مولانا غلام رسول مہر کی ایک نایاب نعت ،- ڈاکٹر محمد سہیل شفیق

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 11:32، 18 اپريل 2017ء از 39.55.246.104 (تبادلۂ خیال) (نیا صفحہ: ===ABSTRACT=== Dr. Sohail Shafiq always keeps himself busy in research activity. Now he has traced out a unique poem written by Maulana Ghulaam Rasool Mehr whose fame is total...)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Dr. Sohail Shafiq always keeps himself busy in research activity. Now he has traced out a unique poem written by Maulana Ghulaam Rasool Mehr whose fame is totally based on his prose comprising research and interpretational work of Ghalib and Iqbal besides other relevant literary work. The poem of Maualana Mehr was composed at the age when he was a student of First year in College. Dr. Sohail Shafiq has presented this poem with his research oriented note. The poem comprises of twelve STANZAS consists of devotional sentiments of the poet and is reflective of collective conscious of Muslim Ummah in general and Muslims of Indo-Pak in particular.

ڈاکٹر محمد سہیل شفیق ۔ کراچی

مولانا غلام رسول مہرؔ کی ایک نایاب نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

برصغیر پاک و ہند کے مشہور صحافی، صاحبِ طرز ادیب، نامور محقق ، سوانح و سیرت نگار ، غالب ؔ و اقبالؔ شناس اور مستند مؤرخ مولانا غلام رسول مہرؔ مورخہ ۵ اپریل ۱۸۹۵ء کو پھولپور ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔(۱) ۱۹۲۱ء میں روزنامہ’’ زمیندار‘‘، لاہور سے صحافت کا آغاز کیا۔بعد ازاں ۱۹۲۲ء سے ۱۹۲۷ء تک اسی پرچے کے مدیر رہے۔(۲) ۱۹۲۷ء میں مولانا عبدالمجید سالکؔ کے اشتراک سے اپنا روزنامہ ’’ انقلاب ‘‘ جاری کیا۔ ۱۹۴۹ء میں اخبار کی بندش کے بعد ادبی و تحقیقی کاموں میں مشغول ہوگئے۔ ۲۷ برس تک مولانا کتابیں، تراجم، اخبار کے مقالہ ہاے افتتاحیہ وغیرہ لکھتے رہے۔ تقریباً ۱۰۵ کتابیں تصنیف و تالیف و ترجمہ کیں۔(۳) آپ کا سب سے اہم کارنامہ سید احمد شہید اور ان کے رفقا کی سوانح عمری ہے جس کی تصنیف میں آ پ نے عمر عزیز کے کم و بیش بیس برس صرف کیے۔ علاوہ ازیں آپ نے اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے لیے ۱۵ مقالات سپرد قلم فرمائے۔ تقر یباً ۴۰ کتابوں کے تراجم کیے۔ جن میں درج ذیل کتابیں بھی شامل ہیں:

۱۔ اسلام اورقانونِ جنگ و صلح/ مجید خدوری( ۱۹۵۹ء )

۲۔ خلا میں سفر کی پہلی کتاب/ جین بنڈک(۱۹۶۰ء)

۳۔ تاریخ لبنان/ ڈاکٹر فلپ کے حتی(۱۹۶۲ء )

کالج کے زمانے میں مولانا شعر گوئی کا شوق رکھتے تھے۔ بلکہ یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ مولانا کو شاعری کاجنون تھا۔ اچھا شعرمولاناکے حافظے میں پیوست ہوجاتا تھا۔ مولانا کے ذہن میں اشعار نہ صرف محفوظ رہتے تھے بلکہ بروقت تازہ ہوکر زیب قرطاس بھی بنتے تھے۔ اپنے مکاتیب[گنجینۂ مہر (جلد اوّل و دوم)، مرتبہ: محمد عالم مختار حق] میں مولانا نے جگہ جگہ اشعار درج کیے ہیں اور ایسے بر محل درج کیے ہیں جیسے خاص اسی موقعے کے لیے کہے گئے ہوں۔

شاعری کے سلسلے میں ابتداً مولانا مہرؔ نے حکیم محمد سلیم صاحب(ساکن بستی غزاں) سے اصلاح بھی لی۔سلیم صاحب نے ہی آپ کا تخلص مہرؔ تجویز کیا تھا۔ نظام حیدرآباد دکن کے وزیر اعظم مہاراجہ کشن پرشاد کے مصاحب خاص ترک علی شاہ ترکی قلندر نے ’مہر عالمتاب‘‘ کا خطاب دیا۔زمانۂ طالب علمی میں مولانا مہرؔ انجمن حمایت الاسلام کے جلسوں میں بڑی شان سے اپنا کلام پڑھا کرتے تھے۔(۴) لیکن مقدر میں لکھا تھا کہ زندگی شعر گوئی نہیں بلکہ نثر نگاری میں گزرتی۔چنانچہ مولانا شعر گوئی سے نثر نگاری کی جانب آگئے اگرچہ شوق سے نہیں آئے ۔ خود کہتے ہیں کہ ایک غیر مرئی قوت مجھے زنجیریں پہنا کر کھینچ لائی۔(۵)

مولانا مہرؔ کا ایک حمدیہ قطعہ جو ان کی لوحِ مزار پربھی رقم ہے، درجِ ذیل ہے:

بھروسا تو ہے اے جانِ کریمی

نہ ٹوٹے تیرا پیمانِ کریمی

جہاں میں دو سمندر بیکراں ہیں

مرے عصیاں تری شانِ کریمی

محمد عالم مختار حق(۶) کے نام اپنے ایک مکتوب میں شعرو سخن میں دلچسپی کے حوالے سے لکھتے ہیں:

کہاں کی شاعری اور کیسی سخن طرازی۔ ایک زمانہ تھا کہ اخبار نویسی کے سوا کوئی کام نہ تھا۔ اتوار کو تعطیل ہوتی تھی۔ ویسے بھی افتتاحیہ اور بعض خاص چیزیں لکھنے کے سوا میں کچھ نہیں کرتا تھا۔ مرحوم و مغفور سالک صاحب اور میں عرفیؔ ، نظیریؔ ، حافظؔ وغیرہ اساتذہ کا کلام پڑھا کرتے تھے اور اشعار کی تری سے سیاسیات کی یبوست کا مداوا کیا کرتے تھے۔ گویا دواوین اساتذہ ہمارے لیے بہ اصطلاح طبیباں ’’خمیرہ ابریشم ‘‘ تھے۔(۷)

ذیل میں مولانا مہرؔ کی ایک نعت پیشِ خدمت ہے۔ (۸)یہ نعت مولانا نے انجمن حمایتِ اسلام کے چوتھے اجلاس، زیرِصدارت آنریبل خان بہادر میاں محمد شفیع، منعقدہ ۶/ اپریل ۱۹۱۲ء، بروز ہفتہ بعد نمازِ مغرب ،’’ نعت عاشقانہ بجناب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم و فریادِ امت بحضور آں ذات بابرکات‘‘ کے عنوان سے پڑھی کہ جس کو سن کر ذوقِ سلیم رکھنے والے اصحاب بے تاب ہوگئے۔ واضح رہے کہ اس وقت مولانا مہرؔ اسلامیہ کالج لاہور میں ایف۔اے۔ کے طالبِ علم تھے۔ نعت عاشقانہ بجناب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم و فریادِ امت بحضور آں ذات بابرکات

بند اوّل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سرگزشت دلِ پر سوز سناؤں کیونکر

آگ کو معرض گویائی میں لاؤں کیونکر

المدد المدد اے چشم بہا دے دریا

کشتئ عشق کو خشکی پہ چلاؤں کیونکر

شبہ سے ہوں نہ مبدل گہراشک کہیں

سرمہ بن کرتری آنکھوں میں سماؤں کیونکر

اس چھپانے کا عیاں ہوناہے رازِ الفت

کوئی بتلا دے چھپانے کو چھپاؤں کیونکر

خوف محراب عقیدت سے کیا ترک سجود

دامن بیخودی پرداغ لگاؤں کیونکر

ٰؓبیخود شوق ہوں آتا ہے توہّم مجھ کو

کہ مرا جوش محبت نہ کرے گم مجھ کو

بند دوم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شکن موج یم اشک یتیماں ہوں میں

رگ بالیدگئ خواب پریشاں ہوں میں

گرد جولانی ہوئی مجھ کو حجابِ زنگار

صافی حیرتِ نظارۂ جاناں ہوں میں

دیکھ اوچشم ابھی ضبط کوکردے تاکید

اشک گرنے پہ نہ منت کشِ داماں ہوں میں

گرد میری ہے حجابِ حرمینِ امید

شو ر ناقوس صنم خانۂ حرماں ہوں میں

نہ گرابے خطر او دیدۂ تر خون جگر

آبروئے شفق شام غریباں ہوں میں

ضعف پیری نے کیا مجھ کو زبس مثل ہلال

موت کے خوان پہ گویا لب جاناں ہوں میں

کیوں نہ وقف قفس آرائی کروں شوق سے پھر

اپنے صیاد کا پرورؤہ احساں ہوں میں

ہر رگ وریشہ میں عصمت کا لہو جوشاں ہے

اے زلیخا ترے یوسف کا گریبا ں ہوں میں

شیخ جی گردِ تکدّر ہے نظر کا پردہ

کفر بھی ہوں توحجابِ رُخ ایماں ہوں میں

ہے سویدائے دلِ حورشبستاں میری

کس بتِ ناز کی زلفوں کا پریشاں ہوں میں

میں ہوں دریا ئے طلب، پاس مرا ساحل ہے

بلبلہ قالب مینائے شکست دل ہے

بند سوم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جلوۂِ طور چراغ گل کاشانۂ دل

قصۂ وحشتِ قیس ابجد طفلانۂ دل

شوق ہے صید الستی کا تجھے گر صیاد

رہ الفت میں بچھا دام رگِ دانۂ دل

شورآفاق ہے اس مرغ کی تاب پرواز

محرم رمزِ حقیقت نہیں بیگانۂ دل

حاصلِ مرزعۂ وحدت سے بھرے گھر اس کا

ذکر کے کھیت میں بوئے جوکوئی دانۂ دل

خاک پرخلد سے آدم گرے گندم کھا کر

سجدۂ سہو تھا بالغرشِ مستانہ دل

ذرّے سولی پہ بگولے کی اناالحق گو ہیں

دیکھو منصورذرا آکے توویرانۂ دل

لوگ کہتے ہیں کہ ہے جسم لباس ہستی

میں سمجھتا ہوں اسے دلق گدایانۂ دل

دیدۂ راکہ بہ نظارۂ دل محرم نیست

مژہ باہم زدن ازدست تاسف کم نیست

بند چہارم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ملتی ہے ہوش کی رہ آپ سے غافل ہوکر

نیست ہونیست نشان پأ منزل ہوکر

ظلمت کفر نے کیا کیا مجھے عزت بخشی

رُخِ ایماں پہ جما بیٹھا ہوں میں تل ہوکر

خاک ہونے کے سواجینے سے چھٹنا ہے محال

آب دریا سے نکل سکتے ہیں ساحل ہوکر

رنج غرقابی دائم ہے گہر ہونے میں

ٹوٹ جا قطرے حبابِ لبِ ساحل ہوکر

حشر تھا حشر دلِ کن کی گرہ کا کھلنا

پڑگیا اپنے پہ میں آپ ہی مشکل ہوکر

اپنی نظروں سے چھپا لیتاہوں اپنی منزل

پردۂ گردو غبارِ رہِ منزل ہوکر

آپ ہی اس کے تجسّس میں ہوں گرم جولاں

آپ ہی میں نے چُھپایا اسے حائل ہوکر

عقل کوپھونک دے اے طالب دیدار کہ شیخ

رہ گئے وقفِ خیالِ حق وباطل ہوکر

طور الفت پہ ہوں میں گرم نواے ارنی

کثرتِ شوقِ طلب سے ہمہ تن دل ہوکر

ایک ترچھی سی نگہ اوربھی زخمہ زنِ کن

جان بھی تاکہ نکل جائے کہیں دل ہوکر

مدد اے سید عالم کہ بسے حیرانم

دررہِ شوق تولب تشنۂ و سرگردانم

بند پنجم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سازسامان کا ہے سوختہ ساماں ہونا

خلعتِ احسن تقویم ہے عریاں ہونا

الفِ صیقل آئینۂ دل ہے گویا

تیری وحشت میں مرا چاک گریباں ہونا

سیکھ گل سے سبق اوغنچہ باجمعیت دل

ختنستان کا حاصل ہے پریشاں ہونا

آہ ! اس پارۂ امید کی واژوں بختی

جس کی قسمت میں لکھاہے مرا ارماں ہونا

میرا دل صدمۂ پرواز سے ٹوٹے نہ کہیں

ورنہ مشکل نہیں صیاد پرافشاں ہونا

صاف چھپ کربھی دو عالم پہ عیاں ہے اتنا

ابھی آتا ہی نہیں گویا کہ پنہاں ہونا

رخت ہستی کوجلا ہے یہی سرمایۂ زیب

مورکو بال ہے ہم چتر سلیماں ہونا

چاک سلوانے میں کیا لطف ہے اللہ اللہ

خودجنوں چاہتا ہے میرا گریباں ہونا

چشمِ تحقیق نگر کھول تن آسانی شوق

عین لاہوت ہے وقت غم پنہاں ہونا

موم ہے اے مگس شوق نہ تار پیماں

خود خلیل طپش گلخن ہجراں ہونا

خاک پاکا تری دامن جوبراہیم پہ تھا

نارِ نمرود کولازم تھا گلستاں ہونا

راز توحید نمایاں ہے تری ہستی میں

سیرلاہوت تری دیدہے اس پستی میں

بند ششم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دہر میں برق زن حاصل پندار آیا

مژدہ اے دل کہ ترے کعبے کا معمار آیا

کوئی بازیچہ نہ تھا عشق حقیقی منصُور

اوتنک ظرف تو اُٹھ کر جو سرِدار آیا

لیے امت کے گناہ نقد شفاعت دے کر

مجھے ایسا نہ نظرکوئی خریدار آیا

رشتۂ ہجر سمجھ کرکیا پنبہ پنبہ

جب کہ وحشت میں نظر تن پہ کوئی تارآیا

ہرنبی سن کے شفاعت کی خبر تجھ سے بہ حشر

ہے پشیمان کہ میں کیوں نہ گنہگار آیا

جلوۂ صبح تمنائے براہیم استی

چہرۂ پرداز نہ حیرتکدۂ میم استی

بند ہفتم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مے الفت کا دیا کس نے پلا خُم مجھ کو

درس ہے ٹوٹنے کا صبح تبسم مجھ کو

ہائے اے دمکش توحید وہ کیالے تھی تری

لے گئی مجھ سے مری تابِ تکلم مجھ کو

تیرے قربان بتادے کہ پڑھوں کس کی نماز

جسمِ خاکی جو ہے سامانِ تیمم مجھ کو

یثربی ناز کی کشتی پہ دمِ باد مسیح

نہ ہوابندی کریں کہہ کے کہیں قم مجھ کو

ناکھلے دل پہ مرے عقدۂ لاینحل راز

کردے اے بیخودئ شوق کہیں گم مجھ کو

پھینک کر سبحہ کے دانے رہِ زنّار کے بیچ

پھانس کرلے گیا پھندے میں توہّم مجھ کو

میرے عصیاں سے توہے آتش دوزخ کو بھی عار

اپنی رحمت سے رکھو دورنہ پر تم مجھ کو

نیست گرزادِ رہے صبر وتحمل دارم

تکیہ برلطف توؤ فیض توکل دارم

بند ہشتم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شعلہ اُو ز دل کن کا تھا جلوہ تیرا

بخت چمکا گیا فاران کا سایہ تیرا

میم گوخود بھی ہوا جھک کے سراپا ناخن

نہ کھلا پرنہ کھلا راز معما تیرا

سینۂ دہر کو ہے داغ چراغ سینا

کہ سوادِ دل ہستی نہیں سایا تیرا

چاک جیبِ مہِ کنعان و زلیخا توبہ

صاحب شق قمر تھا وہ اشارا تیرا

عینک انجم رخشندہ لگا کر قدسی

بام افلاک سے کرتے ہیں تماشا تیرا

اے کہ تھی کفش تری کشتئ دریائے نور

اے کہ تھا عرش بریں فرش کفِ پا تیرا

اے کہ پوشاکِ نمائش تھی ترا پاک وجود

اے کہ تھا طرح فگاں؟؟ داغ تمنا تیرا

کیا کہوں امت مرحوم کی حالت ہے ہے

کس سے میں جاکہے کہوں دردمصیبت ہے ہے

بند نہم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تجھ سے حال امت عاصی کا شہا کہتے ہیں

بات جو سچ ہے وہ بے لوثِ خطا کہتے ہیں

ہواہر شخص جدا بغض سے جوں ذرۂ ریگ

اس کو یہ اندھے اخوت کی بناکہتے ہیں

آبلہ کاری کا ساماں ہے سراپا کینہ

ہائے غفلت یہ اسے بانگ دراکہتے ہیں

مہ کنعاں ہوا نخشب توبدولت اس کی

پر حسد کویہ ترقی کی دوا کہتے ہیں

اصل ایماں کو سرے سے جو جلا دیتی ہے

مئے احمر کویہ برق من و ما کہتے ہیں

قوم کی فکرمیں جس کونہ ہو کچھ ہوش لباس

یہ اسے طعن سے بے ننگ وحیا کہتے ہیں

کیاکہوں سیدا ڈرہے کہ یہ کہہ دیں نہ کہیں

ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کوبُرا کہتے ہیں

منکرِ معجزہ ہیں صاف نئے فلسفہ داں

اوراسے خامئ قانون خداکہتے ہیں

یہ تومنصور سے بھی چار قدم ہیں آگے

گندمی رنگ کے بندوں کوخداکہتے ہیں

خانۂ دل پہ کیا عشق بتاں نے قبضہ

نرگسی آنکھ کویہ قبلہ نما کہتے ہیں

آتش عشق نے کیا پھونکا ہے بینائی کو

اصل اعزاز سمجھتے ہیں یہ رسوائی کو

بند دہم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بے اثر صاف ہوا جاتا ہے اپنا کہنا

گوش دل سے یہ اگر سن لیں توپھر کیا کہنا

پستی عالم ہستی میں ہیں خوار وخستہ

شافع حشر گئے بھول یہ تیرا کہنا

خود فروشی کی صدآہ ہے ہمدردی کی

کارواں جب کہ نہیں سنتا درا کا کہنا

دل میں ہے جلوہ فگن روشنئ غارحرا

خرمنِ صبر کودے پھونک ہمارا کہنا

لے کے فریاد چلا ہوں شہ بطحا کے حضور

کوئی سکھلا دے مجھے حرف تمناّ کہنا

المدد سید مکی مدنی العربی

دل وجاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی

بند یازدہم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

گنبد سبز کے صدقے رہے پردا اپنا

غیر قوموں کونہ دکھلانا تماشا اپنا

دیدۂ انجمِ افلاک سے ہو خون رواں

لب بربر کبھی کہدے جوفسانہ اپنا

حالت دردِ دروں جاکے کہیں ہم کس سے

اورہے کون سوا تیرے سہارا اپنا

رہ گئیں انجمنیں چند نشان اسلام

میہماں موج گہر کاہوادریا اپنا

آج وہ دن ہے کہ سراپنے ہوئے ننگ زمیں

کف پا تھا کبھی تاج سرکسر ےٰ اپنا

مددے کشتی ہستی کے کھویّا مددے

ٹکڑے ٹکڑے ہواجاتاہے سفینا اپنا

گردباد اٹھنا یہاں ننگ پریشانی ہے

دیکھ آکر کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

بنددوازدہم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شافع حشر ترقی کی دوا کون سی ہے

یہ پری موم ہوجس سے وہ وفا کون سی ہے

جس کو آغوش میں لے دوڑ کے مقبولیت

بندہ پرور ہمیں بتلا وہ دعا کون سی ہے

نالۂ درد کی ہے جس کے بہا خواب خوش

ہاں بتا دے کہ وہ نایاب دوا کون سی ہے

پہلی منزل سفرعشق میں ہے جس کی فنا

رہبر خلق وہ وادی بقا کون سی ہے

نرگسِ حضرت یعقوب ہے سرتاپاقوم

صاف ظاہر ہے کہ مطلوب صبا کون سی ہے

گرۂِ قطرہ میں جس کی چمن نامیہ ہے

ہائے اے !ابر شفاعت وہ گھٹا کون سی ہے

جس پہ معشوق الستی کا بھی جائے دل پگھل

دلربا حق کے وہ جانا نہ ادا کون سی ہے

نعرۂ ہوئے صفا کیش میں ہے جس کا رنگ

پردۂ عشق میں وہ طرز جفاکون سی ہے

لا و الّا کا وہی راگ سنادے ہم کو

اور اس نقش پہ جوں نقش مٹادے ہم کو


حواشی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔ گنجینۂ مہر(جلد اول) مکتوبات غلام رسول مہرؔ بنام محمد عالم مختار حق، ۲۰۰۸ء ، لاہور: مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، مکتوب ۱۸، ص ۳۸

۲۔گنجینۂ مہر(جلد دوم) مکتوبات غلام رسول مہرؔ بنام محمد عالم مختار حق، ۲۰۰۸ء ، لاہور: مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، مکتوب ۱۴۶، ص ۵۴

۳۔ مکتوب محمد عالم مختار حق بنام محمد سہیل شفیق ، مورخہ ۲۷/ اکتوبر ۲۰۱۱ء

۴۔ خلیل الرحمن داؤدی، غلام رسول مہرؔ ، مشمولہ: ’’نقوش‘‘ (شخصیات نمبر)، ۱۹۵۶، طبع ثانی، لاہور: ادارۂ فروغِ اردو ، صفحہ ۶۳۷

۵۔گنجینۂ مہر، ج۱،محوّلہ بالا، مکتوب ۵۶، ص۱۲۸

۶۔ مولانا محمد عالم مختار حق، عالم و فاضل اور صاحبِ تصنیف و تالیف بزر گ تھے۔آپ ۱۴ / شوال ۱۳۴۹ھ مطابق ۴ /مارچ ۱۹۳۱ء کو جھگیاں شہاب الدین لاہور میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے والد میاں محمد حسین نقشبندی مجددی (متوفیٰ ۲۸ دسمبر ۱۹۵۸ء )سے حاصل کی۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد اردو فارسی کے شاعر، ادیب اور صوفی کامل چودھری جلال الدین اکبرؔ کی صحبت اختیار کی۔ علمی کتابوں کا مطالعہ آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ کتاب دوست و کتاب شناس اور اہل علم کے قدردان تھے۔ ذوقِ کتب بینی نے آپ کو مولانا غلام رسول مہرؔ کے کتب خانے تک پہنچایا۔ یہاں تک کہ آپ مولانا مہرؔ کے رفیق مجلس اور معاون قلم بن گئے اور عمر بھر ان کے علمی ذخیرہ سے اپنے ذوقِ علم کی تسکین کرتے رہے۔ آپ کا اپناذاتی کتب خانہ ۱۳ ہزار نادر و نایاب کتب پر مشتمل ہے۔ آپ کے کتب خانے کے مہرؔ سیکشن میں مہرؔ صاحب کی جملہ کتب موجود ہیں۔اکثر و بیشتر کتب مولانامہرؔ نے آپ کو اپنے دستخطوں سے عطاکیں۔ مولانا محمد عالم مختار حق صاحب کی تصنیفات و تالیفات ومرتبہ کتب کی تعداد ۲۰ سے زائد ہے۔۷/ مارچ ۲۰۱۴ء کو آپ خالقِ حقیقی سے جاملے۔

۷۔ایضاً، مکتوب ۷،محوّلہ بالا، ص۱۸

۸۔ بشکریہ : ڈاکٹر امجد سلیم علوی [ فرزند مولانا غلام رسول مہرؔ ]


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت | نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25