"محسن کاکوروی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
سطر 71: سطر 71:


===نمونہ کلام===
===نمونہ کلام===
سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کیلئے
زباں ملی ہے مجھے نعت کے بیاں کیلئے
۔
ہے تمنا کہ رہے نعت سے ترے خالی
نہ مرا شعر، نہ قطعہ ، نہ قصیدہ، نہ غزل
صف محشر میں ترے ساتھ ہو تیرا مداح
ہاتھ میں ہو یہی مستانہ قصیدہ یہ غزل
۔


====سب سے اعلی تری سرکار ہے سب سے افضل====
====سب سے اعلی تری سرکار ہے سب سے افضل====
سطر 163: سطر 179:


سجے ہیں جھاڑ یہ باتوں کے لا مکاں کیلئے
سجے ہیں جھاڑ یہ باتوں کے لا مکاں کیلئے


=== وفات ===
=== وفات ===

نسخہ بمطابق 04:03، 31 مارچ 2017ء


محسن کاکوروی ۱۲۴۲ھ مطابق 1827ء کاکوری میں پیدا ہوئےمحسن کاکوروی کے والد ماجد مولوی حسن بخش کے دو صاحبزادگان مولوی محمد محسن و مولوی محمد احسنؔ ، سیّد علوی تھے اور سلسلہ نسب حضرت علی المرتضیٰ دامادِ مصطفی، شیر خدا سے جا ملتا ہے۔۔ والد کے انتقال کے بعد سات سال کی عمر سے جدّبزرگوار مولوی حسین بخش شہید کے زیر سایہ تربیت ہوئی۔<ref> شائقؔ دہلوی، میر سیّد علی کلیاتِ شائق سید پبلی کیشنز ایم اے جناح روڈ کراچی ۱۹۹۴ء </ref>

شاعری

شاعری کی ابتدا نو سال کی عمر سے ہوئی۔ شب کو اپنے جدّامجد کے پہلو میں سوتے تھے۔ خواب میں زیارت جمال مبارک حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشرف ہوئے۔ اس خواب کی خوشی میں سب سے پہلی نظم لکھی۔ اُستاذِ گرامی مولوی ہادی علی اشک آپ کے خالہ زاد ماموں ثقہ، متقی پرہیزگار عالم باعمل تھے۔ مطبع منشی نول کشور لکھنؤ سے وابستہ تھے۔ محسن کاکوروی نے حضرت اشک کی وفات کے بعد کسی سے اصلاح نہیں لی۔

نعت گوئی

محسن کاکوروی اُردو کے اوّلین عظیم شاعر ہیں جن کی شاعری کا موضوع نعت اور صرف نعت ہے۔ اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں۔


ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیری خالی

نہ مرا شعر، نہ قطعہ، نہ قصیدہ نہ غزل

آپ نے محض سولہ سال کی عمر میں ایک ایساشان دار نعتیہ قصیدہ لکھا جو خیالات کی پاکیزگی، جذبات کی صداقت، ندرتِ بیان اور تعظیم و محبت کے حدود میں قائم رہنے کی وجہ سے ایک شاہ کار قصیدہ سمجھاجاتا ہے۔ محسنؔ کا قصیدہ سراپائے رسول‘‘بھی کافی مقبولیت رکھتا ہے۔ محسنؔ نے قصائد کے علاوہ کئی مذہبی مثنویاں بھی لکھیں۔ آپ کا کلام مختلف امتحانات کے نصاب میں شامل ہے۔ آپ کو ’’حسانِ وقت‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ محسن کاکوروی نعتیہ ادب کا اوّلین ستون ہیں۔ آپ کے تعارف کے بغیر اُردو نعتیہ ادب کی تاریخ نامکمل رہے گی۔

تصانیف

قصائد

(۱)گلدستۂ رحمت(۲)ابیاتِ نعت(۳)مدیحِ خیر المرسلین(۴)نظمِ دل افروز(۴)انیٖسِ آخرت


مشہور زمانہ قصیدۂ لامیہ آپ کی شہرت کا باعث ہے

مثنویات

(۱)صبحِ تجلّی(۲)چراغِ کعبہ(۳)شفاعت و نجات(۴)فغانِ محسنؔ (۵)نگارستانِ الفت

صبح تجلی

’’صبحِ تجلّی‘‘ میں رسولِ مکرم ﷺ کی ولادتِ پاک کا ذکرِ جمیل بہت ہی حسیٖن اور خوب صورت شاعرانہ انداز میں کیا ہے۔ اشعار میں منظر نگاری اور مصوری کا حسن پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوہ گر ہے۔

بیضاویِ صبح کا بیاں ہے تفسیرِ کتابِ آسماں ہے

سبزہ ہے کنار آبِ جو پر یا خضر ہے مستعد وضو پر

غنچے میں خامشی کا عالم یا صومِ سکوت میں ہے مریم

چراغ کعبہ

’چراغِ کعبہ ‘ ‘' میں محسنؔ نے نبیِ کریم ﷺ کا سراپا بیان کیاہے نیز واقعۂ معراج النبی کا تذکرۂ خیر بھی کیاہے اور’’ شفاعت ونجات‘‘ میں اُخروی سرفرازی اور کامرانی کی خواہش وتمناکاشعرانہ اظہار کیا ہے۔ محسن کاکوروی کے متنازعہ اشعار بھی اسی مثنوی میں ہیں۔

عینیت سے غیرِ رب کو رب سے

غیریتِ عین کو عرب سے

ذاتِ احمد تھی یا خدا تھا

سایا کیا میم تک جدا تھا

کلیات نعت، محسن کاکوروی

کلیات نعت، محسن کاکوروی ، محسن کاکوروی کی حمدیہ و نعتیہ کلام پر مشتمل کلیات ہیں ۔


محسن کاکوروی پر مضامین

حضرت محسنؔ کاکوروی۔ اُردو کے باکمال قصیدہ گو اور مثنوی نگار شاعر از ڈاکٹر مشاہد حسین رضوی


نمونہ کلام

سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کیلئے

زباں ملی ہے مجھے نعت کے بیاں کیلئے

۔

ہے تمنا کہ رہے نعت سے ترے خالی

نہ مرا شعر، نہ قطعہ ، نہ قصیدہ، نہ غزل

صف محشر میں ترے ساتھ ہو تیرا مداح

ہاتھ میں ہو یہی مستانہ قصیدہ یہ غزل ۔


سب سے اعلی تری سرکار ہے سب سے افضل

سب سے اعلی تری سرکار ہے سب سے افضل

میرے ایمان مفصل کا یہی ہے مجمل


ہے تمنا کہ رہے نعت سے ترے خالی

نہ مرا شعر، نہ قطعہ ، نہ قصیدہ، نہ غزل


دین و دنیا میں کسی کا نہ سہارا ہو مجھے

صرف تیرا ہو بھروسا تری قوت ترا بل


آرزو ہے کہ ترا دھیان رہے تا دم مرگ

شکل تیری نظر آئے مجھے جب آئے اجل


روح سے میری کہیں پیار سے یوں عزرائیل

کہ مری جاں مدینے کو جو چلتی ہے تو چل


یاد آیئنہ رخسار سے حیرت ہو تجھے

گوشہ قبر نظر آئے تجھے شیش محل


میزباں بن کے نکیرین کہیں گھر ہے ترا

نہ اٹھانا کوئی تکلیف نہ ہونا بے کل


صف محشر میں ترے ساتھ ہو تیرا مداح

ہاتھ میں ہو یہی مستانہ قصیدہ یہ غزل


کہیں جبریل اشارے سے کہ ہاں بسم اللہ

سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کیلئے

سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کیلئے

زباں ملی ہے مجھے نعت کے بیاں کیلئے


زمیں بنائی گئی کس کے آستاں کیلئے

کہ لا مکاں بھی اٹھا سر و قد مکاں کیلئے


ترے زمانے کے باعث زمیں کی رونق ہے

ملا زمین کو رتبہ ترے زماں کیلئے


کمال اپنا دیا تیرے بدر عارض کو

کلام اپنا اتارا تری زباں کیلئے


نبی ہے نار ترے دشمنوں کے جلنے کو

بہشت وقف ترے عیش جاوداں کیلئے


تھی خوش نصیبی عرش بریں شب معراج

کہ اپنے سر پہ قدم شاہ مرسلاں کیلئے


نہ دی کبھی ترے عارض کو مہر سے تشبیہ

رہا یہ داغ قیامت تک آسماں کیلئے


عجب نہیں جو کہے تیرے فرش کو کوئی عرش

کہ لا مکاں کا شرف ہے ترے مکاں کیلئے


خدا کے سامنے محسن پڑھوں گا وصف نبیﷺ

سجے ہیں جھاڑ یہ باتوں کے لا مکاں کیلئے

وفات

4 اپریل 1905ء کو اسہال کبدی میں مبتلا ہوگئے تھے۔ دوشنبہ ۱۰؍صفر ۱۳۲۳ھ مطابق 24 اپریل 1905ء میں دس بجے دن کو اس عالم فانی سے ملک جاودانی کے لیے روانہ ہو گئے۔ مزار بمقام مین پوری متصل مزار مولوی حسین بخش مرحوم کے ساتھ ہے۔


شراکتیں

صارف:تیمورصدیقی


مزید دیکھیے =

حواشی و حوالہ جات