نعتیہ شاعری کے آداب و اسالیب ۔ ڈاکٹر شاہ ارشاد عثمانی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


مضمون نگار : ڈاکٹر شاہ ارشاد عثمانی صدر شعبہ اردو انجمن آرٹس اینڈ سائنس کالج بھٹکل

نعتیہ شاعری کے آداب اور اسالیب[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حضرت ناوک حمزہ پوری کا مبسوط مقالہ ’’ نعتیہ شاعری کے آداب‘‘ ’’پیش رفت‘‘ کے ستمبر 2004 کے شمارے کی زینت بناہے۔ جناب ناوک ایک کثیرالجہت اور بزرگ ادیب، نقاد، افسانہ نویس، انشائیہ نگار، غزل گو، نعت گو شاعر اور ادب اطفال کے کامیاب قلم کار ہیں۔

نعتیہ شاعری پر ادھر اُن کے کئی مضامین ’’پیش رفت‘‘ میں آئے ہیں۔ اُن کے تنقیدی مضامین کا ایک مجموعہ بروقت نام یاد نہیں آ رہا ہے، ہمارے مخلص دوست اور خوش فکر شاعر اور صحافی عطا عابدی نے بطور خاص یہ کتاب مجھے بھیجوائی تھی، جو میرے وطن گیا (بہار) کے ذاتی کتب خانہ میں محفوظ ہے۔ اس مجموعہ کا پہلا مضمون ’’اُردو کی نعتیہ شاعری‘‘ پر ہے، جو نہایت مبسوط ، مدلل اور وقیع ہے۔ اس مضمون میں جناب ناوک نے کئی جگہ اس حقیر کا ذکر خیر فرمایا ہے اور ہماری کتاب اُردو شاعری میں نعت گوئی کا حوالہ دیا ہے۔ زیر نظر مضمون کے آغاز میں جناب ناوک نے ادبی حلقہ ’’سلسلہ‘‘ کے نعتیہ مشاعرہ اور اس میں پیش کئے گئے معروف ناقد پروفیسر وہاب اشرفی کے افتتاحی خطبہ کا ذکر کیا ہے۔ یہ خطبہ تو میری نگاہ سے نہیں گذرا حالانکہ پٹنے کے اخبار میں شائع ہوا تھا، وطن جانے پر دوستوں نے بتایا تھا کہ اس خطبہ کے آغاز میں استاذ محترم پروفیسر وہاب اشرفی نے نعت پر تحقیق کے حوالہ سے ہمارا بھی ذکر خیر کیاہے۔ مجھے نہیں معلوم اُن کی کس بات سے جناب ناوک کو حیرت اور کوفت ہوئی۔ ڈاکٹر اشرفی صاحب کا نعت شریف کو ایک ’’صنف‘‘ قرار دینے میں تذبذب کا اظہارکوئی نئی بات نہیں ہے۔ عصر حاضر کے اکثر جدیدیت پسند ادباء و ناقدین نے نعت کو باضابطہ صنف سخن نہیں ماناہے۔ چنانچہ جب میں اس موضوع پر پروفیسر وہاب اشرفی کی نگرانی میں تحقیقی مقالہ سپرد قلم کر رہا تھا تو یہ بحث سامنے آئی تھی اور میں نے استاذ محترم سے فکری اختلاف ظاہر کیا تھا۔ جناب اشرفی ایک نہایت شریف النفس ، وسیع النظر اور عالی ظرف انسان ہیں، افہام و تفہیم، علمی دیانت داری اور رواداری اُن کے مزاج کا حصہ ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں نہ صرف میرے ساتھ ہر طرح کا تعاون کیا بلکہ مجھے کھلی چھوٹ دی کہ میں اپنے مخصوص فکری زاویہ اور ادبی رویہ کے تحت اس موضوع کا مطالعہ کروں۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی اچھی باتیں ہیں جو میں کسی دوسرے مناسب موقع پر انشاء اللہ تحریر کروںگا۔

اُردو شاعری کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں، ایک غزل اور دوسری نظم۔ غزل اپنے مخصوص تمدنی مزاج، تہذیبی کردار اور والہانہ عشقیہ مضامین کی وجہ سے ایک مکمل اور اہم صنف سخن کی حیثیت رکھتی ہے تو دوسری طرف اس صنف نے اپنے مخصوص تکنیکی اور ہئیتی نظام کی مقبولیت اور دلکشی کی وجہ سے ایک توانا ہئیت کا بھی کام دیا ہے۔ ان معنوں میں غزل ایک صنف سخن بھی ہے اور ایک شعری ہیٔت بھی۔ اسی طرح اُردو شاعری کی دوسری اہم قسم نظم ہے۔ نظم تسلسل خیال اور موضوعات کی رنگا رنگی کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے اور مختلف شعری ہئیتوں میں اس کا اظہار ہوتا ہے۔ اس وجہ سے نظم اُردو شاعری کی ایک اہم صنف قرار دی گئی۔ اس کی صنفی شناخت نہ بالکل یہ موضوع پر منحصر ہے اور نہ کسی خاص ہئیت پر۔ نظم کے جہاں موضوعات لامحدود ہیں وہیں اس کی ہئیتیں بھی بے حد متنوع ہیں۔ اسی طرح اُردو شاعری میں یہ دونوں اہم قسمیں مختلف موضوعاتی صنف اور متنوع ہئیتی شناخت رکھتی ہیں۔ اس سلسلہ میں دو اصطلاحیں ’’صنف‘‘ اور ’’ہئیت‘‘ ہمارے سامنے ہیں، لیکن جناب شمیم احمد نے اپنی کتاب ’’اصناف سخن اور شعری ہئیتیں‘‘ میں یہ بھی لکھا ہے کہ

اُردو اقسام شعر کی شناخت اور درجہ بندی کے لئے کسی منطقی اصول سے کام نہیں لیا گیا، اکثر اصناف وہ ہیں جو اپنی مخصوص اور متعینہ ہیٔت کی بنا پر صنف کا درجہ اختیار کر گئیں اور ہیٔت ہی ان کی صنفی شناخت قرار پائی۔ اس کے برعکس چند اصناف ایسی بھی ہیں جو محض اپنے مخصوص موضوع کی وجہ سے صنف کے درجہ پر پہنچیں اور موضوع ہی اُن کی اصل شناخت کا درجہ ہے۔اس صنفی تناظر میں بلا شبہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ نعت اُردو شاعری کی ایک اہم موضوعی صنف سخن ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نعت جیسی اہم اور مقبول شاعری کو اصناف سخن میں شامل نہ کرنا بڑی زیادتی ہے۔ اس زیاددتی کی وجہ غالباً وہ انتہا پسندی ہے جو ہمارے ناقدین کسی صنف کا تعین محض ہیٔت کی بنا پر کرتے رہے ہیں اور نعت خالص دینی ، اخلاقی اور موضوعاتی شاعری رہی ہے۔ بات یہ ہے کہ بعض اقسام شعر مثلاً قصیدہ، غزل اور نظم کی صنفی شناخت موضوع اور ہیٔت دونوں ہی وسیلوں سے ہوتی ہے اور بعض صنف سخن جیسے مثنوی، رباعی، ترکیب بند وغیرہ صرف شعری ہئیتیں ہیں، اور اسی طرح اُردو شاعری کی دو اہم صنف مرثیہ اور نعت ہے۔ ان دونوں کی صنفی شناخت خالص موضوع پر مبنی ہے۔ جہاں تک مرثیوں کا تعلق ہے تو انیس و دبیر کے مرثیوں کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے بڑی حد تک ’’مسدس‘‘ کی ہیٔت اس کی پہچان میں داخل ہو گئی اور واقعہ یہ ہے کہ نعت کی مقبولیت مرثیہ سے زیادہ رہی اور اس کی مقبولیت کا کچھ یہ عالم رہا ہے کہ اکثر شعراء نے مختلف شعری ہئیتوں میں نعت کے تجربوں سے اُردو شاعری کو مالامال کیا۔


اُردو شاعری کے آغاز سے لے کر آج تک اُردو کا شاید ہی کوئی مسلمان بد نصیب شاعر رہا ہو جس نے نعتیہ اشعار نہ کہے ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی نے خاص شغف اور لگاؤ کے ساتھ کہے ہیں اور کسی نے محض تکلفات سے کام لیا ہے، کسی نے تواتر و اہتمام سے اس کام کو انجام دیا ہے اور کسی نے گاہے گاہے طبع آزمائی کی ہے۔ نعت گوئی کی اس مقبولیت اور اس کی بے پناہ وسعت کے کئی اسباب و محرکات ہیں جن کا تذکرہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنی کتاب میں تفصیل سے کیاہے۔ جناب ناوک نے بجا فرمایا ہے کہ ’’نعت گوئی کیلئے بعض حلقوں سے جو ایمان کی شرط عائد کی گئی ہے اُسے میں یکسر مسترد تو نہیں کرتا لیکن مکمل اتفاق بھی نہیں کرتا۔‘‘ شاید اس لئے کہ اُردو شاعری کی ابتداء اور ارتقاء میں غیر مسلموں کا بڑا حصہ ہے اور نعتیہ شاعری کے ہر دور میں کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے اُن کا معیار بہت بلند ہے اس سلسلہ میں حال ہی میں نور احمد میرٹھی (کراچی) کی ایک کتاب بہ عنوان ’’بہر زماں بہر زماں‘‘ شائع ہوئی ہے جو انہوں نے بڑی محبت سے مجھے بھیجوائی تھی۔ 680 صفحات پر ساڑھے تین سو غیر مسلم نعت گو شعراء کے عالمی تذکرہ پر مشتمل ہے، جو دراصل مصنف کا عظیم کارنامہ ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ عصر حاضر میں مختلف مکاتب فکر اور دبستان ادب کے معتبر ترقی پسند ، جدید اور جدید تر شعراء تسلسل سے نعتیہ شاعری کر رہے ہیں، ان میںفیض احمد فیض سے لے کر احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، قتیل شفائی، سرشار صدیقی، حفیظ تائب، انور سدید اور عطاء الحق قاسمی وغیرہ تک سامنے کے چند نام ہیں۔پھر ہند و پاک میں جتنے ادبی رسائل نکل رہے ہیں خواہ وہ ارض پاک کے فنون، نقوش، سیپ اور سیارہ ہوں یا ہندوستان کے ادبی ماہنامے، ان سب کے آغاز میں نعتوں کا بڑا حصہ اہتمام کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے۔ نعت کی یہ بے پناہ مقبولیت رسول مقبول حضرت محمد مصطفی کی شخصیت کا اعجاز نہیں تو اور کیا ہے۔

اب آئیے آداب نعت کی طرف، جس پر جناب ناوک نے اپنے اس مضمون میں تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے اور خاص طور سے شعراء کو شرک و بدعت سے اجتناب کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کلام اللہ کی کچھ موٹی موٹی باتیں بیان کی ہیں، جنہیں نعت گوئی کے وقت پیش نظر رکھنی چاہئیں۔ اس سلسلہ میں مجھے نوجوان محقق ڈاکٹر شمس بدایونی کی ایک مختصر سی کتاب یاد آ رہی ہے جو 1988 میں ’’اُردو نعت کا شرعی محاسبہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی اور انہوں نے اسی وقت اپنے خط کے ساتھ تبصرے کے لئے مجھے بطور خاص بھیجی تھی، اس کتاب میں پہلی بار اُردو نعت کے حوالہ سے غیر مشروع اور مشروع موضوعات کی وضاحت کتاب و سنت کی روشنی میں کی گئی ہے۔ جناب ناوک حمزہ پوری نے اپنے مضمون کا اختتام ایک شعر پر کیا ہے، جس کے متعلق وہ لکھتے ہیں ’’یہ شعر بظاہر تو بے ضرر سا لگتا ہے بلکہ میں نے اکثر احباب کو اس شعر پر سر دھنتے دیکھا ہے لیکن غور کیجئے تو اللہ اور اس کے رسول دونوں کی شان میں گستاخی ہے، تخیل کی وادیوں میں شاعر اس طرح بھٹکا ہے کہ اللہ اور رسول دونوں کو اُردو کی روایتی غزلیہ شاعری کا عاشق و معشوق سمجھ بیٹھا ہے‘‘:

ایک دن عرش پہ محبوب کو بلوا ہی لیا

ہجر وہ غم کہ خدا سے بھی اُٹھایا نہ گیا

مجھے معلوم نہیں یہ شعر کس کا ہے ویسے اُردو نعت میں ایسے اشعار بھرے پڑے ہیں مثلاً بیخود دہلوی کے یہ دو شعر دیکھئے:

خدا بھی حسینوں کو رکھتا ہے دوست

محمد سا محبوب اس کا ہے دوست

نبی پر ہوا حسن کا اختتام

کہ معشوق خالق تھے خیرالانام

آنحضور کی محبوبیت ایک مسلمہ امر ہے اور جزو ایمان ہے اور اسی لئے نعتوں میں اس کا ذکر مستحسن ہے لیکن اکثر و بیشتر اُردو نعت میں معشوقیت کے روایتی تصور کو پیش کیا گیا ہے جو بالکل غلط ہے۔ چنانچہ حضور کی محبوبیت کو دنیاوی جذبات عشق و محبت پر قیاس کر کے انہیں نعتوں میں نظم کرنا کسی طرح درست نہیں۔ اسی طرح اور بھی بہت سے مضامین ہیں مثلاً آنحضور کا مختار کل ہونا، قاب قوسین یعنی دو کمانوں کے فاصلہ کا تصور ، آنحضور کا علم غیب، عرش اعظم کا تصور، میم کا پردہ وغیرہ وغیرہ ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ڈاکٹر شمس بدایونی نے مفید گفتگو کی ہے۔ بہر حال یہ معاملات نازک ہیں اور ان کے بارے میں نعت گو شعراء کو محتاط رویہ اختیار چاہئے۔

واقعہ یہ ہے کہ ]]نعت گوئی[[ اک بڑا مشکل اور نازک فن ہے اس موضوع کا حق ادا کرنا آسان نہیں ، ذرا سی لغزش انہیں کہاں سے کہاں پہنچا سکتی ہے، چنانچہ فارسی کا یہ مشہور شعر اسی احساس کا نتیجہ ہے:

ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب

ہنوز نام تو گفتن ، کمال بے ادبی ست

ایمان و عقیدہ اور عشق و محبت کی ہم آہنگی اور خلوص و وابستگی کے بغیر کوئی شاعر نعت کا ایک شعر نہیں کہہ سکتا۔ عرفی جیسا خود پسند شاعر بھی جب اس میدان میں آتا ہے تو کانپ اُٹھتا ہے، اس کے نزدیک نعت کہنا تلوار کی دھار پر چلنا ہے:

عرفی مشتاب ایں رہ نعت است نہ صحرا ست

آہستہ کہ رہ بردم تیغ است قدم را

اب سوال یہ ہے کہ اس عمومی احساس کے باوجود کہ نعت گوئی کا فن گویا پل صراط کا سفر ہے جس میں قدم قدم پر لغزش پا کا خطرہ ہے، خدا اور رسول کے مابین فرق و امتیاز کی جو فصیل ہے وہ عام طور پر ملحوظ نہیں رکھی گئی ہے آخر اس افراط و تفریط کا سبب کیا ہے؟ میرے خیال میں اس کابنیادی سبب رسالت محمدی سے محبت و عقیدت کا وہ روایتی ، رسمی اور محدود تصور ہے جو امت مسلمہ میں آج بھی رائج ہے۔ جس کے نتیجہ میں عام طور پر نعت کا موضوع شمائل و سراپا نگاری، یاد مدینہ میں شب و روز کی بیقراری ، اذن حضوری کا انتظار ، دوری و مجبوری میں سرشاری کی کیفیت ۔ کسی کو کائنات کا ہر ذرہ خوشبو ئے مدینہ سے معطر محسوس ہوتا ہے، کسی کا دل خواب میں روضۂ اطہر کی زیارت سے منور ہے، کوئی مدینہ پہنچ کر وطن واپسی کے بجائے اسی شہر میں پیوند خاک ہونا چاہتا ہے، یہ اور اس نوع کے جذبات و کیفیات نے موضوع نعت کو بلا شبہ رنگا رنگی اور دلکشی و دل آویزی عطا کی ہے، مگر شعراء کا یہ شعری رویہ انکو قدیم نعتیہ روایات سے جوڑے ہوئے ہے اور اسی انداز فکر سے نعتوں میں مبالغہ ، غلو اور اغراق کے عناصر در آئے ہیں۔ در اصل فراوانیِ جذبات اور وفور شوق انہیں کہیں سے کہیں لے جاتاہے۔

دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سر سید اور ان کے رفقاء حالی و شبلی نے اُردو ادب میں دور جدید کا آغاز کیا، جب اُنہوں نے شعر و ادب کو نئے اسالیب ، نئی ہئیتوں اور نئے موضوعات سے ہمکنار کیا اور شعر کا رشتہ ’’فردیت‘‘ کے بجائے ’’اجتماعیت‘‘ اور ’’داخلیت‘‘ کے بجائے ’’خارجیت‘‘ سے جوڑا تو تمام اصناف سخن کے ساتھ نعت کے موضوع کو بھی وسیع کینوس ملا۔ اب حالی اور ان کے رفقاء کی نعت حضور اکرم سے صرف عقیدت ومحبت کے اظہار تک محدود نہیں رہی بلکہ اسے وسیلۂ اصلاحِ سیرت و کردار بھی بنا یا گیا۔ حالی کی عرض حال:

اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

کے بعد تو جدید نعت گو یا عصری مسائل اور ملی شعور کا مرقع بن گئی، ملت کے معاملات ، دربار رسالت میں استمداد و استغاثہ اور فریادوں کا بیان شروع ہو گیا۔ اسی کے ساتھ سیرت کے پیغام کو عام کرنے اور مقاصد نبوت کو فروغ دینے کی تحریکی ضرورت کا احساس شدت اختیار کرتا گیا۔ لہٰذا ادب اسلامی سے وابستہ شعراء نے تحریکی ضرورت کو بطور خاص پورا کیا۔ گذشتہ نصف صدی میں ایسے ہم فکر شعراء کا ایک کارواں اردو ادب میں جادہ پیما ہوا، نعت گوئی کے میدان میں اس جہت سے گامزن چند شعراء کا بھی ذکر کریں تو ماہر القادری، شفیق جونپوری، حفیظ جالندھری، نعیم صدیقی، عروج قادری، عامر عثمانی، ابوالمجاہد زاہد، حفیظ میرٹھی،کلیم عاجز، حفیظ بنارسی، عزیز بگھروی، مسعود جاویدہاشمی، قیصر الجعفری، تابش مہدی اور ابوالفاروق شعور اور رؤف خیر کو ہم فراموش نہیں کر سکتے جن کے نعتیہ مجموعۂ کلام شائع ہوچکے ہیں، یہ فہرست اور طویل ہو سکتی ہے جو ہمارا مقصود نہیں۔ کہنا صرف یہ ہے کہ اسلامی ادب کا فروغ ان شعراء کا مقصد اور نعت میں عشق رسول کو اتباع رسول سے مشروط کرنے کا جذبہ ان شعراء کا رہنما رہا ہے۔

نعت کے ذریعہ سیرت محمدی کو عام کرنے اور پیغام رسالت کو دنیائے انسانیت تک پہنچانے کا رجحان ماضی میں بھی ملتا ہے جس کی طرف خوبصورت اشارہ مولانا عبدالماجد دریاآبادی نے بھی کیا ہے، ایک اقتباس دیکھئے:

’’نعت گو شعراء اردو میں کثرت سے ہو چکے ہیں اور بعض کو شہرت عام، سند امتیاز بھی دے چکی ہے، مثلاً محسن کاکوروی اور آسی غازی پوری، لیکن ان حضرات نے عموماً مناقب کے صرف خارجہ پہلوؤں پر قناعت کی ہے اور انکو بھی کثرت تکرار نے کسی قدر بے لطف بنا دیاہے۔ رخ انور کی تابانی، گیسوئے اقدس کی سیاہی، ابروئے مبارک کی کجی وغیرہ گنتی کے چند بندھے ہوئے مضامین ہیں، انہیں اُلٹ پھیر کر یہ حضرات ہمیشہ باندھتے رہتے ہیں، محمد علی جوہر کی شاعری چونکہ رسمی و تقلیدی نہیں اس لئے انہوں نے اس باب میں بھی اپنے لئے ایک نئی راہ کا انتخاب کیا۔‘‘

بیسویں صدی کے آخری دہائی میں بلکہ اکیسویں صدی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی جہاں علم و فن اور سائنس کی دنیا میں رونما انقلابات کے تناظر میں ہر محاذ پر نئی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت کا احساس اہل دانش اور صاحبان بصیرت حضرات کو ہوا ہے۔ نعتیہ شاعری کا میدان اس سے اچھوتا نہیں رہ سکتا، یہی وجہ ہے کہ آج نعت گوئی کے نئے اسالیب او آداب کی ضرورت و اہمیت کااحساس تقریباً تمام نعتیہ حلقوں میں ہونے لگا ہے۔ خاص طور سے ارض پاک میں نعت گوئی کے کئی ادارے اوررسالے سرگرم عمل ہیں، کراچی سے ’’نعت رنگ‘‘ اور ’’دنیائے نعت‘‘ کے نام سے ششماہی کتابی سلسلہ جاری ہے، جس کے بیشتر شمارے مجھے موصول ہوئے ہیں، ان رسالوں میں نعت کے نئے موضوعات اور نئے تقاضوں پر تواتر کے ساتھ لکھا جا رہا ہے۔پچھلے دنوں جناب عزیز احسن کے مضامین کا سلسلہ ’’اُردو نعت اور جدید اسالیب‘‘ کے عنوان سے ’’نعت رنگ‘‘ میں شائع ہوتا رہا ہے بعد میں رسالہ کے مدیر جناب صبیح رحمانی نے انہیں ایک کتاب کی صورت میں شائع کرد یا اور یہ کتاب بطور خاص مجھے عنایت کی۔ اس کتاب میں بھی نعت کا یہ افادی پہلو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عصر حاضر میں نعتیہ فکر ایک متفقہ رجحان بن چکا ہے۔ نعتیہ تحریک کا یہ ایک مثبت پہلو ہے جسے کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ محمد حسن عسکری کے ایک بیان پر تبصرہ کے بعد عزیز احسن لکھتے ہیں:

’’...... بعد کے حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بین الاقوامی معاشرے کے سامنے اسلام کی عملی تصویر پیش کرنے کے لئے لازمی ہے کہ دین کو محض صوفی کی نگاہ سے نہیں بلکہ مجاہد کی نگاہ سے دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی جائے، کیوں کہ مجاہد آلات حرب اور سامان حیات سے دست بردار نہیں ہوتا، اس حوالہ سے دیکھا جائے تو حضور اکرم کے اسوۂ مبارک کا عملی پہلو ہر وقت سامنے رکھنا ہوگا اور ظاہر ہے کہ جب آپ کے عمل کی بات آئے گی تو انسانیت کو آپ کی ذات گرامی سے پہنچنے والے فوائد بھی سامنے آئیں گے۔ عجیب بات یہ ہے کہ عسکری صاحب کو (اس وقت کے مخصوص حالات میں بالوجوہ) نعت کے جس پہلو پر اعتراض تھا، بعد کے نعت گو شعراء میں اسی طرز کو اپنانے کا رجحان بڑھتا چلا گیا اور آج تقریباً ہر نعت گو حضور اکرم کی ذات والا صفات کے ان احسانات کا تذکرہ کرتا ہے، جن کے ذیر اثر انسانیت کو فلاح دین و دنیا نصیب ہوئی ہے ۔‘‘

’’ دنیائے نعت‘‘ (کراچی) اہل تصوف اور صاحبان ارادت کا نمائندہ رسالہ ہے، اس کے مدیر نوجوان نعت خواں اور نعت گو شاعر جناب عزیزالدین خاکی ہیں، میرے صوفیانہ پس منظر اور خانقاہی نظام سے نسبت کے باعث شاید مجھ سے تعلق خاطر رکھتے ہیں، اسی لئے اپنی تمام کتابیں اور رسالے مجھ جیسے دور افتادہ کو بھیجتے رہتے ہیں۔ ’’ دنیائے نعت ‘‘ کا تازہ شمارہ بابت مارچ 2004ء اس وقت ہمارے پیش نظر ہے، اس میں پروفیسر منظر ایوبی کا ایک دقیع اور نہایت مبسوط مقالہ ’’نعت نگاری اور عہد حاضر کے تقاضے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ اب میں اپنی اس طویل گفتگو کا اختتام پروفیسر ایوبی کے اس مضمون کے آخری پیراگراف پر کرتا ہوں، جو اُن کے پورے مضمون کا خلاصہ بھی ہے اور میری ان تمام خامہ فرسائیوں کا حاصل بھی:

‘‘ جہاں تک نعت گوئی سے معاشرے کی اصلاح، تہذیب معاشرت، سماجی برائیوں کے انسداد، عظمت انسانیت کا فروغ اور اشاعت وتبلیغ دین کا کام لینے کا تعلق ہے، اس بارے میں اُردو نعت گو شاعروں کا وہ طبقہ (جو اگر چہ دیگر مکاتب فکر کے حامل نعت گو یوں کے مقابلے میں محدود ہے) قابل صد تحسین بھی ہے اور قابل پذیرائی بھی، جن کی مذہبی و دینی موضوعات پر مشتمل فکری کاوشیں بالخصوص نعتیں مذکورہ بالا افادی تقاضوں کی مکمل طور پر آئینہ دار ہیں اور جو سردار انبیاء کی اسوۂ حسنہ اور سیرت طیبہ کو اپنی شاعری کا بنیادی موضوع بنائے ہوئے ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہمارے نعت گو شعراء مغرب کی ثقافتی اور تہذیبی یلغار سے اپنے ماحول اور معاشرے کو محفوظ رکھنے، نئی نسلوں اور الحاد گزیدہ افراد کی کردار سازی کے لئے صرف اور صرف سرکار دو عالم کی ذات اقدس اور کردار و عمل کو محور فکر بنائیں کہ ان کی تقلید و اتباع کے بغیر عالم اسلام نہ اپنے موجودہ مسائل حل کر سکتا ہے اور نہ اپنی آخرت سنوار سکتا ہے۔

بشکریہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

صبیح الدین رحمانی

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

زبان و بیان آداب ِ نعت
نعت خواں اور نعت خوانی نعت گو شعراء اور نعت گوئی
شخصیات اور انٹرویوز معروف شعراء