ملی شاعری میں نعتیہ عناصر۔۱۹۶۵کی جنگ کے تناظر میں ،- ڈاکٹر محمد طاہر قریشی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

ڈاکٹر محمد طاہر قریشی۔کراچی


ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

In this article the scholar has presented sentiments of poets with the intention to arouse spirit of Jihad in the hearts of warriors in battle field. Since Islam is complete surrender of one self to complete and pure obedience of the Holy Prophet Muhammad (S.A.W), all poets expressed their love and affection towards Him (S.A.W) and thus the couplets of Epic turned into couplets of devotional poetry. This article reflects upon the spirit of Muslims of Pakistan to show unity at the time of trial. Tow -Nation theory was also revived in the poetry written by various poets during that period, because all of them expressed views being member of Muslim Ummah, and not as Pakistani nationals only.

ملی شاعری میں نعتیہ عناصر 1965 کی جنگ کے تناظر میں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’جس داعیہ کو 1947 میں آگ اور خون کے طوفان بھی پوری طرح بروئے کار نہ لا سکے تھے۔ اور جس ملّی احساس کے فقدان کی وجہ سے بہت سے ادیبوں اور شاعروں کی نگاہ میں خطِ تقسیم ایک واجب القبول حقیقت نہ بن سکا تھا، وہ داعیہ اور احساس اب ستمبر 1965 میں ایک محیط بیکراں بن کر امڈا اور خواص و عوام کے ایک ایک فرد پر چھا گیا‘‘ ۱؂

نعیم صدیقی کے ان الفاظ میں خاصی صداقت پائی جاتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اپنے ملّی تشخص کا احساس اور اس کے دفاع کا شعور جتنی شدت سے جنگ ستمبر 1965 کے دوران ہوا ہے، اتنی شدت کے ساتھ اور کہیں اور کبھی نہیں ہوا۔ جہاد شمشیر اور جہاد قلم کا ایسا اجتماع اور ایسا امتزاج پھر کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ڈاکٹر سیّد عبداللہ کا خیال ہے کہ:

’’بعض دوسرے شاعروں کے لیے احساس کی یہ لہر نئی بھی تھی اور عجیب بھی مگر زمانے کی ضرورتوں اور اس کے تقاضوں نے سبھی کو محسوس کرا دیا کہ ملّی احساس اور دینی احساس کے مابین نہ ٹوٹنے والے رشتے موجود ہیں۔ اور جو شخص ان رشتوں سے بے نیازی اختیار کرے گا وہ نہ صرف بے خبری کا مجرم ہوگا بلکہ ادائے فرض میں کوتاہی کا بھی مرتکب ہوگا۔ تب سبھی لوگ ہجوم کر کے آگئے اور یہ کچھ بری بات نہیں ہوئی‘‘ 2

اس ہجوم میں کثیر تعداد میں معروف شعراء کے ہم قدم غیر معروف بلکہ نوآموز شعراء بھی شامل تھے جو اپنے جذبۂ ملّی کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس محفل سخن میں آگئے تھے۔ یہ اسی ملّی جذبے کا ثمر تھا کہ چند دنوں میں ہی ہر طرح کی نظموں کی ’’ایک کھیپ کی کھیپ تیار ہوگئی جو عام حالات میں شاید برسوں میں بھی تیار نہ ہوسکتی‘‘۔ 3؂ یقیناًان منظومات میں اکثر کا پایۂ اعتبار شاعری کے لحاظ سے زیادہ بلند نہیں ہے۔ لیکن ’’ستمبر 1965 کے دوران لکھی گئی یہ نظمیں وقت کی آواز تھیں‘‘۔4؂ اور حقیقت تو یہ ہے کہ ’’پاکستانی ادب پہلی دفعہ سچے دل سے ان نظموں میں گویا ہوا تھا‘‘ 5؂ کیوں کہ:

’’ادیبوں اور شاعروں نے پاکستان کے عام باشندوں کے جذبات و احساسات کی تہہ میں کام کرنے والے عوامل کو پہچان لیا۔ اس سے وہ متحدہ قومیت کا تصور سامنے آیا جس کی تلاش و جستجو میں یہ معاشرہ بیس برس سے سرگرداں تھا۔ قومیت کا وہ تصور جو جغرافیائی حدود سے نکل کر نیکی کی اقدار کی تلاش کشمیر کی وادی میں کرتا ہے، وہ تصور جو عالم اسلام سے اشتراک عمل کی داغ بیل ڈالتا ہے‘‘6

جنگ کے خاتمے کے کچھ عرصے بعد سیّارہ ڈائجسٹ (لاہور) کی جانب سے مختلف اہل قلم کو ایک سوال نامہ ارسال کیا گیا تھا جس میں 1965 کی جنگ کے بارے میں مختلف سوالات کیے گئے تھے۔ ۷؂ پہلا سوال تھا ’’کیا آپ کے خیال میں جنگ ستمبر 1965 دو قوموں کے دو نظریات کی جنگ نہیں تھی؟‘‘۔ کل چودہ (14) اہل قلم کے جوابات موصول ہوئے ان میں سے مندرجہ ذیل بارہ (12) نے دو ٹوک انداز میں اس جنگ کو نظریاتی جنگ قرار دیا۔

ڈاکٹر سیّد عبداللہ، ماہر القادری، احسان دانش، شورش کاشمیری، رئیس امروہوی، ڈاکٹر عبدالسلام خورشید، شمیم احمد، رازق الخیری، سیّد قاسم محمود، مجید نظامی، نعیم صدیقی اور اے۔ حمید۔ البتہ سیّد محمد تقی نے اس جنگ کو نظریاتی جنگ تسلیم نہیں کیا جب کہ پروفیسر حمید احمد خان نے اس جنگ کے نظریاتی ہونے کا مشروط امکان ظاہر کیا۔ 8 ؂لہٰذا ڈاکٹر طاہرہ نیّر کا یہ تجزیہ درست معلوم ہوتا ہے:

’’ستمبر 1965 کی جنگ سے متعلق تمام تر شاعری کا اصل رخ نظریاتی ہے۔ کیوں کہ کم و بیش ہر شعری تخلیق میں مذہب سے شیفتگی اور تاریخی افتخار کو ہر احساس پر فوقیت حاصل ہے...اسلام کی تیرہ سو سالہ تاریخ جنگ کے دوران اہل پاکستان کے ملّی ورثہ کے طور پر فکری توانائی اور حرکت و عمل کا سامان ثابت ہوئی... ملّی روایات کا شعور اس موقع پر شعراء کے قلب و ذہن کو پوری طرح محیط کیے رہا۔ انھوں نے فخر قومی کے جذبہ سے معمور ایسی ولولہ انگیز نظمیں لکھیں جو مذہبی اقدار اور تاریخی حوالوں کے اعتبار سے قوم کی فکرِ صحیح کی آئینہ دار تھیں‘‘ 9؂

غور طلب بات یہ ہے کہ اس معرکۂ سخن میں ہر قسم کے نظریات کے حامل شعراء نے حصہ لیا۔ اس میں ترقی پسند بھی تھے اور تحریکِ ادبِ اسلامی کے پرچارک بھی، جدید شاعری کے علم بردار بھی تھے اور قدامت پرست بھی۔ وسیع تر ملّت اسلامیہ کے تصور کے قائل بھی داد سخن دے رہے تھے اور محض جغرافیائی حد میں مقیّد وطن پرست بھی اس محفل سخن میں شریک تھے۔ اصل میں ’’جنگ ستمبر 1965 نے پوری قوم کو ایک نظریے کی پاسبانی کے لیے متّحد کردیا‘‘ ۱۰؂ اہم بات یہ ہے کہ اکثر شعراء نے اس جنگ کو ’’رزم حق و باطل‘‘ سمجھ کر اس میں حصہ لیا۔ یعنی ملّت کا تصور، وطنیت اور قومیت پر غالب آگیا۔ اور تھوڑی دیر کے لیے لسانی، نسلی اور علاقائی تعصب کے پھندے میں گرفتار پاکستان کے عوام و خواص سائبانِ ملّت کے تلے آکر ایک ہوگئے اور دو قومی نظریہ ایک بار پھر گوشۂ گمنامی سے نکل کر آیا۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی تردید ہوگئی کہ دو قومی نظریہ مسلم لیگ نے ہندوستان کی سیاست میں متعارف کرایا تھا۔ مسلم لیگ نے اس نظریے کو، جو برعظیم پاک و ہند کے بیشتر مسلمانوں کے دلوں میں اور ذہنوں میں کہیں گہرائی میں جاگزیں تھا، محض اجاگر کیا تھا۔ یعنی مسلم لیگ دو قومی نظریے کی خالق نہیں بلکہ اس کی تشہیر کنندہ ہے۔

اس بات کو تقویت جنگ ستمبر سے بھی ملتی ہے کہ اس وقت ماضی کی مسلم لیگ تقسیم بھی ہو چکی تھی اور ساتھ ہی عوام میں اپنا اثر رسوخ بھی کھو بیٹھی تھی اور قریب قریب عضوِ معطل بن چکی تھی۔ اور اس پوزیشن میں قطعی نہیں تھی کہ وہ عوام میں کسی بھی قسم کی ہلچل پیدا کر سکے۔ اس کے باوجود یہ عوام اور خواص کا اپنا ملّی احساس تھا جو اس وقت بروئے کار آیا اور انھوں نے کسی خارجی تحریک کے زیر اثر نہیں بلکہ اپنے اندر کی آواز پر لبیک کہا اور معرکۂ حق و باطل سمجھ کر اس میں کود پڑے۔

پاکستان کی عسکری کامیابیوں سے قطع نظر اس جنگ کا حاصل اصل میں وہ اتحاد، وہ یکجہتی تھی جو پورے پاکستان میں نمایاں طور پر دکھائی دی اور اتنے بڑے پیمانے پر پھر کبھی نظر نہ آئی۔ صرف افواج پاکستان ہی نہیں عوام بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکا جب افواج اور عوام دونوں ایک خدا اور ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے نظریے کے تحت ملّت واحدہ کے روپ میں اکٹھے ہوئے اور دنیا کو دکھا دیا کہ مسلمان مکروہات دنیوی میں کتنا ہی گرفتار ہو اور وطنیت اور قومیت کے بظاہر خوش کن اور در حقیقت تباہ کن نظریات کا عارضی طور پر کتنا ہی اسیر ہو، وقت آنے پر ان تمام بتوں سے اپنی جان چھڑا کر ایک امّت مسلمہ کے وسیع و عریض دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اگرچہ زمینی حقائق یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایسا صرف دورِ ابتلا میں ہوتا ہے۔ جونہی یہ دور ختم ہوتا ہے باطل کی قوتیں پھر اسے اپنے جال میں پھنسا لیتی ہیں۔

بہرحال، جنگ ستمبر بھی ایسا ہی ایک دور ابتلا تھا، جس میں پاکستانی قوم ملّت اسلامیہ میں تبدیل ہو گئی تھی۔ پرچم پاکستان اب پرچم پاکستان نہیں رہا تھا، پرچم اسلام بن گیا تھا۔ سرفروشانِ وطن در حقیقت سرفروشانِ ملّت و مذہب کی حیثیت سے سر دھڑ کی بازی لگا رہے تھے۔ فاتح کو غازی اور مقتول کو شہید، ان الفاظ کے لغوی معنوں کے لحاظ سے نہیں بلکہ دینی اصطلاح کے طور پر کہا جا رہا تھا۔ شعراء کی جانب سے ان مقدس اصطلاحات کے شاید ہی کوئی اور معنی لیے گئے ہوں۔

زیر نظر باب بنیادی طور پر جنگ ستمبر 1965 سے متعلق ہے۔ اس میں مختلف عنوانات کے تحت اس دور کی ملّی شاعری سے ایسی نظیریں پیش کی گئی ہیں جن میں محبوب ربّ المشرقین و ربّ المغربین، صاحب قاب قوسین، سیّد الثقلین محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے تذکرۂ مبارک سے شاعر اور ملّی شاعری دونوں نے اپنی وقعت میں اضافہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ مذکورہ دور میں اتنی زیادہ مقدار میں ملّی شاعری کی گئی ہے کہ تمام احاطہ تو ایک طرف اس کا شمار بھی ممکن نہیں ہے۔ ’’جنگ ترنگ‘‘ کے مرتّبین کا اندازہ ہے کہ جنگ کے دوران تقریباً دو ہزار (2000) نظمیں صرف اردو میں لکھی گئیں۔ ۱۱؂ اگرچہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ’’ایک مختصر سے عرصے میں اتنی منظومات کی تخلیق بجائے خود حیرت انگیز ہے‘‘ ۱۲؂ شعری مجموعوں میں، رسائل و جرائد میں، اخبارات میں، ریڈیو کی نشریات میں، چھوٹے چھوٹے کتابچوں میں اور ’’جنگ ترنگ‘‘ اور ’’جاگ رہا ہے پاکستان‘‘ جیسے ضخیم مجموعوں میں، جن کے حوالے اس باب میں کثرت سے دیے گئے ہیں، ملّی موضوعات پر منظومات کا انبار ہے جن میں سے چیدہ چیدہ مثالیں لی گئی ہیں۔ اور بغرض اختصار کوشش کی گئی ہے کہ صرف نعتیہ عناصر کے حامل اشعار اور بند ہی لیے جائیں۔اس سے ملحق یا اس سے متعلق اشعار اور بند سے صرفِ نظر کیا جائے۔ اگرچہ ایسا ہر جگہ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ اس کے علاوہ اس باب میں چوں کہ ذیلی ابواب کی ترتیب شعراء کے بجائے عنوانات کو پیش نظر رکھ کر کی گئی ہے اس لیے ان سے متعلق اشعار کے اندراج میں معروف اور غیر معروف شعراء کے درمیان بالعموم امتیاز روا نہیں رکھا گیا ہے۔ ایسی کئی مثالیں اگلے صفحات میں نظر آئیں گی جہاں ایک معروف شاعر کے ساتھ کسی غیر معروف یا بالکل نو آموز شاعر کا کلام بھی درج ہوگا۔

(الف) شعراء کا ملّی شعور[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

چھ ستمبر 1965 کی جنگ محض دو ملکوں کے درمیان جنگ نہ تھی بلکہ یہ دو نظریوں کے درمیان معرکہ آرائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قریب قریب تمام شعراء نے اس جنگ کو دو جغرافیائی خطوں کے مابین محاذ آرائی نہیں سمجھا بلکہ اسے کفر اور اسلام کی جنگ کے طور پر دیکھا ہے۔ اور اپنی شاعری میں اس بات کا اظہار شدّ ومد سے کیا بھی ہے۔ گویا دفاع ملّت کے لیے جہاں سرفروشانِ ملّت عسکری محاذوں پر برائے کار تھے وہاں اسی مقصد عظیم کے لیے شعرائے ملّت بھی قلمی محاذ پر مستعد کارزار نظر آئے۔ ان کی شعری تخلیقات کا تمام تر نہ سہی لیکن غالب ترین حصہ دفاع وطن سے زیادہ دفاع ملّت کی عکاسی کرتا ہے۔ اکثر مقامات پر ان شاعروں نے وطن کو ملّت اسلامیہ کے ایک جزو کی حیثیت سے موضوع سخن بنایا ہے۔ اور وطن پر جارحیت کو ملّت محمدیہ علیہ الصّلوٰۃ والتّسلیم پر جارحیت کے مترادف گردانا ہے۔

مختلف شعراء کے منتخب اشعار ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔ جو اس بات کی غمّازی کرتے ہیں کہ شاعروں کی کثیر تعداد اس جنگ کو ملّت کی جنگ سمجھتی ہے اور اسی باعث وہ ملّت کے فرزندوں سے ملّت بیضا کے تحفظ کی توقع رکھتی ہے۔

شورش کاشمیری، نظم ’’الجہاد و الجہاد و الجہاد‘‘ میں فرزندانِ ملّت کو آخری سانس تک لڑنے کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں:

موت کا پیغام بن کر دشمنوں پر جا پڑو

ملّت بیضا کے بیٹو آخری دم تک لڑو

الجہاد و الجہاد ۔13

شورش، ایک اور نظم ’’ہم اٹھے ہیں‘‘ میں بھی اسی خیال کا اظہار کرتے ہیں:

آج پھر ملّت بیضا کے علم اٹھے ہیں

آج پھر ایبک و بابر کے قدم اٹھے ہیں ۔14

رئیس امروہوی اپنی نظم ’’جوہر کھلے‘‘ میں سپاہ ارجمند کو مخاطب کرکے کہتے ہیں:

اللہ اللہ اے سپاہِ ارجمند!

تیرے دم سے تیری ملّت فتح مند ۔15

ایک اور نظم ’’پاک فضائیہ‘‘ میں رئیس اپنے طیاروں تک کو ملک و ملّت کا سہارا کہتے دکھائی دیتے ہیں:

بنے ہیں ملک و ملّت کے سہارے

فلک پرواز طیارے ہمارے ۔16

حافظ لدھیانوی ’’یہ سرگودھا ہے‘‘ میں شہر سرگودھا کو ملّت کے حوالے سے دیکھتے ہیں:

یہ سرگودھا ہے شاہینوں کا مسکن

یہ سرگودھا عقابوں کا ہے مسکن

چراغ ملک و ملّت اس سے روشن

تمھیں سے رونقِ بزم چمن ہے

درخشاں تم سے ملّت کا چلن ہے

تمھیں سے آبروئے جان تن ہے ۔17

ایک اور نظم ’’پاکستانی ہوا باز‘‘ میں بھی حافظ لدھیانوی اس کی تحسین ملّت کے وسیلے سے کرتے ہیں:

ہیں ترے پاؤں کے نیچے وادیاں اور کوہسار

بڑحھ گیا ہے آج تجھ سے ملک و ملّت کا وقار

زندہ باد! اے نازِ ملّت! اے ہوا بازِ وطن

ہے وقار ملک و ملّت تجھ سے شہبازِ وطن ۔18

’’اے ارض سیالکوٹ‘‘ میں طاہر شادانی سیالکوٹ کے خطے کو مخاطب کر کے ملّت پاکستان کی جانب سے سلام پیش کرتے ہیں:

رکھ لی ہے تونے ہمت مرداں کی آبرو

ملّت کو تونے فتح و ظفر کا دیا پیام

اے ارضِ سیالکوٹ! تری خاک کو سلام ۔19

ایک اور نظم ’’مجاہد سے خطاب‘‘ میں بھی طاہر شادانی نے مجاہد کو پاسبانِ امّت خیرالوریٰ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کہہ کر مخاطب کیا ہے:

تیرے دم سے قصرِ ملّت کی بِنا ہے استوار

تیری تیغ خوں چکاں پر امن عالم کا مدار

اے کہ تو ہے پاسبانِ امّتِ خیرالوریٰؐ

تیرا جذبِ دل ہے وارث عظمتِ شبّیرؓ کا ۔20

’’غازیان پاک‘‘ میں محسن بھوپالی پاک وطن کے غازیوں کو ’’نازش ملّت‘‘ کا خطاب دیتے ہیں:

اے فخر قوم و نازش ملّت! بڑھے چلو

بے خوف زیر سایۂ رحمت، بڑھے چلو

اور اس معرکے کو وہ بجا طور پر جہاد کا نام دیتے ہیں:

بجھنے نہ پائے مشعلِ تنظیم و اتحاد

اے غازیانِ پاک! مبارک ہے یہ جہاد ۔21

قمر صدیقی بھی ’’پاک فوج کے جیالوں کے نام‘‘ میں وطن کے پاسبانوں کو ملّت بیضا کے تابندہ ستارے کہہ کر پکارتے ہیں:

اے وطن کے پاسبانو! قوم کی عظمت ہو تم

ملک و ملّت کے لیے سرمایۂ رفعت ہو تم

ملّت بیضا کے تابندہ ستارے ہو تمھیں

ناز ہے جن پر ہمیں ایسے سہارے ہو تمھیں ۔22

ساغر صدیقی نظم ’’کشمیر جانے والے‘‘ میں مجاہد کو تسلی دیتے ہیں کہ اس ملک اور ملّت کو اس کی بہادری پر ناز ہے:

یہ ملک اور ملّت کرتے ہیں ناز تجھ پر

اے پیکر شہادت! کرتے ہیں ناز تجھ پر

اے مر کے جینے والے! تیرا خدا نگہباں ۔23

’’اے پاک مجاہد‘‘ میں سیّد قاسم نوری پاک مجاہد کو مجاہد وطن نہیں بلکہ ملّت اسلام کی تقدیر کا سہارا کہتے ہیں:

ایثار ترا پیکر ملّت کا سہارا

اسلام کے پرچم کو سدا تونے ابھارا

تو ملّت اسلام کی تقدیر کا سہارا

میدان عمل کا ہے تو بے مثل مجاہد

اے پاک مجاہد! اے پاک مجاہد ۔24

صدیق افغانی ’’ہوشیار، اہل وطن!‘‘ میں اہل وطن کو خبردار کر رہے ہیں کہ وطن نہیں بلکہ ملک و ملّت خطرے میں ہے:

ملک و ملّت اک نئے خطرے سے اب دو چار ہے

ہوشیار! اہل وطن، اہل وطن، اہل وطن ۔25

’’اے ملّت کے جواں سپوتو!‘‘ کا عنوان ہی ظاہر کرتا ہے کہ شاعر یوسف جمال انصاری وطن کے نہیں ملّت کے سپوتوں سے مخاطب ہیں:

اے ملّت کے جواں سپوتو! تم کو وطن نے پکارا ہے

پاکستان کے تم ہو نگہباں، پاکستان تمھارا ہے ۔26

’’بہن کی دعائیں‘‘ میں عاصی کرنالی نے ایسی بہن کے جذبات پیش کیے ہیں۔ جو اپنے بھائی کو محاذ جنگ پر رخصت کرتے وقت خالدؓ و طارقؒ کی روایات پر چلنے کی تلقین کرتی ہے۔ اور اسے ملّت کے نگہبان کا خطاب دیتی ہے:

ملّت کے نگہبان! خدا تیرا نگہباں

دم تجھ پہ کیا کرتی ہوں پڑھ پڑھ کے میں قرآں ۔27

طفیل ہوشیارپوری ’’پیام زندگی‘‘ میں اپنے جاں بازوں کو نصیحت کرتے ہیں:

امّتِ مرحوم کی خاطر، مثال پنجتنؓ

ظلم کی چھاؤں میں تلواروں کی جھنکاروں سے کھیل ۔28

انور شعور کی نظم ’’نغمہ‘‘ کے ٹیپ کے شعر سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر کے نزدیک یہ معرکہ، معرکۂ ملک و ملّت ہے:

ملک و ملّت پہ کبھی حرف نہ آنے دیں گے

جان دے دیں گے مگر آن نہ جانے دیں گے ۔29

ماہر القادری ’’شہیدوں کے لہو‘‘ میں وطن کے جاں باز سپاہیوں کو ’’غازیان ملّت بیضا‘‘ کا خطاب دیتے ہیں:

جدھر سے غازیان ملّتِ بیضا گزرتے ہیں

وہاں کی کنکری بھی گوہر خوش آب ہوتی ہے ۔30

ایک اور نظم ’’شرارے‘‘ میں بھی ماہر القادری اپنے ہر فوجی، ہر غازی اور ہر مجاہد کو ’’محافظ ملّت‘‘ کے عنوان سے سلام عقیدت پیش کرتے ہیں:

اپنے ہر فوجی کو، غازی کو، مجاہد کو سلام

ہے جو ملّت کا محافظ اور وطن کی آبرو ۔31

مندرجہ بالا سطور میں پیش کی گئی مثالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے شاعروں نے جنگ ستمبر کو ملّت کے تناظر میں دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ اور دفاع وطن کو دفاع ملّت میں منقلب کردیا ہے۔ اسی لیے ان کے ہاں سرفروشانِ اسلام عمر، علی، خالد، حمزہ، حسین رضی اللہ عنہم اور محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی، سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان وغیرہم کے حوالے کثرت سے آتے ہیں۔ جو بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس جنگ کو شعراء نے حق و باطل اور کفر و اسلام کی جنگ کی حیثیت دی ہے اور وطن کو بیشتر مقامات پر ایک مخصوص خطے میں محدود قطعہ ارضی کے طور پر نہیں بلکہ امّت مسلمہ کے ایک جزو کے طور پر لیا ہے۔

(ب) مجاہدین اور شہداء کوخراج تحسین بحوالۂ سیّد المرسلینصلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جہاد اسلامی نظریۂ حیات کا ایک اہم جزو ہے۔ بے شمار قرآنی آیات اور احادیث جہاد کی ترغیب اور اس کی فضیلت میں ملتی ہیں۔ جن میں غازیوں اور شہیدوں کے لیے اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس لیے ایک مومن کا مطلوب و مقصود صرف شہادت ہوتا ہے مال غنیمت اور کشور کشائی نہیں۔ ایسے مجاہدین اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے میں شعراء نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ جنگ ستمبر کی شاعری میں ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں جن میں شاعروں نے ان مجاہدوں اور شہیدوں پر ان کے آقا و مولا، ملجا و ماویٰ صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے حوالۂ جلیلہ سے گل ہائے تحسین نچھاور کیے ہیں۔ کچھ مثالیں درج ذیل ہیں۔

’’اقدام‘‘ میں نعیم صدیقی نے سوئے میداں رواں غازیوں کو شمع نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے پروانے قرار دیا ہے:

یہ شمع نبیؐ کے پروانے

زندہ یہ وفا کے افسانے

یہ دیوانے، یہ مستانے

غازی سوئے میداں جاتے ہیں ۔32

شورش کاشمیری ’’چھے ستمبر‘‘ میں فدایانِ خیر الوریٰ صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کو سلام عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

غلامان آلِ نبیؐ زندہ باد

فدایانِ خیرالوریٰؐ کو سلام ۔33

ایک اور نظم ’’مشرقی پاکستان کو سلام‘‘ میں ہدیۂ سلام مشرقی بنگال کے ان آتش بجانوں کو پیش کیا گیا ہے جن کے سینوں میں پیغامِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی روشنی ہے:

یہ دلاور سر زمین پاک کے دمساز ہیں

ان کے سینوں میں دھڑکتا ہے محمدؐ کا پیام

مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام ۔34

نظم ’’میرا قلم بھی جنگ میں تلوار ہوگیا‘‘ میں شورش نے مجاہدین کو بادہ کشان عشق پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم میں شمار کیا ہے:

جوش جہاد، خواجہ کونینؐ کے طفیل

اقبال کے وطن کا نگہ دار ہوگیا

بادہ کشانِ عشق پیمبرؐ نکل پڑے

اس صف میں جو بھی آگیا سرشار ہوگیا ۔35

’’پاک فوج کے جواں‘‘ میں شورش خوش خبری سناتے ہیں:

سلام ان پر ملائک نے خبر دی ہے مجھے شورشؔ

کہ خوش ہے خواجہ بطحاؐ کے صدقے میں خدا ان سے ۔36

جہاد باللسان کے محاذ پر طفیل ہوشیارپوری بھی نمایاں ہیں۔ ۳۷؂ ناموس ملّت پر جان نچھاور کرنے والے شہید کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے طفیل اپنی نظم ’’اے شہید وطن‘‘ میں کہتے ہیں:

اے شہیدِ وطن، دین کے حسن، ایمان کے بانکپن

اے شہید وطن

اے پرستار حق، عاشق مصطفیؐ

تیرا کردار ہے فیض حسنینؓ کا

تیرا مسکن ہے جنت کا دلکش چمن

اے شہید وطن ۔38

طفیل بنگالی مجاہدوں کو ہدیۂ تہنیت پیش کرتے ہوئے نظم ’’پاک بنگال کے نوجواں مرحبا‘‘ میں ان کے سر پر سایۂ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے قائم و دائم رہنے کی دعا کرتے ہیں:

پاک بنگال کے نوجواں مرحبا!

تیرے سر پر رہے سایۂ مصطفیؐ

پاک بنگال کے نوجواں مرحبا! ۔39

ماہنامہ ’’ساقی‘‘ (کراچی) میں شائع ہونے والی عبدالعزیز خالد کی نظم ’’مژدہ فتح مبیں‘‘ میں شاعر پاکستان کے جیالے فرزندوں کو جاں نثارانِ رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم اور ناموس محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے امین کے القابات سے نوازتا ہے:

جاں نثارانِ رسولِ ہاشمیؐ

نام و ناموس محمدؐ کے امیں

خالدؓ و طارقؒ کے پائندہ نشاں

خاتم حمزہ کے تابندہ نگیں

قرۃ العین نبئؐ مَلحَمہَ

یہ جنود رحمت للعالمیںؐ

یہ سراج الدولہ و ٹیپو کی فوج

فخرِ قوم و فخرِ ملّت، فخرِ دیں ۔40

’’پاکستانی عساکر کے حضور‘‘ میں احسان دانش سرفروشانِ ملک و ملّت کی شان میں داد سخن یوں دیتے ہیں:

تم مرد میداں، تم جانِ لشکر

آئین دیں ہیں سب تم کو ازبر

احکام باری، قول پیمبرؐ

اللہ اکبر، اللہ اکبر

روحِ شجاعت، فخر وغا ہو

جان وفا ہو، صدق و صفا ہو

رکھتے ہو دل میں سوزِ پیمبرؐ

اللہ اکبر، اللہ اکبر ۔41

’’افواج پاکستان سے‘‘ میں احسان دانش افواج کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

رکھتے ہو تم یقین خدا پر، رسولؐ پر

زخم دل و جگر کی دوا ہے تمھارے ساتھ

شاہوں کے تخت و تاج تو ہیں راستے کی دھول

ذاتِ رسولؐ و ذاتِ خدا ہے تمھارے ساتھ ۔42

ادا جعفری ’’خاک وطن کو سلام‘‘ میں سلام عقیدت ان جاں بازوں اور شمع ہدیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے پروانوں کو پیش کرتی ہیں جو محض رضائے حق کے لیے سوئے کارزار بڑھے ہیں:

رضائے حق کے لیے سوئے کارزار بڑھے

یقین و عزم کی راہوں کے شہسوار بڑھے

مثال شمع ہیں، شمع ہدیٰؐ کے پروانے

خدا کے حکم پہ دوڑے خدا کے دیوانے ۔43

سرفروشان ملّت کو سلام شوق کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے امید فاضلی اپنی نظم ’’عقاب‘‘ میں ماضی کے سرفروشانِ ملّت کے حوالے سے کہتے ہیں:

یہ نشان عزمِ طارق، ضرب قاسم کی مثال

قوّتِ بازوئے خالدؓ، سیف ربِّ ذوالجلال

یہ غلامانِ محمدؐ، دین حق کے یہ ہلال

ارض پاکستان تیرے ان ہلالوں کو سلام

اے وطن! اے جان من! تیرے جیالوں کو سلام ۔44

پرواز جالندھری ’’نعرۂ حیدریؓ‘‘ لگاتے ہوئے شہیدانِ ملک و ملّت کو نذرانۂ عقیدت اس طرح پیش کرتے ہیں:

دینِ احمدؐ کی عظمت کی خاطر مٹے

شوکت ملک و ملّت کی خاطر مٹے

مٹنے والے، صداقت کی خاطر مٹے

یوں مٹے پاگئے جاوداں زندگی

یا علیؓ! یا علیؓ! یا علیؓ! یا علیؓ! ۔45

محمد صفدر سیالکوٹی کی نظم کا عنوان بھی ’’نظم‘‘ ہے۔ جس کے آخری شعر میں شہداء کے مرتبۂ بلند کی نشان دہی کرتے ہوئے صحیح کہا ہے کہ:

کام آئے گا جو اس جنگِ حق و باطل میں

وہ جگہ پائے گا جنت میں محمدؐ کے قریں ۔46

حفیظ تائب ’’ہزارہا سلام غازیو‘‘ میں غازیانِ ملک وملّت کو سلام عقیدت کے نذرانے پیش کرتے ہیں:

پیامِ سیدالبشرؐ کے دہر میں امین ہو

وقار قوم، ناز ملک، افتخار دین ہو

ابوعبیدہؓ، خالدؓ و عمرؓ کے جانشین ہو

علم بدست، حق پرست، نیک نام غازیو!

تمھارے عزم پر ہزارہا سلام غازیو!

خدائے ذوالجلال کا کرم تمھارے ساتھ ہے

نبیؐ کی چشم لطف دم بدم تمھارے ساتھ ہے

عرب تمھارے ساتھ ہے، عجم تمھارے ساتھ ہے

تمھارے ہاتھ میں ہے وقت کی زمام غازیو!

تمھارے عزم پر ہزارہا سلام غازیو! ۔47

شہرت بخاری کے نزدیک غازیوں کو عشق محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکی بدولت زندگی نصیب ہوتی ہے۔ نظم ’’شب خون‘‘ میں اسی خیال کو نظم کیا گیا ہے:

یا رب یہ غازی تیرے پراسرار آدمی

ملتی ہے جن کو عشقِ محمدؐ سے زندگی

ہر شمع کو ملی اسی سورج سے روشنی

مہکی اسی صبا سے گلستاں کی ہر کلی ۔48

نشان حیدر میجر عزیز بھٹی شہید کے لیے گل ہائے عقیدت بزبان شعر پیش کرتے ہوئے ]]سیّد وحید الحسن ہاشمی[[ اپنی نظم ’’مجاہد (میجر عزیز بھٹی کے لیے)‘‘ میں شہید موصوف کو عاشق دیدار مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم قرار دیتے ہیں:

اے جاں نثارِ عاشقِ دیدارِ مصطفیؐ

اے جاں سپارِ نوکرِ سرکارِ مصطفیؐ

اے سرفروشِ خادمِ دربارِ مصطفیؐ

اے نازِ بزمِ لشکرِ جرّارِ مصطفیؐ

سینچا لہو سے تونے ریاض رسولؐ کو

خلد بریں ترستا ہے تیرے نزول کو ۔49

]]محمود رضوی[[ بھی ’’خراج عقیدت (میجر عزیز بھٹی شہید کے لیے)‘‘ میں حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے حوالۂ مبارک سے کہتے ہیں:

ترے مقام کی رفعت جوارِ رحمت ہو

حضور سرور عالمؐ ہوں تجھ پہ سایہ فگن ۔50

اکبر لاہوری بھی اپنی نظم ’’میجر عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر)‘‘ میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں:

سجا کے نکلا وہ جب خلوت شہادت کو

ملی بقا کی سند مسندِ پیمبرؐ سے

یہاں بھی نام اسی کا رہا سرفہرست

سند ملی تھی جسے بارگاہِ سرورؐ سے ۔51

ایم عبداللہ ظفر ’’نغمۂ ندیم شہید‘‘ میں شہیدِ امّتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے لیے جنت کے طلب گار ہیں:

امّتِ نبویؐ کی خاطر دینے والے سر، تجھے

روزِ محشر کو عطا جنّت کرے ربّ کریم ۔52

اختر محمود نظم ’’شہیدوں کے نام‘ ‘میں مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکے شیروں کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں:

اے مصطفیؐ کے شیر دلاور تمھیں سلام

اے بحر زندگی کے شناور تمھیں سلام

اے عزم کے وقار کے پیکر تمھیں سلام

اے رہ شناسِ سبطِ پیمبرؐ تمھیں سلام

ملّت کے تم ہو ماہِ منوّر تمھیں سلام

کہتے ہیں آج یہ مہ و اختر تمھیں سلام ۔53

حاجی احمد حسین احمد بدایونی بھی ’’سلام عقیدت‘‘ مجاہدین قوم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے ہیں:

رحمت خدا کی تم پہ ہے سایہ کیے ہوئے

آغوش مصطفیؐ کی ہے تم کو لیے ہوئے

رکھو خدا کو یاد محمدؐ کا نام لو

اے قوم کے مجاہدو! میرا سلام لو

آگے بڑھو خدا کی مدد ہے تمھارے ساتھ

محبوبؐ ہیں خدا کے حسینؓ و علیؓ ہیں ساتھ

پرچم کو اپنے ہاتھ سے مضبوط تھام لو

اے قوم کے مجاہدو! میرا سلام لو ۔54

شعلہ بجنوری ’’مادر وطن کے جاں بازوں کو سلام‘‘ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے نام لیواؤں کو سلام کا نذرانہ پیش کرتے ہیں:

سلام ان پر رسول پاکؐ کے جو نام لیوا ہیں

سلام ان پر جو اصحابِ نبیؐ کے والہ شیدا ہیں ۔55

’’معرکۂ چھمب و جوڑیاں‘‘ رحمان کیانی کی مسدس کی ہیئت میں طویل نظم ہے جس میں انھوں نے اس معرکے کی روداد بیان کی ہے۔ اور اپنے دلاوروں کی تعریف و تحسین کے لیے ذکرِ نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا سہارا لیا ہے:

توپیں بھی چند، ٹینک بھی کچھ ہمسفر لیے

سامانِ جنگ اور بہت معتبر لیے

یعنی خدا کی تیغ، نبیؐ کی سپر لیے

باندھے کفن سروں سے، ہتھیلی پہ سر لیے

کہنے کو سو پچاس تھے لیکن ہزار سے

لڑنے کو بڑھ رہے تھے یمین و یسار سے

سر پر لوائے پاک نشانِ ظفر لیے

سبز و سپید پرچم نجم و قمر لیے

یعنی دعائے حضرتِ خیرالبشرؐ لیے

یا تیرگئ شب میں چراغِ سفر لیے

سنگین آبدار کے پھل چومتے ہوئے

پہنچے نئی سحر کی طرح جھومتے ہوئے

ایسے یقیں نہ آئے تو پیرانِ خانقاہ

مع خرقہ و کلاہ و مریدانِ بارگاہ

اک دن ہمارے ساتھ چلو سوئے رزم گاہ

تم کو دکھائیں طرفہ تماشہ خدا گواہ

دیتے ہیں کیسے جان کٹاتے ہیں کیسے سر

پڑھتے ہوئے درود محمدؐ کے نام پر ۔56

انھی کی ایک اور نظم ’’اور جب پرچم ملا‘‘ ہے جو پاک فضائیہ کو قومی پرچم کا اعزاز دیے جانے پر لکھی گئی تھی۔ اس کے ایک بند میں جاں نثارانِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی تحسین میں وہ کہتے ہیں:

توپ و تفنگ و دشنہ و خنجر صلیب و دار

ڈرتے نہیں کسی سے محمدؐ کے جاں نثار

ماں ہے ہماری امِّ عمارہ سی ذی وقار

ہم ہیں ابو دجانہؓ و طلحہؓ کی یادگار

ہاں مفتی و فقیہہ نہیں مان لیتے ہیں

ناموسِ مصطفیؐ پہ مگر جان دیتے ہیں ۔57

محمد ضیاء مسرور ضیاء ’’مجاہد بڑھ رہے ہیں فاتحانہ‘‘ میں دین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے محافظوں کی شجاعت کے بیان میں کہتے ہیں:

محافظ ہیں یہ دین مصطفیؐ کے

یہ دنیا میں سپاہی ہیں خدا کے

غضب کے حوصلے جذبے بلا کے

ڈرائے گی انھیں کیا موت آکے

کہ خود ہے موت بھی ان کا نشانہ

مجاہد بڑھ رہے ہیں فاتحانہ ۔58

’’پاک بھارت جنگ ستمبر 1965‘‘ طفیل دارا کی نظم ہے۔ جس میں سرفروشانِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کو بزبانِ شعر کی زبانی خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے:

اے میرے وطن تیرے ہر اک ذرّے کی خاطر

مجھ جیسے ہزاروں کا لہو بہتا رہا ہے

مجھ جیسے ہزاروں کا لہو بہتا رہے گا

سرشارِ شہادت ہیں محمدؐ کے سپاہی

خیبر ہو کہ لاہور ہو، حیدرؓ ہو کہ بھٹی

ہر رنگ میں فاتح ہے محمدؐ کا سپاہی

اے ابنِ علیؓ ہم تری سنّت نہیں بھولے

پھر خونِ مسلماں سے ملی حق کی گواہی .59

جمیل صدیقی نے ’’غازیان پاکستان‘‘ میں پرستان دین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم اور غازیان کوہ شکن کو سلام کا ہدیہ نذر کیا ہے:

ہاں دینِ مصطفیؐ کے پرستار ہیں یہی

ہاں رحمت خدا کے سزا وار ہیں یہی

اہلِ رضا و صاحبِ ایثار ہیں یہی

حق تو یہ ہے کہ خلد کے حق دار ہیں یہی

یہ ہیں شجیع لائق تعظیم و احترام

ان غازیانِ کوہ شکن کو مرا سلام .60

یہی سلام عقیدت سحر مراد آبادی اپنی نظم ’’تاریخ نو کے چاند ستارو‘‘ میں لے کر آئے ہیں:

تاریخ اپنے خوں سے رقم کر رہے ہو تم

یوں زندگی میں رنگ بقا بھر رہے ہو تم

اے دینِ مصطفیؐ کے دلارو! تمھیں سلام

تاریخ نو کے چاند ستارو! تمھیں سلام .61

اثر جلیلی ’’جیالے سرفروشوں کے نام‘‘ میں سرفروشانِ ملک وملّت کے درخشندہ عزم کی توصیف بحوالۂ خالق کونین اور خواجۂ کونین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کرتے ہیں:

بہ فیضِ خالق کونین و خواجۂ کونینؐ

تمھارے عزم کا خورشید ہے درخشندہ .62

محشر رسول نگری ’’غازیان پاکستان کو خراج عقیدت‘‘ میں مجاہدانِ خدا مست کو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی شفقتوں کے سلام سے نوازتے ہیں:

مجاہدانِ خدا مست نے وہ کام کیا

زمینِ پاک کو جس نے بلند بام کیا

جہاں میں رسم شہادت کو پھر سے عام کیا

وقار امّت مرحوم کا بلند ہوا

نگاہِ دہر میں اسلام ارجمند ہوا

نبیؐ کی شفقتیں ان کو سلام کہتی ہیں ۔63

وفا رینالوی ’’سرفروشان وطن‘‘ میں وطن کی خاطر جان کی بازی لگانے والوں کو رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے دین کا پاسبان قرار دیتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہے کہ وہ بھی وطن کو ایک قطعۂ ارضی نہیں بلکہ ملّت محمدیہ علیہ الصّلوٰۃ والتّسلیم کا جغرافیائی حدود میں محصور ایک جزو سمجھتے ہیں:

رحمت للعالمیںؐ کے دین کے یہ پاسباں

حرمت و تقدیس کعبہ غیرت رحمان ہیں

پھونک ڈالا زعم باطل کے خس وخاشاک کو

دین احمدؐ پر خدا کے کس قدر احسان ہیں ۔64

شمع فاروقی ’’نگہبان چمن‘‘ میں چمن کو وطن کا استعارہ بناتی ہوئی اس پاک سر زمین کے نگہبانوں کو سلام عقیدت نذر کرتی ہیں:

ہے تیرے ساتھ خدائے بزرگ و برتر بھی

ترے جہاد سے خوش ہے دل پیمبرؐ بھی

ہے تجھ میں شور شہادت بھی زور حیدرؓ بھی

مرے چمن کے نگہباں تجھے سلام مرا

وطن کی شمع فروزاں تجھے سلام مرا ۔65

’’شہیدانِ سرخرو کو سلام‘‘ میں اقبال صفی پوری وطن پاک کے ان شہیدوں کو سلام پیش کرتے ہیں جنھوں نے نخوت شیطان کا طلسم توڑ دیا۔ ان کے نزدیک ایسے ہی جری اور سرفروش دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی آبرو ہیں:

طلسم نخوت شیطاں جنھوں نے توڑ دیا

رخ تلاطم و طوفاں جنھوں نے موڑ دیا

سلام، دین محمدؐ کی آبرو کو سلام

وطن کے پاک شہیدانِ سرخرو کو سلام ۔66

ش ضحی ’’جوئے خونِ شہید‘‘ میں اپنے لہو سے وضو کرنے والے شہداء کو نذرانۂ محبت و عقیدت اس طرح پیش کرتے ہیں:

فضا میں مشک، کی عنبر کی، عود کی خوشبو

خوشا یہ وقت کہ ہے رحمتوں کا وقت نزول

زمیں سے عرش تلک ہے درود کی خوشبو

درود ان کا لہو سے کیا جنھوں نے وضو

جو زخم کھا کے یہ بولے کہ میرے پاک رسولؐ

یہی ہے شرط محبت تو ہم کو شرط قبول ۔67

اثر ترابی ’’اے شہیدان وطن تم پر سلام‘‘ میں پرچم اسلام کشمیر میں لہرانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے شہیدان وطن کو گلہائے سلام پیش کرتے ہیں:

پرچم اسلام کھلتا جائے گا

ایک دن کشمیر پر لہرائے گا

عزم رکھتے ہیں محمدؐ کے غلام

اے شہیدانِ وطن تم پر سلام ۔68

وقار انبالوی دین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی آبرو بچانے والے احرار کو اپنی نظم ’’مرحبا صد مرحبا‘‘ میں یاد کرتے ہیں:

غزوہ بدر و احد سے سرحد لاہور تک

حر بچاتے آئے دین مصطفیؐ کی آبرو ۔69

ایک اور نظم ’’غازی کو سلام‘‘ میں روح روانِ ملّت اسلام غازی کو سلام تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

سلام اے ننگ و ناموس وطن کے پاسباں غازی

سلام اے ملّت اسلام کے روح رواں غازی

سلام اے رحمت للعالمیںؐ کے پیروِ صادق

سلام اے فاتح خیبرؓ کی قوت کے نشاں غازی ۔70

خلیق قریشی گمنامی میں مرتبۂ شہادت پانے والوں کو اپنی نظم ’’گمنام شہیدان وطن کی نذر‘‘ میں شہِ خیرالانام صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے محبوب کے درجے پر فائز کرتے ہیں:

تم ہو میدان تہوّر میں نشان حیدر

تم خوشا بخت ہو محبوب شہِ خیرِ انامؐ ۔71

حفیظ جالندھری ’’جہاد کشمیر‘‘ میں سروں پر کفن باندھے ہوئے پیروانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی شان میں فرماتے ہیں:

ارض پاکستان کی فوجیں کھڑی ہیں صف بہ صف

سرحدوں پر ہر طرف سر سے کفن باندھے ہوئے

بحر ہو، برّ ہو، فضا ہو، پیروانِ مصطفیؐ

سب کے سب ایمان سے ہیں جان و تن باندھے ہوئے ۔72

عبدالحمید عدم نے اپنی نظم ’’اندھیرے کی فوج‘‘ میں بالکل درست کہا ہے:

وہ تیغ زن جو نبیؐ کے غلام ہوتے ہیں

وہ فنِ حرب کے بانکے امام ہوتے ہیں ۔73

ساقی جاوید ’’پھر شیر خدا جاگے‘‘ میں مجاہدوں کی تعریف میں رطب اللسان ہیں:

پھر شیر خدا جاگے پھر وقت جہاد آیا

پھر آج شہیدوں کا خوں رنگ حنا لایا

پھر سر پہ مجاہد کے دامانِ نبیؐ دیکھا

ہاتھوں میں سپاہی کے پھر زورِ علیؓ دیکھا ۔74

علم دین علیم ’’مجاہدین پاک افواج سے خطاب‘‘ میں مجاہدین پاکستان کی خصوصیات بتاتے ہوئے کہتے ہیں:

تم محمد مصطفیؐ کے نام لیوا سرفروش

تم جواں ہمت مجاہد سخت جان و سخت کوش

ملّت اسلام کی تم تیغ جوہر دار ہو

ارض پاکستان کی تم آہنی دیوار ہو ۔75

عبدالکریم ثمر ’’ہم امین ذوالفقارؓ ‘‘ میں ارض پاکستان کی توقیر و عظمت کی خاطر سینہ سپر ہونے والے سرفروشوں کی شان میں کہتے ہیں:

مصطفیؐ کے نام لیوا ہوگئے سینہ سپر

ارض پاکستان کی توقیر و عظمت کے لیے ۔76

’’میجر عزیز بھٹی کے نام‘‘ میں سعید وارثی دعائیہ انداز میں کہتے ہیں:

مرے وطن کے دلاور مجاہد ملّت

بحسن جذبۂ صدق سعید تجھ پہ سلام

نبیؐ کا تجھ پہ کرم ہو خدا کی رحمت ہو

مرے وطن کے بہادر شہید تجھ پہ سلام ۔77

’’اے وادئ کشمیر‘‘ میں سیّد محمد جعفری امّت احمدِ مرسل صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے جاں فروشوں کی توصیف میں فرماتے ہیں:

احمدِ مرسلؐ کی امّت کے بہت سے جاں فروش

نعرۂ تکبیر لب پر دل میں آزادی کا جوش

بڑھ رہے ہیں تیغ در کف اور کفن بالائے دوش

جانتے ہیں یہ جہاد زندگی کے سخت کوش ۔78

صہبا اختر فضا کے شہریاروں کو سلام عقیدت ہدیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

مرے ابر پارو! سر باد و باراں تمھارے قدم

مرے شعلہ کارو! ستاروں پہ درخشاں تمھارے قدم

افق کے نگینو! تمھاری دمک پر شرارے نثار

ثریا جبینو! تمھاری جبیں پر ستارے نثار

مرے سر بلندو! تمھارے سروں کو پناہِ رسولؐ

مرے حق پسندو! نگہباں تمھاری نگاہِ رسولؐ ۔79

حافظ مظہر الدین اپنی نظم ’’جہاد و جنگ‘‘ میں سرفروشانِ ملک و ملّت کو سرورِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے دیوانے اور فدا کار و طلب گار و خریدارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے قابل صد فخر القابات سے موسوم کرتے ہیں:

اٹھے ہیں سرورِ کون و مکاںؐ کے دیوانے

جہانِ کفر میں ایماں کا نور پھیلانے

شجاعتوں کے امیں، بجلیوں کے افسانے

ہوائے بدر کی پاکیزگی نگاہ میں ہے

حیات جلوہ در آغوش رزم گاہ میں ہے

یہ سرفرش، فدا کار مصطفیؐ کے ہیں

یہ جاں نثار طلب گار، مصطفیؐ کے ہیں

یہ جان و دل سے خریدار مصطفیؐ کے ہیں

انھیں نوازے گی اک روز گفتگوئے رسولؐ

انھی کا حصہ ہے تابندگئ روئے رسولؐ ۔80

’’کاوش اہل قلم‘‘ میں رشید ساقی خالدؓ و طارقؒ ایسے نوجوانانِ قوم کی شجاعت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ جو عظمت دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی حفاظت کے لیے سینہ سپر ہیں:

عظمتِ دینِ محمدؐ کی حفاظت کے لیے

قوم میں خالدؓ و طارقؒ سے جواں آج بھی ہیں

جن کی تکبیر سے کوہسار میں لرزہ آجائے

اپنے لشکر میں وہ ارباب اذاں آج بھی ہیں ۔81

ظہیر فتح پوری بھی ’’یہ کارگہ مردان صفا‘‘ میں میدان کارزار میں مصروفِ کارزار، مردان صفا کو غلامانِ احمد مختار صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی سند دیتے ہیں:

یاں ماننے والے صفدرؓ کے

باطل کی صفوں کو چیر گئے

یاں رن میں غلامانِ احمدؐ

بن کر حق کی شمشیر گئے ۔82

نظم ’’تم وہ غازی‘‘ میں عبدالعزیز فطرت بھی غازیان اسلام کو خاک راہِ مدینہ اور عاشق شہِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم قرار دیتے ہوئے ان کے اوصاف گنواتے ہیں:

تم ہو اسلام کے فرزند، جواں اور بے باک

قوم نازاں ہے کہ تم راہ مدینہ کی ہو خاک

تم وہ ہو، پاؤں پہ جھک جاتے ہیں جن کے افلاک

حق کے پروانے ہو اور عاشق شاہِ لولاکؐ

لے کے وہ نام جو دشمن پہ جھپٹ جاتے ہو

اہل کثرت کی صفیں دم میں الٹ جاتے ہو ۔83

عزیز صہبائی کی نظم ’’مجاہد‘‘ میں مجاہد کی شان یہ بیان کی گئی ہے کہ مجاہد کو صرف اللہ کا آسرا ہوتا ہے۔ اور اس پر خیرالوریٰ، شمس الضحیٰ، بدرالدجیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا خصوصی فیضان ہوتا ہے:

مجاہد کو اللہ کا آسرا ہے

مجاہد پہ فیضانِ خیرالوریٰؐ ہے

مجاہد کے دامن میں برق قضا ہے

یہ دامن جھٹک دیں تو قہر خدا ہے

مجاہد کا نعرہ ہے اللہ اکبر

لرز اٹھتے ہیں جس سے ایوان قیصر ۔84

’’اے میرے ہوا باز‘‘ میں منیر کمال برق بلا خیز اور فضا کے رازدانوں کو مجاہد دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے اعزاز کا سزاوار سمجھتے ہیں:

تو برق بلا خیز کبھی شعلۂ برہم

بچھتی رہی دشمن کے گھروں میں شب ماتم

اے دین محمدؐ کے مجاہد تجھے کیا غم

مظلوم کی آواز اے میرے ہوا باز! ۔85

سپاہی وہ ہے جس کا بھروسہ خدا پر، تکیہ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم پر اور نعرۂ حیدری اس کی زبان پر ہو۔ ’’بہادر سپاہی‘‘ میں میاں سلطان احمد موجودی انھی خیالات کا اظہار کرتے ہیں:

خدا پر بھروسہ، محمدؐ پہ تکیہ

زباں پر تری نعرۂ حیدری ہے

یہ شان خدائی بہادر سپاہی ۔86

ریاض ترمذی ’’مرے دیس کے مجاہد مرے دیس کے سپاہی‘‘ کے آخری بند میں اپنے دیس کے مجاہد کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ہے نبیؐ کی ساتھ نصرت، ہے علیؓ کا سر پہ سایہ

جو مقابل ان کے آیا وہ نہ بچ کے جانے پایا

کسی بچے، بوڑھے، عورت پہ کبھی نہ ہاتھ اٹھایا

کہ خدا نے ہے بتایا یہ اصول رزم گاہی

مرے دیس کے مجاہد، مرے دیس کے سپاہی ۔87

قرآن پاک کی سورۂ صف کی چوتھی آیت میں اللہ کی راہ میں لڑنے والوں کی خوبی یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’وہ اللہ کی راہ میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں۔ گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘ (ترجمہ)۔ اس آیت سے استفادہ کرتے ہوئے وفا امتھوی اپنی نظم ’’ملّت پاک بنیان مرصوص ہے‘‘ میں کہتے ہیں:

لو محمدؐ کا اک اک غلام اٹھ گیا

سر کچلنے کو ہر خاص و عام اٹھ گیا

ملّت پاک بنیان مرصوص ہے ۔88

وسیم فاضلی نظم ’’محافظان وطن کو سلام کہتے ہیں‘‘ میں پیروانِ اشرف الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی جانب سے محافظان وطن کو ہدیۂ سلام پیش کرتے ہیں:

ہم اہل پاک محمدؐ کے ماننے والے

نگارِ حق و صداقت کو جاننے والے

رخ حوادث ایام موڑنے والے

بتانِ ہند کا پندار توڑنے والے

محافظان وطن کو سلام کہتے ہیں ۔89

محمد اسحاق خان محوی جے پوری ’’تاریخی مستند جنگ نامہ‘‘ میں غلامِ غلامانِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے جاں نثاروں کو شہادت کا رتبۂ عظیم ملنے پر مبارکبار پیش کرتے ہیں:

جاں نثارانِ محمدؐ کے غلامانِ غلام

ہو مبارک کہ شہادت کا پیا ہے تونے جام

بارگاہِ ایزدی میں ہیں دعاگو خاص و عام

پائیں جنت میں شہیدانِ وطن، عالی مقام

اے محبّان وطن اے جاں نثارانِ وطن ۔90

ضمیر اظہر کی نظم ’’وطن کے پاسباں‘‘ میں بہارِ دین احمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے باغبانوں کو یوں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے:

دلاوری کی شان کارزار میں دکھائیں گے

خدا کے شیر دشمنوں کو خاک میں ملائیں گے

علیؓ کے دست ظالموں کے سر پہ سر اڑائیں گے

بہارِ دینِ احمدیؐ کے شوخ باغباں چلے

محاذ جنگ کی طرف وطن کے پاسباں چلے ،91

اسرار زیدی نے اپنے طویل رزمیے پر مشتمل مجموعے ’’درد کا شجر‘‘ کو کئی حصوں میں تقسیم کیا ہے اور مختلف بحور میں اور مختلف عنوانات کے تحت طبع آزمائی کی ہے۔ جنگ ستمبر کے بارے میں ’’دوسری آواز‘‘ کے عنوان سے سپاہیانِ اسلام کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں:

یہ ختم رسلؐ کے دیوانے

یہ شمع خرد کے پروانے

یہ آن پہ مرنے والے ہیں

ایمان پہ مرنے والے ہیں

حق کی منزل کے راہی ہیں

اللہ و نبیؐ کے سپاہی ہیں ۔92

اکبر کاظمی کی شاعری ’’پیغام کی شاعری ہے‘‘ ۹۳؂ ان کے شعری مجموعے ’’اجالا‘‘ میں ایک نظم بعنوان ’’چھے ستمبر کا دن‘‘ ملتی ہے۔ جس میں اکبر کاظمی اس دن کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ان غازیوں اور شہیدوں کے کارنامے گنواتے ہیں جنھوں نے اس دن کو قومی زندگی میں یادگار بنا دیا:

چھے ستمبر کا دن

موت کو دیکھ کر مسکراتے ہو تم

اے شہیدو! بہشتوں میں جاتے ہو تم

کملی والےؐ کا دامن سجاتے ہو تم

جو سدا پیار ہے، صبح بیدار ہے

چھے ستمبر کا دن ۔94

عزیز لدھیانوی ایک طنزیہ نظم ’’مہاشے‘‘ میں اسلام کے شیروں کی صفات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

یہ شیر ہیں دراصل غلامانِ محمدؐ

کچھ ان کا بگاڑیں گے نہ زردار مہاشے

توحید خداوندی و ناموس رسالتؐ

اسلام کے شیروں کا ہے سرمایۂ نصرت ۔95

آخر میں مشیر کاظمی کے مشہور زمانہ ملّی نغمے ’’اے راہ حق کے شہیدو‘‘ سے ایک بند پیش خدمت ہے۔ جس میں انھوں نے شہدائے راہِ حق کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی محبت و شفقت حاصل ہونے پر سلام عقیدت کا نذرانہ پیش کیا ہے:

اے راہِ حق کے شہیدو! وفا کی تصویرو!

تمھیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

چلے جو ہو گے شہادت کا جام پی کر تم

رسول پاکؐ نے بانہوں میں لے لیا ہوگا

علیؓ تمھاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے

حسینِ پاکؓ نے ارشاد یہ کیا ہوگا

تمھیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں ۔96

شعراء کی جانب سے سرفروشانِ ملک و ملّت کو خراج ہائے تحسین کی مندرجہ بالا شعری امثال میں ذکرِ حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ معرکۂ حق و باطل میں سپاہِ ملّی کی تعریف و توصیف کے لیے بھی سپہ سالارِ اعظم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا حوالۂ جلیلہ ضروری ہے۔

(ج) دامانِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم سے وابستگی پر تفاخر کا احساس[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ایک مسلمان کے لیے اس سے بڑا اعزاز اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ اس کا شمار غلامانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم میں کیا جائے۔ یہ وہ غلامی ہے جس کے سامنے بڑی سے بڑی بادشاہی ہیچ ہے۔ ہمارے شعراء اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہیں۔ اسی لیے انھوں نے اپنی نظموں میں بے شمار مقامات پر اس بات کو اجاگر کیا ہے اور ہادئ انس و جاں صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم سے وابستگی کو فخریہ بیان کیا ہے۔ جنگی ترانوں اور رزمیہ نظموں میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ جن میں سے کچھ ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔

نعیم صدیقی ’’رجز‘‘ میں فخریہ اعلان کرتے ہیں:

لشکر یہ خدا کا لشکر ہے، پیغمبرؐ اپنا رہبر ہے

قرآن ہماری مشعل ہے، ہاتھوں میں خودی کا خنجر ہے ۔97

ایک دوسری نظم ’’حریفان نا سزا‘‘ میں آگاہ کرتے ہیں کہ جن مجاہدوں نے بادشاہوں کے تاج اپنے پیروں تلے روندے ہیں وہ سب کے سب گدائے کوئے شاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم ہیں:

جنھوں نے پاؤں میں روندے ہیں تاج شاہوں کے

وہ کوئے شاہِ مدینہؐ کے سب گدا نکلے ۔98

صبا اکبر آباد اپنی رجزیہ نظم ’’نصر من اللہ‘‘ میں غلامِ شہِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم ہونے پر ناز کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

رکھنی ہے ہمیں اس وطن پاک کی عزت

ہم پایۂ گردوں ہے اسی خاک کی عزت

رہنی ہے غلام شہِ لولاکؐ کی عزت

رکھے گا خدا جذبۂ بے باک کی عزت

اللہ نگہبان ہے اس پاک چمن کا

ہر فرد محافظ ہے یہاں اپنے وطن کا

اللہ کے محبوبؐ کی امّت میں ہیں ہم لوگ

اس رشتے سے خود سایۂ رحمت میں ہیں ہم لوگ

بے مثل زمانے میں، شجاعت میں ہیں ہم لوگ

ڈوبے ہوئے ارمانِ شہادت میں ہیں ہم لوگ

کچھ تیز ہر اک رنگ سے ہے رنگ ہمارا

تکبیر خدا ہے رجزِ جنگ ہمارا ۔99

ایک اور نظم ’’شیر ہیں ہم ارض پاکستان کے‘‘ میں صبا اکبر آبادی احساس تفاخر سے مغلوب ہوکر کہتے ہیں:

ہم ہیں بندے خالق رحمان کے

ہم فدائی صاحبِ قرآنؐ کے

ہم عدو ہیں دشمنوں کی جان کے

کافرو! بھاگو ہمیں پہچان کے

شیر ہیں ہم ارضِ پاکستان کے ۔100

’’ہم امّتِ سرکار دو عالمؐ‘‘ میں صبا باور کراتے ہیں کہ دشمن ہمیں کمزور نہ سمجھے:

اے دور فلک تجھ کو خبر ہے کہ وہ ہیں ہم

کہتے ہیں جنھیں امّتِ سرکارِ دو عالمؐ

ہر جنگ میں لہرایا ہے اسلام کا پرچم

ہم باغ میں بلبل ہیں تو ہیں دشت میں ضیغم ۔101

جنگ ستمبر کے دوران جن شعراء کا قلم دفاع ملک و ملّت میں دن رات برسرِپیکار رہا ان میں شورش کاشمیری کا نام سرفہرست ہے۔ ’’الجہاد و الجہاد‘‘ کے عنوان سے ایک پورا مجموعہ ان کی کلیات میں موجود ہے۔ شورش، جن کا لہجہ دشمنان ملک و ملّت کے لیے پہلے بھی تند و تیز تھا اب اور بھی کٹیلا اور بلند آہنگ ہوگیا۔ اور ان کی شاعری، شاعری نہیں رجز خوانی میں تبدیل ہوگئی۔

’’گھمسان کی جنگ‘‘ میں انھیں بجا طور پر فخر ہے:

مسلمانوں کا خوں ضائع نہ ہوگا

پیمبرؐ کے علم بردار ہم ہیں

لگاؤ ہے صحابہؓ کی روش سے

نبیؐ کے غاشیہ بردار ہم ہیں

قسم ہے غازیانِ سر بکف کی

غلامِ سیدِ ابرارؐ ہم ہیں

رسول اللہؐ کے صدقے میں شورشؔ

سرِ طاغوت پہ تلوار ہم ہیں ۔102

یہی احساسات ان کی نظم ’’عساکر پاکستان‘‘ میں بھی دکھائی دیتے ہیں:

ہم مسلماں ہیں محمدؐ کے گھرانے والے

پرچمِ حیدرِ کرّارؓ اٹھانے والے ۔103

’’یوم انقلاب‘‘ میں شورش کا فخر غلط نہیں ہے:

اس کا اندیشہ نہیں، کیا ہیں، کہاں ہیں دوستو

ہم غلام خواجۂ کون ومکاںؐ ہیں دوستو

انقلاب اے انقلاب! ۔104

طفیل ہوشیارپوری ’’آدمیت کے علم بردار ہیں‘‘ میں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم سے وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

بے کسوں اور بے بسوں کا آسرا

سرورِ عالمؐ، محمد مصطفیؐ

ہادی برحقؐ، ہمارا رہنما

جان و دل سے اس کے پیروکار ہم

ہم مسلماں پیکر ایثار ہیں ۔105

’’وارثانِ حیدرِ خیبر شکنؓ‘‘ میں جوش ملیح آبادی اپنے گھن گرج سے بھرپور لہجے میں پیروانِ رحمت لّلعالمین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم ہونے کا اعلان کرتے ہیں:

رفیقِ آسماں ہیں، ناز بردار زمیں ہم ہیں

یہ سچ ہے پیروانِ رحمت لّلعالمیںؐ ہم ہیں ۔106

مختار صدیقی ’’وقت کی آواز‘‘ میں اپنا رشتہ روحِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم اور جذبِ حیدریؓ سے جوڑتے ہوئے کہتے ہیں:

میں وہ نہال بہار پیماں ہوں

جس کو روح محمدیؐ

جذب حیدریؓ

اور خون حسینؓ نے بے خزاں رکھا ہے ۔107

راجا رشید محمود ’’ہماری عظمت‘‘ میں غلامانِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم میں شمار ہونے پر فخریہ کہتے ہیں:

غلامانِ محمدؐ ہیں، خدا کے راز داں ہم ہیں

جہاں میں عظمتِ دینِ نبیؐ کے پاسباں ہم ہیں

خدا کے نام لیوا، احمد مختارؐ کے خادم

علیؓ کی جرأتوں کے راز دان و ترجماں ہم ہیں

ہمیں اسلاف کی تاریخ پر محمودؔ ، ہے نازش

جنابِ سرور عالمؐ کی فوجوں کے جواں ہم ہیں ۔108

غلامانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی صف میں شامل ہونے کا احساس تفاخر ظہیر کاشمیری کی نظم ’’ہم صداقت کے امیں ہیں ہم غلامانِ رسولؐ‘‘ سے بھی جھلکتا ہے:

ہم ہیں وہ قوم جسے حق کی اطاعت ہے قبول

جہد آزادی و انصاف ہمارا ہے اصول

ہم صداقت کے امیں ہیں ہم غلامانِ رسولؐ ۔109

عزیز صہبائی کی نظم ’’مجاہد‘‘ میں ہادئ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکے مجاہدوں کے رہنما ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے:

مجاہد کو اللہ کا آسرا ہے

مجاہد کا خیرالوریٰؐ رہنما ہے ۔110

سیّد عبدالرزاق عقیل صحرائی وطن پاک کی نسبت سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم سے جوڑتے ہوئے اپنی نظم ’’پیام غازی‘‘ میں اہل وطن کو پیغام دیتے ہیں:

ہماری قوّت محمدیؐ ہے اسی کے سائے میں سروری ہے

قدم قدم پاک سر زمیں بھی اسی محمدؐ کا آستانہ ہے ۔111

شبنم رومانی نے نظم ’’قومی پرچم‘‘ میں ہلالی پرچم کو تصدیق رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا اعزاز بخشا ہے:

یہ تارا تقدیر امم، تائید خدا، تصدیق رسولؐ

یہ تارا فاتح کی جبیں، اسلام کا دل، تہذیب کا پھول ۔112

صادق نسیم ’’رجز‘‘ میں مجاہد اسے سمجھتے ہیں جسے شاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم سے دلی وابستگی ہو:

جو دو عالم کے لیے رحمت کاملؐ آئے

جسم ہے کون و مکاں اور نبیؐ دل کہلائے

اسؐ کا فرمان ہے اٹھ حق کی حفاظت کے لیے

اسؐ کے فرماں پہ مرا جسم مری جاں صدقے

میں مجاہد ہوں مرے دل میں محمدؐ کی طلب ۔113

’’زمین ہند سے خطاب‘ ‘ میں شکیل نشتر میرٹھی کا احساس تفاخر ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے:

اے زمینِ ہند! تجھ کو یاد ہے ہم کون ہیں

ہم سے کرتی ہے کلام؟

یاد ہے تجھ کو کہ ہم ہیں فاتح بدر و حنین

یاد ہے تجھ کو کہ ہم میں ہے وہی خونِ حسینؓ

ہم خدا کے نام لیوا! ہم محمدؐ کے غلام

ہم سے کرتی ہے کلام؟ ۔114

محشر بدایونی کی نظم ’’جاگ رہا ہے پاکستان‘‘ کا ٹیپ کا شعر ہے:

لا الہٰ الّا اللہ محمد رسول اللہؐ

ہر پل ہر ساعت ہر آن، جاگ رہا ہے پاکستان

اس لحاظ سے نظم کا ہر بند نعتیہ پہلو رکھتا ہے۔ بطور نمونہ ایک بند ذیل میں درج کیا جاتا ہے جس میں شاعر فخریہ کہتا ہے:

پرچم نصرت ہم سے کھُلا

رسم شجاعت ہم سے چلی

ہم ہیں جوہر تیغِ حسینؓ

ہم ہیں زورِ دستِ علیؓ

اپنی قوت اپنی جان

لا الہٰ الّا اللہ محمد رسول اللہؐ

ہر پل ہر ساعت ہر آن، جاگ رہا ہے پاکستان ۔115

رضوی خیر آبادی ’’ترانۂ مجاہدین‘‘ کا غلغلہ بلند کرتے ہوئے اس بات پر نازاں ہیں کہ مجاہدین کے سروں پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے صدقے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سایہ فگن ہے:

صدقہ یہ محمدؐ کا ہے، اللہ کی رحمت

جبریلؑ کا پر ہے پرِ پرواز ہمارا ۔116

ڈاکٹر نذیر مرزا برلاس کو فخر ہے کہ وہ حبیب رب العالمین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے نام لیوا ہیں۔ ’’نعرۂ مستانہ‘‘ میں اسی بات کا اظہار کیا گیا ہے:

خدائے برتر و ذیشان کے ہم نام لیوا ہیں

رسول اللہؐ کے قرآن کے ہم نام لیوا ہیں

حبیب پاکؐ کے فرمان کے ہم نام لیوا ہیں

پرانے عہد و پیماں پھر سے دہرانے کے دن آئے ۔117

سیفی نوگانوی کو بھی نظم ’’ترانہ‘‘ میں ناز ہے کہ ان کا دین کوئی عام دین نہیں بلکہ دین محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم ہے:

دینِ محمدیؐ ہے دینوں میں دیں ہمارا

حاصل ہے صرف ہم کو توحید کا سہارا ۔118

سیّد فخر الدین گیلانی ’’مجاہدوں سے خطاب‘‘ میں مجاہدین کو علم بردارِ دینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم اور پاسبانِ ملّت خیرالوریٰ صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے قابل فخر القاب سے موسوم کرتے ہیں:

اے مجاہد! اے علم بردارِ دینِ مصطفیؐ

اے مجاہد! پاسبانِ امّت خیرالوریٰؐ ۔119

نسیم امروہوی ملّت احمد مرسل صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا رکن ہونے پر نازاں ہیں۔ ’’ملّت پاک کا رجز‘‘ میں اس ناز کو شعری لباس پہناتے ہوئے کہتے ہیں:

زیر، میدان میں ہوں ہم یہ کوئی طور نہیں

امّت احمد مرسلؐ ہیں کوئی اور نہیں ۔120

ایک مسلمان کے لیے غلام شہِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمہونا باعث عزّ و افتخار بھی ہے اور دین و دنیا سنوارنے کا راستہ بھی ہے۔ اعجاز کاشمیری اپنی نظم ’’ہم‘‘ میں نہایت فخر و انبساط سے کہتے ہیں:

ہم غلامانِ شہِ لولاکؐ ہیں

پاسبانِ سر زمینِ پاک ہیں

ہم نڈر، بے خوف ہیں، بے باک ہیں

اپنے چرچے برسرِ افلاک ہیں

آبروئے ارضِ پاکستان ہم ۔121

ساقی جاوید کی نظم کا عنوان ہی فخریہ ہے۔ ’’ہم فخر جہاں ہیں‘‘ میں شاعر فوجِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا سپاہی ہونے پر نازاں ہے:

تاریخ سے پوچھو کہ وہ دیتی ہے گواہی

ہم فوجِ محمدؐ کے سپاہی ہیں سپاہی

قرآن کی آواز ہیں کعبے کی اذاں ہیں

ہم فخرِ جہاں، فخرِ جہاں، فخرِ جہاں ہیں ۔122

منظور حسین منظور ’’پیام بہ نوجوانِ ملّت‘‘ میں نوجوان کو ناموس ملّت کے امین اور غلام رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے القاب سے مخاطب کرتے ہیں:

جوانو! بے گماں ناموسِ ملّت کے امیں تم ہو

برائے حفظ آزادی حصار آہنیں تم ہو

عزائم کو تمھارے رحمتِ حق کا سہارا ہے

کہ عالم میں غلامِ رحمت للعالمیںؐ تم ہو ۔123

تاثیر نقوی اپنی نظم ’’نعرہ‘‘ میں فخریہ نعرہ زن ہوتے ہیں:

حاملِ قرآں، غلامِ ساقئ کوثرؐ ہوں میں

خاکِ پائے حیدرؓ و شبّیرؓ اور شبّرؓ ہوں میں

عکسِ روئے بوذرؓ و سلمانؓ اور قنبرؓ ہوں میں

عرش سے جو آئی اس شمشیر کا جوہر ہوں میں

میرا نعرہ یا علیؓ ہے میرا نعرہ یا علیؓ ۔124

محمد ریاض الدین خان منظر وکیل ’’نذرِ عقیدت‘‘ میں غازیانِ ملک و ملّت کا شمار فدائیانِ نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم میں کرتے ہیں:

خدا پرست ہیں، ہم بت شکن ہیں، غازی ہیں

فدائے نام محمدؐ ہیں غم گسارِ وطن ۔125

عزیز لدھیانوی ’’معرکۂ حق و باطل‘‘ میں سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی غلامی پر فخریہ کہتے ہیں:

ہم کو تو بس خدا کی ہی رحمت پہ ناز ہے

یہ فخر ہے کہ احمدِ مرسلؐ کے ہیں غلام ۔126

غازیانِ اسلام کی زبانی نسبتِ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم پر احساس تفاخر دراصل وہ مایۂ افتخار ہے جو مسلمان کے دل و دماغ میں موجود ہوتا ہے۔ سطور بالا میں پیش کی گئی شعری امثال میں شعرائے کرام نے اسی مایۂ فخر کو منظوم صورت میں پیش کیا ہے۔

(د) سرفروشان ملّت کی حوصلہ افزائی بنام احمد مختار صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ہر مسلمان اپنی اصل میں مصطفویؐ ہوتا ہے۔نبئ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے محبّت جزو ایماں نہیں بلکہ عین ایماں ہے۔اس محبت کی جڑیں مسلمان کے رگ و ریشے میں پیوست ہوتی ہیں۔اور گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی اس محبت سے تہی دامن نہیں ہوتا۔ہمارے ملّی شاعروں کواس حقیقت کا اچھی طرح ادراک ہے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے سر فروشان ملّت کے حوصلوں کو مہمیز کرنے کے لیے اسی بات کا سہارا لیا ہے اور جا بجا جیش محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے سپاہیوں کے جوش و جذبے کو بڑھاوا دینے کے لیے الفت سرکار عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کو بنیاد بنایا ہے اور فدائیان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے شرر خفتہ کو شعلۂ جوّالہ میں تبدیل کیا ہے ۔چند منتخب امثال پیش خدمت ہیں۔

نعیم صدیقی اپنی نظم ’’تیرے ساتھ‘‘ میں غازیان وطن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہتے ہیں:

جرأت سے بڑھ، کہ گردش دوراں ہے تیرے ساتھ

اے غازئ وطن ترا ایماں ہے تیرے ساتھ

توحید کا نشان درخشاں ہے تیرے ساتھ

عشق نبیؐ کی شمع فروزاں ہے تیرے ساتھ ۔127

ایک اور نظم ’’بلاوا‘‘ میں بھی نعیم صدیقی بندۂ غازی کے حوصلوں کو تھپتھپاتے ہوئے کہتے ہیں:

اٹھ باندھ کمر غازی میدان بلاتا ہے

اے بندۂ سلطاں اٹھ! سلطان بلاتا ہے

جو کچھ بھی میسر ہو سامان، وہی لے چل

اٹھ ذوقِ خودی لے چل اٹھ حبّ نبیؐ لے چل ۔128

صبا اکبر آبادی کی نظم ’’اے غازیانِ پاک‘‘ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے نقش قدم چومتے ہوئے چلنے کی تاکید کی گئی ہے:

اے غازیانِ پاک چلو جھومتے چلو

اپنے نبیؐ کے نقش قدم چومتے چلو ۔129

مجاہدین ملک و ملّت کو نصیحت کرتے ہوئے سہیل اقبال ’’نغمۂ توحید‘‘ میں قدم قدم پر چراغ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم جلانے کی تلقین کرتے ہیں:

قدم قدم پر جلاؤ چراغ مصطفویؐ

یہی ہے حق کی رضا لا الہٰ الّا اللہ ۔130

رحمان کیانی ’’اعلان جہاد‘‘ میں کلمۂ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکے ورد کی ہدایت کرتے ہوئے اپنے سپاہیوں کا حوصلہ اس طرح بڑھاتے ہیں:

خدا کی مدد پر بھروسہ رکھو

محمدؐ کے کلمے کو پڑھتے چلو

عزیزو لڑو اور اس وقت تک

کہ جب تک ہمیں فتح حاصل نہ ہو ۔131

’’بڑھے چلو بڑھے چلو‘‘ میں شورش کاشمیری مجاہدین کو یاد دلا رہے ہیں کہ انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ حلقہ بگوشانِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم ہیں:

بھولو نہیں کہ حلقہ بگوشِ رسولؐ ہو

شورشؔ خدا کا خوف جماتے ہوئے چلو ۔132

اور ایک اور نظم ’’تشکّر و امتنان‘‘ میں جذبۂ جہاد سے مغلوب ہوکر کہتے ہیں:

ہمارے ولولوں کی تاب کافر لا نہیں سکتے

رسول اللہؐ کے اعجاز سے شعلہ فشاں ہم ہیں ۔133

جنگ ستمبر میں شاعروں نے سر فروشان ملّت کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنی شاعری سے رجز کا سا کام لیا اور مجاہدین کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔طفیل ہوشیار پوری نظم ’’یہ کہہ رہا ہے‘‘ میں رجز خواں ہیں:

تمھارے لب پہ رات دن ہو ذکر لا الہٰ کا

کہ یہ نشان خاص ہے محمدیؐ سپاہ کا

تمھارے کام آئے گا یہی نشاں بڑھے چلو

دلوں میں ذکرِ مصطفیؐ لبوں پہ نعرۂ علیؓ

ہر اک بزرگ کی دعا تمھارے ساتھ ہے چلی

خدا کرے گا کامیاب و کامراں بڑھے چلو ۔134

طفیل ہر مجاہد کو رئیس الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکا سپاہی سمجھتے ہیں۔ ’’جہاں کو پیام شہادت‘‘ میں بانکے سپاہیوں کو بڑھاوا دیتے ہوئے کہتے ہیں:

محمدؐ کی فوجوں کے بانکے سپاہی

تجھے زیب دیتی ہے دنیا کی شاہی

دلوں پر جہاں کے حکومت کیے جا

تجھے حبیبِ خداؐ کا سہارا

ترے واسطے ہے بھنور بھی کنارا

جدھر چاہے تو اپنی کشتی لیے جا ۔135

’’اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘ کے عنوان سے ولولہ انگیز ترانے میں طفیل ایک مجاہد کو مخاطب کر کے کہتے ہیں:

محبوب خداؐ کے پروانے

دہرا اجداد کے افسانے

پیغام اخوّت دینا ہے

یہ کام تجھی سے لینا ہے

پھر کفر مقابل ہے آیا

اے مرد مجاہد جاگ ذرا

اب وقت شہادت ہے آیا

اللہ اکبر اللہ اکبر ۔136

ایک اور نظم ’’ملّت کے نوجوان‘‘ میں طفیل نوجوانِ ملّت کو جام شہادت پینے کی ترغیب دیتے ہوئے اسے رضائے رب جلیل اور خوشنودئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی نوید سناتے ہیں:

اللہ جانتا ہے بڑا مرتبہ ہے یہ

خوشنودئ رسولؐ رضائے خدا ہے یہ

بر حق یہ بات جان، شہادت کا جام پی ۔137

طفیل ہوشیارپوی ’’اے قافلہ سالار چل‘‘ میں ناموس ملّت کے محافظوں کو پیامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے حوالے سے تلقین کرتے ہیں:

اے قافلہ سالار چل

اے قوم کے سردار چل

سر پر کفن باندھے ہوئے

مردانِ غازی آگئے

ہونٹوں پہ ذکرِ لا الہٰ

دل میں پیامِ مصطفیؐ

حسن عقیدت کی قسم

ذوق شہادت کی قسم

دشمن کو اب للکار چل ۔138

مجبور و مقہور کشمیریوں کی مدد کے لیے ’’ظلمت کفر‘‘ میں خادمانِ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کو سوئے کشمیر روانگی کی تاکید کرتے ہوئے طفیل کہتے ہیں:

خونِ مسلم سے ہے گل رنگ قبائے کشمیر

پھر بلاتی ہے تمھیں کرب و بلائے کشمیر

خادمانِ شہِ کونینؐ فدایانِ حسینؓ

مل کے پھر گرم کرو معرکۂ بدر و حنین

رکھ کے تم پیش نظر اسوۂ شبّیرؓ چلو

صورت سیل رواں جانب کشمیر چلو ۔139

طفیل جنگ ستمبر کو معرکۂ حق و باطل سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ حق پرستوں کو نظم ’’وقت نے بجا دیا گجر‘‘ میں جوش دلاتے ہوئے کہتے ہیں:

اپنے عزم پر ثبات سے

فوج کفر کو شکست دے

قلب میں ہو ورد مصطفیؐ

نعرۂ علیؓ زبان پر

وقت نے بجا دیا گجر ۔140

ایک باپ اپنے بیٹے کو محاذِ جنگ پر روانہ کرتے ہوئے اسے باور کراتا ہے کہ اگر جنگ میں مرتبۂ شہادت ہوجائے تو سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکی قربت نصیب ہوتی ہے۔ اس بات کو طفیل نے ’’اے نورِ نظر‘‘ میں اس طرح نظم کیا ہے:

اے میری محبت مرے ایمان کی دولت

مل جائے اگر جنگ میں انساں کو شہادت

ہوتی ہے عطا سرور کونینؐ کی قربت

اشکوں کا مرے تو کوئی احساس نہ کر، جا

اے نورِ نظر جا ۔141

بشیر احمد بشیر اپنی نظم ’’حرب و ضرب‘‘ میں مجاہدین کو ضربِ حیدری لگانے کی تاکید کرتے ہوئے اسے تسلّی دیتے ہیں کہ اس کے ساتھ ذاتِ پاک مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم ہے:

اک اور ضربِ حیدریؓ

گرا گرا مجاہدو گرا ستونِ کافری

الٹ گئی صفِ عدو مٹا نشان آزری

اک اور ضربِ حیدریؓ

تمھارے سر پہ سایۂ خدائے شش جہات ہے

تمھارے ساتھ مصطفیؐ ہے، مرتضیٰؓ کی ذات ہے ۔142

’’علم بلند کرو اور قدم بڑھا کے چلو‘‘ میں احسان دانش جاں نثارانِ ملک و ملّت کو ذکرِ شہِ مرسلاں صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی ہدایت کرتے ہوئے تیز قدمی کی تلقین کرتے ہیں:

نہیں یہ وقت کہ حسن بتاں کی بات کرو

خدا کا ذکر، شہِ مرسلاںؐ کی بات کرو

جو تیز گام ہے اس کارواں کی بات کرو

زمیں پہ رہتے ہوئے آسماں کی بات کرو

علم بلند کرو اور قدم بڑھا کے چلو ۔143

ایک اور نظم بعنوان ’’ترانۂ جہاد‘‘ ہے۔ جس میں وہ مجاہدین صف شکن اور سپاس خوانِ ذوالمنن صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کو مہمیز کرتے ہیں:

بلند برچھیاں کرو وہ رحمت خدا جھکی

وہ زندگی کا در کھلا وہ سر کے بل قضا جھکی

سپاس خوانِ ذوالمننؐ بڑھے چلو بڑھے چلو

مجاہدینِ صف شکن بڑھے چلو بڑھے چلو ۔144

حفیظ صدیقی ’’پیام بیداری‘‘ میں غازیان قوم کو گلزارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے تازہ پھولوں سے تشبیہہ دیتے ہوئے بیداری کا پیام دیتے ہیں:

گلزارِ مصطفیؐ کے تمھیں تازہ پھول ہو

جوشِ جہاد لے کے بڑھو کیوں ملول ہو ۔145

ہوش ترمذی نے اپنی نظم ’’نشان عظمت‘‘ میں غازیوں کی نشانی یہ بیان کی ہے کہ ان کے لبوں پر تکبیر کی صدا اور پیغام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم ہوتا ہے:

گونجی ہے کوہ و دشت میں تکبیر کی صدا

غازی چلے ہیں لب پہ ہے پیغام مصطفیؐ ۔146

منظور حسین منظور ’’ترانۂ جنگ‘‘ میں مجاہدان تیغ زن کو جوش دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:

مٹا کے آن کفر کی، بزور تیغ حیدریؓ، بفضل ربّ ذوالمننؐ

مجاہدانِ تیغ زن، بہادران صف شکن، بڑھے چلو بڑھے چلو ۔147

نشتر جالندھری ’’مجاہدو اٹھو‘‘ میں مجاہدین کو یقین دلاتے ہیں کہ حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا ساتھ انھیں حاصل ہے:

دلاورو علیؓ سا رہنما تمھارے ساتھ ہے

بہادرو حبیب کبریاؐ تمھارے ساتھ ہے

اٹھو چلو سپاہیو دعا تمھارے ساتھ ہے

قدم بڑھاؤ غازیو خدا تمھارے ساتھ ہے

مجاہدو اٹھو، چلو، بڑھو کہ منزل آگئی ۔148

فائق رامپوری بھی ’’سپاہ ملّی سے خطاب‘‘ میں سپاہ ملّی کو آسرا دیتے ہیں کہ سردار انبیاء علیہ الصّلوٰۃ والسّلام ان کے ولی ہیں:

حافظ ترا حق اور نبیؐ تیرا ولی ہے

تو شیر، خدا کا ہے کہ دلبند علیؓ ہے

کیوں تجھ میں نہ خوبو ملے سردار عربؐ کی

یاں گلشن اسلام کی تُو بھی تو کلی ہے ۔149

’’کفن بردوش‘‘ میں مجید تاثیر کفن بردوشانِ ملّت کو ناموس پیمبر صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمپر نثار ہونے کی تلقین کرتے ہیں:

پہن لو ایک ہی وردی قطار اندر قطار آؤ

یہ جتنے پیرہن ہیں فرقہ بندی کے اتار آؤ

تمھیں ہونا ہے ناموسِ پیمبرؐ پر نثار، آؤ

رضا کاروں میں اپنا نام لکھواؤ مسلمانو

کفن بردوش میداں میں نکل آؤ مسلمانو ۔150

’’وطن تمھاری آن ہے‘‘ میں حسن بخت غازیوں اور مجاہدوں کے حوصلوں کو چنگاری دکھاتے ہوئے کہتے ہیں:

شہادت حسین سے شہادتوں کے جام لو

ستم گرو سے غازیو! ستم کا انتقام لو

خدا تمھارے ساتھ ہے رسولؐ کی امان ہے

مجاہدو بہادرو وطن تمھاری آن ہے ۔151

منیر کمال ’’اے میرے ہوا باز‘‘ میں دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکے مجاہدوں کی ڈھارس بندھاتے ہوئے فرماتے ہیں:

تو برق بلا خیز کبھی شعلۂ پرنم!

بچھتی رہی دشمن کے گھروں میں صف ماتم

اے دین محمدؐ کے مجاہد! تجھے کیا غم

مظلوم کی آواز، اے میرے ہوا باز ۔152

حبیب سبحانی ’’دلاورو، مجاہدو‘‘ میں مجاہدین کے حوصلوں کو سیّد الکونین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکے حوالۂ مبارک سے بڑھاوا دیتے ہیں:

محافظان دین مصطفیؐ ہو تم، اٹھو! اٹھو!

بڑھے چلو، بڑھے چلو، دلاورو! مجاہدو! ۔153

ماسٹر صادق امرتسری ’’میرے وطن کے غازیو‘‘ میں غازیان پاک کو نعت نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم پڑھتے ہوئے پیش قدمی کی ہدایت کرتے ہیں:

نعتِ حبیب کبریاؐ، پڑھتے سدا بڑھے چلو

میرے وطن کے غازیو! مجاہدو! بڑھے چلو

دل میں حبیب ربّؐ نہاں، لب پر ہو نعرۂ علیؓ

میرے وطن کے غازیو! مجاہدو! بڑھے چلو ۔154

سردار اللہ نواز خاں ’’ترانہ‘‘ میں بت شکن مجاہدین کی حوصلہ افزائی اس طرح کرتے ہیں:

جہاں میں کوہ کن ہو تم

جلال ذوالمننؐ ہو تم

چلو کہ بت شکن ہو تم

بڑھے چلو! بڑھے چلو ۔155

علامہ شبیر بخاری ’’پاکستانی مجاہدوں سے‘‘ میں مجاہدین کو کشتئ اسلام سنبھالنے اور نور محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم سے زمانے میں اجالا کرنے کی تلقین کرتے ہیں:

پھر کشتئ اسلام ہے طوفاں میں سنبھالو

پھر نورِ محمدؐ سے زمانے کو اجالو ۔156

غفار ماہر اپنی نظم ’’مجاہدین صف شکن‘‘ میں صف شکن مجاہدوں کو عنایتِ ساقئ کوثر صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی نوید سناتے ہیں:

کیوں نہ ہو ساقئ کوثرؐ کی عنایت تم پر

جب کہ خم خانۂ یثرب کے ہی مے خوار ہو تم ۔157

حافظ لدھیانوی کی نظم ’’مجاہدو بڑھے چلو‘‘ میں مجاہدین کو غلامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکا تاج پہنایا گیا ہے:

دکھا دو شانِ حیدریؓ عدو کو کاٹ کاٹ کر

غلام مصطفیؐ ہو تم عدو کو اس کی کیا خبر

خدا کی رحمتیں ہوں تم پہ ایک ایک گام پر

بڑھے چلو مجاہدو! مجاہدو بڑھے چلو! ۔158

شعلہ آسیونی ’’نعرۂ جہاد‘‘ میں کہتے ہیں:

تمھارے ہاتھوں میں آن بان شانِ مصطفیؐ

تمھارے دم سے ہے بہار گلستانِ مصطفیؐ

دلاورانِ مصطفیؐ! بجھادو! شمع اہرمن

مجاہدین صف شکن، بڑھاؤ عظمت وطن ۔159

حفیظ جالندھری اپنی نظم ’’جہادِ کشمیر‘‘ میں مجاہدین کو فتح کا نسخہ تجویز کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

آیۂ نصرٌ من اللّٰہ سایۂ فتحٌ قریب

اسم اعظم ہے اسی ذوق یقیں سے کام لو

عاشقان را ہر زماں از غیب جانے دیگر است

یہ شہادت ہے محمد مصطفیؐ کا نام لو ۔160

’’کشمیر کے مجاہد‘‘ میں سعیدہ ناز مجاہدین کشمیر کو تائید ذوالمنن صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکا یقین دلاتے ہوئے کہتی ہیں:

بڑھ جاؤ رزم گاہ میں پہنے ہوئے کفن

دشمن کرے فرار پڑے اس طرح سے رن

سچ ہے تمھارے ساتھ ہے تائید ذوالمننؐ

اس وقت قیمتی ہے تو آزادئ وطن ۔161

’’جوانان پاکستان سے‘‘ میں ظہیر نیاز بیگی امّت مرحوم کے خود دار جوانوں اور صاحب ایثار محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے دلیروں کو مخاطب کر کے وادئ کشمیر کی تقدیر بدلنے کی بات کرتے ہیں:

اے امّت مرحوم کے خوددار جوانو!

اے قوم کے جاں باز، وفادار جوانو!

اے صاحبِ ایثارِ محمدؐ کے دلیرو

مانے ہوئے اس دہر میں اللہ کے شیرو

ہر ظالم و مغرور کو پاؤں میں کچل دو

اب وادئ کشمیر کی تقدیر بدل دو ۔162

حافظ نور محمد انور اپنی نظم ’’ترانۂ ملّت‘‘ میں مرد مومن کو باطل کے مقابل اٹھ کھڑے ہونے کی تلقین کرتے ہیں:

تو صدیقؓ و فاروقؓ کی اقتدا کر

تو عثمانؓ و حیدرؓ کی ہر دم ثنا کر

بنا ان کی سیرت کو تو اپنی سیرت

شریعت کے احکام پر سر جھکا کر

مئے دینِ احمدؐ سے سرشار ہوجا

اٹھ اے مرد مومن! تو ہشیار ہوجا ۔163

یہی جذبہ ان کی ایک اور نظم ’’دائمی زیست کا اب وقت ہے ساماں کرلے‘‘ میں بھی نظر آتا ہے:

خواب غفلت سے خدارا ہو مسلماں بیدار

تو مجاہد ہے سنبھل، تیغ اٹھا، ہو تیار

ساری دنیا کو دکھا روشنئ خلقِ نبیؐ

پھر زمانے کو سنا ذکرِ حسینؓ ابنِ علیؓ ۔164

’’کشمیر جل رہا ہے‘‘ میں تاثیر نقوی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم اور اصحاب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے اسمائے گرامی سے مجاہدین کا حوصلہ بڑھاتے ہیں:

اللہ کو پکارو سرورؐ کا نام لے کر

شبّیرؓ کو بلاؤ شبّرؓ کا نام لے کر

دشمن کو روند ڈالو حیدرؓ کا نام لے کر

حملہ کرو جوانو! اکبرؓ کا نام لے کر

کشمیر جل رہا ہے اس آگ کو بجھاؤ

آگے قدم بڑھاؤ آگے قدم بڑھاؤ ۔165

’’اے مرد مسلماں‘‘ میں جلیل احمد مرد مسلماں کو تسلّی دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

اللہ تیرے ساتھ، محمدؐ ہے تیرے ساتھ

قوت تری ایمان ہے، رہبر ترا قرآن ۔166

اختر ہوشیار پوری ’’جنگ رنگ‘‘ میں اپنے مجاہدین کو شہداء کی ارواح اور احمد پاک صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا واسطہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:

تمھیں شہیدوں کی روحیں پکارتی ہیں سنو!

صدائے بدر واحد گونجتی ہے کانوں میں

بنام شاہِ شہیداں، بنام احمد پاکؐ

بہ اسم اشھد ان لّا الٰہ الّا اللّٰہ ۔167

نظم ’’دلاورو! مجاہدو!‘‘ میں حبیب سبحانی محافظان دین مصطفیصلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکو سوئے کارزار پیش قدمی کی ہدایت کرتے ہیں:

تمھی عمرؓ کی آن ہو، تمھی علیؓ کی شان ہو، تمھی وطن کی جان ہو

محافظانِ دین مصطفیؐ ہو تم اٹھو اٹھو! بڑھے چلو بڑھے چلو دلاورو مجاہدو ۔168

صابر گیلانی اپنی نظم ’’اے مجاہدو‘‘ میں مجاہدین ملّت کو سایۂ لطف رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکا آسرا دیتے ہوئے کہتے ہیں:

دن رات تم پہ رحمت حق کا نزول ہے

سر پہ تمھارے سایۂ لطف رسولؐ ہے ۔169

عابد نظامی بھی ’’مجاہدو بڑھے چلو‘‘ میں مجاہدین کو رسول صادق و امین صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی اس رزم حق باطل میں شرکت کا یقین دلاتے ہوئے ان کا حوصلہ بڑھاتے ہیں:

وہ تاج دارِ مرسلیںؐ

رسولِ صادق الامیںؐ

شریک ہیں جہاد میں

تمھاری فتح بالیقیں

مجاہدو! بڑھے چلو! ۔170

نظیر لدھیانوی ’’کشمیر سے آگے‘‘ میں پیغمبر ذیشان صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی روایات کو زندہ کرتے ہوئے اپنے مجاہدین کو مہمیز کرتے ہیں:

پھر زندہ پیمبرؐ کی روایات کریں ہم

کیوں فکر تکالیف و صعوبات کریں ہم

کشمیر سے آغاز مہمّات کریں ہم

شمشیر زنو! صلح کی کیوں بات کریں ہم

جب منزل مقصود ہے کشمیر سے آگے

مقصد نہ مسلماں کا ہو تسخیر جہاں کیوں

لہرائے نہ دہلی میں محمدؐ کا نشاں کیوں

ہاں جوہر شمشیر دکھائیں نہ جواں کیوں

کشمیر سے آگے نہ بڑھے سیل رواں کیوں

جب منزل مقصود ہے کشمیر سے آگے ۔171

میدانِ کارزار میں دشمنانِ اسلام سے برسرِ جنگ، مجاہدین کی حوصلہ افزائی شاعروں نے مجاہدِ اعظم رسولِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکے وسیلے سے اس لیے کی ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمان اور وہ بھی مجاہد مسلمان کتنا بھی گیا گزرا ہو اس نام پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے خوشی خوشی تیار ہو جاتا ہے۔

(ہ) شہروں اور عسکری اداروں کو بوسیلۂ ہادئ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم نذرانۂ عقیدت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کھیم کرن اور چونڈہ جیسے چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہات کے علاوہ لاہور، سیالکوٹ اور قصور جیسے شہروں میں جنگ کا زور زیادہ تھا۔ لیکن جس پامردی سے یہاں کے مکینوں نے اس ناگہانی کا مقابلہ کیا اور اپنی فوج کا ساتھ دیا۔ وہ ناقابل فراموش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں شاعروں نے اپنے غازیوں اور شہیدوں کو دل کھول کر خراجِ تحسین پیش کیا ہے (جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے) وہاں انھوں نے عسکری اداروں اور شہروں کی شان میں بھی نظمیں لکھ کر اپنی عقیدت مندی کا اظہار کیا ہے۔ ایسی منظومات سے بعض ایسی مثالیں پیش کی جاتی ہیں جن میں شاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا حوالۂ مبارک بھی موجود ہے:

حفیظ جالندھری کی ایک نظم ’’ہلال استقلال لاہور‘‘ کے عنوان سے کتابچے کی صورت میں شائع ہوئی تھی۔ جس میں انھوں نے لاہور کا کامیابی سے دفاع کرنے پر مجاہدین پاکستان اور اہلیان لاہور کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ پوری نظم جوش و ولولے سے بھرپور ہے اور ہادئ امّت صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے تذکرۂ مبارک کی حامل ہے۔ پہلے ہی شعر میں شاعر عطائے ربّ اور محبوب ربّ صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکا شکر ادا کرتے ہوئے کہتا ہے:

خدائے پاک نے لاہور کو دستِ قوی بخشا

رسول اللہؐ نے جوشِ جہادِ غزنوی بخشا

زہے یہ شانِ لاہور، اور یہی شان اس کے شایاں ہے

ہلال ضبط و استقلال افق پر اب نمایاں ہے

ان کے نزدیک دشمن محض ان کے وطن کا دشمن نہیں بلکہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا دائمی دشمن ہے:

اچانک جانبِ لاہور وہ شب خون دشمن کا

خدا و مصطفیؐ کے دائمی ملعون دشمن کا

ٹینکوں کی یلغار کو سرفروشانِ امّت نے جس پامردی سے روکا اس کی جھلک دکھاتے ہوئے حفیظ کہتے ہیں:

چڑھی آتی تھی جو ٹینکوں کی آندھی شہر کے اوپر

اسے مردانِ حق نے دھر لیا تھا نہر کے اوپر

فضا میں دفعتاً اللہ اکبر کی ندا گونجی

محمد مصطفیؐ کے نام نامی سے ہوا گونجی

پرچم اسلام کی توصیف کے پھریرے اڑاتے ہوئے فرماتے ہیں:

علم ہے رحمت عالمؐ کا پرچم ہے نبوّت کا

یہی پرچم ہے اسلامی مساوات و اخوّت کا

یہ پرچم برسرِ لاہور ’’غازی‘‘ نے ہے لہرایا

یہ پرچم ہے طفیلِ مصطفیؐ، اللہ کا سایہ

آخر میں صاحب معراج صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے وسیلہ جلیلہ سے دعا کرتے ہیں:

طفیلِ رحمت لّلعالمیںؐ یہ بھی سعادت دے

ہمیں اسلام کے غازی بنائے اور شہادت دے

یہ لاہور اتحاد قوم کا سرتاج ہو جائے

عروج اس کا قبول اے صاحب معراجؐ ہو جائے ۔172

رزمیہ منظومات کے ایک انتخاب ’’خامہ خونچکاں اپنا‘‘ ۱۷۳؂ میں حفیظ کی ایک نظم ’’فوج پاکستان کو شاعر اسلام کا سلام‘‘ شائع ہوئی تھی۔ جس میں ابوالاثر نے برّی، بحری اور فضائی افواج کو نذرانۂ سلام پیش کیا ہے۔ اور ان افواج کو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے نام کا معجزہ قرار دیا ہے اور اس بات پر فخر اور انبساط کا مظاہرہ کیا ہے کہ فاتح بدر و حنین، سیّد الکونین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم پوری سپاہ کے سپہ سالار ہیں:

فوج پاکستان کے ہر اک فدائی کو سلام

لشکرِ برّی و بحری و فضائی کو سلام

اور اونچا کر دیا جس نے علم اسلام کا

فوج حق ہے، معجزہ ہے مصطفیؐ کے نام کا

عام فوجی ہے کہ افسر یا بڑا سردار ہے

اب محمد مصطفیؐ سب کا سپہ سالار ہے ۔174

پروفیسر ارزش جے پوری پاک فضائیہ کے شاہینوں کے کمالات کا سبب عشق دین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کو سمجھتے ہیں۔ نظم ’’جام زہر‘‘ میں اس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:

فضائیہ کمک کے واسطے اٹھی تو دفعتاً

نجوم نیک فال بن کے آسماں پہ چھا گئی

گرائے بم تو اس طرح مہیب ٹینک پھٹ پڑے

کہ جیسے سر پہ فیل کے وہ کنکری گرا گئی

بعشقِ دینِ مصطفیؐ ورائے فکر جسم و جاں

بحکم ربّ ذوالجلال معجزے دکھا گئی ۔175

حمید نسیم کی نظم ’’ارض سیالکوٹ‘‘ میں اقبال کے جائے پیدائش کو نذرانۂ عقیدت کے پھول نذر کرتے ہوئے اس سرزمین کو دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی آبرو کی پائندگی کا سبب گردانا گیا ہے:

پائندہ تجھ سے دینِ محمدؐ کی آبرو

ارضِ سیالکوٹ حرم مرتبت ہے تو

باطل سے جنگ میں تری عزت ہوئی دو چند

اے غازیوں کے شہر تری خاک ارجمند

تابندہ تُو ہے، تُو ہے زمانے میں سر بلند ۔176

ظہیر نیاز بیگی ’’افواج پاکستان‘‘ میں عسکری ادارے کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ہمت و جرأت کے پیکر، صاحب عزم و یقیں

امّت محبوب داورؐ کے زمانے میں امیں

یہ ضعیفوں کے لیے خلقِ پیمبرؐ کا جمال

ان کی ہستی، ہستئ ظالم بہ قہر ذوالجلال ۔177

عشرت رحمانی جنگ ستمبر میں نمایاں کردار ادا کرنے والی سر زمین سیالکوٹ کو اپنی نظم ’’حصار عہد آفریں سیالکوٹ کو سلام‘‘ میں زبردست داد و تحسین سے نوازتے ہیں:

وہ باطل و حق کی جنگ ایک عظیم معرکہ

زمانہ جس کو سن کے دنگ ایک عظیم معرکہ

مجاہدین مختصر مگر عظیم ہمتیں

خدائی ہاتھ ساتھ ساتھ اور اس کی نصرتیں

لیے ہوئے جلو میں برکت شفیع مذنبیںؐ

حصار عہد آفریں، سیالکوٹ کی زمیں

اسی طرح ایک اور بند کے آخر میں کہتے ہیں:

مبارک اے پناہ دینِ رحمت للعالمیںؐ

حصار عہد آفریں، سیالکوٹ کی زمیں ۔178

ابوالطاہر فدا حسین فدا ’’وادئ لاہور‘‘ میں داتا کی نگری پر خراج عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے کہتے ہیں:

وادئ لاہور تجھ پہ سایۂ یزداں رہے

رحمت حق کا سدا ہوتا رہے تجھ پہ نزول

حامی و ناصر ترا اللہ کا پیارا رسولؐ

زندہ و پائندہ یا ربّ! قلب پاکستاں رہے

وادئ لاہور تجھ پہ سایۂ یزداں رہے ۔179

حافظ غازی آبادی ’’ارض پاک سیالکوٹ‘‘ میں شہر اقبال و فیض کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اُس طرف گاگر میں گنگا جل یہاں کوثر کا جام

اُس طرف راون کے بیٹے اس طرف حق کے غلام

اُس طرف وحشی درندے، جاہل و بدخو تمام

اس طرف سینہ سپر ہے امّتِ خیرالانامؐ

اس طرف قرآن ہے اسلام ہے ایمان ہے

اُس طرف باطل ہے ظلم و جور کا سامان ہے ۔180

حافظ مظہر الدین اپنی نظم ’’جہاد و جنگ‘‘ میں جہاد و قتال کو فرض قرار دیتے ہوئے فوج پاکستان کی خصوصیت بتاتے ہیں کہ جنگ کے ہنگام میں بھی فوج کے لبوں پر نعتِ شہنشاہِ دوسرا صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم جاری رہتی ہے:

ہوائیں شعلہ فشاں ہیں، فضائیں شعلہ فشاں

لرز رہا ہے حریفانِ تیرہ دل کا جہاں

ترانہ ریز و رجز خواں ہے فوج پاکستاں

فضائے جنگ میں بھی یاد مصطفیؐ کی ہے

لبوں پہ نعت شہنشاہِ دوسراؐ کی ہے ۔181

شیر افضل جعفری ’’کیا کیا نظر آئے‘‘ میں اپنی فوج ظفر موج کی تعریف رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے حوالے سے کرتے ہیں:

سائے میں رسول عربیؐ کے جو پلی ہے

وہ فوج ظفر موج لپکتی نظر آئے ۔182

ملّی شاعری میں صاحب ملّت علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے ناگزیر ذکرِ دل پذیر کی ایک اور نظیر مندرجہ بالا شعری امثال بھی ہیں۔ جن میں شاعروں نے شہروں اور عسکری اداروں خراجِ تحسین پیش کرتے وقت بھی سرکارِ دو عالم، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا سہارا لینا ضروری سمجھا ہے۔

(و) ختمی مرتبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے وسیلے سے دعائے فتح و نصرت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دوسرے باب (دیکھیے ص 30) میں سورۂ بقرہ کی آیت: 89 کی تفسیر کے حوالے سے بیان کیا جا چکا ہے کہ متعدد مفسرین کرام اس بات پر متفق ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی بعثت سے قبل یہودی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکے وسیلۂ مبارک سے دشمنوں پر فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے مسلمان بدرجہ اولیٰ اس بات کے حق دار ہیں کہ وہ اپنے ہادی و رہبر صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے واسطے سے ربّ کائنات سے اپنے دشمنوں پر فتح و نصرت کے طالب ہوں۔ اسی باعث ہر دور کے مسلمان شعراء کے ہاں اس بات کا خصوصی التزام ملتا ہے۔ چھے ستمبر کی جنگ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ چند منتخب امثال مندرجہ ذیل ہیں۔

رحمان کیانی پاک فضائیہ سے اپنی وابستگی کا حق ادا کرتے ہوئے وقت رخصت اپنے ہوا بازوں کے لیے اپنی نظم ’’دعا‘‘ میں دعا گو ہیں:

الٰہی! تجھے واسطہ ہے نبیؐ کا

حسینؓ و حسنؓ، فاطمہؓ اور علیؓ کا

دیارِ نبیؐ و زمینِ حرم کا

سر عرش کرسی و لوح و قلم کا

انھیں زورِ بازوئے حیدرؓ عطا کر

انھیں جوش پروازِ جعفرؓ عطا کر ۔183

جعفر طاہر بھی فتح و کامرانی کی دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں:

پئے جہاد رضائے کرم کے طالب ہیں

علیؓ کی تیغ نبیؐ کے علم کے طالب ہیں

خدا عدو پہ ہمیں فتح و کامرانی دے

ضعیف ہیں تو وہ بارِ دگر جوانی دے ۔184

عبدالعزیز خالد اپنی نظم ’’مژدۂ فتح مبیں‘‘ میں تاجدار عرب و عجم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکا واسطہ دیتے ہوئے ربّ کائنات سے ملتمس ہیں:

کون پاکستان کا تیرے سوا

حامی و ناصر، مددگار و معیں

ہم تری تائید کے محتاج ہیں

ہم غلامانِ رسولِ آخریںؐ ۔185

’’اے محمدؐ کے خدا‘‘ میں امید فاضلی بھی ملک و ملّت کی فح و نصرت کے لیے خدائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم سے التجا کرتے ہیں:

اے محبت کی تجلّی! اے محمدؐ کے خدا!

اے کہ تیرے نور کا آئینہ، ذاتِ مصطفیؐ

اے خدائے جزو و کل! نصرت کا پھر پیغام دے

اس وطن، اس قوم، اس ملّت کو استحکام دے ۔187

خورشید خاور امروہوی ’’زندہ دلانِ لاہور کی خدمت میں گلہائے عقیدت‘‘ نامی نظم میں مجاہد ملّت خادم حسین اور غازیوں اور شہیدوں کے لیے بارگاہِ رب العزت میں دعا گو ہیں:

گود میں کھیلیں حوروں کی خادم حسین

ہوں مددگار ان کے جمیل الشّیمؐ

غازیوں پر رہے سایۂ ذوالجلال

ہوں شہیدوں کے شافع شفیع الاممؐ ۔188

حبیب احمد صدیقی حبیب بدایونی ’’آہنگ وقت‘‘ کے آخری شعر میں رحمت حق سے بوسیلۂ نبیِ امّی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم سہارا طلب کرتے ہیں:

ہر چند کہ عاصی سہی امّت ہے نبیؐ کی

درکار ہے اے رحمت حق تیرا سہارا ۔189

حفیظ جالندھری ’’کشمیر کے جاں باز‘‘ میں فریاد کناں ہیں اور خدائے بزرگ و برتر سے اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے وسیلۂ جلیلہ سے امداد کے طالب ہیں:

خدا وندا! ترے محبوبؐ کی امّت پہ حملہ ہے

تری نصرت سے یہ غازی مجاہد فتح پاتے ہیں ۔190

مسلمان وہی ہے جو مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ بزم میں اور رزم میں مولائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکی خوشنودی کو مدّ نظر رکھا جائے کیوں کہ ’’رضائے خدا ہے رضائے محمدؐ‘‘۔ اسی لیے ہنگامِ جہاد ایک مجاہد دشمن پر فتح کے حصول کے لیے محبوبِ ربّ العالمین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا وسیلۂ جلیلہ اختیار کرتا ہے۔ مندرجہ بالا امثال اسی بات کی شہادت میں پیش کی گئی ہیں۔

(ز) بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم میں فریاد و استمداد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلممیں امّت مسلمہ کا استغاثہ پیش کرنے کی روایت صرف نعتوں میں ہی نہیں ملّی شاعری میں بھی قدیم دور سے چلی آ رہی ہے۔تاہم اس کو استحکام حالیؔ کے ہاتھوں نصیب ہوا ہے۔ اس کے بعد سے آج تک بیشتر ملّی شعراء کے ہاں اس روایت کی پاس داری کا رجحان ملتا ہے۔ اور موقع بموقع ملّت اسلامیہ کی کسمپرسی اور تباہ حالی پر بارگاہِ سیّد الکونین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمسے استمداد طلب کی جاتی رہی ہے۔ اس کی جھلکیاں جنگ ستمبر سے متعلق شاعری میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ مثلاً ’’التماس‘‘ کے عنوان سے طویل بحر میں نعیم صدیقی کی ایک نظم ہے۔ جس کا ٹیپ کا مصرع ہے: ع

ہم گنہگار شیدائیوں کی طرف اک نظر سرورِ دو جہاںؐ دیکھیے

شاعر بارگاہِ رسالت میں فریاد لے کر پہنچا ہے کہ دشمنوں نے ملّت پاک پر حملہ آور ہو کر بے گناہ بزرگوں، بچّوں، ماؤں اور بہنوں کا خون بہایا ہے۔ کشمیر کی وادئ جنت نظیر میں خون کی ندیاں رواں ہیں اور کشتِ گل جیسے کشتِ شرر بن گئی ہے۔ لیکن ملّت کے پاسبان آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے عشق میں سرشار ہیں اور صفحۂ دہر پر عاشقی کی نئی نئی داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔ مختلف نسلوں اور مختلف بولیوں والے آج ہم سخن اور ہم زبان ہوگئے ہیں۔ یہ کارواں جو کاروانِ اسلام ہے اس کی ابتلا اور امتحان کا وقت ہے۔ اور یہ کاروانِ ملّت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی چشم کرم کا طالب ہے۔

چوں کہ نظم کے ہر شعر کا اختتام ’’دیکھیے‘‘ کی ردیف پر ہوتا ہے اور شاعر کا روئے سخن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکی جانب ہے اس لیے پوری نظم کا ہر شعر نعتیہ پہلو کا بھی حامل ہے۔ بخوفِ طوالت صرف چند اشعار ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔

ہم گنہگار شیدائیوں کی طرف اک نظر سرورِ دو جہاںؐ دیکھیے

آفتیں دیکھیے، مشکلیں دیکھیے، ابتلا دیکھیے، امتحاں دیکھیے

پھول روندے ہوئے، غنچے مسلے ہوئے، شاخیں ٹوٹی ہوئیں، پتّے بکھرے ہوئے

تھی دعا آپؐ کی جس کی بادِ صبا، آج اپنا وہی گلستاں دیکھیے

کیسے دوزخ کی لو آج چلنے لگی، سوئے کشمیر جنت فشاں دیکھیے

دیووں بھوتوں کے قبضے میں ہے آج کل حسن فطرت کا باغ جناں دیکھیے

شاہراہوں پہ اک بھیڑ ہے ان دنوں، غازیوں کی قطاریں رواں دیکھیے

آپؐ کے عشق کی مے سے سرشار ہیں ملّت پاک کے پاسباں دیکھیے

آج شمشیر حق بن گئی ہے قلم، خون کی روشنائی ہوئی ہے بہم

صفحۂ دہر پر ہو رہی ہے رقم، عاشقی کی نئی داستاں دیکھیے

آپؐ کا کارواں ہے عجب کارواں، ایک ہی راہ پر ایک دھن میں رواں

ہم نظر دیکھیے، ہم سفر دیکھیے، ہم قدم دیکھیے، ہم عناں دیکھیے

مختلف ان کی نسلیں ہیں، انساب ہیں، ایک ہی داستاں کے یہ ابواب ہیں

مختلف بولیاں بولتے ہیں مگر، ان کو یاں ہم سخن ، ہم زباں دیکھیے

ہم گنہگار شیدائیوں کی طرف اک نظر سرورِ دو جہاں دیکھیے ۔191

پروفیسر غلام جیلانی اصغر اپنی نظم ’’سرزمین سرگودھا کو سلام‘‘ میں امّت محمدیہ علیہ الصّلوٰۃ والتّسلیم کے لیے احمد مختار صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم سے عظمت کردار کی بھیک مانگتے ہیں:

اے صاحبِ لولاک لماؐ، صاحبِ اسرارؐ

اے توؐ کہ تراؐ ذکر ہے سرمایۂ اذکار

دانائے سبلؐ، جرأت کردار عطا ہو

امّت کو وہی عظمت کردار عطا ہو ۔192

خلیق قریشی دربارِ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم میں امّت کی فریاد لے کر پہنچے ہیں اور اپنی نظم ’’عہد‘‘ میں کہتے ہیں:

ختم یہ باب بفیض شہِ لولاکؐ ہوا

مرا محبوبِ سخن اب وطن پاک ہوا

دامنِ شاہِ مدینہؐ سے لپٹ جاؤں گا

روؤں گا رحمت عالمؐ کو یہ بتلاؤں گا

مرے مولا!ؐ تریؐ امّت کی یہ فریاد ہے آج

مرے آقاؐ! ہے ترےؐ ہاتھ ترےؐ دین کی لاج ۔193

ایک اور نظم ’’فریاد بحضور سرور کائناتؐ‘‘ میں بھی خلیق قریشی ملّت کا استغاثہ لے کر حاضر ہوئے ہیں۔ اور حالی سے استفادہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اے سرور کونینؐ! شہِ ارض و سما دیکھ!

امّت پہ تریؐ آج ہے کیا وقت پڑا دیکھ!

منجدھار ہے اور اس میں ہے ملّت کا سفینہ

اے ساحلِ تسکینؐ! یہ امواج بلا دیکھ!

یہ ارض مقدس کہ وطن ہے ترےؐ دیں کا

اے شاہِ اممؐ! اس کو بعنوانِ خطا دیکھ! ۔194

شورش کاشمیری ’’ایک عہد ایک دعا‘‘ میں دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم سے رجوع کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

شورش ہو کرم انؐ کا تو پھر خوف نہیں ہے

دربارِ رسالتؐ میں دعا کرتے رہیں گے ۔195

کشمیریوں کی خستہ حالی اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کی دہائی لے کر ناز سیٹھی بارگاہِ شاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلممیں پہنچے ہیں۔ ’’التجا بحضور شاہِ دو عالمؐ‘‘ میں امداد کے لیے جھولی پھیلاتے ہوئے کہتے ہیں:

تلاطم خیز ہے طوفانِ غم، کشمیر میں شاہاؐ!

نزول صد بلا ہے دم بدم کشمیر میں شاہاؐ!

نکالا گھر سے کشمیری مسلمانوں کو اور ان پر

کیا ہے دشمنِ دیں نے ستم کشمیر میں شاہاؐ!

مسلمانوں کے خوں سے سرخ ہے رنگِ شفق اس کا

زمیں خونِ شہیداں سے ہے نم کشمیر میں شاہاؐ!

فلک روتا ہے خوں ان بے کسوں کی خاک تربت پر

کیا کفّار نے جن پر ستم کشمیر میں شاہاؐ!

دعا ہے نازؔ کشمیری مسلمانوں کے حق میں یہ

ہوں ان کے آگے سر باطل کا خم کشمیر میں شاہاؐ! ۔196

دورِ ابتلا میں دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم سے رجوع کرنے کی روایت ملّی شاعری میں ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ جنگِ ستمبر بھی ایسا ہی ایک دور تھا جب ملک و ملّت کے بچاؤ کے لیے بطور استغاثہ و استمداد شاعروں کا رخ خود بخود سوئے مدینہ ہوگیا۔ اوپر دیے گئے اشعار میں اسی احساس کو نظم کیا گیا ہے۔

(ح) عزم فتح اور حصولِ فتح کے بعد اظہارِ تشکّر میں تذکرۂ رسولِ مبینصلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے سے کئی گنا بڑے اور طاقتور دشمن کے سامنے صرف ہمارے جاں باز ہی ڈٹ کر نہیں کھڑے ہوئے بلکہ جہاد قلم کے حامل شعراء بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ یہ شاعر اپنی فتح کے لیے پرعزم تھے اس لیے ان کے لہجے میں ایک للکار، ایک تیقّن موجود ہے جو حصول فتح کے بعد اظہار تشکر میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ایسی بیشتر منظومات میں شاعروں نے تذکرۂ فاتح مکہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے اپنے پرعزم ارادوں کو قوی بھی کیا ہے اور نذرانۂ تشکر بھی پیش کیا ہے۔ مثلاً صبا اکبر آبادی کو یقین ہے کہ رحمت باری تعالیٰ غازیوں کے ساتھ ہے۔ اور یہ غازی چوں کہ شہنشاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے غلام ہیں اس لیے ہر موڑ، ہر گام پر فتح ان کے قدم چومے گی۔ اقبال کی نظم ’’فتح ہماری‘‘ اسی عزم کی عکاسی کرتی ہے:

ہے سطح سمندر پہ رواں اپنا سفینہ

چھلنی کریں دشمن کا ہر اک وار پہ سینہ

غازی ہیں غلامانِ شہنشاہِ مدینہؐ

ہر موڑ پہ ہر گام پہ ہے فتح ہماری

ہم غازیوں کے ساتھ میں ہے رحمت باری ۔197

سیّد ضیا جعفری ’’سحر نو کی کرن‘‘ میں قسم کھا کر کہتے ہیں:

اب تو چھوڑیں گے نہ حیدرؓ کی قسم

اپنا حق لیں گے پیمبرؐ کی قسم ۔198

جمیل نقوی ’’نمود صبح‘‘ میں اقبال سے استفادہ کرتے ہوئے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی قسم کھا کر اپنے ارادوں کا اظہار کرتے ہیں:

رسولِ برحقؐ و سرخیل انبیاءؐ کی قسم

عدو قوی تو نگہبان اس سے بڑھ کے قوی

نہ بجھ سکا نہ بجھے گا کبھی خدا کی قسم

سمومِ بولہبی سے چراغ مصطفویؐ ۔199

اسی عزم مصمّم کا اظہار محمد صفدر میر نے اپنی طویل آزاد نظم ’’سیالکوٹ کی فصیل‘‘ میں بھی کیا ہے:

خدائے حق ابھی تو حشر دور ہے

ابھی سے جنّتوں میں جاکے کیا کریں گے

تیری ارض پاک کو ہمارے خوں کی احتیاج ہے

ہم ترے حضور میں

ترے رسولؐ کی قسم

ترے رسولؐ کی ندا پہ آئے ہیں...

ہم یہاں ترے رسولؐ کی جہاد کی دعا سنانے آئے ہیں ۔200

ایک اور آزاد نظم ’’ہم بڑھے آ رہے ہیں‘‘ میں احمد راہی اسی یقین کے ساتھ، جو ایک مجاہد کا خاصہ ہے، باور کراتے ہیں:

ہم اللہ کے بندے

محمدؐ کے پیرو، علیؓ کے نڈر شیر ہیں

جن کے ہاتھوں میں خالدؓ کی تلوار ہے

جن کا ورثہ ہے طارقؒ کا عزم بلند

جن کو اقبالؒ درسِ خودی دے گیا

اور قائدؒ پیامِ یقین و عمل ۔201

طفیل ہوشیار پوری اس بات پر خدا کے شکر گزار ہیں کہ اس نے اس خیر و شر کی جنگ میں بفیض مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم ہماری مدد کر کے ہم پر احسان کیا۔ نظم کا عنوان بھی ’’اللہ تیرا شکر ہے‘‘ رکھا گیا ہے:

اللہ تیرا شکر ہے، اللہ تیرا شکر ہے

آئی لہو میں ڈوب کر، جب چھے ستمبر کی سحر

الجھے ہوئے آئے نظر، اک دوسرے سے خیر و شر

اس خیر و شر کی جنگ میں، کر کے مدد ہر رنگ میں

تونے بفیض مصطفیؐ، ہم پر بڑا احساں کیا

اللہ تیرا شکر ہے ۔202

اس احساس تشکّر میں احسان دانش بھی شریک ہیں۔ نظم ’’صبح پیکار‘‘ ؂ کے اشعار شاہد ہیں:

سب کو اگرچہ فضل خدا سے ملی مراد

پائی ہر اک نے اپنے ہی عزم و عمل کی داد

اس پر بھی قولِ قائد اعظم تھا سب کو یاد

یعنی یقینِ محکم و تنظیم و اتحاد

یاں نقطۂ نگاہ بھی، ایماں بھی ایک تھا

اللہ بھی، رسولؐ بھی، قرآں بھی ایک تھا ۔203

شاہد مظفر نگری، ’’مجاہدین ذی وقار‘‘ میں دعائے فتح و نصرت مانگتے ہوئے کہتے ہیں:

تمھارے ساتھ ہے خدا، تمھارے ساتھ مصطفیؐ

نصیب فتح ہو تمھیں، ہے ساری قوم کی دعا ۔204

عظیم قریشی اپنی نظم ’’بقائے دوام کے راہی‘‘ میں کامیابی کے حصول کو خواجۂ کون و مکاں، نبیِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا صدقہ قرار دیتے ہیں:

خواجۂ کون و مکاںؐ اپنے مددگار ہوئے

اُنؐ کے صدقے ہی میں یہ ہم کو ملی ہے نصرت

اسیؐ اک نام سے تاباں رہے قالب اپنے

ایسے بدلی تیرےؐ بیٹوں نے وطن کی قسمت ۔205

محشر بدایونی کو کامل یقین ہے کہ فتح و نصرت تو محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے غلاموں کی ادنیٰ کنیز ہے۔ نظم ’’ضرب حق‘‘ اُن کے اس یقین محکم کا اظہار ہے:

مٹا سکو گے نہ لوح زمیں سے تم ہم کو

خدا کے دین کا نقش دوام ہیں ہم لوگ

سنو! کہ حرّیت و فتح ہے ہماری کنیز

محمد عربیؐ کے غلام ہیں ہم لوگ ۔206

’’خون شہیداں کی قسم‘‘ میں خلیق قریشی پُر یقین ہیں کہ وطن پاک کی جانب جو بھی نظر بد اٹھے گی وہ خواجہ ہردو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے طفیل خاک بسر ہوجائے گی:

رحمت ہردو جہاںؐ، خواجۂ ہردو عالمؐ

تیریؐ امّت کو ترےؐ سایۂ داماں کی قسم

جس سے اسلام کی عظمت کو ملی تاب و تباں

ہاں اسی قافلۂ بے سرو ساماں کی قسم

وطن پاک کی جانب جو نظر اٹھے گی

خاک ہوجائے گی اور خاک بسر اٹھے گی ۔207

ثاقب حزیں ’’اے وطن‘‘ میں اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ ہادئ برحق صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکے پیغام حق کو باطل کبھی دبا نہیں سکتا:

جو پیام حق دیا تھا ایک امّیؐ نے کبھی

دب نہیں سکتا وہ باطل کے دبانے سے کبھی

کفر بھی اب بھول سکتا ہی نہیں حملے کبھی

گونج اٹھا تھا نعرۂ تکبیر سے سارا ہی من

اے وطن، میرے وطن، میرے وطن، میرے وطن ۔208

ربیعہ فخری ’’اے خون شہیداں تیری قسم‘‘ میں اقبال و قائد کے گلشن اور مرکز دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم یعنی پاک سر زمیں کی حفاظت کے لیے شہیدوں کے لہو کی قسم کھاتی ہیں:

ہے مرکزِ دینِ مصطفویؐ، پاک زمیں یہ پاک وطن

اقبال کا ہے یہ خواب حسیں، قائد کی تمناؤں کا چمن

قائد کے لگائے گلشن کو سینچیں گے ہمیشہ خون سے ہم

اے خونِ شہیداں تیری قسم ۔209

مظہر الدین نظم ’’غازیان وطن‘‘ میں باطل کی شکست پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

پھر رزم گاہ میں ہیں غلامانِ مصطفیؐ

پھر کفر ہے شکست کی ذلّت سے آشنا

دشمن کے ہر محاذ پہ کہرام ہے بپا

میدان میں ہے فوج شہِ مشرقینؐ کی

پھر یاد تازہ ہو گئی بدر و حنین کی ۔210

حیات اجمیری ’’عزم نو‘‘ میں پرعزم ہیں کہ کفر آندھیاں نورِ چراغِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کو بجھانے میں کامیاب کبھی نہیں ہو سکتی:

کفر کی آندھی میں روشن ہی رہیں گے یہ چراغ

ہیں چراغِ مصطفیؐ کے نور کی تنویر ہم

ہم غلامانِ محمدؐ بن کے زندہ ہیں حیات

جانتے ہیں انؐ کے نام پاک کی تاثیر ہم ۔211

ارشاد احمد شاکر کی نظم ’’نہ چھیڑ مجھے‘‘ میں دشمنانِ وطن کو خبردار کیا گیا ہے کہ غلامِ صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کو چھیڑنے کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے:

محافظ وطن پاک ہوں نہ چھیڑ مجھے

غلامِ صاحبِ لولاکؐ ہوں نہ چھیڑ مجھے

جہاں میں میری شجاعت کا چار سو شہرہ

کہ میں ہوں شیر نیستانِ احمدِ عربیؐ

مری نوا سے فضاؤں میں برق ہے لرزاں

کڑک ہوں، رعد ہوں، کاشانہ سوزِ بولہبی

محافظ وطن پاک ہوں نہ چھیڑ مجھے

غلامِ صاحبِ لولاکؐ ہوں نہ چھیڑ مجھے ۔212

صنعت توشیح میں صہبا اختر نے اپنی نظم کے عنوان ’’پاکستان کی فتح‘‘ کے ہر حرف سے مصرع لکھا ہے اور نعرۂ ہو بلند کیا ہے:

س سے سرّ محمدؐ جو ہے صبح ازل کا شعلہ، ہُو!

ا سے اللہ، الف سے احمدؐ بیچ میں نور کا پردہ، ہُو!

ف سے فاتح بدر و حنینؐ کی عظمت کا اندازہ، ہُو! ۔213

’’اے شہیدان وطن تم پر سلام‘‘ میں اثر ترابی شہیدان وطن کو نذرانۂ سلام پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ غلامانِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم ایک دن کشمیر پر اسلام کا پرچم ضرور لہرائیں گے:

پرچم اسلام کھلتا جائے گا

ایک دن کشمیر پر لہرائے گا

عزم رکھتے ہیں محمدؐ کے غلام

اے شہیدان وطن تم پر سلام ۔214

مولانا ظفر علی خان کے مشہور مصرعے ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘ کے عنوان سے اپنی نظم میں حافظ غازی آبادی اس یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ باغِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم اس جہان میں پھولے پھلے گا اور بندگانِ حق حرمت دین رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم پر جان بھی قربان کر دیں گے:

پھولے پھلے گا باغِ رسالتؐ جہان میں

اسلام کے شجر کو مٹایا نہ جائے گا

دے دیں گے جان حرمتِ دین رسولؐ پر

ہم بندگانِ حق کو ڈرایا نہ جائے گا ۔215

حافظ نور محمد انور ’’میں غازی ہوں‘‘ میں حیاتِ جاوداں کا راستہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں:

میں غازی ہوں خدا کے نام پر گردن کٹا دوں گا

جہاں سے ظلمتِ باطل کو میں یکسر مٹا دوں گا

جنابِ مصطفیؐ کے دیں کی عزّت پر فدا ہوکر

حیاتِ جاوداں کا راستہ سب کو بتا دوں گا ۔216

نامِ نامئ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم مومن کی رگوں میں لہو بن کر گردش کرتا ہے اور اس کی ساری تگ و دو رضائے نبی علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ باطل قوتوں پر فتح یابی اسے احساس دلاتی ہے کہ یہ فتح و نصرت اسے اسی نامِ نامی کی برکت سے حاصل ہوئی ہے۔ اس لیے وہ اظہارِ تشکّر میں فاتح بدر و حنین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا حوالہ اپنے اوپر لازم کرلیتا ہے۔ جس کی مثالیں اوپر دیکھی جا سکتی ہیں۔

(ط) متفرقات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ذیل میں متنوّع موضوعات کی حامل منظومات سے ایسی نظیریں پیش کی جاتی ہیں جو حوالۂ رسولِ آخریں صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی حامل ہیں۔

کیف بنارسی کی ایک نظم ’’دوارکا کی تباہی‘‘ کے عنوان سے ہے۔ جس میں وہ اس بات پر اظہار مسرّت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ غلامانِ شاہِ حجازی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم دوارکا کو تباہ کرنے چل پڑے ہیں

یہ سنتے ہی بحری مجاہد اٹھے

عزائم کے طوفاں دلوں میں لیے

سمندر کی ہر لہر پر چھا گئے

تڑپ کر اندھیروں کو چمکا گئے

عدو کے لیے تو قضا بن گئے

کراچی کے لب پر دعا بن گئے

غلامانِ شاہِ حجازیؐ چلے

ہتھیلی پہ سر لے کے غازی چلے ۔217

سات ستمبر 1968 کو جب پاک فضائیہ کو قومی پرچم دیا گیا 218؂ اس پر رحمان کیانی نے ’’اور جب پرچم ملا‘‘ کے عنوان سے نظم لکھی تھی۔ جس کے آخری بند میں اس پرچم کو دعائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم سے منسوب کیا گیا تھا:

اب اس علَم کی اور کیا تعریف ہو رقم

’النجم والقمر‘ ہو پھریرے پہ جب بہم

بہتر یہی ہے ہاتھ سے رکھ دوں یہیں قلم

کہہ دوں جو کہہ سکوں پئے تسلیم ہوکے خم

یہ رحمت خدا ہے، دعائے رسولؐ ہے

کعبے کا ہے غلاف، ردائے بتولؓ ہے ۔219

’’نبی الملاحمؐ‘‘ عنوان کی رو سے بظاہر نعت ہے لیکن بیشتر اشعار بانئ رسم جہاد صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلمکے فلسفۂ جہاد کے تذکرے پر مشتمل ہیں۔ رحمان کیانی خود اس بات کی وضاحت کرتے ہیں:

نعتِ رسولؐ کا یہ طریقہ عجب نہیں

سمجھیں عوام داخلِ حدّ ادب نہیں

لیکن یہ طرز خاص مرا بے سبب نہیں

شیوہ سپاہیوں کا نوائے طرب نہیں

رائج ہزار ڈھنگ ہوں ذکرِ حبیبؐ کے

شاہیں سے مانگیے نہ چلن عندلیب کے

جب بھی سپاہیوں سے پیمبرؐ کو پوچھیے

خندق کا ذکر کیجیے خیبر کو پوچھیے

بدر و احد کے قائدِ لشکرؐ کو پوچھیے

یا غزوۂ تبوک کے سرورؐ کو پوچھیے

ہم کو حنین و مکّہ و موتہ بھی یاد ہیں

ہم امّتی بانئ رسم جہادؐ ہیں

لاکھوں درور ایسے پیمبرؐ کے نام پر

جو حرفِ لا تخف سے بناتا ہوا نڈر

اک جاوداں حیات کی بھی دے گیا خبر

یعنی خدا کی راہ میں کٹ جائے سر اگر

ہم کو یقین ہے کبھی مرتے نہیں ہیں ہم

اور اس لیے کسی سے بھی ڈرتے نہیں ہیں ہم ۔220

اسلام میں دشمن سے جنگ و جدل کے بھی کچھ اصول ہیں۔ جن کی تاکید مولائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کر کے گئے ہیں۔ ان اصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے احسان دانش اپنی نظم ’’صبح پیکار‘‘ میں کہتے ہیں:

ہر وقت غازیوں کے تصوّر میں تھی یہ بات

برحق ہے کہہ گئے ہیں جو مولائے کائناتؐ

احسان و در گزر بھی ہے ایمان کی زکات

بچّوں پہ عورتوں پہ اٹھائے نہ کوئی ہات

قیدی ہوں کہ مریض ہماری اماں میں ہیں

گل ہوں کہ خار، فن کدۂ باغباں میں ہیں

باغوں کو کھیتیوں کو جلائے نہ کوئی شخص

غلّہ جہاں ہو آگ لگائے نہ کوئی شخص

شہروں میں شہریوں کو ستائے نہ کوئی شخص

بچّوں کو باپ ماں سے چھڑائے نہ کوئی شخص

اشکوں پہ جبر چشمۂ کوثر کا خون ہے

عصمت کا خون، روح پیمبرؐ کا خون ہے ۔221

’’وادئ کشمیر سے‘‘ میں عاطر ہاشمی وادئ جنّت نظیر کو عظمت شہِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے سہارے تسلّی دیتے ہیں:

چمکائیں گے ہم تیرے مقدر کے ستارے

ہاں! اس شہِ لولاکؐ کی عظمت کے سہارے

اے خواب کی تعبیر! اے وادئ کشمیر! ۔222

منیر نیازی نظم ’’اپنے وطن پر سلام‘‘ میں وطن عزیز کی اساس کی نشان دہی کرتے ہیں:

اے وطن! اسلام کی امید گاہِ آخری، تجھ پر سلام

کل جہاں کی تیرگی میں اے نظر کی روشنی تجھ پر سلام

تو ہوا قائم خدا کی برتری کے نام پر

بازوئے حیدرؓ، جمال احمدیؐ کے نام پر ۔223

خلیق قریشی نظم ’’وطن کو سلام‘‘ میں اپنے وطن کو التفات شہِ بطحا صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم حاصل ہونے کے باعث سلام عقیدت پیش کرتے ہیں:

حاصل ہے جس کو سرور بطحاؐ کا التفات

اس سر زمین فخر زمن کو مرا سلام ۔224

’’ارض پاک‘‘ میں ظہور الحق ظہور دل میں عشق نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم بسانے اور وطن دشمن عناصر کو مٹانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں:

محمدؐ کی غلامی میں نہاں ہے رازِ آزادی

ہمیں عشق نبیؐ دل میں بسانے کی ضرورت ہے

وطن کے نوجوانو! خیر اندیشو! نگہبانو!

وطن دشمن عناصر کو مٹانے ضرورت ہے ۔225

جنگ ستمبر میں انڈونیشیا کی جانب سے پاکستان کی غیر مشروط اور فراخ دلانہ حمایت پر ساغر صدیقی اپنی نظم ’’گرمئ بازار انڈونیشیا‘‘ میں برادر ملک کے شکر گزار ہیں:

مرحبا مردِ جری معمارِ انڈونیشیا

مرحبا اے گرمئ بازارِ انڈونیشیا

تیرا دل روشن رسول اللہؐ کے پیغام سے

چشم ہے مخمور تیری حرّیت کے جام سے ۔226

’’کھری کھری‘‘ میں محمد مسلم بھارت سے مخاطب ہوکر واشگاف الفاظ میں باور کراتے ہیں کہ غازیوں کو صرف خدا تعالیٰ کا کرم اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی رحمت مطلوب ہوتی ہے اور کچھ نہیں:

فخرِ ملّت غازیوں کو ہر گھڑی مطلوب ہے

چشم رحمت مصطفیؐ کی، حق تعالیٰ کا کرم ۔227

علامہ غلام شبیر بخاری نظم ’’پاک پرچم‘‘ میں خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے حوالۂ جلیلہ سے پرچم ارض پاک کو سلام عقیدت کا ہدیہ پیش کرتے ہیں:

اے ارضِ پاک کے پرچم! سلام ہو تجھ پر

لوائے مرسل خاتمؐ! سلام ہو تجھ پر

نشانِ رحمت پروردگار! تجھ پہ سلام

اے گلشن نبویؐ کی بہار! تجھ پہ سلام

خدائے پاک کی رحمت سلام کہتی ہے

نگاہِ لطف نبوّت سلام کہتی ہے ۔228

آٹھویں باب (دیکھیے ص 191) میں گزر چکا ہے کہ حفیظ جالندھری قیام پاکستان کو رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا معجزہ قرار دیتے ہیں۔ اسی سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار پرواز جالندھری نے اپنی نظم ’’اسوۂ شبیرؓ‘‘ میں کیا ہے:

اے مملکت پاک کے معمار معظّمؐ

اے نور کے پیکر! تری تنویر کے صدقے ۔229

سیدہ مقصودہ بانو نقوی اپنی نظم ’’ماں کے تاثرات (بیٹے کی شہادت پر)‘‘ میں ایک ماں کے دعائیہ کلمات نظم کرتی ہیں۔ جن میں وہ اپنے بیٹے کے لیے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے صدقے میں شہادت کی طلب گار نظر آتی ہیں:

تو مرے خواب کی تعبیر، مری آنکھ کا نور

دیکھنے سے تجھے حاصل تھا مرے دل کو سرور

اور کرتی تھی سدا میں یہ دعا پیش حضورؐ

میرے بیٹے کو خدا کاش فضیلت بخشے

اور صدقے میں محمدؐ کے شہادت بخشے ۔230

منظر قریشی ’’فضل باری تعالیٰ‘‘ میں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کو مخاطب کر کے کہتے ہیں:

تیرے فرماں پہ عمل اے شہِ لولاکؐ! کیا

پرچم دین متیں ہمسرِ افلاک کیا ۔231

اقبال صفی پوری کی نظم ’’اے صلّ علیٰ رحمت سرکارِ مدینہ‘‘ عنوان کی رو سے نعتیہ نظم محسوس ہوتی ہے۔ لیکن سوائے ٹیپ کے مصرعے: ع

اے صلّ علی رحمتِ سرکارِ مدینہؐ

کے تقریباً تمام اشعار ملّی اور رزمیہ پہلو بھی رکھتے ہیں:

اے تاجورِ بدر و حنینؐ! اے شہِ ذی شاںؐ!

تیری ہی توجہ سے ہیں ہم فاتح دوراں

تجھ سے ہی ملا ہم کو شجاعت کا قرینہ

اے صلّ علی رحمتِ سرکارِ مدینہؐ

ہم رن میں جو بڑھتے ہیں تو بڑھتے ہیں مسلسل

قوت سے ہماری دلِ آفاق میں ہلچل

نعروں سے ہمارے رخِ باطل پہ پسینہ

اے صلّ علی رحمتِ سرکارِ مدینہؐ

تکبیر کے نعروں سے فضا گونج رہی ہے

ہر سمت یہی ایک صدا گونج رہی ہے

مومن کا ہے دل عزم و شجاعت کا خزینہ

اے صلّ علی رحمتِ سرکارِ مدینہؐ

اے ارضِ وطن، ارضِ وطن تو ہے خوش اقبال

دشمن کے قدم کر نہ سکیں گے تجھے پامال

اسلام کا ڈوبا ہے نہ ڈوبے گا سفینہ

اے صلّ علی رحمتِ سرکارِ مدینہؐ ۔232

عزیز لدھیانوی نظم ’’معرکۂ حق و باطل‘‘ میں دین اور وطن کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں:

اے ملک پاک لائق صد عزّ و احترام

روشن کیا ہے ہم نے زمانے میں تیرا نام

دین و وطن ہیں لازم و ملزوم لاجرم

تیرا ہے دیں سے دین کا تجھ سے بلند مقام

اسلام تا ابد نہ مٹے کا جہان سے

فرمانِ حق ہے اور یہ قول شہِ انامؐ

کافر کثیر اور جدید اسلحہ سے لیس

لیکن بہت قلیل محمدؐ کے تھے غلام ۔233

چھے ستمبر کی یاد میں عزیز لدھیانوی کی ایک نظم کا عنوان ہے ’’یوم دفاع پاکستان 2 ستمبر 1965‘‘ نظم میں شاعر نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ اگر ایمان کی دولت کے ساتھ دل میں شوق شہادت اور ذوق ایثار ہو تو خدا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم دست گیری ضرور فرماتے ہیں:

ذوقِ ایثار، شوقِ شہادت بھی ہو اور سینے میں دولت ہو ایمان کی

ساتھ دیں گے پھر اس کا رسولؐ و خدا، ہوگی برکت بھی ہمراہ قرآن کی ۔234

’’آؤ چلیں کشمیر ہم‘‘ میں عزیز لدھیانوی کہتے ہیں کہ اس پاک سرزمین کا محافظ خدائے بزرگ و برتر ہے اور حامی شہِ عرب و عجم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم ہیں:

ہے پاک اپنی سر زمیں

شیروں کے ہے زیرِ نگیں

حق کی مدد ہے بالیقیں

حامی شہِ عرب و عجمؐ

آؤ چلیں کشمیر ہم

اس کا محافظ ہے خدا

حامی شہِ ارض و سماؐ

سر ہے بلند اسلام کا

قرآن میں ہے یہ رقم

آؤ چلیں کشمیر ہم ۔235

میجر جلیل احمد اپنی نظم ’’اے مرد مسلماں‘‘ میں مسلمانوں کو خبردار کرتے ہیں:

ہوں کشتئ امّت کو بچانے کی تدابیر

مشرق سے بھی مغرب سے بھی آنے کو ہے طوفاں

پھر لشکر ظلمات کی ہر سمت ہے یلغار

پھر خواب سے بیدار ہو اے مرد مسلماں

اللہ ترے ساتھ، محمدؐ ہے تیرے ساتھ

قوت تری ایمان ہے، رہبر ترا قرآں ۔236

نتائج[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

گزشتہ صفحات میں جنگ ستمبر 1965 کے دوران یا اس کی بابت کی گئی ملّی شاعری کے وسیع و عریض ذخیرے سے مختلف عنوانات کے تحت جو منتخب مثالیں دی گئی ہیں وہ متنوّع کیفیات کی حامل ہیں۔ ذکرِ وجہِ تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم تو ہمیشہ سے ملّی شاعری کی اساس رہا ہی ہے۔ لیکن اس دور کی شاعری میں اس کا اظہار نت نئے انداز سے ہوا ہے۔ اور دفاع ملّت کے لیے برسر پیکار شاعروں نے محور ملّت علیہ الصّلوٰۃ والتّسلیمکا سہارا قدم قدم پر لیا ہے۔ کہیں شاعروں نے اس بات پر اظہار فخر کیا ہے کہ وہ امّت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا ایک حصہ ہیں کسی مقام پر انھوں نے اپنے مجاہدوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ذاتِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کو وسیلہ بنایا ہے۔ تو کہیں ان کی بہادری اور دلیری پر بحوالۂ فاتح مکّہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم خراج تحسین پیش کیا ہے۔ علاوہ ازیں بعض شاعر اس دورِ آزمائش و ابتلا میں محبوب ربّ العالمین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم سے دست گیری کے طالب بھی ہوئے ہیں تو کہیں اہلیان کشمیر کی حالت زار پر شہنشاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے دربار میں فریاد و استغاثہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ کئی شاعروں نے دشمن کی تباہی پر مسرّت کے اظہار میں بھی تذکرۂ فخر آدم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کو ضروری سمجھا ہے۔ اکثر مقامات پر بارگاہِ خداوندی میں حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا واسطہ دے کر فتح و نصرت کی دعا مانگی گئی ہے۔ اور کہیں غازیوں اور شہیدوں کو صاحب معراج علیہ الصّلوٰۃ والتّسلیم کے ارشادات پاک کے حوالے سے جنّت کی بشارت دی گئی ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا تذکرۂ بے شمار مقامات پر تنہا بھی کیا گیا ہے اور جاں نثارران نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے تناظر میں بھی ہوا ہے۔ یہاں تک کہ فتح و کامرانی کی نوید اور اظہار تشکّر میں بھی صاحب بدر و حنین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کا ذکر مبارک شامل ہے۔

مذکورہ بالا مثالوں سے یہ نتیجہ نکالنا غلط نہ ہوگا کہ ویسے تو ہر دور کی ملّی شاعری میں ذکر سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم ایک لازمی جزو کی حیثیت سے شامل سخن رہا ہے لیکن اس دور ابتلا میں شاعروں کی امیدوں کا مرکز، ان کے دکھوں کا مداوا، ان کا دفاعی مورچہ اور ان کی آخری جائے پناہ ذاتِ ربّ کائنات اور محبوب ربّ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم ہی رہے ہیں۔ اس دور کی ملّی شاعری میں جو تحرّک اور جوش و جذبہ نظر آتا ہے اس کا سبب یہی ہے کہ شاعروں نے اس بات کا ادراک کرلیا تھا کہ ان کی منظومات کو رجزیہ لہجہ عطا کرنے کے لیے جس ولولۂ تازہ کی ضرورت ہے وہ انھیں صرف دربار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کی چوکھٹ پر ہی ملے گا۔ اپنی نظموں میں صاحب قاب قوسین صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم کے ذکر پاک کی شمولیت سے انھوں نے اپنی شاعری کی تطہیر بھی کی ہے اور اپنی عاقبت بھی سنواری ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ایک دفعہ پھر پاکستانی قوم کو ’’قوم رسولِ ہاشمی صلی اللہ علیہ وآلہٰ و سلم ‘‘ بننے کا صاف، سیدھا اور سچّا راستہ دکھایا ہے۔ اگر یہ قوم اس راستے سے رو گردانی نہ کرتی تو صرف چھے سال بعد ہی سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ سامنے نہ آتا۔






حواشی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔ ’’خوں آہنگ‘‘، ص ۱۹

۲۔ ایضاً، ص ۹۔ ۱۰

۳۔ خاور، رفیق (مرتب)، ’’رزمیہ گیت‘‘، ص ۵

۴۔ عبداللہ، سیّد ، ڈاکٹر، ’’سخن ور، نئے اور پرانے‘‘، ص ۱۶۳

۵۔ ایضاً، ص ۲۰۵

۶۔ قریشی وحید، ڈاکٹر، ’’ہمارے ادب کا نیا دور‘‘، ص ۷۷۔ ۹۱

۷۔ شمارہ ستمبر، ۱۹۷۰ء

۸۔ ایضاً

۹۔ ’’اردو شاعری میں پاکستانی قومیت کا اظہار‘‘، ص ۲۸۲

۱۰۔ یعقوب، قاسم، ’’اردو شاعری پر جنگوں کے اثرات‘‘، ص ۱۱۲

۱۱۔ زہرا نگاہ و ثریّا مقصود، ص ۵

۱۲۔ حقی، شان الحق، تعارف بر ’’جنگ ترنگ‘‘

۱۳۔ ’’کلیات شورش کاشمیری‘‘، ص ۴۶۷

۱۴۔ ایضاً، ص ۴۷۹

۱۵۔ مشمولہ: ’’گلبانگِ جہاد‘‘، ص ۵۷۔ ۵۸

۱۶۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۳۴۸

۱۷۔ مشمولہ:’’گلبانگِ جہاد‘‘،ص۱۰۱۔۱۰۲

۱۸۔ایضاً،ص۱۰۳۔۱۰۴

۱۹۔ایضاً،ص۱۱۹۔۱۲۰

۲۰۔ایضاً، ۱۲۱۔ ۱۲۲

۲۱۔ ایضاً، ص ۱۳۱۔ ۱۳۳

۲۲۔ ایضاً، ص ۱۴۲۔ ۱۴۳

۲۳۔ ایضاً، ص ۱۵۲۔ ۱۵۳

۲۴۔ ایضاً، ص ۱۶۰۔ ۱۶۱

۲۵۔ ایضاً، ص ۲۰۳۔ ۲۰۴

۲۶۔ مشمولہ: ’’سیّارہ‘‘ (لاہور)، ص ۳۹

۲۷۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۹

۲۸۔ ایضاً، ص ۵۷

۲۹۔ ایضاً، ص ۱۴۱

۳۰۔ ایضاً، ص ۱۸۳

۳۱۔ ایضاً، ص ۱۸۵۔ ۱۸۶

۳۲۔ ’’خوں آہنگ‘‘، ص ۷۶۔ ۷۷

۳۳۔ ’’کلیات شورش کاشمیری‘‘، ص ۴۷۵

۳۴۔ ایضاً، ص ۵۰۲

۳۵۔ ایضاً، ص ۵۱۱

۳۶۔ ایضاً، ص ۵۴۰

۳۷۔ مودودی، سیّد ابوالاعلیٰ، حرف اوّل بر ’’میرے محبوب وطن‘‘، ص ۵

۳۸۔ ’’میرے محبوب وطن‘‘، ص ۶۳

۳۹۔ ایضاً، ص ۶۱

۴۰۔ شمارہ ستمبر ۱۹۶۶ء، ص ۶۔۸

۴۱۔ ’’میراث مومن‘‘، ص ۱۱۶۔ ۱۱۷

۴۲۔ ایضاً، ص ۱۲۶۔ ۱۲۷

۴۳۔ مشمولہ: ’’رزمیہ گیت‘‘، ص ۱۰۹۔ ۱۱۰

۴۴۔ ’’پاکستان زندہ باد‘‘، ص ۱۰۵

۴۵۔ مشمولہ: ’’گلبانگِ جہاد‘‘، ص ۱۰۷۔ ۱۰۸

۴۶۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۳۱۸

۴۷۔ ایضاً، ص ۸۰۵

۴۸۔ ایضاً، ص ۶۴۲

۴۹۔ ایضاً، ص ۷۰۴

۵۰۔ ایضاً، ص ۷۱۲

۵۱۔ ایضاً، ص ۷۳۳

۵۲۔ ایضاً، ص ۷۰۷

۵۳۔ ایضاً، ص ۷۶۹

۵۴۔ ایضاً، ص ۷۸۳

۵۵۔ ایضاً، ص ۷۹۸

۵۶۔ ’’سیف و قلم‘‘، ص ۱۰۹۔ ۱۲۸

۵۷۔ ایضاً، ص ۱۳۷

۵۸۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۱۳

۵۹۔ ’’تیشۂ فرہاد‘‘، ص ۱۰۳۔ ۱۰۴

۶۰۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۷۹۲

۶۱۔ ایضاً، ص ۸۰۳

۶۲۔ ایضاً، ص ۸۱۴

۶۳۔ ایضاً، ص ۸۱۷

۶۴۔ مشمولہ: ’’جاگ رہا ہے پاکستان‘‘، ص ۲۱۴

۶۵۔ ایضاً، ص ۲۶۰

۶۶۔ ایضاً، ص ۲۹۰

۶۷۔ ایضاً، ص ۲۹۷

۶۸۔ ایضاً، ص ۳۰۶

۶۹۔ ایضاً، ص ۳۳۹

۷۰۔ مشمولہ: ’’نغماتِ جہاد‘‘، ص ۷۸

۷۱۔ مشمولہ: ’’جاگ رہا ہے پاکستان‘‘، ص ۳۳۹

۷۲۔ ایضاً، ص ۴۵۴

۷۳۔ ایضاً، ص ۵۲۹

۷۴۔ ’’چاند میری زمیں‘‘، ص ۳۵۔ ۳۶

۷۵۔ مشمولہ: ’’نغماتِ جہاد‘‘، ص ۹۴

۷۶۔ ایضاً، ص ۱۲۴

۷۷۔ ایضاً، ص ۱۳۹

۷۸۔ مشمولہ: ’’چراغ راہ‘‘ (کراچی)، جنوری ۱۹۶۶ء، ص ۵۵

۷۹۔ ایضاً، ص ۵۸، نظم پر عنوان درج نہیں ہے

۸۰۔ مشمولہ: ’’خامہ خونچکاں اپنا‘‘، ص ۳۳۔ ۳۴

۸۱۔ ایضاً، ص ۳۹

۸۲۔ ایضاً، ص ۵۷

۸۳۔ ایضاً، ص ۵۸۔ ۵۹

۸۴۔ ایضاً، ص ۶۲

۸۵۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۱۱۰

۸۶۔ ایضاً، ص ۲۵۷

۸۷۔ مشمولہ: ’’جاگ رہا ہے پاکستان‘‘، ص ۱۳۶

۸۸۔ ایضاً، ص ۹۲

۸۹۔ ایضاً، ص ۲۳۱

۹۰۔ ایضاً، ص ۲۷۰

۹۱۔ مشمولہ: ’’نقوش‘‘ (لاہور)، تیسرا حصہ، اپریل ۔ جون ۱۹۶۶ء، ص ۱۲۰۷۔ ۱۲۰۸

۹۲۔ ’’درد کا شجر‘‘، ص ۳۳۔ ۳۴

۹۳۔ قریشی، وحید، ڈاکٹر، تعارف بر ’’اجالا‘‘، ص ۱۰

۹۴۔ ص ۹۸۔ ۱۰۰

۹۵۔ مشمولہ: ’’نغمات مجاہد‘‘، ص ۱۰۰۔ ۱۰۳

۹۶۔ گلوکارہ نسیم بیگم کا گایا ہوا یہ نغمہ فلم ’’مادر وطن (۱۹۶۶ء)‘‘ میں شامل کیا گیا تھا اور اس کے موسیقار سلیم اقبال تھے۔

۹۷۔ ’’خوں آہنگ‘‘، ص ۷۸۔ ۷۹

۹۸۔ مشمولہ: ’’گلبانگِ جہاد‘‘، ص ۶۲۔ ۶۴

۹۹۔ ’’زمزمۂ پاکستان‘‘، ص ۱۷۸۔ ۱۸۴

۱۰۰۔ ایضاً، ص ۱۹۷۔ ۱۹۸

۱۰۱۔ ایضاً، ص ۲۰۰۔ ۲۰۱

۱۰۲۔ ’’کلیات شورش کاشمیری‘‘، ص ۴۷۸

۱۰۳۔ ایضاً، ص ۴۷۰

۱۰۴۔ ایضاً، ص ۵۳۷

۱۰۵۔ ’’میرے محبوب وطن‘‘، ص ۸۷

۱۰۶۔ مشمولہ: ’’رزمیہ گیت‘‘، ص ۹۵۔ ۹۶

۱۰۷۔ ایضاً، ص ۲۱۔ ۲۶

۱۰۸۔ مشمولہ: ’’گلبانگِ جہاد‘‘، ص ۱۸۵۔ ۱۸۶

۱۰۹۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۹۵

۱۱۰۔ ایضاً، ص ۸۴

۱۱۱۔ ایضاً، ص ۱۶۸

۱۱۲۔ ایضاً، ص ۱۵۷

۱۱۳۔ ایضاً، ص ۲۲۴

۱۱۴۔ مشمولہ: ’’جاگ رہا ہے پاکستان‘‘، ص ۵۴۲

۱۱۵۔ مشمولہ: ’’نقش‘‘ (کراچی)، جنگ نمبر ۱۹۶۶ء، ص ۴۲۲

۱۱۶۔ مشمولہ: ’’گلبانگِ جہاد‘‘، ص ۱۶۳۔ ۱۶۴

۱۱۷۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۲۳

۱۱۸۔ ایضاً، ص ۲۹

۱۱۹۔ ایضاً، ص ۲۳۵

۱۲۰۔ ایضاً، ص ۲۴۶

۱۲۱۔ ایضاً، ص ۳۰۰

۱۲۲۔ ’’چاند میری زمیں‘‘، ص ۲۳۔ ۲۴

۱۲۳۔ مشمولہ: ’’نغماتِ جہاد‘‘، ص ۴۲۔ ۴۳

۱۲۴۔ مشمولہ: ’’شعلۂ نوا‘‘، ص ۷۴

۱۲۵۔ مشمولہ: ’’جاگ رہا ہے پاکستان‘‘، ص ۲۴۹

۱۲۶۔ مشمولہ: ’’نغماتِ جہاد‘‘، ص ۶۶۔ ۶۹

۱۲۷۔ ’’خوں آہنگ‘‘، ص ۵۳

۱۲۸۔ ایضاً، ص ۷۳۔ ۷۵

۱۲۹۔ ’’زمزمۂ پاکستان‘‘، ص ۲۰۶۔ ۲۰۷

۱۳۰۔ ’’ضرب قلم‘‘، ص ۱۳

۱۳۱۔ ’’حرف سپاس‘‘، ص ۲۴

۱۳۲۔ ’’کلیات شورش کاشمیری‘‘، ص ۴۷۷

۱۳۳۔ ایضاً، ص ۴۹۴

۱۳۴۔ ’’میرے محبوب وطن‘‘، ص ۷۴۔ ۷۵

۱۳۵۔ ایضاً، ص ۷۷

۱۳۶۔ ایضاً، ص ۸۰

۱۳۷۔ ایضاً، ص ۸۵

۱۳۸۔ ایضاً، ص ۴۶

۱۳۹۔ ایضاً، ص ۵۱

۱۴۰۔ ایضاً، ص ۵۴

۱۴۱۔ ایضاً، ص ۵۷۔ ۵۸

۱۴۲۔ مشمولہ: ’’رزمیہ گیت‘‘، ص ۹۲

۱۴۳۔ ’’میراث مومن‘‘، ص ۱۲۳

۱۴۴۔ مشمولہ: ’’بڑھے چلو مجاہدو‘‘، ص ۵۔ ۶

۱۴۵۔ مشمولہ: ’’گلبانگِ جہاد‘‘، ص ۱۶۵۔ ۱۶۶

۱۴۶۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۳۲۶

۱۴۷۔ ایضاً، ص ۵۳۷

۱۴۸۔ مشمولہ: ’’بڑھے چلو مجاہدو‘‘، ص ۲۵

۱۴۹۔ ایضاً، ص ۲۶

۱۵۰۔ ایضاً، ص ۲۹

۱۵۱۔ مشمولہ: ’’گلبانگِ جہاد‘‘، ص ۱۰۹۔ ۱۱۰

۱۵۲۔ ایضاً، ص ۱۹۴۔ ۱۹۵

۱۵۳۔ ایضاً، ص ۲۰۷۔ ۲۰۸

۱۵۴۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۲۲

۱۵۵۔ ایضاً، ص ۳۰

۱۵۶۔ ایضاً، ص ۳۶

۱۵۷۔ ایضاً، ص ۴۰

۱۵۸۔ مشمولہ: ’’جاگ رہا ہے پاکستان‘‘، ص ۵۹۔ ۶۰

۱۵۹۔ ایضاً، ص ۶۸۔ ۶۹

۱۶۰۔ ایضاً، ص ۴۵۴

۱۶۱۔ مشمولہ: ’’نقش‘‘، محوّلہ بالا، ص ۵۸۹

۱۶۲۔ مشمولہ: ’’نغمات جہاد‘‘، ص ۴۶

۱۶۳۔ ایضاً، ص ۶۱

۱۶۴۔ ایضاً، ص ۶۲

۱۶۵۔ مشمولہ: ’’شعلۂ نوا‘‘، ص ۷۱

۱۶۶۔ ’’رزم و بزم‘‘، ص ۸۹

۱۶۷۔ مشمولہ: ’’خامہ خونچکاں اپنا‘‘، ص ۱۲

۱۶۸۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۱۷۲

۱۶۹۔ مشمولہ: ’’لہو ترنگ‘‘، ص ۴۳

۱۷۰۔ ایضاً، ص ۴۷۔ ۴۸

۱۷۱۔ ایضاً، ص ۶۵۔ ۶۶

۱۷۲۔ ’’ہلال استقلال‘‘، ص ۶

۱۷۳۔ مطبوعہ، سن ندارد

۱۷۴۔ ’’خامہ خونچکاں اپنا‘‘، ص ۷

۱۷۵۔ مشمولہ: ’’خامہ خونچکاں اپنا‘‘، ص ۱۷

۱۷۶۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۶۵۲

۱۷۷۔ مشمولہ: ’’جاگ رہا ہے پاکستان‘‘، ص ۲۰۷

۱۷۸۔ ایضاً، ص ۳۶۰

۱۷۹۔ مشمولہ: ’’نغمات جہاد‘‘، ص ۱۵۰

۱۸۰۔ ایضاً، ص ۱۵۸۔ ۱۵۹

۱۸۱۔ مشمولہ: ’’خامہ خونچکاں اپنا‘‘، ص ۳۳

۱۸۲۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۶۴

۱۸۳۔ ’’حرف سپاس‘‘، ص ۲۹۔ ۳۰

۱۸۴۔ مشمولہ: ’’فنون‘‘ (لاہور)، فروری۔ مارچ ۱۹۶۶ء، ص ۲۸۔ ۲۹

۱۸۵۔ مشمولہ: ’’ساقی‘‘ (کراچی)، ستمبر ۱۹۶۶ء، ص ۶۔ ۸

۱۸۶۔ ’’پاکستان زندہ باد‘‘، ص ۱۰۶

۱۸۷۔ صدیقی، ابواللیث، ڈاکٹر، تبصرہ بر ’’تاثرات قلب‘‘، ص ۷

۱۸۸۔ ’’تاثرات قلب‘‘، ص ۹۷۔ ۱۰۳

۱۸۹۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۲۲۷

۱۹۰۔ ایضاً، ص ۵۴۵

۱۹۱۔ ’’خوں آہنگ‘‘، ص ۳۱۔ ۳۵

۱۹۲۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۶۸۸

۱۹۳۔ مشمولہ: ’’جاگ رہا ہے پاکستان‘‘، ص ۵۲۱

۱۹۴۔ مشمولہ: ’’گلبانگِ جہاد‘‘، ص ۱۱۶

۱۹۵۔ ’’کلیات شورش کاشمیری‘‘، ص ۵۱۷

۱۹۶۔ مشمولہ: ’’نغمات پاک‘‘، ص ۱۷۔ ۱۸

۱۹۷۔ ’’زمزمۂ پاکستان‘‘، ص ۱۹۴۔ ۱۹۵

۱۹۸۔ مشمولہ: ’’رزمیہ گیت‘‘، ص ۹۸۔ ۹۹

۱۹۹۔ ایضاً، ص ۱۲۷۔ ۱۲۸

۲۰۰۔ ایضاً، ص ۴۳۔ ۵۴

۲۰۱۔ ایضاً، ص ۵۵۔5

202 ’’میرے محبوب وطن‘‘، ص ۳۹

۲۰۳۔ ’’میراث مومن‘‘، ص ۹۲

۲۰۴۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۲۳۲

۲۰۵۔ ’’۱۹۶۵ء کی بہترین شاعری‘‘، ص ۳۶۔ ۴۱

۲۰۶۔ مشمولہ: ’’جاگ رہا ہے پاکستان‘‘، ص ۱۴۰

۲۰۷۔ ایضاً، ص ۴۲۴

۲۰۸۔ مشمولہ: ’’خامہ خونچکاں اپنا‘‘، ص ۳۰

۲۰۹۔ ایضاً، ص ۳۸

۲۱۰۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۶۰

۲۱۱۔ ایضاً، ص ۵۸

۲۱۲۔ ایضاً، ص ۱۰۳

۲۱۳۔ مشمولہ: ’’جاگ رہا ہے پاکستان‘‘، ص ۱۹۷

۲۱۴۔ ایضاً، ص ۳۰۵۔ ۳۰۶

۲۱۵۔ مشمولہ: ’’نغمات جہاد‘‘، ص ۶۴

۲۱۶۔ ایضاً، ص ۱۰۱

۲۱۷۔ ’’شعلۂ آزادی‘‘، ص ۱۲۳۔ ۱۲۶

۲۱۸۔ ’’سیف و قلم‘‘، ص ۱۳۵

۲۱۹۔ ایضاً، ص ۱۳۷۔ ۱۴۰

۲۲۰۔ ’’سیف و قلم‘‘، ص ۳۵۔ ۳۷

۲۲۱۔ ’’میراث مومن‘‘، ص ۴۱۔ ۴۲

۲۲۲۔ مشمولہ: ’’گلبانگِ جہاد‘‘، ص ۱۷۱۔ ۱۷۳

۲۲۳۔ ’’ماہِ منیر‘‘ (کلیات منیر نیازی)، ص ۲۵

۲۲۴۔ مشمولہ: ’’نغمات جہاد‘‘، ص ۱۰۹

۲۲۵۔ ایضاً، ص ۱۱۸

۲۲۶۔ ایضاً، ص ۱۶۰

۲۲۷۔ ایضاً، ص ۱۶۲

۲۲۸۔ مشمولہ: ’’شعلۂ نوا‘‘، ص ۵۸۔ ۵۹

۲۲۹۔ ایضاً، ص ۶۸

۲۳۰۔ مشمولہ: ’’جنگ ترنگ‘‘، ص ۱۴۵

۲۳۱۔ ایضاً، ص ۱۴۰

۲۳۲۔ مشمولہ: ’’جاگ رہا ہے پاکستان‘‘، ص ۱۴۹۔ ۱۵۰

۲۳۳۔ مشمولہ: ’’نغمات مجاہد‘‘، ص ۶۷۔ ۶۸

۲۳۴۔ ایضاً، ص ۸۸۔ ۹۰

۲۳۵۔ ایضاً، ص ۹۱۔ ۹۶

۲۳۶۔ ’’رزم و بزم‘‘، ص ۸۸۔ ۸۹

فہرستِ اسنادِ محوّلہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اختر ہوشیارپوری، ۱۹۶۷ء، جنگ رنگ،مشمولہ: ’’خامہ خونچکاں اپنا‘‘، شعبۂ اطلاعات، حکومت مغربی پاکستان، راولپنڈی

ادبی دفاعی کمیٹی (مرتب)، ۱۹۶۵ء، بڑھے چلو مجاہدو، مغربی پاکستان رائٹرز گلڈ، لاہور

ادریس صدیقی (مرتب)، ۱۹۶۶ء، جاگ رہا ہے پاکستان، اردو اکیڈمی سندھ، کراچی

ارشد، عبدالرشید (مرتب)، ۱۳۸۵ھ، نغمات جہاد، مکتبہ رشیدیہ، میاں چنوں

اسرار زیدی، ۱۹۶۸ء، درد کا شجر، عوامی کتاب گھر، لاہور، بار اوّل

اظہر، ضمیر، ۱۹۶۶ء، وطن کے پاسباں، مشمولہ: ’’نقوش‘‘ (لاہور)، تیسرا حصہ، اپریل۔ جون

اقبال، سہیل، ۱۹۶۵ء، ضرب قلم، ہمارا ادارہ، کراچی

اکبر کاظمی، ۱۹۶۶ء، اجالا، ادارہ پنجاب، لاہور، بار اوّل

جعفری، سید محمد، ۱۹۶۶ء، اے وادئ کشمیر، مشمولہ: ’’چراغِ راہ‘‘، شمارہ جنوری

جلیل احمد، ۱۹۶۹ء،رزم و بزم، مکتبہ ارباب قلم، کراچی، بار اوّل

حفیظ جالندھری، ۱۹۶۷ء،ہلال استقلال لاہور، مکتبہ جدید، لاہور، بار اوّل

______، ۱۹۸۱ء، پیش لفظ ، ’’نغمات مجاہد‘‘، از عزیز لدھیانوی، مکتبۂ شگوفہ، گوجرانوالہ، بار اوّل

حیدر، خواجہ رضی، ۱۹۹۷ء، دیباچہ ،’’زمزمۂ پاکستان‘‘، صبا اکبر آبادی اکیڈمی، کراچی، اشاعت نو مع اضافہ

خالد، عبدالعزیز، ۱۹۶۶ء، مژدۂ فتح مبیں، مشمولہ: ماہنامہ ،’’ساقی‘‘(کراچی)، شمارہ ستمبر

خاموش، شیر احمد (مرتب)، سن ندارد،شعلۂ نوا، ادبی محاذ، ملتان

خاور امروہوی، خورشید، ۱۹۶۹ء، تاثرات قلب، مرتب، عارف سنبھلی، مشہور پریس، کراچی

خاور، رفیق (مرتب)، ۱۹۶۵ء،رزمیہ گیت، ادارہ مطبوعات پاکستان، کراچی

دانش، احسان، ۱۹۶۸ء،میراث مومن، مکتبہ اردو دائجسٹ، لاہور

رحمان کیانی، ۱۹۷۱ء، سیف و قلم، ایوان اردو، کراچی، بار اوّل

زہرا نگاہ و ثریا مقصود (مرتبین)، ۱۹۶۷ء،جنگ ترنگ، ادارہ مطبوعات پاکستان، کراچی

ساقی جاوید،۱۹۸۳ء، چاند میری زمیں، نفیس اکیڈمی، کراچی، بار اوّل

سلیم الرحمان، محمد (مرتب)، ۱۹۶۶ء، ۱۹۶۵ء کی بہترین شاعری، البیان، لاہور

شعبہ اطلاعات، حکومت مغربی پاکستان، س ن، خامہ خونچکاں اپنا، شعبہ اطلاعات، حکومت مغربی پاکستان،راولپنڈی

شورش کاشمیری، ۱۹۹۶ء، کلّیات شورش کاشمیری، مکتبۂ چٹان، لاہور، بار اوّل

صبا اکبر آبادی، ۱۹۹۷ء، زمزمۂ پاکستان، صبا اکبر آبادی اکیڈمی، کراچی، اشاعت نو مع اضافہ

طاہر شادانی و دیگر (مرتبین)، ۱۹۶۵ء، گلبانگ جہاد، ایوان ادب، لاہور، بار دوم

طاہر، جعفر، ۱۹۶۶ء، نظم، مشمولہ: ’’فنون‘‘ (لاہور)، فروری۔ مارچ

طاہر، قاضی ظفر، ۱۹۷۱ء، سامراجی کٹھ پتلی، مشمولہ: روزنامہ ،’’نوائے وقت‘‘(لاہور)، شمارہ ۸ دسمبر

طفیل دارا، ۱۹۶۹ء، تیشۂ فرہاد، جدید ناشرین، لاہور، بار اوّل

طفیل ہوشیار پوری، ۱۹۶۶ء، میرے محبوب وطن، احسان اکادمی، لاہور، بار اوّل

عبداللہ، سید ڈاکٹر، ۱۹۸۱ء، سخن ور، نئے اور پرانے(حصہ دوم)، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، لاہور،باراوّل

عزیز لدھیانوی (مرتب)، ۱۹۸۱ء، نغمات مجاہد، مکتبہ شگوفہ، گوجرانوالہ، بار اوّل

کیف بنارسی، ۱۹۶۸ء، شعلۂ آزادی، مکتبہ کیف، کراچی، بار اوّل

محشر بدایونی، ۱۹۶۶ء، جاگ رہا ہے پاکستان، مشمولہ: ’’نقش‘‘ (جنگ نمبر)، کراچی

منیر نیازی، ۱۹۹۳ء،کلّیات منیر نیازی،ماورا پبلشرز،لاہور

ناز سیٹھی، ۱۹۶۷ء، نغمات پاک، منظور عام پریس، پشاور

نجم الاسلام، ڈاکٹر، ۱۹۶۶ء، اردو ادب پر تحریکاتِ اسلامی کے اثرات، مشمولہ: ’’چراغِ راہ‘‘ (تحریکاتِ اسلامی نمبر)، کراچی

نعیم صدیقی، ۱۹۶۷ء، خوں آہنگ، کاروان پریس لاہور

نیر، طاہرہ، ڈاکٹر، ۱۹۹۹ء، اردو شاعری میں پاکستانی قومیت کا اظہار، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، بار اوّل

یعقوب، قاسم، ۲۰۱۱ء، اردو شاعری پر جنگوں کے اثرات، مثال پبلشرز، فیصل آباد، بار اوّل

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ ۔شمارہ نمبر 25 | نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت