"مناقب حسین بن علی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 168: سطر 168:


دین رسول پاک کی طاقت حسین ہیں
دین رسول پاک کی طاقت حسین ہیں
===== جاوید انور ہاشمی - نم آنکھوں سے ظاہر محبت حقیقتت  =====
نم آنکھوں سے ظاہر محبت حقیقتت
محبت سے بڑھ کر مئو د ت حقیقت
وہ شب اور وہ کا رو اں ز ند گی کا
و ہ د ھو کا د ہی اور وہ جرآت حقیقتت
ر سو ل۔خدا کے گھر ا نے سے ملتی
ر سو ل ۔ خد ا کی ا طا عت حقیقت
و ہ آل۔ محمد (ص) کی قر با نیا ں تھیں
برا ہیم (علیہ السلام) کے خو ا ب و سنت حقیقت
ز ر و مال کیا!جا ن دی راہ۔ حق میں
شہا د ت حقیقت اما مت حقیقت
یقین ا ہے گا حشر میں مو منو ں کو
یقیناً یقیں کی ہے د و لت حقیقت
خد ا ان کے سائے میں ہم سب کو رکھے
و ہ ساعت بنے جب شفا عت حقیقت
===== محمد خالد - راہ جو بھی لیں ہمیں وہ کربلا لے جائے گی  ======
بشکریہ : [[انحراف ]]
راہ جو بھی لیں ہمیں وہ کربلا لے جائے گی
اپنی منزل پر مدینے کی ہوا لے جائے گی
یہ تری دریا دلی ہے موجۂ حُسنِ عطا
جو مرے دل کی پریشانی بہا لے جائے گی
دُھوپ میں سایہ بنے گی، تا سرِ محشر ہمیں
چادرِ زینبؑ، سکینہؑ کی ردا لے جائے گی
گو دئیے کی لو بجھا ڈالی ہے میرے شاہؑ نے
پر غلاموں کو کہاں در سے وفا لے جائے گی
ہم کہ وابستہ رہے ہیں جاودانی نور سے
موت ہے کیا اور کیا ہم سے بھلا لے جائے گی !
ساکنانِ خلد کو حسرت رہے گی تا ابد
کیا شرف یہ سر زمینِ نینوا لے جائے گی !
کیوں بنا انسان کا دل سجدہ گاہِ عرشیاں ؟
بات چل نکلی تو سُوئے کربلا لے جائے گی !
دشت کو مہکار کر ڈالا ہے کس گل رنگ نے
بھر کے دامن میں جسے بادِ صبا لے جائے گی
بر سرِ منبر نہیں ہے وہ سرِ نیزہ بھی ہے
کائناتِ عشق میں جس کی نوا لے جائے گی
اے مرے شاہِ شہیداںؑ، اے اماموں کے امامؑ
دین تیرے گھر کی ہے ، خلق ِ خدا لے جائے گی !
کچھ نہیں پلّے مرے تیری حضوری کے لئے
بس یہی حمد و ثنا آہِ رسا لے جائے گی !




سطر 267: سطر 362:


سنا ہے اس کی لحد ٹھیک ٹھاک بیٹھ گئی
سنا ہے اس کی لحد ٹھیک ٹھاک بیٹھ گئی
===== فرحت زاہرا - نفس کے مختار تھے راہ خدا تک آ گئے =====
نفس کے مختار تھے راہ خدا تک آ گئے
حق کو جو پہچان پاۓ کربلا تک آ گئے
آسمان رویا زمیں تڑپی ہوا رکنے لگی
شمر تیرے ہاتھ آل مصطفی تک آ گئے
استغاثے کی صدا نے کر دیا بے چین تو
خیمہء اقدس سے اصغر حرملہ تک آ گئے
منزلیں دشوار تھیں پر قافلہ بنتا گیا
راہ حق کے سب مسافر راہ نما تک آ گئے
شور تھا کہ لوٹ لو آل عبا کی چادریں
اشقیاء کے حوصلے دیکھو کہاں تک آ گئے
اک طرف فسق یزیدی اک طرف صبر حسین
دونوں اطرافی مثال انتہا تک آ گئے


=== قصیدہ ===
=== قصیدہ ===

نسخہ بمطابق 17:43، 1 ستمبر 2019ء


Hussain bin Ali.gif

حسین بن علی
شاعری
مناقب ِحسین

اس صفحے پر شہید کربلا سیدنا حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کے سلام اور مناقب اس امید پر یکجا کیے جا رہے ہیں کہ مناقب پر کام کرنے والے محققین و ناقدین کو کافی و شافی ذخیرہ ایک ہی جگہ دستیاب ہو ۔ انتخاب شائع کرنے والے پبلشرز بھی مستفید ہو سکتے ہیں ۔ کوئی بھی اشاعتی ادارہ اگر مناقب حسین کے کسی انتخاب میں ان کلاموں میں سے کوئی کلام یا سارے کلام استعمال کرنا چاہتا ہوتو تو اسے شاعر اور ادارے کی طرف سے اجازت ہوگی ۔

اگر آپ شاعر ہیں اور آپ نے کوئی سلام یا منقبت کہہ رکھی ہو تو تبادلۂ خیال:مناقب حسین بن علی کو ترمیم کرکے پیش کر دیں ۔

منقبت

آصف قادری -حُسینیوں کو بسانا‘ حسین جانتے ہیں

شاعر: محمد آصف قادری ، واہ کینٹ، پاکستان


حُسینیوں کو بسانا‘ حسین جانتے ہیں

یزیدیوں کو مٹانا‘ حسین جانتے ہیں


یہ دشمنوں نے بھی مانا کہ دین کی خاطر

خود اپنا کنبہ لُٹانا‘ حسین جانتے ہیں


اگرچہ سَر ہے جُدا ہو کے نوکِ نیزہ پر

کلام رب کا سُنانا‘ حسین جانتے ہیں


پڑا جو وقت تو ہرگز نہ آنچ آنے دی

نبی کا دین بچانا‘ حسین جانتے ہیں


گواہی دیتی ہے آصف زمینِ کرب و بلا

لہو سے پھول کِھلانا حسین جانتے ہیں



اسلم فیضی ۔ صدق ویقین ومہر و محبت حسینؑ ہیں

شاعر : اسلم فیضی ، کوہاٹ ، پاکستان

صدق ویقین ومہر و محبت حسینؑ ہیں

دستورِ زندگی كی حقیقت حسینؑ ہیں


سجدوں كی كہكشاں سے عبارت ہےجن كی ذات

وہ آشناۓ روحِ عبادت حسینؑ ہیں


بخشا گیا ہے اُن كو وقارِ خود آگہی

اپنے لۓ تو نورِ بصیرت حسینؑ ہیں


ہر زوایے سے كیوں نہ انہیں معتبر كہوں

فخرِ حیات و فخرِ شہادت حسینؑ ہیں


جس نے نبیۖ كے دین كو ضو پاش كردیا

اس روشنی كی زندہ علامت حسینؑ ہیں


ہر عہد میں لڑیں گے یزیدوں كے ساتھ ہم

ہر عہد میں ہماری ضرورت حسینؑ ہیں


دیكھو تو كربلا میں ہیں تكمیل انقلاب

سوچو تو پورے دہر كی قیمت حسینؑ ہیں


نوكِ سناں پہ بھی رہا غیرت كا بانكپن

خورشیدِ آسمانِ شجاعت حسینؑ ہیں

اسلم فیضی ۔ صفحہِ زیست پہ تحریر شہادت چمكی

شاعر : اسلم فیضی ، کوہاٹ ، پاکستان


صفحہِ زیست پہ تحریر شہادت چمكی

اِك نۓ رنگ سے انسان كی عظمت چمكی


كس نے خوں بانٹ دیا اپنے جگر پاروں كا

نوكِ شمشیر پہ یہ كس كی سخاوت چمكی


ورنہ تا حشر یزیدوں كی حكومت ہوتی

شكر ہے حضرت شبیرؓ كی جرأت چمكی


بجھ گٸیں ظلم كی سب مشعلیں یارو! لیكن

ریگِ كربل میں فقط اُن كی قیادت چمكی


معتبر كیوں نہ اجالوں كا سفر ہو فیضؔی

راكبِ دوشِ رسالتﷺ كی امامت چمكی


بلال راز ۔ تاریکیوں میں شمع ہدایت حسین ہیں

شاعر : بلال راز۔ بریلی ، بھارت

تاریکیوں میں شمع ہدایت حسین ہیں

زحمت ہے گر یزید تو رحمت حسین ہیں


ہم کو اسی لئے ہے محبت حسین سے

الله کے نبی کی محبّت حسین ہیں


جن کو کہا نبی نے کہ یہ دو ہیں میرے پھول

حضرت حسن ہیں دوسرے حضرت حسین ہیں


زہرہ کے نور عین ہیں حیدر کے لاڈلے

قلب رسول پاک کی راحت حسین ہیں


شمر و یزید جیتے جی برباد ہو گئے

ہو کر شہید اب بھی سلامت حسین ہیں


پھر سے اٹھا رہی سر اپنا یزیدیت

اس دور پر فتن کی ضرورت حسین ہیں


یہ وقت کے یزید مٹایں گے کیا اسے

دین رسول پاک کی طاقت حسین ہیں


جاوید انور ہاشمی - نم آنکھوں سے ظاہر محبت حقیقتت

نم آنکھوں سے ظاہر محبت حقیقتت

محبت سے بڑھ کر مئو د ت حقیقت


وہ شب اور وہ کا رو اں ز ند گی کا

و ہ د ھو کا د ہی اور وہ جرآت حقیقتت


ر سو ل۔خدا کے گھر ا نے سے ملتی

ر سو ل ۔ خد ا کی ا طا عت حقیقت


و ہ آل۔ محمد (ص) کی قر با نیا ں تھیں

برا ہیم (علیہ السلام) کے خو ا ب و سنت حقیقت


ز ر و مال کیا!جا ن دی راہ۔ حق میں

شہا د ت حقیقت اما مت حقیقت


یقین ا ہے گا حشر میں مو منو ں کو

یقیناً یقیں کی ہے د و لت حقیقت


خد ا ان کے سائے میں ہم سب کو رکھے

و ہ ساعت بنے جب شفا عت حقیقت

محمد خالد - راہ جو بھی لیں ہمیں وہ کربلا لے جائے گی =

بشکریہ : انحراف

راہ جو بھی لیں ہمیں وہ کربلا لے جائے گی

اپنی منزل پر مدینے کی ہوا لے جائے گی


یہ تری دریا دلی ہے موجۂ حُسنِ عطا

جو مرے دل کی پریشانی بہا لے جائے گی


دُھوپ میں سایہ بنے گی، تا سرِ محشر ہمیں

چادرِ زینبؑ، سکینہؑ کی ردا لے جائے گی


گو دئیے کی لو بجھا ڈالی ہے میرے شاہؑ نے

پر غلاموں کو کہاں در سے وفا لے جائے گی


ہم کہ وابستہ رہے ہیں جاودانی نور سے

موت ہے کیا اور کیا ہم سے بھلا لے جائے گی !


ساکنانِ خلد کو حسرت رہے گی تا ابد

کیا شرف یہ سر زمینِ نینوا لے جائے گی !


کیوں بنا انسان کا دل سجدہ گاہِ عرشیاں ؟

بات چل نکلی تو سُوئے کربلا لے جائے گی !


دشت کو مہکار کر ڈالا ہے کس گل رنگ نے

بھر کے دامن میں جسے بادِ صبا لے جائے گی

بر سرِ منبر نہیں ہے وہ سرِ نیزہ بھی ہے


کائناتِ عشق میں جس کی نوا لے جائے گی


اے مرے شاہِ شہیداںؑ، اے اماموں کے امامؑ

دین تیرے گھر کی ہے ، خلق ِ خدا لے جائے گی !


کچھ نہیں پلّے مرے تیری حضوری کے لئے

بس یہی حمد و ثنا آہِ رسا لے جائے گی !


صفدر جعفری - سرورِ قلبِ پَیمبر حسینؑ زندہ باد

سرورِ قلبِ پَیمبر حسینؑ زندہ باد

"خدا کے دین کا محور حسینؑ زندہ باد"


ہمارے ذکر کا محتاج تو نہیں ہے حسین

کہ خود نبی کے ہے لب پر حسین زندہ باد


کسی یزید کا ڈر ہے نہ خوف مرنے کا

مرا ازل سے ہے رہبر حسینؑ زندہ باد


صدا یہ آج بھی آتی ہے صحنِ مقتل سے

مرا نہیں ہوں میں مر کر حسینؑ زندہ باد


بڑے فخر سے ملائک بھی جس کے در پہ جھکیں

اسی کا میں بھی ہوں نوکر حسینؑ زندہ باد


مرے خمیر میں شامل ہے خاک مقتل کی

مرے لہو کے ہے اندر حسینؑ زندہ باد


علیؑ کے جیسا ہو جیون تو موت شبیرؑی

دعا ہے بس یہی صفدرؔ حسینؑ زندہ باد

صفدرؔ جعفری - حسینؑ دیکھ رہے ہیں صفیں سجائے ہوئے

شاعر: صفدر جعفری، لاہور


حسینؑ دیکھ رہے ہیں صفیں سجائے ہوئے

کوئی تو نکلے کفن کو عَلم بنائے ہوئے


تڑپنے لگتے ہو کیوں ذکرِ ابنِ حیدرؑ پر

علؑی کے لال سے کتنا ہو خوف کھائے ہوئے


طلب نہیں ہے کسی قصر کی نہ شاہی کی

ہمیں قبول ہیں یا رب وہ گھر جلائے ہوئے


کبھی تبسمِ اصغر میں بولتے ہیں حسینؑ

سناں کی نوک کو منبر کبھی بنائے ہوئے


فراتِ فکر پہ ان کے ہے اب تلک پہرا

عزائے شہ سے جو صفدؔر ہیں تلملائے ہوئے

عمیر نجمی ۔ بہ وقتِ عصر جو کربل کی خاک بیٹھ گئی

شاعر : عمیر نجمی، رحیم یار خان، پاکستان

بہ وقتِ عصر جو کربل کی خاک بیٹھ گئی

کئی دلوں پہ کٹے سر کی دھاک بیٹھ گئی


اِدھر زمیں پہ گرا ہاشمی چراغ، اُدھر

فلک پہ سوگ میں اک ذاتِ پاک بیٹھ گئی


بدن جو بزمِ عزا سے اٹھا تو روح وہیں

بہ صد نیاز، بہ صد انہماک، بیٹھ گئی


بہ یادِ سجدہِ تشنہ امام، سجدہ کیا

اور اتنی دیر سے اٹھا کہ ناک بیٹھ گئی


جو بے ردا تھی، اٹھی اور دورنِ قصرِ دمشق

بڑے بڑوں کی ردا کر کے چاک، بیٹھ گئی


عدو حسین۴ کا ہو اور نشان چھوڑے زمیں؟

سنا ہے اس کی لحد ٹھیک ٹھاک بیٹھ گئی


فرحت زاہرا - نفس کے مختار تھے راہ خدا تک آ گئے
نفس کے مختار تھے راہ خدا تک آ گئے 

حق کو جو پہچان پاۓ کربلا تک آ گئے


آسمان رویا زمیں تڑپی ہوا رکنے لگی

شمر تیرے ہاتھ آل مصطفی تک آ گئے


استغاثے کی صدا نے کر دیا بے چین تو

خیمہء اقدس سے اصغر حرملہ تک آ گئے


منزلیں دشوار تھیں پر قافلہ بنتا گیا

راہ حق کے سب مسافر راہ نما تک آ گئے


شور تھا کہ لوٹ لو آل عبا کی چادریں

اشقیاء کے حوصلے دیکھو کہاں تک آ گئے


اک طرف فسق یزیدی اک طرف صبر حسین

دونوں اطرافی مثال انتہا تک آ گئے



قصیدہ

سلام

عبدالجلیل ۔ بے سہاروں کےسہارے مصطفٰےﷺ کوہوسلام

بے سہاروں کےسہارے مصطفٰےﷺ کوہوسلام

رحمتِ عالم حبیبِ کبریا کو ہو سلام


حیدرؓ و حسنینؓ و زہرؓا آئے جس چادر تلے

المزمل شان والی اس رِدا کو ہو سلام


جن کی عظمت کا بیاں ہے آیئہ تطہیر میں

اہل بیت پاکؓ کی شانِ عُلیٰ کو ہو سلام


جس کا چہرہ دیکھنا بھی ہے عبادت وہ علیؓ

مرتضیٰؓ ، مشکل کشاؓ ، شیر خُداؓ کو ہو سلام


تیری آمد پر ہوئے سر خم سبھی کے حشر میں

نُور چشمِ مصطفٰےﷺ تیری حیا کو ہو سلام


اے حسنؓ تیری فراست پر ہو کُل دانش نثار

راحتِ جانِ نبیﷺ تیری ذکاء کو ہو سلام


جس کی دلجوئی کی خاطر ہو گیا سجدہ طویل

راکبِ دوشِ نبیﷺ کی اس ادا کو ہو سلام


تادمِ آخر رہا تجھ کو پیاسوں کا خیال

اے علمدارِ وفا تیری وفا کو ہو سلام


قاسمؓ و عونؓ و محمدؓ اکبرؓ و اصغرؓ سبھی

غنچہ ہائے نازنین و دلربا کو ہو سلام


اکبرؓ و اصغرؓ کے لاشے دیکھ کر بھیگی نہ آنکھ

کربلا میں صبر کی اُس انتہا کو ہو سلام


دیں بچانے کیلئے جب کر دیا کنبہ نثار

منبعِ جود و سخا تیری سخا کو ہو سلام


جان و مال و آل دے کر زندۂ جاوید ہیں

اے شہیدِ کربلا ایسی بقا کو ہو سلام


دیکھ کر نوکِ سناں پر سر تیرا بولے ملک

مرحبا ! سبطِ نبی تیری انا کو ہو سلام


زیرِ خنجر کی ادا شبّیرؓ نے ایسی نماز

سب عدو کہنے لگے حُسنِ ادا کو ہو سلام


مصطفٰےﷺ کی آل کا جو درد رکھتے ہیں جلیل

تا قیامت اُن غلاموں کی وفا کو ہو سلام

کرب و بلا

ابو الحسن خاور ۔ وہ ایک نور جو غار حرا سے آتا ہے

شاعر : ابو الحسن خاور ، لاہور ، پاکستان ،

سال : 2018

وہ ایک نور جو غار حرا سے آتا ہے

اسی کا عکس تو کرب و بلا سے آتا ہے


ہزاروں سال زمانے نے انتظار کیا

کہ کربلا میں کوئی کب منٰی سے آتا ہے


نہ پیاس میں علی اصغر رگڑتے ہیں ایٹرھی

نہ دوڑ کر کوئی کوہ صفا سے آتا ہے


میں بھول سکتا ہوں کچھ دیر کے لیے سب کچھ

مگر وہ تیر کہ جو حرملہ سے آتا ہے


یہ جیسے کرب و بلا ہی کا ایک آنسو ہو

فرات بہتا ہوا نینوا سے آتا ہے


غم ِ حسین میں اشکوں کو کیا سمجھتے ہو؟

مجھے تو لگتا ہے پرسہ خدا سے آتا ہے

احمد جہانگیر - تنویر پر طمانچے ، پھولوں پہ تازیانہ

شاعر : احمد جہانگیر ، کراچی، پاکستان

سال : 2018


تنویر پر طمانچے، پھولوں پہ تازیانہ

عفّت مآب کنبہ، عالی نسب گھرانہ


تسبیح میں ستارے، آفاق کا مصلّی

تطہیر کی قناتیں، رحمت کا شامیانہ


آیات کا تسلسل، اسرار پر تفکّر

تمجید کا ترنّم، توحید کا ترانہ


گریہ کناں ضریحیں، رنجور تعزیے ہیں

تابوت غم رسیدہ، پرچم کا تھرتھرانا


سورج کا رک کے چلنا، گرنا کبھی سنبھلنا

تارے اٹھا اٹھا کر خیمے کی سمت لانا


گھوڑے سے شہؑ کا گرنا، امّاں کا گرد پھرنا

خاتمؐ تری دہائی، فریاد مہربانا


تسخیر کی منادی، نیزوں کی چمچماہٹ

ماتم کناں شریعت، گریاں رسولؐ خانہ


زنجیر پر مصیبت اور طوق پر قیامت

بیڑی کا پاوں پڑنا، رسّی کا گڑگڑانا


کہرام میں فلک پر خورشید ڈوبتا ہے

نیزے پہ اٹھ رہا ہے شبّیرؑ سا یگانہ


پرسے کی چاندنی پر، شٙیون کا استغاثہ

اور عصر کی تلاوت سنتا ہوا زمانہ

اسلم فیضی ۔ كاتبِ تقدیر نے یہ سانحہ كیسا لكھا؟

شاعر  : اسلم فیضی ، کوہاٹ ، پاکستان

كاتبِ تقدیر نے یہ سانحہ كیسا لكھا؟

بہتے دریا كے لبوں پر پیاس كا صحرا لكھا!


كس نےاُس كی چھاؤں میں كردی ملاوٹ دھوپ كی

غیر كے سر پر بھی جس نے دُھوپ میں سایہ لكھا


سرِنگوں سچاٸی كو كب كرسكی تیغِ ستم

جرأتِ شبیرؓ نے حرفِ وفا كیسا لكھا


كربلا میں كِشتِ دیں كی آبیاری كے لۓ

پیاس كے ماروں نے اپنے خُون كا دریا لكھا


رَو پڑی ہوگی اجل اُس سنسناتے تیر پر

گردنِ اصغرؓ پہ جس نے زخم اِك گہرا لكھا


سیّدہ زینبؓ ! تِرے صبر وتحمل كو سلام

تُو نے لوحِ زندگی پر حوصلہ كیسا لكھا


جب بھی نكلا عدل كو یكسر مٹانے كیلۓ

ظُلم نے فیضی خود اپنی قبر كا كتبہ لكھا

عبد الجلیل ۔ اے حسینؓ ابنِ علیؓ سب کچھ لُٹایا آپ نے

شاعر: حافظ عبد الجلیل ، کوہاٹ ، پاکستان

اے حسینؓ ابنِ علیؓ سب کچھ لُٹایا آپ نے

جان و مال و آل دے کر دیں بچایا آپ نے


منبرومحراب ومسجد میں تلاوت سب نےکی

بر سرِ نوکِ سناں قرآں سنایا آپ نے


آسماں بھی رو پڑا تھا اکبرؓ و قاسمؓ کا جب

کربلا کی ریت سے لاشہ اُٹھایا آپ نے


تین دن پیاسے رہے اور بر لبِ نہرِ فرات

تشنہ اصغرؓ دے دیا ‘ پانی نہ مانگا آپ نے


کس طرح اےشاہِ دیں! میدان میں جاتےہوئے

عابدِؓؓ بیمار کو سینے لگایا آپ نے


لشکر شامی سے آکر وہ حسینی بن گیا

اپنے قدموں میں بلا کر حُر بنایا آپ نے

کاشف حیدر ۔ حسینؑ ذکر ترا گام گام کرتے ہوئے

شاعر: [کاشف حیدر | کاشف حیدر رضوی ]]، شکاگو،


حسینؑ ذکر ترا گام گام کرتے ہوئے

گزر رہے ہیں زمانے سلام کرتے ہوئے


حسینؑ آپ نے سجدوں کو زندگی بخشی

بس ایک سجدہِ آ خر تمام کرتے ہوئے


اٹھا کے پرچمِ عباسؑ ہم علیؑ والے

چلے ہیں فکرِ حسینی کو عام کرتے ہوئے


چلےہیں جانب مقتل برائے دین نبی

حسین ؑ تیغِ علیؑ بے نیام کرتے ہوئے


منافقین علیؑ کو علیؑ کی لخت جگر

سبق سکھا گئی طے راہ شام کرتے ہوئے


اسے شجیعِ عرب تک رہے ہیں حیرت سے

جو مسکرا دیا حجت تمام کرتے ہوئے


اسے خبر تھی غریبوں پہ شام بھاری ہے

بہت اداس تھا سورج بھی شام کرتے ہوئے


زمین کیوں نہ پھٹی جس گھڑی چلے ظالم

ردائے فاطمہ زہراؑ کو عام کرتے ہوئے


چلیں جو دخترِ شبیر ؑ ڈھونڈنے زینبؑ

ملی وہ لاشہ شہہ سے کلام کرتے ہوئے


لحد سے حشر تلک یوں سفر کرو کاشف

غمِ حسینؑ میں ماتم مدام کرتے ہوئے



مزید دیکھیے

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے اضافہ شدہ کلام
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات