آپ «لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 16: سطر 16:
==== لم یات نظیرک فی نظر، مثل تو نہ شد پیدا جانا ====
==== لم یات نظیرک فی نظر، مثل تو نہ شد پیدا جانا ====


لَم یَاتِ نَظیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا
لم یات نظیرک فی نظر، مثل تو نہ شد پیدا جانا


جگ راج کو تاج تورے سر سوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا
جگ راج کو تاج تو رے سر سو ہے ،میں نےتجھ کو شہ دوسرا جانا


آپ کی مثل کسی آنکھ نے نہیں دیکھا نہ ہی آپ جیسا کوئی پیدا ہوا ۔ سارے جہان کا تاج آپ کے سر پر سجا ہے اور آپ ہی دونوں جہانوں کے سردار ہیں




اَلبحرُ عَلاَوالموَجُ طغےٰ من بیکس و طوفاں ہوشربا
البحر علا والمود طغےٰ ، من بیکش و طوفاں ہوشربا


منجدہار میں ہوں بگڑی ہے ہواموری نیا پار لگا جانا
منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا، موری نیّا پار لگا جانا


دریا کا پانی اونچا ہے اور موجیں سرکشی پر ہیں میں بے سروسامان ہوں اور طوفان ہوش اُڑانے والا ہے۔ بھنورمیں پھنس گیا ہوں ہوا بھی مخلالف سمت ہے آپ میری کشتی کو پار لگا دیں




یا شمس نظرت الیٰ لیلی ، چو بطیبہ رسی عرضے بکنی


یَا شَمسُ نَظَرتِ اِلیٰ لیَلیِ چو بطیبہ رسی عرضے بکنی
توری جوت کی جھلمل جگ میں رچی،  مری شب نے نہ دن ہونا جانا


توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا


اے سورج میری اندھیری رات کو دیکھ تو جب طیبہ پہنچے تو میری عرض پیش کرنا ۔ کہ آپ کی روشنی سے سارا جہان منور ہو گیا مگر میری شب ختم ہو کر دن نہ بنی
لک بدر فی الوجہ الاجمل،  خط ہالہءِ مہ زلف ابر اجل


تورے چندن چندر پرو کنڈل، رحمت کی بھرن برسا جانا




لَکَ بَدر فِی الوجہِ الاجَمل خط ہالہ مہ زلف ابر اجل


تورے چندن چندر پروکنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا
انا فی عطش و سخاک اتم، اے گیسوئے پاک اے ابر کرم


آپ کا چہرہ چودھویں کے چاند سے بڑھ کر ہےآپ کی زلف گویا چاند کے گرد ہالہ (پوش)ہے ۔ آپ کے صندل جیسے چہرہ پر زلف کا بادل ہے اب رحمت کی بارش برسا ہی دیں
برسن ہا رے رم جھم رم جھم، دو بوند ادھر بھی گرا جانا






انا فِی عَطَش وّسَخَاک اَتَم اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرم
یا قا فلتی زیدی اجلک، رحمے بر حسرتِ تشنہ لبک


برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا
مورا جیر الرجے درک درک،  طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا


میں پیاسا ہوں اور آپ کی سخاوت کامل ہے،اے زلف پاک اے رحمت کے بادل ۔ برسنے والی بارش کی ہلکی ہلکی دو بوندیں مجھ پر بھی گرا جا




واھا لسویعات ذھبت، آن عہد حضور بار گہت


یَا قاَفِلَتیِ زِیدَی اَجَلَک رحمے برحسرت تشنہ لبک
جب یاد آوت موہے کر نہ پرت، دردا وہ مدینہ کا جانا


مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا


اے قافلہ والوں اپنے ٹھہرنے کی مدت زیادہ کرو میں ابھی حسرت زدہ پیاسا ہوں ۔ میرا دل طیبہ سے جانے کی صدا سن کر گھبرا کر تیز تیز ڈھڑک رہا ہے


القلب شح والھم شجوں، دل زار چناں جاں زیر چنوں


پت اپنی بپت میں کا سے کہوں، مورا کون ہے تیرے سوا جانا


وَاھا لسُویعات ذَھَبت آں عہد حضور بار گہت


جب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینہ کا جانا


افسوس آپ کی بارگاہ میں حضوری کی گھڑیاں تیزی سے گزر گئی ۔ مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب میں سفر کی تکالیف کی پرواہ کئے بغیر مدنیہ آ رہا تھا
الروح فداک فزد حرقا، یک شعلہ دگر بر زن عشقا


مورا تن من دھن سب پھونک دیا، یہ جان بھی پیارے جلا جانا






اَلقلبُ شَح وّالھمُّ شجوُں دل زار چناں جاں زیر چنوں
بس خامہءِ خام نوائے رضا، نہ یہ طرز مری نہ یہ رنگ مرا
 
پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مورا کون ہے تیرے سوا جانا
 
دل زخمی اور پریشانیاں اندازے سے زیادہ ہیں،دل فریادی اور چاں کمزور ہے ۔ میراے آقا میں اپنی پریشانیاں کس سے کہوں میری جان آپ کے سوا کون ہے جو میری سنے
 
 
 
اَلروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عشقا
 
مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا
 
میری جان آپ پر فدا ہے،عشق کی چنگاری سے مزید بڑھا دیں ۔ میرا جسم دل اور سامان سب کچھ نچھاور ہو گیا اب اس جان کو بھی جلا دیں
 
 
 
 
بس خامہ خام نوائے رضا نہ یہ طرز میری نہ یہ رنگ مرا


ارشاد احبا ناطق  تھا، ناچار اس راہ پڑا جانا <ref> احبا اور ناطق ۔  [[ امام احمد رضا خان بریلوی ]] کےمعتقدین جن کی فرمائش پر یہ کلام لکھا گیا </ref>
ارشاد احبا ناطق  تھا، ناچار اس راہ پڑا جانا <ref> احبا اور ناطق ۔  [[ امام احمد رضا خان بریلوی ]] کےمعتقدین جن کی فرمائش پر یہ کلام لکھا گیا </ref>
رضا کی شاعری نا تجربہ کاراور قلم کمزور ہے ، میرا طور طریقہ اور انداز ایسا نہیں ہے ۔ دوستوں کے اصرار پر میں نے اس طرح کی راہ اختیار کی یعنی چار زبانوں میں شاعری کی


===اس کلام کی خصوصیات ===
===اس کلام کی خصوصیات ===
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)

اس صفحہ میں 1 پوشیدہ زمرے شامل ہیں: