مقالات و مضامین پر ایک تحقیقی نظر -ڈاکٹر سید منیر محی الدین قادری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Dabastan e naat.jpg

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مضمون نگار: ڈاکٹر سیدمنیر محی الدین قادری ( آندھرا پردیش )

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

’’ دبستان ِ نعت ‘‘ کے تحقیقی و تنقیدی مقالات ومضامین پر ایک تنقیدی نظر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ کیا نعت صنفِ سخن ہے ؟‘‘

ڈاکٹر سید شاہ حسین احمد صاحب اپنے مضمون ’’ کیا نعت صنف سخن ہے ؟ ‘‘ میں جو بحث کی ہے وہ باعتبار فن کے سنی اور سمجھی جا سکتی ہے۔وہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ’’ ابھی تک اس کافارم مقرر ہوا ہے اور نہ اجزائے ترکیبی ‘‘، پھر ترتیب وار انہوں نے مرثیہ ، رباعی ، غزل اور مثنوی کے ہیئت کو بیان کرتے ہوئے ’’ نعت ‘‘ کے لیے ایک مخصوص ہیئت اور اجزائے ترکیبی کی فکرکوظاہر کیاہے۔

راقم الحروف کے خیال میں کسی بھی صنف سخن کو مقرر ہ اصول و ضوابط کے حدود میں قید کرکے بنائے گئے اجزائے ترکیبی کے خطوط میںجاری ہونے کا نام ’’ صنف سخن ‘‘ ہے۔ جو کہ فن کے اعتبار سے فنی اصول و ضوابط کے تابع رہتے ہیں۔ ان تمام اصناف سخن کے مقررہ اصول و ضوابط سے ہٹ کر’’ نعت ‘‘ کے فن کو مقرر کرنے کا خیال نہ ہی ماہرانِ فن کو پیدا ہوا اور نہ ہی پیدا ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ کیوں کہ ’’ نعت ‘‘ وہ صنف سخن ہے جس کو مقررہ حدود میں قید کرنا یا اس کے لئے کوئی اصول و ضوابط کا طے کرنا عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس طرح ’’ نعتِ پاک‘‘ کو صنفِ سخن جیسے حدود میں قید کرنا اس کی شان کے خلاف ہے۔

جس طرح خدا کی ذات کو محدود کرنا اس کی شان کے خلاف ہے اسی طرح پیارے نبی آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں تعریف و توصیف کے لئے کسی زبان کا بھی سہارا لینا اور کسی بھی بحر و اوزان میں عقیدت و محبت اور ادب و احترام کے خیال کو سمونے کے لئے حدود مقرر کرنا بھی آپﷺ کی شان کے خلاف ہے۔ جس طرح خداکی ذات لا محدود ہے اسی طرح لباسِ بشریت میں پیارے نبی ﷺ کی ذات با برکت بھی لا محدود ہے۔خدائے تعالیٰ آج تک اور انشا اللہ قیامت تک ہر ماہرعلم ِعروض و فن کو یہ اختیار نہیں دئے گا کہ وہ ’’ نعت پاک ‘‘ جیسے مقدس صنفِ سخن کے لئے کوئی فنی حدود مقرر کرے۔ بلکہ یہ وہ فن ہے جس کے لئے کوئی حد مقرر نہیںکی جاسکتی۔نعت پاک کو ہر صنفِ سخن میں لایا جا سکتا ہے یہ تو نعت گو شعرأ پر منحصر ہے۔ وہ اپنے پاکیزہ و مقدس خیالات کی ترسیل کے لئے کسی بھی صنف سخن کو اپنا سکتے ہیں۔ اوریہ مقدس عمل مشیت خداوندی اور توفیقِ الٰہی پر منحصر ہے۔ نہ کہ بندوں کے اختیار پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔

پیارے نبی آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذاتِ والا برکات کی شایان شان کے خلاف ہے کہ نعت پاک کو صنف سخن کے محدود پیمانے میں نہ صرف ناپا جا سکتا ہے بلکہ اس کے تصور سے ہی بے ادبی کی جھلک نمایاں ہونے لگتی ہے۔

ہم نعت پاک کے سلسلہ کومختلف اوزان و بحور میں لا سکتے ہیں اس کے لئے نعت گو شعرأ پر کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس مقدس فن کے لئے کوئی فنی حدود مقرر کئے جاسکتے ہیں۔

فاضل مقالہ نگار ڈاکٹر سید شاہ حسین احمد صاحب نے آگے لکھا ہے کہ ’’ جہاں تک رسول اللہ ﷺ کے سراپا کا تعلق ہے۔رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا سوال ہے ، اس طرف شعرا ئے اردو نے توجہ کم دی ہے۔‘‘

شاید فاضل مقالہ نگار کی نگاہوں سے مذکورہ موضوعات پر مبنی نعتیہ اشعار نہیں گذر رہے ہوں گے۔ ہمارے والد بزرگ وار حضرت سید شاہ غوث محی الدین چشتی قادری المعروف بہ نہال ؔ مخدومی علیہ الرحمہ نے اپنی نعتیہ شاعری میں آپ ﷺ کے اخلاق اور آپ ﷺ کے اسوہ ٔ حسنہ پر اشعار کہنے کی سعادت حاصل کی ہے۔میں چاہوں گا کہ ’’ کلام نہال ‘‘ کاوہ ضرور مطالعہ کریں تو یہ تشنگی شاید دور ہو جائے۔ اس طرح بہت سے ایسے شعرأ بھی ہیں جنہوں نے مذکورہ موضوعات پر اپنی نعتیہ شاعری میں تذکرہ کیا ہے۔آگے چل کر آپ نے لکھا ہے کہ۔

’’ اور بھی نعتیہ مجموعے میری نگاہ سے گزرے ہیں جن میں اس طرح کا اعلان موجود ہے۔ نعت لکھنے والوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ نعت صرف توشۂ آخرت نہیں بلکہ ادب بھی ہے اسے پرکھنے اور اس کی ادبی قدر و قیمت متعین کرنے کا ناقد کو پورا پوار اختیار ہے۔‘‘

مذکورہ تحریر میں جو باتیں بتائی گئی ہیں وہ حقیقت پر مبنی ہیں۔ واقعی نعت صرف توشۂ آخرت نہیں بلکہ ادب بھی ہے۔ میرے خیال میں اردو ادب میں اس وقت نکھار آئے گا اور جولانی پیدا ہوگی جبکہ نعت پاک کے صنف کو اردو ادب میں شامل کیا جائے گا۔ اردو ادب کو جلا بخشنے کا اگر کوئی واحد ذریعہ ہے تو وہ ’’ نعت شریف ‘‘ ہے۔ نعت پاک بھی ادب کے سرِ فہرست دائرہ میں شامل ہے اور وہ بھی ادبی پارہ کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نعت پاک ادبِ عالیہ کا ایک بلند وبالا حصہ ہے۔ اس صنف میں ادبی چاشنی کے سرور و انبساط کے علاوہ ادب و احترام عشق و محبت کے جملہ لوازمات بر سرِ پیکار نظر آتے ہیں۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

اردو کے کسی بھی تنقید نگار کو باعتبار فن کے پرکھنے کا پوارا پوارا اختیار ہے جبکہ وہ ادب و احترام کے دائرہ میں رہ کر اس مقدس ادب کی قدر و قیمت متعین کرے۔ راقم الحروف کو اس اہم مقصد کی تکمیل کے لئے توفیقِ لٰہی اور تاجدار مدینہ ﷺ کے نظر ِ کرم کاصلہ ملا کہ وہ ’’ دبستان ِ نعت ‘‘ کے ہر ایک تحقیقی مضمون پر اظہارِ خیال کی نہ صرف جسارت کی بلکہ حدود و اصول و ضوابط کو ’’ نعت پاک ‘‘ سے مستثنیٰ کروانے کے خیال کو ظاہر کیا۔ ’’ نعت ِ پاک ‘‘ بلا شک و شبہ ادب ِعالیہ کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ ’’نعت ِپاک ‘‘ بیشک ادب بھی ہے۔ اور وہ زمرۂ ادب میں سرِ فہرست شامل ہے اور یہ وہ ادبی صنف ہے جس کے لئے کوئی فنی حدود مقرر کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ وہ ادبی صنف ہے جو ہر صنفِ سخن میں کہی جا سکتی ہے۔ اب رہی بات اس کی ادبی قدر و قیمت متعین کرنے کی ناقد کو پورا پورا اختیار ہے۔ وہ صرف اوزان و بحور کی پابندی اور الفاظ کے استعمال کے طور و طریقہ کو پرکھا اور جانچا جا سکتا ہے۔

’’ فن نعت اور نعت گوئی ‘‘

ڈاکٹر خسرو حسینی نے تفصیل کے ساتھ فن نعت کے لغوی اور اصطلاحی معنوں کو بڑے عمدہ پیرائے میں پیش کیا ہے۔ آپ کا مضمون معلومات کا ایک خزانہ ہے۔ جو لوگ ’’ نعت پاک ‘‘ کو صنف کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں ساری تفصیلات انہیں اس مضمون میں مل جائے گی۔

راقم الحروف کے خیال میں یہ مضمون ماہرانِ علم و فن کے لیے خضرِ راہ کا کام دئے گا۔ میں ڈاکٹر خسرو حسینی صاحب کو مبارک باد دیتا ہوں کہ انہوں نے تشنگان ِ علم و فن کو صنفِ نعت کے ضمن میں ایک معلومات افزا بیش بہا علمی خزانہ بہم پہنچایا ہے۔ میں چاہوںگا کہ ہر ایک ماہر علم و فن اس مضمون سے استفادہ ضرور کرئے۔ تحقیقی پیرائے میں یہ مضمون قابلِ غور و فکر کا سامان لئے ہر ایک قاری کو مطمئن کر جاتا ہے۔

نعتِ نبی ﷺ کے سلسلہ میں ڈاکٹر خسرو صاحب نے مختلف زبانوں عربی ، فارسی اور اردو پر تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔تحقیقی اور تنقیدی آرأ کی جھلکیاں پورے آب و تاب کے ساتھ ان کے مضمون میں دکھائی دیتی ہیں۔ ’’ دبستان ِ نعت ‘‘ شمارہ کے لیے یہ مضمون بڑی اہمیت کا حامل نظر آتا ہے۔ خدا کرے ایسے مضامین بار بار چھپتے رہیں۔

’’حدائق بخشش کے صنائع بدائع پر اک اور نظر ‘‘

ڈاکٹر صابر سنبھلی کا لکھا ہوا مضمون ’’حدائق بخشش کے صنائع بدائع پر اک اور نظر ‘‘ میں حضرت رضا ؔبریلوی علیہ الرحمہ کے شاعرانہ خوبیوں پر بحث کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ۔

’’ میرا خیال ہے کہ فنی پہلو پر فکری پہلو کی نسبت کم توجہ دی گئی ہے ‘‘ صفحہ ۵۷

مذکورہ تحریر کے ذریعہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت رضاؔ بریلوی علیہ الرحمہ کے کلام میں موجود فنی پہلوؤں کو یہ اجاگر کر رہے ہیں جبکہ ان سے پہلے تنقید نگاروں نے اس طرف توجہ نہ دی ہے۔ اس کے ثبوت میں انہوں نے تقریباً چھ اشعار کی تشریح بھی کی ہے جو اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر صابرؔ سنبھلی صاحب نے عنوان کا جو انتخاب کیا ہے۔ ایک عام قاری کو سمجھنے میں بڑی مشکل ہوتی ہے کہ ’’ حدائق بخشش ‘‘ کیا یہ کسی شاعر کا نام ہے یا کسی مجموعہ کلام کا ؟ بڑی مشکل کے بعد قاری کو پوارا مضمون پڑھنے کے بعد معلوم ہونے لگتا ہے کہ یہ مجموعہ کلام کا نام ہے۔ اگر مضمون نگار صاحب پہلے ہی قوسین میں اس کی وضاحت کرتے تو بہتر ہوتا۔ یا حضرت رضا بریلوی کے مجموعہ کلام یا حضرت رضا بریلوی کی تصنیف ’’ صنائع بدائع پر اک نظر ‘‘ اس طرح کا عنوان انتخاب کیا جاتا تو قاری کو عنوان کے سمجھنے میں آسانی ہو جاتی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ شمال کے رہنے والے ان کی تصانیف کے نام اچھی طرح جانتے ہوں گے۔ مگر جنوب کے قاری ان کی تصانیف سے نا واقف ہیں۔ امید کہ آئندہ کے مقالوں میں اس بات کی جانب توجہ دی جائے گی۔

’’ نعت اور ہماری شعری روایات ‘‘

ڈاکٹر عزیز احسن (کراچی ) کا تحقیقی مضمون ’’ نعت اور ہماری شعری روایات ‘‘ تقریباً سات صفحات پر مبنی بڑاہی فکر انگیز دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے اپنے مقالہ کے ذریعہ قاری کو اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نعت نبی ﷺ کے لئے گو خاص ہیئت یا کوئی خاص صنف سخن مخصوص نہیں ہے۔ شاعر جس صنفِ سخن میں مہارت رکھتا ہو وہ نعتیہ اشعار کہہ سکتا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے عربی اور فارسی شعرأ کے علاوہ اردو زبان کے شعرأ پر بھی ایک تحقیقی جائزہ لیا ہے۔ ان کے مضمون سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’ نعت شریف‘‘ کے مخصوص صنف کو ہر صنفِ سخن میں لایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب تو نعت لکھنے کے لئے غزل اور قصیدہ کا ’’ پیٹرن (Pattern ) ہی سامنے رکھا لیکن محسنؔ کاکوروی نے غزل قصیدہ اور مثنوی میں اپنے فن کے وہ جوہر دکھائے کہ انہیں نعت گوئی کا فن شناس شاعر تسلیم کیا گیا۔ پھر حالی ؔ نے اپنی مسدس میں نعتیہ اشعار اس درد مندی سے لکھے کہ عوام و خواص کے دلوں پر یہ نقش ہوگئے۔

(دبستان ِ نعت صفحہ۶۵ )

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کے مذکورہ اقتباس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نعت شریف ، غزل ، قصیدہ ، مثنوی اور مسدس میں لکھی جا چکی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے ہند و پاک کے مختلف شعرأ کی وہ فہرست پیش کی ہے جنہوں نے مختلف اصنافِ سخن میں نعت شریف کو لکھنے کی سعادت حاصل کی ہے اور وہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ’’ پاکستان میں جب عہدِ ضیا الحق ‘‘ قائم ہوا تو سرکاری سطح پر نعت خواں حضرات کی پزیرائی ہونے لگی تو مزید شعرأ اس مقدس صنف کی طرف راغب ہوئے اور سلسلہ پورئی تیزی کے ساتھ آج تک رواں دواں دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے چند شعرأ کی فہرست کا ذکر کیا ہے۔ وہ آگے لکھتے ہیں۔

’’ کیوں کہ ان شعرأ نے تسلسل کے ساتھ قدیم و جدید شعری اسالیب کے امتزاج سے نعتیں کہی ہیں۔ جدید شعری اسالیب میں نعتیہ ادب تخلیق کرنے والے شعرأ میں عبد العزیز خالدؔ ، عارف عبد المتین ، احمد ندیم قاسمی، ریاض مجید ، ریاض حسین چودھری، سرشار صدیقی و غیرہم کے نام ہمیشہ درخشاں ستاروں کی طرح چمکتے رہیں گے۔‘‘ (دبستانِ نعت۔ صفحہ ۶۷)

ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قدیم و جدید چاہے ان کا تعلق ہندوستان سے ہو یا کستان سے ہر ایک شاعر نے مختلف اصنافِ سخن میں نعتیہ ادب کو تخلیق کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔راقم الحروف نے اس سے پہلے کے تحقیقی مضمون اور تبصرہ میں اس بات کا ذکر کر چکا ہے کہ ’’ نعتیہ ادب کے لئے کوئی خاص صنفِ سخن مخصوص نہیں بلکہ وہ ہر صنفِ سخن میں تخلیق کیا جا سکتا ہے۔

اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ نہ تو ہم نعتیہ ادب کے لئے کوئی خاص صنفِ سخن مخصوص کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس مقدس صنفِ ادب کے لے مخصوص صنفِ سخن مقرر کیا گیا ہے۔ اس طرح ’’نعت ‘‘کے لیے کوئی بھی صنف سخن مقرر کرنے سے اس کا دائرہ ادب محدود ہوجاتا ہے۔ حالانکہ یہ صنف ادب محدود نہیں بلکہ لا محدود ہے۔

ہم تمام شعرأ کو اس بات کا اختیار ہے کہ ہم جس صنفِ سخن میںکیوں نہ ہو اپنی عقیدت و محبت کے پھول کو بارگاہِ نبوی ﷺ میں نہایت ہی ادب و احترم کے ساتھ نچھاور کر سکتے ہیں۔ اس کو نہ کوئی روک سکتا ہے اوراس کے لیے نہ کوئی حدود مقرر کر سکتا ہے۔ راقم الحروف کے خیال میں شاعر کو پوری آزادی ہے کہ وہ دائرہ ادب میںرہ کر مختلف اصناف میں اپنی نعتیہ شاعری کو تخلیق کر سکتا ہے۔ اس طرح نعتیہ ادب کے لئے صنفِ حدود مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کیا جائے تو بے ادبی کا سبب بن سکتا ہے اس سے ہر ایک شاعر کوبچنا چاہیئے ۔

’’ نعتِ رسول ﷺ اور اس کی ارتقاء ‘‘

جناب ساجدؔ امروہوی اپنے مضمون ’’ نعتِ رسول ﷺ اور اس کی ارتقأ ‘‘ میں اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ ’’نعت ‘‘کے لئے کوئی صنفِ سخن مخصوص نہیں۔ وہ آگے لکھتے ہیں۔

’’ نعت کے اس معنی میں نثر اور نظم کی کوئی تخصیص نہیں ‘‘( دبستانِ نعت صفحہ ۶۹)

فاضل مقالہ نگار نے اس مضمون کے ذریعہ عربی ، فارسی اور اردو زبان کے شعرائے کرام کا مستند حوالوں کے ساتھ شعرأ کا ایک ایک شعر پیش کرکے قارئین کی معلومات میں اضافہ کیا۔ خدا ان کے قلم کو مزید تقویت بخشے۔آمین۔

ساجدؔ صاحب کا یہ مضمون ہماری معلومات میں اضافہ ہی اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہوئی کہ آپ نے ہمارے پیارے نبی ﷺ کے عم محترم حضر ت ابو طالب سے منسوب عربی شعر پیش کرکے واقعی ’’ فن نعت ‘‘کے ابتدائی منازل کا پتہ ہمیں بتایا ہے جو کہ عام قاری ان باتوں سے ناواقف ہے۔ اس کے بعد انہوں نے نعت کا قدیم ترین ماخذ ’’ تبع حمیری ‘‘ کے اشعارکو ایک ایسے معتبر حوالہ سے پیش کیا ہے جس کا نام تفسیر ابن کثیر جلد ۴ کے صفحہ ۱۴۶ پر مرقوم ہے۔ حوالے دیے گئے اشعار سے ایک عام قاری اب تک لا علم تھا جس کو انہوں نے بڑی خوبی کے ساتھ تحقیقی پیرائے میں پیش کیا ہے۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عبد اللہ ابن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اشعار پیش کرکے تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے فارسی زبان میں کہے گئے نعتیہ اشعار کو بھی ترتیب وار پیش کیا ہے جیسا کہ حضرت شیخ سعدی ، حضرت حافظ شیرازی، مولانا جامیؔ ، خاقانی کے علاوہ حضرت محی الدین جیلانی علیہ الرحمہ عرفی شیرازی اور قدسی ایرانی کے اشعار وغیرہ۔ اس کے بعد انہوں نے اردو زبان کے شعرأ میں علی الترتیب حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ ، حضرت امیر خسرو علیہ الرحمہ ، اسد اللہ غالبؔ اور سر سید احمد خاں کے فارسی اشعار کو لکھا ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

راقم الحروف کو یہ بات اچھی لگی کہ انہوں ے سر سید احمد خاں کا نعتیہ شعر ڈھونڈھ نکالا جو کہ عام قاری کی نظروں سے اب تک نہیں گزرا۔ لہٰذا قابلِ مبارک باد ہیں ساجد ؔامروہوی صاحب انہوں نے سر سید احمد خاں کا حسب ذیل شعر پیش کیا۔ ؎


ز جبرئیل امیں قرآں بہ پیغام ِ نمی خواہم

ہمہ گفتار معشوق است قرآنے کہ من دارم

اس طرح اردو شعرأ کی تحقیق بھی بڑے عمدہ پیرائے میں کی ہے جس میں تاریخی شواہد کی تفصیلات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ آپ نے ایک ایسے شاعر کی نشان دہی کی جنہوں نے نعت گوئی کے سلسلہ کو تا حیات جاری رکھا جن کا نام ہے کرامت علی شہیدی۔ شاید قارئین کے لئے یہ ایک نئی دریافت ہوگی۔ امیر ؔمینائی ایک ایسے با کمال شاعر ہیں جنہوں نے ایک نعتیہ دیوان ’’ محامد خاتم النبین ‘‘ اپنی یادگار چھوڑا ہے۔ میرے خیال میں یہ دیوان دیگر نعت گو شعرأ کے لیے خضرِ راہ کا کام دئے گا۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں اس طرح کے کئی دیوان معرضِ وجود میں آئیں گے۔ جدید نعت گو شعرأ کی انہوں نے جو فہرست بیان کی ہے وہ بھی معلومات کا ایک ذخیرہ دکھائی دیتی ہے۔ میرے خیال میں شمالی ہندوستان کے یہ شعرأ ہیں اگر جنوبی ہند کے چند شعرأ کو بھی اس میں شامل کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ اس کے علاوہ مختلف شعرأ کے ایک ایک شعرکو پیش کرکے قارئین کے دلوں میں جذبہ ٔ عشق رسولﷺ کو بڑھا دیا۔ مضمون کے آخری حصے میں آپ نے ایک ایسی حقیقت کو بیان کیا ہے کہ جو عشقِ رسول ﷺ کی زندہ مثال ہے جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ۔

’’اصل میں دلوں کو تڑپا دینے والے اشعارکہے نہیں جاتے ہو جاتے ہیں ‘‘ بڑا معنی خیز جملہ ہے جو کہ حقیقت ِ حال پر مبنی ہے۔ میری دعا ہے کہ ا س طرح کے مضامین اگلے شماروں میں آتے رہیں۔ عاشقان رسول ﷺ کو سامان ِ عشق مہیا کرتے رہیں۔ آمین۔

ڈاکٹر فہیم احمد صدیقی کا مضمون :

’’ حاضر کے بلند قامت غیر مسلم نعت گو شاعر حضرت کرشن کمار طور ؔ ‘‘

مذکورہ عنوان کی روشنی میں اگر مضمون دیکھا جائے تو درمیانی حصہ میں ایک جھول نظر آتا ہے ، وہ ان کی غزل گوئی کے محاسن پر بات کی ہے اگر اس بات کو مضمون سے نکال دیا ہوتا تو مضمون کے ساتھ انصاف ضرور ہوتا۔ بات نعت گوئی کی ہو رہی ہے درمیان میں غزل گوئی کو لایا گیا جو کہ مضمون آفرینی کی راہ میں حائل ہو گیا ہے۔

فاضل مقالہ نگار نے ان کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری کو ان کے ہی اشعار سے ان کے اندر وحدانیت و رسالت پناہ ﷺ سے بے حد عقیدت و محبت کے اظہار کا ذریعہ بنا۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ آپ اہمیت کی حامل تو نظر آتی ہیں۔ لیکن اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود وہ بنیادی طور پر طور ؔ صاحب نعمت ایمان سے محروم رہ گئے ہیں۔ کاش وہ اگر دولتِ ایمان سے مالا مال ہو جاتے تو میرے خیال میں ان کی نعتیہ شاعری سرِ فہرست رکھی جا سکتی۔ اور پیارے نبی آقا ﷺ کی بارگاہ بے کس پناہ میں مقبولیت کا درجہ رکھتی۔ اور آپ کے نام کے ساتھ فاضل مقالہ نگار نے جو لفظ ’’ حضرت ‘‘ استعمال کیا ہے۔ وہ بھی اسم با مسمیٰ ہو جاتا۔ کاش اگر ایسا ہوتا۔ ورنہ لفظ ’’ حضرت ‘‘ کا استعمال راقم کے خیال میں غلط اور غیر مناسب ہے۔ یہ وہ مقدس لفظ ہے جو صرف پیغمبر حضرات جیسی بلند مقام شخصیات اور عام مسلمانوں میں جو بھی مقام عرفان الٰہی یا عشق نبوی ﷺ سے مالا مال ہوتے ہیں۔ ان کے لئے ہی استعمال کیا جائے تو مناسب ہوگا۔ آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ طور ؔ صاحب کی نعتیہ اور حمدیہ شاعری قابلِ قبول و لائق تحسین ہے۔ صرف ادبی محاسن کے ضمن میں اور خیال آفرینی کی بلندی میں جو کہ عقیدت و محبت کی قوت ِپر واز رکھتی ہیں۔ راقم کی دعا ہے خدا طور ؔصاحب کو ایمان کی دولت سے مالامال کر دے آمین ثم آمین۔

فاضل مقالہ نگار ڈاکٹر فہیم احد صدیقی صاحب نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ انہیں مختلف اکاڈمیوں سے انعامات بھی دئے گئے ہیں۔ خوشی کی بات ہے۔ لیکن راقم کے خیال میں انہیں اکادمیوں سے انعامات تو مل چکے کاش وہ ایمان کی دولت سے مالا مال ہو جاتے تو خدا کے ایوارڈ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سرفراز ہو جاتے۔

’’ ڈاکٹر صغریٰ عالم ایک خوش فکر نعت گو شاعرہ ‘‘

جناب فیروز احمد سیفی صاحب ( نیو یارک) کا یہ مضمون فن ’’ نعت گوئی ‘‘ کے ضمن میں ایک نئی دریافت کی حیثیت رکھتا ہے۔ تحقیق اس کو کہتے ہیں جو بات عام قاری کی معلومات سے باہر ہو۔ اس بات کو قاری کی معلومات کے لئے مختص کی جائے تو وہ اہمیت کی حامل ہو جا تی ہے۔لہٰذا سیفی صاحب نے اپنے مضمون کے ذریعہ تحقیق کے اصول پر پابند ہوتے ہوئے انہوں نے حق تحقیق کو مذکورہ مضمون کے ذریعہ ادا کیا ہے۔ وہ قابل ِ مبارک باد ہیں۔ میں یہ کہوںگا کہ ان کے اس مضمون سے ’’ نعت گو‘‘ شعرأ کی فہرست میں بالخصوص شاعرات کی فہرست میں اضافہ ہوا۔

صغریٰ عالم صاحبہ کا نام جنوبی ہند کی ’’ نعت گو ‘‘ شاعرات میں ایک نئی دریافت کا درجہ رکھتا ہے۔ ’’ نعتیہ شاعری ‘‘ ہر کوئی شاعر نہیں کر سکتا جبکہ ا سکے قلب و ذہن بلکہ اس کے پورے وجود پر عشق نبی ﷺ کا مبارک و مسعود جذبہ غالب نہ ہو۔ آپ کی شاعری کو پڑھنے کے بعد دل یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ تو عاشقہ ہے جو اپنے رسول ﷺ سے ہر درجہ عقیدت و محبت رکھتی ہے ان کے اشعار قاری کو عاشق رسول ﷺ بنا نے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ راقم نے حسب ذیل اشعار میں یہ کیفیت دیکھی ہے و ہ اشعارملاحظہ ہوں۔ ؎


با وضو رہتی ہیں ہر دم مری آنکھیں دونوں

تیرے دیدار کا کیا اور سلیقہ ہوگا

میں نہ لکھ پاونگی توصیف محمد ﷺ صغریٰؔ

اتنا آسان نہیں توصیف پیمبر ﷺ لکھنا

ان کے صدقے میں لُٹا دوں یہ مری عمر رواں

ہیں مری روح، مری جان، رسول عربی ﷺ

میرے خیال میں خوابوں میں روضہ اطہر

سراغ اپنا خدا نے یوں دیا ہے مجھے

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

اس طرح کے بہت سے اشعار ہیں جو ان کے جذبات حقیقی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ میں نے ان کے آخری شعر میں ان کے خاتمہ بالخیر ہونے کے جذبہ کو دیکھا ہے خدا ضرور ان کا خاتمہ بالخیر کیا ہوگا۔ میری دعا ہے کہ وہ جو ار رحمت خداوندی میں رسالت پناہ ﷺ کی قربت کی دولت سے مالا مال ہو جائیں۔ آمین اس مضمون کے صفحہ ۸۵ پر لفظ ’’ رحمۃ العالمین ‘‘ لکھا ہوا ہے شاید کتابت کی غلطی ہوئی ہوگی اس کی اسطرح تصحیح کرنی چاہیئے ۔ ’’ رحمۃ اللعالمین ‘‘ اسی طرح ’’ انّا اعطینا‘‘ کی بجائے اعطینی لکھا ہوا ہے یہ بھی کتابت یا ٹائپنگ کی غلطی ہوگی۔ اصلاح کر لی جائے۔

صفحہ ۸۴ پر مقالہ نگار موصوف نے لکھا ہے کہ ’’ پھر وہ عظیم ترین نیّر اعظم ﷺ جن سے خود اس ذات مقدس نے محبت کی اور اپنے بندوں کو اس ذاتِ ستودہ صفات رسول اکرم ﷺ سے محبت کرنے کا حکم صادر فرما کر یہ درس دیا ہے کہ یہی ’’ صراط مستقیم ‘‘ ہے۔ راقم کے خیال میں ’’ صرط مستقیم ‘‘ کی بجائے ’’ معراج انسانی ‘‘ ہے لکھ دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ دوسرا وہ جملہ صفحہ ۸۵ پر لکھا ہوا ’’بشرطیکہ نعت گو بارگاہ مصطفی ﷺ کی لا زوال عظمتوں ، لطافتوں اور دل آویزیوں سے حتی الامکان آشنا اور اپنے موضوع کی نزاکتوں کا ‘‘ ادب شناس ہو۔

مذکورہ جملہ میں ’’ ادب شناس ‘‘ ہو کی بجائے ’’ واقف ہو ‘‘ لکھا جاتا تو بہتر ہوتا۔ میرا اپنا خیال ہے شاید پسند آئے۔ مذکورہ مقالہ تحقیقی اعتبار سے قابلِ قبول و لائقِ ستائش ہے۔ خدا کرے اس طرح کے اور مضامین فاضل مقالہ نگار لکھتے رہیں۔ اصل میںیہی تحقیق ہے۔ اس طرح کے مضامین قارئین کی معلومات میں اضافے کا سبب بنیںگے۔

’’ حرفِ آرزو‘‘

منیر احمد ملک ( اسلام آباد ) کا مضمون ’’ حرفِ آرزو‘‘ اپنے عنوان کی معنویت میں اسم با مسمّیٰ نظر آتا ہے۔ صاحب موصوف کو پیارے نبی ﷺ سے حد درجہ عقیدت و محبت ہے جس کی جھلکیاں ان کے مقالے کے ہر ایک لفظ سے عیاں ہوتی نظر آتی ہیں۔انہوں نے جو زبان اختیار کی ہے وہ مقفّیٰ و مسجع انداز تحریر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ یہاں تو دو باتئیں ذہن نشیں ہونی چاہیئے۔ پہلی بات ادبی نقطۂ نظر سے مقفّیٰ و مسجّع طرز تحریر کو موجودہ دور میں اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی کہ آسان و سہل زبان میں بات کو سمجھایا جائے ’’ یہ تو رہی ادب جدید کی بات ‘‘ دوسری اہم بات یہ ہے کہ منیر صاحب کی تحریروں میں ہر ایک نقطہ سے عقیدت ومحبت کی وہ خوشبو جو مشک و عنبر سے کم نہیں قاری کے ذہن و قلب کو معطر کرتی چلی آرہی ہے عقیدت کی وہ اُٹھان جس میں ادب و عقیدت کو ملحوظ رکھا گیا ہے ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے ’’ اردو ادب ‘‘ کے حلقہ میں شاید ان کا انداز تحریر قابلِ قبول ہو نہ ہو لیکن بارگاہ ِ رسالت مآب ﷺ میں ضرور قبولیت کا درجہ حاصل کر ئے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عقیدت کی زبان کچھ اور ہے ادب کی زبان کچھ اور۔منیر صاحب نے واقعی مقالے کے شروع میں اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے وہ لکھتے ہیں۔

’’میں نہ تو سخن ور ہوں کہ شوخی گفتار سے آپ کے شعلہ ٔ نفس کو گرما سکوں اور نہ ہی قلم کار کہ لفظوں کے خزف ریزوں سے ہیرے تراش سکوں۔‘‘(دبستانِ نعت، صفحہ ۹۵)

منیر صاحب نے واقعی اپنی تحریروں میں اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ وہ جو کچھ لکھ رہے ہیں یا لکھ چکے ہیں ان کی تحریروں کے پیچھے ان کی ذاتی کاوشیں اور فنی کمال کی حُسن کاری نہیں ہے بلکہ ان کی تحریروں کی تخلیق محض اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم اور پیارے نبی ﷺ کا نذرکرم ہے ورنہ وہ کچھ بھی نہیں۔ حسب ذیل تحریر میں ہم اِس صداقت کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں ، ملاحظہ کیجئے۔

’’ تحریر کے ابرِ ریشم میں حُسن تربیت کا فقدان اور الفاظ کی کم مائیگی شاید زبان حال سے پکارتی نظر آئے تو اسے میری تقصیر سمجھئے گا اور اگر کسی لفظ کا حُسن کسی خیال کی ندرت آپ کی نگاہ جمال بن کر دل کے تاروں کو چھو لے اور محبوبِ انس و جاں ﷺ کی محبت کی دھنک ستاروں کی طرح پلکوں پہ اتر آئے تو یہ میرا کمال نگارش نہیں بلکہ احسان خداوندی اور آقائے دو جہاں ﷺ کی نذرِ کرم کا صدقہ ہوگا۔‘‘ (دبستان نعت، صفحہ ۹۶)

ادبی تحقیق میں تحریروں کا اصول یہ ہے کہ جو بھی بات آپ بیان کریں اس کا حوالہ ضرور دیا کریں۔ کیوںکہ جو بات حوالے کے ذریعہ کہی جاتی ہے وہ اصولِ تحقیق کے عین مطابق ہوتی ہے۔ بغیر حوالے کے جو بات کہی جاتی ہے وہ ادبی نقطہ ٔ نظر سے معیوب سمجھی جاتی ہے۔ میری مراد منیر صاحب نے اپنے مقالہ میں جو تحریری انداز اختیار کیا وہ بہت ہی ادبی حُسن وجمال سے مزیّن ضرور ہے لیکن تحقیقی اصول و ضوابط کی روشنی میںغیر مستند ہیں کیوں کہ انہوں نے جو اشعار پیش کیئے ہیں اس کا حوالہ نہیں دیا ہے۔ قاری کو اشعار پڑھ کراس کا ذہن اچمبھے میں پڑ جاتا ہے کہ یہ اشعار خود منیر صاحب کے ہیں یا کسی اور کے ؟ یہ سلسلہ صفحہ ۹۵ سے صفحہ ۱۰۷ تک کا ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے صفحہ ۱۰۸ میں جو اشعار لکھے ہیں باقاعدہ طور پر حوالہ دیا ہے۔ مثلاً مولانا ظفر علی خاں ، شورش کاشمیری ، ریاض حسین چودھری ، علامہ اقبالؔ وغیرہ۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

منیر صاحب کا یہ طویل مقالہ جو تقریباً بیس صفحات پر مشتمل ہے۔ آپ نے مقالہ بہت ہی اچھا تحریر فرمایا ہے۔ معلومات افزأ اور قابل ِ قرآت ہے۔ آخر میں آپ حوالہ جات دیے ہوتے تو اس مقالے میں اور بھی حُسن و خوبی پیدا ہوتی ، امید کہ فاضل مقالہ نگار ضرور اس جانب توجہ فرمائیںگے۔ اور جو بھی ناچیز نے اپنے خیالات کا اظہار تنقیدی و تحقیقی پیرائے میں کیا ہے اس طرف آپ التفات فرمائیں گے۔ بحیثیت مجموعی آپ اپنے مضمون کے ذریعہ قاری کے اندر جوش و جذبات کا ایک خوبصورت پیکر لیے متاثر کرجاتے ہیں۔ امید کہ صاحب ِ مقالہ نگار میرے دئے ہوئے مشوروں پر عمل پیرا ہو کر اگلے مقالوںکو اور بھی خوبصورت بنائیںگے۔ بس اسی امید کے ساتھ اپنی تحریر کو ختم کرتا ہوں۔

’’ ناعت پر فیضان ِ منعوت ‘‘

قاضی محمد رفیق فائز فتح پوری کا یہ مضمون ’’ ناعت پر فیضان ِ منعوت ‘‘جو کہ تقریباً تیرہ صفحات پر مشتمل ہے۔ تحقیقی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس مضمون کو فقہی دلائل پر مبنی مستند اور مدلل قرار دیا جا سکتا ہے۔ آپ نے جو بات کہی ہے وہ اصول فقہ کی روشنی میں راست اور درست قرار دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے احادیثِ نبوی ﷺ کی روشنی میں مستند حوالوں سے بات کہی ہے۔ تحقیق میں مستند حوالوں کی بڑی اہمیت ہے۔وہ مضمون جو بغیر مستند حوالوں کے لکھا جاتا ہے، اصول تحقیق کی روشنی میں نا قابلِ قبول قرار دیا جاتا ہے۔

’’ نعت ‘‘ شریف کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے مضمون کی شروعات ہی بڑے ہی خوبصورت انداز میںکی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ نعت جیسے عبادتی موضوع پر خامہ فرسائی کرنے کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش بھی عبادت کے زمرے میں ہی آتی ہے۔‘‘

(’’دبستان نعت‘‘۔صفحہ ۱۱۵ ) آپ نے ایک اہم اور پتے کی بات یہ کہی کہ نعت شریف کی اساس کلمہ ٔ طیبہ پررکھی گئی ہے وہ لکھتے ہیں۔

’’ اس کی اساس و بنیاد خود کلمہ ٔ طیبہ ہے جو دو جزوں پر مشتمل ہے ‘‘ صفحہ ۱۱۵

فقہی نقطہ ٔ نظر سے بھی آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ :

’’ تو جب کلمہ ٔ طیبہ کے جز اوّل پر اجر وثواب مرتب ہوگا تو جز ثانی پر کیوں نہیں۔‘‘(’’دبستان نعت ‘‘۔ صفحہ ۱۱۶)

’’ نعت ‘‘ پاک وہ صنفِ سخن ہے جس کے لئے نہ تو نظم کی قید لگائی جا سکتی ہے اور نہ ہی نثر کی بلکہ ’’ نعت پاک ‘‘ نظم و نثرکے مختلف اصناف میں کہی جا سکتی ہے اس مقدس صنف کو مقید کیانہیں جا سکتا کیوں کہ وہ لا محدود صنفِ سخن ہے ۔‘‘

قاضی محمد رفیق صاحب نے اسی بات کی تصدیق اس طرح کی ہے :

’’ اردو ادب میں’’ نعت ‘‘ کو مقید و محصور کیا گیا ہے۔ ورنہ تو ’’نعت‘‘ کے معنی خوبیاں ، اور اوصاف و خصائل بیان کرنا ہے۔ اس میں (نظم) و نثر کی کوئی قید نہیں۔‘‘

آگے چل کر آپ نے کلمہ ٔ طیبہ کے معنوی پسِ منظر میں حمد باری تعالیٰ کے ساتھ نعت نبی ﷺ کا بھی ذکر کرتے ہوئے حضرت حسّان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک شعر نقل کیا ہے جو کہ قابلِ غور ہے وہ لکھتے ہیں :۔

’’ اور جب حمد ِ باری تعالیٰ پر عبادت کا اطلاق ہوتا ہے تو نعت نبی ﷺ کا انکار کیونکر کیا جاسکتا ہے۔ جوبقول حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ ؎


ضم الہ اسم النبی باسمہ ان قال فی الخمیس الموذن اشھد۔

’’ یعنی اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کا نام اپنے نام کے ساتھ ایسا ملایا ہے کہ جس کی گواہی موذن پانچ وقت اذان میں دیتا ہے۔ تو جو کام خود اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اور نبی کریم ﷺ کے صحابہ ٔ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا ہو اس کے عبادت ہونے سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔‘‘

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

صاحب مضمون نگار نے یہ ثابت کیا ہے کہ سب سے پہلے زمین پر حضرت آدم علیہ السلام نے حضور اکرم ﷺ کے وسیلۂ مبارکہ سے آپ کی شان میں نعت شریف کے الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے خدا سے اپنے گناہوں کی معافی چاہی وہ نعتیہ الفاظ جس کا وسیلہ لے کر آپ نے اپنی مغفرت طلب کی وہ یہ ہیں۔ ’’ بحق محمد الا غفرت لِی ‘‘ اس طرح آپ نے مختلف احادیث کے ذریعہ آپ کی شفاعت کبریٰ کے دلائل کو بھی پیش کیا ہے۔ بہر حال مجموعی طور پر آپ کا یہ مضمون نہ صرف قابلِ قبول ہے بلکہ قابلِ تقلیدبھی کہا جا سکتا ہے۔

’’ ناعت پر فیضان ِ منعوت ‘‘میں کتابت کی بہت جگہ غلطیاں ہوگئی ہیں انہیں درست کر لیا جائے تو مناسب ہوگا جن کی تفصیلات حسب ذیل بیان کی جا رہی ہیں :۔

۱۔ ’’ ترمزی شریف ‘‘ صحیح لفظ ’’ ترمذی سریف ‘‘ صفحہ ۱۲۴

۲۔ ’’ حضرت ابو حریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘‘ ’’ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحیح ہے۔ صفحہ ۱۲۴

۳۔’’ بحق محمد الا غفرت لی ‘‘ ’’ الا غفرت لی ‘‘ صحیح ہے۔ صفحہ ۱۲۶

آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ مضمون ’’ ناعت پر فیضان ِ منعوت ‘‘ کا آخری حصہ موضوع سے ہٹا ہوادکھائی دیتا ہے کیوں کہ آپ ناعت و منعوت کی بات کے بجائے شفاعت کبریٰ کا ذکر مفصل طور پر کیا ہے جس سے موضوع کا کوئی تعلق نہیں۔ اس جانب توجہ کر لیں تو مناسب ہوگا۔

’’ انسانِ کامل ﷺ کا ذکرِ خیر ‘‘

سید اقبال حیدر ( ہیوسٹن ) کا مضمون ’’ انسان کامل ﷺ کا ذکرِ خیر ‘‘ چار ذیلی عنوانات کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ انہوں نے ’’ علامہ ماوردی کے مضمون ‘‘ سے استفادہ کرکے جن چار ذیلی عنوانات کو ’’ ابجد ‘‘ کی ترتیب کے ساتھ لکھا ہے۔ اس میں ان کی طرف سے کوئی تحقیقی یا تنقیدی پہلو دکھائی نہیں دیتا۔ مضمون نگار کو چاہیئے تھا کہ وہ اپنی طرف سے کوئی تحقیقی پہلو اور تنقیدی آرا ٔ کو شامل کر لیا ہوتا تو یہ مضمون تحقیقی نقطۂ نظر سے قارئین کو متاثر کر جاتا۔

میرا مشورہ ہے کہ مضمون نگار سید اقبال حیدر صاحب مزید مطالعہ کرکے تحقیقی و تنقیدی پہلوؤں سے اگلے مضمون کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔علامہ کا جو نام انہوں نے لکھا ہے شاید کتابت کی غلطی سے نام میں تبدیلی ہوئی ہوگی۔ اصلاح کر لیں۔

’’ مظفر وارثی کا حمدیہ آہنگ ‘‘

ڈاکٹر عزیز احسن ( کراچی ) کا مضمون ’’ مظفر وارثی کا حمدیہ آہنگ ‘‘تحقیقی اعتبارسے دیکھا جائے تو اس میں بہت سی معلومات کو یک جا کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ایک عام قاری کو معلومات میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ انہوں نے اسلوبیات پر کھل کر بحث کی ہے۔ جیسا کہ انہوں نے ’’ ما فیہ و اسلوب ‘‘ ، ’’ طیف ‘‘ ، مجرد خیال کو تجسیمی بنانا ، تمثال آفرینی اور کا سمک ویزن وغیرہ کو مثالوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔

ڈاکٹر عزیز صاحب ! اپنے مقالہ میں دونوں اجزا کا بھر پور استعمال کیا ہے جس سے مقالہ میں ایک ادبی نکھار دیکھنے کو ملتا ہے۔ دونوں اجزا سے مراد تحقیق و تنقید ہے۔ ایک کامیاب ادیب کی نشانی یہ ہے کہ وہ بر موقع بر محل ان کیفیات کو بیان کرکے جیسا کہ انہوں نے اشعارکے اسلوبیاتی اور معنوی پیکر میں سمودیا ہے۔ راقم الحروف کے خیال میں آپ کے مقالہ میں تحقیقی و تنقیدی دونوں پہلو واضح نظر آتی ہیں۔ یہی بات ایک تجربہ کار محقق اور نقاد میں ہوا کرتی ہے۔ اسی اعتدال پسندی کی وجہ سے فن کا حقیقی مرتبہ قاری کے سامنے کھل کر آتاہے۔ ایک کامیاب نقاد و محقق تحقیق و تنقید کے اصول و ضوابط کا پابند نظر آتا ہے یہ کیفیت ہمیں ڈاکٹر عزیز احسن کے مقالہ میں دکھائی دیتی ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے اشعار کی تشریح اس کے معنوی پس منظر میں وضاحتی پیرائے میں پیش کی ہے۔ جس سے نہ صرف شاعر بلکہ ناقد کے بصیرت افروز انداز بیاں کا بخوبی اظہار دکھائی دیتا ہے۔ مظفر وارثی کی حمدیہ شاعری کا انہوں نے بغائر مطالعہ کیا۔ا شعار میں چھپے معنوی پیکر کو وضاحتی انداز بیان کے ساتھ پیش کیا ہے۔ جس کے لیے میں فاضل مقالہ نگار ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کو مبارک باد پیش کرتاہوں۔ اور امید کرتا ہوں کہ اپنے آئندہ لکھے جانے والے نعتیہ ادب پر مشتمل مقالہ میں بھی اسی کیفیت کو بر قرار رکھیں گے۔ آمین۔

بحیثیت مجموعی آپ کا مقالہ تمام فنی نقائص سے پاک دکھائی دیتا ہے۔ ( راقم احروف )

مظفر وارثی کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے ایک جگہ لفظ ’’ صحیفہ ٔ عقیدت‘‘ لکھا ہے وہ مناسب نہیں کیوں کہ یہ لفظ آسمانی کتابوں کے نزول کے لیے مختص ہے جوکہ پیغمبران ِ اسلام پر نازل ہو ئے۔ بجائے لفظ ’’ صحیفہ ٔ عقیدت ‘‘ کے ’’ گلہائے عقیدت ‘‘ ، یا کتاب ِ عقیدت لکھ دیتے تو مناسب تھا۔اس طرف ڈاکٹر صاحب توجہ دیں۔ ( راقم الحروف )

’’ لسان الحسان طاہر ؔسلطانی کے نعتیہ کلام ’’ نعت روشنی ‘‘ کا تنقیدی جائزہ‘‘

جناب محسن اعظم محسن ؔ ملیح آبادی ( کراچی ) کا مضمون’’ لسان الحّسان طاہر سلطانی کے نعتیہ کلام ’’ نعت روشنی ‘‘ کا تنقیدی جائزہ پڑھنے کے بعد راقم کو اس بات کا واضح اندازہ ہوا کہ آپ نے جو طرزِ ادا اشعار کی تشریح کے لیے اپنایا ہے وہ طوالت لیے ہوئے ہے۔ اشعار کی تشریح اگر چہ انتہائی عقیدت و محبت کے پیرایہ میں کی گئی ہے۔بات کو اس طرح پیش کرنا چاہیے کہ قاری کو طوالت کا احساس نہ ہو اور نہ ہی مقفع مسجع الفاظوں میں چھپے معنوی پیکرکی تراشی کی جائے بلکہ اشعار کی وضاحت فصیح و بلیغ پیرائے میں کی جائے۔

جو زبان فصاحت و بلاغت کے لئے استعمال کی جاتی ہے وہ قاری کے سمجھنے میں آسانی ہواور اس کے دل پر اثر کرے۔ جہاں تک تنقیدی اصول و ضوابط کا تعلق ہے وہاں زبان کو اس طرح استعمال کی جائے جس سے قاری کے سمجھنے میں آسانی ہو مترادف الفاظ یا مختلف لفظیات کے ذریعے معنی کی یکائی ظاہر کرنا قاری کو مشکلات میں ڈال دیتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس زبان سے ایک ادیب ضرور محظوظ ہو سکتا ہے عام قاری نہیں۔ ایک کامیاب ادیب کے پیشِ نظر وہی زبان ملحوظ رہتی ہے جو افہام و تفہیم کی راہ میں ممد و معاون ثابت ہو۔ اسی زبان کے ذریعہ ادیب قاری کو اپنی بات سمجھانے میں کامیاب و کامران نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے جو معنی کی ترسیل میںموثر ثابت ہواہے۔ جن میں تفہیم کی لذت کے ساتھ تاثیر کی حلاوت قاری کو متلذّذ کر جائے۔

اب رہی بات طاہر ؔ سلطانی صاحب کے ان اشعار کی جن کے ہر ایک لفظ سے لذتِ تفہیم کی جھنکار کے ساتھ ساتھ حلاوت کی چاشنی دیر پا اثر چھوڑ جاتی ہے۔ عقیدت و محبت سے بھرے جذبات کی لَے میں ڈوبئے ہر ایک شعر میں عشق و محبت کی حرارت ایمان و یقین کو استحکام بخشتی جارہی ہے۔واقعی طاہرؔ سلطانی صاحب کے ہر ایک شعر میں احساسات و جذبات کاایک حقیقی پیکر دیکھنے کو ملتا ہے۔ محسن ملیح آبادی اگر آسان اور موثر زبان کو استعمال کرتے تو قاری کے سمجھنے میں اور شاعر کے سمجھاتے ہوئے معنوی پیکر میں ہم آہنگی پیدا ہو سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی زبان صرف ادیبوں کے لیے ہے ایک عام قاری کی سمجھ سے باہر نظر آتی ہے۔ امید کہ اس جانب توجہ دی جائے گی ( راقم الحروف)

’’ ان کی نعت رسمی نہیں ‘‘(دبستانِ نعت، صفحہ ۱۴۳ )

محسن صاحب نے لکھا ہے کہ ان کی نعتیں رسمی نہیں۔ جہاں تک نعت نبی ﷺ کا مقام و مرتبہ ہے وہاں لفظ رسمی کا استعمال کرنا بے اد بی کے زمرہ میں داخل ہوتاہے۔ نعت شریف نعوذ باللہ رسمی نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ تو توحید کے ہر دو جز کے معنوی پسِ منظر میں رسالت مآب ﷺ کے مجسم سراپا ، مجسم اوصاف ِ حمیدہ ، رحمۃ للعالمینی کے ہر ایک حُسنِ ادا ، ہر ایک حسن معاملہ کی تصویر کشی سے متعلق ہوتی ہے۔ اس مقدس صنف میں ’’ رسمی ‘‘ کا لفظ استعمال کرنا میرے خیال میں غیر مناسب لفظ دکھائی دیتاہے۔ہاں ہو سکتا ہے کہ بعض غیر مسلم حضرات نے جو نعت شریف لکھی ہیں اُن کو صنف ِ ادب کے تحت نعت ِ رسمی میں استعمال کیا گیا ہو۔ غیر مسلم شعرأ سے ہٹ کر جتنے بھی مسلم شعرأ اپنی عقیدت و محبت کا اظہار ’’ صنف نعت ‘‘ سے کیا کرتے ہیں اُن کے لیے ’’ رسمی نعتیں ‘‘ کہنا غیر مناسب و ادب کے خلاف ہے۔ اُن کا یہ جملہ میری سمجھ میں نہیں آیا ’’ کچھ اشعار ایسے بھی ہیں جن میں نسبت رسول مصور ملتی ہے ‘‘ معنوی اعتبار سے یہ جملہ جھول پیدا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس جملہ کو اس طرح لکھا جاتا تو بہت ہی بہتر ہوتا وہ یوں ہے ’’ کچھ اشعار ایسے بھی ہیںجن میں نسبت ِ رسول کی تصویر کشی ہمیں بخوبی دیکھنے کو ملتی ہے ‘‘ معنوی پس منظر میں یہ جملہ بہت ہی خوب نظر آتا ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

وہ آگے چل کر لکھتے ہیں :۔

’’ ان کے طرزِ اظہار میں سلیقہ ٔ شاعرانہ ہے ‘‘ یہ جملہ بھی کھٹکتا ہوا نظر آتا ہے بجائے اس کے سلیقۂ عقیدت مندی دکھائی دیتی ہے ‘‘ لکھ دیتے توبہت ہی اچھا ہوتا۔ان کی تحریر میں عربی تراکیب کے جملے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ عصرِ حاضر میں بھی بعض قاری ایسے بھی ہیں جن کو عربی زبان پر عبور حاصل نہیں ہے ایک عام قاری کو عربی تراکیب کے جملے پڑھ کر سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے۔

بالاستیعاب پڑھا ہے۔سریع التاثیر ی(دبستان نعت، ص: ۱۴۵؎)

’’ نعت شریف ‘‘ کے الفاظ خود حد درجہ تازگی کا احساس دلاتے ہیں۔ جن کی کیفیات کو ہم الفاظ کے ذریعہ بیان نہیں کر سکتے محسوس ضرورکر سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں محسن صاحب کا یہ جملہ ’’ جن سے ان کی نعتوں میں تازگی کا احساس ہو تا ہے۔‘‘ غیر مناسب دکھائی دیتا ہے۔

(دبستان نعت،۔ صفحہ ۱۵۰ )

یہ جملہ بھی غیر مناسب دکھائی دیتا ہے وہ لکھتے ہیں۔’’ اُس کی شاعری اس منطقہ میں پہنچ جاتی ہے جہاں لفظ سانس لیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔‘‘ لفظ منطقہ کو ایک عام قاری سمجھ نہیں سکتا۔ اشعار کی شرح میں اس طرح کے مشکل الفاظوں کو نہ استعمال کریں تو وہ ادبی پیرائے میں خوب نکھر کر قاری کے سامنے آ سکتے ہیں۔ اس جانب توجہ کی جائے۔ ( راقم الحروف )

بحیثیت مجموعی آپ کے مضمون کو پڑھنے کے بعد جو اشعار آپ نے طاہر سلطانی صاحب کے پیش کئے ہیں ہر ایک شعر میں عشق و محبت اور عقیدت مندی کے ملے جلے حقیقی جذبات ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں کوئی بھی شعر اپنی شعریت اور عقیدت و محبت کے علاوہ ادب و احترام سے جدا دکھائی نہیں دیتا۔ ان کے اشعار کو پڑھنے کے بعد ذہن بار بار کہتا ہے کہ پھر سے پڑھو پھر سے پڑھواور پڑھتے رہو یوں ہی زندگی گذر جائے آمین۔


حمدِ الٰہ جلّ جلالہ و مدحِ رسول اللہ ﷺ

( غیر منقوط حمدیہ و نعتیہ شاعری کا اجمالی جائزہ)

مذکورہ مضمون طاہر ؔ سلطانی ( کراچی ) صاحب کا لکھا ہوا پڑھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے مختلف شعرأ کے وہ مجموعہ ہائے کلام جو کہ غیر منقوطہ ہیں ہر ایک کا اجمالی جائزہ لیا ہے۔ غیر منقوطہ کلام جس کو ’’ صنعتِ عاطلہ‘‘ کہتے ہیں۔ بڑا ہی مشکل فن ہے۔ لیکن خدائے تعالیٰ جس کو اپنے فضل و کرم سے عطا فرمائے وہ بڑے خوش نصیب شعرأ ہوتے ہیں بالخصوص ’’ نعت پاک ‘‘ جیسی صنفِ سخن میں طبع آزمائی کا مقام آئے۔

طاہر ؔ سلطانی صاحب نے بڑے سلیقہ کے ساتھ نہایت عمدہ پیرائے میں بغیر کسی طوالت کی بات کو سمجھاتے ہوئے ہر ایک شاعر کا نہ صرف تعارف کروایا ہے بلکہ اشعار کی تشریح بھی کی ہے۔ فیضی ؔ ، حفیظ ؔجالندھری، مولانا رازی ، سید محمد امین علی شاہ نقوی ، راغب ؔ مراد آبادی ، لطیف اثر ؔ ، تابش ؔ الوری ،یوسف طاہر قریشی، صادق علی صادقؔ بستوی، محسنؔ اعظم محسن ملیح آبادی ، مولوی قدرت اللہ بیگ مراد ملیح آبادی وغیرہ کی غیر منقوطہ مجموعہ کلام کا تبصرہ بڑے ہی عمدہ پیرائے میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہر ایک شاعر کا انتخابی کلام بھی بطور نمونہ پیش کیا ہے۔ آپ کے مبسوط مقالہ پڑھنے کے بعد ایک عام قاری کو اس بات کا احساس ہونے لگتا ہے کہ ہمارے شعرأ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے پیشِ نظر غیر منقوط کلام کو معلومات میں اضافہ کیا۔

اگرچہ کہ طاہر ؔ سلطانی صاحب کا مضمون طویل ہونے کے باوجود پر کیف دکھائی دیتا ہے۔ بعض جگہ انہوں نے اپنی بات کو سمجھانے میں غیر ضروری طوالت کواختیار کیاہے۔

’’ میلادِ اکبر ایک مطالعہ ‘‘

ڈاکٹر نذیر فتح پوری کا مقالہ ’’ میلادِ اکبر ایک مطالعہ ‘‘ مختصر ہونے کے باوجود قاری کی معلومات میں اضافہ کا سبب بنا ہواہے۔ قاری کوجن باتوں کا علم نہیں تھا ڈاکٹر نذیر صاحب نے بڑے ہی سلیقہ کے ساتھ بات کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

’’ میلاد ِ اکبر ‘‘ کی اہمیت و افادیت کو انہوں نے رسالہ کے کئی اشاعت کو سبب ٹھہرایا ہے۔ واقعی یہ بات قابلِ قبول ہے کہ جو تصنیف عوام میں زیادہ مقبول ہونے لگتی ہے اس کے ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لے لئے جاتے ہیں۔اس طرح طابع و ناشر مزید ایڈیشن شائع کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔مرے خیال میں اس کتاب کی سب سے بڑی مقبولیت اشعار میں موجود نغمگی و سلاست کے علاوہ عقیدت و محبت کے ملے جلے جذبات قاری کے قلب و ذہن کو متاثر کر جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قاری ان اشعار کو کئی مرتبہ پڑھنے کے بعد محسوس کرنے لگتا ہے۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

راقم الحروف کو خواجہ محمد اکبر وارثی کے وہ اشعارپسند آئے جس میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت حلیمہ سعدیہ اپنے پیارے محبوب کو لوریاں دے کر سلایا کرتی تھیں۔


یہ حلیمہ کہ رہی تھی میرے گُلِ عذار سو جا

ترے جاگنے کے صدقے مری جان ِزار سو جا

بنی سعد کا قبیلہ ہوا باغ با غ تجھ سے

مرا دودھ پینے والے گل نو بہار سو جا

مرا دل ہو تجھ پہ واری مری جاں تجھ پہ صدقے

مرے نورِ عین سو جا مرے شیر خوار سو جا

’’ میلاد اکبر ‘‘ کے نہ صرف نعتیہ اشعاربلکہ درود شریف سے متعلق اشعار بھی قابل ِدکھائی دیتے ہیں۔ جن کو حسب ذیل پیش کئے جارہے ہیں:


ہر درد کی دوا ہے صلی علیٰ محمد ﷺ

تعویز ِ ہر بلا ہے صلی علیٰ محمد ﷺ

جو درد لا دوا ہو گھول کر پلا دو

کیا نسخہ ٔ شفا ہے صلی علیٰ محمد ﷺ

اس کی نجات ہوگی رحمت بھی ساتھ ہوگی

جو پڑھ کے مر گیا ہے صلی علیٰ محمد ﷺ

میرے خیال میں ’’ میلاد اکبر ‘‘ نہ صرف ہند و پاک بلکہ دنیا کے ہر خطہ میں شائع ہو کر پڑھا جاناچاہیے۔ تاکہ عاشقانِ رسول ﷺ کے قلوب میں گرمی ِ محبت زیادہ سے زیادہ بڑھتی جائے۔ ان ممالک میں عشق رسول ﷺ کے مقابلے مادیت پرزیادہ زور دیا جاتا ہے۔

بحیثیت مجموعی یہ مقالہ بہت ہی پر اثر دکھائی دیتا ہے۔

’’ نعتیہ شاعری کا تاریخی پسِ منظر ‘‘

علیم صبا نویدی نے اپنے مضمون ’’ نعتیہ شاعری کا تاریخی پسِ منظر ‘‘میں عنوان کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے عنوان کا تقاضہ یہ ہے کہ نعتیہ کے سلسلہ کی شاعری میں عرب ممالک کے علاوہ دیگر ممالک کے’’ نعت گو‘‘شعرأ کا تذکرہ کیا جانا چاہیے تھا۔ حالاںکہ ایسا نہیں ہوا اس کے ساتھ ساتھ شاعری کا آغاز و ارتقأ پر سیر حاصل بحث نہیں کی گئی ہے۔ صاحب موصوف نے عربی اشعار پر اکتفا کرتے ہوئے نہ تو فارسی شعرأ کا تعارف کروایا ہے اور نہ ہی اردو شاعری کے چند مشہور و معروف شعرأ کا تعارف ان کی شاعری کے حوالہ سے کیا ہے۔

بحیثیت مجموعی علیم صبا نویدی کا یہ بہت ہی مختصر مضمون اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کرنے سے قاصر رہا۔ علیم صبا نویدی کو چاہئے تھا کہ بات کو مختصر ہی سہی تینوں زبانوں کے شعرأ کا ایک مختصر تعارف ان کے اشعار کے حوالے سے کرتے تو بہت ہی بہتر ہوتا حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ قاری اس اچنبھے میں پڑ جاتا ہے کہ صرف عربی کے اشعار ہی کو وہ تاریخی پس منظر سمجھنے لگتا ہے۔ تحقیقی رو سے یہ تذکرہ غیرمستند دکھائی دیتا ہے۔

تحقیقی نقطۂ نظر سے علیم صبا نویدی کا مضمون ’’ تحقیق طلب ‘‘ ہے۔ اس مضمون میں ’’ نعتِ پاک ‘‘ کے صنف کا آغاز کیا ہے سمجھایا نہیں گیا ہے۔امید کہ صاحب ِ مقالہ نگار اپنے آئندہ مضامین میں اصول ِ تحقیق و تنقید ‘‘ کا ضرور خیال رکھیں گے۔

’’ مقبول بارگاہ ِرسالت نعت گو شاعرحضرت رؤف ؔ امروہوی مرحوم ‘‘

ڈاکٹر صابر سنبھلی صاحب کا مضمون ’’ مقبول بارگاہ ِرسالت نعت گو شاعرحضرت رؤف ؔ امروہوی مرحوم ‘‘ ایک تعارفی مضمون ہے۔ رؤف ؔ امروہوی صاحب کے جن’’ مجموعہائے نعت ‘‘ کا انہوں نے ذکر کیا ہے۔ وہاں تاریخِ اشاعت کا ذکر نہیں کیا ہے شاید انہیں تاریخ دستیاب نہ ہوئی ہوگی۔ روفؔ صاحب کی جانب سے ایک طویل مدّت تک نعتیہ محافل کا انعقاد کیا جانا واقعی ایک عاشقِ رسول ﷺ کی اظہار عقیدت و محبت کا نمونہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ آپ کا یہ عمل ہر عاشقِ رسول ﷺ کو نہ صرف مسرور کر جاتا ہے بلکہ ان کے اندر جذبہ ٔ ایثار و قربانی کو بڑھانے کا سبب بن جاتا ہے۔ ان کی قربانیوں کو دیکھ کر ہر عاشقِ رسول ﷺ کے دل میں تا حیات اپنی قربانیوں کو پیش کرنے کا جذبہ پیدا ہونے لگتا ہے۔

’’ مقبول بارگاہ ِ رسالت ﷺ ‘‘ کا ہونا ایک سچے عاشقِ رسول ﷺ کے ہونے کی دلیل ہے۔ خدا کرے یہ شرف ہر عاشقِ رسول ﷺ کو نصیب ہو آمین۔

جہاں تک تحقیق و تنقید کا معاملہ ہے اس سلسلہ میں جناب ڈاکٹر صابر سنبھلی صاحب نے ایک سطحی طور پر تحقیق کے سلسلہ کو جاری رکھا۔ ان کی تحقیق میں نہ گہرائی ہے اور نہ ہی گیرا ئی پائی جاتی ہے صرف معروضانہ شکل ابھر کر سامنے آتی ہے۔ تحقیق کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ اشعار کی تشریح کی جائے۔انہوں نے ایسا نہیں کئے۔ اگر اشعار کی تشریح کی جاتی تو بہتر ہوتا۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

ڈاکٹر موصوف سے میری گذارش ہے کہ جب کبھی وہ مضمون لکھیں تحقیق و تنقید دونوںپہلوؤں کو اجا گر کر کے قارئین کے لیے دلچسپی کا سامان مہیا کریں۔ تاکہ تشنگی کا سبب بن نہ جائے۔

’’ مولانا سعید اعجاز کامٹوی کے رُخِ حیات کی جھلکیاں اور سعادت افروز نعتیہ و سلامیہ شاعری ‘‘

ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی صاحب کا’’مضمون‘‘ باعتبار انتخاب ِ مضمون کے بہت ہی طوالت لئے ہوئے نظر آتا ہے۔ عنوان اس طرح انتخاب کیا جانا چاہیے یا عنوان کو اس طرح بنایا جانا چاہیے کہ قاری کو اس کے پڑھنے میں یا سمجھنے میں آسانی ہو اور قاری حالت تذبذب میں نہ پڑ جائے۔ مثال کے طور پر آپ نے مولانا سعید اعجاز صاحب کے ’’ رُخِ حیات کی جھلکیاں ‘‘ لکھ کر قاری کو حیرت میں ڈال دیا ہے کہ رُخِ حیات کی جھلکیاں آخر کس کی ہیں ؟

راقم الحروف کے خیال میں عنوان اس طرح انتخاب کیا۔ ’’ مولانا اعجاز کی نعتیہ و سلامیہ شاعری ‘‘ اوراسی طرح عنوان کی وضاحت کرنے سے پہلے ضمناً شاعر کی حیات پر ایک اختصاریہ،پیش کرتے ہوئے اصل موضوع پر کُھل کر بحث کی جاتی تو مناسب ہوتا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوا آئندہ اس بات کی طرف صاحب مقالہ نگار توجہ فرمایں گے۔

مضمون کی شروعات شاعر کے حالات ِزندگی اورشعری تخلیقات کو وضاحت کے ساتھ کی گئی۔ اس کے بعد نفس مضمون نعتیہ و سلامیہ شاعری پر کھُل کر بحث کی گئی ہے۔ جوکہ تقریباً تیرہ صفحات پر موجود ہے۔ مولانا اعجاز کامٹوی صاحب کی شاعری ان کی شخصیت کی آئینہ دار دکھائی دیتی ہے۔ جس طرح انہوں نے’’ صنفِ نعت پاک ‘‘ کو اپنی زندگی کا موضوع بنایا ہے بالکل اسی طرح انہوں نے ہر ایک شعر کے ہر ایک لفظ میں اپنی حقیقی محبت کا اظہار کیا ہے جس میں اخلاص بھی ہے ، محبت بھی ہے تمنّا بھی ہے ، اور یہاں تک کہ اپنے آپ کو قربان کر دینے کا پاکیزہ جذبہ بھی کار فرما دکھائی دیتا ہے۔ یہ واقعی ایک سچے عاشقِ رسول ﷺ کی حقیقی تمنا ہے جو انہیں اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں وہ جانا چاہتے تھے ۔ ؎


نکلی ہے روح ذکرِ جمال ِ نبی کے ساتھ

ہم گوشۂ لحد میں چلے روشنی کے ساتھ

راقم الحروف کے خیال میں مولانا اعجاز کامٹوی صاحب کے دل سے نکلی ہوئی صدا ان کے اشعار میں ایک صدائے گونج لے کر نکلتی ہے۔ ہر عاشقِ رسول ﷺ کے دل و دماغ کو گرماتی چلی جاتی ہے۔ صاحب مضمون نگار نے تشریح بڑے ہی عمدہ پیرائے میں کی ہے۔ لیکن راقم کے خیال میں ان کا ہر ایک شعر وضاحت کا ایک سمندر چاہتا ہے جو اسی کا ہی حق ہے۔ میں صاحب مقالہ نگار ڈاکٹرمحمدحسین مشاہد رضوی صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ان کے مقالہ لکھنے پر ان کے انتخاب مضمون پر ان کے انتخاب ِ شاعری پر خدا کرے ہر ایک شاعر کے اندرکایہ پاکیزہ جذبہ پیدا ہو۔ آمین۔

’’ علمائے گھوسی کی نعت نگاری ‘‘

ڈاکٹر شکیل احمد اعظمی صاحب کا لکھا ہوا مضمون ’’ علمائے گھوسی کی نعت نگاری ‘‘تقریباً چھتیس صفحات پرمشتمل ہے۔ غالباً اس رسالے میں موجود تمام مضامین میں یہی ایک طویل مضمون ہے۔ کیوں کہ آپ نے جن شعرأ کا تعارف کروایا ہے وہ خود طوالت چاہتا ہے۔ آپ کا مضمون طویل ہونے کے باوجود معلومات کا ایک خزانہ دکھائی دیتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے گھوسی کے علم و ادب کے تعارف پر ایک سیر حاصل نوٹ لکھا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اصولِ تحقیق کی پابندی کرتے ہوئے مستند حوالوں کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اصول تحقیق کی روشنی میں یہ بات مستند سمجھی جاتی ہے۔ ان کا اسلوب بیان معروضی ہے جن میں بات کو بڑے سلیقے کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ انہوں نے ۳۷؍ گھوسی کے نعت گو شعرأ کا تذکرہ کیا ہے اور ساتھ ہی علی الترتیب ۱۶؍ مشہور و معروف نعت گو شعرأ کا تذکرہ مختصر حالات زندگی کے ساتھ ان کی ادبی خدمات کی بھی وضاحت کی آپ کا یہ مقالہ قاری کی معلومات میں اضافہ کا سبب دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے شعرأ کی تاریخِ ولادت اور وفات کو بھی وضاحت کے ساتھ لکھا ہے یہ ایک کامیاب محقق کی علامت ہے۔

وہ شعرأ کرام جن کا تذکرہ آپ نے کیا ہے حسبِ ذیل ان کے نام پیش کئے جا رہے ہیں۔

۱۔ علامہ اویسؔ برکاتی ۲۔علامہ عبد المصطفیٰ اعظمیؔ ۳۔ قاری محمد عثمانؔ اعظمی ۴۔ مولانا محمدرمضان مسلمؔ۵۔مولاناغلام ربّانی فائق ؔ ۶۔ مولانا اکرام الحق اکرام ؔ نقشبندی ۷۔علامہ بدر القادری بدرؔ ۸۔ مولانا ڈاکٹر شکیل احمد شکیل ؔ ۹۔ مولانا سیف الدین سیف ؔ انصاری ۱۰۔ مولانا فدألمصطفیٰ فدأ ۱۱۔ مولانا فروغ احمد فروغ ؔاعظمی ۱۲۔ مولانا مظفر الدین سحر ؔ اعظمی ۱۳، مولانا وصال احمد وصالؔ ۱۴۔ ڈاکٹر شکیل احمد شکیل ؔاعظمی۔

شعرأ کے تعارفی عبارت میں جو زبان استعمال کی گئی ہے وہاں اکثرعربی الفاظ کوا ستعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ایک عام قاری کے سمجھنے میں رُکاوٹ کا سبب بن سکتاہے۔ اردو ادب کے قاری کو دلچسپی کا فقدان نظر آتا ہے۔ اردو ادب میں اگر چہ عربی اور فارسی الفاظ زیادہ پائے جاتے ہیں اس کے باوجود جو تراکیب ہمارے مقالہ نگاروں میں بالخصوص ہمارے علمائے کرام کی تحریروں میں عربی تراکیب کثرت کے ساتھ استعمال کرجاتی ہے جس کی وجہ سے اردوادب میں ایک جھول سارہ جاتا ہے جو کہ ادب کو خوب سے خوب تر بنانے میںروکاوٹ کاسبب بن جاتا ہے۔ جیسا کہ اویس ؔ برکاتی کے تعارف میں آپ نے لکھا ہے :-

’’ بریلی جاکر مدرسہ منظر اسلام میں داخل ہو نے کے بعدہ صدر الشریعہ کی معیت میں دار الخیر اجمیر شریف جامعہ عثمانیہ میں پہنچے۔‘‘ صفحہ ۲۲۳

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

آگے لکھتے ہیں :۔

’’ شیخ العلماء جامع فضائل و الکمالات شخصیت کے مالک تھے۔‘‘ صفحہ۲۲۴

اشعار کا جو تعارف آپ نے کروایا ہے وہ عبارت حسب ذیل پیش کی جاتی ہے :۔

’’ عشق رسول ﷺ سے معمور ، حبِّ رسالت سے بھر پور اور فصاحت و بلاغت سے تر بتر مندرجہ ذیل نعت ملاحظہ کریں۔‘‘

مذکورہ عبارت میں ’’ حبّ رسالت سے بھر پور اور فصاحت و بلاغت سے تر بتر ‘‘ یہ جملہ صحیح نہیں ہے۔

شروع ہی میں آپ ’’ عشقِ رسول ﷺ سے معمور ‘‘ لکھ دیا ہے کافی ہے۔ ’’ حُبّ رسالت سے بھر پور ‘‘ ضروری نہیں ہے وضاحت ہو چکی ہے۔ ’’ فصاحت و بلاغت سے تر بتر ‘‘ یہ جملہ بھی صحیح نہیں ہے۔

جملہ اس طرح سے ہونا چاہئے :۔

’’فصاحت و بلاغت کا ایک خوش نما گل دستہ دکھائی دیتا ہے۔

یا

فصاحت و بلاغت سے بھر پور خوش نما کلام دیکھنے کو ملتا ہے‘‘وغیرہ

راقم الحروف کو علامہ اویس ؔ برکاتی کے یہ اشعار بہت ہی دل کو مسرور کر گئے۔ ؎


کبھی دیوانگی میں قیس مجھ سے بڑھ نہیں سکتا

وہ دیوانہ ہے لیلیٰ کا میں دیوانہ ہوں پیمبر کا

سکندر سے کہو آبِ بقا سے کچھ نہیں کم ہے

وہ آنسو جو نکلتا ہے ہمارے دیدۂ تر کا

آپ نے علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی کے تعارف میں لکھا ہے :۔

’’ علم کے دھنی مصنف تھے جن کے قلم سے موسم ِ رحمت ،معمولات الابرار‘‘ جیسی کتابوں کا آپ نے جو تذکرہ کیا ہے ایک عام قاری کو سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ عبارت ہے یا کتابوں کے نام۔ اس طرح عبارت لکھنی چاہیے جس سے کہ قاری کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ یہ تحریر بھی ادب کے خلاف ہے۔(دبستان نعت،صفحہ ۲۲۶۔۲۲۷)

علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی کے اشعار میرے دل کو منوّر کر گئے۔ ؎


نہ پوچھ اعظمیؔ منزل سر بلندی

مرا سر ہے محبوب کا آستاں ہے

ہے خریدار گنہ رحمت کا تاجر جس جگہ

عاصیو!وہ مصطفی بازار تھوڑی دور ہے

عشق و مستی میں قدم آگے بڑھا کر دیکھ لو

گنبد خضریٰ کا وہ مینار تھوڑی دور ہے

دشت طیبہ ہے یہاں چل سر کے بل اے اعظمیؔ

مصطفی ﷺ کا جنتی دربار تھوڑی دور ہے

علامہ عبد المصطفیٰ ماجدنے اپنے اشعار میں ایک عاشق رسول ﷺ کے دلی کیفیت کا اظہار بڑی خوبی کے ساتھ کیاہے:


فرقت کوئے نبی ﷺ میں یہ ہوا حال مرا

آہ بھی دل سے مرے سینہ فگار آتی ہے

گلشنِ زندگی ہوا بار آوار

زخم دل لے کے مدینے سے بہار آئی ہے

آہ دل گیر کا مرکز ہے ترا پاک دیار

لوٹ کے عرش سے سوئے مزار آئی ہے

قاری محمد عثمان اعظمی کے تعلق سے آپ نے لکھا ہے :۔

’’ رسم زمانہ کے مطابق ابتدائی تعلیم قصبہ کے مکتب میں حاصل کی ‘‘ رسم زمانہ جملہ صحیح نہیں ہے۔ بلکہ ’’روایتی اعتبار ‘‘سے آپ کی ابتدائی تعلیم لکھا جانا درست ہے۔ یہ اصلاح ادبی ہے۔ ادبی اعتبار سے دیکھا جائے تو ’’ رسم ِ زمانہ ‘‘ صحیح نہیں۔ آپ نے کتابوں کا تعارف بھی غیر ادبی طرزِ تحریر کے ساتھ کیا ہے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

جیسا کہ آپ نے صفحہ ۲۳۱میں لکھا ہے۔

’’ نظم خیال ِ حرم‘ ’نغمہ رسول ‘ ’ نغمہ ٔ حجاز اور منظوم سیرت النبی ﷺ آپ کی منظوم تصانیف ہیں۔

قلمی یادگار غیر ادبی جملہ ہے۔ اصلاح کر لیں۔

قاری محمد عثمان صاحب کے وہ نعتیہ اشعار جو ہمارے قلب و ذہن کو منور کرتے ہیں حسب ذیل پیش کئے جا رہے ہیں ملاحظہ کیجئے!جو کہ راقم الحروف کو بہت پسند آئے۔ ؎


محمد ﷺسا حسیں دیکھا نہ ایسی دل بری دیکھی

خدا نے مصطفی ﷺ میں اپنی خود جلوہ گری دیکھی

وہ آئے سامنے تو بت بھی سجدے میں چلے آئے

خدا شاہد ہے دنیا نے نہ ایسی رہبری دیکھی

صحن عالم میں یہ کیسی چمن آرائی ہے

صبح دم بادِ صبا پیغام یہ کیا لائی ہے

بلبلوں کی ہے زبانوں پہ ترانہ کس کا

پھول ہنستے ہوئے سنتے ہیں ترانہ کس کا

مسکراتی ہوئی کلیوں کا نہ عالم پوچھو

راز ہے راز کوئی جس کو اسی دم پوچھو

مولانا محمد رمضان مسلم ؔ کے تعارف میں آپ نے لکھا ہے :۔

’’ فن طب پر بھی دسترس رکھتے تھے۔‘‘ (صفحہ ۲۳۴)

یہ جملہ صحیح نہیں ادبی اعتبار سے۔ جملہ اس طرح ہونا چاہیے تھا۔ وہ فن پر طب کے بھی ماہر تھے۔

یا

یا انہیں فن طب پر کامل مہارت تھی۔ وغیرہ۔ ادبی جملہ کہلاتا ہے۔

مولانا غلام ربانی فائق ؔ کے تعارف میں آپ نے لکھا ہے کہ۔

’’ سا لانہ جلسہ ٔ دستار بندی میں آپ کو تاجِ فضیلت سے سرفراز کیا گیا۔ ‘‘

(صفحہ ۲۳۶)

یہ جملہ ادبی اعتبار سے صحیح نہیں۔ تاجِ فضیلت سے نوازا گیا۔ تاجِ فضیلت سے سرفراز ترکیب صحیح نہیں ہے۔

پھر آپ نے لکھا ہے۔

’’ فراغت کے بعد تا حین ِ حیات درس و تدریس کی با فیض خدمات انجام دئے۔‘‘ (صفحہ ۲۳۶) جملہ اس طرح ہونا چاہیے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

تا حین ِ حیات کے بجائے تا حیات کافی ہے۔

درس و تدریس کی با فیض خدمات کی ضرورت نہیں بلکہ درس و تدریس کی خدمات کو انجام دیا کافی ہے۔ درس و تدریس میں خود فیض پہچانے کے معنی چھپے ہوئے ہیں اس میں با فیض لکھنے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے ان کی تصانیف کا ذکر جملہ میں کر دیا۔ تصانیف کا ذکر شروع میں کر دیتے تو مناسب تھا۔ تصانیف کا لفظ نہیں لکھا بلکہ ترجمہ کی بات کہی ہے۔یہ جملہ لکھا جانا چاہیے جو کہ قاری کے سمجھنے میں آسانی ہو۔آپ نے لکھا ہے سیال قلم کے مالک تھے۔ یہ جملہ غیر ادبی ہے۔ ان کے قلم میں زبان کی روانی دیکھنے کو ملتی ہے۔ وغیرہ لکھتے تو بہتر ہوتا اس طرح ان کی تحریر میں اکثر جگہ طویل عربی ترکیبات پائی جاتی ہیں جو کہ قاری کو پڑھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی تحریر کو پڑھنے کے بعد مجھے ایک شعر یاد آگیا۔ شعر یہ ہے۔ ؎

جو بات سمجھ آ جائے فصاحت اس کو کہتے ہیں

جو بات دل پر اثر کر جا ئے بلاغت اس کو کہتے ہیں

آپ کی تحریروں میں فصاحت و بلاغت دونوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ بات ایسی کی جاتی جو کہ ادبی پیرائے میں ہو۔ ادبی پیرایہ اسے کہتے ہیں جن میں فصاحت و بلاغت کی ملی جلی کیفیت ہو۔ یعنی بات ادبی پیرائے میں کہی گئی ہو جو کہ سمجھ میں بھی آئے اور دل پر اثر بھی کرے۔ اس بات کی جانب ڈاکٹر شکیل احمد اعظمی صاحب کو راغب ہو نا چاہیے۔ ( راقم الحروف)

مولانا اکرام الحق اکرام ؔ کے بارے میں لکھتے ہیں :۔

’’ مولانا تصوف آشنا طبیعت رکھتے تھے ‘‘ صفحہ ۲۳۸

یہ جملہ بھی غیر ادبی ہے۔ ادبی اس طرح ہونا چاہیے۔

’’ مولانا تصوف کے پیچیدہ مسائل سے آشنا تھے۔‘‘

عربی تراکیب کو اس طرح استعمال کیا ہے۔

سلیم الطبع، منکسر المزاج ، وسیع النظر وغیرہ۔

علامہ بدر القادری کے تعلق سے لکھتے ہیں :۔

’’ علامہ بدر القادری کی شخصیت کئی جہت رکھتی ہے۔‘‘ یہ جملہ غیر ادبی ہے۔

ادبی جملہ اس طرح ہونا چاہئے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

علامہ بدر القادری کی شخصیت میں مختلف خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ وہ کئی خوبیوں کے مالک تھے وغیرہ۔ مناسب جملے ہیں۔ (راقم الحروف )

علامہ بدر القادری کی شاعری کے تعلق سے لکھتے ہیں :۔

’’ علامہ بدر القادری ، حمد ، نعت، نظم ، غزل ، قطعہ مناجات اور سہرا ان تمام اصناف پر ’’ استادانہ طبع آزمائی کی ہے‘‘۔

اُستادانہ طبع آزمائی کی ہے۔ یہ جملہ غیر ادبی ہے۔ ادبی جملہ اس طرح ہو نا چاہئے۔ ان تمام اصناف پر آپ کو قدرت حاصل تھی۔ وغیرہ (راقم الحروف )

علامہ بدر القادری کے یہ اشعار میرے دل کو چھو گئے۔ ؎


پڑھو حمد نعتِ نبی ﷺ گنگناؤ

حضور ﷺ آگئے ہیں حضور آ گئے ہیں

دلوں کو لٹاؤ نگاہیں بچھاؤ

حضور ﷺ آگئے ہیں حضور آ گئے ہیں

ڈاکٹر شکیل اعظمی کے تعارف میں لکھتے ہیں :-

’’ ڈاکٹر شکیل اعظمی ایک استاد شاعر ہیں جن کو شاعری پر عبور حاصل ہے ‘‘ یہ جملہ غیر ادبی ہے۔

ادبی جملہ اس طرح ہونا چاہئے۔

’’ ڈاکٹر شکیل اعظمی کو فن عروض و بلاغت پر عبور حاصل ہے وہ ایک کہنہ مشق شاعر ہیں۔ یہ جملہ مناسب ہے ( راقم الحروف )

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

وہ اشعار جو میرے دل کو متاثر کر گئے انہیں حسب ِ ذیل پیش کیا جا رہا ہے۔ ؎


ارباب ذوق سُن لیں ادب کا مقام ہے

اب میرے لب پہ مدحت ِ خیر الانام ہے

وہ جس کے فیض سے اب تک شام ِ جاں معطر ہے

وہ خوشبوئے بدن ہے نکہتِ زلف پیمبر ہے

زیارت شہر طیبہ کی نہ بوسہ ارض اقدس کا

ابھی میں کیسے سمجھوں اوج پر میرا مقدر ہے

مولانا سیف الدین سیف ؔ انصاری کے تعارف میں لکھتے ہیں:-

’’ غزل کی ہیئت میں انہوں نے کئی نعتیں کہی ہیں جو فن کی کسوٹی پر بھی پورا اترتی ہیں۔ ان کے ذخیرہ ٔ نعت میں سے ایک کلام بطور نمونہ نذرِ قارئین ہے۔‘‘ (صفحہ ۲۴۳)

’’ غزل کی ہیئت میں انہوں نے کئی نعتیں کہی ہیں۔ یہ جملہ کافی ہے اسی میں فن کی بات پوری ہوگئی ہے۔ ‘‘ پھر جملہ ’’جو فن کی کسوٹی پر بھی پوری اترتی ہے۔‘‘ غیر ادبی جملہ ہے۔

پھر اس کے بعد آپ نے لکھا ہے۔

’’ ان کے ذخیرہ ٔ نعت میں سے ایک کلام بطور نمونہ نذرِ قارئین ہے۔‘‘ اس کے بجائے آپ لکھتے ان کے کلام میں سے ایک بطور نمونہ نذرِ قارئین ہے ، کافی تھا۔ راقم الحروف۔

مولانا سیف الدین صاحب کی نعت کے چند اشعار راقم الحروف کو بہت متاثر کر گئے وہ حسب ِ ذیل پیش کئے جا رہے ہیں ملاحظہ کیجئے۔ ؎


ترے پیغام حق افزا سے ہمیشہ دم بدم

گلشنِ ہستی کا ہر پودا لہکتا جائے ہے

ترا رستہ امن عالم صلحِ عالم کا امیں

جس نے چھوڑا اس روش کو وہ بھٹکتا جائے ہے

ان کی زلفیں ہیں کہ ہے مشک تتار بے مثال

جس طرف وہ چل دئے کوچہ مہکتا جائے ہے

کہکشاں بن جائے اس عارضِ پر نور پر

نر گسی آنکھوں سے جو آنسو چھلکتا جائے ہے

قافلے والو بتاؤ کیا مدینہ آگیا

کیوں دلِ مضطر مرا اتنا مچلتا جائے ہے

وہ مجسم نور ہیں نورانیت سے ان کی سیف ؔ

گوشۂ تاریک دل میرا چمکتا جائے ہے

مولانا فدأ المصطفیٰ فدأ ؔ کے تعلق سے لکھتے ہیں :۔

’’علامہ قادری صاحب اعلیٰ درجہ کے مدرس ہیں جن کو افہام و تفہیم کا گراں قدر ملکہ حاصل ہے۔‘‘ صفحہ ۲۴۵

یہ ایک غیر ادبی جملہ ہے۔ حالانکہ اس جملہ میں افہام و تفہیم کا ملکہ حاصل ہے۔ کافی تھا لفظ ’’گرانقدر ‘‘ یہاں بے جا و بے محل دکھائی دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے ادبیت کھو بیٹھا ہے۔ راقم الحروف۔

راقم الحروف کوفداؔ ٔ صاحب کے حسب ِ ذیل اشعار متاثر کر گئے۔ ؎


ہر دِل میں یاد تیری ہر لب پہ نام تیرا

اے رحمتِ دو عالم ہے ذکرِ عام تیرا

شمس و قمر ستارے سب میں تری چمک ہے

بیلا گلاب جوہی سب میں تری مہک ہے

ہر جز و کل میں جلوہ خیر الانام تیرا

سارے جہاں سے ظلمت کافور ہو گئی ہے

مولانا فروغ احمد فروغ ؔ کے تعلق سے لکھاہے :۔

’’ ان کی نعتوں میں وفور عشق ، سوزِ باطن در حبیب کی تڑپ اور شوقِ زیارت کے جلوے ملتے ہیں۔ ‘‘ صفحہ ۲۴۷ مذکورہ جملہ میں سوزِ باطن در حبیب کی تڑپ ’’ میں درِ حبیب ‘‘ کے الفاظ غیر ادبی ہیں۔ جملہ یہی کافی تھا۔ سوزِ باطن کی تڑپ ، ( راقم الحروف )

اس طرح ایک دو جگہ کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس طرف ڈاکٹر صاحب خیال کریں تو مناسب ہوگا۔

راقم الحروف کو مولانا فروغ صاحب کی نعت کے چند اشعار بے حد متاثر کر گئے جنہیں حسب ِ ذیل پیش کیا جا رہا ہے ملاحظہ کیجئے۔ ؎


جبیں ہو جھکی میری کعبہ کی جانب

مرے دل کا قبلہ نبی کا حرم ہو

مدینہ پہنچ کر میں واپس نہ آؤں

جنازہ مرا خاکِ طیبہ میں ضم ہو

مرا عشق لے جائے گا مجھ کو طیبہ

اگر چہ مری راہ میں پیچ و خم ہو

ہند بھیجیں گر تو پھر میری لحد کے واسطے

اپنے قدموں میں جگہ رکھیں خالی یا رسول ﷺ

مولانا ظفر الدین سحر ؔ صاحب کے نعتیہ اشعار راقم الحروف کے دل کو گرما گئے۔جنہیں حسب ذیل پیش کئے جا رہے ہیں۔ ؎


دولتِ دنیا نہیں ہے غم نہیں

تیرے کہلائیں یہ عزت کم نہیں

دل نہیں جس میں نہ تیری یاد ہو

سر نہیں جو تیرے درپہ خم نہیں ٭

اپنی قسمت کو یوں جگاتے ہیں

نعتِ شاہِ امم سناتے ہیں

لب کے بوسے فرشتے لیتے ہیں

جب گُہر نعت کے لُٹاتے ہیں

یا نبی اذنِ حاضری دیجئے

ہجر میں اشکِ خوں بہاتے ہیں

ہم تصور میں ان کے کوچے میں

روز جاتے ہیں روز آتے ہیں

مولانا وصال احمد کے اشعار راقم کو متاثر کر گئے انہیں حسبِ ذیل پیش کیا جا رہا ہے۔ ؎


خواب میں جس نے بھی دیکھا ہے جمالِ مصطفی

کامراں و اللہ اس کی زندگانی ہو گئی

ناز کر اے خاکِ پاکِ ارض طیبہ ناز کر

آئے جب سرکار ہر سو شادمانی ہو گئی

اپنی قبر وںمیں ہیں زندہ جاں نثاران ِ نبی

ان کی ذاتِ پاک کی نقلِ مکانی ہوگئی

مقالہ نگار ڈاکٹر شکیل،احمد شکیل ؔ صاحب اپنے تعلق سے لکھتے ہیں:۔

’’ ان کا نعتیہ مجموعہ ’’ فانوسِ حجاز ‘‘ ترتیب و تہذیب کی منزل سے گذر کر طباعت کی منزل میں ہے۔ ‘‘ صفحہ ۲۵۳

مذکورہ جملہ میں یہ الفاظ ’’ ترتیب و تہذیب ‘‘ غیر ادبی جملہ ہے یہاں یہ لکھنا چاہیٔ۔’’ ترتیب و تدوین یا ترتیب و تزین ‘‘ کی منزل سے گذر کر طباعت کی منزل میں ہے۔ ٹھیک ہے۔ ( راقم الحروف)


مولانا فروغ اعظمی اور ان کی نعتیہ شاعری

مولانا نور الہدیٰ صاحب نے اپنے مقالہ ’’ مولانا فروغ اعظمی اور ان کی نعتیہ شاعری ‘‘ میں جو تعارفی انداز اختیار کیا ہے وہ تو عربی طرزِ تحریر کا نمونہ دکھائی دیتا ہے۔شاعر کے نام کی وضاحت صرف اس کے نام کے ساتھ کردینی چاہئے عربی اسلوب ِ تحریر کی طرح فروغ احمد اعظمی ابن ممتاز احمد قادری ابن قمرالدین اشرفی وغیرہ کا ایک ساتھ لکھ دینا اردو ادب کے طرز ِ تحریر کے خلاف ہے۔ اردو ادب میں شاعر کا اگر آپ تعارف کروانا چاہتے ہیں تو پہلے شاعر کا پوارا نام پھر اس کے بعد اس کا تخلص اور عرف عام میں اگر اسے کسی مخصوص نام کے ساتھ بلایا جاتا ہے تو اس کی بھی وضاحت کرنے کے بعد شاعر کے باپ کا نام لکھ دیا جاتا ہے ایک ساتھ ایک ہی جملہ میں شاعر کا نام ، باپ کا نام ، دادا کا نام نہیں لکھا جاتا اصول ِ ادب کے خلاف ہے۔ اس طرف مولانا نور الہدیٰ صاحب کو دھیان دینا چاہئے۔آگے آپ نے لکھا ہے۔

’’ مولانا اعظمی دورِ طالب علمی ہی سے قلم و قرطاس سے جُڑ گئے تھے۔‘‘

(دبستان نعت، صفحہ۶ ۲۵)

مذکورہ جملہ غیر ادبی ہے۔ ادبی جملہ اس طرح ہونا چاہئے کہ قاری کو بات سمجھ میں بھی آجائے اور ادبی کیفیت کی نکھار بھی جملہ میں پایا جائے۔ یہ دونوں باتیں مذکورہ جملہ میں دکھائی نہیں دیتی ہیں۔ دور طالب علمی نہیں بلکہ دوران ِ طالب علمی صحیح جملہ ہے۔ اس طرح کی بہت سی باتیں آپ کے مقالہ میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان باتوں سے ادیب کو بچنا چاہئے۔ اس طرح تحریر کا اسلوب اختیار کیا جائے جس کے ذریعہ زبان میں آسانی اور معانی میں ادبی نکھار خود بخود نکھر نے لگے۔ اسی کو ادبی تحریر کہتے ہیں۔ (راقم الحروف )

مولانا نورالہدیٰ صاحب نے عربی الفاظ کے بوجھ کو اردو زبان پر اس طرح ڈال دیا کہ زبان اپنی توانائی اور خوبی کوعربی الفاظ کے بوجھ کے نیچے دب کر رہ گئی ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے لکھا ہے۔

’’ ضرع عقیدت ‘‘ صفحہ ۲۵۷قارئین کو محظوظ ، مستفیض اور مستنیر کرتی ہیں وغیرہ۔ (صفحہ ۲۶۴)

جملوں کی ساخت میں بھی وہ پیچیدہ تراکیب استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ان کے شعری اجمال میں تہدار تفصیلیں ہیں۔ صفحہ ۲۶۴

زبان کو اس طرح استعمال کرنی چاہئے۔ جس سے کہ قاری کو معنوی افہام و تفہیم میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ آپ کے مقالہ کو پڑھنے کے بعد قاری کو معنوی افہام و تفہیم میں دشواریاں زیادہ سے زیادہ دیکھنے کو ملتی ہیں۔ وہ آئندہ مقالہ لکھیں تو اس بات کا ضرور خیال رکھیں۔

نئے صفحات

’’ نثار ؔکریمی ایک قادر الکلام شاعر ‘‘

مولانا وصال احمد اعظمی صاحب کا لکھا ہوا مقالہ ’’ نثارؔ کریمی ایک قادر الکلام شاعر ‘‘ ’’دبستان ِ نعت ‘‘ کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’ دبستانِ نعت ‘‘مدیر ڈاکٹر سراج احمد قادری صاحب نے حُسن تر تیب کے ساتھ ان تمام مقالوں کو شائع کیا جو کہ موضوع کے اعتبار سے موضوع کے ساتھ انصاف کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے بر خلاف وہ آخر میںہی سہی مذکورہ مضمون کو شائع کرنے پر اس لئے مجبور ہوئے کہ نثارؔ کریمی صاحب کی شاعری میں ’’ نعت پاک ‘‘ جیسی مقدس صنفِ سخن بھی شامل ہے۔ خود نثارؔ کریمی صاحب نے اپنی شاعری سے متعلق اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میری اپنی کہی ہوئی شاعری میں میری زندگی کا مقصد وہ صنفِ سخن ہے جس کو نعت گوئی کہتے ہیں۔ یہی صنفِ سخن میری زندگی کا واحد مقصد ہے دیگر ا صناف کے شائع ہونے یا نہ ہونے کی انہیں ذرا برابر بھی فکر نہیں تھی وہ چاہتے تھے کہ اپنی حیات ہی میں ’’نعتیہ مجموعہ ‘‘ شائع ہوجائے اس بات کا اظہار کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں۔

’’شعر و شاعری کے میدان میں تقریباً چا لیس سال سے سر گرم ہوں حالات سازگار ہوتے تو غزلوں ،نظموں کے کئی مجموعے بہت پہلے منظر ِ عام پر آ چکے ہوتے۔غزلوں کے دو مجموعے نظم کا یک مجموعہ مرتب کر چکا ہوں چھپے یا نہ چھپے اس کی مجھے فکر نہیں۔ نعتیہ مجموعہ جسے میں حاصلِ زندگی سمجھتا ہوں آج آپ کے ہاتھوں میں ہے میں مطمئن ہوں اس میدان میں ذکر رسول ﷺ کے حوالہ سے پہچانا جاؤں بہت بڑی سعادت اور خوش نصیبی سمجھتا ہوں۔‘‘(دبستانِ نعت،صفحہ ۲۶۶)

مولانا وصال احمد صاحب اپنے والد بزرگ وار کی خواہش و تمنّا کے خلاف ایک ایسا موضوع انتخاب کیا جو ان کی خود قادرالکلامی پر بات کی ہے حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ جناب نثارؔ کریمی صاحب کی نعتیہ شاعری پر اپنا مقالہ لکھ کر ’’ دبستانِ نعت ‘‘ میں شائع کرواتے تو بات بڑی ہی خوب ہوتی جس سے موضوع کے ساتھ انصاف بھی ہوتا اور مرحوم نثار کریمی صاحب کی روح بھی خوش ہوتی۔ مگر ایسا نہ ہوا۔مولاناموصوف نثارؔ کریمی صاحب کی نعتیہ شاعری کو موضوع بنا کر صرف نعتیہ شاعری پر کھل کر بحث کرتے ، صنف نعت پاک کے ہر ایک پہلو پر وضاحت کے ساتھ ان کے فن پر بات کرتے۔ راقم الحروف نے آپ کو پورے مقالہ کو پڑھا جس میں آپ نے نثارؔ کریمی صاحب کے مجموعہ کلام ’’ سَیلِ نور ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی وہ نعتیں جو سالانہ طرحی مشاعروں میں پڑھا تھا اس پر بھی اپنے خیال کا ظہار کرتے تو بہتر ہوتا مگر ایسا نہ ہوا۔ آئندہ مولانااس بات پر دھیان دیں کہ رسالہ کس عنوان کے ساتھ شائع ہورہا ہے ، اس رسالے کو کس صنفِ سخن کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے۔ مضمون نگار سے کس بات کی خواہش کی گئی ہے ان تمام باتوں پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔

’’ نثارؔ کریمی صاحب ایک قادر الکلام شاعر ‘‘ یہ ایک ایسا عنوان ہے جو کہ عام رسالوں یا پرچوںمیں شائع کیا جا سکتا ہے۔ ’’دبستان ِ نعت ‘‘ کے لئے یہ موضوع مناسب نہیں ہاں اگر نثارؔ احمد کریمی صاحب کی نعتیہ شاعری کو موضوع بنایا جاتا تو یہ مضمون ’’ دبستانِ نعت ‘‘ کے لئے بہت ہی بہتر ہوتا۔ اس کے باوجود مدیر ’’ دبستان نعت ‘‘ ڈاکٹر سراج احمد قادری صاحب نے ’’ دبستان ِ نعت‘‘ کی فہرست میں آپ کے مضمون کو اس لئے شامل اشاعت کیا ہے کہ اس مقالہ میں شاعر کے نعتیہ مجموعہ پر بحث کی گئی ہے۔

تنقیدی اعتبار سے اصولِ تنقید کی روشنی میں موضوع کے اعتبار سے یہ مقالہ ’’ دبستان ِ نعت ‘‘ کے قابل نہیں ہے۔ مولانا موصوف صاحب ِ مقالہ آئندہ مقالہ لکھتے وقت موضوع کے صحیح انتخاب کا ضرور خیال رکھیں۔

’’ آفتاب ِ آسمان ِ نعت مولانا نور الدین عبد الرحمن جامی کی دو مشہور نعتیں ‘‘

" دبستانِ نعت" کے آخری حصے کوفارسی زبان کی شاعری کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ فارسی زبان میں بلند مقام رکھنے والے شاعر مولانا جامی علیہ الرحمہ کی شاعری سے نہ صرف آغاز کیا بلکہ آپ کی شاعری سے متعلق لکھے جانے والے مقالوں کو بھی ترتیب وار پیش کیا گیا ہے۔

مولانا جامیؔ علیہ الرحمہ کی دو فارسی زبان میں لکھی گئی نعتوں کو اردو ترجمہ کے ساتھ جناب تنویر پھول ؔ صاحب نے شرح کی ہے۔ قارئین کی معلومات میں اضافے کا سبب دکھائی دیتا ہے۔

راقم الحروف کو مولانا جامی ؔ علیہ الرحمہ کی نعتوں کو پڑھنے کے بعد اُن کا طرزِ تخیل نہ صرف مسرور کر گیا بلکہ حرارتِ عشق کی لو کو بڑھا تا گیا۔ واقعی مولانا جامیؔ رحمۃ اللہ علیہ کے طرزِ تکلم میں ایک حقیقی عاشق کے وارداتِ قلب کی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ بالخصوص آپ کا حسب ِ ذیل شعر مقام محمد ﷺ کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے وہ شعر یہ ہے۔ ؎


و صلی اللہ علیٰ نور کز و شد نورہا پیدا

زمیں از حُبّ او ساکن فلک در عشقِ او شیدا

جناب تنور پھول ؔ صاحب نے دوسرے شعر کی تشریح کرتے ہوئے اردو میں جو شعر لکھا ہے کیا وہ ان کا خود کہا ہوا ہے یا کسی دوسرے شاعر کا وضاحت نہیں ملتی۔ یہاں شرح کرتے وقت شاعر کا نام یا خود کا لکھا ہوا شعر لکھنا ضروری ہے۔

مولانا جامی ؔ نے چھٹے شعر میں قرآن پاک کی آیت کے جو الفاظ ’’ مَا زَاغَ البَصرُ ‘‘ ’’ وَ اَلّیل ِ اِذَ یَغشیٰ ‘‘ کو شعر میں بہتر طریقے سے لایا ہے جس میں شعری حُسن میں دو بالگی پائی جاتی ہے۔ لیکن تنویر پھول صاحبؔ نے ان دو آیت کے الفاظ کا اردو ترجمہ قوسین میں کر دئے ہوتے تو ایک عام قاری کی سمجھ میں بہت آسانی ہوتی مگر ایسا نہیں کیا۔ ساتویں شعر میں بھی یہی بات دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح دوسری نعت شریف کے صرف چار اشعار شرح کے ساتھ پیش کیا ہے۔ میں تنویر پھول ؔ صاحب سے خواہش کروں گا کہ وہ شرح کرتے وقت پہلے دونوں نعتوں کو نمبر دیکر بتا دیتے پہلی نمبر والی نعت اور دوسرے نمبر والی نعت۔ اس کے بعد شرح کرتے۔ آپ نے دوسری نعت کے چوتھے شعر کی شرح کرنے کے بعد آخر یہ لکھا ’’ ایک نعت گو شاعر نثار علی اجاگر کرنے والے اس فارسی نعت کا منظوم اردو ترجمہ اس طرح کیا ہے۔‘‘(دبستان نعت، صفحہ ۲۸۰ )

نثار علی کیا شاعر کا نام ہے ؟ اُجاگر کرنے کا جملہ یہاں میل نہیں کھا تا۔ اس بات کی یہاں اصلاح ہونی چاہیٔ۔ ’ راقم الحروف )

’’ مولانا جامی ؔ رحمۃ اللہ علیہ کی نعت گوئی ‘‘

ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط صاحب کا لکھا ہوا مقالہ ’’ مولانا جامی ؔ کی نعت نگاری ‘‘ پڑھنے کے بعد بعض اہم نکات راقم الحروف کے سامنے آئے ہیں۔ جن میں فنی خامیاں بھی ہیں اور تشریحی خوبیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جملوں کی ساخت میں بعض جگہ خامیاں دکھائی دیتی ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے :۔

’’ فارسی میں محارباتی شاعری کو بڑا فروغ حاصل ہوا ‘‘(دبستان نعت، صفحہ ۲۸۱)

راقم کو ’’ محارباتی ‘‘ شاعری کسے کہتے ہیں سمجھ میں نہیں آیا اور رہی دوسری بات دوسری جگہ ’’ ان کے اندرون کو سنوارنے کے جتن کئے ‘‘(دبستان نعت، صفحہ ۲۸۱)

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

لفظ ِ اندرون کے بجائے باطن کا لفظ استعمال کرتے تو بہتر ہوتا کیوں کہ یہ لفظ ادبی جملہ کے بنانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ لفظ اندرون غیر ادبی لفظ ہے۔

وہ آگے لکھتے ہیں :۔

’’اس طرز فکر کی وجہ سے اردو ، فارسی کی نعتیہ شاعری میں ’’ میم کا گھونگھٹ ‘‘، ’’احمدِ بے میم ‘‘ مسٔلہ امتناع النظیر ‘‘ ’’ مدینے کا پیا ‘‘ ’’ کملی والا ‘‘ ’’ دیدار خداوندی سے مشرف ‘‘’’ شہزادہ ٔ لولاک ‘‘ ،’’ آقا و مولیٰ ‘‘، ’’بگڑی بنانے والا ‘‘،’’ ذاتِ اوّل و آخر ‘‘، ’’ ظاہر و باطن ‘‘ ، ’’ عالم الغیب ‘‘ وغیرہ کی تراکیب کو اوصاف نبی ﷺ میں شمار کر لیا گیا ہے۔ ‘‘ صفحہ ۲۸۲

لفظِ ’’ میم کا گھونگھٹ ‘‘ ،’’ احمدِ بے میم ‘‘ ، مسٔلہ امتناع النظیر ‘‘ یہ تینوں الفاظ حضور پاک ﷺ کے اوصاف کے معنی میں نہیں آتے بلکہ یہ الفاظ تصوف کے مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ علم تصوف میں لفظِ میم کے معنوی پسِ منظر میں ایک دوسرے میں یعنی ’’ احد ‘‘ اور ’’ احمد ‘‘ میں تعریف کی باریکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اہلِ تصوف کے یہاں لفظِ ’’ میم ‘‘ بظاہر لکھا جاتا ہے جیسا کہ لفظِ’’ احمد ‘‘ میں لفظِ ’’ میم ‘‘ ہے۔ حقیقت میں وہ ایک پردے کی شکل اختیار کر گیا ہے ورنہ لفظِ میم کے پردے کو ہٹا دیا جائے تو وہ ’’ احد ‘‘ ہو جائے گا۔ یہ علم تصوف کی اصطلاحات ہیں یہاں ادبی طرزِ تحریر سے کوئی واسطہ نہیں۔ معنوی پسِ منظر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو فاضل مقالہ نگار ڈاکٹر سید یحیٰ نشیط صاحب کا مغالطہ ہے۔ مذکورہ تینوں الفاظ کا تعلق ، اصطلاحات تصوف سے ہے۔ اوصاف ِ نبوی ﷺ کے معنی سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ البتہ باقی کے الفاظ اسی ضمن میں آجاتے ہیں۔ اس بات کی جانب ڈاکٹر صاحب اپنی توجہ مبذول کر لیںتو مناسب ہوگا۔

مقالہ نگار نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مولانا جامی ؔ علم و عرفان کے مدارج طے کئے وغیرہ۔ ظاہر سی بات ہے کہ مولانا کو علم تصوف سے کتنا لگاو ٔ ہے اور علم و عرفان کے کس منزل کو پہنچ چکے ہیں۔ اور راہِ سلوک میں اُن کا مقام و مرتبہ کیا ہے یہ ساری باتیں اہلِ تصوف کی شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہیں جن کا مقام ، مقام ِ ولایت سے سرفراز ہوتا دیکھنے کو ملتا ہے۔

آپ نے آگے لکھا ہے :۔

’’حضوری کی تمنا ئے بے تاب والے مضامین کی افراط ہے۔‘‘ (دبستان نعت، صفحہ ۲۸۲ )

معنی اور ترکیب کے لحاظ سے یہ جملہ غیر ادبی ہے۔ وہ اس لئے کہ نہ تو معنی سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی ایک دوسرے میں معنوی ترتیب پائی جاتی ہے جو کہ ادب کا خاصہ ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

ایک اور جگہ لکھا ہے :۔

’’ انہوں نے اپنی تخلیقات میں جہاں نعت گوئی کو جگہ دی ہے۔ ‘‘ صفحہ ۲۸۲

یہ جملہ غیر ادبی بھی ہے اور بے ادبی کا حامل بھی ہے۔غیر ادبی اس لئے کہ معنوی تسلسل سے خالی ہے ، اور بے ادبی کا حامل اس لئے کہ ’’ نعت گوئی ‘‘ یہ تو خدا کی طرف سے بندہ کو دیاجانے والابہت ہی بڑا شرف ہے جس کی فضیلت ناچیز بندوں کی زبانی بیان نہیں کی جا سکتی۔ یہاں ’’ جگہ دینا کیا معنی رکھتا ہے۔ یہ بے ادب جملہ ہے ‘‘

ایک اور جگہ لکھتے ہیں :

’’ نعت کے ان اشعار میں جامی ؔ نے حضرت محمد ﷺ کی حقیقت مرتبہ اور وجود روحانی کو تمام امکانی مراتب پر مقدم مانا ہے۔‘‘

جملہ میں حقیقت مرتبہ صحیح نہیں حقیقی مرتبہ ہے۔

شاید کتابت کی سہو ہوئی ہوگی۔

اس کے بعد آپ نے تین اشعار فارسی کی نعتیہ شاعری کے لکھ کر جو شرح کی ہے تین یا چار سطور میںشرح مکمل ہو گئی ہے۔ باقی شرح جو کی ہے تقریباً دو صفحات پر مشتمل ہے۔ تشریح کردہ عبارت تعلق رکھنے والے اشعار کو نہیں لکھا ہے جو کہ یہ ایک غیر ذمہ دارزنہ حرکت ہے تحقیق میں اس طرح کے عمل کو ’’ غیر مستند حوالہ تحریر ‘‘ کہتے ہیں۔

آپ نے صفحہ ۲۸۵ پر تحریر کیا ہے کہ :۔

’’ مولانا جامی ؔ کی مشہور تصنیف ’’ یوسف زلیخا ‘‘ بھی ہے۔ یہ مثنوی صوفیائے کرام کے نزدیک تصوف کا گُلِ سر سبد بھی مانی جاتی ہے۔‘‘ صفحہ ۲۸۵

راقم الحروف کے خیال میں یہ ایک ایسی تحریر ہے جس میں نفس موضوع سے متعلق بات نہیں ہے بلکہ موضوع سے ہٹ کر بات کہی گئی ہے۔ انہیں چاہئے تھا کہ مولانا جامی ؔ کے نعتیہ مضامین سے متعلق بات کو آگے بڑھاتے۔ البتہ مقالہ کے آخر میں آپ نے چند منتخب اشعار پیش کرکے مقالہ کو ختم کیا ہے۔ یہی سلسلہ شروع سے آخر تک ایک ہی موضوع کی لڑی میں پُر جاتا تو ایک خوبصورت موتی کہلاتا۔ صاحب مقالہ نگار اپنے آئندہ لکھے جانے والے مقالوں میںاصول تحقیق کی جانب توجہ دی جائے تو بہتر ہوتا۔

’’ حضرت عبد الرحمن جامی ؔ نادر روزگار شخصیت ‘‘

ڈاکٹر رضوان انصاری صاحب کا لکھا ہوا مضمون ’’ حضرت عبد الرحمن جامی ؔ نادر روزگار شخصیت ‘‘ حضرت جامیؔ کے تصوفانہ کلام اور ان کے اندر چھپی عرفانی کیفیت کے اظہار کو بڑے عمدہ پیرایہ میں بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ تصوف کے اصطلاحات پر بھی تفصیل کے ساتھ کھل کر بحث کی ہے جو کہ قارئین کے لئے ایک معلومات کا خزانہ فراہم کر جاتا ہے۔ راقم الحروف کے خیال میں اگر ڈاکٹر رضوان صاحب اپنے عنوان کو تبدیل کرتے ہوئے صرف ان کی نعتیہ شاعری پر بات کرتے اور نئے نئے گوشوں کو جو انہوں نے اپنے مقالہ میں لانے کی کوشش کی ہے۔ اگر نعتیہ شاعری کے ضمن میں بیان کرتے تو بہت ہی مناسب ہوتا۔ ’’ حضرت جامی ؔ کی نعتیہ شاعری ‘‘ کو عنوانات بنانا مناسب تھا۔ کیوں گوشہ ٔ جامی ؔ ہی سہی گوشہ ٔ جامی میں نعتیہ شاعری کا اظہار ضروری ہے۔ تصوف اور عرفان کا عنوان ’’ دبستان نعت ‘‘ کے لئے مناسب نہیں ہے۔ ہاں اگر آپ ’’صنف ِ نعت ‘‘ کے ضمن میں تصوفانہ کلام میں موجود نعتیہ اشعار کی نشان دہی کرکے اس کی تشریح کرتے تو بہت ہی بہتر ہوتا۔

نعتیہ شاعری کے عنوان میںتصوفانہ کلام میں موجود نعتیہ اشعار بڑی اہمیت کے حامل نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ اسرار و رموز کی باتوں میں اظہار عقیدت ومحبت کی باتوں کو بر موقع بر محل استعمال کرنا یہ واقعی فنی تکنیک ہے جو شاعر اپنے اوپر غلبہ کی کیفیت کو اعتدال پسند رویّے میں پیش کرتا ہے۔ تاکہ قاری بات کی باریک بینی سے واقف ہو جا ئے۔ تصوف کی بعض باتیں راز و نیاز میں رکھی جاتی ہیں ان باتوں کو کھلم کھلا قارئین کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا جس کے لئے ایک مخصوص طبقہ مختص ہے جو ان باتوں کو معنوی گیرائی و گہرائی کو نہ صرف محسوس کر سکتا ہے۔ بلکہ اس سے محظوظ بھی ہوتا ہے۔ عام قاری ان باتوں سے نہ واقف ہونے کی وجہ سے ظاہرکی معنی ، مطلب ہی سے فرحت و مسرت کی کیفیت کو اپنے دامنِ شوق میں لئے حقیقت ِ حال سے واقف ہونے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ بحیثیت مجموعی آپ کا مقالہ بڑا ہی پرُ مغز اور پرُ اثر دکھائی دیتا ہے۔ تصوف کی باتوں کو انہوں نے بڑے ہی گہرائی کے ساتھ ایک معنوی پیکرمیں واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور قاری کو تصوف کے تعلق سے معلومات بہم پہنچائی ہے۔ میں مبارک باد دیتا ہوں ڈاکٹر رضوان انصاری صاحب کو ان کے کامیاب مقالہ پر اور ساتھ ساتھ یہ مشورہ دیتا ہوں کہ اگلے مقالہ کا عنوان نعتیہ شاعری پر ہوگا اور اس عنوان کے تحت قارئین کو ایک بھر پور معلومات افزأ مقالہ عنایت فرمائیں گے۔ ( راقم الحروف)

’’ ایک تبصراتی خط مدیر ’’ دبستان ِ نعت ‘‘ کے نام ‘‘

مدیر ڈاکٹر سراج احمد قادری کی ادارت میں ایک شاندار معلومات افزأ نعتیہ فنِ شاعری سے متعلق مختلف آرأ ، مختلف انداز تحریر کے ساتھ مضامین کا مجموعہ تصنیف کو چار چاند لگا دینے میں کامیاب نظر آتا ہے۔ راقم الحروف کو ’’ دبستانِ نعت ‘‘ تصنیف کے نگراں کار جناب فیروز احمد سیفی صاحب نے نیو یارک سے فون کرکے ایک بڑے ہی اہم کام کے لیے خواہش ظاہر کی جس کو میں نے تہِ دل سے قبول کیا۔ میں جناب فیروز صاحب کا بہت ہی ممنون و مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے پیارے نبی آں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے مقدس ’’ صنفِ نعت ‘‘ پر تبصرہ کرنے کا موقع عنایت فرمایا۔ساتھ ہی ساتھ جملہ مقالہ نگاروں کی تحریروں پر اپنی رائے لکھنے کا شرف عطا کیا۔ میں اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ ایک مقدس صنف ’’ صنفِ نعت ‘‘ پر اپنے خیالات و نظریات کی کسوٹی پر بات کرنے کا ذریعہ عنایت کیا۔ اس بہترین رسالہ کے اجرا ٔ سے دو اہم باتوں کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ پہلا نعت گو شعرأ کی فنی اعتبار سے ان کی بہتر طور پر رہنمائی کی جا رہی ہے۔ دوسرا فائدہ دور جدید اور مستقبل کے افراد کو ان کی خود ساختہ غلط عقائد کی بڑے ہی عمدہ پیرایہ میں بیخ کنی کرانے کا ذریعہ دکھائی دیتا ہے۔

میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر گزار ہوں کہ اس نے چند ایسی شخصیتوں کو قبول فرمایا جو کہ ہندوستان میں ’’ فن ِ نعت ‘‘ پر ایک تحقیقی ادارہ قائم کرکے اس کے ذریعہ ایک رسالہ بعنوان’’ دبستان نعت‘‘جاری کیا۔ اس مقدس کام کو بڑے پیمانے پر پاکستان میں کیا جا رہا ہے۔لیکن ہندوستان میں جناب فیروز احمد سیفی صاحب اور ان کے رفقائے کار نے بڑے ہی عزم و حوصلہ کے ساتھ اس کی بنیاد ڈالی ہے۔ خدا کرے کہ یہ کام دوسرے ممالک سے بھی زیادہ ہندوستان بھر میں ہوتا رہے اور مستقبل میں اس کی روشن امکانات سامنے آتے رہیں۔ آمین ثم آمین۔

میں نے تمام مقالوں کو ترتیب وار پڑھنے کے بعد اپنی آرأ و نظریات کو بیان کیا ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں نے وعدہ کے مطابق اپنے تبصراتی مضمون کے مجموعہ کو ارسال کر رہا ہوں۔

نئے صفحات
گذشتہ ماہ زیادہ پڑھے جانے والے موضوعات