"مدحت نامہ - آن لائن پڑھیے" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
سطر 6,739: سطر 6,739:




==== رئیس فروغ====
==== رئیس فروغ ====
 
(۱۵؍فروری۱۹۲۶ء مرادآباد…۱۵؍اگست۱۹۸۲ء کراچی)
(۱۵؍فروری۱۹۲۶ء مرادآباد…۱۵؍اگست۱۹۸۲ء کراچی)
دربار نبی سبحان اللہ
دربار نبی سبحان اللہ
دربار نبی سبحان اللہ
دربار نبی سبحان اللہ
جہاں اجلے بول برستے ہیں
جہاں اجلے بول برستے ہیں
جہاں سبز کبوتر بستے ہیں
جہاں سبز کبوتر بستے ہیں

نسخہ بمطابق 04:47، 23 مارچ 2020ء


دبستانِ کراچی کا نعتیہ منظرنامہ

قیام پاکستان کے وقت یہاں اُردو کا صرف ایک ہی بڑا مرکز تھا لاہور۔ بیسویں صدی کے شعر و ادب پر نگاہ ڈالی جائے تو پنجاب بالخصوص لاہور کی ادبی فضا میں بہت تنوع نظر آتا ہے۔ خاص طور پر یہ مرکز نئے ادبی رُجحانات کی آبیاری میں بہت آگے رہا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تنوع اور گوناگونی میں بھی ذکر رسول اکرمaکی محبت کی روشنی سے ضیا بار رُجحانات کے نقوش بھی یہاں کم نہیں تھے۔ اسی شہر میں اقبالؒ کی آواز گونجی :

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر میں اسم محمدaسے اُجالا کردے


انہی فضائوں کی تابانیوں میں مولانا ظفر علی خاں کی نعتوں سے اضافہ ہوا۔

سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا گیا

سب غایتوں کی غایت اولیٰ تمہی تو ہو


یہیں حفیظ جالندھری نے شاہنامہ اسلام جیسی طویل مثنوی لکھی جس کا بڑا حصہ حضور aکے ذکر مبارک سے متعلق ہے۔ لاہور کے علاوہ بھی اس زمانے میں پنجاب، خیبرپختونخواہ، سندھ اور بلوچستان کے دوسرے شہروں میں اُردو زبان و ادب اور اس میں ذکر نبی کریم aکا چرچا عام تھا۔

پاکستان بننے کے بعد ’’کراچی‘‘ دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کے دارالحکومت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے سے پاکستان اور کراچی اپنی اس حیثیت سے محروم ہوگئے۔ کراچی اور سندھ میں قیامِ پاکستان سے پہلے ہی اُردو شعر وادب اور زبان کا رواج عام تھا۔ اس علاقے میں بھی آزادی کی جنگ اُردو زبان کے ذریعے لڑی گئی۔ پاکستان بننے سے پہلے انجمن ترقی اُردو کی شاخ یہاں 1913ء میں قائم ہو چکی تھی۔ سالانہ مشاعرے پابندی سے ہوتے تھے اور کئی اُردو ماہنامے بھی یہاں سے شائع ہوتے تھے۔ بہرحال اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں۔

پاکستان بننے کے بعد لاکھوں مہاجرین کے ساتھ اُردو کے نامور اور عہد ساز شعرا بھی کراچی آئے۔ ان کی آمد کا مقصد محض اپنی جان بچانا نہ تھا بلکہ اس نئی اسلامی ریاست کی تعمیر میں عملی اور فکری دونوں سطحوں پر اپنا حصہ ڈالناتھا۔ ان شعرا میں سیماب اکبر آبادی، بہزاد لکھنوی، جوش ملیح آبادی، اکبر وارثی، ضیاء القادری بدایونی، ماہرالقادری، آروز لکھنوی، رئیس امروہوی، نیاز فتح پوری، نہال سیوہاروی اور قمر جلالوی جیسے اساتذہ شامل تھے۔ ان کے علاوہ اس قافلے میں صبا اکبرآبادی ، رعنا اکبر آبادی، نازش دہلوی، رازمراد آبادی، تابش دہلوی ،نسیم امروہوی، محشر بدایونی، منور بدایونی، اسعد شاہجہانپوری، ارمان اکبر آبادی، شاہ انصار الٰہ آبادی، فدا خالدی دہلوی، ذوالفقار علی بخاری، صبا متھراوی، آلِ رضا اور اقبال صفی پوری بھی شامل تھے۔ یہ وہ شعرا تھے جن کی آوازوں کی طرف قیام پاکستان سے پہلے ہی ادبی دنیا متوجہ ہو چکی تھی۔ نیر مدنی بہار کوٹی، ادیب سہارنپوری، قمر ہاشمی، اقبال عظیم، ادا جعفری، جلیل قدوائی، جوہر سعیدی، ذہین شاہ تاجی، شاعر لکھنوی،شور علیگ، شیوا بریلوی، محب عارفی، حیدر دہلوی، خالد علیگ، دور ہاشمی، صبا لکھنوی، وجد چغتائی، یاور عباس، ہادی مچھلی شہری، فضل کریم فضلی، کرار نوری، مظہر جلیل شوق، شبنم رومانی، انور دہلوی،انجم فوقی بدایونی،دلاور فگار، شاہ حسن عطا وغیرہ کی شعر گوئی بھی قیامِ پاکستان سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔

یہ چند نام مثال کے طور پر پیش کیے گئے ہیں اور گمان یہی ہے کہ بہت سے اہم نام اس فہرست میں شامل ہونے سے رہ گئے ہوں گے۔


افسر امروہوی، محمودہ رضویہ، محمد ارشاد حسین شاد صابری، علامہ ظہور الحسن درس، احمد خاں جوہر، عبدالحمید کیف، محمد بخش راز، مول چند، سرور علی، محمد عبیداللہ حافظ لاڑکانوی، عزیز سلیمانی، صاحبزادہ محمد علم الدین قادری، آصف جاہ کاروانی اور علی محمد راشدی کے علاوہ کئی اور ادیب و شعرا یہاں پہلے سے موجود تھے اور شعر وادب کی اخبار و جرائد کے ذریعے خدمت کر رہے تھے۔

1947ء کے بعد سندھ کے وہ نوجوان بھی زیادہ مستعدی کے ساتھ اُردو زبان و ادب کی خدمت کرنے لگے جو پہلے بھی کچھ نہ کچھ لکھتے رہے۔ مثال کے طور پر قمر شیرانی اور مسرور کیفی وغیرہ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس فہرست میں اضافہ ہوتا رہا اور اہم نقاد و نثر نگار بھی کراچی آگئے۔ مسلّمہ ادبی رسائل کے مدیر بھی کراچی آئے اور اُنھوں نے ازسرنو اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ان مدیروں اور نثرنگاروں میں شاہد احمد دہلوی، مولانا رازق الخیری، پروفیسر احمد علی، اختر حسین رائے پوری، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، صادق الخیری، سید محمد تقی وغیرہ شامل تھے۔ بہت سے نام ذہن میں آرہے ہیں لیکن میں ان سے صرفِ نظر کرتا ہوں کیوںکہ یہ کراچی کی ادبی تاریخ کا کوئی مطالعہ نہیں بلکہ کراچی کی نعتیہ شاعری کا ایک سرسری جائزہ ہے۔ لیکن اس پس منظر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اتنی بڑی ادبی شخصیات کی موجودگی میں کراچی کو ایک ادبی دبستان تو یقینا قرار دیا جا سکتا ہے۔ مزیدبرآں اس دبستانِ ادب کے خدوخال کو نمایاں کرنے میں ملی جذبات اور نعت رسول کریم نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران میںملی شاعری نے خاصا فروغ پایااور ملی شاعری کا تصور بھی اللہ اور رسول اللہ کے بغیر نہیںکیا جا سکتا کیوںکہ حضور a ہماری شناخت بھی ہیں اور آپ کی محبت ہماے ایمان کی اساس اور ملت کی جان بھی۔

پاکستان آنے والے ابتدائی شعرا میں سیماب اکبرآبادی کا نعتیہ مجموعہ’’ سازِ حجاز‘‘ ان کی نعت گوئی کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے۔ وہ ان شعرا میں سے ہیں جنھوں نے کئی اصناف سخن کو نعت گوئی کے لیے کامیابی سے برتا ہے۔ نعت کے حوالے سے دوسرے نمائندہ شعرا میں اکبر وارثی، بہزاد لکھنوی، ضیاء القادری بدایونی، منور بدایونی، شاہ انصار الٰہ آبادی، عنبر شاہ وارثی اور شاہ ستار وارثی کے نام نمایاں ہیں جن کی نعت گوئی میں شخصی جذب و کیف زیادہ نمایاں ہے۔ جبکہ مولانا ماہرالقادری ایک اسلامی تحریک سے وابستہ تھے اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں میں پیش پیش رہے۔ اس لیے ان کی نعت گوئی میں ایک اجتماعی رنگ غالب رہا۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مولانا کے ہاں شخصی سطح پر نبی کریم aکی یاد اور ذکر نہیں۔

محمد کی نبوت دائرہ ہے نورِ وحدت کا

اسی کو ابتدا کہیے، اسی کو انتہا کہیے (ماہرالقادری)


شعر و سخن کی مجموعی فضا میں نعت گوئی کا فروغ، دبستانِ کراچی کی اوّلیات میں شامل ہے اُردو شعر و ادب کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں نعت نہ کہی گئی ہو لیکن انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز سے نعت گوئی، محض رسم نہ رہی بلکہ ایک سنجیدہ ادبی کاوش بن گئی۔ ڈاکٹر سیّد ابوالخیر کشفی نے اردو نعت گوئی پر اپنے مطالعے میں اس پہلو پر زور دیا ہے۔ ان کی گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ شہیدی، محسن کاکوروی اور امیر مینائی کے بعد حالی نے نعت گوئی کو زندگی سے متعلق کیا اور اقبال اور ظفر علی خاں نے اسے شعروادب کا عنوانِ جلی بنا دیا ۔ پہلے شعرا اپنے مجموعوں کے ساتھ ایک دو نعتیں بطور تبرک شامل کر لیتے تھے اور آج نعت گوئی ان کے فن کی پرکھ قرار پاتی ہے۔


میں اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ ملک کے طول و عرض میں بعض شعرا نے صرف نعت گوئی کو اپنے لیے چن لیا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے لیکن اس میں مسئلہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ اُردو شاعری میں ان کی حیثیت کے متعلق کچھ کہنا مشکل ضرور ہو گیا ہے۔ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہماری تاریخ ادب ہی کو لے لیجیے سوائے محسن کاکوروی کے اور کس شاعر کو بطور نعت گو قابلِ اعتنا جانا گیا ہے۔ لیکن جن شعرا نے شاعری کے دوسرے موضوعات کا حق ادا کرتے ہوئے نعت گوئی کے فن میں بھی درجۂ کمال حاصل کیا ان کی قبولیت ہمارے ادبی منظرنامے پر واضح ہے۔ دبستانِ کراچی کی مثال لیجیے، صبا اکبر آبادی، تابش دہلوی، محشر بدایونی،اقبال صفی پوری، وقار صدیقی، حنیف اسعدی، راغب مرادآبادی، رحمٰن کیانی،سرشار صدیقی، صہبا اختر، اُمید فاضلی، سلیم کوثر، قمر ہاشمی، قمر وارثی، عزیز احسن، اعجاز رحمانی، جمیل نقوی، جاذب قریشی، اختر لکھنوی، افسر ماہ پوری، اقبال حیدر، انعام گوالیاری، اسماعیل انیس، خیال آفاقی، حمیراراحت، خورشید احمر، سید معراج جامی، حیرت الٰہ آبادی، شاعر لکھنوی، صبا متھراوی، سہیل غازی پوری، افتخار عارف، روشن علی عشرت، قمر جلالوی، قیصر نجفی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، قصری کانپوری، مبارک مونگیری، حسن اکبر کمال،ماجد خلیل، ع س مسلم، منظر ایوبی، جاوید منظر، مہر وجدانی،خالد عرفان، اختر ہاشمی، جمیل عظیم آبادی، عارف اکبر آبادی، تنویر پھول، پروین جاوید ، غالب عرفان، غنی دہلوی، احمد فاخر، خمار فاروقی،عبدالوحید تاج، سید قمر زیدی، قمر حیدر قمر، محسن علوی، نیر اسعدی، نعیم میرٹھی، رحمان خاور، ناصر کاس گنجوی، مقبول نقش، نگار فاروقی، وسیم فاضلی، کرارنوری، رفیع الدین راز اور شاعر علی شاعر جیسے شعرا نے دیگر موضوعات کے ساتھ اپنے نعتیہ مجموعے بھی پیش کیے اور اس طرح اس مسئلے کے حل کی طرف پیش قدمی کی۔ ناموں کی یہ فہرست بہت طویل ہو سکتی تھی مگر یہاں مقصود صرف مثال پیش کرنا تھا۔ نعت یقینا حصول ثواب اور نجاتِ اُخروی کا وسیلہ بھی ہے لیکن آج یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بات یہیں ختم ہو گئی۔ آج نعت گوئی حسن کلام کی بھی آخری منزل کے درجے تک پہنچ چکی ہے۔ بات یہ ہے کہ وہ ذاتِ گرامی جو حسن جمال و کمال اور توازن کی آخری مثال ہے جس نے گفتگو و کلام کے آداب متعین فرمائے۔ اس کا ذکر بھی ذکر کرنے والوں کے کلام کو اسی کے قائم کردہ معیار کے مطابق بنا دیتا ہے۔


نظم ہستی میں توازن کے لیے

ساری دنیا اور تنہا مصطفی (تابشدہلوی)


اس کو کہتے ہیں تکمیل انسانیت

ساری اچھائیاں ایک انساں میں (محشر بدایونی)


محتاط ہیں ہم تذکرۂ عشق نبی میں

بے مشورۂ دیدۂ نم کچھ نہیں لکھتے (وقار صدیقی)


جب عشق نبی سارے مسائل کو بھلا دے

ہے عزم اسی قیمتی ساعت کی طلب میں (عزم بہزاد)


تقدیر پہ چھوڑا ہے اس ناقۂ ہستی کو

یہ کعبہ ہے وہ طیبہ دیکھیں تو کہاں ٹھہرے (سرشار صدیقی)


زمانے اپنے زمانوں کی دھوپ چھائوں کے ساتھ

اسی کے دیکھے سے آئینے میں جمالِ آئینہ ساز ٹھہرا

ہیں سرنگوں تہہ محراب شہر مصطفوی (سلیم کوثر)

وہ پیکرِ نور جس کے دم سے جہاں میں تعریف ہے خدا کی (اجمل سراج)


کریں زیارت سرکار کی دعائیں ہم

مگر وہ ہاتھ وہ آنکھیں کہاں سے لائیں ہم (شبنم رومانی)


ہشیار کہ چھٹ جائے نہ دامانِ محمدؐ

اس راہ میں بھٹکا تو نہ دنیا کا نہ دیں گا(فداخالدی دہلوی)


بلند جب سے ہے طیبہ میں گنبدِ خضرا

زمیں پہ جھکنا عبادت ہے آسماں کے لیے (افسر ماہ پوری)


دامن میں آپ کے ہیں دو عالم کی وسعتیں

ہر زاویے سے سورۂ رحمن آپ ہیں (سحر انصاری)

آپ کے اور محاسن بھی ہیں بے حد و شمار

حسن یوسف، دمِ عیسیٰ، ید بیضا کے سوا (جمیل نقوی)

عینِ مدحت ہے محمد کہنا

نام ایسا کہ ثنا ہو جیسے (حنیف اسعدی)


میں اپنے عہد کا صحرا ہوں مجھ کو حسرت ہے

ترے حضور گروں آبشار ہوجاؤں(جاذب قریشی)


بفیضِ عشقِ رسالت مآب رکھتے ہیں

جگر میں داغ نہیں آفتاب رکھتے ہیں(اعجاز رحمانی)


ان اشعار میں ُعلو تخیل بھی ہے، زبان و بیان کا حسن بھی ہے، اقدارِ عالیہ سے وابستگی بھی ہے اور وہ مقصدیت بھی جو ادب کو زندگی کا آئنہ نہیں بلکہ رہنما بناتا ہے۔ ان اشعار میں آپ کو زبان کی حدود میں توسیع بھی نظر ا ٓئے گی مثلاً نام کو ثنا قرار دینا، مدینہ منورہ میں نبی کریمaکی اونٹنی کی نسبت سے ناقہ ٔ ہستی جیسی ترکیب اور پھر اظہار کی یہ وسعت کہ جمیل نقوی نے فارسی کے معروف شعر کو ترقی دے کر کہاں پہنچا دیا ہے:


حسن یوسف دم عیسیٰ، ید بیضاداری

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری


دبستانِ کراچی کے متعدد شعرا ایسے بھی ہیں جنھو ںنے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نعت کے لیے وقف کردیا اور دوسری کسی صنف سے کوئی تعلق نہ رکھا۔ یقینا یہ ان شعرا کا نعت اور ذاتِ رسالت پناہ سے اخلاص کا معاملہ ہے۔ ایسے شعرا کے ادبی مقام و مرتبے کے تعین کے حوالے سے پیش آنے والی مشکلات کا ذکر پہلے کرچکا ہوں۔ ایسے شعرا کی اکثریت عوامی اجتماعات میں عوامی لب ولہجہ میں مکالمے کا ہنر جانتی ہے۔ ان کی شعر گوئی درحقیقت تبلیغی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے جس سے وہ عشق نبی کریم aاور کمالات واوصافِ حتم المرسلیں کو عوام میں پیش کر کے ان میں ایمان کی حرارت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے شعرا کی شہرت، مقبولیت اور نیک نامی کا دائرہ تو عام شعرا کے دائرہِ تعارف سے کہیں زیادہ وسیع ہوجاتا ہے مگر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی پرکھ ادبی معیارات پر نہیں ہو پاتی۔ اس لیے وہ صرف اپنی عوامی مقبولیت کے باعث زندہ رہتے ہیں۔ ادیب رائے پوری، قمرالدین احمد انجم، خالد محمود خالد نقشبندی، سکندر لکھنوی، ریاض سہروردی، محمد الیاس عطار قادری اور حافظ محمد مستقیم کا شمار ہمارے ایسے ہی مقبول عام شعرا میں ہوتا ہے کلام کی سادگی اور عشق کی شدت و حدت کے باعث یہ شعرا عوامی سطح پر عالمی شہرت رکھتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں :

بس ایک رات کا مہماں انہیں بنانے کو

زمیں سے عرش نے کی ہوں گی منتیں کیا کیا

(ادیب رائے پوری)


اگر سینے میں ہوتا تو دھڑکنے کی صدا آتی

یہ دل کھویا ہوا ہے گنبدِ خضرا کے سائے میں

(خالد محمد خالد نقشبندی)


مقام شکر ہے دل میں تمہاری یاد رہتی ہے

عنبر سے کہیں بڑھ کے ہے قدموں کا پسینہ

(ریاض سہروردی)


تمہارے ذکر سے یہ روح میری شاد رہتی ہے

کس عطر کا مجموعہ ہیں سلطانِ مدینہ


(حافظ محمد مستقیم)

ان کی چشم کرم کی عطا ہے میرے سینے میں ان کی ضیا ہے

یادِ سلطانِ طیبہ کے صدقے میرا سینہ ہے مثلِ نگینہ (سکندر لکھنوی)


دبستانِ کراچی کی نعت گوئی کی ایک خصوصیت اظہار کے طریقوں کا تنوع بھی ہے۔ نعت گوئی اپنی ہیئت کے اعتبار سے نہیں بلکہ روح کے اعتبار سے صنف سخن ہے۔ نعت، غزل، مثنوی، قطعہ، رباعی، مسدس، مخمس، مستزاد، سانیٹ، ثلاثی اورت ہائیکو، ہر شکل اور ہر ہیئت میں لکھی جاسکتی ہے۔ غزل اُردو کی مقبول ترین صنف ہے۔ اس لیے اسے نعت گوئی کے لیے بھی زیادہ استعمال کیا گیا ہے لیکن کراچی میں مثنوی، قصیدہ، رباعی، نظم آزاد اور ہائیکو کو بھی نعت گوئی کے لیے خوبصورتی سے برتا گیا ہے۔ اگر ہم اس کا تجزیہ کریں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب نعت اور ذکر رسول a شاعروں کے مزاج کا حصہ بن گیا ہے۔ جو شاعر جس صنف کو زیادہ عزیز رکھتا ہے اس کو محبوب خالق و مخلوق کے ذکر سے روشن کرتا ہے۔ 1964ء میں سیّد ابوالخیر کشفی نے قصیدہ بردہ کے مفاہیم کو نظم آزاد میں پیش کیا۔ اس کے بعد قمر ہاشمی کی طویل نظم ’’مرسل آخر‘‘ شائع ہوئی جس میں پابند حصوں کے ساتھ ساتھ آزاد نظم کا بھی استعمال ہوا۔ غالباً ایسی پہلی نظم (صلصلہ الجرس) عمیق حنفی کی تھی جو ہندوستان سے شائع ہوئی۔ نظم آزاد میں سحر انصاری، صہبا اختر، ثروت حسین، سلیم کوثر، جاذب قریشی، شبنم رومانی، اطہر نفیس، محمود شام، سرشار صدیقی، حمیرا راحت، سعید وارثی سمیت متعدد شعرا نے بھی خوبصورت نعتیں پیش کی ہیں۔

میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا مگر میرے علم کی حد تک نعتیہ دوہے کا آغاز بھی کراچی سے ہوا ہے۔ ویسے اس سلسلے کو عرش صدیقی نے وسیع ترکر دیا ہے۔ کراچی میں جمیل عظیم آبادی نے تواتر سے نعتیہ دوہے کہے ہیں۔ اس طرح دوہے کی صنف میں بھی نعت گوئی کا رجحان کراچی کی ادبی فضا کا حصہ بنا، لیکن میں اس بات پر اصرار نہیں کروں گا کہ اس کا آغاز کراچی سے ہوا ، تاہم یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ ہائیکو کا فروغ 1981ء میں کراچی کے ہائیکو مشاعرے سے ہوا اور بعدازاں یہ سالانہ مشاعرہ ایک طویل مدت تک جاری رہا۔ اگرچہ پنجاب میں محمد امین صاحب وغیرہ اور دوسروں نے ہائیکو کو متعارف کرانے کے لیے کام کیا لیکن کراچی میں اس کے لیے فضا زیادہ سازگار ہو گئی۔ یہاں تابش دہلوی، محشر بدایونی اور ادا جعفری جیسے بزرگ شعرا نے پہلے ہی ہائیکو مشاعرے میں شرکت کی اور اسی مشاعرے میں شاہدہ حسن اور اقبال حیدر جیسے نوجوان شعرا بھی شریک ہوئے۔ یوں دبستانِ کراچی کے کئی شعرا نے نعتیہ ہائیکو کی طرف بھرپور توجہ دینی شروع کی۔ سرشار صدیقی، انجم اعظمی، محسن بھوپالی، مقبول نقش، شفیق الدین شارق، سہیل غازی پوری، سید معراج جامی، آفتاب کریمی، سہیل احمد صدیقی ، عزیز احسن، سلیم کوثر، اقبال حیدر اور معراج حسن عامرسمیت بے شمار شعرا کے نعتیہ ہائیکو سامنے آئے ہیں۔

خوشبو کی مہمیز

ان کی گلی سے گذرا ہوں

دھڑکن ہو گئی تیز

(سرشار صدیقی)


تیرے قدموں کی آہٹ اک عنوان بلاغت کا

ایک خطبہ ہے ہدایت کا

(سید ابوالخیر کشفی)

صرف مدینے میں

اور کہاں پر اُگتے ہیں

سورج سینے میں

(صبیح رحمانی)


کراچی میں نعت گوئی کے حوالے سے بعض اصناف کا احیا بھی ہوا ہے مثلاً ڈاکٹر نعیم تقوی، صبا اکبر آبادی، فدا خالدی، رشید وارثی، سجاد سخن، حافظ عبدالغفار حافظ، ع س مسلم کے ہاں قصیدے میں نعت لکھی گئی۔ سیماب اکبر آبادی، ضیاء القادری بدایونی، سیّد منیر علی جعفری، ماہرالقادری، سلیم احمد، ساقی جاوید، قمر ہاشمی، منظور حسین شور، رعنا اکبرآبادی،ادیب رائے پوری، محشر بدایونی،وحیدہ نسیم، سعیدہ عروج مظہر، ہادی مچھلی شہری، مسرور کیفی اور وقار صدیقی نے مثنوی کو ایک نئے انداز سے نعت گوئی کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسی طرح قصری کانپوری، فدا خالدی دہلوی، جوش ملیح آبادی، نسیم امروہوی، آلِ رضا ، انصار الہٰ آبادی، تابش دہلوی، خالد عرفان، رحمان کیانی، محشر بدایونی، ضیاء القادری بدایونی، لیث قریشی ، رفیع الدین رازوغیرہ نے طویل و مختصر نعتیہ مسدس لکھے۔ یہی نہیں بلکہ فنی اعتبار سے دبستانِ کراچی کے شعرائے نعت نے نئی ردیفیں ایجاد کرنے کی سعادت بھی حاصل کی۔

کوئی ان کے بعد نبی ہوا نہیں ان کے بعد کوئی نہیں

کہ خدا نے خود بھی تو کہہ دیا نہیں ان کے بعد کوئی نہیں

(حنیف اسعدی)


راحت دل سکونِ جاں یعنی

وہی غم خوارِ عاصیاں یعنی

(تابش دہلوی)


کوئی مثل مصطفی کا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا

کسی اور کا یہ رُتبہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا

(صبیح رحمانی)


روشنی کی فضا پانے والے گئے اور میں رہ گیا

در پہ سرکار کے جانے والے گئے اور میں رہ گیا

(قمر وارثی)


میرے آقا کی ہے شان سب سے الگ

جیسے رُتبے میں قرآن سب سے الگ

(شاعر لکھنوی)


کیا شان ہے شانِ خیربشر انا اعطنا الکوثر

رحمت نے پکارا خود بڑھ کر انا اعطینا الکوثر

(ادیب رائے پوری)


قسمت کو چمکانے والے کیسے ہوں گے

آپ سے ہاتھ ملانے والے کیسے ہوں گے

(سلیم کوثر)


درِ نبی یہ ہے افضل خطاب آنکھوں سے

خدا شناسی ،شریعت ،عمل،دعا سب کچھ

(سجا سخن)


ذکرِ سرکارؐ ہوا جب سے ترانہ دل کا

نعت میں کیسے کہوں انؐ کی رضا سے پہلے

(ماجد خلیل)


رکھتے ہیں صرف اتنا نشاں ہم فقیر لوگ

ٹپک بھی جا دلِ خانہ خراب آنکھوں سے

(اختر لکھنوی)


اسؐ ایک ذات نے ہم کو عطا کیا سب کچھ

ہر زمانہ ہے دھنک رنگ زمانہ دل کا

(اقبال عظیم)


میرے ماتھے پہ پسینہ ہے ثنا سے پہلے

ذکرِ نبی جہاں ہے وہاں ہم فقیر لوگ

(عقیل عباس جعفری)




اس ضمن میں لطیف اثر کے حمدیہ اور نعتیہ مجموعے بھی قابل توجہ ہیں جو اسماء الٰہی و اسماء نبی کریم aکو ردیف بنا کر تخلیق کی گئی ہیں۔ یہاں دبستانِ وارثیہ کراچی کے نعتیہ مشاعروں کی اس روایت کا بھی ذکر ضروری ہے جس میں شعرا کو مصرع طرح دینے کے بجائے ردیفیں دی گئیں اور یوں ان مشاعروں کی طویل روایت میں سامنے آنے والی نعتیں اس اعتبار سے قابل توجہ ٹھہریں کہ ان میں شعرا نے بحر اور قافیے کی پابندی سے آزاد رہتے ہوئے اپنی فکری اور تخلیقی توانائی کا بھرپور اظہار کیا اور اس کے نتیجے میں نعت کو وہ فنی، فکری اور معنوی وسعتیں میسر آئیں جنھوں نے قارئین کو تازگی اور خیال افروزی کا نیا ماحول فراہم کیا۔

کراچی کے شعرا نے نعت کو ہندی گیتوں کے انداز میں بھی لکھا ۔ ایسے شعرا میں اسد محمد خاں، نگار صہبائی، ع س مسلم، قمرالدین احمد انجم، آفتاب کریمی، مہر وجدانی اور ادیب رائے پوری کے نام قابل ذکر ہیں۔ نعتیہ تضمین نگاری کے ضمن میں جو نام کراچی میں نمایاں ہوئے ان میں حنیف اسعدی، مہر وجدانی، حافظ عبدالغفار حافظ، نصیر آرزو، تابش دہلوی، محشر بدایونی، صبا اکبرآبادی وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح سانیٹ نگاری کے نمونے بھی نعتیہ متن سمیٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جن شعراء نے نعتیہ سانیٹ کی طرف توجہ کی ان میں کامل ا لقادری، عارف منصور، صبیح رحمانی، شاہد الوری اور آفتاب کریمی کے نام نمایاں رہے۔ نعتیہ ادب میں منظوم ترجمہ نگاری بھی کراچی کے شعراء کے تخلیقی مزاج کا حصہ رہی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، شان الحق حقی، صبا اکبرآبادی، سحر انصاری، عزیز احسن، مہر وجدانی، آفتاب کریمی ، افتخار احمد عدنی وغیرہ کے نام سرِ فہرست ہیں۔ نثری نظم اعتراضات کا شکار رہی تاہم اس نے صنفِ سخن کی حیثیت بعض شعرا کی توجہ حاصل کرلی۔ خوشی اس بات کی ہے کہ نثری نظم کا دامن بھی نعت کے جواہر پاروں سے خالی نہ رہا۔ احمد ہمیش اور ڈاکٹر ابوالخیر کشفی نے اس صنف میں نعت کہنے کی سعادت حاصل کی۔


دبستانِ کراچی میں خانوادہ تصوف کے جو لوگ آئے وہ اپنے تزکیہ نفس کی تعلیم اور تصوف کی اصطلاحات لے کر نعت گوئی کی طرف آئے جیسے بابا ذہین شاہ تاجی، مولانا ضیاء القادری بدایونی، علامہ شمس بریلوی، شاہ انصار الٰہ آبادی، عزیز الاولیا سلیمانی، سید ظہورالحسنین شاہ ظاہر یوسفی تاجی، صوفی شاہ محمد سلطان میاں ، شاہ ستار وارثی، حیرت شاہ وارثی، عنبر شاہ وارثی، صوفی جمیل حسین رضوی، شاہ قاتل، شاہ قاسم جہانگیری، بابا رفیق عزیزی، شاہ محمد عبدالغنی، نیر مدنی، بقا نظامی، شفیق احمد فاروقی، کمال میاں سلطانی، آفتاب کریمی اور پیرزادہ سیّد خالد حسین رضوی وغیرہ۔

خوش رہیں تیرے دیکھنے والے

ورنہ کس نے خدا کو دیکھا ہے

(ذہین شاہ تاجی)

محمد کی صورت میں حق جلوہ گر ہے

حقیقت ہے یا میرا حسنِ نظر ہے

(شاہ انصار الٰہ آبادی)


اعجاز سراپا ہے یا جلوہ گہ قدرت

اے قامتِ بے سایہ اے سایۂ بے ظلمت

(عزیزالاولیا سلیمانی)


دعویٰ ہے من رانی محبوبِ سرمدی کا

لولاک ایک ہیرا تاجِ محمدی کا

(شاہ محمد عبدالغنی)


کسی ایک شاعر کی زمینوں میں نعت کہنے کی طرح بھی دبستانِ کراچی ہی کے شعرا نے ڈالی ہے۔ غالب کی زمینوں میں یہ ادبی کارنامہ پہلے ساجد اسدی نے (پیغامبر مغفرت) کے نام سے۔ اس کے بعد راغب مرادآبادی نے اپنے مجموعے (مدحت خیرالبشر) اور پھر محمد امان خان دل نے (شہہ لولاک) میں سرانجام دیا۔ ان شعرا کے اس کام کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ انھوں نے موضوع کے لحاظ سے فکر کی بلندی اور شعور کی تہذیب کو از اوّل تا آخر برقرار رکھا اور اپنی شاعری کی ہیئت اور مافیہ دونوں کی فنی وحدت کو مرزا غالب کی زمینوں میں طبع آزمائی کرکے نعتیہ ادب کے تاریخی ورثہ میں بیش بہا اضافہ کیا ہے۔

ساغر دل میں بھری ہے مئے حب احمد

دل سے اٹھتی ہے تو بنتی ہے دعا موجِ شراب

(ساجد اسدی) _____________

میں کہ اے راغبؔ انہیں کا ہوں غلام کمتریں

ان کے قدموں سے لپٹ جائوں تو ٹھکرائیں گے کیا

(راغب مرادآبادی) _____________

عمر کیا تھی مرے دکھ درد کی، گر تھی اے دل

ان کی بس ایک عنایت کی نظر ہونے تک

(امان خان دل)


صنعت ِعاطلہ یا غیر منقوط کی پابندی عائد کرکے شعر کہنا بشرطیکہ شاعر خیال کے ابلاغ، حسنِ اظہار، زبان کی لطافت اور الفاظ کے دروبست پر گرفت رکھتا ہو، اظہارِ کمالِ فن ہوتا ہے۔ اس صنعت میں بھی دبستانِ کراچی کے شعرا نے اپنے نعتیہ مجموعے پیش کیے۔ مدح رسول (راغب مرادآبادی)، مصدر الہام (صبا متھراوی) اور روح الہام (شاعر لکھنوی) نے اپنے ان نعتیہ مجموعوں میں اتنی معنوی و صوری خوبیاں پیدا کردی ہیں کہ ہم انہیں ایجاز میں اعجاز اور شاعری میں ساحری کی مثال کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ان کے علاوہ بھی مولانا محمد ولی رازی، رشید وارثی وغیرہ نے اس صنف کو نعت سے روشن رکھا۔

لاکھ در مدح محمد ہمہ دم لکھا ہے

اس کا احساس مسلسل ہے کہ کم لکھا ہے


حوصلہ کس کو کہ حال اس کے کرم کا لکھے

کرم اس کا ہے کہ احوالِ کرم لکھا ہے

(شاعر لکھنوی)


تغزل نعتوں میں اور بالخصوص غزلیہ نعتوں میں اکثر نظر آتاہے لیکن کہیں کہیں اس تغزل کی سطح ایسی ہوتی ہے کہ یہ نعت کے اشعار حضورکی ذات سے متعلق معلوم نہیں ہوتے۔ مثلاً :

تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

مرے چمن کی فضائیں سلام کہتی ہیں


جس میں ہو ترا ذکر وہی بزم ہے رنگیں

جس میں ہو ترا نام وہی بات حسیں ہے

اس اندازِ کلام کو کون نعت احمد مختار کے حوالے سے جانے گا؟ دبستان کراچی کے شعرا نے تغزل کے اس لہجے کو حضور کی نسبت سے ایسی بلندی عطا کی ہے کہ خود غزل کا لہجہ رفیع تر ہو گیا ہے۔

کسی کا نام لے کر آگیا تھا بزمِ امکاں میں

کسی کا نام لے کر جا رہا ہوں بزم امکاں سے

(ارمان اکبر آبادی)


اس دل میں رہ چکی ہے تمنا گناہ کی

یہ دل ترے خیال کے قابل ہیں رہا

(جمیل نقوی)


یا کرے اس کا تذکرہ ہر شخص

یا کوئی ہم سے گفتگو نہ کرے

(شکیل احمد ضیا)


ایک ہی در سے بر آتی ہے کہاں سب کی اُمید

یہ کس کا ذکر لب پر ہے کہ خوشبو

(نیاز بدایونی)


موسموں سے ہمیں رکھتی ہے کوئی یاد آزاد

ہاں مگر ایک در ایسا نظر آتا ہے مجھے

(رضی اختر شوق)


دہن سے گفتگو کرنے لگی ہے

ہم گزرتے ہیں بہار اور خزاں سے کیسے


(انور شعور)

یہ چند شعر جو پیش کیے گئے ہیں ان میں سرورِ عالم aکا اسم گرامی کہیں نہیں آیا لیکن قرینہ کلام اور الفاظ کا مؤدب بیٹھنا کتنا واضح ہے۔ اُردو میں حمد و نعت کے علاوہ منقبت کا سلسلہ بھی پرانا ہے۔ کراچی کے شعرا کی خدمات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انھوں نے منقبت کو نعت کے دائرے میں شامل کیا ہے۔ نبی کریم aکے تین ہمیشہ قائم رہنے والے معجزے، آپ کا اُسوہ، قرآن حکیم اور صحابہ و اہلِ بیت ہیں۔ آج کے نعت گو شعرا وابستگانِ رسول کے کردار اور زندگی میں نبی کریم aکی زندگی اور اُسوہ کے نقوش دیکھ رہے ہیں جو دراصل قرآن ہی کا اتباع ہے۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِط وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗ (الفتح )


کے چند الفاظ میں یہ حقیقت سمٹ آئی ہے۔ نعت گوئی میں، کسی کی بھی نسبت حضور کی نسبت پر منتقل ہو کر زیادہ معتبر ہو جاتی ہے۔ چند شعر ملاحظہ کیجیے۔


جز نسبت صدیقی کیا نام و نسب اپنا

ہم ان کے رفیقوں کے قدموں کے نشاں ٹھہرے

(سرشار صدیقی)


انہی کے قرب سے بوبکر بن گئے صدیق

ملی علی کو اسی ذات سے سیادت بھی

(عزیز احسن)


ان کے قدموں پہ گرے ریت کی دیوار سے وہ

سہل تھا جن پہ پہاڑوں کو سنبھالے رکھنا

(زیب غوری)


وہ ان ہی کے صحابہ تھے جنھوں نے ان کی چاہت میں

نہ اپنی جاں کو جاں سمجھا نہ اپنے گھر کو گھر جانا

(منظر عارفی)


وہ جس کی ضو سے تابندہ ہیں بدر و کربلا اب تک

عطا اُمید کو یارب وہی کردار ہو جائے

(اُمید فاضلی)


اگر ہم اُسوۂ آلِ نبی اپنائیں تو صہبا

بہت دشوار یہ دنیا بہت آسان ہو جائے

(صہبا اختر)


جیلانی و چشتی ہوں وہ رومی ہوں کہ سعدی

روشن ہیں ہر اک ذہن میں افکارِ مدینہ

(صفدر صدیق رضی)


ہر اُمتی کے ساتھ نبی کریم aکا تعلق اجتماعی ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ انفرادی بھی ہے۔ ہر ایک کی ذاتی خصوصیات، ان کی نسبت سے راستہ بھی پاتی ہیں اور مضبوط بھی ہوتی ہیں۔ یہی گوناگونی دبستانِ کراچی کی نعت گوئی میں بھی نظر آتی ہے۔ کہیں نعت اپنی ذات کی سالمیت کا اظہا ر ہے، کہیں ملت کا استغاثہ ہے، کہیں فکر کا اشاریہ ہے اور کہیں حضورa سے اور اپنے آپ سے گفتگو کا وسیلہ ہے۔ لیکن بیشتر شاعروں کے ہاں یہ رنگ ایک ساتھ نظر آتا ہے جس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نعت گوئی سے شاعروں کی شخصیت میں بھی توسیع ہوئی ہے۔

سطورِ بالا میں دبستانِ کراچی کی نعت گوئی کا ایک مختصر منظرنامہ پیش کیا گیا اور اس ضمن میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان کا مقصد تفاخر نہیں بلکہ تعارف ہے اور وہ بھی بہت اجمالی۔ چلتے چلتے کراچی میں نعت کے نقد و نظر کے اور تحقیق و تجسس کے منظرنامے پر بھی ایک اُچٹتی سی نظر ڈالنا اس منظرنامے کو مکمل کرنے کے مترادف ہوگا۔

نعتیہ صحافت

کراچی کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ پاکستان میں باقاعدہ نعتیہ صحافت کا آغاز یہیں سے ہوا۔ 1984ء میں ادیب رائے پوری کی ادارت میں اوّلین ماہنامہ رسالہ ’’نوائے نعت‘‘ اشاعت پذیر ہوا جو 8 سال تک جاری رہا۔ بعدازاں شہزادؔ احمد کی ادارت میں ماہنامہ ’’حمد ونعت‘‘ کا اجراء 1990ء میں ہوا یہ رسالہ 1996ء تک ہی اپنا سفر جاری رکھ سکا۔ 1995ء میں مجلہ ’’نعت رنگ‘‘ نے اپنے اشاعتی سفر کا آغاز کیاجو بحمداللہ اب تک جاری و ساری ہے۔ 1998ء میں مجلہ ’’جہانِ حمد‘‘ کی اشاعت شروع ہوئی۔ طاہر سلطانی کی ادارت میں شائع ہونے والے اس کتابی سلسلے نے حمدیہ ادب کے فروغ کے لیے کام کیا۔ 2001ء میں کتابی سلسلہ ’’سفیر نعت‘‘ کراچی کے نعتیہ ادب کے منظرنامے پر طلوع ہوا جس کے مدیر آفتاب کریمی تھے۔ اس کتابی سلسلے کے پانچ شمارے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے جس میں دو خاص نمبر تھے۔ ان میں محسن کاکوروی نمبر کو بہت اہمیت حاصل ہوئی۔ سفیر نعت کا اشاعتی سفر 2005ء میں اختتام پذیر ہوا۔ نوجوان نعت گو شاعر عزیزالدین خاکی کی ادارت میں مجلہ ’’دنیائے نعت‘‘ نے 2001ء میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اس مجلے کے تین ہی شمارے شائع ہو سکے اور یوں دنیائے نعت 2002ء تک اپنا یہ سفر جاری رکھ سکا۔


2004ء میں طاہر سلطانی کی زیر ادارت ایک ماہنامے کا اجرا ہوا جس کا نام ماہنامہ ’’ارمغانِ حمد‘‘ کراچی تھا۔ اس رسالے نے حمد و نعت کے فروغ میں ایک مثبت کردار ادا کیا اور اپنے اشاعتی سفر کو بھی مستحکم رکھا۔ 2011ء تک اس کے 85 شمارے شایع ہو چکے تھے۔ اب سنا ہے کہ اسے بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور اس کا 100 واں شمارہ اس کا آخری شمارہ قرار دیا جارہا ہے جو نومبر 2016ء تک منظرعام پر نہیں آسکا۔2006ء میں نوجوان اور پُرعزم ثنا خواں محمدزکریا شیخ الاشرفی نے کتابی سلسلے ’’نعت نیوز‘‘ کا اجرا کیا۔ یہ مجلہ بنیادی طور پر نعت خوانی کے آداب اور سرگرمیوں سے متعلق رہا مگر اس میں نعتیہ ادب کے حوالے سے بھی کئی اہم چیزیں شامل ہوئیں۔ 2010ء تک اس کے پانچ شمارے شائع ہوئے بعدازاں اس کو سہ ماہی کردیا گیا مگر یہ رسالہ بوجوہ اپنا سفر جاری نہ رکھ سکا۔ 2014ء میں کتابی سلسلہ ’’جہانِ نعت‘‘ نے اپنا سفر شروع کیا جس کے مدیر محمد رمضان میمن ہیں۔ 2014 سے 2016ء تک اس کے پانچ شمارے منظر عام پر آئے جس میں مسرور کیفی نمبر اور اقبال عظیم نمبر اہمیت رکھتے ہیں۔


اس مختصر جائزے سے کراچی میں نعتیہ ادب کے فروغ کے لیے کی جانے والی مساعیٔ جمیلہ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پوری دنیا میں کسی اور شہر کو یہ اعزاز حاصل نہیں جہاں سے اتنی بڑی تعداد میں حمد و نعت کے حوالے سے جرائد نے اپنا اشاعتی سفر شروع کیا ہو ۔ان رسائل و جرائد کے اثرات کو نعت کے فروغ و ارتقا کی تاریخ میںنظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ نعتیہ تدکرہ نگاری


کراچی میں نعتیہ ادب کے فروغ کے لیے ہر ممکن اقدام کو بروئے کار لانے کا جذبہ دکھائی دیتا ہے۔ نعتیہ تذکرہ نگاری کے ذیل میں بھی یہاں کئی قابل قدر کام کیے گئے اور بعض لوگوں نے اس میں دل جمعی سے کام کیا۔ ایسے لوگوں میں ہمارے سامنے حمایت علی شاعر، نور احمد میرٹھی، ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری، سیّد محمد قاسم، ڈاکٹر نعیم تقوی، ڈاکٹر شہزاد احمد، غوث میاں، منظرعارفی اور طاہر سلطانی کے نام ہیں جنھوں نے ملکی اور علاقائی سطح پر نعت گو شعرا کے کئی تذکرے مرتب کرکے نعتیہ تاریخ کے نقوش کو محفوظ کرنے اور اس کے فروغ کے خدوخال کو اجاگر کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ تنقید و تحقیق نعت

نعتیہ ادب کی پرکھ اور تحقیقی زاویوں سے بھی شہر کراچی کے متعدد اہل علم نے کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں۔ صرف جامعاتی سطح پر تحقیقی مقالات لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے محققین پر ایک نظر ڈالئے۔


ڈاکٹر عزیز احسن - (اُردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ)

ڈاکٹر شاہ محمد تبریزی - (عہد نبوی کی نعتیہ شاعری)

ڈاکٹر محمد طاہر قریشی - (ہماری ملی شاعری میں نعتیہ عناصر)

ڈاکٹر تنظیم الفردوس - (اُردو کی نعتیہ شاعری میں مولانا احمد رضا خاںؒ کی انفرادیت و اہمیت)

ڈاکٹر جہاں آرا لطیفی - (بیسویں صدی میں اُردو نعتیہ شاعری پر عربی زبان کے اثرات)

ڈاکٹر شہزاد احمد- (اُردو نعت پاکستان میں)

ان حضرات کے علاوہ ابھی کئی دوسرے لوگ بھی اس وقت جامعاتی سطح پر نعت کے مختلف پہلوئوں پر تحقیقی مقالات لکھنے میں مصروف ہیں جو جلد منظر عام پر آجائیں گے۔


نعت پر تنقیدی زاویوں سے لکھی جانے والی کتب اور ان کے مصنّفین میں سے بیشتر کا تعلق بھی شہرِ کراچی ہی سے ہے۔ یہ تعلق خود اس بات کی زندہ گواہی ہے کہ کراچی کی ادبی فضا میں نعت کو کس درجہ اہمیت حاصل ہے۔ سب سے پہلے ان دو انتخاب کا ذکر ضروری ہے ، جن میں پیش لفظ کے طور پر لکھے گئے مضامین نے بنیادی طور پر نعت کے تحقیقی و تنقیدی زایوں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں ممتاز حسن کا انتخاب نعت ’’خیرالبشر کے حضور میں‘‘ جس کا دیباچہ ادبی پہلوئوں پر گفتگو کی وجہ سے خاص اہمیت کا حامل رہا۔ یہ دیباچہ ممتاز حسن کا وہ خطبہ ہے جو انھوں نے 1966ء میں بزم نعت و مناقب کے زیر اہتمام منعقدہ کل پاکستان محفل نعت کے موقع پر دیا تھا۔ بعدازاں اسے ’’خیبرالبشر کے حضور میں‘‘ شامل کیا گیا۔ دوم ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا انتخاب ’’اُردو کی نعتیہ شاعری ‘‘جس میں اردو کی نعتیہ شاعری پر ایک مبصرانہ مگر اہم مضمون بھی شامل ہے۔ یہ دونوں انتخاب اپنی اہمیت و افادیت میں نعتیہ ادب کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب نعت پر ابھی تنقیدی زایوں سے گفتگو کو فروغ حاصل نہیں ہوا تھا۔ اس لیے ان کتابوںنے نعتیہ ذوق کوپروان چڑھانے اور ادبی دنیا کو نعت سے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آیئے اب کراچی سے تعلق رکھنے والے ان افراد کی تحقیقی و تنقیدی کاوشوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں جنھوں نے تنقیدی و تحقیقی زاویوں سے نعتیہ ادب کو سنجیدہ مطالعات سے قریب تر کیا۔اس میں شک نہیں کہ نعتیہ ادب میں تنقیدی سرگرمیوں کا آغاز باقاعدہ طور پر کراچی ہی سے ’’نعت رنگ‘‘ کی اشاعت کے ساتھ ہوا او ر اس نے ایک تحریک کی صورت اختیار کرلی۔سو ہم دیکھتے ہیں کہ اس تحریک سے وابستہ قلم کاروں نے جم کر نعت کے تنقیدی رجحانات اور ادبی پہلوؤں پر اپنی کتابوں میں گہرے مطالعات پیش کیے۔ جس نے معاصر ادبی فضا میں تیزی سے اپنی جگہ بنائی۔

سید افضال حسین فضل فتح پوری - اُردو نعت تاریخ و ارتقا

بخار علیگ - سوئے ادب فی حسنِ ادب

ڈاکٹر سیّد ابوالخیر کشفی - نعت اور تنقید نعت

ڈاکٹر سیّد ابوالخیر کشفی - نعت شناسی

ڈاکٹر عزیز احسن - اُردو نعت اور جدید اسالیب

ڈاکٹر عزیز احسن - نعت کی تخلیقی سچائیاں

ڈاکٹر عزیز احسن - ہنر نازک ہے

ڈاکٹر عزیز احسن - نعت کے تنقیدی آفاق

ڈاکٹر عزیز احسن - نعتیہ ادب کے تنقیدی زاویے

ڈاکٹر عزیز احسن - اُردو نعت کا ادبی سفر پاکستان میں

ادیب رائے پوری - مشکوٰۃ النعت

ادیب رائے پوری - مدارج النعت

ادیب رائے پوری - نعتیہ ادب میں تنقید و مشکلات تنقید

پروفیسر شفقت رضوی - اُردو میں حمد گوئی

پروفیسر شفقت رضوی - اُردومیں نعت گوئی

پروفیسر شفقت رضوی - نعت رنگ کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ

پروفیسر ہارون الرشید - اُردو نعت گوئی کا تنقیدی جائزہ (قرآن کی روشنی میں)

ابوالامتیاز ع س مسلم - سرودِ نعت

ڈاکٹر شہزاد احمد - اُردو میں نعتیہ صحافت

ڈاکٹر شہزاد احمد - اساس نعت گوئی

رشید وارثی - اُردو نعت کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ (شریعت اسلامیہ کی روشنی میں)

طاہر سلطانی - اُردو حمد کا ارتقا

صبیح رحمانی - اُردو نعت کی شعری روایت

صبیح رحمانی - اُردو نعت میں تجلیات سیرت

صبیح رحمانی - نعت نگر کا باسی

صبیح رحمانی - غالب اور ثنائے خواجہ

صبیح رحمانی - ڈاکٹر عزیز احسن اور مطالعات حمد و نعت

ڈاکٹر فرمان فتح پوری - چند نعت گویانِ اُردو

علامہ شمس بریلوی - کلام رضا کا تحقیقی و ادبی جائزہ

مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی - نعت اور آدابِ نعت

مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی - کلام اعلیٰ حضرت ترجمان حقیقت

جاذب قریشی - نعت کے جدید رنگ


ان تنقیدی کتب کے علاوہ کراچی سے بعض اہم حمدیہ و نعتیہ منتخبات بھی شائع ہوئے جو مجموعی طور پر حمد و نعت کے فروغ میں اضافے کا سبب بنے ، ایسے منتخبات میں:


ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیر کشفی - نقش سعادت

ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیر کشفی - سفینہ نعت

غلام نبی - بستانِ نبی

ڈاکٹر عزیز احسن - جواہر النعت

میر واصف علی - صلِّ علیٰ محمدؐ

مہرؔ پیلی بھیتی - اذکار و افکار

غوث میاں - انتخابِ حمد

غوث میاں - خواتین کی حمدیہ شاعری

غوث میاں - خواتین کی نعتیہ شاعری

طاہر سلطانی - نعت رحمت

طاہر سلطانی - خزینہ حمد

طاہر سلطانی - اذانِ دیر

رئیس احمد - حریم نعت

صدیق اسمٰعیل - انوار حرمین

صدیق اسمٰعیل - رنگ رضا

شفیق بریلوی - ارمغان نعت

شبیر احمد انصاری - شبستانِ حرا

ظہور خاں پارس - نعت انسائیکلوپیڈیا

نور احمد میرٹھی - نور سخن

راغب مراد آبادی - محمد ٌ

محمد اکرم -ابر کرم

شہزاد احمد - انوارِ عقیدت

سعید ہاشمی - بلبل بستانِ مصطفی

صبیح رحمانی - ایوانِ نعت

صبیح رحمانی - مدحت نامہ

خورشید احمد - یہ سب تمہارا کرم ہے آقا

عزیز الدین خاکی - حبیبی یا رسول اللہ

محمدیامین وارثی - نعت مصطفی

محمدیامین وارثی - عظمت مصطفی

محمدیامین وارثی - تنویر مصطفی

محمدیامین وارثی - قربت مصطفی

محمدیامین وارثی - نور مصطفی

محمدیامین وارثی - الفت مصطفی

محمدیامین وارثی - شانِ مصطفی


ان انتخاب ہائے نعت میں بعض مرتبین نے مقدمے بھی ایسے لکھے ہیں جو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تابناک حصہ بننے ہیں جیسے ’’جواہرالنعت‘‘ میں ڈاکٹر عزیز احسن کا مقدمہ جو بعد میں متعدد رسائل و جرائد اور اخبارات کی زینت بنا۔ یا ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کا سفینہء نعت پر وہ مقدمہ جو انھوں نے مسرور کیفی کے فکر و فن پر تفصیل سے لکھا۔ان منتخبات حمد و نعت کے علاوہ مجلس احبابِ ملت کے نعتیہ مشاعروں میں پڑھے جانے والے کلاموں کے انتخاب کی متعدد جلدیں جو ’’انوارِ حرم‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بستانِ وارثہ کے حمدیہ نعتیہ مشاعروں کے سالانہ انتخاب جوہر بار مختلف ناموں سے شائع ہوئے اور اب تک مجموعی طور پر حمد کے 4 اور نعت کے 22، انتخاب شائع ہو چکے ہیں جو معاصر نعت گوئی کے منظر نامے کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ ردیفوں کی طرفگی کے اظہار کی دستاویز بھی ہیں۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد مولانا ضیا ء القادری بدایونی کی سر پرستی میں ہونے والے نعتیہ مشاعروں کی روایت نے کراچی کی ادبی فضا میں نعت گوئی کو پھلنے پھولنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ ساتھ ہی انجم فانوسِ ادب لیاقت آباد، اقبال صفی پوری، شیخ محمد الٰہی ، دارالعلوم امجدیہ، نیشنل بینک آف پاکستان کے علاوہ ذہین شاہ تاجی ، پیر فاروق رحمانی اور بقا نظامی کے آستانوں پر منعقد ہونے والے سالانہ اور ماہانہ نعتیہ مشاعروں نے نعت کے فروغ میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ نعتیہ شاعری کا فروغ ہوا تو نعتیہ مشاعروں کی بہار بھی دیکھنے میں آئی اور شہر کی تقریباً تمام ادبی تنظیموں نے نعتیہ مشاعروں کو اپنی ادبی سرگرمیوں میں شامل رکھا۔


مجھے اُمید ہے کہ دبستانِ کراچی میں نعت گوئی اور اس کے فروغ کے مختلف ادوار کا ایک سرسری سا جائزہ اور منظرنامہ آپ کے سامنے واضح ہو گیا ہوگا۔ اس جائزے سے گزرنے کے بعد ’’مدحت نامہ‘‘ کی بابت چند معروضات پیشِ خدمت ہیں:


بعض کام بغیر کسی پیشگی منصوبے یا ارادے کے شروع ہو کر بھی وقت کی دیواروں پر اپنے دائمی نقوش قائم کر لیتے ہیں۔ ’’مدحت نامہ‘‘ بھی ایک ایسی ہی کوشش و کاوش ہے، جسے میں تائید و توفیق الٰہی کے سوا کسی اور خانے میں رکھ کر نہیں دیکھ سکتا۔ اس کی تدوین و تالیف کا خیال اچانک اس وقت میرے ذہن میں آیا جب میں منظرعارفی کو ’’کراچی کا دبستانِ نعت‘‘ جیسا اہم تذکرہ مرتب کرنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ کر رہا تھا۔ شہر کراچی کے صاحب کتاب نعت گو شعرا کے اس اہم تذکرے کی خاکہ بندی کرتے ہوئے میرا ذہن ایسے غیر صاحبِ کتاب لیکن اہم شعرا کی طرف بھی مائل ہواجن کی ادبی شہرت بھی مسلّمہ تھی اور جنھوں نے نعتیں بھی کہیں تھیں۔بلکہ ان میں سے بعض شعرا کے نعتیہ اشعار نے نعتیہ ادب پر گہرے اثرات بھی مرتسم کیے۔ ایسے شعرا کے کلام کو صرف اس وجہ سے نظرانداز کردینا کہ انھوں نے نعتیہ ادب کو کوئی باقاعدہ مجموعہ نہیں دیا کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ سو ایسے مدحت گزاروں کی نعتیہ شاعری کو ایک علاحدہ انتخاب کی صورت میں مرتب کرنے کا ارادہ میں نے خود کیا اور اس میں اس بات کے اہتمام کو لازمی کر لیا کہ جن شعرا کا کلام اس انتخاب میں شامل ہو ان کی تاریخ پیدائش و وفات کا اندرج کم از کم اس انتخاب میں ضرور کردیا جائے تاکہ یہ مجموعہ کسی حد تک تذکرے سے قریب ہو جائے۔ یہی پابندی اس انتخاب کی انفرادیت کو زیادہ نمایاں کر سکتی تھی اور اس طرح ان شعرا کی بھی بنیادی معلومات جمع ہو سکتی تھیں۔ سو میں نے اس حوالے سے کام شروع کیا مگر مجھے جلد احساس ہوا کہ یہ بھاری ذمہ داری ہے جسے میں اپنی عدیم الفرصتی اور مسلسل اسفار کے باعث زیادہ خوش اسلوبی سے پورا نہیں کرسکتا ۔ کلام جمع کرنا یقینا دشوار نہ تھا مگر ہر شاعر کی تاریخ پیدائش و وفات کے سلسلے میں جو دشواریاں سامنے آئیں وہ خاصی حوصلہ شکن تھیں۔ مرحوم شعرا کے کوائف جمع کرنا تو دشوار تھا ہی مگر زندہ شعرا سے کوائف کا حاصل کرنا بھی آسان نہ تھا۔ کئی تلخ تجربے ہوئے۔ میرے سامنے شہر کراچی کے حوالے سے جو تذکرے موجود تھے، وہ اپنی اہمیت و افادیت کے باوجود محدود منظرنامے پر محیط تھے۔ قیام پاکستان سے لے کر تاحال لاکھوں شعرا کے اس شہر میں صرف چند سو شعرا کے احوال و کوائف ہی اب تک محفوظ ہو سکے ہیں۔ یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔


بہرحال میں نے کسی نہ کسی طرح کام جاری رکھا مگراس کام کو زیادہ وسعت دینے کے لیے میرے پاس یقینا وقت کی کمی تھی سو میں نے چند ماہ میں جو محنت کی اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ مجھے اس انتخاب کی تنگ دامانی پر شرمندگی ہے مگر یہ خوشی بھی ہے کہ اس جستجو کے سفر میں ایسے کئی شعرا کی نعتیں بھی دست یاب ہوئیں جو نہ ان کے کلام میں شامل تھیں نہ ہی ان کے اہل خانہ کے پاس ان کا کوئی ریکارڈ موجود تھا۔ تلاش سچی ہو تو رب کی طرف سے مدد ضرور آتی ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ ان چند شعرا کے کلام کے ساتھ تاریخی حوالوں کا طبع ہونا یقینا مستقبل میں تذکرہ نگاری اور نعت کے تخلیقی سفر پر نظر ڈالنے والوں کے لیے ضرور مفید ہوگا۔ ’’مدحت نامہ‘‘ شہر کراچی کی کئی نسلوں کا عقیدت نامہ ہے سو اسے آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوے مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ میں نے اپنے شہر کا کچھ نہ کچھ حق ادا کر نے کوشش کی ہے۔ اس سعادت پر میں اپنے رب کا شکرگزار ہوں۔


____صبیح رحمانی

نعتیں

آذرؔنایاب بدایونی

(۵؍ جولائی ۱۹۲۸ء بدایوں …۸ا؍پریل۲۰۰۶ء کراچی)

دل کو کوئی حسیں مشغلہ چاہیے

ہرنفس وردِ صل علیٰ چاہیے


دارفانی میں لیکن بقا چاہیے

ہم کو خاکِ درِ مصطفی چاہیے


بہر پائے حبیب خداچاہیے

فرش بھی کم سے کم عرش سا چاہیے


مل گیا سایۂ دامنِ مصطفی

مجھ گنہگار کو اور کیا چاہیے


مدح محبوب رب اورآذرؔ کے لب

اس سے بڑھ کر شرف اور کیا چاہیے

آرزوؔ لکھنوی

(۱۷؍ فروری ۱۸۷۳ء لکھنؤ…۱۶؍اپریل ۱۹۵۱ء کراچی)


ازل سے نقشِ دل ہے ناز جانانہ محمد کا

کیا ہے لوح نے محفوظ افسانہ محمد کا


ڈرے کیا آتش دوزخ سے دیوانہ محمد کا

کہ اٹھتے شعلے گل کرتا ہے پروانہ محمد کا


ظہور حال و مستقبل سے ماضی کو مِلا دوں گا

مجھے پھر آج دہرانا ہے افسانہ محمد کا


دوئی ایک داغِ تہمت ، غیرتِ الزام بے معنی

دہ دنیا ہے جسے اپنائے یارانہ محمد کا


شفاعت کی دعا میں وہ ہوا دیتے ہیں پر اس کے

جہنم کو بجھا سکتا ہے پروانہ محمد کا


یہاں سے تابہ جنت روک ہے کوئی نہ پُرشس ہے

جہاں چاہے چلا جا ! بن کے دیوانہ محمد کا


رسائی کب ہے اس تک ہوشِ انساں عقلِ درسی کی

جو اپنی رو میں کہہ جاتا ہے دیوانہ محمد کا


شعاع اس پار شیشے کے ، نظر اس پار شیشے کے

جھلک دیکھی کہ پہنچا اُڑ کے پروانہ محمد کا


درود اوّل سخن ہو آرزوؔ ! پھر شعر نعتیہ

زباں دُھو ڈال اگر کہنا ہے افسانہ محمد کا

آفاق صدیقی

(۱۹۳۵ء مین پوری …۱۷؍جون ۲۰۱۲ء کراچی )


سبز گنبد کی زیارت کارواں در کارواں

جیسے ہو دنیا میںجنت کارواں در کارواں


جانبِ طیبہ رواں ہیں کتنے جذب و شوق سے

تشنہ کامانِ محبت کارواں در کارواں


جادٔہ انسانیت روشن ہے ان کے نور سے

کیوںنہ ہو آقا کی مدحت کارواں در کارواں


دل کی آنکھوں سے ذرا دیکھو تواے دیدہ ورو

رہنما ہے ان کی رحمت کارواں در کارواں


ہر طرف صل علیٰ صل علیٰ کی گونج ہے

بڑھ رہی ہے کتنی چاہت کارواں در کارواں


کیا صعوبت کیا مسافت ایسی راہ شوق میں

ساتھ ہے راحت ہی راحت کارواں در کارواں


یہ حضوری کا سماں،آفاقؔ آپے میں کہاں

جوشِ اظہار عقیدت کارواں در کارواں


آفتاب مضطرؔ

(۱۳؍اگست ۱۹۵۹ء کراچی)

قلم نے حرفِ ثناء جیسے ہی شروع کیا

فلک نے وجد میں قرطاس پررکوع کیا


ہوئی جوفکر لکھوں نعت شان کے شایان

حسین شعر نے مطلع معاً طلوع کیا


جو نعت لکھتے ہوئے ایک بھی گراآنسو

چمکتے چاند نے قرطاس پر وقوع کیا


مرے لبوں نے کیا جب بھی ذکرِ صلِّ علیٰ

بہ صد خضوع کیااور بہ صدخشوع کیا


اسی کو شان بڑھانی تھی آسمانوں پر

تواس نے آمدِ سرکار سے رجوع کیا


توپہلی بارہُوا آسمان رشک سے زیر

زمیں پہ گنبد خضرا نے جو شیوع کیا


ہمیں حضور نے بخشا تھا سیدھا سادا دین

مناقشات سے ہم نے اسے فروع کیا


صدائے صل علیٰ آرہی ہے مضطرؔ کیوں؟

یہ کس کے ذکر نے مقطع میں آ،وقوع کیا!


ابرار عابدؔ

(اپریل ۱۹۴۲ء بنارس…۱۴؍جون ۲۰۱۱ء)


ہے سر عشق سے مجھے درکار آگہی

سرکار آگہی مرے سرکار آگہی


لازم ہے اتباع نبی میںجہادِ نفس

ہاتھوں سے چھین لیتی ہے تلوار آگہی


کیا ہیں درحضور پہ آدابِ عرضِ حال

رکھتے ہیں اس عمل سے گنہگار آگہی


سرکار نے دیا ہے جو منشورِ زندگی

عامل نہ ہو بشر تو ہے بیکار آگہی


پیش نظر ہو اُسوۂ خیرالبشر اگر

پل میں سنوار دیتی ہے کردار آگہی


ہراک کے بس کی بات نہیں عشق مصطفی

جذبہ یہ دل میں کرتی ہے بیدار آگہی


درکار ہے سکوں تومدینے کارخ کرو

آواز دے رہی ہے لگاتار آگہی


وابستہ ہوگیا جو در شہر علم سے

کردیتی ہے اسے فلک آثار آگہی


عابدؔ میں بہر نعت اٹھاتا ہوں جب قلم

ہوتی ہے بام فکر پہ ضوبار آگہی

ابن صفی

(۱۷؍مئی۱۹۲۸ء ۔الہٰ آباد…۲۶؍جولائی۹۸۰ء کراچی)


میرے آقا!

	میں کس منہ سے در پر تیرے حاضری دوں

میرے ماتھے پہ اب تک نشانِ عبادت نہیں

ایک بھی نیک عادت نہیں

میری جھولی گناہوں سے پُرہے

میرے ہاتھوں کی آلودگی باعثِ شرم وغیرت بنی

میرے آقا !

میں کس منہ سے درپر تیرے حاضری دوں

پھر بھی آقا مرے! پھر بھی مولا میرے!

تیرے در کے سوا اورجاؤں کہاں؟

ہواجازت مجھے حاضری کی عطا

میرے آقا !میں نادم ہوں اپنی بدعادات پر

اجملؔ سراج

(۱۴؍اگست ۱۹۶۸ء کراچی)

خدا کی بزمِ جہاں پر ہے یہ عنایتِ خاص

کہ دے کے آپ کو بھیجا گیا ہدایتِ خاص


خدا اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں

نگاہِ شوق میں آیت یہی ہے آیتِ خاص


بجز زیارتِ روئے رسول جنت سے

غرض ہی خاص ہمیں ہے کوئی نہ غایتِ خاص


نبیِ خاتم و ختم الرسل ہیں آپ بس آپ

نہایتوں میں نہایت ہے یہ نہایتِ خاص


ہم امتی ہیں رعایت یہ خاص ہے ہم سے

خوشا کہ حشر کے دن بھی ہو یہ رعایتِ خاص


احسن سلیم

(۲۵؍مئی ۱۹۴۸ء، جے پور…۲۶؍جون ۲۰۱۶ء کراچی)

اس دور کم حیات میں امکان چاہیے

آقا ہمارے عہد کو انسان چاہیے


ظلمت کدے میں آپ کا احسان چاہیے

یعنی حساب حشر کا سامان چاہیے


اس دشت روزگار میں انصاف کے لیے

ہم کو خمیر خاک سے میزان چاہیے


اس شام بے چراغ پہ آسان ہویہ وقت

سر پر حضور آپ کا دامان چاہیے


اس خیروشر کے معرکے میں آپ کے طفیل

ہم کو حریفِ عشق سے تاوان چاہیے


احمد جاوید

(۱۸؍نومبر ۱۹۵۵ء سراواں الٰہ آباد)

چشمِ نظارہ طلب طیبہ میں کام آئی نہیں

منزل دید پہ درکار یہ بینائی نہیں


ایک آواز عمرِؔ لہجہ و صدیقؔ آہنگ

دل سے کہتی ہے تجھے اذنِ شکیبائی نہیں


میں نے بھی نذرگزاری تھی متاعِ دل و جاں

شکرصد شکر کہ سرکار نے ٹھکرائی نہیں


گہرِ وصفِ نبی کی ہو سمائی جس میں

بحر تو بحر ہے ، دل میں بھی وہ گہرائی نہیں


کون سی راہِ ہدایت ہے جو اس ہادی نے

دل کو دکھلائی نہیں ، عقل کو سمجھائی نہیں


کاش اُس بات سے محفوظ رہیں یہ لب و گوش

جو مرے سید و سردار نے فرمائی نہیں


چاکِ پیراہنِ ہستی کو رفو کرتے ہیں

ان کے دیوانے بڑے لوگ ہیں ، سودائی نہیں


دل میں اک حرف کیا حبِ نبی نے ایجاد

کہ جو شرمندۂ خاموشی و گویائی نہیں


سیدی آپ کی الفت کے مقابل کوئی شے

ماں نہیں ، باپ نہیں ، بیٹے نہیں ، بھائی نہیں


آپ کی شان گرامی ہے خدا کی وہ بات

جو کبھی اُس نے کسی اور میں دہرائی نہیں


رفعتیں آپ کے نقشِ کف پاسے ابھریں

وہ بلندی نہیں جوزیر قدم آئی نہیں


آپ کے درسے نہ مردود کیاجاؤں میں

دل کسی اور کرامت کا تمنائی نہیں


سرورا ، آپ کی امت پہ مسلط ہیں وہ لوگ

جن کو اللہ کے آگے بھی حیا آئی نہیں


بسکہ باور نہیں آتی یہ حکایت ہم کو

حاکمِ شہر مسلماں ہے ، کلیسائی نہیں


جب بھی دنیا کی طرف شوق سے دیکھا جاویدؔ

دلِ بیدار پکارا کہ نہیں ، بھائی نہیں!


احمد صغیر صدیقی

(۱۹۳۸ء بہرائچ ، یوپی)

آرزو ہے یہی دل میں تری چاہت نہ ہو کم

دُور کتنا ہی رہوں لطفِ رفاقت نہ ہو کم


زخم پر زخم لگیں اور یونہی گل رنگ ہو جسم

سنگ پر سنگ چلیں اور کبھی وحشت نہ ہو کم


میرے آقا مجھے دل جوئی کے لفظوں سے نواز

ساری دنیا میں لٹائوں مری دولت نہ ہو کم


تیری بیعت میں رہیں تیری ہدایت پہ چلیں

کج کلاہانہ جئیں شوقِ شہادت نہ ہو کم


یوں ہی کھلتے رہیں ہر شاخِ تمنا پہ گلاب

سرِ شوریدہ رہے، نشۂ اُلفت نہ ہو کم


-

کیا اُن کی طرف آئی یہ بہکی ہوئی دنیا

قربِ نفسِ پاک سے اُجلی ہوئی دنیا


الفاظ تھے اُن کے کہ اُجالوں کے گجر تھے

پُرنور ہوئی دُھند میں ڈوبی ہوئی دنیا


یہ بال و پری اِس کی عنایت ہے اُنہی کی

اُن کی ہی نوازش ہے یہ اُڑتی ہوئی دنیا


یہ فکر اُنہی کی ہے کہ ہر فکر ہے گل رنگ

ہے اُن کے ہی اعجاز سے مہکی ہوئی دنیا


یہ اُن کے قدم تھے کہ بنے باعثِ رحمت

سمٹی ہوئی دنیا ہوئی پھیلی ہوئی دنیا


کیسی تھی نہیں آئے تھے جب تک شہِ والا

وہ آئے تو پھر دیکھیے کیسی ہوئی دنیا


احمد نوید

(۴؍اکتوبر ۱۹۵۸ء)

اے کہ نہایتِ عیاں ، تیرا حجاب اور ہے

تیرا حضور اور ہے ، تیرا غیاب اور ہے


رکھ نہ سکا یہ آفتاب ، تیری کتاب پر کتاب

خامۂ دستِ جبرئیل ، تیری کتاب اور ہے


بڑھ کر ورائے کوہِ طور ، کب ہے گیا کوئی شعور

پر تیری چشم اور ہے ، پر تیری تاب اور ہے


رہ گئے کھا کے پیچ و تاب ، منہ نہ دکھا سکے سراب

تیرے وجود سے رواں ، چشمۂ آب اور ہے


تیری دکاں سے ہی فزوں ، رونقِ کوچۂ جنوں

تیری شراب اور ہے ، تیرا حساب اور ہے


جن کو نہ جذب ہے نہ حال ، تجھ سے کریں گے کیا سوال

پائیں گے تجھ سے کیا جواب ، تیرا جواب اور ہے


احمد ہمدانی،سید محمد احمد

(۱۰؍اکتوبر ۱۹۲۴ء میرٹھ… ۲۶؍ فروری۲۰۱۵ء کراچی)


ہیں اپنے تو آقا و مولا محمد

ہر آفت میں اپنا سہارا محمد


یہی دین اپنا یہی اپنا ایماں

ہو لب پر دمِ واپسیں یا محمد


ہم ایسے گنہگار بھی آپ کے ہیں

کرم آپ کا ہے نہ کیا کیا محمد


عطا ہو محبت کا اتنا تو صدقہ

مرے دل کو آجائے دُکھنا محمد


نہ دُنیا کی خواہش نہ کچھ فکرِ عقبیٰ

ہمیں تو ہیں مطلوب تنہا محمد


اخترؔ حیدرآبادی

(۱۶؍اپریل۱۸۹۴،رامپور…۱۱؍جنوری۱۹۵۸،کراچی)

تھا یہ ترے کمال کا ایک نشانِ برتری

ورنہ عرب کے گلہ باں اور دماغِ قیصری


نغمۂ حق ادھر ہواتیرے رباب سے بلند

رک گئے دفعتاً ادھر ساز و نوائے کافری


تو نے بتا دیا کہ تھی ’’عجز‘‘ میں عظمتِ عروج

تو نے دکھا دیا کہ ہے ’’فقر‘‘ میں شانِ قیصری


تیرے ثباتِ عزم سے ضبطِ شہیدِ کربلا

تیرے شکوۂ رزم پر،سطوتِ زورِ حیدری


کیسے کہوں شہہ رُسل،میں بھی تراغلام ہوں

قبلۂ بندگی مرا،تیرا حریمِ سروری


نفس ذلیل وخود پرست،عقل ضعیف وہرزہ کار

سلسلۂ عمل نہیں،لوثِ گناہ سے بری


قابلِ عفوگو نہیں،میری سیاہ کاریاں

بندہ نواز ہے تری شانِ عطائے سروری


ٹوٹ رہے ہیں دم بدم،جانِ حزیں پہ سنگِ غم

پیس رہی ہے پے بہ پے گردشِ چرخِ چنبری


تیرا مطیع اوریوں صیدِ زُبونِ روزگار

تیرا غلام اوریہ بارشِ تیرہ اختری


خاکِ رہِ نیازہوں ،رتبۂ امتیاز دے

حوصلۂ بلندی و ہستیٔ سرفراز دے


اختر سعیدی،سید اخترعلی

(۲۷؍ اکتوبر ۱۹۵۸ء ٹونک)


ساتھ چلتی ہے مدینے کے سفر میں خوشبو

پھیل جاتی ہے ہر اک راہ گذر میں خوشبو


خاص نسبت ہے گلستانِ محمد سے مجھے

معتبر کیسے نہ ہو میری نظر میں خوشبو


کچھ نہیں لکھتا قلم اسم محمد کے سوا

کس نے رکھ دی ہے مرے دستِ ہنر میں خوشبو


ذکر سرکار دو عالم مرا سرمایہ ہے

کیسے آباد نہ ہوگی مرے گھر میں خوشبو


ان کی یادوں کی دھنک ان کے تصور کی مہک

بھر گئی وسعت دامانِ سحر میں خوشبو


بوئے گلزار نبی ہمسفر جاں ہوتی

اپنے خوابوں میں بسا لیتا اگر میں خوشبو


منزلیں ا س کے قدم چوم رہی ہیں اخترؔ

جس کی تقدیر بنی طیبہ نگر میں خوشبو


اداجعفری

(۲۲؍اگست ۱۹۲۴،بدایوں…۱۲؍مارچ۲۰۰۵ء کراچی)

ذکر ان کا ابھی ہو بھی نہ پایا ہے زباں سے

دل میں یہ اُجالے اُتر آئے ہیں کہاں سے


لُوں سانس بھی آہستہ کہ یہ جائے ادب ہے

تحریر کروں اسمِ نبی ہدیۂ جاں سے


کرنیں سی چھٹک جائیں اسی حجرۂ دل میں

تم ان کو پکارو تو حضورِ دل و جاں سے


ہر دور کی امید ہیں، ہر عہد کا پیماں

پہچان ہے ان کی نہ زمیں سے،نہ زماں سے


وہ جس کی طلب گارہے خود رحمتِ یزداں

زینت ہے دوعالم کی اسی سروِ رواں سے


کیوں قافلے والوں کو ابھی ہوش نہ آیا

منزل تو ملے گی انہی قدموں کے نشاں سے


یہ خوف،یہ صحرا،یہ کڑی دھوپ کے تیور

ہے آس بہت آپ کے دامانِ اماں سے


اس نام کی خوشبو ہے وسیلہ بھی، صلہ بھی

گزرے ہے صبا جیسے جہانِ گزراں سے


ادیبؔ سہارنپوری

(وفات:۱۶جولائی ۱۹۶۳ء کراچی)

مطلع عالم پہ ہرسُو موت ہے چھائی ہوئی

سربرہنہ پھر رہی ہے زیست گھبرائی ہوئی

ہے زمیں لرزاں کہ اب محشر بپا ہونے کوہے

آسماں بھی ہے سراسیمہ کہ کیا ہونے کوہے

امنِ عالم خوں فشاں ہے زانوؤں میں سردئیے

گونجتے ہیں ہرطرف شیطاں کے خونی قہقہے

مادیت کے کرشمے الامان والخدر

قہقہہ زن ہے جہالت علم وفن کی لاش پر

بڑھ رہی ہے بربریت سیل بربادی لئے

آندھیوں کی رو پہ ہیں تہذیبِ حاضر کے دیئے

بڑھ گیاہے بے نہایت زندگی میں انتشار

ہرگھڑی دنیا کوہے بربادیوں کا انتظار

بے طرح دنیا کاامن وعافیت تاراج ہے

اب جہاں تک دیکھئے بے چینیوں کاراج ہے

پانی پانی ہورہاہے دورِ وحشت شرم سے

کارناموں پرترقی یافتہ انسان کے

ملتوں کو جو چلائے جادۂ تخریب پر

لعنت ایسے علم پر، پھٹکار اس تہذیب پر

آہ اے گمراہ مغرب اے گرفتارِاجل

مجھ سے سن ناداں یہ ہے مذہب سے بیزاری کاپھل

الاماں مذہب سے بیزاری کا جذبہ الاماں

جس سے چھا جاتی ہیں قلب وذہن پرتاریکیاں

پھینک دیتاہے اٹھا کرمرکزِ ہستی سے دور

سلب کرلیتاہے کشتِ دل سے نم آنکھوں سے نور

میٹتاہے بے تحاشا چھینتاہے بے درنگ

روح کی پاکیزگی صادق بیانی کی اُمنگ

ذہنیت کو کرکے بیجا خودشناسی کا اسیر

چپکے چپکے گھونٹتا رہتاہے آوازِ ضمیر

کیوں نہ میںکہہ دوں ادیبؔ آخر جو میرے دل میں ہے

امتِ تہذیب حاضر بھی اسی منزل میں ہے

چیخ اٹھنا چاہتی ہے غم سے گھبرا کر زمین

رحمتہ للعالمین یارحمتہ للعالمین


ارم لکھنوی

(۱۹۱۰،لکھنؤ…۵؍فروری۱۹۲۷،کراچی)

کتنی پُرنور مری غایتِ گویائی ہے

التجا اشکِ ندامت میں سمٹ آئی ہے


حسرتِ وادیٔ طیبہ کی گھٹن کیا کہنا

خلد سے میرے لیے چھین کے ہوا آئی ہے


جب کبھی صلِ علیٰ پڑھ کے چمن سے گزرا

مجھ کو کلیوں کے چٹکنے کی صدا آئی ہے


آنکھ ہے بند درودوں کی صداہے دل میں

دوستو کتنی مقدس مری تنہائی ہے


اس پہ سرکار دوعالم نے قدم رکھا تھا

خاک طیبہ کو بجا دعوی یکتائی ہے


بارہا عالم تقدیس کے پردوں سے ارمؔ

گوشۂ دل میں درودوں کی صدا آئی ہے


-


نعلین شکستہ ہے تو بوسیدہ قبا ہے

یہ بادشہِ سلطنتِ ارض و سما ہے


قاسم ہے مگر کرتا ہے فاقوں پہ گذارا

سلطاں ہے مگر مجمع فقرا میں کھڑاہے


خاکی ہے مگر کسبِ ضیاء کرتے ہیں قدسی!

انساں ہے مگرنور کے سانچے میں ڈھلا ہے


اللہ! اِدھر فرش پہ ہے آپ کا بستر

قدموں میں اُدھر عرشِ خدا جھوم رہا ہے


دو نیم اِدھر جنبشِ انگشت سے مہتاب

خورشید اُدھر عرشِ خدا جھوم رہا ہے


تسکینِ دل و جانِ دو عالم کا ہے باعث

اک اسم گرامی کہ سرِ عرش لکھاہے


اسرا کو وہ تنہائی میں تقریبِ ملاقات

کیا میم کے اسرار کا مفہوم کھلا ہے


ہر ادنی واعلیٰ ہے نمک خوارِ محمد

ہر شاہ و گدا آپ کے ٹکڑوں پہ پلا ہے


جھکتے ہیں جہاں آ کے سلاطین زمانہ

وہ بارگہ صاحبِ لولاک لما ہے


اے گلشنِ تطہیر کی نوخیز بہارو !

جو پھول ہے جو غنچہ ہے گلزار نما ہے


کیوں شان کرم کیسی رعایت ہے ارم ؔسے

مجرم ہے مگردامنِ حضرت میں چھپا ہے



درنبی پہ جیسے باریاب دیکھاہے

اس ایک ذرہ کو پھر آفتاب دیکھاہے


تمھارے ایک ہی مجز نما اشارے سے

دونیم ہوتے ہوئے آفتاب دیکھاہے


فراز عرش پہ معراج ہے محبت کی

یہ دل نے فیضِ رسالت مآب دیکھاہے


دیاہمارے پیمبر نے ہم کو وہ قرآں

جہاں کو ہوتے ہوئے لاجواب دیکھاہے


خداسے نام محمد پہ جب دعامانگی

دعا کوہوتے ہوئے مستجاب دیکھاہے


خدا نے ایک محمد میں دے دیا سب کچھ

کریم کاکرمِ بے حساب دیکھاہے


ہماراکعبہ دل اور رسول کا جلوہ

یہ واقعہ ہے الٰہی ! کہ خواب دیکھاہے


خداسے کی وہ محبت کہ بن گئے محبوب

جہانِ حسن میںیہ انقلاب دیکھاہے


ارمؔ !لگائی ہے جب دل نے لُو محمدسے

ہر ایک جذبۂ دل کا میاب دیکھاہے


اسحاق اطہر صدیقی

(۲؍جنوری ۱۹۳۳۔میرٹھ)


نعت بھی حمد باری ہے

یہ کیسی ذمہ داری ہے


یہ اپنی اپنی توفیق

چشمۂ فیض تو جاری ہے


خواب میں ہے طیبہ کا سفر

یہ بھی اِک بیداری ہے


ہر دم لب پہ صلیٰ علیٰ

اپنی یہی تیاری ہے


کیا بتلاؤں وردِ درود

ہر دکھ میں غم خواری ہے


آپ کی رحمت کے صدقے

ہر دم رحمتِ باری ہے


نعت کہاں کہہ پایا ہوں

میں نے عرض گزاری ہے



اسدؔ محمد خاں

(۲۶؍ستمبر۱۹۳۲،ریاست بھوپال)

سُندر نام ِتہار نبی جی

نبی کریم آپ کانام خوبصورت ہے

سُندر نام ِتہارو

آپ کانام خوبصورت ہے

آپ مُرَلیا، آپ َبجَئیّا

آپ ہی نغمۂ سرمدی ہیں،آپ ہی نغمۂ سرمدی کو پھیلانے والے

آپ چندرِیکا، آپ بَدرَیا

آپ ہی چاند کی کرن ہیں،آپ ہی سایہ داربادل ہیں

ساگر نام ِتہار نبی جی

آپ کا مبارک نام سمندرہے

سُندر نام ِتہارو


آپ کانام خوبصورت ہے

سدا رنگ توری سرسوں پھولے

آپ کی کھیتی سرسبز ہے کہ ابدی رنگ میں رچی ہوئی لازوال سرسوں ہے

دُوار بسنت ہنڈولا جھولے

آپ کی چوکھٹ پر ابدی بہار جھولا جھولتی ہے

جنم جنم توری باجے رے بنسی

آپ کا سرمدی نغمہ، حیات در حیات جاری و ساری ہے

ساگر نام ِتہار نبی جی

آپ کا مبارک نام سمندر ہے

سُندر نام ِتہارو

آپ کا نام خوبصورت ہے

نام کریم، دو جگ کے دِیالو

آپ کانام کریم بھی ہے کہ دوجہاں میں آپ کی شفاعت اورکرم جاری ہے

نام چندن سا پایوَ

آپ کوصندل سامہکتا نام ملاہے

نام جپیں رے تورا سب نرناری

سب مرد عورت آپ کے مبارک نام کا ورد کرتے ہیں

داس اسدؔ ُگن گایوَ

یہ غلام اسدؔ آپ کے گن گاتاہے

اسدؔ بھی خوب نصیبا لایوَ

یہ اسدؔ بھی کیسا مقدرلایا ہے(کہ اس قابل ہواہے)

نام جپیں رے توراانتریامی جلَّ جلالہٗ

عالم الغیب نے بھی آپ کی مدح فرمائی ہے

نام محمد پایوَ نبی جی

کہ نبی محترم آپ کومحمد نام عطاہواہے

نام محمد پایو

آپ کو محمد نام عطا ہوا

سُندر نام ِتہار نبی جی

کریم آپ کانام خوبصورت ہے

ساگر نام ِتہارو

آپ کانام سمندر ہے


اسعد شاہ جہاں پوری

(۱۸۸۷ء۔شاہ جہاں پور…۲۲؍ جولائی۱۹۶۶ء۔کراچی)


عرب کا مہر عجم کا مہ تمام آیا

اٹھو کہ لمحۂ تجدیدِ ُصبح و شام آیا


تجمل شب اسرای کو یاد کرتا ہوں

بشر کی عزِّ گرامی کا کیا مقام آیا


رسول آئے تھے اب خاتم رسل آئے

کلام آئے تھے اب حاصلِ کلام آیا


وہ جس پہ کج کلاہان زمانہ نازاں تھے

وہ سب غرور تری بندگی میں کام آیا


خدا کی ذات ہے خلوت ہے اور یاد حبیب

کبھی درود کے تحفے ،کبھی سلام آیا


کہاں زمین، کہاں شمعِ خلوتِ لاہوت

خدا کا گھر کا اجالا ہمارے کام آیا


تصور رخ عالم پناہ کے صدقے

فلک سے آج مہہ و مہر کا سلام آیا


مرے جنوں کی حدیں ختم ہو گئی اسعد

مدینہ آیا مرا مرجع المرام آیا



اسلم فرخی،ڈاکٹر

(۲۳؍اکتوبر۱۹۳۳ء لکھنؤ…۱۵؍جون ۲۰۱۶ء کراچی)

مدحتِ سرورِ کونین تو کیا لکھی ہے

آپ کے حسن سخاوت سے حوالہ پاکر

شبِ معراج کے دامن پہ بہ قابَ قوسین

قامت ناز سے ’’والنجم‘‘ کے آثار عیاں

ورق جاں ہے ترے نورِ صفا سے روشن

مجھ کو شکوہ نہیں ماحول کی سفاکی کا

میرے آقا نے شیکبائی ’’لاتخزن‘‘ سے

بدر شاہد ہے اک بے سروساماں نے یہاں

ہوگئی مجھ پر حرام آتش دوزخِ اسلمؔ!

میں نے ا پنے لیے بخشش کی دعا لکھی ہے

سرنوشتِ کرم و جود و سخا لکھی ہے

عظمتِ سلسلہ مہر و وفا لکھی ہے

رُخِ پُرنور پہ تحریرِ حیا لکھی ہے

صفحہ دل پہ ہراک تیری ادا لکھی ہے

میرے حق میں تو مدینے کی فضا لکھی ہے

اضطراب دل محزوں کی دوا لکھی ہے

سروسامانِ دوعالم کی دعا لکھی ہے

میں نے سرکار دوعالم کی ثنا لکھی ہے

-


اٹھا آقا کے درسے فرخی آہستہ آہستہ

بالآخر آئی رخصت کی گھڑی آہستہ آہستہ

حضوری کا ہراک عرصہ ہواکاایک جھونکا تھا

کٹی ہے اورسازی زندگی آہستہ آہستہ

یہاں جو کچھ بھی ملتاہے بقدر طرف ملتاہے

نظر روشن ہے دل روشن ہے فکر وآگہی روشن

مدینے کی ہراک رہ میں یہی محسوس ہوتاہے

یہاں محتاط رہنا ہی محبت کا تقاضا ہے

بڑی نرمی سے تہذیب دل وجاں ہوتی رہتی ہے

بلند آہنگی دوراں سے بچنے کے لیے میں بھی

یہی جی میں تھا کہ اور ٹھہروں اورکچھ ٹھہروں

کھلا مجھ پہ بھی راز زندگی آہستہ آہستہ

خداوندا بڑھے یہ روشنی آہستہ آہستہ

کہ آئے گا یہاں کوئی ابھی آہستہ آہستہ

یہاں اٹھتا ہے پائے شوق بھی آہستہ آہستہ

یہاں ہوتی ہے طاری بیخودی آہستہ آہستہ

پڑھا کرتاہوں اکثر یانبی آہستہ آہستہ

پڑھا میں نے سلامِ آخری آہستہ آہستہ


اسلم فریدیؔ

(۲۸؍نومبر۱۹۴۶ء بہار… ۲۳؍اگست ۲۰۱۴ء کراچی)

آپ ہی لائے ہیںدنیا میں شریعت پاک صاف

اس لیے امت بھی کرتی ہے محبت پاک صاف


اس حقیقت کے تھے کفارِ مدینہ بھی گواہ

آپ کے ہمراہ تھی جملہ صداقت پاک صاف


رحمت عالم نے بخشی ہے نئی اک زندگی

جسم وجاں کو کرگئی ان کی ہدایت پاک صاف


سیرت سرکار سے گہرا تعلق چاہیے

خاک کواکسیر کرتی ہے محبت پاک صاف


آپ کی امت میں ہوناہے شفاعت کی دلیل

حشر کے دن کام آئے گی یہ نسبت پاک صاف


دین ودنیا کے تعلق میں توازن کے لیے

آپ انسانوں کو کرتے تھے نصیحت پاک صاف


پہلے ذوق وشوق کی اک انتہا کردیکھیے

پھر فریدیؔ خود ہی ہوگی ان کی مدحت پاک صاف


اصطفاؔ لکھنوی

(۴؍اگست۱۸۹۲ء ،قنوج ضلع فرخ آباد - ۲۸؍مارچ،۱۹۶۳ء کراچی)

جڑے ہوئے ہیں جو دل میں مرے نگینے سے

یہ داغِ ہجر ہیں لایا ہوں جو مدینے میں


نہ کیوں ہونورِ مجسم وہ جسمِ بے سایہ

نکال دی گئی ظلمت ہو جس کے سینے میں


مہکتی رہتی ہیںجس سے مدینہ کی گلیاں

علاقہ کیا کسی خوشبو کو اس پسینے سے


نہ رہ سکے گا مدینہ میں بے ادب گستاخ

وہی رہے گا یہاں جو رہے قرینے سے


سفر حجاز کا جب اصطفاؔ ہو آخری بار

توجان ساتھ ہی نکلے مری مدینے سے


اطہر نادر

(۲۸؍ دسمبر۱۹۲۸ء، غازی پور…یکم مارچ ۲۰۰۵ء کراچی)


لکھی گئی جو مدحت سرکار حرف حرف

خوشبومیں سارے بس گئے اشعار حرف حرف


جب بھی سجائی نعت کی محفل خیال میں

آیا ہے والہانہ ہی ہر بار حرف حرف


یہ معجزہ بھی مدحت سرکار ہی کا ہے

بخشے گئے ہیں پڑھ کے گنہگار حرف حرف


دل سے کسی نے اسم محمد لکھاہے جب

کرنے لگاہے عشق کا اظہار حرف حرف


دل میں خیال نعت جو آیا تویوں لگا

جیسے ہو نعت کے لیے تیار حرف حرف


مجھ پر بھی اک نگاہ کرم ہو توکہہ سکوں

حشمت کا میری ہوگیا بیدار حرف حرف


محسوس ہورہا ہے یہ نادر کی نعت سے

تھا جیسے نعت ہی کا طلب گار حرف حرف


اطہر نفیسؔ

(۱۹۳۳ء آگرہ …۲۱؍نومبر۱۹۸۱ء کراچی)


وہ میرا آقا۔عظیم وبرتر

نہ اس کاثانی۔نہ اُس کا ہمسر

میں اس کی مدحت کروں توکیسے

کہ اس کی عظمت کو چھونے والا

نہ لفظ کوئی

کہاں سے لاؤں وہ حرف ایسے کہ جن کو جوڑوں

تولفظ ایسا وجود پائے

جو میرے آقا کی رفعتوں کی طرف سے ذراسااشارہ کردے

جو میرے دامانِ شاعری کو کرن کرن روشنی سے بھر دے

کہاں سے لاؤں میں لفظ ایسے

جو اُس کی مدح وثنا میں لکھوں

میرے خدایا!

میں تجھ سے الفاظ مانگتاہوں

مرے خدایا!

مری عقیدت کے واسطے سے

مجھے وہ الفاظ بخش دے تو

جو میرے آقا کی نعت بھی ہوں

جو میری وجہہ نجات بھی ہوں


اطہرؔ نفیس عباسی

(۹؍ نومبر ۱۹۵۳ء، کوئٹہ)


یارب خیال اُن کا ہو، تحریر رفعتیں

وہ پیکرِ جمال کہ تنویر رفعتیں


لکھو تو نعت نعت میں تنویر رفعتیں

سمجھو تو حرف حرف میں تاثیر رفعتیں


ہرسو ہی دیکھتا ہوں مدینے کی رونقیں

آنکھوں میں ہوگئیں ہیں وہ تحریر رفعتیں


ہر ایک لفظ رشکِ قمر نعت کا بنا

والشمس آئینہ ہوئیں تفسیر رفعتیں


ذکرِ نبی سے روح کو بالیدگی ملی


قلب و نظر کی ہوگئیں تقدیر رفعتیں


افزائشِ خیال ہو، خوش بو مہک اٹھے

کرلو درودِ پاک سے تعمیر رفعتیں


اِک خواب ایسا جس میں زیارت ہو آپ کی

اُس خواب اور خواب کی تعبیر رفعتیں


میرا وجود خاک ہو طیبہ کی خاک میں

اطہرؔ ! کچھ ایسے کر سکوں تسخیر رفعتیں



اطہرؔ،منصور شفیقی

(۲۶؍مارچ ۱۹۴۴ء، جبل پور)


ذکرِ نبی سے ایسا مہکا ہے گوشہ گوشہ

باغِ بہشت اب تو لگتا ہے گوشہ گوشہ


قاسم ہیں میرے آقا سب لوگ جانتے ہیں

صدقہ درِ نبی کا بٹتا ہے گوشہ گوشہ


کیا بحر و بر نظارے،کیاچاند اورستارے

ذکرِ حضور یارو ہوتاہے گوشہ گوشہ


اللہ کے نبی کی جو رہ پہ گامزن ہیں

یہ سچ ہے چین ان کوملتاہے گوشہ گوشہ


تعظیم مصطفی کا کیا خوب ہے یہ منظر

جھکتے ہوئے فلک کو دیکھاہے گوشہ گوشہ


اصحاب مصطفی کی شانِ عروج دیکھو

قدموں سے ان کے روشن ٹھہرا ہے گوشہ گوشہ


اطہرؔ ! مرے نبی توسب کو نوازتے ہیں

ان کے کرم کا جاری دریاہے گوشہ گوشہ



اظہارؔ جونپوری

(۱۹۴۰ء ، جون پور)


حسنِ سرکار نے کیا کیا نہ دکھائے جلوے

کالی راتوں میںبکھرتے نظرآئے جلوے


آئینہ دل کا دمکنے لگا مثلِ خورشید

جب سے آنکھوں میں محمد کے سمائے جلوے


نبضِ باطل سے لہو تیرہ شبی کا ٹپکا

عدل کی صبح نے کچھ ایسے دکھائے جلوے


ہرطرف پھیل گئی زلفِ محمد کی شمیم

عرش سے تابہ فلک آپ کے چھائے جلوے


آیا جب گنبدِخضری کا تصور دل میں

میری آنکھوں کو جھلکتے نظرآئے جلوے


چارسو پھیل گئی طلعتِ ماہ بطحا

اپنی پلکوں پہ گلِ ترنے سجائے جلوے


اظہرؔ عباس ہاشمی

(۲۸؍ مارچ ۱۹۴۱ء، گوالیار…۲۷؍ فروری ۲۰۱۶ء کراچی)

سروردنیا ودیں بھی ساقی کوثر بھی آپ

ہے محیط عصرو عالم اک بشر کی روشنی


تھا سفر معراج کاوہ یا تھی معراج سفر

آج تک پھیلی ہوئی ہے اس سفر کی روشنی


اس کی آنکھوں کی چمک پھر ماند پڑتی ہی نہیں

دیکھ لے جو روضہ خیر البشر کی روشنی


وقت کے ہر موڑ پر وہ نقشِ پا رہبر بنے

تاحدِ ادراک پھیلی ان کے در کی روشنی


چاندنی الفاظ کے پیکر میںخود ڈھلنے لگی

تھی نظر میں صاحب شق القمر کی روشنی


آنسوؤں کی ایک چلمن درمیاں حائل رہی

ہم نے کب دیکھی نبی کے بام ودر کی روشنی


ثور کی رفعت پہ پہنچے جب بصیرت پرکھلا

لامکاں تک ہے رفیق معتبر کی روشنی


افتخار احمد عدنی

(۲۸؍اپریل ۱۹۲۱،میرٹھ… ۹؍اکتوبر ۰۰۴ء کراچی)

جلوہ ہے حق کا طرزِ بیانِ محمدی

ہاں ہے کلامِ حق بزبانِ محمدی


سورج کی روشنی کا ہے آئینہ دارچاند

شان خدا کا عکس ہے شانِ محمدی


ترکش میں حق کے تیر قضا ہے نہاں مگر

پرواز اس کی ہے بکمانِ محمدی


اس کے سوا ہے معنی لولاک اورکیا

آیاتِ حق ہیں جملہ نشانِ محمدی


کھاتے ہیں سب اسی کی قسم جو عزیز ہو

سوگند ہے خدا کی بجانِ محمدی


واعظ بیانِ سایۂ طوبیٰ نہ کر جہاں

ہو گفتگوئے سروِ روانِ محمدی


دوٹکڑے ہوناچاند کا کیا چیزہے مگر

اک جنبشِ خفیف بنانِ محمدی


ہے افتخارؔ مہر نبوت یہی کہ وہ

معروف ہے بطورِ نشانِ محمدی


غالب ثنائے خواجہ کویزداں پہ چھوڑ دے

ہے بس وہی تومرتبہ دانِ محمدی


افسرؔ صدیقی امروہوی

(۹؍دسمبر ۱۸۹۶ء، امروہہ ضلع مرادآباد … ۹؍فروری۱۹۸۴ء، کراچی)


رہنے والے آسماں کے ہوں کہ فرش ِ خاک کے

سب کے سب مُمنونِ احساں ہیں شہہِ لولاک کے


نورِ مُحبوب خدا تھا یا خدا کی ذات تھی

جب نہ تارے آسماں کے تھے نہ ذرّے خاک کے


طوف کرتے ہیں مزارِ صاحبِ لولاک کا

اورکچھ معنی نہیں ہیں گردش ِ افلاک کے


گوہرِ دُرجِ نبوت ہے ہم آغوشِ زمیں

آسمانوں پر شرف رکھتے ہیں طبقے خاک کے


آپ نے جب رُخ کیا عرشِ معلی کی طرف

اُٹھ گئے مثلِ نظرَ سارے حجاب افلاک کے


منزلِ نعت نبی افسرؔنہ ہم سے طے ہوئی

پاؤں رکھتے ہی یہاں ہوش اُڑ گئے ادراک کے


افضال ؔمعینی

(۳؍مئی ۱۹۵۵ء ، آگرہ ، یوپی)

نبی مکرم منّور منّور

انھیں سے دو عالم منّور منّور


ازل سے ضیا بار ہے نورِ ربی

ہے فردوسِ آدم منّور منّور


وہی نورہے بزمِ کون ومکاں میں

ہے دم ساز وہمدم منّور منّور


جو پیہم لبوں پردرود نبی ہو

رہے قلب ہردم منّور منّور


فضائے دوعالم میں ہے سب سے اونچا

محمد کا پرچم منّور منّور


کرم ہے مدینے پہ ربِ علیٰ کا

ہے شہر معظم منّور منّور


اسی در پہ موت آئے افضالؔ مجھ کو

رہے عزمِ محکم منّور منّور


اقبال خاور

(۹؍اگست۱۹۶۴ء کراچی)

خوشاوہ عہد کہ جاری نظام آپ کا ہے

خوشا وہ شہر کہ جس میں قیام آپ کا ہے


خوشا وہ خاک جو قدموں کو چھو رہی ہوگی


خوشا وہ راستے جن پر خرام آپ کا ہے

خوشا وہ لوگ جنہیں آپ نے سنا ہوگا


خوشا وہ لوگ کہ جن سے کلام آپ کاہے


خوشا وہ ہاتھ جو کرتے تھے آپ کی خدمت

خوشا وہ زید کی قسمت غلام آپ کا ہے


خوشا وہ زخم لگے تھے جو آپ کی خاطر

خوشا وہ جسم کہ جن پرسلام آپ کاہے


خوشا وہ آنکھ کہ دیکھا تھا آپ کو جس نے

خوشا وہ دور کہ دیدار عام آپ کا ہے


اقبالؔ قادری،شیخ محمد

(وفات:۱۲؍دسمبر۱۹۹۲ء کراچی)


اس نے جب چاہا کہ اب کھل جائے رویت کا گلاب

آگیا جلوت کدے میں باغ خلوت کا گلاب


تھی ضرورت کہ کھلے اکرام ورحمت کا گلاب

بھر گیا دامن کھلا جب ان کی بعثت کا گلاب


سروقامت،اوج نکہت،خاص رنگت کا گلاب

ہے بہاربے خزاں صناع قدرت کا گلاب


حضرت آدم سے عیسیٰ تک بہت غنچے کھلے

تھے وہ سب حرمت کے غنچے آپ حکمت کا گلاب


جاودانی صورت وسیرت کا ثانی ہے نہ ہو

شاہکار جاوداں کثرت میں وحدت کا گلاب


تھا جو ساکت وہ لبِ ارشاد سے ناطق ہوا

پھر زمانے بھر میں مہکا آیت آیت کا گلاب


لحد سے اقبال کی آتی ہے آواز ثنا

ہے صبا کے ساتھ رقصاں لوح تربت کاگلاب


اقبالؔ محزوں

(۱۴؍اگست ۱۹۳۵ء، جے پور … یکم مئی ۲۰۰۱ء ، کراچی)

فضا یادِ شہہ کونین کی جب بھی ہوئی روشن

خودی کے طاق میں دیکھا چراغ بے خودی روشن


نظر میں جن کی ہیں نقشِ کفِ پائے نبی روشن

ہے ان کی زندگی میں منزل آئندگی روشن


جمال گنبد خضرا ابھی توہے تصور میں

ابھی سے ہیں بہ اندازِ دگر آنکھیں مری روشن


بہار نورونکہت کارفرما ہے مرے دل میں

مرے سرکار ہے جب سے محبت آپ کی روشن


نہیں اس کے سوا حسرت کوئی اقبالؔ محزوں بس

مرے حق میں بھی ہوجائے حضوری کی گھڑی روشن


اقتدار قدرؔ

( ۸؍جولائی ۱۹۳۴ء بدایوں…۱۳؍ستمبر۱۹۹۴ء کراچی)


دوعالم ہے دریوزہ گر روشنی کا

محمد کا گھرہے کہ گھر روشنی کا


زمیں کیا کہ سایہ فگن ہے فلک پر

مدینے میں ہے وہ شجر روشنی کا


وہ مہرِ نبوت ہے مہرِ نبوت

ہوا ختم اُس پر سفر روشنی کا


کیاروئے سرکار نے مسئلہ حل

تمنائی تھا شیشہ گر روشنی کا


خوشا وہ غلامانِ احمد جنہوں نے

نظارہ کیا عمر بھر روشنی کا


بجر مصطفی کوئی ہو تو بتا دے

نمائندۂ معتبر روشنی کا


خدا روشنی ہے ، زمین و زماں کی

منارہ ہیں خیر البشر روشنی کا


زِہے نامِ احمد کہ جس کی بدولت

دُعا لے کے اُتری اثر روشنی کا


دُعا اب یہی قدرؔ! شام و سحر ہے

جبیں ہو مری اور در روشنی کا


امتیاز ساغرؔ

(ولادت ۱۱؍جون۱۹۴۹ء، ڈھاکہ)

اسمِ معظم لکھتے لکھتے ، ختم ایسی پہ کتاب کریں 

پھر ہم شہرِ علم کو جائیں ،پیش اُنہیں یہ باب کریں


میری آنکھوں کے صحرا میں ، کتنے دریا جذب ہوئے

پھر بھی پیاس نہیں بجھتی ہے ، آقا ہی سیراب کریں


سرورِ دیں کی بات ہی کیا ہے ، اُن کے چاہنے والے جب

صحراؤں میں سورج بوئیں ،ذرّوں کو مہتاب کریں


اِس اُمید پہ میری آنکھیں، ہر دم جاگتی رہتی ہیں

جانے کب سرکار بلائیں ، پورے میرے خواب کریں


شہرِ جسم و جاں میں ساغرؔ!عشقِ نبی یوں رچ بس جائے

میں پلکوں سے کانٹے چُن لوں آقا اُنہیں گلاب کریں


امیر الاسلام ہاشمی

(۹؍جولائی ۱۹۳۰ء ، بدایوں … ۱۸؍مارچ ۲۰۱۳ء، کراچی)

کوئی حد ہوتوبتلائیں کہاں سے اورکہاںتک ہے

جہاں تک بھی جہاں ہیں ان کی سلطانی وہاں تک ہے


قمر دونیم ہوجاتاہے ان کے اک اشارے پر

وہ شاہِ دوجہاں ہیں حکمرانی لامکاں تک ہے


بتا سکتے نہیں یہ حضرت جبریل بھی ہم کو

نیاز وناز کی آئینہ سامانی کہاں تک ہے


دعائے خیرکرکے آپ نے سمجھا دیا سب کو

سلوکِ ناروا پر خندہ پیشانی کہاں تک ہے


گماں کو آپ نے آکر یقینِ بے گماں بخشا

یقیں کی آخری حد بھی یقینِ بے گماں تک ہے


جو قرآں کو سمجھنا ہے سمجھ لو وہ ہی قرآں ہیں

ہماری سوچ کا مرکز حدیثِ دیگراں تک ہے


کبھی تھا ذکر اپنا قیصر و کسریٰ کے ایواں میں

اب اپنی داستان توصرف زیبِ داستاں تک ہے


امینؔبنارسی

(یکم جولائی ۱۹۴۹ء، بنارس)


رہے یاد سرکار کی لمحہ لمحہ

کٹے زندگی یوں میری لمحہ لمحہ


ہے فہم وذکا آگہی لمحہ لمحہ

بہ فیضِ خیالِ نبی لمحہ لمحہ


نبی کا وہ روضہ وہ جالی سنہری

ہوپیشِ نظر ہر گھڑی لمحہ لمحہ


تمنا ہے دل کی کہ کرتارہوں میں

یونہی نعت کی شاعری لمحہ لمحہ


ملی تھی جو سلمانؓ وبوذرؓ کو آقا

ملے دل کو وہ روشنی لمحہ لمحہ


بجز اس کے کوئی تمنا نہیں ہے

میں مدحت کروں آپ کی لمحہ لمحہ


تصور میں ہوں ارضِ طیبہ کے جلوے

ہوروضے کی یوں حاضری لمحہ لمحہ


کوئی بھی ہو موسم کہیں بھی رہوں میں

لبوں پر رہے نعت ہی لمحہ لمحہ


امینؔ ان کی یادوں کی ٹھنڈی ہواسے

کھلے میرے دل کی کلی لمحہ لمحہ



انجم اعظمی

(۲؍جنوری ۱۹۳۱ء فتح پوراعظم گڑھ… ۳۱؍جنوری۱۹۹۰ء کراچی)

علاج دل ہے اقرارِ محمد

کہ خالق خود ہے بیمارِ محمد


کسی سے اُٹھ نہ پائے تا قیامت

کمالِ بندگی بارِ محمد


شریعت کیا ہے ، راہ بندگی ہے

طریقت کیا ہے انوارِ محمد


مکان و لامکاں سب رقص میں ہیں

ہوا ہے جب سے دیدارِ محمد


مدینہ تو ازل ہی سے رہا ہے

تجلی گاہ رخسارِ محمد


ابوبکر و عمر، عثمان و حیدر

ہے رنگا رنگ گلزارِ محمد


خدا نے خود کہا ہے دو جہاں میں

بڑی ہے سب سے سرکارِ محمد


اسے قصر جہنم نے پکارا

کیا جس نے بھی انکارِ محمد


یہ مانا میں ہوں عاصی اور گنہ گار

مگر دل ہے وفادارِ محمد


انجم شادانی

(۱۲؍ فروری،۱۹۲۰ء رام پور… ۲۸؍ ستمبر ۲۰۱۲ء کراچی)

منعکس سینہ بہ سینہ دل بہ دل

جلوۂ شہر مدینہ دل بہ دل


آ کے اک اُمی لقب نے بھر دیا

علم و عرفاں کا خزینہ دل بہ دل


یوں کیا ہم کو خدا سے آشنا

جڑ دیا جیسے نگینہ دل بہ دل


میرے آقا آپ نے تیرا دیا

عدل و احسان کا سفینہ دل بہ دل


دشمنی ، بعض و حسد باطل کیے

دے کے الفت کا قرینہ دل بہ دل


ہے کلام اللہ آقا کے طفیل

آج تک سینہ بہ سینہ دل بہ دل


حشر تک پہنچے گا رب کے سامنے

عشق احمد کا دفینہ دل بہ دل


انجم ان کے چاہنے والوں سے مل

پائے گا جنت کا زینہ دل بہ دل


انجم شیرازی

(۱۹۳۷ء۔رامپور…۷؍مئی۱۹۹۶ء۔دنیاپور)

اخلاص کا یہ درس ملا گھر سے آپ کے

اچھے تھے راہ ورسم ستم گرسے آپ کے


انسانیت نے آپ کے گھرسے جنم لیا

قربانیوں کی رسم چلی گھرسے آپ کے


نورِ حیات، درسِ محبت، نشانِ زیست

کیا کیا نہیں ملا ہے مجھے در سے آپ کے


لات ومنات جیسے صنم پاش پاش تھے

شیطان کانپ کانپ گیا در سے آپ کے


انجمؔ کو ایک بار بلا لیجیے حضور

پھر سر نہ اٹھ سکے گا کبھی در سے آپ کے


انجم فوقی بدایونی

(۱۱؍جنوری ۱۹۱۱ء بدایوں … ۱۱؍اگست ۱۹۹۵ ء کراچی)

اِسی دھرتی پر ایک ایسا بے مثال شخص تھا ___ جو

کائنات بھی تھا ___ ماورائے کائنات بھی م صحفِ قرآن بھی تھا ___ معنیٔ قرآن بھی !

اُسی کے پَرتوِ انوار سے ___ مجھے

ایک درویشِ کامل ___ عبداللہ شاہ بصرویؒ

نصیب ہوا ___ جسے پڑھ کر ___ کچھ

رموزِ قرآن وانسانیت مجھ پر ُکھلے !

اور ___ میں

قرآن کے بعض ___ مشکل الفاظ ___ دشوار تلفظ

بلکہ ___ نامانوس ’’ہجوں‘‘ کی تکرار سے بچ گیا

یہ سب کچھ رحمت ہے ___ اوّل و آخر شخصیت

محمدرسول اللہ ، صلی اللہ علیہ وسلم کی

     اِس میں کوئی شبہ نہیں !


انعام نادر

(۲۷؍ مارچ۱۹۲۲ء اورنگ آباد،دکن…۲۱؍نومبر ۲۰۰۹ء کراچی)

وہ نور باعث تخلیق ہے جہاں کے لیے

جوکن سے قبل تھا تزئین لامکاں کے لیے


ہے سرخروئی مقدر کہ رحمتِ ایزد

جو اس جہاں کے لیے ہے وہ اس جہاں کے لیے


انہی پہ ختم نبوت نہ کیوں خداکرتا

کہ وہ ہدایت دائم ہیں دوجہاں کے لیے


زباں کو ذکر سے فرصت نہ قلب کو مہلت

نبی کا ذکر عبادت ہے جسم وجاں کے لیے


فلک پہ چاند ستارے زمین پہ غنچہ وگل

تڑپ رہے ہیں ترے ذکر کو زباں کے لیے


وہ خاک پائے محمد کا نور ہے نادرؔ!

جو اک نویدِ تجلی ہے کہکشاں کے لیے


انوار عزمی

(۱۹۴۱ء کاکو ضلع گیا،بہار)

اس نورِ مجسم کا جو دیدار نہ ہوگا

مطلع وہ کبھی مطلع انوار نہ ہوگا


دل عشقِ محمدسے جو سرشار نہ ہوگا

واللہ کہ جنت کابھی حق دار نہ ہوگا


جب دامنِ رحمت میں گنہگار چھپیں گے

پھر کوئی گنہ گار گنہ گار نہ ہوگا


جب میری شفاعت مرے سرکار کریں گے

واللہ کہ اللہ کو انکار نہ ہوگا


مر جائے گا حسرت میں غلام آپ کا آقا

اُس گنبدِ خضرا کو جو دیدارنہ ہوگا


محشر میں ہے انورؔ کوبھروسا بھی انہیں کا

جز رحمتِ عالم کوئی غم خوار نہ ہوگا


انور فرہادؔ

(یکم نومبر۱۹۳۹ء )


جاگتے سوتے ہوئے ایک ہی سپنا دیکھوں

جس طرف جائے نظر گنبدِ خضرا دیکھوں


اور کب تک میں اِس ارماں کو تڑپتا دیکھوں

کب وہ دن آئے گا ، کب جا کے مدینہ دیکھوں


وہ گلی ، کوچے ، وہ بازار ، وہ رستا دیکھوں

آتے جاتے تھے جہاں سے مِرے آقا دیکھوں


جن کی مٹی کو قدم بوسی کاحاصل تھا شرف

اُن گزر گاہوں میں وہ نقشِ کفِ پا دیکھوں


مدحتِ سرورِ کونین ہواؤں سے سنوں

نور و نکہت کو فضاؤں سے برستا دیکھوں


میری آنکھوں کے لیے ہوگا وہ معراج کا دن

جب میں اِن آنکھوں سے سرکار کا روضہ دیکھوں


انوردہلوی

(۱۰؍اپریل ۱۹۱۴ء، دہلی …۴؍نومبر ۱۹۹۴ء، کراچی)


شاہوں میں بھی ہیں حلقہ بگوشان محمد

ہر سطح پہ ہیں رتبہ شناسانِ محمد


فردوس میں صدسالہ اقامت سے ہے بہتر

اک لمحہ تہہ سایہ دامانِ محمد


لے جائے گی اک روز سرچشمہ کوثر

یہ تشنگی چشمۂ فیضانِ محمد


کونین کی دولت کو بھی خاطر میںنہ لائیں

شاہوں سے فزوں ترہیں گدایانِ محمد


امید کرم پرگزر اوقات ہے میری

غم بستہ ہوں وابستہ دامانِ محمد

شاید مری بخشش کابہانہ یہی بن جائے

میںمدح سراہوں،میں ثناء خوانِ محمد


میں مطمئن و خوش ہوں کہ شامل ہے مر انام

انور سرفہرستِ غلامانِ محمد


رباعیات

اتمامِ کمالاتِ مشیت ہے تو

سب کچھ بحدودِ بشریت ہے تو

جو بھی تجھے سمجھا وہ خدا کوسمجھا

حقا کہ خدا کی معنویّت ہے تو ٭


دانائے رموزِ شاہی ہے تو ت فسیرِ اوامر و نواہی ہے تو

پردہ ہے لباسِ بشریّت ورنہ

اک پرتوِانوارِ الہٰی ہے تو


انورؔعمرکوٹی،سید عمر شاہ

(۱۹۴۱ء…۲۷؍نومبر۱۹۶۹ء)


ذرّہ ذرّہ ہے جلوہ گر اُن سے

نور ایسا نظر نہیں آتا


افضل الابنیاء ہیں فخرِ بشر

ایسا رتبہ نظر نہیں آتا

دیں کو دنیا پہ کردیا غالب

کوئی اُن سا نظر نہیں آتا


اہلِ دیں دور ہو گئے دیں سے

کوئی عیسیٰ نظر نہیں آتا


عمر اپنی گزرتی جاتی ہے

کوئی آتا نظر نہیں آتا


حق تو ملتا ہے باری باری سے

کوئی دیتا نظر نہیں آتا


میں تو انور ؔ! ہوں اُن کا شیدائی

جن کا سایہ نظر نہیں آتا


انیس الحق انیس،ڈاکٹر

(۲۶؍جون ۱۹۴۷ء۔عظیم آباد پٹنہ)


بجا مجھ کو نازِ محبت بجا ہے

کہ محبوب میرا حبیبِ خدا ہے


ہولفظوں میں تعریف اس کی بھلا کیا

کہ مدحت میں جس کی کلامِ خداہے


زباں سے کہا جب محمد محمد

لبوں نے بھی آپس میں بوسہ لیاہے


اطاعت ہو جس کی خدا کی اطاعت

نہ خلقِ خدامیں کوئی دوسراہے


جسے کوئی نسبت نہیں مصطفی سے

خداسے بھلا اس کا کیا واسطہ ہے


خداکی رضااس نے پائی ہے ہردم

محمد کی سُنّت پہ جو بھی چلاہے


ہے حبِ محمد خدا کی محبت

وہی توہے مومن جواُن پرفداہے


انیسؔ اُن کا میں بھی اک ادنیٰ گدا ہوں

شفاعت کا مجھ کو بہت آسراہے


ایوبؔ گونڈوی

(وفات ۲۰؍مارچ ۱۹۸۲ء، کراچی)

کہیں ہوا ؤ ہوس سے حیات بنتی ہے

خدا کا فضل و کرم ہو تو بات بنتی ہے

نیا زمانہ نئی کائنات بنتی ہے


شعورِ عشقِ محمد سے ذات بنتی ہے

کرم کی شان ہی وجہِ نجات بنتی ہے


شفیع ہوں جو محمد توبات بنتی ہے

اگر کسی کو مدینے میں موت آجائے


وہ موت چشمۂ آبِ حیات بنتی ہے

طلوعِ ماہِ رسالت کا کیف کیا کہیے


یہ کیفیت سببِ کیفیات بنتی ہے

رسولِ پاک کے نقشِ قدم کی برکت سے


اُبھر اُبھر کے محبت ثبات بنتی ہے

زہے نگاہِ محمد کی کیف سَامانی

خدائی میکدۂ کیفیات بنتی ہے


دیارِ رحمتِ عالم کے چاہَ کی اکِ بوند

ہم ایسے تشنہ لبوں کوفرات بنتی ہے


حضور رحمتِ کونین ہیں، نظر ان کی

کلیدِ قفلِ درِمشکلات بنتی ہے


جمال چہرہِ پُر نور سے ہے دل کا نکھار

بڑھے جو زلف کا سَایہ تو رات بنتی ہے


خدا کے بعد ہیں بس آپ ہی رحیم و کریم

خود آپ بگڑی بنائیں تو بات بنتی ہے


کہیں کوئی جو بھٹکتاہے سوچ میں بھی کبھی

تو رہنما نگہہِ التفات بنتی ہے


مرے خلوص و محبت کا ہے صلہ ایوبؔ

کہ نعت اپنی سلام و صلوٰۃ بنتی ہے


برق اجمیری

(۲۰؍جنوری ۱۹۱۲ء، اجمیر شریف …۲۳؍جولائی ۱۹۹۸ء کراچی)


فکر امروز ہے کچھ اورنہ فروا ہی کا غم

ہم پہ ہر حال میں ہے ساقیٔ کوثر کا کرم


عقل محدود ہے الفاظ و معافی محدود

کس طرح کیجیے وصف شہہ لولاک رقم


ہرنفس سامنے ہے روضۂ اظہر پھر بھی خ لشِ حسرت دیدار نہیں ہوتی ہے کم


سرور دیں کے سوا کون ہٹاسکتاتھا

خانہ کعبہ میں رکھے تھے جوپتھر کے صنم


مقصد زیست کااحساس دلا جاتاہے

یاد آتاہے جہاں سایۂ دیوارِ حرم


میں گنہگار وسیاہ کارہوں لیکن اے برقؔ

نقش ہے دل یہ مرے اسمِ نبیٔ اکرم


برقؔ دہلوی

(وفات ۱۹؍دسمبر۱۹۸۴ء کراچی)


خسرو خسرواں سلام شاہ شہنشاہاں سلام

مالکِ ُکل جہاں سلام باعث کن فکاں سلام


آج بھی ہیں درود خواں تجھ پر زمین وآسماں

بھیج رہا ہے بے گماں صاحب لامکاں سلام


علم و عمل کے منتہی، صبر و غنا کے پیشوا

مرجع ذاتِ انبیا،دولت بیکراں سلام


فہم و ذکا سے دور تھے عقل و خرد نہ پا سکے

راز وہ سب عیاں کیے صاحب نکتہ داں سلام


رنگ بہار جاوداں بلبل خوش نوا کی جاں

روح روانِ بوستان رونق گلستاں سلام


تیرے کرم سے فیض یاب سب ہی ہوئے ہیں بے حساب

جودسخا کے آفتاب محسن دشمناں سلام


برقؔ ہو روح کو سکوں جان مدینہ جاکے دوں

جب کہ حضور پرپڑھوں دیکھ کے آستاں سلام


برگؔ یوسفی

(۵؍مئی۱۹۲۴ء فتح پور سیکری، آگرہ…یکم جون ۱۹۹۵ء کراچی)


پھر آج جلوے برس رہے ہیں کسی طرف تیرگی نہیں ہے

حضور تشریف لارہے ہیں کہاں کہاں روشنی نہیں ہے


خدا توہے لاشریک لیکن حضور سا بھی کوئی نہیں ہے

وہ بات بھی گفتنی نہیں تھی یہ بات بھی گفتنی نہیں ہے


اُجالا اوروں سے لینے والو تمہیں خبر واقعی نہیں ہے

چراغِ حبِ نبی جلاؤ یہ روشنی روشنی نہیں ہے


حکیم اورفلسفی کی نظریں ہوں عارفِ کائنات لیکن

جسے نہ عرفان ہو نبی کا وہ آدمی آدمی نہیں ہے


سخن طرازی کی بات الگ ہے مگرہے اے برگؔ یہ حقیقت

نبی کی مدحت اگر نہیں ہے توشاعری شاعری نہیں ہے


-

روزِ الست کا بیاں صلِ علیٰ محمد

لوح و قلم کی سُرخیاں صلِ علیٰ محمد


اُمی لقب کی داستاں صلِ علیٰ محمد

آپ خدا کے ترجماں صلِ علیٰ محمد ن

قشِ قدم ہیں کہکشاں صلِ علیٰ محمد

آپ کی یہ بلندیاں صلِ علیٰ محمد


مہر و مہ و نجوم میں ُگل کے حسین ہجوم میں

آپ کی ہیں تجلیاں صلِ علیٰ محمد


دیکھ کے آمدِحضور ذروں میں ہے جمال طور

آج زمیں ہے آسماں صلِ علیٰ محمد


عقدہ کشائے زندگی نقطۂ مرکز خوشی

میری زباں پہ ہے رواں صلِ علیٰ محمد


ڈوبتا جارہا تھا میں موجِ سراب میں مگر

آگیا لب پہ ناگہاں صلِ علیٰ محمد


اُس کی ہے ساری کائنات اُس کی ہے موت بھی حیات

جس پہ ہیںآپ مہرباں صلِ علیٰ محمد


اب مرے کام آئی ہیں مجھ کو مدینے لائی ہیں

میری شکستہ پائیاں صلِ علیٰ محمد


اُسوہ حسنۂ رسول برگؔ ! عجیب چیز ہے

ذاتِ نبی خدا نشاں صلِ علیٰ محمد


بزمؔ انصاری

(۲؍ جنوری۱۹۲۲ء اودھ،یوپی)


ہزار غم ہوں زمانے کے بات ہی کیاہے

فقیر شاہ امم ہوں مجھے کمی کیا ہے


میں سوچتا ہوں کہ مانگوں تو اور کیا مانگوں

درِ حبیب سے بڑھ کر کوئی خوشی کیا ہے


میں اور دعوی عشقِ نبی معاذاللہ

نہ ہو جوعشقِ بلالی توعاشقی کیا ہے


جوتیری یاد سے غافل ہوکم نصیب ہے وہ

جو تیرے ذکر سے خالی ہوزندگی کیا ہے


بھٹک رہے تھے اندھیروں میںروشنی کے لیے

حرم میں آئے توسمجھے کہ روشنی کیا ہے


گئے تھے جو درپرنور پرتہی دامن

کسے خبر ہے کہ دولت انھیں ملی کیا ہے


نزول رحمت باری ہے بزمؔ نعت پڑھو

نظر اٹھا کے تودیکھو وہ روشنی کیا ہے


بسملؔ انصاری

(۱۴؍مارچ ۱۹۵۰ء،آگرہ)


چاند کے جس طرح ہوتے ہیں ستارے آس پاس

اس طرح آقا کے ہیںاصحاب سارے آس پاس


لامکاں پررب ہے جلوہ گرزمیں پرآپ ہیں

جس طرح اک بحر کے ہوں دوکنارے آس پاس


رحمت للعالمیں ہیں آپ یا شاہِ امم

آپ کی رحمت کے ہیں ہردم سہارے آس پاس


حالِ دل اپنا سنانے کے لئے اے شاہ دیں

کس قدر آکرکھڑے ہیں غم کے مارے آس پاس


جن کی آنکھوں میںجمالِ سید ابرار ہے

ہرگھڑی کرتے ہیں وہ حق کے نظارے آس پاس


مرتبہ اس کاہے اعلیٰ، وہ ہے قسمت کا دھنی

روزوشب جس نے ہیں آقا کے گزارے آس پاس


یارسول اللہ آجاؤ مدد کے واسطے

ہوگئے ہیں اب بہت دشمن ہمارے آس پاس


اب تو مجھ کو بھی مدینے میں ُبلا لو مصطفی

زندگی میں بھی گزاروں گا تمہارے آس پاس


آپ ہی دیں گے سہارا اپنے بسملؔ کو حضور ماسوا یہ آپ کے کس کو پکارے آس پاس


بقا ؔصدیقی

(۱۳؍اکتوبر ۱۹۳۶ء، گوالیار)


ہیں محمد کے ثنا خواں تن من

کیوںنہ ہوں میرے فروزاں تن من


سبز گنبد کی ضیا باری سے

ہو گئے نورِ بداماں تن من


چاہیے صبح رہیں شام رہیں

یادِ سرکار میں غلطاں تن من


اللہ اللہ یہ مدینے کی پھوار

ہوگئے سنبل وریحاں تن من


رحمتوں کے ہیں سوالی آقا

میرے کشکول بداماں تن من


ہیں غلام شہِ ابرار تو پھر

کس طرح ہوں گے پریشاں تن من


لمس اس خاک کا ملتے ہی بقاؔ

ہوگئے رشکِ بہاراں تن من


بہارؔ کوٹی

(جولائی ۱۹۰۸ء فتح پور ہنسوہ …۲۱؍فروری ۱۹۷۱ء کراچی)

جینا ہے تمنائے محمد کے سوا کیا

مانگوں تو ، تولاّئے محمد کے سوا کیا


یہ عقدہ کشایانِ سر پردہ ہستی

ہیں خاک کفِ پائے محمد کے سوا کیا


بتلائیں کہ آتا ہے نظر اہلِ نظر کو

عکسِ رخِ زیبائے محمد کے سوا کیا


کہیے بھی تواس عالمِ فردوسِ نظر کو

ذوقِ چمن آرائے محمد کے سوا کیا


یہ دانش و عقل و خرد و ہوش و تدبر

اک دیدۂ بینائے محمد کے سوا کیا


اے منزلت و شہرت و توقیر کے طالب

توقیر ہے سودائے محمد کے سوا کیا


مجھ جیسے گنہگار کو پروانۂ بخشش

کہیے اسے ایمائے محمد کے سوا کیا


پروین حیدر

(۲۲؍مئی ۱۹۶۸ء)


اے زِہے تقدیر ، وجہِ کُن فکاں کا راستہ

یہ ہے انسان و خدا کے درمیاں کا راستہ


وہ امینِ کُن فکاں وجہِ بنائے شش جہات

جانتا ہے ہر زمیں ہر آسماں کا راستہ


تھا تحیّر میں برنگِ آئینہ عالم تمام

یوں کیا طے مصطفی نے لامکاں کا راستہ

نیّرِ برجِ ہدایت ، آفتابِ مُرسلاں


آپ کا نقشِ قدم ہے کہکشاں کا راستہ


لائے ہیں روح الامیں یہ پردۂ شب میں پیام

چشمِ خالق تَک رہی ہے رازداں کا راستہ


آکے یہ مژدہ سنایا صاحبِ معراج نے

کھل گیانوعِ بشر پر آسماں کا راستہ


اُن کو اذنِ باریابی پا برہنہ طُور پر

اِ ن کے کفشِ پا نے دیکھا لامکاں کا راستہ


گرد وہموں کی جمی تھی شیشۂ اذہان پر

دیکھتی تھی آنکھ اُس ابرِ رواں کا راستہ


آپ آئے تو ہوئی انسانیت منزل شناس

کارواں تکتاتھا میرِ کارواں کا راستہ


روز آتے ہیں ملائک صف بہ صف افلاک سے

ہے مدینہ سجدۂ گاہِ قدسیاں کا راستہ


رہنمائے گمرہاں ہے ، مہربانِ عاصیاں

چارہ ساز و دستگیرِ بے کساں کاراستہ


ضوفشاں ہے خیمۂ ایماں میں قندلیلِ یقیں

مجھ سے تو پرویںؔ! گریزاں ہے گُماں کا راستہ


پروینؔ شاکر

(۲۴؍نومبر ۱۹۵۲ء، پشاور …۲۶؍دسمبر ۱۹۹۴ء، اسلام آباد)


نسیم ہوتی ہوئی آئی ہے مدینے سے

چمک رہے ہیں گل روح پر نگینے سے


کسی سبب سے ہی خورشید لوٹ کرآیا

بحکمِ خاص تھا اور خاص بھی قرینے سے


مرے ستارے کو طیبہ سے کچھ اشارہ ہوا

سوبادباں سے غرض ہے نہ اب سیفنے سے


سُنا ہے جب سے شفاعت کو آپ آئیں گے

کہ جیسے بوجھ سا اک ہٹ گیا ہے سینے سے


مدینہ ہے تو نجف بھی ہے کربلا بھی ہے

تمام لعل وگہر ہیں اسی خزینے سے


-

سوداِ شہر مدینہ کے رُوبُرو ہونا

ضروری ہوگیا آنکھوں کا باوضو ہونا


سماعتوں کے لیے ساعتِ شگفتِ گلاب


ہوائے شہرِ نبوت سے گفتگو ہونا


عجب طرح کسی صحرا نشیں کی یاد آئی

کہ چشمِ خشک مری چاہے آب جُو ہونا


کھلا ہے نام پہ کیسے طبیب کے لیکن

یہ زخم وہ ہے کہ مانگے نہیں لہو ہونا


میری جڑیں اسی مٹی میں ہوں مگر چاہوں

خیالِ طیبہ سے ہی روح کی نمو ہونا


پروین فنا،سیّد

(۳؍دسمبر۱۹۳۶ء لاہور…۲۷؍اکتوبر ۲۰۱۰ء کراچی)

منزلِ حق کی جستجو تم ہو

ایک عالم کی آبرو تم ہو

گلشنِ صدق و آگہی کے امیں

مردِ مؤمن کی زندگی کا یقیں

عزم و ایماں کی بولتی تصویر

دینِ کامل کی آخری تحریر

ظلم کی آندھیوں میں ابرِ کرم

جہل کی ظلمتوں میں نورِحرم

تجھ کو اے شاہِ دیں ملا یہ مقام

تجھ سے روحِ ازل ہے محوِ کلام

عشق میرا، تری وفا کا غلام

اے بقائے حرم ،فناؔ کا سلام



پیرزادہ عاشق کیرانوی

(۱۹۳۳ ء کیرانہ،ضلع مظفر گڑھ)

زباں پر ہے مدح و ثنائے محمد

مرا دل ہے نغمۂ سرائے محمد


جو کرتے ہیں دل سے ثنائے محمد

انہیں چاہتا ہے خدائے محمد


ہمیں تاجِ زریں کی حاجت نہیں ہے

ہمیں چاہیے خاکِ پائے محمد


مدینے کے لیل و نہار اللہ اللہ

وہاں گونجتی ہے صدائے محمد


کوئی شان دیکھے تو خلدِ بریں کی

بنائے خدا اور بسائے محمد


انہیں کون ہے راہ دکھلانے والا

خدا ہے فقط رہنمائے محمد


جہاں بے کسوں نے پکارا ہے ان کو

وہیں بہرِ امداد آئے محمد


میں عاشقؔ ہوں بعدِ خدا صرف انہی کا

مرا کون ہے ماسوائے محمد



پیرزادہ قاسم

(۸؍ فروری ۱۹۴۳ء، دہلی)


سکوں ملا ہے بھلا کب کسی کے دامن میں

سو آبساہوں میں نعتِ نبی کے دامن میں


اُجالا آپ ہی کی ذات سے ہوا ورنہ

شعاعِ نورنہ تھی روشنی کے دامن میں


کشادہ قلبیٔ رحمت مآب کیا کہنا

پناہ سب کو ملی آپ ہی کے دامن میں


صحیح کہ فیض رسانی میں کوئی ان سا نہیں

بجا کہ رحمتِ حق ہے انہی کے دامن میں


شعور حق کی عجب روشنی ملی ان سے

وہ آگہی کہ نہ تھی آگہی کے دامن میں


وہ صلح کُل ہیں ہراک صلح انکا نقشِ قدم

انہی کے پھول ہیں سب آشتی کے دامن میں


عروج آدم خاکی انہی کے فیض سے ہے

انہی کاحرف دعازندگی کے دامن میں


جز ایک اشکِ ندامت جز ایک حرف دعا

نہیں ہے کچھ مری تردامنی کے دامن میں


مجھے تو نعتِ نبی شاد کام رکھتی ہے

یہ اک گہر ہے بہت شاعری کے دامن میں


تاجدار عادلؔ

(۱۷؍ جولائی ۱۹۵۵ء کراچی)

خدا کے نور کی مانند ہے جمال بھی وہ

خد اکے بعد ہمارے لئے مثال بھی وہ


جوکائنات میں روشن ہے مثلِ نورِ ازل

مری نگاہ کا مقصد بھی وہ خیال بھی وہ


وہ ایک بندہ مگر عظمت ِ زمانہ فدا

کہ آئینہ بھی خدا کا ہے اورجمال بھی وہ


ہے اس کانام بھی قائم خدا کے نام کے ساتھ

زمانہ فانی ہے لیکن ہے لازوال بھی وہ


ہے اس کی ذات پہ خود ناز آدمیت کو

خدائے فن کا ہے شہکار جو کمال بھی وہ


وہ اک طبیب محبت کے دردِ مندوں کا

ہے کائنات کے زخموں کا اندمال بھی وہ


لکھی ہے نعت جو عادلؔ تواب نہیں کوئی غم

اسی وسیلے سے جانیں گے میراحال بھی وہ


تشنہ ؔبلگرامی

(۳۰؍نومبر۱۹۳۴ء سہسرام… ۲؍اپریل ۲۰۰۴ء کراچی)


آپ کی آمد سے سارے بام ودر روشن ہوئے

بام ودر توبام ودر ہے گھر کے گھرروشن ہوئے


نورِ وحدت سے جو نکلا، نور کا منبع ہیں آپ

جس کے روشن ہوتے ہی شمس وقمر روشن ہوئے


کس قدر تاریک تھی پہلے یہ بزم کائنات

ان کی آمد سے ستاروں کے سفر روشن ہوئے


جب کیا روشن دلوں کوہم نے ان کے نور سے

کیسے کیسے دیدہ وراہلِ نظر روشن ہوئے


ذات اقدس پر جو میں نے فکر کی تو دوستو

پھر مرے پندار دیکھو کس قدر روشن ہوئے


ان کے پرتوسے منور ہوگیا سارا جہاں

میرے باطن میں میرے قلب وجگر روشن ہوئے


تمناؔ عمادی

(۱۴؍جون ۱۸۸۸،پھلواری شریف…۲۷؍ نومبر۱۹۷۲ء کراچی)


اے خوش نصیب لوگو یثرب کے جانے والو

عیشِ ابد کمالو رنجِ سفر اٹھا کر


جاتے ہوتم توجاؤ لیکن یہ یاد رکھنا

جاتے ہو میرے دل میں اکِ آگ سی لگا کر


لکھی توتھی یہ دولت تقدیر میں تمہاری

کیا پھل ملے گا مجھ کو اب خار تم سے کھاکر


آؤ ذراکہ دے لوں تسکین اپنے دل کو

خاک قدم تمہاری آنکھوں سے میں لگاکر


اس بدنصیب کی ہے اکِ عرض سنتے جاؤ

کہتا ہے چشمِ ترسے سیروں لہو بہا کر


دیکھو یہ یاد رکھنا طیبہ میںجب پہنچنا

مجھ کو نہ بھول جانا مقصود اپنا پاکر


ہوروضۂ نبی پر جب حاضری تمہاری

کہنا بہت ادب سے جالی کے پاس جاکر


سرکار نیندکب تک للہ جلد اٹھئے

اُمت کا دم رکا ہے گویا لبوں پرآکر


محشر بپا ہے اُٹھئے اے شمعِ بزمِ محشر

اُمت کے سرپہ رکھئے دستِ کرم اب آکر


بگڑی ہے بات ایسی بنتی نہیں بنائے

بیٹھے ہیں آپ ہی سے سب آسرا لگاکر


اور اک غریب جس کو کہتے ہیں سب تمناؔ

آنے کے وقت ہم نے دیکھا جواس کو جاکر


طیبہ کی سمت رُخ تھا اشک آنکھ سے رواں تھے

بیچارہ کہہ رہا تھا یوں ہاتھ اٹھا اٹھا کر


تا در جہان خوبی امروزِ کامگاری باشد کہ بیدلاں راکامے زلب برآری


تنظیم الفردوس،ڈاکٹر

(۲۸؍ مئی ۱۹۶۶ء چٹاگانگ)


حضوری کے تصور ہی سے روشن دل ہمارا ہے

یہی روشن تصور کائناتی استعارہ ہے


ہر اک مشکل گھڑی میں زیست کی ان کو پکارا ہے

مجھے تو دوجہاں میں ایک ان کا ہی سہارا ہے


بوقت مرگ ان کا نورروشن قبر کو کر دے

فقط اس آس پر یہ تیرگی جاں کو گوارا ہے


یہ دل کا تنگ دروازہ اسی دستک پہ کھل جائے

کوئی کہہ دے چلو تم کو مدینے کا اشارہ ہے


یہی کافی ہے مل جائے محبت اُس گھرانے کی

سوا اس کے جہاں میں بس خسارہ ہی خسارہ ہے


میں امکانات کی دنیا میں حیرت کی مسافروں ہوں

مکاں یا لامکاں ہو ، ان کی رفعت کا اشارہ ہے


نگا ہے کور ان کے نامِ نامی سے چمکتی ہے

سماعت کو تو اک اسمِ مبارک ہی سہارا ہے


توقیر تقی

(۶؍ جون ۱۹۸۱ء بورے والا)


جادۂ لطف مسافرسے جو ہم فاصلہ تھا

حسن اورعشق میں دوہاتھ سے کم فاصلہ تھا


خواہش دید میں دل کھنچتے چلے آتے تھے

شوق کی راہ میں مائل بہ کرم فاصلہ تھا


اُس نے براق مودت پہ بلا بھیجا ہمیں

ہم غلاموں کو جہاں تیغِ دو دم فاصلہ تھا


گنبدِ سبز میں تقریب مناجات سے قبل

طائرِ شوق کو صد رشکِ ارم فاصلہ تھا


جتنے قربت کے مفاہیم تھے وا ہوتے گئے

وہ تجلی تھی کہ موجود و عدم فاصلہ تھا


دل حضوری کی سند لے کے تو آیا لیکن

حیف اُس وقت بھی یہ دیدۂ نم فاصلہ تھا


ہمیں مانع تھی حیا، چومتے چوکھٹ ورنہ

جس قدر قرب تھا اتنا ہی بہم فاصلہ تھا


راہ دنیا سے ہمیں عمر لگی آنے میں

دل کی جانب سے فقط ایک قدم فاصلہ تھا


معرفت عشق کو زرخیز بنا دیتی ہے

نعت لکھنے کو مرا زادِ قلم فاصلہ تھا


ثاقبؔ مظفر پوری

(۳۰؍اپریل ۱۹۱۹ء …یکم ستمبر ۲۰۰۱ء کراچی)


ہجوم کہکشاں ہے اور میخانہ محمد کا

بقدر ظرف ہی ملتاہے پیمانہ محمد کا


فراتِ عقل پر پہرے بیٹھائے ہیں لعینوں نے

نہ پہنچے ذہن تک آبِ حکیمانہ محمد کا


یہی اپنی عبادت ہے یہی معراج ہے اپنی

ہے دل میں یاد اورلب پرہے افسانہ محمد کا


لٹاتی ہی رہی اپنے گہر بیٹی محمد کی

یہ ذکر کربلا بھی تو ہے افسانہ محمد کا


نہیں ہے فکر ثاقب کو لحد ہویا قیامت ہو

وہ شیدائی علی کاہے وہ دیوانہ محمدکا


ثروت حسین

(۹؍نومبر ۱۹۴۹ء، کراچی … ۹؍ستمبر۱۹۹۶ء،کراچی)


نعتیہ نظم

رُتوں کی بجتی گھنٹیاں

صدیوںکی گردان

آتے جاتے قافلے

	 		     تپتا ریگستان

اوجھل سارے راستے

بوجھل پیر،جوان

لیکن اس اندھیر میں

ایک وہ نخلستان

جس کی ٹھنڈی چھاؤں میں

سب کو ملے امان ,


آنکھ روشن تھی دل مُعطّر تھا

لمحۂ مدحتِ پیمبر تھا

آدمی اس بہار سے پہلے

خشت اورخاک کے برابر تھا

ذہن ودل تھے، مگر غبار آلود

آئینہ تھا، مگر مُکدّر تھا

اور پھر آمد محمد سے

حلقۂ آب وگلِ معطّر تھا

صبح تھی اور خوشبوئے فاران

شام تھی اورچراغِ منبر تھا

خاک انداز سطوت کسریٰ

سرنگوں ایسے شانِ قیصر تھا

اک اُسی درسے ہم کو نسبت تھی

اک وہی نام ہم کو ازبر تھا

-

کون اس بھید کوپاسکتاہے

کوئی کہاں تک جاسکتاہے

کب وہ یاد سمٹ سکتی ہے

کب وہ نشاں دھندلا سکتاہے

صدیاں حیرانی میں گم ہیں

کون وہ نام بھلا سکتاہے

شام ابد کا ایک ستارہ

کتنے چراغ جلا سکتاہے

اک انسان اسی دنیا کا

کتنی فصیلیں ڈھا سکتاہے

بپھرے ساگر کی لہروں کو

زنجیریں پہنا سکتاہے

خار و خس وخاشاک دلوں کا

شعلہ بن کے جلا سکتاہے


ثروت زہرا

(۵؍مئی ۱۹۷۲ء کراچی)

عبدومعبود کے فاصلے توڑ کر

حسن اور نور کی

مشعلیں جل اُٹھیں


روشنی

اپنی جلوہ گری کی اداؤں پہ

حیران تھی

وصل کی خوشبوئیں

فرش سے عرش تک

آنکھ مِل کراُٹھیں

قاب قوسین کی

منزلوں سے پرے

سات افلاک کے راستے کاٹ کر

آگہی اس جگہ آگئی

جب خودی و خدا کی اِسی گفتگو سے

نئی آیتیں ڈھل گئیں

شور افلاک پر

سب ملائک میں ہونے لگاہے

آج آدم کو پھر اُس کی دستار واپس ہوئی ہے

خاتم الانبیا ، آدمیت کے اعلیٰ نشاں

اپنے خالق سے کچھ اس طرح مل رہے ہیںکہ

ٹھہری ہوئی ساعتیں

اپنی تکمیل کی خوش کن احسا س میں

پھول سی کھل اُٹھیں


ثمرؔ نظامی

(۴؍جولائی۱۹۲۸ء امروہہ…۱۹؍اکتوبر۱۹۹۱ء کراچی)


حرم میں تو گستاخ تیری نظر ہے

ادب اے ثمرؔ !یہ محمد کا در ہے


مدینے کی گلیوں کے یہ سنگ ریزے

کوئی شمسِ ان میں تو کوئی قمر ہے


بہرگام آنسو بہر گام سجدہ

سفر اورمدینے کی جانب سفرہے

ان آنکھوں میں اُن کے سجائے ہیں جلوے


زمانے میں میری نظر معتبر ہے

وہ مسجد وہ گُنبد وہ روضہ وہ جالی

نظر جُھک رہی ہے کہ حدِ نظر ہے


ثنااللہ شاہ حسینی

(ولادت:۱۹۱۳ء)


عشق شاہ حجاز کیا کہنا

کردیا بے نیاز کیا کہنا


تم کو مالک کیا خدائی کا

حق نے بخشا حجاز کیا کہنا


جس کو چاہا بہ آب و تاب کیا

مہرِ ذرہ نواز کیا کہنا


اس ثناؔ کو تری غلامی نے

کر دیا سرفراز کیا کہنا


جاوید صبا

(مئی ۱۹۵۸ء کراچی)


پیوستہ ہوکے خاک سے ابھری کرن تمام

آتش کدے میںراکھ ہوئے اہرمن تمام


بس ایک نگاہِ ناز کے اُٹھنے کی دیر تھی

قدموں میںآکے بیٹھ گئی انجمن تمام


خلوت گہہ خیال سے نکلی بصد نیاز

وہ گفتگو کہ جس پہ ہوئے ہیں سخن تمام


قدرت سے کیا بعید مگرایک نقشِ حسن

ایسا بنا دیا کہ ہوا سارا فن تمام


کیا خار و گل، نسیم و صبا کیا خزاں بہار

ان سے ہے فیض یاب چمن کا چمن تمام


اللہ کی طرف سے ہے حرف و کلام و صوت

من جانب خداہے سخن کا سخن تمام


جلیلؔ قدوائی

(۲۲؍دسمبر ۱۹۰۴ء اودھ…یکم؍ فروری۱۹۹۶ء روالپنڈی)

مجھ کو بس آپ سے ہے کام رسولِ عربی

لب پہ ہے آپ کاہی نام رسولِ عربی


آپ نے کی جو توجہ،بنیں دنیا میں ابھی

میرے بگڑے ہوئے سب کام رسولِ عربی


حشر میں آپ کی گر مجھ کوشفاعت نہ ملی

جانے کیا ہومراانجام رسولِ عربی


مجھ کو اپنی روشِ خاص پہ لا کر مجھ سے

چھین لیجئے روشِ عام رسولِ عربی


عہد حاضر نے تراشے ہیں نئے بت،شاہا

پھر شکستہ ہوں یہ اصنام رسول ِعربی


کاش ایسا ہو کہ اک باردکھادیں مجھ کو

خواب میںروئے دل آرام رسولِ عربی


کچھ نہیں اورخبر اس کے سوامجھ کو جلیلؔ

میرامذہب میرااسلام رسولِ عربی


جلیل ہاشمی

(۷؍ جون ۱۹۵۱ء بہاولپور)


رحمتِ حق کا سائباں صلِ علیٰ محمد

راحتِ قلبِ عاصیاں صلِ علیٰ محمد

خیر کی ساری روشنی روحِ ازل کی چاندنی

اس کے ہی نور سے عیاں صلِ علیٰ محمد


کیف کی جاں پہ بارشیں روح و زباں پہ خوشبوئیں

لطف و کرم کا ہے بیاں صلِ علیٰ محمد


گھر ہو یا راستہ کوئی غم ہو یا وسوسہ کوئی

شام و سحر کے درمیاں صلِ علیٰ محمد


ذکرِ خدا کا بھی صلہ اس کو کبھی نہیں ملا

جس کو نہ یاد ہو میاں صلِ علیٰ محمد


دشت و جبل میں یاد رکھ جنگ و جدل میں یاد رکھ

سایۂ رشک گلستاں صلِ علیٰ محمد


کیا مری شاعری لکھے کیا مری عاجزی لکھے

تیرے کرم کی داستاں صلِ علیٰ محمد


جمال پانی پتی

(۱۵؍جون ۱۹۲۷ء پانی پت…۱۰؍جولائی ۲۰۰۵ء کراچی)


متاعِ دو جہاں پائی تری مدحت سرائی سے

کمائی اور کیا دنیا میں اچھی اس کمائی سے


تمہارا نام آقا دل کی تختی پر لکھا ہم نے

محبت کے قلم سے آرزو کی روشنائی سے


نبی کا نور کیا ظلمت سرائے دہر میںچمکا

ہوا روشن جہاںسارا جمالِ مصطفائی سے


ترے نورِ ہدایت سے زمانے کو ملی منزل

نشاں حق ملا دنیا کو تیری رہنمائی سے


تری عقدہ کشائی سے کھلے عقدے سبھی دل کے

ہوئیں سب مشکلیں آساں تری مشکل کشائی سے


وہ دولت بادشاہوں کے خزانوں میں نہیں ملتی

جو ملتی ہے گداؤں کو ترے در کی گدائی سے


پئے گلدستۂ نعتِ نبی چن چن کے لایاہوں

ذرا دیکھو تو،کیاکیا پھول باغِ مصطفائی سے


جمالؔ اُس سے علوئے مرتبت کا ہو بیاں کیسے

پرے ہے مرتبہ جس کا تخیّل کی رسائی سے


جمال نقوی

(۸؍اکتوبر ۱۹۴۶ء، لکھنؤ)


لیا جو نام تو خوشبو سی جسم و جان میں ہے

بفیض شاہِ اُمم زندگی امان میں ہے


خدا ہے ان کا ثناخواں یہ عظمتیں ان کی

کلامِ پاک قصیدہ انھیں کی شان میں ہے


الٰہی نورِ بصیرت عطا ہو ہم سب کو

اندھیرا کفر کا پھیلا ہوا جہان میں ہے


انھیں سے پوچھو سب ان کو ہی ہے خبر اس کی

کہ جو نجوم و قمر میں ہے آسمان میں ہے


عمل سے آپ نے آقا دِکھا دیا ہم کو

دلوں کو جیت لے تاثیر وہ زبان میں ہے


دکھا دیا اسے کردارِ مصطفیٰ نے ہمیں

خدا کا حکم جو لکھا ہوا قرآن میں ہے


ضیائے سیّدِ کونین راہبر ہے جمالؔ

یہ وہ ضیا ہے کہ پھیلی جو دوجہان میں ہے


t

جمیل الدین عالیؔ

(۲۰؍جنوری ۱۹۲۵ء دہلی… ۲۳؍نومبر ۲۰۱۵ء کراچی)


وہ شفیعنا وہ حبیبنا کہ جو ہیں نہایت ِ جستجو

مجھے اپنے پاس بلا لیا مجھے دی اجازتِ گفتگو


بلغ العلیٰ بکمالہ یہ پڑھا انہی کے حضور میں

کشف الدجے بجمالہ یہ کہا ہے اُن کے ہی روبرو


حسنت جمیع خصالہ یہی اک پیام قدم قدم

صلوا علیہ وآلہ یہی اک کلام ہے کُو بہ کُو


مرے ان گنت جو گناہ تھے وہ اسی یقیں کے گواہ تھے

کہ جونہی یہاں میں پہنچ گیا وہ عطائے عفو ہے مُوبہ مُو


نہ یہاں زماں،نہ یہاں مکاں،نہ کوئی تصور این ِوآں

کہ ہوائے عشق ہے ہرطرف کہ فضائے نور ہے چار سو


وہ ہزار خواہشیں کل جو تھیں فقط اک دعا میں بدل گئیں

مراکام ہو تری جستجو ، مر انام ہو تری آرزو


جنون بنارسی

(۱۹۲۰ء بنارس یوپی…۱۹۹۵ء کراچی)

خدا کی مکمل خدائی نہ ہوتی

زمانے میں گر مصطفائی نہ ہوتی


خبر بھی نہ ہوتی کہ منزل کہاں ہے

محمد کی گر رہنمائی نہ ہوتی


مصائب سے ہوتے نہ آزاد انساں

دو عالم کی رحمت جو آتی نہ ہوتی


یتیموں غلاموں پر ہر ظلم ہوتا

اسیروں کی ہرگز رہائی نہ ہوتی


حقیقت کا فانوس روشن نہ ہوتا

اگر روشنی دل نے پائی نہ ہوتی


جنوں زندگی بھر بھٹکتا ہی رہتا

رہ عشق احمد جو پائی نہ ہوتی


جون ایلیا

(۱۴؍دسمبر۱۹۳۱ء امروہہ …۸؍نومبر۲۰۰۲ء کراچی)


بتارہی ہیں ضیائیںیہاں سے گزرے ہیں

حضور کیا روشِ کہکشاں سے گزرے ہیں


ہوئے ہیں آج وہ عنوانِ داستانِ جمال

وگرنہ یوں تو ہر اِک داستاں سے گزرے ہیں


ہر ایک بزم میںکہتے ہیںفخر سے جبریل

حضور خاص مِرے آشیاں سے گزرے ہیں


ہے مختصر یہی افسانۂ شبِ معراج

جہاں سے کوئی نہ گزرا وہاں سے گزرے ہیں


جوہرؔ سعیدی

(۱۹۲۱ء، ٹونک … ۲۰؍فروری ۱۹۹۷ء، کراچی)

گمشدہ سلسلۂ عبد و ابد مل جائے

کاش پھران کی غلامی کی سند مل جائے


جس کو چُھوتے ہی نظر آئیں حراکے جلوے

جانِ مضطر کی تگ و دو کو وہ حد مل جائے

سیرت پاک محمد جو رہے پیشِ نظر


رُوحِ تہذیب و تمنائے ابد مل جائے

عام ہوجائے اگر فکرِ رسولِ عربی

قافلوں کو رہِ ہستی کے رسد مل جائے


میں ہوں قطرہ مجھے دریا سے ملادے یا رب

میں ہوں ذرّہ مجھے سورج کی مدد مل جائے


ہے یہی عشق کا مفہوم، نظر میں میری


ہوجنوں شیفتہ جس پر وہ خرد مل جائے


کشتیٔ عمرِ رواں کو بسہولت جوہرؔ

موجِ طوفان سے گذرنے کی سند مل جائے


حاصل مرادآبادی

(۱۹۳۳ء مراد آباد)


دیار مصطفی آنکھوں میں ہے اوردل بھی روشن ہے

ہمارا حال بھی روشن ہے مستقبل بھی روشن ہے


جدھر سے آپ گذرے ہیںجہاں آرام فرما ہیں

وہ راہیں ضوفشاں ہیں اوروہ منزل بھی روشن ہے


بچھی تھی کہکشاں معراج کی شب جن کی راہوں میں

انھیں کے فیض سے دنیا کی یہ محفل بھی روشن ہے


جلا بخشی ہے ذہن و دل کو انوار رسالت نے

وگرنہ مہر بھی روشن مہ کامل بھی روشن ہے


فقط لفظ وبیان سے مدحت سرکار کیا معنیٰ

ہمیں تو دیکھنا یہ ہے چراغِ دل بھی روشن ہے


رسولِ ہاشمی ہیں جب سے میرے ناخدا حاصلؔ

سفینہ بھی سلامت ہے مرا ساحل بھی روشن ہے


حامد علی سید

(۳؍اکتوبر ۱۹۵۲ء کراچی)


زندگی دھوپ کی پوشاک اتار آئی ہے

نعت لکھی تومرے گھر میں بہار آئی ہے


جب بھی گذرے ہیں اندھیروں سے غلامانِ رسول

رہ دکھانے کو ستاروں کی قطار آئی ہے


روشنی دینے لگے گھر کے در و بام مرے

اک تجلی مری گلیوں کو نکھار آئی ہے


ریگزاروں میں کھلے دیکھے رسالت کے گلاب

آپ کی چشم کرم دشت سنوارآئی ہے


اک سفر ہے مری قسمت میں یقینا حامدؔ!

خوش نصیبی مجھے طیبہ میں پکار آئی ہے


حبیب احمد صدیقی بدایونی

(۹؍دسمبر۱۹۲۱ء بدایوں…۱۱؍جون۱۹۸۸ء کراچی)


اللہ اللہ کششِ جذب واثر آج کی رات

عرش پیما ہیں شہِ جن وبشر آج کی رات


لن ترانیِ توکجا ، شوقِ تکلم ہے سوا

اٹھ گئے سارے حجاباتِ نظرآج کی رات


از زمیں تابفلک نورکے جلوے ہیں عیاں

رُوکشِ خُلد ہے ہرراہ گزر آج کی رات


گرم بستر رہا،زنجیر کو جنبش بھی رہی

طے ہوئی لمحوں میں یہ راہِ سفر آج کی رات


زینتِ مسجدِ اقصی کا ہو کیا وصف بیاں

انبیا شانہ بشانہ ہیں ادھر آج کی رات


پہلے صدیقؓ سے معراج کی تصدیق ہوئی

مرحباصدقِ زباں،صدقِ نظر آج کی رات



حسن اللہ ہماؔ

(۴؍مئی ۱۹۴۳ء حیدرآباد دکن)


ضو بار اس قدر ہے جمال آفتاب کی

یہ بھیک دی ہوئی ہے رسالت مآب کی


مصروف ہوں میں مدحِ رسولِ انام میں

سانسوں میں ہے بسی ہوئی خوشبو گلاب کی


وہ چہرۂ مبیں تھا تصور میں اور میں

آیات پڑھ رہا تھا مقدس کتاب کی


واعظ مری جبیں کی طلب ہے درِ نبی

تجھ کو ہے فکر صرف عذاب و ثواب کی


تھاما ہے میں دامنِ سالارِ انبیا

دیتی ہے داد خلق مرے انتخاب کی

انکار کر کے شانِ رسالت مآب سے

بوجہل نے خود اپنی ہی مٹی خراب کی


حاضر تھا در پہ آپ کے کل رات خواب میں

اے کاش ! حسبِ شوق ہو تعبیر خواب کی


حسن وقار ُگل، ڈاکٹر

(۳؍جون ۱۹۵۶ء قصور)

جب میں نے ذکرِ احمدِ مختار کردیا

مطلع کو اپنے مطلعِ انوار کردیا


احسان سب پہ سرورِ عالم نے کردیا

ہردامنِ مراد کو رحمت سے بھر دیا


دنیا کی بے قراری و شب ہائے تیرہ کو

دولت سکوں کی بخشی ، پیامِ سحر دیا


ایماں کی ہم کو دولتِ بیدار مل گئی

سود وزیاں سے آپ نے بیگانہ کر دیا


مژدہ شفاعتوں کا وسیلہ نجات کا

حق سے اُدھر ملا تو نبی نے اِدھر دیا


ذکرِ جبین و عارضِ روشن سے میں نے آج

نعتِ نبی کوبقعۂ انوار کردیا


تشریف لائے رحمت للعالمین جب

دامن جہاں کا لطف و عنایت سے بھر دیا


انسانیت کی تشنہ لبی بجھ گئی وقارؔ!

ہر نخلِ آرزو کو خدا نے ثمر دیا


حسین انجم

(۱۹۳۹ء لکھنؤ…۱۹؍اپریل۲۰۰۶ء کراچی)

کہاں ہے کاغذ و کلک و سیاہی

ہے لکھنا نعتِ محبوبِ الٰہی


وہ سلطانِ سلاطین جس کے در کے

گداؤں میں ہے شانِ بادشاہی


جہالت کے قدم لرزاں ہیں اب تک

وہ اُس کے علم کی حکمت نگاہی


وہ جس کی فکر میں شیر و شکر ہے

مزاجِ دہر فرمانِ الٰہی


مرے آقا ،ہے تیری ذاتِ اقدس

محبِ دوست، محبوبِ الٰہی


تری نظروں میں ہے مردودِ یزداں

شعارِ زر، شعورِ بادشاہی


حسین انجمؔ ! یہ تیرا نعت گستر

تری ڈیوڑھی کا اک ادنیٰ سپاہی


حفیظؔ ہوشیارپوری

(۵؍جنوری ۱۹۱۲ء دیوان پورضلع جھنگ… ۱۰؍جنوری۱۹۷۳ء کراچی)


ظہورِ نورِ ازل کو نیا بہانہ ملا

حرم کی تیرہ شبی کو چراغِ خانہ ملا


تری نظر سے ملی روشنی نگاہوں کو

دلوں کو سوزِ تب و تاب جاودانہ ملا


خدا کے بعد جلال وجمال کا مظہر

اگرملا بھی تو کوئی ترے سوانہ ملا


وہ اوجِ ہمتِ عالی،وہ شانِ فقرِ غیور

کہ سرکشوں سے باندازِ ُخسروانہ ملا


وہ دشمنوں سے مدارا،وہ دوستوں پہ کرم

بقدرِ ظرف ترے در سے کس کو کیا نہ ملا


زمین سے تابفلک جس کوجرأتِ پرواز

وہ میرِ قافلہ وہ رہبرِیگانہ ملا


بشر پہ جس کی نظر ہو،بشر کوتیرے سوا

کوئی بھی محرمِ اسرار کبریانہ ملا


خیالِ اہل جہاں تھا کہ انتہائے خودی

حریمِ قُدس کو تجھ سا گریز پانہ ملا


نیازاُس کا،جبین اُس کی،اعتبار اُس کا

وہ خوش نصیب جسے تیراآستانہ ملا


درِحضور سے کیاکچھ ملانہ مجھ کو حفیظؔ

نوائے شوق ملی،جذب عاشقانہ ملا


حکیم حبیب الحسن حافظ سہسوانی

(۷؍ جولائی۱۹۰۸ء سہسوان ضلع بدایوں…۷؍ جنوری ۱۹۷۷ء کراچی)


خدا مجھے جو خود اپنی زباں عطاکردے

تونطق مدحِ محمد کا حق اداکردے


مرے جنوں کو تلاش اس نگاہِ دوست کی ہے

جوایک آن میں مٹی کوکیمیا کردے


رسا اگر جومری فکرنارسا ہوکبھی

توفرطِ شکرٔ حدودِ بیاں فناکردے


درود اُس دُر یکتائے دورِ تکویں پر

جوعلم وامن سے عالم کو پُر ضیا کردے


وہ اتفاق سے آجائیں سامنے حافظ

تڑپ تڑپ کے تڑپنے کی انتہا کردے


-

فریب خوردۂ عصیاں اب اور کیا کرتا

بس ان کے در پہ شفاعت کی التجا کرتا


مری زبان وقلم میں کہاں بساط اتنی

جوشانِ حضرت اقدس میں کچھ کہا کرتا


وہ اپنی یاد کے ہمراہ خود جو آجاتے

تومیں بھی اپنے تڑپنے کی انتہا کرتا

سرِ نیاز کو قدموں پہ رکھ کے رودیتا


غریب ومعصیت آلود اورکیا کرتا

درود اتنے کہ جن کا شمار ہو نہ سکے


سلام اتنے کہ ہر سانس پر ادا کرتا

فلک سے لا کے ستاروں کو فرشِ رہ کرتا


جومیرا وقت مرے ساتھ کچھ وفا کرتا

فوارے خون کے بہتے ہراک بُنِ موسے


نمازِ عشق انوکھی طرح اداکرتا

فراغ ملتی جوفکرِ معاش سے حافظ


تو میرا شوق خدا جانے کیا سے کیا کرتا


حکیم محمود احمد برکاتی

(۱۹۲۴ء ، ریاست ٹونک … ۹؍جنوری ۲۰۱۳ء، کراچی)


یہ آلودہ دامن یہ آنکھوں کا ساون یہ قلبِ تپاں کی لگاتار دھڑکن

مرے ہم وطن بھی یہی تھے،یہی ہیں مرے ہم سفر اے خدائے محمد


میں احرام برددش وسودا بسر ایک نازک دورا ہے پہ حیراں کھڑا ہوں

یہ مکے کا رستہ یہ طیبہ کا رستہ میں جاؤں کدھر اے خدائے محمد


یہ کعبہ،یہ روضہ رہیں اب مرے سامنے عمر بھراے خدائے محمد

جدائی کی بے درد صدیاں نہ آئیں کبھی لوٹ کراے خدائے محمد


دکھایا ہے بندہ نوازی سے تونے جو یہ اپنا دراے خدائے محمد

توہی اب دعاؤں کو بھی مرحمت کرقبول واثر اے خدائے محمد


یہ کعبہ یہ زمزم یہ صحن حرم یہ مطاف ومقام ودروبام ومسعی

مجھے توہرایک چیز دیکھی ہوئی آرہی ہے نظراے خدائے محمد


مجھے تو مدینے کی گلیوں میں آکر وہ راحت وہ فرحت وہ ٹھنڈک ملی ہے

کوئی آگیا جیسے پردیس سے لوٹ کر اپنے گھر اے خدائے محمد


بشر آج تک تونے ایسانہ پیدا کیاہے نہ آئندہ پیداکرے گا

عقیدہ مرابھی یہی ہے بشرہے وہ خیر البشر اے خدائے محمد


حکیم ناصر

(۱۹۴۶ء اجمیر …۲۸؍جولائی ۲۰۰۷ء کراچی)


محشر میں دکھا دے کوئی ایوانِ محمد

ہیں تشنۂِ دیدار غلامانِ محمد


میں اُن کی بتائی ہوئی راہوں پہ چلوں گا

قرآن ہے میرے لیے فرمانِ محمد


وہ آگ میں واللہ نہ دوزخ کی جلے گا

جس دل میںہو تھوڑا سا بھی ایمانِ محمد


واقف نہیں جنت کے مکیں دورِخزاں سے

پھولوں سے مہکتا ہے گلستانِ محمد


بخشش کا وسیلہ بھی یہی سب سے بڑا ہے

چھوڑوں گا سرحشرِ نہ دامانِ محمد


وہ چھاؤں میں رحمت ہی کی تاعمر رہے گا

ہوجائے عطاجس کوبھی عرفانِ محمد


دنیا میں جو شہرت ملی اس نعت کو ناصرؔ

یہ بھی ہے بلاشبہ اک احسانِ محمد


حمایت علی شاعرؔ

(۱۴؍جولائی ۱۹۳۰ء،اورنگ آباد، حیدرآباد دکن)


وہ ذات شہر علم تو ہم طالبانِ علم

ہم ذرہ ہائے خاک ہیں وہ آسمانِ علم


ہم کیا ہیں ایک لفظ ، معانی سے بے خبر

ہم کیا سمجھ سکیں گے رموز جہانِ علم


سوچا تو ہم ہیں کب سے اساطیر کے اسیر

کب سے ہے اپنے جہل پہ ہم کو گمانِ علم


قرآں ہے اس کے نطق کا اک زندہ معجزہ

اقراء سے تابہ آیت آخر، زبانِ علم


اسرارِ کائنات کا عقدہ کشا وہی

وہ راز دانِ وسعت کون و مکانِ علم


ہم جستجو حق میں رواں اس کے سائے سائے

ہم کو اسی کے نقشِ کف پا، نشانِ علم


- نظم’’محاسبہ‘‘

(بحضورسرورِ کا ئنات صلی اللہ علیہ وسلم)


حضور ! آپ کی اُمّت کا ایک فردہوں میں

مگر خود اپنی نگاہوں میں آج گرد ہوں میں

میں کس زباں سے کروں ذکرِ اُسوۂ حسنہ

کہ اہلِ درک وبصیرت ،نہ اہلِ درد ہوں میں

میں کس قلم سے لکھوں سرخیِ حکایتِ عشق

کہ رنگ دیکھ کے اپنے لہو کازرد ہوں میں

سمجھ سکوں گا میں کیا سرِ نکتۂ معراج

شکست خوردۂ دنیائے گرم و سرد ہوں میں

بہ زعمِ خود تو بہت منزل آشنا ہوں مگر

جو راستے ہی میں اُڑتی پھرے وہ گرد ہوں میں

عجیب ذوقِ سفر ہے کہ صورتِ پرکار

جو اپنے گرد ہی گھومے وہ رہ نورد ہوں میں

دہائیوں سے نچوڑا تھا جس اکائی کو

اب اُس اکائی سے آمادۂ نبرد ہوں میں

بچھا رکھی ہے جو اِک دستِ مکر نے ہرسو

اُسی بساطِ سیاست پہ ایک نرد ہوں میں

میں اپنی ذات میں ہوں اپنی قوم کی تصویر

کہ بے عمل ہی نہیں جہل میں بھی فرد ہوں میں

حضور ! آپ نے چاہا تھا کیا ، ہوا کیا ہے

مگر میں سوچ رہا ہوں مری خطا کیا ہے

فقط تلاوتِ الفاظ میرا سرمایہ

پسِ حروف ہے کیا ؟کب مجھے نظر آیا

کہی تھی آپ نے جو بات استعاروں میں

مِرا شعور کب اُس کا سفیر بن پایا

نہ میں سوچا کہ شق القمر میں رمز ہے کیا

مِری گرفت میں کس طرح آفتاب آیا

سوادِ غیب سے جبریل کی صدا نے مجھے

سماعتوں کے کس ادراک پر ہے اُکسایا

نہ میں نے جانا کہ اِک عکسِ لاشعور بھی ہے

جو حرف و صوت کی صورت ہے میرا ہم سایہ

میں اپنی ذات میں کس طرح ایک عالم ہوں؟

سمجھ سکی نہ کبھی میری فکرِ کم مایہ

نہ میرا عشق ہے میرے یقین کا حاصل

نہ میری عقل ہے میرے جنوں کی ہم پایہ

وہی عقائدِ افسوں زدہ ، وہی اسطور

بدل کے شکل مری عقل کے ہیں ہم سایہ

کُھلے تو کیسے کُھلے مجھ پہ معنیٔ اقرا

کہ میرے علم پہ ہے میرے جہل کاسایہ

نہ میںنے سوچا کہ قرآں کا مدعا کیا ہے

عروجِ آدمِ خاکی کی انتہا کیا ہے

میں بُت پرست نہیں ہوں پہ بُت شکن بھی نہیں

وہ مردِ تیشہ بکف ہوں جو کوہ کن بھی نہیں

میں کس کے نام لکھوں یہ ستم کہ اہلِ کرم

فقیہ و صوفی و ملا ہیں ، برہمن بھی نہیں

میں ایک چہرہ تھا اور اب ہزار چہرہ ہوں

اب اعتبار کے قابل مرا سخن بھی نہیں

میں روشنی کے بہت خواب دیکھتا ہوں مگر

اُس انجمن میںجہاں شمعِ انجمن بھی نہیں

میں فکرِ بوذرؓ و صبرِ حسینؓ کا ورثہ

گنوا چکاہوں تو ماتھے پہ اِک شکن بھی نہیں

میں چل رہاہوں کسی پیرِ تسمہ پا کی طرح

اگر چہ پاؤں میں میرے کوئی رسن بھی نہیں

مرا وجود ہے سنگِ مزار کی مانند

کہ میرے ساتھ مری روح کیا ،بدن بھی نہیں

میں شہرِ علم سے منسوب کیا کروں خود کو

کسی کتاب کاسایہ مرا کفن بھی نہیں

کہا گیا جسے قرآں میں بندۂ مؤمن

وہ میں تو کیا ،کہ مراکوئی ہم وطن بھی نہیں

ہر اُمّتی کی یہ فردِ عمل ہے کیا کیجے

حضور ! آپ ہی ہم سب کا فیصلہ کیجے


حمیدہ کششؔ

(یکم جنوری ۱۹۸۲ء کراچی)


مجھے جب بھی مدینے کی فضائیں یاد آتی ہیں

دلِ مجبور کی ساری دعائیں یاد آتی ہیں


نجانے کیوں مجھے یہ نفسا نفسی دیکھ کر اکثر

سبھی اصحابِ آقاؐ کی وفائیں یاد آتی ہیں


زیارت کی تمنا ہے مرے دل میں ہمیشہ سے

قدم اُٹھتے نہیں جب بھی خطائیں یاد آتی ہیں


شفائیں ہی شفائیں ہیں سنا ہے پاک زم زم میں

مریضِ عشق کی خاطر شفائیں یاد آتی ہیں


نبیؐؐ کی خاکِ پا ، خاکِ شفا کا درجہ رکھتی ہے

مجھے روحانیت کی وہ دوائیں یاد آتی ہیں


مرے آقاؐ تو سن لیتے ہیں خاموشی کی آوازیں

کبھی جو دل نے کی تھیں التجائیں یاد آتی ہیں


سنا ہے نور کی بارش برستی ہے مدینے میں

حمیدہؔ کو وہ رحمت کی گھٹائیں یاد آتی ہیں


حنیف حسین رضوی

(۱۹۱۵ء امروہہ انڈیا…۱۴؍مارچ ۱۹۹۶ء کراچی)


کس طرف جاؤں کہیں میرا گزار اہی نہیں

آپ کے در کے سوا کوئی سہارا ہی نہیں


شیخ کے ساتھ میں جنت کو چلوں تو لیکن

درِ سرکار کو چھوڑوں یہ گوارا ہی نہیں


قافلے جاتے ہیں ہر سال مدینے،ہائے

نہیں چمکا مری قسمت کا ستارا ہی نہیں


وقفِ آلام رہے آپ کا شیدا ہوکر

یہ تو سرکارِ دوعالم کو گوارا ہی نہیں


آسرا سب کوہے محشر میں محمد کا حنیفؔ!

اور نبیوں میں کوئی ایسادُلارا ہی نہیں


حیات النبی رضوی، سیّد

(۱۲؍جولائی ۱۹۴۱۔امروہہ،یوپی)


ایک رستہ بے ضرر پہچانیے

مصطفی کی رہ گزر پہچانیے


ایک اُمی ایک دنیا زیرپا

انقلابِ راہبر پہچانیے


فہم انساں کا محرک تھا سفر

حرمتِ زنجیر در پہچانیے


رہتی دنیا تک رہے گا رہنما

آمنہ ! نور نظر پہچانیے


خدمت اقدس میں دونوں ایک ہیں

وہ علی ہے یہ عمر پہچانیے


درد کا درماں نبی کی ذات ہے

دوستو!وہ سنگ در پہچانیے


ہم کو اپنی جاں سے بڑھ کر ہیں نبی

دل کی دنیا کا سفر پہچانیے


ذکر وفکر مصطفی شب تاسحر

نورشب نور سحر پہچانیے


نام لیوا ہے حیاتِؔ بے اماں

چارہ ساز و چارہ گر پہچانیے


خالدؔ شمس الحسن

(۱۹۲۶ء دہلی…۳۰؍جون ۱۹۹۵ء کراچی)

نازشِ رحمتِ کبریا ہیں یہی

صاحبِ فیض ولطف وعطا ہیں یہی


مصطفی ہیں، حبیب خدا ہیں یہی

عاصیوں کے لیے آسرا ہیں یہی


ہیں یہی وجہ تخلیق کون ومکاں

کُن سے پہلے جو تھی وہ صدا ہیں یہی


سب سے اعلیٰ وافضل ہے ذاتِ خدا

ہر فضیلت میں بعداز خدا ہیں یہی


نور سے جس کے روشن ہیں شمس وقمر

وہ ہدایت کاروشن دیا ہیں یہی


میں نہ چھوڑوں گا خالدؔ درمصطفی

میرے آقا ہیں مشکل کشا ہیں یہی



خالد علیگ

(۱۹۲۳ء فرخ آباد … ۱۵؍اگست ۲۰۰۷ء کراچی)

السلام اے رونقِ افزائے گلزارِ جہاں

السلام اے بے مثال و بے نظیر و بے کراں

السلام اے ماورائے گردشِ لیل و نہار

السلام اے زینتِ زیبائشِ کون و مکاں

السلام اے ابرِ رحمت بہرِ کشت و مرغزار

السلام اے چہرۂ انوار فترت آشکار

السلام اے فطرتِ زندہ کی تخلیقِ حسیں

السلام اے شاعرِ آزاد کی فکرِ حسیں

السلام اے خالقِ عالم کے سادہ شاہکار

السلام اے بے نیازِ ہر دوعالم السلام 

السلام اے قاطعِ ہر جہل ِخاص وجہل ِ عام

روشنی تیرا تکلم ، روشنی تیرا کلام

السلام اے خاتمِ ہستی کے تابندہ نگیں

السلامِ رحمتِ کل رحمت اللعالمیں

تجھ سے جو بیگانہ ہے واللہ وہ انساں نہیں

-

کہیں پھول بن کر برستے ہیں پتھر

کہیں خون آلود چادر ہے تن پر

چلے بھی تو راہوںمیں کانٹے بچھائے

ستم جھیل کر بھی سدا مسکرائے

وہ چاہیں تو کٹ جائے ماہِ منور

وہ چاہیں تو تھم جائے نبضِ گلِ تر

نہ نفرت نہ کینہ نہ بغض و عداوت

لبوں پر دعائیں ہیں درسِ عنایت

لگائی گئی جب غلاموں� پہ تہمت

ہوئی ساری دنیامیں رسوا شرافت

مگر پھر رسالت کو آیا جلال

بنے وہ غریبوں ، یتیموں کی ڈھال

مظالم کوروکاتھا اکثر نبی نے

سمیٹایتیموں کو بڑھ کر نبی نے

بچھائے اُجالے ، مٹائی جہالت

رسولِ خدا کی ہے جدّت روایت


خالد معین

(۳؍ جون ۱۹۲۴ء کراچی)

یہی ہے زیست کاحاصل نظر میں رہ جاؤں

تمہارا در نہ ملے تو سفر میں رہ جاؤں


تمہارا دستِ کرم جس گھڑی نہ ہومجھ پر

عجب نہیں صفِ نامعتبر میں رہ جاؤں


میں اُڑ رہا ہوں تو یہ بھی کرم تمہارا ہے

اُلجھ کے ورنہ غمِ بال وپر میں رہ جاؤں


طلب کے پھول جہاںسب رتوں میں کھلتے ہیں

میں مثلِ خاک اُسی رہ گزر میں رہ جاؤں


خوشا وہ اسمِ محمد ، خوشا وہ بابِ یقیں

میں کیسے غفلتِ شام و سحر میں رہ جاؤں


اے کارِ عشق محمد ، یہ کم نہیں ہے مجھے

تمام عمر میں تیرے اثر میں رہ جاؤں


خان آصف

(۱۹۴۰ء، رامپور…۱۶؍ دسمبر ۲۰۰۳ء کراچی)

جہاں بھی سلسلۂ قال وقیل ٹھہرے گا

تواپنے آپ ہی اپنی دلیل ٹھہرے گا


شعورِ منزلِ انسانیت توآجائے

ہرایک دور میں توسنگِ میل ٹھہرے گا


عذابِ جاں کے فرشتے بھی خود عذاب میں ہیں


سناہے جب سے تو میرا وکیل ٹھہرے گا


جو بہہ گیاہے تیرے درد کے حوالے سے

وہ ایک اشک بھی وسعت میں نیل ٹھہرے گا



خان معراج

(۱۰؍جون ۱۹۶۴ء، شاہجہانپور)

پھیلا ہواہے ایک اجالا قدم قدم

کیا دلکش وحسیں ہے مدینہ قدم قدم


طیبہ نگر اک ایسا نگر ہے کہ جس جگہ

ہے راحت وسکون کی دنیا قدم قدم


درسِ نبی کو عام کریں حسنِ خلق سے

اے دوست ہے یہ فرض ہمارا قدم قدم


میں بامراد درسے چلاہوں حضور کے

احسان مند ہے دلِ شیدا قدم قدم


آقا کی چشم لطف و کرم کا یہ فیض ہے

اتنی سنور گئی ہے جو دنیا قدم قدم


طیبہ کی سمت جب میں چلاہوں ا ے دوستو!

دل نے دکھایا ہے مجھے رستہ قدم قدم


منزل پراپنی پہنچا ہوں معراجؔ بے خطر

رہبر ہوئے ہیں میرے جو آقا قدم قدم


خسروؔ فیروز ناطق

(۱۹؍نومبر۱۹۴۴ء بدایوں)

وہ روشنی جو خزینے کے بیچ سے نکلی

فقط وہ ایک نگینے کے بیچ سے نکلی


متاعِ اہلِ بصیرت جو ہے وہ ایک کرن

حضور آپ کے سینے کے بیچ سے نکلی


چہار سمت ہے جاری ابھی بھی اُس کا سفر

وہ رہگزر جو مدینے کے بیچ سے نکلی


دُعا جو حجرئہ اسود کو چُوم کر مانگی

قبولیت کے مہینے کے بیچ سے نکلی


وہ بُوئے ُگل کہ معطر ہے جس سے دل خسروؔ!

مرے نبی کے پسینے کے بیچ سے نکلی

-

کسی سفینے سے پہنچے ‘ کسی بھی زینے سے

دعا کا گہرا تعلق ہے دل سے‘ سینے سے


گداگری کے بھی آداب کچھ رکھو ملحوظ

جو مانگنا ہو وہ مانگو مگر قرینے سے


میں ایک رندِ بلا نوش بر لبِ کوثر

غرض انہیں ہے پلانے سے مجھ کو پینے سے


نفس نفس میں رچی ہے عجیب سی خوشبو

لیا ہے روح نے اک پیرہن مدینے سے


درود پڑھ کے جو پھونکا ہے جسم پر خسروؔ!

مہک گلاب کی آنے لگی پسینے سے


خواجہ حمید الدین شاہدؔ

(۴؍اکتوبر ۱۹۱۷ء حیدرآباد دکن…۲۳؍اکتوبر ۲۰۰۱ء کراچی)

دونوں عالم جان ودل سے ہیں فدائے مصطفی

کتنی سادہ کتنی دلکش ہے ادائے مصطفی


زلفِ مشکیں باعثِ رّدِ بلائے دوجہاں

سرمۂ چشمِ بصیرت خاکِ پائے مصطفی


آپ کا ہوں آپ کا ہوں آپ کاہوں یانبی

ہو نہیں سکتاکسی کا آشنائے مصطفی


اس سے بڑھ کراورکیا ہوگی عطائے کردگار

لب پہ ہے نامِ نبی دل میں ولائے مصطفی


بے نیاز قصروایواں دشمنِ جاہ وحشم

فخرِ شاہاں رشکِ سلطاں ہے گدائے مصطفی


شاہدؔ اس کی زندگانی باعثِ صد رشک ہے

ہرنفس کرتاہے دل سے جو ثنائے مصطفی


-

عیاں ہے زمانے میں شانِ محمد

دوعالم میں ’’ہرجا‘‘ نشانِ محمد


خداودند عالم سے ہوتی ہیں باتیں

زبانِ خدا ہے زبانِ محمد


محمد کی ہے دو جہاں میں خدائی

جہانِ خدا ہے جہانِ محمد


کوئی میہماں کی یہ رفعت تو دیکھے

خدا خود ہوا میزبانِ محمد


یہی ہے عبادت یہی بندگی ہے

مرا سر ہے اور آستانِ محمد


خدا کے محمد ہی بس رازداں ہیں

خدا ہے فقط رازدانِ محمد


کرے ناز کیا کوئی حسنِ بیان پر

نہیں سہل شاہدؔ بیانِ محمد

خواجہ ریاض حسن انورؔ

(۱۰؍نومبر۱۹۴۱ء بہار…۱۲؍اگست ۱۹۹۰ء کراچی)

مدّت سے ہم سخن ہیں ثناخوانِ مصطفی

لیکن عمل ہے حسبِ حریفانِ مصطفی


رحمت میں بے حساب ہے پیارے نبی کی ذات

وسعت میں بے کنار ہے دامانِ مصطفی


کیا کچھ نہ خوبیاں تھیں محمد کی ذات میں

یوں ہی نہیں ہے دہر ثناخوانِ مصطفی


اُمّت جو دوسروں کی تھی اُن پر بھی آشکار

فضلِ خدا ہوا تو بہ فیضانِ مصطفی


رحمت ہے سر بلند اُسی ذاتِ پاک سے

جس سے ہیں روشناس بہ عنوانِ مصطفی


آئے جھلک نہ حسنِ عقیدت سے شرک کی

اُلفت میں ہو غلو ، نہ محبّانِِ مصطفی


یہ افتخار کم تو نہیں ہے کسی طرح

انورؔ ! بھی ہے غلامِ غلامانِ مصطفی


خورشیداحمر

(۱۹۴۰ء کانپور)

نہ فلسفے سے نہ حکمت رسی ملتاہے

خدا کا قرب توقربِ نبی سے ملتاہے


ہجوم غم میں سکوں گرکسی سے ملتاہے

وہ انبساط ثنائے نبی سے ملتاہے


بجھی تھی جس کی دعاؤں سے آتشِ نمرود

یہ سلسلہ بھی حضور آپ ہی سے ملتاہے


وہ کربلا کی فغاں ہوکہ سوزوساز بلال

مقامِ شوق توعشق نبی سے ملتاہے


درنبی سے جوملتاہے جامِ عرفانی

مجھے سُرور اسی چاندنی سے ملتاہے


کہاں یہ محفل نعتِ نبی کہاں خورشیدؔ

یہ درجہ روح کی شائستگی سے ملتاہے


-

پھر عشرت گویائی اے طبع رواں دے دے

سرکار دوعالم کی الفت کو زباں دے دے


مدحت کے لیے یارب وہ حسن بیاں دے دے

جو قطرہ شبنم کودریا کا نشاں دے دے


اے ابر کرم میرے گلزارِ معانی کو

نرگس کی نظر دے دے سوسن کی زباں دے دے


بارش کی قبا دے دے سوکھے ہوئے پیڑوں کو

عریانی صحرا کو احرام اذاں دے دے


دینے پہ اگر آئے وہ ذاتِ کرم گستر

اک اسمِ محمد پریہ دونوں جہاں دے دے


مدت سے حضوری کا ارمان لیے دل ہے

اس خاکِ پریشاں کو منزل کا نشاں دے دے


خوشنودؔامروہوی

(۱۹۳۶ء امروہہ بھارت)

اک معجزہ عجیب سا میری نظر میں ہے

کل کائنات جلوۂ خیرالبشر میں ہے


ہو جس دُعا کے ساتھ وسیلہ درود کا

مقبولیت کا تاج بھی اس کے اثر میں ہے


کشتی ہو زیرِ سایۂ دامانِ مصطفیٰ

توہر خطر سے دور وہ اپنے سفر میں ہے


موجودگی توآپ کی روشن دلیل ہے

نورالہدی ہے نور جو شمس وقمر میں ہے


وجہ بنائے دین بھی دنیا بھی آپ ہیں

رحمت ہے عالمین میں جن وبشر میں ہے


تخلیقِ کائنات میںا ٓدم ہے سب کے بعد

لیکن ازل سے نور محمد نظر میں ہے


دلاورعلی آزرؔ

(۲۱؍نومبر ۱۹۸۴ء حسن ابدال)


درود پڑھتے ہوئے خواب دیکھتے ہوئے لوگ

درِنبی کی تب و تاب دیکھتے ہوئے لوگ


حضور آپ کو سب سے قریب پاتے ہیں

احد کا حلقۂ احباب دیکھتے ہوئے لوگ


تمام دیکھنے والوں پہ رکھتے ہیں سبقت

وہ سبز گنبد و محراب دیکھتے ہوئے لوگ


اُنہی کے اِسم کی برکت سے دیکھتے ہوں گے پ سِ نگاہ تہِ آب دیکھتے ہوئے لوگ


یہ کس کے نور سے روشن ہے کائنات اُس کی

یہ کون لوگ ہیں مہتاب دیکھتے ہوئے لوگ


خدا کا شکر اداکرتے ہیں دعائوں میں

جبینِ وقت پہ محراب دیکھتے ہوئے لوگ


بس اِک بلاوے کے محتاج میں سبھی آزرؔ!

سفر کے باندھ کے اسباب دیکھتے ہوئے لوگ


دلاورفگار

(۸؍ جولائی ۱۹۲۸ء بدایوں،یوپی…۲۰؍جنوری۱۹۹۸ء، کراچی)

جمال ماہ وانجم عارضِ احمد کی تابانی


طلوع صبح خنداں مصطفی کی خندہ پیشانی

محمد کی غلامی کرکے توبھی سیکھ جائے گا


جہاں بینی،جہاں گیری،جہاں داری،جہاں بانی


رسول پاک کو عام آدمی سمجھے توکیا سمجھے

قرائن سارے انسانی ،شمائل سارے سبحانی


زبان شوق پرنام محمد آگیا آخر

بس اے بیتابی دل بس،یہیں تک تھی پریشانی


مرے آقا نے اس حد تک بھراہے میرے داماں کو

جہاں تک ساتھ دے سکتی تھی میری تنگ دامانی


سفر میںا ٓخرت کے اور زادِ راہ کیا لیجیے

بہت ہے دیدۂ گریاں میں اک اشک پشیمانی


نظر جب مصحف رُخ پرپڑی،جبریل نے دیکھا

لکھی ہیں عارض پرنور پر آیات قرآنی


قیامت میں فگارِ بے نوا کی دستگیری کو

بہت ہے ایک نظم مختصر کی نعت عنوانی


نعتے کہ رقم کردی درشانِ محمد


اعجازِ قلم اَست بہ فیضانِ محمد

مایوس مباش اے گل پامال وفسردہ


اُمید بہار است زبارانِ محمد

ماراچہ محابا زگراں باریِٔ عصیاں


اعمال سپردیم بہ میزانِ محمد

اے سالکِ حق ترک مُکن راہِ طریقت


عرفانِ خدااست زعرفانِ محمد

انسان ونباتات وجمادات چہ معنی


خود جنِ وملک تابع فرمانِ محمد

تشریح مقاماتِ محمد چہ کنم من


شاہانِ جہاں اند غلامانِ محمد


رضواں در جنت بکشا شکل چہ بینی

ما نعت نگاریم ، ثنا خوانِ محمد


دورؔ ہاشمی کانپوری

(۱۹۰۶ء، کانپور…۱۹۷۲ء، کراچی)

اے کہ تراوجودِ پاک دشمنِ فتنہ پروری

اے کہ شکست کردیا تونے طلسمِ آذری


تیری جناب دم بخود بولہبی وخود سری

تیرے حضور سرنگوں دبدبۂ سکندری


اے کہ تری ادا ادا فاتح قلب سومنات

اے کہ تری نظر نظر حاصلِ حُسنِ دلبری


اے کہ دکھا دکھا دیا تونے جمالِ حق نما

اے کہ مٹا مٹا دیا تونے غرور کافری


اے کہ ترے نیاز میں ناز کی عشوہ سازیاں

اے کہ تری عبودیت معبد راز خودگری


عرش سے فرش تک ترے حُسن کی جلوہ پاشیاں

فرش سے عرش تک تری جلوۂ گۂ پیمبری


اے کہ تری تجلییاں حاصلِ ظلمت جہاں

تیرے کرم نے سرد کی آتشِ سحر سامری


اے کہ تراقدم قدم منزلِ امن وعافیت

اے کہ ترا نفس نفس دعوت اوج وبرتری


تجھ سے نکھر نکھر گیا چہرۂ صدقِ کائنات

تجھ سے لرزلرز اٹھی روح فسونِ زرگری


تجھ سے ملا جہان کو نظم و نظامِ حق شناس

تیرے بغیر تھی بہت زلفِ جہاں میں ابتری


گنبدِ سبز کے مکیں خاتمِ دہر کے نگیں

شاہد محفل یقیں گوہرِ تاج سروری


تیری قبائے کہنہ میں دولتِ دوجہاں کا راز

تیرے قدم میں سجدہ ریز سطوتِ حسن قیصری


دیدۂ خودنگر پہ تھیں شاق تری تجلیاں

گیسوئے بولہب میں تھی تیرے ہی دم سے ابتری


دشمنِ جاں پہ بھی اٹھی تیری نگاہِ التفات

یہ تیری شانِ مرحمت یہ تیری بندہ پروری


مستی وآگہی کا ناز نشۂ زندگی کاراز

تیرا سبُوچۂ خودی تیری میٔ قلندری


اُن پہ سلام مل گئی جن کوترے طفیل سے

نانِ جویں کی معرفت نعمتِ فقر حیدری


صل علیٰ محمد صل علیٰ محمد

دورؔ اس اسمِ پاک سے دونوں جہاں کی برتری


ذکی عثمانی

(۱۴؍جون ۱۹۴۱ء پیلی بھیت … ۲۲؍جون ۲۰۱۲ء کراچی)


یہ واقعہ ہوتولگنے لگے حسیں سب کچھ

کہ بھول جائے جزان کے دلِ حزیں سب کچھ


تمہیں ہوباعثِ کون و مکاں تمہیں سب کچھ

یہی ہے دینِ مسلماں یہی یقیں سب کچھ


خدا کے بعد اگر ہے کوئی تو بس تم ہو

یہ نکتہ سمجھا توسمجھا ہے نکتہ بیں سب کچھ


طلب نہیں ہے کسی اور خلد کی دل کو

مرے لئے تو ہے طیبہ کی سرزمیں سب کچھ


حضور اپنی محبت کی بھیک دے دیں مجھے

کہ اورجو بھی ہے رہ جائے گا یہیں سب کچھ


کہاہے میرے نبی نے کہ ہے جہاں اک اور

یہی حیات یہی زندگی نہیں سب کچھ


چمک دمک میں ہے ایسی طمانیت گویا

درِ نبی سے اٹھالائی ہے جبیں سب کچھ


حضور کیاہیں کسے حوصلہ کہ لب کھولے

کہ ہیں کچھ ان غلاموں کے ہم نشیں سب کچھ


یہ رنگ پیرویٔ مصطفی میں ہواے کاش

کہ ہوذکیؔکے لئے لقمۂ جویں سب کچھ



ذکیہ غزل

(۲۰؍اکتوبر ۱۹۹۸ء، کراچی)

کیا اذنِ حضوری ہو سرکار مدینے میں

منگتوں کا بھی لگتا ہے دربار مدینے میں


کچھ اشک ندامت کے آنکھوں سے گرے اور پھر

مت پوچھیے کیا پایا، اس بار مدینے میں


ہے ورد درودوں کا اور لب پہ ثناخوانی

رہتا ہے کہاں کوئی بے کار مدینے میں


ہر زخم شفا پائے بس خاکِ مدینہ سے

انگار بھی ہوتا ہے، گلزار مدینے میں


جب ڈوبنے لگتی ہے کشتی مرے جیون کی

ہوتا ہے ہر اک بیڑا پھر پار مدینے میں


بس خواب میں آقا کا دیدار کرا دے جو

اک نعت لکھوں ایسی اس بار مدینے میں


ذہینؔ شاہ تاجی

(۱۹۰۲ء، ریاست جے پور … ۲۳؍جولائی ۱۹۷۸ء، کراچی)


تمھی کو دیکھتا ہے دیکھنے والا حقیقت کا

تمھی کو پارہا ہے پانے والا حُسنِ قدرت کا


کہاں فطرت کے دامن میں سماتا حسن فطرت کا

بَھلے کو مل گیا آئینہ تیرے حُسنِ سیرت کا


ملا تجھ سے ہی حسنِ غیب کو منظر شہادت کا

تری قامت سے دنیا کو یقیں آیا قیامت کا


حقیقت میں یہاں ہر شے،محمد ہی محمد ہے

محمد ہی حقیقی راز ہے کثرت میں وحدت کا


محمد نقشِ اول ہے محمد نقشِ آخر ہے

محمد ہی محمد مشغلہ ہے کلکِ قدرت کا


محمد سے ہراک شے میں ہوا مفہوم ِ شے پیدا

ہدایت میں ہدایت کا ،نہایت میں نہایت کا


بہارِ رنگ وبو سے جھولیاں بھرد یں زمانے کی

تمھارا پھول سا چہرہ چمن آرا ہے فطرت کا


تراغم خواریٔ خلقِ خدا سے مضطرب رہنا

زمانے کے لیے پیغام ہے تسکین و راحت کا


کسی کو بھی محبت ہو،کسی سے بھی محبت ہو

ذہینِؔ یوسفی مرکز ہے وہ حسن و محبت کا




راز زیدی

(۱۳؍مئی ۱۹۲۵ء شاہ پورپٹودی …۲۰؍مئی ۹۱۹۱ء کراچی)

نہیں معلوم تھا انساں کو خودکیاہے ،خدا کیا ہے

خدا سے اس کے بندوں کا مسلسل رابطہ تم ہو


عمل جاری رہے گا تا ابد جس پر زمانے میں

کتابِ زندگی کاوہ مکمل ضابطہ تم ہو


راز ؔمرادآبادی

(۱۹۱۶ء مرادآباد…۲۳نومبر ۱۹۸۲ء کراچی)


کیا بتاؤں یہ رازؔکیا ہوں میں


خاکِ دہلیزِ مصطفی ہوں میں

ہاں ! گنہگار ہوں بُرا ہوں میں


لاج رکھ لیجے ،آپ کا ہوں میں

بابِ جبریل پر کھڑا ہوں میں


نور ہی نور دیکھتا ہوں میں

جھک گئی ہے نظر بہ پاسِ ادب


سر سے پا تک لرز رہاہوںمیں


ہر طرف ہے تجلیوں کا ہجوم

اورجلووں میں کھو گیاہوںمیں


لوگ کہتے ہیں یہ مدینہ ہے


درِ اقدس پہ آگیا ہوں میں

خاکِ طیبہ کو منہ پہ ملتا ہوں


ذرّے ذرّے کو چومتاہوں میں

نعت پڑھ پڑھ کے جالیوں کے قریب


آپ ہی آپ جھومتا ہوں میں

روضۂ مصطفی کا کیا کہنا


جیسے جنت میں آگیاہوں میں

میں کہاں اور درِ حضور کہاں


سورہاہوں کہ جاگتا ہوں میں

ہاتھ اُٹھنے لگے دعا کے لیے

اُن سے مصروفِ التجا ہوں میں


آپ مولائے کل ہیں داتا ہیں

میرا کیاپوچھنا ،گدا ہوں میں


میری جھولی ضرور بھر دیجے

دولتِ درد مانگتا ہوں میں


میرا حامی خدا اور اس کا رسول

خادمِ فخرِ انبیا ہوں میں



راشدؔ نور

(۶؍ فروری ۱۹۵۶ء میر پور خاص)


میں منتظر ہوں ابھی ماہ وسال کوئی نہیں

بس ان کے در کے سوااب سوال کوئی نہیں


نبی کی شان رسالت کا معجزہ ہے یہی

مثال ڈھونڈ گے لیکن مثال کوئی نہیں


ہوائے شہر مدینہ کی نسبتوں کے طفیل

نصیب جاگے ہیں میراکمال کوئی نہیں


بس ان کے دامن نسبت کو تھام کے رکھنا

کہ بخششوں کے لیے ایسی ڈھال کوئی نہیں


وہ سائبان ہے رحمت کا جس کی چھاؤں میں

بہت سکون ہے دل کوملال کوئی نہیں


ہمیں یہ ناز کہ سرکار کی غلامی میں

ہماری طرح کہیں مالامال کوئی نہیں


تخیلات کا حاصل یہی توہے راشدؔ!

درنبی سے معطر خیال کوئی نہیں


راقم رحمانی

(۱۲؍ اپریل ۱۹۲۹ء…۲۰۱۲ء کراچی)

اب تو یہ عالم ہے دل میں کر گیا ہے گھر چراغ

جل رہاہے یاد آقا کامرے اندر چراغ


بستیوں میں کیا دھرا تھا ظلمتوں کے ماسوا

نورپیکر نے فروزاں کر دیے گھر گھر چراغ


بارش انوار رحمت نے مجلیٰ کردیئے

دھل گئے چہرے نظر آنے لگے پتھر کے چراغ


ثانی سلطان عالی تھا نہ ہوگا اور نہ ہے

جستجو کرتی پھرے دنیا عبث لے کر چراغ


مقتدر میں، سب ولیٔ مصطفی، اپنی جگہ

ایک ہی سورج کی پیداور ہیں دیگر چراغ


یوں شہادت پر تلا ہے جادٔہ آقا میں دل

کٹ گئی گردن توبن جائے گا اپنا سرچراغ


عاشقان مصطفی ہیں روشنی کی ایک لکیر

تامحمد جل رہے ہیں سب چراغ اندر چراغ


اب دیار دل میں ظلمت کا گذر ممکن نہیں

اب یہ ہے سرکار کی مدحت کا جلوہ گر چراغ

گو اُجالے ہیں سبھی راقم خدا کے نام کے

پر بدستِ مصطفی روشن ہو اپنے ہر چراغ



رخسانہ صبا

(۴؍ مارچ ۱۹۵۹ء کراچی)


روح کے سناٹے میں برپا شورِ تمنا کس نے کیا

آرزوؤں کی بجھتی ہوئی اس راکھ کو شعلہ کس نے کیا


کس کے عکس نے خالقِ کل کے لاکھوں جلوے دکھلائے

کس نے جلا دی شیشۂ دل کوآئینہ خانہ کس نے کیا


اُمّی لقب ہوکر بھی شہرِ علم بنا کس کا پیکر

بے سایہ ہو کر بھی اس دنیا پر سایہ کس نے کیا


خانۂ ہستی کی تاریکی کس کے دم سے دور ہوئی

کفر کے ِتیرا ایوانوں میں آکے اُجالا کس نے کیا


بادِ سموم کے جھونکے تھے اور ہر جانب تھارقصِ خزاں

کس نے ریت میں پھول ِکھلائے کارِ مسیحاکس نے کیا


کس کی آمد مایوسی میں جینے کاپیغام بنی

شب کو سحر ،اشکوں کو ستارہ، زیست کو نغمہ کس نے کیا


تشنہ لبی جب حد سے گزری ،کس نے پلایا آبِ حیات

ہم اِک قطرۂ نا پُرساں تھے ،ہم کو دریا کس نے کیا


رسا چغتائی

(۱۹۲۸ء، سوائی مادھوپور ریاست جے پور)

صفات و ذاتِ حمدِ کبریا ہے

کلامِ پاک نعتِ مصطفیٰ ہے


رسالت غیب ہے اور غیب کیا ہے

مگر یہ سلسلہ ایمان کا ہے


گزر کس کا ہوا ہے جو ابھی تک

دوعالم آئنہ بردار سا ہے


وہی ہیں داورِ محشر وہی ہیں

دلِ بے تاب کس کو ڈھونڈتا ہے


یہ دنیا مٹ گئی ہوتی کبھی کی

مگر اک نام ایسا آگیا ہے


رساؔ مل جائے گا اذنِ سفر بھی

مرا قصدِ سفر اپنی جگہ ہے



رسول احمد کلیمیؔ

(۱۱؍دسمبر ۱۹۴۴ء …۱۸؍ فروری ۲۰۱۳ء ٹورانٹو، کینیڈا)


اُن کے حضور قلب پہ جو کچھ عیاں ہوا

لفظوں میں کب وہ تجربہ ہم سے بیاں ہوا


ہو ش وحواس ، عقل و خرد حیرتی ہوئے

نطق و زباں کا حوصلہ اشکِ رواں ہوا


اُن جالیوں کے پیچھے فقط سیلِ نور تھا

کب منکشف ہر اِک پہ یہ سرِ نہاں ہوا


لاریب، لا شریک ہے واحد ہے اُس کی ذات

لیکن حضور جیسا بھی کوئی کہاں ہوا


اُس در سے عافیت کی سند مجھ کو مل گئی

پھر کیا عدو اگر مرا سارا جہاں ہوا


مانگے بنا ہی سب مجھے آقانے دے دیا

میرا سکوت برتراز آہ و فغاں ہوا


تم دوجہاں کے عیش وہاں مانگتے رہے

میں بے نیازِ عشرتِ ہر دوجہاں ہوا


حدِ ادب کلیمی! کہ طیبہ ہے وہ زمیں

ہر گام سجدہ ریز جہاں آسماں ہوا


رشید انجم

(۲۱؍اپریل ۱۹۳۷ء…۲۱؍دسمبر۲۰۰۰ء ،کوئٹہ)

تفسیر کبریا کا عنوان بولتا ہے

لہجے میں مصطفی کے قرآن بولتا ہے


یہ عظمت بشر ہے سدرہ کے راستے میں

خاموش ہیں فرشتے انسان بولتا ہے


محسوس کر رہی ہے کونین کی سماعت

دونوں جہاں میںان کا احسان بولتا ہے


مومن کا دل مدینہ عشق نبی کا زینہ

یہ وہ جگہ ہے جس میں ایمان بولتا ہے


دل میں ہزار جلوے کروٹ بدل رہے ہیں

دیدارِ مصطفی کا ارمان بولتا ہے


میں نعت پڑھ رہا ہوں وہ داد دے رہے ہیں

ہر شعر میں انہی کا فیضان بولتا ہے


انوارِ لمیزل کا فیضان ہے یہ انجمؔ

دربارِ مصطفی میں بے جان بولتا ہے


رضوان صدیقی

(یکم دسمبر ۱۹۴۱ء الور،راجپوتانہ)

 ُبھلا کے سارے زمانے کو چُپ کھڑارہامیں

اور اُن کے گنبدِ خضرا کو دیکھتا رہا میں


مواجہہ کی زیارت جو کی تو دیر تلک

بس اپنے بخت کی رفعت کو سوچتا رہا میں


ریاضِ جنّہ میں پہنچایا جب خدا نے مجھے

سرِ خیال اُنہی کو پکارتا رہا میں


سنہری جالیاںجب تک مِری نظر میں رہیں

خدا کے قرب کی خوشبو میں ڈولتا رہا میں


حضور کس لیے بھیجے گئے تھے دنیا میں

عظیم صفّہ پہ بیٹھا یہ سوچتا رہا میں


قریبِ روضۂ انور نہ کرسکا کچھ بھی

بس اپنے اشکوں کو آنکھوں میں روکتا رہا میں


مجھے مدینے میںمسکن نصیب ہو یارب

بقیع میں بھی یونہی محوِ التجا رہا میں


جس انقلاب کے بانی تھے مصطفی میرے

اُس انقلاب کو منبر پہ سوچتا رہا میں


یہ میری ذات سے مخصوص تو نہیں رضواںؔ!

اگر مدینے میں تصویر سا بنا رہا میں


رضی اخترشوقؔ

(۲۳؍اپریل ۱۹۳۳ء سہارنپور…۲۲؍جنوری  ۹ ۹ ۹ ۱ء کراچی)


انہی کی بخشی ہوئی آگہی کو لکھا ہے

انہی سے لفظ ملے ہیں انہی کو لکھا ہے


بس ایک لفظ سے گھر سارا جگمگا اٹھا

یہ روشنائی نے کس روشنی کو لکھاہے


بہت بلند تھا اس پل میں اپنی قامت میں

وہ پل جب آپ کی خوش قامتی کو لکھاہے


یقیں ہے وہ مرے لفظوں کو روشنی دیں گے

میں جانتا ہوں کہ کیسے سخی کو لکھاہے


-


آنکھوں میں لیے ہیں تری زیبائی محمد

اک عمرسے میں اور مری تنہائی محمد


الفاظ کو آدابِ رسائی نہیں آتے

ہے مدح تری دے مجھے گویائی محمد


آنکھوں میں نہ ہو تم تو نظر کچھ نہیں آتا

کیا میرا سفر کیا مری بینائی محمد


سو تیر ترازو مرے سینے میں ہیں مولا

زندہ ہوں تو ہے تیری مسیحائی محمد


تقسیم ہوئے ہیں تری اُمت کے اُجالے

ایسے میں کوئی صورتِ یک جائی محمد


رضیہ انور،انوری بیگم

(۱۹۱۹ء امروہہ…۱۹ ؍دسمبر۱۹۹۷ء کراچی)

صبا جا کے محمد سے مری فریاد کہہ دینا

پڑی ہے امت عاصی پہ اب اُفتاد کہہ دینا


سلام شوق کرکے پیش جالی کے قریں جاکر

جو گذری ہے مسلمانوں پہ وہ رواداد کہہ دینا


رفعت القاسمی

(۱۹۳۴ء، شیخ پور، ضلع مونگیر…۲۰۱۰ء، کراچی)

عظمتِ انساں تیری مشیت وسعتِ امکاں تیرے ابرو

ذکر ترا کونین کی دولت سایۂ رحمت تیرے گیسو


کون ہے یزداں کون ہے انساں کون ہے حامد کون ہے احمد

ہم کیا جانتے کون خدا ہے رکھتانہ وہ گرتیری ہی خو،بو


توہی آدم توہی مسیحا توہی خلیل اورتوہی موسی

تیری تجلی برسرِ سینا،توہی توہے ہرپل ہرسو


جلوے تیرے کوہ و دمن میں تیرے اُجالے گنگ وجمن میں

رنگ تراہے سروسمن میں،ارض وسما میں تیری ہی خوشبو


تیرے ثناخواں غالبؔ وبیدلؔ،سچلؔ،لطیفؔ،حسانؔ اورشوقیؔ

تیرے غزل خواں حافظؔ و رومیؔ خٹکؔ فریدؔ اقبالؔ اور باہوؔ


حرف ترا فیضی کی سواطع لفظ ترے سبعات ولآبی

تیری ہی تخیٔل کا پرتو فکرِ فارابیؔ و ارسطوؔ


عرشِ بریں سے فرشِ زمیں تک روشنیوں کا ایک سفرہے

تورات و انجیل و قراں، سب تیرے افکار کا جادو


سورج چاند ستارے سارے ازل ابد یہ جگ اُجیارے

اُتر، دکھن، پُورب، پچھم، پھیلی ہے تیرے نور کی خوشبو


صورتِ کعبؓ مانند بوصیری مجھ کو بھی چادر اپنی عطاکر

رکھ لے لاج مری بھی جاناں کیا میں اورکیا میرے آنسو


مجھ کو ہے تیری ذات سے نسبت مجھ پہ بھی اپنی چشم ِ کرم کر

میں اورترے اوصاف وشمائل نعرۂ وحدت یاہو لاہو


رفیق احمد نقشؔ

(۱۵؍مارچ ۱۹۵۹ء میرپور خاص… ۱۵؍ مئی ۲۰۱۳ء کراچی)

وہی سردارِ دنیا بھی وہی سردارِ دیں بھی ہے

اُسی کی ذات بے شک رحمت اللعالمیں بھی ہے


پہنچ اُس کی زمیں کیا تاسرِ عرشِ بریں بھی ہے

وہ ہے انسان لیکن وہ خدا کا ہم نشیں بھی ہے


اُسی کی ذات ہے ہرطرح سے تقلید کے قابل

کہ وہ محفل نشیں بھی ہے وہی خلوت گزیں بھی ہے


گواہی دیتے ہیں دشمن بھی اُس کی راست بازی کی

کہ وہ بچپن ہی سے مشہور صادق بھی امیں بھی ہے


وہی ہے فخرِ موجودات ختم المرسلیں ہے وہ

وہی تو محرمِ اسرارِ صبحِ اوّلیں بھی ہے


اگر چہ نقشؔ ! ہے اپنے گناہوں پرندامت بھی

مگر روزِ جزا اس کی شفاعت کا یقیں بھی ہے


رفیق خاور

(۱۵؍فروری۱۹۰۸ء روالپنڈی…۱۴؍مئی ۱۹۹۰ء کراچی)


لیتے ہی چلے جائیں نہ کیوں نام، نہ کیوںنام پہ ہم نام محمد

فردوس پہ فردوس ہی انعاموں پہ انعام ہے، انعام محمد


ایوانوں کے ایوان ہوئے جس کی بلندی سے نگوں ساربیک آن

افلاک سے برتر ہے،فراتر ہے،وراترہے کہیں بامِ محمد


اعجاز مبیں، نطق مہیں، حرفِ بریں، نقشِ ُگزیں ہے

فیضانوں کا فیضان ہے الہاموں کا الہام ہے الہامِ محمد


معراجِ نبی سدرہ وطوبیٰ سے بھی بالاوہ تگ وتاز

تاعرشِ بریں جنبشِ صدگام ہے یک گامِ محمد


سامانِ حیاتِ ابدی دُودۂِ آدم کے لیے اُن کے شئونات

فخرِ سحر و شام ہیں، سرکردۂِ ایام ہیں ایامِ محمد


وہ غلغلہ برپاہے کہ ہرلمحہ بہ صد رنگ دگرگوں ہے زمانہ

ہنگامہ درآغوش ہے آوازۂِ پُر شوکتِ پیغام محمد


شمشیروں کی شمشیر ہے اسلام کی شمشیرِ جہاں گیر

صمصاموں کی صمصاموں کی صمصام ہے صمصامِ محمد


ہے وجہِ فروغ ہمہ آفاق بہ صد موجِ تجلی

ہے تا بہ ابد ، تا بہ ابد ، تاب و تبِ نیرِ اسلام محمد


ہیں دَور پہ دَور اُن کے توہیں جام پہ جام اورجگر تاب

دیتا ہے صِلا دہر کویوں شام وسحر میکدۂِ عامِ محمد


سرشار سے سرشار ہیں مشروب دلآویز سے مخمور

رندانِ قدح خوار بلانوش دو صد میکدہ آشامِ محمد


وہ جس کی اذاں گونجتی تا اوجِ سما صبح ومَسَا ہے

سرحلقۂِ خدام، بلال حبشیؓ، خادمِ جاں دادہ ، سیہِ فامِ محمد


رفیق عزیزی

(۷؍ مئی ۱۹۱۴ء ہاپوڑ ضلع میرٹھ…۲۰؍ مئی ۲۰۰۸ء کراچی)

اس میں کیا شک ہے کہ ہیں سرکاررب کی آرزو

بندہ اپنے رب کا میں،سرکار میری آرزو


میری صبح وشام ہوجائیں مدینے میں تمام

کچھ نہیں دنیا ودیں میں اس سے اچھی آرزو


روضۂ سرکار کے سائے میں مرمر کے جیوں

یا الٰہی بس یہی ہے ایک باقی آرزو


کاش ہوجاؤں شہ ابرار کی گلیوں کی دھول

اس سے بہتر ہونہیں سکتی ہے کوئی آرزو


ہو لواء الحمد کا سایہ قیامت میں نصیب

ہرنفس کی اوٹ سے ہرلحظہ جھانکی آرزو


آرزو کہتی ہے تم جاؤ گے طیبہ کس طرح

دل یہ کہتاہے کہ ہوگی پوری تیری آرزو


اسوۂ سرور پہ مرمر کرجیے جاؤں رفیقؔ

اس سے بہتر کچھ نہیں کوئی بھی ایسی آرزو



روشؔ بدایونی

(۱۲؍دسمبر ۱۹۴۸ء، بدایوں)


اصحابِ باصفا ہیں پیمبر کے ساتھ ساتھ

چھتنار چھاؤں جیسے صنوبر کے ساتھ ساتھ


نیسانِ ابرِ رحمتِ بطحامجھے بھی دھو

آلودۂ غبار ہوں چادر کے ساتھ ساتھ


ہر لحظہ مصطفی مری دلجوئیاں کریں

اے کاش ساتھ ساتھ جیوں،مر کے ساتھ ساتھ


اے عابسِ شرور ادھر بھی نگاہِ لطف

میں بھی رواں ہوں فتنۂ محشر کے ساتھ ساتھ


اے رحمتِ تمام اے ساقی سلسبیل

پایاب ہوچکا ہوں سمندر کے ساتھ ساتھ


میری بھی آرزو ہے کہ اک روز دیکھ لوں

خلدِ بقیع گنبدِ اخضر کے ساتھ ساتھ


اُف بعثتِ رسول سے پہلے یہ حال تھا

غارت گری تھی شعلہ ساغر کے ساتھ ساتھ


میرا ہر ایک شعر عیاں ہے بفیضِ نعت ل

طفِ خطابِ واعظِ منبر کے ساتھ ساتھ


رئیس احمد

(۱۱ ؍ ستمبر ۱۹۶۹ء کراچی)

ہے کتنا حسیں رت جگا مہکا مہکا

کہ ہے نعت کا سلسلہ مہکا مہکا


دوعالم معطر ہیں خوشبو سے جس کی

جمالِ محمد ہے کیا مہکا مہکا


خوشا بخت نعتِ نبی پر ہے مائل

ہے ہر سوچ کا زاویہ مہکا مہکا


وہ کوہِ صفا پر خطابت نبی کی!

وہ خلوت،وہ غار ِ حرا مہکا مہکا


گناہوں کی حد تونہیں پھر بھی آقا

شفاعت کا ہے آسرا مہکا مہکا!


ہیں نکہت سے جس کی معطر دل وجاں

وہ ہے آپ کا نقشِ پا مہکا مہکا


رئیسؔ ان کے در کی گدائی کے صدقے

خزاں میں ہے باغِ انا مہکا مہکا


رئیسؔ امروہوی

(۱۲؍ستمبر ۱۹۱۴ء، امروہہ … ۲۲؍ستمبر ۱۹۸۸ء، کراچی)

موجبِ تخلیق ِعالم کون ہے؟

وہ کہ جس کا نور ہے نورِخدا


سیِّد عالم ، محمد مصطفی

اوّلِ مخلوق، ختم الانبیا


جس نے اِک عالم کو زندہ کردیا

موجبِ تخلیقِ عالم ہے وہی


٭

افتخارِ نسلِ آدم کون ہے؟


کفر کا گھر جس نے ویراں کردیا

بُت کدے کو بیتِ یزداں کردیا

خلق کی مشکل کو آساں کردیا

آدمی کوجس نے انساںکردیا

افتخارِ نسلِ آدم ہے وہی

٭

قائدِاقوامِ عالم کون ہے؟

جس کو صرف انسانیت سے پیارتھا

جو ہر اِک مخلوق کا غم خوار تھا

قیدِرنگ و نسل سے بیزار تھا

جو اُخوت کا علم بردار تھا

قائدِ اقوامِ عالم ہے وہی ٭

مقصدِ فطرت کا محرم کون تھا؟

پیش کرکے ایزدی پیغام کو

توڑ ڈالا کفر کے اصنام کو

متحد کرکے تمام اقوام کو

عام جس نے کردیا اسلام کو

مقصدِ فطرت کا محرم ہے وہی


رئیس فروغ

(۱۵؍فروری۱۹۲۶ء مرادآباد…۱۵؍اگست۱۹۸۲ء کراچی)

دربار نبی سبحان اللہ

دربار نبی سبحان اللہ


جہاں اجلے بول برستے ہیں جہاں سبز کبوتر بستے ہیں دربار نبی سبحان اللہ جہاں مٹی میں سچائی ہے جہاں پانی میں اچھائی ہے دربار نبی سبحان اللہ جہاں روشنی لفظ کے ساتھ چلے جہاں سورج بن کربات چلے دربار نبی سبحان اللہ جہاں دنیا دنیا چین ملے جہاں کملی میں کونیں ملے دربار نبی سبحان اللہ t - سچائی (نعتیہ نظم ) مرے اک ہاتھ پرخورشید اوراک ہاتھ پر مہتاب رکھ دو پھر بھی میں وہی بات دہراؤں گا جو سچ ہے اناالنبی لاکذب اناابن عبدالمطلب

	چند سچے لفظ

ایک سچی بات اناالنبی لاکذب اناابن عبدالمطلب یہ سچائی جونازک بیل کے مانند خیراورحسن کے موسم کی خوشبوئیں لیے لمحے سے لمحے کی طرف چلتی رہی اورمیرے باپ تک پہنچی سوجب میں مامتا سے کانپتی بانہوں میں خوابیدہ تھا میرے باپ نے مجھ کوجگا دیا اورکہا لاالہ الااللہ محمدالرسول اللہ لاالہ الااللہ محمدالرسول اللہ t رئیس،احمد چشتی (۷؍اگست ۱۹۴۰ء اجمیر شریف) درحضور کو جوآنکھ بھر کے دیکھتے ہیں دلوں میںچاند ستارے اترکے دیکھتے ہیں ہے ان کا روضہ اقدس جو خلد سے بڑھ کر توساکنانِ جناں بھی گذر کے دیکھتے ہیں وہ اہتمام ہے جشن ولادت شہہ کا کہ آسمان وزمین سب سنور کے دیکھتے ہیں ہوتی ہے نور کی تقسیم شہر میں گھر گھر توہم بھی گھر میںچراغاں ہی کرکے دیکھتے ہیں مسافرانِ مدینہ ہیں ان کو کیا پروا یہ کچھ بکھیڑے نہ زادسفر کے دیکھتے ہیں لگی ہے بھیڑ گداؤں کی آستانے پر چلوکہ جھولیاں اپنی بھی بھرکے دیکھتے ہیں وہیں پہ ہوتی ہے جب دل کی ہردعا پوری توہردعا کو وہیں پیش کرکے دیکھتے ہیں رئیس !سب پہ ہی کرتے وہ کرم بے شک ہم اپنی عرض بھی اب پیش کرکے دیکھتے ہیں t

ریحانہ احسان (۲۰؍جولائی ۹۶۲ء کراچی)۱


’’قلم ملا بھی تو آپ سے ہے‘‘ (خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہونے اور ان کے حکم سے قلم انتخاب کرنے کی سعادت حاصل ہونے کے بعدیہ نعتِ نبی کہنے کی سعادت حاصل ہوئی)


یہ سلسلہ بھی تو آپ سے ہے یہ حوصلہ بھی تو آپ سے ہے مرا مقدّر کہ میرے آقا قلم ملا بھی تو آپ سے ہے درست کہ آندھیاں بجھائیں گی اس دیے کو ہوائیں طوفاں میں آزمائیں گی اس دیے کو ہزارتاریکیاں ستائیں گی اس دیے کو قسم زمانے کی …قلبِ ویراں کا یہ دِیابھی تو آپ سے ہے مرا مقدّر کہ میرے آقا قلم ملا بھی تو آپ سے ہے خود اپنی آتش میں کھولتے ،اَدھ جلے درختوں کے سلسلے کو میں چھوڑآئی ہوں زہرآگیں ،نگاہ انداز قافلے کو کہ بس جگہ دی ہے زندگی میں فقط محبت کے مسئلے کو خزاں گزیدہ رتوں میں آقا یہ گُل کھلا بھی تو آپ سے ہے مرے لہو میں ہر ایک لحظہ یہ لااِلٰہ بھی توآپ سے ہے مرا مقدّر کہ میرے آقا قلم ملا بھی تو آپ سے ہے t زخمیؔ کانپوری (ولادت ۸؍اگست۱۹۳۸ء کانپور) دل کا یہی ہے ہر دم اصرار یا محمد بلوائیے مدینے اک بار یا محمد امداد کو نہ کیسے میں آپ کو پکاروں عصیاں کا دوش پر ہے اک بار یا محمد عاصی تو ہوں یقینا ہوں اُمتی تمھارا اس بات سے نہیں ہے انکار یا محمد روضے سے دور رہ کرجینا ہُوا ہے دُو بھر بیڑا لگائیں میرا اب پار یا محمد ہیں آپ ہی کی یادیں ہیں آپ ہی کے جلوے دل میں کھلا ہوا ہے گلزار یا محمد ہوآپ کا اشارا پہنچوں میں اُڑ کے طیبہ بیٹھا ہوا ہوں میں تو تیار یا محمد زخمیؔ کے حال پر بھی چشم کرم خدارا مانا نہیں کرم کا حقدار یا محمد t زیب غوری (۱۹۲۸ء کانپور … یکم اگست ۱۹۸۵،کراچی) پاک فضاؤں کو آلودا مت کرنا اُن گلیوں میں میرا چرچامت کرنا مجھ کو جو نسبت ہے اسمِ محمدسے اُس نسبت کاکوئی اشارہ مت کرنا جھوٹے تھے سارے عہد وپیماں میرے میرے گناہوں کوبے پردامت کرنا چُپ رہنا میرے بارے میں اُن کے حضور کچھ کہہ کر مجھ کو شرمندہ مت کرنا کبھی تووہ محرم آنکھیں دیکھیں گی مجھے لیکن اُن سے کوئی تقاضا مت کرنا میرا نام مدینے میں لے لینا بس اس سے زیادہ عرض ِ تمنا مت کرنا - اس قدر ہوش اسے چاہنے والے رکھنا دیکھنا اس کو توکچھ پردے بھی ڈالے رکھنا اس نے مٹی سے تعلق نہیں توڑا اپنا سونے چاندی کے کٹورے نہ پیالے رکھنا وہ حرم تھا وہاں گنجائش ِ مستی تھی بہت یہ مدینہ ہے یہاں خود کو سنبھالے رکھنا ہاتھ رکھنا وہ تہی دستوں کے سر پر اس کا کہیں صحراؤں میںچشمے کہیں لالے رکھنا اے مدینے کی مہکتی ہوئی روشن گلیو! یاداُس پیکرِخوبی کے حوالے رکھنا کام آجائیں یہی اشکِ ندامت شاید یہ گہر دل کے کسی کونے میں ڈالے رکھنا وہ پشیمانوں پہ جولانیٔ رحمت اس کی درگزر کے کسی پہلو کونکالے رکھنا پھولوں نے فیض رسانی کی ادا پہچانی اس سے سیکھا ہے چراغوں نے اجالے رکھنا اس کے قدموں پہ گرے ریت کی دیوار سے وہ سہل تھا جن پہ پہاڑوں کوسنبھالے رکھنا عرش سی پاک زمینوں پہ قدم رکھو گے

زیبؔ یہ سوئے ادب ہے اسے ٹالے رکھنا

t ساجد علی ساجدؔ (۲۷؍فروری ۱۹۵۰… ۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء لراچی) آپ علم و آگہی کا زندۂ و پائندہ نقش آپ روحِ زندگی کا زندۂ و پائندہ نقش آپ غیبی روشنی کا زندۂ و پائندہ نقش آپ حسنِ دائمی کا زندۂ و پائندہ نقش

 آپ کے دم سے ہے قائم یہ حیات و کائنات 

آپ کے لطف و کرم سے ہے بہاروں کو ثبات آپ کے درسِ مبارک سے ہے روشن یہ حیات آپ کے نقشِ قدم ہیں منزلِ راہِ نجات

آپ دشتِ بے اماں میں سایۂ ابرِ بہار آپ اس تیرہ شبی میں روشنی کا اِک مَنار آپ کا علم و عمل انسانیت کا افتخار آپ انساں کے لیے ہیں رحمتِ پروردگار

آپ کی ذاتِ گرامی منبعِ علم و یقیں آپ کی تقلید ہے آئینۂ حبل المتیں آپ کے قول و عمل ہیں محورِ دنیا و دیں آپ کا عرفان ہے ، عرفانِ رب العالمیں

زندگی کا ہر شمارہ آپ سے منسوب ہے

آپ کا محبوب ہی اللہ کا محبوب ہے دشمنوں پر رحم کرنا آپ کو مرغوب ہے عاصیوں پہ لطف و رحمت یہ عمل بھی خوب ہے

آپ کی اُمت میں ہوں میرے لیے اعزاز ہے

عاصیوں پر ابرِ رحمت ، آپ کا اعجاز ہے اِس زمیں سے آسماں تک ، آپ کی پرواز ہے آپ پر ، اللہ اکبر ، خود خدا کو ناز ہے

 منّتِ رب، ہاتھ میں ہے میرے داماں آپ کا

مجھ کوجو کچھ ہے میسر ، سب ہے فیضاں آپ کا زندگی پر میری ضو افگن ہے احسان آپ کا ہے خدا آگاہی بے شک ، صرف عرفاں آپ کا

میرے آقا نے ہدایت سے منّور کردیا دین و دنیا کی حقیقت سے منّور کردیا علم و تہذیب و فراست سے منّور کردیا دل مِرا ساجدؔ ! صداقت سے منّور کردیا t ساجد وارثی (ولادت ۱۹۵۶ء ڈھاکہ) کہاں تک بیاں ہو ثنائے محمد خدا خود ہے مدحت سرائے محمد ہمارا مقدر نہ کیوں جگمگائے ہے دل میں ہمارے ثنائے محمد اُسے کیا جلائے گی نارِ جہنم ہے سینے میں جس کے وفائے محمد خدا نے اُدھر شانِ رحمت عطا کی جدھر انگلیوں کو اُٹھائے محمد ملاتا ہے ہم کو جو عرشِ خدا سے ہمیں راستہ وہ دکھائے محمد نہ دنیا کی حسرت نہ عقبیٰ کی خواہش مرا دل ہے ساجدؔ! فدائے محمد t ساقیؔ جاوید (۵ ؍جنوری ۱۹۲۱ء ناگپور…۲۶؍جنوری۱۹۹۴ء کراچی)

اے نقیبِ قرآنی اے رسولِ یزدانی 

تم ہوزیست کے رہبر تم حیات کے بانی چہرۂ مبارک کا جس نے نوُر دیکھا ہے ا س نے خلد دیکھی ہے اس نے طور دیکھا ہے تم زمیں پہ کیا آئے بادِ نوبہار آئی جام لالہ فام آیا بُوئے مُشک بار آئی نام میں بھی نکہت ہے یاد میں بھی خوشبو ہے کیا جمالِ عارض ہے کیا بہار گیسوہے تم حرا کے پہلو میں تم منیٰ کی وادی میں تم ہوجذبۂ دل میں قوتِ ارادی میں تم نے ریگ زاروں میں زندگی بکھیری ہے اک چراغ ہم کوبھی غم کی رات اندھیری ہے تم جہاں سے اٹھے تھے وہ بنائے ہستی ہے تم جہاں ہوخوابیدہ زندگی برستی ہے تم کو یاد کرتی ہے دیدۂ بلال اب تک راستہ دکھاتا ہے عشقِ بے مثال اب تک لب پہ نام آتا ہے روح مُسکراتی ہے زندگی بہاروں میں ڈوب ڈوب جاتی ہے اے صبا مدینہ کوجارہی ہے جاں لے جا کوچۂ محمد تک روحِ تشنگاں لے جا زخم یادکرتے ہیں غم سلام کہتاہے اے نبی میں آپہنچا تشنہ کام کہتاہے t سبطِ جعفر (۳۰؍جون ۱۹۵۷ء کراچی…۱۸؍مارچ ۲۰۱۳ء کراچی) بعدِ ذکرِ خدا وحمد وسپاس نعتِ احمد ہے زندگی کی اساس آپ کا اسمِ پاک ہے طٰہٰ طاہراً ، طیباً عن الانجاس عطر کی بو دماغ پر ہے گراں َخلقِ احمد کی سونگھ لو بو باس وصف اعلیٰ تر از رسائی فکر ذات بالا تر از گمان وقیاس نعت میں گر چلے زبانِ کلیم دور ہوجائیں لکنت و آماس اُن کو سمجھے بشر جو اپنا سا ایسے انساں کے کھو چکے ہیں حواس بھیجئے اپنے جد کے روضے پر سبطِ جعفر کو جلد یا عباس! t

سبکتگیںصباؔ، محمد

(۲۱؍اپریل ۱۹۵۲ء لاہور) عجب اک تشنۂ خودآگہی ذہنوں پہ چھاتا ہے محمد مصطفی کانام جب ہونٹوں پہ آتاہے میں شب کی ساعتوں کو ان پہ جب قربان کرتاہوں مجھے لگتا ہے جیسے مجھ میں کوئی جاگ جاتاہے کہاں کی نیند بلکہ میں توپلکیں بھی نہ جھپکائوں بھلا ایسے حسیں لمحوں کوئی یوں گنواتا ہے انہی کی ذات سے ملتاہے منزل کا نشاں سب کو انہی کا نور ہے جوراستہ سیدھا دکھاتا ہے نہ خواہش محل کی مجھ کو نہ حسرت ہے میناروں کی مجھے تو سبز گنبد کملی والے کا ہی بھاتاہے تصور حاضری کا ہی عجب سی کیفیت بخشے کبھی مجھ کو ہنستا ہے کبھی مجھ کو رلاتاہے میں جب دہلیز پران کی ہمہ تن گوش ہوتا ہوں مرے کانوں میں کوئی سرمدی نغمہ سناتاہے اسی سے جان لو رُتبہ محمد کا جہاں والو کہ وہ ایسی حقیقت ہے قسم رب جس کی کھاتاہے مجھے ہو فکر کیوں اپنی صباؔ پھر روزِ محشر کو محمد سے جو رشتہ ہے محمد سے جو ناتاہے t سحرؔؔ انصاریؔؔ ،پروفیسر (ولادت ۲۷؍دسمبر۱۹۴۱ء اورنگ آباد،حیدرآباد دکن) مری آنکھوں کے آگے گنبدِ خضرا کا منظر ہے میں اک قطرہ ہوں لیکن مہرباں مجھ پر سمندر ہے کہاں میں اور کہاں طیبہ کی گلیوں کا طواف اے دل ہوں اپنے بخت پر نازاں کہ یہ لطفِ پیمبر ہے مدینے کی فضائیں کس قدر ایمان پرور ہیں ہر اک لب پر یہاں صلِ علیٰ، اللہ اکبر ہے سلیقہ حمد کا سکھلا دیا ہم بے زبانوں کو محمد کا یہی سب سے بڑا احسان ہم پر ہے دعا مانگو درِ اقدس پہ آکر دردمندی سے یہاں جو اشک آنکھوں سے گرے قیمت میں گوہر ہے سہے ہیں جورِ اعدا، دینِ حق کو عام کرنے میں جبھی تو رحمت للعالمیں کا تاج سر پر ہے کسی کی سمت جانے کا گماں تک کر نہیں سکتے انھی کے در سے وابستہ سحرؔ اپنا مقدر ہے t سحرؔ تاب رومانی (ولادت ۱۳؍مارچ ۱۹۶۴ء ،میرپور ،سندھ) جب کرم کی وہ نظر ہونے لگی زندگی اپنی بسر ہونے لگی آپ کی چشمِ عنایت کے طفیل دھول پیروں کی گُہر ہونے لگی ذات کی جب آگہی بخشی گئی پھر مجھے اپنی خبر ہونے لگی پھر چراغِ زندگی روشن ہوا پھر شبِ غم کی سحر ہونے لگی نعت کہنے کا سلیقہ آگیا شاعری میرا ہنر ہونے لگی t - ستاروں سے سلامی چاہتاہوں میں اُس در کی غلامی چاہتا ہوں رہے جاری مرے ہونٹوں پہ ہر دم ترا اسمِ گرامی چاہتا ہوں مرے اعمال کو بھی معتبر کر میں اپنی نیک نامی چاہتا ہوں کرم ہے نعت کہنے کایہ فن بھی مگر میں طرزِ جامی چاہتا ہوں مجھے سحر البیانی بھی عطا ہو سحرؔ ! میں خوش کلامی چاہتا ہوں t سخاوت علی نادرؔ (۷؍اگست ۱۹۶۲ء کراچی) مرے نبی سا یہاں خوش خصال کوئی نہیں کہیںبھی دوسری ایسی مثال کوئی نہیں فقیر ہوں میں سوالی ہوں تیرا منگتا ہوں جہاں میں مجھ سا مگر مالامال کوئی نہیں یہ دَین ہے مرے مولا کی میں کہوں نعتیں مرا ذرا سا بھی اس میں کمال کوئی نہیں تمنا دل میں مچلتی ہے اور یہ کہتی ہے بس اُن کے در کے سوا اب سوال کوئی نہیں کرم کی بھیک عطا ہو گنہگاروں کو بجز تمہارے مری اور ڈھال کوئی نہیں درِ نبی کی کی زیارت نصیب ہو نادرؔ ! نظر کا اس سے بڑا اور کمال کوئی نہیں t سراج الدین ظفر (۲۵ ؍مارچ ۱۹۱۲ء جہلم…۶؍ مئی ۱۹۷۲ء کراچی) سبوئے جاں میں جھلکتا ہے کیمیا کی طرح کوئی شراب نہیں عشقِ مصطفی کی طرح قدح گسار ہیں اُس کی اماں میں جس کا وجود سفینۂ دوسرا میں ہے ناخدا کی طرح وہ جس کے لطف سے کھلتا ہے غنچۂ ادراک وہ جس کانام نسیمِ گرہ کشا کی طرح طلسمِ جاں میں وہ آئینہ دارِ محبوبی حریمِ عرش میں وہ یارِ آشنا کی طرح وہ جس کاجذب تھا بیداریِ جہاں کا سبب وہ جس کا عزم تھا دستور ِارتقا کی طرح وہ جس کا سلسلۂ جود،ابرِ گوہر بار وہ جس کا دستِ عطا مصدرِ عطا کی طرح سوادِ صبحِ ازل ، جس کے راستے کا غبار طلسمِ لوحِ ابد جس کے نقشِ پا کی طرح خزاں کے حجلۂ ویراں میں وہ شگفتِ بہار فنا کے دشت میں وہ روضۂ بقا کی طرح وہ عرش و فرش و زمان و مکاں کا نقشِ مراد وہ ابتدا کے مقابل وہ انتہا کی طرح بسیط جس کی جلالت حمل سے میزاں تک محیط جس کی سعادت خطِ سما کی طرح شرف ملابشریت کو اُس کے قدموں میں یہ مشتِ خاک بھی تاباں ہوئی سہاکی طرح اُسی کے حسنِ سماعت کی ہے کرامتِ خاص وہ اِک کتاب کہ ہے نسخۂ شفا کی طرح وہ حسنِ لم یزلی تھا تہِ قبائے وجود یہ راز ہم پہ کھلا رشتۂ قبا کی طرح بغیرِ عشقِ محمد کسی سے ُکھل نہ سکے رموزِ ذات کہ ہیں گیسوئے دوتا طرح ریاضِ مدحِ رسالت میں رہوارِ غزل چلا ہے رقص کناں آہوئے صبا کی طرح نہ پوچھ معجزۂ مدحتِ شہِ کونین مرے قلم میںہے جنبش پرِ ہما کی طرح جمالِ روئے محمد کی تابشوں سے ظفرؔ! دماغِ رند ہوا عرشِ کبریا کی طرح - اے خاتم الرسل شہ دوراں تمہیں توہو نذرانہ جس کاہے گہرِ جاں تمہیں تو ہو ہر آئینے کو جلوہ گہہِ شش جہات میں جس نے دیاہے دیدۂ حیراں تمہیں تو ہو نوعِ بشر کا محسن اعظم تمہارا نام! عالم ہے جس کا بندۂ احساں تمہیں تو ہو صبح ازل منور وتاباں تمہیں سے تھی شامِ ابد کی شمعِ فروزاں تمہیں تو ہو رشتہ ہماری ذات کا یزداں سے استوار جس نے کیا وہ پرتوِ یزداں تمہیں تو ہو ہر امرِ کائنات تمہاری نظر میں ہے آگاہِ راز پیدا وپنہاں تمہیں تو ہو ہرمسئلے میں رشد وہدایت تمہیں سے ہے ہر فیصلے میں عدل کی میزاں تمہیں تو ہو وہ جس نے جسم و جاں میں نئی روح پُھونک دی وہ جس سے زندگی ہوئی جولاں تمہیں تو ہو شاداب جس کے فیض سے میرے دل ودماغ وہ موجۂ نسیم گلستاں تمہیں تو ہو مجھ بے نوا و بے سروسامان شہر کو جس نے عطا کیا سروساماں تمہیں توہو مجھ رِند بے شعور کے دامانِ تنگ کو بخشی ہے جس نے دولتِ عرفاں تمہیں تو ہو مجھ بوریا نشیں کو قناعت کے رنگ میں جس نے دیا ہے رُتبہ سلطاں تمہیں تو ہو میں نے طوافِ کوئے غزالاں کے باوجود باندھا ہے جس سے شوق کاپیماں تمہیں تو ہو . شرابِ عشق نبی سے جو فیضاب ہوئے ہم ایسے رند بھی بیگانۂ شراب ہوئے جلا جودل میںچراغِ جمالِ مصطفوی سیاہ رو شجرِ طور کا جواب ہوئے ہوئی طلوع جو سینے میں آرزوئے رسول جو وسوسے تھے دلوں کے خیال و خواب ہوئے ہراک شے کا مقدر بدل دیا اُس نے نظر اٹھائی توذرّے بھی آفتاب ہوئے ادا شناس تھی میزانِ انتخاب اس کی گدا بھی منتخب چشم انتخاب ہوئے مٹے ہوؤں کو اُبھارا ہے نقشِ نو کی طرح ٍستم زدوں پہ کرم اُس کے بے حساب ہوئے فریب قیصروکسریٰ کھلا زمانے پر نظر میں افسر و اکلیل بھی سراب ہوئے دیا وہ رتبۂ نو بوریا نشینوں کو کہ بورئیے بھی انہیں خلعت وخطاب ہوئے اسی کے درسِ جلالی کا معجزہ ہے کہ ہم حریفِ سیف ہوئے صاحب کتاب ہوئے اُسی کا ُیمنِ قدم تھا کہ ریگ زاروں کو سرشگفت ہوا تختہ گلاب ہوئے اُسی کی ذات نے عالم کی رہنمائی کی اُسی کے لطف سے تحلیل سب حجاب ہوئے اُسی کے فیض سے آئی حریم جاں میں بہار اُسی کے دم سے بپادل میں انقلاب ہوئے وہ ابرِ لطف وکرم جس کی راہ کے ذرات صبا کے ساتھ اڑے خیمۂ سحاب ہوئے وہ بحرِ جُودوسخا جس سے بہرِ کسبِ گُہر نجوم و شمس و قمر کاسۂ حباب ہوئے قلم اٹھا جو مرا مدحتِ رسالت میں دل ودماغ میں واآگہی کے باب ہوئے دبے ہوئے تھے جو ارض وسما کے سینے میں وہ راز اُس کی سعادت سے بے نقاب ہوئے دل اُس کے عشق میںکھویا توپائی دل کی مراد سراس کے درپہ جھکایا توکامیاب ہوئے غزل سرا جو ہوا میں بذوقِ نعت ظفرؔ زباں پہ حرفِ غزل حرفِ مستجاب ہوئے t سردار عبدالرّب نشترؔ (۱۳؍جون۱۸۹۹ ء پشاور…۱۴؍فروری۱۹۵۹ء کراچی) شب و روز مشغول صلِ علیٰ ہوں میں وہ چاکر خاتمِ انبیا ہوں نگاہِ کرم سے نہ محروم رکھیو تمھارا ہوں میں گر َبھلا یا بُرا ہوں مجھے بھی یوں معراج ، معراج والے میں دیوانہ لیلائے معراج کا ہوں مرے لحن پر رشک داؤد کو ہے مدینے کی گلیوں کا نغمہ سرا ہوں نہ کیوں فخر ہو عشق پر اپنے مجھ کو رقیبِ خدا ، عاشقِ مصطفیٰ ہوں میں ہوں ہر دو عالم سے آزاد نشترؔ گرفتارِ زلفِ رسولِ خدا ہوں t سرفراز ابدؔ (۲۵؍فروری ۱۹۵۲ء کراچی) یہ اور بات کبھی سامنا ہوا بھی نہیں دل اُن کی یاد سے غافل مگررہا بھی نہیں کرم اور ایساکرم جس کی انتہا بھی نہیں وہ مل گیا مری تقدیر میں جو تھا بھی نہیں خدا کی بات خدا جانے وہ خدا بھی نہیں مگریہ سچ ہے کوئی اُن سا دوسرا بھی نہیں مطالبہ کبھی اُن سے کوئی کیا بھی نہیں ملا وہ حسبِ ضرورت جو سوچتا بھی نہیں چڑھا ہوں نظروں پہ چشمِ کرم کے زینے سے نہ لکھتا نعت جہاں مجھ کو پوچھتا بھی نہیں خدا ہے مہرباں دیوانۂ محمد پر دوا کاہوش توکیا فرصت دعا بھی نہیں مثال اُن کی نہ ڈھونڈوبشر کے پردے میں نہ اب ہے اُن سانہ ہوگا کبھی ہوابھی نہیں بسا ہُوا ہے مدینہ خیال میں جس کے نظراٹھا کے وہ جنت کو دیکھتا بھی نہیں کرم یہ اُن کا کہ میری طرف ہے دستِ عطا مرا یہ حال مرا کوئی مدّعا بھی نہیں جہاں کی راہ کا رہبر بناؤ عشقِ رسول ابدؔ ! کچھ اس کے سوا اورراستہ بھی نہیں t

سرور بارہ بنکوی (۳۰ ؍جنوری ۱۹۱۹ء بارہ بنکی یوپی…۳؍اپریل۱۹۸۰ء ڈھاکہ) سرور حرف دعا کیسا مستجاب ہوا زباں کو حوصلہ مدحِ آنجناب ہوا نہ ہوسکا ہے نہ ہوگاازل سے تابہ ابد جواب اس کا جو آپ اپنا خود جواب ہوا

اسی کے فیض سے ارض وسما عبارت ہیں 

اسی کے نور سے ظلمت کا سدِّباب ہوا زفرش تابہ فلک کون ایسا ذرہ ہے جو آفتاب کرم سے نہ فیض یاب ہوا وہی ہے نکتۂ آغاز علم وحکمت کا وہ اسم پاک جہاں داخلِ نصاب ہوا اب ایسی ذات گرامی کی مدح کیا ہوگی کہ جس کے نام سے قرآں کا انتساب ہوا - اللہ اللہ میری قسمت ایسا رتبہ اورمیں جاگتی آنکھوں سے دیکھوں خوابِ طیبہ میں دم بخود ہیں آج دونوں میری دنیا اورمیں بارگاہ صاحبِ یسٰین وطہٰ اورمیں آج ان آنکھوں کو بینائی کا حاصل مل گیا روبرو ہے گنبد خضرا کا جلوہ اورمیں

آپ کی چشم کرم کا میں نے دیکھا معجزہ 

آپ کے روضے کی جالی میرے آقا اورمیں آپ ہی چاہیں تورکھ لیں آبروورنہ حضور اپنے منہ سے آپ کی نسبت کا دعویٰ اورمیں مجھ کو اذنِ باریابی اوراس انداز سے آپ پرقرباں مرے اجداد وآبا اور میں میں جہاں پرہوںوہاں محسوس ہوتاہے سرورؔ جیسے پیچھے رہ گئے ہوں میری دنیا اور میں t سرورؔ جاوید (۲۲؍فروری ۱۹۴۷ء بلند شہر، بھارت) عقیدتوں کا سفر یوں تو عمر بھر کا ہے مگر نجات کا رستہ تمھارے گھر کا ہے ولائے نعتِ محمد شعورِ ذات نبی تمام عمر یہی راستہ سفر کا ہے

اندھیری شب میں برائے سفرہے یہ خورشید 

کڑی ہو دھوپ تو سایہ اسی شجر کا ہے جو اس کی ذات کی وسعت سمیٹنے بیٹھوں وہی ہو حال خرد کا کہ جو نظر کا ہے وفا کا حسن ، محبت کا فن ، کمالِ حیات اسی کی ذات سے رشتہ ہر اک ہنر کا ہے عقیدتوں میں محبت کے رنگ ہیں سرورؔ یہ سلسلہ بھی اسی ذات کے اثر کا ہے t سعدیہ حریم (۹؍جنوری ۱۹۴۶ء لکھنؤ) رقم کیسے کروں شانِ محمد خدا خود ہے ثنا خوانِ محمد ازل سے تا ابد جاری و ساری بحمدِ اللہ ہے فیضانِ محمد تمنائیِ رضائے حق اگر ہے عمل کر حسبِ فرمانِ محمد وہ سقراط و ارسطو سے ہے برتر جو ہے طفلِ دبستانِ محمد ابوبکر و عمر ، عثمان و حیدر ہیں چاروں جاں نثارانِ محمد فرشتوں کو بھی اس پر رشک آئے جسے ہو جائے عرفانِ محمد وہ ہیں منشائیِ تخلیق دو عالم دو عالم پر ہے احسانِ محمد تمنائے حریمؔ اللہ یہی ہے کہے اک نعت شایانِ محمد t سعید الظفر صدیقی (۲۱؍ مارچ ۱۹۴۴ء بھوپال، بھارت) تھا جو مٹی کا بدن کندن بنا کر آئے ہیں بارشوں میں ہم مدینے کی نہا کر آئے ہیں ہم نے خود آنکھوں سے دیکھے ہیں نظارے خلد کے ہم سے پوچھو ہم درِ اقدس پہ جا کر آئے ہیں ہیچ ہیں نظروں میں اب سارے جہاں کی رونقیں خاکِ طیبہ کو ان آنکھوں سے لگا کر آئے ہیں اپنے والی ، اپنے حامی ، اپنے آقاؐ کے حضور اپنی بپتا ، اپنا حالِ دل سنا کر آئے ہیں بے سر و ساماں گئے تھے لے کے لوٹے کائنات نام آقاؐ کے غلاموں میں لکھا کر آئے ہیں بوجھ سر پر تھا گناہوں کا ظفرؔ کرتے بھی کیا ایک کونے میں کھڑے آنسو بہا کر آئے ہیں - جب سے سرکارؐ کی روشنی مل گئی زندگی کو نئی زندگی مل گئی آخری آرزو دل کی پوری ہوئی دوریاں مٹ گئیں ، حاضری مل گئی ہیں اجالے قدم در قدم ہم رکاب رہ گزر ، رہ گزر روشنی مل گئی لوگ جو پستیوں میں تھے ڈوبے انہیں آکے طیبہ میں خوش قامتی مل گئی مل گئیں عاجزوں کو سرافرازیاں بے قراروں کو آسودگی مل گئی دو جہانوں میں وہ سرخرو ہو گیا جس کو محبوبِؐ رب کی گلی مل گئی نعت کہنے کا جس دم ارادہ کیا اک مہکتی ہوئی شاعری مل گئی دل جو طیبہ کی فرقت میں رویا سعیدؔؔ اس کو سارے جہاں کی خوشی مل گئی t سعیدؔ عباسی (یکم اگست ۱۹۲۳ء بدایوں) ہزار بار اُٹھیں گے قدم خدا کی طرف بس ایک بار چلے آؤمصطفی کی طرف تمام عالمِ انسانیت تھازیرِ قدم بڑھے تھے سرورِ کونین جب حرا کی طرف جہاں سے حضرت جبریل ہو گئے واپس وہ اِک قدم تھا محمد کا انتہاکی طرف یہ اور بات کہ واعظ نے قبلہ رو جانا ہمارا رُخ تھا اُنہیں کے نقوشِ پا کی طرف امیرِ شہر کی نظریں کسی طرف ہی سہی غریبِ شہر کی آنکھیں ہیں مصطفی کی طرف اُنہیں کا نقشِ کفِ پا نشانِ منزل ہے یہی تو ہیں کہ جو لے جائیں گے خدا کی طرف خدا سے عشقِ محمد کی روشنی مانگیں یہ انتہا ہے کہ لوٹ آئیں ابتدا کی طرف t سلیم احمد (۲۷؍ نومبر ۱۹۲۷ء بارہ بنکی،یوپی…یکم ستمبر ۱۹۸۳ء کراچی) وہ ابتداؤں کی ابتدا ہے وہ انتہاؤں کی انتہا ہے ثنا کرے کوئی اس کی کیونکر بشر ہے لیکن خدا نما ہے وہی ہے اول وہی ہے آخر ، وہی ہے باطن ، وہی ہے ظاہر

یہ سوچ ہے آگہی سے باہر ، وہ اورکیاہے جو رہ گیا ہے

وہ سر تخلیق ہے مجسم کہ خود ہی آدم ہے خود ہی عالم وجود کی ساری وسعتوں پرمحیط ہے جو وہ دائرہ ہے انہی کا مسکن انہی کا گھر ہے انہی کی نسبت سے معتبر ہیں حرم ہو طیبہ ہو میرا دل ہویہ سب وہی ایک سلسلہ ہے کوئی نہیں ہے مثیل اس کا کوئی نہیں ہے نظیر اس کا وہ شخص بھی ہے وہ عکس بھی ہے اورآپ اپنا ہی آئنہ ہے ہے خطِ واصل کہ حد فاضل کہ قوس کے قوس ہے مقابل سلیم عاجز ہے فہم کامل وہی بشر ہے وہی خدا ہے - طبیعت تھی میری بہت مضمحل کسی کام میں بھی نہ لگتا تھا دل بہت مضطرب تھا بہت بے حواس کہ مجھ کو زمانہ نہ آیا تھاراس مرے دل میں احساس غم رم گیا غبار آئینے پر بہت جم گیا مجھے ہوگیا تھا اک آزار سا میں تھا اپنے اندر سے بیمار سا یونہی کٹ رہی تھی مری زندگی کہ اک دن تھا نویدِ شفا مل گئی مجھے زندگی کا سلام آگیا زباں پہ محمد کا نام آگیا محمد قرار دل بیکساں کہ نام محمد ہے آرامِ جاں ریاضِ خدا کا ُگلِ سرسبد محمد ازَل ہے محمد ابد محمد کہ حامد بھی محمود بھی محمد کہ شاہد بھی مشہود بھی محمد سراج و محمد منیر محمد بشیر ومحمد نذیر محمد کلیم و محمد کلام محمد پہ لاکھوں درود و سلام . شوقِ بے حد، غمِ دل، دیدۂ تر مل جائے مجھ کو طیبہ کے لیے اذن سفر مل جائے نام احمد کا اثر دیکھ جب آئے لب پر چشم بے مایہ کوآنسو کا گہر مل جائے چشم خیرہ،نگراں ہے رخ آقا کی طرف جیسے خورشید سے ذرّے کی نظر مل جائے یاد طیبہ کی گھنی چھاؤں ہے سرپہ میرے

جیسے تپتی ہوئی راہوں میں شجر مل جائے

نخل صحراکی طرح خشک ہوں وہ ابر کرم مجھ پہ برسے تومجھے برگ و ثمر مل جائے / میرا سکھ سنسار محمد جی کا چین قرار محمد میرا سب کچھ تم پر صدقے میں اور سب گھر بار محمد دُکھ برہا کے کب تک جھیلوں درشن دو، سرکار محمد گھورِ اندھیرا، طوفاں بھاری کر دو نیاّ پار محمد چھٹ گئے دکھ، بپتا کے بادل جب بھی کہا اک بار محمد بپھری موجوں سے کیا ڈرنا جب ہوں کھیون ہار محمد بھیک دیا کی سلیمؔ کو دے دو لطف و کرم آثار محمد t سلیم فوز (۲۸؍فروری۵ ۱۹۶ء خانیوال) تری یاد وہ دلِ مضطرب میں سکون کو جو اُتار دے تو وہ آئینہ کہ جو عکس پر نئے خدّوخال اُبھار دے ترا دھیان وہ کڑی دھوپ میںجوگھنیری چھاؤں کا آسرا ترا اسم وہ جو خزاں رسیدہ شجر کو اذنِ بہار دے تو وہ رہنما کہ جو دیکھتا ہے غبارِ راہ کے پار بھی جو بھٹک گئے ، ترا نقشِ پا انہیں منزلوں کو سدھار دے میں وہ بے ہنر جو نہ پا سکاتری خاکِ شہر کا مرتبہ مری عاجزی کوقبول کر مری عافیت کو سنوار دے میں وہ کم نظر کہ جو خواہشوں کے بھنور میں گھرتا چلاگیا ترا ذکر وہ کسی ڈوبتے کو جو ساحلوں پہ ابھار دے تجھے سوچ کر مرے جسم و روح میں پھیلتی ہے جو روشنی اُسی روشنی سے مرے سخن کی صداقتوں کو نکھار دے - بتا دیا مری منزل کا راستہ مجھ کو مرے نبی کے بکھرنے نہیں دیا مجھ کو میں صرف خاک تھا اُن کے ظہور سے پہلے کیا ہے ربطِ محبت نے کیمیا مجھ کو میں وہ فقیرجو آنکھوں کی سمت دیکھتا ہے کرم کی بھیک ملے شاہِ انبیا مجھ کو تمہاری یاد گُہر بن گئی ہے سینے میں کہ آگیا ہے ستارہ تراشنا مجھ کو میں ٹوٹ جاتا ہوں جب گردشِ زمانہ سے تمہارے ذکر سے ملتا ہے حوصلہ مجھ کو ملا ہے مجھ کو سبھی کچھ تمہاری نسبت سے بس اب دکھا دو مدینے کا راستہ مجھ کو میں بند آنکھوں سے دیکھوں تمہارے روضے کو سکھا دو ایسا کوئی اسم یا دُعا مجھ کو سلیم فوزؔ نے دیکھے ہوئے ہیں خواب بہت عطا ہو مسجدِ نبوی کا رتجگا مجھ کو t سوزؔ شاہجہاں پوری (۲۳؍ جون ۱۹۰۸ء شاہ جہاں پور… ۲۳؍ جنوری ۶ ۹ ۹ ء کر اچی) نہ گمان ہے نہ یقین ہے ،جو نظر میں ہے وہی راز ہے

یہی عشق کی ہیں حقیقتیں ، یہی اصلِ ناز و نیاز ہے

مِرے لب پہ نام حبیب کا ،مِرے دل میں یاد رسول کی یہی بندگی کانظام ہے ، یہی عاشقوں کی نماز ہے وہی حسنِ ذات کاراز داں، وہی نورِ عرش کا مدح خواں وہی لااِلٰہ کا راز ہے ،وہی سوز ہے وہی ساز ہے ہو زباں پہ ذکرِ نبی اگر ، تو جہاں ہے منزلِ بے خطر یہ عجیب جادۂ عشق ہے ،کہ نشیب ہے نہ فراز ہے وہ فلک پہ شانِ جمال ہے ، یہ زمیں پہ عکس جمال کا یہی ایک فرق ہے درمیاں ، یہی ایک پردۂ راز ہے جو عرب کاحسنِ تمام تھا ، وہ عجم کے دل کا سکوں ہوا

وہ حبیبِ ذاتِ اِلٰہ ہے ، وہی جانِ راز و نیاز ہے

جو غلامِ شاہِ انام ہیں ،اُنہیں سوزؔ! اِ س سے ہے واسطہ کہ جہاں کہیں ہو وہ نقشِ پا ، وہی سجدہ گاہِ ایاز ہے t سہیل احمد صدیقی (۱۵؍دسمبر ۱۹۶۴ء کراچی) نعتیہ ہائیکو مجھ سے ہیں بہتر کرتے ہیں بہتر کیا ماضی کیا حال؟ مانندِ شبنم پنکھ پکھیرو کرتے ہیں روضے پہ حاضر طائر صلِ علیٰ کا ورد کرے روضے پہ جب حاضر ہوں ذکر پیغمبر نعتِ پیغمبر خوش بخت و خوش حال ہو دیدہ پُرنم

دائم ہے سکھ چین جن و ملک حیراں اصل کائنات پہلوئے آقا میں دیکھ ایک ہی جست میں اسرا کی حور و غلماں قرباں ہوں خوابیدہ شیخین ہر منزل آساں فخرِ موجودات t

سید اشتیاق اظہرؔ (۳؍مئی ۱۹۲۴ء کانپور … ۴؍نومبر ۱۹۹۹ء ، کراچی) رسول ہاشمی نے جو سبق ہم کو پڑھایا تھا اگر ہم اس سبق کویاد کرلیں دلنشیں کرلیں اگر ہم آج پھر پڑھ لیں سبق مہرومحبت کا اگر ہم خود کو پھر وارفتۂ دینِ متیں کرلیں اگر ہم آج پھر ہوجائیں گرویدہ صداقت کے اگرہم اس سبق کو اوربھی دل کے قریں کرلیں مساوات ومودت پراگرایمان لے آئیں اگر ہم خود کووقفِ حکمِ رب العالمیں کرلیں یقیں ہم کو اگر ہوزندگی کی بے ثباتی کا حیاتِ چند روزہ نذرِ ختم المرسلیں کرلیں اگر ہم آشنا ہوجائیں ملت کے تقاضوں سے پیام حق کو سمجھیں امیتازِ کفرودِیں کرلیں نبی کے آخری پیغام کو پھر حفظ کر ڈالیں خداکے دین کی سچائیوں پر پھر یقیں کرلیں زمیں پر آخری امت کے اس اعزاز کی خاطر

ہم اپنے آپ میں پیدا خلوصِ مومنیں کرلیں

ٍخلوص مومنیں خوشنودیٔ آقا کا باعث ہے چلو اورچل کے یہ پیش شفیع المذنبیں کرلیں کہاں تک معصیت کی داستاں دہرائے جائیں گے مناسب ہے کہ اب ہموارراہِ واپسیں کرلیں زمیں پر عظمت آدم کے جلوے عام کرڈالیں کبھی توخود کو بھی ہم رُتبہ مہرٔ مبیں کرلیں طوافِ کعبہ اپنا کعبۂ مقصود بن جائے مدینے کے سفر کو اپنا عزمِ اولیں کرلیں سزاوارِ کرم بن جائیں ماضی کی طرف لوٹیں حرم کی خاک سے آراستہ اپنی جبیں کرلیں تواپنے حال پر اللہ کا انعام ہوجائے یہ ارضِ پاک پھر گہوارۂ اسلام ہوجائے t سید فضل احمد کریم فضلیؔ (۴؍نومبر۱۹۰۶ء الہٰ احمد کریم…۱۷؍دسمبر۱۹۸۱ء کراچی) ہے اگر کائنات ایک رباب ذات پاکِ حضور ہے مضراب سب میںکچھ کچھ کمی سے لگتی ہے جوبھی آتے ہیں ذہن میں القاب وہ کہ ان کا نہیں کوئی بھی مثیل وہ کہ ان کانہیں کوئی بھی جواب ان کی ذات وصفات اک دریا اور الفاظ میرے مثل حباب بے نواؤں کوعظمتیں بخشیں ان کی عظمت کی کوئی حدنہ حساب نور ان کا ہے کردیا جس نے ذرے ذرے کومہرِ عالم تاب قوم جوعلم سے تھی بے بہرہ کھول دی زندگی کی اس پہ کتاب بے ادب بادیہ نشینوں کو آئے موت وحیات کے آداب موت کویوں بنادیا محبوب لوگ مرنے کوہوگئے بے تاب دولت وملک ونسل کی تفریق تھی جو انسانیت کے حق میںعذاب یوں مٹا دی کہ بوذر و سلماں ہو گئے ہمسرِ عمر خطابؔ آپ ہی کی بتائی وہ نکلی جب بھی سوجھی کسی کوراہِ صواب ان کا پیغام جس نے اپنایا آگیا اس کی زندگی پہ شباب روح کو ان کے عشق سے آرام دل ہے گو اُن کے عشق میں بیتاب ان کی خوشبو نفس نفس میں ہے سانس لینا بھی اب ہے کارِ ثواب ذکرِ پاک اُن کا اور تو فضلیؔ بے ادب سیکھ عشق کے آداب t سیف حسن پوری (۱۹۲۵ء حسن پور گیابہار…یکم فروری ۲۰۰۶ء کراچی) خوبی نہ پوچھ اہلِ محبت سے پھول کی ہر پنکھڑی سے آتی خوشبو رسول کی ہم نے جو داد مطلع کی اپنے وصول کی

تعریف کی خدا کی خدا کے رسول کی

ہاتھ آگیا حضور کی سیرت کا آئینہ

تالیف ہو گئی مرے قلبِ ملول کی

نوعِ بشر کو واقفِ سود و زیاں کیا دکھلائی راہ زیست کے اصل الاصول کی جب چھڑگیا کبھی رُخِ زیبا کاتذکرہ آنکھوں کے آگے کھنچ گئی تصویر پھول کی انسانیت کونورِ ہدایت ہوا نصیب کس دل فریب لمحے میں آدم نے بھول کی گوعمر کاٹ دی ہے گناہوں میں تو نے سیفؔ! اب فکر کر بہشتِ بریں کے حصول کی t

سیما شکیب ( ۱۳؍ مئی ۱۹۵۳ء کراچی) نہ تھا کچھ بھی یہاں ہوتے ہوئے بھی جہاں کب تھا ، جہاں ہوتے ہوئے بھی خدانے ایک اُمی پرکیا تھا عیاں سب کچھ،نہاں ہوتے ہوئے بھی شبِ معراج تھم کررہ گئی تھی ہراک ساعت رواں ہوتے ہوئے بھی جُھکے تھے آپ کی تعظیم کرنے وہ سب کروبیاں ہوتے ہوئے بھی حرا کی پاک خاموشی سے پُوچھو میں کیوں چُپ ہوں زباں ہوتے ہوئے بھی وہ فرشِ خاک پرآرام فرما شہہِ کون ومکاں ہوتے ہوئے بھی حرارت عشق کی،نغمہ بلالی اذاں کب تھی،اذاں ہوتے ہوئے بھی سفر ہجرت کا تھا رحمت خداکی ہجومِ دُشمناں ہوتے ہوئے بھی ثنا کا حق ادا کب ہوسکا ہے زباں ، زورِ بیاں ہوتے ہوئے بھی t

سیّد آل رضا

(۱۰؍جون ۱۸۹۶ء ضلع اناوا ودھ…یکم مارچ۱۹۷۸ء کراچی) تہذیبِ عبادت ہے سراپائے محمد تسلیم کی خوشبو چمن آرائے محمد تنظیمِ خدا ساز تمنائے محمد منشا جو خدا کا وہی منشائے محمد جس دل میں ہے اللہ وہیں رہتے تھے یہ بھی اللہ جو کہتاہے وہی کہتے ہیں یہ بھی اللہ کی طاعت ہے محمد کی اطاعت قرآن کی دعوت ہے محمد کی اطاعت مرکز کی حفاظت ہے محمد کی اطاعت حد بند شریعت ہے محمد کی اطاعت ہوجتنا شعور،اتنا ہی اس حد کو سمجھ کر اسلام کو سمجھو ، تو محمد کو سمجھ کر اللہ ہے کیا ؟ جس نے بتایا وہ محمد پیغام سا پیغام جو لایا ، وہ محمد آیات میں پیوست جو آیا ، وہ محمد جس نے بشریت کو سجایا وہ محمد معیار بنا بارگۂ عزوجل میں آہنگِ محمد ، صفت قول و عمل میں t سیّد سلیمان ندوی ،علامہ (۲۲؍نومبر ۱۸۸۴ء ضلع ؟؟؟بہار…۲۲؍نومبر ۱۹۵۳ء کراچی) نقش جس قلب پہ نام شہہ ابرار نہیں سکۂ قلب ہے وہ درخور بازار نہیں توہے مجموعہ خوبیٔ وسراپائے جمال کونسی تیری ادا دل کی طلب گار نہیں مجلسِ شاہ میں ہے نغمۂ تسلیم و درود شورِ تسبیح نہیں،شورش افکار نہیں ذرّہ ذرّہ ہے مدینہ کا تجلی گہہ نور دشتِ ایمن یہ نہیں،جلوہ گاہِ نار نہیں جان دے دے کے خریدار بنے ہیں انصار عشقِ زارِ نبوی مصر کا بازار نہیں شک نہیں مطلع والشمس ہے بطحا کی زمیں کونسا ذرّہ وہاں مطلع انوار نہیں ہرقدم بادصبا،حسن ادب سے رکھنا بوئے گیسوئے نبی نافۂ تاتار نہیں صیدِ مژگانِ محمد ہیں، غزالانِ حرم اس لیے ناوک وپیکاں کے سزاوار نہیں t سیّد محمد جعفری (۲۷؍دسمبر ۱۹۰۷ء …۷؍جنوری ۱۹۹۹ء، کراچی) سلام بھیجوں، درود اُس نبی کو نذر کروں کہ جس کو رحمتِ ُکل عالمین کہہ توسکوں بلند مرتبت ایسا رسول بھیجا گیا کہ گرخدا نہ کہوں اُس کو ناخداتوکہوں یہ شعرِ حضرتِ اقبال مجھ کو یاد آیا کہ آبروئے بشرجس سے ہوگئی افزوں ’’خبر ملی ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے‘‘ ’’کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں‘‘ محمدِ عربی ہیں کہ جن کے صدقہ میں دلِ بشر کو خدا نے دیاہے سوزِ دروں اُنھیں کے نور سے ہر خلعتِ وجود ملا انھیں کے نور سے روشن جہانِ بوقلموں محمد عربی وجہِ خلقت افلاک ودیعت اُن کو ہوا رب سے رازُِ کن فیکوں ’’محمد عربی آبروئے ہر دوسرا‘‘ انھیں کو قرب ملاہے ملائکہ سے فزوں بلندیاں شبِ معراج وہ ملیں کہ جہاں اگرہے عقلِ بشر کچھ توایک صیدِ زبوں نہ نفسِ ناطقہ پہنچے،نہ لفظ ساتھ چلیں بیاں کروں شبِ معراج کاتوکیسے کروں اک عبد خاص ہے مہمانِ حضرت معبود چمک رہاہے سرعرش ہر درمکنوں وہ فاصلہ جو تھا قوسین بلکہ اس سے بھی کم مقرّب اتنا کوئی ہے ملک سے کیا پوچھوں یہ جبریل نے سدرہ پہ جاکے عرض کیا تجلیوں سے جلیں پرگراس سے آگے چلوں وہ ذات پاک ہے لے کرنبی کو جوآیا حریم کعبہ سے اقصی تک اس کی حمد کروں ہیں انبیاء سلف راستے میں صف بستہ دلوں میں اپنے لیے اشتیاق حد سے فزوں وہ آدم اور وہ ادریس و نوح و ابراہیم وہ یوسف اور سلیمان و یونسِ ذوالنوں کھڑے ہیں موسی عمراں وخضر بھی ان میں لیے ہوئے یدِبیضا عصا و ُمہر سکوں وجیہِ عقبیٰ و دنیا وہ عیسی مریم ہیں منتظر کہ یہ آئیں تو میں قدم لے لوں بلایا کیوں شب معراج اور کہا کیا کچھ خدا ہی جانتا ہے اس میں کیا ہے رازِ دروں خدا کرے کہ ملے جعفری کو یہ توفیق درود بھیجے جو حدوشمار سے ہو بروں t سیّد مظفر احمد ضیا (۱۵؍جولائی ۱۹۳۱ء میرٹھ…۳۱؍ دسمبر ۲۰۰۰ء کراچی) آگیا دہر میں جینے کا قرینہ مجھ کو میرے مولانے دکھایا ہے کہ مدینہ مجھ کو اب بھلا بھائیں گے کیا بادہ و مینا مجھ کو آب کوثر سے بھرا جام ہے پینا مجھ کو کسی طوفان کا ڈر تھا نہ بھنور کاہی خیال لے چلا جانب طیبۂ جو سفینہ مجھ کو میں نے اک خواب سادیکھا تھا کہ بس نور ہی نور ہونہ ہو شہر یہ لگتا ہے مدینہ مجھ کو چشم حیراں کہ تھی محروم تماشہ کب سے آپ کے در سے ملا دیدۂ بینا مجھ کو جب تلک روضہ اقدس کی زیارت نہ ہوئی زیست بے کیف تھی دشوار تھا جینا مجھ کو آپ کے در پہ تہی دست ہی آیا تھا یہاں مل گیا رحمتِ باری کا خزینہ مجھ کو اس لیے تر ہے مرا خامہ مژگاں کہ ضیا آسکے نعت نگاری کا قرینہ مجھ کو t شاداب احسانی (۱۴؍اگست ۱۹۵۷ء کراچی) سرزمینِ مدینے کے صدقے شاخِ دل لہلہانے لگی ہے سیرتِ پاک پڑھنے سے مجھ کو زندگی راس آنے لگی ہے علم کا استعارہ محمد ، مصطفیٰ مصطفیٰ مصطفیٰ بس میں نے تکیہ کِیامصطفی پہ تب جہالت ٹھکانے لگی ہے کیا بتاؤں میں شانِ رسالت معجزے آپ کے ہیںبہت خوب ماہِ دو نیم یاد آرہا ہے چاندنی جھلملانے لگی ہے اب تو مجھ میں دیارِ مدینہ پڑھ رہا ہے محمد محمد دل مرا دف بجانے لگا ہے آرزو گنگنانے لگی ہے ناز کر خود پہ شادابؔ ہرپل رحمت اُن کی تری ذات پر ہے ایسے آقا سے نسبت ہوئی کہ تیرگی منہ چھپانے لگی ہے t شان الحق حقی (۱۵؍ ستمبر ۱۹۱۷ء دہلی … ۱۱؍اکتوبر ۲۰۰۵ء ٹورانٹو، کینیڈا) مجھے تو صرف اتنا ہی یقیں ہے مرا تو بس یہی ایماں و دیں ہے اگر تم مقصد عالم نہیں ہو تو پھر کچھ مقصدِ عالم نہیں ہے نہیں میں واقف سر الٰہی مگر دل میں یہ نکتہ جا گزیں ہے جو دل انوار سے ان کے ہے روشن وہی کعبہ وہی عرشِ بریں ہے نہ کہیے ان کا سایہ ہی نہیں تھا کہ ثانی تو کوئی بے شک نہیں ہے مگر جس پر بھی سایہ پڑ گیا ہے وہ انساں نازش روئے زمیں ہے وہ شہر بے حصار ان کا مدینہ کہ جس کی خاک ارمان جبیں ہے نہ پوچھو ہے حصار اس کا کہاں تک یہ المغرب سے تا اقصائے چیں ہے جھکی جاتی ہے خود سجدے میں گردن نہ جانے کفر ہے یا کار دیں ہے کہ دل میں ماسوائے اسمِ احمد نہیں ہے کچھ نہیں ہے کچھ نہیں ہے - سخن کو ان کے حسیں نام سے سجاتے ہیں ہم اپنا مان اسی صورت سے کچھ بڑھاتے ہیں بساطِ فکر چمن زار ہو گئی گویا جو لفظ ہوتے ہیں موزوں ،مہکتے جاتے ہیں ملی ہے اِن کو جو کچھ اُن کے رنگ و بو کی رمق توپھول جامے میں پھولے نہیں سماتے ہیں بہ پیشِ نورِ ازل جائے استعارہ کہاں جو نقش سامنے آتے ہیں بجھ سے جاتے ہیں ہے ذاتِ حق اَحَد وحیّ و مالک وداور

ہم ان حروف میں ان کابھی نام پاتے ہیں

خداکی دین یہ گلہائے نعت ہیں،جن کو ہم اپنی ہیکلِ تخییل پر سجاتے ہیں ہمیں شکایتِ محرومیِ نظارہ نہیں انہیں توہم کھلی آنکھوں سے دیکھ پاتے ہیں کرشمے ہیں اسی نورِ ازل کے ماہ و نجوم یہ سب انہی کے ہیں جلوے جو جگمگاتے ہیں اداہو کس سے بھلا حق ثنائے خواجہ کا نہ پوچھئے کہ یہ مضموں کہاں سے آتے ہیں t شاہ حسن عطاؔ (۲۵؍مارچ رائے بریلی … ۷؍ جولائی ۱۹۸۱ء کراچی) نہیں کہ تجھ کو بشر ہی سلام کرتے ہیں شجر حجرَ بھی ترا احترام کرتے ہیں اسی سے گرمیٔ محفل ہے آج بھی قائم کہ تیرا ذکر جہاں میں مدام کرتے ہیں وہ ضبطِ نفس وہ سرمستیِ پیام ِ الست ترے حضور فرشتے قیام کرتے ہیں تری طلب میں جو رہتے ہیں رہ نورد یہاں وہی توسارے زمانے میں نام کرتے ہیں مصافِ زیست میں جاں دادگانِ عشق ترے ہر ایک آفتِ دوراں کو رام کرتے ہیں ترا یقیں ہے فزوں تر،مہ و ثریا سے کہ اس کے نور سے برپَا نظام کرتے ہیں رہِـ جنوں کی طلب میں بھی جَاں نثار چلیں رہِ خرد کا جو یہ اہتمام کرتے ہیں ملی ہے جن کو محبت تری زمانے میں خموش کارِ اُمم وہ غلام کرتے ہیں تری قیادتِ عُظمیٰ ہوئی ابد پیما کہ تجھ کو سارے پیمبرَ امام کرتے ہیں تری زباں کے توسط جو مانتے ہیں کتاب وہ کیوں حدیث میں تیری کلام کرتے ہیں جو مستحق تھے عقوبت کے ہیں وہ خُلد نشیں نگہ کرم کی شہِ ذی مقامَ کرتے ہیں سکھائے تو نے جوپیکار وصلح کے آئیں جہاں کی رہبری تیرے غلام کرتے ہیں ترا مقام ہے اب تک نظرسے پوشیدہ اگرچہ ذکر تیرا خاص و عام کرتے ہیں - تیری خیر البشری زد میں نہیں شک کے ذرا تو نے انساں کو دلائی ہے غلامی سے نجات یہی افلاک جو رفعت میں تحیرّزا ہیں تیرے قدموں تلے روندے گئے معراج کی رات دید جس کی نہ میسر کبھی موسیٰ کو ہوئی تجھ سے اس خالق کونین نے کی کھل کے بات یہ تفاخر بجز از روح قدس کس کو ملا کس نے کھینچی ہے بھلا تیری سواری پہ قنات تیرے افکار سے دنیائے توہمّ ویراں تری آمد سے گرے خاک پہ سب لات ومنات منفعل تری تجلّی سے روِاحہؓ کا سخن پوری اتری تری قامت پہ نہ حساّن کی بات محو حیرت تری مداحی میں خاقانی ہے سعدی وقدسی وجامی سبھی محوصلات بدراولیٰ میں تری ژرف نگاہی کی قسم تو نے مومن کو دیاِ ذوق شعور آفات حشر میںترے جلو میں ہے ملائک کا ہجوم ذاتِ باری کے سوا سب پہ فزوں تیری ذات اک اشارے پہ تری سب نکل آئے گھر سے صفِ جنگاہ میں زہاُد بنے کوہ ثبات داستاں خونچکاں تھی سفرِ طائف کی پنڈلیوںسے دم احمر کی تراوش ہئییات چمن دہر میں رحمت کی چلی باد نسیم زمزمہ خواں تری آمد پہ مدینہ کی بنات یہ تو اک رہ گزرِ عشق پیمبر ہے حسنؔ ہے ابھی دور بہت منزلِ اعمالِ نجات t شاہدؔ اکبر آبادی (وفات:۸؍جون ۱۹۹۳ء کراچی) اے امین ِ کن فکاں،اے خاتم حق کے نگیں اے دلِ یزداں کی دھڑکن اے شفیع المذنبیں اے شبِ اسری کی زینت اے امام المرسلیں اے کتاب عالمِ امکاں کے بابِ اولیں السلام اے بے عدیل و بے مثال و بے نظیر اے رئیس ِقدسیاں اے عرشِ اعظم کے سفیر آپ وہ ہیں مصدر جود و سخا کہئیے جنہیں آپ وہ ہیں منبع لطف و عطا کہیئے جنہیں آپ وہ ہیں مرکزِ صدق وصفا کہیئے جنہیں آپ وہ ہیں مظہرِ ذات خدا کہیئے جنہیں آپ مینارِ تقدس آپ کہسارِ یقیں السلام اے شہرِ علم اے صاحبِ وحیٔ مبیں یہ جہان آب وگل یہ کوہ دشت وگلستاں یہ فلک یہ مہرومہ یہ محفلِ سیارگاں یہ عطارد ، یہ زحل ، یہ مشتری ، یہ کہکشاں جس سے روشن ہیں یہ صبح وشام یہ کون ومکاں دن کا وہ مہر منور شب کا وہ ماہِ مبیں آپ ہیں صرف آپ ہیں یارحمت للعالمیں کاروانِ شش جہت کے مقتدا سرکار ہیں نورِحق ،شمس الضحیٰ،بدر الدجیٰ سرکار ہیں جوہرِ آئینۂ لوحِ قضا سرکار ہیں نازشِ کونین، فخرِ انبیا سرکار ہیں سجدگاہِ قدسیاں ہے آپ کا در یا رسول سرمۂ چشم دوعالم آپ کے قدموں کی دھول آپ صدرِ بزم امکاں آپ جان ِشش جہات آپ کا ہر نقشِ پا ہے مشعلِ راہ حیات ہے جلا بخشش دوعالم جلوۂ ذات وصفات السلام اے مسند آرائے سریرِ کائنات آیۂ لولاک و اسریٰ آپ کی شانِ ورود وجہ تکونینِ دوعالم ذات اقدس کا وجود نقشِ پاسے آپ کے پھوٹی تمدن کی سحر خاک کے ذرّوں کو بخشی عظمتِ شمس وقمر ختم ہے ہر ارتقائے نوعِ انساں آپ پر آپ ہیں نورالہدی، کف الوری خیرالبشر محسن ِانسانیت بھی مقصد ِکونین بھی آپ آنکھوں کی بصارت بھی دلوں کاچین بھی

ُخلق، خُلق بے نہایت ُحسن ُحسنِ بے مثال 

دل وہ جس پرآئینہ مستقبل وماضی وحال زلف پر واللیل رُخ پر آئیہ والفجر دال آپ شہکارِ مصور آپ تصورِ جمال موبمو، سر تا بپا ، تنویر یزداں ہیں حضور عرش نے جس کے قدم چومے وہ انساں ہیں حضور جانے کب سے منتظر تھیں عرش کی پہنائیاں آپ نے رکھا قدم بجنے لگیں شہنائیاں تا بہ سدرہِ اس قدر صدقے ہوئیں رعنائیاں نور کے سانچے میں ڈھل کر رہ گئیں پرچھائیاں ہو گیا ثابت، مجسم نورِ عرفاں آپ ہیں جسم بے سایہ نہ کیوں ہوعکسِ یزداں آ پ ہیں مصحفِ ناطق بھی آپ ،آئینہ ِقرآں بھی آپ آپ شہرِ علم بھی سرچشمۂ عرفاں بھی آپ عبد بھی اور سر سے پا تک مظہرِ یزداں بھی آپ جلوۂ صبحِ ازل بھی، جلوۂ فاراں بھی آپ ابتدا بھی آپ ہی سے، انتہا بھی آپ ہیں شرح لفظِ کن بھی، ختم الانبیاء بھی آپ ہیں مقطعِٔ نظم نبوت، مطلعِٔ صبحِ ازل خالقِ کونین کے دیوان کی پہلی غزل کھل اٹھا ہرحرف پر تقدیرِ انساں کا کنول آپ ہر غم کا مداوا، آپ ہر مشکل کا حل نبضِ فطرت میں تڑپ جس دل سے ہے وہ دل ہیں آپ فکر کے ہرکا رواں کی آخری منزل ہیں آپ t شاہد الوری (۲۶؍دسمبر۱۹۲۳ء الور…۱۵؍دسمبر ۲۰۰۴ء کراچی) دونوں عالم میں جمال مصطفی کا آئینہ اور جمال مصطفی نور خدا کا آئینہ لے کے آئے تھے اسے عرشِ بریں سے جبریل آیت اقرا تو ہے غارِ حرا کا آئینہ ہو نہیں سکتا کبھی عرفانِ ذات مصطفی دل اگر تیرا نہیں صدق و صفا کا آئینہ سوچ لے یہ بھی دعا کو ہاتھ اٹھاتے وقت تو چاہتاہے صیقل نیت دعا کا آئینہ آخری خواہش یہی میری ہے شاہد الوری دل مرا بن جائے تسلیم و رضا کا آئینہ t شاہدؔ نقوی (۱۵؍جون۱۹۳۵ء۔لکھنؤ…۹؍نومبر۲۰۰۲ء کراچی) نکلا افق پہ حکم خدا سے وہ آفتاب تھا جو ازل سے چشم مشیت کا انتخاب باطل کے ہر خروج کا ظلمت شکن جواب ظاہر میںایک سادہ ورق اصل میںکتاب جس کو ازل میں احمد و امجد کہا گیا امکان کی حدوں میں محمد کہا گیا اک کہکشاں نظر میں بنائی رسول نے کرنوں سے بزم فکر سجائی رسول نے صحرا میں شمع نور جلائی رسول نے اللہ کی کتاب سنائی رسول نے تہذیب و تزکیہ کا عجب اہتمام تھا آواز تھی نبی کی، خدا کا کلام تھا آیاکلام حق کا ترانہ لیے ہوئے ہرلفظ جس کا ایک زمانہ لیے ہوئے اجمال میں طویل فسانہ لیے ہوئے عالم کے خشک و تر کا خزانہ لیے ہوئے بے زر نے دامنوں کو جواہر سے بھر دیا اُمیّ نے جہل فکر کو ذی علم کردیا t شاہدہ حسن (۲۴؍نومبر ۱۹۵۳ء چٹاگانگ) حکمِ یزداں سے ملا اذن پیمبر سے ملا مجھ کو مدحت کا ہنر میرے مقدر سے ملا کب سے اس خانۂ آفت میں مقید تھی میں اورایسے میں بلاوا مجھے اُس در سے ملا جلد لے چل مجھے اے شوقِ سفر اُن کی طرف میرے ہادی میرے آقا مرے رہبر سے ملا قلزم اشک بہاتی ہوئی پہنچوں گی وہاں اک اشارہ جو مجھے روضۂ انور سے ملا ایک اک بوند سے سو پیاس بجھالوں گی میں جوں ہی اک جامِ مجھے ساقیِ کوثر سے ملا رمزِ تخلیقِ جہاں خلقتِ احمد میں نہاں کُن کا مفہوم اُسی چہرۂ انور سے ملا از ازل تا بہ ابد راہِ ہدایت ہے کھلی سارا منشور اُسی نور کے منبر سے ملا لکھ سکا کون سرِ عرش ملاقات کاحال شب معراج خدا اپنے ہی دلبر سے ملا اے مرے خواب دکھا نقشِ کف پائے رسول اے مری نیند کبھی روحِ منور سے ملا اے زمانے تو مجھے روند کے رکھ دے لیکن میرے خاشاک کواُس حُسنِ گل ترسے ملا عصرِ حاضر کے سوالات کی زد پر ہے یہ عقل آگہی مجھ کو اُسی علم کے دفتر سے ملا زخم کھا کھا کے دعائیں تھیں لبوں پر جس کے راہ طائف مجھے اُس صبر کے پیکر سے ملا دیں کی تلقین کا آغاز ہوا تھا جس جا اوجِ فاراں مجھے اُس شام کے منظر سے ملا اُن کی امت میں رکھا بختِ رسا نے مجھ کو مجھ کو یہ اوج وشرف میرے مقدر سے ملا t

شاہدہ عروج خان (۱۱؍مارچ ۱۹۶۵ء حیدرآباد سندھ) نہ سہ پائے باطل، نوائے محمد کہ جب حق کا پیغام لائے محمد سعادت بڑی اس سے کیا اور ہوگی خدا کر رہا ہے ثنائے محمد جو بیمارِ دل ہیں اُنھیں بھی یقیں ہے کہ اِک دن ملے گی شفائے محمد زبان پر ہے حمد و ثنا اُن کی ہر دم سدا مجھ پہ ہے یہ عطائے محمد مدینہ مقدس، معطر فضائیں وہاں پر ہے حمد و ثنائے محمد تڑپنے لگا تھا اُسی دن سے باطل کہ جس دن سے دنیا میں آئے محمد کسی سے غرض ہے، نہ مطلب، نہ لالچ ہے ہر سانس میری برائے محمد عروجؔ ! اب تو کوئی بھی خواہش نہیں ہے مرے دل میں ایسے سمائے محمد t شاہین فصیح ربانی (۴؍نومبر ۱۹۶۴ء،ضلع جہلم) حرف حرف عزت ہو،لفظ لفظ مدحت ہو سوچ سوچ ندرت ہو، شعر شعر حرمت ہو لہجہ لہجہ اَمرت ہو، صفحہ صفحہ عظمت ہو نعت وہ لکھوں جس میں عجز ہو عقیدت ہو پھو ل پھول نکہت ہو، نجم نجم رفعت ہو زیست زیست چاہت ہو، خواب خواب قربت ہو روح روح عشرت ہو ، قلب قلب اُلفت ہو نعت وہ لکھوں جس میں ، عجز ہو عقیدت ہو آپ ہی سے نسبت ہو، اس طرح کی قسمت ہو رنج رنج راحت ہو،درد درد فرحت ہو چشم چشم حسرت ہو، آپ کی محبت ہو نعت وہ لکھوں جس میں عجز ہو عقیدت ہو سوچ ہو بصیرت ہو، آپ کی سی سیرت ہو لمحہ لمحہ تسکیں ہو، لحظہ لحظہ راحت ہو گاؤں گاؤں خوشحالی، شہر شہر جنت ہو نعت وہ لکھوں جس میں عجز ہو عقیدت ہو زندگی کارستہ ہو،ایک ہی تمنّا ہو اُن کے در پہ جانا ہو، اور فصیحؔ! ایسا ہو پاؤں پاؤںچلناہو،عمر کی مسافت ہو نعت وہ لکھوں جس میں عجز ہو عقیدت ہو t شبنم رومانی (۳۰؍ دسمبر ۱۹۲۸ء شاہ جہاں پور … ۱۷؍ فروری ۲۰۰۹ء کراچی) انسان ہیں وہ بھی،مگر رحمت نفس ،خیر البشر انسانیت کے واسطے اُن کی دعائیں رات بھر ہرظلم کی یلغار میں سب کے لیے سینہ سپر ہراک قدم،رفتارمیں صدیوں کا تہذیبی سفر انسان ہیں وہ بھی،مگر انسانیت کے واسطے اک دائمی منشور ہیں وہ آسماں کانور ہیں جوخاک سے پیدا ہوا وہ آفتابِ روح جوادراک سے پیدا ہوا علمِ حقیقی ان کے اسمِ پاک سے پیدا ہوا انسان ہیں وہ بھی ،مگر اُن کازمانہ جاوداں اُن کاپتہ اسرارِ ذات اُن کانشاں رمزِ حیات اُن کاٹھکانہ شش جہات اُن کاقدم نقشِ حرم اُن کاکرم بابِ نجات اُن کاجریدہ زندگی اُن کاقصیدہ کائنات انسان ہوں میں بھی مگر میرایہ اندازِ نظر میرایہ اعجازِ قلم میری یہ نظمِ معتبر میری یہ نعتِ محترم سب خود پناہی کے لیے  ! سب دادخواہی کے لیے  ! t شبنم صدیقی، پروفیسر (۲۶؍نومبر ۱۹۴۳ء رائے بریلی یوپی انڈیا)

کچھ اس شان سے بزمِ کون و مکاں میں ،فروزاں ہے شمعِ لقائے محمد کہ ساری خدائی صدا دے رہی ہے،خدا کی خدائی فدائے محمد خودی کی بلندی کا عالم تو دیکھو،رضائے خدا ہے رضائے محمد اسی سے تو دل پر یہ عقدہ کھلاہے ،گدائے خدا ہے گدائے محمد یہی دردِ دل ہے یہی جستجو ہے ،یہی بیقراری یہی آرزو ہے مدینے کی جانب چلا جارہاہوں ،لیے دل میں شوقِ لقائے محمد زمانے کی رفتار تھم سی گئی ہے،مہ و سال پر برف جم سی گئی ہے کہ تاریخِ اقوام کے گنبدوں میں ،ابھی گونجتی ہے صدائے محمد اِسی میں مداوائے حالِ زبوں ہے ،اِسی میں شفا ہے اِسی میں سکوں ہے کہ تہذیبِ افرنگ کے فرد بیمار ،کو اب اُڑھا دو ردائے محمد گلوں سے ہم آغوش ہو کیوں نہ شبنم ،کہ خوشبو تو ہے اِک نشانِ نبوت کرن مہر کی کیوں نہ شبنم کو چومے ، کہ شبنم تو ہے خاکِ پائے محمد t شکیل احمدضیا (۲۵ ؍دسمبر ۱۹۲۱ء جھانسی(یوپی)…۷؍مارچ۱۹۹۹ء کراچی) حق کا فرمان ہے فرمانِ رسول عربی مرحبا مرتبہ وشانِ رسول عربی دونوں عالم میں ہے فیضانِ رسالت جاری دونوں عالم پہ ہے احسانِ رسول عربی ذرہ ذرہ ہے مدینے کا خمستان بہار بے خزاں ہے چمنستانِ رسول عربی مسترد ہوگئیں توریت و زبور و انجیل صرف باقی رہا قرآن رسول عربی حشر میں پرستش اعمال سے گھبرا نہ ضیاؔ تھام لے گوشہ دامانِ رسول عربی t شکیل نشترؔ (۱۹۳۴ء میرٹھ…۴؍دسمبر ۱۹۹۳ء کراچی) دیدنی یوں ہے کہ صحرا میں بہار آئی ہے دل کا ہرزخم مدینے کا تمنائی ہے پتھروں کو بھی عطا قوتِ گویائی ہے ہائے کیا معجزۂ حُسنِ مسیحائی ہے ورنہ انسان کو مرنے کا سلیقہ بھی نہ تھا شاہِ دیں آئے تو جینے کی ادا آئی ہے ایک یہ بھی شبِ معراج کا مفہوم ہوا خود تماشہ ہے خدا خود ہی تماشائی ہے عبد و معبود کے مابین نہیں ہے کوئی

نام ہے غارِ حرا گوشۂ تنہائی ہے

ان کا مصرف تو یہی ہے کہ مدینہ دیکھیں ورنہ کیا آنکھیں ہیں کیا آنکھوں کی بینائی ہے ہے ہمہ وقت مدینے کا تصور نشترؔ اب تو خلوت بھی مری انجمن آرائی ہے t شمس بریلوی، علامہ (۱۹۱۹ء بریلی…۱۳؍مارچ۱۹۹۷ء کراچی) یہاں دخل حسنِ عمل نہیں یہ فقط نصیب کی بات ہے کرے جس پہ چاہے نوازشیں کرم حبیب کی بات ہے حرم نبی کے مسافرو ، یہ صدائے درد ذرا سنو کسے دیکھ کرمیں تڑپ گیا یہ بہت قریب کی بات ہے یہ ورائے فہم وشعورہے یہ مقام عین شہود ہے یہ کمال قرب کا ذکرہے سفرحبیب کی بات ہے توحرم سے شیخ پلٹ پڑا میں درنبی پرمقیم ہوں وہ ترے نصیب کی بات تھی یہ مرے نصیب کی بات ہے وہ کہ جس کا ذکراگرنہ ہو،نہ اذان ہے نہ نماز ہے

یہ اسی کا ذکرجمیل ہے اسی حبیب کی بات ہے

دلِ دردمند سنبھل سنبھل،ہے ادب بھی شرط نہ یوں مچل تجھے دردِعشق عطاہوا،یہ بڑے نصیب کی بات ہے کسے دیکھ کر یہ مچل گیا کسے دیکھ کر یہ تڑپ گیا تمہیں شمسؔ اوربتائے کیایہ دل غریب کی بات ہے t شمس زبیری (۱۹۱۷ء میرٹھ…۳؍ستمبر ۱۹۹۹ء کراچی) جب محمد کا لب پہ نام آیا روح پرور کوئی پیام آیا بزم جمتی رہی ستاروں کی بعد سب کے مہِ تمام آیا دوست دشمن پہ کچھ نہیں موقوف میرا آقا تو سب کے کام آیا کوئی در سے پھرا نہ خالی ہاتھ جو بھی پہنچا وہ شاد کام آیا مٹ گئی خاص و عام کی تفریق جب وہ مولائے خاص و عام آیا آدمی آدمی کو پہچانا آدمی آدمی کے کام آیا جس کی ہر دَور کو ضرورت تھی آپ آئے تو وہ نظام آیا t شمس قادری بدایونی (۹۲۷اء بدایوں…۹؍نومبر ۲۰۰۴ء کراچی) اے اہل دل ، فریب ہے دنیا کی آب وتاب ہے آب و تاب وادیٔ طیبہ کی آب و تاب آنکھوں سے پھوٹنے لگیں کرنیں درود کی جب سامنے ہو گنبدِ خضرا کی آب و تاب اب دامنِ خیال میں سو آفتاب ہیں اشکوں میں ہے تصور بطحٰی کی آب و تاب محبوب رب کے نقش قدم پرہزار بار قربان تاج قیصر و کسری کی آب و تاب اک رات کو فضائے زمان و مکاں تھی ایک یکجا ہوئی تھی بندہ و آقا کی آب و تاب پھر یوں ہوا کہ قرب کی منزل نہ جاسکی ہرشب میں رچ گئی شبِ اسرٰی کی آب و تاب اے شمس رہروان مدینہ کو الوداع بھیج ان کے ساتھ اپنی تمنا کی آب و تاب t شمعؔ افروز ڈاکٹر (۱۸؍فروری۱۹۸۷ء کراچی) مائل اُن کی سمت جس دم دل ہوا جسم سارا جانبِ منزل ہوا مرتبہ پایاہے کس نے آپ سا کون ہے جو آپ سا کامل ہوا خود بھی حیراںہے نظامِ کائنات کیسے دوٹکڑے مہِ کامل ہوا جس کے لب پر گُل درودوں کے کھلے عابدانِ حق میں وہ شامل ہوا دولتِ عشقِ نبی جس کو ملی اہلِ ایماں میں وہی داخل ہوا آپ کی سیرت پہ جوچلنے لگے روح کو اُن کی سکوں حاصل ہوا t شمیم جاویدؔ (۲؍ جنوری ۱۹۳۰ء …۶؍دسمبر ۱۹۹۴ء کراچی) اگر پندرہ سو ہجری قبل میں پیدا ہوا ہوتا مری قسمت کا اندازہ کرو میں کیا سے کیا ہوتا مرے پیشِ نظر نورِ محمد مصطفیٰ ہوتا مرے لب پرفقط صلِ علیٰ ۔ صلِ علیٰ ہوتا میںہرپل منتظر رہتا اُسی نورِمجسم کا وہی نورِمجسم دیدہ ودل کی ضیا ہوتا بے قیدِ وقت دل کی دھڑکنیں سجدے اداکرتیں مرارونا وضو ہوتا مرا نالہ دعا ہوتا ہواؤں سے میں جب بھی پوچھتا وہ اب کہاں ہوں گے بس اک خوشبو کے جھونکے نے پتا بتلا دیا ہوتا میں جن گلیوں میں اوررستوں پہ وہ نقشِ قدم پاتا بہ ہر ساعت وہیں سجدے پہ سجدہ کرلیا ہوتا گدائے مسجدِ نبوی کہا کرتی مجھے دنیا نہ میراگھر نہ کوئی نام نہ میرا پتہ ہوتا مجھے اہل مدینہ چھیڑتے دیوانہ کہہ کہہ کر میں اپنے اس لقب پروالہانہ جھوم اٹھا ہوتا وہ لحنِ سرمدی سُن کر ہمیشہ وجد میں رہتا خموشی کے تکلم میں خدا جلوہ نما ہوتا یہ سوتے جاگتے جاویدؔ کیا کیا سوچتا ہوںمیں جویوںہوتا تو کیا ہوتا جو یوں ہوتا توکیاہوتا t شوقؔ عظیم آبادی (۱۹۰۰ء پٹنہ عظیم آباد…۱۶؍اپریل ۱۹۸۷ء کراچی)

آپ شمس الضحیٰ آپ بدرالدجیٰ آپ نور العلیٰ ،سیدالاصفیا

آپ کہف الوریٰ اشرف الانبیاء ،آپ نورِ ھدا ،خاتم الانبیا

آپ ماہِ مبیں ، اس سے بڑھ کر حسیں ، آپ کا کوئی ہمسر بشر میں نہیں سیّد المرسلیں ، شافعِ مذنبیں، خاتم المرسلیں، آپ صدر العلیٰ شرک میں مبتلا جب تھاسارا عرب،تھے حرم میں بتوں کے پرستار سب

آپ توحید کا لائے پیغام جب ، لات و عزیٰ ہُبل ہو گئے سب فنا

ایک عالیٰ نسب ، ایک والا حسب ،یعنی محبوبِ رب ،لائے تشریف جب

پھر گئے دن زمانے کے اُن کے سبب،لائے ہمراہ قرآن کامعجزہ

آپ خیر البشر ، آپ والاگہر،ساری خلقت کے ہیں آپ نورِ نظر

خود خدا بھیجتا ہے درود آپ پر،اللہ اللہ یہ مرتبہ آپ کا

اِک سرِ مو بھی آگے قدم گررکھیں،پر فروغِ تجلی سے جلنے لگیں

تاب و طاقت کہاں اب یہ جبریل میں ،آگئی سرحدسدرۃ المنتہیٰ

آپ کامرتبہ قاب قوسین ہے ،عرش پر اپنے خالق سے جاکر ملے

قدسیوں کی زباں پر ہے صلی علیٰ ،مرحبا مصطفی مرحبا مصطفی

شوقؔ! مشرک نہیں ہے مسلمان ہے،ایک معبود پر اس کا ایمان ہے

اپنی تر دامنی پر پشیمان ہے ،المدد المدد یا شفیع الوریٰ

t شوکت تھانوی (۳؍فروری ۱۹۰۴ء…۴؍مئی ۱۹۶۳ء لاہور) ہم ہیں تصورات کی جنت لیے ہوئے آنکھیں ہیں بند جادۂ رحمت لیے ہوئے دیوانہ وار آہی گیا ان کی بزم میں اک روسیاہ حسرتِ طاعت لیے ہوئے پہنچے ہوئے ہیں آج دیارِ حبیب میں اس بختِ نارسا کی شکایت لیے ہوئے جیسے کہ سامنے متبسم حضور ہیں اور ہم ہیں ایک اشکِ ندامت لیے ہوئے احساس عطر بیزہے ،عنبرفشاں خیال بیٹھے ہیں ہم مدینے کی نکہت لیے ہوئے اُن کے حضور اِس لبِ خاموش کی قسم ہر حرف ِمدّعا ہے حکایت لیے ہوئے ہے اُن کے رو برو یہ جنونِ سپردگی عصیاں کے اعتراف میں جرأت لیے ہوئے توفیقِ شرم اور ہمیں،اے زِہے نصیب کس درجہ سرخ رو ہیںخجالت لیے ہوئے یارب! کھلے نہ آنکھ کہ بیٹھے ہوئے ہیں ہم پیشِ نظر جمالِ رسالت لیے ہوئے جیسابھی کچھ ہے آپ کاہے ،آپ کے سپرد آیا ہے اپنے آپ کو شوکتؔ لیے ہوئے t شوکت عابد (۲۳؍دسمبر ۱۹۵۳ء کراچی) پروانہ جو بھی شمعِ رسالت سے دُور ہے منزل سے دُور نورِ ہدایت سے دُور ہے ذکرِ نبی سے چشم ہی روشن نہیں فقط دل کا یہ آئینہ بھی کدوت سے دُور ہے جس دل میں آرزوے مدینہ نہیں، وہ دل مولاے کائنات کی رحمت سے دُور ہے ہے جس کے سر پہ سایۂ دامانِ مصطفی سمجھو کہ وہ ہر ایک مصیبت سے دُور ہے عابدؔ ہوا ہے جب سے درِ شاہ کا غلام دنیاے مال و زر کی محبت سے دُور ہے t شہناز نور (۱۰؍نومبر۱۹۴۷ء سکھر) خدا ،خدائی،خدا کی کتاب میرے لیے سرِ مدینہ یہ اُترا نصاب میرے لیے جب ان کا نام لیا دشتِ آزمائش میں اک ایک خار ہوا ہے گلاب میرے لیے جو پتھروں کو بھی گویائی بخش دیتے ہیں رسول ایسے ہوئے انتخاب میرے لیے مجھے جلائے توکیادھوپ کیا تھکائے سفر ہے اسم شاہِ اُمم جب سحاب میرے لیے بڑاکرم ہو جو میدان حشر میں ہو عطا کنیز احمد مرسل خطاب میرے لیے تمام راہیں اسی شاہرہ سے ملتی ہیں بناگئے جورسالت مآب میرے لیے اب اور چائیے شہنازؔ نور کیا مجھ کو بہت ہے عشق رسالت مآب میرے لیے - مری نگاہ اگر محرم حجاز نہیں توچشم شوق میں بینائی کا جواز نہیں اسے بھی آہ سحر خیز سے شناسا کر غم حبیب میں جودل ابھی گداز نہیں دل و نظر بھی ہو شامل رہ عباد ت میں لباس زہد فقط زینت نماز نہیں سرمدینہ الفت مری جبیں سائی مقام عشق ہے سجدہ گہہ ایاز نہیں ضرور ابرکرم اس طرف سے گزرے گا وہ میرے حال پریشاں سے بے نیاز نہیں میں کس کی راہ چلوں کس جگہ قیام کروں کہ نور!ؔ اب حق وباطل میں امیتاز نہیں t شیدا گجراتی (۱۹۲۲ء گجرات،پنجاب…۱۹۸۷ء کراچی) سو رنگ فسانہ ہے اِک زندہ حقیقت ہے اِک نقشِ محمد سے ، ہر نقش عبارت ہے طیبہ کا ہر اِک گوشہ فردوس بداماں ہے سرکار کی نسبت سے کعبے کی فضلیت ہے ہر پھول ترا چہرہ ،ہر روپ ترا جلوہ انوار کی کثرت سے رنگِ رُخِ وحدت ہے ہر شخص کے ہونٹوں پر ذکرِ شہِ بطحا ہے ہر سانس میں حضرت کی خوشبوئے محبت ہے t صابر بدر جعفری (۲۴؍دسمبر ۱۹۳۴ء جے پور ) بدرِ عاصی اشک آنکھوں میں لیے آپ کے دَر پے کھڑا ہے دیر سے منہ سے کچھ کہتا نہیں ، خاموش ہے کہنے سنے کا اسے کب ہوش ہے دل کی بیتابی عیاں آنکھوں سے ہے بے زبانی کو زباں اشکوں سے ہے آپ سے آخر کہے بھی کوئی کیا آپ سے مخفی ہے کس کا مدعا آپ کی شانِ کریمی کے نثار اس کی جانب دیکھ لیجیے ایک بار بات اس کے دل کی سن لیجیے حضور ان کہی ہے پھربھی سن لیجیے حضور آپ کے دامن کا سایہ چاہیے اس کواوراس کے سوا کیا چاہیے اس کے غم خانے کو یہ سایہ بہت آپ سے نسبت کا سرمایہ بہت t صابر ظفر (۲۴؍ ستمبر ۱۹۴۹ء) جئے ہیں جینے کی صورت درود پڑھتے ہوئے اوراُس کے بعد شہادت درود پڑھتے ہوئے کسی سے عشق نہیں عشق مصطفیٰ کے سوا اور آئے عشق میں شدت درود پڑھتے ہوئے یہ اوربات کہ دشمن ہیں جان کے درپے گزررہے ہیں سلامت درود پڑھتے ہوئے یزیدی ایک طرف اورہم ہیں ایک طرف ہماری ہوگی شفاعت درود پڑھتے ہوئے نظر کے سامنے رکھتے ہیں مصحفِ مولا سوپڑھتے جائیں ہرآیت درود پڑھتے ہوئے کہاں کہاں نہیں معتوب ظالموں نے کیا مگرملی ہمیں رفعت درود پڑھتے ہوئے ستم سہے ہیں بہت دیر ہم پہ اب کرم ہوگا کرم بھی ہوگا نہایت درود پڑھتے ہوئے درور پڑھتے ہوئے ہرسخن کریں آغاز ادا ہو فرضِ اطاعت درود پڑھتے ہوئے ہمی غلامئی ختمِ رُسل کے لائق ہیں سُنی گئی ہے بشارت درود پڑھتے ہوئے جو گومگو کے ہیں عالم میں اُن کو ہو توفیق کہ ہم توکرچکے بیعت درود پڑھتے ہوئے درِ مدینہ و کعبہ ہے وا ہمارے لیے بیان کرتے ہیں سیرت درود پڑھتے ہوئے درود پڑھتے رہو دَم بدَم کہ ہوتا ہے فروغِ شانِ رسالت درود پڑھتے ہوئے حضور خواب میں آئیں توخواب سچ ہوجائے سوباندھیں دید کی نیت درود پڑھتے ہوئے درود پڑھتے رہو آفتِ مسلسل میں کہ ٹلتی رہتی ہے آفت درود پڑھتے ہوئے جنونِ عشقِ محمد حیاتِ دائم ہے فزوں ہوآپ سے نسبت درود پڑھتے ہوئے دھڑکنا آتاہے ذکرِ نبی کے ساتھ جنہیں وہ دل ہوں صاحبِ ثروت درود پڑھتے ہوئے نصیب ہوتی ہے روح وبدن کی سرشاری رہے نہ خود سے شکایت درود پڑھتے ہوئے ہزار روشنیاں ہیں مگر وہ منبع نور چمکتی دیکھی ہے قسمت درود پڑھتے ہوئے سُنائی دیتی ہے خلق اُن کی مدح کرتی ہوئی دکھائی دیتے پربت درود پڑھتے ہوئے ہم اسم ِ احمد مرسل کو چوم لیتے ہیں نصیب ہویہ سعادت درود پڑھتے ہوئے اگرچہ جاری وساری خدا کی رحمت ہے مگر مزید ہورحمت درود پڑھتے ہوئے درود پڑھنے کے ہرآن جو بھی قائل ہیں ہم اُن سے ہیں بڑے سہمت درود پڑھتے ہوئے وہ دکھ اُٹھائے ہیں ہم نے کہ یاد آنے لگے

حسین اور اُن کی شہادت درود پڑھتے ہوئے

قبول ہم نے کیا اورسدا کریں گے قبول ہراک نظامِ خلافت درود پڑھتے ہوئے بہت نشیب وفراز آئے ہرسفر میں ظفر رہانہ رنجِ مسافت درود پڑھتے ہوئے - وجود کیسے نہ ہو،منزل آشنا میرا جمال اسم محمد ہے پیشوا میرا وہ کیوں نہ راستہ دے،بعد کے مسافرکو کہ شاہ رحمت عالم ہے رہ نما میرا زبان توتھی جائے درود پڑھتے ہوئے کہ شافع آپ ہیں اورمہرباں خدا میرا میں دور،روضے سے تیرے جو دیکھنا ہوں تجھے قبول کر مرے آقا یہ دیکھنا میرا پناہ دے مجھے یعنی حصارِ عشق میں رکھ یہ غیر توڑ نہ دیں کاسہ دعا میرا یہ التجا کا الاو قبول کرلیجئے جلا رہا ہے مجھے شعلہ نوا میرا میں روز مدح رسالت مآب کرتا ہوں اوران دنوں تو لہو ہے سخن سرا میرا خدا کا شکرکہ دونوں کریں ثنائے رسول یہ روشن آنکھیں یہ دل جاگتا ہوا میرا حضور میری دعاوں کے عکس دُھنلے ہیں حضور چاہوں کہ اجلاہو آئینہ میرا رہ وفا میں جو بھٹکوں میں بے خیالی میں خیال حشر میں رکھنا ، شہ ہدا میرا عطا کشادہ دلی کیجیے تنگ ظرفوں کو حضور ہے جہاں ممنوع داخلہ میرا خلافتوں کی بہاروں نے کردیا سرسبز حضو ر ورنہ یہ دل تھا خزاں زدہ میرا ظفرؔ ہے نور مسلسل یہ میرا پختہ یقیں دیار احمد مرسل ہے ناصیہ میرا t صابر عظیم آبادی (۲۶؍اگست ۱۹۴۰ء پٹنہ، بہار) نکل کے غارِ حراکی راہوں سے سوئے کعبہ وہ آنے والا تمام دنیا کے بت کدوں سے نقوشِ آذر مٹانے والا

جہانِ ہستی کی تنگ راہیں ، اُسی کے جلووں سے ہیں منور

وہ شمعِ نورِ ھدا کہ جو تھا ،چراغِ وحدت جلانے والا چمن چمن ہے پیام اُس کا،ہے سب اعلیٰ مقام اُس کا وہ فخرِ آدم وہ فخرِ حوا،وہ عرشِ اعلیٰ پہ جانے والا زمانہ منتِ کشِ نبوت،وہ بانیِ فخرِ آدمیت وہ نور ، نورِ علا جو اپنے ،پرائے کا غم اُٹھانے والا عروجِ آدم کاوہ نشاں ہے ،تمام خلقت کا پاسباں ہے حریمِ کعبہ کاوہ نگہباں ،وہ سب سے آخر میں آنے والا رہی رموزِ حیاتِ آدم ،وہی نمودِ وجودِ عالم زمانے بھر کی حقیقتوں کا ،وہی ہے پردہ اُٹھانے والا نبی ہے میرا رسول ہے وہ، نہالِ ہستی کاپھول ہے وہ وہ رنگتِ گل، وہ رشکِ سنبل،وہ غنچۂ دل کھلانے والا صفاتِ ذاتِ کمال ہے وہ،جمالِ ماضی و حال ہے وہ وہ شمعِ وحدت وہ نورِ یزداں ،وہ بزمِ ہستی سجانے والا وہی توصابرؔ! زمانے بھر کے ،دکھوں کا درماں بناہوا ہے وہی تھا ٹوٹے ہوئے دلوں کو ، ملانے والا بنانے والا t صابر وسیم (۹؍ ستمبر ۱۹۵۰ء کراچی) مایوسی کی ظلمت سے جب دل گھبراتا ہے اسمِ محمد تاریکی میں دیا جلاتا ہے اُس کے نام سے کھل اُٹھتے ہیں امیدوں کے پھول ہرا بھرا اک موسم اپنے پاس بلاتا ہے اُس رحمت کا دامن تھام کے زندہ رہتے ہیں ورنہ ہمیں کب اس دُنیا میں جینا آتا ہے اُس ہستی کے واسطے ہی تخلیق ہوا یہ سب صرف تماشے کو یہ دُنیا کون بناتا ہے راتوں کے سناٹوں میں سرشاری رہتی ہے ذکر محمد لمحہ لمحہ رس برساتا ہے دھیان میںاُس کے سوجائیں توشب بھراُس کا دھیان خواب سرا کی دیواروں پہ رنگ بچھاتا ہے اللہ کا پیغام ہوا کی لہروں پر جا کے بحر و بر میں اُس کا ہی چرچا پھیلاتا ہے صرف وہی آنکھیں ہیں جن کو آنکھیں کہتے ہیں اُس گنبد کا منظر جن آنکھوں میں سماتا ہے t صفدر صدیق رضی (۱۳؍فروری ۱۹۴۹ء سیالکوٹ) زمین پر جو ترے آستاں کا حصّہ ہے زمیں کا حصّہ نہیں ، آسماں کا حصّہ ہے زمیں کو تیری سعادت ، فلک کو تجھ سے شرف کہ تیرا لُطف و کرم دو جہاں کا حصّہ ہے کوئی بھی راہ سہی ، تیری پیروی میں تو ہے ہر اک مسافر اسی کارواں کا حصّہ ہے ترے نقوشِ قدم سے جو سرفراز ہوئی وہ مُشتِ خاک مرے جسم و جاں کا حصّہ ہے جزا کااہل نہیں ہوں سزا کی تاب نہیں مرا وجود کہیں درمیاں کا حصّہ ہے t ضحی آروی (۱۹۲۴ء آرہ صوبہ بہار) مراسر ہے نقش قدم آپ کا خوشابخت!کتنا کرم آپ کا عرب آپ کا ہے عجم آپ کا یہ دیوانِ لوح وقلم آپ کا شرف آدمی کو ملا آپ سے ہے احساںخدا کی قسم آپ کا حضور آپ کا مرتبہ ہے بلند سرعرش نقشِ قدم آپ کا شہنشاہ کون ومکاں آپ ہیں دوعالم میں اونچا علم آپ کا ضحی ؔ!شانِ رحمت ہے سرکار کی ہمارا جو غم ہے وہ غم آپ کا t ضیاء الحق قاسمی (۵؍فروری،۱۹۳۵ء امرتسر…۲۵؍اکتوبر،۲۰۰۶ء کراچی) خلاّقِ دو جہاں کے ہیں راز داں محمد حق ترجماں محمد عظمت نشاں محمد نوعِ بشرپہ اُن کا احساں یہ کم نہیں ہے نوعِ بشر کے اب بھی ہیں پاسبان محمد میں اُن کا امتی ہوں میں اُن کا مدح خواں ہوں رحمت کا میرے سر پر ہیں سائباں محمد ہم کو ملا خدا بھی تو فیض سے انہی کے انساں اور خدا کے ہیں درمیاں محمد قرآں میں جو رقم ہیں سب بالیقیں اہم ہیں نکتے وہ کر گئے ہیں سارے بیاں محمد بعدِ خدا انہیں کا ہم کو تو ہے سہارا اس ارضِ آب و گل پر ہیں آسماں محمد تخلیق انہی کی خاطر دونوں جہاں ہوئے ہیں دنیا میں بھی ہماری ہیں ضوفشاں محمد ہے امتی ضیاؔ تواُس پر نہ کیوں نظر ہو جب اپنے دشمنوں پر ہیں مہرباں محمد - محتاج نہیں رکھا محمد کی عطا نے دریائے کرم بخشا درِ جُود وسخا نے تاباں ہیں مہ و انجم وخورشید جواب تک اک روشنی دی ہے انھیں نقشِ کفِ پانے اللہ رے کس درجہ ہے تاثیر کرم کی

منہ پھیر دیا غم کا مدینے کی ہوا نے

سنتے ہیں کہ بخشش کی سند درسے ملے گی ہم آئے ہیں سرکار میںنام اپنا لکھانے اللہ کی رحمت ہوئی سرکار کی صورت درکھول دیے ہم پہ عنایاتِ خدا نے اک سلسلہ ٔ جُود وسخا سے ہے تعلق پابندِ کرم کر دیا رحمت کو خطانے دھڑکن ہی کہیں دل کی نہ رک جائے خوشی میں آئی ہے مدینے سے صبا آج بلانے t طاہر مسعود، ڈاکٹر (۷؍جنوری ۱۹۵۷ء راج شاہی مشرقی پاکستان)


اِک التجائے عاجزانہ بحضور سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم


کس سے جاکر کہوں اپنا دکھ اپنا غم لے کے جاؤں کہاں زخمِ دل ، چشمِ نم اے شہِ دوجہاں، آسر ادیجیے اپنے بیمارِ غم کو دوا دیجیے اپنے جذبات کو دے نہ پاؤں زباں کس طرح میں کروں حال دل کابیاں دور ہیں منزلیں اور میں ناتواں میںاٹھاؤں قدم اتنی ہمت کہاں ہے زمیں تنگ تر میں ہوں بے بال و پر کاٹے کٹتا نہیں رات دن کا سفر آپ کی یاد کو گنگناتا ہے دل آپ کے ذکر سے جگمگاتا ہے دل ہے لبوں پر مرے بس یہی اِک فغاں مونسِ جسم و جاں

سخت ہے امتحاں 

ہے کٹھن ہر گھڑی

حوصلہ دیجیے

میرے دل کی سیاہی مٹادیجیے دل میں میرے دیا اِک جلا دیجیے اپنے دامن میں مجھ کو بھی جا دیجیے اے شہِ دوجہاں اے شہِ دو جہاں t


ظفرؔ بھوپالی ( یکم جنوری۱۹۵۶ء بھوپال) ہے جہاں اسوۂ نبی روشن دن بھی روشن ہے شام بھی روشن ذکرِ خیرالانام کرتاہوں کیوں نہ ہو میری زندگی روشن تیرگی کو کہیں پناہ نہیں ہے مدینے کی ہرگلی روشن جن کے دل میں نہیں ہے عشقِ نبی ان کی ہستی نہ ہوسکی روشن ہم نے کرکے طوافِ کوئے نبی کرلیا ذوق بندگی روشن t ظفر،محمد خان

(۱۵؍دسمبر ۱۹۴۲ء ٹونک راجستھان)

تاریک جہاں مطلعِ انوار نہ ہوتا خورشیدِ رسالت جو نمودار نہ ہوتا رحمت کی گھٹا بن کے اگر آپ نہ آتے صحرائے دوعالم کبھی گلزار نہ ہوتا انصاف کی میزان اگر آپ نہ لاتے انسان کے کردار کا معیار نہ ہوتا آئینۂ ماضی میں اگر آپ نہ ہوتے میں عکسِ گزشتہ کا طلب گار نہ ہوتا آتی نہ مجھے نامِ محمد کی جو خوشبو میں خلدکے پھولوں کا خریدار نہ ہوتا پاتا نہ جھلک آپ کی آنکھوں میں اگر میں بے جان ستاروں سے مجھے پیار نہ ہوتا تعلیم پہ گر آپ کی چلتا تو زمانہ چنگیز نہ بنتا کبھی تاتار نہ ہوتا ہوتے نہ محمد اگر اللہ کے محبوب معراج کارستہ کبھی ہموار نہ ہوتا اے کاش کسی شب وہ مرے خواب میں آتے اور پھر میں کبھی خواب سے بیدار نہ ہوتا دستار ظفرؔ! دہرمیں ہر گام اُچھلتی گر نامِ نبی طرّۂ دستار نہ ہوتا t ظہیر قاسمی،ظہیر الحسن شاہ قاسمی (۲۵؍دسمبر ۱۹۳۵ء بنارس…۲۱؍اپریل ۲۰۰۱ء کراچی) لیا ہے نامِ محمد کو جب قرینے سے پیامِ زیست ملاہے مجھے مدینے سے نبی کے نام کا بس ایک جام پینے سے زمانہ آکے لپٹتا ہے میرے سینے سے مہک اُٹھا ہے گلستاں ، ہوا معطر ہے گلوںنے مانگ لی خوشبو ترے پسینے سے غمِ فراق میں دل کو ہزار داغ ملے ہر ایک داغ چمکنے لگا نگینے سے الٰہی ! بخش دے توفیق اس قدر مجھ کو ہمیشہ ربط ہمارا رہے مدینے سے ہر ایک موجِ بلا اپنی موت آپ مری کبھی ہوا جو تصادم مرے سفینے سے ظہیرؔ ! کہتا ہوں یہ بات بھی وثوق کے ساتھ بلاوا آئے گا اِک دن مرا مدینے سے t - اگر دعویٰ ہے سرکارِ دوعالم سے محبت کا تو رہنا چاہیے دنیا میں پیروکار سنت کا ستا رکھا ہے دنیا کے غم و آلام نے لیکن مراارمان ہے سرکارِ طیبہ کی زیارت کا رُخِ زیبائے سرور کی زیارت جس نے کی واعظ مفسر بن گیا وہ شخص قرآں کی عبارت کا طواف خانۂ کعبہ سے کب تسکین ہوتی ہے نہ ہو جب تک درِ آقا پہ اِک سجدہ محبت کا تصور میں چلاجاتا ہوں میں اکثر مدینے تک نہیں اس آنے جانے میں کوئی جھگڑا مسافت کا ظہیرِ قاسمی ؔ ! یہ مشغلہ ہاتھ آگیا اچھا شہِ قاسمؔ کی قربت سے شہِ ولا کی مدحت کا t

عابد شاہجہاپوری (۳؍جنوری ۱۹۳۶ء شاہجہاں پور…۶؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کراچی) دراقدس پہ ایک اک اشک دل کا ترجماں ٹھہرا یہ انداز فغاں بھی کس قدر تسکین جاں ٹھہرا انہیں کے واسطے پہ مایۂ کون ومکاں ٹھہرا انہیں کی یہ زمیں ٹھہری انہی کا آسماں ٹھہرا خدا شاہد کہ یہ بھی اک نیا اسلوب مدحت ہے نہ یہ اشک رواں ٹھہرے نہ یہ قلب تپاں ٹھہرا میں زخمی ہوں کہاں جاؤں بتاؤ قافلے والو! کہ جب ان کا ہی در گہوارہ امن و اماں ٹھہرا ہمیشہ ذکر آقا سے فضائیں گونج اُٹھی ہیں زمین شعر کا ایک ایک مصرع آسماں ٹھہرا جلی لفظوں میں یہ تصدیق بھی قرآن کرتاہے سوائے ان کے کب کوئی مکین لامکاں ٹھہرا جوہے پیشانیٔ امت پہ عابدؔ چاند سجدے کا وہی تعمیل حکم مصطفی کا اک نشاں ٹھہرا t عارف امام (۱۲؍اپریل ۱۹۵۶ء کراچی) کہیں خلا میں ہے کاغذ، قلم زمیں پہ نہیں میں نعت لکھتے ہوئے کم سے کم زمیں پہ نہیں خرام ناز، کہ رستے پہ بچھ گئے ہیں فقیر ہمارے سینے پہ رکھئے قدم زمیں پہ نہیں خوشی کے مارے زمیں پہ قدم نہیں پڑتے یقیں ہوا کہ دیارِ حرم زمیں پہ نہیں یہ لوگ عشقِ محمد کے آسما