مناقب حسین بن علی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
The printable version is no longer supported and may have rendering errors. Please update your browser bookmarks and please use the default browser print function instead.


Hussain bin Ali.gif

حسین بن علی
شاعری
مناقب ِحسین

اس صفحے پر شہید کربلا سیدنا حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کے سلام اور مناقب اس امید پر یکجا کیے جا رہے ہیں کہ مناقب پر کام کرنے والے محققین و ناقدین کو کافی و شافی ذخیرہ ایک ہی جگہ دستیاب ہو ۔ انتخاب شائع کرنے والے پبلشرز بھی مستفید ہو سکتے ہیں ۔ کوئی بھی اشاعتی ادارہ اگر مناقب حسین کے کسی انتخاب میں ان کلاموں میں سے کوئی کلام یا سارے کلام استعمال کرنا چاہتا ہوتو تو اسے شاعر اور ادارے کی طرف سے اجازت ہوگی ۔

اگر آپ شاعر ہیں اور آپ نے کوئی سلام یا منقبت کہہ رکھی ہو تو تبادلۂ خیال:مناقب حسین بن علی کو ترمیم کرکے پیش کر دیں ۔

مناقب و ذکر ِ کربلا

ابو الحسن خاور ۔ وہ ایک نور جو غار حرا سے آتا ہے

شاعر : ابو الحسن خاور ، لاہور ، پاکستان ،

سال : 2018

وہ ایک نور جو غار حرا سے آتا ہے

اسی کا عکس تو کرب و بلا سے آتا ہے


ہزاروں سال زمانے نے انتظار کیا

کہ کربلا میں کوئی کب منٰی سے آتا ہے


نہ پیاس میں علی اصغر رگڑتے ہیں ایٹرھی

نہ دوڑ کر کوئی کوہ صفا سے آتا ہے


میں بھول سکتا ہوں کچھ دیر کے لیے سب کچھ

مگر وہ تیر کہ جو حرملہ سے آتا ہے


یہ جیسے کرب و بلا ہی کا ایک آنسو ہو

فرات بہتا ہوا نینوا سے آتا ہے


غم ِ حسین میں اشکوں کو کیا سمجھتے ہو؟

مجھے تو لگتا ہے پرسہ خدا سے آتا ہے

احمد جہانگیر - تنویر پر طمانچے ، پھولوں پہ تازیانہ

شاعر : احمد جہانگیر ، کراچی، پاکستان

سال : 2018


تنویر پر طمانچے، پھولوں پہ تازیانہ

عفّت مآب کنبہ، عالی نسب گھرانہ


تسبیح میں ستارے، آفاق کا مصلّی

تطہیر کی قناتیں، رحمت کا شامیانہ


آیات کا تسلسل، اسرار پر تفکّر

تمجید کا ترنّم، توحید کا ترانہ


گریہ کناں ضریحیں، رنجور تعزیے ہیں

تابوت غم رسیدہ، پرچم کا تھرتھرانا


سورج کا رک کے چلنا، گرنا کبھی سنبھلنا

تارے اٹھا اٹھا کر خیمے کی سمت لانا


گھوڑے سے شہؑ کا گرنا، امّاں کا گرد پھرنا

خاتمؐ تری دہائی، فریاد مہربانا


تسخیر کی منادی، نیزوں کی چمچماہٹ

ماتم کناں شریعت، گریاں رسولؐ خانہ


زنجیر پر مصیبت اور طوق پر قیامت

بیڑی کا پاوں پڑنا، رسّی کا گڑگڑانا


کہرام میں فلک پر خورشید ڈوبتا ہے

نیزے پہ اٹھ رہا ہے شبّیرؑ سا یگانہ


پرسے کی چاندنی پر، شٙیون کا استغاثہ

اور عصر کی تلاوت سنتا ہوا زمانہ

اسلم فیضی ۔ كاتبِ تقدیر نے یہ سانحہ كیسا لكھا؟

شاعر  : اسلم فیضی ، کوہاٹ ، پاکستان

كاتبِ تقدیر نے یہ سانحہ كیسا لكھا؟

بہتے دریا كے لبوں پر پیاس كا صحرا لكھا!


كس نےاُس كی چھاؤں میں كردی ملاوٹ دھوپ كی

غیر كے سر پر بھی جس نے دُھوپ میں سایہ لكھا


سرِنگوں سچاٸی كو كب كرسكی تیغِ ستم

جرأتِ شبیرؓ نے حرفِ وفا كیسا لكھا


كربلا میں كِشتِ دیں كی آبیاری كے لۓ

پیاس كے ماروں نے اپنے خُون كا دریا لكھا


رَو پڑی ہوگی اجل اُس سنسناتے تیر پر

گردنِ اصغرؓ پہ جس نے زخم اِك گہرا لكھا


سیّدہ زینبؓ ! تِرے صبر وتحمل كو سلام

تُو نے لوحِ زندگی پر حوصلہ كیسا لكھا


جب بھی نكلا عدل كو یكسر مٹانے كیلۓ

ظُلم نے فیضی خود اپنی قبر كا كتبہ لكھا

عبد الجلیل ۔ اے حسینؓ ابنِ علیؓ سب کچھ لُٹایا آپ نے

شاعر: حافظ عبد الجلیل ، کوہاٹ ، پاکستان

اے حسینؓ ابنِ علیؓ سب کچھ لُٹایا آپ نے

جان و مال و آل دے کر دیں بچایا آپ نے


منبرومحراب ومسجد میں تلاوت سب نےکی

بر سرِ نوکِ سناں قرآں سنایا آپ نے


آسماں بھی رو پڑا تھا اکبرؓ و قاسمؓ کا جب

کربلا کی ریت سے لاشہ اُٹھایا آپ نے


تین دن پیاسے رہے اور بر لبِ نہرِ فرات

تشنہ اصغرؓ دے دیا ‘ پانی نہ مانگا آپ نے


کس طرح اےشاہِ دیں! میدان میں جاتےہوئے

عابدِؓؓ بیمار کو سینے لگایا آپ نے


لشکر شامی سے آکر وہ حسینی بن گیا

اپنے قدموں میں بلا کر حُر بنایا آپ نے

کاشف حیدر ۔ حسینؑ ذکر ترا گام گام کرتے ہوئے

شاعر: [کاشف حیدر | کاشف حیدر رضوی ]]، شکاگو،


حسینؑ ذکر ترا گام گام کرتے ہوئے

گزر رہے ہیں زمانے سلام کرتے ہوئے


حسینؑ آپ نے سجدوں کو زندگی بخشی

بس ایک سجدہِ آ خر تمام کرتے ہوئے


اٹھا کے پرچمِ عباسؑ ہم علیؑ والے

چلے ہیں فکرِ حسینی کو عام کرتے ہوئے


چلےہیں جانب مقتل برائے دین نبی

حسین ؑ تیغِ علیؑ بے نیام کرتے ہوئے


منافقین علیؑ کو علیؑ کی لخت جگر

سبق سکھا گئی طے راہ شام کرتے ہوئے


اسے شجیعِ عرب تک رہے ہیں حیرت سے

جو مسکرا دیا حجت تمام کرتے ہوئے


اسے خبر تھی غریبوں پہ شام بھاری ہے

بہت اداس تھا سورج بھی شام کرتے ہوئے


زمین کیوں نہ پھٹی جس گھڑی چلے ظالم

ردائے فاطمہ زہراؑ کو عام کرتے ہوئے


چلیں جو دخترِ شبیر ؑ ڈھونڈنے زینبؑ

ملی وہ لاشہ شہہ سے کلام کرتے ہوئے


لحد سے حشر تلک یوں سفر کرو کاشف

غمِ حسینؑ میں ماتم مدام کرتے ہوئے



عبدالحلیم گونڈوی ـ کون سمجھے کون جانے رتبۂ ابن علی

شاعر: عبدالحلیم گونڈوی


کون سمجھے کون جانے رتبۂ ابن علی

بوسہ گاہ مصطفیٰ ہے چہرۂ ابن علی


ان کی نسبت سے ہے قائم افتخار زندگی

ٹوٹنے پائے نہ پھر یہ رشتۂ ابن علی


جان دے دی پر یزید وقت کی بیعت نہ کی

مرحبا صد مرحبا اے جذبۂ ابن علی


اے بہار گلشن تطہیر تیرے فیض سے

چارسو مہکا ہوا ہے غنچۂ ابن علی


بیخودی کہنے لگی ہے ہر دل بیمار سے

قلب مضطر کی دوا ہے نعرۂ ابن علی


اس لیے ہر فرد اس کا نازش فردوس ہے

دین کا رہبر ہے سارا کنبۂ ابن علی


روز روشن کی طرح یہ بات ہے سب پر عیاں

عکس محبوب خدا ہے جلوۂ ابن علی


مستند ہو جاے گی میری غلامی حشر میں

کاش مل جاے ذرا سا صدقۂ ابن علی


کر خدا کے حکم پر ہر دم عمل عبدالحلیم

درس یہ بھی دے گیا ہے سجدۂ ابن علی


سید حسنین رضا ہاشمی ـ وفا کا دیپ جلا ہے حسین آئے ہیں

شاعر: سید حسنین رضا ہاشمی ، مظفر گڑھ


وفا کا دیپ جلا ہے حسین آئے ہیں

درِ بتول سجا ہے حسین آئے ہیں


مہک بسی ہے فضا میں علی کے گلشن کی

اک اور پھول کھلا ہے حسین آئے ہیں


اُتر رہے ہیں ملائک مبارکیں دینے

حضور سے بھی سنا ہے حسین آئے ہیں


نبی کے دین کی نصرت کا ہو گیا ساماں

خدا کی خاص عطا ہے حسین آئے ہیں


دیارِ صبر میں خوشیوں کا جشن برپا ہے

زمانہ شاد بڑا ہے حسین آئے ہیں


ہوائیں خیر مبارک کے گیت گاتی ہیں

سرور میں یہ فضا ہے حسین آئے ہیں


سکوں کا نور ہے , رحمت ہے اور برکت ہے

زمیں کو حُسن ملا ہے حسین آئے ہیں


لباسِ خلد ہے کس کے لئے رضا دیکھو

یہ آج سب کو پتا ہے حسین آئے ہیں



ظفر اقبال نوری ـ امیرِ شہرِ امانت مرے حسین سلام

شاعر: ظفر اقبال نوری


امیرِ شہرِ امانت مرے حسین سلام

رئیسِ راہِ سعادت مرے حسین سلام


امینِ امن و امانت مرے حسین سلام

نقیبِ رشدو ھدایت مرے حسین سلام


کشادِ بابِ بسالت مرے حسین سلام

فرازِ اوجِ شجاعت مرے حسین سلام


کتابِ عشق و اصالت مرے حسین سلام

نصابِ دینِ شہادت مرے حسین سلام


جمالِ رنگِ علی و کمالِ بوئے بتول

مثالِ روئے رسالت مرے حسین سلام


مرادِ آیۂ تطہیر و فخرِ آلِ عبا

بہارِ باغِ مودّت مرے حسین سلام


بنوکِ نیزہ قراءت تری مثال کہاں

سوارِ دوشِ نبوت مرے حسین سلام


وہ بوند بوند چراغاں جو کربلا میں ہوا

رہےگا تا بہ قیامت مرے حسین سلام


اک ایک کر کے لٹائے گہر بطیب و رضا

تری عجیب سخاوت مرے حسین سلام


کہیں پہ بھائی بھتیجے کہیں پہ لختِ جگر

کہیں پہ بہن کی عترت مرے حسین سلام


میانِ فصلِ شہیداں وہ تیرا پائے ثبات

نشانِ عزم و عزیمت مرے حسین سلام


ھجومِ تیغ و سناں میں وہ خونچکاں سجدہ

زہے یہ ذوقِ عبادت مرے حسین سلام


کٹا کے سر جو شریعت کو سربلند کیا

پناہِ دین و شریعت مرے حسین سلام


منٰی کا سرِّ فدینا تو کربلا میں کھلا

ظہورِ شانِ مشیّت مرے حسین سلام


کہاں یہ بندۂ نوری غلام ابنِ غلام

کہاں نصیب یہ مدحت مرے حسین سلام


بنامِ سیّدِ سجّاد اسیرِ کرب و بلا

کریں قبول یہ مدحت مرے حسین سلام


عبید بخاری ـ بنےگامغفرت کایہ جوازآج بھی

شاعر: عبید بخاری


بنےگامغفرت کایہ جوازآج بھی۔

کہ ہوگا ذکر ِآلِ پاکباز آج بھی۔


ہےدس محرم الحرام یومِ کربلا۔

حسینؓ نےمگرپڑھی نمازآج بھی۔


یزید کا تو نام تک مٹا دیا گیا۔

حسین کی سجی ہےبزمِ نازآج بھی۔


رہی ہےکل بھی آنکھ نم غمِ حسین میں۔

غمِ حسین ہے نظر نواز آج بھی۔


حسین عہدِحال میں بھی ناگزیرہے۔

کہ شرکی ہورہی ہےسازبازآج بھی۔


نہ دیں گےہاتھ ہاتھ میں اگرچہ کاٹ دے۔

یزید کا خلیفہ ٕ مجاز آج بھی۔


یزیدیت ہےسربخاک آج تک، عبید۔

حسینیت رہی ہےسرفرازآج بھی۔


احمد ندیم - حسین حسن مکمل کا مظہر مشہود

شاعر: احمد ندیم


حسین حسن مکمل کا مظہر مشہود

حسین نوع بشر کی هے منزل مقصود


مقام صبر و رضا کا وہ مظہر کامل

کہ اس کی ذات میں باہم ہوئے وجود و شہود


وہ پاسدار وفائے ذبیح و عبدالله

شہید سر شہادت برائے اصل وجود


حیات باقی و فانی کا امتیاز حسین

کہ جس نے پیش خدا پیش کی متاع وجود


وہ سبط سید عالم حسین ابن علی

سر سناں بھی کہس جس نے اے مرے معبود


وہ جس کے خون سے صحرا ہوا گل و گلزار

اور اس کی مثل نہیں کوئی زیر چرخ کبود


ندیم میں بھی ہوں ادنی گدائے نور حسین

مرے بھی دل میں یو اک روز روشنی کا ورود



احمد ندیم ـ جو وصل حق کی تمنا کیا کرے کوئی

شاعر: صاحبزادہ احمد ندیم


جو وصل حق کی تمنا کیا کرے کوئی

تو کربلا کا مسافر رہا کرے کوئی


نماز عشق فقط عاشقوں پہ فرض ہوئی

حسین کی طرح کیسے ادا کرے کوئی


حجاز آج بھی ہے محو انتظار حسین

قضا ہوئے ہیں جو سجدے ادا کرے کوئی


اصول عشق الہی ہے کربلا کا سفر

ظفر نصیب اگر ہو چلا کرے کوئی


نگاہ سید کونین میں رہے دائم

حسینیت کا اگر حق ادا کرے کوئی


حسین سید عشاق ہر زماں ہے ندیم

ملے جو نقش قدم جاں فدا کرے کوئی

ابرار نیّر ـ عزیز ہم کو نہ کیونکر ہو خاندانِ حسین

شاعر: ابرار نیّر

عزیز ہم کو نہ کیونکر ہو خاندانِ حسین

یہ خاندان ہے دراصل کاروانِ حسین


نہ خوفِ شمر ، نہ ابن ِ زیاد کا ڈر ہے

ہمارے سر پہ ہے جرآت کا سائبانِ حسین


جو ان کی راہ پہ چل کر لٹا گئے گھر بار

تو ان سے پوچھ کبھی جا کے داستانِ حسین


ملیں گے چاک گریباں، سروں میں خاک لیے

رہیں گے سر بہ گریباں ہی دشمنانِ حسین


سکھا گئے تھے کہ حق کے سوا نہ کچھ کہنا

مرے حضور نے چوسی تھی جب زبانِ حسین


ہماری چال میں نیّر ، جو کچھ اٹھان سی ہے

ہمارے سامنے رہتی ہے آن بان ِ حسین


اصغر شمیم ـ زندگانی آپ کی ہے جاودانی یا حسین

نعت کائنات ۔ تعارف و رابطہ نعت بک کارنر اہم صفحات سال 2019 وڈیو نعتیں [بیٹا ورژن ] آن لائن رسائل و جرائد اہم نعت گو شعراء حسان بن ثابت، 563 کعب بن زہیر شرف الدین بوصیری، 1211 عبد الرحمن جامی، 1414 محسن کاکوروی، 1827 امیر مینائی، 1828 الطاف حسین حالی ، 1837 احمد رضا بریلوی، 1856 ظفر علی خان، 1873 بیدم وارثی، 1876 علامہ اقبال، 1877 بہزاد لکھنوی، 1904 ماہر القادری، 1906 منور بدایونی، 1908 اقبال عظیم، 1913 مظہر الدین مظہر 1914 احمد ندیم قاسمی، 1916 عبد العزیز خالد، 1927 ادیب رائے پوری، 1928 حفیظ تائب، 1931 مظفر وارثی، 1933 گوہر ملسیانی، 1934 راجا رشید محمود، 1934 ریاض حسین چودھری، 1941 خالد محمود خالد، 1941 ریاض مجید، 1942 نصیر الدین نصیر، 1949 دیگر شعراء اہم روائتی نعت خواں اعظم چشتی، 1921 محمد علی ظہوری، 1932 عبدالستار نیازی، 1938 منظور الکونین، 1944 وحید ظفر قاسمی، 1952؟ خورشید احمد، 1956 صبیح رحمانی، 1965 سرور حسین نقشبندی، 1976 بین الاقوامی نعت خواں مشارے راشد الفاسے، 1976 سمیع یوسف، 1980 اہم جدت پسند نعت خواں اویس رضا قادری، 1960 عبد الروف روفی آلات ادھر کونسا ربط ہے متعلقہ تبدیلیاں خصوصی صفحات معلومات صفحہ Powered by MediaWiki اصول براۓ اخفائے راز تعارف "نعت کائنات" اعلانات

شاعر: اصغر شمیم ، کولکتہ، انڈیا


زندگانی آپ کی ہے جاودانی یا حسین

دو جہاں میں آپ کی ہے کامرانی یا حسین


آپ کے محسن جو تھے وہ قتل سارے ہو گئے

پھر بھی لب پر آپ کے ہے شادمانی یا حسین


جو مٹانا چاہتے تھے مٹ گئے دنیا سے وہ

ہار میں بھی آپ کی ہے کامرانی یا حسین


جب کہ صادق کا علم لے کر کٹایا اپنا سر

آپ نے لکھی ہے خوں سے یہ کہانی یا حسین


قطرے قطرے کو ترستے رہ گئے اصغر کے ہونٹ

آج بھی ہے شرم میں ڈوبا وہ پانی یا حسین


میں شمیمِ سوختہ جاں لکھتے لکھتے رو پڑا

تجھ پہ ہو رحمت کی بارش آسمانی یا حسین


ساحر کلکتوی ـ رک گئے یہ کہتے کہتے ذاکرانِ اہلبیت

شاعر: ساحر کلکتوی


رک گئے یہ کہتے کہتے ذاکرانِ اہلبیت

ہے قیامت سی قیامت داستانِ اہلبیت


سنتِ شبیر ہوجائے ادا، اس واسطے

صبر کرتے ہیں ہمیشہ عاشقانِ اہلبیت


ظلم کی گردن اڑانےصبر کی تلوار سے

جارہے ہیں کربلا ، شہزادگانِ اہلبیت


سوگ کی چادر فضانےکربلامیں اوڑھ لی

اٹھی جب ہر سمت سے آہ وفغانِ اہلبیت


"اذھما فی الغار“ میں ان کا ہوا ہے تذکرہ

ہیں جو اہلبیت کی جاں،اور شانِ اہلبیت


چار یاروں کے تصدق اے مرے پروردگار

رکھ مجھے ہر وقت زیرِ سائبانِ اہلبیت


میرا دعویٰ ہے یقیناً دربدر کی ٹھوکریں

حشر تک کھاتے رہینگے دشمنان اہلبیت


خواجہ ومخدوم،شرف الدین ساحرسب کےسب

سرزمینِ ہند پر ہیں ارمغانِ اہلبیت

آصف قادری -حُسینیوں کو بسانا‘ حسین جانتے ہیں

شاعر: محمد آصف قادری ، واہ کینٹ، پاکستان


حُسینیوں کو بسانا‘ حسین جانتے ہیں

یزیدیوں کو مٹانا‘ حسین جانتے ہیں


یہ دشمنوں نے بھی مانا کہ دین کی خاطر

خود اپنا کنبہ لُٹانا‘ حسین جانتے ہیں


اگرچہ سَر ہے جُدا ہو کے نوکِ نیزہ پر

کلام رب کا سُنانا‘ حسین جانتے ہیں


پڑا جو وقت تو ہرگز نہ آنچ آنے دی

نبی کا دین بچانا‘ حسین جانتے ہیں


گواہی دیتی ہے آصف زمینِ کرب و بلا

لہو سے پھول کِھلانا حسین جانتے ہیں


احمد زاہد ـ یہ کس کالاڈلہ ہےاورکون شہسوارہے

شاعر: محمداحمد زاہد، سانگلہ ہل، پاکستان

یہ کس کالاڈلہ ہےاورکون شہسوارہے

فضا سے بھی بلندجس کےپاؤں کاغبارہے


رواں ہیں لے کے ہاتھ میں اٹھا کے شیر خوار بھی

یہ عشق ہے محمدی ، بڑا ہی ذی وقار ہے


حسین اپنے خون سے تھے سینچتے رہے جسے

چہار سو وہ گلستانِ مصطفےٰ تیار ہے


خدا کے سامنے ہی سر کٹائیں گے سجود میں

نماز کو نہ چھوڑنا! حسین کی پکار ہے


لو دیکھ کر حسین کو یزیدیوں میں غل مچا

یہ کون ذی وقار ہے بلا کا شہ سوار ہے


کسی لعیں یزید کو وہ دیں گے ہاتھ کس لیے

نبی کے دین کے لیے تو جاں بھی نثار ہے



اسلم فیضی ۔ صدق ویقین ومہر و محبت حسینؑ ہیں

شاعر : اسلم فیضی ، کوہاٹ ، پاکستان

صدق ویقین ومہر و محبت حسینؑ ہیں

دستورِ زندگی كی حقیقت حسینؑ ہیں


سجدوں كی كہكشاں سے عبارت ہےجن كی ذات

وہ آشناۓ روحِ عبادت حسینؑ ہیں


بخشا گیا ہے اُن كو وقارِ خود آگہی

اپنے لۓ تو نورِ بصیرت حسینؑ ہیں


ہر زوایے سے كیوں نہ انہیں معتبر كہوں

فخرِ حیات و فخرِ شہادت حسینؑ ہیں


جس نے نبیۖ كے دین كو ضو پاش كردیا

اس روشنی كی زندہ علامت حسینؑ ہیں


ہر عہد میں لڑیں گے یزیدوں كے ساتھ ہم

ہر عہد میں ہماری ضرورت حسینؑ ہیں


دیكھو تو كربلا میں ہیں تكمیل انقلاب

سوچو تو پورے دہر كی قیمت حسینؑ ہیں


نوكِ سناں پہ بھی رہا غیرت كا بانكپن

خورشیدِ آسمانِ شجاعت حسینؑ ہیں

اسلم فیضی ۔ صفحہِ زیست پہ تحریر شہادت چمكی

شاعر : اسلم فیضی ، کوہاٹ ، پاکستان


صفحہِ زیست پہ تحریر شہادت چمكی

اِك نۓ رنگ سے انسان كی عظمت چمكی


كس نے خوں بانٹ دیا اپنے جگر پاروں كا

نوكِ شمشیر پہ یہ كس كی سخاوت چمكی


ورنہ تا حشر یزیدوں كی حكومت ہوتی

شكر ہے حضرت شبیرؓ كی جرأت چمكی


بجھ گٸیں ظلم كی سب مشعلیں یارو! لیكن

ریگِ كربل میں فقط اُن كی قیادت چمكی


معتبر كیوں نہ اجالوں كا سفر ہو فیضؔی

راكبِ دوشِ رسالتﷺ كی امامت چمكی

اشفاق احمد غوری ـ شبیہہِ شاہِ انبیاء ہے خوبرو حسین ہے

شاعر: اشفاق احمد غوری، ملتان، پاکستان


شبیہہِ شاہِ انبیاء ہے خوبرو حسین ہے

سخی، متین، باوقار، نرم خو حسین ہے


قرارِ قلب و جان دو جہاں کے تاجدار ہیں

قرارِ قلب و جاں کے دل کی آرزو حسین ہے


جو کھیلتا تھا تاجدارِ انبیاء کی پیٹھ پر

وہ ذی وقار لاڈلا لہو لہو حسین ہے


خبر نہ تھی فرات پر کھڑی ہوئی سپاہ کو

کہ اس کی بوند بوند کی تو جستجو حسین ہے


ملا دیا گیا ہے خاک میں نسب یزید کا

مگر نظر اٹھا کے دیکھ سو بسو حسین ہے


چلا کے تیر شرم سے گڑے نہیں زمین میں

یہ جانتے ہوئے کہ ان کے روبرو حسین ہے


شبابِ خلد کے سروں کا تاج ہے وہ ذی حشم

شبابِ خلد کے لبوں کی گفتگو حسین ہے


ہوئی ہے مات کربلا میں ظالموں کی فوج کو

کٹا کے اپنا خاندان سرخرو حسین ہے


حسین ہے سکھائے جس نے زندگی کے ضابطے

بچائی جس نے دینِ حق کی آبرو، حسین ہے

اشفاق احمد غوری ـ ہے کون رونقِ چمن، حسن بھی ہیں حسین بھی

شاعر: اشفاق احمد غوری، ملتان، پاکستان


ہے کون رونقِ چمن، حسن بھی ہیں حسین بھی

گلاب اور نسترن، حسن بھی ہیں حسین بھی


سخاوتوں کی داستاں زباں زدِ عوام ہے

کرم کے بحرِ موجزن، حسن بھی ہیں حسین بھی


ملی ہیں جن کو فخرِ کائنات کی شباہتیں

مرے نبی کا بانکپن، حسن بھی ہیں حسین بھی


قرارِ قلبِ فاطمہ، سکونِ قلبِ مرتضیٰ

نبی کے باغ کی پھبن، حسن بھی ہیں حسین بھی


لگے ہیں ایک شاخ پر گلاب بے مثال دو

مہک رہے ہیں گلبدن، حسن بھی ہیں حسین بھی


سوال ہوگا کس نے دین کی بچائی آبرو

کہیں گے سارے مرد و زن، حسن بھی ہیں حسین بھی


بلال راز ۔ تاریکیوں میں شمع ہدایت حسین ہیں

شاعر : بلال راز۔ بریلی ، بھارت

تاریکیوں میں شمع ہدایت حسین ہیں

زحمت ہے گر یزید تو رحمت حسین ہیں


ہم کو اسی لئے ہے محبت حسین سے

الله کے نبی کی محبّت حسین ہیں


جن کو کہا نبی نے کہ یہ دو ہیں میرے پھول

حضرت حسن ہیں دوسرے حضرت حسین ہیں


زہرہ کے نور عین ہیں حیدر کے لاڈلے

قلب رسول پاک کی راحت حسین ہیں


شمر و یزید جیتے جی برباد ہو گئے

ہو کر شہید اب بھی سلامت حسین ہیں


پھر سے اٹھا رہی سر اپنا یزیدیت

اس دور پر فتن کی ضرورت حسین ہیں


یہ وقت کے یزید مٹایں گے کیا اسے

دین رسول پاک کی طاقت حسین ہیں


جاوید انور ہاشمی - نم آنکھوں سے ظاہر محبت حقیقتت

نم آنکھوں سے ظاہر محبت حقیقتت

محبت سے بڑھ کر مئو د ت حقیقت


وہ شب اور وہ کا رو اں ز ند گی کا

و ہ د ھو کا د ہی اور وہ جرآت حقیقتت


ر سو ل۔خدا کے گھر ا نے سے ملتی

ر سو ل ۔ خد ا کی ا طا عت حقیقت


و ہ آل۔ محمد (ص) کی قر با نیا ں تھیں

برا ہیم (علیہ السلام) کے خو ا ب و سنت حقیقت


ز ر و مال کیا!جا ن دی راہ۔ حق میں

شہا د ت حقیقت اما مت حقیقت


یقین ا ہے گا حشر میں مو منو ں کو

یقیناً یقیں کی ہے د و لت حقیقت


خد ا ان کے سائے میں ہم سب کو رکھے

و ہ ساعت بنے جب شفا عت حقیقت


ریاض احمد برکاتی ـ اے ابن حیدر قرارِ زہرا ،عظیم کتنا نسب ہے تیرا

شاعر: ریاض احمد برکاتی ، کولکتہ ، انڈیا


اے ابن حیدر قرارِ زہرا ،عظیم کتنا نسب ہے تیرا

تو ہے نواسہ شہِ امم کا نفیس و اعلیٰ حسب ہے تیرا


رشید تو ہے، فرید تو ہے، رہِ وفا کا شہید تو ہے

غم و الم سے بعید تو ہے، شہیدِ اعظم لقب ہے تیرا


ہے شان تیری بلند و بالا، فضیلتوں کا ہے تو منارا

تری ہے دنیا، تری ہے عقبیٰ، رسول تیرے ہیں، رب ہے تیرا


تری محبت ہے فرض ہم پر، کہ تو ہے جانِ حبیبِ داور

ہماری خاطر سبیلِ بخشش اے میرے شبیر ادب ہے تیرا


ہے مومنوں کو تری ضرورت، ضیائے ایماں ہے تیری الفت

طرب کا ساماں ہے تیری مدحت، حسین رتبہ عجب ہے تیرا


تُو مدح خواں جب حسین کا ہے، ریاض کیوں اتنا غمزدہ ہے

تجھے وہ محشر میں بھول جائیں، یہ سوچنا بے سبب ہے تیرا


شفیق رائے پوری ـ سبطِ رسول راکبِ دوشِ نبی حسین

شاعر: شفیق رائے پوری ، انڈیا


سبطِ رسول راکبِ دوشِ نبی حسین

لختِ جگر بتول کے جانِ علی حسین


اسلام کے افق پہ کِھلی روشنی حسین

ہیں تیرہ کائنات کی تابندگی حسین


کیسے قلم احاطہ کرے تیرے وصف کا

تو عالی مرتبت ہے اے ابنِ علی حسین


اسلام کی رگوں میں لہو آپ ہی کا ہے

ہےآپ ہی کےدم سےروش نبض کی حسین


جب بھی کوئی یزید اٹھائے گا اپنا سر

سنت کریں گے ہم بھی ادا آپ کی حسین


آقا نے چن لیا جسے فرزند کے عوض

وہ جانِ مصطفے ہیں فقط آپ ہی حسین


خوابِ شفیق میں بھی چلے آئیے کبھی

چھوٹا سا منہ ہے بات مگر ہے بڑی حسین


محمد خالد - راہ جو بھی لیں ہمیں وہ کربلا لے جائے گی =

بشکریہ : انحراف

راہ جو بھی لیں ہمیں وہ کربلا لے جائے گی

اپنی منزل پر مدینے کی ہوا لے جائے گی


یہ تری دریا دلی ہے موجۂ حُسنِ عطا

جو مرے دل کی پریشانی بہا لے جائے گی


دُھوپ میں سایہ بنے گی، تا سرِ محشر ہمیں

چادرِ زینبؑ، سکینہؑ کی ردا لے جائے گی


گو دئیے کی لو بجھا ڈالی ہے میرے شاہؑ نے

پر غلاموں کو کہاں در سے وفا لے جائے گی


ہم کہ وابستہ رہے ہیں جاودانی نور سے

موت ہے کیا اور کیا ہم سے بھلا لے جائے گی !


ساکنانِ خلد کو حسرت رہے گی تا ابد

کیا شرف یہ سر زمینِ نینوا لے جائے گی !


کیوں بنا انسان کا دل سجدہ گاہِ عرشیاں ؟

بات چل نکلی تو سُوئے کربلا لے جائے گی !


دشت کو مہکار کر ڈالا ہے کس گل رنگ نے

بھر کے دامن میں جسے بادِ صبا لے جائے گی

بر سرِ منبر نہیں ہے وہ سرِ نیزہ بھی ہے


کائناتِ عشق میں جس کی نوا لے جائے گی


اے مرے شاہِ شہیداںؑ، اے اماموں کے امامؑ

دین تیرے گھر کی ہے ، خلق ِ خدا لے جائے گی !


کچھ نہیں پلّے مرے تیری حضوری کے لئے

بس یہی حمد و ثنا آہِ رسا لے جائے گی !


صفدر جعفری - سرورِ قلبِ پَیمبر حسینؑ زندہ باد

سرورِ قلبِ پَیمبر حسینؑ زندہ باد

"خدا کے دین کا محور حسینؑ زندہ باد"


ہمارے ذکر کا محتاج تو نہیں ہے حسین

کہ خود نبی کے ہے لب پر حسین زندہ باد


کسی یزید کا ڈر ہے نہ خوف مرنے کا

مرا ازل سے ہے رہبر حسینؑ زندہ باد


صدا یہ آج بھی آتی ہے صحنِ مقتل سے

مرا نہیں ہوں میں مر کر حسینؑ زندہ باد


بڑے فخر سے ملائک بھی جس کے در پہ جھکیں

اسی کا میں بھی ہوں نوکر حسینؑ زندہ باد


مرے خمیر میں شامل ہے خاک مقتل کی

مرے لہو کے ہے اندر حسینؑ زندہ باد


علیؑ کے جیسا ہو جیون تو موت شبیرؑی

دعا ہے بس یہی صفدرؔ حسینؑ زندہ باد

صفدرؔ جعفری - حسینؑ دیکھ رہے ہیں صفیں سجائے ہوئے

شاعر: صفدر جعفری، لاہور


حسینؑ دیکھ رہے ہیں صفیں سجائے ہوئے

کوئی تو نکلے کفن کو عَلم بنائے ہوئے


تڑپنے لگتے ہو کیوں ذکرِ ابنِ حیدرؑ پر

علؑی کے لال سے کتنا ہو خوف کھائے ہوئے


طلب نہیں ہے کسی قصر کی نہ شاہی کی

ہمیں قبول ہیں یا رب وہ گھر جلائے ہوئے


کبھی تبسمِ اصغر میں بولتے ہیں حسینؑ

سناں کی نوک کو منبر کبھی بنائے ہوئے


فراتِ فکر پہ ان کے ہے اب تلک پہرا

عزائے شہ سے جو صفدؔر ہیں تلملائے ہوئے

عمیر نجمی ۔ بہ وقتِ عصر جو کربل کی خاک بیٹھ گئی

شاعر : عمیر نجمی، رحیم یار خان، پاکستان

بہ وقتِ عصر جو کربل کی خاک بیٹھ گئی

کئی دلوں پہ کٹے سر کی دھاک بیٹھ گئی


اِدھر زمیں پہ گرا ہاشمی چراغ، اُدھر

فلک پہ سوگ میں اک ذاتِ پاک بیٹھ گئی


بدن جو بزمِ عزا سے اٹھا تو روح وہیں

بہ صد نیاز، بہ صد انہماک، بیٹھ گئی


بہ یادِ سجدہِ تشنہ امام، سجدہ کیا

اور اتنی دیر سے اٹھا کہ ناک بیٹھ گئی


جو بے ردا تھی، اٹھی اور دورنِ قصرِ دمشق

بڑے بڑوں کی ردا کر کے چاک، بیٹھ گئی


عدو حسین۴ کا ہو اور نشان چھوڑے زمیں؟

سنا ہے اس کی لحد ٹھیک ٹھاک بیٹھ گئی


فرحت زاہرا - نفس کے مختار تھے راہ خدا تک آ گئے
نفس کے مختار تھے راہ خدا تک آ گئے 

حق کو جو پہچان پاۓ کربلا تک آ گئے


آسمان رویا زمیں تڑپی ہوا رکنے لگی

شمر تیرے ہاتھ آل مصطفی تک آ گئے


استغاثے کی صدا نے کر دیا بے چین تو

خیمہء اقدس سے اصغر حرملہ تک آ گئے


منزلیں دشوار تھیں پر قافلہ بنتا گیا

راہ حق کے سب مسافر راہ نما تک آ گئے


شور تھا کہ لوٹ لو آل عبا کی چادریں

اشقیاء کے حوصلے دیکھو کہاں تک آ گئے


اک طرف فسق یزیدی اک طرف صبر حسین

دونوں اطرافی مثال انتہا تک آ گئے

جنید نسیم سیٹھی ۔ خُسروی چاہی نہ سطوت کے طلبگار بنے =

شاعر : جنید نسیم سیٹھی ]


خُسروی چاہی نہ سطوت کے طلبگار بنے

وہ بہتَّر 72 جو فقط تیرے وفادار بنے


تُو نے یہ درس زمانے کو دیا کربل میں

سر کٹا سکتا ہو جو کوئی وہ سردار بنے


اُن کے حصے میں نہ دین آیا نہ دُنیا آئی

تجھ سے مُنہ پھیر کے جو صاحبِ دستار بنے


اُن لعینوں کو بھی سیراب کیا تھا تُو نے

رَن میں جو تیرے لئے باعثِ آزار بنے


کوئی باقی نہ تھا بیمار کی دل جوئی کو

چند لاشے تھے جو سجاد کے غمخوار بنے


ایک وہ تُو کہ تجھے جُراتِ اظہار ملی

ایک یہ ہم کہ کہیں صُورتِ اظہار 'بنے'

قصیدہ

سلام

عبدالجلیل ۔ بے سہاروں کےسہارے مصطفٰےﷺ کوہوسلام

بے سہاروں کےسہارے مصطفٰےﷺ کوہوسلام

رحمتِ عالم حبیبِ کبریا کو ہو سلام


حیدرؓ و حسنینؓ و زہرؓا آئے جس چادر تلے

المزمل شان والی اس رِدا کو ہو سلام


جن کی عظمت کا بیاں ہے آیئہ تطہیر میں

اہل بیت پاکؓ کی شانِ عُلیٰ کو ہو سلام


جس کا چہرہ دیکھنا بھی ہے عبادت وہ علیؓ

مرتضیٰؓ ، مشکل کشاؓ ، شیر خُداؓ کو ہو سلام


تیری آمد پر ہوئے سر خم سبھی کے حشر میں

نُور چشمِ مصطفٰےﷺ تیری حیا کو ہو سلام


اے حسنؓ تیری فراست پر ہو کُل دانش نثار

راحتِ جانِ نبیﷺ تیری ذکاء کو ہو سلام


جس کی دلجوئی کی خاطر ہو گیا سجدہ طویل

راکبِ دوشِ نبیﷺ کی اس ادا کو ہو سلام


تادمِ آخر رہا تجھ کو پیاسوں کا خیال

اے علمدارِ وفا تیری وفا کو ہو سلام


قاسمؓ و عونؓ و محمدؓ اکبرؓ و اصغرؓ سبھی

غنچہ ہائے نازنین و دلربا کو ہو سلام


اکبرؓ و اصغرؓ کے لاشے دیکھ کر بھیگی نہ آنکھ

کربلا میں صبر کی اُس انتہا کو ہو سلام


دیں بچانے کیلئے جب کر دیا کنبہ نثار

منبعِ جود و سخا تیری سخا کو ہو سلام


جان و مال و آل دے کر زندۂ جاوید ہیں

اے شہیدِ کربلا ایسی بقا کو ہو سلام


دیکھ کر نوکِ سناں پر سر تیرا بولے ملک

مرحبا ! سبطِ نبی تیری انا کو ہو سلام


زیرِ خنجر کی ادا شبّیرؓ نے ایسی نماز

سب عدو کہنے لگے حُسنِ ادا کو ہو سلام


مصطفٰےﷺ کی آل کا جو درد رکھتے ہیں جلیل

تا قیامت اُن غلاموں کی وفا کو ہو سلام

مزید دیکھیے

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے اضافہ شدہ کلام
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات