قارئین کے خطوط ۔ فروغ نعت ۔ شمارہ 15

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
The printable version is no longer supported and may have rendering errors. Please update your browser bookmarks and please use the default browser print function instead.

قارئین کے خطوط

شاہد کمال، انڈیا

جناب شاکر القادری صاحب

مجھے امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہوگا

آپ کے حکم کے تعمیل کے مطابق میں اپنی زیر تصنیف کتاب’’نعتیات‘‘نعت گوئی کا تاریخی و تنقیدی جائزہ‘‘ کے ایک باب سے کچھ ضبط تحیری کئے ہوئے مقالے کا اقتباس آپ کے رسالہ ’’فروغ نعت‘‘ کے اہم رسالہ میں شامل اشاعت کے لئے ارسال کررہا ہوں مجھے امید ہے کہ آپ اس مضمون کی اشاعت ضرور فرمائں گے۔مجھے امید ہے کہ اس مضمون کی اشاعت کے بعد اس کی ایک کاپی مجھے ضرور ارسال فرمائیں گے۔انشااللہ میں آپ کو نعت سے متعلق اپنا تحریر شدہ مقالات کے اقتباسات برائے اشاعت ارسال کرتا رہوں گا۔اگر آپ سے یہ ممکن ہو تو مجھے نعت سے متعلق کسی بزرگ محقق کی کتاب بھی ارسال فرمائیں تاکہ میں اس مزید استفادہ کرسکوں اور انھیںاپنی اس کتاب میں بطور حوالہ شامل کرسکوں۔میں فروغ نعت کی خدمت میں سلام گزار ہوں اس امید کے ساتھ کہ مجھے دعاوں میں فراموش نہیں فرمایں گے،والسلام

حافظ نور احمد قادری، سیکرٹری بزم حمد و نعت ۔ اسلام آباد

محترم شاکرالقادری صاحب، السلام علیکم

سہ ماہی فروغ نعت کا تیرھواں شمارہ نظر نواز ہوا۔بہت سی معلومات اور تحقیقات کا حامل ہے۔ آپ اور آپ کے رفقائے کار مبارکباد کے مستحق ہیں۔ دور حاضر میں بلا شبہ فروغ نعت اپنے قارئیں کو نہ صرف بیش بہا علمی معلومات فراہم کر رہا ہے بلکہ آقا علیہ الصلوة والسلام کے ساتھ الفت و محبت کا رشتہ بھی مضبوط کر رہا ہے۔ زیر نظر شمارے میں” حرف تمنا“ کے عنوان سے آپ نے اداریے میں امت مسلمہ کو جگانے کا اہم ترین فریضہ انجام دیا ہے جو کہ یقینا دیر پا اثرات مرتب کرے گا۔ مذمتی اشعار کے حوالے سے بھی آپ نے نہایت مدلل اور مسکت گفتگو فرمائی ہےجو بہت سے نعت گو اور نعت جو حضرات کے لیے معلومات افزا ثابت ہوگی۔ اشاریہ کی ترتیب و تدوین کے لیے جمیل حیات مبارکبادکے مستحق ہیں تاہم مزید بہتری کی گنجائش ہے امید ہے کہ آئندہ شماروں کے اشاریہ میں اس کمی کو دور کر دیا جائے گا ”مطالعات نعت“ میں جناب محمد علی گوہر کے نعتیہ مجموعہ ”قلزم کیف و سرور“ پر ڈاکٹر عزیز احسن کا تبصرہ بہت خوب ہے۔ بشریٰ فرخ کے نعتیہ مجموعہ ”ورفعنا لک ذکرک“ اور طاہر سید کے مجموعہ “حرف ہائے رنگ و بو“ پر آپ کے تبصرے قابل داد ہیں، آپ نے خواتین کی نعتیہ شاعری پر تاریخ سے مستند حوالے پیش کر کے شاعرات کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ سید منظور الکونین اقدس کی رحلت بلا شبہ (موتُ العالِم ، موت العالَم) کا مصداق ہے سید صاحب سے میری دیرینہ وابستگی تھی، ہم نے ۱۹۸۶ میں اکٹھے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔آپ نے ان کا قطعہ تاریخ ولادت و وفات کہہ کر کمال کر دیا۔ اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائے۔ فن تاریخ گوئی یقینا ناپید ہوتا جا رہا ہے اور اگر کہیں ہے بھی تو فقط عدد شماری سے کام لیا جاتا ہے۔ برجستہ اور معنویت سے بھر پور قطعہ تاریخ کہنا یقینا بہت مشکل ہے آپ اس مرحلہ سے بخوبی گزرے ہیں۔ والسلام مع الاکرام

سعود عثمانی۔۔ لاہور

شاکر القادری صاحب ۔ السلام علیکم

ماشاء اللہ آپ کو بہت توفیق عطا ہوئی ہے نعت کے فروغ کی .اللہ تعالٰی قبول فرمائے اور اجرعطا فرمائے .آمین ۔آپ مجھے یاد رکھتے ہیں .اس بات کا شکریہ بھی قبول کیجے۔آجکل اپنے تیسرے شعری مجموعے کی تکمیل میں لگا ہوا ہوں .آپ سے دعا کی بھی درخواست ہےآپ کے مؤقر جریدے فروغِ نعت کے لیے ایک حمد اور ایک تازہ نعت ارسال ہے.آپ نے کئی بار ازراہ ِ کرم طلب کی لیکن تازہ نعت موجود نہ تھی.اب توفیق ہوئی ہے تو پیش کر رہا ہوں.براہ کرم رسید سے مطلع فرمائیے ۔والسلام


فروغ نعت ۔ شمارہ 15