میری نعت ۔ امین راحت چغتائی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

امین راحت چغتائی (راولپنڈی) میری نعت

مضمون نگار: امین راحت چغتائی

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

The article placed below relates to creative sensibility of poet himself. Ameen Rahat Chughtai has narrated story of creative motivation of genre of Naat. He has also told history of his own poetic expression and its applause from critics and public. Creative moment of Naatia couplets is usually dominated by high sentiments of poet himself. It has however hinted in the article that a poet should be aware of high standards of writing of creative Texts, pertaining to devotional poetry for Holy Prophet (S.A.W.).

نظم میرے مزاج کے بہت قریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں نے ۲؍ اپریل ۱۹۷۴ء کواپنی پہلی نعت ’’محراب توحید‘‘کہی تووہ نظم ہی کے پیرائے میں تھی۔ اور رب العزت کا بے پایاں کرم ہے کہ پہلی ہی نعت بے حدمقبول ہوئی۔ ملک کے ممتاز نعت خواں اور ریڈیوپاکستان راولپنڈی کے اُس عہد کے پروگرام مینیجر جناب منصور تابش نے اس کی ریڈیائی تشکیل کی اور جب یہ نشر ہوئی تو شاید ہی کوئی آنکھ ایسی ہوجو فرطِ عقیدت سے چھلکی نہ ہو۔ اس کے بعد ایک طویل عرصے تک یہ نعت ریڈیو سے مسلسل نشر ہوتی رہی۔ پھر یہی نعت جب جناب احمد ندیم قاسمی کے ادبی مجلّے ’’فنون‘‘ کے نومبر،دسمبر ۱۹۷۶ء کے شمارے میں شائع ہوئی تو علمی وادبی حلقوں میں اِسے اس حدتک پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا کہ اردو نعت پر لکھے جانے والے بعض مقالات کا حوالہ بنی۔ اورالحمداللہ ،رسول اکرمV کو ’’محرابِ توحید‘‘ کہنے کی سعادت بھی سب سے پہلے میرے حصے میں آئی۔ اس نعت کاآغاز امام بوصیریؒ (۶۰۸۔ ۶۹۵ھ) کے مشہور ’’قصیدۂ بردہ‘‘ ہی کے تتبّع میں کیا گیاہے کہ اہل سلوک کایہی دستور رہا ہے ۔

اس کے بعد تائید ایزدی سے نعت گوئی کاسلسلہ جاری رہا۔ ۲۲؍ دسمبر ۱۹۷۹ء کولوح وقلم کے مالک نے مجھے ایک اور نعت ’’دے ہُنرکی بھیک ہُنر ورا‘‘کہنے کی سعادت بخشی جو آنسوؤں سے وضو کرنے والوں کی محفلوں میں اب تک پڑھی جارہی ہے۔ حسنِ اتفاق سے یہ نعت بھی سب سے پہلے مجلّہ’’ فنون ‘‘ہی کے ۱۹۸۰ء کے شمارے میں شائع ہوئی اورمزید حسنِ اتفاق یہ کہ اسے بھی جناب منصور تابش ہی کی ریڈیائی تشکیل کے بعد تادیر ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے مسلسل نشر کیا جاتا رہا۔

نعت گوئی عقیدت واحترام کے جذبات سے توعبارت ہے ہی، مگریہ مشکل فن اِن معنوں میں ہے کہ توحید ورسالت کے درمیان حدِّ فاصل کااحساس نہ کیاجائے توعقیدت ومحنت کے اکارت جانے کا امکان ،بہر کیف،موجود رہتا ہے۔ اِسی طرح قرآنِ حکیم اور کتبِ سیرت کے متعلقہ حوالے زیرِ مطالعہ نہ رہیں تو بھی نعت گوئی کاصحیح فہم پیدا نہیں ہوتا۔میں رب العزّت کے حضور سپاس گزار ہوں کہ مجھے نعت کہتے وقت اِن دونوں باتوں کاکماحقہ احساس رہتاہے۔

اسے آپ نعت گوئی کابنیادی تقاضا بھی کہہ سکتے ہیں ، مگر نعت کو پرکھنے کے لیے نعت گو شاعر کی کچھ پرتیں بھی کھولناضروری ہیں۔ جس طرح غزل گواپنے کسی مخصوص میلانِ طبع کواپنی ہر غزل میں دہراتا رہتا ہے اوراُسی کو کلید بناکر غزل گو کے شعری محرکات کادر کھولنے میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ اُسی طرح نعت گو شاعر بھی اپنی نعت میں ایک مخصوص رویہ باربار پیش کرتا رہتا ہے۔ اس سے شاعر کے رنگ ،الفاظ اور تراکیب کے استعمال کا پس منظر سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ اسی سے اس کے شعری مزاج کابھی تعیّن کیا جاسکتا ہے۔ میری نعت میں درود اور حضورV کے نقشِ پاکو کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔درود اگر حق تعالیٰ کی طرف سے ہوتو رحمت مراد ہوتی ہے اور فرشتوں کی جانب سے بمعنیٰ استغفار اور مومنوں کی طرف سے بمعنیٰ دعا۔ اورچرند وپرند کی جانب سے تسبیح مراد ہوتی ہے۔ اور نقشِ پا اپنے وسیع مفاہیم میں عجزوانکسار کا پہلو تو رکھتا ہی ہے مگر میری نعت میں یہ اطاعتِ رسولV کی علامت ہے۔ یہ سراغِ منزل بھی ہے اور چراغِ منزل بھی۔ خود رب العزت نے قرآن حکیم میں اپنی محبت کورسولV کی اطاعت سے مشروط کر رکھا ہے۔ غور فرمائیے کہ اِتباع سنت کا کتنا بڑا مقام ہے کہ خالقِ کائنات ،اپنے رسولV کی اطاعت کرنے والے کو اپنی محبت سے سرفراز فرماتے ہیں۔ اور ایک مسلمان کی توساری تگ ودو کامقصد ہی یہ التجا ہوتی ہے کہ ’’اے اللہ تومجھ سے راضی ہوجا ۔‘‘ چناں چہ نعت پڑھتے وقت یہ علامتیں پیشِ نظر رہیں توشاعر کے مافی الضمیر کوسمجھنے میں بہت مدد ملے گی۔

مَیں نے نعت کے قوافی وردیف میں کہیں تنوّع سے کام نہیں لیا۔ الفاظ وتراکیب کے استعمال میں بھی مقدور بھر احتیاط برتی ہے۔جومطالب ومفاہیم اکابر ین نے متعین فرمادیے ہیں اُن سے تجاوز نہیں کیا۔اسے بھی احترام اور حزم واحتیاط سے تعبیر کیاجائے تومیں ممنونیت کے احساس سے اور جھکتا چلا جاؤں گا۔ البتہ رسول اکرمV کی سیرت کے اُن پہلوؤں کومیں نے بلاشبہ عصری تناظر میں دیکھا ہے جن کی تعبیر شاید گزشتہ ادوار میں بوجوہ ممکن نہیں تھی۔ حالاں کہ کتابِ حکمت میں لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْن کی تاکید ہر زماں کے لیے آئی تھی۔معراج کے واقعے نے انسانی فکر کو بہت مہمیز لگائی اورعلامہ اقبالؒ نے بھی اِسے ’’کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں‘‘ کہہ کرہمارے نظام فکر وعمل کوازسرنو تشکیل کرنے کی بہت کوشش کی مگر ہم فقط ضرب قلبی کے دائرے سے اب تک نکل نہیں پائے۔

جدید اردو نعت نے بھی معراج مصطفی V کوجدید تناظر میں دیکھنے کی کوشش کم کم کی ہے۔ حالاں کہ اسے ہمارے فکری نظام میں مرکزیت حاصل ہے۔ ویسے بھی غور کریں تومعلوم ہوگا کہ قرآن حکیم کوتو سمجھنا ہی آج کے تناظر میں ممکن ہواہے۔ بالخصوص روشنی کی رفتار، نظام ہائے شمسی وقمری، کائنات کی توسیع ،ارضی و سماوی فاصلے ،زمین کی داخلی تبدیلیاں اورایٹم ایسے موضوعات ہیں جن کے بارے میں قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر خفی واجلی اشارے ملتے ہیں۔ شایداسی پس منظر میں ایک بار حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے جن کا تفسیری میلان منشائے ایزدی اوردعائے رسولV (’’اے اللہ اِسے دین کی سمجھ اورتاویل کاعلم عطافرما۔‘‘ مروج الذبب ومعاون الجواہر حصہ دوم ، صفحہ ۸۰)کا نتیجہ تھا، ایک بار کچھ اِس مفہوم کاجملہ ادا فرمایاتھا کہ:

’’ اگرمیں تم پر قرآن کے مخفی راز منکشف کردوں تو مجھے اندیشہ ہے تم منحرف نہ ہو جاؤ ۔‘‘

ظاہر ہے وہ عہد ابھی سائنسی علوم کامتحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ خود آنحضورV کی سیرت اور متعدد احادیث کے مطالعے سے بھی سائنسی افکار کی طرف رہنمائی ہوتی ہے۔ لہٰذا رسولِ اکرمV کی ذات بابرکات کے حوالے سے اِن افکار کا اشارتی اظہارنعت میں بھی ممکن ہے۔ میری نعت میں ،بحمداللہ ، ایسے اشارے موجود ہیں۔میری حمد ’’جوہرآئینہ‘‘ بھی کائنات رنگ وبُو میں ایسی ہی انسانی مساعی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اور میرے نعتیہ کلام کی پہلی نعت ’’محراب توحید‘‘ کاتو مرکزی خیال ہی آنحضورV کی سیرت وکردار کی روشنی میں اہتمام قیام وعمل سے عبارت ہے۔ اور معراج کاحوالہ توعصری تناظر میں ، میری نعت میں بڑے تو اترسے آیاہے۔ کتاب میں مختلف مقامات پر آدمی کو عظمتِ انساں سے آشنا کرنے، اسے ہمسرِ افلاک بنانے، اورسرحدِ افلاک سے آگے پرواز کی ترغیب کاعلامتی اظہار اسی پس منظر میں کیا گیا ہے۔ اقبالؒ نے تو معراج کوایک مربوط حرکیاتی نظام کا پیش خیمہ بنادیا ہے ۔یہ واقعہ بجا طور پر پورے انسانی نظامِ فکروعمل کااحاطہ کرتاہے۔ اس پر بڑے خیال افروز زاویوں سے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔شرفِ انسانی کاتقاضا ہے کہ وہ اسے سمجھنے اور تسخیرِ کائنات کی جدوجہد میں اپناکردار ادا کرے۔ ’’محراب توحید‘‘ کی بعض نعتیں ،احادیث کے پس منظر میں بھی ملیں گی۔ حدیث سے ربط وشوق رکھنے والے حضرات، بالخصوص اِن مقامات کو بنظرِ تحسین دیکھیں گے۔ میری نعت میں عجز ونیاز کے ساتھ ساتھ اِظہار کی شائستگی کابطور خاص اہتمام ملے گا۔ در، دہلیز ،آستاں، گلی،اور نقشِ پاکی تشبیہات واستعارات کااستعمال محض روائتی عجز وانکسار ظاہر نہیں کرتا بلکہ ایک مقام آشنا شاعر کی نشان دہی کرتا ہے۔ کتاب کے مطالعے کے دوران میں محسوس ہوگا کہ نعت میں بعض الفاظ باربار آتے ہیں۔ یہ کوئی ضرورت شعری نہیں ہے ۔بلکہ شاعراِن کے عمداً استعمال سے جہاں ایک طرف شدّتِ تاثر پیدا کرنا چاہتا ہے وہاں قارئین کواحترام کی اس فضامیں لے جانا چاہتا ہے جس میں یہ نعتیں کہی گئی ہیں۔

جوشعرا وادباء درِ اقدس پر حاضری کاشرف حاصل کرچکے ہیں وہ کیف کے اُن لمحات سے بخوبی آشنا ہوں گے کہ وہاں درود وسلام پیش کرتے وقت ہاتھ دعا کے لیے اُٹھتے ہیں توسرِ عجز ونیاز خود بخود جھکتا چلاجاتا ہے۔اِن لمحوں میں اپنے آپ کو سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ زیرِ نظر مجموعۂ نعت میں ایسے مقامات کی جھلک بھی نظر آئے گی ۔اوریہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کس احتیاط سے سرخرو ہوا ہے۔ اصل میں ہم میں سے ہرشخص نبی V کے آستاں پر جب زندگی میں پہلی بار حاضر ہوتاہے تو حضورV سے وابستہ عقیدت وعظمت اورجلال وجمال سے اِس قدر متاثر ہوتا ہے کہ اُس کا سر بارِ احساں سے جھکتا چلاجاتا ہے اور جھکتا چلاجاتا ہے، اورحاضرہونے والا اپنے اعمال کااس تیزی سے محاکمہ کرتا ہے کہ شفیع المذنبین V اوررحمۃ للعٰلمین Vکی جالیوں سے بے اختیار لپٹ کر، چیخ چیخ کررونے کو جی چاہتا ہے ۔ایسے لمحوں میں عقل وخرد کی بات کرنا اِتنا آساں نہیں اور ’’بامحمد ہوشیار‘‘ کوئی کہہ کر تو دکھائے۔ زباں لڑکھڑا جاتی ہے۔ آنکھوں سے سیلاب امنڈتا ہے،جذبات کاآتش فشاں پھٹ پڑتا ہے اور اپنا وجود پگھلتا ہوا محسوس ہوتاہے۔ایسے میں میں تواپنے آپ ہی سے پوچھ سکتا ہوں ؂

یہ جی میں آتاہے سب کچھ لُٹا دیا جائے

وہ سامنے درِ اقدس ہے کیا کیا جائے

آخرمیں اپنے نعتیہ کلام کے ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلاکر رخصت چاہوں گا۔میں نے ابتدا میں عرض کیاتھاکہ غزل اور نظم دونوں میں رواں ہونے کے باوصف میرا شعری مزاج ،نظم میں زیادہ آسودگی محسوس کرتا ہے۔ چناں چہ نعت کہتے وقت بھی مَیں نے محسوس کیاکہ نعت میں بالعموم غزلِ مسلسل کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ جو نظم سے زیادہ قریب ہے۔ چناں چہ میں نے ہر نعت کو اُسی کے کسی شعر میں مزیّن آنحضورV کے نام نامی کاعنوان دے دیا ہے۔ یانعت کی غالب کیفیت کو بطورِ عنوان تحریر کردیا ہے۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ مجھ سے پہلے بھی بعض نعت گوشعرا ایسا کرچکے ہیں۔ مقصد اس التزام کاجواز پیش کرتا ہے۔ ورنہ ؂

ذکرِ احمد ہو تو خود ہوتا ہے لفظوں کا نزول

نعت جب تک لکھ نہ لیں، راحت قلم رکھتے نہیں