مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی کی نعتیہ شاعری ۔ پروفیسرسید طلحہ رضوی برق دانا پوری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


مضمون نگار : پروفیسرسید طلحہ رضوی برق دانا پوری

مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی کی نعتیہ شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

طبق پر آسماں کے لکھتا میں نعتِ شہ والا

قلم اے کاش مل جاتا مجھے جبریل کے پر کا

مشکوٰۃ المصابیح کی حدیث ہے کہ ارشاد فرمایا حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اِنّ المومِنَ یُجاھِدُ بِسَیفہٖ ولِسَانِہٖ یعنی ایمان والے تلوار سے بھی جہاد کرتے ہیں اور زبان سے بھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابی حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرماتے ہیں کہ: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ کفار کے مقابلے میں تمہارا شعر پڑھنا تیر اندازی کی طرح ہے یعنی اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مدافعت میں تم جو اشعار کہتے ہو وہ تیر کی طرح کفار کے سینوں کو گھائل کرتے ہیں۔

چودھویں صدی کے اس برصغیر میں جہاں نجدیوں کے گھنائونے عقائد کی ترویج و تبلیغ عظمت و شان رسالت کو مجروح کر رہی تھی صلحا، فقہا، علما، اور شعرا کے نعتیہ کلام نے یقینا جہاد باللسان کا کام کیا ہے۔ اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ نے جہاں علم و فقہ و شریعت کی روشنی میں توحید و رسالت کا پرچم حق فروز بلند رکھا وہیں شعرو سخن پر خداداد ملکہ سے اسوۂ حسنہ کی تبلیغ، عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشویق، نعت مجتبیٰ کی تشہیر اور ا س طرح توہین رسالت و عقائد باطلہ کا وہ مردانہ وار مجاہدانہ دفاع کیا جس کی نظیر مشکل ہے۔

شہ زادۂ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم ہند مولانا محمدمصطفی رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہ دینی و روحانی خدمت ورثے میں پائی کہ روز اول ہی رب تعالیٰ نے انھیں اس منصب پر مامور فرما دیا تھا۔ اپنے پیرو مرشد برحق عارف باللہ حضرت سید شاہ ابوالحسین نوری مارہروی قدس سرہ کی نسبت روحانی سے سرشار ہوکر آپ نے اپنا تخلص نوریؔ فرمایا۔ سوا حمد و نعت و منقبت کے اپنی اس وہبی صلاحیت شعری و سخن وری کو کبھی اور استعمال نہ فرمایا۔ مبداے فیاض نے ذہن رسا عطا فرمایا تھا۔ علوے فکرو اوج خیال میں محسود بال جبریل، علم و فضل میں اسلاف کے عکس جمیل، جذبۂ عشق محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار، گلشن حسان و کعب رضی اللہ عنہما کی مستانہ بہار تھے۔

ہر چند شاعری ایک فن ہے، بڑا نازک فن اور اس فن کی نازک ترین صنف ہے نعت رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، اتنی نازک اور اتنی پرخطر کہ بہ قول عرفی ؔشیرازی ؎

عرفی شتاب ایں رہ نعت است نہ صحرا ست

آہستہ کہ رہ بردم تیغ است قدم را

اپنی مصروف ترین زندگی میں آپ نے نعت گوئی کے لیے اتنا وقت ضرور نکالا کہ ۱۳۹۹ھ میں تقریباً دیڑھ سو صفحات پر مشتمل آپ کا نعتیہ کلام ’’سامان بخشش‘‘ کے نام سے منظر عام پر آ گیا۔ حدائق بخشش اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کا بے مثال مجموعۂ نعت ہے۔ سامان بخشش اور حدائق بخشش میں لفظ ’’بخشش‘‘ مشترک ہے اور موضوع متحد مگر اپنے اندازِ پیش کش کو حضور مفتی اعظم ہند نے ایسی انفرادیت بخشی ہے کہ اسے کسی سے مستعار نہیں کہا جا سکتا۔

ابی و شیخی حضرت علامہ قتیل داناپوری علیہ الرحمہ نے آپ سے متعلق رقم فرمایا تھا کہ:

’’حضرت مفتی اعظم قدس سرہ صرف مولوی و مفتی ہی نہ تھے بلکہ ایک خدمت اور بھی آپ کے سپرد تھی یعنی دلوں کو دھو کر پاک و صاف کرنا، جس کا ظہور حضرت کی آخری عمر میں کثرت سے ہوا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے شریعت کے ساتھ طریقت میں بھی بڑاحصہ دیا تھا اور اسی کا غلبہ رہا بلکہ آپ اسی کے لیے متخلق تھے۔‘‘(استقامت مفتی اعظم نمبر، ص۱۱۷)

مثل مشہور ہے’’ ولی را ولی می شناسد‘‘ یقینا حضور مفتی اعظم ہند اولیاے کاملین سے تھے۔ آپ کی شاعری بھی آپ کے روحانی فیوض کا سرچشمہ ہے۔ سامانِ بخشش کی پہلی ہی نظم ’’ضرب ھو ‘‘ ہے اللہ ٗ، اللہ ٗ، اللہ ٗ، اللہ ٗ۔ بیس بند کی یہ نظم پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ دیدہ و دل روشن ہو جائیں گے۔ حمد باری تعالیٰ، مدحت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور مناجات سے مملو یہ نظم ارجمند خوش آہنگی و ترنم ریزی میں آپ اپنی مثال ہے۔ منظر کشی و تصویریت کا حسن ہر جا نمایاں ہے۔ ؎

بلبل خوش نوا طوطیِ خوش گلو

قمری خوش لقا بولی حق سرہٗ

زم زمہ خواں ہیں گاتے ہیں نغمات ھوٗ

فاختہ خوش ادا نے کہا دوست تو

اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ

ہے زبانِ جہاں حمد باری میں لال

تابا امکان ہم رکھتے ہیں قیل و قال

دم کوئی حمد کا مارے کس کی مجال

اس کو مقبول فرما لے رحمت سے تو

اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ

قیل و قال کی یہ عظیم روحانی شخصیت ایک طرف آسمانِ شریعت کا آفتاب ہے تو دوسری طرف چرخِ طریقت کا ماہ تاب ؎

خوشا مسجد و مدرسہ خانقا ہے

کہ در وے بود قیل و قال محمد ﷺ

حضرت کی نادر المثال نظم بہ عنوان ’’اذکار توحید ذات، اسما و صفات و بعض عقائد‘‘ خاصے کی چیز ہے۔ ۹۹؍ مربع بند کی اس نظم میں قلم کی جولانی، علم کی فراوانی اور فیوض روحانی کی کرشمہ سامانی اپنے عروج پر ہے۔ ایک صوفی صافی، پیر طریقت، ذاکر زاویہ نشیں کی ضرباتِ پیہم سے صفاے باطن کے تڑکے ملاحظہ ہوں ؎

لا موجود الا اللّٰہ

لا مقصود الا اللّٰہ

لا مشھود الا اللّٰہ

لا معبود الا اللّٰہ

لا الٰہ الا اللّٰہ اٰمنَّا برسولِ اللّٰہ

ھوٗ ھوٗ ھوٗ ھوٗ ھوٗ ھوٗ ھوٗ

تیرا جلوہ ہے ہر سو

اللّٰہ ھو اللّٰہٗ

تو ہی تو ہے تو ہی تو

لا الٰہ الا اللّٰہ اٰمنَّا برسولِ اللّٰہ

انت الہادی انت الحق

قلب مبطل سن کر شق

رنگ باطل اس سے فق

قلب مسلم کی رونق

لا الٰہ الا اللّٰہ اٰمنَّا برسولِ اللّٰہ

فلسفہ وحدۃ الوجود تصوف کی ایک قدیم بحث ہے۔ حضرت نوری کا کلام گواہ ہے کہ وہ اہل طریقت و تصوف کے عقیدہ وحدۃ الوجود کے قائل اور ہم آواز ہیں۔ ملاحظہ ہو کس کمال سے سے احاطہ فرمایا ہے۔ ؎

جز میں وہ ہے کل میں وہ

افغان بلبل میں وہ

رنگ و بوئے گل میں وہ

نغمات قلقل میں وہ

لا الٰہ الا اللّٰہ اٰمنَّا برسولِ اللّٰہ

تو میں وہ ہے من میں وہ

آبادی میں ہے بَن میں وہ

جان میں وہ ہے تن میں وہ

سِر میں وہ ہے عِلَن میں وہ

لا الٰہ الا اللّٰہ اٰمنَّا برسولِ اللّٰہ

قرب و لقا و وصل میں وہ

فرض میں وہ ہے نفل میں وہ

بعد و فراق و فصل میں وہ

اصل میں وہ ہے نقل میں وہ

لا الٰہ الا اللّٰہ اٰمنَّا برسولِ اللّٰہ

فتح و ضم و جر میں وہ

این و آن و دِگر میں وہ

پیش و زیر و زبر میں وہ

اِس میں اُس میں ہر میں وہ

لا الٰہ الا اللّٰہ اٰمنَّا برسولِ اللّٰہ

جہاں تک زبان و بیان اور فن شعرو سخن وری کا تعلق ہے حضرت نوریؔ، ناسخؔ اسکول کے نمایندہ شاعر نعت گو ہیں۔ ناسخؔ لکھنوی کا مشہور مطلع دیوان ہے ؎

مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا

طلوعِ صبح محشر چاک ہے میرے گریباں کا

’’سامانِ بخشش‘‘ کی پہلی نعت کچھ اسی رنگ و آہنگ کے ساتھ طلوع ہوتی ہے ؎

پڑھوں وہ مطلع نوری ثناے مہر انور کا

ہو جس سے قلب روشن جیسے مطلع مہر محشر کا

سر عرش علا پہنچا قدم جب میرے سرور کا

زبانِ قدسیاں پر شور تھا اللہ اکبر کا

مٹے ظلمت جہاں کی نور کا تڑکا ہو عالم میں

نقابِ روے انور اے مرے خورشید اب سرکا

جو آب و تاب دندانِ منور دیکھ لوں نوریؔ

مرا بحر سخن سر چشمہ ہو خوش آب گوہر کا

زبان اتنی با محاورہ، صاف و شفاف، سہل و سادا و رواں کہ کہیں کوئی اشکال نہ اغلاق۔ علمی نکات، تلمیحات و اشارات، صنعت شعری، روزمرہ کا لطف، زبان دانی کا کمال، جذبۂ عشق کی سرشاری دل موہے لیتی ہے۔ جی نہیں مانتا چند اشعار ملاحظہ فرماتے چلیں ؎

عرش اعظم پر پھریرا ہے شہ ابرار کا

جاری ہے آٹھوں پہر لنگر سخی دربار کا

کیا کرے سونے کا کشتہ ، کشتہ تیر عشق کا

فق ہو چہرہ مہر و مہ کا ایسے منھ کے سامنے

لات ماری تم نے دنیا پر اگر تم چاہتے

تو ہے رحمت بابِ رحمت تیرا درواز ہ ہوا

بجتا ہے کونین میں ڈنکا مرے سرکار کا

فیض پر ہر دم ہے دریا احمد مختار کا

دید کا پیاسا کرے کیا شربت دینار کا

جس کو قسمت سے ملے بوسہ تری پیزار کا

سلسلہ سونے کا ہوتا سلسلہ کہسار کا

سایۂ فضل خدا سایہ تری دیوار کا

کعبہ و اقصیٰ و عرش و خلد ہیں نوریؔ مگر

ہے نرالا سب سے عالم جلوہ گاہِ یار کا

یہ چند منتخب اشعار ہیں آپ کی ایک نعت کے اور میں دعوے کے ساتھ عرض پرداز ہوں کہ دبستان لکھنؤ بالخصوص ناسخؔ اسکول کا بڑے سے بڑا استاد بھی ایک نعتیہ غزل میں اتنے محاسن صوری و معنوی شاید ہی جمع کر سکے۔

محاورہ، رعایت لفظی، مراعاۃ النظیر، حسن تکرار، تلمیح، اشارہ بالکنایہ، تشبیہ، مجاز مرسل، سہل ممتنع، برجستگی، زور بیان اور لطف زبان گویا چند اشعار میں بحر مواج سخن ہے کہ لہریں لے رہا ہے۔ زورِ بیان اور قادرالکلامی کا حال یہ ہے کہ ایک ہی زمین میں طویل سہ غزلہ اور چہار غزلہ تیار ہے۔ آمد کا یہ حال ہے کہ پورے سجع کے ساتھ اشعار کا انبار ہے۔ صرف اسی محولہ بالا زمین میں حضرت نوریؔ کی سہ غزلہ نعتوں کا فنی جائزہ لوں تو ایک دفتر درکار ہو۔ زبان و بیان پر آپ کی عالمانہ دست رس، استادانہ گرفت، سخن ورانہ قدرت اور فن کارانہ ملکہ دیکھنا ہو تو یہ چند اشعار پڑھیے ؎

کچھ عرب پر ہی نہیں موقوف اے شاہِ جہاں

لوہا مانا ایک عالم نے تری تلوار کا

کاٹ کر یہ خود سر میں گھس کے بھیجا چاٹ لے

کاٹ ایسا ہے تمہاری کاٹھ کی تلوار کا

تو ہے وہ شیریں دہن کھاری کنویں شیریں ہوئے

ان کو کافی ہو گیا آبِ دہن اک بار کا

روکش خلد بریں ہے دیکھ کوچہ یار کا

حیف بلبل اب اگر لے نام تو گل زار کا

بھیک اپنے مرہم دیدار کی کر دو عطا

چاہیے کچھ منھ بھی کرنا زخم دامن دار کا

از سر بالین من برخیز اے ناداں طبیب

ہو چکا تجھ سے مداوا عشق کے بیمار کا

وا اسی برتے پہ تھا یہ تتّا پانی واہ واہ

پیاس کیا بجھتی دہن بھی تر نہیں ہر خار کا

کوثر و تسنیم سے دل کی لگی بجھ جائے گی

میں تو پیاسا ہوں کسی کے شربت دیدار کا

جلوہ گاہِ خاص کا عالم بتائے کوئی کیا

مہر عالم تاب ہے ذرہ حریم یار کا

ہفت کشور ہی نہیں چودہ طبق روشن کیے

عرش و کرسی لا مکاں پر بھی ہے جلوہ یار کا

مرقد نوریؔ پہ روشن ہے یہ لعل شب چراغ

یا چمکتا ہے ستارہ آپ کی پیزار کا

حضرت نوریؔ نے اپنی نعتیہ شاعری سے صفاے باطن و جلاے قلوب کا وہ کام لیا ہے جو حضرات صوفیا کا ورثہ ہے۔ اس بدیہی حقیقت کے وہ خود مُقِر ہیں ؎

اک غزل اور چمکتی سی سنا دے نوریؔ

دل جلا پائے گا میرا ترا احساں ہوگا

رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم جان عالم ہیں اور ان کی محبت جان ایمان۔ آپ کی تلقین دل پذیر ملاحظہ ہو ؎

جانِ ایماں ہے محبت تری جانِ جاناں

جس کے دل میں یہ نہیں خاک مسلماں ہوگا

میں نے ابتداے مضمون میں ہی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نقل کی ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی مدافعت میں شعر کہنا کفار کے سینوں کو گھائل کرنا ہے۔ حضرت نوریؔ کی نعت گوئی یقینا اسی پس منظر میں ہے۔ رقم طراز ہیں ؎

دل دشمن کے لیے تیغ دو پیکر ہے سخن

چشم حاسد کو مرا شعر نمک داں ہوگا

آپ کے نعتیہ اشعار قرآن و حدیث کی تعلیمات پر مبنی ہیں اور انہیں کے ترجمان۔ لولاک لما خلقت الافلاک مشہور حدیث قدسی ہے اور دوسری مشہور حدیث اول ما خلق اللّٰہ نوری والخلق کلھم من نوری وانا من نوراللّٰہ ہے۔ ان کی ترجمانی کس حسن اختصار سے فرماتے ہیں ؎

جب تم نہ تھے کچھ بھی نہ تھا جب تم ہوئے سب کچھ ہوا

ہے سب میں جلوہ آپ کا ماہِ عجم مہر عرب

مشکل زمینوں میں استعداد شعری، ملکہ سخن وری، قوت گویائی، مضمون آفرینی، زبان دانی و فن کاری پورے استادانہ کمال کے ساتھ دکھائی ہے۔ آمد، تسلسل، آہنگ تو فارسی قصیدہ گویوں کی یاد دلاتا ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں ؎

آئیں جو خواب میں وہ ہو شبِ غم عید کا دن

جائیں تو عید کا دن ہو شبِ غم کی صورت

جائیں گلشن سے تو لٹ جائے بہار گلشن

دشت میں آئیں تو ہو دشت ارم کی صورت

بھیڑ کو خوف نہ ہو شیر سے تم جو چاہو

تم جو چاہو تو بنے شیر غنم کی صورت

کوہ ہو جائیں اگر چاہو تو سونا چاندی

سنگ ریزے بنیں دینار و درم کی صورت

صورتِ پاک وہ بے مثل ہے پائی تم نے

جس کی ثانی نہ عرب اور نہ عجم کی صورت

دم نکل جائے مرا راہ میں ان کی نوریؔ

ان کے کوچے میں رہوں نقش قدم کی صورت

اعلیٰ حضرت کا ’’مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ بے نظیر ہے لیکن اسی مستی، اسی جذب اور اسی کیف سے مملو حضرت نوریؔ کا ’’سلام بہ سرکار خیرالانام علیہ و علیٰ آلہ التحیۃ والسلام‘‘ تم پر لاکھوں سلام، تم پر لاکھوں سلام،۳۹؍ بند پر مشتمل اپنی سادگی و صفائی، شیرینی و خوش بیانی اور غنائیت کے اعتبار سے چیزے دگر ہے۔ ؎

ڈگمگ ڈگمگ نیا ہالے

آہ دوہائی رحمت والے

جیرا کانپے توئی سنبھالے

تم پر لاکھوں سلام

تم پر لاکھوں سلام

خُلق تمہارا خَلق الٰہی

اے پاکیزہ سیرت والے

فیض تمہارا نا متناہی

تم پر لاکھوں سلام

تم پر لاکھوں سلام

اہل حق کے وہ سارے عقیدے جن کو قرآن و حدیث کی سند و تقویت حاصل ہے حضرت نوریؔ نے ان کی تائید و تاکید سے اس خوب صورت اور موثر نظم کو محولہ بالا حدیث شریف کا مصداق بنا دیا ہے۔ منافقین و دشمنانِ عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس سلام کا ایک ایک شعر تیرو نشتر سے کم نہیں :

صلی اللہ علیک وسلم صلی اللہ صلی اللہ

کے عنوان سے اسی بحرو زمین میں دوسری نظم بھی ۳۹؍ بند پر مشتمل وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ کے حکم باری تعالیٰ کی حسین تعمیل ہے ؎

عرش کی زینت تم ہی سے ہے

حسن و جمال و لطافت والے

فرش کی نزہت تم ہی سے ہے

صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک وسلم

صلی اللہ صلی اللہ

آپ کی اکثر نظمیں ذو لسانین ہیں۔ عربی زبان و ادب پر فارسی و اردو ہی کی طرح آپ کی قدرت مسلّم ہے۔ صلی اللہ علیک وسلم کی ردیف میں ۴۸؍ اشعار کی نعت شریف والہانہ جذبۂ عشق و وارفتگی کے با وصف مودبانہ مدحت سرائی کی انوکھی مثال ہے ؎

بَارَکَ شَرَّفَ مَجَّدَ کَرَّمَ نَوَّرَ قَلْبَکَ اَسْریٰ عَلَّم

رب نے تم کو کیا کیا بخشا صلی اللہ علیک وسلم

شاعر مشرق اقبالؔ نے فرطِ محبت و عقیدت میں یہ نعتیہ اشعار کہے تھے ؎

وہ داناے سبل ختم الرسل مولاے کل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادیِ سینا

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر

وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طٰہٰ

حضرت نوری کا ایمان و یقین کامل ملاحظہ فرمایے ؎

اَنْتَ الرَّافِع اَنْتَ النَّافِع ، اَنْتَ الدَّافِع ، اَنْتَ الشَّافِع

اِشْفَعْ عِنْدَالرَّبِّ الْاَعْلٰی ،صلی اللہ علیک وسلم

اَنْتَ الْاَوَّل ، اَنْتَ الْاٰخِر ، اَنْتَ الْبَاطِن ، اَنْتَ الظَّاہِر

اَنْتَ سَمْیِ الْمَوْلٰی تَعَالٰی ،صلی اللہ علیک وسلم

یہ ہے وہ نعت گوئی جس کے لیے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِنّ المومِنَ یُجاھِدُ بِسَیفہٖ ولِسَانِہٖ فرمایا۔

مختصر یہ کہ ’’سامانِ بخشش‘‘ کی نعتوں اور منقبتوں کا تفصیلی جائزہ بہر نقطۂ نظر ایک دفتر کا متقاضی ہے۔ محض چند نعتوں اور اشعار کے پیش نظر یہ مختصر مضمون نامکمل و ناقص ہے تاہم حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کی نعتیہ شاعری کی ایک واضح جھلک اس سے ضرور سامنے آ جاتی ہے۔ بہ شرط فرصت ان شاء اللہ اس فرض سے سبک دوش ہوں گا۔ ؎

نہ حُسنش غایتے دارد نہ سعدیؔ را سخن پایاں

بمیرد تشنہ متقی و دریا ہم چناں باقی

٭٭٭