نظم

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

نظم سے مراد ایسا صنف سخن ہے جس میں کسی بھی ایک خیال کو مسلسل بیان کیا جاتا ہے۔

نظم میں موضوع اور ہیئت کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہمارے ہاںنظمیں مثنوی اور غزل کے انداز میں لکھی گئی ہیں۔ جدید دور میںنظم ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے آج کئی حالتوں میں تقسیم ہو چکی ہے ۔ جس کی چار بنیادی قسمیں ہیں

(١)پابند نظم (٢) نظم ِ معراء (٣)آزاد نظم (٤) نثری نظم

نظم کا ارتقاء[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جہاں تک نظم کی ارتقاءکا تعلق ہے تو نظم کی ترقی کا دور 1857ءکے بعد شروع ہوا لیکن اس سے پہلے بھی نظم ہمیں ملتی ہے۔ مثلا جعفر زٹلی اور اور شاہ حاتم وغیرہ کے ہاں موضوعاتی نظمیں ملتی ہیں۔ لیکن ہم جس نظم کی بات کر رہے ہیں اس کا صحیح معنوں میں نمائندہ شاعر نظیر اکبر آباد ی ہے ۔ نظیر کا دور غزل کا دور تھا لیکن اُس نے نظم کہنے کو ترجیح دی اور عوام کا نمائندہ شاعر کہلایا ۔اُس نے پہلی دفعہ نظم میں روٹی کپڑ ا اور مکان کی بات کی اور عام شخص کے معاشی مسائل کو شعر میں جگہ دی ۔ اُن کے بعد ٧٥ تک کوئی قابل ذکر نام نہیں لیکن 57 کے بعد انگریزی ادب کا اثر ہمارے ادب پر بہت زیادہ پڑا اور اس طرح انجمن پنجاب کے زیر اثر موضوعاتی نظموں کا رواج پڑا۔ آزاد اور حالی جیسے لوگ سامنے آئے نظم کو سرسید تحریک نے مزید آگے بڑھایا لیکن اس نظم کا دائرہ محدود تھا۔ موضوعات لگے بندھے اور ہیئت پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی ۔ ہاں اس دور میں ہیئت کے حوالے سے سماعیل میرٹھی اور عبدالحلیم شرر نے تجربات کیے لیکن انھیں اتنی زیادہ مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی ۔ اکبر الہ آبادی اور اسماعیل میرٹھی کے ہاں مقصدیت کا سلسلہ چلتا رہا

لیکن علامہ اقبال نے نظم کہہ کر امکانات کو وسیع تر کر دیا اُس نے ہیئت کا تو کوئی تجربہ نہیں کیا لیکن اُس نے نظم کی مدد سے انسان خدا اور کائنات کے مابین رشتہ متعین کرنے کی کوشش کی اور اس طرح اس فلسفے سے نئی راہیں کھلیں انھوں غیر مادی اور مابعد الطبعیاتی سوالات اُٹھائے جس کی وجہ سے نظم میں موضوع کے حوالے سے نئے راستوں کا تعین ہوا ۔ اس کے بعد رومانیت پسند وں کے ہاں نظم آئی جن میں اختر شیرانی ، جوش ،حفیظ اور عظمت اللہ خان شامل ہیں لیکن وہ اقبال کی نظم کو آگے نہ بڑھا سکے اور محدود اور عمومی سطح کی داخلیت تک نظم کو ان لوگوں نے محدود کر دیا ۔

اس کے بعد نظم کا سفر ترقی پسندوں تک پہنچا ان لوگوں کے ہاں بھی ہیئت کے تجربے ہمیں نظر نہیں آتے ان شعراءمیں فیض ، مجاز ، ندیم ، ساحر وغیرہ شامل تھے۔

اس کے بعد ہمارے سامنے حلقہ ارباب ذوق کی نظم آتی ہے جن میں ن۔م راشد ، میراجی شامل ہیں انھوںنے شعوری کوشش کے ساتھ آزاد نظم کے تجربات کیے اور تہذیبی روایات ان فیض سے ہوتے ہوئے جب ان لوگوں تک آئی تو ٹوٹ گئی اور انھوں نے ایک جدید نظم کی ابتداءکی ان دونوں شعراءکی نظم پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہم نظم کے نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں ۔