مسدس حالیؔ کا اسلوبیاتی مطالعہ ۔ ڈاکٹر محمد اشرف کمال

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Ashraf Kamal.jpg

مضمون نگار: ڈاکٹر محمد اشرف کمال

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Linguistic and Stylistic analysis of Musadas-e-Hali (Sestina written by Altaf Hussain Hali) has been done in the article placed below. Simplicity and stylistic beautification has been focused to elaborate trend setting pattern adopted by Hali in his Sestina. The simplicity of poetic diction has also been examined in the light of Sir Syidian theory of prose/poem writing to make the same more and more communicative. Naatia couplets in the sestina were acclaimed much in poetic history of Urdu in spite of the fact that they were based on a few stanzas. Emphasis has been put, in this article, to reflect the spirit of arousing Muslims, emotional purity, devotion, religious sensitivity and seriousness of Hali, that made the sestina a great work of literary value.

مسدسِ حالی کا اسلوبیاتی مطالعہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اردو میں نعت گوئی کی روایت بڑی مضبوط اور اپنے پورے احترام وعقیدت سے جاری وساری ہے۔مولانا الطاف حسین حالی نے مسدس حالی لکھ کر مسلمان قوم کو جگانے اور ان میں سنت رسولV اور اخلاقِ حمیدہ کا شعور اجاگر کرنے کے حوالے سے گراں قدر کام سرانجام دیا۔

اُردو میں نعت گوئی کی ایک مضبوط روایت موجود رہی ہے جیسے جیسے شاعری کو فروغ ملتا گیاشاعری میں نعت گوئی بھی فروغ پاتی رہی۔محسن کاکوروی سے باضابطہ نعت گوئی کی روایت کا آغاز ہوتا ہے۔اس کے بعد خواجہ الطاف حسین حالی، علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان،احمد رضا خاں بریلوی، محمد علی جوہر، حفیظ جالندھری، ماہر القادری نے مدحتِ رسولV میں قلم اٹھایا ہے۔

مولانا الطاف حسین حالی نے جہاں اردو غزل اور نظم کو ایک نئے ذائقے اور لہجے سے روشناس کرایا وہاں انھوں نے مخمس، مسدس،رباعی،قصیدہ اور نعت بھی لکھی مگران میں سب سے زیادہ شہرت ان کی مسدس ’’مدوجزر اسلام ‘‘کو حاصل ہوئی۔

مسدس مدو جزر اسلام کاپہلا ایڈیشن ۱۸۷۹ء میں، دوسرا ایڈیشن ۱۸۸۰ء میں ، تیسرا ایڈیشن جستہ جستہ تصرفات اور ۱۶۲ بند کے ضمیمے کے ساتھ مطبوعہ ۱۸۸۶ء ، تہذیب الاخلاق میں چھپنے والا مسدس۔(۱)

مسدس ’’مدوجزر اسلام‘‘ حالی نے سرسید کی اصلاحی تحریک سے متاثر ہو کر لکھی۔یہ نظم دراصل ان درد مندانہ جذبات پر مشتمل ہے جو کہ حالی اپنی قوم کے لیے اپنے دل میں رکھتے تھے۔

’’مسدس حالی کی دل میں کھب جانے والی سادگی ، اس کی بے پناہ تاثیر اور سب سے بڑھ کر وہ خلوص اور دردمندی جو پوری نظم میں شروع سے لے کر آخر تک ایک برقی رو کی طرح دوڑی ہوئی ہے ۔۔۔(۲)

سرسید تحریک کے اثرات نے جہاں اردو کی دیگر اصناف کو ترقی دی اور ان میں نئی جان ڈالی اور سادہ نگاری کا نیا اسلوب پیدا کیا وہاں اردونظم میں حالی کی نعت گوئی اور اردو نثر میں شبلی نعمانی کی لکھی ہوئی سیرت طیبہ ؐ اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں جنھیں اُس دور میں بھی مقبولیت حاصل تھی اور آج بھی شہرت اور پذیرائی حاصل ہے۔

حالی نے اردو نعت کی روایت کو ایک نیا لہجہ اور انداز عطا کیا۔جس سے اردو نعت گوئی میں ایک جدید دور کا آغاز ہوا۔

نعت گوئی کے دورِ قدیم کا خاتمہ محسن کاکوروی پر اور جدیددور کا آغاز مولاناحالی سے ہوا۔(۳)

حالی نے ذکرِ مولود میں اپنی ایجاز پسندی سے اعجاز پیدا کردیا ہے، جس کی وجہ سے مسدس کے یہ گنے چنے اشعار مستقل لکھے گئے بڑے بڑے میلاد ناموں پر بھاری ہیں۔ ان میں نہ خلافِ شرع کوئی بات کہی گئی ہے اور نہ مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے ۔ پیرائے میں سادگی لیے ہوئے قرآن واحادیث اور دیگر آسمانی کتب کے حوالوں سے پُر یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں:(۴)

یکایک ہوئی غیرتِ حق کو حرکت

بڑھا جانبِ بوقبیس ابرِ رحمت

ادا خاکِ بطحا نے کی وہ ودیعت

چلے آتے تھے جس کی دیتے شہادت

ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا

دعائے خلیل، اور نویدِ مسیحا

اس متن کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان دونوں لفظوں کے لیے قرآن مجید اور یوحنا کی انجیل کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ احادیث سے بھی اس کے حوالے ملتے ہیں۔

اردو شاعری میں حالی کا نام ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔مسدس حالی کے بارے میں ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:

’’حالی نے اپنی عقیدت کو طغیانِ جذبات کے حوالے نہیں کیا ،بلکہ نرم، رسیلے اور سادہ الفاظ میں حضور V کی سیرت کے کچھ ایسے نقوش ابھار دیے ہیں کہ ان کا اثر دیرپا اور کیف وسرور لافانی ہوگیا ہے۔‘‘(۵)

حالی کی مسدس میں جو روانی اور سلاست ہے وہ اس کی لفظیاتی ، اسلوبی اور صوتی خوبی ہے :

’’تاثر کی جو گہرائی سودا کے وجیہہ الفاظ اور مومن کی بوجھل ترکیبیں پیدا نہ کرسکیں ان سے کہیں زیادہ شدید اثر حالی کے بے رنگ الفاظ پیدا کرگئے۔‘‘(۶) کسی بھی فن پارے کا اسلوبیاتی جائزہ دراصل اس فن پارے میں لسانی خصائص کی تفصیل میں جاکر زبان کے حوالے سے اسلوب کے تشکیلی عناصر کا جائزہ لینے کانام ہے۔اسلوبیاتی تنقید مصنف سے زیادہ فن پارے میں زبان کے برتاؤ کو پرکھنے کا عمل ہے۔کیوں کہ زبان کے منفرد استعمال ہی سے کوئی مصنف اپنا الگ سے اسلوب قائم کرتا ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرنے کا سبب بنتا ہے۔اس حوالے سے تقلیب یا عکس ترتیب(Inversion)کے ذریعے جملوں کی ساخت اور لفظوں کی جملوں میں ترتیب پر بحث کی جاتی ہے اس کے علاوہ تکرار لفظی، تضاد، مترادفات،محاکات،قافیہ ردیف، صوتی جائزہ،لیا جاتا ہے۔ صوتی جائزے کے ساتھ تجنیس صوتی (Alliteration)میں جملے میںیکساں آوازوں والے الفاظ کی تکرار کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔معنیاتی جائزہ، اور اس ضمن میں لسانی انحراف اور لسانی پابندی کو ملحوظ خاطر رکھاجاتا ہے۔

اسلوبیات میں علم بدیع کے حوالے سے تجزیہ (Figurative Analysis)تشبیہہ، استعارہ، تراکیب ،تقابل کو مد نظر رکھاجاتا ہے۔

اسلوبیاتی مطالعے میں نظریۂ انطباق(Parallelism)بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے Parallelism کی تعریف ملاحظہ فرمائیں: It consists of pharases or sentences of similar construction and meaning placed side by side , balancing each other.(7) Parallelism یا انطباق میں متوازی اکائیوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے کہ کس طرح ایک اکائی اپنے متوازی دوسری اکائی کے ساتھ لسانی اشتراک سے جڑی ہوتی ہے۔ اور جملہ سازی میں یہ کیا کردار ادا کرتی ہے۔

الفاظ جملوں میں کس طرح ڈھلتے ہیں یعنی نحوی حوالے سے تجزیہ بھی اسلوبیات میں اہمیت کا حامل ہے۔

لسانی اکائیوں کی بنیاد پر انطباق کی پانچ شکلیں ہوسکتی ہیں۔اول:صوتیاتی انطباق، دوم: لفظی انطباق،سوم:استعاراتی انطباق، چہارم:فقرہ سازی کا انطباق، پنجم: معنوی انطباق۔(۸)

حالی کی مسدس مدو جزر اسلام اردو میں موجود روایت سے ہٹ کر اپنا اسلوب رکھتی ہے۔ اس میں حالی نے اسی اسلوب کو اپنایا ہے جس کی انھوں نے مقدمہ شعرو شاعری میں بھی بات کی ۔یوں یہ مسدس اردو شاعری اور بالخصوص اردو نعت گوئی کی روایت میں ایک اہم لفظی ومعنوی فن پارہ ہے جس کی مقبولیت کم ہونے کے بجائے روز بروز پہلے سے زیادہ ہوئی ہے۔

حالی کا اسلوب رنگین ومقفیٰ ومسجع الفاظ کے بجائے سادہ لفظیات سے عبارت ہے۔وہ زبان کے اُس پہلو کولیتے ہیں جو کہ عوام الناس میں مقبول اور جانا پہچانا جاتا ہے۔ ’’حالی کا نعتیہ اسلوب بھی سادہ اور رواں تھا۔ اُن کے ہاں خالصتاً جمالیاتی کیفیات کا مرقع بن کر سامنے آتی ہے۔رقیق القلبی ان کے مزاج کا حصہ تھی لہٰذا گریہ اور عاجزی نعتیہ شاعری میں نمایاں ہے۔(۹)

حالی نے مسدس حالی میں اجتماعی اور عمرانی نقطہ نظر کو زیادہ اپنایا ہے۔وہ تغیرات کو عمرانی اور سماجی حوالے سے دیکھتے ہیں اور نتیجہ پیش کرتے ہیں۔وہ سرسید سے متاثر تھے سرسید جن کے خطبات سے ہمیں ان کے خیالات اور نظریات کا پتہ چلتا ہے۔

’’فلسفہ ہمارے دائیں ہاتھ میں ہوگا اور نیچرل سائنس بائیں ہاتھ میں اور کلمہ لاالٰہ الا اللہ کا تاج سر پر۔‘‘(۱۰)

حالی نے مسدس حالی میں جو اسلوب اپنایا ہے یہ وہی ہے جو کہ سرسید تحریک سے مخصوص ہے جس کا بنیادی مقصد بات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے عام فہم اور آسان وسادہ لفظیات کو استعمال کرکے معنوی پیچیدیگیوں سے بچتے ہوئے اپنی بات کاابلاغ ہے۔

’’لفظ سیدھے سادے، ترکیبیں بے تکلف، معنی مبالغے سے خالی، مصرع تشبیہہ واستعارہ سے پاک، مگر ہر شعر جوشِ بیاں سے لبریز، وفورِ احساس اور دردو غم سے بھرا ہوا۔‘‘(۱۱)

اسی اسلوب کے باعث ہمیں مسدس حالی میں متن کی تشکیل کے حوالے سے وہ خوبیاں نظر آتی ہیں جو اس کے متن کو روانی سے پڑھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔قاری تواتر اور تسلسل سے اس کو پڑھتا چلاجاتا ہے بغیر کسی لفظی ومعنوی رکاوٹ کے۔

’’مسدس کی نظم میں ایسی سلاست ، روانی اور برجستگی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی صاف وشفاف نہر کسی ہموار ترائی میں آہستگی سے بہتی چلی جارہی ہے ۔نہ کہیں رکاوٹ ہے ،نہ لفظ میں گرانی ہے ، نہ قافیے کی تنگی ہے ۔زبان میں گھلاوٹ ،بیان میں حلاوت ۔ لفظوں میں فصاحت اور ترکیبوں میں لطافت ہے۔، ہماری زبان میں سہلِ ممتنع کی یہ بہترین مثال ہے۔(۱۲)

حالی کی مسدس مدوجزر اسلام کا بنیادی مقصد ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکام ہونے کے بعد مسلمان قوم میں پیدا ہوجانے والے ہزیمت اور شکست کے احساس کو کاہلی اور بے عملی کے نوآبادیاتی ماحصل سے بچا کر اسے عمل وترقی کے راستے پر ڈال کر درپیش مخدوش صورت حال کا دلیری اور ہمت سے سامنا کرنے کا جذبہ اجاگر کرنا ہے۔اس مقصد کے لیے انھوں نے نعتیہ اسلوب کے حوالے سے جدت کا رویہ اختیار کیا اور زبان کو جس فکری سیاق وسباق سے ہم آہنگ کیا وہ اس صورت حال میں وقت کاتقاضا بھی تھا اور عقلمندی بھی۔انھوں نے زبان کے ان پہلوؤں کو مد نظر رکھا جو کہ عوام کی سماعتوں اور قرأت کے لیے زیادہ تیر بہدف ہوسکتے تھے۔سلمان ندوی اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’وہ اپنی قوم کے دل اُبھارنے ، ہمت بڑھانے اور ترقی کے گُر بتانے میں نئے نئے اسلوب پیدا کرتا ہے اور طرح طرح سے سمجھاتا ہے۔‘‘(۱۳)

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

ان اشعار میں الفاظ کا جو عکس ترتیب بنتا ہے اس میں رحمت لقب پانے والا، غریبوں کی مرادیں پوری کرنے والا، غیروں کے کام آنے والا، اپنے پرائے کا غم کھانے والا۔پہلے مصرعے میں دوسرے نبیوں کے ساتھ امتیاز اور اشتراک کا عکس پایا جاتا ہے ۔ تیسرے مصرعے میں انسانی فطرت کے متوازی ایک جذبہ یعنی غیروں کے کام آنے، عام طور پر انسانوں میں اپنوں کے کام آنے کا جذبہ غالب ہوتا ہے۔اسی طرح چوتھے مصرعے میں اپنے پرائے تو متوازی مگر متضاد معنی رکھنے والے الفاظ ہیں اور دونوں کے لیے ایک سا عمل بیان کیا گیا ہے۔غم کھانا مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے مگر خوبصورتی اس بات کی ہے کہ پڑھنے والے کا ذہن معنوی بُعد کو فوری طور پر پھلانگ کے اصل معانی تک پہنچ جاتا ہے۔

سرسید مغربیت کے بجائے دراصل جدیدیت کے راستے پر چلنا چاہتے تھے۔اور مغربیت سے اسی قدرمواد اور خیالات لینا چاہتے تھے جتنا کہ جدیدیت کے لیے درکار تھے۔نعت کے عناصر کا ذکر کرتے ہوئے جدت کے بارے میں ابوالخیر کشفی لکھتے ہیں:

’’نیا لفظ نئے خیال کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے ۔جدت کا معاملہ فکری بھی ہے اور لسانی بھی۔‘‘(۱۴)

نعت میں جذبے اور عقیدت کو لفظوں میں ڈھالا جاتا ہے۔یہی کام حالی نے کیا ہے۔ ان کی مسدس میں کہیں مبالغہ آرائی اور تصنع نہیں۔

حالی نوآبادیاتی دور میں رہتے ہوئے اور حقائق کا ادراک رکھتے ہوئے اسی سوچ پر عمل کرکے قوم کی تربیت چاہتے تھے جو کہ ممکن تھی وہ کسی خواب انگیز فلسفے اور تھیوری کے علمبردار نہیں تھے۔وہ انقلاب کے بجائے اعتدال کے قائل تھے اور عملی کوششوں سے قوم کامستقبل بنانے کی فکر میں تھے۔وہ بتدریج نوآبادیاتی حیلہ سازیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی قوم میں وہ جذبہ بیدار کرنے میں لگے رہے جس سے یہ قوم آہستہ آہستہ خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہوجائے۔

مسدس حالی نعت کی تاریخ کا ایک جدید اور نیا موڑ ہے۔(۱۵)جس نے نعت میں سیرت نگاری کے نئے زاویوں کو زبان وبیان کے حوالے سے جدتِ فکر سے ہمکنار کیا۔

جمیل جالبی حالی کو جدید ادب کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔(۱۶)اردو ادب میں جدید رویہ سرسید کے زیر اثر سامنے آیا اور اس میں روایت سے بغاوت کی ایک اہم مثال حالی کی دی جاسکتی ہے۔ مسدس دراصل ان کا وہ نظمیہ بیانیہ ہے جو اردو شعری کلام کوپہلی مرتبہ روایتی انداز سے ہٹا کر ایک نئی منزل کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔حالی مسدس مدوجزر اسلام میں نہ صرف اسلام اور اس کے سنہری اصولوں کے اس تناظر کو زیر بحث لاتے ہیں جس نے ایک دنیا میں انسانی حوصلوں ، امنگوں اور جرأتوں کو نیاسیاق وسباق دیا تھااور اسی مسدس میں وہ قوم کے امراض اور ان کی شفا یابی کے لیے وہ نسخہ تجویز کرتے ہیں جس کی اساس نبی کریم کے اوصافِ حمیدہ اورسیرتِ رسول عربی پر رکھی گئی ہے۔

مسدس میں جہاں وہ قوم کی بدحالی، اخلاقی پستی اور انحطاط کو موضوع بناتے ہیں وہاں وہ اس کی وجوہات رسول کریم ؐ کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹ جانے اور اسلامی تعلیمات سے دوری کو قرار دیتے ہیں ۔

’’حالی کی مسدس’’ مدوجزر اسلام‘‘یا عرض حال بہ جناب سرور کائنات V دونوں ہی نظموں کے نعتیہ اشعار میں جذبات عقیدت ومحبت میں مقصدیت کا حسین امتزاج اور بارگاہِ رسالت Vکے آداب کا پاس ولحاظ ہر کہیں نظر آتا ہے۔‘‘(۱۷)

حالی کے اشعار میں استفہامیہ انداز خوبصورتی پیدا کرتا ہے:

کہا سب نے ’’قول آج تک کوئی تیرا

کبھی ہم نے جھوٹا سنا اور نہ دیکھا‘‘

کہا’’گر سمجھتے ہو تم مجھ کو ایسا

تو باور کروگے اگر میں کہوں گا


کہ فوجِ گراں پشتِ کوہِ صفا پر

پڑی ہے کہ لوٹے تمھیں گھات پاکر

کہا ’’تیری ہر بات کا یاں یقیں ہے

کہ بچپن سے صادق ہے تُو اور امیں ہے‘‘

کہا’’گر مری بات یہ دل نشیں ہے

تو سُن لو خلاف اس میں اصلاً نہیں ہے

کہ سب قافلہ یاں سے ہے جانے والا

ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا

اس مسدس کی ایک اور خوبی اس کی منظر نگاری اور اس کے ساتھ ساتھ اس نظم کا مکالماتی اندا ز ہے جو کہ مندرجہ بالا مصرعوں میں بڑے نپے تلے اور فنکارا نہ انداز میں سامنے آیا ہے۔

حالی کی مسدس میں صوتی حوالے سے جو خوبصورتی اور تحرک پایا جاتا ہے وہ قاری کی سماعت پر براہ راست اثر کرتا ہے اور قاری کو لمحہ لمحہ اپنے ساتھ آگے کی طرف بڑھاتا چلاجاتا ہے۔

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی

عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی

نئی اک لگن دل میں سب کے لگادی

اک آواز میں سوتی بستی جگادی

پڑا ہر طرف غُل یہ پیغامِ حق سے

کہ گونج اٹھے دشت وجبل نامِ حق سے

(مسدس حالی،ص۶۱)

اس بند میں کڑکا، صوت ، آواز، غُل،گونج ایسے مترادف الفاظ سے صوتیات کے ضمن میں وہ کام لیاگیا ہے جس نے ایک ساکت وجامد متن کو رواں دواں کر دیا ہے اور یہ متن پڑھنے والے کے لیے خاموش نہیں ہے بلکہ اس میں لفظیات کے حوالے سے متحرک الفاظ جوڑ کر انھیں باہم ترتیب دیا گیا ہے۔جس سے ایک ایسا اسلوب سامنے آتا ہے جو دلوں کو گرماتا ہے اور نئے جذبوں کو جگاتا چلا جاتا ہے۔

بقول مولوی عبدالحق:اس کی درد بھری آواز ہمیشہ دلوں کو تڑپاتی رہے گی۔‘‘(۱۸) سحر انصاری کے مطابق: حالی کے اشعار میں جو اثر ہے وہ دوسروں کے اشعار میں نہیں۔ جس طرح میر تقی میر نے کہا تھا کہ انوری اور خاقانی کی شرحیں لکھی جاچکی ہیں میری کوئی شرح نہیں لکھی گئی ہے۔ میری شاعری کو سمجھنے کے لیے جامع مسجد کی سیڑھیاں چڑھنا اور اترنا پڑتا ہے تو گویا Sochiology of Language کی طرف اشارہ ہے۔اس سے چوں کہ سرسیدنے کہا تھا کہ ہم استعاراتِ خیالی سے گریز کرکے وہ زبان لکھیں کہ جو دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے۔۔۔اس کو حالی نے اپنایا اور اس طرح وہ مسدس آسان زبان میں لکھی کہ جوہر شخص آسانی سے پڑھ سکے۔(۱۹)

ان اشعار میں پہلے مصرعے میں یا کے ساتھ بجلی کا کڑکا اور صوتِ ہادی دونوں مترادفات کے طورآپس میں جوڑے گئے ہیں۔مگر یہ دونوں اپنے حقیقی معنوں کے بجائے مجازی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں اسی طرح اس کا نتیجہ زمین کو ہلادینے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔جس سے ایک شدید صوتی تاثر جنم لیتا ہے۔ایک انقلابی لمحہ جو کہ رونما ہوا ہے۔اس لمحے نے ایک اچھا تاثر قائم کیاجس کے بعد دلوں میں لگن پیدا کی گئی اور اسی آواز سے بستی کو جگایا گیا، سب کچھ استعاراتی انداز میں ایک خاص ترتیب سے آگے بڑھ رہا ہے۔چوتھے مصرعے میں بستی کہہ کر بستی کے لوگ مراد لیے گئے ہیں۔

یہاں اس نظم میں لفظیات کے حوالے سے مناسب چناؤ، معنوی حوالے سے ابہام سے بچاؤ کو مد نظر رکھتے ہوئے فلسفیانہ موشگافیوں سے بچتے ہوئے حالی نے قاری کو پیش نظر رکھا ہے ۔ان کے الفاظ ایک دوسرے کے ساتھ باہم اس انداز اور ترتیب میں بغل گیر ہیں کہ انھیں علیحدہ کرنا یا کسی لفظ کو کسی دوسرے سے بدلنا مشکل ہے۔ بقول مولوی عبدالحق:

’’حالی کا یہ کمال ہے کہ سارے مسدس میں مصرع تو کیا ایک لفظ بھی بھرتی کا نظر نہیں آتا اور ہر مصرع دوسرے سے ایسا گتھا ہوا ہے کہ چھیوں مصرعے ایک جان اور ایک ذات ہوگئے ہیں۔‘‘(۲۰)

ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا

دعائے خلیل اور نویدِ مسیحا (مسدس حالی،ص۵۸)

اس شعر میں اسم معرفہ کی شکل میں انطباق پایاجاتا ہے۔

لفظ کے ساتھ لفظ کا رشتہ جوڑ کر معنی تک لے جانے کا عمل ایک نئے تجربے کے طور پر سامنے آتا ہے۔جتنی بار بھی اس کے متن کی قرأت کی جائے اس کا نیا پن ختم نہیں ہوتا۔بلکہ اس کے مرکوز مطالعہ اور بار بار قرأت سے تاثریت کا عمل بڑھتا ہی چلاجاتا ہے۔بقول ڈاکٹر مظفر حسن عالی:

’’اردو شاعری میں اس سے زیادہ صحیح ، اس سے زیادہ مستند اس سے زیادہ پُر اثر کوئی نعتیہ نظم نہیں مل سکتی۔‘‘(۲۱)

مسدس حالی میں مولانا الطاف حسین حالی نے اپنے جذبات کی سچی عکاسی کی ہے جس کی وجہ سے یہ پڑھنے والے کے دل میں اتر جاتی ہے۔اس میں مسلمانوں کی اس پسماندہ حالت کا بیان بھی کیا گیا ہے جس کو پڑھ کے رونا آتا ہے۔اس کے بعض اشعار ایک المیاتی کیفیت کی سچی عکاسی کرتے ہیں۔بقول سلمان ندوی:

’’پڑھنے والے پر عجب کیفیت طاری ہوتی ، کبھی روتا اور کبھی ہنستا اور دونوں کیفیتوں سے ہر گھڑی دل میں نئی لذت پاتا۔‘‘(۲۲)

قرأت کے حوالے سے جو سوزو گداز مسدس حالی کے حصے میں آیا اس نے اس نظم کودلوں کے لیے ایک ایسا نسخہ بنادیا جو دلوں کو سوز بھی دیتا ہے اور سرور بھی۔بقول متاز حسن:

’’اردو میں کوئی نعت حالی کے مسدس کے برابرموجود نہیں ہے۔‘‘(۲۳)

ان کی نظم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کے مضمون میں حالی مبالغہ آرائی اور فرضی مضامین سے کوسوں دور ہیں۔ وہی کچھ بیان کرتے ہیں جو کہ حقیقت کے نزدیک ہے یا عین حقیقت ہے۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

اِن چند اشعار میں کوئی تکلف کوئی مبالغہ کوئی طباعی کوئی صنعت گری نہیں مگر جو تاثر اِن میں موجود ہے ان کی نظیر اردو شاعری میں نہیں ملتی۔(۲۴)

مولانا حالی نے سادہ روی کی تحریک کے زیر اثر اس مسدس کو رنگیں بیانی سے بچاکر سادہ نگاری کو ملحوظ خاطر رکھا۔مولانا حالی اس کے دیباچے میں اس مسدس کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’نہ کہیں نازک خیالی ہے، نہ رنگیں بیانی ہے۔ نہ مبالغے کی چاٹ ہے ، نہ تکلف کی چاشنی ہے۔‘‘(۲۵)

مولانا الطاف حسین حالی نے اس نظم کے نعتیہ اشعار میں حضور اکرم کی زندگی اور سیرت کی جن الفاظ میں عکاسی کی ہے جن میں لفظیات کا طلسم سیدھا انسانی دل پر اثر کرتا ہے۔انھوں نے سیرت پاک کے ان پہلوؤں کو لیا ہے جن پرایک عام آدمی عمل کرکے اپنی زندگی کو انتہائی آسانی سے سنوار سکتا ہے۔

حالی کی اس مسدس میں ذات و صفات ہر دو حوالے سے گہرا شعور موجود نظر آتا ہے۔مسدس میں حالی نے حضور اکرم ؐ کی ان صفات کا ذکر کیا ہے جو کہ قرآنی تعلیمات کا عکس ہے۔اس طرح وہ جو لفظیات استعمال کرتے ہیں ان کا بین المتونی مطالعہ بتاتا ہے کہ حالی نے جو کچھ بھی کہا وہ قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی شعری تشکیل ہے۔یہاں ان کی نظم کے معنوی انسلاک کو سمجھنے کے لیے مختلف آیات اور احادیث کا مطالعہ ایک نئے جہانِ معنی کی طرف لے جاتا ہے۔

یہ پہلا سبق تھا کتابِ ہدیٰ کا

کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا

وہی دوست ہے خالقِ دوسرا کا

خلائق سے ہے جس کو رشتہ ولا کا

(مسدس حالی،ص۱۰۷)

حدیث مبارکہ ہے: الخلقُ کُلُّھُم عِیَالُ اللّٰہِ وَاَجُّپھُم اِلَی اللّٰہِ من اَنفَعُھُم اِلَی الخَلِقِ

ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے اور خدا کو سب سے عزیز وہ انسان ہے جو خلق خدا کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچائے۔(۲۶)

حالی نے مسدس میں جدتِ طبع کی وجہ سے روایت سے الگ ایک ایسا اسلوب اختیار کیا جس نے اس نعت کو لفظی ومعنوی حوالے سے قرأت کے نئے امکانات سے روشناس کرایا۔

’’مسدس میں مولانا حالی نے نعت بھی بالکل نئے، اچھوتے، انوکھے اور دل پذیر انداز سے پیش کی ہے۔۔۔نعت گوئی کو ایک بالکل نیا اور اچھوتا اسلوب بخشا۔‘‘(۲۷)

مسدس کے ضمیمہ میں جو مناجات لکھی وہ ۱۶۲ اشعار پر مشتمل ہے۔

لفظیات کے ضمن میں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ مسدس میں اکثر مقامات پر متضاد لفظوں کے ذریعے خوبصورتی پیدا کی گئی ہے۔جیسے

کہ کل کون تھے آج کیا ہوگئے تم

ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم

اس میں آج۔کل، جاگتے ۔سوگئے،ایک خاص ترتیب سے متضاد معنی رکھنے والے الفاظ کو برتا گیا ہے ۔

نہ ذلت سے نفرت نہ عزت کا ارماں

نہ دوزخ سے ترساں نہ جنت کے خواہاں

دوزخ۔ جنت، ذلت۔ عزت، اپنی پرائی،جیسے متضاد معنی رکھنے والے الفاظ معنوی انطباق کے ساتھ اپنی اپنی جگہ جڑے ہوئے ہیں۔

نہ ٹلتے تھے ہر گزجو اڑ بیٹھتے تھے

سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے (مسدس حالی،ص۵۶)

اس شعر میں ٹلنا اور اڑنا اسی طرح سلجھنا اور جھگڑنا

لب جو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا

کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا (مسدس حالی،ص۵۷)

آنے جانے میں تکرار لفظی کا تاثر اور اسی طرح پانی پینے پلانے میں صوتی خوبصورتی اور تکرار حرفی، ایک ہی حرف’’ پ ‘‘سے تینوں لفظوں کی ابتدا ہوئی ہے۔

مس خام کو جس نے کندن بنایا

کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا (مسدس حالی، ص۵۹)

اسی طرح زیرو زبر کرنے والا، شیرو شکر کرنے والا،میں صوتی خوبی اور حرفی تکرار کی خوبصورتی نظر آتی ہے۔زیروزبر میں دونوں لفظ’’ ز‘‘ سے شروع ہوتے ہیں اور اسی طرح شیروشکر میں دونوں لفظ ’’ش‘‘ سے شروع ہوتے ہیں ،اس سے مصرعوں میں موسیقیت ابھرتی ہے۔

کایا پلٹنا،مٹی میں مل کر مٹی ہونا،گھر لٹانا، ماجائی جیسے لفظ بھی اپنے وسیع کینوس میں موجود ہیں۔

قدرو قیمت، قضاوقدر، مہرو مہ،مغلوب ومقہور،خرد اور ادراک،گنجِ دولت،حرص ورغبت، مکرو ریا،مال ودولت،صدق وصفا،دوڑ اور بھاگ متوازی الفاظ کی مثالیں ہیں جن میں لفظی انطباق پایا جاتا ہے۔ان مترادفات کی مدد سے مسدس میں لسانی زور پیدا کیا گیا ہے۔

صادق اور کاذب ، سوتے ہوؤں کو جگانا،مبدا ومنتہا،ِقضاوجزا،بڑھانا گھٹانا،کھرا اور کھوٹابھی مصرعوں کوترتیب الفاظ ، روح اور قالب جیسے متضاد یا الگ الگ معنی رکھنے والے الفاظ سے مصرعوں کو تشکیل دیا گیا ہے۔

ایک ہی حرف سے شروع ہونے والے الفاظ کا صوتی تاثرجیسے سینہ سپر،قبول حق وغیرہ بھی اسلوبیاتی حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔

جہاں کردیا نرم، نرما گئے وہ

جہاں کردیا گرم گرما گئے وہ

اس میں نر اور نرم سے نرما گئے، اسی طرح گرم اور گرم سے گرما گئے کا ایک دوسرے سے لفظی اور معنوی انسلاک اسلوب میں انفرادیت پیدا کرتا ہے۔

جھکا حق سے جو جھک گئے اس سے وہ بھی

رکا حق سے جو رک گئے وہ بھی

اس میں جھکا سے جھک گئے اور رُکا سے رُک گئے

جھگڑتے تھے لیکن نہ جھگڑوں میں شر تھا

خلاف آشتی سے خوش آئندہ تر تھا

اس میں جھگڑتے اور گھڑوں کی تکرار اور خلاف، خوش ایک ہی حرف سے شروع ہونے والے لفظ مصرعے کی ترتیب میں حسن کا موجب ہیں۔

لگاؤ تو لواس سے اپنی لگاؤ

جھکاؤ تو سر اس کے آگے جھکاؤ

وہ نیشن جو ہیں آج گردوں کے تارے

دھندلکے میں پستی کے پنہاں تھے سارے(مسدس حالی،ص۷۱)

نیشن انگریزی کا لفظ ہے جس سے مراد قوم کے ہیں مگر امریکہ میں اس سے مراد ترقی یافتہ قوم کے ہیں۔

عبرانی، نصرانی، یونانی، رومی، ایرانی، عجم(عرب کے علاوہ)،یزدانی(پارسی)ایک وسیع لفظی ومعنی اورجغرافیائی تناظر لیے ہوئے ہیں۔

’’حالی نے نعت سے اخلاقی تلقین اور سماجی اصلاح کا کام لیااور نعت کو لفظی صناعی سے نکال کر خیال وجذبہ کی شاعری میں داخل کیا۔‘‘(۲۸)

حالی نے مسدس میں زبان کو جس طرح برتا ہے اور اسے بیان واظہار کے سانچے میں جس انداز میں ڈھالا ہے وہ تفہیمی اور متنی حوالے سے اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔

’’مسدس ایسی صنف سخن کے طور بھی سامنے آئی ہے جس میں زبان وبیان کے عمدہ جوہر دکھائے جاسکتے ہیں ۔مولانا حالی کی مشہور مسدس مدوجزر اسلام کی شہرت کی بڑی وجہ روانی اور زبان دانی ہے۔‘‘(۲۹)

نعت میں وہ آہنگ اور لہجہ ضروری ہے جو کہ ایک مقدس گیت کی صورت میں سماعتوں سے ٹکراتا ہے اور غنایت وشعریت کے نئے جہانوں کی سیر کراتا ہے۔

دوسری اصناف کی طرح نعت دراصل صرف لفظیات اور معنیات کے لسانی کھیل کا نام نہیں ہے۔بلکہ اس میں عشقِ مصطفےٰ کی اس لے کا ہونا ضروری ہے جو کہ دلوں کے تاروں میں وہ سوزوگداز پیدا کرتی ہے جس سے وجدا نی اور روحانی کیفیات طاری ہوتی ہیں۔بقول عزیز احسن:

’’اردو میں نعت گوئی حالی سے پہلے بنیادی طور پر اپنے ذاتی جذبۂ محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور جذب وسرور کی ایک دستاویز تھی حالی نے اجتماعی زندگی سے اس کا پیوند لگایا۔۔۔اس دور میں یہ حقیقت واضح ہوئی کہ ہر نظام کے لئے مشہور اور محسوس علامتوں اور مرکزوں کی کسی حد تک ضرورت ہوتی ہے خانہ کعبہ اور گنبد خضریٰ ایسی ہی علامتیں بن گئیں۔‘‘(۳۰)

تحریر قلم کار کی عکاس ہوتی ہے یا قلم کار کی تصویر اس کی تحریر میں دیکھی جاسکتی ہے۔لکھت کے پیچھے ایک پورا نظام موجود ہوتا ہے اور اس نظام میں جہاںLangue کا بنیادی اور فعال کردار ہوتا ہے وہاں قلم کار کی شخصیت ، اس کا مزاج ، اس کا رویہ ، اس کی فکری وفنی مہارت بھی لفظیات کی تشکیل وتعمیر میں اہم کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔

جہاں متن کی تفہیم میں ثقافت اور دوسرے متون کو اہمیت دی جاتی ہے وہاں قاری کا کردار بھی غیر اہم نہیں ہے، کیوں کہ یہ قاری ہی ہے جو کہ متن کو من چاہے معنی دیتا ہے یہ معنی اس کے مطالعہ، علم ، قابلیت اورلفظ شناسی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں رولاں بارتھ کا متن کے حوالے سے کثیر المعنویت کا پس ساختیاتی نظریہ بھی قاری کی اسی استعداد اور قابلیت سے تعلق رکھتا ہے۔ اسلوبیاتی تنقید فن پارے کے ان امتیازات کے نشان زد کرتی ہے جو کہ صوتیاتی، لفظیاتی، نحویاتی، بدیعی،اور اس کے ساتھ ساتھ عروضی شکلوں میں سامنے آتے ہیں۔ (۳۱)

ملے کوئی ٹیلا اگر ایسا اونچا

کہ آتی ہو واں سے نظر ساری دنیا

چڑھے اس پہ پھر اک خرد مند دانا

کہ قدرت کے دنگل کا دیکھے تماشا(ص۸۷)

حالی نے درج بالا بند میں الفاظ کے ساتھ ساتھ متوازی الفاظ کا ایسا پشتہ باندھا ہے جس نے عروضی اور فنی حوالے سے اس بند کی بُنت کو تھاما ہوا ہے۔اس میں ٹیلا، اونچا۔۔ خرد مند ،دانا۔۔دنگل، تماشا۔۔جیسے مترادف اور قریب ترین معنوی انسلاک کے حامل الفاظ استعما ل کیے گئے ہیں۔

مسدس مدوجزر اسلام کے بعد ضمیمہ اور ضمیمہ کے بعد عرضِ حال کے عنوان سے دعائیہ لکھا ہے جس میں اپنی قوم کی مذکورہ حالت کو پر تاثیر انداز میں بیان ہے۔

اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے

امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

جودین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے

پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے

درج بالا اشعار میں واحد کے بعد اس کے جمع کا صیغہ ساتھ لگا کر جہاں صوتی خوبصورتی پیدا کی گئی ہے وہاں بات میں زور بھی پیدا ہوا ہے۔جیسا کہ خاصۂ خاصان، غریب الغرباء وغیرہ۔پہلے مصرعے میں رسول کی جمع رُسل اور دوسرے مصرعے میں اسم جمع امت، یعنی جیسے لفظ باہم جڑے ہوئے ہیں ۔یعنی رسول اور امت۔اسی طرح تیسرے چوتھے مصرعے میں وطن اور پردیس، شان اور غریب الغرباء میں صنعت تضاد کا حسن بڑی خوبی کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔

وہ دین ،ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں

اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے (مسدس حالی،ص۲۰۵)

بزم جہاں، مجالس۔۔بتی، دیاجیسے لفظ بھی تکرار معنی اور صوتی تاکید کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔اس میں منظر نگاری کے حوالے سے ماضی میں ایسی محفل کا تصور جس میں چراغاں اور روشنی ہے اور پھر اس کے متوازی ایک ایسی محفل کا تصور جو کہ دور حاضر سے متعلق ہے اور جس میں صورت حال پہلی صورت حال سے بالکل متضاد ہے، یعنی نہ بتی ہے نہ دیا ہے نہ روشنی ہے نہ چراغاں ہے۔

کسی پر ہو سختی صعوبت ہے ان پر

کسی کو ہو غم رنج وکلفت ہے اُن پر

کہیں ہو فلاکت مصیبت ہے ان پر

کہیں آئے آفت قیامت ہے ان پر

کہیں پر چلیں تیر آماج یہ ہیں

لُٹے کوئی رہگیر تاراج یہ ہیں

(مسدس حالی،ص۱۷۸)

اس میں لفظوں کے جوڑے ہم معنی اور ہم وزن بنائے گئے ہیں جیسے فلاکت مصیبت،آفت قیامت، سختی صعوبت، غم ،رنج وکلفت جیسے جوڑے بنائے گئے ہیں۔

اسی طرح تیر آماج اور رہ گیر تاراج جیسے لفظوں کے جوڑے بھی ہم قافیہ الفاظ اور صوتی تاثر یت میں اہمیت کے حامل ہیں۔

کوئی ان میں حق کی ا طاعت پہ مفتوں

کوئی نامِ حق کی اشاعت پہ مفتوں

کوئی زہدو صبروقناعت پہ مفتوں

کوئی پندو وعظ وجماعت پہ مفتوں

یہاں تین لفظوں کے جوڑے بنائے گئے ہیں۔معانی ایک دوسرے کے اثبات میں بات کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ہم وزن ہم قافیہ ہیں۔ صوتی حوالے سے آہنگ ذرا سا بلند ہوتا ہے۔

نعت کا تعلق رسول کریم V کی محبت وعقیدت سے جڑا ہے، نعت کا ایک ایک لفظ احترامِ نبی ؐ اور آداب رسالت سے ہوکر اپنے معنی کی منزل کو پہنچتا ہے۔ بقول عزیز احسن:

’’خیال کے تمام دھارے، لفظوں کے تمام عکس اور معانی کی تمام لمعات کا رخ سوئے حجاز ہوتا ہے اور نعت کے متن کی نسبت حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوجاتی ہے۔‘‘(۳۲)

نعت خیر ہے، صداقت ہے، محبت ہے، عقیدت ہے، اور عشق کی انتہا ہے۔ نعت میں لفظوں کی موزونیت، استعارات وتشبیہات، واقعاتی صداقت، جذبۂ ایمانی ایک ایسی لسانی وبیانی قوت کو تشکیل دیتے ہیں جو کہ دلوں میں اتر جاتی ہے۔ سماعتوں میں سما جاتی ہے۔

نعت کے لیے جہاں لفظیات ، معنوی صداقت،سلا ست وروانی، فکرو خیال کی بلندی بنیادی اہمیت کی حامل ہے وہاں جذبہ،خلوص، عقیدت اور وارفتگی کا ہونابھی نہایت ضروری ہے۔

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔ ریحانہ کوثر ‘ڈاکٹر، کلیاتِ نظم، حالی کی تدوین اور ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ، مشمولہ معیار شمارہ ۱۳، جنوری تا جون ۲۰۱۵ء،شعبہ اردو، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد،ص۱۶۸

۲۔ جمال پانی پتی، نعت گوئی کا تصورِ انسان، مشمولہ اردو نعت کی شعری روایت،ص۳۴۸

۳۔ ایضاً،ص۳۴۵

۴۔ یحییٰ نشیط‘ڈاکٹر ، سید، اردو نعت گوئی کے موضوعات، مشمولہ، اردو نعت کی شعری روایت،ص۸۳

۵۔ انورسدید، اردو میں نعت نگاری۔ ایک جائزہ ۱۹۷۵ء تک، مشمولہ اردو نعت کی شعری روایت،ص۲۳۳

۶۔ ایضاً،ص۲۳۴

۷۔Literary Terms and Literary theory by J. A. Cuddon, Penguin Books, England, 1992, p:680

۸۔ طارق سعید، اسلوب اور اسلوبیات،لاہور، نگارشات، ۱۹۹۸ء،ص۲۶۳

۹۔ کاشف عرفان، نعت اور جدید تنقیدی رجحانات،کراچی، نعت ریسرچ سنٹر، ۲۰۱۶ء،ص۶۳

۱۰۔ خطبات سرسید جلد دوم، مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی، لاہور، مجلس ترقی ادب، ۱۹۶۲ء،ص۲۷۶

۱۱۔ سلمان ندوی،مولانا سید، مسدس حالی مشمولہ مسدس مدوجزر اسلام،کراچی، فضلی سنز، ۲۰۰۶ء،ص۱۵، ۱۶

۱۲۔ سلمان ندوی،مشمولہ مسدس حالی ص۱۷

۱۳۔ ایضاً،ص۱۹

۱۴۔ ابوالخیر کشفی،نعت اور تنقید نعت، کراچی، نعت ریسرچ سنٹر، بار دوم ۲۰۰۹ء،ص۷

۱۵۔ گوہر ملسیانی،اخلاق محسن انسانیت نعت کے آئینے میں،اردو نعت میں تجلیات سیرت،مرتبہ سید صبیح الدین رحمانی،ص۲۶۲

۱۶۔ جمیل جالبی، ‘ڈاکٹر، تاریخ ادب جلد چہارم،لاہور، مجلس ترقی ادب، ۲۰۱۲ء،ص۹۷۲

۱۷۔ شاہ رشاد عثمانی‘ڈاکٹر، اردو میں نعت گوئی کا ارتقا،مشمولہ اردو نعت کی شعری روایت، مرتبہ صبیح رحمانی، کراچی، اکادمی بازیافت، ۲۰۱۶ء،ص۱۵۴

۱۸۔ عبدالحق‘مولوی، تقریب مشمولہ مسدس حالی،ص۲۶

۱۹۔ محمد جنید خان، نعت اور تنقیدی شعور(مذاکرہ)، مشمولہ نعت رنگ، کراچی، شمارہ ۲۶،دسمبر ۲۰۱۶ء ،ص۳۲۲

۲۰۔ تقریب از مولوی عبدالحق، مشمولہ، مسدس حالی،ص۲۵

۲۱۔ اردو کی نعتیہ شاعری کا تاریخی وتہذیبی مطالعہ،مشمولہ اردو میں نعت گوئی کا ارتقا،مشمولہ اردو نعت کی شعری روایت، مرتبہ صبیح رحمانی،ص۲۰۶

۲۲۔ سلمان ندوی‘سید،مشمولہ مسدس حالی،ص۱۴

۲۳۔ ممتاز حسن،نعت کے فکری زاویے،مشمولہ اردو نعت کی شعری روایت، مرتبہ صبیح رحمانی،ص۳۲۱

۲۴۔ ایضاً،ص۳۲۱

۲۵۔ حالی‘مولانا الطاف حسین،دیباچہ مشمولہ مسدس حالی،ص۴۵

۲۶۔ ممتاز حسن،نعت کے فکری زاویے،مشمولہ اردو نعت کی شعری روایت، مرتبہ صبیح رحمانی،ص۳۲۱

۲۷۔ محمد طاہر فاروقی‘ڈاکٹر، اقبال اور محبت رسول،لاہور، اقبال اکادمی پاکستان،طبع دہم ۲۰۱۵ء، ص۱۳۷

۲۸۔ محمد اسماعیل آزادفتح پوری ‘ڈاکٹر، اردو شاعری میں نعت(ابتدا سے عہد محسن تک)،جلد دوم، لکھنؤ،نسیم بک ڈپو،۱۹۹۲ء،ص۱۴

۲۹۔ بشریٰ قریشی:مسدس:بنیادی مباحث، مشمولہ تخلیقی ادب، نمل یونیورسٹی اسلام آباد،شمارہ ۱۰، ۲۰۱۳ء،ص۹۱

۳۰۔ ابوالخیر کشفی‘سید ڈاکٹر، نعت شناسی مرتبہ ڈاکٹر داؤد عثمانی،کراچی، نعت ریسرچ سنٹر،۲۰۱۱،ص۳۴

۳۱۔ گوپی چند نارنگ، ادبی تنقید اور اسلوبیات،لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز،ص۱۷

۳۲۔ عزیز احسن،اردو نعت اور جدید اسالیب،کراچی، فضلی سنز، ۱۹۹۸ء، ص۵۱