فروغ حمد ونعت میں دبستانِ وارثیہ کا کردار ، قمر وارثی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Qamar Warsi.jpg

مضمون نگار : قمر وارثی ۔ کراچی

فروغ حمد ونعت میں دبستانِ وارثیہ کا کردار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Qamar Warsi is known as a poet and an inventor of idea for promotion of Naatia Poetry by suggesting word or words of Radeef (the word which repeats itself in each couplets of Naat written in the format of Ghazal without changing shape and sound) for creation of new naats for recitation in monthly arranged Poetry Recital Sessions under the umbrella of Dabistan-e-Warisia Karachi, Pakistan, since 1995. He has been continuously arranged to publish collection of Naatia and Hamdia poetry presented by poets on different occasions.In the cited article, Qamar Warsi has shed light on the History of poetry recital sessions along with details of publications on the credit of Dabistan-e-Warisia Karachi, Pakistan.The article reflects upon literary events and also carries a quality to infuse enthusiasm for spreading good taste of creation of Nattia Poetry on semi traditional pattern.

فروغِ حمد ونعت میں دبستانِ وارثیۂ کا کردار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

1995 میں دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان کا قیام اُس وقت عمل میں آیا جب مجھ ناچیز کی غزلوں کا مجموعہ ’’یم تحریک ‘‘کتا بت کے مراحل سے گزر رہا تھا ۔اُس وقت سے 1993 تک اِس ادارے کا دائرۂ کار گاہے گاہے مذاکروں اور مشاعروں کے انعقاد اور چند کتابوں کی اشاعت تک محدود تھا، اس حوالے سے بزرگ شاعرمحترم نشر ؔ اکبر آبادی مرحوم کا نعتیہ مجموعہ ’’رسالت مآب ؐ‘‘اور میری تین کتابیں ’’یمِ تحریک ‘‘(غزلوں کا مجموعہ) ،’’حضورِ وارث ؒ ‘‘ (قبلہ حاجی وارث ؒ علی صاحب کی شانِ بزرگی کے حوالے سے منا قب کا مجموعہ) اور ’’کہف الوریٰؐ ‘‘ (نعتیہ مجموعہ ) شائع ہوئیں ،مگر اِس دوران یہ فکر ہمہ وقت لاحق رہی کہ جس سلسلے کی نسبت سے یہ ادارہ قائم کیا گیا ہے اِس کے تقاضے کچھ اور بھی ہیں ۔

نعت گوئی کے ضمن میں شعرائے متقد مین اور شعرا ئے متوسطین کے نعتیہ کلام کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہے کہ ان کے نعتیہ کلام میں حضورؐ سرورِ کائنات کے ’’جمالِ صورت‘‘کااظہار کثرت سے کیاگیا ہے ، یا پھر یہ آرزو کہ ’’یامحمدؐ بلا لو مدینے مجھے ‘‘۔ جبکہ فی زمانہ ہرذی شعور کے نزدیک جمالِ صورت کے ساتھ ساتھ ’’کمالِ سیرت ‘‘ کے بغیر نعت کا سراپا ادھورا نظرآتا ہے ۔میں اُن دنوں کئی مہینے اِس فکر میں گم رہا کہ نعت نگاری کا کوئی ایسا انداز وضع کیا جائے جو اچھوتا بھی ہو اور حضورِ اکرمؐ کی ذاتِ مبارکہ اور صفاتِ مقدسہ کے دونوں پہلوؤں یعنی جمالِ صورت اور کمالِ سیرت کابالا لتزام اظہار ہوسکے ۔

لہٰذا ‘1993 کے آخری مہینوں میں حضرتِ علامہ ومولانا الحاج معین الدین ظہوری چشتی نعیمیؒ (جو اُس وقت دربارِ ظہور یہ چشتیہ کے سجاد ہ نشین تھے) ،علامہ محمدمیاں نعیمی ( خطیب جامع مسجد ظہوریہ )، محترم اخترؔ لکھنوی مرحوم اور محترم سجاد سخنؔ مرحوم سے باہمی مشوروں کی روشنی میں دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان کے دائرۂ کار میں وسعت دینے اور نعت گوئی کوایک نیا اندازِ فکر دینے کے لیے درج ذیل فیصلے کیے گئے ۔

1۔دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان کے پلیٹ فارم سے حمد ونعت کے فروغ میں تعمیری قدم اٹھا کر اپنا سا کردار اداکیا جائے۔

2۔ایسے طرحی نعتیہ مشاعرے منعقد کیے جائیں جن میں مصرعۂ طرح دینے کے بجائے صرف’ ’ردیف ‘‘دی جائے تاکہ شاعر ، بحراور قافیے کی پابندی سے آزاد رہتے ہوئے اپنی تمام تر فکری اور تخلیقی توانائی سے کام لے سکے ۔اس ضمن میں ایسے طرحی ردیفی نعتیہ مشاعروں کاانعقاد عمل میں لایا جائے جو نعت کے فروغ میں خصوصی اہمیت کے حامل ہوں ۔

3۔ایسے طرحی نعتیہ مشاعرے منعقد کرنے کے لیے ایسی منفرد اور خوبصورت ردیفیں منتخب کی جائیں جو بالخصوص جمالِ صورت اور کمالِ سیرت کی روشنی میں شعراء کو نئے نئے مضامین کی جانب متوجہ کرسکیں۔

4۔یہ ردیفی نعتیہ مشاعرے ہر ماہ کسی ایک مقام پر منعقدکرنے کے بجائے مختلف مقامات پر منعقد کیے جائیں تاکہ دیگر علاقوں کے شعراء اور سا معین کے لئے بھی تسکینِ قلب وروح کے لمحے میسر آسکیں۔

5۔سال کے پہلے ہی مہینے میں بارہ مہینوں کی ردیفیں مشتہر کرنے کے ساتھ ساتھ مقامات مشاعرہ کااعلان طے شدہ دن ،تاریخ کے ساتھ کر دیاجائے تاکہ میز بان اور شعراء حضرات کو اپنی اپنی سہولت کے مطابق تیاری کے زیادہ سے زیادہ مواقع مل سکیں۔

6۔سا ل کے اختتام پر منعقدہ مشاعروں میں پڑھے جانے والے ردیفی نعتیہ کلام پر مشتمل ایک خوبصورت نعتیہ انتخاب شائع کیا جائے جس میں تمام شعراء کے مختصر کو ائف یا کم از کم ان کے اسمائے گرامی کی الگ فہرست بھی شامل ہو۔

دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان کے زیر اہتمام درج بالا فیصلوں کی روشنی میں عملی کام کا آغاز 1994 میں ہوا اور پہلا ردیفی نعتیہ مشاعرے کا انعقاد ’’خوشبو‘‘ کی ردیف میں جنوری 1994 میں کیا گیا ۔ ابتداء میں یہ مشاعرے صر ف کراچی کے مختلف مقامات تک محدود رہے لیکن ایک نئے اندازکے ساتھ منعقد ہونے والے ان ردیفی مشاعروں کی مقبولیت اور شعراء کی خصوصی دلچسپی کے باعث کراچی سے باہر پہلے سکھر ،جیکب آباد، کوئٹہ ، پھر گھوٹکی،ملتان،لاہوراس کے بعد لاڑکانہ ،سبی ،واہواتحصیل تونسہ شریف،مخدوم پوراور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی منعقد ہو رہے ہیں جب کہ اسی سلسلے کا ایک سالانہ ردیفی نعتیہ مشاعرہ پاکستان سے باہر یعنی سعودی عرب میں بھی چودہ سال سے ایک تواتر کے ساتھ منعقد ہو رہا ہے ان نعتیہ مشاعروں کے لئے دی گئی ردیفوں پر کچھ شعراء کرام حمد بھی کہتے ہیں جنھیں الگ محفوظ کر لیا جاتا ہے لہٰذا ہر سال ایک نعتیہ مجموعے کی اشاعت کے ساتھ ساتھ ہر پانچ سال بعد ایک حمدیہ انتخاب بھی شائع کیا جاتا ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِo !کاروانِ دبستان وارثیہ کراچی پاکستان فروغِ حمدو نعت مشن کے حوالے سے کسی تعطل اور کسی قسم کی رکاوٹ کو خاطر میں لائے بغیر بیس سال کا سفر طے کر چکاہے جب کہ سن2014 اس کارواں کے سفر کا اکیسواں سال ہے باہمی مشاورت سے کئے جانے والے فیصلوں میں چھٹے فیصلے کے مطابق اب تک بیس خوبصورت نعتیہ انتخاب شائع کئے جاچکے ہیں جن کے عنوانات یہ ہیں(1) خوشبو سے آسماں تک (2)جلوے حیات آراستہ (3) آب وتابِ رنگ ونور (4) جمال اندر جمال(5) مہکا مہکا حرف حرف (6) روشن گلیاں جھلمل کوچے (7) کرن عطا شرف نصیب (8) وابستگی (9) رفعتیں (10) منزلِ آگہی (11) تجلّیاں (12) آپ ؐ سراپا نور (13) کیف آفریں تابانیاں (14) شگفتہ ہی شگفتہ (15) سرمایۂ روحانیت (16) مقدس نکہتیں (17) شعورِ بے کراں ( 18)خزینۂ الہام (19) گلشنِ جودو کرم (20) نورانی حقیقت ،اور چار حمدیہ انتخاب بہ عنوان (1) مالکِ ارض وسماء (2) ربِّ خیرالبشر ؐ(3) قادر وقیوم ذات (4) عرفانِ ربِّ کائنات ،جن کااجمالی خاکہ پیشِ خدمت ہے ۔

خوشبو سے آسمان تک[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری 1994 سے دسمبر 1994 تک ماہ بہ ماہ منعقد ہونے والے بارہ ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پڑھے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل پہلا مجموعہ ہے جس کے حوالے سے اختر ؔ لکھنوی مرحوم نے ’’ایک نئی طرح ‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھا ہے ، ’’یہ بات 1993 کی ہے جب قمرؔ بھائی نے ایک تجویز میرے سامنے رکھی کہ دبستانِ وارثیہ کی طرف سے طرحی مشاعرے تو ہوتے ہی ہیں ،کیوں نہ مصرعۂ طرح دینے کے بجائے صرف ردیف دی جائے ،شعراء حضرات بحر اور قافیہ کا انتخاب خودکریں اس طرح شعراء کو ایک نیا اندازِفکر بھی ملے گا اور ہماری طرف سے دی جانے والی ردیف ایسی ہوگی جو نعت نگار کو جمالِ صورت کے ساتھ ساتھ کمالِ سیرت کے اظہار کا راستہ بھی ہموار کرے گی تجویز معقول تھی ،پاکستان اور ہندوستان میں اس کی کوئی مثال نہ تھی چنانچہ یہ طے پایا کہ جنوری 1994 سے ردیفوں پر مشتمل نعتیہ مشاعروں کا انعقاد کیا جائے شعراء حضرات کو بھی یہ انداز اچھا لگا انہوں نے ردیفوں کے حوالے سے شعرکہے اورمشاعروں میں خصوصی دلچسپی کے ساتھ شریک ہوئے ۔اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اخترؔ لکھنوی نے مزید لکھا کہ:

’’دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان کی طرف سے ردیفوں کے حوالے سے مشاعروں کا انعقاد ایک ایسی طرح ہے جو نعتیہ شاعری کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کررہی ہے مہینہ بھر شعراء فکر سخن میں مشغول رہتے ہیں اورجذبۂ مسابقت ان کو اعلیٰ درجے کی شاعری کی طرف رجوع رکھتا ہے۔‘‘

256 صفحات پر مشتمل اس نعتیہ انتخاب میں چھبیس (26) شعراء کی ایک سو ستاسی (187) نعتیں شامل ہیں جو،’’خوشبو،دامن، روشن ،چراغ،کرن،طواف،مہک ،اجالے،اثاثہ،لگن اور آسماں‘‘ جیسی ردیفوں کے اہتمام سے کہی گئی ہیں۔

جلوے حیات آراستہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری 1995 سے دسمبر1995 تک منعقدہ بارہ ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پڑھے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل دوسرا مجموعہ ہے جس کے پیش لفظ میں معروف شاعر اور ادیب شفیق الدین شارقؔ مرحوم نے تحریر کیاہے:

’’ دبستانِ وارثیہ نے جس قرینے سے یہ کام کیا ہے ،اس کی مقدار اور معیار کیا ہے ،نعت کے مضامین میں اگر چہ تکرار اور تو ارد کاہر امکان موجود رہتا ہے لیکن اصل بات ان مضامین کی ادائیگی کے اسالیب کی ہے ۔ہرشاعر کا طرزِ اظہار اس کا اپنا ہوتا ہے ،ایک ہی ردیف مختلف قوا فی کے ساتھ ایک جیسے مضامین میں بھی رنگا رنگی پیدا کردیتی ہے ۔ممدوح ایک ہے لیکن اُس کی مدحت کے انداز الگ الگ اور نت نئے ہیں۔‘‘

288 صفحات پر مشتمل اس نعتیہ انتخاب میں پینتیس (35) شعراء کی دوسو نو (209) نعتیں شامل ہیں جنھیں جلوے ،حیات ، دریچے ،خیال ،فاصلہ ،بھرم ،سفینہ ،آسودگی ،کمال ،راستہ ،ظہور اورآراستہ جیسی ردیفوں کی پابندی کے ساتھ تخلیق کیا گیاہے ۔

آب وتابِ رنگ ونور[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری 1996 سے دسمبر 1996 تک منعقد ہ بارہ ردیفی نعتیہ مشاعروں میں شریک شعراء کی جانب سے پڑھے گئے نعتیہ کلام پر مشتمل تیسرا نعتیہ انتخاب ہے ۔اس نعتیہ انتخاب کے حوالے سے پروفیسر آفاق صدیقی مرحوم اپنے مضمون ’’جلوہ بہ جلوہ آب و تاب‘‘کے عنوان سے لکھتے ہیں:

’’ہر مشاعرے کے لیے شعراء کوصرف مفرد یا مرکب ردیف دی جا تی ہے وہ جس زمین ، جس بحر اور جن قوافی میں چاہیں اپنی مرضی کے مطابق نعت کہہ سکتے ہیں ۔اس ندرت کاایک تو بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بہت ہی دلکش ردیفوں میں، انتہائی پُر کشش نعتوں سے ہماری نعتیہ شاعری کا دامن مالامال ہورہا ہے ، دوسرے یہ کہ متعلقہ شعراء کی مشقِ سخن پربھی اس کے اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔شعراء پرردیف کی پابندی کے علاوہ کوئی اور پابندی نہیں ،اس لیے وجدانی سطح پر تخلیقی جذبہ بیسا ختگی سے ذہنِ رسا کاساتھ دیتا ہے ۔‘‘

304 صفحات پر پھیلے ہوئے اس نعتیہ انتخاب میں تینتا لیس( 43) شعراء کی دوسو آٹھ (208) نعتیں شامل ہیں جنھیں آب وتاب ،کیف و سرور،فکر وآگہی ،قلب وآگہی ،قلب ونظر ،انجم و کہکشاں ، لعل وگہر ،مشرقین ومغربین ،ارض وسماء اور رنگ ونور جیسی مرکب ردیفوں سے سجایا گیا ہے ۔

جمال اندر جمال[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری 1997 سے دسمبر 1997 تک منعقد ہونے والے بارہ ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پیش کیے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل چوتھا نعتیہ انتخاب ہے ۔اس انتخاب کے لیے ’’ایک خوبصورت نعتیہ سلسلہ ‘‘کے عنوان سے اپنا مضمون سپرد قلم کرتے ہوئے راغبؔ مراد آبادی مرحوم نے لکھا ہے:

’’ ہرکام کا آغاز اوراس پر عمل کاانداز ہی اس کے روشن امکانات کاآئینہ دار ہوتا ہے ۔دبستانِ وارثیہ کے زیر اہتمام ردیفوں کے سلسلے کا ابتدائی حصہ ہی خاصا متاثر کن ہے ۔اب تک جتنی ردیفیں دی جا چکی ہیں ان پر کہی گئی نعتوں میں کافی تنوع ہے ۔نعتوں کا لہجہ اوران کی وسعت ،اس حقیقت کوواضح کرتی ہے کہ ردیفوں کے انتخاب پرخصوصی توجہ دی جاتی ہے ۔ مجھے امید ہے کہ یہ سلسلہ نہ صرف قمرؔ وارثی صاحب کو دنیا وعقبیٰ میں سرخ رو کرے گا بلکہ اس ردیفی نعتیہ سلسلے کے حوالے سے ان کے مرتب کردہ نعتیہ مجموعوں سے ہزاروں محبانِ رسولؐ فیضیاب ہوں گے ۔‘‘

304 صفحات پرمشتمل اس نعتیہ انتخاب میں چھپن ( 56) شعراء کی دوسو سینتالیس (247) نعتیں شامل ہیں جو نفس در نفس ، ابتداتا انتہا ،پے در پے ،چمن اندر چمن ،سلسلہ درسلسلہ ،مکاں تالا مکاں ،دل بہ دل ،جمال اندر جمال ،کارواں در کارواں ، ازل تاابد ، سربہ سر ،جہاں اندر جہاں جیسی مرکب ردیفوں کے اہتمام کے ساتھ تخلیقی عمل سے گزری ہیں۔

مہکا مہکاحرف حرف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنور ی 1998 سے دسمبر 1998ء تک منعقدہ بارہ ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پڑھے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل پانچواں مجموعہ ہے ۔اس مجموعۂ نعت میں ڈاکٹر عاصی کرنالی مرحوم اپنے مضمون ’’درِ آئنہ باز ہے‘‘ میں رقمطراز ہیں :

’’ دبستانِ وارثیہ کے اصحابِ فکر ودانش کے ذوقِ ایجاد اور زندہ طبعی نے شگفتہ ردیفوں کے انتخاب وتعین سے اور شعراء کو قو افی وبحور کے چناؤ کااختیار دے کر نعت کو وہ فنی ،فکری اور معنوی وسعتیں دے ڈالی ہیں جن سے نعتیہ ادب میں ماضی کے ادوار سے بالکل مختلف ،نیا اور نادر تجربہ کیا گیا ہے ۔یہ نیا اور نادر تجربہ ایسی ایجادی روش ثابت ہوا ہے جس نے فکر کو نئی جہتوں اور تخیّل کواَن دیکھے آفاق سے متعارف کرایا ہے ۔پہلے دور کے قوافی اور ردیفیں شاعر کو چار اطراف سے گھیر لیتے تھے ۔اب محض ایک ردیف ، شش جہت میں راستہ دیتی ہے ، وسعتوں میں جا ئیے ،گہرا ئیوں میں اترئیے،رفعتوں میں اڑ ئیے ۔۔۔ اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ نعت گوئی اپنے مخصوص روایتی لہجے اور کلا سیکل نہج سے ہٹ کر نت نئے اسالیب اور نو بہ نو افکار و مضامین سے آراستہ ہوگئی ہے ۔‘‘

320 صفحات پر مشتمل اس نعتیہ انتخاب میں چو نسٹھ 64 شعراء کی دوسو ساٹھ (260) نعتیں شامل ہیں جو ردیف قدم قدم ، مہکا مہکا ،حرف حرف ،محبت محبت ،جبیں جبیں ،لمحہ لمحہ ،باربار، نمایاں نمایاں ،نظرنظر ،گوشہ گوشہ ،ساتھ ساتھ اور منور منور کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کہی گئی ہیں ۔

روشن گلیاں جھلمل کوچے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری 1999 سے دسمبر 1999 تک بارہ منعقدہ ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پیش کیے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل چھٹا نعتیہ انتخاب ہے ۔اس نعتیہ انتخاب کی روشنی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے پروفیسر منظر ؔ ایوبی نے اپنے مضمون ’’انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد ‘‘ میں لکھا ہے:

’’ روشن گلیاں جھلمل کوچے میں شامل نعتوں کے بالا ستیعاب مطالعے اور ان کے تجزیے سے اس امر کا انکشاف بھی ہوتا ہے کہ شعرائے کرام اپنی بھرپور تخلیقی صلاحتیں بروئے کار لائے ہیں اور انہوں نے زندگی کے تجربات ،عالمی مشاہدات کے ساتھ ساتھ اپنی علمی استعداد اور عمیق مطالعہ سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے ۔ردیفوں کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے کیسے کیسے عشقیہ احساسات وکوائف ،کیسی کیسی قلبیہ اور ذہنیہ وارداتیں ،جذبہ وشوق میں ڈوبی ہوئی کیسی کیسی کیفیات اور کیاکیا دل آویز حقائق نظم کیے ہیں ۔ہر نعت ایمائیت ، اشاریت ،رمزیت ، جامعیت اور بلا غت کی تصویر بنی ہوئی ہے ۔ا ن محاسن کے علاوہ ایک اور مشترک خوبی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ،اور وہ ہے غزل کی ہےئت میں نعتوں کے قافیوں ،ردیفوں کی ندرت اوران کا اچھوتا پن ،جن کے سبب اصطلا حاً زمین سنگلاخ نظرآتی ہے مگر حیرت ہے کہ نعت گو شعرا ء نے مشکل ردیفوں کی پابندی اورقافیوں کی مناسبت سے خیال وفکر کو قبا ئے الفاظ پہنا نے میں آورد کے بجائے آمد کاثبوت فراہم کیا ہے ۔‘‘ ۳۵۲ صفحات پر مشتمل اس نعتیہ انتخاب میں چوہتر (74) شعراء کی دوسو ستاسی ( 287) نعتیں شامل ہیں جنھیں رواں دواں ،سب کچھ ،پاک صاف ،والی وارث ،شجر حجر،جھل مل،دھوم دھام،چمک دمک ،بونداباندی ،آس پاس ،تن من اور گلیاں کوچے جیسی ردیفوں سے مزین کیاگیا ہے۔

کرم عطا شرف نصیب[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری 2000 سے دسمبر 2000 تک بارہ ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پڑھے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل ساتواں نعتیہ مجموعہ ہے جس کے پیش لفظ میں ’’ردیفوں کے مثبت استعمال کی تحریک ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر عزیز احسن نے تحریر کیا ہے :

’’ دبستانِ وارثیہ کے زیر اہتمام ردیفوں کے حوالے سے منعقد ہونے والے نعتیہ مشاعروں میں شعراء کی قابلِ ذکر تعداد میں شمولیت اس رجحان کااشاریہ ہے کہ اب بھی شعراء روایت سے منسلک رہتے ہوئے شعری مدار میں خلا نوردی کرنے میں ایک گونہ مسرت اور انبساط محسوس کرتے ہیں اور اپنی شعری دانش کوحمد ونعت کے فروغ کے لیے استعال کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ پہلے پہل تو یہ ماہانہ مشاعرے صرف کراچی کے مختلف علاقوں میں ہوتے تھے لیکن اب ان مشاعروں کادائرۂ کار کوئٹہ ،سکھر ،ملتان ،جیکب آباد ، گھوٹکی اور لاہور تک تواندرونِ ملک اور جدہ سعودی عرب تک ملک سے باہر پھیل چکا ہے ۔اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح کلاسیکی تحریک ، رومانوی تحریک،ترقی پسند ی کی تحریک، حلقۂ اربابِ ذوق کی تحریک، اسلامی ادب کی تحریک ،علامت پسندی کی تحریک ، تاثریت کی تحریک ،آزاد نظم کی تحریک اور شروع شروع میں ابہام گوئی اور پھراصلاحِ زبان کی تحریک نے ادب میں اپنی اپنی جگہ بنائی اور اردو ادب کو متاثر کیا، اسی طرح قمرؔ وارثی کی چلائی ہوئی ’’جدّتِ ردیف ‘‘ کی تحریک اردو ادب میں بالعموم اوراردو نعت میں بالخصوص اپنا اثر دکھا رہی ہے ۔‘‘

352 صفحات پر مشتمل اس نعتیہ انتخاب میں ایک سو انہتّر (149) شعراء کی پانچ سو پینتیس (535) نعتیں شامل ہیں جنھیں ، مہکتے راستے ،جستجو ،کرم ،جمال ،مبارک ساعتیں ،زاویہ ،عطا ،نصیب ، منور سلسلے ،نقوش ،شرف اور حاضری جیسی ردیفوں کے اہتمام سے تخلیق کیا گیا ہے ۔

وابستگی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری 2001 سے دسمبرتک منعقدہ بارہ ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پڑھے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل آٹھواں نعتیہ انتخاب ہے ۔اس نعتیہ انتخاب کے لیے ’’نعت اور اس کا تقدس‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں راقم الحروف (قمرؔ وارثی ) نے تحریر کیاہے:

’’سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذات وصفات کاتذکرہ جہاں پُرخلوص محبت وعقیدت ،قلبی وابستگی اور طہارتِ فکر وفن کا متقا ضی ہے ، وہاں اس کے تقدس کو پیشِ نظر رکھے بغیر وہ مقام حاصل نہیں کیا جاسکتا ،جو قبولیت کی منزل تک لے جاتا ہے ۔حقیقت تویہ ہے کہ نعت کاتقدس کسی بھی نعت گوکے لیے قدرِ اوّل کی حیثیت رکھتا ہے ،کیونکہ نعت گوئی تزکیۂ حیات وفکر کاایک اہم حصہ ہے ۔شاعر جب حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی مدح میں فکرِ شعر کرتا ہے تو اس کے اندر کی کائنات نورِ مبیں سے منور ہوجاتی ہے ۔ دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان کی جانب سے ردیفی نعتیہ مشاعروں کے لیے دی جانے والی ردیفوں میں اس بات کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھا جاتا ہے کہ ایسی ردیفوں کاانتخاب کیا جائے جوشاعرکی حضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے جمالِ صورت اور کمالِ سیرت کی جانب رہنمائی کرنے میں اہم کردار ادا کرسکیں ۔ردیفی نعتیہ مشاعروں کی مقبولیت اس بات کا شدت سے تقاضا کررہی ہے کہ سال میں بارہ مشاعروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ۔‘‘

304 صفحات پر مشتمل اس نعتیہ انتخاب میں ایک سو چھپّن (156) شعراء کی چارسو پچانوے( 495) نعتیں شامل ہیں۔ان نعتوں میں جن ردیفوں کااہتمام کیاگیا ہے ان میں بہار ،سایہ فگن ،دیا ، زندگی ،نوید ،جلوہ نما ،وابستگی ،آرزو ،قدم ،سماں ،دیکھیے اور تمام شامل ہیں ۔

رفعتیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری 2002 سے دسمبر 2002 تک منعقدہ بارہ ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پیش کیے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل نواں نعتیہ مجموعہ ہے جس میں نور احمد میرٹھی مرحوم نے اپنے مضمون ’’چراغِ عرفاں۔۔۔ رفعتیں ‘‘ میں تحریر کیا ہے:

’’ دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان کے ردیفوں کے حوالے سے منعقد ہونے والے نعتیہ مشاعروں کے سال بہ سال شائع ہونے والے نعتیہ مجموعوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اکثر شعراء نے اپنے اظہار کو فکرو فن کے تمام تر محاسن وخصائص کے ساتھ پیش کیا ہے ،وہ اکثر مشکل ردیفوں میں بھی اپنی عقیدت ومحبت کو نظم کرتے ہیں اور بڑی سلامت روی سے گزر رہے ہیں۔شعراء کرام نے نعت کی وسیع فضا میں عشق و محبت کے سہارے خوب پرواز کی ہے ۔کسی بھی زاویے اور کسی بھی رخ سے تجزیہ کیجیے،بیشتر شعراء کا باطن ظاہر ہورہا ہے جس میں عقیدت کی پختگی جلوہ گر ہے ۔ان کی نعتوں میں مضامین کی رنگا رنگی ،الفاظ کی فراوانی ،تراکیب کی جاذبیت ،سیرتِ طیبہ کی تفہیم اور جذبہ وفکر کی گہرائی وگیرائی جابہ جا دیکھی جاسکتی ہے ۔‘‘

336 صفحات پر مشتمل اس نعتیہ انتخاب میں ایک سو اٹھتّر (178) شعراء کی پانچ سو اٹھائیس (528) نعتیں شامل ہیں جو خیر البشرصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ، دل ،سامنے ،حرا ،روشن ہوئے ، تک ،کیا نہیں ،سفر ،دیکھا کیے، سب، رفعتیں اور ملے جیسی ردیفوں کی پابندی کے ساتھ تخلیقی عمل سے گزری ہیں۔

منزل آگہی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری ۲۰۰۳ء سے دسمبر ۲۰۰۳ء تک منعقدہ بارہ ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پڑھے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل دسواں نعتیہ مجموعہ ہے ۔اس مجموعے میں شامل اپنے مضمون بعنوان ’’منزلِ آگہی کا سفر ‘‘ میں محترم عارف منصورؔ رقمطراز ہیں:

’’اردوزبان میں طرحی مشاعروں کی روایت خاصی پرانی ہے لیکن اس پابندی سے عموماً مضامین کے اعتبار سے یکسانیت اور الفاظ کی ترتیب کے لحاظ سے مصرعوں کے ٹکراؤ کی عام شکایات تھیں۔دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان کے پلیٹ فارم سے اختر لکھنوی مرحوم اورقمر ؔ وارثی نے مل کر ایک نئی طرح ڈالی اور ردیفی نعتیہ مشاعروں کے انعقاد کاسلسلہ شروع کیا ۔ان ردیفی نعتیہ مشاعروں میں اہم شعراء کے ساتھ ساتھ نوجوان شعراء کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کا اعلامیہ ہے کہ اختر لکھنوی مرحوم اورقمرؔ وارثی نے خدمتِ نعت کاجو بیچ بویا تھا وہ اب تناور شجر بن چکا ہے۔ مشاعروں کے انعقاد کے علاوہ اس خدمتِ نعت کا دوسرا اہم پہلو ان مشاعروں میں پڑھے جانے والے نعتیہ کلام کی تدوین اورسالانہ اشاعت ہے ۔یہ کام بھی مشاعروں میں شعراء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث وسیع تر ہوتا جارہا ہے ۔اکثر اوقات یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اختر لکھنوی کے ۱۹۹۵ء میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوجانے کے بعد قمرؔ وارثی تنِ تنہا کس طرح اس سے عہدہ بر آ ہورہے ہیں۔‘‘

۲۵۶ صفحات پر مشتمل اس نعتیہ مجموعے میں ایک سو اڑتیس (۱۳۸) شعراء کی تین سو اکیاسی (۳۸۱) نعتیں شامل ہیں جن کے لیے ،وارفتگی ،انتہا ،منزل ،روش ،تمنّا ،آئینہ ،کوئی نہیں ،آگہی،حوالے ، آنسو ،آنکھوں سے اور دعا جیسی شگفتہ ردیفوں کاانتخاب کیاگیا تھا ۔

نوٹ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ابتدائی دس سالوں یعنی ۱۹۹۴ء سے ۲۰۰۳ء تک منعقدہ ردیفی نعتیہ مشاعروں کی تعداد سال کے بارہ مہینوں میں بارہ مشاعروں تک ہی رہی ،لیکن مختلف شہروں کی ادبی تنظیموں اور بیشتر شعراء کی جانب سے مسلسل درخواست کے باعث ردیفی نعتیہ مشاعروں کی تعداد میں رفتہ رفتہ اضافہ ہو تا رہا ہے ۔یہ تعداد بارہ سے بڑھ کے کسی سال چودہ ،کبھی پندرہ ،یہاں تک کہ سال میں ستّرہ مشاعرے بھی منعقد ہوئے ،جس کے نتیجے میں شعراء کے ساتھ ساتھ ردیفی نعتوں میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا، اورسال بہ سال شائع ہونے والے نعتیہ مجموعوں کی ضخا مت بھی بڑھتی چلی گئی ۔اس تناظر میں ۲۰۰۴ء سے ۲۰۱۳ ء تک ردیفی نعتوں پر مشتمل شائع ہونے والے نعتیہ مجموعوں کی صورتِ حال کچھ یوں ہے ۔یہاں یہ بات بھی خاصی اہمیت کی حامل ہے کہ طے شدہ مشاعروں کے ساتھ ساتھ ذیلی مشاعروں کا سلسلہ پہلے ملتان ،پھر کوئٹہ اور کراچی میں بھی شروع کردیا گیا۔اس حقیقت کی روشنی میں ردیفی مشاعروں کی مقبولیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

تجلّیاں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری ۲۰۰۴ء سے دسمبر ۲۰۰۴ء تک ماہ بہ ماہ منعقدہ بارہ طے شدہ اور بارہ ہی ذیلی ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پیش کی جانے والی نعتیہ تخلیقات پر مشتمل گیارہواں نعتیہ مجموعہ ہے ۔اس مجموعے کے حوالے سے پروفیسر عزیز جبران ؔ انصاری نے اپنے مضمون ’’نعت گوئی اوراس کے تقاضے‘‘ کے عنوان سے اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’اہلِ سخن اور صاحبانِ فن جانتے ہیں کہ طرح پر شعر کہنے کے لیے نفسِ مضمون ،فکر وفن کی گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ساتھ سب سے اہم مرحلہ ردیف کو نباہنے کا ہوتا ہے ۔نفسِ مضمون کتنا ہی اعلیٰ وارفع کیوں نہ ہو ،فکروفن کے کیسے ہی جہان کیوں نہ سرکئے گئے ہوں، اگر ردیف وقافیہ مضمون کاساتھ نہ دیں تو شعر کاسارا حسن ماند پڑ جاتا ہے ۔فکرودانش کی عالی شان عمارت ردیف کے بے جوڑ ہونے سے پیوندِ خاک ہوجاتی ہے اور جہاں معاملہ ’’نعت‘‘ کاہو ،وہاں تواور زیادہ مشّاقی کا مظاہرہ کرنا اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے ۔لہٰذا طرحی نعت چاہے وہ پورے مصرعے پر محیط ہویا صرف ردیف کے حوالے سے اشعار کہے جائیں ،ہرحال میں ردیف کی نازک مزاجی کاخیال رکھناپڑے گا ۔مندرجہ ذیل جن ردیفوں کاانتخاب ۲۰۰۴ء کے بارہ مشاعروں کے لیے کیا گیا ،ان پر ایک نظر ڈالنے ہی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ردیفیں اپنے اندر جدّت وندرت کاایک جہان رکھتی ہیں ۔‘‘

۳۶۸ صفحات پر مشتمل اس نعتیہ مجموعے میں ایک سو باون (۱۵۲) شعراء کی چارسو تیس (۴۳۰) نعتیں شامل ہیں جو رونقیں، لمحے ،بُلاوا ،شہِ زمن ؐ ،خوشنما ،موسم ،سلیقہ ،نوازشیں ،ٹھرے ، تجلّیاں، واقعی اور فضا ئیں کی پابندی کے ساتھ کہی گئی ہیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سراپا نور[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری ۲۰۰۵ء سے دسمبر ۲۰۰۵ء تک منعقدہ پندرہ طے شدہ اور چودہ ذیلی ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پڑھے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل بارہواں نعتیہ انتخاب ہے ۔اس نعتیہ انتخاب پر اپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے ’’نوشۂ عقیدت ‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی عارفؔ (مشیر اعزازی رابطۂ عالمِ اسلامی مکّہ مکرّمہ سعودی عرب) نے تحریر فرمایا ہے:

’’ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے فضائل ،جو سخن آفرینی سے پاک ، حق پسندی کا آئینہ ہیں جو آپ کی صداقتِ نبوّت کے ساتھ ساتھ یہ اعلان کرتے رہیں گے کہ بے شک اس سیرتِ کا ملہ کی حامل ذاتِ مبارکہ مستحق ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمتیں براہِ راست اور ہمیشہ نازل فرماتا رہے اوراس کے فرشتے نذرانۂ عقیدت بصورتِ صلوٰۃوسلام پیش کرتے رہیں اوراہلِ ایمان کوحکم دیا جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرما نبرداری اوررسولِ کریمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی محبت میں درود وسلام کا نذرانہ پیش کرتے رہیں ۔اراکینِ دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان اور بالخصوص جناب قمرؔ وارثی لائق مبارکباد ہیں کہ انہوں نے حضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ذکر کے فروغ کاایک نئے اندازِ فکر کی دعوت کے ساتھ بیڑا اٹھا رکھا ہے۔اس مبارک راستے کے سفر میں ایک تسلسل کے ساتھ محوِ سفر رہنا کوئی معمولی بات نہیں۔ردیفوں کے حوالے سے اس دبستان کا فروغِ نعت مشن اس لیے بھی لائقِ تحسین اور لائقِ تقلید ہے کہ نعت نگاروں کو دعوتِ شعر دینے کے لیے خاص حدتک ایسی ردیفوں کاانتخاب کیاجاتا ہے جواس مضمون کی ابتدا ء میں بیان کیے ہوئے ذاتِ حضورِصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اقدس کے چاروں پہلوؤں یعنی جمالِ صورت ،کمالِ سیرت ،قولِ محکم اور حُسنِ عمل کو پیش نظر رکھ کر ایک نئے اندازِ فکر کے ساتھ نعتیہ اشعار کی تخلیق پر مائل کرتی ہیں۔فروغِ نعت کے اس مشن کاراستہ دشوار گزار ضرور ہے لیکن سچی لگن ،مستقل مزاجی اورخلوصِ نیت سے ہر مشکل کوآسان بنایا جاسکتا ہے ۔‘‘

چارسو چونسٹھ (۴۶۴) صفحات پر مشتمل اس نعتیہ مجموعے میں ایک سواکیا نوے (۱۹۱) شعراء کی سات سو بائیس (۷۲۲) نعتیں ہیں جو دی گئی پندرہ ردیفوں ،مرحبا ،شمار ،راہیں ،نور ،سراپا دلنشیں ،کھلے، مسافر ،خواہش ،خبر ،مقام ،اساس ،آپصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ،ممکن اور شان کے اہتمام سے کہی گئی ہیں۔

کیف آفریں تابانیاں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری ۲۰۰۶ء سے دسمبر ۲۰۰۶ء تک طے شدہ پندرہ اورذیلی چودہ منعقدہ ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پیش کیے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل تیرہواں نعتیہ مجموعہ ہے اس نعتیہ مجموعے کااجمالی جائزہ لیتے ہوئے ماہنامہ ’’نعت‘‘ لاہور کے مدیر اعلیٰ راجا رشید محمودؔ نے سپردِ قلم کیے ہوئے اپنے مضمون ’’محبت کی نئی طرح کاقبولِ عام ‘‘ میں لکھا ہے:

’’ ردیف کاقصہ فارسی سے چلا اور اردو میں پنپا ۔دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان نے نعت کے ردیفی مشاعرے شروع کیے جس میں حمد بھی شامل ہوئی اور شامل ہے ۔اس ایچ نے نعت اورحمد میں تنّوع اور توسّع کی بلندیوں کو چھولیا ہے ۔طرحی مشاعروں میں یوں بھی نیا کلام کہنے اور مسابقت کے احساس کے باعث کلام کو سنوارنے ،نکھارنے کاسلسلہ جاری رہا ہے ۔ ردیف نے بعض صورتوں میں شعراء کے لیے مشکل بھی پیدا کی ،کیونکہ حمدو نعت میں’’ یہ تو ردیف ہے یہ تو آئے گی‘‘کا معاملہ نہیں پنپتا ،یہاں تو ہر لفظ سوچا سمجھا ،ہر ترکیب ’’چاروں چول چوکس ‘‘ اورہر بات تول میں پوری ہونا ضروری ہوتی ہے ۔اس راہ پر چلنے والوں کو تعلیماتِ قرآن وحدیث کے ساتھ زبان وبیان کی باریکیوں پر بھی نظر رکھنا ہوتی ہے ۔ دبستانِ وارثیہ کے ردیفی نعتیہ مشاعروں کے اس نئے اندازِ فکر میں شعراء کی دلچسپی ایک تواس حقیقت سے ظاہر ہے کہ ہر سال مزید شعراء اس میں حصہ لے رہے ہیں، دوسرے مختلف شہروں میں اس ادارے کے بیز تلے انہی مجوزہ ردیفوں میں مشاعروں کے انعقاد نے بھی ثابت کردیا ہے کہ ردیفی مشاعرے اور دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان کی افادیت نعت گویانِ اردو کے نزدیک مسلّم ہوچکی ہے، کیونکہ ان مشاعروں کا بنیادی نکتہ ’’ردیف‘‘ ہے ،اس نکتے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مختلف علاقوں ،مختلف عمروں اور مختلف مسلکوں کے شعراء اپنی لفظیات ،اپنے نظریات اوراپنے احساسات کواپنی فکری ایچ سے منتخب کردہ قوافی و بحور کے اور موضوعات کے تنوع کے ساتھ جب نعتیں یا حمد یں کہتے ہیں تو ’’ ہر گُلے را رنگ وبوئے دیگر است‘‘ کی دلکش کیفیات جنم لیتی ہیں۔ کہیں صنائع بدائع کی نیرنگی نظرآتی ہے ،کہیں مختلف موضوعات ومضامین میں طرزِ ادا کااختلاف مزا دیتا ہے اور کہیں علمِ دین سے گاڑھی واقفیت جھلکتی ہے۔‘‘

چارسو آٹھ ( ۴۰۸) صفحات پر مشتمل اس نعتیہ مجموعے میں دوسو سترہ (۲۱۷)شعراء کی سات سو انتا لیس نعتیں شامل ہیں جنھیں تابانیاں ،کہیے ،پیہم ،اَن گنت ،کیف آفریں، سِوا ،قیام ،پیدا ، کاغذ قلم ،دستکیں ،دلیل ،مکمل ،ہمیشہ ،جدا ،لاجواب جیسی ردیفوں سے سجا یا گیا ہے ۔

شگفتہ ہی شگفتہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری ۲۰۰۷ء سے دسمبر ۲۰۰۷ء تک طے شدہ سولہ (۱۶) ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پڑھے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل چو دہواں نعتیہ انتخاب ہے ۔اس انتخاب کے حوالے سے اپنے مضمون ’’احمد ،محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ،رحمت ،مدحت‘‘ میں ممتاز نعت گو شاعر محترم ماجد خلیل رقمراز ہیں :

’’قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم پہلے احمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمہیں پھر محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ،کیونکہ سب سے پہلے آپصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے اللہ کی حمد کی ، پھر مخلوق نے آپ کی حمد کی ۔اسی طرح محشر میں بھی آپصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سب سے پہلے اللہ پاک کی حمد کریں گے اور جب آپصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی سفارش سے حساب شروع کیاجائے گا توپھر اہلِ محشر آپصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی حمد کریں گے ۔بہ لحاظِ وجود بھی پہلے آپ احمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہیں اور بعد میں محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ۔اسی وجہ سے کتبِ سابقہ میں آپصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی بشارت اسمِ احمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے مذکور ہے اور جب آپ عالمِ وجود میں تشریف لائے تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے نامِ نامی سے جانے گئے۔مذکورہ بالا دو انتہائی محترم وپاکیزہ الفاظ کی تفہیم کے بعد ایک اور انتہائی اہم ومتبرک لفظ سامنے آتا ہے ’’رحمت‘‘ ۔یہ ایسا لفظ ہے جس کااستعمال نبئ محترم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی کے لیے ہوا ہے کسی اور کے لیے نہیں۔پس جب نبئ محترمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو جملہ عالمین کے لیے رحمت بنایا گیا ہے تو ثابت ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی نبوت بھی جملہ عالمین کے لیے ہے ۔ان الفاظ یعنی احمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ،محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم وررحمت کی مناسب تفہیم کے بعد غور فرمائیے کہ ہمارا کیا فرض بنتا ہے ،یہی کہ ہم اس ذاتِ گرامی کی مدحت وثنا گزاری کی تاحدِ امکان سعی کریں جس پر مندرجہ بالا ہرلفظ کا کماحقّہ ، اطلاق ہوتا ہے ۔اس سعئ سعید کااہلِ شعر وشعور نے ایک لفظ مختص کرلیا ہے ’’نعت ‘‘ جوایسی عبادت کادرجہ رکھتی ہے جس کے لیے اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کاارشاد گرامی ہے ’’وہ خود اوراس کے ملائکہ نبئ مکرمصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم پردرود وسلام بھیجتے ہیں، لہٰذا اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود وسلام بھیجنے کی خدمت (عبادت) انجام دو ۔ لفظ ’’نعت ‘‘ کی تاریخ ومدارج کے حوالے سے ایک بڑا ذخیرۂ معلومات ہمارے ادبِ عالیہ کاسرمایہ ہے جس پر گفتگو ضروری نہیں،البتہ اس سلسلے میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ مخلوقِ نوری کے علاوہ کرۂ زمیں پرجہاں بھی کلمہ گو نفوس موجود ہیں اپنے اپنے طریقوں سے کارِ خدمتِ نعت انجام دے رہے ہیں ۔ پاکستان میں خادمانِ نعت اپنے طور پربھی اوراداروں کی شکل میں بھی محبتِ رسولؐ سے پاسداری کاحتی المقدور ثبوت فراہم کررہے ہیں مثال کے طور پر برادرم قمر ؔ وارثی اوران کا پاکیزہ ادارہ ’’دبستانِ وارثیہ ‘‘ اس خدمت میں پیش پیش ہے ۔جنون سے بڑھ کر قمرؔ وارثی مجذوبیت کی حدتک دامے ،درمے ، سخنے قدمے اور قلمے فروغِ نعت کے لیے مصروفِ عمل ہیں ۔ ماہانہ ردیفی نعتیہ مشاعروں کا سلسلہ گزشتہ تیرہ سالوں سے بغیر کسی تعطل کے جاری وساری ہے جس کا پھیلاؤ بفضلِ ربی کراچی اور پاکستان کے بیشتر بڑے اور چھوٹے شہروں کے ساتھ ساتھ جدہ سعودی عرب تک دراز ہے ۔ان مشاعروں میں پڑھی گئی نعتوں کے سالانہ مجموعے شائع کرنے کا عمل بھی جاری ہے ۔ کرامت یہ ہے کہ دیوانۂ فروغِ نعت قمرؔ وارثی کسی کے آگے دستِ طلب دراز کیے بغیر تمام مراحل سے گزرتا جارہا ہے اور خدمتِ نعت کو جاری رکّھے ہوئے ہے اس یقین کے ساتھ کہ جن کی خدمت گزاری پر مامور ہے ،وہی اسباب مہیا کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے انشا ء اللہ ‘‘

تین سو چھتیس (۳۳۶) صفحات پر مشتمل اس نعتیہ انتخاب ’’شگفتہ ہی شگفتہ ‘‘ میں ایک سو پچانوے (۱۹۵) شعراء کی چھ سو دس (۶۱۰) نعتیں شامل ہیں جو ردیف درخشاں،خوب ،خود بہ خود ، مسلسل ،مراد،شگفتہ ،نشاں ،صورت ،مثال ،دریا ،معراج،ارتقا ء ، چُنے ،عالم ،اور،انجمن کی پابندی کے ساتھ کہی گئی ہیں۔

سرمایۂ روحانیت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

قرآن مجید کی مختلف آیاتِ کریمہ کے حوالے سے حضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی عظمت ورفعت کابیان اس حقیقت کاآئینہ دار ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی تعریف وتوصیف سنتِ الٰہیہ ہے ۔یہ سنت اس کے فرشتے بھی ادا کرتے ہیں اور ایمان والوں کوحکم دیا گیا ہے کہ وہ بھی۔ اسی حکم کی تعمیل میں دنیا کی تمام زبانوں میں شانِ رسالت مآب کے حوالے سے بے شمار نعتیں لکھی جاچکی ہیں اور بے شمار نعتیہ مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں، آرہے ہیں اورآتے رہیں گے ۔ جنوری ۲۰۰۸ء سے دسمبر ۲۰۰۸ء تک طے شدہ سترہ (۱۷) ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پیش کی جانے والی نعتیہ تخلیقات پر مشتمل پندرہویں نعتیہ انتخاب ’’سرمایۂ روحانیت‘‘ پراپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے اپنے مضمون ’’نعت اور فروغِ نعت کی معتبر تحریک ‘‘ میں سید محمد حنیف ؔ اخگر ملیح آبادی مرحوم لکھتے ہیں کہ: ’’ امریکہ اور کینڈا میں منعقد ہونے والے مشاعروں اور بالخصوص نعتیہ مشاعروں میں پاکستان سے شریک ہونے والے معروف ومعتبر نعت گو شاعر جناب ماجدؔ خلیل کے توسل سے یہ خوش کن خبر امریکہ کے ادبی حلقوں تک پہنچی کہ عروس البلاد کراچی میں ایک ایسے ادبی ادارے کاقیام عمل میںآیا ہے جس نے فروغِ نعت کے حوالے سے ایک نئی طرح کی بنیاد ڈالی ہے ۔یہ ادارہ نعت کے لیے مصرعۂ طرح دینے کے بجائے صرف ردیف دیتا ہے جوایک لفظ یا ایک مرکب لفظ پر مشتمل ہوتی ہے ۔شاعر کوپور ی آزادی ہے کہ وہ اپنی سہولت اور مرضی کے مطابق بحرو قافیہ کاانتخاب خود کرے ۔کراچی میں اپنے قیام کے دوران مجھے ’’دبستانِ وارثیہ ‘‘ کے کئی ردیفی نعتیہ مشاعروں میں شرکت کے مواقع میسر آئے ہیں، جن کی کیفیات کاعالم دیکھ کر بہت رشک آیا۔ سچ پوچھیے توان ردیفی نعتیہ مشاعروں میں سرشاری کے ایسے لمحے دامن گیرہوتے ہیں جن کی اثر پذیری اگلے مشاعرے تک قائم رہتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہ ردیفی نعتیہ مشاعرے اپنی مقبولیت کے باعث کراچی تک محدود نہیں رہے بلکہ ان کا دائرہ پاکستان کے بیشتر شہروں اور بیرونِ پاکستان جدہ سعودی عرب تک دراز ہوچکا ہے ۔عالم یہ ہے کہ مختلف مقامات سے ان مشاعروں کے انعقاد کی درخواستیں مسلسل موصول ہورہی ہیں ۔دبستان کے منتظمِ اعلیٰ کوتو اب یہ فکر لاحق ہوگئی ہے کہ ان درخواست گزاروں کی خواہش کو کیسے پورا کیا جائے۔ معاملہ صرف مشاعروں کے انعقاد ہی کا نہیں بلکہ ان مشاعروں میں پڑھی جانے والی ردیفی نعتوں پر مشتمل سال بہ سال نعتیہ مجموعوں کی اشاعت کا بھی ہے جو بحمداللہ ایک تو اتر کے ساتھ جاری ہے ۔مجھے حیرت ہے کہ اتنا بڑا اورآئندہ نسلوں تک منتقل ہونے والا کام قمرؔ وارثی جیسا عدیم الفرصت شخص تنِ تنہا کیسے انجام دے رہا ہے ،جبکہ اس ادارے کاکوئی باقاعدہ فنڈ ریز نگ کاسلسلہ بھی نہیں ہے ۔اس صورتِ حال کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ اراکینِ دبستانِ وارثیہ اوربالخصوص قمرؔ وارثی کوحضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے خاص کرم کے باعث اللہ ربّ العزّت کی طرف سے غیبی امداد مل رہی ہے ، ورنہ کثیر فنڈ رکھنے والے بڑے بڑے ادارے بھی اتنا بڑا کام ایک تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ میرے نزدیک فروغِ نعت کے حوالے سے ردیفی نعتیہ مشاعروں پر مشتمل یہ ایک ایسی معتبر تحریک ہے جو قابلِ تحسین ہی نہیں ،لائقِ تقلید بھی ہے ۔‘‘

۳۳۶ صفحات پر مشتمل اس نعتیہ انتخاب ’’سرمایۂ روحانیت ‘‘ میں دوسو بیس (۲۲۰) شعراء کی چھ سو نو (۶۰۹) نعتیں شامل ہیں جنھیں ردیف معرفت ،عظیم ،طلب ،نظام ،غنچے ،خاص ،ہزاروں ، روحانیت ،سرمایہ ،پہلے پہل ،حاصل ،موجزن ،وسیلہ ،ذات، مقبولیت ،ہَوا اور تقاضے کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے تخلیق کیاگیا ہے ۔

مقدس نکہتیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری ۲۰۰۹ء سے دسمبر ۲۰۰۹ء تک منعقدہ پندرہ ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پڑھے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل سولہواں نعتیہ مجموعہ ہے ۔اس مجموعے میں محترم سجاد سخن ؔ مرحوم اپنے مضمون ’’باخدا دیوانہ باش وبا محمدصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہوشیار ‘‘ کے عنوان سے رقمطراز ہیں:

’’تاریخ اسلام شاہد ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو عروج دینا چاہتا ہے توسب سے پہلے اس کے دانشوروں ،ادباء اور شعراء کی ماہئیتِ قلب تبدیل کردیتا ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے میں راست روی کی تحریک پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرسکیں ۔اس حوالے سے متعدد ادارے قائم ہوئے جنھوں نے ماہانہ ،سہ ماہی اور سالانہ نعتیہ مشاعروں اور محافلِ نعت منعقد کرکے لوگوں کو پروردگارِ عالم اور نبئ آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حضور نذرانۂ حمد ونعت پیش کرکے یہ پیغام دینا شروع کیاکہ ہم اپنے مرکز سے بھٹکے ہوئے تھے ، اللہ اور اس کے رسولصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے احکامات اور اسوۂ حسنہ پر عمل کرکے خود کو ذلت ورسوائی سے بچا کر عزت واحترام حاصل کرسکتے ہیں ۔اس نیک عمل میں اس وقت مزید تیزی اور مقبولیت پیدا ہوئی جب بعض نجی ونیم سرکاری اداروں اور مخیر حضرات نے اہلِ ادب ،خصوصاً شعراء کوحج وعمرہ پر بھیجنے کا قابلِ تحسین عمل شروع کیا، جس کے نتیجے میں راست روی کے حامل شعراء کے ساتھ ساتھ وہ شعراء بھی حمد ونعت کی طرف مائل ہونے لگے جو نعت گوئی کو تضیعِ اوقات سمجھتے تھے۔یہاں جوذکر ضروری محسوس ہوتا ہے ،وہ دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان کا ہے جس نے طرحی نعتیہ مشاعروں کاآغاز اس جدت طرازی کے ساتھ کیاکہ مصرعۂ طرح سے مشاعرے میں مصرعوں اور شعروں کے توارد سے شعراء میں جو ذہنی کھنچاؤ رہتا تھا، اسے ختم کرنے اور شعرا ء کواپنی اپنی جولانئ طبع کے حساب سے بحر وقافیہ کی آزادی دیتے ہوئے صرف ’’ردیف ‘‘ کی پابندی رکھی ۔ابتدا ء میں تو شعراء حضرات کی دلچسپی کچھ کم دیکھنے میں آئی لیکن رفتہ رفتہ یہ سلسلہ اتنا مقبول ہواکہ دور دراز علاقوں کے شعراء بھی پابندی سے شریک ہونے لگے ۔ان ردیفی نعتیہ مشاعروں کی مقبولیت میں اس وقت مزید اضافہ ہوا، جب سال بھر پڑھی جانے والی ردیفی نعتوں پر مشتمل پہلا مجموعہ شائع کیا جس میں شریک شعراء کے بنیادی کوائف کو بھی جگہ دی گئی ۔ ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پڑھے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل مجموعوں کی اشاعت کاسلسلہ سال بہ سال جاری ہے مگر مجموعوں کی غیر معمولی ضخامت کے باعث کوائف کاسلسلہ موقو ف کردیا گیا البتہ شریک شعراء کے اسمائے گرامی ہرسال شائع ہونے والے مجموعے میں شامل ہوتے ہیں۔دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان پر خدااور محبوبِصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم خدا کا مزید کرم یہ ہوا کہ اس ادارے کے اراکین کی توجہ اس جانب بھی مرکوز ہوئی کہ ان ردیفی نعتیہ مشاعروں میں باقاعدہ اور تواتر کے ساتھ شریک ہونے والے نعت گو شعراء کو عمرے پر بھیجا جائے ۔ لہٰذا بعض مخیر حضرات سے رابطے کیے گئے جس میں اس قدر کامیابی ہوئی کہ گزشتہ بارہ تیرہ سال سے دبستان کی جانب سے دو تین شعراء کوعمرے اور جدہ میں منعقد ہونے والے سالانہ ردیفی نعتیہ مشاعرے میں شرکت کی سعادت حاصل ہونے لگی ۔ یہاں ایک حیرت انگیز بات اور عرض کرتا چلوں کہ یہ سب کچھ صرف قمرؔ وارثی کی ذاتی کوششوں اور کاوشوں کا نتیجہ رہا ہے ۔ ماہ بہ ماہ منعقد ہونے والے ردیفی نعتیہ مشاعروں کے دعوت ناموں کی تقسیم ،مدعو شعراء کو شرکت کے لیے بار بار یاددہانی ،میزبانِ مشاعرہ کے بجائے قمرؔ وارثی نے اپنے سرلی ہوئی ہے ۔یہی نہیں بلکہ ردیفی نعتوں اورحمدوں پر مشتمل مجموعوں کی اشاعت اور مخیر حضرات سے رابطے ،ان کی فروغِ حمد ونعت کے لیے خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔‘‘

شعورِ بے کراں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری ۲۰۱۰ء سے دسمبر ۲۰۱۰ء تک سولہ (۱۶)ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پیش کیے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل سترہواں نعتیہ مجموعہ ہے ۔ اس مجموعے کاجائزہ لیتے ہوئے اپنے مضمون ’’قرطاس وقلم کی خواہش‘‘ میں پروفیسر جاذبؔ قریشی نے لکھا ہے :

’’نعتیہ شاعری رسولِصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم انام کی اُن صفات کا انتخاب کرتی ہے جو عصرِ حاضر میں بند دروازوں کوکھول سکیں ، قیامِ پاکستان کے بعد نعتیہ شاعری کے حوالے سے شناخت رکھنے والے بزرگوں میں بہزادؔ لکھنوی ،حمید صدیقی لکھنوی ،یوسف ظفر، نعیم صدیقی، ماہرالقادری ،جگر مرادآبادی ،شمیم ملیح آبادی ،حافظ لدھیانوی ، ریاض مجید ، خورشید آراء بیگم ،منور بدایونی ،اور رابعہ پنہاں کے علاوہ جن شاعروں کی پہچان نعتیہ شاعری بنی ہے ان میں حفیظ تائب ،حنیف اسعدی ، مظفر وارثی ،سرشار صدیقی ،اعجاز رحمانی ،ادیب رائے پوری ،قمر انجم ، راجا رشید محمود، قمرؔ وارثی ،ماجدؔ خلیل ،صبیح رحمانی اور مسرور کیفی کے نام سامنے آتے ہیں ۔ ان میں خصوصیت کے ساتھ قمر وارثی نے جانے پہچانے لفظوں ،مانوس بحروں اور غیر پیچیدہ اسلوب میں جس طرح حمدو نعت کولکھا ہے ، ایسا کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔اس کا بنیادی سبب قمرؔ وارثی کے عقیدے کی سچائی اوراظہار کے غیر مصنوعی پن کے سوا کچھ نہیں۔ قمرؔ وارثی نے حمد ونعت کوصرف لکھا ہی نہیں بلکہ حمدونعت کے ارتقاء کے لیے طرحی مشاعرے ’’ردیف والے ‘‘ کرائے اوران حوالوں کی تحریروں کوکتابوں میں شائع بھی کیا ۔اس سلسلے کے اب تک سولہ انتخاب شائع ہوچکے ہیں جب کہ ۲۰۱۰ء میں کہی جانے والی ردیفی نعتوں پر مشتمل نعتیہ انتخاب ’’شعور بے کراں‘‘ کے نام سے آپ کے سامنے ہے ۔ اس طرح قمرؔ وارثی نے ایک عظیم ادبی روایت سے خود کو جوڑ کر اپنی ذات کواہم بنالیا ہے۔ دبستانِ وارثیہ کے جو مجموعے شائع ہوکر پڑھنے لکھنے والوں کے درمیان آئے ہیں ان میں ربِّ عظیم اور رحمت اللعالمینصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی روشنیاں روح اور وجدان کے سفر کوآگے بڑھاتی رہیں گی جس کے حوالے سے قمرؔ وارثی کی اہمیت میں اضافے لکھے جاتے رہیں گے ۔‘‘

چارسو سولہ (۴۱۶) صفحات پر مشتمل اس نعتیہ انتخاب میں دوسو چالیس (۲۴۰) شعراء کی چھ سوستاون ( ۶۵۷) نعتیں شامل ہیں جنھیں پھولے پھلے ،جابہ جا، چراغاں ،آب وہوا ، یقیں ،آ ٹھواں پہر، ضرور، التجا ، توازن، اثر، بے کراں ، کے بعد، فروزاں ، قبول،مقدر اورشعور جیسی شگفتہ ردیفوں کی پابندی کے ساتھ تخلیق کیاگیا ہے ۔

خزینہء الہام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری ۲۰۱۱ء سے دسمبر ۲۰۱۱ء تک پندرہ طے شدہ اورایک ذیلی ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پڑھے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل اٹھا رہواں نعتیہ انتخاب ہے ، اس انتخاب کے لیے محترم آصف اکبر (اسلام آباد) نے اپنے مضمون ’’ردیفی سلسلۂ نعتیہ شاعری‘‘ میں تحریر کیاہے :

’’لوگوں کونئی نعتیں کہنے کی طرف راغب کرنے کے متعدد طریقے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں (۱) طرحی نعتیہ مشاعرے (۲) نئی نعت کہنے والے شاعروں کی زیادہ تحسین وآفرین اور نو عمر ہونے کی صورت میں حوصلہ افزائی (۳) اپنے زیرِاثر شاعروں پر نئی نعت کہنے کی پابندی (۴) اچھی نئی نعتیں کہنے والے شعراء کو بزرگی ( سینسیارٹی ) میں ترجیح وغیرہ ۔

ہم نے اپنے حلقے میں ان تمام طریقوں پر کسی نہ کسی حد تک عمل کرکے یقیناًبڑی حدتک کامیابی حاصل کی ہے ۔ اس سلسلے میں ایک جدّت سن ۲۰۰۶ء میں اس وقت ہمارے سامنے آئی ،جب جناب عرشؔ ہاشمی کو کراچی میں دبستانِ وارثیہ کے دو ردیفی نعتیہ مشاعروں میں شامل ہونے اور ان مشاعروں کے لیے دی گئی ردیفوں میں اپنی نعتیں پڑھنے کا موقع ملا۔یہ نعتیں انہوں نے اسلام آباد کے مشاعروں میں بھی سنائیں ،جن میں سے ایک کی ردیف ’’تابانیاں‘‘ اور دوسرے کی ردیف ’’کیف آفریں‘‘تھی اور ساتھ ہی دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان کا تفصیلی تعارف بھی کرایا ۔کسی بھی نئی چیز کو فی الفور مسترد کرنے کی انسانی جبلّت نے مجھے بھی اس جدّت کو رد کرنے پر اکسایا ،لیکن ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ اگر یہ سلسلہ نہ ہوتا تو شاید عرشؔ صاحب کبھی ان ردیفوں کواستعمال کرکے ایسی منفرد نعتیں نہ کہتے ۔اس خیال نے اختلافی قلعے میں ایک بڑی دراڑ ڈال دی ۔ مزید غور وخوض کرنے پراس سلسلے کے کئی مفید پہلو مجھ پر اجاگر ہوئے ، جنھوں نے اس اختلافی قلعے کو بالکل ہی ڈھا دیا ۔ یہ پہلو کچھ یوں تھے ،(۱) مشاعرے کی ردیف نئی منفرد اور شگفتہ ہونے کی وجہ سے تقریباً تمام شاعر نئی نعت کہہ کر لاتے ہیں (۲)بحر اور قافیے کی آزادی میسر ہونے کی وجہ سے طرحی مشاعرے کی اکتا دینے والی یکسانیت نہیں ہوتی (۳) ردیف کا لفظ صفت یااسم ہونے کی وجہ سے وسیع طور پرایک موضوع کا تعین کردیتا ہے ، اس طرح محفلِ مشاعرہ ایک موضوعاتی محفل بن جاتی ہے جس میں موضوع کے تقریباً تمام پہلوؤں کااحاطہ ہوجاتا ہے (۴) ردیف اگر یگانہ ہوتو اسے نباہنے کے لیے شاعر کواپنی شعری توانائی اور فکری صلاحیتوں کوپورے طور پر بروئے کار لانا پڑتا ہے ۔ اس طرح فن کو مہمیز ملتی ہے اور اس پر نکھار آتا ہے (۵) ردیف کا تعین بہت پہلے ہوجانے کے سبب نعت کہنے کے لیے ایک مناسب مدت مل جاتی ہے (۶) ردیفی مشاعرہ ایک نئی طرز کا ہونے کے باعث لوگوں کی دلچسپی کا محور ہوتا ہے۔

میں اس بات کا قائل ہوں کہ تمام بڑے کاموں کے پیچھے ایک سودائی ہوتا ہے جواپنے جیسے دوسرے سودائیوں کوتلاش کرلیتا ہے اور پھر اپنے تن من دھن کی پوری توانا ئیوں کے ساتھ اس کام کے پیچھے لگا رہتا ہے۔میں نے اس دیوانے کانام پوچھا جو بکارِ خویش بہت ہوشیار لگ رہا تھا تو مجھے پتہ چلا کہ یہ سلسلہ جناب قمرؔ وارثی کی کاوشوں سے چل رہا ہے جوخود بھی نہایت اعلیٰ درجے کے شاعر ہیں ۔ گزشتہ اٹھارہ برس سے جاری اس سلسلے کے اثرات ملک کی دینی شاعری پر نمایاں طور سے مرتب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ نعت کے ایک شاعر کی حیثیت سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ دبستانِ وارثیہ کے ردیفی نعتیہ مشاعروں کا سلسلہ پاکستان اور بیرونِ پاکستان معیاری نعتیہ اور حمدیہ شاعری کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔‘‘

تین سو باون (۳۵۲) صفحات پر مشتمل اس نعتیہ انتخاب میں ایک سو ستا نوے (۱۹۷) شعراء کی چھ سو چار (۶۰۴) نعتیں موجود ہیں جو آن بان ،مبارک ،نزول ،قابل ،گفتگو ،رابطہ ،الہام ،کائنات ، صدا، جھلک ،خزینہ ،عروج ،دلکشی ،تصور اور راحتیں جیسی منفرد اور شگفتہ ردیفوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کہی گئی ہیں ۔

گلشنِ جو دو کرم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری ۲۰۱۲ء سے دسمبر ۲۰۱۲ء تک ایک ذیلی اور پندرہ (۱۵) طے شدہ ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پیش کیے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل انیسواں نعتیہ مجموعہ ہے جس کااجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے الحاج صوفی شاہ محمد کمال میاں جمیلی سلطانی (سجاد ہ نشین دربارِ سلطانی مرکزِ روحانی ) نے اپنے مضمون ’’گلشنِ جودو کرم ‘‘ میں تحریر فرمایا ہے :

’’ عربی اور فارسی ،عالمِ اسلام کی ابتدا ئی زبانیں رہی ہیں،پھر جدال وجہاد کے نتیجے میں اور کفار کے قبولِ اسلام اوراسلامی مملکت کی وسعتوں کے باعث نئی زبانیں بھی خزینۂ نعت سے مالا مال ہونے لگیں۔ اردو زبان ابتداء ہی سے اس سعادت سے بہرہ مند ہے اور گزشتہ ایک ہزار برس میں بہترین ارتقائی منازل کے ساتھ اردو زبان اور نعت کا سفر جاری رہا ہے ۔ ہر چند کہ قدیم اور متوسط دور کے اردو شعراء کے یہاں بھی نعت کے بڑے اچھے کلام موجود ہیں لیکن گزشتہ دو تین دہائیوں سے جو نعت کہی جارہی ہے اس کا آہنگ کچھ مختلف ہی نہیں بلکہ نعت کی ان خصوصیات کی جانب اشارہ کرتا ہے جنھیں نعت کا تقاضا کہنا چاہیے ۔ اس حوالے سے بعض اردو شعراء اور فروغِ حمدو نعت کے جذبے کے تحت کام کرنے والے کچھ ادارے بھی اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب نظرآتے ہیں ۔اس سلسلے میں خلوصِ دل اور خلوصِ نیت سے کام کرنے والے اداروں کا جائزہ لیاجائے تو دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان کانام بھی سرِ فہرست نظرآتا ہے۔ اکثر احباب اس بات سے واقف ہوں گے کہ دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان ‘نعت کے فروغ میں ردیفی نعتیہ مشاعروں کے حوالے سے نئی جہت کابانی ہے ۔ یعنی طرحی مشاعرے جو صرف ردیف کی پابندی کے ساتھ منعقد ہوتے ہیں قوافی اور بحور شعراء کے ذمے ۔ان مشاعروں کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ ایک سال میں کم وبیش سترہ اٹھارہ تک ردیفی نعتیہ مشاعرے منعقد ہوتے رہے ، صرف کراچی ہی میں نہیں بلکہ پاکستان کے کم ازکم تین صوبوں اورصرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ہی میں نہیں ، بیرونِ ملک خصوصاً مملکتِ اسلامی سعودیہ میں بھی سالانہ ردیفی نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوتا ہے ۔ یہ تو دبستانِ وارثیہ کے ردیفی نعتیہ مشاعروں کااجمالی ذکر ہوا، لیکن اس سے بڑھ کر جو کارنامہ اس ادارے کاہے وہ مستقل مزاجی کے ساتھ سال بھر منعقد ہونے والے ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پڑھی جانے والی نعتوں پر مشتمل سال بہ سال مجموعوں کی اشاعت بھی ہے ۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ دبستانِ وارثیہ کی ان تمام مساعئ جلیلہ وجمیلہ کے پردے میں پُرخلوص اورپُر وقار شخصیت ،عاشقِ رسولصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اور معروف شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہ فضلِ باری تعالیٰ اور بہ اذنِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہرسال عمرے کی سعادت سے مستفید ہونے والے ،جناب ارشاد حسین قمرؔ وارثی ،جوبذاتِ خود اپنی ذات میں ایک بھرپور انجمن ہیں ، مزید یہ کہ ان کے فرزندِ دلبند جناب امداد حسین سحرؔ وارثی بھی بہترین نعتیہ شاعری کے ذریعے دبستانِ وارثیہ کے مشاغل میں اپنے والد کے بھرپور معاون ہیں‘‘ ۔ اللہ اپنی حفظ وامان میں رکھے ،آمین تین سو باون (۳۵۲) صفحات پر مشتمل اس نعتیہ مجموعے میں دوسو پچیس (۲۲۵) شعراء کی چھ سو چوّن (۶۵۴)نعتیں شامل ہیں جنھیں جودو کرم ، محفل، سعادت ،بالخصوص ،انتخاب ،ضوفشاں ، حضوری ،رشتے ،کامل ،کلام ،مزیّن ،حسیں ، گلشن ،احاطہ اور خلوص جیسی خوبصورت ردیفوں سے مزّین کیا گیا ہے ۔

نورانی حقیقت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری ۲۰۱۳ء سے دسمبر ۲۰۱۳ء تک ، پندرہ طے شدہ اور ایک ذیلی ردیفی نعتیہ مشاعروں میں پڑھے جانے والے نعتیہ کلام پر مشتمل بیسواں نعتیہ مجموعہ ہے ۔اس مجموعے کے حوالے سے پروفیسر انوار احمد زئی ( چیئر مین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کراچی )اپنے پُر مغز مضمون ’’ فروغِ نعت کی نورانی حقیقت‘‘ میں رقمطراز ہیں :

’’میرے نزدیک نعت گو شاعر تعمیلِ حکمِ ربِّ کائنات کی منزلوں میں ہوتا ہے۔ جس ہست�ئ بے مثال کاذکر بلند ہوچکا ،اس کاذکر کرنا ،اُن ہی بلندیوں کا پتہ لگانا ہے اور قابَ قوسین کی رفعتوں کو اپنی بشری محدودات اور فکری مسدودات کے امکان کے باوصف استحسانِ مقامِ محمود کی مسلسل اور مقدور بھرپور کوششیں کرتے رہنے کا دوسرا نام ہے ۔ ایک زمانے تک نعت اور مدح کو الگ الگ معنوں میں استعمال کیاجاتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ عرصۂ دراز تک نعت کو قدیم عربی اصطلاح میں حلیہ بیان کرنے کوکہا جاتا رہا ، اس لیے نعت گو کو نا عت اور وصف نگار کو وصّاف کہتے تھے مگر جب سے نعت کو حضورِ انورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے نسبت ہوئی ،یہ سراپا ثنائے خواجہ ؐ کے مرادف ہوگئی ۔اسی لیے نعت دراصل کائنات کو سمجھنے کاذریعہ بھی ہے ۔ اس حوالے سے جو سخن گسترانہ بات صورتِ مقطع آن پڑی ہے وہ ہیئت سے زیادہ متن پر محیط ہے ۔ دبستانِ وارثیہ کے سلسلۂ بے بدل کے ایک مشاعرے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے غزل کی ہیئت میں نعتیں کہے جانے پر اپنی وقیع رائے کااظہار کیا تھا جس کا مسکت جواب محترم عاصی ؔ کرنالی دے چکے ہیں ، تاہم یہاں بات ہیئت سے زیادہ نفسِ مضمون کی ہے ۔ جس طرح قدیم اصطلاح میں نعت ،وصف اور مدح میں امتیاز تھا ، اسی طرح بعد میں نعت کے تعلق سے جو بات تسلیم کی جا چکی ہے وہ کا ملتاً اور خالصتاً وصفِ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا بیان اور شانِ رسالت مآب کے اظہار کی مقدوربھر کاوش ہے ۔مگر نعت کے سر نامے کے تحت کہیں کہیں وارداتِ قلبی، محاکات ، کیفیات اور دلی جذبات و محسوسات کااظہار بھی کیا جاتا ہے ، اسے مراد ی اعتبار سے ہی نعت سمجھنا مناسب ہوگا ۔ اس نزاکت کو سمجھنے کے لیے میرے نزدیک قمرؔ وارثی اوران کے قابلِ قدر ،قابلِ فخر اور قابلِ رشک ساتھیوں کی اس تنظیم سے استفادہ کی ضرورت ہے جسے دبستانِ وارثیہ فاؤنڈیشن کانام دیا گیا ہے اور اس تنظیم نے بیس سال سے مسلسل ایک ایسی پُر شکوہ فکری عمارت تخلیق کی ہوئی ہے ، جس کے دروبام سے حمد ونعت کی روح پرور صدائیں اور ایمان افروز خوشبو ئیں مشامِ جاں کو معطر ومعنبر کیے جارہی ہیں۔ یہ کام دیوانوں ہی سے ہوسکتا ہے ، فرزانے اس مقامِ فنا سے دور رہ کر ساحل سے تماشا کیا کرتے ہیں ۔ اس شان سے ، التزام سے ، اہتمام سے اوراحترام سے حمدیہ ونعتیہ مشاعروں کاانعقاد بغیر عشق کی چنگاری کے ،وارفتگی کے نور اور آگہی وشعور کے ممکن ہی نہیں ہے ۔تسلسل اور تواتر کے علاوہ ندرت اور خلاق�ئ جہت کوبھی ملحوظِ خاطر رکھا جانا قدرِ بالا کا متقاضی ہے جس کا حوالہ یہ ہے کہ یہ نعتیہ مشاعرے طرحی بھی ہیں اور نہیں بھی ہیں ۔ نہیں اس لیے کہ اس میں مصرع طرح کی بجائے صرف ردیف کی پابندی ہوتی ہے ۔ بحور ، قوافی،اسالیب اور انداز کی مکمل آزادی شاعر کے طائرِ فکر کو وسیع جو لا نگا ہ نیز آفاق ہائے دگر سے نوازتی ہے اور طرحی اس لیے کہ یہ انداز بجائے خود طرحِ نَو، طرحِ جدا اور طرحِ بے طرح سے عبارت ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب مشاعروں کا مزاج ، ماحول ،مقصود اور مطلوب ،آج کے اِلاّ ماشاء اللہ مشاعروں سے بالکل جدا ، بہت اعلیٰ ،حقیقی طور پر ارفع اور مقصد یت کے اعتبار سے استحسانی ،انتقادی اور بڑی حد تک نَو وارد انِ عالم امکاں اور طالبانِ دنیائے ادب کے لیے اساسی اور نصابی ہوتا تھا ۔اب جبکہ نہ وہ عشاقِ ادب رہے ، نہ وہ شمع فکر و فہم کے پروانے ۔اس کے باوجود اس کشا کش، ابتلا اور بے ادبی کی فضا میں برادرِ مکرم ومحترم قمرؔ وارثی ، نے چراغِ علم و حکمت جَلا رکھا ہے اور شمعِ رسالت کے پروانوں کو جِلا رکھا ہے ۔‘‘ تین سو اڑسٹھ ( ۳۶۸) صفحات پرمشتمل اس نعتیہ مجموعے میں دوسو چار (۲۰۴) شعراء کی چھ سو ایک (۶۰۱) نعتیں شامل ہیں جو شیر وشکر ، غلامی ،اصول ،محور ،مطمئن ،قرینہ ،مثالی ،سُکوں ،آ ہٹیں، گلاب، نورانی ، حقیقت ،زمیں ،حرف ونو ااورعیاں جیسی خوبصورت اور شگفتہ ردیفوں سے سجائی گئی ہیں۔

خاص بات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان کی تیسری نعتیہ پیشکش ’’آب وتابِ رنگ ونور‘‘ کی اشاعت میں شامل پروفیسر آفاق صدیقی مرحوم نے اپنے مضمون ’’ جلوہ بہ جلوہ آب وتاب‘‘ میں تحریر کیا تھا کہ :

’’ردیفوں کے حوالے سے نعتیہ مشاعروں کے ساتھ ساتھ دبستانِ وارثیہ کے زیر اہتمام باقاعدگی سے حمدیہ مشاعروں کاانعقاد بھی ہونا چا ہیے ۔ سال میں اگر تین مشاعرے بھی ایسے ہوجائیں تو حمدِ ربِّ جلیل پر مشتمل مجموعہ بھی آسانی سے مرتب ہوسکتا ہے ۔‘‘

اراکینِ دبستانِ وارثیہ نے پروفیسر آفاق صدیقی مرحوم کے اس پُر خلوص مشورے پر سنجیدگی سے غور کیا ،مگر اس سے پہلے کہ حمد یہ مشاعروں کا الگ اہتمام کیا جاتا ، اللہ ربّ العزّت نے ردیفوں کے حوالے سے منعقد ہونے والے نعتیہ مشاعروں ہی میں اس کمی کو اس طرح پورا فرما دیا کہ نعت کے لیے دی جانے والی ردیف کے ہر مشاعرے میں چند شعراء حضرات ازخود اسی ردیف میں حمد بھی کہنے لگے ۔ اس سلسلے میں بنیادی کردار ممتاز شاعر سجاد سخنؔ مرحوم نے اس وقت ادا کیا جب انہوں نے ۱۹۹۴ء میں چھٹے نعتیہ مشاعرے کے موقع پر ’’ کرن‘‘ کی ردیف میں چار حمدیہ قطعات پیش کیے ۔اس پیش کش کاسب سے پہلے جن شعرا ء نے اثر قبول کیا ، ان میں شفیق الدین شارق مرحوم ، عارف منصور ؔ ،عزیز الدین معینی اور راقم الحروف شامل ہیں ۔ ایک تسلسل کے ساتھ اس سلسلے کا رجحان بڑھنے کے باعث فیصلہ کیاگیا کہ ہر نعتیہ مشاعرے میں پڑھی جانے والی ردیفی حمدوں کو الگ محفوظ کیا جائے اور ہرسال نعتیہ انتخاب کی اشاعت کے ساتھ ساتھ ہر پانچ سال بعد ردیفی حمدیہ انتخاب کی اشاعت کوبھی عملی شکل دی جائے ۔ پانچ سال کے اختتام پر نعت کے لیے دی جانے والی ردیفوں کا ایک چارٹ تیار کیا گیا جس کے تحت انہی ردیفوں پر شعراء کرام کو حمد کہنے کی دعوت دی گئی ۔ یہ انتہائی خوش آئندبات ہے کہ بیشتر شعراء حضرات نے اس پیشکش کو اس قدر قابلِ ذکر حد تک قبول کیا کہ تین سو سے زائد حمدوں پر مشتمل پہلا ردیفی حمدیہ انتخاب ’’ مالکِ ارض وسما ء‘‘ کے نام سے جولائی ۱۹۹۹ء میں شائع کیا گیا ۔اس طرح بیس سال میں چار ردیفی حمدیہ انتخاب (۱) مالکِ ارض وسماء (۲) ربِّ خیرالبشر (۳) قادر وقیوم ذات(۴) عرفانِ ربِّ کائنات شائع کیے گئے۔ یہ ردیفی حمدیہ انتخاب کئی اعتبار سے اہمیت وانفرادیت کے حامل ہیں ۔ اوّل یہ کہ ان حمد یہ مجموعوں میں شامل تمام حمدیں نعت کے لیے دی جانے والی ردیفوں پر کہی گئی ہیں، دوئم یہ کہ ان حمدیہ مجموعوں کو عام حمدیہ انتخاب کی طرح مختلف زبانوں کے شعراء کی ایک ایک حمد لے کر مرتب نہیں کیا گیا بلکہ یہ موجودہ دور کے شعراء کی ایسی حمدوں پر مشتمل ہیں جنھیں خاص اہتمام کے ساتھ تخلیق کیاگیا ہے اور سو ئم یہ کہ ان حمدیہ مجموعوں میں کہنہ مشق بزرگ شعراء کرام، حمد ونعت کے حوالے سے عصرِ حاضر کے معروف شعراء اور بالخصوص نئی نسل کے نوجوان شعرا ء کا تازہ کاری سے مزیّن حمدیہ کلام شامل ہے ۔ا س طرح یہ اندازہ بھی آسانی سے کیا جاسکتا ہے کہ حمد گوئی کے باب میں دورِ حاضر کے شعرا ء کا فکری رجحان کیاہے ۔ دبستانِ وارثیہ کے زیرِاہتمام اب تک شائع ہونے والے چاروں حمدیہ مجموعوں کااجمالی خاکہ پیشِ خدمت ہے ۔

مالکِ ارض وسماء[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جولائی ۱۹۹۴ء سے دسمبر ۱۹۹۸ء تک نعت کے لیے دی جانے والی ردیفوں پر منعقدہ مشاعروں میں پڑھی جانے والی حمدوں پر مشتمل پہلا حمدیہ انتخاب ہے ۔اس حمدیہ انتخاب کے پیش لفظ میں نوا بزادہ افتخار احمد عدنی مرحوم ’’لقائے خالقِ دوسرا‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے :

’’شاعر کو شاعر کا وجدان عرفانِ حق کی راہ دکھاتا ہے لیکن اس کے لیے چند شرائط ہیں ۔سب سے پہلی شرط تویہ ہے کہ وہ واقعی شاعر ہو،صرف قافیہ پیمائی کے زور پر انحصار نہ کرتا ہو، دوسرے یہ کہ وہ اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کوکسی تحریک یا جماعت کے اہداف کے حصول کے لیے یا معاشرے کے روحانی استحصال کی خاطر یاکسی ذاتی منفعت کی غرض سے استعمال نہ کرے ۔بحمداللہ دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان کے مشاعروں میں شرکت کرنے والے شعراء صرف اخلاص کی بِنا پر اپنا ہدیۂ عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ اس لیے بارگاہِ رسالتصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے نعت کے گلدستے پیش کرنے والے شعراء کوحمدِ باری تعالیٰ کی طرف متوجہ کردیا اور حمدیہ مشاعروں کے خصوصی اہتمام کے بغیر ہی نعت کی ردیفوں میں خود بہ خود حمد کہنے کا اشتیاق ظہور پذیر ہوا، اور اتنی حمدیں ہوگئیں کہ ان کی اشاعت کے لیے ’’ مالکِ ارض وسماء‘‘ کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب شائع کی گئی ہے ۔‘‘

تین سو باون (۳۵۲) صفحات پر مشتمل اس حمدیہ انتخاب میں چونتیس (۳۴) شعراء حضرات کی تین سو (۳۰۰) حمدیں شامل ہیں جو ساٹھ(۶۰) مختلف ردیفوں میں کہی گئی ہیں ۔

ربِّ خیر البشر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری ۱۹۹۹ء سے دسمبر ۲۰۰۳ء تک نعت کے لیے دی جانے والی ساٹھ (۶۰) مختلف ردیفوں پر منعقد ہ مشاعروں میں پڑھی جانے والی حمدوں پر مشتمل دوسرا حمدیہ انتخاب ہے ۔ممتاز قلم کار اختر حامد خاں مرحوم نے اس کتاب میں شامل اپنے مضمون ’’اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن‘‘ میں لکھا ہے :

’’اسلامی تہذیب خاصی پرانی ہے ،خیر سے ۱۴۰۰ سال پرانی ، اس عرصے میں اس میں بڑی بڑی تبدیلیاں آئیں شروع کا معاشرہ تقریباً تیس سال، سادہ تھا ۔ قرآن اوراسوۂ حسنہ کا پابند ،پھر خانہ جنگی ہوئی اور فتنہ وفساد ،اس کے بعد اموی وعباسی آمریت اور بادشاہت کادور ۔اصحابؓ کے زمانے میں ۱۰۱ ھ تک حمد اورسلام کی الگ محفلیں نہیں تھیں ،وہ لوگ نماز ، روزے ،حج ، زکوٰۃ اورجہاد کوہی دین سمجھتے تھے ۔تمام عبادات اور معالات میں ان کے لیے رسولِ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم مقبول کا طریقہ (اسوۂ حسنہ) کافی تھا ۔ بعد میں جب تہذیب وتمدن میں نئے اثرات سے معاشرے میں مختلف قسم کے تکلفات درآ ئے ،جیسے محفلِ نعت، میلاد شریف ،ماتم ، مرثیے ،نذرو نیاز ،قبر پرستی اور عرس وغیرہ تو ہمارے ہندی معاشرے میں شعرو شاعری ،قوالی جیسی تقا ریب مقبول ہوئیں۔ بھائی قمرؔ وارثی اوران کاادارہ ’’دبستانِ وارثیہ ‘‘ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ وہ بڑے اہتمام سے نہ صرف حمدو نعت کی محفل سجاتے ہیں بلکہ شعراء کاقابلِ قدر کلام شائع بھی کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے قمروارثی نے اپنی نئی ترتیب ’’ربِّ خیر البشر ‘‘ میں شامل حمدیں مجھے پڑھنے کو دیتے ہوئے کچھ لکھنے کے لیے بھی کہا ۔ ان حمدوں کو میں نے غور سے پڑھا ۔مجھے بہت سے اشعار اچھے اور کچھ بہت اچھے لگے ۔ میری دعا ہے کہ قمروارثی اوران کے ادارے ’’دبستانِ وارثیہ ‘‘ کواللہ پاک پہلے سے زیادہ ادب اور دین کی خدمت کی صلاحیت عنایت فرمائے ،آمین ‘‘

تین سو بارہ(۳۱۲) صفحات پر مشتمل اس حمدیہ انتخاب میں باون (۵۲) شعراء کی چارسو بارہ (۴۱۲) حمدیں شامل ہیں جودوسرے پانچ سال میں دی گئی ساٹھ مختلف ردیفوں کے اہتمام سے تخلیقی عمل کاحصہ بنی ہیں ۔

قادر وقیوم ذات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری ۲۰۰۴ء سے دسمبر ۲۰۰۸ ء تک نعت کے لیے دی جانے والی ساٹھ سے زائد ردیفوں پر منعقدہ مشاعروں میں پیش کی جانے والی ردیفی حمدوں پر مشتمل تیسرا حمدیہ مجموعہ ہے ۔اس مجموعے میں شامل حمدوں کا جائزہ لیتے ہوئے معروف شاعر ادیب جناب عارف منصورؔ نے اپنے مضمون ’’منظوم عبادت‘‘ میں تحریر کیاہے :

’’فنونِ لطیفہ میں شاعری وہ فن ہے جس پر انسانی حسیات کو چھیڑنے اور انسانوں میں اعلیٰ انسانی اقدار کو فروغ دینے کا فرض عا ئد ہوتا ہے اور شاعری میں حمد ونعت وہ بنیادی موضوع ہیں جو ابتداء ہی سے انسان کواپنے خالق سے قربت عطا کرنے کاسبب بنتے ہیں ۔حمد کے لیے عجز و انکساری ،کم مائیگی ،کج فہمی اور ناقص عقلی وبیا نیہ صلاحیتوں کااعتراف بہت ضروری ہے ۔ یہی وہ بنیادی اجزاء ہیں جوانسان کواللہ کی تعریف کے بعد مناجات پر مائل کرتے ہیں اور انسان اپنے روحانی سفر پر روانہ ہوکر سکونِ قلب اورا طمینان کی نئی منزلوں سے آشنائی حاصل کرتا ہے ۔اردو شاعری کا دامن حمد ونعت سے مالا مال ہے ، چاہے ابتدائی دکنی مثنویاں لے لیں یا بعد میں غزلیہ انداز میں ربِّ کریم کاذکر ، ہردور میں شعراء نے اپنے رب کے حضور نذرانۂ عبودیت خوبصورت اشعار کے روپ میں پیش کیاہے ۔ ہر طرف سے دوسری شاعری کے ساتھ ساتھ حمدو نعت کے حوالے سے بھی قابلِ قدر کام سامنے آرہا ہے ۔ایسے ہی قابلِ قدر کام کے امین دبستانِ وارثیہ کے جناب قمرؔ وارثی ہیں جن کی کاوشوں سے زیرِ نظر کتاب ’’قادر وقیوم ذات ‘‘حمدیہ گلدستوں کی روایت کوآگے بڑھا نے کی سعئ مشکور کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ایک محتاط انداز کے مطابق اس میں پچاس سے زائد شعراء کاحمدیہ کلام جگہ پاسکا ہے جن کے حمدیہ کلام میں روانی اور عام فہم لہجہ ہونے کے علاوہ قرآنی احکامات اوراحا دیث کے حوالے کثرت سے بیان کیے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ حمدیہ گلدستہ قابلِ تحسین ہے اور دبستانِ وارثیہ کے اراکین عام طور پراور جناب قمرؔ وارثی خاص طور پراس کی اشاعت پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی کوششوں کو قبول کرے اورآئندہ ایسی جدوجہد کے لیے حوصلہ اور وسائل عطا کرے ،آمین ۔‘‘ تین سو اٹھائیس (۳۲۸) صفحات پر مشتمل اس حمدیہ گلدستے میں تریسٹھ (۶۳) شعراء کی پانچ سو (۵۰۰) حمدیں شامل ہیں جو تیسرے پانچ سال میں دی گئی ساٹھ سے زیادہ ردیفوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کہی گئی ہیں ۔

عرفانِ ربِّ کائنات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ جنوری ۲۰۰۹ء سے دسمبر ۲۰۱۳ء تک نعت کے لیے دی جانے والی پچھتّر (۷۵) ردیفوں پر منعقدہ مشاعروں میں پڑھی جانے والی ردیفی حمدوں پر مشتمل چوتھا حمدیہ انتخاب ہے ۔ ڈاکٹر عزیز احسن نے اس مجموعے میں شریک تمام حمد گو شعراء کے کلام کا فرداً فرداً جائزہ لیتے ہوئے اوران کے کلام سے خوبصورت اشعار کاانتخاب پیش کرتے ہوئے اپنے مضمون ’’عرفانِ ربِّ کائنات میں تحریر کیا ہے :

’ ’ د بستا نِ وارثیہ کراچی پاکستان کی طرف سے پچھلے پانچ برسوں میں پچھتر (۷۵) ردیفیں مقرر کی گئی تھیں ۔ ان تمام ردیفوں کااطلاق نعت پر ہوتا ہے ، لیکن کچھ شعراء نے انہی ردیفوں میں’’ حمدیہ شاعری‘‘بھی کی ہے ۔اسی لیے چوتھی پنج سالہ مدت کی تکمیل پر اب تک ردیفی حمدیہ مجموعوں کی تعداد چوتھے نمبر تک پہنچ گئی ہے ۔واضح کردوں کہ قمرؔ وارثی کے حکم کی تعمیل میں ،میں نے ’’عرفانِ ربِّ کائنات‘‘ کے مسودے کابڑی عجلت میں مطالعہ کیا ہے ۔حمدونعت کے مطالعات میں میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ کچھ نہ کچھ نئے زاویے اور کچھ نہ کچھ تنقیدی نکات پیش کروں ۔ گوکہ وہ زاویے اور نکات صرف شعرِ عقیدت کے ضمن میں نئے لگتے ہیں ،عام ادبی تنقید میں شعری پرکھ کے بہت سے نئے زاویے اور تنقیدی نکات پہلے ہی رواج پا چکے ہیں۔شعراء جب حمدیہ شاعری کرتے ہیں تو ان کے سامنے اگر اپنے مسائل ہوں تووہ دعا ،یا مناجات کا انداز اپناتے ہیں۔ اگر کائنات کی تخلیق کے حوالے سے خالق کی عظمتوں کی طرف دھیان جائے تو اشیائے کائنات کے جزوی ذکر کے ساتھ خالق کی عظمت کااعتراف شعروں میں ڈھل جاتا ہے اوراگر خالق کی طرف سے مخلوق کو ملنے والی نعمتوں پر شکر کرنے کا جذبہ غالب ہوتو جذباتِ تشکر شعری متن میں ڈھلتے ہیں۔آفاق کی طرف توجہ کرنے سے مادِّی اشیاء کی تخلیق کاذکر کیاجاتا ہے اور انفس کی سیر کرتے ہوئے شاعر اپنی ذات میں جھانک کر خالق کی موجود گی کاادراک کرتا ہے ۔ اس طرح شا عری میں صوفیا نہ جذبے وسرشاری کے عوامل داخل ہوجاتے ہیں ۔

کسی بھی مشاعرے میں شریک ہونے والے شعراء کا معیارِ سخن اور مبلغ علم کبھی یکساں نہیں ہوتا، اس لیے جب مشاعروں میں شریک شعراء کی اجتماعی کاوشوں کو منظرِ عام پر لانے کا خیال آتا ہے تو اچھے اور کم اچھے اشعار مجموعے میں شامل کرنے پڑتے ہیں ۔ اس لیے دبستانِ وارثیہ کے کار پردازوں کی طرف سے ’’عرفانِ ربِّ کائنات ‘‘ کی پیشکش کو ’’انتخاب ‘‘ کی حیثیت سے نہیں ، بلکہ مشاعروں میں شریک شعراء کی لازمی نمائندگی کی ضرورت کے طور پر دیکھا جائے ۔میں نے البتہ جوانتخاب اپنے مضمون میں پیش کیا ہے اس کے معیار کے حوالے سے میں ایک حد تک مطمئن ہوں اور اتنا کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں کہ چوتھی پنج سالہ مدت پوری ہونے پر ’’دبستانِ وارثیہ‘‘ کاجو مجموعہ منصۂ شہود پرآ رہا ہے ،اس کا بیشتر کلام شعری اور شرعی معیار پر پورا اترتا ہے ۔‘‘

تین سو چھیتر (۳۷۶) صفحات پر مشتمل اس مجموعۂ حمد میں باسٹھ (۶۲) شعراء کی پانچ سونو (۵۰۹) حمدیں شامل ہیں جو چوتھے پانچ سال میں دی گئی پچھتّر میں سے چھیا سٹھ (۶۶)ردیفوں سے سجائی گئی ہیں ۔

دبستانِ وارثیہ کراچی پاکستان کی بیس سالہ کار کردگی ایک نظر میں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۹۹۴ء سے ۲۰۱۳ء تک بیس سال میں کُل ردیفیں دی گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۷۱

۱۹۹۴ء سے ۲۰۱۳ء تک بیس سال میں کل طے شدہ مشاعرے منعقد ہوئے ۔۔۔۔۔۲۷۱

۱۹۹۴ء سے ۲۰۱۳ء تک بیس سال میں کل ذیلی مشاعرے منعقد ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۷۱

۱۹۹۴ء سے ۲۰۱۳ء تک بیس سال کے دوران شریک شعراء کی تعداد ۔۔۔۔۔۔۔۔۷۲۸

۱۹۹۴ء سے ۲۰۱۳ء تک بیس سال میں کل ردیفی حمدیں تخلیق کی گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۱۷۲۱

۱۹۹۴ء سے ۲۰۱۳ء تک بیس سال میں کل ردیفی نعتیں تخلیق کی گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۹۵۴۱

۱۹۹۴ء سے ۲۰۱۳ء تک بیس سال میں کل ردیفی حمدیہ مجموعے شائع کیے گئے ۔۔۔۔۔۔۴

۲۹۹۴ء سے ۲۰۱۳ء تک بیس سال میں کل ردیفی نعتیہ مجموعے شائع کیے گئے ۔۔۔۔۔۲۰

بیس سال میں شائع شدہ ردیفی حمدیہ اور نعتیہ کتب کی تفصیل ایک نظر میں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نمبرشمار, کتاب کا نام, موضوع, سنِ اشاعت ,صفحات, ہدیہ

۱)۔ مالکِ ارض وسماء، حمد، ۱۹۹۹ء، ۳۵۲، ،۱۹۰/روپے

۲)۔ ربِّ خیرالبشر، حم، ۲۰۰۴ء، ۳۱۲، ۲۲۰/روپے

۳)۔ قادر وقیوم ذات، حمد، ۲۰۰۹ء، ۳۲۸، ۳۰۰/روپے

۴)۔ عرفانِ ربِّ کائنات، حمد، ۲۰۱۴ء، ۳۷۶، ۳۵۰/روپے

۵)۔ خوشبو سے آسماں تک، نعت ، ۱۹۹۵ء، ۲۵۶، ۹۰/روپے

۶)۔ جلوے حیات آراستہ، نعت، ۱۹۹۶ء، ۲۸۸، ۱۲۰/روپے

۷)۔ آب وتابِ رنگ ونور، نعت، ۱۹۹۷ء، ۳۰۴، ۱۴۰/روپے

۸)۔ جمال اندر جمال، نعت، ۱۹۹۸ء، ۳۰۴، ۱۵۰/روپے

۹)۔ مہکا مہکا حرف حرف، نعت، ۱۹۹۹ء، ۳۲۰، ۱۸۰/روپے

۱۰)۔ روشن گلیاں جھلمل کوچے، نعت ، ۲۰۰۰ء، ۳۵۲، ۲۰۰/روپے

۱۱)۔ کرم عطا شرف نصیب، نعت، ۲۰۰۱ء، ۳۵۲، ۲۲۰/روپے

۱۲)۔ وابستگی، نعت، ۲۰۰۲ء، ۳۰۴، ۲۲۰/روپے

۱۳)۔ رفعتیں، نعت، ۲۰۰۳ء، ۳۳۶، ۳۴۰/روپے

۱۴)۔ منزلِ آگہی، نعت، ۲۰۰۴ء، ۲۵۶، ۲۰۰/روپے

۱۵)۔ تجلّیاں، نعت ، ۲۰۰۵ء، ۳۶۸، ۲۵۰/روپے

۱۶)۔ آپؐ سراپا نور، نعت ، ۲۰۰۶ء، ۴۶۴، ۲۶۰/روپے

۱۷)۔ کیف آفریں تابانیاں، نعت، ۲۰۰۷ء، ۴۰۸، ۲۶۰/روپے

۱۸)۔ شگفتہ ہی شگفتہ، نعت ، ۲۰۰۸ء، ۳۳۶، ۳۰۰/روپے

۱۹)۔ سرمایۂ روحانیت، نعت، ۲۰۰۹ء، ۳۳۶، ۳۰۰/روپے

۲۰)۔ مقدس نکہتیں، نعت، ۲۰۱۰ء، ۳۳۶، ۳۰۰/روپے

۲۱)۔ شعورِ بے کراں، نعت، ۲۰۱۱ء، ۴۱۶، ۳۵۰/روپے

۲۲)۔ خزینہ الہام، نعت، ۲۰۱۲ء، ۳۵۲، ۳۰۰/روپے

۲۳)۔ گلشن جودو کرم، نعت، ۲۰۱۳ء، ۳۹۲، ۳۵۰/روپے

۲۴)۔ نورانی حقیقت، نعت، ۲۰۱۴ء، ۳۶۸، ۳۵۰/روپے

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت

نعت رنگ ۔شمارہ نمبر 25 | دبستان وارثیہ


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات
گذشتہ ماہ زیادہ پڑھے جانے والے موضوعات