مذاکرہ ۔ محمد جنید عزیز خان

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

22552547 1414849971926102 6847160094441319601 n.jpg

مضمون نگار: جنید عزیز خان

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27


ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

A symposium was held at the residence of Dr. Aziz Ahsan, Director, Naat Research Centre, Karachi, on 26th February 2017 on the occasion of arrival of Dr. Taqee Aabdi from Canada. Question raised by Dr. Aziz Ahsan, to ponder, what barriers blocked recognition of devotional poetry of genre of NAAT,as literary form of expression, in the past history of Urdu literature? The aspects of literary recognitions in the light of importance of sacred theme of Naat, came into discussion, are reflected hereunder.

۲۶؍فروری ۲۰۱۷ء کو ڈاکٹر تقی عابدی کی، کینیڈا سے، کراچی آمد پر ، پروفیسرانوار احمد زئی ،اطہر حسنین ،آغا طالب ، پروفیسر ڈاکر تنظم الفردوس صاحبہ اور سیّد صبیح الدین صبیح رحمانی وغیرہم کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر عزیز احسن، ڈائریکٹر ،نعت ریسرچ سینٹر، کراچی، نے اپنی قیام گاہ پر،ایک مذاکرہ ریکارڈ کیا تھا۔اس مذاکرے میں ہونے والی گفتگو کا متن یہاں پیش کیا جارہا ہے۔


ڈاکٹر عزیز احسن :میری خوش قسمتی کہ آج میرے غریب خانے پر ڈاکٹر تقی عابدی صاحب کینیڈا سے تشریف لائے ہیں۔ پروفیسر انوار احمد زئی صاحب ،اطہر حسنین صاحب ،آغا طالب صاحب اور صدر شعبہء اردو جامعہ کراچی محترمہ تنظم الفردوس صاحبہ بھی تشریف رکھتی ہیں۔ساتھ ہی ہر دلعزیز شاعر، نعت خواں اور نعت رنگ کے مرتب ،سید صبیح الدین صبیح رحمانی یہاں موجود ہیں۔ان تمام اہلِ علم کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں [ڈاکٹر عزیز احسن]چاہتا ہوں کہ ان کے سامنے ایک سوال رکھا جائے۔۔۔ کہ نعتیہ ادب کو ادب عالیہ بنانے میں کونسی چیزیں رکاوٹ رہی ہیں ان کی نشاندہی فرمائیں ۔

ڈاکٹر تقی عابدی:گفتگو یہ ہورہی تھی کہ اردو کی اصنافِ شاعری میں جو موضوعاتی مسئلہ نعت ہے اور اصنافی مسئلہ مرثیہ ہے ۔مرثیہ، اس میں کوئی دو رائے نہیں، کہ ادبِ عالیہ کا اس وقت جزو ہے۔ادبِ عالیہ کے معنی یہ نہیں کہ اس کا مقام اوپر ہے ۔ادبِ عالیہ کے معنی یہ ہیں کہ اس شعری صنف میں اتنا کام کیا گیا ہے ،اس کی اتنی تنقید اور تراش خراش کی گئی ہے کہ ہم ایک صنف کی طرح سے اپنے مدارس اوراپنے کالجز اورہر لیول آف ایجوکیشن پر اس کو ڈسکس کرسکیں۔۔۔ایک چیز۔ دوسری چیز ، ٹی ایس ایلیٹ یہ کہتا ہے کہ جو صنف ادبِ عالیہ میں داخل ہوتی ہے اس کا سینہ اتنا کشادہ ہونا چاہیے کہ وہ تنقید کے تیر برداشت کرسکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ شعری صنف جو مرثیہ ہے نعت سے بہت جوان ہے۔ نعت سب سے پہلے ہمارے پاس پوری حضورV کی زندگی سے آرہی ہے وہ عربی میں ہویا فارسی میں ہو یا دکنی میں ہویا اردو میں ۔میں عرض یہ کررہا تھا کہ مرثیہ ایک قسم کی مذہبی شاعری ہے لیکن نعت ایک قسم کی مذہبی ۔۔۔با خدا دیوانہ باش و با محمدؐ ہوشیار۔۔۔۔۔۔ کی مقتضی ہے۔

ڈاکٹر عزیز احسن: یہ ایک اہم نکتہ ہے !

ڈاکٹر تقی عابدی: اب آپ دیکھیے گرمی کا ذکر کردیا میر انیس نے مبالغے میں کہ ۔۔۔

ع بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر

ڈاکٹر عزیز احسن: یہ مبالغہ ہی ہے ناں؟

ڈاکٹر تقی عابدی: جی ، لیکن مرثیہ کے لیے ضروری نہیں ،میر انیس کوضروری نہیں کہ قرآنِ مجید کی آیات کے تحت یا احادیثِ پیغمبر کے تحت یا اسلامی تواریخ کے تحت بات کرے۔

ڈاکٹر عزیز احسن: سبحان اللہ !۔۔۔یہی میں کہنا چاہ رہا تھا۔

ڈاکٹر تقی عابدی: تو بہت سی چیزیں مرثیے میں جو ہیں ۔۔۔خودمقاتل میں جو چیز لکھی گئی ہے وہ فارسی میں یا عربی میں ہیں اس سے بالکل جداگانہ ہے۔ حضرت قاسم کی شادی کا ذکر کسی فارسی محاکم میں نہیں ملے گا، یہ ہمارا اپنا مسئلہ ہے۔ اس پر بہت بحث ہوئی ہے۔ ہمارے بڑے بڑے علما نے اس پر بحث کی ہے۔ ایک چیز یہ بھی بتادوں کہ مرثیے کو ادبِ عالیہ میں لے جانے کی جو تنقیدی کاوش ہوئی ہے وہ مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔

ڈاکٹر عزیز احسن : جی۔۔۔علامہ شبلی نعمانی !

ڈاکٹر تقی عابدی: علامہ شبلی نعمانی سے لے کر ، فاطمی سے لے کروہ پوری لسٹ ہے۔ شعرا تو دو بڑے تھے اور اس سے پہلے چار بڑے تھے۔ اگر وہ یہ کام نہ کرتے تو مرثیہ معرضِ تخلیق نہ ہوتا۔ فرمان فتحپوری نے ایک بہت غضب کی بات کہہ دی کہ میر انیس نے، مرزا دبیر نے میر جعفر فصیح نے، خلیق نے یہ جو اکابرین ہیں ہمارے مرثیے کے ان لوگوں نے تہذیبِ ہندوستان سے جوڑا مرثیے کو۔ لیکن آپ نعت کو تہذیبِ ہندوستان سے جوڑ ہی نہیں سکتے۔ یہاں تک کہ ایک چھوٹا سا مسئلہ جب قصیدہ بردہ شریف کے حضرت کعب بن زُہیر نے پڑھا تو حضور V نے ٹوک دیا سیفِ ہند اس زمانے میں ایک استعارہ تھا۔۔۔کہا مجھے سیفِ ہند مت کہو،آپ دیکھ رہے ہیں نزاکت؟۔۔۔کیوں کہ قرآنِ مجید کی روشنی میں با خدا دیوانہ باش و بامحمد V ہوشیارکے معنی یہ ہیں کیوں کہ تصوف کا ابنِ عربی کا خیال ہے اس کے بعد سے یہ احد اور احمد اور میم ۔۔۔یہ جو گتھیاں تھیں انھوں نے دماغوں کو پریشان کردیا۔ اسی وجہ سے عرفی نے جو کہا ناں کہ ’’ہشیار کہ رہ بردمِ تیغ است قلم را‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرثیے کے لیے کوئی نہیں کہا۔ مرثیے کے لیے میر انیس پر کوئی الزامات لگا نہیں سکتے کہ اگر وہ کہیں کہ کربلا میں پھول کھلتے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ یہ فرماتے ہیں یہاں پہ طاؤس یہ کررہا تھا، فلاں یہ کررہا تھا ۔۔۔ یہ چیزیں تو وہاں پر نہیں ہیں۔تو وہ کہتے ہیں کہ نواسہء رسول V کے نقشِ قدم کی برکت سے ماحول ایک خیالی جنت کا ہوگیااورشاعرنے یہ تخیلات کی دنیا میں بات کی۔ ڈاکٹر عزیز احسن: آپ کی گفتگو سے ایک بات واضح ہوگئی ۔۔۔ جیسا کہ ارسطو نے کہا تھا کہ Poetic reality اور ہوتی ہے اور Facts علاحدہ ہوتے ہیں۔ تو انیس کے ہاں یہ ثابت ہوگیا کہ Poetic reality تو ہے لیکن Facts نہیں ہیں۔ نعت میں Facts کی ضرورت ہوتی ہے ۔یہ بہت ضروری ہے۔ اسی لیے اس کی تخلیق میں احتیاط کے تقاضے پورے کرنے کی وجہ سے Poetic Beauty اور تخلیقی مقدار (Quantity) میں بھی کچھ کمی رہی ہے اورمذہبی تقدس کے باعث اس کی تنقید پر بھی توجہ نہ دی جاسکی ۔

ڈاکٹر تقی عابدی: دیکھیے ہمارے پاس صنعتِ غلو، صنعتِ مبالغہ جو ہے، نعت میں بھی ہے، ایسا نہیں ہے۔

ڈاکٹر عزیز احسن: لیکن جہاں ہوا ہے وہاں بہت سخت تنقید ہوئی ہے۔ جیسے حضورV نے تنقید فرمائی ہے اسی طریقے سے جن لوگوں نے نعت میں مبالغے سے کام لیا ہے ان پر شدید تنقید ہوئی ہے اور نعت میں اس کو قبول نہیں کیا گیا۔ مرثیے پر اس قسم کی کوئی پابندی نہیں لگی۔

ڈاکٹر تقی عابدی: آپ کیا کہیں گے کہ اگر ایک شاعر کہے کہ ۔۔۔

ع مدینے کا جو پتھر ہے مجھے پھول لگتا ہے

ڈاکٹر عزیز احسن: وہ تو مبالغہ ہے لیکن حسیاتی ہے۔

ڈاکٹر تقی عابدی: نعت کے دو موضوعات ہیں ایک دیارِ مدینہ ۔اب شاعر جو بھی کہے ۔وہ مسائل جن سے نعت کے اپنے مضامین ،نعت نگاری،مولود نگاری، نور نگاری تواریخ نگاری اور اسلامی عقائد میں اس میں اگر کوئی فرق نہیں آرہا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔اس میں اگر کوئی غلو نہیں آرہا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ کیا نعت میں صنعتِ مبالغہ ، صنعتِ اغراق، صنعتِ غلو ہے ،سب ہے۔ کتنی ہے؟ بہت زیادہ ہے۔ لوگوں نے تنقید کی ہے۔

ڈاکٹر عزیز احسن: نعت میں جہاں واقعاتی حوالے سے مبالغہ آیا ہے اس کی تو انتہائی درجہ تنقید نہیں بلکہ استرداد ہوا ہے۔ اور جہاں انسانی احساسات کی بات آئی ہے وہاں مبالغہ جائز رکھا گیا ہے۔لیکن اس میں بھی ایک حد رکھی گئی ہے، نعت میں۔ مرثیہ اس سے مبرا ہے۔ ڈاکٹر تقی عابدی: دیکھیے مرثیہ جو ہے۔ مرثیے کو اور نعت کو ہم کو ملانا اس وجہ سے نہیں ہے کہ مرثیہ ایک شعری صنف ہے۔نعت ایک عبادتی۔۔۔مرثیہ بھی عبادتی جزو رکھتا ہے ۔۔۔لیکن نعت صرف ایک ہی چیز پر مرکوز ہے اس کا نام ہے ثنائے حضورِ اکرم V۔جیسے حمد مخصوص ہے اللہ کے لیے ۔ نعت مخصوص ہے حضورِ اکرم V کے لیے۔ مرثیے کا میدان پورا الگ ہے۔ مرثیے تو ہمارے پاس شخصی بھی ہوں گے۔ لیکن اصطلاحی طور پہ جب میں فارسی میں کہتا ہوں میں مرثیہ پڑھنا چاہتا ہوں تو فارسی والا مجھ سے کہے کا میں کس کا مرثیہ پڑھنا چاہتا ہوں۔تو مجھے کہنا پڑے گا میں حضرتِ علی اکبر کا مرثیہ پڑھنا چاہتا ہوں۔ لیکن جب میں اردو میں کہوں گا کہ صبیح صاحب میں مرثیہ پڑھنا چاہتا ہوں تو یہ مجھ سے نہیں پوچھیں گے کہ کیا؟ کیوں کہ ہمارے پاس اصطلاحی طور پر مرثیہ ہم شہدائے کربلا کے مرثیوں کو کہتے ہیں۔ رِثا سے تعلق کی بنا پر۔ تو عرض یہ ہے کہ یہ دو چیزیں [نعت اورمرثیہ] ایسی نہیں ہیں جنھیں تقابل کے لیے پیش کیا جائے۔ میرا موضوع یہی ہے کہ میں مرثیے میں نعت تلاش کررہا ہوں۔ تو ٹیپ کا جو شعر ہوتا ہے ٹیپ کا جو مصرع ہوتا ہے وہ ذاتِ ختمی مرتبت پہ ختم ہوتا ہے۔ جیسا کہ صحرا کی گرمی بتا کر انیس کہتے ہیں:

ع اس دھوپ میں اکیلے کھڑے تھے شہِ امم

مرزا دبیر کہتے ہیں: کیوں نہ ہو میرے محمد کا نواسہ ہے یہ ۔۔۔میرے محمد جب خدا کہہ رہا ہے یعنی عبدہٗ کہہ رہا ہے ۔ میرے محمد ہم اردو میں کہہ رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا ہے فرق ہے عبد اور عبدہٗ میں۔

ڈاکٹر عزیز احسن: ع عبد دیگر عبدہٗ چیزے دگر

ڈاکٹر تقی عابدی : یعنی میں جب کہتا ہوں یہ میرا بیٹا تو وہ معنی اور ہوجاتے ہیں۔آشنا اس کا میں ہوں، میرا شناسا ہے یہ۔۔۔کیوں نہ ہو میرے محمد کا نواسہ ہے یہ ۔۔۔۔۔۔آپ دیکھ رہے ہیں اس پورے شعر کی جان ’’میرے محمد‘‘ ہے۔

ڈاکٹر عزیز احسن: جی ہاں شاعر نے پورا شعری متن باری تعالیٰ سے منسوب کردیا ہے۔

پروفیسر انوار احمد زئی: پہلی بات تو آپ نے ارسطو کا حوالہ دیااس کا تعلق خالصۃً مجرداً Poetic چیز سے ہے۔ پھر یہ کہ اب تک کی ڈاکٹر صاحب(تقی عابدی) کی گفتگو اور اس کے درمیان میں آپ (ڈاکٹر عزیز احسن) کا تبصرہ ، وہ ہمیں دو طرف لے جاتا ہے۔ ہم نعت اور مرثیے کا تقابل نہیں کررہے اور نہ ہی کرنا ہے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ یہ دیکھنا ہے کہ اگر مرثیہ ادبِ عالیہ میں شمار ہوگیاتو اس کے اسباب کیا تھے، محرکات کیا تھے ۔وہ اپنی جگہ لیکن کیا اسی انداز میں نعت ادبِ عالیہ میں شمار نہیں ہورہی؟نہیں ہورہی تو کیوں نہیں ہورہی اور ہو تو کیسے ہو؟بنیادی بات یہ ہے۔ یہاں بنیادی چند سوالات ہیں۔[۱]ادبِ عالیہ سے مراد ہماری کیا ہے؟[۲]دوسری بات، ادبِ عالیہ کیا عصری حوالے سے شمار ہوں گی یعنی چوسر سے ادبِ عالیہ میں ہوں گی چوں کہ وہ اوریجن ہے یا کیا ڈیوائن کومیڈی کو یا فتوحاتِ مکیہ کو۔ قوت القلوب کو یہ سب چیزیں چوں کہ اول ہیں اور کیا پیراڈائز لاسٹ اور ریگین کو ۔اقبال نے اگر شکوہ اور جوابِ شکوہ کہا تو میرا ’[ڈاکٹر صاحب]عاجزانہ تفہیم کا انداز یہ ہے کہ اقبال نے پہلے جوابِ شکوہ سوچا تھاجس کے لیے فضا نہیں تھی اس لیے انھوں شکوہ پیش کیا پھرجواب آیا۔ یہ جو ایک جہت ہے یہ اپنی جگہ ہے اس کو کہتے ہیں جہت۔ اب اگر عصری اعتبار سے تعین کررہے ہیں کہ یہ قدیم ہے اور اس کو ادبِ عالیہ میں ہونا چاہیے ، ایسا نہیں ہے۔ اسلوب کے اعتبار سے ادبِ عالیہ میں شمار ہوتا ہے ہر فن پارہ یا نگارش۔اب نعت کی طرف آیئے۔ دیکھیے مبالغہ سبب نہیں ہے کسی چیز کے ادبِ عالیہ میں شمار ہونے کا ۔ مبالغہ بجائے خود ایک خلاقی کی تمثیل ہے۔یہ بڑی عجیب بات ہے یعنی اگر مبالغہ نہیں ہے، حقیقت کا اظہار ہے ، جو خبر بھی ہوسکتی ہے اور تاریخ کا شذرہ بھی ہوسکتا ہے۔ تو اس میں خلاقی کم ہے۔ مبالغے میں خلاقی زیادہ ہوتی ہے۔ مبالغہ یا تو تسلیم کی منزل تک آئے یا استرداد کی منزل پر روک دیا جائے۔

ڈاکٹر عزیز احسن: کلام میں مبالغہ کرنے والے ہلاک ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ حدیث شریف کے الفاظ ہیں۔ چوں کہ نعت کا شاعر نبی علیہ السلام کے حوالے سے بات کررہا ہے اس لیے اس کو تو اس چیز کا خیال رکھنا ہی پڑے گا۔

پروفیسر انوار احمد زئی: یہ تو غیر متنازعہ بات ہے۔ اس منزل تک تو ہم آ نہیں رہے ہیں۔ اگر آپ اس موضوع کو چھیڑ ہی رہے ہیں تو احباب کی موجود گی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں پھر سوال کروں گا کہ مبالغے کی اصل تعریف کیا ہے؟کس حد تک کا جھوٹ اور کس مصلحت کا جھوٹ وہ الگ ہے۔

ڈاکٹر عزیز احسن: ہم مبالغے کو ادبِ عالیہ کی بنیاد بنا ہی نہیں رہے ہیں۔

ڈاکٹر تقی عابدی: ایک جملہ میں یہاں کہنا چاہتا ہوں۔میں اعلیٰ حضرت کے شعر پیش کرسکتا ہوں جو صنعتِ مبالغہ میں ہیں۔ سات سو شعر پیش کرسکتا ہوں۔۔۔تو کیا اعلیٰ حضرت معاذ اللہ ہلاک ہوگئے؟

ڈاکٹر عزیز احسن: دیکھیے مبالغہ اگر واقعات کے حوالے سے ہو تو وہ بہت خراب ہے۔ کیوں کہ جو واقعہ نہیں ہوا ہے جیسے ابھی ڈاکٹر تقی عابدی نے بتایا کہ جنابِ قاسم کی شادی کا کوئی واقعہ نہیں ہے۔ لیکن مرثیے میں یہ واقعہ بیان ہوا اسے ہم قبول کرتے ہیں اس لیے کہ وہ مرثیہ ہے۔ نعت میں یہ نہیں ہوسکتا کہ نبیV نے کوئی کام نہیں کیا ہے یا آپV نے کوئی بات نہیں کی ہے وہ بیان میں لائی جائے۔ پروفیسر انوار احمد زئی: دیکھیے ہم یہاں مقابلہ نہیں کرہے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس منزل پر آہی گئے ہیں تو میں ایک جملہ عرض کرتا ہوں کہ مرثیے میں تاریخ بھی ہے اور تخلیق بھی۔ آپ [ڈاکٹر عزیز احسن ] سے زیادہ اس بات کو کون سمجھے کا کہ نعت جو مجرد ہے اس کی کیفیت کچھ ہے۔ نعت میں جب آپV کا قول آپ V کا فعل اور آپ V کی تقریر کا معاملہ جہاں بھی آئے گا اس میں مبالغہ نہیں ہوگا۔ہم نعت کے سرنامے میں تو کیفیات کے اشعار کو بھی تسلیم کرلیتے ہیں۔ عقیدت کے کرلیتے ہیں، مناجات کے کرلیتے ہیں۔ اور پھر سر نامہ نعت کا رکھتے ہیں۔ اس میں مبالغہ ہوتا ہے۔ ابھی ابھی آپ[ڈاکٹر تقی عابدی] نے پتھر اور پھول کا ذکر کیا تھا تو یہ بھی کیوں کہ کیفیت کا شعر ہے اس لیے یہ کیفیت کا ذکر ہے یہ نعت نہیں ہے۔ یہ احساس ہے۔ نعت کی جب ہم بات کررہے ہیں تو ہم ابتداء کی بات کررہے ہیں تو وہاں ہم کعب بن زُہیرؓ کو لیں گے۔ جامیؒ کو لیں گے۔ ابوطالب کی بات تو بعد میں آتی ہے ،اُن سے پہلے حضرتِ بی بی آمنہ ، حضرت عبدالمطلب کے شعر بھی ہیں۔ تو جب آپ وہاں سے آرہے ہیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ جی یہ ہمارا اثاثہ ہے۔ اس وقت تک اسلام نہیں آیا تھا ، یہ کیفیت اور ہے۔ جب اتنی زیادہ اس کی معروضی کیفیت ہے۔ اور اب جس طرح ڈاکٹر صاحب [عزیزاحسن نے غیررسمی گفتگو میں ] کہا تھاکہ جتنا اسلامی ادب اردو میں لکھاگیا ہے اتنا تو عربی اور فارسی میں بھی نہیں لکھا گیا۔ تو جب اس کی وسعت اتنی ہوگئی ہے تو ادبِ عالیہ کی تعریف کیوں نہیں کی گئی ہمیں اس کی طرف توجہ دینی ہے۔ یہ ہمارے ایمان کی بات نہیں ہے بلکہ اظہارِ حقیقت کی بات ہے۔ اور جب اظہارِ حقیقت کی بات ہو تو چاہے وہ ترقی پسند ادب کی بات ہو یا کوئی اور ادب ہو جو کہ ادبِ عالیہ کا تعین نہیں کرتا ہے۔ ہم حضورِ اکرم V کے حوالے سے جو صحیح باتیں سامنے لاتے ہیں ۔یہی اس بات کی متقاضی ہیں کہ ہم اسے ادبِ عالیہ میں شمار کریں۔

ڈاکٹر عزیز احسن: بہت بہت شکریہ جناب پروفیسر انوار احمد زئی صاحب۔ اب میں آغا طالب صاحب کے خیالات جا ننا چاہوں گا۔

آغا طالب: دیکھیے جیسا کہ آپ[عزیز احسن] نے فرمایا کہ poetic realities الگ ہیں اور facts الگ ہیں۔ ارسطو نے جو راہ متعین کی اس سے آگے بہت ساری راہیں نکلیں۔۔۔بات یہ ہے کہ ہم غلو کی پہلے تو اقسام کو جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ غلو کرنے والا زندہ نہیں رہے گا یا مرجائے گا ۔۔۔

عزیز احسن: میں نے حدیث بیان کی تھی۔

آغا طالب:بات یہ ہے کہ معنوی اعتبار سے لغوی اعتبار سے مدارج ہیں۔ غلو ، جھوٹ نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ غلو کو آپ جھوٹ نہ کہیں۔ غلو ، حقیقت سے نزدیک بھی ہے ۔غلو، ایک وہ بھی جو حقیقت سے دور ہے لیکن امکانات میں ہے۔ اس کو بھی ہم غلو میں شامل نہیں کریں گے۔ یعنی کربلائے معلیٰ میں پھول کا کھلنا ۔۔۔امکانات میں تو ہے۔ نہیں کھلا یہ الگ بات ہے لیکن کھلنا امکانات میں ہے۔ اس کو آپ غلو میں لائیں گے۔ جیسا کہ انوار احمد زئی صاحب نے فرمایا:مرثیہ ایک حقیقت بھی ہے اور تاریخ بھی ہے۔ اب مرثیے میں جو غلو ہے اس کے مدارج ہیں۔اب مجھے آپ یہ بتائے کہ شامِ اودھ اور صبح بنارس کو سامنے رکھ کر اگر آپ صبح کا منظر کھینچیں گے تو اس میں آپ غلو میں کہاں تک جائیں گے؟یعنی میں نے بنارس نہیں دیکھا اور شاعر مجھے اس ماحول میں لے جانا چاہتا ہے۔۔۔تو وہاں پہ اگر وہ غلو سے اس حد تک کام لیتا ہے کہ آغا طالب اپنے ذہن کے لحاظ سے اس کو سمجھ لے ، تو غلو جائز ہے لیکن وہ جھوٹ نہیں ہے۔ دیکھیے نعت کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک جو تذکرہ ہے وہ صورۃُ النبیV کا ہے اور ایک سیرۃُالنبیV کا ہے۔ یہ دو مدارج ہیں نعت کے۔ اب اگر کالی کملی میں، میں غلو اختیار کروں، اس کی خوبصورتی میں ۔۔۔یعنی ماہرالقادری کی مثال لیجیے آپ ۔ماہرالقادری کی نعت کو میں جائز نہیں قراردیتا ۔۔۔۔۔۔بھیگی بھیگی نشیلی نشیلی آنکھیں۔ یا اگر وہاں پہ وہ زلفوں کو کاکل سے مثال دیں۔ تو یہ کاکل کیا ہے یہ تو غلو ہے ۔۔۔کاکل تو غلو ہے زلفوں کے لحاظ سے۔ تو وہاں پہ تو ہے غلو۔۔۔لیکن مرثیے کے اندر ایک جو سب سے بڑی Strong چیز ہے جو ادبِ عالیہ میں اس کو لاتی ہے وہ ہے اس کا ممدوح۔اب جنابِ قاسم کا آپ نے (ڈاکٹر تقی عابدی) اشارہ کیا۔ یہ ہے ایک اختلافی بات۔ میرے نزدیک وہ تاریخی اعتبار سے درست ہے کیوں کہ بہت سارے علما نے اسے ثابت بھی کیا اور بہت سارے علما نے اس سے انحراف بھی کیا۔ لہٰذا ہم ایسی چیز کو موضوع نہ بنائیں جو اختلافی ہو۔ ہم کیوں نہ حضرت علی اصغر کو موضوع بنائیں؟اب حضرت کی زبانی میں بے زبانی میں غلو کیا ہے؟ تو یہاں تک تو غلو جائز ہے۔ نعت میں جیسا آپ[عزیز احسن] فرمارہے ہیں۔ میں نعت میں وہاں تک غلو کا قائل ہوں جہاں تک حدِ ادب ملحوظ رہے۔ اس کی حدود پار ہوں ، اس غلو کا تو کوئی بھی قائل نہیں۔

صبیح رحمانی: اصل میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی ابتدائی گفتگو میں جو معنی اور مطالب متعین کیے تھے اگر ہم اس پر رہتے تو ہم زیادہ بہتر انداز سے موضوع کو سمیٹ سکتے تھے۔ غلو اور جھوٹ میں فرق کرنا ضروری ہے۔ جھوٹ کسی بھی صنف میں بولا جائے گا۔ تو ادبِ عالیہ میں اس کا مقام و مرتبہ کچھ بھی ہو وہ قابلِ قبول نہیں ہے۔ کسی بھی سطح پر نہیں ہے۔ پھر ہم نے دیکھا بھی ہے کہ چیزیں ادبِ عالیہ میں آکر بھی دلوں میں گھر نہیں کرسکیں۔ اس کی وجہ۔۔۔جب آپ جھوٹ کو اس بلند سطح پر لے جاتے ہیں کہ انسانی ذہن اس کو قبول کرنے سے قاصر ہوتا ہے ۔تشبیہات ، استعارات سے حیرت انگیز ایک چیز قائم کرنے سے فضا قائم ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب[عزیز احسن]نے بہت اہم بات کہی کے نعت کے لیے واقعاتی صداقت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ لیکن ہم صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم)کی شاعری بھی دیکھیں گے ،کہ ایک صحابی چاند کی طرف دیکھ رہا ہے اور حضورVکے چہرہء انور کی طرف دیکھ رہا ہے اور پھر چاند کی طرف دیکھ رہا ہے اور پھر حضورِ اکرم V کے چہرہء مبارک کی طرف دیکھ رہا ہے ۔۔۔پھر کہتا ہے کہ میرے آقا V کا چہرہ زیادہ منور ہے۔ یہ کیا ہے؟یہ شاعرانہ اپروچ ہے۔ حضرتِ حسان بن ثابت کے اس واقعے کو ہم شاعرانہ اپروچ کے طور پر دیکھیں کہ جب ان کے بچے کو کسی کیڑے نے کاٹا تو بچے سے پوچھا وہ کیسا تھاَ؟اس نے بتایا کہ وہ ایسا تھا جیسے حیرہ کی دو چادروں میں لپٹا ہوا ہو۔ تو آپ نے کہا یہ تو شعر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ شعریت کسی چیز کے خوبصورتی سے اظہار میں آنے کا نام ہے۔ اور کسی بھی غلو کو جب ہم شاعرانہ اپروچ کے ساتھ پیش کرتے ہیں تو وہ غلو اگر کسی واقعاتی صداقت سے متصادم نہیں ہے تو وہ لائق اعتنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرتِ حسان کے شعر پر جو ابتدائی تنقید ہوئی ، یہ اعتراض کیا گیا کہ حضرتِ حسانؓ کی وہ شاعری جو عہدِ جاہلیہ کی تھی وہ زیادہ شعری قوت والی تھی اس لیے کہ اس میں ان کا بیانیہ زیادہ متاثر کن تھا کیوں کہ ان کے ہاں شاعرانہ اپروچ مختلف تھی۔ لیکن اسلام لانے کے بعد جب سچ پر بہت زیادہ انحصار ہونے لگا تو ایسا لگتا ہے کہ چیزیں بہت ساری اپنی سطح سے نیچے آئیں۔ سچ کہنے کے لیے اور سچ کو شاعری بنانا ، ظاہر ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انھوں نے سچ کو شاعری نہیں بنایا ہوگا لیکن بعض نقادوں نے اس پر یہ اعتراض بھی کیا کہ اس شاعری میں وہ پہلے جیسی قوت نہیں رہی جو زمانہء جاہلیت کی شاعری میں تھی۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ وہ سچ کہنا چاہتے تھے اور ان کے سامنے تھا جو بھی منظر تھا۔ آج کی شاعری میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔انوار بھائی نے بہت اچھا نکتہ اٹھایا کہ ادبِ عالیہ کی بھی تعریف کرنی پڑے گی۔ اور غلو مسئلہ نہیں ہے۔ نعت کے ادبِ عالیہ میں لانے کے لیے،غفلت مسئلہ ہے۔ غفلت کیا ہے کہ آپ ایک شاعری کو ۔۔۔جس طرح رشید احمد صدیقی نے اپنی تحریروں میں اکثر اظہار کیا کہ نعت کو قوالوں اور گایکوں کے ہاتھ میں ہم نے دیدیا ہے۔ تو جب ایک پڑھا لکھا طبقہ یہ خیال کرے کہ یا ر یہ گانے بجانے کا ایک چھوٹا سا سلسلہ ہے۔اور یہ قوالوں کے ہاتھ میں لگی ہوئی ہے اور اس میں گا بجا کے کچھ لوگ کچھ کما لیتے ہیں۔ یہ تاثر ہے۔ کیا اس زمانے میں محسن کا قصیدہ نہیں سامنے آیا اور اس پر گفتگو نہیں ہوئی۔ کیا اس کو ادبِ عالیہ نے اپنے دامن میں جگہ نہیں دی؟اور محسن کے بعد سے آج تک جو نعت کہی گئی ہے اور مجھے حیرت ہے کہ ہمارے ترقی پسند شعراء نے جو نعت کہی ہے وہ ہماری شعری روایت اور ہمارے شعری معیارات سے اتنی زیادہ قریب ہے کہ اس کو کوئی بھی ادبِ عالیہ سے باہر رکھنے کا خیال نہیں کرسکتا۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ غلو تھا یا نہیں تھا۔ مسئلہ اس شعور کا تھا کہ ہم نے اچھا مال پیچھے چھپا کے رکھا ہمارے ہاں سامنے وہ چیز آئی جس کی ادبی پرکھ مشکل تھی۔ اب ہم نے چوں کہ تیس پینتیس برس سے جب سے ہم نے چیزوں کو نکالنا شروع کیا تو ساری چیزیں سامنے آئی ہیں۔ پھر ایک بات کہ محسن کے قصیدے میں جہاں کچھ تلازمات ہندوستانی ہیں اور ہندوستانی فضا میں وہ گوکل اور گوپیوں کا ذکر کرتا ہے تو پورا معاشرہ اس پر چڑھ جاتا ہے۔ اور اس سے نالاں ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً وہ خود بھی وضاحتیں کررہے ہیں اور امیر مینائی کو بھی وضاحت کرنی پڑی۔ وہ ایک شاعرانہ اظہار تھا اور انھوں نے اپنے معاشرے سے لیا۔ یہی سب مرثیے میں بڑی قوت کے ساتھ آیا ۔منظر نامہ جنتا بھی تھا یہاں کے لوازمات سب سامنے تھے۔ بنیادی بات یہ کہ ہم اس غفلت کی طرف گفتگو کریں کہ غفلت کی اس فضا کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے ۔آئندہ آنے والے دنوں میں۔ ہمارے ہاں جو نعت بہت خوبصور ت لکھی گئی ہے ہم اس کو اچھے سے اچھے طریقے سے پیش کریں۔ اور اس کے بعد پھر ہم انتظار کریں کہ اعلیٰ معیارات کا سامنا کیسے ہو؟

ڈاکٹر عزیز احسن:ما شاء اللہ ! صبیح رحمانی نے بہت عمدگی سے موضوع کو ارتقائی منازل سے ہم کنار کیا ہے۔

اب اطہر حسنین صاحب کچھ فرمائیں گے۔

اطہر حسنین : میں کیا کہوں گا؟۔۔۔

ڈاکٹر عزیز احسن: نہیں جناب آپ کیوں کچھ نہیں کہیں گے۔ آپ ضرور ہمیں اپنی رائے سے مستفید فرمائیں گے۔

اطہر حسنین: پہلی بات تو یہ کہ مرثیے اور نعت کے تقابل کا جو ذکر یہاں پر چھڑا ہے وہ بالکل مناسب نہیں ہے۔

ڈاکٹر عزیز احسن : جی ہاں بالکل مناسب نہیں ہے، لیکن کیا کیا جائے کہ ڈاکٹر تقی عابدی صاحب نے موضوع کا رخ مرثیے کی طرف موڑ دیا۔بہر حال اس طرح کچھ کام کی باتیں سامنے آگئیں!

اطہر حسنین: نعت کو اور مرثیے کو اپنے الگ الگ پیرائے میں دیکھا جائے۔ مرثیے کے رخ کچھ اور ہیں اور نعت کی کیفیت کچھ اور ہے۔مراثی کا تعلق انسانی جذبات سے بہت قریب ہے۔ مراثی کے اندر تو اتنا قلبی لگاؤ ہوجاتا ہے کیوں کہ ایک مذہبی تقدس بھی اس کے ساتھ وابستہ ہے۔۔۔اور نعت کے ساتھ تو سب سے بڑا مذہبی تقدس وابستہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہاں یہ بحث جو چھڑ گئی ہے کہ ادبِ عالیہ میں کیوں نہیں شمار کیا گیا نعت کو۔یہ بحث اس موقع پہ نہیں ہونی چاہیے ۔میں اس کو اتنا وقیع نہیں سمجھتا ۔ اگر آپ خود عربی شعراء کے قصیدوں کے ترجمے پڑھیں اور فارسی شعراء کے قصیدوں کے ترجمے پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کس مقام پر ہے نعت!نعت صرف اس نعت کا نام نہیں ہے جو آج کل کہی جارہی ہے یا سو سال پہلے کہی جارہی تھی۔ نعت کی شکل ،اب بہت مختلف ہوگئی ہے۔ لیکن انتہائی معیاری قسم کی نعت آپ کو اردو شعراء کے ہاں مل جائے گی۔ آپ مومن کا قصیدہء سینیہ پڑھیے۔

سنے ہے دورِ عدالت میں تیرے شیرِ غریں

شباں کی ضربتِ بیجا سے نالِشِ جاموس

آپ دیکھیے اس میں مبالغہ ہے کہ نہیں ؟

ڈاکٹر عزیز احسن: مبالغہ ہے لیکن وہ احساساتی ہے۔

اطہر حسنین: اپنے بارے میں وہ کہتے ہیں۔ تعلی ہے اس میں :

حکیم وہ ہوں کہ جاتے رہیں حواس اگر

کرے معارضہ سر دفترِ عقول و نفوس

طبیب وہ ہوں کہ ہو سوزِ سینہء بلبل

نظارہء رخِ گل فام سے مجھے محسوس

جو ہوں معالجِ مبطوں تو قابضِ ارواح

کرے دعائے رواجِ طریقِ جالینوس

تو اس پورے قصیدہء سینیہ سے میں نے صرف تین شعر پڑھ دیے ہیں۔۔۔محسن کے قصیدے کی بات ہورہی تھی یہاں پر۔قصیدہء لامیہ اردو ادب میں مشہور ہے اور اپنا بہت بڑا مقام رکھتا ہے۔ اس پر بھی اعتراضات ہوئے۔ لیکن اتنی خوبصورت نعت اس کے اندر ہے ۔اس کو شاعرانہ زاویے سے دیکھیے۔ یہ کہ محسن نے شاعری کیسی کی ہے اس میں۔ نہ یہ کہ اس کا موضوع کیا تھا اس نے ہندوستانی مائتھالوجی کا بیان کیا ہے۔ در اصل ہوتا یہ ہے کہ آپ جس معاشرے میں زندہ رہتے ہیں ، تو بہت اہم بات یہ ہے کہ اگر آپ شاعری بھی کررہے ہیں تو وہ بھی اس معاشرے سے نکلنی چاہیے۔ معاشرے سے جڑی ہوئی ہونی چاہیے۔

ڈاکٹر عزیز احسن: جزا ک اللہ !۔۔۔اب ڈاکٹر پروفیسر محترمہ تنظیم الفردوس صاحبہ سے گزارش ہے کہ اپنی بصیرت افروز رائے سے ہمیں نوازیں۔

ڈاکٹرتنظیم الفردوس: بہت شکریہ عزیز بھائی۔ بات یہ ہے کہ اتنی عالمانہ اور قابلِ قدر گفتگو جناب تقی عابدی صاحب نے فرمائی۔انوار احمد زئی صاحب نے۔ آغا طالب صاحب نے اطہر حسنین صاحب اور صبیح بھائی نے۔ میں اس میں کوئی بڑا اضافہ تو نہیں کرسکتی لیکن جزوی طور پر جو باتیں ہوئیں ۔ بات یہ ہے کہ ادبِ عالیہ کی حیثیت متعین کرتے ہوئے کیوں کہ ایک تو موضوع کی اہمیت ہوگی اور اس کی پیش کش اور اسالیب۔ تو اسالیب میں مبالغے کا تو ذکر ہوا اور گفتگو کافی دیر تک اسی حوالے سے گھومتی رہی۔ نعت کا ممدوح اور موضوع ایک ایسی ذاتِ والا قدر ہے جس کے معاملے میں عقیدت اور محبت کے جذبات ابھرتے ہیں تو ان کی حدود و قیود قائم رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اس ذاتِ والا قدر کی حد خالقِ کائنات تک نہ پہچائی جائے۔ وہاں رک جانا چاہیے۔ اب یہاں سے وہ سارے مباحث شروع ہوتے ہیں جو پھر غلو اور مبالغے اور اغراق کے حوالے سے نعت کی تنقید کے زاویے متعین کرتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ بہت زیادہ گفتگو یہاں ہوئی ہے اور بہت سخت رائیں بھی آئی ہیں۔ استرداد کا لفظ بھی آپ[عزیزاحسن]نے استعمال کیا۔ لیکن ادب کہتے کسے ہیں پہلے یہ تعین ہوجائے اور ادبِ عالیہ کی تعریف کیا ہے۔ سب سے پہلے یہ بات بھی یہاں اٹھی۔ یہ ہے کہ پہلے طے کیا جائے کہ جو اصناف بھی ادبِ عالیہ میں ہیں وہ کن وجوہات کی بنا پر ادبِ عالیہ میں شمار کی جاتی ہیں۔ اور اگر ان پر غور کرتے ہیں تو موضوع سے قطع نظر ، اسلوب، زبان اور تخلیقی قوت اورتخلیقی صلاحیت ،اس کا بہت اہم حصہ بن جاتا ہے۔۔۔اور اظہار کا وسیلہ زبان ہے ۔تمام مشترک آفاقی موضوعات کے لیے ہر زبان اپنے لیے الگ الگ پیرائے تراشتی ہے اور ان پیرایوں میں گفتگو کرتی ہے۔ عشق و محبت ایک بڑا جانا پہچانا موضوع ہے دنیا کی کسی بھی زبان کی شاعری اس موضوع سے خالی یا عاری نہیں رہی۔ ہر زمانے میں عشق و محبت کے لیے اسالیب علاحدہ علاحدہ تراشے گئے۔ پیش کیے گئے۔ایک ہی زبان کے اندر مختلف ادوار میں الگ الگ اسالیب بنے۔ زبان کا جو فطری سماجی ارتقا ہے اس کی وجہ سے یہ ہوتا ہے۔ میں صرف اتنی سی بات کروں گی کہ یہ جو ہم کہیں پر رک جاتے ہیں۔ نعت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ۔مختلف فکری اختلافات جو ہیں۔ ایک تو ظاہر ہے کہ بعض اوقات بعض عقائد کے حوالے سے بعض اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ اور وہاں کچھ قدغنیں آتی ہیں کہ ایک جانب سے کوئی رائے دی جاتی ہے دوسری طرف سے کوئی اور رائے آتی ہے۔ ایک سے زیادہ جو فریقین ہیں ان کے پاس اپنے اپنے دلائل موجود ہیں۔ تو بسا اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ ان مباحث میں پڑا ہی نہ جائے۔ تنقید کی بات ہی نہ کی جائے۔ بعض لوگ نعت کو آزادانہ کہتے ہیں۔ بعض اس کی حدودو قیود کے پابند ہوتے ہیں۔ لیکن جس چیز کی طرف توجہ نہیں جاتی وہ یہ ہے کہ ہر لسانی معاشرہ اپنی گفتگو کرنے کے لیے اپنی لفظیات اپنے اسالیب چاہتا ہے۔ موضوع کوئی بھی ہو۔ وہ کسی اور زبان میں کسی بھی طرح سے پیش کیا گیا ہو۔ قابلِ احترام وہ تمام شعرائے کرام جنھوں نے عربی میں نعت کہی۔ جنھوں نے فارسی میں نعت کہی۔نعتیہ موضوعات کو وہ جس بلندی پر بھی لے گئے۔ لیکن بات یہ ہے کہ جب اردو کے لسانی منظر نامے میں بات کی جائے گی۔ نعت کہی جائے گی تو اس میں اردو کے مزاج اور اس مزاج کی ہم رشتگی اس زمین کے ساتھ، جنوبی ایشیاء کے ساتھ ہوگی اب تشبیہات ، لفظیات اور علامتیں یہیں سے آئیں گی۔ یہاں سے بھی بعض اوقات چیزیں پیدا ہوتی ہیں جیسا کہ خود محسن کی نعت کے ساتھ ہوا کہ جب ہندی لفظیات کو انھوں نے تلازمات کی صورت میں پیش کیاتو وہ شروع شروع میں قبول نہیں کیا گیا۔ سب سے پہلے تو اذہان کو اس بات کی طرف لانا ہے کہ نعت جس زبان میں کہی جائے گی اس زبان کے لسانی منظر نامے اس کی لسانی تشکیلات میں کہی جائے گی اور وہیں سے ابھرے گی۔ عین ممکن ہے کہ ہم نے کوئی لفظ عربی سے لیا ،ضرورت کے تحت اور اردو زبان میں اس کے استعمال کا جو محل و موقع ہے وہ بدل گیا۔ تلفظ بھی بدل جاتا ہے اور معنی بھی بدل جاتے ہیں۔ کبھی تلفظ وہیں رہتا ہے معنی بدل جاتے ہیں۔اب ہم جو لفظ اپنے معنی میں استعمال کررہے ہیں۔ہم عربی کے معنی میں استعمال نہیں کررہے۔ بعض اوقات نعت کی قدرو منزلت کے بجائے موضوعِ گفتگو اختلافی بحث کی طرف چلا جاتا ہے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ پچھلے تیس پینتیس سالوں کے اندر جو یہ گفتگو نعت کی ایک صنفِ ادب اور اس کی ادبِ عالیہ کی شمولیت سے شروع ہوئی ہے، اس میں یہ بہت سی چیزیں سامنے آگئیں مثلاًاب یہ طے ہوگیا کہ نعت کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک واقعاتی اور تاریخی اس میں کسی قسم کی غلط بیانی ہے تو معاذ اللہ ،اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن دوسرا پہلو ہے جو نعت کا وہ حسی اور حسیاتی ہے اس میں پھرسوائے اس کے کہ کسی کی حسی کیفیات جو ہیں وہ نبیء کریم V کی شانِ کریمی سے آگے بڑھ کر ذاتِ خداوندی کی شانیں بیان میں آنے لگیں تو وہاں پر عبد و معبود کے فرق کو قائم رکھتے ہوئے بات کرنی ہوگی۔ تو سب سے پہلے تو کئی زاویوں سے طے کرنا ہے ایک تو یہ کہ جو بھی معاملات ہیں وہ مختلف عقائد کے حوالے سے سامنے آتے ہیں۔ وہاں پر بھی ایک تعین ہوجانا چاہیے کہ کہاں تک روا ہے اور کہاں تک نہیں۔ اس کے حوالے سے بھی یہ کہنا کہ اس پر تو اب بات ہی نہیں ہوسکتی ۔ اس سے بھی ہمیں تھوڑا سا آگے نکلنا چاہیے۔ اس نقطہء نظر سے بھی بات ہو اور ایک عمومی تنقیدی رویَّہ بھی سامنے آنا چاہیے ، لسانی تشکیلات کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے۔

ڈاکٹر عزیز احسن: بہت بہت شکریہ ۔یہ بات تو بڑی اہم ہے اور اس میں ایک بات اوراہم ہے کہ اگر ہم نعت میں کوئی مکالمہ لاتے ہیں یا حضورِ اکرمؐ کے حوالے سے کوئی بات کرتے ہیں تو نعت گو شعراء کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حضورؐ سے کوئی ایسی بات منسوب کرنا جو آپؐ نے نہیں فرمائی ہے تو یہ جہنم میں جانے کے لیے ایک پروانہ ہے آپ کے ہاتھ میں۔

صبیح رحمانی: بات یہ ہے کہ کسی بھی مذہبی شخصیت کے منہ میں کوئی شاعر اپنی زبان نہیں ڈال سکتا۔نبیء کریمؐ کی ذات کی بابت جو بات آپ کہہ رہے ہیں اس میں آپ اپنا اظہار کھلے طریقے سے کرسکتے ہیں تاوقتے کہ وہ شریعت سے متصادم نہ ہو۔

ڈاکٹر عزیز احسن: جی ہاں یہ بات بڑی اہم ہے۔۔۔۔۔۔لیکن اس میں دو پہلو ہیں۔ ایک صوفیانہ شطحیات ہیں اورایک شریعت کے تقاضے پورے کرنے والی بات ہے۔

مختلف آوازیں: نعت کہنا تلوار کی دھار پر چلنا ہے۔

ڈاکٹر عزیز احسن: جی ہاں نعت کہنا تلوار کی دھار پر چلنا ہے۔ یہ بات کسی بھی دوسری صنفِ سخن کے لیے نہیں کہی جاسکتی۔

پروفیسر انوار احمد زئی: ۔۔۔دوسری بات ڈاکٹر صاحب یہ کہ اگر اس کو ستائش نہ سمجھا جائے کہ نعت کہی جاتی رہی ہے کہی جاتی رہے گی لیکن نعت پر تنقید ، تنقید میں نکتہ چینی کے معنوں میں نہیں بلکہ نقدو نظر کے معنوں میں کہہ رہا ہوں۔اب جو نعت رنگ ہے اس میں عرصہء دراز سے یہ آرہا ہے کہ نعت کیا ہے؟نعت کسے کہتے ہیں؟ نعت کون کہہ رہا ہے ۔۔۔اور اس کے مدارج کیا ہیں۔ اور اس کے تقاضے کیا ہیں۔ اس کا مقام کیا ہے۔ اگر یہ سب ہورہا ہے اور نہایت کامرانی وکامیابی سے ہورہا ہے تو کل تک تو نعت ایک صنف بھی نہیں تسلیم کی جارہی تھی۔ آج ایک صنف تو تسلیم کی جارہی ہے۔ اور میں اس سے استفادہ کرتے ہوئے یہ عرض کروں یہ جو ہم ایک صنف کہتے ہیں نعت کو تو ہم ایک مغالطے کا شکار ہوجاتے ہیں۔وہ اس طرح کہ ہم نے اصنافِ شعری میں یا شاعری میں نظم، قصیدہ ، غزل اور مخمس اور مسدس اور ثلاثی سب کو ہم نے معین متعین کیا ہے۔ اور ان کو Format کے اعتبار سے کیا ہے۔مرثیہ جو ہے وہ مسدس کی شکل میں عموماً آیا ہے۔میں یہاں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک تو یہ کہ نعت ہرصنف میں آرہی ہے۔ موضوعات کے اعتبار سے وہ نعت ہے۔نظم میں ہے تو،ثلاثی میں ہے تو۔ ہائکو میں ہے تو۔مسدس میں ہے تومخمس میں ہے تو۔ تویہ سب اصنافِ سخن کی جان ہے کیوں کہ یہ موضوعاتی صنفِ سخن ہے۔ اور آخری جملہ میں عرض کروں ہمیں یہ حقیقت سامنے رکھنی چاہیے کہ نعت بطورِ صنف یا جو حصہ رہی ہے ہمارے مزاج کا وہ ادبِ عالیہ میں ہو یا نہ ہولیکن وہ نعتیں جو بہت کمال کی کہی گئی ہیں جیسے ابھی مومن کی نعت سامنے آئی جو قصیدے کی صورت میں ہے وہ ادبی نعت ہے۔ اس کی مثال یہی ہے کہ آپ اگر یہ سمجھیں کہ تمام اصناف ادبِ عالیہ میں ہیں تو سوچنا پڑے گا کہ کس کا مرثیہ ادبِ عالیہ میں ہے؟ انیس و دبیر کے مراثی ہیں۔ یا ہر غزل ، تو سوچنا پڑے گا کہ ہر غزل ادبِ عالیہ میں کہاں ہے؟اسی لیے یہ سوچنا ہوگا کہ نعت جس نے بھی کہی ہے اصل بات یہ ہے کہ کس کی نعت ادبِ عالیہ تک پہنچی ہے۔

ڈاکٹر تقی عابدی: میں سمجھتا ہوں کہ ہم موضوع کے بالکل باہر ہیں۔ میں طالبِ علم ہوں۔ صبیح رحمانی جانتے ہیں۔کئی سال سے میری اسٹڈی نعت اور مرثیے پر ہے۔مسئلہ یہ ہے پہلی چیز تو آپ نے Correct کردی۔۔۔اصنافِ سخن ضروری نہیں ہیں کہ ھیئتی ہوں۔ اصنافِ سخن ، دو طریقے ہیں۔۔۔موضوعاتی اور ھیئتی۔تو نعت صنف ہے،ایک چیز۔ دوسری بات غزل ادبِ عالیہ میں ہے وہ تقی عابدی کی غزل ہو یا فیروز تغلق کی غزل ہو۔ ہم صنف کی بات کررہے ہیں۔یہاں پہ موضوع یہ اٹھایا جارہا ہے کہ کیوں نعت جو مدحِ ختمی مرتبت ہے، صرف اس کو وہ مقام کیوں نہیں دیا گیا۔ اس کے مسائل بھی ہیں جو ابھی گفتگو میں آگئے۔ہمارے پاس حضور V کی جو سیرت ہے ،تاریخی واقعات ہیں ، ہمارے پاس نہ ولادت کی کوئی ایک تاریخ ہے ۔ ایک شخص کہتا ہے کہ ولادت ایسی ہے، ایک شخص کہتا ہے ولادت ایسی ہے۔ ایک شخص کہتا ہے معراج جسمانی ہے ایک شخص کہتا ہے معراج روحانی ہے ،ایک شخص کہتا ہے حضور نے جو شق القمر کیا یہ حسی ہے ایک کہتا ہے کہ ایسا ہوا ہے۔ تو ہمارے پاس ہر چیز میں علمائے کرام میں اختلاف ہے۔ تو اگر ایک Group یہ کہے کہ یہ Wrong کہہ رہا ہے۔ تو خود غلط ہے کیوں کہ ہمارے پاس شواہد نہیں ہیں۔ ہم نے نعت کی صحت کے لیے یہ معیارات قائم کیے۔۔۔کوئی موضوع نعت کا قرآن کی دونوں قسم کی آیات محکم، متشابہ سے ہٹ کر نہ ہو۔ ایک چیز۔ کوئی موضوع نعت کا حضور V کی معتبر ترین احادیث کے خلاف نہ ہو۔ تیسری چیز، کوئی موضوع نعت کا جو ہمارے پاس تواریخِ مستندِ اسلامی ہیں اس کے خلاف نہ ہو تو بہتر ہے۔اگر ہو تو کہنے والے کی اپنی آپ ذمہ داری ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ نعت کے گلستان کو بڑھائیے۔ لوگوں کے خوف اور ڈر کو گھٹایئے۔ لوگوں سے مت بتایئے کہ تم جہنم میں چلے جاؤگے تم ختم ہوجاؤگے۔ یہ صبیح رحمانی کا جو ایک شخص کا جہاد ہے ، نعت رنگ کی وجہ سے ، مجھ سے پوچھیے کتنے لوگوں سے نعتیں اس شخص نے لکھوائی ہیں۔ چار سو ملین افراد اردو میں بات کررہے ہیں۔ نعت کو اگر ہم مشکلات در مشکلات ، خوف اور ڈر میں ڈال دیں گے تو ہمارا بیڑا غرق ہوجائے گا۔ حدیثِ دل ہے نعت۔ جو دل میں آیا کہیے حضورِ پاک کے لیے۔وہ جو بتایا مسئلہ میم۔ احد اور احمد۔۔۔اس پر ہزاروں صفحات لکھے گئے ہیں۔ اس سے جو عرفی کا شعر ہے ۔عرفی کے شعر کو ہم نے توڑ کر موڑ کر کچھ چھوڑ کر کچھ اورکردیا ہے۔ دوسرا جو شعر ہے وہ شعر اصلی ہے۔ عرفی یہ کہہ رہا ہے کہ یہ اکبرِ اعظم کی یہ سلیم کی یا کیقبات کی بات نہیں ہے یہاں پر سنبھل کے بات کرو۔اس لیے کہ ہر حرف جو تم کہو گے حضور V تک نہیں پہنچ سکتا۔ تم حضورV کو سخاوت میں حاتم طائی کہو گے۔ تو حضورV کے ساتھ تم بے انصافی کررہے ہو۔کیوں کہ اگرچہ حاتم طائی سخاوت میں کمال پر پہنچا تھا لیکن حضورV اس سے بہت بلند ہیں۔ تو اس شعر کو ہم نے اس طرح سے use کرلیا ہے۔ تو میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ادبِ عالیہ میں نعت جب آئے گی جب زید بھی نعت لکھے گا جب بکر بھی نعت لکھے گا۔ جب نعت کا طوفان ہر قلم سے اٹھے گا۔جو ہو رہا ہے۔ تو اس کے لیے وہ فضا ہموار کیجیے۔

ڈاکٹر عزیز احسن: دیکھیے یہ فضا تو الحمدللہ! بن رہی ہے لیکن وہ بات بڑی اہم تھی جو آپ نے ایلیٹ کے حوالے سے کہی تھی کہ’’جو صنف ادبِ عالیہ میں داخل ہوتی ہے اس کا سینہ اتنا کشادہ ہونا چاہیے کہ وہ تنقید کے تیر برداشت کرسکے‘‘۔۔۔۔۔۔اور چوں کہ نعت میں ابھی تک ’’تنقید ‘‘قبول نہیں کی گئی تھی۔لوگ نعت پر تنقید کا نام سننے کو تیار نہیں تھے۔ اس ضمن میں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ یہ تو ہمارا اجتہاد تھا۔ الحمدللہ! صبیح رحمانی نے نعت رنگ کے ذریعے اس جہاد کا آغاز کیا۔یہی وجہ ہے کہ آج ہم کھل کر نعت پر تنقید کے حوالے سے اظہارِ خیال کر نے کے قابل ہوسکے ہیں۔

ڈاکٹر تنظیم الفردوس: قطع کلامی۔۔۔لیکن نعت بنیادی طور پہ صنف یا اس کے موضوع پر یا اس موضوع کی جتنی جہتیں ہیں ان پہ تو تنقید ویسے بھی نہیں ہے۔یہ تو اظہار کے طریقے پر لفظوں کے استعمال ، احتیاط، اس کے حوالے سے تنقید ہے تو یوں اگر دیکھا جائے تو موضوعی صنف کے اعتبار سے بطور صنف تو یہ تنقید سے بالا تر ہی ہے۔ یہ میری رائے ہے ۔ہاں تنقید ہوتی ہے اظہار کے طریقے پر۔ ڈاکٹر عزیز احسن: دیکھیے صبیح صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔

صبیح رحمانی: ڈاکٹر [تقی عابدی]نے ایک بات پھر اہم کہی ہے کہ اس خوف کے سائے کو ختم کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔اور بہت اچھی بات انہوں نے کہی کہ زید بھی نعت کہے بکر بھی کہے ۔ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ مسلم امہ میں مسالک اور مسالک کا طرزِ عمل ایک مذہب کی طرح ہوگیا ہے۔ جو بھی کوئی بات کہتا ہے اس کو فوراً پکڑنے والے دس اعتبار سے زاویوں سے پرکھتے ہیں۔ تنظیم صاحبہ نے کہا کہ علاقائی فضا کا اثر ہونا چاہیے نعت میں لیکن جب پوربی نعتیں سامنے آئیں جو بہت محبت کے اظہار کی مثال تھیں اور اس کے سننے والے لاکھوں تھے۔ اس پر بھی بعض لوگوں نے اعتراض کیا۔ اس کی لفظیات پر کہ نبی کریم V کی بارگاہ میں ایک عورت کی زبان سے جذبات کا اظہار جائز ہے یا نہیں۔ ابھی ناصر عباس نیر نے اپنے ایک مضمون میں نعت رنگ میں ہی اس بات کو دوبارہ اٹھایا کہ اب یہ بات دیکھنی پڑے گی کہ آخر ہمارے صوفیہ یا ہمارے شعراء کی وہ کونسی ذہنی فضا تھی جس میں انھوں نے اپنی بات کہنے کے لیے اپنی محبت کے اظہار کے لیے عورت کی زبان کو استعمال کیا؟ساختیاتی طور پر اور تجزیاتی طور پر اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

ڈاکٹر تنظیم الفردوس: ہندوستانی منظر نامہ میں جو گیت اور بارہ ماسہ کی روایت ہے وہ پوری کی پوری ایک بنیاد بنتی ہے۔ کہ اس پورے معاشرے میں محبت کا اظہار،عورت کی زبانی کیاجاتا ہے اور ساری عشقیہ شاعری کی بنیاد ہی اس پر ہے۔ اس کے زیرِ اثر پھر ہماری تمام شاعری میں وارفتگی ،سپردگی کی کیفیت اور وفا داری کے ساتھ۔۔۔ سپردگی میں ساری چیزیں شامل ہیں۔

انوار احمد زئی: موجودہ ڈکشن یعنی جدید ڈکشن میں آپ Male chaunism کو نکا ل دیجیے۔ عورت کی اس کیفیت کو وہ استعاراتی صورت میں استعمال کررہے ہیں۔ وارفتگی ، سپردگی اور ممدوح کی سپر میسی۔ اس کو بنیاد بنانا ہے۔

ڈاکٹر تقی عابدی: ہم جو اس کمرے میں بیٹھے ہوئے ہیں اگرچہ مرغانِ بے بال و پر ہیں۔ لیکن اس وقت ہماری عقیدت، ہماری محبت ہمارا رجحان ، نعت پر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ گلشن ترقی کرے۔ ہم ہر اس خار کو اس گلشن سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب! [عزیز احسن] ہر شخص کو اس سے واقف کروادیں۔ ہم چاہتے یہ ہیں کہ نعت کے گلشن کا فروغ ہو۔ نعت ادبِ عالیہ میں خود آجائے گی۔اگرنہیں بھی آئے گی، تو آپ کے دلوں میں اپنے طریقے سے رہے گی۔ تو کوشش یہ کی جائے اس مٹی کو نم کیا جائے۔ کیوں کہ یہ بہت زر خیز ہے۔ ایک طرف سے پورا ایجنڈا چل رہا ہے۔

ڈاکٹر عزیز احسن: میں نے تو اپنے ایک شعر میں پہلے ہی کہدیا تھا کہ

محبتیں بھی رہیں دل کو ٹھیس بھی نہ لگے

کسی کے سامنے اس طرح آئینہ رکھیے

تو ہم تو اس طرح آئینہ رکھتے ہیں لیکن تنقید کا جو عوامی تصور ہے وہ ادبی تصور سے جدا ہے ۔ عوام کی نظر میں تنقید محض نکتہ چینی ہے جبکہ آپ سب جانتے ہیں کہ appreciation بھی تنقید کے ذیل میں آتی ہے۔ عوام کا یہ تصور مٹنا چاہیے کہ تنقید کا مقصد صرف تنقیص ہے۔ تنقید تو نقد سے ہے جس کا مطلب پرکھنا ہے۔

صبیح رحمانی: ایک پہلو انوار بھائی ، اور توجہ طلب ہے کہ بیشتر ابتدائی تنقید نعت پر مذہبی حلقے کی طرف سے ہوئی ہے۔ کیوں کہ مذہب سے جڑی اصناف پر رائے دینے کا ،مذہبی طبقہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ اہل سمجھتا ہے۔ان کی شریعت کی تعلیمات تو ہوسکتا ہے مضبوط ہوں اور فقہ کے بارے میں بھی وہ زیادہ جانتے ہوں گے لیکن میرا اپنا خیال ہے کہ زبان کے ارتقا کے مراحل اور عصری منظر نامے کا فہم شاید اتنا توانا نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب پوربی نعتوں میں عورت کی زبان میں اظہار کیا گیا اور بہت کمال سے کیا گیا تو اس فضا نے انھیں متاثر نہیں کیا۔ اسی لیے جب ان کے سامنے محسن کا قصیدہ آیا تو اس میں ہندی اصطلاحات کے بارے میں انھوں نے ناگواری کا اظہار کیا۔ایسی بہت ساری چیزیں ہمارے ہاں ہیں جن پرمذہبی طبقہ اپنے اشتعال کا اظہار کرتا رہا ۔۔۔اور ہمارے ہاں ادبی طبقے نے مذہبی اصناف کو اس طرح دیکھا نہیں تھا جس طرح دیکھا جانا چاہیے تھا۔ اب جو کوشش ہم نے کی ہے کہ ادبی حلقہ نعت کی طرف آئے اوراس کی تنقید بھی سامنے ہو ۔۔۔تو منظر نامہ بالکل بدل گیا ہے۔ اس سے بڑی ترقی ہوئی ہے نعت کی تنقید میں بھی اور نعت کی قبولیت میں بھی۔

ڈاکٹر عزیز احسن: نعت میں متن پر تو گفتگو ہوئی ہے لیکن اسلوب پر بہت زیادہ گفتگو نہیں ہوئی اور نہ ہی اسلوب پر شعراء نے بہت زیادہ توجہ دی ہے۔ اگر ہم اسلوب پر گفتگو کریں گے تو وہ واقعتا اس ذیل میں آئے گی جس کو ادبی تنقید کہتے ہیں۔

ڈاکٹر تنظیم الفردوس: ابھی صبیح رحمانی نے جو فرمایا کہ وہ جو مذہبی طبقے کی تنقید تھی، ظاہر ہے کہ وہ شرعی حوالے سے اور فقہی حوالے سے تھی۔

ڈاکٹر عزیز احسن: وہ یک رخی تھی۔

ڈاکٹر تنظیم الفردوس: جی ہاں وہ یک رخی تھی لیکن میں یہ بھی عرض کردوں کہ محسن کے ہی ہم عصر مولانا احمدرضاخان کی شاعری میں بھی لفظیات کا استعمال ہے وہ ہندی،ہندوستانی، پوربی کی تمام تر لفظیات ہیں اور ان کا کیسا خوبصورت استعمال ہے۔ وہ استعمال کررہے ہیں پی کو پیاری اور اس طرح سے جو قصیدہء نوریہ ہے اس کے تو سارے تلازمات دیکھ لیجیے۔ سلام جو ہے مصطفےٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام ۔۔۔۔۔۔تو آپ دیکھیں کہ جو عالمِ دین زبان اور زبان کے عصری رجحانات سے پوری طرح واقف ہوگا وہ جو شہنشا ہ کی بحث ہے اس پر ساڑھے تین صفحے کا خط ایک استفسار کے جواب میں انھوں نے لکھا ہے۔لفظ شہنشاہ کے اپنے ہاں استعمالات کا ذکر کرکے اسے جائز قرار دیا۔

ڈاکٹر عزیز احسن: معاف فرمائیے اس حوالے سے یہ خاکسار اپنے تحقیقی مقالے میں بھی لکھ چکا ہے کہ جہاں کوئی حدیث آجائے وہاں تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی۔حضرت امام لک رحمۃاللہ علیہ نے حضورِ اکرم V کی قبرِانور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:’’سوائے اس صاحبِ مزار(آنحضور V) کے، ہر شخص کی بات قبول بھی کی جاسکتی ہے اور رد بھی۔

ڈاکٹرتنظیم الفردوس: اعلیٰ حضرت تو بہت بڑے عالم تھے کیا انھیں حدیث کا علم نہیں ہوگا؟

ڈاکٹر عزیز احسن: دیکھیے اعلیٰ حضرت عالم بھی تھے اور بڑے بزرگ بھی تھے۔لیکن معصوم عن الخطا نہیں تھے۔ ہم اپنے بزرگوں کو جب معصوم عن الخطا سمجھنے لگتے ہیں تو ان سے کسی قسم کا اختلاف بھی گناہ جانتے ہیں۔ اسRigidity کے باعث ہی ،مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو نعتیہ ادب میں ایک اعلیٰ درجے کے شاعر کی حیثیت سے اب تک متعارف کروانے میں کچھ مسائل ہیں۔ محسن کاکوروی اور امیر مینائی کے نام تو شعراء کی فہرست میں آجاتے ہیں اور ان پر ناقدین کی رائے بھی مل جاتی ہے لیکن اعلیٰ حضرت کے حوالے سے مستند ناقدین کی رائے ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔اب کہیں جاکر ’’نعت رنگ‘‘ میں نقدِ سخنِ نعت کا غلغلہ بلند ہوا ہے تو اعلیٰ حضرت کی شاعری بھی معرضِ بحث میں آنے لگی ہے۔

مشترک آوازیں: شعرِ عقیدت کی تنقید کے حوالے سے مکالمہ جاری رہنا چاہیے۔

پروفیسر انوار احمد زئی: وہ جو ٹی ایس ایلیٹ کی بات ڈاکٹر تقی عابدی نے کہی اور آپ[عزیز احسن] نے دہرائی ہے کہ جو صنف ادبِ عالیہ میں داخل ہوتی ہے اس کا سینہ اتنا کشادہ ہونا چاہیے کہ وہ تنقید کے تیر برداشت کرسکے۔۔۔نعت میں تنقید کے فروغ کے لیے اسی ذہنی کشادگی کی ضرورت ہے۔

صبیح رحمانی: جی ہاں ، یہی کشادہ ذہنی پیدا کرنے کی غرض سے ہم نے نعت رنگ میں تنقیدی سلسلہ شروع کیا تھا جسے آہستہ آہستہ پِذِیرائی مل رہی ہے۔

عزیز احسن: الحمدللہ !۔۔۔ حضرات!میرا سوال تو صرف یہ تھا کہ ’’نعتیہ ادب کو ادب عالیہ بنانے میں کیا کیا رکاوٹیں رہی ہیں ؟‘‘۔۔۔۔۔۔ لیکن بات بہت دور نکل گئی ، تاہم اس گفتگو سے بھی تفہیم کے بہت سے پہلو نکلے اور آئندہ اور زاویے روشن ہوں گے۔ ان شا ء اللہ ۔۔۔۔۔۔ میں دل کی گہرائیوں سے آپ سب کی تشریف آوری پرآپ کا ممنون ہوں۔۔۔۔۔۔ شکریہ !