فرمان فتح پوری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
The printable version is no longer supported and may have rendering errors. Please update your browser bookmarks and please use the default browser print function instead.

Naat Kainaat Farman Fatehpuri.jpg

ان کا خاندانی نام سید دلدار علی تھا۔ وہ 26 جنوری 1926ء کو فتح پور (سہوہ) کے ایک حنفی سید خاندان میں پیدا ہوئے۔

حالات زندگی

ان کے بچپن میں سہوہ میں ہیضہ پھیلا تو ان کے بڑے بھائی اس مرض میں انتقال کر گئے ان کے والد یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے اور اسی غم میں فوت ہو گئے۔اس وقت ان کی عمر سات سال تھی ابتدائی تعلیم نواحی گاﺅں کے ایک مدرسے میں حاصل کی جہاں پڑھنے کیلئے سائیکل پر جاتے تو ان کا چچا زاد بھائی فرمان علی ان کے ساتھ ہوتا۔ ایک دن فرمان علی کو بخار نے دبوچ لیا تو سید دلدار علی اکیلے سکول گئے وہیں خبر ملی کہ فرمان علی جن سے انہیں گہری انسیت تھی تھی فوت ہو گئے ہیں۔ ان کی موت کا صدمہ اتنا گہرا تھا کہ دلدار علی نے فرمان کو اپنے نام کا حصہ بنا لیا۔

مڈل کے درجے میں ہی انہیں کتابیں پڑھنے کی لگن لگ گئی اور لکھنے کا شوق پیدا ہوگیا تھا چنانچہ انہوں نے اپنا پورا قلمی نام ” سید دلدار علی فرمان فتح پوری“ اختیار کیا جو بعد میں صرف فتح پوری رہ گیا ۔ گویا اصل نام دفتری کاغذوں میں دفن ہو گیا نسبتی نام زندہ رہا اسی کو قبولِ عام حاصل ہوا۔

فرمان صاحب کے والد نوجوانی میں پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہوئے اور سب انسپکٹر کی حیثیت میں ریٹائر ہو گئے۔ حنفی نے سادات خاندان کا فرد ہونے کی وجہ سے دیانتداری اور فرض شناسی کو ہمیشہ محلوظ خاطر رکھا۔ عام لوگوں کی نظر میں امیر تھے لیکن اپنی متوسط الحالی میں اس بھرم کو ٹوٹنے نہ دیا۔

والد کی وفات کے بعد حالات دگرگوں ہو گئے۔ ماں نے گھر کو خوبصورتی سے سنبھالا اور بچوں کی پرورش اعلیٰ قدروں پر کی۔

تعلیم و شاعری

اپنے کنبے کی کفالت کیلئے فرمان صاحب نے میٹرک اوّل درجے میں پاس کرنے کے بعد مسلم ہائی سکول میں ٹیچر کی ملازمت اختیار کر لی۔ اپنے ادبی مزاج کی وجہ سے انہوں نے سکول میں مشاعرے اور تقریری مقابلے کرائے۔ ادبی میگزین جاری کیا اور تحریکِ پاکستان پر نظمیں لکھیں جو دہلی کے اخبارات ” وحدت“ اور ” الامان“ میں چھپتیں اور مسلم لیگ کے جلسوں میں پڑھی جاتی تھیں۔

شاعری کا یہ ذوق عمر بھر ان کے ساتھ رہا لیکن جب تحقیق و تنقید کی طرف آئے تو شاعری پس منظر میں چلی گئی۔

اس دور کا اہم واقعہ یہ ہے کہ فرمان صاحب نے کراچی میں ایک بڑا مشاعرہ کرایا جس کی صدارت کیلئے نیاز فتح پوری کو مدعو کیا۔ ہندوستان سے جوش ملیح آبادی، فراق گورکھ پوری، جعفر علی اثر اور جگر مراد آبادی نے شرکت کی۔ اس مشاعرے نے فرمان فتح پوری کو ادبی، سماجی اور تہذیبی حلقوں میں متعارف کرادیا

پی ایچ ڈی

تدریسی سرگرمیوں کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے تعلیمی سلسلے کو بھی جاری رکھا اور 1958 میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اردو کا امتحان اوّل بدرجہ اول پاس کیا۔اس سے قبل انہوں نے ایل ایل بی اور جی ٹی میں بھی پہلی پوزیشن حاصل کی تھی لیکن فرمان صاحب نے کراچی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ لیکچرار کی ملازمت کو ترجیح دی اور پھر یہیں سے ” اردو میں منظوم داستانیں“ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری 1958 میں حاصل کی۔ کراچی یونیورسٹی سے ڈی بٹ کی پہلی ڈگری حاصل کرنے کااعزاز بھی انہیں کو حاصل ہے۔ ان کی عالمانہ تحقیقی کتاب کا عنوان تھا ”اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری“۔

نعتیہ کلام

نعت کائنات پر مضامین


خدمات

ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے جامعہ کراچی میں تقریباً تیس برس تک خدمات انجام دیں اور شعبہ اردو کے صدر کے عہدے تک پہنچے۔ 1958 میں انہیں اردو ڈکشنری بورڈ کا چیف ایڈیٹر اور سیکرٹری مقرر کیا گیا جہاں انہوں نے اعلیٰ خدمات انجام دیں۔

علمی، ادبی، تحقیقی، تنقیدی، تدریسی اور تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا ایک اور کارنامہ برصغیر کے ممتاز ادبی جریدہ ”نگار“ کی ادارت ہے جو ان کے زمانہ وفات تک کسی نہ کسی صورت میں جاری رہی۔

قائداعظم اور علامہ اقبال کی صد سالہ تقریبات کے موقعوں پر حکومت پاکستان نے ’’ہندی اردو تنازع‘‘ اور’’اقبال سب کے لیے‘‘ جیسی اہم کتابیں لکھوائیں اور شائع کیں۔

تصنیفات

چند مشہور کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں:

”اردو کی منظوم داستانیں“.... ”اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری“.... ”اقبال سب کیلئے“ .... ” رباعی کا فنی اور تاریخی ارتقا“.... ”اردو کی نعتیہ شاعری“.... ” ہندو مسلم تنازعہ، ہندو مسلم سیاست کی روشنی میں“.... ”میر انیس۔ حیات و شاعری“.... ” غالب شاعر امروز رزدا“.... ” اردو افسانہ اور افسانہ نگار“.... ” نیا پرانا ادب“.... ”نیاز فتح پوری دیدہ دشنیدہ“.... ”فن تاریخ گوئی اور اس کی روایت“.... ” قمر زمانی بیگم“.... ”نواب مرزا شوقی کی مثنوہاں“.... ”تحقیق ،تنقید“ .... ”زبان اور اردو زبان“.... ” اردو املا اور رسم الخط“.... ”تاویل و تعمیر“.... ارمغان لوکل پرشاد وغیرہ۔

ان کتابوں کے علاوہ ان کے بہت سے مقالات مختلف ادبی رسائل و جرائد میں پڑے ہیں۔

اعزازت

وفات

ڈاکٹر فرمان فتح پوری 3 اگست 2013 ء کو کراچی میں انتقال کر گئے۔


مزید دیکھیے

آرزو لکھنوی | ابن صفی | پروین شاکر | ثروت حسین | جمیل الدین عالی | جون ایلیا | حفیظ ہوشیار پوری | حمایت علی شاعر | رسا چغتائی | رئیس امروہوی | شان الحق حقی | عزم بہزاد | عقیل عباس جعفری | عنبرین حسیب عنبر | فرمان فتح پوری | کاشف حسین غائر | لیاقت علی عاصم | محسن بھوپالی | نصیر ترابی