتش کو یک جا کرنا پھر آسان ہے مگر جذبہ اور علم کی آمیزش سے نغزل کے کامل شعور کوبرقرار رکھتے ہوئے نعت کہنا کارے دارد…اعظم چشتی کی نعتوں کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں عشق بھی نظر آئے گا اور علم بھی،جذبے کی گہرائی بھی ہوگی اورفن کی گیرائی بھی۔وہ اپنی نعتوں میں بے تکلف قرآنی آیات، دینی اصطلاحات اور تصوف کے اشارات و کنایات استعمال کرجاتا ہے اور اس کے باوجود شعریت کی روح برقرار رہتی ہے‘‘۔۱۰۱؎


دیباچہ، مقدمہ یا تقریظ نگاروں کے درجِ بالا اقتباسات سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ انہوں نے ’’کلیم‘‘ کی ذات کو پیش نظر رکھا اور کلام کی جملہ خوبیوں اور خامیوں کی طرف قطعی دھیان نہیں دیا ورنہ کم از کم مذکورہ شعر تو اس مجموعے میں شامل نہیں ہوتا اور اگر ہوتا تو تقریظ نگاروں کا اشارۃً اس کا ذکر اس بات کی شہادت دینے کے لیے کافی ہوتا کہ وہ اس شعر کی حد تک شاعر سے متفق نہیں ہیں۔ اب ان عظیم ناقدین کے عطا کردہ تصدیق ناموں کو کیا نام دیا جائے؟ معروضی تبصرے کا یا جانبدارانہ تنقیدی رائے سے صاحبِ کتاب کونوازنے کا؟


بقاؔ نظامی کے مجموعہء نعت ’’شہپرِ جبریل‘‘ پر تقریظ لکھنے والوں میں بہت سے نامور لوگ شامل ہیں مثلاً:جوش ملیح آباد ی، علامہ جمیل مظہری،علامہ جعفر شاہ پھلواروی،پروفیسر شاہ ِمقبول احمد،پیرزادہ سید آلِ احمد معینی، پروفیسر معین الدین دردائی،پروفیسر محمد اسلم، رئیس امروہوی،تابش دہلوی،شاعر لکھنوی، عطا ء الرحمٰن جمیل،ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں، ڈاکٹر وفا راشدی،ثمر نظامی اور منظوم تقریظ لکھنے والوں میں ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی۔لیکن یہ تمام آراء بقا نظامی کے مجموعی کلام پر ہے جس میں غزل کی کتاب ’’صہبائے بقاؔ‘‘ پر زیادہ کلام کیا گیا ہے۔ البتہ شاعر نے خود اپنے دیباچے میں نعتیہ شاعری کی نزاکتوں سے آگاہی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:


’’در اصل ، نعت، حمد باری تعالیٰ کی ایک شکل ہے۔ایک اچھی اور مکمل نعت سے قاری اور سامع کے دلوں کو عظمتِ الٰہی اورمعرفتِ الٰہی کا ادراک ہوتا ہے۔ نعت وہ راہ ہے جس کو عرفیؔ جیسے شاعر نے بر دمِ تیغ ، یعنی تلوار کی دھار سے تشبیہ دی ہے۔یعنی ہوشیار ہو کہ نعت گوئی تلوار کی دھار پر چلنا ہے ذرا بھی ادھرادھر قدم بہکا اور شاعردنیا و آخرت میں راندۂ درگاہِ الٰہی ہوا۔اللہم احفظنا۔‘‘۱۰۲؎


ہم نے بقا نظامی کی شاعری پر رائے دینے والے حضرات کے نام تو لکھدیئے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ شاعر کا دائرۂ تعلقات کتنا وسیع تھا۔لیکن کسی ناقد کی رائے اس لیے نقل نہیں کی کہ تقریظ نگاروں کی رائے براہِ راست نعتیہ شاعری بالخصوص زیرِ مطالعہ کتاب ’’شہپرِجبریل‘‘ پر نہیں تھی۔اس لیے صرف صاحبِ کتاب بقاؔ نظامی عظیم آبادی کی رائے جو زیر ِ عنوان ’’منصبِ نعت گوئی‘‘ درج کی گئی ہے اس کا اقتباس دیدیا ہے۔ اب اس تصورِ نعت کے بعد خود شاعر نے جو کلام پیش کیا ہے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں کچھ ایسے اشعار بھی نظر آتے ہیں جن کی موجودگی نعتیہ کتاب میں بہت گراں گزر رہی ہے ، مثلاً:


از ازل تا بہ ابد کوئی نہیں کوئی نہیں

آدمیت کا نمونہ آپ ہیں بس آپ ہیں۱۰۳؎

یہاں آدمیت کا ’’واحد نمونہ ‘‘ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی ذات کو بتاکر خود حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پیرو کاروں کی سیرت میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی جھلک تک کی نفی کردی گئی ہے۔پھر حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بشر ہونے کے ساتھ ساتھ خیرالبشر بھی ہیں اس لیے صرف آدمیت کا نمونہ کہہ دینے سے نعت کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔


جس نے دل و جگر کو نچھاور کیا بقاؔ

ہاں ہاں بلال و بوذرو سلمانؓ ہوگیا۱۰۴؎

اس شعر میں حضورصلی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات پر سو جان سے نثار ہونے والے کو صحابیت کا درجہ ملنے کی نوید ہے جو از روئے واقعہ درست نہیں۔کیوںکہ صحابیت کا درجہ تابعین یا اتباعِ تابعین نے بھی نہیں پایا ۔ آج حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کوئی امتی صحابیت کے مقام کو کیسے پا سکتا ہے؟لہٰذا اس شعر کا مافیہ بھی خلافِ حقیقت ہے۔ انا بشر زمانہ تم کو سمجھے ، ہم نہ سمجھیں گے


بنائے کن فکاں تم وجہ تخلیقِ جہاں تم ہو ۱۰۵؎

قرآنِ کریم کی آیت ہے :


قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ


’’کہدیجیے (اے نبی) کہ درحقیقت میں بھی ایک بشر ہوں تم ہی جیسا ، وحی کی جاتی ہے میری طرف۔‘‘۱۰۶؎


قرآن کریم کی کسی آیت کا حوالہ دے کر ، فخریہ انداز میں یہ کہنا کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم نہیں کریں گے کہ آپصصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بشر ہیں، کیسی بڑی اور سنگین جسارت ہے! اس لیے یہ شعر بھی شرعی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔


قریب حضرتِ محبوبِ داور ہوتے جاتے ہیں

بقاؔ اب آپ سلمان و ابوذر ہوتے جاتے ہیں ۱۰۷؎

یہاں بقاؔ نظامی اپنے کسی روحانی ترفع کا احوال بتانا چاہتے ہیں لیکن عہدِ اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد صحابیت کا درجہ کسی امتی کو ملنا محال ہے۔چنانچہ اس دعوے کی وجہ سے یہ شعر نعتیہ مضامین کی حدود سے نکل گیا۔


مری ہستی کو آئینہ بنا ڈالا محبت نے

بلال و بوذرو سلمان ہوں اب اور کیا کہیے ۱۰۸؎

اس شعر کو بھی اسی شعر کے ساتھ ملا کر دیکھیے جس میں یہ نوید سنائی گئی تھی کہ جس نے دل و جگر کو نچھاور کردیا وہ بلال و بوذرو سلمان ؓ ہوگیا۔وہاں بات تعمیم زدہ تھی تو یہاں تخصیص کی صورت میں دعویٰ ہے۔لیکن کیا اس دعوے کو قبول کیا جاسکتا ہے؟


یہ اشعار ایک ایسے مجموعے میں ہیں جس کا دیباچہ خود شاعر نے لکھ کر اپنی ’’نعت شناسی‘‘ کا اعلان کیا ہے۔ایسی صورت میں شاعر کا دعویٰ کس کھاتے میں ڈالا جائے؟ اس باب کے اختتام پر صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ نعتیہ کتب میں شامل مقدمے، دیباچے یا تقریظیں افراط و تفریط کا شکار بھی ہوسکتی ہیں۔اس لیے کسی شاعر کی تخلیقی کاوش کے بارے میں دی جانے والی آراء کو معروضی انداز میں پڑھنے اور محتاط طریقے سے کسی کتاب کے ’’متن‘‘ کو پرکھنے کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ ہر کتاب کو شعری اور شرعی سطح پر پرکھنے کا عمل بہت زیادہ معروضیت کا متقاضی ہے۔

مآخِذ و منابع: ۱۔فہرست کتب ، نعت لائبریری شاہدرہ،لاہور، طبع دوم:اکتوبر ۲۰۰۶ء ۲۔فہرستِ کتب خانہ، نعت ریسرچ سینٹر، کراچی، بار اول ۲۰۰۹ء ۳۔روز گارِ فقیر، ج:۱، ص ۸۵ ۴۔مجموعہء مطالعاتِ عبدالحق، ص ۶۵۰ ۵۔مقدماتِ عبدالحق، ص۳۴ ۶۔اردو لغت، اردو ڈکشنری بورڈ، کراچی ۷۔مقدماتِ عبدالحق، ص ۵۸ ۸۔ایضاً ص ۵۹ ۹۔اردو لغت ۱۰۔ایضاً ۱۱۔اردو میں مقدمہ نگاری کی روایت، ص ۱۹ ۱۲۔مطالعاتِ عبدالحق، ص ۶۹۵ ۱۳۔اردو میں مقدمہ نگاری کی روایت، ص ۱۹ ۱۴۔کلیاتِ حفیظ تائبؔ، ص ۲۶ ۱۵۔کشافِ تنقیدی اصطلاحات، ص ۱۴۲ ۱۶۔کلیاتِ حفیظ تائب،ؔ ص ۹۹ ۱۷۔کلیاتِ نظمِ حالی، ج:اول، ص ۲۵۹ ۱۸۔کلیاتِ حفیظ تائبؔ، ص ۲۷ ۱۹۔ایضاً، ص ۲۶۔۲۷ ۲۰۔ایضاً، ص ۳۰ ۲۱۔ایضاً، ص ۳۱ ۲۲۔ایضاً ص ۳۱ ۲۳۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ، ص ۱۱۱ ۲۴۔ایضاً ص ۱۱۴ ۲۵۔ایضاً ص۱۱۵ ۲۶۔ایضاً ، سرورق ۲۷۔تقدیس، ص۱۲ ۲۸۔ایضاً ۲۹۔ایضاً ۳۰۔م۔ص، ص ۲۰ ۳۱۔ایضاً ص ۸۸ ۳۲۔ایضاً ص ۷۱ ۳۳۔ایضاً ص ۷۸ ۳۴۔ایضاً ص۷۹ ۳۵۔ایضاً ص۱۰۰ ۳۶۔ایضاً ص ۴۶ ۳۷۔ایضاً ص ۹۴ ۳۸۔ایضاً ص ۹۶ ۳۹۔ایضاً ص ۹۷ ۴۰۔حرف حرف خوشبو، ص ۱۸ ۴۱۔ایضاً ص ۶۶ ۴۲۔ایضاً ص ۷۳ ۴۳۔ایضاً ص ۷۵ ۴۴۔ایضاً ص ۸۳ ۴۵۔ایضاً ص ۸۵ ۴۶۔ایضاً ص ۸۷ ۴۷۔ایضاً ص ۹۰ ۴۸۔ایضاً ص ۹۶ ۴۹۔ایضاً ص ۹۸ ۵۰۔محرابِ توحید، ص ۱۶ ۵۱۔ایضاً ص ۱۶ ۵۲۔ایضاً ص۱۶ ۵۳۔روشنی ہی روشنی، ص ۲۳ ۵۴۔ایضاً ص ۴۴ ۵۵۔ایضاً ص ۶۶ ۵۶۔جلوہ گاہ، ص ۸ ۵۷۔تجلیات، ص ۷ ۵۸۔بابِ جبریل،ص۹ ۵۹۔ایضاً ص ۸۶ ۶۰۔شعرالعجم، حصہ اول، ص ۱۶۴ ۶۱۔حاضری و حضوری،ص۱۴ ۶۲۔ایضاً ص ۵۸ ۶۳۔جمالِ جہاں فروز، ص ’’ز‘‘ ۶۴۔ایضاً ص ۴ ۶۵۔ایضاً ص ۷ ۶۶۔ایضاً ص ۷ ۶۷۔ایضاً ص ۹ ۶۸۔ایضاً ص ۵۴ ۶۹۔نعت رنگ، شمارہ:۲، ص ۲۹۷ ۷۰۔چراغِ عالمیں ، ص۱۷۱ ۷۱۔ایضاً ص ۲۳۸ ۷۲۔ضیا ء القرآن، ج:پنجم، ص ۳۲۹ ۷۳۔ایضاً ، ج:۲، ص ۶۲۳ ۷۴۔چراغِ عالمیں ، ص ۱۹ ۷۵۔ایضاً ص ۲۲ ۷۶۔ایضاً ص ۲۶ ۷۷۔ایضاً ص ۲۹ ۷۸۔ایضاً ص ۳۰ ۷۹۔ایضاً ص ۳۹ ۸۰۔صحیفہء نور، ص ۱ ۸۱۔ایضاً ص ۳ ۸۲۔ایضاً ص ۱۱ ۸۳۔ایضاً ص ۲۳ ۸۴۔ایضاً ص ۳۰ ۸۵۔ایضاً ص ۳۲ ۸۶۔ایضاً ص ۳۴ ۸۷۔ایضاً ص ۳۶ ۸۸۔ایضاً ص ۳۸ ۸۹۔ایضاً ص ۴۰ ۹۰۔ایضاً ص ۴۲ ۹۱۔ایضاً ص ۴۶ ۹۲۔ ایضاً ص ۵ ۹۳۔اردو نعت کا تحقیقی و تنقید ی جائزہ ، ص ۲۰ ۹۴۔ایضاً ص ۱۹ ۹۵۔القرآن، ۳۶:۶۹ ۹۶۔حقیقتِ محمدیہ ، ص ۲۱ ۹۷۔الرحیق ا لمختوم، ص ۵۶۵ ۹۸۔اردو نعت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ، ص ۲۰ ۹۹۔ نیر اعظم، ص ۴۱ ۱۰۰۔ایضاً ص ۱۲ ۱۰۱۔ایضاً ص ۱۷ ۱۰۲۔شہپرِ جبریل، ص ۱۲ ۱۰۳۔ایضاً ص ۸۳ ۱۰۴۔ایضاً ص ۹۰ ۱۰۵۔ایضاً ص ۱۰۹ ۱۰۶۔القرآن، ۱۸:۱۱۰ ۱۰۷۔شہپرِ جبریل، ص ۱۲۵ ۱۰۸۔ایضاً ص ۱۵۵