مضطر ؔاعظمی کی نعتیہ شاعری -ڈاکٹر شکیل اعظمی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

مضمون نگار: ڈاکٹر شکیل احمد اعظمی ( یوپی)

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2


مضطر ؔ اعظمی کی نعتیہ شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ار د و کی نعتیہ شاعری کے فروغ میں گاؤں ، دیہات اور قصبے کے رہنے والے ان شعرأ کا بھی گراں قدر حصہ رہا ہے جو اعلیٰ ڈگریاں نہیں رکھتے تھے معمولی نہیں تو متو سطات تک تعلیم ہوتی تھی مگر عشقِ رسول ﷺ کی دولت ِ لا زوال سے جن کا سینہ لبریز ہوتا تھا اور وہ اسی عشق کے اجالے میں اپنے شاعرانہ سفر کو طے کرتے تھے۔ نت نئے اوزان پر شعر موزوں کرتے تھے اور براہِ راست عوام الناس تک پہونچاتے تھے۔ ان کے کلام اور اواز کی ہم آہنگی سے سامعین لوٹ پوٹ ہوجاتے تھے۔ نعتیہ محفلیں اور میلاد کی بزمیں ان کی غذا ہو تی تھیں جہاں سے وہ اپنے کلام کو نشر کرتے تھے۔ گاہے گاہے مذہبی رسائل میں بھی ان کی نعتیں پڑھنے کو مل جاتی تھیں۔ اجملؔ سلطانپوری، بیکل ؔ اتساہی ، رازؔ الہ آبادی ، شمس ؔ الہ آبادی، قمرؔ سلیمانی ، ثمرؔ مانچوی، نثارؔ کریمی کے ساتھ ان گنت نام اس حوالے سے لئے جاسکتے ہیں۔ بیکل ؔاتساہی کی غزل گوئی ، گیت نگاری اور سیاسی دلچسپی کی وجہ سے ادبی دنیا نے قبولیت کا مقام دیا اور ان کی شہرت ہندوستان کی سرحدوں کو پار کر گئی اور باقی شعرأ صرف عوامی ربط میں رہے اور جیسے جیسے انکے چراغ گُل ہوتے رہے فراموش کئے جاتے رہے۔ مضطر ؔ اعظمی کا نام بھی انہیں مظلوم شعرأ میں لیا جا سکتا ہے۔ جنہوں نے اپنی پوری زندگی نعتیہ ادب کی آبیاری میں صرف کر دی اور بڑے اعتماد سے انہوں نے کہا تھا۔ ؎


مضطرؔ تجھے نہ بھولے گا اسلامی مورخ

لکھے گا جب اسمائے ثنا خونِ محمد ﷺ

مضطر ؔ اعظمی کا نام ابوالحسن تھا آپ محمد ضمیر پردھان کے لائق و فائق فرزند تھے۔ ۱۹۴۳؁ء میں محلہ کریم الدین پور گھوسی ضلع اعظم گڑھ ( موجودہ ضلع مؤ ) میں آپ کی ولادت ہوئی ٔ۔ جامعہ شمس العلوم، گھوسی میں شارحِ بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی ، قاضیِ شریعت حضرت علامہ محمد شفیع مبارکپوری ، حضرت مولانا محمد رمضان گھوسوی علیہم الرحمہ۔ ڈاکٹر محی الدین انصاری اور منشی نظام الدین وغیرہ سے گلستاں ، بوستاں ، انوارِ سہیلی ، مالا بدّ منہ ، میزان و منشعب ، دروس الادب اور باغ و بہار وغیرہ پڑھیں ، پھر سرودے انٹر کالج، گھوسی سے درجہ سات پاس کیا اور درجہ آٹھ میں تین ماہ حصول علم کے بعد گھریلو مجبوری کی وجہ سے تعلیم کو ترک کردینا پڑا۔

آغازِ شاعر ی :

مضطرؔ اعظمی بارہ سال ہی کی عمر سے شعر شاعری کرتے رہے اُس سے قبل اپنی خوش گلوئی کی بنا پر اسکول و مدارس کی تقاریر میں نعتیں اور نظمیں پڑھتے تھے۔ آپ نے صنف نظم میں نعت کے مقدس فن سے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔ آپ کے پہلے نعتیہ کلام کا مطالعہ اور ایک شعر نذرِ قائین ہے۔ ؎


سراپا نور حق ہیں وہ جدھر بھی اک نظر کر دیں

ملے ذروں کو وہ تابندگی رشک قمر کر دیں

وہ محبوبِ خدا ہیں حکمران ہر دو عالم ہیں

وہ اس دنیا کو پل بھر میں جدھر چاہیں اُدھر کر دیں

ان کے شاعرانہ سفر کی تیسری نظم جو ان کی آپ بیتی ہے اپنی خستہ حالی پر رشک ریزی کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ ؎


رسول اللہ کا صدقہ مرے مالک وطن دے دے

بہت گھبرا چکا ہوں دشت سے اب تو چمن دے دے

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

ادبی خدمات و شعری مجموعے :

شمعِ تمنّا ( نعتیہ مجموعہ ) ادارہ روحِ ادب سے شائع ہو چکا ہے۔ دوسرا مجموعہ نعت جس پر علامہ عبد المصطفیٰ ازہری ، بحرالعلوم علامہ مفتی عبدا لمنان اعظمی ، مفکر اسلام علامہ بدر القادری ، ہالینڈ ، ادیب ِ شہیر علامہ مفتی محمد اسلم بستوی اور مشہور نقاد پروفیسر عنوان چشتی نے اپنے تاثرات قلم بند کئے ہیں۔ جناب شکیلؔ کریمی نے مجھ سے بتایا کہ حج کی روانگی کے وقت مضطر ؔ صاحب نے یہ مسودہ طباعت کے لئے مولانا نظام الدین شمسی کو سپرد کر دیا تھا خدا کرے جلد یہ مجموعہ منظر عام پر آجائے۔

مضطرؔ اعظمی شعر و شاعری میں ڈاکٹر شکیل اعظمی ، نشور ؔ واحدی ، بلیا، ماسٹر سجاد گھوسوی اور علم ؔ انصاری گورکھ پوری سے مختلف اوقات میں اصلاح اور مشورہ ٔ سخن لیتے رہے۔

مضطر اؔعظمی ایونِ ادب کے ایک روشن چراغ تھے ، ہندوستان کے آل انڈیا مشاعروں میں مدعو کئے جاتے تھے۔ انہوں نے نشور ؔ واحدی ، کیفی اؔعظمی ، ملک زادہ منظور احمد ، عمر قریشی ، سونڈ ؔ فیض آبادی ، شمسؔ مینائی، کامل ؔ شفیقی ، وامقؔ جون پوری ، بشیر بدر ؔ ، نذیر ؔ بنارسی ، عارف ؔ عباسی، اجملؔ سلطان پوری ، بیکل ؔ اتساہی ، راز ؔ الہ آبادی ، قمرؔ سلیمانی اور حقؔ کان پوری جیسے شعرا ٔ کے ساتھ سیکڑوں مشاعروں میں شرکت کی ہے۔

بی۔بی۔سی لندن کے شعری مقابلے میں جس کا مصرع طرح تھا۔ ؎


میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں

جس میں ہند و پاک کے ستائیس ہزار شاعروں نے حصہ لیا تھا۔ لیکن بی۔ بی۔ سی۔ نے ان میں سے جن دس شعرأ کا انتخاب کیا تھا ان میں مضطر ؔ اعظمی کا نام بھی شامل تھا۔ مضطرؔ اعظمی نے حمد ، نعت ، غزل ، نظم ، منقبت، مرثیہ ، قومی گیت ، سہرا ان سبھی اصنافِ سخن پر زوردار طبع آزمائی کی تھی مگر نعت ان کا مخصوص میدان رہا ہے اور نعت گو کی حیثیت سے انہیں بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ مجموعی طور سے ان کی شاعری حزنیہ اور المیہ شاعری کے ضمن میں آتی ہے۔ ان کی کلفت بھری زندگی اور اس کے تلخ تجربات کو ان کی شاعری کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے۔

مضطرؔ اعظمی کی آواز کے اندر بھی غضب کا سوز بلا کا درد اورعجب کشش تھی جب وہ اپنے مخصوص انداز میں نعت گنگناتے تھے تو سامعین پر رقّت طاری ہو جاتی تھی۔مضطرؔ اعظمی کی نعتوں میں بڑی تاثیر اور کسک ہو تی تھی۔ اس میں عشق و عرفان کے وافر جلوے اور تلمیحی رمز و اشارے بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں۔ وہ مدینہ منورہ کا ذکرِ جمیل بڑے اچھوتے انداز میں کرتے تھے۔

عشقِ رسول ﷺ :

عشقِ رسول ﷺ ایمان کی جان اور حاصل زندگی ہے۔ اور نعتیہ شاعری کا محرک اوّل عشق رسول کی گہرائی و گیرائی ہے۔ جب عشقِ رسول قلب و فکر میں موجزن ہوگا تو شاعر کے نوکِ قلم سے تو صیف ِ رسالت کے زمزمے پھوٹیںگے اور عشق جتنا عمیق ہوگا اشعار اتنے ہی پر اثر ہوں گے۔ بلا شبہ مضطرؔ اعظمی کے دل کا گوشہ گوشہ عشق رسول کے پاکیزہ جذبات سے مملو تھا یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں عشق رسو ل کی وارفتگی خوب پائی جاتی ہے ، ان کاعشق اتنا گہرا تھا ملاحظہ فرمائیں ۔ ؎


مسکراتا ہے تصور لے کے جنّت ہاتھ میں

بند کیں آنکھیں مدینے کی زیارت ہو گئی

حشر کے دن گر لب کوثر ابھرنا ہے تجھے

خود کو بحرِ عشق سرور میں ڈبو لے زندگی

فرشتے آب پاشی کے لئے آتے ہیں جنّت سے

نبی کا عشق جب بوتے ہیں ہم دل کی زمینوں میں

ملک ہجرِ نبی میں بھیگی آنکھیں دیکھ کر بولے

بھرا ہے آبِ کوثر ان بہشتی آب گینوں میں

مضطرؔ اعظمی کے پاس ہجر رسول کا بے انتہا درد تھا اور وہ اس درد کے اس قدر عادی ہو گئے تھے کہ وہ ان کے لئے عضو سہارا بن گیا تھا۔ ؎


سہارا دیتا نہ مجھ کو جو درد ِ ہجرِ رسول

مری حیات کا اک لمحہ مسکراتا نہیں

ضیائے عشق حبیب پر مضطرؔ کو کس قدر اعتماد اور اعتقاد تھا ملاحظہ فرمائیں۔ ؎


ممکن نہیں چھو دے مری چو کھٹ کو اندھیرا

خورشید رسالت کی مرے دل میں ضیأ ہے

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

سوزش ہجر کے حوالے سے ایک جگہ اور لکھتے ہیں۔ ؎


ہجر محبوب خدا میں رشک ریزی کی قسم

رحمت حق کو مری تر دامنی اچھی لگی

ذکرِ مدینہ :

مدینہ منورہ کو بڑی عظمت اور بے پناہ فضیلت حاصل ہے اس لئے کہ یہ مقدس سر زمین پیغمبر آخر الزاماں ﷺ کی آرام گاہ ہے۔ مضطر ؔ اعظمی نے ا س شہر آرزو کو اپنے کلام میں خوب یاد کیا ہے ، ان کی ہر ہر سانس سے مدینہ مدینہ کی صدا آرہی ہے۔ ؎


رسول معظم کا روشن ہے سینہ

پکارے نہ کیوں دل مدینہ مدینہ

ہندوستان سے جب حجاج کرام کا قافلہ رواں ہوتا تھا تو مضطر ؔ اعظمی بے چین ہوجاتے تھے ان کی روح تڑپ اٹھتی تھی اور ایک مضطرب عاشق کی طرح سسکنے لگتے تھے ۔ ؎


اہل قافلہ چلے گئے سسکتا چھوڑ کر

آرزو کی مئے سے پرُ تھا دل کا جام توڑ کر

تھا یقیں کریں گے اب کی سال یا رسول

ہے گناہ گار مرا بال بال یا رسول

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

مضطر ؔ اعظمی کی نگاہ ان ارباب ِ ثروت پر پڑی جو ہر سال ہی دیار حبیب میں پہنچتے ہیں ان کو احساس ہوا کہ شائد ان کا افلاس در حبیب تک پہنچے میں مانع ہے۔ وہ عرض کرتے ہیں مرے آقا آپ اجازت دے دیں تو میں بغیر سرمایۂ سفر کے بھی پہنچ سکتا ہوں ، بس آپ کا بلاوا آجائے بغیر آپ کے اذن کے حاضری ناممکن اور محال ہے۔ ؎


آرزو ئے دید پانی کی لکیر تو نہیں

میر طیبہ صرف حصہ امیر تو نہیں

ہے بغیر اذن حاضر ی محال یا رسول

ہے گناہ گار مرا بال بال یا رسول

اپنے مقبول ترین سلام ’’ السلام اے حبیب خدا السلام ‘‘ میں یہ استغاثہ پیش کر رہے ہیں۔ ؎


میری آنکھوں کا دامن خدا کے لئے

سبز گنبد کے جلوؤں سے بھر دیجئے

حاضری کا مرے کیجئے انتظام

السلام اے حبیب خدا السلام

مضطر اؔعظمی کتنی حسرت سے کاروان مدینہ کو دیکھ رہے ہیں۔ کتنے درد بھرے انداز میں اپنی مفلسی کا گلہ کر رہے ہیں۔ ؎


کیوں نہ روئے مرے حال پر بے بسی

حسرتِ دید اب تک نہ پوری ہوئی

قافلے والے امسال بھی یا نبی

جا رہے ہیں مجھے چھوڑ کر دیکھئے

تو مجھے لے چل کسی صورت نبی کے شہر میں

اس کی اجرت حسبِ منشأ چاہے جو لے زندگی

مدینہ منورہ ،کی یادیں مضطر ؔ اعظمی کو کس قدر ستاتی تھیں۔ وہ کتنے پرُ سوز اور درد انگیز انداز میں کہتے ہیں۔ ؎


پھوٹ کے روتا ہوں میں ، روتی ہے میری مفلسی

طیبہ طیبہ جب سکوتِ شب میں بولے زندگی

تلمیحی رنگ :

مضطر ؔ اعظمی عالم ِ دین تو نہیں تھے مگر قرآن و حدیث پر ان کی نظر تھی۔ سیرتِ طیبہ اور تاریخ اسلام کا گہرا مطالعہ تھا ان کے کلام میں جا بجا تلمیحی اشارے ملتے ہیں۔ ؎


صدا بلال کی سننے کو مضطرب زمیں

کھلے ہیں گوشِ فلک بھی اذاں کے لئے

اگر رسول نہ آتے تو باغِ ہستی میں

کلی چٹکتی نہیں بھونرا گنگناتا نہیں

حجر یہ کہتا ہے نعت رسول پڑھ پڑھ کے

وہ کون ہے جو محمد کے گیت گاتا نہیں


شجر اپنی جگہ سے چل پڑا صلِ علیٰ کہ کر

یہ سنتے ہی کہ سرکار دو عالم نے بلایا ہے

دریا ئے ہوس منھ سے اُگلنے لگا پانی

کیا حضرت فاروق کا خط اُس کو ملا ہے

والشمس ہو واللیل ہو یٰسین ہو کہ طٰہٰ

ہر ایک میں نور رخِ احمد کی ضیأ ہے

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

وظیفۂ نعت :

نعت گوئی ایک عبادت اور عاشقِ رسول ﷺ کے لئے طمانیت ِ قلب کا سبب ہے۔ وہ بڑا خوش نصیب شاعر ہوتا ہے جو بارگاہ سرورِ کونین میں مدح و ثنا کے خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ نعت نگاری یہ عطیہ ٔ ربانی ہے جو ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتی۔ مشہور صحابی حضرت حسّان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نعتوں کو سرکار سُن کر تبسم فرماتے اور انھیں دعاؤں سے نوازتے تھے۔

مضطرؔ اعظمی نعتیں عبادت ، ذریعۂ نجات، توشۂ آ خرت اور وظیفۂ عقیدت سمجھ کر لکھا کرتے تھے۔نعتیہ شاعری ان کی روحانی غِذا تھی ان کو اپنی نعت نویسی پر بڑا اعتماد تھا۔ انہوں نے اپنے کلام میں جگہ جگہ نعت خوانی اور نعت نگاری کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے۔ ؎


جو میں نے چھیڑ دیا آمنہ کے پھول کا ذکر

بہار خلد نے بوسے مری زباں کے لئے

سناتا رہتا ہوں نعت رسول بچوں کو

میں اپنے گھر کو جہنم کبھی بناتا نہیں

نعت رسولِ پاک کا مضطر ؔ ہے یہ صلہ

عزت جو مِل رہی ہے تجھے اپنے گاؤں میں

زندگی کو میں لگا اچھا کہ لکھتا ہوں میں نعت

اور مجھ کو نعت پڑھتی زندگی اچھی لگی

عقیدت سے جب نعت میں نے رقم کی

جبیں چوم لی قدسیوں نے قلم کی

خلوصِ دل سے میں نے جب پڑھی ہے نعتِ مصطفی

سنی گئی زہے نصیب بزم ِ ذی وقار میں

نعت نگاری کا صلہ مضطرؔ کس شکل میں ڈھونڈھ رہے تھے جو ارضِ حرم میں انہیں حاصل ہو ہی گیا ملاحظہ کیجئے۔ ؎


عالم ِ جاں کنی میں بھی ہے شادماں

لب پہ جگنو تبسم کے ہیں ضو فشاں

بھر گئی قبر مضطرؔ کی انوار سے

نعتِ پاکِ نبی کا اثر دیکھئے

وہ نعت پاک حفظ و امان کا سپر سمجھ کر لکھتے تھے۔ ؎


کاٹ لی جائے زباں کو کیوں نہ مگر اے مضطر ؔ

نغمۂ نعت نبی لب پر ہمیشہ رکھیں

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کی خمیر تھی:

ذی الحجہ کا جب مبارک مہینہ آتا ہے تو عالمِ اسلام سے حجاج کرام کا نورانی کاروں پوری وارفتگی کے ساتھ سرزمین طیبہ کی طرف رواں دواں نظر آتا ہے۔ ۲۰۰۷؁ء کی بات ہے علم و دانش کی مردم خیز سرزمین گھو سی ضلع مؤ سے ارضِ بطحا کے لئے ایک قافلہ جبین شوق کی لمعانیوں سے تابناک نکہت و نور کی عطر بیزیاں کرتے نکلا۔ ؎

حاجیو آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

کے سرمدی نغمات سے پوری فضا گونج رہی تھی اسی ہجوم میں ایک متوسط قد ، سر پر عمامہ سجائے ہوئے اور گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے ہو ئے دھیرے دھیرے مستانہ وار چل رہا تھا لوگ جوق د ر جوق مصافحہ و معانقہ کر رہے تھے اور مبارک بادیاں پیش کر رہے تھے۔ یہ دیوانہ ٔ رسول تھا یہ ایک عاشقِ صادق تھا جس کے قلب و جگر کا چپہ چپہ اور ذہن و فکر کا گوشہ گوشہ حبّ رسول کے پاکیزہ جذبات سے معمور تھا اور لوگ کہ رہے تھے دیکھو دیکھو یہ مضطر ؔ اعظمی ہیں یہ بھی زیارتِ حرمین طیبّین کے مقدس سفر کے مسافر ہیں۔

۳؍ دسمبر ۲۰۰۷؁ء کو یہ قافلہ گھوسی سے نکلا۳؍دسمبر ہی کو بنارس سے پرواز ہوئی جب جہاز جدّہ ایر پورٹ پر اترا تو ۴؍ دسمبر کی تاریخ لگ چکی تھی اسی دن پہلا عمرہ کیا تھا۔ ۸؍دسمبر ۲۰۰۷؁ء کو مضطرؔ اعظمی محلہ عزیزیہ میں اپنی قیام گاہ پر پہونچے احرام لپیٹے ہوئے ہیں۔ آج بھی انہوں نے عمرہ کا طواف کیا۔ مچل مچل کے سعی کی مدینہ آمنہ کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ درِ حبیب کی کشش کھینچے جا رہی تھی۔ سینے میں درد اٹھا ڈاکٹر نے انجکشن دیا اور ہاسپٹل لے جانے کو کہا وقت معود قریب آچکا تھا چند لمحے کے بعد مضطر ؔ اعظمی کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ اوروہ حج بیت اللہ کی دائمی سعادت سے ہم کنار ہو گئے۔ ؎


بیمار محمد سے کہا ہنس کے اجل نے

جینے سے بھی بہتر ترے مرنے کی ادا ہے

مکہ معظمہ میں مضطر ؔ اعظمی کی موت بڑے نصیبے اور انتہائی فخر کی بات ہے۔ ؎


ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

کلام ِ مضطر ؔ اور ارضِ حرم میں مرنے کی تمنا:

لگتا ہے اس موت کا انہیں پہلے سے احساس تھا۔ ۶؍ شوال المکرم ۱۴۲۸؁ھ کو جامعہ شمس العلوم ، گھوسی پر میری ان سے ملاقات ہوئی میں نے روانگیِ حج پر انکو مبارک باد دی اور فرمائش کی کہ مدینہ منوّرہ میں کوئی نعت ضرور لکھئے گا پھر واپسی پر ہم لوگ سنیں گے یہی ہم لوگوں کا تحفہ ہوگا تو مضطر ؔ صاحب مسکرائے اور فرمایا کہ گذشتہ سال بھی حج کا فارم بھرا تھا مگر کینسل ہو گیا تھا میں نے زندگی بھر وہاں مرنے کی بھیک مانگی ہے ممکن ہے ایک سال زندگی باقی رہی ہو اس لیے اس سال کا فارم قبول نہ ہوا۔

ایک بار بستی کے ایک سفر میں مضطرؔصاحب کے ساتھ تھا وہ بہت خوش تھے انہوں نے مجھ سے کاغذ طلب کیا اور مندرجہ ذیل شعر لکھ کر دیا اور کہا رکھ لو ہو سکتا ہے اِس کی ضرورت پڑے۔ ؎


آرہی ہے صدا ہر طرف سے ہو نہ ہو مضطر ؔ خوش نوا ہو

حاجیو دیکھو کوئے نبی میں اک مسافر کی میت پڑی ہے

میں نے سنا ہے کہ روانگیِ حج کے وقت یہی شعر لوگوں کو سنا رہے تھے۔ مضطر ؔ اعظمی جنہوں نے زندگی بھر روضہ ٔ رسول پر مرنے کی آرزو کی شہر رسول کو اپنا مدفن بنانے کا خواب دیکھتے رہے تو سرکار علیہ السلام کی ہجرت گاہ تو میسر نہ ہو سکی ہاں آپ کے مقدس مولد و منشا میں ایک گز زمین پاکر آسودہ ٔ خاک ضرور ہو گئے ۔ آیئے مضطر ؔ اعظمی کی دلی آرزو اور قلبی تمنّاؤں کو ان کے اشعار کے جھرکوں سے دیکھیں کتنی سچی طلب اور کتنی اچھی تڑپ تھی ۔ ؎


آرزو ہے موت آئے آپ کے دیار میں

اس مقام پہ حیات پہونچی انتظار میں

اب سفید ہو رہے ہیں سر کے بال یا رسول

ہے گناہ گار مرا بال بال یا رسول

زندگی پھر زندگی ہے زندگی کی بات کر

کوئے طیبہ میں ہمیں تو موت بھی اچھی لگی

مدینے میں موت آئے مضطر ؔکو یارب

بنے خاک یہ مصطفی کے قدم کی

کرتا ہے کوئی چاند پہ جینے کی تمنا

ہم کوئے محمد میں قضا مانگ رہے ہیں

دیوانے کی مٹی نہ اکارت ہو الٰہی

ہو لاش مری اور بیابان محمد

مضطر ؔ اعظمی جیسا قادر الکلام شاعر اپنے ہزاروں معتقدین کو چھوڑ کر دیار حبیب کے قریب دائمی نیند کی آغوش میں پہنچ گیا۔ زندگی بھر جو تمنا ان کے سینے میں انگڑا ئی لے رہی تھی وہ پایۂ تکمیل کو پہنچ گئی۔ مضطر ؔ اعظمی تو داغِ مفارقت دے گئے مگر عشقِ رسول کو بیدار کرنے والا ان کا سرمایۂ نعت ہمیشہ ان کی یاد تازہ کرتا رہے گا۔ا للہ تعالیٰ اپنے حبیب پاک ﷺ کی مدح و ثنا کے صدقے میں جنّت الفردوس میں انہیں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ( آمین )

مزید دیکھیے =[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سانچہ:بکس مضامین

نئے صفحات