"مہکار مدینے کی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 143: سطر 143:
[[اقبال اکیڈمی لا ہور]]
[[اقبال اکیڈمی لا ہور]]
   
   
====شجاعت علی راہی کی راۓ ====
کا ئنا ت  میں انسان کا ظہور احسن التقویم کی صورت میں ہُوا  اور انسانیت کی معراج ذاتِ خیرا لبشرؐ ہے جن کے با رے میں ارشا د فرما یا گیا:
  لولا کٔ لما خلقت الا فلا کٔ
’’یعنی اگر یہ آپﷺ کے لئے نہ ہوتا تو میں کا ئنا ت کو تخلیق ہی نہ کرتا۔ جبھی تو شاعر مشرقؒ گویا ہو ئے‘‘ ۔
بہ مصطفیٰﷺ بر ساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر  بہ  اُونہ  رسیدی ‘    تما م    بولہی  است
ارتقائے  انسانیت  کے لئے لا زم ہے کہ فکر و نظر کو اس عظیم ترین رول ما ڈل پر مر کوز کیا جائے جس کی خاطر پوری کا ئنا ت کی تخلیق و تشکیل کا عمل کا رفر ما ہوا۔
نعت گو شعر اء کو یہ اعزاز حا صل ہے کہ انہوں نے اپنی نگاہوں کا مرکز اس بلندترین شخصیت کو بنا یا ۔ اِسی قبیلے کے ایک ممتا ز فرد [[حافظ عبدا لجلیل]] ہیں جن کی زندگی علم و ہنر کا دلکش نمونہ رہی ہے اور جن کی خطابت کی قندیل نے ہزاروں لا کھوں سا معین کے دل و دما غ کو روشن کیا ہے۔
[[حافظ عبدا لجلیل]]  کی نعت سادگی‘ روانی اور جذبہء عشق و مودّت سے بریز ہے ۔ انہوں نے نعت کے آداب کو بھی برقرار رکھا ہے اور اپنی بے پناہ مودّت کا والہا نہ اور بھر پور اظہا ر بھی کیا ہے۔  ان کے عشق میں تر بتر اجلے اشعارآپ کو مدینہ کی روشن گلیوں میں لے چلتے ہیں اور آپ کی روح میں با لیدگی پیدا کرتے ہیں۔ آپ خود کو ایسی فضا میں  پا تے  ہیں جہا ں کھجوروں کی شیریں مٹھاس ہے اور جہا ں  سا نس لیتا ہوں تو جنت کی ہوا آتی ہے (جگر)
  مشتے نمونہ از خروارے
محبوب  کے  قدمو ں  اک  سیل  رواں  دیکھا
   
ہا تھوں  میں  لئے  کا سہ ہر پیرو جواں دیکھا
وہ  شہر  مدینہ  کے  پر نو ر  گلی  کو چے
 
ہم  نے  تو جد ھر  دیکھا رحمت کو وہاں دیکھا
جذبا ت  مدینے  میں  رہتے  ہیں  کہا ں قا بو
خود  رفتہ  نظر  آیا  جس کو بھی جہا ں دیکھا
ذکر    تیر  ا  جو    عا م    کر تے  ہیں
اپنا    اونچا    مقا م      کر تے    ہیں
تیرے  حسن    و    جمال      کی  با تیں
صبح  کرتے  ہیں  شا م  کرتے    ہیں
 
تو  جو    را ضی‘    خدا    بھی  راضی  ہے
با ت    اس    پر    تما م  کر تے    ہیں
دولت  ہے  مرے  پا س  نہ ما یہ مرے گھر  میں
آقا  نے  بلا یا  ہے  مجھے  اپنے نگر  میں
ہے  اسم محمد ﷺ  کے  اجا لوں  کا    تصدّق
رہتا  ہے  اجا لا  ہی    ہمیشہ  مرے گھر میں
ہے  عر شِ مُعلی ّ ٰ سے  بھی  آگے  تری  منزل
یہ  چا ند  ستا رے  ہیں  ترے گر د  سفر میں
کچھ  ہا ر  درودوں کے  تو  کچھ  اشکِ نِدامت
کیا  خوب  اثاثہ  ہے  مر ے  زادِسفر  میں
[[شجاعت علی راہی]]
[[کوہاٹ]]


=== مزید دیکھیے  ===
=== مزید دیکھیے  ===

نسخہ بمطابق 06:36، 18 ستمبر 2019ء


مہکار مدینے کی.jpg

عبد الجلیل
شاعری
مہکار مدینے کی

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png


نعتیہ مجموعہ : مہکار مدینے کی

شاعر : حافظ محمد عبد الجلیل

سال اشاعت : 2018

قیمت: 400 روپے

ناشر : انٹرنیشنل نعت مرکز

احباب کی آراء

صبیح الدین رحمانی کی رائے

حافظ محمد عبدالجلیل کی نعتیہ شاعری در حقیقت ان کے دل اور روح کے مطالبے پر وجود میں آنے والی شاعری ھے -اس میں جذبوں کی سچائی ،اظہار کی سادگی و برجستگی ، فکر کی پاکیزگی اور عشق ومحبت کی حرارت نمایاں ہے


حافظ صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے اپنی والہانہ عقیدت ومحبت اور رشتے کا اظہار نہایت سیدھے سادے انداز میں کیا ھے اور یہی اظہار ان کا اور ان کی زندگی اور فن کا اعتبار بن کر سامنے آیا ھے

ان کے کلام میں فریاد کی لے بھی ھے اور سرخوشی کے نغمے بھی وجہ یہ ھے کہ حضور کی ذات ان کے لیے امید کا سرچشمہ بھی اور ہر خوشی کا منبع بھی-میرے نزدیک تو تعلق اور رشتے کا یہ احساس اور شعور بھی عطائے خداوندی ھے

میری دعا ھے کہ رب لوح و قلم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حافظ صاحب کے رشتے اور تعلق کی اس شعری دستاویز کو ان کے لیے توشہ آخرت بنادے آمین


صبیح رحمانی

نعت ریسرچ سنٹر،كراچی

پروفیسر محمد اسلم فیضی کی رائے

ساری حمدو ثنا اس ربّ کا ئنا ت کے لئے جس نے ایک لفظ کُن سے سارے عالمین کو تخلیق فرما یا اور اپنے فضل و کرم اور لطف و عطا کی رعنا ئیو ں سے اسے زینت بخشی اور بے حدو بے حساب درود و سلا م ہوں اس مبا رک اور پا کیزہ ہستی پر جو اللہ تبارک و تعالی کا بھی محبوب ہے اور ہر صاحب ِ ایما ن کے دل کی دھڑکنوں میں بھی آبا دہے۔ سچ یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کا وجو دِ مسعود ہی عشق و محبت اور ایما ن و آگہی کا محور ومرکزہے آ پ ہی کی تعلیما ت ہیں جو زندگی بخش بھی ہیں اور زندگی افروز بھی اور آپ ہی کی سیرت طیبہ ہے جو مختلف خصا ئص ، خصو صاََ صفتِ رحمت کی آئینہ دار ہے ۔ اللہ ربّ العزت نے آپ کو رفعت وعظمت کی ہر شا ن سے نوازا ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ سے لے کر آج تک اہل دانش نظم ونشر میں اپنی محبتوں اور عقیدتوں کا اظہا ر کر تے چلے آرہے ہیں۔


جہا ں تک اردو نعت نگا ری کا تعلق ہے تو ان خوش نصیب شعرا کی فہرست اچھی خاصی طویل ہے جنہو ں نے حمدونعت کو اظہا ر کا وسیلہ بنا یا ہے ۔ ایسے ہی سعادت مندوں میں ممتا ز عالمِ دین اور سکالر الحاج حافظ قاری عبدالجلیل صاحب کا اسم گرامی بھی شا مل ہے۔


وہ دنیاوی علو م سے تو بہر ہ ور ہیں ہی ، دینی علوم ، قرآن و حدیث کی روح سے بھی گہری شنا سائی رکھتے ہیں۔ اور جذ بٔہ عشقِ رسولﷺ سے ان کا سینہ روشن و تا باں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی پا کیزہ سوچ او ر منزّہ افکا ر کے سحاب پارے نعتیہ اشعا ر میں ڈھل کر سا منے آتے ہیں تو رحمتوں کی پھوار برستی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور ایما ن و ایقا ن کے شگو فوں پر تازگی چھا جاتی ہے۔


وہ اپنے نعتیہ کلام میںعقیدے کی صحت کے ساتھ ساتھ قر ینٔہ ادب کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ جذبے کی سچائی اور آقائے دو جہا ں ﷺ سے عشق و محبت کی سر شاری نے ان کی نعتوں کو دل گداز ابلاغ کی نعمت سے مالا مال کر دیا ہے ان کے نعتیہ اشعا ر براہ راست دل پر اثر کر تے ہیں اور قاری حسنِ عقیدت اور جمالیاتی فکر سے اپنے جو ہر ایمان کو ایک طلسماتی چمک سے آبدار محسوس کر تا ہے۔


’’مہکا ر مدینے کی‘‘ حافظ قاری عبدا لجلیل صاحب کا پہلا مجمو عٔہ کلام ہے۔


نام ہی ایسا پیارا اور ایما ن افروز ہے کہ لیتے ہی شہر حبیب ﷺ کی فضائوں کے پر کیف جھونکے دل و دماغ کو اپنی مہکا ر سے معطر و معنبر کر دیتے ہیں ۔ میر ی دعا ہے کہ یہ مجموعہ اللہ تعا لیٰ اور اس کے پیا رے محبو بؐ کی با رگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کرے اور قاری صاحب کے لئے تو شٔہ آخرت اور نجا ت کاوسیلہ بنے ۔ آمین ثُم آمین۔ بجاہِ سیّدالمرسلینؐ

اسلم فیضی کوہاٹ


خالد محمود خالد کی راۓ

نعت گوئی کا فن ہر کسی کو عطا نہیں ہو تا۔ یہ دولت اْنہی کا مقدر بنتی ہے جن کے دل میں عشقِ رسولﷺ کی دولت ہوتی ہے۔ جب انسان ذکرِ سرکار میں سرشا ر رہنے لگے تو اس کی سوچ بھی مدحت بن جا تی ہے اور ذہن میں ابھر نے والے الفاظ مدحت کے موتیوں کی لڑی بن جاتے ہیں۔ نعت گوئی کاسلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔سعادت کے اس سفر میں حافظ عبدالجلیل بھی شریکِ سفرہیں جنہو ں نے آقا کریم ﷺؐکی مدحت بیان کرنے کی سعادت حا صل کی ہے یو ں تو ہر اْمّتی کی آ رزو ہوتی ہے کہ وہ اپنے آ قاﷺ کی تعریف و توصیف کرے لیکن ہر کو ئی یہ کا م کر نہیں سکتا۔ بقول شاعر الفاظ بے بس ، زباں معذور ہم سے حقِ مدحت ادا کیا ہوگا ہو کنارہ نہ جس سمندر گا وہ سمندر عبور کیا ہوگا حافظ عبدالجلیل ہر وقت ذکرِ سرکا رﷺ میں کھو ئے رہنے والی شخصیت ہیں جن کے شب و روز ، معمولات ، سوچ وفکر اور گفتگو مد حتِ سر کا رﷺسے شروع ہو کر اِسی کے گرد گھومتی ہے اسی کیفیت میں شوقِ مدحت پرواز کرتا ہے اورشاعری کی اس منزل پر جا پہنچتا ہے جسے "نعت" کہتے ہیں آ پ کا مسوّدہ نعت جو شائع ہونے جارہا ہے، کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے مدحت ِسرکار ﷺ کو ہر انداز سے رقم کرنے کی کوشش کی ہے۔ مختصر اور طویل دونوں بحروں کا استعمال کیا ہے۔ قا فیے بھی خوبصورت ہیں اور مضامین بھی سیر ت سے ماخوذ ہیں۔یہ امر مسلمہ ہے کہ کسی نعتیہ مجموعے کی اشا عت سے نہ تو سرکار کی مدحت کا حق ادا ہوسکتا ہے اور نہ ہی شاعر کی تکمیلِ تمناّہوسکتی ہے البتہ کسی نعتیہ مجموعے کی اشاعت شاعر کو نعت گو شعراء کی فہرست میں لا کھڑاکرتی ہے جو دنیا اور آ خرت میں اس کی خوش نصیبی کا با عث ہے اور یقیناََ روزِمحشر ان کی نجات کا زریعہ بنے گی۔ اللہ تعا لیٰ نے حافظ عبدالجلیل کو ایسا شوق اور بصیرت عطا کی ہے کہ وہ نہ صرف احساسا ت و جذبات کو جان سکتے ہیں بلکہ انہیں شعروں میں ڈھالنے کافن بھی جانتے ہیں۔ انہوں نے بڑی مہارت سے انہیں شعروں کی لڑی میں پرونے کوشش کی ہے انکے کلام میں موجود فکر وخیال کی گہرائی و گیرائی اور اظہا ر بیان کی سادگی اور سلاست نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے نعت کی اصل روح یہ ہے کہ سننے والے میں روحانی سر شاری کی کیفیت پیدا ہو اور تخیل کے ساتھ پرواز کرتاچلا جائے ۔ تاریخ شا ہد ہے کہ محبت رسولﷺسے فکری اور عملی وابستگی ہمیشہ مقام ِ رفیع کا باعث بنتی ہے۔اس لحاظ سے صاحب کتاب ، حافظ عبدالجلیل خوش قسمت ہیں وہ اپنی عملی اور نظریا تی صلاحیتوں کو ذکر و فکر ِرسولﷺ کی نذر کر دیتے ہیں۔ جس طر ح شاعری بحور اور اوزان کی پا بند ہوتی ہے اسی طرح نعت خوانی بھی شاعر سے بہت سے تقا ضے کر تی ہے بلکہ یہاں تو قدم قدم اور لفظ لفظ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کرتے ہیں خدا کو تو سبھی اہل دعا یا د اور صاحبِ معراج کو کرتا ہے خدا یا د میں دل کی گہرائیو ں سے حا فظ عبدالجلیل کو ان کی اس کو شش پر اور پہلے نعتیہ مجموعے کی اشاعت پر مبا رک با د پیش کرتا ہوں اور ان کے لئے دعا گو ہوں جس طرح ان کا دل عشقِ سرکا ر ﷺ میں روشن ہے ان کا قلم بھی سدا نعت کا نور بکھیرتا رہے۔

آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ

خالد محمود خالد سمن آبا د کراچی


ارسلان احمد ارسل کی راۓ

یہ دور امت مسلمہ کی زبوں حالی کا دور ہے۔نفسا نفسی کا عالم ہے۔اخلاقی قدریں پامال ہو چکی ہیں۔حضور سرورِ کونین ﷺ کی یادوں کے چہرے دھندلا تے چلے جا رہے ہیں ایسے عالم میں اگر کوئی مدحت سرکارﷺ پر مامور ہے تو اس سے بڑی اس کی خوش قسمتی کیا ہو سکتی ہے۔ جناب حافظ عبدالجلیل سے میری براہ راست ملاقات نہیں ہے لیکن اب شاید اجنبیت بھی نہیں ہے کیونکہ وہ جس منزل کے مسافر ہیں مجھے بھی اسی راستے کا جاروب کش ہونے کی سعادت حاصل ہے۔الحمدُ لِلٰہ ۔ عبدالجلیل صاحب کے صاحبزادے محمد آصف جلیل سے میری شناسائی ہوئی تو میں جلیل صاحب کی شخصیت اور ان کے کلام سے واقف ہوا۔پھر جب آصف جلیل نے زیر مطالعہ مجموعہ ـــ( مہکار مدینے کی ) کا مسودہ مجھے بھیجا تو ان کی نعت گوئی کی مزید خصوصیات میرے سامنے آئیں۔ حافظ عبدالجلیل کی نعت گوئی کی سب سے بڑی خصوصیت سلاست اور روانی ہے ۔وہ مشکل پسندی کے کوچے میں داخل نہیں ہوئے بلکہ آمد کو آورد پر فوقیت دیتے نظر آئے اور جہاں آمد کی شاعری ہو گی وہاں تصنع اور بناوٹ نہیں ہو سکتی اورمدح رسولﷺ کا سب سے بڑا تقاضا ہی یہی ہے کہ وہ بناوٹ سے پاک ہو کیونکہ وہ بارگاہ تو ایسی ہے کہ جہاں فریاد لفظوں کی محتاج نہیں ،خامشی اور اشک ہی حال دل بیان کر دیتے ہیں۔واصف علی واصفؒ نے اس ضمن میں کیا اچھا کہا ہے۔

اشکوں نے بیاں کر ہی دیا راز تمنا

ہم ڈھونڈ رہے تھے ابھی اظہارکی صورت

اس مجموعے میں جہاں حمد و نعت شامل ہیں وہیں مناقب کا بھی ایک خو بصورت گلدستہ ہے اور اظہار کا قرینہ اتنا مئودب ہے کہ بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے اور دل سے تحسین کے کلمات نکلتے ہیں ۔ ’’ اللہ کرے مرحلہ ء شوق نہ ہو طے‘‘

ان کا ایک قطعہ دیکھیے کہ یہ اپنے سینے میں امت کا کتنا در د لیے ہوئے ہیں

راحت قلب غریباں بے کسوں کے چارہ گر

سخت مشکل میں گھرے ہیں ہو کرم کی اک نظر

تیری کملی کی پناہ میں ہر کوئی محفوظ ہے

بزم ہستی میں تری ہستی ہے سب سے معتبر

میں دعا گو ہوں کہ جناب حافظ عبدالجلیل کا یہ مجموعہ سعادت بارگاہ رب کریم اور بارگاہ رسالت ﷺ میں نہ صرف مقبول ہو بلکہ پذ یرائی حاصل کرے ا ور بروز حشر ان کی شفاعت کا سبب بنے آمین ۔ بجاہِ سیدالمرسلین ﷺ

ارسلان احمد ارسل

چیئر مین انٹر نیشنل نعت مرکز لاہور

ڈاکٹر طاہرحمیدتنولی کی راۓ

نعت، بندہ پر اللہ کی عطاوءں میں سب سے بڑی عطا کو یا د کرنے اور پھر رسولِ کریم ؐسے تعلق غلامی اور آ پؐ کے وسیلے سے اللہ ربُّ العزّت سے تعلقِ بندگی کی استواری اور پائیداری کا وسیلہ ہے. نعت گو شاعر کا شرف یہ ہے کہ وہ اس کا رِ خیر میں اپنے ساتھ قاری کو بھی شامل کرلیتا ہے ۔ " مہکار مدینے کی" یہ سب کچھ بھی ہے اور حضور اکرمؐ کی ذاتِ مبارکہ سے محبت کی کیفیات کا حَسین بیان بھی ۔ مجرّد فراق کی شدّ ت ہوش و حواس کی معطلی کا باعث ہوتی ہے مگر محبتِ رسولؐ کی حیا ت آفرینی ایک جدااثر رکھتی ہے کہ یہاں دوری ،قرب، ہجر ، وصال اور بُعد، دیدار میں ڈھل جاتا ہے۔ اِک حشر ہوا برپاَ ، اک ہوک اُٹھی دل میں جب گنبدِ خضر ا کو نظروں سے نہاں دیکھا نسبتِ رسالت ، آ خرت کا توشہ ء معتبر ہی نہیں ، دنیا کے کا ر زارِ حیا ت میں بھی اس کیلئے پنا ہ گاہ ، قوتِ قلب و روح اور اعداء کے مقابل وہ اسلحہ و حمایت ہے کہ اسے" وا للہُ یَعصِمُکءَ مِنَ النَّاس" کی فیض رسانی عطا کی گئی ہے ۔ " مہکار مدینے کی" قاری کو اس پہلو سے بھی آشنا کرتا ہے۔ اُمّت کسی عدّو سے پھر خوف کھائے کیوں اس کیلئے تو ڈھال ہے میرے نبیؐ کی ذات مگر نعت کا اصل فیضان زندگی میں تب ہی جاری و ساری ہوتا ہے کہ رسول کریمؐ کی بارگاہ میں حضوری کا تصوّر و آرزو , اپنی کم ما ئیگی کے احساس سے مملو ہو کر " مہکار مدینے کی" کے ایسے اشعار " چو ں بنامِ مصطفٰےؐ خوانم درود "کا رنگ لئے ہوتے ہیں۔

کچھ ہار درودوں کے تو کچھ اشکِ ندامت

کیا خوب اثاثہ ہے مرے زادِ سفر میں


ڈاکٹر طاہر حمید تنولی

اقبال اکیڈمی لا ہور

شجاعت علی راہی کی راۓ

کا ئنا ت میں انسان کا ظہور احسن التقویم کی صورت میں ہُوا اور انسانیت کی معراج ذاتِ خیرا لبشرؐ ہے جن کے با رے میں ارشا د فرما یا گیا:

لولا کٔ لما خلقت الا فلا کٔ

’’یعنی اگر یہ آپﷺ کے لئے نہ ہوتا تو میں کا ئنا ت کو تخلیق ہی نہ کرتا۔ جبھی تو شاعر مشرقؒ گویا ہو ئے‘‘ ۔


بہ مصطفیٰﷺ بر ساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ اُونہ رسیدی ‘ تما م بولہی است


ارتقائے انسانیت کے لئے لا زم ہے کہ فکر و نظر کو اس عظیم ترین رول ما ڈل پر مر کوز کیا جائے جس کی خاطر پوری کا ئنا ت کی تخلیق و تشکیل کا عمل کا رفر ما ہوا۔

نعت گو شعر اء کو یہ اعزاز حا صل ہے کہ انہوں نے اپنی نگاہوں کا مرکز اس بلندترین شخصیت کو بنا یا ۔ اِسی قبیلے کے ایک ممتا ز فرد حافظ عبدا لجلیل ہیں جن کی زندگی علم و ہنر کا دلکش نمونہ رہی ہے اور جن کی خطابت کی قندیل نے ہزاروں لا کھوں سا معین کے دل و دما غ کو روشن کیا ہے۔

حافظ عبدا لجلیل کی نعت سادگی‘ روانی اور جذبہء عشق و مودّت سے بریز ہے ۔ انہوں نے نعت کے آداب کو بھی برقرار رکھا ہے اور اپنی بے پناہ مودّت کا والہا نہ اور بھر پور اظہا ر بھی کیا ہے۔ ان کے عشق میں تر بتر اجلے اشعارآپ کو مدینہ کی روشن گلیوں میں لے چلتے ہیں اور آپ کی روح میں با لیدگی پیدا کرتے ہیں۔ آپ خود کو ایسی فضا میں پا تے ہیں جہا ں کھجوروں کی شیریں مٹھاس ہے اور جہا ں سا نس لیتا ہوں تو جنت کی ہوا آتی ہے (جگر) مشتے نمونہ از خروارے

محبوب کے قدمو ں اک سیل رواں دیکھا

ہا تھوں میں لئے کا سہ ہر پیرو جواں دیکھا


وہ شہر مدینہ کے پر نو ر گلی کو چے

ہم نے تو جد ھر دیکھا رحمت کو وہاں دیکھا


جذبا ت مدینے میں رہتے ہیں کہا ں قا بو

خود رفتہ نظر آیا جس کو بھی جہا ں دیکھا


ذکر تیر ا جو عا م کر تے ہیں

اپنا اونچا مقا م کر تے ہیں


تیرے حسن و جمال کی با تیں

صبح کرتے ہیں شا م کرتے ہیں


تو جو را ضی‘ خدا بھی راضی ہے

با ت اس پر تما م کر تے ہیں


دولت ہے مرے پا س نہ ما یہ مرے گھر میں

آقا نے بلا یا ہے مجھے اپنے نگر میں


ہے اسم محمد ﷺ کے اجا لوں کا تصدّق

رہتا ہے اجا لا ہی ہمیشہ مرے گھر میں


ہے عر شِ مُعلی ّ ٰ سے بھی آگے تری منزل

یہ چا ند ستا رے ہیں ترے گر د سفر میں


کچھ ہا ر درودوں کے تو کچھ اشکِ نِدامت

کیا خوب اثاثہ ہے مر ے زادِسفر میں


شجاعت علی راہی

کوہاٹ

مزید دیکھیے

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
اس سال کی کچھ اہم کتابیں

اس سیکشن میں اپنے کتابیں متعارف کروانے کے لیے "نعت کائنات" کو دو کاپیاں بھیجیں

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات