فنِ نعت گوئی ۔ پروفیسر ڈاکٹر واحد نظیر

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

LINK=واحد نظیر


مضمون نگار : واحد نظیر

مطبوعہ : دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png


فنِ نعت گوئی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت بہ معنی تعریف، مصدر ہے اور اس کی جمع نعوت ہے۔ اصطلاح میں ایسی تعریف کو نعت کہتے ہیں جو ذاتِ رسول ﷺسے منسوب ہو۔یہ نحوکی ایک اصطلاح بھی ہے جو صفت کے مترادف ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے نعت کہنے والے کو ’’ناعت (نعت سے اسم فاعل) کہا ہے۔لفظ نعت کو پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارکہ سے ادا ہونے کا شرف حاصل ہے۔ مشکوٰۃ المصابیح باب’’اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم وصفاتہ‘‘ میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی کا لڑکا خدمتِ رسول ﷺ میں حاضر ہوا کرتا تھا، بیمار ہوا تو رسول ِاکرم ﷺ اس کے گھر عیادت کو تشریف لے گئے۔لڑکے کا باپ سرہانے بیٹھ کر تورات پڑھ رہا تھا، پیارے رسول ﷺنے اسے مخاطب کر کے فرمایا:

’’....یَا یَھُوْ دِیُ اُنْشِدُکَ بِاللّٰہِ الَّذِیْ اَنْزَلَ التَّوْرٰۃَ عَلٰی مُوسیٰ ھَلْ تَجِدُ فِیْ التَّو رٰۃِ نَعْتِیْ وَصِفَتِیْ وَ مَخْرَجِیْ....‘‘

ترجمہ: اے یہودی ! میں تجھ کو اس خدا کی قسم دلاکر پوچھتا ہوں، جس نے حضرت موسیٰ پر تورات نازل فرمائی کہ کیا تو تورات میں میری نعت ، میری صفت اور میرے مخرج کا تذکرہ پاتا ہے؟ ّّ یہودی نے تونفی میں جواب دیا لیکن اس کے لڑکے نے خدا کی قسم کھاکر کہا میں تورات میں آپ کی نعت ، آپ کی صفت اور آپ کے مخرج کا تذکرہ پاتا ہوں۔ اس حدیث پاک سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنے محبوب کی جو تعریفیں کیں انھیں خود رسول نے نعت سے موسوم فرمایا ہے، وہیں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ کار مستحسن ہے، جس کے آغاز کو خداکی ذات سے نسبت حاصل ہے۔ اردو کے معروف شاعر مرزا غالبؔ نے اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے عجزِبیان کا اعتراف اس طرح کیا ہے:

غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشیتم

کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد ﷺ است

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس ذاتِ مبارکہ کی تعریف خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمائی ہو، اس کی تعریف ایک عام انسان کس طرح کرسکتا ہے اور اگر کرے بھی تو اس کی کیا وقعت ہے؟اس سوال کی روشنی میں یہاں میں دونکات کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا۔ پہلا نکتہ یہ کہ اپنے محبوب کی تعریف خدانے کی ہے اور انسان اللہ کا خلیفہ ہے، اس لیے نیابت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان بھی رسول ﷺ کی تعریف کرے۔دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو اپنا نائب بناکر دراصل اسے اپنے محبوب کی مدحت کے قابل بنادیا۔ چوں کہ مدحتِ رسول ﷺ ، اصل یعنی خدا کی ذات سے ہوچکی ہے اس لیے نائب اس میں کوئی جدت یا اضافہ تو نہیں کرسکتا بلکہ وہ محبوبِ خدا کی مدحت سرائی کرکے صرف اپنے اصل کی نیابت کا فر یضہ انجام دینے کی سعادت ہی حاصل کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ ان لوگوں کے دعوئوں سے تو شرمسار ضرور ہوتی رہی ہے جنھوںنے کبھی خدا ہونے کا دعویٰ کیا اور کبھی نبوت پانے کے دعویدار ہوئے لیکن ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ تاریخ کے کسی دور میں کسی نے مدحتِ رسول ﷺکا پورا پور احق اداکرنے کا دعویٰ کیاہو۔ مولانا نعیم صدیقی کی مشہور تصنیف’’محسنِ انسانیت‘‘ پر تقریظ لکھتے ہوئے مولانا ماہر القادری رقم طراز ہیں: ’’کس کی مجال ہے جو خلاصۂ کائنات ،فخرموجودات علیہ الصلوٰ ۃ والتحیات کی مدحت سرائی اور سیرت نگاری کا حق ادا کرسکے۔ یہ غلط دعویٰ نہ کسی کی زبان سے نکل کر فضا میں پھیلا اور نہ کسی قلم نے اسے صفحۂ قرطاس پر ثبت کیا۔ اس بارگاہِ اقدس میں جس نے بھی لب کشائی کی تو اس کا مقصد حصولِ سعادت کے سوااور کچھ نہ تھا۔‘‘

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

حصولِ سعادت کا یہی وہ پاکیزہ جذبہ ہے جس سے سرشارہوکر عہد نبوی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت فاطمہ زہرارضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت علی کرم اللہ وجہہ ، حضرت کعب بن زہیر، حضرت کعب بن مالک، حضرت عبداللہ بن رواحہ، حضرت حسان بن ثابت اور حضرت عباس بن مرداس رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جیسے کبائر صحابہ کرام نے اپنی زبان ، قلم اور کاغذ کو مرہونِ نعت کیا۔یہاں تک کہ ابوطالب اور میمون بن قیس اعشیٰ جیسے معاصرینِ رسول ﷺنے بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مد حت میں خلوص سے کام لیا۔ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ ظاہری کے زمانے میں ایک بڑی تعداد ایسے شعرا کی بھی ملتی ہے جو ایمانی دولت سے مملو تونہیں تھے لیکن ان کے مدحیہ اشعار سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اوصافِ رسول سے کس قدر متاثر تھے۔ عظمتِ رسول ﷺکے بالواسطہ اعتراف کا یہی وہ پہلو ہے جو ہرزمانے میں معجزہ بن کرروشن ہوتا رہا۔ ہر عہد، ہر ملک اور ہر مذہب میں پیارے مصطفی ﷺکے مدحت سرا پیدا ہوتے رہے اور صبحِ قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے۔ تفصیلات سے قطعِ نظر صرف ایک مثال کے ساتھ اس نکتے کو یہیں چھوڑتا ہوں کہ جرمن شاعر گوئٹے کی شہرہ آفاق نظم ’’نغماتِ محمدی ﷺ ‘‘ کا آزاد ترجمہ علامہ اقبال نے ’’جوئے آب کے ‘‘ نام سے ’’پیامِ مشرق‘‘ میں شامل کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں نعت کی وسعت و مقبولیت کا ایک خام اشاریہ تو مرتب کرتی ہیں لیکن ان سے موضوعِ نعت کی وسعت پر روشنی نہیں پڑتی۔ بلا شبہ نعت کا موضوع اتنا وسیع ہے کہ اس کا تصور بھی محال ہے۔ مثال کے طور پر یہ اسلامی کلنڈر کا چودہ سو چھتیسواں سال ہے۔آپ نے چودہ سو چھتیس (۱۴۳۶) لکھا تو یہ اعداد کا ایک مجموعہ ہے لیکن جیسے ہی آپ نے اس پر ہجری کی ’’ھ‘‘ لگائی یہ اعداد کا مجموعہ نعت کے دائرے میں داخل ہوگیا۔ چوں کہ یہ’’ھ‘‘ صرف ایک حرف نہیں بلکہ ہجرتِ رسول کے تاریخی واقعے کی علامت ہے۔ اسی طرح خدا خالق ہے یہ ایک حمدیہ جملہ ہے لیکن جب آپ نے خدا کی خلاقی پر غوروفکر شروع کیا تو گویا موضوعِ نعت کے دروازے پر دستک دے دی۔ اس لیے کہ غوروفکر کے اگلے مرحلے میں ہی یہ حقیقت آپ کے سامنے کھڑی ہوگی کہ اللہ کے خالق ہونے کا اعلان اس وقت تک نہ ہوا جب تک اس نے نورِ محمدی ﷺکی تخلیق نہیں فرمائی۔ موضوع کے حوالے سے یہ صرف اشارے ہیں ورنہ حق تو یہ ہے کہ یہ نکتہ فقط خالق و مخلوق تک ہی محدود نہیں بلکہ ساجدو مسجود ، عبدو معبود اور اسمائے الٰہی کے تعلق سے بس پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ نعت کے موضوع کی یہی وسعت اور حمدیہ موضو ع سے قربت نعت گوشعراء کے لیے آسانیاں بھی فراہم کرتی ہے اور انھیں کڑی دشواریوں سے بھی رو برو کرتی ہے۔ آسانیاں اس طرح کہ موضوع کی گونا گونی شاعر کو احساس بے مائیگی کا شکار نہیں ہونے دیتی اور دشواریاں اس طرح کہ حمدیہ موضوع سے اس کی قربت شاعر کو سراپا محتاط رہنے پر قانع رکھتی ہے۔ یہ وہ نازک مرحلہ ہے جہاں زبان و بیان کے شہسواروں کی رفتار تھم جاتی ہے۔ یہ مرحلہ ایسے پل صراط کے مانند ہے کہ ذرا ساغلو قاب قوسین اوادنیٰ کی حدوں کو توڑ کر الوہیت کے دائرے میں ڈال سکتا ہے اور ذراسی تنقیص دنیا و آخرت کے تباہ و برباد ہونے کی وجہ بن سکتی ہے۔ آیتِ قرآنی لاترفعوااصواتکم فوق صوت النبی کا شانِ نزول ہمارے پیش نظر ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ نعت گوئی کے مرحلے اگر اس قدر دشوار گزار ہیں تو ایسے شعرا جن کے سینے میں عشقِ مصطفی ﷺٹھاٹھیں ماررہا ہو، کیاکریں؟ کیا اپنے جذبات اور قلبی واردات کو شعری پیکر میں ڈھالنے سے باز آجائیں؟مدحتِ رسول ﷺ اور ذکرِ رسول ﷺ کو نظم کا پیکر نہ دیںاور اسے حوالۂ قرطاس کرنے سے اپنے قلم روک لیں؟ انھی پریشان کن سوالوں کا حل حضرت شرف الدین ابوعبداللہ محمد بن زید المعرف بہ امام بوصیری کے اس شعرمیں پوشیدہ ہے۔وہ کہتے ہیں:

دَعْ مَا ادَّعتُہ‘ النَّصَاریٰ فِیْ نَبِیّھِمْ

وَحْکُمْ بِمَا شِئْتَ مَدْ حاً فِیْہِ وَاحْتَکِمْ

ترجمہ: صرف وہ بات چھوڑ دو، جس کا دعویٰ نصرانیوں نے اپنے نبی کے بارے میں کیا ہے اس کے بعد جو تمھاراجی چاہے ، حضور ﷺکی مدح میں کہو اور جو حکم چاہو لگاتے جائو۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

معلوم یہ ہو اکہ نعت گوئی کے لیے بیانِ مضمون کا ایک بڑا ادب ، اسرائیلی روایا ت سے احتراز ہے، اُس طورِ تفحص سے احتراز جس کا سفر تثلیث کی وادی تک پہنچا دیتا ہے۔امام بوصیری کے اس شعر میں نعت کے موضوع کی تعیین بڑی خوبصورتی سے کی گئی ہے۔یہ درست ہے کہ مدحتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ممکنات اور اس کی حدیں انسان کی فکری دسترس سے باہر ہیں لیکن یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ عہدِ نبوی سے تاحال ہر موزوں طبع عاشقِ رسول ﷺ نے کچھ نہ کچھ نعتیہ اشعار ضرور کہے ہیں۔ان اشعار کے موضوع کی دوقسمیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک قسم تو وہ ہے جس میں شاعر نے اپنے داخلی جذبات و کیفیات کو بارگاہِ مصطفی ﷺمیں پیش کیا ہے اور دوسری قسم وہ ہے جس میں مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور اس کے متعلقات منظوم ہوئے ہیں۔ موضوع کی یہ تقسیم وسیع تناظر میں پیش کی گئی ہے، ورنہ ایمان کی بات یہ ہے کہ نعت میں پیش کیے گئے موضوعات کو عنوان دیا جائے تو دفتر کے دفتر وجود میں آجائیں۔ داخلی جذبات کے تعلق سے آرزو، استغاثہ، اظہارِ عشق و محبت یا قلبی واردات ،مدینے سے جغرافیائی دوری کے احساسات جیسے موضوعات شامل ہیں۔ جب کہ حیاتِ رسول ﷺ اور سیرت و شمائل کے حوالے سے حالاتِ ماقبلِ ولادت، بشارت ِو لادت ، ولادتِ باسعادت، رضاعت، یتیمی ، نبوت، رسالت ، خطابت، فصاحت، بلاغت، اخلاق، اوصاف ، خصائل ، معراج، ہجرت، غزوات ، معاہدے، شرافت، نجابت ، سخاوت، شفقت، عدل، صداقت، امانت ، للّٰہیت ،انکساری ، مزاج، حسن و جمال، گفتار، رفتار، تبسم، وضع، رخسار، گیسو، قد، ملبوسات، اسلوبِ کلام، ماکولات، مشروبات ، شجاعت، عزم واستقلال،شعر فہمی، نقدو تبصرہ، معجزات، دعوت نامے، خاندانی شرف، انبیا میں فضیلت ، اہل و عیال وغیرہ ، اسی طرح متعلقات میں گنبدِ خضریٰ ، سنہری جالیاں، حریری پردے، سنگِ درِاقدس، مدینہ منورہ کا جغرافیہ ، اس کی تاریخ، بہارِ مدینہ وغیرہ نعت کے موضوعی عناصر ہیں۔ مقصدیت کے اعتبار سے نعت کا یک گونہ رشتہ صنفِ قصیدہ سے قائم ہوتا ہے۔چوںکہ نعت میں رسولِ آخرالزماں ﷺکی تعریف مقصود ہوتی ہے اور قصیدے میں بادشاہ یا دیگر شخصیتوں کی تعریف۔ لیکن فنی تقاضے دونوں کے مختلف ہیں۔ قصیدے کا مزاج یہ ہے کہ غلواور مبالغہ آرائی بسااوقات دروغ گوئی کی سرحدوں کو بھی چھونے لگتی ہے پھر بھی اسے شاعر کے فنی کمال سے تعبیر کیا جاتا ہے جب کہ فنِ نعت گوئی اس کا متقاضی ہوتا ہے کہ حقیقت کے بیان میں یک سرِموفرق واقع نہ ہونے پائے۔علاوہ ازیں طمطراق، طنطنہ، شکوہِ لفظی اور زور بیان قصیدے کے فن کو حرارت بخشتے ہیں اور نعت میں یہی خصوصیات فنی نقص میں شمار ہوجاتی ہیں چوںکہ نعت میں زورِ بیان نہیں سنجیدگی اور متانت درکار ہوتی ہے۔ ’’عرفی مشتاب ایں رہِ نعت ست نہ صحرا‘‘ میں ’’مشتاب‘‘ کہہ کر عرفی نے اسی سنجیدگی اور متانت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ گویا قصیدہ اور نعت مقصدیت کے اعتبار سے مشترک ہونے کے باوجود لفظیات اور لہجے کی سطح پر بالکل مختلف ہیں۔ عرفی کے ایک مشہور نعتیہ قصیدے کا شعر ہے:

ہشدار کہ نتواں بہ یک آہنگ سرودن

نعتِ شہِ کو نین و مدیحِ کے وجم را

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

گویا لفظیات اور لہجے کے انتخابی مراحل میں نعت گو شعرا کو یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ سلطانِ انبیا اور دنیوی سلاطین کی مد حت میں بیّن فرق ہے۔وہ الفاظ و اصطلاحات جو کسی فرد کے لیے مخصوص ہوں نعتیہ اشعار کا پیرا یۂ اظہار نہیں بن سکتے۔ یہی حکم لہجے اور پیش کش پر بھی صادر ہوتا ہے۔ فلمی گیتوں کے طرز پر نعتِ نبی کا پڑھنا اور لکھنا اسی لیے درست نہیں۔ بیان و اظہار کا یہ محتاط رویہ جہاں نعتِ رسول ﷺ کو عمومیت سے پاک رکھنے میں معاون ہوتا ہے وہیں ذکرِ الوہیت کے خصوصی دائرے میں داخل ہونے سے بھی بچاتا ہے۔ میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ جادۂ نعت کے مسافر در حقیقت نیا بتا ً اللہ کی ہی حمدو ثنا کے سفر میں ہوتے ہیں ان کا فکری اور فنی امتیاز اسی صورت میں باقی رہ سکتا ہے جب کہ ان کی شعری کاوشوں میں توحیدورسالت کا فرق نمایاں طور پر موجود ہو۔ خالق و مخلوق کے امتیازکا شعور کسی بھی مرحلے پر کم نہ ہونے پائے اور ہر ہر لمحہ عقیدت کے ساتھ عقیدہ کا ہوش باقی رہے۔ عقیدت اور عقیدہ دراصل یہی وہ دوچیزیں ہیں جن کے اظہارمیں سلامت روی سے گزر جانا نعت کہنے کے فن سے حتی المقدور عہدہ بر آہونے میں کامیابی پانے کے مترادف ہے۔ اگر عقید تو ں کا بیان ہو تو فنی لحاظ سے نعت کے شاعر کی کامیابی یہ ہے کہ اس کا بیان و اظہار قاری پر بھی عقیدت و التجا کی وہی کیفیت طاری کردے جس سے شاعر دوچار ہوا ہے اور پڑھنے والوں کے دلوں میں بھی وہی آرزوئیں مچلنے لگیں جن آرزوئوں اور تمنائوں نے شاعر کو ماہیِ بے آب بنارکھا ہے۔ اگر نعتیہ شاعری میں عقیدوں کا بیان ہو تو فنی لحاظ سے شاعر کی کامیابی یہ ہے کہ اس کا بیان لفظی تلمیحات کا مرہونِ منت ہوئے بغیر فکری طورپر قاری یا سامع کو نہ صر ف اس عقیدے کی تہہ تک پہنچادے بلکہ اس کے افہام میں معاون اور استحکام میں اضافہ کا سبب بن جائے، جس عقیدے سے وابستگی نے اسے متعلقہ شعر کہنے کا ذہن بخشا ہے۔اگر عقیدتوں کے بیان میں شاعر کے لیے یہ بات کسی آفت سے کم نہیں کہ ہوشیاری کا دامن اس کے ہاتھوں سے چھوٹنے لگا ہو تو یقینا عقیدوں کے بیان میں بھی یہ بات ایک بڑی افتاد کے مصداق ہی قرارپائے گی کہ اس کی صحت کسی بھی جہت سے مجروح ہوگئی ہو۔خود شاعر کی نوکِ قلم سے اس کے اپنے عقیدے پر نشترلگ گیا ہواور اسے خبر بھی نہ ہوئی ہو۔ یا اعتقادیہ کے بیان میں ایک قسم کی رمزیت آگئی ہو۔ ایسی رمزیت جو مذہب کو یا تو فرقۂ باطنیہ میں تبدیل کردیتی ہے یا پھر طرح طرح کی تاویل و توجیہہ کے دروازے کھول دیتی ہے۔‘‘وہی جو مستویِ عرش ہے خدا ہوکر ‘‘ جیسے اشعار سے جو علمی قضیے و جود میں آئے ان سے نعتیہ ادب کا مطالعہ رکھنے والے بہ خوبی واقف ہیں۔ دوسری جانب عظمتِ رسول ﷺ کی تحفیف کرنے والے شعر اکی تعداد بھی کم نہیں اعتقادیہ کے بیان میں مبالغہ اور تحفیف دونوں ہی ایمان کے لیے خطرناک ہیں۔ حالیؔ کی نعت ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘‘ ہم میں سے کس کو یاد نہیں۔لیکن اسی شاعر کاجب یہ شعر سامنے آتا ہے کہ:

بنانا نہ تربت کو میری صنم تم

کہ بے چارگی میں برابر ہیں ہم تم

تو پھر صاف پتا چل جاتاہے ک اعتقادیہ کی شکو خیدگی نے کیا گل کھلائے ہیں اور شاعر نے کس طرح یہ عقیدہ نظم کردیا ہے کہ رسول پاک ﷺ نبیِ مختار نہیں، نبی مجبور ہیں۔ یہاں نعتیہ شاعری میں عقیدوں کے بیان کی مختلف کیفیات کو سامنے لانا یا ان مثالوں کی طرف جانا مقصود نہیں، جن میںعقیدۂ اوتاریہ اور نعوذباللہ’’نبی مجبور‘‘ جیسے عقیدے کی پیش کش ہوئی ہے۔ بلکہ یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ عقیدوں کی پیش کش میں حزم و احتیاط نہ ہو تو نعتیہ شاعری ایمان کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ عقیدوں کی پیش کش میں فنی مرتبے کا ایک او سط حال تو یہ ہے کہ لفظی تلمیح برجستہ آئی ہو اور اس سے بھی بلند درجہ یہ ہے کہ معنوی تلمیح سے صحیح عقیدے کی طرف قابلِ فہم نشاندہی ہوگئی ہو۔ایسی نشاندہی جس میں روحِ قرآنی جھلک رہی ہو۔اگر شاعر پیارے مصطفی ﷺ کا سراپا بیان کررہا ہو تو شانِ تخیل بے لگام نہ ہو بلکہ شمائل نبو ی کے مضامین اس کے موید ہوں۔ مزید ایک بات بر سرِتذکرہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آج کی نعتیہ شاعری میں عصری حسیت کو بھی مختلف نہجوں سے برتا جارہا ہے۔ عالمی منظر نامے پر اہلِ اسلام کی جو کر بناک تصویر یں ابھررہی ہیں انھیں دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اظہار غیر فطری بھی نہیں۔اپنا حال سنانے کے لیے محبانِ رسول ﷺکے سامنے خدا و رسول ﷺ کی بارگہ سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ احتیاط ضروری ہے کہ عصری حسیت کو بیان کرتے ہوئے آدابِ نعت کا دامن ہاتھوں سے چھوٹنے نہ پائے کیونکہ حالِ زمانہ کو پیش کرتے ہوئے غلو کا سہارا لینا گویا نبی ﷺکے دربار میں غلو کے ساتھ باتیں کرنا ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

نعت کے فن پر باتیں کرتے ہوئے مختلف ہیئتوں کے استعمال کا معاملہ بھی سامنے آتا ہے۔نہ صرف سرحد پار بلکہ خود ہمارے ملک میں بعض شعرانے گیت اور دوہے کی شکل میں نعتِ نبی ﷺ لکھا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی زبان میں یا کسی ادب کے قواعد و ضوابط اور آئین واصول کی رعایتوں کے ساتھ نعت گوئی پر کوئی قید اور کوئی قد غن نہیں۔نبی ﷺکی امت میں صرف مرد ہی نہیں عورتیں بھی شامل ہیں اور اپنے نبی ﷺسے عقیدت و محبت کا اظہار وہ کرتی ہیں اور کر بھی سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں اصل چیز بس یہ ہے کہ قریب المفہوم الفاظ و اصطلاحات کے استعمال کا خصوصی دائرہ قائم رہنا چاہیے۔ اس بات کو قدرے وضاحت کے ساتھ ہم یوں کہہ سکتے ہیںکہ کسی زبان ، کسی ادب اور کسی شعری ہیئت کے نام پر جہاں معنیاتی لحاظ سے الفاظ کے استعمال میں اس کی سرگذشت ، تداولی کیفیت اور تمدنی ثقافت پر نظر رکھنا ضروری ہے وہیں یہ بھی لازم ہے کہ ایسی قریب المفہوم اصطلاحوں کے استعمال میں ترادف کے لحاظ سے کوئی سمجھوتہ نہ ہوجن کا تعلق اعتقادات سے ہے یا جو اعمالیا ت میں بہمہ وجود ممتاز و شناختہ ہیں۔کیوں کہ اس احتیاط کے بغیر نعت کے فن کو بھگتی گیتوں کی فضا کے غلبے سے بچانا ناممکن ہے۔

موضوعِ نعت پر اس مختصر گفتگو کے بعد یہ حقیقت روشن ہے کہ نعت گوئی خالص مقصدی شاعری سے عبارت ہے۔ اہلِ نظر جانتے ہیں کہ کوئی بھی شعری تخلیق دوہی نظریے کے تحت وجود پذیر ہوتی ہے۔ ایک شاعری برائے شاعری اور دوسرا شاعری برائے زندگی۔شاعری برائے شاعری خالص تفریحی اور شعری جمالیات کا آئینہ ہوتی ہے۔ جب کہ شاعری برائے زندگی مقصدیت کی حامل ہوتی ہے۔ ظاہر ہے پہلے نظریے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔گرچہ شعری حسن کاری کے مظاہر ے کا موقع اس میں زیادہ ہے۔ اب نعت گو شعرا کے سامنے صرف شاعری برائے زندگی یعنی مقصدی تخلیق کا ہی میدان بچ جاتا ہے۔ ایک ایسا میدان جہاں شعریت یا شعری استعداد کے جو ہر دکھا پانا آسان نہیں۔گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شعریت اور شریعت دونوں کے تقاضوں کو بحسن و خوبی نباہ پانا ایک بڑ افن کار ہونے کا ثبوت ہے۔ مثلاً چودھویں کے چاند کو دیکھ کر ایک شاعر کا تخیل چہرۂ مصطفی ﷺکی تابانیوں تک رسائی حاصل کرتا ہے اور اسی چاند کو دیکھ کر ایک شاعر کی فکری پرواز انگشتِ مصطفیﷺ کی عظمتوں کے آسمان میں گم ہوجاتی ہے۔ اس طرح نعت گوئی کی سعات تو دونوں کو حاصل ہوئی لیکن غوروفکر سے یہ نتیجہ برآمد ہوگا کہ دونوں کی فکری سطح ، ادراک و عرفان ، احتیاط کے رویّے یہاں تک کہ عشق و محبت کے تقاضے میں بھی بہت فرق ہے۔ چاند اور چہرۂ مصطفی ﷺکا تصور جما لِ رسول ﷺ کا اظہار ہے،جب کہ چاند اور انگشت کا تصور کمالِ مصطفی ﷺکا آئینہ دار۔ ایک کا تعلق تشبیہہ سے ہے اور دوسرے کا تلمیح سے۔ایک نے عکس کو دیکھا اور نقش تک پہنچنے کی کوشش کی اور دوسرے نے واقعہ کو دیکھا اور اثرتک یا صاحبِ واقعہ تک رسائی کی کوشش کی۔ رسول اور صحابہ کے جھرمٹ کو ہم چاند تاروں سے تشبیہ تو دے سکتے ہیں لیکن تشبیہ کا مفہوم یہ نہیں ہوگا کہ آقا کا چہرہ واقعتا چاند جیسا ہے یا چاند واقعتا آقا کے چہرے جیسا ہے، کیوں کہ رسول اللہ ﷺکی ذات لاثانی ہے اور لاثانی کی مثال نہیں ہوتی۔ یہ نکات و اشارات اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ فکری وفنی حزم و احتیاط اور خلوص کے ساتھ نعت لکھنا ، پڑھنا اور سننا عینِ عبادت ہے۔نیز اعتقاد کی صداقت اور موضوع کی حقانیت اس کی بنیادی شرط ہے۔ لہٰذا حقائق کو منظوم کرتے ہوئے حددرجہ احتیاط لازمی ہے جب کہ عقیدتوں کے بیان میں خود سپردگی ، سرشاری اور خلوص ضروری ہے۔ چوں کہ نعت صرف شعری ذوق کی تسکین کا سبب نہیں ہوتی بلکہ یہ اسلام اور بانیِ اسلام کی تاریخ ، حیاتِ مومن کا لائحہ، شاعر کے ایمان وایقان کا مظہر اور قران و احادیث کی تفہیم کا آئینہ بھی ہوتی ہے۔ اس طرح نعتیہ شاعری کے تخلیقی عمل میں ذراسی بے احتیاطی ایمان کو کس طرح نقصان پہنچاسکتی ہے ، اس کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زمین و آسمان کی کسی بھی حقیقت پہ پہلا حجاب حمدکا ہے کہ ہرشے کی تخلیق خدا نے فرمائی ہے اور دوسر احجاب نعت کا ہے کیوں کہ ہرشے کی تخلیق کا باعث ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔لولا ک لماخلقت الافلاک اسی حجاب کی تصدیق ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
مضامین میں تازہ اضافہ
نئے صفحات